(گذشتہ سے پیوستہ)
جب ہم بڑے تناظر میں دیکھتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ غالب کی اس افتادِ طبع کے عقب میں اجتماعی احساس کی واماندگی، تہذیب کا اضمحلال، قومی اقتدار کا زوال اور خاندانی نجابت کی درماندگی کا نہایت گہرا شعور بھی کارفرما ہے۔ یہ شعور دو طرح سے اس کے یہاں اپنا اظہار کرتا ہے۔
دیکھیے، کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ وہ جسے ہم اُس کے یہاں زبان کا طنطنہ کہتے ہیں، وہ دراصل ایک خواہش، ایک کوشش یا ایک جستجو کا اظہار ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ غالب جس تہذیب کا فرد ہے، وہ رو بہ زوال ہے اور تیزی سے انہدام کے عمل سے گزر رہی ہے۔ غالب کا تخلیقی شعور اس مسئلے سے غافل نہیں ہے، بلکہ وہ اسے پوری طرح سمجھ رہا ہے۔ صرف سمجھ نہیں رہا، بلکہ اس انہدام کے عمل کو روکنا چاہتا ہے، لیکن وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہے کہ یہ کام اصل میں تکوینی قوتوں کے زیرِاثر ہورہا ہے اور تہذیب کی اس زوال آمادگی کو ایک فرد کی مزاحمت روک نہیں سکتی۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ اس حقیقت کو غالب کا شعور تسلیم تو ضرور کرتا ہے، لیکن دوسری طرف اُس کے لاشعور میں عصری و تہذیبی زندگی کی اس حقیقت کے خلاف مزاحمت کی خواہش بھی رہ رہ کر سر اٹھاتی ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خواہش اپنے اظہار کا راستہ یوں نکالتی ہے کہ اپنی زبان کو خود ایک تہذیبی وجود گردانتے ہوئے اسے اپنے سے ایک بڑی اور مستحکم تہذیب سے ہم آہنگ کرکے دوبارہ استحکام دینے کی اپنی سی کوشش کی طرف مائل کرتی ہے۔
اس اعتبار سے غالب کے یہاں زبان کا یہ طنطنہ دراصل اپنی زوال آمادہ تہذیب کے لیے حیاتِ نو کی شدید خواہش کا مظہر ہے۔ آج ہم اسے بے شک ایک معصوم شاعرانہ خواہش قرار دے سکتے ہیں، لیکن اُس وقت غالب جب اس سے دوچار تھا تو اُس کے لیے یہ حیات و موت کا مسئلہ تھا۔
بات یہ ہے کہ فرد ہو یا تہذیب، دونوں کے یہاں سب سے بڑی آرزو دراصل بقا کی آرزو ہوتی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ غالب جیسا بڑا شاعر چاہے کتنا ہی خودپسند کیوں نہ ہو، لیکن روحِ عصر کے زیرِاثر اور اپنی افتادِطبع کے تحت اپنے تخلیقی عمل میں صرف ذاتی بقا کی جستجو نہیں کرتا، بلکہ اس سے کہیں زیادہ اجتماعی بقا کی راہ تلاش کرتا ہے۔ اس صورتِ حال میں ہم دیکھتے ہیں کہ بقا کی اس خواہش کے پس منظر میں اُس کے یہاں تقدیر اور محبوب دونوں ایک ہی حقیقت کی تجسیم کرتے ہوئے سامنے آتے ہیں۔
یوں اس مرحلے پر شاعر جب اپنی کیفیت کو بیان کرتا ہے تو ایک طرف وہ اُس کے انفرادی یا داخلی احوال کا اظہار ہوتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ دوسری سطح پر اس احوال کا اطلاق اس کے اجتماعی یا تہذیبی وجود پر بھی ہوتا ہے۔ فرد کی اس صورتِ حال میں اُس کے سماج کا عکس بھی در آتا ہے۔ اس طرح شاعر کے انفرادی عشق کا ماجرا خود اُس کی تہذیب کی تقدیر کو بھی بیان کرنے لگتا ہے:
کیوں گردشِ مدام سے گھبرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں
—————
خیالِ جلوۂ گل سے خراب ہیں میکش
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں
—————
سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے
ذرا غور کیجیے، کیا یہ سب کا سب صرف ذاتی درماندگی یا شخصی المیے کا اظہار ہے؟ چلیے ایسا بھی ہوگا ایک سطح پر، لیکن یہ بیانیہ اور اظہار کی یہ صورت محض یک سطحی نہیں ہے۔ ایک اور سطح پر اس میں وقت سے اور تقدیر سے ٹکراؤ کے بعد کے احساس کی گونج بھی صاف سنائی دیتی ہے۔ اس گونج کی شدت سے بہ آسانی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ ٹکراؤ محض فرد کا نہیں ہے، بلکہ پوری تہذیب کا ہے اس لیے کہ پامالی اور خستگی کا یہ تجربہ شاعر نے انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر اپنے اندر محسوس کیا۔ اچھا اب یہ تو ہوا ایک پہلو۔
دوسرے رُخ سے اس کے ساتھ توجہ طلب بات یہ بھی ہے کہ محض یہی احساس غالب کی شاعری کا مستقل لہجہ بن کر نہیں رہ جاتا۔ تقدیر سے تصادم لاحاصل ہے۔ انسان چاہے کتنی ہی اشرف مخلوق ہو، لیکن وہ اور اُس کی تہذیب دونوں کا انجام بہرحال فنا ہے۔
زندگی کی ساری تگ و تاز کا نتیجہ آخرالامر فنا ہے۔ کوئی اوسط درجے کا آدمی یا کم تر سطح کا شاعر اس زوال آمادہ صورتِ حال میں اس احساس سے بری طرح مغلوب ہوکر بیٹھ جاتا، لیکن ظاہر ہے، غالب بہرحال غالب ہے۔ چناںچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی افتادِطبع کے باعث یہ احساس غالب کو ایسی ایبسرڈٹی سے دوچار کرتا ہے کہ جس کا رد پھر اُسے تمسخر و استہزا کے سوا کسی دوسری شے سے ممکن ہی نظر نہیں آتا۔ اس لیے ہمیں غالب کے یہاں زبان اور انانیت کے بعد جو تیسرا پہلو غور طلب ملتا ہے، وہ یہی تمسخر ہے۔
غالب کی ذاتی اور تہذیبی زندگی کو سامنے رکھا جائے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے یہ تمسخر و استہزا کا رویہ دراصل اُس کے لیے آکسیجن بن کر جینے کی راہ پیدا کرتا ہے۔ المیہ ذاتی ہو یا تہذیبی، غالب حالات کو اور حقائق کو سمجھ لیتا ہے تو پھر قبول بھی کرلیتا ہے۔ وہ مان لیتا ہے کہ زندگی یا وقت جو کچھ دکھا رہا ہے، وہ ناقابلِ تردید ہے۔ حقائق اور حالات کو جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ یہ سچائی اپنی جگہ، لیکن اُس کی سخت کوش طبیعت حقائق سے مغلوب ہوکر رہ جانے پر بھی کسی صورت آمادہ نہیں ہوسکتی۔ وہ مانتا ہے کہ حالات کو محض اپنی انفرادی قوت سے بدل نہیں سکتا، لیکن وہ انھیں اپنے اوپر لاد کر مظلوم آدمی بننے پر بھی تیار نہیں ہوتا۔ اب وہ جائے تو جائے کہاں اور کرے تو آخر کیا کرے۔ تب اُسے ایک رستہ سجھائی دیتا ہے اور وہ یہ کہ اس ساری صورتِ حال کو بارِ خاطر نہ بنایا جائے۔
سوچیے، بھلا یہ کیسے ممکن ہے۔ جس شخص کی طبیعت میں نسبی ناز و تمکنت اور شاعرانہ حساسیت دونوں موجود ہوں، وہ کیسے اس سارے عذاب سے غافل ہوسکتا ہے۔ بس اس مرحلے پر یہ تمسخر اور استہزا کا رویہ اس کے کام آتا ہے اور وہ ان کی مدد سے تلخیِ حیات کو قابلِ برداشت بنا لیتا ہے۔
میر اور غالب میں بنیادی فرق یہ ہے کہ میر نے اس قفسِ عنصری کے چہار اکناف میں دور دراز کا ذہنی و فکری سفر کیا ہے، اور اُن منزلوں کا بھی سراغ لگایا ہے جن کے ہونے کا پوری اردو شاعری میں میر کے سوا کسی کو گمان تک نہیں گزرا۔ ظاہر ہے، یہ بجائے خود میر کی یگانۂ روزگار عظمت کا ثبوت ہے۔ البتہ میر کی سیرو سیاحت بڑی حد تک ہموار میدانوں میں رہی ہے۔ یعنی میر بحیثیت فرد خدا سے، اس کائنات کی قوتوں سے، اچھے برے انسانوں سے ٹکرانے کے بجائے ان کو قبول کرنے کا مزاج رکھتا ہے۔ وہ پہلے انھیں مانتا ہے اور پھر اُن کی حقیقت و ماہیت کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا سبب ہے، میر کے یہاں تسلیم و رضا کا رویہ۔ اصل میں میر کے تخلیقی اسپِ تازی کی باگ ڈور اس کے اندر بیٹھے ایک صوفی کے ہاتھ میں رہتی ہے۔
یہ صوفی ویسے تو اُسے والد سے وراثت میں ملا تھا، یعنی میر کی جینز میں آیا تھا، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ خود میر نے بھی اسے زندہ رکھا۔ اس کے برعکس غالب خانوادۂ اقتدار کا چشم و چراغ تھا۔ رسم و رہِ سلوک کو جاننے سے تو اُسے بے شک کسی حد تک دل چسپی تھی، لیکن اُس کی طبعی کیفیت اس معاملے سے کچھ بہت زیادہ مناسبت نہیں رکھتی تھی۔ وہ راضی بہ رضا والی فطرت ہی لے کر پیدا نہیں ہوا تھا۔ اچھا برا جو بھی مقدور ہو، وہ اپنے ڈھنگ سے کرنے کا خواہاں رہتا تھا۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اُسے اپنی افتادِ طبع کے ایسے کسی اظہار میں مطلق تأمل نہ تھا:
ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر
وہ سپہ گروں کی اولاد ہونے پر فخر کرتا ہے۔ بہت ارمان نکلنے کے باوجود وہ محسوس کرتا ہے کہ کم نکلے ہیں اور دل میں اب بھی ایسی ہزاروں خواہشیں ہیں کہ جن پر دم نکلے۔ دنیا اُسے بازیچۂ اطفال معلوم ہوتی ہے، اورنگِ سلیمان اُس کے نزدیک ایک کھیل ہے اور اعجازِ مسیحا محض ایک بات۔ اشیا کی ہستی اُس کے نزدیک وہم سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ سپہ گری ہو یا اقتدار دونوں کے آگے صحرا گرد ہوجاتے ہیں اور دریا پامال۔ زندگی اُس کے لیے دار و رسن کی آزمائش ٹھہرتی ہے۔ رگوں سے دوڑتے خون کا وہ قائل ہی نہیں ہوتا، کہتا ہے، جب آنکھ سے ہی نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے۔ وہ اشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ مرتے ہیں، ولے اُن کی تمنا نہیں کرتے۔
ظاہر ہے کہ ایسا مزاج تسلیم و رضا کو اختیار کرنے پر آمادہ ہو ہی نہیں سکتا۔ وہ زندگی کو اپنی راہ پر لانے کے لیے سارے جتن کرتا ہے، یہ ماننے اور جاننے کے باوجود کہ اُس کے فہم اور اختیار دونوں سے دور کچھ قوتیں متصرف ہیں۔ تقدیر انھی میں سے ایک بڑی قوت ہے۔ وہ باندازِ دگر اس کا اعتراف بھی کرتا ہے:
تیری وفا سے کیا ہو تلافی کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے
—————
تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی مرا رنگ زرد تھا
—————
کروں بیدادِ ذوقِ پرفشانی عرض، کیا قدرت
کہ طاقت اڑ گئی، اُڑنے سے پہلے میرے شہپر کی
اُس کی افتادِطبع اُس کے اندر بغاوت، بلند ہمتی اور دشوار پسندی کا ماحول بنائے رکھتی ہے اور وہ مسلسل پیکار پہ آمادہ نظر آتا ہے۔ اُس کا مزاج اپنے اس رنگ کا اظہار طرح طرح سے کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے:
تھی نوآموزِ فنا ، ہمتِ دشوار پسند
سخت مشکل ہے کہ ، یہ کام بھی آساں نکلا
—————
احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کرسکے
زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا
—————
جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا
لیکن آدمی کی بے بضاعتی اور بے اختیاری کا عالم بھلا کیوں کر اُس کی آنکھوں سے پوشیدہ رہ سکتا ہے۔ جبروقدر کی حقیقتوں کی طرف اُس کا رویہ چاہے جو بھی ہو، لیکن وہ اُن کی نفی تو بہرحال نہیں کرسکتا۔ اُس کی انا چاہے کتنی بھی بڑی ہوجائے، لیکن یہ بات کہ وہ بھی ہے آدمی آخر، وہ بھلا کیسے فراموش کرسکتا تھا۔ وہ لاکھ کہے کہ پیشۂ آبا سپہ گری ہے، لیکن اس امرِ واقعہ کا منکر تو نہیں ہوسکتا کہ خاندانی عزو وقار اور نسبی شان و شوکت کو چشمِ فلک خاک میں ملتا ہوا دکھانے پر مصر تھی۔
ذاتی اور تہذیبی تقدیر کی ان سچائیوں کو غالب کس طرح جھٹلا سکتا تھا۔ یہ خیال اُسے آتا تو ضرور ہے کہ ذاتی خاندانی مسائل اور معاشی الجھنیں اُس کے ذہنی دباؤ اور ہزیمت کے لیے کیا کم تھیں کہ اُن کے ساتھ تہذیبی و سماجی تغیرات نے بھی سیلابِ بلا صورت کی اُس کے گھر کا رستہ دیکھ لیا، لیکن اُسے حقائق کا ادراک بھی رہتا ہے۔ کوئی اور ہوتا تو پاگل ہوکر صحرا کا رُخ کرتا یا حالات کے زنداں میں بے بسی سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرجاتا۔
غالب کے مزاج کو مگر یہ کیسے گوارا ہوسکتا تھا۔ پھر یہ ہوا کہ نخوت سہارا نہ بن سکی اور تمکنت کسی کام نہ آئی تو اُس نے آلامِ حیات کو اپنے تمسخر کے نشانے پر رکھ لیا۔ اُس نے سوچا، ٹھیک ہے، زندگی میں ناز نہ سہی پر جینے کا انداز تو اپنا ہوسکتا ہے۔ زندگی کے رستے پر ہی چلنا ٹھہرا، سو ٹھیک ہے، چلیں گے تو کچھ اپنی ہی وضع سے۔ اب چوںکہ غالب کی فکر آفاق گیر ہے اور ذہن ہستی و عدم کے بڑے تناظر میں دیکھنے اور سوچنے کا عادی ہے، اس لیے تمسخر اور استہزا کے اس رویے کی لپیٹ میں صرف اپنی ذات یا اپنے جیسے انسان ہی نہیں آتے، بلکہ خدا اور اس کی بنائی ہوئی یہ کائنات بھی آجاتی ہے، اور کسی بھی تأمل و تکلف کے بغیر:
ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق، مصیبت ہی سہی
—————
آئینہ دیکھ اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا
—————
کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملا لیں یارب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
—————
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالب
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
یہ رویہ غالب کے یہاں پھر طرزِحیات کے طور پر اُبھرتا ہے۔ دُکھ، مسائل، رنج، اذیتیں، رسوائیاں اور ہزیمتیں— کیا کچھ ہے جو غالب کی زندگی میں نہیں ہے، اور ذاتی حوالوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی اور تہذیبی بنیادوں پر بھی ہے۔ اُس نے سب کچھ سہا اور اپنی اسی طبیعت اور اسی مزاج کی وجہ سے۔
اس لحاظ سے دیکھیے تو غالب کے یہاں زبان کا طنطنہ، کائنات گیر ذاتی انا کا احساس اور خدا اور تقدیر، مرگ و زیست، خوشی اور غمی، عبادت و محبت، غرضے کہ ارض و سما کی ہر شے کی طرف استہزا کا رویہ— ان تینوں جہات کے پس منظر میں ایک ہی بنیادی مسئلہ کارفرما ہے، اور وہ ہے بقا کی آرزو۔ اس آرزو میں ذات اور تہذیب دونوں مل کر غالب کا تخلیقی شعور دیتی ہیں۔ یہ شعور غالب کی نظروں سے اس حقیقت کو مخفی نہیں رہنے دیتا ہے کہ شکستِ آرزو اُس کی لابدی تقدیر ہے۔ تب یہ دنیا، اس کے مظاہر اور حقائق سب کچھ اس کے لیے کھیل تماشا ہوجاتے ہیں۔
اب اگر وہ ایک خود مکتفی کائنات بن جانا چاہتا ہے یا اکائی کے اُس احساس سے عاری ہوجاتا ہے جو اِس سے پہلے اُس کی تہذیب کی تعمیر یا اُس کی تقدیر کی تلافی کا سامان کرسکتے ہیں۔ یقیناً نہیں۔ تو پھر ہمیں ماننا چاہیے کہ غالب نے شاعری میں جس شعور کا اظہار کیا اس نے احوال و حقائق سے ترکیب پائی تھی۔ ہم ان حقائق کو ناپسند تو بے شک کرسکتے ہیں، لیکن اُن کی نفی نہیں کرسکتے۔ اس لیے کہ یہ ایک تکوینی عمل ہے۔ غالب کا کریڈٹ یا آپ کہنا چاہیں تو ڈس کریڈٹ یہ ہے کہ اُس نے شاعرانہ پینک میں آنکھیں بند کرکے رہنا قبول نہ کیا، بلکہ حالات کو دیکھا، سمجھا اور ان کی حقیقت کو تسلیم کیا۔ یہی وجہ ہے کلامِ غالب ہمارے شعری تناظر کا ایک الگ رنگ ابھارتا ہے، ایک ایسا رنگ جس میں ملال اور بیداری کی کیفیت ہم آمیز ہوگئی ہے۔
غالب کی بڑائی بحیثیت شاعر صرف ایک نہیں، بلکہ کئی ایک جہات سے مسلم ہے۔ بڑا شاعر حیات و کائنات اور مرگ و زیست کے بڑے سوالوں سے آنکھیں چار کرتا ہے۔ زندگی کو پرت در پرت دیکھنے اور اُس کی حقیقت و معنویت کو جاننے اور بیان کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ ایک فرد کے تجربے میں پورے ایک عہد اور ایک مکمل تہذیب کے کیف و کم کو سمیٹ لیتا ہے۔ اُس کی آنکھیں عصری زندگی کے پنہاں حقائق تک بھی جاتی ہیں اور اس سے آگے وقت کے گلشنِ ناآفریدہ کو بھی دیکھ آتی ہیں۔
اُس کی آواز میں صرف اُس کے عہد کی روح کلام نہیں کرتی، بلکہ آنے والے دنوں کا شعور بھی گونجتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ اُس کا جسم ایک خاص زمانی و مکانی حوالے سے حال میں زیست کرتا ہے، لیکن اُس کا تخلیقی ضمیر ماضی و مستقبل کو ایک نکتۂ ارتکاز پر لاکر اُن سے زندہ احساسات کشید کرتا ہے۔ غالب کی شاعری میں ایک ایسا ہی بیدار ذہن اور تخلیقی ضمیر ہمارے سامنے آتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ہم اُسے ماضی کی یادگار کے طور پر نہیں پڑھتے، بلکہ اپنے عہد سے اُس کی غیر معمولی relevance کو محسوس کرتے ہیں، اور اس زاویے سے اُس کی معنوی دنیا کو نئے سرے سے explore کرتے ہیں۔
The post شیوۂ غالب appeared first on ایکسپریس اردو.