تھری کپس آف ٹی، نامی نان فکشن کتاب پورے چار سال تک ’نیویارک ٹائمز‘ کی بیسٹ سیلر رہی۔ یہ کتاب اب تک سینتالیس زبانوں میں شائع ہو چکی ہے، اس کا مصنف گریگ مورٹنسن ایک سابق امریکی فوجی اور کوہ پیما ہے۔
وہ پاکستان، افغانستان اور تاجکستان میں بچوں خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم اور اسکولوں کے قیام کے لئے کام کرنے والی این جی او ’سنٹرل ایشین انسٹیٹیوٹ‘ کا بانی اور سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہا ہے۔ تیسری دنیا کے ان جنگ اور غربت زدہ خطوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے ترقی کے لئے کام کرنے پر مورٹنسن کو مسلسل تین سال تک نوبل پرائز کے لئے بھی نامزد کیا جاتا رہا۔ یاد رہے کہ اس انسٹیٹیوٹ کو امداد دینے والوں میں امریکی صدر اوباما اور سلیکون ویلی کے بزنس اونرز سے لے کر امریکی عوام یہاں تک کہ بڑی تعداد میں امریکی اسکولوں کے بچے بھی شامل ہیں ۔
جنہوں نے اس کے قیام سے لے کر2011ء تک اسے 100 ملین ڈالر سے زیادہ مالی عطیات دیئے۔ قارئین کی آسانی کے لئے ہم بتائیں کہ یہ رقم آج کے ریٹ کے مطابق ایک ہزار کروڑ پاکستانی روپے سے زائد بنتی ہے۔ 2010ء کے اواخر میں معروف امریکی چینل سی بی ایس کے ایک پروگرام سے کچھ ایسے انکشافات سامنے آئے جس کے مطابق گریگ نے اپنی ویب سائٹ پر جن اسکولوں کی تعمیر کا دعویٰ کیا ہے ان کی بڑی تعداد سرے سے موجود ہی نہیں ہے جو ہیں ان کے لئے مقامی افراد نے زمین، تعمیراتی سامان اور اپنی مدد آپ کے تحت محنت مفت فراہم کی، گریگ کی این جی او صرف اسٹیشنری، کتابوں، اور ٹیچرز کی تنخواہوں کا انتظام کرتی ہے۔
وہ بھی ہر جگہ نہیں۔ بعض پرنسپلز کا کہنا تھا کہ انہیں برسوں سے کوئی مالی تعاون نہیں ملا۔یہ بھی سامنے آیا کہ گریگ خیراتی رقم سے لاکھوں ڈالر اپنے ذاتی سفری اخراجات جن میں چارٹرڈ فلائٹس تک شامل تھیں، اپنے خاندان کے لئے برانڈڈ اشیاء یہاں تک کہ اپنی ذاتی کتاب کی پروموشن پر خرچ کر رہے ہیں جس کے لئے وہ ’نیویارک ٹائمز‘ جیسے مہنگے اخبار میں متعدد پورے صفحہ کے اشتہارات دے چکے ہیں۔ یہی نہیں خیراتی فنڈز سے چالیس لاکھ ڈالر خرچ کر کتاب کی لاکھوں کاپیاں ریٹیل بک اسٹورز سے دوبارہ خریدی گئیں۔
اس کے علاوہ ان پرکتاب میں غلط بانیوں کے ثابت شدہ الزامات بھی تھے۔ اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد امریکی ریاست مونٹانا کے اٹارنی جنرل کو گریگ کے خلاف از خود نوٹس لے کر تحقیقات شروع کروانی پڑیں۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ کتاب کی رونمائی کی تقریب کے لئے مارکیٹنگ این جی او کی ویب سائٹ پر ہوتی اور مہنگی ترین چارٹرڈ فلائٹس کا بل وہ نہ صرف مدعوین سے وصول کرتے ہیں بلکہ این جی او کو بھی اس کا بل بھیجتے ہیں اور اس سے بھی دوبارہ یہ رقم وصول کرتے ہیں۔
گریگ کی کہانی
کتاب کے بیان کے مطابق گریگ 1993ء میں پاکستان آیا اور دنیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی کے ٹو تک پہنچنے میں ناکام ہونے کے بعد اکیلا راستہ بھٹک کر شدید تھکاوٹ اور بیماری کی حالت میں شمالی علاقہ جات کے خطے اسکردو کے گاؤں خورپو پہنچ کر بے دم ہو گیا۔ جہاں اسے مقامی بلتی رہائشی نیم بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور اس کے صحت یاب ہونے تک اس کی تیمارداری کرتے رہے۔ مورٹنسن کے بیان کے مطابق ٹھیک ہونے کے بعد ایک دن اس نے دیکھاکہ مقامی بچے زمین پر بیٹھے پڑھ رہے ہیں اور کچھ فرش پر موجود مٹی پر اپنے سبق لکھ رہے ہیں۔
مورٹنسن کا کہنا ہے کہ اس منظر نے اور گاؤں والوں کی خدمت اور تیمارداری نے اسے اتنا متاثرکیا کہ اس نے وہیں فیصلہ کیا کہ وہ ان بچوں کے لئے ایک اسکول قائم کرے گا۔ امریکا واپس آ کرانسانیت کے جذبے سے سرشار، وہ اس اسکول کے لئے فنڈ جمع کرنے میں لگ گیا۔ بالآخر سلیکون ویلی کا جین ہرونی نامی ایک معروف موجد اور بزنس اونر اس اسکول کو اسپانسر کرنے پر راضی ہو گیا لیکن گریگ کا سفر یہاں ختم نہیں ہوا۔1996ء میں انہوں نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے سنٹرل ایشیا انسٹیٹیوٹ ( سی اے آئی ) نامی این جی او قائم کی اور امریکا بھر کے مخیر حضرات، سیاستدانوں، صحافیوں، اوپرا ونفرے جیسے مقبول میڈیا اینکرز، یہاں تک کہ صدر اوباما تک سے رابطہ کیا اور ان سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد مانگی۔
سن2001 ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد گریگ نے افغانستان اور پھر تاجکستان کا بھی دورہ کیا اور وہاں بھی سی اے آئی نامی این جی او کے آپریشن شروع کیے۔ یہ امریکی حکومت اور عسکری حلقوں میں اتنے معروف ہو گئے کہ نائن الیون کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ امریکی افواج کے کمانڈر مائک مولن کو مشاورت دینے لگے یا کم از کم انہوں نے میڈیا کو یہ تاثر دیا۔ ان کی کتاب میں مائک مولن کے ساتھ ان کی ایک تصویربھی موجود ہے۔ یہاں تک کی کہانی انسانی ہمدردی کی داستان ہے، جنگ اور غربت زدہ علاقوں میں اسکولوں کا قیام اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کام کرنے پر اور تعلیم سے محروم بچوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کا عظیم کام کرنے پر امریکی ڈونرز ان سے بہت خوش تھے اور 2010ء تک سی اے آئی کو ملنے والے عطیات بڑھتے بڑھتے 230 ملین ڈالر تک پہنچ گئے۔
’تھری کپس آف ٹی‘ کی غیر معمولی کامیابی
سن 2006 ء میں گریگ مورٹنسن کی پہلی کتاب ’تھری کپس آف ٹی‘ کی اشاعت اور غیر معمولی کامیابی نے انہیں امریکا کے مقبول ترین پبلک اسپیکر کا درجہ دے دیا۔ انہیں پاکستان اور افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے ناگفتہ بہ حالات کی کہانی سننے کے لئے اور ان کی کتاب کی رونمائی کے لئے امریکا بھر میں مدعو کیا جانے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) وجود میں آئی اور لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کرنے کی داستانیں عالمی میڈیا کی زینت بننے لگیں تھیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مفلوک الحال، تعلیم سے محروم بچوں کے ساتھ گریگ کی قد آدم تصویریں اور ان کی حالت زار کا آنکھوں دیکھا حال امریکی عوام پر اتنا اثر کرتا کہ اسکول کے بچے تک اپنا جیب خرچ ان کے حوالے کر دیتے۔
ان کی تنظیم ’سی اے آئی‘ کی ویب سائٹ کے مطابق گریگ ان ایونٹس کی کم از کم فیس 25 سے 30 ہزار ڈالر وصول کرتے۔ ان کی ڈومیسٹک فلائٹس، قیام اور طعام کے اخراجات اس کے علاوہ تھے جو وہ مدعوین سے وصول کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ان دوروں کے لئے عام کمرشل فلائٹس استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ چارٹرڈ فلائٹس کا استعمال کرتے۔ جب ان کے بعض ڈونرز نے اس پر اعتراض کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کوسٹکو(COSTCO )نامی سپر اسٹورز چین کی انتظامیہ نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر یہ پرائیویٹ جہازاستعمال کی اجازت دی ہے، یہ دعویٰ بعد ازاں جھوٹا ثابت ہوا۔
سی بی ایس کے پروگرام کے انکشافات
یاد رہے کہ 2010ء کے دسمبر میں سی بی ایس کا یہ پروگرام جو گریگ کی این جی او کی مالی بے قاعدگیوں اور بد عنوانیوں کے کچھ ثبوت عوام کے سامنے لے کرآیا، امریکی صحافی جان کراکر، امریکی این جی اوز کی نگرانی کرنے والی اور انکو ریٹنگ دینے والی غیر جانبدار تنظیم امریکن فلانتھروپسٹ ایسوسی ایشن ( اے پی آئی) کی غیر جانبدارانہ تحقیقات پر مشتمل تھا۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ جان کراکر خود گریگ کی این جی او سی اے آئی کو ماضی میں 75 ہزار ڈالر کے مالی عطیات دے چکا تھا۔ اس کے علاوہ سابق امریکی صدر اوباما بھی سی اے آئی کو اپنے نوبل پرائز کی رقم سے ایک لاکھ ڈالرعطیہ کر چکے تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق تنظیم کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ سی اے آئی نے ایک سو ستر اسکول تعمیر کئے اور وہ اڑسٹھ ہزار بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتی رہی ہے۔ گریگ امریکی ریاست مونٹانا سے اپنی این جی او چلاتے تھے اور مقامی پاکستانیوں کو غالباً ان ایک ہزار کروڑروپے کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں جو گریگ سارے امریکا میں دورے کر کے اکٹھا کر رہے تھے اس لئے انھیں جو مل جاتا تھا اس پر شکر گزار تھے۔
جان کراکر کا کہنا تھا کہ تنظیم کے ایک عہدے دار نے نام نہ لینے کی شرط پر انہیں بتایا کہ گریگ تنظیمی فنڈ کو اپنے ذاتی اے ٹی ایم کی طرح استعمال کر رہے تھے۔ اے پی آئی کے مطابق این جی او ہر سال اپنی آڈٹ شدہ فنانشل رپورٹ شائع کرنے کی پابند تھی جو وہ مسلسل یاد دہانی پر بھی نہیں کر رہی تھی۔ 2009ء کے نومبر میں رابطہ کرنے تنظیم کے آپریشن ڈائریکٹر جینیفر سایپس نے جواب دیا کہ تنظیم اپنے آڈٹ نہیں کرواتی ہے مگر ہم اپنے وکلاء سے مشاورت کر رہے ہیں اور ابھی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ آڈٹ رپورٹ کب تک شائع ہوگی اور اس میں کون کون سے سال شامل ہوںگے۔ یاد رہے کہ تنظیم کو قائم ہوئے اس وقت تک 13 سال ہو چکے تھے اور وہ ایک ہزار کروڑ پاکستانی روپے جمع کر چکی تھی۔
گریگ کا رد عمل
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اپنی ذاتی کتاب کی رونمائی کی تقریبات کے لئے تنظیم کے فنڈز سے کیوں رقم وصول کرتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ کتاب کی پروموشن سے تنظیم کے لئے فنڈ ریزنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ 2006ء سے2011ء تک امریکی عوام نے تنظیم کو ستر ملین ڈالر (سات سو کروڑ پاکستانی روپے) کے عطیات دیئے جس میں سے کتاب کی پروموشن کے لئے ہم نے صرف گیارہ ملین ڈالر (یعنی ایک سو دس کروڑ پاکستانی روپے خرچ کئے)۔ دلچسپ بات یہ کہ اس میں سے چار ملین ڈالر یعنی چالیس کروڑ روپے سے اس کتاب کی لاکھوں کاپیاں ریٹیل بک اسٹورز سے دوبارہ خریدی گئیں۔ یاد رہے کہ یہ کتب پبلشر سے ڈسکاؤنٹ پر نہیں بلکہ پوری قیمت ادا کرکے ریٹیل اسٹورز سے خریدی گئیں۔ کتاب کی یہ شاندار سیل اور نیو یارک ٹائمز میں فل پیج اشتہارات اسے ’نیو یارک ٹائمز‘ کا بیسٹ سیلر بنانے میں مدد گار ہوئی ہوگی۔
گریگ کو اشاعتی ادارے ’پینگوئن‘ سے جو رائلٹی ملنا تھی اس میں بھی لاکھوں ڈالرکا فائدہ ہوا ہوگا، اسی طرح پینگوئن اور ان بک اسٹورز کو بھی خطیر منافع ہوا ہوگا۔ مگر اس رقم کے فوائد سے وہ بچے محروم رہے جن کی ہمدردی میں یہ مالی عطیات دیئے گئے تھے۔ تنظیمی ریکارڈز کے مطابق اس عرصے میں پانچ ملین ڈالر کتاب کی پروموشن پر مزید خرچ کئے گئے۔ ’بی بی سی‘ کے ایک آرٹیکل کے مطابق تقریباًپچھتر ہزار ڈالر گریگ نے اپنے اور اپنے خاندان کے برانڈڈ کپڑوں اور ذاتی استعمال کی اشیاء کے لئے تنظیمی فنڈ سے وصول کیے۔
تنظیمی ریکارڈز اور ٹیکس ریٹرنز کے مطابق 2008ء میں اسے ایک سو تیس لاکھ ڈالر، 2009ء میں ایک سو چالیس لاکھ ڈالر اور 2010ء میں دو سو تیس لاکھ ڈالر کے فنڈ حاصل ہوئے۔2006ء سے لیکر2011ء تک صرف پانچ سالوں میں اسے کل ستّر ملین ڈالر کے عطیات ملے۔ امریکی قوانین کے مطابق رجسٹرڈ این جی اوز کو ملنے والے عطیات پر حکومت ٹیکس کی چھوٹ دیتی ہے لیکن یہ چھوٹ دراصل تعلیم سے محروم بچوں کے لئے اسکول قائم کرنے کے لئے دی جا رہی تھی،کتابوں کی پروموشن کے لئے نہیں۔ ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال امریکا میں ایک بڑا جرم ہے لیکن ٹھہریں گریگ کی کہانی اتنی سادہ نہیں۔
بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبروں کی تعداد
تفصیلات سامنے آنے پر اے پی آئی کا کہنا تھا کہ یہ بات نا قابل فہم ہے کہ تنظیم کے بورڈ آف گورنرز نے خیراتی رقم سے اتنی بڑی تعداد میں کتاب خریدنے اور اس کی پروموشن پر تنظیمی فنڈز استعمال کرنے کی اجازت کیسے دے دی؟ اے پی آئی نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ اس تنظیم کے صرف تین بورڈ آف ڈائریکٹرز تھے جس میں سے ایک گریگ خود تھا۔ گو فلاحی تنظیموں کو تین ممبرز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز رکھنے کی اجازت ہوتی ہے مگر اس تنظیم کے فنڈ کا دائرہ بہت بڑا تھا۔ اس کی نگرانی کے لئے بقیہ دو ڈائریکٹرز ناکافی تھے۔
اے پی آئی دراصل فلاحی تنظیموں کو ریٹنگ دیتی ہے۔ عام طور سے ریٹنگ اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ تنظیم کے آپریٹنگ اخراجات اس کے انتظامی اخراجات کے مقابلے میں کتنے ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیجئے کہ جن لوگوں کے لئے فنڈ جمع کئے گئے ان پر خرچ کے مقابلے میں انتظامی اخراجات، ڈائریکٹر اورملازمین کی تنخواہیں اور دیگر متفرق اخراجات کتنے ہیں۔
اس تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے انتظامی اخراجات صرف پندرہ فیصد تھے اور باقی پچاسی فیصد کی رقم تنظیم اسکولوں کی تعمیر اور انہیں چلانے پر خرچ کر رہی تھی۔ اس حوالے سے اسکی ریٹنگ بہت اچھی بنتی تھی لیکن2010ء کے جون میں جب اے پی آئی کی بار بار یاد دہانی پر تنظیم نے اپنی آڈٹ شدہ رپورٹ شائع کی تو یہ بات سامنے آئی کہ تنظیم گریگ کے امریکی دوروں کو آپریٹنگ اخراجات میں شمار کرتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پینگوئن پبلشرز کا ذیلی ادارہ وائکنگ ان پبلک ایونٹس کی مینجمنٹ کا ذمہ دار ہوتا تھا اور گریگ کے ہر دورے پر ساڑھے سات ہزار اپنی فیس وصول کرتا تھا۔ یعنی پاکستانی بچوں سے ہمدردی کی ہر تقریب پر گریگ ساڑھے بائیس لاکھ روپے جبکہ پینگوئن ساڑھے سات لاکھ پاکستانی روپے وصول کرتی۔
اے پی آئی کا کہنا تھا کہ سی اے آئی کو دیا جانے والا ہر عطیہ غریب بچوں کی تعلیم پر خرچ ہونے سے زیادہ امریکی عوام کو پاکستانی بچوں کے بارے میں تعلیم دینے پر خرچ ہو رہا تھا۔ اے پی آئی ہی کے مطابق 2009ء کے ٹیکس فارم میں چالیس لاکھ ڈالر امریکی عوام کو آگاہی دینے پر خرچ کے گئے۔یہ بات بھی یاد رہے کہ کتاب کی ایڈورٹائزنگ کی ذمہ داری سی ای اے پر نہیں بلکہ کتاب کا مصنف یا اس کا پبلشر پینگوئن پر تھی جنہوں نے سی ای اے کے فنڈز سے نا جائز فائدہ اٹھایا۔ یعنی اس بہتی گنگا میں صرف مورٹنسن نے ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ پینگوئن پبلشر بھی نہائی۔
صرف 2009ء میں کتاب کی پروموشن کے لئے تنظیمی فنڈز سے17 کروڑ پاکستانی روپے خرچ کئے گئے جبکہ کتاب کے منافع سے حاصل ہونے والی کوئی رقم ان کے ٹیکس پیپرز اور آڈٹ کے مطابق تنظیم کے فنڈ میں نہیں گئی۔ اسی سال گریگ نے ایک سو چالیس لاکھ ڈالر روپے تنظیمی فنڈز سے سفری اخراجات کی مد میں وصول کیے۔
اسکے علاوہ2010ء میں 23 ملین ڈالر کے فنڈز وصول ہوئے جس میں سے اٹھتر لاکھ ڈالر کا خرچ ان کے امریکی دوروں کے حوالے سے دکھایا گیا لیکن ان دوروں سے جو آمدنی ہورہی تھی اس کا کوئی حصہ تنظیمی فنڈز میں نہیں گیا۔ این جی اوز کے ضابطوں کے مطابق فنڈ ریزنگ کے لئے تنظیمی فنڈ استعمال کے جا سکتے ہیں لیکن اس خرچ کو منصفانہ صرف اس صورت میں کہا جاسکتا ہے جب آمدنی خرچ سے قدرے زیادہ ہو جبکہ یہاں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف تنظیمی فنڈ سے اٹھتر ملین ڈالر خرچ کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف ان دوروں سے جو آمدنی ہو رہی تھی وہ گریگ کی ذاتی جیب میں جا رہی تھی۔ اس آمدنی میں کتاب کی سیل سے ہونے والی آمدنی کے علاوہ ایونٹ فیس اور چارٹرڈ فلائٹس سے سفری اخراجات بھی شامل تھے جن کا بل یہ تنظیم اور مدعوین دونوں سے وصول کر رہے تھے۔
کتاب میں غلط بیانیاں اور علماء کے فتوؤں کا جھوٹ
اس کے علاوہ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ انہوں نے اپنی کتاب ’تھری کپس آف ٹی‘ میں بہت واضح غلط بیانیوں سے کام لیا ہے جن کے با عث انہیں انسانی ہمدردی کا چیمپین تصور کر لیا گیا ہے۔ تحقیقات سامنے آنے پر گریگ کتاب میں دیئے گئے واقعات کے بارے میں مسلسل ابپنے بیانات بدلتے رہے لیکن آخرکار انہوں نے تسلیم کیا کہ واقعات اس طرح پیش نہیں آئے تھے جیسے کتاب میں مذکور ہیں۔
کتاب کے آغاز میں انہوں نے کے ٹو کی چوٹی سے اترتے ہوئے راستہ بھٹک کر جس گائوں تک پہنچنے کا دعویٰ کیا تھا، خطے کے جغرافیہ کے مطابق ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ راستے میں برالڈو کا دریا آتا ہے جسے عبور کرنے کا کوئی تذکرہ کتاب میں موجود نہیں۔ دوسرے گریگ کے مقامی بلتی پورٹرز نے بھی ان کے راستہ بھٹکنے کے بیان کی تردید کی۔ گائوں والوں کے مطابق گریگ کتاب میں مذکور دورانیہ میںگائوں میں موجود نہیں تھے۔
اس اختلاف کے حوالے سے ابتدائی طور پرگریگ کاکہنا تھا کہ بلتی گائوں والوں کا وقت کا تصور مغربی وقت سے بہت مختلف ہے اور اسی لئے غلط فہمی کے باعث وہ ایسا کہہ رہے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے اعتراف کیا کہ1993ء کے سفر میں گائوں میں وہ صرف چند گھنٹوں کے لئے ٹھہرے تھے۔ باقی واقعات کسی ایک سفر میں نہیں پیش آئے بلکہ پاکستان کے متعدد مختلف دوروں کے درمیاں پیش آئے اور انہوں نے صرف اختصار کے لئے انہیں ایک سفر میں دکھایا۔
قارئین کو یاد دلادیں کہ مغربی ادبی معیارات کے مطابق اگر آپ فکشن یعنی افسانہ تحریر کر رہے ہیں تو آپ اپنے تخیل سے جو چاہیں تحریر کرسکتے ہیں مگر اگر آپ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ آپ کی کہانی سچی ہے یعنی نان فکشن ہے تو آپ کو سچ لکھنا ہوتا ہے اور سچ کے سوا آپ کچھ نہیں لکھ سکتے۔ اور یہ بھی ایک بہت بڑا جرم تھا جوگریگ سے سر زد ہو چکا تھا۔ کتاب میں گریگ نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ 2003ء میں انہیں فاٹا کے علاقے میں منشیات کے اسمگلروں نے اغوا کر لیا اور لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کے جرم میں ان کے خلاف مقامی علماء نے دو فتوے جاری کیے۔
جان کراکر کی تحقیقات کے مطابق یہ بیان سراسر غلط تھا۔ گریگ کے بیان کے برخلاف یہ ایک پاکستانی لیفٹننٹ کرنل الیاس مرزا (جن کا تعلق بنوں سے تھا) کے دوست کی حیثیت سے وزیرستان کے علاقے بنوں گئے تھے اور وہاں قبائلی روایات کے مطابق ان کی شاندار مہمان نوازی کی گئی تھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نائن الیون کے بعد کے ماحول میں ایسے قصے گھڑنے سے گریگ امریکی عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ مجبور مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے لئے خطرات سے کھیلتے رہے ہیں اور اپنی زندگی دائو پر لگاتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مسلمان بچوں کو تعلیم دینے پرانہیں نائن الیون کے بعد روز امریکی عوام کی طرف سے مخالفانہ ای میل اور دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔
دہشتگردی کا مقابلہ تعلیم سے
گریگ اس دوران امریکی میں اسٹریم میڈیا میں بھی مسلسل مدعو کیے جاتے رہے۔2007ء میں ایک اور معروف امریکی چینل پی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لئے پاکستان اور افغانستان میں تعلیم کو عام کرنا بہت ضروری ہے اور ہم جتنی رقم وار آن ٹیرر پر خرچ کر رہے ہیں اس کا ایک فیصد بھی اگر وہاں تعلیم کی ترقی پر لگائیں تو بہت اچھے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب بلین ڈالر سلفی اسلام اور ملیٹنٹ عسکری اسلام کے فروغ پر لگا رہا ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں موجود25ہزار مدرسوں میں سے ذہین ترین طلبہ کو سعودی عرب اور یمن بھیجا جاتا ہے اور دس سال کی نظریاتی برین واشنگ بعد وہ اپنے گاؤں کے امیر ترین فرد بن کر واپس اپنے علاقوں میں بھیج دئیے جاتے ہیں تاکہ سلفی نظریے کو پروموٹ کر سکیں۔ یہ سو سالہ وہابی انتہا پسندی کا پلان ہے اور ہماری تنظیم سی اے آئی دراصل اس بلین ڈالر سلفی اسلام کی اشاعت کی انڈسٹری کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ منطقی باتیں پڑھے لکھے انسانیت پسند امریکی عوام کو ہی نہیں با اثر سیاست دانوں تک کو متاثر کرتی تھیں۔
انکشافات پر گریگ کا رد عمل اور مصنف کی خود کشی
یاد رہے کہ گریگ نے سی بی سی کو سکسٹی منٹس نامی پروگرام میں انٹرویو دینے سے معذرت کرلی اور اس کے بعد نہ صرف صحافیوں کو ملنے سے انکار کردیا بلکہ اپنی نئی کتاب کی رونمائی کی تقریبات بھی منسوخ کر دیں۔ لیکن2011 میں مونٹانا کے ایک چھوٹے سے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے مانا کے اس کتاب میں درج بہت سے واقعات غلط ہیں مگر اس کا کہنا تھا کہ یہ کتاب لکھنے والے مصنف ڈیوڈ آلیورریلن کی وجہ سے اور اس کے مشورے سے ہوا۔ ایک تکلیف دہ صورت حال اس وقت پیش آئی کہ مقدمہ کی کاروائی کے دوران ریلن نے خود کشی کر لی جبکہ کیس ریلن پر نہیں مورٹنسن پر تھا۔
اٹارنی جنرل کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد این جی او کے بقیہ دو ڈائریکٹرز نے فوری طور پر انہیں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے سے بر طرف کر دیا اور یہ اعلان کیا کہ ہم قانون اور ضابطوں کے مطابق تحقیقات کروائیں گے۔
اس کے فوراً بعد گریگ کے ایک قریبی دوست کو این جی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ جان کراکر نے بعد ازاں ایک اور مضمون میں تحریر کیا کہ نیا ڈائریکٹر پاکستان اور افغانستان کے بارے میں واجبی معلومات بھی نہیں رکھتا، اس کی ساری زندگی واشنگٹن میں گزری ہے اور وہ حال ہی میں امریکی سینٹ انتخابات میں ہالی وڈ اداکار آرنلڈ شوارزنگر کے میڈیا ایڈوائزر کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔
اسکی واحد کوالیفیکیشن گریگ کا قریبی دوست ہونا ہے۔ جان کراکر کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے ڈائریکٹر نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی یہ اعلان کیاکہ شفاف تحقیقات کروائی جائیں گی مگر وہ عملی طور پر پریس اور تفتیشی افسران سے کمپنی کے ریکارڈز کو چھپاتے رہے کہ گریگ کی مالی بد عنوانیاں بے نقاب نہ ہوں۔ یہ بھی یاد رہے کہ گریگ کو معطلی کے دورانیہ میں بھی این جی او کے فنڈز سے تنخواہ ملتی رہی۔
مقدمہ کے لیگل اخراجات اور تنظیمی عطیات
عطیات دینے والوں پر مزید ظلم یہ ہوا کہ این جی او نے گریگ کو قانون سے بچانے کے لئے امریکا کی مہنگی ترین چار قانونی فرمز کی خدمات حاصل کیں۔ ان میں سے ایک فرم ایک گھنٹے کے گیارہ سو ڈالر یعنی پاکستانی ایک لاکھ روپے گھنٹہ سے زائد وصول کرتی رہی۔ جان کراکر کی تحقیق کے مطابق دسمبر2010 سے لے کر دسمبر2011 تک، تنظیم نے اٹارنی فیس میں 17 لاکھ امریکی ڈالر یعنی17 کروڑ پاکستانی روپے گریگ کو قانون سے بچانے کے لئے خرچ کئے۔ کراکر 2012ء کے قانونی اخراجات کنفرم نہ کر سکا۔
ہتک عزت کا دعویٰ نہیں کیا گیا
امریکی قوانین کے مطابق اگر کسی فرد پر کوئی جھوٹا الزام لگایا جائے جس سے اس کی عزت پر حرف آئے یا اسے مالی نقصان ہو تو وہ عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اس صورت میں امریکی عدالتیں ہرجانے کی صورت میں لاکھوں اور کبھی کبھی کروڑوں ڈالر متاثرہ فرد کو دلواتی ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ گریگ نے دو ملین ڈالر کے قریب وکلاء کی فیسیں دینے کے باوجود امریکی چینل سی بی ایس، امریکن فلانتھروپی انسٹی ٹویٹ( اے پی آئی) اور جان کراکر کے خلاف ہتک عزت کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ اس کا عملاً مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان الزامات کا اعتراف کر لیا۔ مونٹانا کے اٹارنی جنرل کی تحقیقات کے مطابق بھی سی بی سی اور جان کراکر کے الزامات کی تصدیق ہوتی تھی بلکہ باقاعدہ قانونی تفتیش سے اس سے بھی بڑی بڑی مالی بد عنوانیاں سامنے آئیں۔
پریس کا کردار
مغربی اخبارات جن میں نیو یارک ٹائمز، نیو یارکر، واشنگٹن پوسٹ، بی بی سی، اور گارڈین جیسے معروف اخبارات شامل ہیں نے اس اسکینڈل کو اپنے صفحات کی زینت بنایا۔ انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیاپر، جس کا شمار دنیا کے سرگرم ترین میڈیا میں ہوتا ہے، اس تمام اسٹوری کے سامنے آنے پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسامہ بن لادن کے بجائے طالبان نے عالمی ولن کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی وڈیو سامنے آئی اور بعد ازاں2012ء میں اس کیس کے عدالت سے باہر حل سے پہلے ملالہ پر حملہ ہوا جسے عالمی شہرت ملی۔
امریکی عدالتی نظام
اس سارے معاملے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ سب کچھ سامنے آ جانے پر بھی گریگ کو کوئی سزا نہیں ہوئی بلکہ اٹارنی جنرل نے گریگ کو عدالت کے باہر اپنی ہی این جی او سے تصفیہ کی اجازت دے دی اور اسے ایک محض ملین ڈالر سی اے آئی کو واپس کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ غیر جانبدار ماہرین کے مطابق گریگ پر کم از کم سات سے تئیس ملین ڈالر کی خرد برد کا الزام تھا اور الزام متعدد غیر جانبدرانہ تحقیقات سے ثابت ہو چکا تھا۔ گریگ نے2012 میں بی بی سی کے مطابق ایک ملین سے آدھی رقم اپنی تنظیم کو یہ کہہ کر واپس کی کے اسکے مالی حالت ایک ساتھ رقم واپسی کی اجازت نہیں دیتے۔
گریگ نوبل پرائز حاصل نہ کر سکا مگر آج بھی سی اے آئی کے معاملات چلا رہا ہے اور مسلسل پاکستان اور افغانستان کے دورے کرتا ہے۔ اس تنظیم کے بورڈز آج بھی ہنزہ اور بلتستان کے علاقوں میں نظر آتے ہیں، اس کی کتابیں آج بھی فروخت ہو رہی ہیں اور بڑی تعداد میں دنیا بھر کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔ کچھ عرصہ قبل راقم کو کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک بک اسٹور کے فیس بک پیج پر ’تھری کپس آف ٹی‘ نامی کتاب کا اشتہار دوسری دو کتابوں کے ساتھ نظر آیا جن کی کل قیمت 1200 پاکستانی روپے وصول کی جا رہی تھی۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کتاب گریگ کی تصویرکشی انسانی حقوق کے ایک چیمپئن کے طور پر کرتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ مقامی بچوں کے ساتھ اس کی متاثر کن تصویروں کے ساتھ آج بھی عطیات کی اپیل کرتی ہے اور اس تنظیم کی اشتہاری مہم انٹرنیٹ کی سپانسرڈ سائٹس پر شدو مد کے ساتھ جاری ہے۔ اور یہ بات یقین سے کی جا سکتی ہے کہ آج بھی وہ لاکھوں ڈالر کے عطیات جمع کر رہا ہو گا لیکن کیا یہ عطیات ان مصارف پر خرچ ہو رہے ہیں یہ معلوم کرنا پاکستانی اداروں کا بھی فرض ہے۔
اب یہ اسکینڈل امریکی عوام کے ذہنوں سے محو ہوچکا ہے۔ لیکن جان کراکر نے مزید تحقیقات کے لئے پاکستانی آڈٹ فرم ایچ بی ایل اعجاز تبسم سے رابطہ کر کے مزید کچھ شواہد بھی پیش کیے۔ جان کراکر کی تحقیق کے مطابق پاک فوج کا ایک ریٹائرڈ افسر بھی جنرل پرویزمشرف دور میں گریگ کی مالی بد عنوانیوں میں اس کا حصہ دار رہا۔ گریگ کی کتاب میں جنرل پرویزمشرف کے ہیلی پیڈ پر اس کی کتاب لکھنے والے مصنف ڈیوڈ اولیور ریلن کی تصویر موجود ہے۔ ایک این جی او چلانے والے کو پاکستانی صدر کے ہیلی پیڈ تک رسائی کیسے ممکن ہوئی؟ یہ بات بھی کم معنی خیز نہیں۔ امریکی عدالت نے اس سارے قانونی عمل کے دوران پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا یا نہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوسکا لیکن میرے علم میں ہے کہ گریگ کے پاکستانی دوست اس اسکینڈل سے واقف نہیں۔
اس تمام قصے سے ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی این جی او کو فنڈ دینے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ محض عطیات مانگنے والوں کی متاثر کن تقریروں اور دعوئوں پر یقین نہ کریں بلکہ اپنے طور پر بھی تحقیقات کریں۔ اس سارے معاملے میں چند اداروں کا کردار بہت معنی خیز ہے۔ اس میں امریکی عدالت، پاکستانی این جی اوز کو لائسنس دینے کے ذمہ دار ادارے، نوبل پرائز نامزد کرنے والی کمیٹی کے علاوہ خود پاکستانی میڈیا بھی قابل ذکر ہے۔ یہ بات واضح کر دیں کہ گریگ مورٹنسن سے ان کا موقف جاننے کے لئے چھ ماہ قبل کچھ مشترکہ پاکستانی دوستوں اور دیگرذرائع سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب نہ ملا۔
(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں جان کراکر کی کتاب Three Cups of Deciet، عالمی میڈیا میں چھپنے والی رپورٹس، امریکن فلانتھروپسٹ ایسوسی ایشن کی رپورٹ، گریگ کی این جی او کی 2014 کی رپورٹ اور ان کی ویب سائٹ سے استفادہ کیا گیا )
The post پاکستان میں غیر ملکی این جی او کے فراڈ کی ہوشربا داستان appeared first on ایکسپریس اردو.