جنوبی پنجاب کے رہنے والوں کو بجا طور پر یہ شکوہ رہا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی جانب سے انہیں ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے، میڈیا اور حکومت دونوں کا رویہ سوتیلی ماں کا سا رہا ہے، دونوں نے اپنی توجہ فقط چند بڑے شہروں تک محدود اور مرکوز رکھی اور اس کے نتیجے میں اس وسیب کے کتنے ہی با صلاحیت اور نامور افراد کی پذیرائی نہیں ہوئی، محرومی و بد قسمتی کو یہاں کا مقدر بنا دیا گیا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں بڑے شہروں میں رہنے والے کئی غیر مستحق افراد کے قد بڑھا دیئے گئے۔
انہیں سرکاری اعزازات سے نوازا گیا، اس وسیب میں اعلیٰ پائے کے ادیب، شاعر، دانشور، محقق، کھلاڑی، سٹیج فنکار، موسیقار، ماہرین زراعت، اساتذہ کرام، ماہرین طب اور سماجی خدمت کے شعبہ میں ناموری حاصل کرنے والے افراد کی کمی نہیں ہے مگر اس امر کی بیحد ضرورت ہے کہ ہم اپنی اس سوچ کو بدلیں اور اپنے اس رویے پر نظر ثانی کریںجس کے باعث چراغ تلے اندھیرا رہ جاتا ہے۔ اپنے وسیب کے ہر ذرے کو اجالنے کے جذبے کے تحت آج ہم بہاولپور کی سرزمین کے ایک قابل فخربیٹے، سنگیت کی دنیا کے بہت بڑے نام استاد توکل حسین خاں کی شخصیت کا تذکرہ کرنے جا رہے ہیں۔ اپنی زندگی میں یہ جتنے نامور رہے ہیں اب د ن بدن گمنامی کے پردوں تلے دبتے جاتے ہیں۔
ایک اور تکلیف دہ امر یہ بھی ہے کہ خاں صاحب کے بارے میں بہت کم تحریری مواد دستیاب ہے اور جو زبانی روایات سننے کو ملتی ہیں ان کے مستند ہونے کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے اور نہ ہی کوئی دعوی کیا جا سکتا ہے۔ خان صاحب کی گائیکی کی ریکارڈنگ موجود نہیں اس لئے ایک بہت بڑا سورس جو ان کی گلوکاری کے بارے میں وضاحت کے ساتھ روشنی ڈال سکتا تھا وہ موجود ہی نہیں۔ تاہم راقم نے یہ کوشش کی ہے کہ جہاں جہاں سے ان کے حوالے سے کوئی معلومات ملی ہیں ان کو یک جا کیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس مواد کو پڑھ کر قارئین بہت سی باتوں کا تجزیہ خود بھی کر سکیں گے۔
ملتان سے تعلق رکھنے والے معروف اہل قلم، محقق اور ادب و سنگیت سے خصوصی دلچسپی رکھنے والے علی تنہا نے اپنی مضامین پر مشتمل کتاب’’ ریت میں سونا‘‘ میں خاں صاحب پر ایک بھرپور مضمون تحریر کیا تھا لیکن ان کا اور میرا مین سورس ایک ہے یعنی اعجاز توکل خاں، تاہم علی تنہا کا پیرایہ بیاں بہت دلپذیر ہے۔ زیر نظرمضمون میں کچھ نئے واقعات اور خاں صاحب کی کچھ ایسی خوبیوںاور صلاحیتوں کا بیان ہے جن کا شاید قبل ازیں کہیں ذکر نہ ہوا ہو۔
استاد توکل خاں کی تاریخ پیدائش و وفات مستند طور پر کسی کو معلوم نہیں، تاہم ورثاء کا اندازہ یہ ہے کہ وہ 1898 یا 1900 کے لگ بھگ پیدا ہوئے، بقول اعجاز توکل، خاں صاحب کی تاریخ وفات کے بارے میں بھی ایک روایت 1952 کی ہے اور دوسری 1958 کی۔ تحصیل جام پور کے قصبہ سندیلہ شریف میں رہایش پذیر تھے وہیں ان کی وفات اور تدفین ہوئی۔ وفات کے وقت ان کی عمر تقریباً ساٹھ سال بتائی جاتی ہے۔
ورثا کے مطابق خاں صاحب نے سنگیت کی تعلیم اپنے والد مولا بخش جاڈلہ سے حاصل کی جو خود بہت گنی سنگیت کار تھے۔ تاہم بعض حلقوں میں یہ بھی مشہور ہے کہ وہ پنڈت بھاسکر راؤ کے بھی شاگرد ہوئے لیکن اعجاز توکل صاحب کا کہنا ہے کہ ہمارے خاندانی ذرائع اس امر کی تصدیق نہیں کرتے،ممکن ہے انہوں نے کسی موقع پراپنی یہ خواہش ظاہر کی ہو،اس کے برعکس خاندانی روایت یہ بتاتی ہے کہ استاد توکل حسین خاں استاد اللہ دیا خاں سے ملے جو پنڈت بھاسکر راؤ کے بھی استاد تھے اور ان سے کچھ اکتساب فیض بھی کیا۔
خان صاحب کی استادی شاگردی کے بارے میں جو غیرمصدقہ اور خاندانی ذرائع کے علاوہ روایات ہیں ان میںایک تو یہ ہے کہ وہ پنڈت بھاسکر راؤ کے پاس ان کا شاگرد ہونے کیلئے گئے تو انہوں نے اس وجہ سے انکار کر دیا وہ مسلمانوں کو شاگرد نہیں کرتے، بعض اس روایت میں تھوڑا سا اضافہ کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں جب پنڈت بھاسکر راؤ نے ان کا اصرار، شوق اور تھوڑا سا سن کر دیکھا تومتاثر ہوکر شاگرد کرلیا۔ اسی طرح کی ایک اور زبانی روایت یہ ہے کہ انہوں نے بابا ملنگ بونیا جو گوالیار گھرانہ کے شاگرد تھے سے بھی سنگیت ودیا لی۔ بہر حال ایسا شخص جس نے اپنے ہنرکے ذریعے اپنے دور کے بڑے بڑے سنگیت کاروں کو متوجہ و متاثر کیا ہو، ایسے گنی فنکار نے کیا معلوم رسمی یا غیر رسمی انداز میںکہاں کہاں سے اکتساب فیض کیا ہو گا۔
استاد توکل حسین خاں کے والد صاحب کا نام مولابخش تھا اورضلع جالندھر میں ان کی رہائش قصبہ جاڈلہ میں تھی، اسی نسبت سے وہ مولا بخش جاڈلہ کے نام سے مشہور تھے۔ ایک واقعہ جسے اکثر لوگ استاد توکل حسین خاں سے منسوب کر کے بیان کرتے ہیں، توکل خاں کے ہونہار پوتے اعجاز توکل نے تصحیح کی ہے کہ یہ واقعہ در حقیقت پردادا مولا بخش جاڈلہ کا ہے۔ ہوا یوںکہ ہر بلبھ کے میلہ پر جہاں ہندوستان بھر کے سنگیت کاروں کا اجتماع اور مقابلہ ہوتا تھا، وہاں گاتے ہوئے کسی سنگیت کار نے اپنی چابکدستی سے مولابخش جاڈلہ کو فنی حوالے سے زیر کر دیا مگر انہوں نے اس بندے کو چیلنج کر دیا کہ میں اگلے سال اسی میلہ میں اسی سٹیج پر اپنا حساب برابر کروں گا، اب تم ہوشیار رہنا۔ وہاں سے وہ سیدھے ملتان آئے جہاں ایک نقارچی خاندان سنگیت کی باریکیوں کے حوالہ سے خاص شہرت رکھتا تھا، پردادا جان ان کے شاگرد ہوگئے، اور اگلی بار ہر بلبھ کے میلے میں اپنا بدلہ ایسا لیا کہ سب اش اش کر اٹھے۔ توکل خاں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ طبعاً وہ بھی مقابلہ پسند تھے اور کم ہی کسی سے شکست کھاتے تھے۔
خان صاحب سنگیت مقابلوں کے دھنی اور اپنی دھن کے ایسے پکے تھے کہ اپنی بات ثابت کئے اور منوائے بنا ہرگز پیچھے نہ ہٹتے تھے۔ ایک موقع پر لاہور ہیرا منڈی میں سنگیت کی محفل جمی ہوئی تھی،کچھ گویوں نے شرارتاً ایک سادہ سے آدمی کو سکھا کر کھڑا کر دیا جس نے خاں صاحب سے پہاڑی راگ سنانے کی فرمائش کر دی۔ خاںصاحب سمجھ گئے کہ شرارت کن لوگوں کی ہے، اس فرمائش پر خاں صاحب نے فرمائش کرنے والے سے کہا کہ جتنے پہاڑ ہیں اتنی ہی پہاڑیاں ہیں جنہوں نے آپ کو سکھا کر کھڑا کیا ہے، ان سے پوچھ کے بتاؤ کون سی پہاڑی سناؤں۔ لوگ اس وجہ سے بھی ان سے خوف کھاتے تھے کہ انہیں سنگیت پر مکمل عبور حاصل تھا حالانکہ طبعاً وہ درویش تھے۔
جنوبی پنجاب اور سندھ میں قیام پاکستان سے قبل کا جو زمانہ ہے، تین بڑے شہرت یافتہ اور پختہ کلاسیکل گائیک ہوئے ہیں، ان میں پٹیالہ گھرانہ کے استاد عاشق علی خاں جن کا قیام زیادہ تر ملتان میں رہا مگر شادی کے جھنجھٹ سے آزاد تھے اس لئے پورا ہندوستان پھرتے رہتے تھے، ان کے بے شمار شاگرد سنگیت کی دنیا میں نامور ہوئے ہیں جن میں سب سے بڑا نام استاد بڑے غلام علی خاں کا ہے، اسی طرح مختار بیگم، ان کی چھوٹی بہن ملکہ غزل فریدہ خانم، کافی گائیکی کی ملکہ زاہدہ پروین،سرائیکی گائیکی میں بہت بڑا نام حسین بخش خاں ڈھاڈی، استاد محمد حسین سرہنگ ان کے نامور شاگرد ہوئے۔
دوسرے بڑے گائیک گوالیار گھرانہ کے مایہ ناز استاد امید علی خاں صاحب تھے، دونوں کے سنگیت گھرانے مختلف تھے مگر باہمی دوستی اس قدر کہ زیادہ تر ایک ساتھ ہی رہتے، اکھٹے ہی متحدہ ہندوستان کے طول و عرض میں ہونیوالے سنگیت میلوں اور مقابلوں میں شرکت کرتے،دونوں نوابوں اور شہنشاہوں کا مزاج رکھتے تھے، انگریزی لباس کے دلدادہ تھری پیس سوٹ زیب تن کرتے ٹائی لگاتے، برجس پہنتے اور مہنگے عطر استعمال کرتے، اچھا کھانا کھاتے اور پندرہ بیس لوگوں کو دستر خواں پرساتھ شامل کرتے۔ دونوں کو پیسہ یا جائیداد بنانے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ کہا گیا ہے کہ انہوںنے جوڑی کی شکل میں راگ للت اورشام کلیان کی جو ریکارڈنگ ترکے میں چھوڑی ہے وہ اس وقت سنگیت کی دنیا میں ایک نایاب و قیمتی متاع سمجھی جاتی ہے۔ اس خطہ کے تیسرے اہم سنگیت کار استاد توکل حسین ہیں۔
ان لوگوں کا آپس میں میل ملاپ بھی رہا ہے اور سنگیت کے مقابلوں میں آمنا سامنا بھی۔ استاد توکل خاں کا لاہور میں بھی آنا جانا بہت رہا ہے اور یہاں پر وہ سنگیت کے دنگلوں میں بھی بھرپور حصہ لیتے رہے جیسا کہ انٹر نیٹ پر مضمون نگار ثاقب رزاق نے استاد عاشق علی خاں پر اپنی تحریر جو 4 ستمبر 2009 کو اپ لوڈ کی گئی میں بتایا ہے ’’تکیہ مراثیا ںاندرون موچی گیٹ لاہور میں استاد عاشق علی خاں کے سنگیت کے دنگل استاد توکل حسین خاں، استاد پیارے خاں اور استاد چھوٹے غلام علی خاں کے ساتھ ہوتے تھے، کئی معمر لوگ جو ان محافل میں شرکت کرتے رہے، آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں‘‘۔
بہاولپور کے کلاسیکل سنگیت کے استاد مبارک علی خاں اس وقت اسی پچاسی برس کے تو ضرور ہوں گے، وہ استاد توکل حسین خاں کے گلوکار بیٹے منیر توکل خاں کے ہم عمر اور گہرے دوست تھے اور دونوں نے جوڑی کی شکل میں کئی راگ بھی گائے اور ایسی ریکارڈنگ ریڈیو اسٹیشن ملتا ن اور بہاولپور کے علاوہ لوک ورثہ اسلام آباد کی میوزک لائبریری اور یو ٹیوب پر تلاش کی جا سکتی ہے۔
ان سے جب استاد توکل خاں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے بتایا کہ میں ابھی بچہ تھا جب خاں توکل حسین صاحب کا عروج تھا مگر میری بدقسمتی کہ میں ان کا گانا نہ سن سکا اس لئے کہ خاں صاحب بہاولپور کے بجائے ظاہر پیر کے قریب واقع خانپور میں قیام پذیر تھے اور یہاں کم کم ہی آتے تھے، ہاں مجھے ان کو ایک بار دیکھنے کا شرف ضرور حاصل ہوا وہ یوں کہ خانپور میں ہمارے عزیزوں کے ہاں ایک شادی تھی جس میں شرکت کے لئے وہاں جانا ہوا تو وہاں خاں صاحب بھی مدعو تھے وہیں ان کو دیکھنے کا موقع ملا، تب میں دس سال کا تھا لیکن خاں صاحب کی شہرت سے آگاہ تھا، مجھے ان کا جو سراپا یاد ہے اس کے مطابق درمیانہ قد، موٹی اور پرکشش آنکھیں، قدرے موٹے ہونٹ،رنگ گندمی، خاں صاحب کے بیٹے استاد منیر توکل خاں صاحب میرے ہم عمر اور دوست تھے اور بعد میںہم دونوںگلوکار جوڑی کی شکل میں گاتے بھی رہے ہیں اور ہم دونوں کے اکٹھے گائے ہوئے کئی راگ یو ٹیوب پر بھی دستیاب ہیں‘‘۔
بتایا جاتا ہے کہ خاں صاحب کی آواز قدرے باریک تھی عام استادوں والا بھاری گلا نہ تھا۔ استاد توکل حسین خاں کے پوتے اعجاز توکل خاں جو جدید غزل کے شاعر اور بہت عمدہ کلاسیکل گائیک ہیں نے اپنے قابل فخر دادا جان کے فن و شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا: ’’استاد توکل حسین خان گوناں گوں اور کئی منفرد صلاحیتوں کی بدولت اپنے ہم عصروں میں نمایاں ہوئے اور آج تک ان کی مثال دی جاتی ہے، کلاسیکل سنگیت کاری کے ضمن میں یہ مانا گیا ہے کہ میوزک کا نازک ترین مرحلہ سر کا گیانی ہونا ہے اور خاں صاحب سر کے انتہائی نقطہ عروج پر پہنچے ہوئے تھے۔
ان کی ایک منفرد خوبی یہ بھی تھی کہ جہاں بہت سے گویے اپنی تانوں کی نوٹیشن کر کے نہیں بتا سکتے، خاں صاحب اس پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ اس امر کا ایک مظاہرہ اس وقت دیکھا گیا جب ملتان میں استاد عاشق علی خاںصاحب گاتے ہوئے تانیں لگا رہے تھے اورا ستاد توکل حسین خاں ساتھ ساتھ ان کی تانوں کی نوٹیشن کر رہے تھے،جس پر استاد عاشق علی خاں صاحب داد دیئے بغیر نہ رہ سکے کیونکہ یہ ہرگزکوئی عام اور معمولی کام نہ تھا۔ مشہور بات ہے کہ استاد توکل حسین خاں راگ کی بڑھت یعنی امپرومائیزیشن بہت عمدہ اور کاریگری کے ساتھ کرتے تھے، لے پر ان کا ہولڈ اور کنٹرول اس درجہ کا تھا کہ طبلے والے ان کے ساتھ سنگت کرنے سے ڈرتے اور کتراتے تھے۔
زاہدہ پروین جنہیں ملکہ کافی کہا اور مانا گیا ہے اگرچہ سنگیت میں استاد عاشق علی خاں کی شاگرد تھیں لیکن کافی گائیکی میں وہ استاد توکل حسین خاں سے متاثر تھیں اور انہی کے انگ کو لے کر وہ آگے چلیں اور مقبول ہوئیں۔ سرائیکی وسیب میں جو زاہدہ پروین، شاہدہ پروین اور پروین نذر کا کافی گانے کا انداز ہے یہ خاں صاحب کی ہی دین ہے۔ گائیکی اور خاص کر کافی گائیکی میں درد کے تاثر کو لے کر آنے والے بھی خاں صاحب ہی ہیں۔ جنہوں نے ان کو سنا،ان کا کہنا ہے کہ ان کی آواز ایسی تھی کہ آواز سے تصویریں بناتے چلے جاتے تھے۔
بھارت کے تمام بڑے نامورہمعصر سنگیت کاروں کے ساتھ تو ان کا تعلق تھا ہی کیونکہ وہ جہاں جہاں بھی غیر منقسم ہندوستان کے طول و عرض میں سنگیت میلے اور مقابلے ہوتے تھے وہاں شریک ہوتے اور اپنے فن کا مظاہرہ کر کے اساتذہ فن سے داد پاتے تھے۔ ان کے ہم عصر فنکاروں میں استاد عاشق علی خاں،استاد امید علی خاں، استاد بڑے غلام علی خاں،استاد چھوٹے غلام علی خاں، استاد عبدالوحید خاں کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان کے شاگردوں میں لاہور والے استاد نذر حسین کے والد فتح دین اور موسیقار استاد نذر حسین خود بھی ان کے شاگرد تھے، ماسٹر سوہنی خاں کلارنٹ نواز، نیاز حسین شامی، موسیقار نیاز حسین، پاکستان کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور منفرد حیثیت والے میوزک کمپوزر خواجہ خورشید انور بھی ان کے شاگرد تھے‘‘۔
سعادت حسن منٹو نے بھی اپنے افسانے ’’جینٹل مینوں کا برش‘‘ میں خاں صاحب کا ذکر کیا ہے، اسی طرح فیض احمد فیض صاحب نے اپنی کتاب ’’شام شہر یاراں‘‘ کے دیباچے میں اپنے حلقہ احباب اور خاص دوستوں جن کے ساتھ وہ محافل میں شریک ہوتے رہے اور صحبتیں رہیں ان میں بھی استاد توکل خاں صاحب کا ذکر موجود ہے۔ چند سطور ملاحظہ ہوں:
ایک دوست ہیں خواجہ خورشید انور، ان کی وجہ سے ہمیں موسیقی میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ خورشید انور پہلے تو دہشت پسند تھے، بھگت سنگھ گروپ میں شامل،انہیں سزا بھی ہوئی جو بعد میں معاف کر دی گئی۔ دہشت پسندی ترک کر کے وہ موسیقی کی طرف مائل ہوئے۔ ہم دن میں کالج جاتے اور شام کو خورشید انور کے والد خواجہ فیروزالدین مرحوم کی بیٹھک میں بڑے بڑے استادوں کا گانا سنتے۔ یہاں اس زمانے کے سب ہی استادآیا کرتے تھے، استاد توکل حسین خاں،استاد عبدالوحید خاں،استاد عاشق علی خاںاور چھوٹے غلام علی خاں وغیرہ‘‘۔
بہت کم احباب کو معلوم ہے کہ استاد توکل حسین خاں شا عر بھی تھے اور نِرگُن تخلص کرتے تھے، نِر گُن کا مطلب جس میں کوئی گّن نہ ہو، خوبیوں اور صلاحیتوں کے بغیر یعنی ناچیز، احقر۔ وہ اپنی بندشوں کے بول بھی خود لکھ لیا کرتے تھے،جیسے راگ گجری توڑی کے یہ بول ان کے اپنے لکھے ہوئے ہیں:
کٹھن دن جائیں، جوآئیں پیا مورے گھر
دکھ جائیں، سکھ پائیں
نِرگُن عرض کرت ہے تجھ سے
مولا سب دکھ دور ہوں مجھ سے
جو ساجن گھر آئیں
دکھ جائیں، سکھ پائیں
استاد توکل خاں کی اولاد میں تین بیٹے تھے، سب سے بڑے منظور حسین خاں، منجھلے ظہور حسین خاں اور سب سے چھوٹے منیر حسین خاں، بڑے اور منجھلے بیٹے سنگیت کی جانب نہیں آئے جبکہ سب سے چھوٹے جو استاد منیر توکل خاں کے نام سے بطور کلاسیکل گلوکار مشہور ہوئے نے اس انمول خاندانی سنگیت کے فن کو اپنایا۔ ان کی اولاد میں سے استاد اعجاز توکل خاں نے بھی اسے بڑھاوا دیا اور آگے ان کے دوبیٹے خیام حیدر توکل اور علی رضا توکل نے بھی اس وراثت کو ترک نہیں کیا جبکہ ماضی کے کئی بڑے گھرانوں کی نئی نسل اس کام سے باغی ہو چکی ہے اور یہ شکوہ کرتے ہوئے کہ اس سے ہمیں یا ہمارے خاندان کو کیا ملا، پڑھ لکھ کر دیگر شعبوں کا رخ کر لیا ہے۔ استاد اعجاز توکل کے بیٹے نہایت ہی سریلے اور نرم و گدازگلے کے مالک ہیں، دونوں بیٹے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ کلاسیکل سنگیت میں بھی اپنا نام پیدا کر رہے اور لاہور کے سنگیت حلقوں میں اپنی جداگانہ شناخت رکھتے ہیں۔
The post استاد توکل حسین خاں …… آواز سے تصویر بنانے والے فنکار appeared first on ایکسپریس اردو.