Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

دُھندلی شام

$
0
0

ٹیرس سے نیچے جھانک کر دیکھا تو ملوک پھل فروش سے انگور لے رہا تھا، اچانک انگور پر پیاری سی تتلی آکر بیٹھ گئی، جسے ملوک نے پکڑنے کی کوشش کی، لیکن تتلی اپنے خوب صورت پر پھیلا کر فضا میں اُڑنے لگی۔

ملوک نے انگور پھینک دیے اور تتلی کے پیچھے دوڑنے لگا، فروٹ والے نے پیچھے سے آوازیں دینا شروع کیں لیکن ملوک تتلی کے پیچھے دوڑتے ہوئے بہت آگے نکل گیا ۔ رنگ برنگی تتلیاں ہوں یا پتنگیں، ملوک کی کمزوری ہیں۔ مین روڈ کے سامنے ایک قطار ہے بنگلوں کی جس کے پیچھے ملوک کا چھوٹا سا گھر ہے، وہ آٹھ سال کا چھوٹا معصوم بچہ ہے جس کی باتیں اپنی عمر سے بہت بڑی بڑی ہیں۔ دکھ ہمیشہ سے انسان کو اپنی عمر سے آگے دھکیل دیتا ہے۔ ملوک بھی اپنی زندگی میں بڑا دکھ بھگت رہا ہے۔

غربت کا دکھ

بے بسی اور بھوک کا دکھ

بہت سی خواہشوں کے پورے نہ ہونے کا دکھ

جس میں تعلیم حاصل کرنے کا دکھ بھی شامل ہے۔

اس کی بڑی بہن لالی ہمارے ہاں گھر کا کام کاج کرنے آتی ہے، وہ لالی کے ساتھ ہمارے گھر اکثر آتا رہتا ہے۔ اس کے چہرے پر سنجیدگی اور مظلومیت کی چھاپ میرا دھیان اس کی طرف لے گئی۔

شاید اس لیے بھی کہ وہ اپنے عمر کے بچوں سے کہیں مختلف ہے، ایک دن لالی بیمار تھی، وہ اس کی جگہ ہمارے گھر کام کرنے آیا تھا۔

’’تم کام کروگے؟‘‘ میں نے حیرت میں اس سے پوچھا۔

’’جب بھی لالی بیمار ہوتی ہے تو میں ہی اس کی جگہ گھروں میں کام کرنے جاتا ہوں۔‘‘

یہ کہہ کر اس نے کچن میں پڑے برتن دھوکر اور چمکا کر رکھے۔ کچن کو اچھی طرح صاف کرکے جھاڑو دے کر وہ جانے لگا تو میں نے اسے بلایا۔

’’ملوک! کیا تمہیں پڑھنے کا شوق نہیں ہے؟‘‘

’’شوق سے کیا ہوتا ہے۔‘‘ اس نے مایوس ہوکر کاندھے اچکا کر کہا۔

’’کیوں بہت کچھ ہوسکتا ہے، دیکھو! اگر شوق نہیں ہوگا تو آدمی (انسان) علم کیسے حاصل کرے، آگے کیسے بڑھے گا؟‘‘

’’مجھے پڑھنے لکھنے کا بہت شوق ہے لیکن کتابیں بھی تو بہت منہگی ہیں، اور اسکول کی فیس کون بھرے گا، اور ہاں اگر میں اسکول گیا تو کام کاج کون کرے گا، گھر کا خرچ کیسے چلے گا؟‘‘

’’میں تمہیں کتابیں لے کر دوں گی، تمہارے اسکول کی فیس دوں گی، پھر تو تم پڑھو گے ناں؟‘‘

’’سچی! ‘‘ ملوک کی آنکھوں میں خوشی کی تتلیاں رقص کرنے لگیں۔

’’لیکن اماں تو ڈانٹیں گی۔ نہیں…نہیں میں اسکول نہیں جاؤں گا۔‘‘

’’میں ماسی سارہ سے خود ہی بات کروں گی۔‘‘

’’ٹھیک ہے۔‘‘ ملوک نے خوشی سے کہا اور کودتے ہوئے دروازے سے باہر چلا گیا۔

دوسرے دن میں سارہ ماسی کے گھر گئی، مجھے دیکھ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔

’’بی بی جی! آپ یہاں کیسے؟‘‘ وہ مجھے اپنے گھر میں دیکھ کر حیران رہ گئی۔

’’سنا تھا آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، اس لیے میں نے سوچا آپ سے طبیعت ہی پوچھ لوں۔‘‘ میں ماسی کے سامنے والی چارپائی پر بیٹھ گئی۔

سارہ کا سر دوپٹے سے بندھا ہوا تھا، اور وہ گج (سندھی کڑھائی والے گلے) بھی بنا رہی تھی۔

’’ماسی! یہ کس کا گج ہے؟‘‘

’’بازار سے آرڈر ملا ہے۔‘‘

’’اس گج کے کتنے لوگی؟‘‘

’’بیس روپے۔‘‘

’’بیس روپے۔۔۔!!‘‘ میں نے حیرت میں پوچھا میری چیخ جو نکل گئی تھی۔

’’اسی طرح کا گج میں نے بازار میں ڈیڑھ سو روپے میں بکتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘

’’یہ تو ناانصافی ہے۔ ماسی! تمہیں اتنا سستا گج بناکر نہیں دینا چاہیے۔‘‘

’’اماں! یہی تو کام ہے جس پر گزر بسر چل رہا ہے، ورنہ تو بھوک سے مرجائیں، لالی بھی اب جوان ہوگئی ہے۔ دوسروں کے گھر بھیجنے میں شرم آتی ہے، اس کی شادی کی فکر ہے اور گج سینے پرونے کا جتنا تھوڑا مل جاتا ہے، کام آجاتا ہے۔‘‘

’’ہمارے ہاں مزدور کی کوئی عزت نہیں۔‘‘ سارہ کی باتیں سن کر مجھے دل کی گہرائیوں سے افسوس ہونے لگا۔ یہ صرف سارہ کا مسئلہ نہیں بلکہ پورے سندھ کی گج بنانے والی عورتوں کا مسئلہ ہے، جن سے سستے دام میں گُدڑیاں، گج، چادریں اور دوسرا بھرت کا سامان بنایا جاتا ہے اور اسی سامان کو شہر میں منہگے داموں میں بیچا جاتا ہے، اور انھیں مزدوری اتنی ملتی ہے کہ گھر چلانے میں بھی بہت مشکل ہو۔

گج پروتے وقت شیشے میں نہ جانے کتنے آنسو سل گئے ہوں گے، ہر دھاگے کے ساتھ نہ جانے کتنی محرومیاں لائی جاتی ہیں، لیکن پھر بھی کوئی ایسا آدمی نہیں جو اس ناانصافی پر آواز بلند کرے، ہر انسان کو بس اپنا حق یاد رہتا ہے، یہ وہ بھول جاتا ہے کہ اس پر بھی کچھ فرائض عاید ہیں۔ جہاں فرض کی ادائیگی کا پورا خیال رکھا جائے وہاں کبھی حق تلفی نہیں ہوسکتی۔

اس کے بعد سارہ نے مجھے اپنے ہاتھ سے پروئے ہوئے گج دکھانے لگی، اور میں سندھ کی ثقافت کے حسین رنگوں میں گُم ہوگئی۔

دنیا میں نہ جانے ایسے کتنے خطے اور ممالک ہوں گے، کتنے لوگ کتنی تہذیبیں ہوں گی، لیکن یقین ہے کہ سندھ جیسا خلوص کی خوشبو سے مہکتا ہوا خطہ اور کہیں نہیں ہوگا، جہاں جب چاول پکتے ہیں، سنہرے بھٹے لہراتے ہیں، تو زمینوں کے سامنے رہنے والے کسانوں کی آنکھوں میں خوابوں کی پریاں رقص کرتی ہیں اور چہرے محنت کی عظمت سے پُرنور ہوجاتے ہیں۔ پھر کیوں نہ ایسے خطے کو دل میں جگہ دی جائے، سندھ کی ثقافت کی عزت رکھنے والے ہاتھوں کی کیوں نہ حفاظت کریں۔ جہاں فضاؤں میں چاہتوں اور ہواؤں میں بانسری اور الغوزے کے الاپ ہوں۔ اس زمین کے وارث، فن کار، راگی، شاعر اور مزدور کیوں بے بسی میں بھٹکتے رہیں، جہاں سونے جیسی صبح اور چاندی جیسی راتیں ہوں وہاں خوابوں پر پہرے کیوں ہوں؟ اور خواہشوں اور بے یقینی کے صحرا میں راستے بھولیں۔

سارہ کا ہر گج بہت اچھا تھا خوب صورت بھی لیکن محنت کی مزدوری بہت ہی کم، نہ ہونے کے برابر۔ لیکن وہ کم قیمت پر بھی کام کرنے پر مجبور تھی۔ اس کا شوہر بیمار تھا، ٹھیک ہوتا تو وہ کبھی کبھار مزدوری پر چلا جایا کرتا تھا، اور بیماری کی صورت میں سارا کی ساری کمائی اس کی ہی دواؤں پر خرچ ہوجاتی تھی۔ اسی لیے اس نے ملوک اور لالی کو کام کاج کے لیے گھر گھر پر لگادیا تھا۔

’’ملوک کہاں ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔

سارہ ملوک کو آوازیں دینے لگی، تھوڑی ہی دیر میں ملوک گلی میں ظاہر ہوا، اس کے ہاتھ میں پتنگ تھی۔

’’آج بیماری کا بہانہ کرکے ملوک کام پر نہیں گیا، اس کا بس چلے تو پورا دن ناچتا کودتا رہے، شریر کہیں کا!‘‘

’’بے چارا بچہ۔‘‘ میں نے ملوک کو ہم دردانہ نظروں سے دیکھا، جس کے پاس کھیلنے اور خوش ہونے کا ٹائم کتنا کم تھا، جس کو وہ بہانہ بناکر حاصل کیا کرتا تھا۔

’’پھر اوپر سے ایک نئی مصیبت، بیٹے کے کام تو دیکھو۔ اب کہہ رہا ہے پڑھوں گا۔‘‘ سارہ نے ملوک کو گھور کر دیکھا۔

’’پڑھنے کے لیے میں نے ملوک کو کہا ہے۔‘‘ میں نے وضاحت کرتے ہوئے سارہ ماسی کو کہا۔

’’پڑھائی کا خرچ کہاں سے آئے گا؟‘‘

’’سب کچھ ہوجائے گا، آپ اس کی فکر نہ کریں، میں خود ملوک کو پڑھاؤں گی۔‘‘

پھر اس کے بعد ملوک کا داخلہ اسکول میں ہی نہیں ہوا بلکہ وہ میرے پاس بھی پڑھنے آیا کرتا۔ اب اس کے چہرے پر مظلومیت نہیں ذہانت کی روشنی چمکنے لگی۔ پہلی اور دوسری کلاس میں اس نے اچھے مارکس لیے۔ اب وہ تیسری کلاس میں تھا۔ ایک دن وہ آیا۔ وہ اس دن الجھا ہوا تھا، اور اس کے سر پر چوٹ کے نشانات تھے۔

’’کیا ہوا ملوک! کسی سے لڑائی ہوئی ہے کیا؟‘‘

’’بھائی نے مارا ہے۔‘‘ اس نے معصومیت سے جواب دیا۔

ملوک کا بڑا بھائی شانو سارا دن آوارہ لڑکوں کے ساتھ گھومتا پھرتا ہے، وہ گھر میں بہت کم ہوتا ہے۔

’’کیوں مارا ہے؟‘‘

’’سچ بولا تھا۔‘‘ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے سوال کیا۔

’’کیا سچ نہیں بولنا چاہیے؟‘‘

’’ہاں ہاں۔۔۔ ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔‘‘ میں نے اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا۔

’’سچ بولنے والوں کو مار کیوں پڑتی ہے؟‘‘

’’یہ دنیا کا دستور ہے۔‘‘ ملوک کے سوال نے مجھے الجھا کر رکھ دیا۔

’’ٹھیک ہے مجھے مار ملتی رہے لیکن میں سچ بولوں گا۔‘‘

’’کتاب کے سبق میں تو یہی لکھا ہے۔‘‘

’’جو باتیں کتابوں میں لکھی ہوتی ہیں، ہم ان پر عمل نہیں کرتے ہیں۔‘‘

’’کیا کتابوں میں لکھی باتیں جھوٹی ہوتی ہیں؟‘‘

’’نہیں کتابوں سے باہر رہنے والے لوگ جھوٹے ہوتے ہیں۔‘‘ میری بات سن کر وہ الجھ سا گیا۔

’’تو پھر وہ کتابوں میں لکھی باتوں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟‘‘

’’اگر وہ اس طرح کریں تو ان کی شان و شوکت ختم ہوجائے گی اور وہ ضمیر کے سچ کے سامنے شرم سار ہوکر مر جائیں گے۔‘‘

’’جھوٹے لوگوں کو مرجانا چاہیے۔‘‘ ملوک نے ضدی لہجے میں کہا۔

’’اچھا اب تم بتاؤ کہ تم نے مار کون سی بات پر کھائی؟‘‘

’’شانو نے اماں کے پیسے چرا لیے تھے، میں نے اماں کو بتا دیا تو پھر گھر میں بہت بڑا جھگڑا ہوا۔ اماں نے شانو کو گھر سے بھی نکال دیا۔‘‘

’’مجھے لگتا ہے کہ میں نے غلط کیا۔ نہ میں سچ بولتا نہ شانو گھر سے نکلتا۔‘‘

’’شانو واپس آئے گا۔‘‘

’’نہیں شانو واپس نہیں آئے گا۔‘‘

’’چلو۔۔۔ تم اب اپنی پڑھائی شروع کرو۔‘‘ میں نے کتاب کھول کر ملوک کے سامنے رکھی اور وہ اداسی کی کیفیت میں پڑھنے لگا۔ ملوک کی آنکھیں کتاب میں اور ذہن کسی اور جگہ بھٹک رہا تھا۔ اس نے تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد پوچھا۔

’’کیا غریبوں کی سب مائیں مار کھاتی ہیں؟‘‘

میں نے حیرت میں اسے دیکھا۔

’’تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘

’’کل اماں کو بابا کے ہاتھوں مار پڑی تھی۔‘‘ ملوک نے مایوس لہجے میں بولا اور اپنے سوال کو دوبارہ دہرایا۔

’’عورت ہمیشہ مار کھاتی ہے، چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔‘‘میرے جواب پر وہ مطمئن نہ ہوا۔

’’سامنے جو بنگلا ہے اس میں ایک عورت رہتی ہے وہ تو مار نہیں کھاتی۔‘‘

’’پھر بھی وہ اپنی زندگی سے خوش نہیں ہے۔‘‘

’’اس کے پاس اتنی دولت ہے پھر بھی وہ خوش نہیں ہے؟‘‘

ملوک کو حیرت ہوئی۔

’’اس نے مقدر کے ہاتھوں مار کھائی ہے۔‘‘

’’مقدر آدمی کو کیسے مارتا ہے؟‘‘

’’یہ بات تم نہیں سمجھو گے۔‘‘

’’لیکن اس کے جسم پر چوٹوں کے نشانات تو نہیں ہیں۔‘‘

’’مقدر کے مار کھانے والے لوگوں کے صرف روح پر زخم ہوتے ہیں۔‘‘

مجھے لگا کہ ملوک نے میری بات سمجھ لی ہے۔ ویسے بھی مقدر کے ہاتھوں چوٹ کھانے والے بچے اپنی عمر سے پہلے بڑے ہوجاتے ہیں۔ وہ بھی سمجھ کے اس تکلیف دینے والے عمل سے گزر رہا تھا۔

کتنے دن گزر گئے ملوک نہیں آیا۔ میں اس کے گھر گئی تو ملوک گھر میں نہیں تھا۔ سارہ چارپائی پر سوئی ہوئی تھی وہ بخار میں تڑپ رہی تھی۔

مجھے دیکھتے ہوئے وہ چارپائی سے اٹھنے لگی، میں نے اسے واپس لٹا دیا اور اس کے سامنے ہی بیٹھ گئی۔

’’ملوک کیوں پڑھنے کے لیے نہیں آرہا ہے؟‘‘

’’پتا نہیں بیٹا جی! کیا ہوا ہے اسے۔ چپ چاپ بیٹھے پتا نہیں کیا سوچتا رہتا ہے۔ اس نے گھر کے حالات کا کچھ زیادہ اثر لے لیا ہے۔‘‘

’’جب سے ملوک کے باپ نے میرے ساتھ جھگڑا کیا ہے تب سے وہ چپ بیٹھا سوچتا رہتا ہے۔‘‘

اب مجھے ملوک کا مسئلہ سمجھ میں آنے لگا۔

’’آپ دونوں کے بیچ جھگڑا کس بات پر ہوا؟‘‘

’’وہ چاہتا ہے کہ ملوک پڑھائی کرنے کے بجائے کام دھندا کرے۔‘‘

مجھے ملوک کا مستقبل اندھیرے میں نظر آنے لگا۔

’’کیا آپ کے شوہر کا آپ کے ساتھ شروع سے یہ رویہ رہا ہے؟‘‘

میرے سوال پر سارا خاموش ہوگئی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے وہ ماضی کے گم پل ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی ہو۔

’’جب سے ہماری شادی ہوئی ہے مجھے کبھی یاد نہیں آیا کہ اب تک اس نے میرے دکھ درد بانٹے ہوں، کبھی میرا حال پوچھا ہو، صبح گھر سے نکلتا تھا تو شام میں واپس آتا ، اور باقی وقت جتانے میں گزارتا اور کہتا کہ تم لوگوں کی وجہ سے اتنے دھکے کھا رہا ہوں، بس دکھ سکھ کا مشکل وقت گزر گیا۔‘‘

میں سوچنے لگی کہ شادی زندگی کا وہ فیصلہ ہے جس کا مطلب ایک اچھے گھر، ایک اہم ادارے کی بنیاد ہے لیکن وہ طبقہ جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں اور سہولتوں سے محروم ہے، ان کے لیے شادی ایک محض دنیا داری نبھانے کا نام ہے جس میں رشتے ایک دوسرے کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔ عورت تو صرف محبت اور توجہ کی طالب ہوتی ہے۔ خلوص کے چند بول کے عوض زندگی قربان کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔ لیکن جن گھروں میں توجہ سے محروم سارہ جیسی بے بس عورتیں رہتی ہوں وہ گھر تاریک ویران قبروں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے بیمار تھی اور گھر میں پھینکی ہوئی فالتو چیز کی طرح پڑی تھی۔ شوہر نے یہ زحمت گوارا نہ کی کہ اسے کسی ڈاکٹر کے پاس لے جاکر دکھا دے۔

’’میں آپ کو کل ڈاکٹر کے پاس لے جاؤں گی۔‘‘

’’فضول تکلیف کرنے سے کیا فائدہ، باقی کتنے دن بچے ہوں گے زندگی کے۔ دو یا تین۔ وہ بھی گزر جائیں گے۔‘‘

وہ بہت مایوس تھی۔

’’لالی، ملوک اور شانو کو آپ کی ضرورت ہے۔‘‘

’’شانو۔۔۔!‘‘ سارہ کی آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا۔

’’غریبی میں کسی کا مقدر برا نہ ہو، اگر شانو سمجھ دار ہوتا تو نہ لالی غیروں کے دروازوں پر دھکے کھاتی اور نہ ملوک کے پڑھنے لکھنے پر گھر میں روز جھگڑے ہوتے۔‘‘

’’ملوک کو میرے پاس پڑھنے کے لیے ضرور بھیجیے گا، میں شام کو انتظار کروں گی۔‘‘

ایک شام کیا کتنی ہی شامیں گزر گئیں لیکن ملوک نہیں آیا، ایک دن اچانک آیا منہ لٹکا ہوا اور ہاتھ میں کتابیں تھیں۔

’’ماسی سارہ کیسی ہے؟‘‘

’’ٹھیک ہے، لیکن کام کاج کرنے جیسی نہیں ہے، لالی کے جانے کے بعد اماں کا کام میں کرتا تھا، اسی وجہ سے میں اتنے دن نہیں آسکا۔‘‘

ملوک کے چہرے پر ایک عجیب سی کیفیت تھی، مجھے ایسا محسوس ہوا کہ وہ اچانک سے بہت بڑا ہوگیا ہے، اتنا بڑا کہ اس کی روح کے زخموں کا مفہوم واضح ہوگیا ہو۔

’’یہ آپ کی کتاب واپس دینے آیا ہوں، آگے میں نہیں پڑھوں گا۔‘‘

’’ملوک۔۔۔۔!!‘‘ میں حیرت زدہ ہوکر چیخی۔

’’میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے میری ماں روز مار کھائے، روز میرے باپ کی گالیاں سنے۔‘‘

’’ملوک! تم ایک ذہین لڑکے ہو، تمہیں علم حاصل کرنا چاہیے۔‘‘

’’اماں نے بیمار ہونے کی وجہ سے کام کرنا چھوڑ دیا ہے، میرا باپ بیماری کا ایک بہانہ کرکے گھر میں پڑ گیا ہے، وہ کہہ رہا ہے کہ میں کسی ایک دھندے میں لگ جاؤں۔ وہ ایک کارخانے میں میرے لیے بات بھی کرکے آیا ہے مجھے صبح سے لے کر شام تک وہاں کام کرنا پڑے گا۔‘‘

اس کی بات سن کر مجھے یونیسف کی ایک رپورٹ یاد آگئی کہ دنیا میں دس کروڑ بچے مزدوری کرتے ہیں، ہر پچاس بچوں میں سے ایک بچہ مزدوری کرتا ہے۔ خاص طور پر تیسری دنیا کے ممالک میں مزدوری کرنے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے آج کا بچہ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے، بچپن کی فطری معصومیت سے دور کیا گیا ہے، زندگی کے بوجھ نے بچپن کی مسکراہٹیں چھین لی ہیں۔

’’تم چاہو تو پڑھائی جاری رکھ سکتے ہو۔‘‘

’’کارخانے میں مجھے پڑھنے کا ٹائم نہیں ملے گا۔‘‘

’’ملوک! دنیا میں کوئی چیز مشکل نہیں۔‘‘

’’دنیا میں جینا بہت مشکل ہے۔‘‘ ملوک نے تلخی سے کہا۔

میں حیرت سے دیکھنے لگی، اس نے کہا۔

’’ہاں میں سچ کہتا ہوں، میں اب بچہ نہیں ہوں، جو باتیں نہ سمجھ سکوں۔ ہم غریبوں کے لیے کھانا اہم ہے نہ کہ علم کھانے کے سوا انسان جی نہیں سکتا۔ مجھے لالی کی شادی کروانی ہے، میں اماں کا علاج کراؤں گا، میں مزدوری کروں گا، سخت محنت کروں گا میں۔‘‘

مجھے ملوک کی یہ باتیں سن کر افسوس ہونے لگا۔

’’کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں؟‘‘

’’نہیں۔‘‘

’’کیا علم کے سوا انسان اچھا انسان نہیں بن سکتا؟‘‘

’’عقل اور سمجھ علم کی محتاج نہیں ہوتی۔‘‘

میری بات سن کر ملوک کی آنکھوں میں خوشی کی تتلیاں رقص کرنے لگیں۔

’’کیا میں اچھا انسان بن سکتا ہوں؟‘‘

’’تم ایک اچھے لڑکے ہو، کیوںکہ تم نے اپنی ذمے داری محسوس کرلی ہے، علم صرف ڈگری کا نام نہیں۔ علم انسان کے وسیع جاننے اور بہتر برتاؤ کا نام ہے۔ کچھ لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بے علم ہوتے ہیں۔ لیکن تم ایک بہترین عمل کے ساتھ اپنی زندگی آگے بڑھانے لگے ہو۔‘‘

پتا نہیں میری بات سن کر ملوک کو خوشی ہوئی یا نہیں، لیکن اس کی آنکھوں میں گہری اداسی تھی۔ ایک گزرتی ہوئی شام جیسی اداسی۔ اس نے تتلیوں کے پیچھے دوڑنا چھوڑ دیا تھا، کیوںکہ ہاتھوں نے اس کی زندگی کی تلخ حقیقتوں کے پلڑے کو پکڑ لیا تھا۔

(خاکے: نوشابہ نوش)

ترجمہ: نوشابہ نوش

The post دُھندلی شام appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>