کم گو اور منکسر المزاج طبیعت کے حامل ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی ایم کیوایم سے وابستگی کا سفر اس کی طلبہ تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن میں شمولیت سے شروع ہوا، بعدازاں اے پی ایم ایس او کے چیئرمین بنے، ایم کیوایم کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پارٹی کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنونیئر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔
جلاوطنی کے بارہ سالوں میں وہ امریکا میں ایم کیو ایم اوور سیز کے معاملات دیکھتے رہے۔ 2013میں وطن واپس آئے اور خاموشی سے تنظیمی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔ رواں سال فروری میں ایم کیو ایم پاکستان میں ہونے والے اختلافات کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا کنونیر بنادیا گیا۔ اس فیصلے کی توثیق گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی کردی ہے۔ متحدہ قومی پاکستان کے سربراہ ہونے کے باوجود خود کو اب بھی ایک ادنیٰ کارکن سمجھتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ماضی اور حال اور مستقبل کے لائحہ عمل کو جاننے کے لیے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔
ایکسپریس: طلبہ سیاست سے قومی سیاست میں قدم رکھنے اور عملی جدوجہد کرنے کا سفر کیسا رہا؟ سیاست میں آنے پر گھر والوں کی مخالفت یا حمایت کس حد تک رہی؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: اس پوری جدوجہد کو اگر میں سیاست سمجھتا تو شاید کبھی اس شعبے میں نہ آتا۔ اَسّی کی دہائی کے آغاز میں سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں کے پاس اے پی ایم ایس او کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔ انہیں اپنی تعلیم اور بہتر مستقبل کے حوالے سے کسی فیصلہ کن جدوجہد سے گزرنا ہی تھا۔ 1982ء میں میرا سندھ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا، اسی دور میں مجھے اے پی ایم ایس او کا چیئر مین بنادیا گیا۔
پاس آؤٹ کرنے کے ایک سال بعد ہی 1990ء میں ایم کیو ایم نے مجھے میری خواہش کے برخلاف حیدرآباد سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا اور اس طرح میں مکمل طور پر سیاست میں آگیا۔ پھر تین سال بعد ہی ایم کیو ایم کے خلاف بدترین ریاستی آپریشن کا آغا ز کردیا گیا۔ اگر اُس وقت ہم گھروں پر بیٹھ جاتے تو میرے خیال میں یہ اپنی قوم اور جماعت کے ساتھ بہت بڑی بے وفائی ہوتی۔ جہاں تک گھر والوں کی مخالفت یا حمایت کی بات ہے تو میں خود کو اس لحاظ سے خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں اپنے والدین کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا تھا تو مجھے کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
ایکسپریس: سیاسی مصروفیات کے باوجود اہلیہ اور بچوں کے لیے وقت کس طرح نکالتے ہیں؟ یا گھر والوں نے اس بات پر سمجھوتا کرلیا ہے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: میں سیاسی مصروفیات کی وجہ سے نہ ہی والدین کو صحیح طرح وقت دے سکا اور نہ ہی بیوی بچوں کو، کیوں کہ تنظیمی معاملات میں مصروفیات اتنی رہیں کہ شادی بھی تقریباً پندرہ سال تاخیر سے کی۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ وقت دینے کی کوشش کرتا ہوں۔
ایکسپریس: امریکا میں بھی میڈیکل پریکٹس نہیں کی؟ مصروفیات سیاسی ہی رہیں؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : ہاؤس جاب مکمل کرنے کے ساتھ ہی میں ایم این اے بن گیا، جس کی وجہ سے مجھے ہاؤس جاب کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میں ایک ہفتے کے سرکاری دورے پر امریکا گیا تھا لیکن بدلتے ہوئے حالات نے مجھے وہاں بارہ سال رہنے پر مجبور کردیا۔ وہاں بھی پریکٹس کا موقع نہیں ملا کیوں کہ وہاں میری سیاسی ذمے داریاں زیادہ تھیں۔ میں ایم کیو ایم اوور سیز کے سارے معاملات دیکھتا تھا۔
ایکسپریس: ڈاکٹروں کا اپنے کلینک چھوڑ کر کُل وقتی سیاست کرنا کیا ہمارے جیسے سماج میں ایک ڈاکٹر کی نشست ضایع کرنے کے مترادف نہیں ہے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : میرے نزدیک یہ ہماری بدنصیبی ہے، لیکن جب شہری سندھ کے طالب علم جب میڈیکل کالج میں پہنچتے ہیں تو انہیں پیشہ ورانہ تعلیم میں خاص طور پر مہاجروں کے حوالے سے ناانصافی کا ادراک ہوتا ہے۔ اس بات کا احساس آپ کو صحیح معنوں میں میڈیکل کالجز میں ہوتا ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ جیسے، اُردو بولنے والے بہت سے ذہین طالب علم صرف لسانی تعصب کی وجہ سے اس میڈیکل کالج میں نہیں پہنچ سکے اور بہت ہی نالائق سیکنڈ ڈویژن، تھرڈ ڈویژن والے طلبا وہاں موجود ہیں۔ مجھے بھی سندھ میڈیکل کالج میں داخلہ صرف اس بنیاد پر مل سکا کہ میں ٹاپ میرٹ پر تھا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے بہت زیادہ ذہین لڑکے ہمارے ناقص نظام تعلیم اور کوٹا سسٹم کی وجہ سے داخلے سے محروم رہے۔
ایکسپریس: آپ نے سینیٹ انتخابات کے دوران ایم کیو ایم میں اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی، متعدد بار ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی سربراہ کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالنے کا کہا، کیا وجہ ہے کہ مصالحت کی کوشش میں ناکام رہے؟ بہ ظاہر دونوں دھڑے ایک ہوچکے ہیں، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوا ہے؟ کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: یہ سارا معاملہ فاروق بھائی کی معلوم خواہشات اور نامعلوم مجبوریوں کے درمیان ہے۔ دیکھیے پارٹی میں پہلے بھی کسی حد تک ایک سینٹرلائزڈ ڈیمو کریسی تھی جس کی شکل تبدیل ہوتی چلی گئی۔ ایم کیو ایم اپنے اندر بھی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اتنا مکمل نہیں کہ جس کی انفرادی سوچ اجتماعی سوچ سے زیادہ بہتر ہو۔
فارق بھائی کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو پتا بھی ہے اور نہیں بھی پتا۔ فاروق بھائی زیادہ تر ایوانوں میں رہے ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ ایوان سے ہٹ کر تنظیم سنبھالتے رہے ہیں، تنظیمی تجربہ شاید فاروق بھائی کے پاس اس لیے اس قدر نہیں ہے کہ انہیں کبھی تنظیم چلانے کے لیے دی ہی نہیں گئی۔ میئر سے لے کر اب تک فاروق بھائی ایم کیو ایم کے سیاسی ونگ کو دیکھتے رہے ہیں۔ ہاں، میں نے زندگی بھر سیاسی ونگ بھی دیکھا ہے اور تنظیم بھی چلائی ہے۔ 1993ء میں جب پہلی دفعہ رابطہ کمیٹی بنی تو میں ایم کیو ایم کا پہلا کارکن تھا جو انچارج ڈپٹی کنونیئر بنا اور دس سال یہ ذمے داری ادا کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ایم کیو ایم اتنی مضبوط اور بڑی ہوتی جارہی ہے کہ لیڈروں کی تقسیم اور چہروں کی تبدیلی سے تنظیم تقسیم نہیں ہو گی، بہ ظاہر تو یہ تقسیم نظر آرہی ہے لیکن درحقیقت تنظیم نیچے سے جڑتی جارہی ہے۔ کنونیئرہونے کے ناتے فاروق بھائی کو کنونیئر بننے کی دعوت دینا میری ذمے داری تھی۔ فاروق بھائی کو کنونیئر بننے کی دعوت آج بھی ہے، لیکن پارٹی کے آئین، ہماری روایات کی پاسداری لازم ہے۔
موروثی اور پیشہ ورانہ سیاست کی ایم کیوایم میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فاروق بھائی اپنے گھر والوں کو تو لانے کی ضد نہیں کر رہے تھے لیکن اگر میرٹ سے ہٹ کر وہ اپنے کسی دوست کو بھی لانا چاہ رہے ہیں تو پھر پارٹی تو اسٹینڈ لے گی۔ ہم نے بھی شروع میں تھوڑی کم زوری دکھائی، کیوں کہ بائیس اگست کے بعد پارٹی بحران میں تھی تو فاروق بھائی کی کچھ خواہشات کو تسلیم کیا گیا۔ خود فاروق بھائی آج اسے ہماری بڑی غلطی قرار دیتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ایک حد تھی اور اس حد سے تجاوز کرنے پرہم نے بند باندھ دیے۔ میں اس سارے معاملے میں صرف کامران ٹیسوری کو ہی مورود الزام نہیں ٹھہراؤں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر میںاپنے کسی دوست کو لانا چاہتا ہوں تو یہ میرے دوست سے زیادہ میری غلطی ہوگی، کیوں کہ لیڈر میں ہوں میرا دوست نہیں۔
ایکسپریس: پاکستان پیپلزپارٹی اب ایم کیو ایم کے گڑھ لیاقت آباداور دیگر روایتی حلقوں میں جلسے اور سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ اس حوال سے آپ کے حامیوں اور ووٹروں میں بے چینی پائی جاتی ہے، اسے دور کرنے کے لیے کیا کوشش کررہے ہیں؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: ہم نے کبھی پاکستان پیپلزپارٹی یا کسی دوسری جماعت کو لیاقت آباد میں جلسہ کرنے سے نہیں روکا۔ خود پیپلزپارٹی یا دوسری جماعتوں نے ان علاقوں میں جلسہ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ میں شروع سے ایک بات کہہ رہا ہوں کہ یہ پارٹی بکھر نہیں رہی، نکھر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو اس کی طاقت سے زیادہ ریاستی آپریشن سے کچلنے کی کوشش کی گئی، لیکن ایم کیو ایم ختم نہیں ہوئی ناں؟ بانوے کے آپریشن کے بعد لوگوں کو مغالطہ تھا کہ ایم کیو ایم کم زور ہوگئی ہے، اس کی طاقت ختم ہوگئی ہے۔
پھر حقیقی کی شکل میں ایک نئی جماعت لائی گئی، لیکن کیا کراچی کے عوام کا فیصلہ تبدیل ہوگیا؟ ہمیں تھوڑا سا فائدہ یہ ہے کہ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں ہمارا ووٹر نسبتاً زیادہ سیاسی شعور رکھتا ہے۔ لوگوں کو بہادر آباد یا پی آئی بی کی تفریق یا تقسیم کے حوالے سے بھی مغالطہ ہے کہ اس سے سینیٹ کے انتخابات پر اثر پڑا تو یہ ان کی غلطی ہے۔ سینیٹ انتخابات پر اثر ہمارے خلاف آپریشن کے نام پر جبر سے پڑا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے کتنے ہی ایم پی ایز ایک مصنوعی انتظام کے تحت بنائی گئی جماعت میں چلے گئے۔ بہرحال تمام تر مشکلات کے باجود ہم فرو غ نسیم بھائی کو جتوانے میں کام یاب ہوگئے۔
ایکسپریس: پیپلزپارٹی کی جانب سے کراچی کے جلسوں میں ایم کیو ایم پر دہشت گردی، لسانیت کو فروغ دینے کے الزامات عاید کیے جارہے ہیں، اگر پی پی پی نے ایم کیوایم پاکستان سے انتخابی اتحاد کی بات کی تو کیا آپ ہامی بھریں گے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اب پی پی پی سے اتحاد خود کشی سے کچھ کم نہیں ہوگا، آپ ایک سوراخ سے ایک دو بار نہیں، آٹھ دس مرتبہ ڈسے جاچکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے اگر کوئی دباؤ بھی آتا ہے تو ایم کیو ایم کو اس دباؤکا سامنا کرنا چاہیے۔ ہمیں پی پی پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے بہ جائے انتخابی سیاست سے باہر جانے کو ترجیح دینی چاہیے ۔
دیکھیے! تیس ستمبر 1988ء کو حیدرآباد میں ڈھائی سو مہاجروں کا قتل عام کیا گیا۔ اس قتل عام کے ذریعے لسانیت کو اس درجے پر پہنچا دیا گیا کہ سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں پی پی پی کے ساتھ انتخابی اتحاد ممکن نہیں تھا۔ ہم نے ان سے انتخابی اتحاد تو نہیں کیا لیکن یہ سوچ کر کہ کل ہمیں تاریخ یہ نہ کہے کہ ہم نے سندھ سے جیتنے والی جماعت کو حکومت بنانے میں مدد نہیں دی۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم کیو ایم نے تمام تر اندیشوں اور خدشات کے باوجود اٹھاسی میں پی پی پی کا ساتھ دیا۔ 1993ء میں ہم تمام دباؤ کے باوجود حکومت میں شامل نہیں ہوئے حالاںکہ اس وقت ہمارے خلاف خوف ناک آپریشن چل رہا تھا۔ ہم اس آپریشن سے بچنے کے لیے حکومت میں شامل ہوسکتے تھے۔ انتخابی اتحاد ہم کرتے ہی نہیںاور نہ ہی ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہم جن سیٹوں سے جیتتے رہے ہیں وہاں سے اس بار بھی جیتیں گے۔
ایکسپریس: 22 اگست کے بعد تو فاروق ستار اور آپ نے پریس کانفرنس میں لندن کے اشتعال انگیز بیانات کو یکسر مسترد کیا۔ یہ بتائیں کہ اس سے پہلے کبھی الطاف حسین سے اشتعال انگیز بیانات اور تقاریر کرنے پر اختلاف کیا؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : ہماری جدوجہد کی بنیاد ہی پاکستان کی سلامتی پر ہے، بائیس اگست کو جو نعرے لگوائے گئے وہ ہمارے لیے کسی طور قابل قبول نہیں تھے۔ اس پہلے بھی ایم کیو ایم کے اندرونی حلقوں میں الطاف حسین کے اشتعال انگیزبیانات اور تقاریر پر اختلاف ہوتا رہا، انہیں سمجھایا بھی جاتا رہا، لیکن پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگ جانا بالکل مختلف بات ہے۔ حکومت سے اختلاف کرنا ملک سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم بھی کھڑے ہوکر پاکستان سے شکایت کرتے ہیں کہ؛
تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن
جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کرے
لیکن یہ پاکستان کے خلاف نہیں ہوتا، یہ تو اپنوں سے کی جانے والی شکایت ہے، لیکن نعرہ بالکل مختلف معاملہ ہوتا ہے۔
ایکسپریس: گذشتہ سال پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے ایک ہونے کا اعلان کیا لیکن اگلے ہی دن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی، اس مشترکہ پریس کانفرنس کا فیصہ کس کا تھا؟ اور اس اتحاد کے ٖفوری خاتمے کی وجہ کیا تھی؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: ہماری جماعت کی سو فی صد لیڈر شپ اور کارکنان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں سے آپ انتخابی اتحاد اور دیگرمعاملات تو طے کرسکتے ہیں، لیکن ایم کیوایم کسی جماعت میں کسی صورت ضم نہیں ہوسکتی۔ اور وہ بھی کسی ایسی پارٹی میں جو کسی سیاسی انتظام کے تحت بنی ہی نہ ہو۔ اس کانفرنس کا فیصلہ ڈاکٹر فاروق ستار اور کچھ ایسے لوگوں کا تھا جو بائیس اگست کے بعد ایم کیو ایم میں آئے جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ایم کیو ایم کو سہولت پہنچا سکتے ہیں، مدد کر سکتے ہیں جو کہ بالکل غلط ثابت ہوا۔
پی ایس پی کے ساتھ ہونے والی پریس کانفرنس کے چند گھنٹے بعد ہی پارٹی کی اکثریت نے بیان دے دیا تھا کہ یہ ایم کیو ایم کا فیصلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے ہمیں پریس کانفرنس کے بارے تو بتایا تھا، لیکن یہ نہیں بتایا تھاکہ وہ وہاں جاکر دوسری پارٹی میں ضم ہونے کی بات کریں گے۔ ہمیں بتایا کچھ گیا اور پریس کانفرنس میں ہوا کچھ اور۔ ایم کیو ایم ہزاروں شہیدوں کی امانت ہے۔ مجھے، فاروق ستار یا رابطہ کمیٹی سمیت کسی کو اس بات کاحق نہیں ہے کہ وہ اس کا نام تبدیل کرے، ہم میں سے کسی کو بھی یہ نام پسند نہیں تو وہ چھوڑ کر چلاجائے اوراپنی نئی پارٹی بنالے۔
ایکسپریس: مصطفی کمال نے ڈاکٹر فاروق ستار پر الزامات عاید کیے، جس پر آپ نے کہا کہ یہ ہمارے لیے نئے الزام نہیں، اگر ان الزامات سے رابطہ کمیٹی آگاہ تھی تو اس پر ڈاکٹر فاروق ستار سے وضاحت طلب کیوں نہیں کی گئی؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: ان سے ان الزامات کی وضاحت کئی بار طلب کی گئی۔ لیکن کچھ نادان دوست انہیں یہ بتا رہے تھے کہ آپ سربراہ نہیں پارٹی کے مالک ہیں، جس طرح آپ چاہیں پارٹی اسی طرح چلنی چاہیے۔ سب سے بڑا الزام جو مصطفی کمال نے اُن پر عاید کیا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے دو دن پہلے انیس قائم خانی سے کہا کہ میرے لیے کیا پیکیج ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو کم از کم اس الزام کی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔
ایکسپریس: مہاجر قومی موومنٹ کو لسانی سیاست کی قید سے آزاد کرکے متحدہ قومی موومنٹ بنایا گیا، لیکن حال ہی میں ہونے والے جلسے میں ایک بار پھر جاگ مہاجر جاگ کے نعرے کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی، کیا آپ آئندہ انتخابات لسانی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: کوئی بھی سیاسی جماعت لسانی رنگ سے آزاد نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی ایک نسل پرست ، قوم پرست سندھی جماعت ہے، مسلم لیگ ن جاگ پنجابی جاگ کے نعرے کے ساتھ بنی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی کا نام صرف عوامی نیشل پارٹی ہے لیکن وہ پختونوں کی غیرت اور حقوق کے لیے ہی جدوجہد کر رہی ہے۔ مجھے ایسی سیاسی جماعت کا نام بتائیں جو لسانی رنگ نہ رنگتی ہوں۔
ہاں، ایم کیو ایم منافق نہیں تھی، اس نے جب مہاجروں کے اتحاد اور حقوق کے حوالے سے آواز اٹھانے کی بات کی تو وہ بھی کوئی ملکی نام، وفاقی نام رکھ سکتی تھی، لیکن وہ منافقت کہلاتی۔ ایم کیو ایم نے جو کرنا چاہا وہی کہا۔ 1987میں جب ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو اس سے دو ماہ پہلے کارکنوں کے اجلاس میں طے ہوا تھا کہ ایم کیو ایم کبھی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی، لیکن عظیم پورہ کے واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اور کراچی سے انتخابات میں حصلہ لینے والی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس آپریشن پر بغلیں بجانے لگیں تب ہم انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر مجبور ہوئے۔
اس وقت کا سیاسی تجزیہ کار کہتا تھا کہ ووٹ تو ایم کیو ایم کو پڑے گا، لیکن ایم کیو ایم کے پاس دو چیزوں کی کمی ہے ایک تو سیاسی تجربہ، دوسرا انتخابی سیاست کے لیے درکار وسائل۔ میری گناہ گار آنکھوں نے ایم کیو ایم کے دفاترمیں ہماری موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کی جگہ بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوتی دیکھیں، وہ مہاجر تاجر، صنعت کار جو ایم کیو ایم سے فاصلے سے رہتے تھے انہوں نے ایم کیو ایم میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ سیاست داں جن کی سیاسی عمریں اس وقت کی ایم کیو ایم کی قیادت کی عمروں سے زیادہ تھیں وہ بھی ایم کیو ایم میں آگئے لیکن میں ان کا نام نہیں لوں گا۔
اس طرح ایم کیو ایم میں آپ کو سیاسی تجربے اور وسائل کی کمی پوری ہوتی نظر آرہی تھی ناں؟ پھر بھی ایم کیو ایم نے مجھ جیسے متوسط طبقے کے لوگوں کو الیکشن میں کھڑا کرکے طبقاتی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس طبقاتی جدوجہد نے ملک بھر کے مڈل کلاس کے نوجوانوں کو متاثر کیا، جن کی خواہش اور شدت خواہش کی وجہ سے ہم نے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کیا تھا، لیکن اس کا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ ہم مہاجروںکے اتحاد، اُن کی بقا او ر ان کے حقوق کی جدوجہد سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ ہر جماعت انتخابات میں اپنے ووٹرز کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے، ہمارے ووٹرز اب بھی سندھ کے شہری علاقوں کے ہیں تو ان کے لیے آواز اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔
ایکسپریس: ’ہمیں راہ نما نہیں منزل چاہیے‘ کا نعرہ لگاکر آپ نے ٹنکی گراؤنڈ میں اپنا روایتی نعرہ بھی بدل دیا، کیا سمجھتے ہیں کہ اس سے آپ اپنے حامیوں کو قریب لا رہے ہیں یا پرے دھکیل رہے ہیں؟ راہ نما کا تعین تو آپ کرچکے تھے لیکن اب آپ کی منزل کیا ہے اور اس کا تعین کون کرے گا؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: سیاسی قیادت کو کبھی بھی سچ کہنے میں عار نہیں ہوتا۔ عوامی لیڈر وہ ہوتا ہے جو عوام کی مرضی سے نہ چلے بلکہ عوام کو اپنی مرضی پر چلائے، عوام کی مرضی تو انتخابات کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ مجھ پر الزام تھا کہ ’ہم کو منزل نہیں راہ نما چاہیے‘ کا نعرہ میرا بنایا ہواتھا۔ آج کے دور میں، میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب راہ نماؤں سے زیادہ اہم منزل ہے۔
وہ ایک دور کا نعرہ تھا اور اسی دور میں ختم ہوگیا تھا، لیکن اعتراض کرنے والوں نے اس نعرے کو زندہ رکھا۔ اس وقت ایم کیو ایم کی اجتماعی قیادت ہی راہ نما ہے، افراد راہ نمائی نہیں کریں گے ، مقصد راہ نمائی کرے گا۔ ہماری منزل ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان ہے جس میں تمام قومیتیں اور تمام علاقے برابر کے وفادار اور حق دار ہوں، مہاجر اس ملک کے سب سے وفادار شہری ہیں، ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے۔
ایکسپریس: آفاق احمد جنوبی سندھ صوبے کے لیے پُرزور مہم چلا رہے ہیں، کیا آپ کے خیال میں مہاجروں کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے الگ صوبے کا قیام ناگزیز ہے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: میں سمجھتا ہوں کہ نئے صوبے پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں، گو کہ پاکستان کے چاروں صوبے لسانی بنیادوں پر قائم ہیں، اس کے باجود ہم لسانی بنیاد پر صوبے بنانے کی تو بات ہی نہیں کر رہے۔ ہم انتظامی بنیادوں اور ضرورت کے تحت صوبوں کے قیام کے حامی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ جنوبی سندھ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ اُن کا حق ہے، ہم بھی صوبے بنانا چاہتے ہیں اور ان کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان کا کوئی صوبہ ملک نہیں ہے اور نہ ہی بننے دیا جائے گا۔ ہم سب کی دھرتی ماں پاکستان ہے، باقی تمام صوبے اس کا حصہ ہیں۔
ایکسپریس: انتخابی حلقہ بندیوں کے ذریعے واضح طور پر متحدہ کے حلقوں کو اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ آیندہ آپ کے لیے یہاں سرخرو ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے؟ آپ نے اس حوالے سے کوئی چارہ جوئی کی؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: اس مسئلے پر ہم الیکشن کمیشن میں گئے تو انہوں نے ہمارے سارے اعتراضات مسترد کردیے۔ اب ہم عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کا ایک ایسا حلقہ کراچی میں بنایا گیا ہے جو یونین کونسل سے چھوٹا ہے یوسی میں پانچ وارڈ ہیں اور اس میں چار وارڈ ہیں، سہراب گوٹھ والی ایک یوسی کو اس حلقے سے جوڑا گیا ہے جہاں ماضی میں ایم کیو ایم جیتتی رہی ہے، اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو متاثرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ نئی حلقہ بندیاں مکمل طور لسانی اور نفرت کی بنیاد پر سازش کے طور پر کی گئی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت اس بات کا نوٹس لے گی۔
ایکسپریس: چند ماہ قبل کراچی پریس کلب پر ایک تقریب میں آپ نے واضح طور پر اس شکایت کا اظہار کیا کہ مہاجر قوم کے دانش وروں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس کا سبب متحدہ سے تعلق رکھنے والوں کے غیرمناسب رویے اور دھونس دھمکیاں تھیں؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: چلیں یہ طبقہ ایم کیو ایم کا ساتھ نہیں دیتا لیکن مہاجروں کا توساتھ دیتا، برسہا برس کی ناانصافیوں کی وجہ سے اردو بولنے والے طبقے کا لہجہ بڑا معذرت خواہانہ ہوگیا ہے، لیکن یہ رویہ دانش ور طبقے کا نہیں ہوتا، وہ صرف لکھنا، بولنا نہیں جانتے بلکہ ان کا ظرف اور ضمیر اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے کچھ نہیں کر رہا ہوتا ، نہ اپنی جان بچانے کے لیے اور نہ ہی اپنی نوکری بچانے کے لیے۔ بانوے کے آپریشن کے دو تین ہفتے پہلے جون میں جام شورو میں بھی یہ آپریشن شروع ہوا اور وہاں چند غریب سندھی دیہاتیوں کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ قرار دے کر مار دیا گیا، لیکن سندھی دانش ور اس کے خلاف کھڑے ہوئے تو نہ صرف اس آپریشن میں شامل فوجی افسران کو گرفتار کیا گیا بلکہ بعد میں انہیںاسے سزائے موت دی دی گئی۔
لیکن جب کراچی میں گلی گلی، کوچے کوچے سے ٹارچر سیل نکالے جا رہے تھے، جناح پور کا نقشہ نکالا جا رہا تھا تو اس وقت ہمارا دانش ور کہا ں تھا؟ کیا اس وقت وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایم کیو ایم جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے آپریشن کے ڈر سے بیس لاکھ کلاشنکوف چھپا دی ہیں، تو کیا یہ ایم کیو ایم اتنی احمق ہے کہ اپنے سارے عقوبت خانے کُھلے چھوڑ دیے کہ آپ آئیں اور دریافت کریں، ثبوت چھوڑ دیے؟ لیکن ہمارا دانش ور نہیں بولا بل کہ وہ اس جبر کے ساتھ ہی اپنی آواز سے آواز ملانے لگا۔
ایکسپریس: 30 سال بعد مڑ کر دیکھتے ہیں تو آج ’ایم کیو ایم‘ کہاں کھڑی ہے۔ اس نے اپنے کیا مقاصد حاصل کیے؟ آپ کی نظر میں اس تحریک کے بڑے المیے کیا ہیں؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: اس تحریک کی بنیاد تھی مہاجروں کی شناخت اورآج ہماری شناخت پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ناکام نہیں ہوئی، یہ اپنی پہلی منزل طے کرچکی ہے، اب ایم کیو ایم نے مہاجروں کے حقوق کے لیے دوسرے سفر کا آغاز کیا ہے جس میں نئے صوبے کا معاملہ، ڈویژن اور ڈسٹرکٹ کی تقسیم بھی ہماری ترجیح ہے۔ اس وقت سندھ میں ایک مصنوعی اکثریت رکھنے والی جماعت ہم پر مسلط ہے۔ آج سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی سندھ کی مجموعی آبادی کا پچاس فی صد سے زاید ہے، جس وقت پاکستان میں غیر جانب داری سے مردم شماری کی گئی اور اس دن سب کو پتا چل جائے گا کہ ایم کیو ایم کتنی کام یاب رہی ہے۔
ایم کیو ایم نے اپنے اندرجاگیردارنہ سوچ کو نہیں پنپنے دیا، ہم نے تیس سال کی سیاست میں موروثی سیاست کی گنجائش ہی نہیں رکھی، ہم نے ایم کیو ایم کے کارکنان ، لیڈروں کو پابند کیا کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو اسمبلی میں نہیں لاسلتے اوراس پر ایم کیو ایم ابھی تک کام یاب ہے اور انشاء اللہ آگے بھی رہے گی۔ پاکستان میں جاگیردارانہ، سرمایہ دار ذہنیت کیسے برداشت کرتی کہ ایک متوسط طبقے کی جماعت کا قومی اور صوبائی اسمبلی کا رکن موٹر سائیکل پر ایوان میں آئے، عام آدمیوں کے ساتھ زمین پر، تخت پر بیٹھ کر جھونپڑا ہوٹل میں کھانا کھائے۔ ہمارا طرز عمل یہ پیغام ہے کہ پاکستان کا ایک مڈل کلاس نوجوان بھی انتخابات میں کھڑا ہوکر جاگیرداروں، وڈیروں کو شکست دے سکتا ہے۔ اب حقیقی معنوں میں ایسے نمائندے منتخب کرنے ہوں گے جن کے حلقے کے عوام صبح اٹھتے ہی گھر کی گھنٹی پر ہاتھ رکھ کر بولیںکہ باہر نکل کر ہمارے معاملات حل کرو۔ اگر ایم کیو ایم کے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے گئے تو ہم پاکستان کو اس کا مقدر واپس کریں گے۔
ایکسپریس: کراچی اور حیدرآباد کی ریلیوں اور جلسوں کے دوران کارکنان متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی قیادت کے سامنے الطاف حسین کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ ان حالات میں آپ سمجھتے ہیں کہ الطاف حسین کے بغیر کارکنان اور ہمدرد انتخابی مہم میں آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کو ووٹ بھی دیں گے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: دیکھیے ایم کیو ایم بائیس اگست کے بعد کراچی حیدرآباد میں بڑے جلسے کرچکی اور ریلیاں بھی نکال چکی ہے۔ بائیس اگست کے بعد تو کوئی ہمارے حق میں نہیں تھا نہ انتظامیہ ہمارے حق میں تھی، نہ ادارے ہمارے حق میں تھے، اس کے باوجود ہم نے کراچی سے صوبائی اسمبلی کے دو ایسے انتخابات ایسے ملے جو ہم کبھی جیتتے تھے کبھی ہارتے تھے، اور ان میں ہم نے اس سے زیادہ ووٹ لیے جوہم نے بائیس اگست سے پہلے ضمنی انتخابات میں لیے تھے۔
ایک جگہ سے ہم اٹھارہ ہزار ووٹ کے ساتھ ہارے، ہمیں بائیکاٹ کے مطالبے کے باوجوداٹھارہ ہزار حقیقی ووٹ پڑے،اگر بائیکاٹ کا مطالبہ نہیں ہوتا تو یہ ووٹ بڑھ کر اکیس ہزار ہوجاتے۔ بائیس اگست سے پہلے ایم کیو ایم نے نو ہزار ووٹوں سے پی آئی بی کا الیکشن جیتا ، عزیز آباد کے حلقے سے ہونے والے انتخاب میں ہم ساٹھ ہزار ووٹوں سے جیتے تھے، اگر ہمیں آئندہ انتخابات میں اسی طرح حصہ لینے کا حق دیا گیا جو دوسری جماعتوں کو حاصل ہے تو پھر حیران کن نتائج ایم کیو ایم کے حق میں سامنے آئیں گے۔ ہم تمام اداروں کو پاکستان کا وفادار اورجمہوریت کا خیر خواہ سمجھتے ہیں اور اگر انہیں کوئی غلط فہمی تھی تو ایم کیو ایم کی موجود قیادت نے اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کی ہیں۔
ایکسپریس: اگر کبھی الطاف حسین کو سیاست کی اجازت مل جاتی ہے، تو آپ کا اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: سیاست ہمارا پیشہ نہیں ہے، اگر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کسی اور کو منتخب کرتی ہے تو ہمارے لیے بہتر ہوگا کہ گھر جا کر اپنے اپنے پیشے سے جڑ جائیں، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اب وہ کام یاب ہو پائیں گے۔اگر لوگوں کو ان سے اتنی ہی محبت ہوتی تو پھر بائیس اگست کا اقدام کام یاب ہو ہی نہیں پاتا۔ اور دوسری بات یہ کہ ہماری لیڈر شپ میں ان کے مزاج ، عمر کے اعتبار سے اور ذہنی صحت کی وجہ سے گزشتہ کئی سال سے بگاڑ پیدا ہوتا جا رہا تھا۔
ایکسپریس: اس سال سانحہ بارہ مئی ایک بار پھر خبروں میں رہا، پی ٹی آئی، پی ٹی ایم اور پیپلز پارٹی نے اس کا ساری ملبہ ایم کیو ایم پر ڈال دیا، اس سانحے میں ایم کیوایم کس حد تک ملوث یا ذمے دار ہے؟ کیا پارٹی کی سطح پر معزول چیف جسٹس (ر) کو کراچی آمد سے روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : آپ ہی بتائیے کہ اس وقت کون سی جماعتیں چوہدری محمد افتخار کے ساتھ تھیں؟ کیا ان تینوں نے جماعتوں نے سابق چیف جسٹس کوان کی موجودگی میں اور بعد میں گالیاں نہیں دیں؟ کیا عمران خان نے اُن پر گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور گالیاں نہیں دیں؟ پاکستان پیپلز پارٹی نے تو انہیں بحال کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔
بات صرف یہ ہے کہ اُس وقت وہ حب علی نہیں، بغض معاویہ کے مصداق چوہدری محمد افتخارساتھ د ے رہے تھے۔ ایم کیوایم منافقت کی سیاست نہیں کرتی اور وہ یہ سمجھتی تھی کہ آؤٹ آف پروپورشن خود ایک آدمی کو انصاف کا منبع سمجھا جا رہا ہے، ہم انصاف کے نہیں انصاف کے نام پر ہونے والی سیاست کے خلاف تھے۔ اسی کے اظہار کے لیے ہم نے بارہ مئی کو ایک ریلی نکالی تھی جس میں خواتین اور بچے شامل تھے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس دن ہمارا ریلی نکالنے کا انتخاب غلط تھا، ایم کیو ایم اس جال میں آگئی جو اس کے گرد بُنا گیا تھا۔ یہ لوگ بارہ مئی کی باتیں کرتے ہیں لیکن ستائیس دسمبر کو کیوں بھول جاتے ہیں جب پورے کراچی کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
بے نظیر بھٹو کی شہادت جہاں ہوئی وہاں صرف ٹائر جلائے گئے اور کراچی میں تو انسان زندہ جلادیے گئے، بچیاں غائب کر دی گئیں۔ یہ کیسے سوگواران بے نظیر تھے جنہیں ’صدمے‘ کے باوجود اتنا ہوش تھا کہ بینک جلانے سے پہلے انہیں لوٹنا ہے، گاڑیاں جلانے سے پہلے ان میں سے قیمتی سامان نکالنا ہے، یہ کیسے سوگواران بے نظیر تھے جنہوں نے گاڑیاں جلنے میں بھی قوم پرستی کو ملحوظ خاطر رکھا، اس دن کراچی میں سترہ سو ساٹھ گاڑیاں جلائی گئیں جن میں ایک رکشہ اور منی بس نہیں تھی۔ مجھے یقین ہے کہ جن لوگوں نے ستائیس دمبر کو کراچی کو یرغمال بنایا انہیںبے نظیر بھٹوکی شہادت کا پیشگی علم تھااور لوٹ مار کے لیے انہیں تربیت دی گئی تھی، کیوںکہ لوٹ مار کے منظم طریقے سے لے کر ڈنڈے اور آگ لگانے والے کیمیکل تک سب ایک جیسے تھے۔
ایکسپریس: بارہ مئی کو افتخار چوہدری کی مخالفت میں ریلی نکالنے کا فیصلہ کس کا تھا، آپ کی ریلی کا روٹ اولڈ ایریا کی طرف تھا، لیکن پھر آپ کے کارکن شارع فیصل اور ایئر پورٹ پر کیا کر رہے تھے۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : یہ فیصلہ اس وقت کی قیادت کا تھا، میں امریکا میں تھا اور میں نے ریلی نکالنے کی بہت مخالفت کی تھی، حیدر عباس رضوی نے مجھے فون کر کے کہا کہ خدا کے لیے خالد بھائی یہ ریلی رکوائیں، میں نے ڈاکٹر عمران فاروق سے کہا کہ ہم غلط فیصلہ کرنے جا رہے ہیں، یہ ہمارے گرد جال بُنا جا رہا ہے۔ لیکن تمام تر خدشات کے باوجود ریلی نکالی گئی اور اس کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں۔ اور چلیں اگر ہم پر اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے کہ سارا ہنگامہ ایم کیو ایم نے کیا تو پھر تو ایم کیو ایم مسلح ہوکر آئی ہوگی! لیکن باقی لوگ کیوں مسلح تھے؟ اگر ایم کیو ایم کے کارکنان اس سڑکوں پر نہ ہوتے تو کراچی میں وہی کچھ ہوتا جو ستائیس دسمبر کو ہوا۔ لوگ گھروں میں گھُس جاتے، خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں رہتیں۔
لوٹ مار کا بازار گرم ہوجاتا۔
ایکسپریس: 2013 کے انتخابات کے بعد رابطہ کمیٹی کے اراکین سے پارٹی کے مرکز پر کارکنوں نے بدسلوکی کی اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : یہ ایک افسوس ناک ترین واقعہ تھا جو قیادت کی غلطی کی وجہ سے وقو ع پذیر ہوا۔ ایم کیو ایم کو آج تک اس کے اثرات کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
ایکسپریس: الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کے دستور میں ترامیم منظور کرلی ہیں؟ جس میں الطاف حسین کا کردار ختم کیا گیا ہے؟ لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ 2018 کے انتخابات میں ماضی کی طرح کام یابی حاصل کر سکیں گے؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : میرے خیال میں ابھی تک کوئی ایسی سیاسی قیادت نہیں ابھری ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنا فیصلہ تبدیل کرلیں۔ ہاں ایم کیو ایم کے گرد ایسے انتظامات ضرور کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے اس کے ووٹ بینک کو کم دکھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ 2002ء میں مشرف صاحب کے دور جس طرح ہم سے کراچی کی چھے نشستیں چھین کر متحدہ مجلس عمل کودلائی گئیں تھی، اس طرح کا اب بھی کوئی انتظام کیا گیا تو وہ عارضی ثابت ہوگا۔ اگر فیصلہ بیلیٹ نے نہیں کیا، اگر فیصلہ ووٹ نے نہیں کیا تو پھر فیصلہ روڈ کرے گا۔
ہم پاکستان کے آئین اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے پُرامن احتجاج کریں گے۔
ایکسپریس: الطاف حسین کی متنازع تقاریر کی وضاحت رابطہ کمیٹی کے ارکان کرتے تھے، ایسے میں ان کا آف دی ریکارڈ ردعمل کیا ہوتا تھا، ایسا کوئی واقعہ سنائیں۔
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : دیکھیے اس معاملے پر کئی مرتبہ ان کے ساتھ بہت سختی سے بھی بات کی گئی اور کنور نوید نے تو اس حوالے سے ایک پورا مقدمہ بنا کر ان کے سامنے پیش کیا کہ جی آپ کی اس ذہنی حالت کے ساتھ ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ آپ کو پتا نہیں ہے کہ آپ کے اس رویے کی وجہ سے تنظیم دن بہ دن کم زور ہوتی جارہی ہے، بعض جگہ کام کرنے کے لیے لوگ نہیں ہیں، اگر آپ اتنے غصے میں اور اتنے متلون مزاج رہے تو پھر آپ راہ نمائی نہیں کر پائیں گے۔
ایکسپریس: مہاجر صوبے کا نعرہ بار بار لگایا جاتا ہے اور پھر یہ نعرہ پُراسرار طور پر غائب ہوجاتا ہے۔ یہ نعرہ لگنے اور اس کے غائب ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : دیکھیے ایم کیو ایم تو بعد میں بنی، اے پی ایم ایس او کے مطالبے میں صوبے کا ذکرتھا۔ ، میں نے پانچ مئی کے جلسے میں بھی کہا کہ ہم ابھی مہاجر صوبے کا نعرہ نہیں لگا رہے، لیکن اس سے دست بردار بھی نہیں ہو رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مزید صوبے بنائیں۔ موجودہ ایم کیو ایم کا مہاجر نام سے صوبے کا کوئی مطالبہ نہیں ہے، تاہم انتظامی بنیاد پر صوبے بنانے کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف سندھ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں جہاں بھی الگ صوبے کی آواز اٹھ رہی ہے تو وہاں صوبہ بننا چاہیے۔
ایکسپریس: فاروق ستار نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے، کیا اسے آپ اپنے گروپ کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : فاروق بھائی کو اس اعلان کا یاد یھی ہے کہ نہیں؟ شاید انہیں یہ بات یاد بھی نہ ہو، وہ فرسٹریشن میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ انتخاب لڑیں اور ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے ہی لڑیں۔ اور ہم ایک ہیں کوئی گروپ اے یا بی نہیں ہے۔
ایکسپریس: ایم کیوایم کے متحد ہوجانے کا کوئی امکان ہے؟ اور کیا ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات کے بعد دونوں گروپوں کی موجودہ قیادت اور رابطہ کمیٹیاں ایک ساتھ کام کر سکیں گی؟
ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : ایم کیو ایم پاکستان پہلے کی طرح ایک متحد اور منظم جماعت ہے۔ چند لوگوں کے نہ ہونے سے پارٹی میں کوئی دراڑیں نہیں پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کا مرکزی دفتر بہادر آباد ہی ہے۔ میں خود کئی بار ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینئر کا عہدہ واپس لینے کی پیش کر چکا ہوں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پارٹی کا آئین مقدم ہوگا، اجتماعی فیصلے ہوں گے، کوئی فرد واحد پارٹی کا مالک نہیں ہوگا، انتخابات ہوتے رہیں گے، سربراہ تبدیل ہوتے رہیں گے، پارٹی مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا۔ اگر کسی نے کسی پر ذاتی احسان کیا ہے تو وہ اس احسان کا بدلہ اپنے کھاتے سے چکائے پارٹی کے اکاؤنٹ سے نہیں۔
The post اب پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد خود کشی سے کم نہیں ہوگا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی appeared first on ایکسپریس اردو.