قیام پاکستان کے فورا بعد ہی پا کستان میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں پارلیمنٹ میں آبادی کے اعتبار سے پارلیمانی جمہوریت کے تحت اراکین کی نشستوں کی تعداد کو 1955 ء میں ہی برابری کے اصول کو اپنایا گیا تھا اور ہمارے ہاں تمام علاقوں اور صوبوں کو یک جا کر کے ایک ون یو نٹ بنا دیا گیا حالانکہ مشرقی پاکستان کی آبادی ہمارے تمام علاقوں اورصوبوں سے زیادہ تھی۔
یہ صورتحال 1956 ء کے آئین اور پھر اس کے بعد ایوبی اقتدار میں ان کے صدارتی آئین 1962ء کے تحت بھی جاری رہی۔ اس میں بھی وفاقی بجٹ میں دونوں یونٹوں میں مالی وسائل کی تقسیم ملازمتوں میں حصہ داری کے تناسب جیسے مسائل بنیادی طور پرایسے مسائل تھے کہ جو دونوں حصوں میں خلیج بڑھاتے چلے گئے اور آخر کار دسمبر1971 ء کا سانحہ رونما ہوا اس کے بعد مغربی پاکستان ، پاکستا ن بنا جس میں ایک نئے صوبے کا اضافہ ہوا جو بلوچستان تھا۔ بدقسمتی دیکھئے کہ قائداعظم نے 1927-29 ء میں سندھ اور خیر پختوانخوا کی طرح بلوچستان کو بھی صوبے کا درجہ دینے کا مطالبہ انگریزوں سے کیا تھا لیکن انگریز نے 1935 کے قانون ہند میں سندھ کو تو بمئی سے الگ کردیا اور خیبر پختوانخوا کو صوبائی درجہ ملا اور اصلا حات کی گئیں مگر بلوچستان کو صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا پھر جب پاکستان بنا تو یہاں دنیا کی بڑی ہجرت ہوئی۔
پھر بھارت کی جانب سے پانی کی اچانک بندش اور فوراً ہی کشمیر کے مسئلے پر دونوں ملکوں میں جنگ اور پھر قائد اعظم آزادی کے بعد 12 مہینے اور28 دن زندہ رہے اور اس مدت میں سے بھی وہ بیمار ی میں شدت پر بلوچستان زیارت میں تقریبا دو مہینے دس دن زیر علاج رہے۔
اس کے بعد بلوچستان مغربی پاکستان کے کوئٹہ اور قلات دو ڈویژنوں کے طور پر رہا اور 1970ء کے عام انتخابات کے موقع پر پہلی مرتبہ بلوچستان کو صو بے کا درجہ دیا گیا اور اس وقت چونکہ ملک میں جنرل یحییٰ خان کا مارشل لا تھا اس لیے یہاں اس وقت لیفٹیننٹ جنرل ریاض احمد کو پہلا صوبائی گورنر بنا یا گیا اور اس کے بعد 1972ء میں جب پہلے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی پہلی حکومت بنی تو پہلی مرتبہ یہاں کے احساس محرومی کی کچھ جھلکیاں سب کے سامنے آئیں کہ جب ون یونٹ میں بلوچستان مغربی پاکستان کا حصہ رہا تو ملک کی معاشی، اقتصادی ترقی میں یہ علاقہ ملک کا سب سے پسماند ہ حصہ تسلیم کیا گیا ، صوبے کے پہلے دو صوبائی بجٹ صوبائی حکومت بننے سے قبل آئے۔
مالی سال 1970-71 ء کل حجم 39 کروڑ 56 لاکھ 7 ہزار تھا، اس کے بعد مالی سال 1971-72 کا کل حجم 33 کروڑ 42 لاکھ 35 ہزار تھا، اس کے بعد پہلی منتخب صوبائی حکومت بر سر اقتدار آئی جس نے اپنا پہلا بجٹ پیش کیا جس کا حجم 15 کروڑ 45 لاکھ 54 ہزار تھا جس کا خسارہ 8 کروڑ 29 لاکھ تھا جسے وفاقی حکو مت نے ادا کرنا تھا۔ یہ بجٹ صوبائی وزیر خزانہ احمد نواز بگٹی نے پیش کیا تھا ۔
ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت نے 1973 ء کا پارلیمانی آئین دیا، اس آئین میں جہاں جمہوریت کے فروغ اور عوام کی بہبو د کے وعدے کئے گئے تھے وہاں صوبوں کے حقوق خصوصاً اقتصادی اور مالی حقوق کے تحفظ کے لیے بھی ایسے آرٹیکلز رکھے گئے جن کے تحت صوبوں کے درمیان وفاقی حکومت کے محاصل میں وفاق اور صوبوں کے حصوں کا تناسب اور پھر تما م صوبوں کے درمیان ان محاصل کی تقسیم کا تناسب اور طریقہ کار طے کیا گیا۔
یوں 1973 ء کے آئین کے مطابق ،،Council of Common Interest ،، مشترکہ مفادات کی کونسل اور اس کے اجلاس میں صوبوں کے وزرا اعلی،ٰ وزرا خزانہ، وزیر اعظم ، وفاقی وزیر خزانہ اور ان سے متعلقہ اعلیٰ افسران مقررہ مدت میں سالانہ چند اجلاس میں صوبوں سے متعلق مالیاتی اقتصادی مسائل کو حل کرنے کی کوششیں کر ینگے۔ اس طرح اس آئین میں صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے فارمولے کو این ایف سی ایوارڈ کے نام سے نافذ العمل کیا گیا جس میں وفاق کی جانب سے وصول کئے جانے والے محاصل کی پہلے صوبوں اور وفاق کے درمیان تقسیم کا تناسب اور پھر جو حصہ صوبوں کا ہو اسے صوبوں کے درمیان تقسیم اور اس تقسیم کا تناسب طے کیا گیا۔
یہ 1973 ء کے آئین میں ایک ایسا طریقہ کار ہے جس میں حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے آپس میں صوبوں کے درمیان اور وفاق اور صوبوں کے درمیان مسائل کو پیدا ہونے سے قبل ہی حل کرنے کی حکمت عملی کو اولیت دی گئی تھی، قومی مالیاتی ایوارڈ کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا تھا کہ یہ ایوارڈ ہر پانچ سال بعد وفاق اور صوبوں اور پھر صوبوں کے درمیان طے پائے گا، یوں پہلا قومی مالیاتی ایورڈ 1973 ء کی آئین کے صرف ایک سال بعد 1974ء میں آیا دوسرا ایوارڈ 1979ء تیسرا 1985ء چوتھا 1991 ء میں پانچواں این ایف سی ایوارڈ1995 ء میں چھٹا قومی مالیاتی ایوارڈ1997 ء میں آیا، اس کے بعد اکتوبر 1999 ء میں صدر جنرل پرویز مشروف کے اقتدار میں آنے کے بعد این ایف سی ایوارڈ تو نہیں آیا البتہ اسی کو ایک نیا نام صدارتی حکمنامہ’’ ڈسٹری بیوشن آرڈر 2006 ء ‘‘دیا گیا اور اس کے بعد آخری قومی مالیاتی ایوارڈ 2010 ء آیا تھا ۔
1972 ء میں جب طویل عرصے کے بعد ملک میں پارلیمانی جمہوریت بحال ہوئی تو اس وقت مشرقی پاکستان اپنے 147570 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ بنگلہ دیش میں تبدیل ہو گیا تھا اور مغربی پاکستان اپنے 797095 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ پاکستان بن گیا اور اس میں آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ پنجاب تھا اور بلوچستان 347190 مربع کلو میٹر رقبے کے ساتھ رقبے کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بن گیا لیکن آئین میں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں میں محاصل کی تقسیم کا تناسب تقریبا نصف نصف تھا اور صوبوں کے درمیان ان محاصل کی تقسیم آبادی کے تناسب پر تھی، یوں جب صوبے کے پہلے وزیر اعلیٰ سردار عطا اللہ مینگل کی حکومت برسر اقتدار آئی اور اس نے اپنا پہلا صوبائی بجٹ مالی سال 1972-73 دیا جس کا حجم 15 کروڑ 88 لاکھ اور خسارہ 8کروڑ 29 لاکھ تھا تو اسی وقت سے یہ سولات اٹھنے لگے کہ اگر این ایف سی ایوارڈ میں صوبوں میں محاصل کی تقسیم کا تناسب صرف اور صرف آبادی کی بنیاد پر ہی رہا تو بلوچستان کی پسماندگی قیامت تک دور نہ ہوسکے گی۔
واضح رہے کہ 1973ء کا پارلیمانی آئین 1956 ء کے ایک ایوانی آئین کے مقابلے میں دو ایوانی آئین ہے اور اس میں قومی اسمبلی کے ساتھ سینٹ کو بھی قانون سازی میں شریک قرار دیا گیا ہے، مگر سینٹ کی جانب سے بجٹ کی منظوری لازمی نہیں اس زمانے میں بلوچستان اور خیبر پختونخوا دونوں صوبوں میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی مخلوط صوبائی حکومتیں تھیں اور ان دونوں صوبوں کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ چونکہ قومی اسمبلی کے مقابلے میں سینٹ میں چاروں صوبوں کی نمائندگی برابر ہوتی ہے اس لیے اسے زیادہ اختیارات دئیے جائیں، خصوصاً بجٹ کی منظوری اس سے ہو لیکن اس وقت این ایف سی ایوارڈ اور مشترکہ مفادات کی کونسل کی مشاورت آئین کے وہ آرٹیکلز تھے جو ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدار میں موثر انداز میں قابل عمل بھی تھے اور آئین کا نفاذ بھی نیا نیا تھا۔
اس لئے ان دنوں صوبوں کو یہ یقین تھا کہ مالیاتی اور اقتصادی معاملات میں ان صوبوں کو ان کے حقوق ملیں گے مگر بد قسمتی سے 1972 ء میں قائم ہونے والی بلو چستان کی پہلی صوبائی حکومت کو بھٹو نے تو ڑ دیا جس پر صوبہ خٰیبر پختونخوا میں نیپ اور جمعیت علما اسلام کی حکومت جو وزیر اعلیٰ مفتی محمودکی سربراہی میں قائم تھی اس نے استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد بلوچستان میں حکومت کے خلاف شدید ردعمل سامنے آیا لیکن بھٹو نے صوبے میں اپنی مر ضی کی صوبائی حکومت تشکیل دیدی اور پھر اس حکومت کو اتنے ترقیاتی فنڈز ملتے رہے کہ صوبے میں کو ئی مالیاتی بحران رونما نہیں ہوا۔ ان کے دور میں بلوچستان میں روزگار اور پیداوار کی فراہمی کو مد نظر رکھتے ہوئے ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے جن میں کراچی کے نزدیک ضلع لسبیلہ میں حب، وندر اور اوتھل میں انڈسٹریل زون قائم کئے گئے اور یہاں بہت سے صنعتی یونٹ لگئے گئے اسی طر ح کوئٹہ میں سرکی روڈ پر بھی ایک اندسٹریل یونٹ قائم کیا گیا جس میں گھی کے کارخانے کے علاوہ روٹی پلانٹ ،دوسری صنعتیں لگائی گئیں ۔
ضلع لسبیلہ ہی میں کراچی سے نزدیک اس وقت ایشیا کی سب بڑی شپ بریکنگ انڈسٹری لگا ئی گئی، اسی طرح ایران کی مالی معاونت سے کوئٹہ بلیلی اور اوتھل دو ٹیکسٹائل فیکٹریاں لگائی گئیں ۔ بلوچستان کی پہلی یونیورسٹی نے باقاعدگی سے کام شروع کردیا ۔ بولان میڈیکل کالج قائم کیا گیا اور چین کے تعاون سے پاک ایران سرحد پر تفتان کے قریب سندک کے مقام پر تانبے ، چاندی اور سونے کے ذخائردریافت ہوئے اور کان کنی شروع ہوئی۔
بلوچستان کے صوبہ بننے کی وجہ سے یہاں تمام صوبائی محکمے اور ان کے ہیڈ آفس قائم ہوئے صوبائی سول سیکرٹریٹ وجود میں آیا، اس وقت بلوچستان کی کل آبادی 22 لاکھ تھی اور پہلی صوبائی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 23 تھی، یوں صو بہ بننے پر واقعی صوبے میں روز گار اور پیداور میں اضافہ ہوا تھا اور بے روزگاری نہ ہونے کے برابر تھی لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ اس پانچ، چھ سالہ دور حکومت کے بعد 90% کارخانے بند ہوگئے اور ترقی کے نام پر ناقص منصوبے بنتے رہے۔
2000 ء تا 2005 ء اگرچہ گوادر منصوبہ شروع کیا گیا لیکن اسی دوران بڑے المیے بھی رونما ہوئے۔ اس دور میں بس یہ ہوا کہ ایران کے تعاون سے جو ٹیکسٹائل ملیں کوئٹہ اور اوتھل میں لگائی گئیں تھیں ان کے علاوہ کوئٹہ کے سردار بہادر خان ریلوے ٹی بی سینٹوریم کی عمارتوں کو تین یونیورسٹیوں میں تبدیل کر دیا گیا ، میرانی ڈیم اور سپکزئی ڈیم اور کیرتھر کینال کے منصوبے شروع کئے گئے، اسی دور میں بوستان سے ژوب جانے والی نیروگیج ریلوے لائن جو 1985ء میں بند کردی گئی تھی، اس296 کلو میٹر لمبی ریلوئے لائن کو براڈ گیج ریلوے لائن بنانے کے لیے پی سی ون بھی تیار کرلیا گیا جس پر لاگت کا تخمینہ ایک کروڑ روپے فی کلو میٹر تھا، یوں کل لاگت 2 ارب96 کروڑ روپے تھی مگر اس کے لئے وفاق کی جانب سے فنڈز جاری نہیں کئے گئے ۔
جمہوری جدوجہد کے بعد پورے ملک کی طرح بلوچستان میں بھی 2008 کے عام انتخابات کے بعد صوبا ئی حکومت قائم ہو ئی، اس دور تک وفاق اور صوبوں کے درمیان محاصل کی تقسیم کے اعتبار سے 2006 ء کا صدارتی حکمنامہ ’’ڈسٹری بیوشن آڈر‘‘ این ایف سی ایوارڈ کی طرح سے آچکا تھا۔ اس کے بعد 2010 ء میں آئین کی اٹھارویں ترمیم ہوئی جو آئینی لحاظ سے ایک بہت بڑی پیش رفت تھی۔ واضح رہے کہ 1973ء کے آئین میں زیادہ صوبائی خود مختاری کے لیے دس سال کی مدت طے کی گئی تھی یعنی جو اختیارات صوبوں کو 2010 ء میں دئیے گئے وہ آئینی وعدے کے مطابق 1983ء میں مل جانے چاہئیں تھے مگر اس وقت مارشل لاء حکومت کی وجہ سے آئین معطل رہا۔
یوں یہ ادوار ایسے تھے جن میںترقیاتی منصوبہ بندی کی گئی مگر اس دوران پہلے قدرتی آفات نے بلو چستان کو دبوچا، 1997 ء سے 2004 ء سات سالہ شدید اور طویل ترین خشک سالی رہی اور اس کے بعد غیر قدرتی آفات کی صورت رہی یعنی امن و امان کے اعتبار سے بحران بڑھتا گیا۔ 2008 ء کے انتخا بات کے بعد جمہوری اور آئینی طور پر کوششیں شروع ہوئیں۔ یوں2010 ء میں آئین کی اٹھارویں ترمیم کے بعد ہی ساتواں قومی مالیاتی ایوارڈ آیا جس میں صرف آبادی کی بنیاد پر قابل تقسیم محاصل کے تناسب کی جگہ نیا فارمولہ یہ طے پایا کہ آبادی کی بنیاد پر تناسب کی شرح 82.0%، غربت و پسماندگی 10.3%، ٹیکس وصولیاں 5.0% اور رقبہ اور گنجا نیت کی نیاد پر شرح تناسب 2.7% ہوا۔ واضح رہے کہ 2006 ء کے ڈسٹری بیوشن آڈر کے تحت پہلے ہی، مرحلہ وار وفاق کا حصہ کم ہو کر 46.5% اور صوبوں کا حصہ 57,5% کے تناسب سے طے پا گیا تھا۔
یوں 2010 ء سے 2013-14 ء کے مالی سالوں میں بلوچستان کی صوبائی حکومت مالی اعتبار سے قدرے بہتر پوزیشن میں رہی کہ اس تک صوبائی خود مختاری کے مر احل جاری تھے اور ملازمین اور محکموں کا پورا بوجھ مالی لحاظ سے صوبوں پر نہیں پڑا تھا لیکن اس کے بعد صوبے کو نئے مسائل کا سامنا کر نا پڑا کہ اب تعلیم، صحت، امن و امان، زراعت، صنعت،غرض تمام شعبوں کی تمام مالی اور انتظامی ذمہ داریاں اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں پر ہیں، بلوچستان کی بطور صوبہ تشکیل کے بعد 1972ء سے آج تک تما م صوبائی حکومتیں مخلوط صوبائی حکومتیں رہی ہیں اور خصو صاً 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد جب اراکین پارلیمنٹ کو صوابدیدی فنڈز دئیے جانے لگے تو صوبائی بجٹ سازی اراکین کے اپنے حلقوں کی بنیاد پر، ووٹ بنک کی بنیادوں پر فنڈز کی تقسیم کے حوالے سے تقریبا ہر صوبائی بجٹ پر مسائل پید اہونے لگے اور بلوچستان میں تعمیر وترقی کے مربوط عمل کو جن وجوہات کی بنیاد پر نقصان پہنچتا رہا ہے ان میں ایک بڑی وجہ یہ ہے۔
2013 ء کے عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں صوبائی حکومت کی تشکیل کے فوراً بعد ہی مالی سال 2013 -14 ء کا بجٹ جب پیش کیا جانا تھا تو بہت اُ جلت میں تین رکنی کابینہ تشکیل دے کر صوبائی بجٹ منظور کیا گیا تھا اور اس مالی سال یعنی 2013-14 کے بجٹ کا حجم 1 کھرب 98 ارب روپے تھا اور مالی خسارہ 8 ارب روپے تھا اس بجٹ سے قبل مری معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ پہلے ڈھائی سال کی مدت کے لیے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور بعد کی ڈھائی سالہ مدت کے لیے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری ہوںگے، یوں ان پانچ برسوں میں پہلے تین صوبائی بجٹ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مخلوط صوبائی حکومت نے پیش کئے اور پھر دو صوبائی بجٹ نواب ثنا اللہ زہری کی وزرات ا علیٰ کے دور میں پیش کئے گئے اور اب تقریبا پانچ ماہ سے میر عبدالقدوس بزنجو صوبائی وزیر اعلیٰ ہیں۔
دوسرے بجٹ مالی سال 2014-15 ء کا حجم 2 کھرب 15 ارب روپے تھا جس میں خسارہ 15ارب 66 کروڑ تھا، تیسرے بجٹ مالی سال 2015-16 کا حجم 2 کھرب 43 ارب روپے تھا اور خسارہ 26 ارب روپے تھا، چوتھے بجٹ مالی سال 2016-17 ء کے مالی سال کا کل حجم 2 کھر ب 82 ارب روپے اورخسارہ 36 ارب 48 کروڑ روپے تھا۔ مالی سال 2017-18 ء کا پانچواں صوبائی بجٹ 3 کھرب 28 ارب روپے کا تھا جس کا خسارہ 52 ارب روپے تھا اور یہ بجٹ جو آئندہ مالی سال یعنی 2018-19 کا ہے جس کا آغاز یکم جولائی 2018 کو ہوگا اور اختتام 30 جون 2019 ء کو ہوگا۔ یہ وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی صوبائی حکومت نے پیش کیا ہے۔
جس کا حجم 3 کھرب 52 ارب روپے اور خسارہ 61 ارب روپے سے زیادہ ہے۔ یہ صوبائی بجٹ پروگرام کے مطابق 11 مئی 2018 ء کو صوبائی اسمبلی میں پیش کیا جا نا تھا ہم سب اسمبلی پہنچے مگر عین وقت پر بجٹ اجلاس ملتوی کر دیا گیا اور وجہ یہ بتائی گئی کہ بعض تکنیکی غلطیوں کے باعث یہ تاخیر کی جا رہی ہے جب کہ حزب اختلاف نے یہ الزامات عائد کئے کہ وزیر اعلیٰ میر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت کے وزرا اور اراکین میں فنڈز کی تقسیم پر اختلافات ہیں، بہر حال یہ صوبائی بجٹ پھر 14 مئی 2018 ء کو پیش کیا گیا۔ یہ بجٹ صوبائی مشیر خزانہ برائے وزیر اعلیٰ محترمہ ڈاکڑ رقیہ سعید ہاشمی نے پیش کیا جس کی اجازت اسپیکر صوبائی اسمبلی محترمہ راحلیہ حمید درانی نے دی۔
اس بجٹ میں وفاقی بجٹ کی طرح سرکاری مالازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں میں 10% اضافے کا اعلان کیا گیا اور مالی سال 2018-19 ء کے دوران 8000 نئی ملازمتیں فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ اس موقع پر اس بات کی خوشی ہوئی کہ متحرمہ رقیہ سعید ہا شمی نے یہ بتا یا کہ بلوچستان پبلک سروس کمیشن کے چیرمین،، متھ کیلاش ناتھ کوہلی،، جو نہایت اعلیٰ شہرت کے حامل ہیں ان کے عہدے کی مدت میں حکومت نے توسیع کردی ہے تاکہ آئندہ بھی ملازمتوں کے حصول میں میرٹ اور شفافیت کو برقرا ر رکھا جاسکے ۔ صوبائی حکومت نے تعلیم پر سب سے زیادہ توجہ دی ہے اور اس مد میں سب سے زیادہ رقوم مختص کی ہیں جو 43.9 ارب روپے ہیں۔ بلو چستان میں تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے لیے ہائی اسکولوں میں سے بہت سے ہائی اسکولوں کو ہائر سکینڈری اسکولوں کا درجہ دیا جا رہا ہے جبکہ تیس کالجوں میںاب چار سالہ بی ایس پروگرام شروع کیا گیا ہے۔ اندرون بلوچستان کالجوں میں لیکچراز اور پروفیسروں کے لیے بیچلر لاجز 30 کالجوں میں تعمیر کیئے جائیں گے۔
100 سے زیادہ نئے اسکول تعمیر ہونگے اور اتنی ہی تعداد میں پرائمری اسکولوں کو مڈل اور مڈ ل کو ہائی کا درجہ دیا جائے گا ، بجٹ میں امن وامان کے لیے 34 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں اور یہ بھی اعلان کیا گیا ہے کہ سکیورٹی اہلکاروں کے لیے 12 ارب روپے کا اسلحہ خریدا جائے گا ، سی پیک منصوبوں کے لیے اسپیشل پروٹیکشن یونٹ پروگرام کے تحت ہزاروں نوجوانوں کو لیویز اور پولیس میں بھرتی کیا جائے گا ،کوئٹہ میں پینے کے پانی کی قلت کے لیے مانگی ڈیم کے علاوہ ایک بار پھر اس بجٹ میں بھی40 ارب روپے کی لاگت سے شروع کئے جانے والے اس منصوبے کی بات کی گئی ہے جس کے تحت کوئٹہ سے 230 کلو میٹر دور پٹ فیڈر نہر سے پانی کو ئٹہ شہر پہنچا یا جائے گا ، نوحصار ،کچلاک،قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ ،موسیٰ خیل اور قلات میں چھ ڈیمز کی تعمیر اور500 واٹر سپلائی اسکیموں کو شمسی توانائی پر منتقل کرنے کا اعلان بھی کیا گیا ، بجٹ میں محکمہ آبپاشی کے لیے 2.8 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ،گوادر میں پانی کی فراہمی کا وارٹ کے مقا م پرپلانٹ کی بحالی کے جاری کام کے لیے 8.3 ارب روپے بھی مختص کئے گئے ہیں۔
جرنلسٹ ویلفر فنڈکو 200 ملین روپے کرنے کے علاوہ کوئٹہ پریس کلب اور ہاکرز کے لیے بھی فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔ ا س صوبائی بجٹ میں ثقافت اور سیاحت کے شعبے میں صوبائی سیکرٹری ظفر بلیدی کی کوششیں کامیاب رہیں جنہوں نے بلوچستان میں اس صوبے کی ثقافت اور سیاحت پر توجہ مبذول کراتے ہوئے غیر ترقیاتی مد میں 19.8 کروڑ روپے مختص کر وائے ہیں، اس وقت صوبے میں سیاحت کے فروغ کے 60 سے زائد تفریحی مقا مات کی نشاندہی کی گئی ہے، یوں مجموعی طور پر بلوچستان کا یہ صوبائی بجٹ مالی سال برائے 2018-19 ء ایک متوازن اور قدرے کم خسارے کا بجٹ ہے اور اس اعتبار سے اس صوبائی بجٹ کو عوام دوست بجٹ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس میں تعلیم، صحت، سماجی بہبود، ترقی نسواں کے لیے بھی گذشتہ مالی سالی کے مقابلے میں زیادہ رقوم ر کھی گئی ہیں۔
یہ بجٹ اس اعتبار سے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اس میں حالیہ حکومت کا کو ئی زیادہ مفاد نظر نہیں آتا کیونکہ اس بجٹ میں سے کچھ حصے کو اب عام انتخابات سے قبل قائم ہونے والی نگران حکومت استعمال کرے گی اور باقی رقوم آئند ہ منتخب ہوکر آنے والی صوبائی حکومت استعمال کر سکے گی، وزیر اعلیٰ کی مشیر خزانہ محتر مہ رقیہ سعید ہاشمی نے اپنی بجٹ تقریرمیں ریکو ڈیک منصوبے کے حوالے سے یہ بھی کہا کہ اس اعتبار سے صوبائی حکومت انٹر نیشنل آ بریٹری میں بھی جائے گی اور اپنے وسائل کے دفاع کی کوشش کرے گی۔ یوں یہ وہ کوششیں ہیں جن کا آغاز ڈاکٹر عبدالمالک نے کیا تھا، اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاقی حکومت اس سلسلے میں بلوچستان کی کتنی مدد کرتی ہے ۔
بلوچستان کے بارے میں یہ بھی پھر ایک مرتبہ کہا گیا کہ یہ صوبہ رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کا رقبہ ملک کے کل رقبے کا تقریبا 44% ہے اور اس صوبے کے پاس ملک کے کل ایک ہزار کلو میٹر ساحل میں 775 کلو میٹر طویل ساحل ہے۔ اس بار وفاقی سطح پر ملک کا 70 واں وفاقی بجٹ مالی سال 2018-19 ء پیش کیا گیا اور صوبائی سطح پر بلو چستان کا 38 واں صوبائی بجٹ تھا ، مگر بد قسمتی سے ملکی سطح پر بھی بجٹ خسارہ ماضی کے مقابلے میں زیادہ تھا اور صوبائی سطح پر بھی خسارہ بڑھا ہے۔ اس بار ملک میں بجٹ کی آمد سے قبل روپے کی قدر میں بھی ماضی قریب کے مقابلے میں بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے اور امریکی ڈالر کی قیمت 119 روپے سے زیادہ ہو چکی ہے۔ یوں صوبائی سطح پر بھی قرضوں کا حجم اور بوجھ بڑھ گیا ہے۔
یہ تلخ حقیقت سامنے ہے کہ نہ تو تنخواہوں میں اضافے سے سر کاری ملازمین کی قوت خرید میں کوئی قابل ذکر اضافہ ہو گا اور نہ ہی غر بت کی موجودہ شرح تناسب اور شدت میں کوئی زیادہ کمی نظر آئے گی۔ یہ چونکہ موجودہ وفاقی اور صوبائی حکو متوں کی جانب سے آخری بجٹ ہے اس لیے اب الیکشن میں جن عوامی مسائل کے حل کرنے کی بات ہوگی اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کو اپنا پروگرام دینا ہوگا۔ یہ حقیقت ہے کہ 2008 ء سے 2018 ء کے دس برسوں میں سیاسی جماعتوں نے صوبائی خومختاری اور حقوق کے لحاظ سے اہم آئینی اور جمہوری کامیایاں حاصل کیں مگر یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ صوبائی سطح پر 1972-73 ء کی پہلی عوامی منتخب صوبائی حکومت کے قیام سے اب تک رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کو بجٹ سازی میں مالیاتی مسائل کا سامنا رہتا ہے کبھی اسے وفاق کی جانب سے خصوصی پیکج دیکر بہلا یا جاتا ہے اور کبھی میگا پروجیکٹ کے طویل مدتی خواب دکھا ئے جاتے ہیں ۔ اس بجٹ میں صوبائی مشیر خزانہ نے یہ بھی بتا یا کہ صوبے کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد 15 لاکھ ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پندرہ لاکھ آبادی کو اس وسیع رقبے اور وسائل سے مالا مال صوبے میں روز گار فراہم نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ان انتخا بات میں ماضی کی طرح بڑا سوال ہو گا۔ اس لیے ابھی سے سیاسی جماعتوں کو حقائق کی بنیادوں پر مستقبل کے لیے لائحہ عمل اور انتخابی منشور دینا چاہیے۔ یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان کی بیروزگاری اور غر بت کی شرح تو زیادہ ہے لیکن کم آ بادی کی وجہ سے اس کا حجم یا تعداد بہت کم ہے اور ایک بہتر اقتصا دی منصوبہ بندی سے ان مسائل کو مستقبل قریب میں آسانی سے چار پانچ سال کی مدت میں حل کیا جا سکتا ہے۔
The post بلوچستان اقتصادی اور مالیاتی مسائل کا شکار کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.