قیام پاکستان پر لاتعداد کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن دو مصنفین لاری کولنز اور دو مینک لاپیرے کی مشترکہ کتاب Freedom at midnight ایک نہایت دلچسپ اور لاجواب کتاب ہے۔
اگر چہ اس میں مصنفین کا قدرے جھکاؤ گاندھی، نہرو اور کانگرس کی جانب ہے مگر پھر بھی اس میں کافی حقائق اور واقعا ت ایسے ہیں جو حیرت زدہ کردیتے ہیںاور قاری اس کا قائل ہو جا تا ہے کہ پاکستان واقعی ایک معجزہ ہے، اس کتاب کا ترجمہ انگریزی سے ہندی ،فرانسیسی اور اردو میں ہو چکا ہے اور ان زبانوں میں اس کے اب تک ڈیڑھ سو سے زیادہ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
مصنفین کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح کو جون 1946 ء میں ان کے خاندانی معالج نے ایکسرے دیکھ کر بتایا کہ ان کے دونوں پھیپھڑ وںپر ٹیبل ٹینس کی گیند کے برابر دو زخم اس شدت کے ہیں کہ وہ ایک سال مشکل سے زندہ رہیں گے۔ ڈاکٹر پٹیل کا کہنا تھا کہ وہ اس اطلاع پر نہیں چونکے، انہیں اپنی ٹی بی کی بیماری کی پوری خبر تھی البتہ انہوں نے ڈاکٹر پٹیل سے یہ وعدہ لیا کہ یہ راز ہی رہے گا اور ڈاکٹر پٹیل نے اس راز کو ان کی موت تک راز ہی رکھا۔
یہ راز، ان کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو بھی پاکستان بننے کے بعد معلوم ہوا۔ کتاب کے مصنفین کا دعویٰ ہے کہ اگر اس کی خبر کانگرس یا وائسرائے لارڈ ماوئنٹ بیٹن کو ہو جاتی تو وہ پاکستان کے قیام کو روک دیتے کہ انہیں یقین تھا کہ قائد اعظم کے علاوہ مسلم لیگ میں اور کوئی شخصیت نہیں تھی جو پاکستا ن بنا سکتی، اور یہ محمد علی جناح کا یقین اور عزم تھا کہ انہوں نے خدا کے فضل وکرم سے پاکستان بنا کردکھا دیا، اسی کتاب میں یہ کہا گیا ہے کہ جب اعلان آزادی سے کچھ روز قبل لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ایک مجمع میں سوال کیا گیا کہ آزادی کی تاریخ کیا ہو گی تو وائسرائے نے جواب دیا کہ 14 اگست، واضح رہے کہ جاپان پر سات اور نو اگست کو امریکا نے ایٹم بم گرائے تھے اور جاپانیوں نے 14 اگست 1945ء کو وائسرائے لارڈ ماوئنٹ بیٹن کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔
وہ 1943-46 میں سپریم الائیڈ کمانڈر ساوتھ ایسٹ ایشیا کمانڈ تھے، یہ خبر جیسے ہی سامنے آئی تو پورے ہندوستان میں ہندؤوں میں کہرام مچ گیا کہ ہندونجومیوں کے مطابق یہ دن ان کے بھارت کے لیے منحوس ثابت ہو گا اور بھارت آزاد ہوتے ہی تباہیوں اور بربادیوں کے سامنے ہو گا ، لیکن 14 اگست 1947 ء کی رات 27 ویں رمضان المبارک نزول قرآن کی رات تھی، یوں مسلمانوں نے خوشی و مسرت کا اظہار کیا۔ 14 اگست1947 کو قائد اعظم کے ساتھ لارڈ ماوئنٹ بیٹن نے قیام پاکستان اور آزادی کی تقریب میں شرکت کرنی تھی۔
دہلی سے کراچی آتے ہوئے جہاز میں سی آئی ڈی کے انگریز آفیسر نے وائسرائے کو بتا یا کہ قائد اعظم کو اس موقع پر قتل کرنے کی سازش کا سراغ نہیں لگا یا جا سکا آپ جناح کو کہیں کہ جلوس کی شکل میںگورنر ہاوس جانے کا پروگرام منسوخ کردیں لیکن ایسا نہیں ہوا۔ مصنفین کا کہنا ہے ہزاروں افراد کا جلوس بہت سست رفتار تھا اور وائسرائے سڑکوں کے کنارے اور ساتھ چلتے ہجوم کو گھبرا ئے ہوئے دیکھ رہے تھے جب جلوس گورنر ہاوس پہنچ گیا تو قائد اعظم نے مسکرا کر لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے کہا خدا کا شکر ادا کریں کہ میں نے آپ کو حفاظت سے یہاں پہنچا دیا ۔
جب پاکستان بن گیا تو اسے ناکام کرنے کے تمام حربے بھارت نے استعما ل کئے۔ آزادی کے تقریبا ڈھائی مہینے بعد 22 اکتوبر 1947 سے جون 1948ء تک پہلی پاک بھارت جنگ ہوئی اور پاکستان نے باوجود محدود وسائل کے آدھا کشمیر آزاد کرا لیا۔ اس وقت چین آزاد نہیں ہوا تھا اور روسی سربراہ اسٹالن سے بھارت کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے 1927 ء سے تعلقات تھے جب انہوں نے لینن کی دعوت پرسوویت یونین کے انقلاب کے دس سالہ جشن میں شرکت کی تھی اور روس سے بھارت کے تعلقات بہت گہرے تھے۔
یوں قائد اعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے لیے سفارتی محاذ پر بھارت روس اور پھر چین اور کسی حد تک افغانستان کا مقابلہ کرنا تھا اور اس کے لیے سوائے امریکا کے اور راستہ نہیں تھا۔ امریکا نے 15 اگست 1947 ء کو کراچی میں اپنا سفارت خانہ کھول لیا تھا اور یہاں 20 ستمبر سے صدر امریکا ہیری ٹرو مین نےPaul H Alling کو باقاعد سفیر مقرر کیا کردیا تھا۔ اس کے بعد 4 مارچ 1949 ء کوH Merle Cochran پھر 2 فروری1950 ء کو Avran M warren پاکستان میں امریکا کے سفیر مقرر ہوئے 17ستمبر1952 ء کو John M Cabot مئی تک سفیر رہے۔
ہیری ٹرومین 12 اپریل 1945 ء سے20 جنوری 1953ء تک امریکا کے صدر رہے جو اس اعتبار سے امریکا کے اہم صدور میں شامل ہیں کہ انہوں نے دوسری جنگ عظیم کے آخری دنوں میں نہ صرف جاپان پر ایٹم بم گرانے کے احکامات دئیے بلکہ مغربی یورپ اور جاپان کی تعمیر نو کے عمل کو نہایت تیز رفتاری سے مکمل کیا اور ساتھ ہی سوویت یونین کے ساتھ سرد جنگ کے آغاز پر پہلے آٹھ برسوں میں دنیا بھر میں امریکی خارجہ پالیسی کو بنا کر اس پر عملدرآمد بھی کیا۔ اس لحاظ سے وہ پاک امریکا تعلقات میں بھی بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کے دور اقتدار میں خصوصا قیام پاکستان کے وقت سے ذرا قبل 21 جنوری 1947 تا 20 جنوری 1949 ان کی کابینہ میں جارج سی مارشل اور اس کے بعد 21 جنوری 1949ء سے 20 جنوری 1953 ء Dean Acheson وزراء خارجہ رہے ، ہمارے ہاں لیاقت علی خان 1947-51 وزیراعظم رہے اور قائداعظم کی وفات کے بعد خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل ہوئے جوکہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد وزیر اعظم اور ملک غلام محمد گورنر جنرل ہوئے جبکہ پاکستا ن کے پہلے وزیر خارجہ سر محمد ظفر اللہ خان تھے جو 27 دسمبر1947 ء سے24 اکتوبر 1954 ء تک وزیر خارجہ رہے، امریکی صدر کے زمانہ اقتدار میں پاکستان کے امریکا میں پہلے سفیر ایم اے ایچ اصفہا نی 8 اکتوبر 1948ء سے 8 فروری 1952ء رہے ان کے بعد محمد علی بو گرا 27 فروری 1952ء سے 16 اپریل 1953ء امریکا میں پاکستان کے سفیر رہے۔
واضح رہے کہ چین کی آزادی کے بعد بھارت چین تعلقات بہت مضبوط اور گہرے تھے، ہند چینی بھائی بھائی کا نعرہ اس وقت خطے کا مقبول ترین نعرہ تھا ، امریکا کے نزدیک پاکستا ن کی اہمت اس لیے بہت زیادہ تھی کہ پاکستان اپنی خاص جغرافیائی پوزیشن کے اعتبار سے بہت اہم ہے، چین، افغانستان، ایران، بھارت سے اس کی سرحدیں ملتی ہیں، بحیرہ عرب پر اس کا ایک ہزار کلو میٹر ساحل خصوصا گوادر کے اعتبار سے خلیج فارس پر اہم ہے جہاں سے عرب ممالک خلیجی ریاستیں قریب ہیں۔ افغانستان، روس ، چین کی سرحد پر واخان سے روس اور سنٹرل ایشیا قریب ہے۔ امریکی صدر نے نہ صرف پاکستان کے قیام کے دوسرے دن ہی ملک کے پہلے دارالحکومت کراچی میں امریکی سفارتخانہ کھول دیا بلکہ یہاں فارن اسٹیٹ آفس کے باقاعدہ اور پیشہ ور اہم افراد کو سفیر تعینات کیا یعنی وہ امریکی دفتر خارجہ کے باقاعدہ افسران تھے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے اور امریکی وزارت خارجہ کے تربیت یافتہ افراد زیادہ تر پاکستان میں سفیر تعینات ہوتے ہیں۔
پاکستان کے قیام کے بعد تقریبا نو ماہ پاک بھارت جنگ رہی اور جب کشمیر میں جنگ بندی ہوئی اور جنگ بندی لائن کے طے پانے کے بعد اقوم متحدہ میں کشمیر کے حوالے سے بھارت کی جانب سے لائی جانے والی قرارداد جس میں کشمیر میں ریفرنڈم کروانے اور کشمیر کے مسئلے کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے کی قرارداد کے منظور ہونے کے بعد جب پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان نے امریکی صدر ٹرومین کی دعوت پر امریکا کا 3 مئی تا 26 مئی1950 تیئس روزہ دورہ کیا تو یہ پاکستان امریکا تعلقات میں اہم مرحلے کا آغاز تھا۔ اگر چہ لیاقت علی خان اپنے ہمراہ اہم اور اعلیٰ ترین سول اور فوجی قیادت سے تعلق رکھنے والے افراد کو اپنے وفد کی صورت میں لے گئے تھے جس طرح صدر ٹرومین کی معاونت پاکستان میں امریکی سفیر اور امریکی وزیر خارجہ کر رہے تھے اسی طرح اس وقت امریکا میں پاکستان کے سفیر ایم اے ایچ اصفہانی اور وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اہم ترین تھے۔
سرد جنگ شدت اختیار کر رہی تھی عالمی افق پر تاریخ کی اہم ترین شخصیات جن میں روس کے اسٹالن ، برطانیہ کے چرچل، فرانس کے ڈیگال، چین کے ماوزے تنگ اور بھارت کے پنڈت جواہر لال نہرو اہم تھے۔ ہمارے قائد اعظم رحلت فرما چکے تھے ان حالات میں امریکا کے صدر سے طویل ملا قاتوں میں اہم عالمی پالیسیوں کی تشکیل اور اس کے تناطر میں پاکستان کے مفادات کو مقدم رکھتے ہوئے اس وقت دنیا کی سپر پاور امریکا کے ساتھ متوازن مستحکم تعلقات تشکیل دینا بہت مشکل تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان اور اصفہانی نے لیاقت علی خان کی بہترین معاونت کی۔
اس موقع پر بھارت سوویت یونین اور ان کے علاقائی دوست ملکوں نے پاک امریکا تعلقات کے خلاف بھر پور، باقاعدہ مہم کا آغاز کیا کہ پاکستان اور امریکا کے یہ تعلقات علاقے کے دیگر ممالک کے خلاف استعمال ہو نگے جب پاکستان اور امریکا کے دفاتر خارجہ اور دونوں ملکوں کے سفیر وزیر اعظم لیاقت علی خان کے دورے اور امریکی صدر کی جانب سے اس دورے کی دعوت اور 23 روزہ دورے کا شیڈول طے کرنے کے مراحل میں تھے تو برطانیہ نے دولت مشترکہ کا ادارہ تشکیل دیا جس میں وہ ممالک شامل ہو سکتے تھے جو آزادی سے قبل برطانیہ کی نو آبادیات رہے ہو ں۔
سوویت یونین بھارت کے حوالے سے یہ نہیں چاہتا تھا کہ بھارت اس تنظیم کا رکن بنے کیونکہ بھارت رقبے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ایک بڑا اور اہم ملک ہے اور اس کی شمولیت سے برطانوی دولت مشترکہ کی اہمیت مستحکم ہونی تھی اس موقع پر سوویت یونین کے اسٹالن نے پاکستان کے وزیر اعظم کو سوویت یونین کے دورے کے لیے کہا ، تاکہ بھارت دباؤ میں آکر دولت مشترکہ میں شمولیت کا ارادہ ترک کردے مگر پنڈت جواہر لال نہرو ایک منجھے ہوئے سیاست دان تھے ان کو اندازہ تھا کہ سوویت یونین بھارت کے مقابلے میں اسلامی نظریے پر قائم پاکستان کو ہر گز فوقیت نہیں دے گا اور ایسا ہی ہوا کہ بھارت برطانوی دولت مشترکہ میں شاملبھی ہوا اور دوسری جانب پاکستان کے وزیراعظم کے دورے کے اعتبار سے جو بیانات سوویت یونین کی جانب سے آئے تھے وہ وہیں تک رہے حالانکہ پاکستانی دفترخارجہ نے چاہا کہ سوویت یونین اس دورے سے متعلق کوئی شیڈول دے لیکن ایسا نہیں ہو سکا اور پھر آج تک بعض حلقو ں سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وزیر اعظم لیاقت علی خان نے یہ غلطی کی کہ سوویت یونین کے دورے کی دعوت کو ٹھکرا کر امریکا گئے جب کہ اس تاثر کو لیاقت علی خان نے اپنی زندگی میں ہی دئیے انٹرویو میں رد کردیا تھا کہ پاکستان کا دفتر خارجہ انتظار کرتا رہا کہ کب سوویت یونین کی وزارت خارجہ کا سفارت خانہ پاکستانی وزرات خارجہ سے مل کر یہ معاملات طے کریں گے۔
دوسری طرف امریکا کے صدر ٹرومین یہ چاہتے تھے کہ پاکستان روس کے خلاف امریکا کو اپنے ہاں فوج اڈے دے دے اور جب صدر ٹرومین نے اپنی اس خو اہش کا اظہار لیاقت علی خان کے سامنے کیا تو لیاقت علی خان کا جواب قائد اعظم کی واضح کردہ خارجہ پالیسی کے عین مطا بق تھا۔ لیاقت علی نے کہا کہ پاکستان نے آدھا کشمیر امریکی امداد کے بغیر آزاد کر وایا ہے اور پھر اس دورے کے ایک سال بعد لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں شہید کردیا گیا۔
اس کے بعد پاکستان کے تعلقات اگرچہ امریکا سے بہت مستحکم ہوئے اور پاکستان سیٹو سینٹو میں بھی شامل ہو گیا مگر اسے نہ تو اس وقت کوئی فائدہ ہوا بلکہ حسین شہید سہر وردی کے زمانے میں12 ستمبر1956 سے17 اکتوبر 1957 ء پشاور کے قریب بڈبیر کے مقام پر امریکا کو فوجی فضائی اڈہ بھی دے دیا گیا۔ 1953-61 آئزن ہاور امریکی صدر رہے ان کے بعد 1961-63 جان ایف کنیڈی پھر 1963-69 جانسن، یوں پاکستان کے پہلے دس برسوں میں ہماری خارجہ پالیسی کا آغاز بہت اچھا تھا مگر لیاقت علی کی وفات کے بعد امریکا کی جانب ہمارے حکمرانوں کا جھکاؤ بڑھتا گیا۔ 1958 کے مارشل لاء کے بعد ہماری خارجہ پالیسی میں کچھ تبدیلیاں آئیں جو منفی بھی تھیں اور مثبت بھی، ساٹھ کی دہائی میں بڈبیر امریکی فضائی اڈے سے نہایت بلندی پر اڑ کر روس کی جاسوسی کرنے والے یوٹو قسم کے طیارے کو روس نے مار گرایا جس پر پاکستان کو روس نے دھمکی دی کہ روس نے پشا ور کے گرد سر خ دائر ہ بنا دیا ہے۔
پاکستان کی دوسری دہائی 1957 تا 1967 ء کی ہے۔ اس وقت تک وزرا خارجہ کے طور پر سر محمد ظفر اللہ خان کے بعد محمد علی بوگرا اور فیروز خان ن زیادہ اہم ہیں۔ جہاں تک تعلق محمد علی بوگر ا کا ہے وہ دو مرتبہ امریکا میں پاکستان کے سفیر بھی رہے ایک بار پاکستان کے وزیر اعظم اور دو مرتبہ وزیر خارجہ بھی رہے اور 1963 کے آغاز پر جب ان کا انتقال ہوا تو ذولفقار علی بھٹو 35 برس کی عمر میں پاکستان کے وزیر خارجہ بنے لیکن یہ حقیقت ہے کہ محمد علی بوگرا نے پاکستان امریکا تعلقات میں اہم کردار ادا کیا۔ بطور سربراہ حکومت صدر جنرل ایوب خان کابینہ کی تشکیل کے اعتبار سے بہت مردم شناس تھے۔
یہی وجہ تھی کہ باوجود اس کے کہ بھٹو کی بیوی اور صدر سکندر مرزا کی بیوی رشتہ دار تھیں اور بھٹو سکندر مرزا کی کابینہ کے وزیر بھی تھے ایوب خان نے نہ صرف بھٹو کو 1958 ء کے مارشل لا کے بعد اپنی کابنیہ میں شامل کیا بلکہ بوگرا کی موت کے بعد ان کو وزیر خارجہ بنادیا کیونکہ بھٹو ایوب خان کو امور خا رجہ پر مشورے دیتے تھے۔ فیروز خان نون جو 14 ستمبر 1956 ء سے7 اکتوبر1958 تک وزیر اعظم کے ساتھ وزیر خارجہ بھی رہے اوراس دوران اسکندر مرزا صدر تھے جن کے پاکستان میں مقیم امریکی سفیر سے تعلقات رشتہ داری کی حد تک تھے حکومت نے 8 ستمبر1958 میں آج کے سوا ارب ڈالر میں گوادر کو اومان سے خرید کر پاکستان میں شامل کیا، اس دوران امریکا میں پاکستان کی جانب سے سید امجد علی، عزیز احمد، غلام احمد ، جو 15 ستمبر 1966 ء تک سفیر رہے اور دو اکتوبر 1966 ء کو آغا ہلالی امریکا میں سفیر تعینات ہوئے اور 20 اکتوبر 1971 ء تک سفیر رہے۔ یوں ایوبی دور حکومت میں عموما دفتر خارجہ کے پیشہ ور افسران ہی امریکا اور دیگر اہم ممالک میں پاکستان کے سفیر رہے۔
1957-67 ء میں اگرچہ پاکستان نے صنعتی ترقی کی لیکن عالمی سطح پر خارجہ پالیسی کی بنیادوں پر کوئی نمایاں مقام حاصل نہ کر سکا، البتہ پنڈت نہرو ہی کے دور میں جب چین بھارت جنگ ہوئی تو پاکستان کے پاس پہلی مرتبہ یہ موقع آیا کہ وہ امریکا کے علاوہ بھی کسی اور بڑے ملک سے تعلقات قائم کرے۔ اگرچہ اس وقت چین صعنتی اقتصادی اور عسکری لحاظ سے کوئی بڑی قوت نہیں تھا مگر بھارت سے جنگ میں اسے نمایاں برتری حاصل ہوئی تھی۔ 1964 ء میں دو بڑے واقعات رونما ہوئے اس سال بھارت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہروانتقال کرگئے اور چین ایٹمی دھماکہ کرکے دنیا کی پانچویں ایٹمی قوت بن گیا اور اس کے ایک سال بعد دوسری پاک بھارت جنگ ہوئی جس میں فوجی اعتبار سے اگر چہ پاکستان کو برتری حاصل رہی مگر مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اس جنگ کے باوجود ہم خارجی سطح پر کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
1967 ء سے 1977 ء کی تیسری دہائی کے ابتدا ہی میں عرب اسرائیل جنگ میں مصر، شام ، عراق، لبنان، اردن کی شکست نے دنیا پر یہ واضح کردیا کہ سوویت یونین مشرق وسطیٰ کے مسلمان ملکوںکا دوست ہونے کے باوجود ان کی ایسی مدد نہیں کرتا کہ یہ مسلمان ملک اسرائیل کے مقابلے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکیں۔ دوسری جانب امریکا ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک اسرائیل کی ایسی مدد کرتے رہے کہ اسرائیل عرب ملکوں کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے مگر اس کے باوجود کوئی مسلم ملک یا رہنما نمایاں کرداد ادا نہیں کر پایا۔1969 ء میں ایوب خان کے رخصت ہونے کے بعد جنرل یحییٰ خان مارشل لاء لے آئے۔ 1966 ء میں بھارتی وزیر اعظم شاستری کی وفات کے بعد پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی بھارت کی وزیر اعظم بن چکی تھیں اور وہاں دوبارہ قیادت مستحکم ہو چکی تھی۔
ہمارے ہاں یحییٰ خان نے وازرت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا۔ ہلا لی 20 اکتوبر 1971 ء کو امریکا میں پاکستان کے سفارت خانے سے واپس ہوئے جو پیشہ ور سفارت کار تھے اور ان کی جگہ میجر جنرل (ر) این اے ایم رانا امریکا میں پاکستان کے سفیر ہوئے جبکہ پاکستان میں امریکا کے سفیر 27 جولائی 1967 ء سے 17 جون 1969 ء تک Benjamin Oehlert رہے اور ان کے بعد 19 ستمبر 1969 سے30 اپریل 1972 جوزف ایس فار لینڈ پاکستا ن میں سفیر رہے ا ور اس دوران1969-73 ءWilliam P Rogers امریکی وزیر خارجہ رہے۔ ان کے بعد امریکی تھنک ٹینک کے اہم ترین اور تجربہ کار شخصیت ہنری کسنجر کی ہے جو صدر نکسن کے دور کے ایک سال بعد تک 1969-75 میں ان کے نیشنل سیکورٹی ایڈ وائز رہے اور پھر 1973-77 امریکا کے وزیر خارجہ رہے۔
1969 ء میں سوویت یونین اور چین کے درمیان شدید سرحدی جھڑپیں ہوئیں اور کئی مہینوں تک جاری رہیں جن کا مشاہدہ اور تجزیہ امریکی سی آئی اے اور تھنک ٹینک نے کیا، اور امریکا اور چین کے درمیان تعلقات بنانے کے لیے پاکستان نے اپنی خدمات پیش کیں جو اگر پورے مطالعہ اور تیاری کے ساتھ کی جاتی تو یہ پاکستان کے لیے ایک اہم ترین موقع ہوتا لیکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا جولائی تا اکتوبر 1971ء مشرقی پاکستان میں بھارتی مداخلت دنیا بھر کے سامنے تھی جب اس زمانے میں ہنری کسنجر نے پاکستان سے چین کے دو خفیہ دورے کئے جو خفیہ نہیں رہے اور روس نے بھارت سے دفاعی معاہدہ کرلیا اور جنگ 1971 ء میں ہم پہلے خارجہ تعلقات کے اعتبارسے عالمی سطح پر شکست کھا گئے۔
20 دسمبر 1971 ء کو بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور وزیر خارجہ کا قلمدان بھی انپے پاس رکھا ، بھٹو نے ملک کی خارجہ پالیسی کو نہ صرف آزاد اور متوازن کیا بلکہ اسے ملک کی معاشی ترقی سے بھی مربوط کردیا۔ 1973 کی عرب اسرائیل جنگ کے فورا بعد جب لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کروائی تو یوں سوویت یونین اور امریکا دونوں سے ہٹ کر ایک تیسرا، ایسے ملکوں کا گروپ تشکیل دیا جس میں بنیادی اہمیت ان کی اور پاکستان کی تھی۔
یہ سب بھارت سے جنگ کے صرف دو سا ل بعد ہوا۔ تیل کو ہتھیا ر کے طور پر استعمال کرنے کی بنیادپر تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی آمدنیوں میں اضافے سے ان ملکوں میں تعمیر وترقی کا تیز رفتار آغاز ہوا تو 30 لاکھ افرادی قوت کے خلیجی ملکوں میں جانے سے پاکستان کو زرِ مبادلہ کا ایک مستقل اور مستحکم ذریعہ ہاتھ آگیا لیکن اب سوویت یونین اور امریکا دونوں کے لیے بھٹو قابل قبول نہیں تھے اس دوران 1969-74 نیکسن اور1974-77 جیرالڈ فورڈ امریکا کے صدر رہے 1973-77 ہنری کسنجر وزیر خارجہ رہے اور پاکستان میں امریکا کی جانب سے 1972-77سینڈی سوبر،ہنری اے بائیروڈی ،جارج ایس ویٹ سفیر رہے اور پاکستان کی جانب سے امریکا میں سلطان محمد پندرہ مئی 1972 سے آٹھ دسمبر1973 تک سفیر رہے ان کے بعد صاحبزادہ یعقو ب خان انیس دسمبر 1973 سے تین جنوری1979 یعنی بھٹو کے بعد بھی سفیر رہے اور اسی دور میں یعنی پاکستان کی چوتھی دہائی 1977-88 میں نہ صرف افغانستان ،پاکستان ،ایران میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں بلکہ مشرق وسطیٰ سمیت دنیا بھر میں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔
ہمارے ہاں صدر جنرل ضیا الحق 1977-88 برسر اقتدار رہے 1985-88 محمد خان جونیجو وزیر اعظم رہے اس دوران آغا شاہی1978-82تک اور پھر دو مرتبہ صاحبزادہ یعقوب خان 1982-88 اور پھر چند روز بعد9 جون1988 سے20 مارچ 1991 ملک کے وزیر خارجہ رہے جو ملک کی تاریخ کے سب سے زیادہ مدت تک رہنے والے وزیر خارجہ تھے اور جب تک اختیارات کے ساتھ کام کیا تو بھٹو کے بعد سب سے کامیاب وزیر خارجہ رہے، مگر بد قسمتی کہ 1985-88 جونیجو حکومت نے زین نورانی کو وزیر مملکت امور خارجہ رکھا اور افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی اور بحالی امن سے متعلق جنیوا مذاکرات زین نورانی ہی نے کئے جس میں پاکستان افغانستان میں روس کی شکست میں اہم ترین کردار ادا کرنے کے باوجود اپنے قومی مفادات کا بھی بھر پور طور پر دفاع نہ کر سکا اور غالبا یہی بنیادی وجہ تھی کہ جنرل ضیاء الحق نے جو نیجو حکومت ختم کردی اور پھر چند روز بعد وہ خود بھی بہاولپور فضائی حادثے میں جان بحق ہوگئے۔
1977-87 ء جمی کارٹراور رونالڈ ریگن امریکا کے صدرو رہے۔ 1977-81 تک چار امریکی وزرا خارجہ کے بعد سب سے اہم امریکی وزیر خارجہ جارج شلز تھے جو 1982-89وزیر خارجہ رہے۔ اس دوران 1977-87 ہومل، سیپئرز، ہینٹون سفیر رہے اور رافیل 4 مئی 1987 ء کو بطور سفیر پاکستان آئے اور17 اگست 1988 ء کو جنرل ضیا الحق کے ساتھ طیارے کے حادثے میں جاں بحق ہوگے۔
تاریخ پاکستان کی پانچویں دہائی 1987-97 میں ملکی حالات مجموعی طور پر سیاسی بحران کا شکار رہے اور افغانستان میں خانہ جنگی کے بعد طالبان مستحکم ہوئے۔ 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سوڈان، عراق ،کویت اور مشرق وسطیٰ کے ان ممالک میں جہاں سوویت یونین کے اثرات تھے وہاں خانہ جنگیاں شروع ہوئیں، دنیا میں صورتحال کے بدلنے سے تمام ممالک اپنی پوزیشنیں تبدیل کرنے لگے۔ سوویت یونین ، مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیا میں اقتصادی سیاسی بحران ابتری کے قریب پہنچنے لگا مگر پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے بعد سیاسی کشا کش جاری رہی اور ہم بر وقت بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر انداز سے ترتیب نہیں دے پائے۔
اس دوران فاروق لغاری،سردار آصف علی ،گوہر ایوب وزیر خارجہ رہے، وزراء اعظم میں دو دو مرتبہ بینظیر اور نواز شریف رہے اور امریکا میں پاکستان کے سفیر جمشید مارکر، ایر مارشل ذوالفقار علی ، نجم الدین شیخ ، سیدہ عابدہ حسین ، ملیحہ لودھی رہے او ر ریاض کھو کر 12 مارچ 1997 ء کو امریکا میں پاکستا ن کے سفیر مقرر ہوئے۔ امریکا میں رونالڈ ریگن 1981-89 صدر رہے ان کے بعد چار سا ل جارج ایچ ڈبلیو بش صدر ہے پھر1993-2001 بل کلنٹن صدر رہے۔ 1987-97 کے دوران امریکا کے وزراخارجہ کا قلمدان جارج شلز کے بعد جمیس بیکر ،لارنس ایلبر جر اور وارن کرسٹوفرکے پاس رہا جبکہ پاکستان میںامریکا کے سفیر رافیل کی موت کے بعد رابرٹ اوکلے ،جان کیمرون میجو، تھامس ڈبیلو سموئنس رہے، یہ وہ دور ہے جب امریکا کی جانب سے بے رخی اور کج ادائیاں شروع ہوگئیں تھیں۔
دنیا میں اب دو طاقتی متوازن نظام کی جگہ یک طاقتی نظام کو رائج کرنے کی امریکی خواہش دنیا کے سامنے تھی اور نیو ورلڈ آرڈر ،گلوبل ویلج اور ڈبلیو ٹی او جیسی آوازیں دنیا کی سماعت پر اب نیا سیاسی ، سماجی شعور ثبت کرنے کی کوشش کررہی تھیں۔ دنیا میں اژدھامی نفسیات کو بہت زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بہت کم وقت میں تبدیل کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لیے تہذ یبوں کا تصادم ہونا تھا یا کر وایا جا رہا تھا ۔ اگر چہ ہمارا دفتر خارجہ وقت کے تقاضو ں کے مطابق کام کرنے والے اعلیٰ سفارتکاروں سے آباد ہے لیکن اب دنیا میں امریکا ، برطانیہ ، چین ، فرانس، روس، کینیڈا،آسٹریلیا، جرمنی، سعودی عرب اور بھارت جیسے ملکوں میں وزارت خارجہ کی سروس کے باقاعدہ سفارت کاروں کے بجائے سیاسی بنیادوں پر سفیروں کی تعیناتی کا رجحان بڑھ گیا۔
پاکستان کی چھٹی دہائی 1997-07 ء بہت بحرانی رہی اگرچہ اس کا آغاز جمہوری لحاظ سے بہت حوصلہ افزا تھا وزیر اعظم نواز شریف کو جماعتی اعتبار سے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل تھی اور انہوں نے آئین میں ترمیم کر کے منتخب حکومتوں کو تحفظ کی ضمانت دے دی ، لیکن انہوں نے اس کے بعد ضرورت سے زیادہ تیزی دکھائی اور ٹکراؤ کی راہ اختیار کی۔ نوازشریف کی دوسر ی حکومت سے پہلے عبوری حکومت میں صاحبزادہ یعقوب خان وزیرخارجہ رہے امکان تھا کہ ان کو ہی مستقل کیا جائے گا مگر گوہرایوب کو وزیر خارجہ بنایا گیا اور یہ انتخاب بھی بہتر رہا کہ جب مئی 1998ء میں بھارت نےایٹمی دھماکے کئے تو شریف کابینہ میں پاکستان کی جانب سے جواباً دھماکوں کے لیے پُر اثر اور گونجدار آوازیں، راجہ ظفر الحق ، شیخ رشید اور گوہر ایوب کی تھیں اور اس کو اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ پاکستان کے ا یٹمی دھماکوں کے70 دن بعد گو ہر ایوب کی جگہ 7 اگست1998 کو سرتاج عزیز کو وزیر خارجہ بنایا گیا اور 12 اکتوبر1999 ء کو آرمی چیف جنرل مشرف کی جانب سے کی گئی کاروائی تک وزیر خارجہ رہے۔
نوازشریف کے اس دور میں امریکا میں پاکستان کے سفیر پہلے ریاض کھو کر 12 مارچ 1997 سے7 ستمبر1999 ء تک رہے۔ ان کے بعد طارق فاطمی 8 ستمبر1999 ء سے16 دسمبر1999 ء تک سفیر رہے جبکہ اس زمانے میں جب امریکا کے صدر جارج ایچ ڈبلیو بش تھے اور امریکی وزیر خارجہ میڈیلین البرائٹ تھیں اور پاکستان میں امریکا کے سفیر پہلے تھامس ڈبیلو سیموئنس اور پھر ولیم بی میلام تھے، جو چھ جولائی 2001 ء تک رہے۔
جنرل پرویز مشروف کا ابتدائی دور شروع ہوا تو عبدالستار 6 نومبر 1999 سے14 جون 2002 تک وزیر خارجہ رہے اور جب کہ وزرا اعظم ظفر اللہ جمالی ،چوہدری شجاعت اور پھر شوکت عزیز رہے تو اس زمانے میں یعنی 2002 تا 2007 ء خورشید محمو د قصوری وزیرخارجہ رہے اور امریکا میں پاکستا ن کی سفیر ملیحہ لودھی ان کے بعد اشرف قاضی پھر جنرل ر جہانگیر کرامت ، اورپھر پانچ جون2006ء کو جنرل ر محمد علی درانی جو نو مئی 2008 ء تک امریکا میں سفیر رہے اور امریکا میں بل کلنٹن کے بعد جارج ڈبیلو بش 20 جنوری2001 تا 2009 صدر رہے، اس دوران پاکستان میں چمبرلین، ننسی جو پاؤل، رائن سی کروکر امریکی سفیر رہے، یہ دور خصوصا نائن الیون کے بعد پوری دنیا کے لیے بہت خطرناک رہا مگر پاکستان کے لیے زیادہ خطرناک تھا۔
پرویز مشرف نے یوٹرن کی اصطلاح کئی موقعوں پر عملی طور پر اختیار کی ان کا آج بھی موقف یہی ہے کہ انہوں نے پاکستان فرسٹ کی اصطلاح کو زیادہ عملی رکھا لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کو بھی بہت نقصان پہنچا ، پرویز مشرف جو کارگل کے محاذ پر بھارت کے خلاف لڑے تھے انہوں ہی نے آگرہ اور دہلی میں امن اور دوستی کی کوشش بھی کی لیکن ان کے دور میں جب گوادر پر چین کے تعاون سے ڈیپ سی پورٹ منصوبہ شروع ہوا تو بلوچستان میں بحران اس انتہا کو پہچا کہ نواب اکبر بگٹی کو جا ن بحق کردیا گیا اور پھر بینظیر کو 2007 دسمبر کو قتل کردیا گیا، ان کے دور کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کا انتہائی بحرانی دور رہا مگر مغربی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا یہ ہے کہ انہوں نے بہرحال امریکا کے حملے سے پاکستان کو بھی بچا لیا اور ایٹمی ہتھیاروں کو بھی محفوظ رکھا ، باوجود ان پر امریکا کے کئی حلقوں کی جانب سے ڈبل کراس کرنے کے الزمات لگے لیکن ان کے دور میں اگر اقوام متحدہ مغربی ممالک اور امریکا میں پاکستانی سفارتکاروں کی کار کردگی بہتر رہی تو اس کی وجہ اس وقت دفتر خارجہ کا وہ جرات مندانہ فیصلہ تھا جس کے تحت انہوں نے اختیارات کی منتقلی کی طرح کی اصلاحات دفتر خارجہ میں نہیں کرنی دیں اور جنرل پرو یز پر واضح کردیا کہ اس طرح اس کا بنیادی انفراسٹرکچر تباہ ہوجائے گا۔
پاکستان کی ساتویں دہائی جو2007 سے 2017-18 تک کے عرصے پر محیط ہے اس دوران ملک میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دو جمہوری منتخب حکومتوں میں سے ایک اپنی پانچ سالہ مدت 2008-13 پوری کرچکی ہے اور دوسری کی مدت پوری ہونے میں چند روز رہ گئے ہیں، لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان دس برسوں میں پاکستان کی خارجہ پالیسی ابہام اور تضادات کسی حد تک اندورنی طورپر اختلافات کا شکار رہی ہے اور یہ اس وقت ہوا جب دہشت گردی کے خلاف جنگ عالمی اور علاقائی سطحوں پر بہت سی پیچیدیوں سے گزر رہی ہے اور اس میں امریکا اپنے مفادات کے لیے بھارت کے قریب ہے اور ہمارے چین سے تعلقات سی پیک گوادر پورٹ اور علاقائی امن و استحکام کے لحاظ سے ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہم ہوگئے ہیں ،2007 سے 2017-18 ء امریکا میں20 جنوری2009 ء سے20 جنوری2017 ء باراک اوبامہ صدر رہے اور ان کے بعد 20 جنوری2017 ء سے اب تک ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر ہیں۔
ان گیا رہ برسوں میں پاکستان میںاینی ڈبیلو پیٹریسن،کمیرون مونیٹر، رچرڈاولسن سفیر رہے اور اب ڈیوڈ ہال امریکی سفیر ہیں جبکہ 2005-2009 کونڈا لیزا رائس،2009-2013 ہیلری کلنٹن 2013-17 جان کیری امریکی وزرا خارجہ رہے اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکم فروری 2017 کو ریکس ٹیلرسن کو وزیر خارجہ رکھا اوراب 31 مارچ کے بعد ٹرمپ ان کی جگہ مائیک پومپو کو نیا وزیر خارجہ بنا نا چاہتے ہیں، جبکہ 2007-17 ء کے عرصے میں شاہ محمود قریشی،2008-11 وزیر خارجہ رہے ان کے بعد حنا ربانی کھر 11 فروری 2011 سے16 مارچ2013 وزیر خارجہ رہیں اور اس دوان 2008-2011 حسین حقانی امریکا میں 22 نومبر تک سفیر رہے۔ ان کے دور میں پالیسی میں دراڑیں پڑیں اور اب مسائل سامنے آرہے کہ ان پر ملکی مفادات کے خلاف کام کا الزام رہا لیکن اس دوران جب آصف علی زرداری صدر اور یوسف رضا گیلانی اور ان کے بعد راجہ پرویز اشرف وزرا اعظم رہے تو ہمارے وزراء خارجہ شاہ محمود قریشی اور حنا ربانی کھر نے معاملات کو بہتر کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
5 جون 2013 کو نواز شریف تیسری مرتبہ منتخب ہونے والے وزیر اعظم بنے تو انہوں نے وزیر اعظم فیر وز نون ،صدر یحییٰ خان اور وزیر اعظم بھٹو کی طرح وزارت خارجہ کا قلمدان اپنے پاس رکھا مگر انہوں نے بہت سے امور خارجہ کو بھی اپنی کا بینہ، پارلیمنٹ اوراسٹیبلشمنٹ سے خفیہ رکھنے کی کوشش کی اور دفتر خارجہ کے اعتبار سے بھی اکثر امور خاص افراد تک محدود رکھے،28 جولائی 2017 کو وہ سپریم کوٹ کی جانب سے نااہل قرار پائے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ہوئے اور وزیر خارجہ خواجہ آصف ہوئے۔ اس دورا ن دسمبر 2013 ء سے فروری 2017 ء جلیل عباس جیلا نی امریکا میں پاکستان کے سفیر رہے ان کے بعد عزیز احمد چوہدری سفیر ہوئے جو اب مارچ کے اختتام پر فارغ ہوں گے تو وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے 8مارچ 2018 کو اپنے نوجوان مشیر علی جہانگیر صدیقی کو امریکا میں پاکستان کا سفیر نامزد کر کے سیاسی حلقوں میں بھونچال کھڑ ا کردیا ہے، وہ ملک کے مشہور بزنس مین جہا نگیر صدیقی کے بیٹے ہیں، نیویارک کی کرونل یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہے، 17 مارچ کی اطلاع کے مطابق ان کی نامزدگی کے بعد نیب نے ان پر اربوں روپے کی کرپشن کے الزامات کے تحت تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
ابھی یہ صاف نہیں ہو سکا کہ علی جہا نگیر صدیقی امریکا کے سفیر کے عہدے پر فائز ہوتے ہیں یا نہیں ؟ لیکن امریکا جیسے اہم ملک میں آج کے دور میں جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیا ں بھارت کے حق میں ہیں اور ان کے رویے اور انداز ہمارے خلاف ہیں،آج کی دنیا میں سفارتی محاذ پر حاصل کی گئی کامیابیاں اکثر میدان جنگ کی کامیایبوں سے زیادہ اہم ہوتی ہیں، ایسی ہی صورت سفارتی محاذ پر ناکامی کی ہوتی ہے، اور جس طرح ایک اچھی تربیت یافتہ فوج بہتر حکمت عملی سے کم قوت کے باوجود زیادہ بڑی فوج پر غالب آجاتی ہے، اسی طرح ذہین اور اچھے تربیت یافتہ سفارتکار اکثر ناقابل یقین کامیابیاں حاصل کر لیتے ہیں۔
سفارتی محاذوں پر ماضی میں ہماری کامیابیاں بھی مثالی ہیں اور ناکامیاں بھی ناقابل فراموش ہیں، لیکن یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ امریکا نے پاکستان میں ہمیشہ اپنے نہایت اہم تجربہ کار اور باقاعدہ فارن سروس کے سفیروں کو بھیجا۔ گزشتہ 70 برسوں میں پاکستا ن میںکل 31 امریکی سفیر تعنیا ت رہے جن میںسے24 فارن آفس کے ریگولر آفیسر تھے اور باقی سات عارضی طور پر یا عبوری مدت کے لیے تعینا ت ہوئے،کاش ہم بھی ایسا کرتے یا کرسکتے۔ ہمارا فارن آفس اور فارن سروس معیار کے لحاظ سے دنیا میں ٹاپ ٹن میں شامل ہے۔ سی ایس ایس ’’ مقابلے کے امتحان،، کے امیدواروں کی پہلی ترجیح ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ اور فارن گروپ ہی ہوتی ہے، لاکھوں پڑھے لکھے نوجوانوں میں سے ہر سال گنتی کے چند چوبیس پچیس سالہ ذہین ترین نوجوان کڑے تحریری اور زبانی امتحان کے بعد منتخب ہوتے ہیں اور بیشتر کا خصوصی مضمون انٹرنیشنل ریلیشن ہوتا ہے، پھر سی ایس ایس کے بعد نو ماہ کی ٹریننگ ہوتی ہے اور اس کے بعد پانچ سال گریڈ 17 میں گزارنے کے بعد پھر کورسز ہوتے ہیں۔
18 گریڈ میں ترقی اس دوران بیرون ملک اور فارن آفس پیشہ ورانہ تربیت اور تجربہ رہتا ہے، 19 گریڈ میں اہم تربیت کے مراحل ہوتے ہیں اس میں فوجی اور دفاعی نقط نظر سے ماضی کے تجربات کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ حالات ِ حاضرہ کے تحت بروقت اور درست اقدامات کرنے ہوتے ہیں، ان کو ادراک ہوتا ہے کہ یہ فیصلے مستقبل میں بھی اہم ہیں اورگریڈ 20 تک جو چند افسران پہنچتے ہیں ان کے سامنے پوری دنیا کی سیاست، اقتصادیات اور دفاعی امور ہوتے ہیں اور وہ ماہرترین سفارت کار بن چکے ہوتے ہیں۔ ہمیں اب یہ طے کرلینا چاہیے کہ امریکا ، برطانیہ ، فرانس، چین ، روس، بھارت،کینیڈا ، فارن آفس کے یہی ریگو لر سینئر سفارت کار بطو ر سفیر تعینات کئے جائیں اور ہمار ے جو سینئر ریٹا ئرڈ سفارت کار جو مو جود ہیں ان کے علم اورتجر بے سے بھی استفادہ کرتے رہیں۔ واضح رہے کہ امریکا کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر اور وزیرخارجہ ہنر ی کسنجر جنہوں نے ماضی قریب میں امریکا کے لیے سفارتی محاذوں پر مثالی کامیابیاں حاصل کیں آج بھی 93 سال کی عمر میں امریکی تھنک ٹینک کے اہم رکن ہیں۔
The post پاک امریکا تعلقات میں اُتار چڑھاؤ کی تاریخ appeared first on ایکسپریس اردو.