زندہ قومیں اپنی تاریخ و ثقافت کی حفاظت کرتی ہیں، جس کی بنا پر ان کے مہذب و متمدن ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ قوموں کی اپنی تاریخ و ثقافت سے محبت انہیں جدت اور راہ نمائی فراہم کرتی ہے۔ مہذب قوموں کا قومی ورثہ ان کی پہچان اور ان کے لیے قابل فخر ہوا کرتا ہے۔
کسی بھی علاقے کی ثقافت اپنے اندر گہرے سمندر کی طرح ہوتی ہے۔ اگر اس سمندر کو کھنگالا جائے تو اس کی گہرائی میں سے قیمتی سیپیں اور ہیرے موتی برآمد ہوتے ہیں ۔ ہماری ثقافت ہماری شناخت ہے۔ آج کے دور میں مہذب ممالک نے اپنی تاریخ و ثقافت کو اجاگر کرکے معاشی طور پر بھی بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ ان ممالک کی ترقی کی ایک اہم وجہ ان کی اپنی ثقافت پر توجہ اور اس کی بہتر ی کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا ہے۔ سیروسیاحت کو فروغ دے کر بہت سے ممالک کثیر زرمبادلہ حاصل کر رہے ہیں۔
اس تناظر میں بات کرتے ہیں پاکستان میں واقع ایک ایسے قصبے کی جس کا نام سنتے ہی ہر سچے عاشق کے دل کو راحت محسوس ہوتی ہے، جسے شعراء نے اپنا موضوعِ سخن بنایا اور محققین نے اس پر سیر حاصل تحقیق کی۔ وہ قصبہ جہاں دنیا بھر میں مشہور محبت کی سچی داستانوں میں سے ایک منفرد داستان نے جنم لیا، جو اپنے اندر تاریخ و ثقافت کے بیش قیمت خزانے پوشیدہ رکھتا ہے۔ لیکن حالات کی ستم ظریفی اور حکومتی توجہ نہ ہونے کے سبب یہ قصبہ اب صرف عہد رفتہ کی عظیم الشان یاد بن کر رہ گیا ہے، جہاں کے تاریخی آثار اور نقش و نگار حالات اور موسمی تغیرات کا شکار ہوکر مٹتے جارہے ہیں۔
اس قصبے میں قدیم چھوٹی اینٹوں سے بنائی گئی عمارات اور چوبارے دیکھ کر تاریخ و ثقافت کے نئے رنگ اجاگر ہوتے ہیں اور یہ عمارتیں عہدرفتہ کی یاد دلاتی ہیں۔ آج معاشی ناہمواریوں کے سبب اس قصبے کے درودیوار دُکھ بھر ی داستان بن کر رہ گئے ہیں۔
یہ قصبہ دنیا بھر میں مشہور رومانوی لوک داستا ن ہیررانجھا کے مرکزی کردار دھیدو رانجھا کا آبائی مسکن تخت ہزارہ ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تخت ہزارہ پانچ ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ہے، جب کہ صرف بیس سال پہلے اس قصبے کی آبادی 15ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ روزگار کے مواقع اور کاروباری وسائل نہ ہونے اور قصبے کی زبوں حالی کی وجہ سے یہاں کے مکینوں کی اکثریت تلاش رزق کے لیے نقل مکانی کر گئی۔ ضلع سرگودھا کا یہ پُرفضا مقا م تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ضلع کے صدر مقام سے 70کلومیٹر مشرق کی جانب دریائے چناب کے کنارے پر آباد ہے۔ دریا کے پار ضلع حافظ آباد، ضلع گوجرانوالہ اور صرف تین کلومیٹر کے فاصلہ پر ضلع منڈی بہاؤلدین اور ضلع گجرات کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ اس طرح یہ قصبہ چار اضلاع کے سنگم پر واقع ہے۔ مستند تاریخی کتب کے حوالے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بادشاہ بہلول لودھی (1451-1488) کے دور میں اس قصبہ کو آباد کیا گیا۔ مختلف محققین کے مطابق اس کا پرانا نام کھجیانوالہ بھی ثابت ہوتا ہے، جب کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے دور میں اس کا نام جہانگیر نگر بھی رکھا گیا۔ پرانی کتابوں اور تزک بابری میں اس کا نام تخت ہزارہ درج ہے۔
اُس وقت یہ شہر ایک ہزار ایکڑ پر پھیلا ہوا تھا۔ اس کے چار دروازے تھے، جنہیں سیلاب کی تباہ کاریوں نے ختم کر دیا، جن میں سے آج کسی کے بھی آثار موجود نہیں ہیں۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کے نام کے ساتھ ہزارہ کا لاحقہ اس کا رقبہ ایک ہزار ایکڑ ہونے کی بنا پر لگایا گیا۔
موجودہ گاؤں کے چاروں طرف پھیلے ہوئے ٹیلے پرانی قبریں شکستہ مندروں اور پُلوں کے آثار اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ قصبہ کا رقبہ بہت وسیع تھا۔ علاوہ ازیں قصبے کے نزدیک ہندوؤں کی طرف سے بنائی گئی مڑھیاں بھی موجود ہیں، جہاں پر ہندو اپنے مُردوں کو جلایا کرتے تھے۔ مختلف ادوار میں مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر اور شیرشاہ سوری نے بھی یہاں پر قیام کیا اور یہاں سے تاریخی شہر بھیرہ کی طرف کوچ کیا۔ مغلیہ دور میں ایک بزرگ شاہ شہام الدین نامی گزرے ہیں جن کا مزار آج بھی یہاں پر موجود ہے، جہاں پر ہر سال بیساکھی کے پہلے اتوار کو میلہ لگتا ہے، جو علاقے بھر کے لوگوں کے لیے تفریح کا باعث ہے۔
تخت ہزارہ میں قدیم تہذیب کے فن سے مزین چھوٹی اینٹوں سے تعمیر شدہ برج نما مکانات اور چوبارے عہدِرفتہ کی یاد دلاتے ہیں، جو دل کشی اور رعنائی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ ان پر خوب صورتی کے ساتھ نقش ونگار اور بیل بوٹے بنائے گئے ہیں، جو قدیم دور کے کاری گروں کی فن کاری اور چابک دستی کا ثبوت دیتے ہیں۔ اب ان عمارات کی شکست و ریخت کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر اس تاریخی قصبے کے آثارقدیمہ کی تعمیرومرمت اور بحالی کے لیے فوری کوشش نہ کی گئی تو ماضی کی یہ حسین نشانیاں صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لیے معدوم ہوجائیں گی۔
تقریباً 42 سال قبل یہاں ایک قدیمی مسجد موجود تھی جو مسجدمیاں رانجھا کے نام سے مشہور تھی۔ پنجاب کے مشہور محقق طالب بخاری نے 1929ء میں تخت ہزارہ میں قیام کرکے اس قصبے کی تاریخ و ثقافت پر ایک کتاب لکھی، جس میں انہوں نے اس مسجد کے بارے میں بھی لکھا کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مسجد کی طرزتعمیر اور ہیئت سے اندازہ ہوتا تھا کہ یہ مسجد مغلیہ دور کا ایک عظیم شاہ کار تھی۔ مسجد کے بالائی حصے پر ایک چھوٹی سی بارہ دری تھی اور مسجد کے صحن کے باہر وضو خانہ تھا، جب کہ مسجد سے کچھ فاصلہ پر مغل حکم رانوں کی طرف سے بنائے گئے حمام، پانی کی ٹنکیاں اور کنواں بھی موجود تھا، جہاں سے مسجد کو بھی پانی فراہم کیا جاتا تھا۔ چوںکہ آثارقدیمہ کی دیکھ بھال کا کوئی انتظام نہ تھا، اس لیے یہ مسجد بھی زمین بوس ہوگئی۔ تخت ہزارہ کے نواحی موضع میانہ ہزارہ کے رہائشی میاں محمد شفیع (مرحوم) جو مختلف اعلیٰ سرکاری عہدوں پر کام کرتے رہے، انہوں نے اپنی کتاب صدف ریزے (شایع شدہ1989ء) میں تخت ہزارہ کے ثقافتی ورثوں کے ساتھ اس مسجد کا بھی خوب صورتی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ مسجد کے زمین بوس ہونے سے رانجھا کی یہ آخری نشانی بھی ہمیشہ کے لیے معدوم ہوگئی۔
تاریخی حقائق سے پتا چلتا ہے کہ جب مغلیہ دورِاقتدار کا چراغ ٹمٹمانے لگا اور پنجاب میں سِکھوں کی لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تو تخت ہزارہ طوائف الملوکی شکار ہو گیا۔ اس عظیم تاریخی شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔ یہاں کے باسی کثیر تعداد میں شہر چھوڑ کو دوسرے محفوظ مقامات پر چلے گئے۔ عرصۂ دراز تک یہ شہر غیرآباد رہا۔ 1785ء میں لوگ آہستہ آہستہ یہاں پر آباد ہو نا شروع ہوئے۔ عروج و زوال کے مختلف مدارج طے کرنے کے بعد ماضی کا یہ عظیم تاریخی شہر اب سُکڑ کر گاؤں کی شکل میں آباد ہے۔ مختلف مستند تاریخی حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رانجھا جس کا اصل نام دھیدو تھا، بادشاہ بہلول لودھی کے دور میں تخت ہزارہ میں پیدا ہوا۔ اُس کے والد کا نام موج دین عرف موجود تھا۔ موج دین کھیتی باڑی کرتا تھا۔ تخت ہزارہ کی شہرت بھی رانجھا ہی کے دم قدم سے ہے اور ہیر رانجھا کو بقائے دوام بخشنے والے پنجابی شاعر وارث شاہ ہیں۔ انہوں نے اپنے حُسنِ بیان سے ہیر رانجھا کا قصہ پنجابی زبان میں لکھ کر ہمیشہ کے لیے امر کر دیا۔ جو مقبولیت وارث شاہ کی داستان ہیر رانجھا کو ملی وہ کوئی اور پنجابی تصنیف حاصل نہ کر سکی۔ یہاں تک کہ دہلی اور لکھنؤ کے شعراء کو بھی کہنا پڑا کہ
سنایا رات کو قصہ جو ہیر رانجھے کا
تو اہل درد کو پنجابیوں نے لوٹ لیا
وارث شاہ نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف میں جا بجا تخت ہزارہ کا ذکر خوب صورتی کے ساتھ کیا ہے:
اک تخت ہزاریوں گل کیجے، جتھے رانجھیاں رنگ مچایا ائی
چھیل گھبرومست اولڑے نے سندراک تھیں اک سوایا ائی
کوئی حسن دی کوئی کان گمان متی اک دوجے تا انت نہ پایا ائی
والے کوکلے مندراں مجھ لنگی نوا ں ٹھاٹھ تے ٹھاٹھ چڑھایا ائی
ایس ندی چنہاوندے ملک اندر تخت نگر دا نام دھرایا ائی
وارث کی ہزار ے د ی صفت آکھاں جنت ویکھ زمین تے آیا ائی
موجودہ صورت حال کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو حکومتی توجہ نہ ہونے کے باعث یہاں کی تاریخی عمارتیں شکست و ریخت کا شکار ہو رہی ہیں، جنہیں نئی زندگی دینا اشد ضروری ہے۔ تخت ہزار ہ میں داخل ہونے سے پہلے بر لب سڑک ایک نہایت خوب صورت عمارت اپنی آب وتاب کے ساتھ موجود ہے، جو ایک ہندو ڈاکٹر بدری ناتھ جیٹلے کی ملکیت تھی۔ یہ عمارت 1931ء میں تعمیر کی گئی۔ یہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ ڈاکٹر بدری ناتھ نے اپنی تعمیر کردہ اس عمارت کے ساتھ ایک باغ بھی بنوایا تھا، جو آج تک موجود ہے۔ نارووال سے تعلق رکھنے والے معروف محقق احسان باجوہ نے حال ہی میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ تخت ہزارہ کا دورہ کیا۔ ان کی کوشش ہے کہ محکمۂ آثار قدیمہ کے ذریعے تخت ہزارہ کی قدیم تہذیب کا کھوج نکالنے کے لیے مسمارشدہ تاریخی عمارات اور قدیم مسجد کی کھدائی کروائی جائے۔
اگرچہ تخت ہزارہ نہایت زرخیز زمین کا حامل قصبہ ہے اور یہاں کا پُرفضا علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ اس سرزمین کو دریائے چناب کی لہریں اُٹھ اُٹھ کر سلام کرتی ہیں۔ لیکن یہاں کے باسیوں کے معاشی حالات نہایت دگرگوں ہیں۔ جدید ترین سہولیات دست یاب ہونے اور شہروں تک بہ آسانی رسائی ہونے کی بنا پر بیشتر لوگ گاؤں سے شہروں کی طرف نقل مکانی کر چکے ہیں اور اس قصبے کی کاروباری اہمیت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ چناں چہ خدشہ ہے کہ کہیں اپنے منہدم ہوتے آثار قدیمہ کے ساتھ تخت ہزارہ ویران ہوکر ماضی کا حصہ نہ بن جائے، اس لیے ضروری ہے کہ حکومت یہاں کے آثارقدیمہ کو بچانے کے ساتھ قصبے کے لوگوں کو روزگار اور یہاں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کرے۔
ایم اکرم ندیم
The post تخت ہزارہ۔۔۔ گِرتے آثار، مِٹتا قصبہ appeared first on ایکسپریس اردو.