ایشیا اور افریقہ کے مختلف حصوں میں ملیریا اور ڈینگی کے بڑھتے ہوئے واقعات کے بعد محققین نے کہا ہے کہ اس بیماری کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ ان جگہوں کو ہدف بنایا جائے جہاں پر مچھر کی افزائش ہوتی ہے تاکہ اس بیماری کو بڑھنے سے روکا جائے۔
ایک نئی رپورٹ کے مطابق محققین نے کہا ہے کہ مختلف دوائوں کے خلاف مچھروں میں مزاحمت بڑھتی جارہی ہے،اس لیے اب ان سے نمٹنے کے لیے مختلف طریقے اختیار کرنے چاہئیں۔ ان میں ایک طریقہ تو یہ ہے کہ کھڑے پانی، جہاں پر مچھر پیدا ہوسکتے ہیں ، کو فوری طور بہا دیا جائے اور دیگر پانیوں میں کیمیکلز شامل کیے جائیں۔ یاد رہے کہ تیسری دنیا کے ممالک میں ملیریا کی بیماری بڑھ رہی ہے اور صرف افریقہ میں 2010 کے دوران چھ لاکھ افراد ملیریا سے ہلاک ہوچکے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گذشتہ عشرے کے دوران ملیریا سے ہلاکتوں کی تعداد میں ایک چوتھائی کمی ہوگئی تھی جس کی ایک وجہ تو مچھر مار ادویات سے ٹریٹ شدہ مچھر دانیوں کی بڑے پیمانے پر تقسیم اور دوسری گھروں میں مچھرمار ادویات کا سپرے تھا۔ لیکن اب سامنے آرہا ہے کہ مچھروں میں ان ادویات کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے چنانچہ لندن سکول آف ہائی جین اینڈ ٹراپیکل میڈیسن کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان جگہوں کو ہدف بنایا جائے جہاں مچھروں کے لاروا پیدا ہوتے ہیں۔اس کو ’’لاروا سورس مینجمنٹ‘‘ larval source managementکا نام دیا گیا ہے۔کئی قسم کے پانیوںمیں مچھروں کے لاروے بننے کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے جیسے چاولوں کے کھیت یا گڑھوں میں کھڑا ہوا پانی وغیرہ، اس پانی کو فوری طورپر ختم کیاجانا چاہیے یا اس میں ایسے کیمیکلز شامل کیے جانے چاہئیں تاکہ مچھر کا لاروا نہ بن سکے۔اس کے علاوہ کھڑے ہوئے پانی میں لاروا مارنے والی خصوصی ادویات بھی شامل کی جاسکتی ہیں۔
اسٹڈی کے مطابق جب اس طریقے کو آزمایا گیا تو نہ صرف ملیریا کے واقعات میں پچھتر فیصد کمی ہوئی بلکہ ان افراد کی تعداد میں بھی نوے فیصد تک کمی ہوگئی جو کہ ملیریا پیراسائٹ سے متاثر تھے۔محققین نے اس سلسلے میں ہزاروں مختلف سٹڈیز کا جائزہ لیا اور اس طریقے کی افادیت کو دیکھا تو انہوں نے پایا کہ ان میں تیرہ سٹڈیز ایسی تھیں جن سے اس طریقے کی کامیابی کا پتہ چلتا تھا۔یہ تحقیقات مختلف ملکوں جیسے گیمبیا ، کینیا ، مالی اور فلپائن سے آئی تھیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملیریا پر کنٹرول کے لیے ان سٹڈیز کے نتائج بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ اسٹڈی کی مصنف لوسی ٹسٹنگ کے بقول ملیریا پر قابو پانے کے لیے گذشتہ عشرے میں جو کامیابیاں حاصل کی گئی تھیں وہ دستیاب ادویات کے خلاف مچھروں میں پیدا ہونے والی زبردست مزاحمت کے باعث خطرے میں پڑ گئی ہیں۔چنانچہ ملیریا پیدا کرنے والے مچھروں کو ہدف بنانے کے لیے اب مزید طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مچھروں کے لاروا کو ختم کرنے کے لیے اپنائی گئی حکمت عملی اس سلسلے میں خاصی موثر ہوسکتی ہے۔
ادھر عالمی ادارہ صحت ابھی اس ریسرچ کو بہت زیادہ اہمیت دینے پر تیار نہیں۔ادارے کے بقول اس طریقے کی حمایت کے لیے تحقیق ابھی اتنی جاندار نہیں اور دیہات میں اس کو اپنانے کے لیے سفارش نہیں کی جاسکتی کیونکہ دیہاتی علاقوں میں مچھروں کی افزائش کے سبب والی جگہوں کا سراغ لگانا خاصا مشکل ہے۔ ادارے کے ایک ترجمان کے مطابق جب تک لاورا کنٹرول کے حوالے سے اس تحقیق کے بارے میں مزید ٹھوس شواہد سامنے نہیں آجاتے، اس کو ابھی صرف ایک اضافی طریقے کے طو ر پر لیا جانا چاہیے کیونکہ اس پر کلی انحصار ابھی درست نہیں ہوگا۔سب صحارن افریقہ میں مچھروں کی افزائش کا باعث بننے والی جگہوں کو تلاش کرنا اور وہاں پر دوا کا چھڑکائو ممکن دکھائی نہیں دیتا۔