Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

دل بہلاؤ ناں ٹماٹر کھاؤ ناں!

$
0
0

راقم کی ایک پرانی ہائیکو ہے:
  دل بہلاؤ نا
 میرے سپنوں میں آکر
 دُھرپَت گاؤ نا

پتا نہیں کیوں اَب جب کہ ’سیب ِ محبت‘ پر لکھنے بیٹھا ہوں تو اس میں یہ ترمیم ازخود دَر آئی ہے یعنی گھُس گئی ہے، مگر ٹھہریں، پہلے اس نئی ترکیب سے تو آگاہی حاصل کرلیں۔ جاصل میں ٹماٹر کا قدیم نام ہے Love appleجس کا ترجمہ خاکسار نے یہ کردیا۔ محبت کے مارے حضرات کے کام آئے گا۔ ٹماٹر دیکھنے میں اتنا خوب صورت ہوتا ہے کہ کسی شوخ حسینہ کے تمتماتے، لال چہرے سے تشبیہہ دی جاسکتی ہے، مگر آج تک کسی شاعر نے ایسی حماقت نہیں کی (حسینہ غصے میں سڑے ٹماٹر کھینچ کر نہ ماردیتی)۔ ع: بات چل نکلی ہے، اَب دیکھیں کہاں تک پہنچے …..ہم پاکستانی ’ٹماٹر پسند‘ قوم ہیں ، کیوں کہ ہم محبت کرنے والی قوم ہیں تو محبت کی علامت یعنی ٹماٹر کو کسے بھول سکتے ہیں، ہاں یہ بات ابھی مشکوک ہے کہ ہم کوئی قوم بھی ہیں۔

ہمارے ’ٹماٹر پسند‘ ہونے کا بَیّن ثبوت یہ ہے کہ تقریباً ایک عشرے قبل، ایک صاحب ہمارے سروں پر مسلط تھے جو ’’ڈرتے وَرتے کسی سے نہیں‘‘ تھے (بقول خود، ورنہ حقیقت میں تو……خیر جانے دیں)……اُن کے دور میں ٹماٹر سے اُن کا عشق رنگ لایا تو اس کی اوقات، دو روپے فی کلو سے بڑھ کر سَوا دو سو (کراچی میں دو سو دس، اندرونِ سندھ میں دو سو پچیس) روپے تک جاپہنچی تھی۔ اُن کے بعد جو صاحب آئے، انھیں ٹماٹر بہت ’کھپے‘ تھا (چاہیے تھا) یعنی اس کی کھپت مطلوب تھی، سو انھوں نے بھی اس سبزی نما پھل کی قیمت دو سو روپے سے نیچے نہ آنے دی، مگر پھر بعد میں ایک سازش کے تحت وہ لوگ برسراقتدار ہوئے جنھیں ٹماٹر سے کوئی لگاؤ نہ تھا، یوں اُس کی قیمت بازار میں گرتی چلی گئی۔ اَب پچھلے دنوں ٹماٹر کا ایک سچا شیدائی مسند اقتدار پر بیٹھا تو اُس نے ایک مرتبہ پھر اس اہم معاشی مسئلے کے بڑھاوے کی طر ف توجہ دی اور یوں لاہور میں ٹماٹر کی قیمت تین سو روپے، جب کہ کراچی میں ڈھائی سو روپے ہوگئی۔

[https://www.youtube.com/watch?v=NzU5N6YEtZM]۔ اب یہ ایک الگ اور اپنی جگہ دل چسپ کہانی ہے کہ ٹماٹر ہمارے یہاں کیسے اور کہاں سے آیا اور آیا ہی نہیں ایسے چھاگیا کہ کم وبیش ہر کھانے میں شامل کیا جاتا ہے یا جاسکتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ حیرت انگیز انکشاف بھی آپ کی بصارت کی نذر کردوں کہ بیسویں صدی کے ابتدائی عشرے میں، بالتحقیق مُرَتَّب کی جانے والی لغت، فرہنگ آصفیہ اور اسی کی طرح اہم سمجھی جانے والی نوراللغات میں لفظ ’ٹماٹر‘ سرے سے موجود نہیں۔ گویا یہ لفظ بہت تاخیر سے ہماری پیاری زبان میں شامل ہوا۔ اب ٹماٹر کے متعلق محاورے کا استعمال بھی زیادہ سے زیادہ اس طرح ملے گا کہ فُلاں کا بچہ کیا لال ٹماٹر جیسا ہے۔

فُلاں لڑکی۔ یا۔ عورت کا چہرہ تو بالکل ٹماٹر ہے۔ فُلاں شخص تو غصے میں ایک دم ٹماٹر ہوگیا۔ گذشتہ دنوں کچھ نئے لطائف وھاٹس ایپ یا فیس بک کے ذریعے معرض ِوجود میں آئے ہیں، جیسے ’’پہلے کہتے تھے ، کماکر دکھاؤ۔ اب کہتے ہیں ٹماٹر لاکر دکھاؤ۔‘‘ راقم کی رائے میں یہ لطیفہ ایک بہت پرانے لطیفے کی یاد تازہ کرتا ہے۔ کسی جگہ ایک شخص آواز لگارہا تھا ، ’تماتر تھاؤ….تماتر تھاؤ‘۔ ایک شخص نے غصے سے کہا ، ’کما کر ہی تو کھاتے ہیں۔‘ اُس بے چارے نے تُتلاکر وضاحت کی تو پتا چلا ، وہ کہہ رہا تھا ، ’ٹماٹرکھاؤ‘۔ ہمارے یہاں ایک عجیب دستور یہ بھی ہے کہ کسی کو ہدف ِ ملامت بنانا ہو یا نشان عبرت، اُس پر گندے انڈوں کے ساتھ ساتھ، سڑے ہوئے ٹماٹروں کی بارش کردی جاتی ہے۔

ویسے تو مغرب میں بھی یہ چلن ہے، مگر اتنا عام نہیں۔ ہاں البتہ ایک تہوار بڑا عجیب منایا جاتا ہے، ’’ٹماٹر ماری‘‘ کا۔ اسپین کے علاقے، بُون نول[Buñol, Valencia-Spain] میں، سن انیس سو پینتالیس [1945]سے متواتر منعقد ہونے والے اس میلے کو ہِسپانوی[Spanish] زبان میں لا۔توماتینا[La Tomatina]کہا جاتا ہے۔ اس موقع پر لوگ ایک دوسرے کو محض تفریحاً ٹماٹر مارتے ہیں۔ یہ میلہ ہر سال اگست کے آخری بدھ کو منعقد ہوتا ہے، اس سال یہ موقع تیس اگست کو آیا تھا۔ (آج کل کچھ ’’اصلاح پسند‘‘ اخبارات اور ادبی رسائل میں لفظ ’میلہ ‘ کو ’میلا‘ لکھ رہے ہیں، جب کہ ’مَیلا‘ سے مراد ہے، مَیل کھایا ہوا، گندہ۔ اور یہ ’گندا‘ نہیں ہے)۔ اس ٹماٹر ماری کے قواعد میں یہ بات اہم ہے کہ کسی کو ٹماٹر مارنے سے قبل ، اسے کچل دیا جائے تاکہ کسی کو رَتّی برابر چوٹ نہ لگے۔ ’’ٹماٹر ماری‘‘ کے ہِسپانوی تہوار سے متأثر ہوکر دنیا کے بعض دیگر حصوں میں بھی یہی سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔

امریکا کی ریاست کولوراڈو کے شہر ٹوئین لیکس، لیک کاؤنٹی[Twin Lakes, Lake County, Colorado] میں سن انیس سو بیاسی 1982] [ سے ’’کولوراڈو۔ ٹیکساس جنگِ ٹماٹر‘‘ [Colorado Texas Tomato War]ہورہی ہے۔ امریکی ریاست نیواڈا کے شہر رینوThe City of Reno, Nevada] [ میں سن دوہزار نو سے، اگست کے آخری اتوار کو American Cancer Societyکے زیراہتمام ، ایسا ہی ایک مقابلہ ٹماٹر ماری، ایک گھنٹے کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کا نام بھی اسپین کے تہوار پر ’لا۔توماتینا‘ رکھا گیا ہے۔ سن دوہزار چار [2004] سے کولمبیا کے شہر سوتامارشان [Sutamarchán] میں پندرہ جون کو، ٹماٹر کی بھرپور فصل کی کٹائی کے موقع پر ملتا جُلتا تہوار منایا جاتا ہے۔

کوستاریکا [Costa Rica]کے شہر ساں ہوزے دے ترویا[San José de Trojas] میں مقامی ’میلہ ٹماٹر‘ کے موقع پر ایسا ہی کیا جاتا ہے۔ (یہ تمام تلفظ ہسپانوی زبان کے اصل تلفظ کے مطابق ہیں)۔ عوامی جمہوریہ چین کے جَنوبی صوبے گوانگ دونگ [Guangdong]کے شہر دونگ گُوانDongguan] [میں انیس اکتوبر کو ’ٹماٹر ماری‘ کا انعقاد کیا گیا جس میں تقریباً پندرہ ٹن ٹماٹر استعمال ہوئے۔ ہندوستان کی ریاست کرناٹک کے شہروں بنگلور اور میسور میں ایسے میلے کے انعقاد پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جب کہ اسی طرح کا مقابلہ ٹماٹر ماری ، دہلی میں بھی منعقد ہونے والا تھا جسے عوام کے احتجاج کے سبب منسوخ کردیا گیا۔ بہرحال اس سے قطع نظر، چھبیس مارچ سن دوہزار تیرہ کو ہندوستان کے شہر پٹنہ میں Funtasia Islandکے زیراہتمام Funtasia Water Park میں لا۔ توماتینا ہولی منائی گئی تھی۔

اسی طر ح دیگر مقامات یا مواقع کے علاوہ، سن دوہزار گیارہ2011] [میں، ہندوستانی فلم ’زندگی نہ ملے گی دوبارہ‘ میں ایک گانے، ’اک جنون۔Paint It Red‘ کے لیے ٹماٹر ماری کا منظر عکس بند کیا گیا تھا۔ ہالی ووڈ کی فلمWe Need to Talk About Kevin کے افتتاحی منظر میں ایک کردار Eva کو لا۔ توماتینا میں شریک ہوتے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح یہ منظر فلم Spanish Masala میں بھی دکھایا گیا ہے۔ سن دو ہزار چودہ [2014] میں برطانیہ کی مُوسیقی سے بھرپور فلم Walking on Sunshineایسا ہی ایک منظر دکھایا گیا۔ یہ فلم اٹلی کے علاقے Nardò میں عکس بند ہوئی تھی۔

ٹماٹر کا تعلق نباتات کی Solanaceae family/The nightshade family سے ہے جب کہ اس کا نباتی نام Lycopersicon esculentum ہے، جس طرح آلو کا تعلق اصل میں جنوبی امریکا کے مغرب میں واقع ملک پیرو[Peru]سے ہے، بالکل اسی طرح یہ ٹماٹر بھی اُسی براعظم کے خطےAndes سے پوری دنیا میں پھیلا۔ اس خطے میں پیرو، بولیویا [Bolivia] ، چلی [Chile]اور ایکوا ڈور[Ecuador] شامل ہیں۔ (ہمارے یہاں ناواقف لوگ اس ملک کا نام تشدید لگاکر ’چِل۔ لی‘ پکارتے ہیں اور اسی طرح ’ایکوا۔ڈور‘ کو ایکوئے ڈور کہتے ہیں جو درست نہیں)۔ کہا جاتا ہے کہ قدیم تہذیب ایزتیک اور انکاز [Aztecs and Incas] کے باشندوں نے پہلے پہل اس پھل کی کاشت کی تھی۔

یہ بات ہے سن سات سو عیسوی کی۔ بطور غذا اس کا استعمال میکسیکو سے شروع ہوا اور ہِسپانوی[Spanish] فاتحین کے امیریکاز میں اثرونفوذ کے ساتھ ساتھ عام ہوا۔ ٹماٹر کا یورپ میں عوامی سطح پر تعارف ایک قول کے مطابق سولھویں صدی میں ہوا، مگر اس کا اعزاز کسے حاصل ہوا، اس بارے میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس کے لاطینی، نباتی نام کا مفہوم بھی عجیب و غریب ہے: بھیڑیے کا آڑو۔ علاوہ ازیں ایک دور میں اسے ’پیروکا سیب‘[Peruvian apple] بھی کہا جاتا تھا۔ Patrick Bellowنے سب سے پہلے برطانیہ میں ٹماٹر کی کاشت کا شرف حاصل کیا، اس کا تعلق Castletownسے تھا اور یہ سن پندرہ سو چون[1554] کا ذکر ہے۔

یہ کاشت نجی نوعیت کی تھی۔ ایک طویل مد ت تک برطانیہ سمیت یورپ میں یہ ٹماٹر کا استعمال گھریلو آرائشی بیل کے طور پر ہوتا تھا۔ ملکہ ایلزبتھ اول [Elizabeth I- Queen of England and Ireland]کے عہدشاہی، سترہ نومبر سن پندرہ سو اٹھاون تا چوبیس مارچ سن سولہ سو تین[17 November 1558 – 24 March 1603]میں لوگ اس کے شوخ سرخ رنگ کو خطرے کی علامت اور خود پھل کو زہریلا سمجھتے تھے۔ اس غلط فہمی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ اس کے نباتی گھرانے [Botanical family] یعنی Solanaceaeکے بعض دیگر اراکین (بشمول بھنگ، مینڈریک اور مُہلک مگر دوائی پودہ بیلا ڈونا یا ڈیڈلی نائٹ شیڈ۔[henbane, mandrake and deadly nightshade (bellandonna)]۔ بھنگ سمیت کئی نشہ آور فصلوں کا استعمال دواؤں کی تیاری میں بھی ہوتا ہے۔ مینڈریک وہی مفید دوائی پودہ ہے جسے فارسی میں مَردُم گیا ہ اور مہرگیاہ اور اردومیں ’آدم کی بُوٹی‘ کہا گیا اور عرف عام میں جِنسنگ[Ginseng]کہا جاتا ہے اور ایلوپیتھک، ہومیوپیتھک، حکمت اور دیگر طریق ہائے علاج میں بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔

(فرہنگ انگلیسی۔ فارسی از عباس آریان پور کاشانی و منوچہر آریان پور کاشانی۔ تہران، ایران)۔ بہرحال ٹماٹر اور اس کے ہم رشتہ مرچ، بینگن اور تمباکو قطعاً زہریلے نہیں ہوتے۔ تجارتی پیمانے پر ٹماٹر کی کاشت کا سلسلہ دو کاؤنٹیوں [Counties]کینٹ اور سسیکس[Kent and Essex]سے انیسویں صدی کے وسط سے شروع ہوا۔ اس مقصد کے لیے وہاں شیشے کے گھر تعمیر کیے گئے تھے۔ اس سے کہیں زیادہ عجیب اور حیران کُن بات یہ ہے کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا[USA] میں انیسویں صدی تک ٹماٹر کھانے کا رواج نہ تھا۔ عوام اسے کسی سبب اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ میسا چوسیٹس کے شہر سالم [Salem, Massachusetts] میں چھبیس ستمبر سن اٹھارہ سو تیس[September 26th 1830] کو John Gibbon نے اولین بار، سرعام یہ پھل کھاکر لوگوں کو اس کی طرف راغب کیا۔ انگریزی لفظ ٹماٹر کا ماخذ ہے قدیم ایزتیک باشندوں کی زبان نواتِل [Nahuatl] کا لفظ ’توماتِل‘[‘Tomatl’]۔ یہاں سے یہ ہِسپانوی زبان میں گیا تو ’’توماتے‘‘[Tomate]ہوگیا اور پھر انگریزی میں ٹومے ٹو جسے ہم نے ٹماٹر بنادیا۔ (یہ تلفظ سمجھنے کے لیے وِکی پیڈیا سے رجوع فرمائیں )۔ اس لفظ کا استعمال انگریزی میں سترھویں صدی میں عام ہوا۔ [http://www.flavourfresh.com/historyoftomatoes.htm]۔

دنیا بھر میں ٹماٹر کی کاشت کا باون اعشاریہ چھَے فی صد عوامی جمہوریہ چین میں، جب کہ اٹھارہ اعشاریہ سات فی صد ہندوستان میں پیدا ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے ایک آمر مطلق کے دورحکومت میں ٹماٹر ہمسایہ ملک سے منگوانے کا سلسلہ بڑے پیمانے پر شروع ہوا تو اِن دنوں پیدا ہونے والی مصنوعی قلت اور مہنگائی کا سبب بھی یہی بتایا جارہا ہے کہ ہندوستان سے تعلقات کشیدہ ہیں، لہٰذا ٹماٹر کم یاب ہے۔

بات کی بات ہے کہ ایک طویل مدت تک ہمارے یہاں سے آلو، پیاز، گنّا اور گُڑکی ٹنوں کے حساب سے، کھوکھراپار سرحد سے ہندوستان کو اسمگلنگ جاری رہی (اب معلوم نہیں کیا صورت حال ہے)، اس کے باوجود ہمارے ’مردِ آہن‘ نے ہندوستان سے آلو اور پیاز منگواکر اس کی اوقات میں اضافہ کیا، بالکل ایسے ہی جیسے اُنھی کے ایک چہیتے ’عبوری وزیراعظم‘ نے گندم کی ’’ریکارڈ ساز‘‘ فصل کو اسمگلنگ کی نذر ہوتے دیکھ کر اس کی غیرضروری برآمد کا کارنامہ انجام دیا اور یوکرائن سے سڑی ہوئی گندم منگواکر اپنے عوام کو فراہم کی۔ آج کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ بھی کوئی جرم تھا اور اس کی بھی کوئی سزا ہونی چاہیے۔

بات پھر واپس آتی ہے ٹماٹر کی جسے Love appleکہا جاتا تھا۔ انگریزی میں اس نام کی وجہ تسمیہ ہے فرینچ زبان کا لفظ ہے: پوم دا موغ[ Pomme d’amour-love apple].جس کا ترجمہ فرنگیوں نے اپنالیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ یونانی دیومالا میں Aphroditeکو محبت، حُسن، لُطف اور تولید کی دیوی مانا جاتا تھا، فرینچ قوم نے اسے ایسی ہی صلاحیتوں کا حامل پھل سمجھا، سو ٹماٹر کو یہ نام دے دیا گیا۔ انگریزی لغات کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ کسی زمانے میں چالو زبان [Slang]میں لڑکی اور عورت کے لیے بھی Tomatoبطور عُرفیات استعمال ہوتا تھا (جیسے ہمارے یہاں لُچے لفنگے، کسی پُرکشش لڑکی کو ’’پوپَٹ‘‘ کہہ دیتے ہیں، حالانکہ اس کا لغوی مطلب ہے: توتا۔ یہ اور بات کہ ہندوستان میں کسی کو بے وقوف بنانے کے لیے کہا جاتا ہے ’پوپٹ بنادیا‘۔)۔

ٹماٹر کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔ ٹماٹر میں موجود انتہائی مفید حیاتین اور معدنیات میں حیاتین ’ج‘، پوٹاسئیم، فولیٹ اور حیاتین ’ک‘ [Vitamin-C, Potassium, Folate(B9) and Vitamin-K]شامل ہیں۔ ٹماٹر میں موجودLycopeneایک ایسا مفید ’مانعِ تکسید [Antioxidant]‘مادہ ہے جو امراضِ قلب اور سرطان سمیت متعدد بیماریوں سے بچاؤ میں معاون ثابت ہوا ہے۔ پکا ہوا ٹماٹر عموماً شوخ سرخ رنگ کا ہوتا ہے، مگر یہ پھل، اس کے علاوہ ہرے، پیلے، نارنجی اور اُودے رنگ میں بھی پایا جاتا ہے۔ ٹماٹر میں پچانوے فی صد [95%] پانی ہوتا ہے، جب کہ نشاستے[Carbohydrates] اور ریشے[Fibre] کی مقدار پانچ فی صد ہوتی ہے۔ نشاستے میں قدرتی مٹھاس [Glucose and Fructose]کی مقدار ستّر فی صد[70%] ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں ٹماٹر میں قدرتی طور پر موجود، یہ مفید اجزاء صحت کے لیے اہم ہیں: Beta-Carotene،Naringenin،Chlorogenic acid

[https://www.healthline.com/nutrition/foods/tomatoes#section6]

The post دل بہلاؤ ناں ٹماٹر کھاؤ ناں! appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>