کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ واقعات اس طرح وقوع پذیر نہیں ہوتے جیسا آپ سوچ رہے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم غور کریں تو اس میں بھی قدرت کی طرف سے کوئی نہ کوئی بہتری پوشیدہ ہوتی ہے۔
ہمارے آج کے اس مضمون کی فہرست میں مائکروویواون سے لے کر آئس کریم کون تک ایسی ہی چیزیں شامل ہیں جو حادثاتی طور پر دریافت یا ایجاد ہوئیں اور اب ہماری روز مرہ زندگی میں اہم سہولیات کے طور پر اپنی جگہ بنا چکی ہیں۔
-1 ماچس (Matches)
1800ء کی دھائی میں برطانیوی فارماسیسٹ ’’جان واکر‘‘ (John walker) ادویات بنانے میں استعمال ہونے والے مختلف کیمیکلز کو لکڑی کے تنکوں کے ذریعے مکس کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے دیکھا کہ ایک تنکے کے سرے پر کوئی مادہ چپکا ہوا ہے۔ جب انہوں نے اس مادہ کو رگڑ کر صاف کرنے کی کوشش کی تو وہ مادہ آگ پکڑ گیا۔ یہاں سے ’’جان‘‘ کے دماغ میں یہ خیال آیا کہ زندگی کو آسان بنانے کے لئے ماچس بنائی جائے۔ انہوںنے پھر ایسا ہی کیا اور بڑے پیمانے پر ماچسیں بنانی شروع کر دیں اور یوں باقاعدہ ایک کمپنی بنا کر تجارتی بنیادوں پر ماچسوں کی تیاری اور فروخت ہونے لگی۔ مگر انہوں نے کاروبار میں اپنی اجارہ داری قائم نہ کرنے کے لئے اپنی اس ایجاد کو رجسٹر نہ کروایا کیونکہ ان کے خیال میں اس طرح ان کی یہ ایجاد انسانیت کے زیادہ کام آ سکتی تھی کہ اور لوگ بھی ماچسیں بنائیں اور عام لوگوں کو فائدہ ہو۔ ماچس جلد ہی ساری دنیا میں مقبول ہو گئی اور آج بھی ایک انتہائی مفید اور کارآمد چیز ہے۔
2- ’’آلو کے چپس‘‘(Potato Chips)
امریکہ کے شہر نیویارک میں رہنے والے ’’جارج کرم‘‘ (George Crum) ایک بہت مشہور شیف تھے۔ لیکن ستم ظریفی یہ تھی کہ ان کے اکثر گاہک یہ شکایت کرتے تھے کہ ان کے تلے ہوئے آلو کے قتلے بہت زیادہ ہی خستہ ہو جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے غصہ میں آ کر جارج نے بالآخر یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے گاہکوں کی اس شکایت کو دور کرنے کے لئے آلو کے قتلے انتہائی باریک کاٹے گا اور انہیں تیل میں خوب بھون کر اور ان پر نمک چھڑک کر اپنے گاہکوں کو پیش کرے گا۔ اپنی طرف سے جارج نے یہ کام گاہکوں کو پریشان کرنے کے لئے کیا تھا مگر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ لوگ اس کی اس نئی ترکیب سے بنے آلوؤں کے قتلوں کے دیوانے ہو گئے۔ 1853ء سے لے کر آج تک آلوؤں کے چپس بنانے کی کئی ترکیبیں منظر عام پر آ چکی ہیں اور اب یہ دو سو سے زائد مختلف ذائقوں میں دستیاب ہیں۔
3’۔ ’’آئس کریم کون‘‘(Ice cream cones)
آئس کریم بذات خود کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ 200 سال قبل از مسیح میں بھی چین کے لوگ اس سے ملتی جلتی ایک چیز کھایا کرتے تھے، لیکن آئس کریم کون بہرحال 1904ء میں ایجاد ہوئی۔ اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ ’’سینٹ لیوئس‘‘ (St Louis) کے میلے میں آئس کریم کے اسٹالز پر اتنا رش ہوتا تھاکہ سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔ ارنس ہیمرک نامی ایک دکاندار جو ایرانی بسکٹ بیچا کرتا تھا، نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت اپنے بسکٹوں کو گول کون نما شکل میں بنا کر اپنے ساتھی دکانداروں کو دینا شروع کر دیئے تاکہ وہ ان میں آئس کریم ڈال کر گاہکوں کو پیش کریں اور آئس کریم کے کپ اور چمچوں کے جھنجھٹ سے آزاد ہو کرتیزی سے اپنا کام نمٹا سکیں۔ گاہک اس نئی چیز کو پسند کرنے لگے اور اس طرح آئس کریم کون وجود میں آ گئی۔
4۔ ’’سیفٹی گلاس‘‘ (Safety Glass)
فرانس کے ایک کیمیا دان ’’ایڈوریڈ بینیڈپکٹس ‘‘ (Edouard Benedictuc) ایک دن اپنی تجربہ گاہ میں کسی تجربے میں مصروف تھے کہ اچانک ان کے ہاتھ سے شیشے کا ایک ’’بیکر‘‘ (beaker) پھسل کر نیچے فرش پر جا گرا۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ شیشہ کرچی کرچی نہیں ہوا بلکہ محض تڑخ کر رہ گیا۔ انہوںنے جب جانچ بڑتال کی کہ ایسا کیوں ہوا ؟ تو انہیں یہ معلوم ہوا کہ شیشے کے اس بیکر میں پتلے پلاسٹک کا محلول موجود تھا جو کسی پچھلے تجربے کے بعد اسی میں بچ گیا تھا اور یوں ٹوٹ کر کرچیوں میں نہ تبدیل ہونے والا شیشہ ایجاد ہوا، جو آج کل کئی چیزوں میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ کاروں کی ونڈ سکرین وغیرہ تاکہ ایکسیڈنٹ کی صورت میں سکرین اگر ٹوٹے بھی تو اس کی کرچیاں کار کے اندر بیٹھے ہوئے لوگوں کو نقصان نہ پہنچائیں۔
5۔ ’’ربڑ‘‘(Vulcanizad Rubber)
انیسویں صدی میں ربڑ کی کوالٹی اتنی اچھی نہیں تھی۔وہ نرم ہوتا تھا اور اس میں پائیداری بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ ایک نوجوان سائنسدان ’’چارلس گڈیئر‘‘ (Charles Goodyear) کافی عرصے سے اس کوشش میں لگا ہوا تھا کہ کسی طرح ربڑ کی کوالٹی کو بہتر بنایا جائے۔ وہ خام ربڑ میں نمک‘ مرچیں‘ چینی‘ ریت اور ارنڈی کا تیل‘ یہاں تک کہ سوپ تک ملا ملا کر تجربات کرتا رہا۔ یوںدکھائی دیتا تھا کہ جیسے وہ کوئی کھانے پینے کی چیز بنا رہا ہو، حالانکہ وہ بے چارہ تو محض ان سب چیزوں کے صحیح تناسب کے ملاپ سے ربڑ کو ایک مکمل شکل دینے کی سعی میں معروف تھا۔ تھک ہار کر ایک دن اس نے ایک مختلف تجربہ کرنے کا سوچا اورخام ربڑ میں میگنیشا‘ چونا اور گندھک کا تیزاب ملایا، لیکن ایک مرتبہ پھر اس کا تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ ایک دن اسی طرح کے تجربات کے دوران اس نے خام ربڑ میں ’’سلفر‘‘ مکس کیا اچانک وہ مرکب ’چارلس‘ کے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور ایک گرم سطح پر گرا۔ یہ حادثہ کامیابی کی نوید بن گیا اور چارلس ’’ولکنائزڈ ربڑ‘‘ بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ جس سے اب باسکٹ بال سے لے کر گاڑیوں کے ٹائرز تک بے شمار چیزیں بنائی جاتی ہیں۔
6- ’’پلاسکٹ‘‘ (Plastic)
پلاسٹک کی ایجاد سے پہلے سریش نما ایک مادہ جو الکوحل اور سرکے کے ملاپ سے بنتا تھا‘ استعمال کیا جاتا تھا۔ بیسویں صدی کے شروع تک مختلف مقاصد جیسے لکڑی کو فارمیکا کرنے‘ ریکارڈ پلیئرز کے ریکارڈ بنانے اور دانتوں کی فلنگ تک کے لئے استعمال ہونے والے اس مادے کو ’’شیلاک‘‘ (Shellac) کہتے تھے۔ مگر یہ بہت مہنگا پڑتا تھا۔ اسی وجہ سے ایک کیمیا دان ’’لیو ہینڈرک بیکیلینڈ‘‘ (Leo hendrik Baekeland) کو ’’شیلاک‘‘ کا کوئی سستا متبادل تلاش کرنے کی جستجو ہوئی۔ اپنے تجربات کے دوران وہ ’’شیلاک‘‘ سے بھی زیادہ فائدہ مند چیز بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ نیا مکسچر ایک ایسا قابل ذکر مادہ تھا جو انتہا ہی درجے کی حرارت کو بھی برداشت کر سکتا تھا۔ یہی مادہ اب پلاسٹک کے نام سے جانا جاتا ہے۔
7- ’’اینٹی ڈپریسنٹ ادویات‘‘(Antidepressants)
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ ہر دوسرا شخص ڈپریشن کے مرض کا شکار نظر آتا ہے۔ جدید دور کی معروف زندگی‘ غیر متوازن کھانوں اور سہولیات کے حصول کی بھاگ دوڑ اس کے بنیادی اسباب ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ ماضی میں لوگوں کو ڈپریشن نہیں ہوتا تھا۔ ہر دور کے اپنے تقاضے اور مسائل ہوتے ہیں۔ آج شاید یہ مرض زیادہ شدت اختیار کر گیا ہو، مگر یہ موجود ہر زمانے میں رہا ہے۔ انٹی ڈپریسنت ادویات پہلے پہل 1957ء میں سامنے آئیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ادویات اصل میں ’’ٹی بی‘‘ کے مرض کے سدباب اور علاج کے لئے بنائیں گئیں تھیں جو اس وقت ایک موذی اور ناقابل علاج مرض سمجھا جاتا تھا۔ اس کو بنانے والے فارماسیسٹس نے یہ بات نوٹ کی کہ ان ادویات نے ’’ٹی بی‘‘کے علاج میں تو خاطر خواہ فائدہ نہیں دکھایا لیکن ان ادویات کو استعمال کرنے والے مریضوں کے مزاج پر ان کے بہت خوشگوار اثرات مرتب ہوئے۔ جب سے اب تک یہ ادویات ڈپریشن کو رفع کرنے کے لئے استعمال کروائی جاتی ہیں۔
8- ’’پیس میکر‘‘ (Pace Maker)
دل کے امراض میں سے ایک مرض دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونا بھی ہے۔ یہ مرض بڑھاپے یا کسی بھی وجہ سے دل کے کمزور ہو جانے کے باعث لاحق ہو جاتا ہے۔ ایک امریکی انجینئر ’’ولسن گریٹ بیچ‘‘ (Wilson Great Batch) انسانی دل کی دھڑکنوں کو ریکارڈ کرنے کے لئے ایک آلہ بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ وہ بھول سے ایک غلط برقی عنصر اس آلے میں لگا بیٹھا۔ جب اس آلے کو دل کی دھڑکن نوٹ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا تو معلوم ہوا کہ اس نے دل کی بے ترتیب دھڑکن کو دوبارہ صحیح ردہم میں ترتیب دے دیا ہے۔ 1960ء میں یہ ’’پیس میکر‘‘ پہلے انسان کے جسم میں لگا دیا گیا اور یہ جب ہی سے انسانی زندگیاں بچانے کے کام آ رہا ہے۔
9- ’’اینٹی بائیوٹک‘‘ (Antibiotice)
اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنسدان ’’الیگزینڈ فلیمنگ ‘‘(Alexander fleming) کی لیبارٹری کے فرش پر ہر طرف کاغذ اور ’’بیکرز‘‘ بکھرے ہوئے تھے۔ پلیٹوں میں مختلف اقسام کے بیکٹریاز کو معائنے کے لئے رکھا ہوا تھا۔ ایک دن سائنسدان نے دیکھا کہ اس پلیٹ میں پھپھوندی لگی ہوئی ہے جس میں پیپ کا موجب بننے والے جرثومے رکھے ہوئے تھے اور پھپھوندی نے ان جرثوموں کو ختم کر دیا تھا۔ ’’فلیمنگ‘‘ نے اس پھپھوندی پر مزید تحقیق کی اور اس کے نتیجے میں اینٹی بائیوٹک وجود میں آئیں۔ اس دریافت پر ’’فلیمنگ‘‘ کو 1945ء میں نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔
10۔ ’’ایکس رے‘‘ (X rays)
1895ء میں ’’ولہالم روینجین‘‘ (Wilhelm Roentgen)نے حادثاتی طور پر ہی ایکس ریز دریافت کیں۔ ایک بار اس نے لاشعوری طور پر ا لیکٹرونک بیم (برقیاتی شعاع) کے سامنے اپنا ہاتھ رکھا تو اسے فوٹو گرافک پلیٹ ہر اپنے ہاتھ کا عکس نظر آیا۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ عکس ہاتھ کے اندرونی حصے کا تھا۔ اس نے نوٹ کیا کہ تابکاری شعاع، ٹھوس اشیاء اور اجسام میں سے گزرتے ہوئے ایک سائے جیسا عکس بناتی ہے۔ آج ہم جسم کے اندر ہونے والی کسی بھی تبدیلی کو دیکھنے کے لئے ایکس ریز کا استعمال کرتے ہیں۔
11- ’’مائیکرو ویو اون‘‘(Micro wave Oven)
اگلی مرتبہ جب بھی آپ اپنا کھانا سیکنڈوں میں گرم کریں تو ’’پرسی سپنیر‘‘ (Percy Spencer) کو ضرور یاد کرنا نہ بھولئے گا جو ایک امریکی موجد تھا۔ اس اون کی ایجاد سے پہلے مائکرو ویوز صرف ریڈارز میں استعمال ہوتی تھیں۔ ایک دن ’’سپینر‘‘ جو بحریہ کا ایک ریڈار سپیشلسٹ تھا‘ نے محسوس کیا کہ جب وہ مائکروویو پیدا کرنے والے آلے کے سامنے کھڑا تھا تو اس کی جیب میں موجود چاکلیٹ بار پگھل کر ایک چپچپی سی شکل اختیار کر گیا تھا اور اس طرح یہ حادثہ 1945ء میں مائیکرو ویو اون کی ایجاد کا باعث بنا۔
The post سوچا کچھ، ہوا کچھ اور۔۔۔ appeared first on ایکسپریس اردو.