موجودہ زمانے میں سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی زندگی کو آسان تر کردیا ہے۔
ایجادات و اختراعات کی بہ دولت انسان کی نقل و حرکت محدود ہوگئی ہے، اس میں بچے بھی شامل ہیں۔ ماضی کے مقابلے میں بچوں کی جسمانی سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں۔ آج بچے صبح سے شام تک پڑھائی میں مصروف رہتے ہیں۔
پڑھائی کے بعد وہ کمپیوٹر، آئی فون اور ٹیبلٹ وغیرہ پر کارٹون دیکھنے اور گیم کھیلنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ دو تین عشرے پہلے جب کیبل ٹیلی ویژن، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور موبائل فون کا نام و نشان نہیں تھا یا ان کا استعمال بے حد محدود تھا، بچوں کو کھیل کود کے بہت مواقع میسر تھے۔
اسکول اور مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد ان کے پاس کھیلنے کے لیے کافی وقت ہوا کرتا تھا۔ بچے اپنی عمر کے لحاظ سے اس وقت میں مختلف کھیل کھیلتے تھے جن کے دوران دماغ کے ساتھ ساتھ ان کے ہاتھ پاؤں بھی متحرک ہوتے تھے۔ یوں ان کی بھرپور ورزش ہوجایا کرتی تھی۔ آج بچوں کی جسمانی سرگرمیاں بہت محدود ہوگئی ہیں۔ اسمارٹ فون جیسے آلات کی وجہ سے کھیل کود میں خود ان کی دل چسپی بھی کم ہوگئی ہے۔ جسم کو صحت مند رکھنے کے لیے ورزش ناگزیر ہے۔ صحت مند جسم میں ہی صحت مند دماغ ہوتا ہے۔ اگر جسم صحت مند نہ رہے تو پھر دماغ بھی کمزور ہوجاتا ہے جس کا اثر انسان کی پوری زندگی پر پڑتا ہے۔
بچوں کی محدود ہوتی جسمانی سرگرمیوں کے پیش نظر کئی ممالک میں اسکولوں میں ایسی ڈیسک متعارف کروائی گئی ہے جس کی نشست کے نیچے بائیسکل کے پیڈل لگے ہوئے ہیں۔ طالب علم نشست پر بیٹھ کر پیڈل چلاتے رہتے ہیں اور سامنے لگے تختے پر کتابیں کاپیاں رکھ کر پڑھائی بھی کرتے رہتے ہیں۔ مغربی ممالک میں ان منفرد ڈیسک کا استعمال بڑھتا جارہا ہے جن پر بیٹھ کر طلبا بہ یک وقت دونوں کام، ورزش اور پڑھائی، کرسکتے ہیں۔
The post پڑھائی اور ورزش ساتھ ساتھ appeared first on ایکسپریس اردو.