Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4746 articles
Browse latest View live

’’اب کوئی کسی کو عید کارڈ نہیں بھیجتا‘‘

$
0
0

کتنے خوش نصیب ہیں وہ گھرانے جہاں بزرگ موجود ہوں۔ خاص طور پر ان کی موجودگی عید کے موقع پر خوشیوں کو دوبالا کردیتی ہے۔

گھر میں بزرگ کی موجودگی ایسے ہی ہے جیسے کسی باغیچے میں پھول اور پھلواریوں کے درمیان کوئی گھنا سایہ دار درخت موجود ہو۔ آج جب میں اپنے پوتا پوتی نواسا نواسیوں کے درمیان موجود ہوں تو ان غنچوں کے درمیان اپنے آپ کو ایک سایہ دار درخت محسوس کرتا ہوں۔ آج جب میں اپنے بزرگوں کو یاد کرتا ہوں تو وہ کب کے خلد نشین ہوگئے۔

میرے والدین نے اپنے بزرگوں کا ذکر اور قصے کچھ اس طرح سناتے تھے گویا کہ میں خود اس دور میں موجود تھا۔ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں گھر کے بزرگ اور موجودہ جوان نسل میں دو صورتیں درپیش ہوتی ہیں یا تو بزرگ وقت کے تقاضے کے تحت اپنے اور نوجوان نسل میں زیادہ فرق محسوس ہونے نہیں دیتے۔ میرے دادا ہم سب کو ایک ساتھ لے کر عید کی نماز کے لیے جاتے تو اہل محلہ کے بچوں کو بھی لے کر جاتے تھے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد بزرگوں کو جھک کر سلام کرنا اور ان کا بچوں کو گلے لگانا ایک خوشگوار نظارہ ہوتا تھا۔ چھوٹوں کو عیدی دینا بھی ضروری تھا۔ گھر میں مہمانوں کی آمدورفت کا سلسلہ سارا دن جاری رہتا تھا۔

آج بزرگ اپنے ہم عمر لوگوں کے ساتھ بیٹھے موجودہ دور کی خرافات اور اپنے زمانے کی قدروں کا ذکر کرتے ہیں۔ درمیان میں نئی نسل کو اخلاق و تہذیب کا درس بھی دیتے جاتے ہیں۔وہ اس بات سے بھی نالاں رہتے ہیں کہ چھوٹے اپنے بزرگوں کو وقت نہیں دیتے۔ ایک دور تھا کہ عید کے موقع پر نوجوان گھر کے بزرگوں سے چھپ کر تفریح کے لیے گھر سے باہر جاتے تھے۔ اب نئی نسل باہر نہیں جاتی بلکہ اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی، انٹرنیٹ اور واٹس اَپ سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ بزرگ اس بات پر حیران اور افسردہ ہیں کہ اب کوئی کسی کو عیدکارڈ نہیں بھیجتا ساری مبارک بادیں شیشے کے پردے پر اُبھرتی ہیں۔

گھر کے بزرگ عید پر گھر کی بنی ہوئی سویّاں شیرخرما استعمال کرتے تھے۔ نئی نسل کے لوگ اَب عید کے موقع پر کیک کاٹنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ بزرگوں کی بہت سی باتیں آج کے دور کے تقاضے پر پوری نہیں اُترتیں، مگر نئی نسل کو کسی بحث میں نہیں پڑنا چاہئے۔ اگر مناسب طور پر بغیر کسی گستاخی کے بزرگ کو قائل کرسکیں تو علیحدہ بات ہیں۔ اختلاف سے بہتر ہے کہ ان کی دعائیں لیں۔

خورونوش میں بزرگوں کی روایتی سوچ موجودہ دور کے فاسٹ فوڈ سے مختلف ہو مگر ان کا برسہا برس کا تجربہ حقائق پر مبنی ہوتا ہے۔ اچھے گھرانے کی شان و شوکت اسی میں ہے کہ بزرگوں کو اہمیت دی جائے۔ آج کے دور میں گھروں میں روایتی بزرگوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔ بدقسمت ہیں وہ گھرانے جہاں بزرگ حیات نہیں یا اگر ہیں تو انہیں دُور old House میں رکھا گیا ہے۔ ایسے حالات واقعی پیدا ہوجاتے ہیں کہ بحالت مجبوری گھر سے دور بزرگوں سے دور رہنا پڑتا ہے، مگر ہر ممکن طریقے سے بزرگوں سے رابطہ رکھنا اولین فرض ہے۔

میں نے اپنے ایک دوست سے تعلقات اس لیے کم کرلیے تھے کہ وہ میرے سامنے اپنے بزرگوں سے حقارت آمیز انداز سے پیش آتا تھا۔ ایک بہت ہی عبرت ناک واقعہ یہ ہوا کہ میں اپنے اس دوست کے الٹرا ماڈرن ڈرائینگ روم میں بیٹھا تھا کہ اس کی اماں جھوٹی شان و شوکت سے مبرّا اپنے ہاتھوں میں جھاڑو لے کر کمرے میں آگئیں۔ میں نے اس سے پہلے ان کو نہیں دیکھا تھا۔ اُس ناعاقبت اندیش شخص نے اپنی سگی ماں کو یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکال دیا کہ جاؤ ماسی یہاں بعد میں جھاڑو لگادینا۔ ایسی جھوٹی شان و شوکت میں مبتلا بندوں پر اللہ لعنت بھیجتا ہے۔

شکر الحمدللہ ایسے گھرانے بھی موجود ہیں جہاں کے بزرگوں کے ساتھ بیٹھ جائیں تو آپ اُٹھنے کا نام نہیں لیں گے۔ یہ بزرگ اپنی بذلہ سنجی سے محفل کو کشت زعفران بنادیتے ہیں۔ ایسے اگلے وقتوں کے لوگ اب نایاب ہیں۔ اُن کی یادیں اور باتیں بازگشت کرتی ہیں اور کہتی ہیں نایاب ہیں ہم۔گھر میں بزرگ ایک نعمت ہیں بالخصوص اسلامی تہوار کے مواقع پر چاہے عید ہو یا بقرعید ، رمضان یا محرم وہ اپنے اسلامی شعائر سے ہمیں متعارف رکھتے ہیں۔

اب گھر میں وہ روایتی بزرگ نظر نہیں آتے جو گھر کی رونق ہوا کرتے تھے۔ مخصوص شخصیت کے مالک علی گڑھ یا حیدرآبادی کٹ کا پاجامہ، ململ کا کرتا، واسکٹ یا شیروانی، گھنی ڈاڑھی، رعب دار تحکمانہ آواز، ہر آنے جانے والے پر نظر، ان کی حرکات و سکنات پر بازپرس۔ اسی طرح گھر کے اندر خواتین میں دادی یا نانی چوڑی دار پاجامہ یا غرارے میں تخت پر گاؤ تکیہ لگائے بیٹھی ہوتی تھیں ساتھ ہی بڑا سا نقش و نگار والا پاندان رکھا ہوتا تھا۔ ہاتھ میں گھومنے والا پنکھا، منہ میں پان، گھر کی لڑکی بالیوں پر نظر، ڈانٹ ڈپٹ، پند ونصیحت کرتی تھیں،’’اے لڑکیو! شرم کرو بڑی ہورہی ہو دوپٹہ غائب ہے، ہرنیوں کی طرح چوکڑیاں بھرتی ہو۔ ہر وقت ہنسی ٹھٹھا، اتنی زور سے چہکتی ہو کہ آواز باہر تک جاتی ہے، کچھ گھریلو کام کاج میں ہاتھ بٹاؤ ، کل کو دوسرے گھر جاؤ گی تو وہ پوچھیں گے امّاں دادی نے کوئی تہذیب نہیں سکھائی۔ ‘‘

یہ وہ بزرگ ہستیاں ہوتی تھیں جو ایک مشرقی مسلمان گھر میں خاص طور پر تہوار کے موقع پر گھر کی رونق کا باعث ہوتی تھیں۔ ایک ایسے بزرگ گھرانے کا نقشہ پیش کرتا ہوں جہاں کی رونقیں دادا دادی کی وجہ سے ہیں۔ عید کی صبح ہے۔ دادا فجر کی نماز سے فارغ ہوکر بیٹے اور پوتے کو اُٹھا رہے ہیں کہ جلدی اٹھو عید کی نماز کے لیے جانا ہے۔ ادھر دوسری طرف دادی بہو کے ساتھ باورچی خانے میں موجود ہیں، شیر خرما، پلاؤ، قورما، کباب کی تیاری ہورہی ہے۔ بچوں کے نئے جوڑے تیار ہیں۔ دادا کا بیٹے اور پوتے کے ساتھ عید گاہ جارہے ہیں۔ نماز کے بعد سب کو عید کی مبارک باد دی جارہی ہے۔ گھر واپس آکر مہمانوں کی روایتی پکوان سے خاطر مدارات ہورہی ہے۔ بچوں کا بزرگوں سے عیدی کا تقاضا۔ اندرون خانہ دادی یا نانی کی بچیوں کے لیے دعائیں۔ کہتی تھیں کہ اللہ نصیب اچھا کرے جلد اپنے اپنے گھروں کی ہوجاؤ ۔ دودھوں نہاؤ پوتوں پھلو۔

میرے پڑوس میں بیشک ہر گھر میں بزرگ موجود نہیں ہیں مگر وہ گھرانے بزرگ سے محروم نہیں کیوں کہ ایک عمر رسیدہ خاتون جو اہل محلہ میں نانی اماں کے نام سے مشہور ہیں وہ میاں کے انتقال کے بعد اپنے گھر کی اوپر کی منزل کرائے پر دے کر تنہا زندگی گزار رہی ہیں، محلے کے بچوں کو قرآنی تعلیم دیتی ہیں ۔ عید کے موقع پر محلہ کے تمام بچوں کو اپنے گھر میں جمع کرتی ہیں۔ اپنے ہاتھ سے پکائی ہوئی سویّاں کھلاتی ہیں۔ سب کو حسب توفیق عیدی بھی دیتی ہیں۔ عید کے موقع پر بچوں کے درمیان عیدی کے معاملے پر نوک جھونک ہوجاتی ہے۔ ایسے میں گھر کے بزرگ اپنے پاس سے حساب برابر کردیتے ہیں۔ بعض بزرگ عید کے موقع پر اپنی جولانئی طبع کے تحت بچوں میں گھل مل جاتے ہیں۔

وقت بدل گیا، زمانہ بدل گیا مگر رمضان گزارنے کے بعد عید کی خوشیاں مذہبی عقیدت کے ساتھ اُسی طرح منائی جاتی ہیں جیسے بزرگ مناتے تھے۔ عید کی خوشی میں مذہبی عقیدت کے ساتھ شکرانے کی نماز کے بعد ہم جس طرح باہمی محبت و اخوت کا اظہار کرتے ہیں، خدا کرے ہم یہ رویہ بعد میں بھی اسی طرح قائم رکھیں۔

The post ’’اب کوئی کسی کو عید کارڈ نہیں بھیجتا‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.


کیا آج واقعی عید ہے۔۔۔؟

$
0
0

’’مصروفیت‘‘ کے نام پر عام ہونے والی ’وبا‘ ہماری سماجی زندگیوں کو نگل چکی ہے، قابل ذکر بات یہ ہے کہ چند برسوں میں تیزی سے اپنی جگہ بنانے والے ’سماجی ذرایع اِبلاغ‘ نے ہی سب سے زیادہ ہماری سماجی زندگی کو تلپٹ کیا ہے۔ اس لیے جن لوگوں سے پہلے روبرو ملاقات ہوتی تھی، اب انہیں بھی ہم بس ’فیس بک‘ کے کسی ’پیغام‘ یا ’پوسٹ‘ سے زیادہ وقت دینے کو تیار نہیں ہوتے اور کوئی ’پوسٹ‘ زیادہ سے زیادہ چند منٹوں سے زیادہ وقت نہیں لیتی۔

جدید ذرایع اِبلاغ نے رابطے سمیٹے نہیں، بلکہ فاصلے بڑھا دیے ہیں، کیوں کہ ہماری ساری تعلق داری بس موبائل پیغامات اور انٹرنیٹ پر سماجی روابط کی ویب سائٹوں تک ہی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔۔۔ اس لیے یہ کسی کے ہاں آنا جانا ایک بے کار کی سی زحمت لگتی ہے۔۔۔

یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں ہے کہ جب ہم عید اور بقرعید پر اپنے رشتے داروں کے یہاں جاتے تھے اور ان تہواروں پر نہایت اہتمام کے ساتھ ہمارے گھروں میں رشتے داروں کی محفلیں سجا کرتی تھیں۔۔۔ آس پڑوس تک میں نہایت اہتمام سے شیرنیان تقسیم کی جاتی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں کوئی غرض‘ فائدہ یا مفاد نہ ہوتا تھا۔۔۔ مصلحت اور جھجک نام کی بھی کوئی بلا موجود نہ تھی۔۔۔ بناوٹ اور منافقت کا چلن تو شاید ہی کہیں رہا ہو۔۔۔ مگر رفتہ رفتہ ہمیں اپنے خونی اور سگے رشتے بوجھ لگنے لگے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ زندگی میں مشینوں کے عمل دخل بڑھنے سے ہم خود بھی کوئی مشین ہی بن کر رہ گئے ہیں۔۔۔ دوسری طرف اب ہم اپنے رشتوں کی بھی تجارت کرنے لگے ہیں۔۔۔

ہم اپنوں کو پیار اور خلوص بھی تول تول کر دینا پسند کرتے ہیں۔۔۔ ہمیں کسی سے کتنا اور کس طرح ملنا ہے، اس کا تعین باقاعدہ اور سوچ سمجھ کر کیا جاتا ہے، اور ہمارے ذہن میں پہلے سے واضح ہوتا ہے کہ فلاں رشتے دار سے بس اس حد تک بات کرنا ہے اور صرف اتنا ہی بے تکلف ہونا ہے، اس سے زیادہ نہیں۔ ہم نے اپنوں سے میل جول کو بھی انہی ’مصلحتوں‘ کے تابع بنا لیا۔۔۔ اور جب ہمارے رشتوں کو باقاعدہ نفع ونقصان کے پیمانوں پر تولا گیا، تو ناراض ہوکر منائے جانے کا چلن بھی اٹھ گیا، بھلا ’تجارتی‘ نقصان کا ازالہ جذبات کے سہارے کیوں کر ہوتا۔۔۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنے رشتے داروں سے خود غرضی اور مطلب پرستی کی شکایت ہے‘ منافقت اور جھوٹ کا الزام ہے مگر ہم خود بھی تو اس سے مختلف نہیں۔۔۔!

اب ہمارے اِن رشتوں کی اوقات صرف ’گلستان‘ اور قبرستان ہی رہ چکی ہے۔۔۔! اب ہم اپنے بیش تر سگے رشتے داروں کو صرف زندگی کے دو مواقع پر ہی دیکھ پاتے ہیں۔ ایک کسی شادی کی تقریب میں اور دوسری کسی کی فوتیدگی میں۔۔۔ وہ بھی اتنا کہ بس دور سے پہچان لیتے ہیں، یا اگر مصافحے کی بھی نوبت آجائے، تو روایتی انداز میں شکوہ کرتے ہیں ارے بھائی آپ تو پہچانے بھی نہیں جا رہے۔۔۔ بہت بدل گئے ہیں۔ تب کبھی کچھ ذکر نکلتا ہے۔

بیماری یا کسی پریشانی کا، جس نے ہمارے مخاطب کے چہرے مُہرے کو اتنا بدل ڈالا ہوتا ہے کہ جس سے ان کی شناخت ہمارے لیے مشکل ہو گئی۔۔۔ یوں زندگی کے ان دو موقعوں سے ہماری معلومات میں اضافہ ہوتا ہے یا اپنوں کے حالاتِ زندگی سے واقفیت ہوتی ہے۔۔۔ یہاں بھی ہم عملاً صرف ’حاضری‘ لگانے کے لیے شرکت کرتے ہیں! خوشی کی مبارک باد دینا اور کسی کا غم بانٹنا اب دیگر بات ہوئی۔ ان موقعوں میں شرکت کا دورانیہ بہ مشکل دو سے ڈھائی گھنٹے پر ہی محیط ہوتا ہے۔ ایسے میں ہم وہاں موجود ’’اپنوں‘‘ سے ملاقات کے حوالے سے کس قدر انصاف کر پاتے ہیں، اس کا اندازہ آپ بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔۔۔

اگر یہ کہا جائے، تو بے جا نہ ہوگا کہ اب ہمارے خونی رشتے بھی بس خوشی و غمی کے مواقع پر ’’رش لگانے‘‘ کے ہی کام آتے ہیں ‘ بشرطے کہ میزبان ہمارے ہاں کی شادی و غمی میں آیا ہوا ہو، ورنہ ہم الحمد للہ پورا بدلہ لیتے ہیں کہ جیسے وہ آیا ویسے ہی ہم نے جانا ہے۔ یہاں تک کے تحائف کے تبادلے کے لیے بھی باقاعدہ گوشوارے بنائے جاتے ہیں کہ ’’بھئی فلاں نے بڑا بھاری تحفہ دیا ہے۔۔۔ اب اس کا ’اُتار‘ کرنا ہے۔۔۔!‘‘

یہ سب کیا ہے۔۔۔ پھر ہمارا شکوہ یہ ہے کہ ہماری زندگی میں سکون نہیں، چین نہیں‘ بڑی مشکلات ہیں وغیرہ وغیرہ۔ درجنوں قسم کی ذہنی وجسمانی بیماریاں ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔۔۔ ہم اپنی چھٹیوں میں بھی سکون حاصل کرنے کے لیے منہگی اور خواب آور گولیاں پھانکتے ہیں، مگر کسی سگے رشتے دار کو معاف کرنے اور اس سے محبت اور خلوص سے ملنا گوارا نہیں کرتے۔۔۔ کیوں کہ ہم حرص و ہوس میں بھی تو مبتلا ہیں، دوسرے رشتے داروں سے زیادہ دولت اور تعیشات کا حصول ہمیں اپنوں سے بہت پرے کر دیتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم اپنے سے کم حیثیت کے رشتے داروں کو گھاس نہیں ڈالتے‘ نتیجتاً ہم سے اچھی معاشی حالت والے رشتے دار ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ رہے ہمارے سماجی اور معاشی رتبے کے برابر کے لوگ، تو ہمیں اُن سے آگے بڑھنے کی فکر لاحق رہتی ہے۔

اس ہی دوڑ میں ہم اپنی کام یابیوں اور ترقیوں سے آگاہ نہیں کرتے اور یہ ’چھُپانے‘ کا بھیانک عذاب ہمارے یہاں ایسا غالب آیا ہے کہ بیان سے باہر ہے۔۔۔ پہلے کہتے تھے کہ خوشیاں بانٹا کیجیے، اس سے خوشیاں بڑھتی ہیں، مگر اب معاملہ اس کے بالکل برعکس محسوس ہوتا ہے۔۔۔ ہم اپنے جذبات اور مصروفیات کا بالمشافہ اظہار ہی نہیں کرنا چاہتے‘ اس لیے کہ سامنے والے نے بھی فلاں فلاں وقت پر ہم سے کوئی بات پوشیدہ رکھی تھی۔۔۔ بس سمجھیے سارے ملنے ملانے کا قصہ ہی ختم۔۔۔ تم اپنے گھر خوش‘ ہم اپنے ہاں مگن۔۔۔! کیوں کہ اگر ساتھ بیٹھے تو منہ سے کچھ نہ کچھ ایسا نکل سکتا ہے، جس کا ہم اظہار نہیں کرنا چاہتے۔ پھر یہ ننھے بچے اپنی معصومیت میں کسی ’راز‘ کا بھانڈا نہ پھوڑ دیں، لہٰذا زندگی میں ہی اپنے گھر کی چار دیواری کو ہی زندہ قبر بنا کر رہو۔۔۔ اسی کا نام اب ’زندگی‘ ہے!

آج عید کا دن ہے۔۔۔ مگر ہم یہ لطف ہی فراموش کر چکے ہیں کہ عید نامی تہوار کیا ہے۔۔۔ ہمارے لیے اب یہ بس تین چار دن کی چھٹیوں سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی۔ عیدالفطر پر رمضان اور بقر عید پر قربانی کی تھکن کا جواز ہمیں اپنے اپنے گھر تک محدود رکھتا ہے۔۔۔ بس رسمی اور ہلکی پھلکی سی کچھ دیر کی ایک آدھ بیٹھک کسی رشتے دار کے یہاں ہو تو ہو جائے۔۔۔

اب بھلا احساس اور جذبات سے عاری مشینوں کی بھی کوئی عید ہوتی ہے! یہ موبائل پیغامات‘ ٹی وی اور انٹرنیٹ کی مصروفیات ان اپنوں کے وجود کا نعم البدل نہیں۔۔۔ ان چیزوں کو کچھ محدود کیجیے اور اپنوں کے ساتھ مل کر بیٹھیے اور محسوس کیجیے عید کیا ہوتی ہے۔۔۔ بناوٹ اور مصلحت کے لایعنی چوغے اتار پھینکیے اور لوگوں سے بے لوث تعلقات استوار تو کر کے دیکھیے‘ آپ کو اپنی زندگی میں ایک خوش گوار تبدیلی کا احساس ہوگا، یہ ان تہواروں کی اصل روح اور مقصد ہے۔

The post کیا آج واقعی عید ہے۔۔۔؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

عید کی ٹرالی کو لذت بھرے پکوانوں سے سجائیے

$
0
0

عید کے موقع پر خواتین کی اولین ترجیح ہوتی ہے کہ مہمانوں کے لیے انواع و اقسام کے لذت بھرے پکوان سے عید ٹرالی کو سجادیں اس کے لیے کبھی کسی سے ڈش کی ترکیب پوچھی جاتی ہے تو کبھی انٹرنیٹ پر ڈھونڈا جا تا ہے اگر آپ بھی مزیدار میٹھوں اور بہت سی لذیذ ڈشوں سے عید پر اپنے مہمانوں کی تواضع کرنا چاہتی ہیں تو ذیل میں درج تراکیب کو آزمائیے آپ کے مہمان یقینا آپ کو سراہیں گے بلکہ دوبارہ فرمائش کرکے بنوائیں گے۔

شاہی شیر خرمہ

اجزاء:گھی…ایک کھانے کا چمچ،سویاں…50 گرام،دودھ… ایک لیٹر،چینی… آدھا کپ یا حسب ذائقہ،کھویا… ایک کپ،بادام… دس عدد،پستہ… دس عدد،کشمش… آدھی پیالی،چھوہارے… دس عدد،زردے کا رنگ… چٹکی بھر،کریم… آدھا کپ،چاندی کی ورق… سجاوٹ کے لیے

ترکیب: بادام پستے باریک کاٹ لیں، کشمش صاف کرکے بھگودیں چھوہارے گٹھلی نکال کر باریک کاٹ لیں، دودھ میں چینی ڈال کر پکنے رکھ دیں دوسری دیگچی میں گھی گرم کرکے سویاں بھون کر دودھ میں شامل کرلیں ساتھ بادام پستے، کشمش اور چھوہارے بھی شامل کردیں پکنے دیں چند منٹ بعد کھویا بھی چورا کرکے شامل کرلیں اور اس کو ملاکر اتار کر ٹھنڈا کرلیں پھر اس میں کریم ملاکر کسی خوبصورت پیالے میں ڈال کر چاندی کا ورق سجادیں لذیذ شاہی شیر خرمہ تیار ہے۔

ٹوٹی فروٹی کریم ڈیلائٹ

اجزا:  کریم… دو پیکٹ،فروٹ کوکٹیل… ایک ٹن،لال جیلی… ایک ساشے،سبز جیلی… ایک ساشے،چاکلیٹ… سجاوٹ کے لیے

ترکیب: کریم کو ایک پیالے میں پھینٹ لیں اس میں فروٹ کوکٹیل کو اس طرح شامل کریں کہ اس میں سیرپ شامل نہ کریں تھوڑا سا سیرپ حسب ذائقہ کریم میں ملاکر فریج میں رکھ دیں ،جیلی کو بنانے کے لیے پانی پونا کپ ابالیں اس میں ایک جیلی کا ساشے کھول کر ڈالیں پکاکر پلیٹ میں جمادیں اسی طرح دوسری جیلی بھی بناکر جمادیں جم جائے تو چھری سے چھوٹے ٹکڑے کاٹ کر آدھی جیلی کریم میں ملادیں آدھی جیلی کو کریم کے اوپر سجادیں۔ چاکلیٹ کو باریک کرش کرکے اس کے اوپر سجادیں، فریج میں ٹھنڈا کرنے کے لیے رکھ دیں۔

مینگو برفی

اجزاء: آم… تین عدد،دودھ… ایک کپ، چینی…حسب ذائقہ،بادام…سجاوٹ کے لیے، پستے … سجاوٹ کے لیے، کاجو… سجاوٹ کے لیے، ملک پاؤڈر… آدھا کپ، مکھن یا گھی… ایک کھانے کا چمچا

ترکیب: آم کا چھلکا اتار کر اس کے ٹکڑے کرلیں اور اس کو بلینڈر میں پیس لیں بادام پستے باریک کاٹ لیں دیگچی میں مکھن یا گھی ہلکا گرم کرکے اس میں پسا ہوا آم کا گودا ڈال کر تھوڑا پائیں پھر اس میں دودھ اور چینی ملاکر بھونیں پھر اس میں ملک پاؤڈر ملاکر اتنا پکائیں کہ بھونا جائے اور گاڑھا ہوجائے ایک طشتری مین تیل یا گھی لگاکر اس میں یہ آمیزہ ڈال دیں اوپر سے بادام پستے کا جو چھڑک کر گھنٹے بھر کے لیے فریج میں رکھ دیں پھر ٹکڑے کاٹ لیں، لذیذ مینگو برفی تیار ہے۔

کوکیز چاکلیٹ ڈیزرٹ

اجزاء: سادے میٹھے بسکٹ… ایک بڑا، کریم… ایک کپ، کنڈینسڈ ملک… آدھا کپ یا حسب ذائقہ، مکھن… چار کھانے کے چمچا ، کافی… ایک کھانے کا چمچا، اخروٹ… سجاوٹ کے لیے،  بادام… سجاوٹ کے لیے، کاجو… سجاوٹ کے لیے، چاکلیٹ چپس…سجاوٹ کے لیے

ترکیب: مکھن کو فریج سے نکال کر باہر رکھ دیں جب نرم ہوجائے تو اس میں کریم کنڈینسڈ ملک، کافی، کوکو پاؤڈر سب کو اچھی طرح ملالیں اب کھلے منہ کے چوڑی ڈش لیں۔ ایک ایک بسکٹ کو اس آمیزے میں ڈبوکر ڈش میں سجاتے جائیں کچھ بسکٹ ٹکڑے کرکے اس آمیزے میں بھی ملادیں اب یہ آمیزہ ڈش میں رکھے بسکٹوں کے اوپر پھیلادیں۔ اخروٹ اور بادام موٹے ٹکروں میں کاٹ لیں اب اخرورٹ اور بادام موٹے ٹکڑوں میں کاٹ لیں اب اخروٹ، بادام کا جو اوپر سے سجادیں چاکلیٹ چپس بھی چھڑک دیں اس کو ٹھنڈا کرنے کے لیے فریج میں رکھ دیں۔

براؤنی کپ کیک

اجزاء: مکھن… سو گرام، چینی پسی ہوئی … آدھا کپ، میدہ… آدھا کپ، انڈے… دو عدد، کوکو پاؤڈر … ایک کھانے کا چمچا، بیکنگ پاؤڈر… ایک چائے کا چمچا، دودھ… دو سے تین کھانے کے چمچا،  ونیلاایسنس ایک چائے کا چمچا

ترکیب: اوون کو 180 پر گرم کرنے رکھ دیں، میدے، بیکنگ پاؤڈر اور کوکو پاؤڈر کو تین دفعہ چھان لیں اور ایک طرف رکھ دیں ایک پیالے میں مکھن میں پسی ہوئی چینی ملاکر پھینٹیں، انڈے علیحدہ سے خوب پھینٹ کر مکھن میں ملائیں اور خوب پھینٹیں پھر میدہ تھوڑا تھوڑا کرکے ملائیں اور لکڑی کے چمچ سے گول دائرے میں ملاتے جائیں آخر میں دودھ اور ونیلا ایسنس ملاکر بیکنگ ٹرے میں پیپر کپس لگاکر ان میں اتنا یہ آمیزہ ڈالیں کہ آدھا بھرے اور ٹرے کو اوون میں رکھ دیں بیس سے پچیس منٹ میں تیار ہوںگے اس کو چیک کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ ٹھو پک اس میں ڈالیں اگر وہ صاف باہر نکلے تو اس کا مطلب ہے کہ کیکس تیار ہیں۔

آلمنڈ اسکوائر

اجزا:بادام… سوگرام، چینی… 75 گرام، مکھن… حسب ضرورت، بادام… سجانے کے لیے، چاندی کے ورق… سجاوٹ کے لیے

ترکیب: بادام کو چند گھنٹوں کے لیے بگھودیں، چینی پیس لیں پھر بادام کا چھلکا اتارلیں اس بادام میں چینی ملاکر پیس لیں جب یہ ایک چیسٹ کی شکل میں آجائے اور اس میں کوئی گھی نہ رہے تو کسی نان اسٹک پین میں دھیمی آنچ اس کو پکائیں۔ چمچ چلاتی رہیں، گاڑھا ہوکر برتن کے کنارے چھوڑدے گا تو کسی بھی طشتری میں مکھن لگاکر چکنا کرلیں اس میں یہ آمیزہ ڈال کر اس کو کسی چمچ یا چھری کی مدد سے برابر کرلیں ۔ اس پر بادام سجادیں، اس کے ٹکڑے کاٹ لیں۔ چاندی کے ورق سجادیں جم جائے تو نوش فرمائیں۔

بلیک فوریسٹ ڈیزرٹ

اجزاء:براؤنیز… ایک کپ چورا کی ہوئی، کریم… ایک پیکٹ، چینی پسی ہوئی… حسب ذائقہ، پائن ایپل… ایک کپ، چاکلیٹ کرش کی ہوئی… آدھا کپ، چیری… سجانے کے لیے

ترکیب: ایک ٹرانسپیرنٹ شیشے کے پیالے میں براؤنیز کا چورا آدھا ڈالیں علیحدہ پیالے میں کریم اور چینی پسی ہوئی ملاکر پھینٹ لیں پھر یہ آدھی براؤنیز کے اورپر ڈالیں پائن ایپل کے آدھے ٹکڑے کریم کے اوپر سجادیں، بقایا براؤنیز کا چورا اس کے اوپر اس طرح ڈالیں کہ ایک تہہ بن جائے اس پر بچی ہوئی کریم ڈالیں پھیلادیں اس پر بقایا پائن ایپل کے ٹکڑے سجاکر چاکلیٹ کرش کی ہوئی چھڑکیں چیری سجاکر اس کو فریج میں رکھ دیں۔ مزیدار میٹھا تیار ہے۔

سویوں کا ٹرائفل

اجزاء:دودھ… ایک کلو، موٹی رنگ برنگی سویاں… ایک کپ، چینی… ایک کپ یا حسب ذائقہ، جیلی… ایک پیکٹ، فروٹ کوکٹیل… ایک کپ، کریم… ایک پیکٹ، بادام پستے… حسب ضرورت

ترکیب: دودھ میں تھوڑا پانی ملائیں پھر اس میں موٹی رنگ برنگی سویاں اور چینی ملاکر پکنے دیں سویاں گل جائیں اور دودھ بھی تھوڑا گاڑھا ہوجائے تو اتار کر ٹھنڈا کرنے رکھ دیں ایک سے ڈیڑھ کپ پانی ابال کر جیلی کو پکاکر بنالیں آدھی جیلی ایک شیشے کے پیالے میں ڈالیں بقایا آدھی ایک پلیٹ یا طشتری میں جمادیں، جب جیلی جم جائے تو پیالے میں جیلی کے اوپر احتیاط سے آدھی سویاں ڈال دیں پھر آدھا فروٹ کوکٹیل ڈالیں اور اس کے اوپر بقایا سویاں ڈال کر اس کے اوپر کریم کی تہہ بچھادیں اس کے اوپر جیلی کے ٹکڑے کاٹ کر وہ سجائیں فروٹ کوکٹیل اور باریک کٹے بادام پستے بھی سجادیں، مزیدار ٹرائفل تیار ہے فریج میں ٹھنڈا کرکے نوش فرمائیں۔

پائن ایپل ڈیلائٹ

اجزاء:کریم… دو پیکٹ، پائن ایپل… ایک ٹن، پیلے رنگ کی جیلی… ایک پیکٹ، اخروٹ… ایک کپ چھلے ہوئے

ترکیب: جیلی کو ایک سے ڈیڑھ کپ پانی ابال کر اس میں پکاکر جمالیں کریم میں پائن ایپل کے ٹکڑے ملالیں اور آدھے اخروٹ کے ٹکڑے ملالیں پائن ایپل کے سیرپ میں سے تھوڑا سیرپ حسب ذائقہ شامل کریں آدھی جیلی کے ٹکڑے بھی ملالیں اب یہ کسی خوبصورت شیشے کے پیالے میں ڈال کر اوپر سے جیلی کے ٹکڑے اور اخروٹ کے ٹکڑے سجادیں فریج میں ٹھنڈا کرکے نوش فرمائیں۔

The post عید کی ٹرالی کو لذت بھرے پکوانوں سے سجائیے appeared first on ایکسپریس اردو.

عیدالفطر کی بدلتی روایات

$
0
0

عید وہ مذہبی تہوار ہے، جس کی آمد پر پورا عالم اسلام خوشیوں، مسکراہٹوں اور مسرتوں سے جگمگا اُٹھتا ہے۔ عید عربی زبان کا لفظ ہے، جو عود سے مُشتق ہے۔ عید کا لغوی معنی تو کسی چیز کا بار بار آنا لیکن اصطلاحی معنی نہایت خوشی ہے۔

یعنی رمضان المبارک کے روزوں، نزول قرآن، لیلۃ القدر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی منادیوں کے باعث عید کو مومنین کے لئے ’’خوشی کا دن قرار‘‘ دیا گیا ہے۔ عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے، جس کے انتظار میں بھی ایک لطف ہوتا ہے اور اس لطف کو تہنیتی پیغامات کے ذریعے دوسروں کے ساتھ شیئر بھی کیا جاتا ہے۔

اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور مرد حضرات عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ شکرانہ کے طور پر دو رکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز عید کے بعد عید ملنے اور مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں، پھر کھائو اور کھلائو کا دور شروع ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے، تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں اوردیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، یہاں ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے…… لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عید سے منسلک کچھ روایات، رجحانات اور چیزیں تبدیل ہوئیں تو کچھ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر کر ترقی کرتی چلی آ رہی ہیں۔

عید یوں تو مجموعی طور پر ہر عمر اور صنف کے افراد کے لئے خوشیوں سے بھرا تہوار ہے، لیکن بچوں اور خواتین کی خوشی تو خصوصاً دیدنی ہوتی ہے۔ اس پُرمسرت موقع پر کوئی خاتون مہندی نہ لگائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ شائد اسے عید کی خوشی ہی نہیں ہوئی۔ یوں مہندی عید کے موقع پر خوشی کا خاص استعارہ بن چکی ہے۔ مہندی کا پودا اپنے سرخ رنگ اورطبی خوبیوں کی وجہ سے قدیم زمانے سے برصغیر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ مہندی کی تاریخ 5000 سال قبل مصر سے شروع ہوتی ہے۔ قدیم مصری اس عقیدے کے ساتھ فرعون کی ممی بناتے وقت نعش کے ہاتھوں اور ناخن پر مہندی لگاتے تھے کہ موت کے بعد ان کی شناخت بطور فرعون ہوسکے۔ جبکہ قدیم زمانے میں عرب کے علاقوں میں مہندی کی پتیوں سے کپڑے کو خوشبودار بنانے کے لئے رنگا جاتا ہے۔ مہندی کی بے پناہ خصوصیات کی بناء پر عرب میں اسے ’’سید الریحان‘‘ یعنی خوشبودار پودوں کا سردار کہا گیا ہے۔

خاص طور پر دمشق کے باریک کپڑے مہندی سے رنگے جاتے تھے۔ مغل بادشاہوں نے پہلی بار برصغیر میں مہندی کو بارہویں صدی میں متعارف کروایا۔ اس وقت صرف ملکہ، شہزادیاں اور امیر خواتین ہی مہندی لگاتی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مہندی کا رواج عام ہوگیا۔ ہمارے ہاں پنجاب میں سب سے زیادہ مہندی بھیرہ اور میلسی جبکہ سندھ میں سب سے زیادہ مہندی نواب شاہ میں کاشت ہوتی ہے۔

مہندی سے ہاتھوں اور پیروں پر نہ صرف دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جاتے ہیں بلکہ یہ اسلامی نقطہ نگاہ سے خواتین کے لئے کارِ ثواب بھی ہے۔ زمانہ قدیم میں مہندی کے پتوں کو گھروں میں رگڑ کر استعمال کیا جاتا تھا، پھر زمانے نے کروٹ بدلی تو اس کا پائوڈر استعمال کیا جانے لگا، آج دنیا اس پائوڈر کو پانی میں مکس کرکے استعمال کرنے کی مشقت سے بھی آزاد ہو چکی ہے کیوں کہ اب بنی بنائی مہندی ’’کون‘‘ اور دیگر اشکال میں موجود ہے، جو خواتین براہ راست ہاتھوں اور بازوئوں پر ڈیزائننگ کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

خواتین کے لئے چوڑیوں کے بغیر عید کی تیاری ادھوری تصور کی جاتی ہے، جس کی واضح دلیل چاند رات میں چوڑیوں کے اسٹالز پر خواتین کا بے پناہ رش دکھائی دینا ہے۔ چوڑیوں کی سریلی کھنک کانوں کو مسرت کا احساس دلاتی ہے۔ پہلے زمانے میں عورتیں تانبے کی چوڑیاں استعمال کرتی تھیں، پھر سی شیل ، تانبہ، سونا، سمندری سیپی ، کاشی، سفیہ قیمتی دھات اور موتی کی بھی چوڑیاں بنائی جانے لگیں۔ چوڑیاں بنانا اور پہننا وہ قدیم رواج ہے، جو آج بھی زور و شور سے موجود ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ چوڑیاں بنانے کے میٹریل میں تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی رہی ہیں۔

تاریخی اعتبار سے چوڑیوں کا رجحان اور رواج موئن جو دڑو سے (2600-BC) میں شروع ہوا، اس کے بعد انڈیا سے تانبے کی چوڑیاں بننا شروع ہوئیں۔ پاکستان میں چوڑیوں کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ مشہور چوڑیاں حیدرآباد (سندھ) کی ہیں ، حیدرآبادی چوڑیوں کا ڈیزائن اور بنانے میں جو محنت درکار ہوتی ہے وہ قابل دید ہے، حیدرآباد کی چوڑیاں اپنے خوبصورت ڈیزائن کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔

مسلمانوں کے خاص تہوار کی مناسبت سے مہندی اور چوڑیوں کے رجحانات میں تو وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی اور ترقی کا عمل کارفرما رہا، لیکن عید کے موقع پر کچھ روایات ایسی بھی ہیں، جو معدوم ہوتی جا رہی ہیں، جیسے آج سے لگ بھگ 15 سال قبل تک عید کارڈز کے ذریعے اپنے عزیزواقارب کے ساتھ جس خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا، آج وہ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں اور اساتذہ وغیرہ کے لئے عیدکارڈز کی خریداری کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔ پہلے پہل سادہ، پھر رنگ برنگے اور بعدازاں کاغذ کے عید کارڈز میں الیکٹرانک ڈیوائسز والے عید کارڈز محبت کی شدت کا احساس دلاتے تھے، لیکن آج موبائل فون کے ذریعے ’’فاروڈ‘‘ ایس ایم ایس بھیج کر اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے۔

کبھی زمانہ تھا جب عام دنوں میں کیا عید پر بھی کپڑوں کی سلائی گھروں پر ہوتی تھی، جس میں مردانہ کپڑے بھی شامل ہوتے تھے۔ کپڑوں کی سلائی کے لئے گھر میں موجود ماں، بہن اور بیوی کو ایک خاص مقام حاصل ہوا کرتا تھا لیکن آج پیشہ ور درزیوں کے سلے کپڑوں سے بھی بات آگے نکل چکی ہے، آج کی نوجوان نسل برنڈڈ کپڑوں کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ نئے کپڑوں کے ساتھ پورے خاندان کا گروپ فوٹو آج ترجیحات میں شامل نہیں کیونکہ ہر جیب میں کیمرہ موجود ہے۔

روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے روز شہری مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین، چار دہائی قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، بچوں کی عیدی کے لئے ضد، تحائف کا تبادلہ بھی اب کہیں کہیں ہی دیکھنے میں آتا ہے، جس کی ایک وجہ مہنگائی کو تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر سماجی رویوں نے ہمارے اطوار میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔

ہمارا اجتماعی خاندانی نظام زوال پذیر ہونے سے اب عید تہوار پر ہی خاندان اکٹھے ہو پاتے ہیں اوراس دوران بھی خاندان کے بیشتر نوجوان، بچے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بڑے، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے کڑھتے نظر آتے ہیں۔ بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں، موجود زمانے میں وہ اسے یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری روز چھتوں پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھنے کی رسم بھی معدوم ہو چکی ہے۔

اب تو گھر والے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج دم توڑ گیا ہے، اس کے برعکس چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی سارا خاندان بازاروں کا رِخ کرتا ہے تاکہ خریداری میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ ساری رات بازاروں میں گزارنے کے بعد گھر کے بیشتر افراد صبح سو جاتے ہیں اور محلہ یا شہر کی عید گاہ میں اکٹھے ہو کر نماز عید کی ادائیگی کے لئے جانے کی بجائے گھر میں نیند پوری کی جاتی ہے۔

بچوں کو عید پر ملنے والی عیدی سے جھولے لینا، کھلونے خریدنا، گول گپے، قلفیاں، چورن وغیرہ کھانا، تانگے کی سیر، کرائے پر سائیکل حاصل کرنا اور لاٹری نکالنے جیسے معصومانہ رجحانات ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی ان خوشگوار اور محبت بھری روایات کو پھر سے زندگی بخشنے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے سب سے ضروری نکتہ ہمارا خود پر انحصار کرنے کے ساتھ اپنے اندر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کیوںکہ اسی مشق سے ہم اپنی پھیکی پڑتی زندگی اور عیدوں میں دوبارہ سے رنگ بھر سکتے ہیں۔

The post عیدالفطر کی بدلتی روایات appeared first on ایکسپریس اردو.

پاکستان میں غیر ملکی این جی او کے فراڈ کی ہوشربا داستان

$
0
0

تھری کپس آف ٹی، نامی نان فکشن کتاب پورے چار سال تک ’نیویارک ٹائمز‘ کی بیسٹ سیلر رہی۔ یہ کتاب اب تک سینتالیس زبانوں میں شائع ہو چکی ہے، اس کا مصنف گریگ مورٹنسن ایک سابق امریکی فوجی اور کوہ پیما ہے۔

وہ پاکستان، افغانستان اور تاجکستان میں بچوں خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم اور اسکولوں کے قیام کے لئے کام کرنے والی این جی او ’سنٹرل ایشین انسٹیٹیوٹ‘ کا بانی اور سابق ایگزیکٹو ڈائریکٹر بھی رہا ہے۔ تیسری دنیا کے ان جنگ اور غربت زدہ خطوں میں لڑکیوں کی تعلیم کے ترقی کے لئے کام کرنے پر مورٹنسن کو مسلسل تین سال تک نوبل پرائز کے لئے بھی نامزد کیا جاتا رہا۔ یاد رہے کہ اس انسٹیٹیوٹ کو امداد دینے والوں میں امریکی صدر اوباما اور سلیکون ویلی کے بزنس اونرز سے لے کر امریکی عوام یہاں تک کہ بڑی تعداد میں امریکی اسکولوں کے بچے بھی شامل ہیں ۔

جنہوں نے اس کے قیام سے لے کر2011ء  تک اسے 100 ملین ڈالر سے زیادہ مالی عطیات دیئے۔ قارئین کی آسانی کے لئے ہم بتائیں کہ یہ رقم آج کے ریٹ کے مطابق ایک ہزار کروڑ پاکستانی روپے سے زائد بنتی ہے۔ 2010ء کے اواخر میں معروف امریکی چینل سی بی ایس کے ایک پروگرام سے کچھ ایسے انکشافات سامنے آئے جس کے مطابق گریگ نے اپنی ویب سائٹ پر جن اسکولوں کی تعمیر کا دعویٰ کیا ہے ان کی بڑی تعداد سرے سے موجود ہی نہیں ہے جو ہیں ان کے لئے مقامی افراد نے زمین، تعمیراتی سامان اور اپنی مدد آپ کے تحت محنت مفت فراہم کی، گریگ کی این جی او صرف اسٹیشنری، کتابوں، اور ٹیچرز کی تنخواہوں کا انتظام کرتی ہے۔

وہ بھی ہر جگہ نہیں۔ بعض پرنسپلز کا کہنا تھا کہ انہیں برسوں سے کوئی مالی تعاون نہیں ملا۔یہ بھی سامنے آیا کہ گریگ خیراتی رقم سے لاکھوں ڈالر اپنے ذاتی سفری اخراجات جن میں چارٹرڈ فلائٹس تک شامل تھیں، اپنے خاندان کے لئے برانڈڈ اشیاء  یہاں تک کہ اپنی ذاتی کتاب کی پروموشن پر خرچ کر رہے ہیں جس کے لئے وہ ’نیویارک ٹائمز‘ جیسے مہنگے اخبار میں متعدد پورے صفحہ کے اشتہارات دے چکے ہیں۔ یہی نہیں خیراتی فنڈز سے چالیس لاکھ ڈالر خرچ کر کتاب کی لاکھوں کاپیاں ریٹیل بک اسٹورز سے دوبارہ خریدی گئیں۔

اس کے علاوہ ان پرکتاب میں غلط بانیوں کے ثابت شدہ الزامات بھی تھے۔ اس پروگرام کے نشر ہونے کے بعد امریکی ریاست مونٹانا کے اٹارنی جنرل کو گریگ کے خلاف از خود نوٹس لے کر تحقیقات شروع کروانی پڑیں۔ بعد ازاں اٹارنی جنرل کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی کہ کتاب کی رونمائی کی تقریب کے لئے مارکیٹنگ این جی او کی ویب سائٹ پر ہوتی اور مہنگی ترین چارٹرڈ فلائٹس کا بل وہ نہ صرف مدعوین سے وصول کرتے ہیں بلکہ این جی او کو بھی اس کا بل بھیجتے ہیں اور اس سے بھی دوبارہ یہ رقم وصول کرتے ہیں۔

گریگ کی کہانی

کتاب کے بیان کے مطابق گریگ 1993ء میں پاکستان آیا اور دنیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی کے ٹو تک پہنچنے میں ناکام ہونے کے بعد اکیلا راستہ بھٹک کر شدید تھکاوٹ اور بیماری کی حالت میں شمالی علاقہ جات کے خطے اسکردو کے گاؤں خورپو پہنچ کر بے دم ہو گیا۔ جہاں اسے مقامی بلتی رہائشی نیم بے ہوشی کی حالت میں اٹھا کر اپنے گھر لے گئے اور اس کے صحت یاب ہونے تک اس کی تیمارداری کرتے رہے۔ مورٹنسن کے بیان کے مطابق ٹھیک ہونے کے بعد ایک دن اس نے دیکھاکہ مقامی بچے زمین پر بیٹھے پڑھ رہے ہیں اور کچھ فرش پر موجود مٹی پر اپنے سبق لکھ رہے ہیں۔

مورٹنسن کا کہنا ہے کہ اس منظر نے اور گاؤں والوں کی خدمت اور تیمارداری نے اسے اتنا متاثرکیا کہ اس نے وہیں فیصلہ کیا کہ وہ ان بچوں کے لئے ایک اسکول قائم کرے گا۔ امریکا واپس آ کرانسانیت کے جذبے سے سرشار، وہ اس اسکول کے لئے فنڈ جمع کرنے میں لگ گیا۔ بالآخر سلیکون ویلی کا جین ہرونی نامی ایک معروف موجد اور بزنس اونر اس اسکول کو اسپانسر کرنے پر راضی ہو گیا لیکن گریگ کا سفر یہاں ختم نہیں ہوا۔1996ء میں انہوں نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے سنٹرل ایشیا انسٹیٹیوٹ ( سی اے آئی ) نامی این جی او قائم کی اور امریکا بھر کے مخیر حضرات، سیاستدانوں، صحافیوں، اوپرا ونفرے جیسے مقبول میڈیا اینکرز، یہاں تک کہ صدر اوباما تک سے رابطہ کیا اور ان سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر مدد مانگی۔

سن2001 ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد گریگ نے افغانستان اور پھر تاجکستان کا بھی دورہ کیا اور وہاں بھی سی اے آئی نامی این جی او کے آپریشن شروع کیے۔ یہ امریکی حکومت اور عسکری حلقوں میں اتنے معروف ہو گئے کہ نائن الیون کے بعد ایک وقت ایسا بھی آیا کہ یہ امریکی افواج کے کمانڈر مائک مولن کو مشاورت دینے لگے یا کم از کم انہوں نے میڈیا کو یہ تاثر دیا۔ ان کی کتاب میں مائک مولن کے ساتھ ان کی ایک تصویربھی  موجود ہے۔ یہاں تک کی کہانی انسانی ہمدردی کی داستان ہے، جنگ اور غربت زدہ علاقوں میں اسکولوں کا قیام اور لڑکیوں کی تعلیم کے لئے کام کرنے پر اور تعلیم سے محروم بچوں کو انتہا پسندی اور دہشت گردوں کے ہتھے چڑھنے سے بچانے کا عظیم کام کرنے پر امریکی ڈونرز ان سے بہت خوش تھے اور 2010ء  تک سی اے آئی کو ملنے والے عطیات بڑھتے بڑھتے 230 ملین ڈالر تک پہنچ گئے۔

’تھری کپس آف ٹی‘ کی غیر معمولی کامیابی

سن 2006 ء میں گریگ مورٹنسن کی پہلی کتاب ’تھری کپس آف ٹی‘ کی اشاعت اور غیر معمولی کامیابی نے انہیں امریکا کے مقبول ترین پبلک اسپیکر کا درجہ دے دیا۔ انہیں پاکستان اور افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے ناگفتہ بہ حالات کی کہانی سننے کے لئے اور ان کی کتاب کی رونمائی کے لئے امریکا بھر میں مدعو کیا جانے لگا۔ یہ وہ وقت تھا جب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) وجود میں آئی اور لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کرنے کی داستانیں عالمی میڈیا کی زینت بننے لگیں تھیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مفلوک الحال، تعلیم سے محروم بچوں کے ساتھ گریگ کی قد آدم تصویریں اور ان کی حالت زار کا آنکھوں دیکھا حال امریکی عوام پر اتنا اثر کرتا کہ اسکول کے بچے تک اپنا جیب خرچ ان کے حوالے کر دیتے۔

ان کی تنظیم ’سی اے آئی‘ کی ویب سائٹ کے مطابق گریگ ان ایونٹس کی کم از کم فیس 25 سے 30 ہزار ڈالر وصول کرتے۔ ان کی ڈومیسٹک فلائٹس، قیام اور طعام کے اخراجات اس کے علاوہ تھے جو وہ مدعوین سے وصول کرتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ ان دوروں کے لئے عام کمرشل فلائٹس استعمال نہیں کرتے تھے بلکہ چارٹرڈ فلائٹس کا استعمال کرتے۔ جب ان کے بعض ڈونرز نے اس پر اعتراض کیا تو ان کا کہنا تھا کہ کوسٹکو(COSTCO )نامی سپر اسٹورز چین کی انتظامیہ نے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر یہ پرائیویٹ جہازاستعمال کی اجازت دی ہے، یہ دعویٰ بعد ازاں جھوٹا ثابت ہوا۔

سی بی ایس کے پروگرام کے انکشافات

یاد رہے کہ 2010ء کے دسمبر میں سی بی ایس کا یہ پروگرام جو گریگ کی این جی او کی مالی بے قاعدگیوں اور بد عنوانیوں کے کچھ ثبوت عوام کے سامنے لے کرآیا، امریکی صحافی جان کراکر، امریکی این جی اوز کی نگرانی کرنے والی اور انکو ریٹنگ دینے والی غیر جانبدار تنظیم امریکن فلانتھروپسٹ ایسوسی ایشن ( اے پی آئی) کی غیر جانبدارانہ تحقیقات پر مشتمل تھا۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ جان کراکر خود گریگ کی این جی او سی اے آئی کو ماضی میں 75 ہزار ڈالر کے مالی عطیات دے چکا تھا۔ اس کے علاوہ سابق امریکی صدر اوباما بھی سی اے آئی کو اپنے نوبل پرائز کی رقم سے ایک لاکھ ڈالرعطیہ کر چکے تھے۔ برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق تنظیم کی ویب سائٹ پر دعویٰ کیا گیا تھا کہ  سی اے آئی نے ایک سو  ستر اسکول تعمیر کئے اور وہ  اڑسٹھ  ہزار بچوں کی تعلیم کا خرچہ اٹھاتی رہی ہے۔ گریگ امریکی ریاست مونٹانا سے اپنی این جی او چلاتے تھے اور مقامی پاکستانیوں کو غالباً ان ایک ہزار کروڑروپے  کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھیں جو گریگ سارے امریکا میں دورے کر کے اکٹھا کر رہے تھے اس لئے انھیں جو مل جاتا تھا اس پر شکر گزار تھے۔

جان کراکر کا کہنا تھا کہ تنظیم کے ایک عہدے دار نے نام نہ لینے کی شرط پر انہیں بتایا کہ گریگ تنظیمی فنڈ کو اپنے ذاتی اے ٹی ایم کی طرح استعمال کر رہے تھے۔ اے پی آئی کے مطابق این جی او ہر سال اپنی آڈٹ شدہ فنانشل رپورٹ شائع کرنے کی پابند تھی جو وہ مسلسل یاد دہانی پر بھی نہیں کر رہی تھی۔ 2009ء کے نومبر میں رابطہ کرنے تنظیم کے آپریشن ڈائریکٹر جینیفر سایپس نے  جواب دیا کہ تنظیم اپنے آڈٹ نہیں کرواتی ہے مگر ہم اپنے وکلاء  سے مشاورت کر رہے ہیں اور ابھی یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ آڈٹ رپورٹ کب تک شائع ہوگی اور اس میں کون کون سے سال شامل ہوںگے۔ یاد رہے کہ تنظیم کو قائم ہوئے اس وقت تک 13 سال ہو چکے تھے اور وہ ایک ہزار کروڑ پاکستانی روپے جمع کر چکی تھی۔

گریگ کا رد عمل

جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ اپنی ذاتی کتاب کی رونمائی کی تقریبات کے لئے تنظیم کے فنڈز سے کیوں رقم وصول کرتے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ کتاب کی پروموشن سے تنظیم کے لئے فنڈ ریزنگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ ان کا موقف تھا کہ 2006ء سے2011ء تک امریکی عوام نے تنظیم کو ستر ملین ڈالر (سات سو کروڑ پاکستانی روپے) کے عطیات دیئے جس میں سے کتاب کی پروموشن کے لئے ہم نے صرف گیارہ ملین ڈالر (یعنی ایک سو دس کروڑ پاکستانی روپے خرچ کئے)۔ دلچسپ بات یہ کہ اس میں سے چار ملین ڈالر یعنی چالیس کروڑ روپے سے اس کتاب کی لاکھوں کاپیاں ریٹیل بک اسٹورز سے دوبارہ خریدی گئیں۔ یاد رہے کہ یہ کتب پبلشر سے ڈسکاؤنٹ پر نہیں بلکہ پوری قیمت ادا کرکے ریٹیل اسٹورز سے خریدی گئیں۔ کتاب کی یہ شاندار سیل اور نیو یارک ٹائمز میں فل پیج اشتہارات اسے ’نیو یارک ٹائمز‘ کا بیسٹ سیلر بنانے میں مدد گار ہوئی ہوگی۔

گریگ کو اشاعتی ادارے ’پینگوئن‘ سے جو رائلٹی ملنا تھی اس میں بھی لاکھوں ڈالرکا فائدہ ہوا ہوگا، اسی طرح پینگوئن اور ان بک اسٹورز کو بھی خطیر منافع ہوا ہوگا۔ مگر اس رقم کے فوائد سے وہ بچے محروم رہے جن کی ہمدردی میں یہ مالی عطیات دیئے گئے تھے۔ تنظیمی ریکارڈز کے مطابق اس عرصے میں پانچ ملین ڈالر کتاب کی پروموشن پر مزید خرچ کئے گئے۔ ’بی بی سی‘ کے ایک آرٹیکل کے مطابق تقریباًپچھتر ہزار ڈالر گریگ نے اپنے اور اپنے خاندان کے برانڈڈ کپڑوں اور ذاتی استعمال کی اشیاء  کے لئے تنظیمی فنڈ سے وصول کیے۔

تنظیمی ریکارڈز اور ٹیکس ریٹرنز کے مطابق 2008ء  میں اسے ایک سو تیس لاکھ ڈالر، 2009ء میں ایک سو چالیس لاکھ ڈالر اور 2010ء میں دو سو تیس لاکھ ڈالر کے فنڈ حاصل ہوئے۔2006ء سے لیکر2011ء تک صرف پانچ سالوں میں اسے کل ستّر ملین ڈالر کے عطیات ملے۔ امریکی قوانین کے مطابق رجسٹرڈ این جی اوز کو ملنے والے عطیات پر حکومت ٹیکس کی چھوٹ دیتی ہے لیکن یہ چھوٹ دراصل تعلیم سے محروم بچوں کے لئے اسکول قائم کرنے کے لئے دی جا رہی تھی،کتابوں کی پروموشن کے لئے نہیں۔ ٹیکس چھوٹ کا غلط استعمال امریکا میں ایک بڑا جرم ہے لیکن ٹھہریں گریگ کی کہانی اتنی سادہ نہیں۔

بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبروں کی تعداد

تفصیلات سامنے آنے پر اے پی آئی کا کہنا تھا کہ یہ بات نا قابل فہم ہے کہ تنظیم کے بورڈ آف گورنرز نے خیراتی رقم سے اتنی بڑی تعداد میں کتاب خریدنے اور اس کی پروموشن پر تنظیمی فنڈز استعمال کرنے کی اجازت کیسے دے دی؟ اے پی آئی نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ اس تنظیم کے صرف تین بورڈ آف ڈائریکٹرز تھے جس میں سے ایک گریگ خود تھا۔ گو فلاحی تنظیموں کو تین ممبرز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز رکھنے کی اجازت ہوتی ہے مگر اس تنظیم کے فنڈ کا دائرہ بہت بڑا تھا۔ اس کی نگرانی کے لئے بقیہ دو ڈائریکٹرز ناکافی تھے۔

اے پی آئی دراصل فلاحی تنظیموں کو ریٹنگ دیتی ہے۔ عام طور سے ریٹنگ اس بنیاد پر کی جاتی ہے کہ تنظیم کے آپریٹنگ اخراجات اس کے انتظامی اخراجات کے مقابلے میں کتنے ہیں۔ آسان لفظوں میں یہ سمجھ لیجئے کہ جن لوگوں کے لئے فنڈ جمع کئے گئے ان پر خرچ کے مقابلے میں انتظامی اخراجات، ڈائریکٹر اورملازمین کی تنخواہیں اور دیگر متفرق اخراجات کتنے ہیں۔

اس تنظیم کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے انتظامی اخراجات صرف پندرہ فیصد تھے اور باقی پچاسی فیصد کی رقم تنظیم اسکولوں کی تعمیر اور انہیں چلانے پر خرچ کر رہی تھی۔ اس حوالے سے اسکی ریٹنگ بہت اچھی بنتی تھی لیکن2010ء کے جون میں جب اے پی آئی کی بار بار یاد دہانی پر تنظیم نے اپنی آڈٹ شدہ رپورٹ شائع کی تو یہ بات سامنے آئی کہ تنظیم گریگ کے امریکی دوروں کو آپریٹنگ اخراجات میں شمار کرتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پینگوئن پبلشرز کا ذیلی ادارہ وائکنگ ان پبلک ایونٹس کی مینجمنٹ کا ذمہ دار ہوتا تھا اور گریگ کے ہر دورے پر ساڑھے سات ہزار اپنی فیس وصول کرتا تھا۔ یعنی پاکستانی بچوں سے ہمدردی کی ہر تقریب پر گریگ ساڑھے بائیس لاکھ روپے جبکہ پینگوئن ساڑھے سات لاکھ پاکستانی روپے وصول کرتی۔

اے پی آئی کا کہنا تھا کہ سی اے آئی کو دیا جانے والا ہر عطیہ غریب بچوں کی تعلیم پر خرچ ہونے سے زیادہ امریکی عوام کو پاکستانی بچوں کے بارے میں تعلیم دینے پر خرچ ہو رہا تھا۔ اے پی آئی ہی کے مطابق 2009ء کے ٹیکس فارم میں چالیس لاکھ ڈالر امریکی عوام کو آگاہی دینے پر خرچ کے گئے۔یہ  بات بھی یاد رہے کہ کتاب کی ایڈورٹائزنگ کی ذمہ داری سی ای اے پر نہیں بلکہ کتاب کا مصنف یا اس کا پبلشر پینگوئن پر تھی جنہوں نے سی ای اے کے فنڈز سے نا جائز فائدہ اٹھایا۔ یعنی اس بہتی گنگا میں صرف مورٹنسن نے ہاتھ نہیں دھوئے بلکہ پینگوئن  پبلشر بھی نہائی۔

صرف 2009ء میں کتاب کی پروموشن کے لئے تنظیمی فنڈز سے17 کروڑ پاکستانی روپے خرچ کئے گئے جبکہ کتاب کے منافع سے حاصل ہونے والی کوئی رقم ان کے ٹیکس پیپرز اور آڈٹ کے مطابق تنظیم کے فنڈ میں نہیں گئی۔ اسی سال گریگ نے ایک سو چالیس لاکھ ڈالر روپے تنظیمی فنڈز سے سفری اخراجات کی مد میں وصول کیے۔

اسکے علاوہ2010ء میں 23 ملین ڈالر کے فنڈز وصول ہوئے جس میں سے اٹھتر لاکھ ڈالر کا خرچ ان کے امریکی دوروں کے حوالے سے دکھایا گیا لیکن ان دوروں سے جو آمدنی ہورہی تھی اس کا کوئی حصہ تنظیمی فنڈز میں نہیں گیا۔ این جی اوز کے ضابطوں کے مطابق فنڈ ریزنگ کے لئے تنظیمی فنڈ استعمال کے جا سکتے ہیں لیکن اس خرچ کو منصفانہ صرف اس صورت میں کہا جاسکتا ہے جب آمدنی خرچ سے قدرے زیادہ ہو جبکہ یہاں صورت حال یہ تھی کہ ایک طرف تنظیمی فنڈ سے اٹھتر ملین ڈالر خرچ کیے جا رہے تھے اور دوسری طرف ان دوروں سے جو آمدنی ہو رہی تھی وہ گریگ کی ذاتی جیب میں جا رہی تھی۔ اس آمدنی میں کتاب کی سیل سے ہونے والی آمدنی کے علاوہ ایونٹ فیس اور چارٹرڈ فلائٹس سے سفری اخراجات بھی شامل تھے جن کا بل یہ تنظیم اور مدعوین دونوں سے وصول کر رہے تھے۔

کتاب میں غلط بیانیاں اور علماء  کے فتوؤں کا جھوٹ

اس کے علاوہ تحقیقات سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ انہوں نے اپنی کتاب ’تھری کپس آف ٹی‘ میں بہت واضح غلط بیانیوں سے کام لیا ہے جن کے با عث انہیں انسانی ہمدردی کا چیمپین تصور کر لیا گیا ہے۔ تحقیقات سامنے آنے پر گریگ کتاب میں دیئے گئے واقعات کے بارے میں مسلسل ابپنے بیانات بدلتے رہے لیکن آخرکار انہوں نے تسلیم کیا کہ واقعات اس طرح پیش نہیں آئے تھے جیسے کتاب میں مذکور ہیں۔

کتاب کے آغاز میں انہوں نے کے ٹو کی چوٹی سے اترتے ہوئے راستہ بھٹک کر جس گائوں تک پہنچنے کا دعویٰ کیا تھا، خطے کے جغرافیہ کے مطابق ایسا ممکن نہیں تھا کیونکہ راستے میں برالڈو کا دریا آتا ہے جسے عبور کرنے کا کوئی تذکرہ کتاب میں موجود نہیں۔ دوسرے گریگ کے مقامی بلتی پورٹرز نے بھی ان کے راستہ بھٹکنے کے بیان کی تردید کی۔ گائوں والوں کے مطابق گریگ کتاب میں مذکور دورانیہ میںگائوں میں موجود نہیں تھے۔

اس اختلاف کے حوالے سے ابتدائی طور پرگریگ کاکہنا تھا کہ بلتی گائوں والوں کا وقت کا تصور مغربی وقت سے بہت مختلف ہے اور اسی لئے غلط فہمی کے باعث وہ ایسا کہہ رہے ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے اعتراف کیا کہ1993ء کے سفر میں گائوں میں وہ صرف چند گھنٹوں کے لئے ٹھہرے تھے۔ باقی واقعات کسی ایک سفر میں نہیں پیش آئے بلکہ پاکستان کے متعدد مختلف دوروں کے درمیاں پیش آئے اور انہوں نے صرف اختصار کے لئے انہیں ایک سفر میں دکھایا۔

قارئین کو یاد دلادیں کہ مغربی ادبی معیارات کے مطابق اگر آپ فکشن یعنی افسانہ تحریر کر رہے ہیں تو آپ اپنے تخیل سے جو چاہیں تحریر کرسکتے ہیں مگر اگر آپ یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ آپ کی کہانی سچی ہے یعنی نان فکشن ہے تو آپ کو سچ لکھنا ہوتا ہے اور سچ کے سوا آپ کچھ نہیں لکھ سکتے۔ اور یہ بھی ایک بہت بڑا جرم تھا جوگریگ سے سر زد ہو چکا تھا۔ کتاب میں گریگ نے یہ دعویٰ بھی کیاکہ 2003ء میں انہیں فاٹا کے علاقے میں منشیات کے اسمگلروں نے اغوا کر لیا اور لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کے جرم میں ان کے خلاف مقامی علماء نے دو فتوے جاری کیے۔

جان کراکر کی تحقیقات کے مطابق یہ بیان سراسر غلط تھا۔ گریگ کے بیان کے برخلاف یہ ایک پاکستانی لیفٹننٹ کرنل الیاس مرزا (جن کا تعلق بنوں سے تھا) کے دوست کی حیثیت سے وزیرستان کے علاقے بنوں گئے تھے اور وہاں قبائلی روایات کے مطابق ان کی شاندار مہمان نوازی کی گئی تھی۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ نائن الیون کے بعد کے ماحول میں ایسے قصے گھڑنے سے گریگ امریکی عوام کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ مجبور مسلمان لڑکیوں کی تعلیم کے لئے خطرات سے کھیلتے رہے ہیں اور اپنی زندگی دائو  پر لگاتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ مسلمان بچوں کو تعلیم دینے پرانہیں نائن الیون کے بعد روز امریکی عوام کی طرف سے مخالفانہ ای میل اور دھمکیاں موصول ہونا شروع ہو گئیں۔

دہشتگردی کا مقابلہ تعلیم سے

گریگ اس دوران امریکی میں اسٹریم میڈیا میں بھی مسلسل مدعو کیے جاتے رہے۔2007ء میں ایک اور معروف امریکی چینل پی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کو  ختم کرنے کے لئے پاکستان اور افغانستان میں تعلیم کو عام کرنا بہت ضروری ہے اور ہم جتنی رقم وار آن ٹیرر پر خرچ کر رہے ہیں اس کا ایک فیصد بھی اگر وہاں تعلیم کی ترقی پر لگائیں تو بہت اچھے نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سعودی عرب بلین ڈالر سلفی اسلام اور ملیٹنٹ عسکری اسلام کے فروغ پر لگا رہا ہے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ پاکستان میں موجود25ہزار مدرسوں میں سے ذہین ترین طلبہ کو سعودی عرب اور یمن بھیجا جاتا ہے اور دس سال کی نظریاتی برین واشنگ بعد وہ اپنے گاؤں کے امیر ترین فرد بن کر واپس اپنے علاقوں میں بھیج دئیے جاتے ہیں تاکہ سلفی نظریے کو پروموٹ کر سکیں۔  یہ سو سالہ وہابی انتہا پسندی کا پلان ہے اور ہماری تنظیم سی اے آئی دراصل اس بلین ڈالر سلفی اسلام کی اشاعت کی انڈسٹری کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ منطقی باتیں پڑھے لکھے انسانیت پسند امریکی عوام کو ہی نہیں با اثر سیاست دانوں تک کو متاثر کرتی تھیں۔

انکشافات پر گریگ کا رد عمل اور مصنف کی خود کشی

یاد رہے کہ گریگ نے سی بی سی کو سکسٹی منٹس نامی پروگرام میں انٹرویو دینے سے معذرت کرلی اور اس کے بعد نہ صرف صحافیوں کو ملنے سے انکار کردیا بلکہ اپنی نئی کتاب کی رونمائی کی تقریبات بھی منسوخ کر دیں۔ لیکن2011 میں مونٹانا کے ایک چھوٹے سے اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے مانا کے اس کتاب میں درج بہت سے واقعات غلط ہیں مگر اس کا کہنا تھا کہ یہ کتاب لکھنے والے مصنف ڈیوڈ آلیورریلن کی وجہ سے اور اس کے مشورے سے ہوا۔ ایک تکلیف دہ صورت حال اس وقت پیش آئی کہ مقدمہ کی کاروائی کے دوران ریلن نے خود کشی کر لی جبکہ کیس ریلن پر نہیں مورٹنسن پر تھا۔

اٹارنی جنرل کی تحقیقات شروع ہونے کے بعد این جی او کے بقیہ دو ڈائریکٹرز نے فوری طور پر انہیں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے سے بر طرف کر دیا اور یہ اعلان کیا کہ ہم قانون اور ضابطوں کے مطابق تحقیقات کروائیں گے۔

اس کے فوراً بعد گریگ کے ایک قریبی دوست کو این جی او کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز کر دیا گیا۔ جان کراکر نے بعد ازاں ایک اور مضمون میں تحریر کیا کہ نیا ڈائریکٹر پاکستان اور افغانستان کے بارے میں واجبی معلومات بھی نہیں رکھتا، اس کی ساری زندگی واشنگٹن میں گزری ہے اور وہ حال ہی میں امریکی سینٹ انتخابات میں ہالی وڈ اداکار آرنلڈ شوارزنگر کے میڈیا ایڈوائزر کے طور پر کام کرتا رہا ہے۔

اسکی واحد کوالیفیکیشن گریگ کا قریبی دوست ہونا ہے۔ جان کراکر کا یہ بھی کہنا تھا کہ نئے ڈائریکٹر نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی یہ اعلان کیاکہ شفاف تحقیقات کروائی جائیں گی مگر وہ عملی طور پر پریس اور تفتیشی افسران سے کمپنی کے ریکارڈز کو چھپاتے رہے کہ گریگ کی مالی بد عنوانیاں بے نقاب نہ ہوں۔ یہ بھی یاد رہے کہ گریگ کو معطلی کے دورانیہ میں بھی این جی او کے فنڈز سے تنخواہ ملتی رہی۔

مقدمہ کے لیگل اخراجات اور تنظیمی عطیات

عطیات دینے والوں پر مزید ظلم یہ ہوا کہ این جی او نے گریگ کو قانون سے بچانے کے لئے امریکا کی مہنگی ترین چار قانونی فرمز کی خدمات حاصل کیں۔ ان میں سے ایک فرم ایک گھنٹے کے گیارہ سو ڈالر یعنی پاکستانی ایک لاکھ روپے گھنٹہ سے زائد وصول کرتی رہی۔  جان کراکر کی تحقیق کے مطابق دسمبر2010 سے لے کر دسمبر2011 تک، تنظیم نے اٹارنی فیس میں 17 لاکھ امریکی ڈالر یعنی17 کروڑ پاکستانی روپے گریگ کو قانون سے بچانے کے لئے خرچ کئے۔ کراکر 2012ء کے قانونی اخراجات کنفرم نہ کر سکا۔

ہتک عزت کا دعویٰ نہیں کیا گیا

امریکی قوانین کے مطابق اگر کسی فرد پر کوئی جھوٹا الزام لگایا جائے جس سے اس کی عزت پر حرف آئے یا اسے مالی نقصان ہو تو وہ عدالت میں ہتک عزت کا دعویٰ کرسکتا ہے۔ اس صورت میں امریکی عدالتیں ہرجانے کی صورت میں لاکھوں اور کبھی کبھی کروڑوں ڈالر متاثرہ فرد کو دلواتی ہیں۔ یہ بات یاد رہے کہ گریگ نے دو ملین ڈالر کے قریب وکلاء  کی فیسیں دینے کے باوجود امریکی چینل سی بی ایس، امریکن فلانتھروپی انسٹی ٹویٹ( اے پی آئی) اور جان کراکر کے خلاف ہتک عزت کا کوئی دعویٰ نہیں کیا۔ اس کا عملاً مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ان الزامات کا اعتراف کر لیا۔ مونٹانا کے اٹارنی جنرل کی تحقیقات کے مطابق بھی سی بی سی اور جان کراکر کے الزامات کی تصدیق ہوتی تھی بلکہ باقاعدہ قانونی تفتیش سے اس سے بھی بڑی بڑی مالی بد عنوانیاں سامنے آئیں۔

پریس کا کردار

مغربی اخبارات جن میں نیو یارک ٹائمز، نیو یارکر، واشنگٹن پوسٹ، بی بی سی، اور گارڈین جیسے معروف اخبارات شامل ہیں نے اس اسکینڈل کو اپنے صفحات کی زینت بنایا۔ انتہائی تعجب کی بات یہ ہے کہ پاکستانی میڈیاپر، جس کا شمار دنیا کے سرگرم  ترین میڈیا میں ہوتا ہے، اس تمام اسٹوری کے سامنے آنے پر جوں تک نہ رینگی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسامہ بن لادن کے بجائے طالبان نے عالمی ولن کا عہدہ سنبھال لیا تھا۔ سوات میں ایک لڑکی کو کوڑے مارنے کی وڈیو سامنے آئی اور بعد ازاں2012ء میں اس کیس کے عدالت سے باہر حل سے پہلے ملالہ پر حملہ ہوا جسے عالمی شہرت ملی۔

 امریکی عدالتی نظام

اس سارے معاملے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ سب کچھ سامنے آ جانے پر بھی گریگ کو کوئی سزا نہیں ہوئی بلکہ اٹارنی جنرل نے گریگ کو عدالت کے باہر اپنی ہی این جی او سے تصفیہ کی اجازت دے دی اور اسے ایک محض ملین ڈالر سی اے آئی کو واپس کرنے کا حکم دیا گیا جبکہ غیر جانبدار ماہرین کے مطابق گریگ پر کم از کم سات سے تئیس ملین ڈالر کی خرد برد کا الزام تھا اور الزام متعدد غیر جانبدرانہ تحقیقات سے ثابت ہو چکا تھا۔ گریگ نے2012 میں بی بی سی کے مطابق ایک ملین سے آدھی رقم اپنی تنظیم کو یہ کہہ کر واپس کی کے اسکے مالی حالت ایک ساتھ رقم واپسی کی اجازت نہیں دیتے۔

گریگ نوبل پرائز حاصل نہ کر سکا مگر آج بھی سی اے آئی کے معاملات چلا رہا ہے اور مسلسل پاکستان اور افغانستان کے دورے کرتا ہے۔ اس تنظیم کے بورڈز آج بھی ہنزہ اور بلتستان کے علاقوں میں نظر آتے ہیں، اس کی کتابیں آج بھی فروخت ہو رہی ہیں اور بڑی تعداد میں دنیا بھر کی لائبریریوں میں موجود ہیں۔ کچھ عرصہ قبل راقم کو کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ایک بک اسٹور کے فیس بک پیج پر ’تھری کپس آف ٹی‘ نامی کتاب کا اشتہار دوسری دو کتابوں کے ساتھ نظر آیا جن کی کل قیمت 1200 پاکستانی روپے وصول کی جا رہی تھی۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کتاب گریگ کی تصویرکشی انسانی حقوق کے ایک چیمپئن کے طور پر کرتی ہے۔ اس کی ویب سائٹ مقامی بچوں کے ساتھ اس کی متاثر کن تصویروں کے ساتھ آج بھی عطیات کی اپیل کرتی ہے اور اس تنظیم کی اشتہاری مہم انٹرنیٹ کی سپانسرڈ سائٹس پر شدو مد کے ساتھ جاری ہے۔ اور یہ بات یقین سے کی جا سکتی ہے کہ آج بھی وہ لاکھوں ڈالر کے عطیات جمع کر رہا ہو گا لیکن کیا یہ عطیات ان مصارف پر خرچ ہو رہے ہیں یہ معلوم کرنا پاکستانی اداروں کا بھی فرض ہے۔

اب یہ اسکینڈل امریکی عوام کے ذہنوں سے محو ہوچکا ہے۔ لیکن جان کراکر نے مزید تحقیقات کے لئے پاکستانی آڈٹ فرم ایچ بی ایل اعجاز تبسم سے رابطہ کر کے مزید کچھ شواہد بھی پیش کیے۔ جان کراکر کی تحقیق کے مطابق پاک فوج کا ایک ریٹائرڈ افسر بھی جنرل پرویزمشرف دور میں گریگ کی مالی بد عنوانیوں میں اس کا حصہ دار رہا۔ گریگ کی کتاب میں جنرل پرویزمشرف کے ہیلی پیڈ پر اس کی کتاب لکھنے والے مصنف ڈیوڈ اولیور ریلن کی تصویر موجود ہے۔ ایک این جی او چلانے والے کو پاکستانی صدر کے ہیلی پیڈ تک رسائی کیسے ممکن ہوئی؟ یہ بات بھی کم معنی خیز نہیں۔ امریکی عدالت نے اس سارے قانونی عمل کے دوران پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا یا نہیں ہمیں اس کا علم نہیں ہوسکا لیکن میرے علم میں ہے کہ گریگ کے پاکستانی دوست اس اسکینڈل سے واقف نہیں۔

اس تمام قصے سے ایک بات اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی این جی او کو فنڈ دینے والوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ محض عطیات مانگنے والوں کی متاثر کن تقریروں اور دعوئوں پر یقین نہ کریں بلکہ اپنے طور پر بھی تحقیقات کریں۔ اس سارے معاملے میں چند اداروں کا کردار بہت معنی خیز ہے۔ اس میں امریکی عدالت، پاکستانی این جی اوز کو لائسنس دینے کے ذمہ دار ادارے، نوبل پرائز نامزد کرنے والی کمیٹی کے علاوہ خود پاکستانی میڈیا بھی قابل ذکر ہے۔ یہ بات واضح کر دیں کہ گریگ مورٹنسن سے ان کا موقف جاننے کے لئے چھ ماہ قبل کچھ مشترکہ پاکستانی دوستوں اور دیگرذرائع سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کوئی جواب نہ ملا۔

(نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں جان کراکر کی کتاب Three Cups of Deciet، عالمی میڈیا میں چھپنے والی رپورٹس، امریکن فلانتھروپسٹ ایسوسی ایشن کی رپورٹ، گریگ کی این جی او کی 2014 کی رپورٹ اور ان کی ویب سائٹ سے استفادہ کیا گیا )

The post پاکستان میں غیر ملکی این جی او کے فراڈ کی ہوشربا داستان appeared first on ایکسپریس اردو.

’عیدالفطر‘ رنجشوں کو بُھلاکر متحد ہوجانے کا دن

$
0
0

رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے بعد عیدالفطر کا مبارک دن بھی آ گیا ہے، حقیقی عید تو آج انہیں خوش نصیب لوگوں کی ہے جنھوں نے رمضان المبارک کی رحمت و بخشش اور مغفرت کے مہینے میں دن کو روزے رکھے، رات کو تراویح میں قرآن مجید کو پڑھنے اور سننے کی سعادت حاصل کی۔

سحری و افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ اس کے انوار و برکات کو خوب سمیٹا، اور پھر کتنے خوش نصیب اور حقیقی مبارک باد اور عید کی خوشیوں کے مستحق ہیں وہ لوگ جنھوں نے اس رمضان المبارک میں روزے رکھنے کے ساتھ اعتکاف میں بھی بیٹھے اور شبِ قدر جیسی بخشش و مغفرت کی عظیم رات کو پاکردنیا و آخرت کی کام یابی کو حاصل کرتے ہوئے اپنے آپ کو جنت کا مستحق بنالیا۔

کتنے لوگوں کی آنکھیں آج رمضان المبارک کی جدائی میں نم ہیں کہ وہ رمضان المبارک کا حق ادا نہ کر سکے اور اس مہینے میں بارش کی طرح برسنے والی رحمت و بخشش اور مغفرت کو اپنی غفلت و کوتاہی کی وجہ سے پوری طرح سمیٹ نہ سکے… اور کتنے ہی اس مقدس مہینے کی جدائی میں غمگین ہیں جو نہ پروانۂ مغفرت حاصل کر سکے اور نہ ہی انہیں سچی توبہ کی توفیق نصیب ہوئی۔ نہ جانے اب زندگی میں دوبارہ اس مقدس مہینے کو پانے کی بھی مہلت ملتی ہے کہ نہیں۔

حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے، مفہوم: رمضان المبارک کی آخری رات میں امت محمدیہ ﷺ کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔ صحابہ کرامؓؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کیا یہ شب ’’شبِ قدر‘‘ ہے؟

آپؐ نے فرمایا: نہیں… بل کہ بات یہ ہے کہ عمل کرنے کا اجر اس وقت پورا دے دیا جاتا ہے جب بندہ کام پورا کر دیتا ہے اور آخری شب میں عمل پورا ہو جاتا ہے لہذا بخشش کر دی جاتی ہے… اس رات کو آسمانوں پر ’’لیلۃ الجائزۃ‘‘ یعنی ’’انعام کی رات‘‘ کہا جاتا ہے۔

عید، روزہ داروں کے لیے مالک حقیقی کی طرف سے خاص انعام ہے۔ روزہ، رمضان کی فرض عبادت، اور اسلام کے بنیادی عقائد میں تیسرا رکن ہے۔ اگر کوئی بھی شخص رمضان المبارک کا مہینہ پائے اور بغیر کسی شرعی عذر کے وہ روزے نہ رکھے تو وہ حق تعالیٰ کی جانب سے سزا کا مستوجب ہوگا جس کی تلافی ممکن نہیں۔

کعبؓ بن عجرہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضورؐ خطبہ دینے کے لیے منبر پر چڑھ رہے تھے جب آپؐ نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، پھر دوسرے زینے پر قدم رکھا تو فرمایا: آمین، اور جب تیسرے زینے پر بھی قدم رکھا تب بھی فرمایا: آمین۔

جب آپؐ خطبے سے فارغ ہوگئے تو صحابہ ؓ کرام نے پوچھا: یا رسول اللہ ﷺ! آج منبر پر چڑھتے ہوئے آپؐ نے خلاف معمول تین مرتبہ آمین کہا۔ آپؐ نے فرمایا: جب میں نے پہلے زینے پر قدم رکھا تو جبرائیل ؑ نازل ہوئے اور کہنے لگے کہ اللہ اس شخص کو ہلاک کرے کہ جس نے یہ ماہ مبارک پایا اور اپنی مغفرت کا سامان نہ کیا تو میں نے کہا آمین۔ دوسری آمین کے استفسار میں آپؐ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص جب میرا نام آئے تو وہ درود نہ پڑھے اور تیسری آمین کے جواب میں آپؐ نے فرمایا کہ ہلاک ہو وہ شخص کہ جو اپنے والدین کو بڑھاپے کی عمر میں پائے اور وہ ان سے حسن سلوک ادا نہ کرے۔ مسلمان کے لیے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ ملائکہ کے سردار جبرائیل ؑ بددعا کریں اور امام الانبیاء رحمت اللعالمین اس پر آمین کہیں ایسے بدنصیب پر رب ذوالجلال کو کتنا جلال آتا ہوگا، اب اسے نار جہنم سے کون بچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ دار کو انعام و اکرام سے نوازنے کے لیے اسے عید جیسی نعمت سے سرفراز فرمایا۔

عیدالفطر کے دن عید کی نماز سے قبل صدقۂ فطر ادا کیا جاتا ہے۔ یہ صدقہ آخرت میں اس کی نجات کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہی نہیں بل کہ خدائے بزرگ و برتر اپنے مومن بندوں پر انعام و اکرام کی بارش کرتا ہے۔ تیس روزے رکھنے کے بعد بندہ مومن لاغر و نحیف ہوجاتا ہے مگر پھر یکم شوال کی رات کو آرام کرنے کے لیے نہیں فرمایا، بل کہ عید کی رات میں بھی عبادت میں مصروف رہنے کے لیے کہا گیا ہے۔ عید کی رات ان پانچ راتوں میں سے ایک ہے، جس میں وہ اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے اور ان کی دعاؤں کو سن کر منظور و مقبول کرتا ہے۔ پھر بندۂ مومن صبح اٹھتا ہے۔ اپنے معمولات سے فارغ ہو کر وہ دوگانہ واجب کی ادائی کی خاطر عیدگاہ جاتا ہے۔

جہاں ایک بڑا روح پرور اجتماع ہوتا ہے۔ جہاں دو رکعت نماز با جماعت اور پھر خطبے کی سماعت مومن بندے کو تھکانے یا مزید ابتلاء میں ڈالنے کے لیے نہیں بل کہ یہ اپنے رب کی جانب سے روزے داروں کے لیے عیدی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عیدی کا تصور یہ ہے کہ ایک مسلمان اپنے کسی دوسرے بھائی کو نقدی، کپڑے یا کوئی تحفہ خواہ کسی بھی جنس میں ہو، دیتا ہے۔ مگر مالک حقیقی کی نظر میں ان مادی اشیاء کی کوئی حیثیت نہیں ہے، وہ تو بس اپنے بندے سے خوش ہو کر اسے جنت کی بشارت دیتا ہے۔ اس دن بندۂ مومن سے اس کا یہ مطالبہ کہ وہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرلے پھر صدقۂ فطر ادا کرلے خواہ وہ نقد کی شکل میں ہو یا جنس کی صورت میں، نہا دھو کر نئے کپڑے پہنے اور خوش بو لگا کر وقت سے پہلے شہر کی عیدگاہ میں داخل ہو کر نماز عید ادا کرے۔ یہ سب وہ کیوں کرواتا ہے۔

صرف اس لیے کہ اس دن وہ اپنے نیک بندوں پر بے پناہ عنایات کرنا چاہتا ہے تاکہ ہر سال اس کی ان عنایات کا شدت و بے چینی سے انتظار کیا جائے یہ اس لیے کہ یہ لمحات تو سال بھر میں صرف ایک ہی بار تو آتے ہیں۔ اس کی عنایات و بخشش کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ راستہ بدل کر آنے اور جانے میں بھی اس نے ثواب رکھا ہے۔

روایت میں آیا ہے کہ عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جب عید کی رات آتی ہے تو اسے آسمانوں پر یوم الجائزہ کہا جاتا ہے اور جب صبح نمودار ہوتی ہے تو اللہ اپنے فرشتوں کو ہر شہر اور بستی کی طرف روانہ کردیتا ہے۔ فرشتے زمین پر اتر کر ہر گلی اور موڑ پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور پکارتے ہیں: ’’اے محمدؐ کی امت کے لوگو! نکلو اپنے گھروں سے اور چلو اپنے پروردگار کی طرف جو بہت دینے والا ہے، اس کی پکار سوائے جن و انس کے ہر مخلوق سنتی ہے۔

پھر خدا فرشتوں سے پوچھتا ہے اس مزدور کا صلہ کیا ہے جس نے اپنے مالک کا پورا کام کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس کو اس کی مزدوری پوری دی جائے پھر ارشاد ہوتا ہے اے فرشتو! گواہ رہو جو رمضان کے روزے رکھتے رہے، میں نے ان کی مغفرت کردی۔ پھر خدا اپنے بندوں سے مخاطب ہو کر کہتا ہے، میرے پیارے بندوں کیا مانگتے ہو مانگو، مجھے میری عزت کی قسم جلال کی قسم آج کے عید کے اجتماع میں جو مجھ سے مانگو گے عطا کروں گا۔ میں تمہیں مجرموں کے سامنے ہرگز ذلیل و رسوا نہیں کروں گا، جاؤ اپنے گھروں کو بخشے بخشائے لوٹ جاؤ، تم مجھے راضی کرنے میں لگے رہے میں تم سے راضی ہوگیا۔ فرشتے اس بشارت سے جھوم اٹھتے ہیں۔ (بہ حوالہ:الترغیب، بیہقی، مشکوٰۃ ، جلد اول)

حضرت انسؓ بیان فرماتے ہیں کہ حضورؐ جب مکہ سے مدینہ ہجرت فرما کر آئے تو آپؐ نے دیکھا کہ مدینہ کے لوگ دو مخصوص دنوں میں خوشیاں مناتے ہیں۔ آپؐ نے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں، لوگوں نے بتایا کہ یہ ہمارے تہوار ہیں، ہم دور جاہلیت سے اسے مناتے آرہے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا خدا نے تمہیں ان دونوں کے بدلے زیادہ بہتر دو دن عطا فرمائے ہیں۔ عیدالفطر اور عیدالاضحی۔ (سنن ابوداؤد) رمضان المبارک کی روز و شب کی عبادت سے فارغ ہو کر عیدالفطر کا دن آیا ہے اس دن صدقہ فطر کی ادائی اور پھر دوگانہ نماز کی ادائی ہوتی ہے۔ ان سب اعمال میں رب العزت کی منشا ہمارے شامل حال رہتی ہے۔ یہ صرف اسی ذات باری کی توفیق تھی کہ ان مراحل سے ہم سرخ رو ہوئے ورنہ ہم کس قابل ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنا محاسبہ کرتے رہیں اور اس بات کا بھی اہتمام کریں کہ آئندہ زندگی میں ہم سے کوئی کوتاہی نہ ہو۔ اب رہے وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے رب کو خوش کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا بل کہ نافرمانی کا طوق اپنے گلے میں ڈالے رکھا، ایسے لوگوں کا عید سے کیا واسطہ یہ ان کے لیے عید نہیں بل کہ وعید ہے۔

ہمیں اپنی خوشیوں میں نادار و بے کس مسلمانوں کو بھی ضرور شامل رکھنا چاہیے۔ اس موقع پر ہمیں یہ عہد بھی کرنا چاہیے کہ ہم غیرمنصفانہ معاشی تفریق و تقسیم کے خلاف جدوجہد کریں گے اور ان افراد کی بھی معیار زندگی کو بھی بلند کریں گے جو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

The post ’عیدالفطر‘ رنجشوں کو بُھلاکر متحد ہوجانے کا دن appeared first on ایکسپریس اردو.

ریت کیا ہے؟ ٹھوس، مائع یا گیس؟

$
0
0

ریت، پانی کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا میٹیریل ہے۔ شیشہ اور اس جیسی ان گنت مصنوعات کی تیاری میں ریت یا اس کے اجزائے ترکیبی استعمال ہوتے ہیں۔ حیران کُن امر یہ ہے کہ ایک ایسی شے جسے دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں ہم یہ نہیں جانتے کہ وہ ٹھوس ہے، مایع یا پھر گیس! صدیاں بیت گئیں مگر سائنس داں اب تک یہ تعین نہیں کرسکے کہ ریت مادّے کی تین معروف حالتوں میں سے کس سے تعلق رکھتی ہے۔

ساحل سمندر پر جانے کا اتفاق تو آپ کو یقیناً ہوا ہوگا۔ خاص طور سے اگر آپ کراچی کے شہری ہیں تو پھر سمندر میں غسل سے لطف اندوز ہونے اور ساحل پر چہل قدمی کرنے کے لیے آپ ضرور گئے ہوں گے۔ ساحل پر مٹرگشت کرتے ہوئے آپ کے قدموں تلے دبی ریت ٹھوس کے طور پر عمل کرتی ہے اور آپ کے وزن کو سہارتی ہے۔

اب اگر اسے ریت گھڑی میں ڈال دیا جائے تو یہ اس آلے کے بالائی سے نچلے حصے میں ایک تنگ سوراخ کے ذریعے گرتی رہے گی، بالکل ایسے ہی جیسے کوئی سیال گرتا ہے۔ آپ اگر مٹھی میں ریت بھر کر ہوا میں اچھال دیں تو اس کے ذرات ہر طرف پھیل جائیں گے اور ایک دوسرے سے ٹکرا کر اس طرح عمل کریں گے جیسے یہ گیس ہو۔ ریت کے اسی طرز عمل نے سائنس داں برادری کو اس کی حیثیت کا حتمی طور پر تعین کرنے کے سلسلے میں آج تک مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔

ریت کی حالت کا تعین کرنے کے لیے ماضی میں مختلف ماڈل بنائے جاتے رہے ہیں۔ مختلف ادوار میں مختلف سائنس داں اسے ٹھوس، مایع یا گیس میں کسی کیٹیگری میں شامل کرتے رہے ہیں مگر اس کی ایک حالت پر ہنوز اتفاق نہیں کیا جاسکا۔

اب مشہور زمانہ میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں مکینیکل انجنیئرنگ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کین کیمرن نے ریت کی ماہیت کے تعین سے متعلق نیا ماڈل تشکیل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ریت اس بحث سے ماورا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر ہمیں ذراتی مادّوں کو سمجھنا ہے تو پھر اپنی سوچ کو وسعت دیتے ہوئے ایسے ماڈل تشکیل دینے ہوں گے جو انھیں بہ یک وقت ٹھوس، مایع اور گیس کے طور پر دیکھیں۔

ذراتی مادّے ٹھوس اور گیس، دونوں ہی کے خواص ظاہر کرتے ہیں چناں چہ یہ تعین کرنا مشکل ہے کہ مختلف حالات میں ان کا طرزعمل کیا ہوگا۔ ایک حوالہ جاتی ماڈل اس ضمن میں بے حد معاون ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سے یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ کسی مخصوص صورت حال میں ریت کا طرزعمل کیا ہوگا، لہٰذا مخصوص حالات کے تحت حاصل کردہ ڈیٹا کا اطلاق مختلف مینوفیکچرنگ پروسیسس پر کیا جاسکے گا۔ اگر یہ ڈیٹا عام دست یاب ہوجائے تو پھر ادویہ اور مختلف مصنوعات تیار کرنے والے ادارے، جنھیں ہر بار ذراتی مادّوں سے نمٹنا پڑتا ہے، وہ ایسی مشینیں اور پائپ وغیرہ بناسکیں گے جن میں رکاوٹ نہ آئے اور بہاؤ بھی غیرمتوازن نہ ہو۔

کیمرن کا تیارکردہ ماڈل پہلے سے موجود تمام ماڈلز کی نسبت زیادہ درست اور قابل بھروسا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کیمرن نے ریت کے ذرات کی جسامت پر خصوصی توجہ دی ہے جس کی بنیاد پر ریت کے بہاؤ کی درستی کے ساتھ پیش گوئی کی جاسکتی ہے۔ اس ماڈل سے صنعتوں میں مصنوعات سازی کے عمل میں آسانی پیدا ہوگی۔

The post ریت کیا ہے؟ ٹھوس، مائع یا گیس؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سائی بورگ کی تخلیق قریب آگئی

$
0
0

ٹرمینیٹر سمیت ہالی وڈ کی کئی فلموں میں ایسی مخلوق پیش کی گئی تھی جو بہ یک وقت انسان اور مشین تھی۔ اس مخلوق کا بنیادی ڈھانچا فولاد ، تاروں اور مختلف آلات سے بنا ہوا تھا جب کہ اوپر انسانی جلد تھی۔

جلد کے اوپر اور اس کے اندر خون سے بھری رگیں اسی طرح تھیں جیسی عام انسانوں کی ہوتی ہیں۔ بہ ظاہر یہ مخلوق بالکل انسان معلوم ہوتی تھی۔ ٹرمینیٹر کے علاوہ ’’سائی بورگ‘‘ نامی فلم میں بھی ایسے ہی کردار شامل تھے۔ انسان اور مشینی پُرزوں پر مشتمل اس مخلوق کو اصطلاحاً ’’سائی بورگ‘‘ ہی کہا جاتا ہے۔

سائی بورگ کے تصور کو حقیقت کا رُوپ دینے کے لیے سائنس داں برادری برسوں سے تجربات میں مصروف ہے۔ تاہم اس ضمن میں اہم پیش رفت حال ہی میں جاپانی سائنس دانوں کی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس پیش رفت سے ’ سُپرہیومن سائی بورگ‘ کی تخلیق کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔

سپرہیومن سائی بورگ انسان نما ایک ایسی مخلوق ہوگی جس کے جسم میں انسانی اعضا اور مشینی کُل پُرزے ایک دوسرے سے مربوط اور ہم آہنگ ہوں گے اور اسی طرح کام کریں گے جیسے ہمارے جسم کے تمام اعضا کرتے ہیں۔

سپرہیومن سائی بورگ کی تخلیق کی جانب جاپانی سائنس دانوں کی اہم پیش رفت یہ ہے کہ وہ عضلاتی ریشوں اور روبوٹ ڈھانچے کے درمیان ربط قائم کرنے اور انھیں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنے میں کام یاب ہوگئے ہیں۔ ماضی میں ایسی تمام کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں یا پھر آہنی اور گوشت پوست کے عضلات کے درمیان عارضی تعلق قائم ہوپایا تھا، تاہم تازہ تجربے میں یہ تعلق مختصر سے طویل المدت ربط میں بدل دیا گیا۔

قبل ازیں کیے گئے تجربات کے لیے عضلات جانوروں سے حاصل کیے جاتے تھے۔ ٹوکیویونی ورسٹی کے انسٹیٹیوٹ برائے صنعتی تحقیق سے وابستہ پروفیسر یوآ موریموتو اور ان کی ٹیم نے نئی اپروچ اختیار کی۔ انھوں نے جانوروں سے عضلات حاصل کرنے کے بجائے نئے سرے سے عضلات اُگائے۔ ان کی یہ کوشش بارآور ثابت ہوئی اور وہ حسب منشا نتیجہ حاصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

پروفیسر یوآ کے مطابق قبل ازیں کیے گئے تجربات کے دوران سب سے بڑی مشکل یہ پیش آتی رہی کہ وقت گزرنے کے ساتھ عضلات کمزور ہوکر سُکڑ جاتے تھے۔ سابقہ تجربات کی ناکامی کی کلیدی وجہ یہی تھی۔ نئی اپروچ سے اس کا سدباب ہوگیا۔ خود اُگائے گئے عضلات یا پٹھے زیادہ پائے دار اور مضبوط ثابت ہوئے اور تجربے کی کام یابی کی بنیاد بنے۔

عضلات اُگانے کے لیے محققین نے چوہوں سے حاصل کردہ خلیات خصوصی شیٹوں پر رکھے اور پھر یہ شیٹیں آہنی ڈھانچے پر منڈھ دی گئیں۔ دس ایام میں خلیے نموپاکر پٹھوں کی شکل اختیار کرنے لگ گئے تھے۔ عضلات کی مجموعی طوالت آٹھ ملی میٹر تھی اور یہ دس نیوٹن کی قوت کے ساتھ پھیلنے اور سکڑنے لگے تھے۔ عضلات ایک ہفتے سے زائد عرصے تک فعال اور اپنی اصل شکل میں رہے۔ یہ عرصہ سابقہ تجربات کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تھا۔

محققین نے ان عضلات کے دو جوڑے تیار کیے تھے جنھیں روبوٹ میں بہ یک وقت لگایا گیا تھا مگر یہ مخالف سمتوں میں حرکت پذیر ہوتے تھے۔ یعنی ایک پھیلتا تھا تو دوسرا سکڑتا تھا۔ ہمارے جسموں میں بھی عضلات اسی طرح حرکت کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب ہم اپنے بازو کو سیدھا کرتے یا موڑتے ہیں تو اس حرکت کے دوران کچھ عضلات پھیلتے اور کچھ سکڑتے ہیں۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کام یابی نہایت اہم ہے مگر اس کے بڑے پیمانے پر اطلاق کے لیے مزید دس برس درکار ہوں گے۔

The post سائی بورگ کی تخلیق قریب آگئی appeared first on ایکسپریس اردو.


جہاں گشت؛ ایک سرد رات کو گھر چھوڑ دیا

$
0
0

(عبداللطیف ابوشامل ایک الگ ہی آدمی ہیں۔ ایک ایسا آدمی جس کی زندگی صحافت کے بھیڑبَھڑکے سے تصوف کے گوشۂ تنہائی تک پھیلی ہوئی ہے۔ بہ طور صحافی انھوں نے اپنے ضمیر کا سچ لکھنے کی پاداش میں زنداں کی راتیں جھیلیں تو راہ سلوک پر چلتے ہوئے قبرستانوں اور جنگلوں میں بسیرا کیے رہے۔ صحافت اور عملی زندگی میں آنے سے بہت پہلے وہ زندگی کے بہت قریب آچکے تھے، اتنے قریب کہ زندگی نے ان پر اپنے کتنے ہی روپ اور رنگ آشکار کردیے۔ یہ آگاہی یوں ہی ہاتھ نہیں آئی، اس کے لیے انھوں نے لڑکپن کی نرم ونازک عمر میں آسائش سے بھرا گھر چھوڑا اور سڑکوں گلیوں کے ہوگئے۔ یوں تو ان کی زندگی کے تجربات اور مشاہدات ان کی تصانیف ’’سو ہے وہ بھی آدمی (سچی آپ بیتیاں) 2002ء‘‘،’’ستارے زمین کے (سچی آپ بیتیاں)2005ء‘‘،’’دل درگاہ (مضامین) 2011ء‘‘ اور ’’تھر عشق کی ہر دم نئی بہار، سفرنامہ 2011ء‘‘ کا حصہ بن چکے ہیں، لیکن ایکسپریس سنڈے میگزین کے لیے وہ اپنے روزوشب کی دل چسپ کہانی تحریر کریں گے، جس کی پہلی قسط قارئین کے لیے پیش ہے)

بندہ بشر اپنے اندر کائنات ہوتا ہے، ایک پوری دنیا بسائے ہوئے۔ روز و شب گزرتے ہیں ماہ و سال بیت جاتے ہیں اور آپ کے چہرے پر اپنے نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ سکون کی تلاش میں سرگرداں انسان ایسی اشیاء میں بھی پناہ ڈھونڈتا ہے جو اسے مار ڈالتی ہیں۔ آپ فلم کیوں دیکھتے ہیں اس لیے ناں کہ کچھ دیر کے لیے اپنی اداسی کو بھولیں حالاں کہ آپ جانتے ہیں یہ سب جھوٹ ہے، اداکاری ہے، ناٹک ہے اور نہ جانے کیا کیا۔

جوزف ہیلر کے شاہ کار افسانے ’’آشوب شہر‘‘ کی کچھ سطریں ہیں:

’’ بڑے شہر میں راستہ گم کر دینا بہت اذیت ناک ہوتا ہے، اور آدمی کا دماغ بھی ایک بڑا شہر ہے، جہاں آدمی بھٹکتا پھرتا ہے۔۔۔۔ ساری زندگی راستہ ڈھونڈتا ہے، ٹھوکریں کھاتا ہے مگر راستہ نہیں ملتا۔ ملتا ہی نہیں۔۔۔۔۔ دنیا ایک بہت بڑا شہر ہے اور ہم سب اس شہر میں بھٹک رہے ہیں، اجنبی ہیں۔‘‘

ہکسلے نے کہا تھا: ’’جدید دنیا اس قدر تیزی سے مادیت کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب مادی آسائشوں کی مٹی آدمی کا چہرہ بھی ڈھانپ لے گی اور جس دن روحانیت کی آخری رمق بھی ختم ہوگئی اس دن کرۂ ارض کے تمام باسی پاگل ہوجائیں گے۔‘‘

میرا جیون بھی بہت سارے رنگوں سے سجی رنگولی ہے، جیسے سندھ کی رلی۔ ساتویں جماعت سے گھر سے بھاگ کر فٹ پاتھ اور سڑکوں کو اپنا مسکن بنانے والے کی زندگی، رات کو قبرستان میں سونے اور دن کو مزدوری کرنے والے کی زندگی، جوانی میں خون تھوک تھوک کر رت جگے اور پھر دل کی دنیا نشتر کی زد میں رہی۔ میں نے بھی رنگا رنگ لوگ دیکھے۔ چور اچکے، عالم فاضل، سفاک قاتل اور ان سفاک قاتلوں میں ولی، ولیوں کے روپ میں لٹیرے، جوگی، جھوٹے نگوں سے سجی انگشتری کی طرح رشتے اور مجبوری کے ناتے۔ اور پھر بہت سارے بابے، میں ان سب میں رہا ہوں، مجھ کمی کمین کو رب نے نجانے کیا کیا سکھایا، نہ جانے کیا کیا عنایت کیا، میں قطعاً اس کے لطف و کرم کا حق دار نہیں تھا۔ بس کرم ہے، میں نے کبھی نہیں سوچا میرے اس کام کا انجام کیا ہوگا۔ دنیا مجھے کیا کہے گی جب ایک دن مقرر ہے جہاں ہر اک حاضر ہوگا اپنے رب کے حضور، تو پھر کیا اندیشۂ ہائے سود و زیاں اور کیسا رسوائی کا ڈر!

ہمارے ایک بابے نے مجھے ایک دن کہا تھا: دیکھو! انسان نے ایک کام بہت اخلاص سے کیا، اپنے رب کو حاضر جانتے ہوئے اور وہ بگڑ گیا تو غم نہیں ہوتا، کہ میں نے تو یہ سوچ کر نہیں کیا تھا اور کوئی کام بدنیتی سے کیا اور وہ اچھے پھل پھول لے آیا تو بندہ سدا پریشان رہتا ہے کہ میں نے تو بہت بدنیتی سے کیا تھا۔ بس یہ ہے اصول زندگی کا، اسی سے چمٹے رہنا چاہے کچھ ہوجائے۔

ٹالسٹائی نے کہا تھا: ’’میں کیا کروں؟ کہاں جاؤں؟ کائنات دائمی اور لامحدود ہے، میں یہاں لمحے بھر کو چمکنے کے بعد بجھنے والا ہوں۔۔۔۔ اور اب میں کچھ کرلوں۔ اِس طرف سے زمین کھود کر اُدھر نکل جاؤں۔۔۔۔ اُس طرف سے کھود کر واپس اِس طرف نکل آؤں، اپنی موجودہ حالت سے نجات ممکن نہیں ہے۔ میرا یہ آغاز اور انجام کہاں، کیوں اور کس کی مرضی سے طے کردیا گیا ہے۔‘‘

سُچّے جوگی، سادھو اور بابے کسی کو اپنے ساتھ چلنے پر مجبور نہیں کرتے، وہ صرف خواہش دریافت کرتے ہیں کسی کو محل بنانے کی خواہش ہو تو کہتے ہیں ’’بنالو‘‘ پھر وہ دوسرا پھیرا لگاتے اور خواہش جاننا چاہتے ہیں، ان کے سامنے کسی بھی خواہش کا اظہار کیا جائے وہ کام یابی اور خوش رہنے کی دعا دیتے اور چلے جاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی ان کا دامن تھام لے اور خود ہی چیخ چیخ کر کہے ، میری ساری خواہشیں پوری ہوگئیں مگر میں اب بھی بے چین ہوں تو وہ اسے سُکون کا راستہ دکھا دیتے ہیں۔

میں نہ جانے آپ سے کیا کہنا چاہتا ہوں، شاید یہ کہ ہم سب صرف خود جینا چاہتے ہیں۔ لیکن کسی کو جینے کا حق دینا نہیں چاہتے، یہی ہے میری زندگی بھر کا تجربہ۔ عزیز ترین رشتے، بدترین استحصالی ثابت ہوتے ہیں۔ جب تک آپ ان کی ہدایات پر عمل کریں آپ بہت اچھے ہوتے ہیں، وہ آپ کے گُن گاتے ہیں اور جیسے ہی وہ اپنا حق، وہ حق جو انھیں ان کا رب دیتا ہے استعمال کرنا چاہیں آپ اُن کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں۔ آپ صرف خود کو دیکھتے ہیں، آپ کے پاس ہر ایک کے لیے اپنے معیارات ہیں۔

آپ کا ہر پل نئی عینک لگا لیتا ہے، کچھ دیر پہلے وہ جو عزیز ترین تھا بدترین بن جاتا ہے۔ اس لیے کہ وہ آپ کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہوتا۔ انسان کٹھ پتلی نہیں ہوتا۔ وہ ایک جیتا جاگتا وجود ہوتا ہے۔ اس کی کچھ خواہشات ہوتی ہیں، جسے آپ ناز نخرے سے پالتے ہیں اسے خود اپنے ہاتھوں دفن کردیتے ہیں۔ زیادہ سفاک یہ رویہ ہوتا ہے کہ آپ خود انھیں مار ڈالتے ہیں اور کوئی ان کی زندگی میں آکر تھوڑے سے رنگ بھر دے اور ان کے اداس چہرے پر مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش کرے، اور وہ کام یاب بھی ہوجائے تو آپ اسے دوبارہ مار ڈالتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے کہ ہمیں تم سے محبت ہے اس لیے یہ کیا ہم نے۔

میں اپنے جرم کو تسلیم کرتا اور اقرار کرتا ہوں میں نے کسی کی بھی ہدایات پر عمل نہیں کیا۔ جو ٹھیک سمجھا وہ کیا، کسی کی پروا نہیں کی۔ پہلے اپنے قصیدے سنے اور پھر گالیاں، لیکن میں باز نہیں آیا، میں باز آ بھی نہیں سکتا، انسانوں کو رب نے جو حقوق دیے ہیں وہ کیسے چھین سکتے ہیں آپ۔ میں انسانوں کے حق میں نغمہ سرا ہوں اور گالیاں کھاتا اور مسکراتا ہوں۔ شاید یہی ہے میرا سب سے بڑا جرم۔ لیکن یہ میں کرتا رہوں گا، چاہے آپ کو کتنا ہی ناگوار ہو۔ آپ ضرور جییں، سدا جییں، لیکن اوروں کو بھی جینے دیں۔

کسی کو بھی اپنی خواہشات کی سولی پر مت چڑھائیں۔ آپ نے کسی کی خوشیاں چھینیں تو آپ بھی خوش نہیں رہیں گے۔ یہ دنیا اسی طرح غموں کے سمندر میں غوطے کھاتی رہے گی اور آخر ڈوب جائے گی۔ اپنے دل کے چراغ کو روشن رکھیے۔ کوئی آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ادھوری سچائی پورے جھوٹ سے زیادہ تباہ کن ہوتی ہے۔ ریت پر قلعے تعمیر نہیں کیے جاسکتے۔ سچ کو چھپایا نہیں جاسکتا، وہ اپنا راستہ خود نکالتا ہے۔ چاہے کچھ دیر کے لیے وہ پسپا ہوجائے لیکن وہ ہمیشہ سرخ رو رہتا ہے۔ آپ اتنی سی بات بھی نہیں جانتے۔

یاد رکھیے یہاں کوئی دائم آباد تھا نہیں رہے گا۔ سب چلے جائیں گے، پھر اک دن جمع کیے جائیں گے۔

کچھ بھی تو نہیں رہے گا یہاں، کچھ بھی تو نہیں، بس نام رہے گا اﷲ کا:

باہر ہیں حدِ فہم سے رندوں کے مقامات

کیا تجھ کو خبر، کون کہاں جُھوم رہا ہے

٭٭٭

ابھی تو شب کا پہلا پہر ہی تھا اور میں سونے کے لباس میں ملبوس کہ انھوں نے پھر مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا۔ اس سے پہلے وہ چھے مرتبہ مجھے نکال چکے تھے اور میں کچھ دیر اِدھر اُدھر گھوم پھر کو واپس آجایا کرتا تھا۔ مگر اب مجھے کوئی طاقت اُکسا رہی تھی کہ مجھے واقعی یہ جگہ چھوڑ دینا چاہیے۔ میرے چاروں طرف سے چھوڑ دو، چھوڑ دو کے نعرے بلند ہورہے تھے، میں نے اپنی پوری طاقت جمع کی اور پھر سر اٹھا کر کہا، میں واقعی چلا جاؤں گا۔ انھوں نے قہر آلود نظروں سے مجھے گھورتے ہوئے خاموشی اختیار کی اور پھر حکم صادر کیا جاؤ ابھی جاؤ، پھر واپس مت آنا، زندگی بہت تلخ ہے اور تم نے ابھی اس کا مزا ہی چکھا ہے درد نہیں۔ جاؤ۔

بہت بڑا مکان تھا، مکان ہی تھا وہ گھر نہیں تھا۔ مکان اور گھر میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مکان میں تنہائی اور گھر میں اپنائیت ہوتی ہے۔ گھر میں تو سب کی سنی جاتی ہے اور مکان میں صرف ایک کی۔ بس اس نے جو کہا حکم ہوتا ہے جس کی تعمیل سب پر فرض ہوتی ہے۔ سرمو انحراف بغاوت کہلاتی ہے اور منحرف باغی۔

میں نے بھی ایک مکان میں آنکھ کھولی تھی جس میں بہت سے ملازم تھے۔ پیسے ہی پیسے، دولت ہی دولت، بندوقیں اور کارتوس، زمینوں کی باتیں، فصلوں کے قصے اور قتل و غارت گری کے منصوبے، اپنی انا کو چہرے پر سجائے ہوئے خان اور ان کے دوست چوہدری، ملک اور سیٹھ۔ مجھے شروع  ہی سے بتایا گیا تھا میں خان ہوں اور میرے ارد گرد سب کیڑے مکوڑے جن کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بس یہ کمّی ہیں اور کمین تو ہیں ہی۔ ان سے ہر طرح کے کام لیے جاسکتے ہیں، ہر طرح کے اور کسی وقت بھی، وہ شب و روز حکم کے غلام ہیں، ایسے غلام جو انکار نہیں جانتے۔ مجھے سب سے پہلی مار اس لیے پڑی تھی کہ میں نے سڑک پر جھاڑو دینے والی شانتی سے آخر بات ہی کیوں کی۔

مجھے اب تک اسکول جانے کا پہلا دن یاد ہے، ایسا اسکول جو صرف شرفاء کے بچوں کے لیے مخصوص تھا۔ صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے ۔جب میں جیپ میں بیٹھا تو ہمارا کمدار مہر میرے ساتھ تھا، جس کے کاندھے پر تھری ناٹ تھری رائفل لٹک رہی تھی اور اس کی کمر سے گولیوں سے سجا ہوا پٹّا لپٹا ہوا تھا۔ اس نے اسکول سے معلوم کیا کہ میری چھٹی کب ہوگی اور پھر وہ یہ کہتے ہوئے کہ چھوٹے خان میں آپ کو لینے آؤںگا اور ہاں اسکول کی عمارت سے باہر مت جانا، کہہ کر چلا گیا۔

کلاس روم میں پہلی بینچ پر مجھے بٹھایا گیا اور پھر ایک ٹیچر اندر داخل ہوئے، نام تھا ان کا اصغر علی، سر پر ٹوپی، سفید کرتا اور کھلا پاجامہ، مجھے وہ بہت اچھے لگے۔ پھر تعارف اور کچھ نہیں، لیکن کتاب زندگی کا پہلا سبق شروع ہوگیا تھا۔

میرے اندر بہت سارے سوالات تھے، جو اب بھی ہیں۔ خدا کیا ہے، کیوں ہے، ہم کیوں ہیں، کیوں آئے ہیں، کیا ضرورت تھی، کچھ لوگ ہی امیر ہیں، سب کیوں نہیں، آسمان کیا ہے، زمین کیا ہے، اس کے اندر کیا ہے، وہ جس نے ہمیں پیدا کیا وہ کہاں ہے، نظر کیوں نہیں آتا اور پھر جیسے جیسے دن گزرتے گئے سوالات شدت اختیار کرتے چلے گئے اور گہرے اور گہرے ہوتے چلے گئے۔ اور ہر پل ان سوالات میں نیا اضافہ ہوتا چلا گیا۔ کچھ چہرے اچھے کیوں لگتے ہیں، ان سے بات کرنے کو کیوں جی چاہتا ہے، لمس کیا ہے، محبت کیا ہے، عشق کیا ہوتا ہے، ہم سب انسان ہیں تو ہمیں الگ کیوں کیا گیا، جس نے مجھے سجدہ کیا تھا اسے ہی مجھ پر مسلط کیوں کردیا گیا۔ میں خلیفہ ہوں تو پھر میرا حکم کیوں نہیں چلتا، میں اتنا بے دست و پا کیوں ہوں اور نہ جانے کیا کیا۔ ہجر کیا ہے، فراق کیا، وصال کیا اور میں سوالات کی گہری دلدل میں اب تک اترتا چلا جارہا ہوں۔

یوں تو محلے میں بہت سی لڑکیاں تھیں لیکن مجھے رضیہ بہت اچھی لگتی تھی۔ عمر میں مجھ سے بڑی۔ وہ بہت مغرور مشہور تھی اس کے ابو بہت بڑے زمیں دار تھے، وہ اکلوتی تھی اور لڑکے اسے دیکھنے کے لیے بے چین رہتے تھے۔ وہ شام کو گھر سے اجرک اوڑھ کر نکلتی۔ نہ جانے کہاں جاتی تھی وہ۔ میں نے اسے کسی سے بات کرتے نہیں دیکھا تھا۔ وہ سر اٹھائے سب کے سامنے سے گزر جاتی تھی بس اور امیر زادے دیکھتے رہ جاتے تھے۔ ایک دن وہ اچانک رکی اور میرے ساتھ آکر بیٹھ گئی۔ کیا سوچتے رہتے ہو تم؟ میں نے کہا تم کون ہوتی ہو پوچھنے والی۔ میں نے سنا ہے تم گھر میں بہت پٹتے ہو۔ تو پھر؟ میں نے کہا۔ باز آجاؤ کہہ کر وہ مسکراتی ہوئی چلی گئی تھی۔

وہ خوب صورت سی ایک مسجد تھی جہاں میں نماز پڑھنے جاتا تھا، اس لیے نہیں کہ مجھے خدا سے بہت محبت تھی اس لیے کہ اسکول والوں نے ایک چھوٹی سی ڈائری دی تھی جس میں نمازوں کے خانے بنے ہوئے تھے اور نماز پڑھنے کے بعد امام صاحب اس پر دست خط کرتے تھے اور وہ روزانہ چیک کی جاتی تھی۔ جس نے نماز نہ پڑھی ہو اسے سزا ملتی تھی۔ میں نے جعلی دست خط کرنا وہیں سے سیکھا۔ امام صاحب کے دست خطوں کی خوب مشق کرلی تھی اور خود ہی دست خط کردیتا تھا۔

ایک دن مسجد گیا تو پتا چلا کہ امام صاحب بدل گئے ہیں اور نئے امام صاحب آگئے ہیں۔ میں نے نماز ادا کی اور ڈائری ان کے سامنے رکھ دی۔ انھوں نے ایک نظر اسے دیکھا اور مسکرا کر ہنسنے لگے۔ اچھا تو نمازوں کا بھی حساب کتاب رکھتے ہو۔ میں نے کہا میں نہیں اسکول والے۔ ان کا نام حافظ محمد طاہر درویش تھا اور پھر میری ان کی دوستی ہوگئی۔ میں نے ان سے پوچھا حافظ صاحب، یہ اﷲ جی کون ہے؟ مجھے کیا معلوم اﷲ جی سے پوچھو کہ وہ کون ہے مجھ سے تو میرے متعلق پوچھو۔ وہ کہاں ملتے ہیں کہ میں جاکر اس سے پوچھوں کہ جی آپ اپنا تعارف کرائیں آپ کون ہیں ؟ تب انھوں نے مجھے بتایا تھا کہ وہ مخلوق میں رہتے ہیں کسی نہ کسی دن تمہیں ضرور مل جائیں گے۔ تب سے آج تک میں اسی کی تلاش میں ہوں۔

میری زندگی کا سب سے بڑا دن وہ تھا جب میں نے امی اور ابو کی باتیں سن لی تھیں۔ میں نے تمہیں پہلے ہی منع کیا تھا اس لڑکے کو مت گود لو، لیکن تم باز نہیں آئیں۔ اب نتیجہ دیکھا تم نے، جس سے منع کرو وہ وہی کرتا ہے۔ میں یہ سنتے ہی کمرے میں داخل ہوا میں کون ہوں؟ مجھے بتائیے۔ جواب تو نہیں ملا بس پٹائی ضرور ہوگئی۔ میں رات بھر جاگتا رہا کہ میں کون ہوں۔ میں نے سات ماؤں کا دودھ پیا ہے، کیوں۔ سب مجھ سے بہت پیار کرتی ہیں، لیکن حقیقت کوئی نہیں بتاتا، آخر کیوں۔ پھر ریلوے اسٹیشن تھا اور میں بینچ پر بیٹھا مسافروں کو تکتا رہتا۔ گھر واپس آتا تو پٹتا، آخر تم کس کو تلاش کرتے ہو؟ میرے سوالات کا جواب اﷲ جی کے پاس ہے بس میں اسے ہی تلاش کرتا ہوں۔

آخر وہ رات بھی آگئی جب ان کا حکم تھا میں چلا جاؤں۔ زندگی کا درد چکھوں۔ دسمبر کی سرد رات کو میں نے حکم کی تعمیل میں باہر قدم رکھنے سے پہلے امی ابو کو دیکھا اور اپنے رب کا نام لے کر باہر قدم رکھ دیا۔ امی کی آواز آئی رکو اور پھر میں نے سنا، جانے دو پہلے بھی تو آگیا تھا، خود آجائے گا۔ بہت تلخ ہے زندگی۔

لیکن اب میں واپس آنے کے لیے نہیں بس جانے کے لیے نکلا تھا۔ سڑک پر سناٹا تھا اور ہوا اپنے نیزے بھالے لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑی تھی۔ چند قدم چلنے کے بعد میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا، میری جیب میں پچاس پیسے کا ایک سکہ تھا۔ میں بچے سے ایک دم بوڑھا ہوگیا تھا۔ سڑک کے اختتام پر وہ مجھے کالی چادر اوڑھے ہوئے ملی۔ تم جارہے ہو ناں، یہی انجام ہونا تھا۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ کر کہا، آج سے تم ہمارے ہو، جاؤ یہی ہے تسلیم کی راہ اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا وہ مجھ سے بہت دور جاچکی تھی۔

The post جہاں گشت؛ ایک سرد رات کو گھر چھوڑ دیا appeared first on ایکسپریس اردو.

شدید گرمی کو بجلی میں بدلیے

$
0
0

وطن عزیز کے بیشتر علاقوں میں ہر سال اپریل تا ستمبر یعنی چھ سات ماہ اچھی خاصی گرمی پڑتی ہے۔تب سورج آگ برساتا ہے۔شدید گرمی میں اے سی اور پنکھے چلنے سے بجلی کی طلب بھی بڑھ جاتی ہے لہذا ملک کے طول و عرض میں کروڑوں پاکستانیوں کو لوڈشیڈنگ کا عذاب برداشت کرنا پڑتا ہے۔مگر اب جدید ٹکنالوجی کی بدولت لاکھوں پاکستانی قدرتی آفت کو نعمت میں بدل سکتے ہیں۔

یہ حیرت انگیز کمال سولر پینل کے ذریعے دکھانا ممکن ہے۔جب سورج پوری طرح روشن ہو اور دھوپ تپنے لگے تو یہ سولر پینل بہترین طریقے سے کام کرتے اور زیادہ بجلی بناتے ہیں۔ان جادوئی پینلوں کی وجہ سے ہزارہا پاکستانیوں کی زندگیاں مثبت انداز میں تبدیل ہو چکیں۔امام دینو کی مثال ہی لیجیے۔

شہر قائد کراچی سے جانبِ مشرق روانہ ہوں تو ترانوے میل سفر کرنے کے بعد سجاول شہر آجاتا ہے۔ آٹھ لاکھ آبادی والا یہ شہر ایک زرعی مرکز ہے۔ اسی شہر میں امام دینو عرصہ دراز سے چائے کی دکان چلا رہا ہے۔ پانچ سال قبل اس نے اپنی دکان میں 24 انچ کا ٹی وی لگایا اور اس پر فلمیں چلانے لگا۔ اس باعث دکان میں گاہکوں کی آمدورفت بڑھ گئی اور یوں آمدن میں بھی اضافہ ہوا۔امام دینو کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔

موسم گرما آتے ہی مگر اس کا کاروبار تقریباً ٹھپ ہو جاتا ہے۔ وجہ یہ کہ گرمی بڑھتے ہی وطن عزیز کے دیگر دیہی علاقوں کی طرح سجاول پر بھی لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہوجاتا اور بجلی کئی گھنٹے غائب رہتی۔ بجلی نہ ہونے سے جب ٹی وی بند رہتا تو گاہکوں کی تعداد بھی قدرتاً کم ہوجاتی۔پھر صرف وہی گاہک آتے جنھیں چائے کی طلب ہوتی۔ایک سال امام دینو نے جنریٹر پر ٹی وی چلایا مگر اس کے تیل کا خرچ اتنا زیادہ تھا کہ کوئی خاص بچت نہ ہوئی۔ پھر پچھلے سال ایک واقف کار نے اسے شمسی یا سولر پینلوں کی بابت بتایا۔ اسے معلوم ہوا کہ ایک مقامی کمپنی 500 واٹ کے سولر پینل کرائے پر دیتی ہے جو سورج کی دھوپ کے ذریعے بجلی بناتے ہیں۔

سجاول ہمارے پیارے دیس کے ایسے خطّے میں واقع ہے جہاں سال کے بیشتر مہینوں میں سورج آب و تاب سے چمکتا ہے۔ اسی لیے اس خطے میں سولر پینل عمدگی سے کام کرتے ہیں۔ اس ایجاد کے بارے میں ساری معلومات حاصل کرکے امام دینو نے بھی 500 واٹ کے سولر پینل اپنی دکان کی چھت پر لگوالیے۔ وہ ماہانہ ڈھائی ہزار روپے اس کا کرایہ ادا کرنے لگا۔یہ جدت اس کے لیے مبارک ثابت ہوئی۔ان سولر پینلوں سے بنی بجلی سخت ترین لوڈشیڈنگ میں بھی ٹی وی کو رواں دواں رکھنے لگی۔یوں اس کی دکان میں گاہکوں کا ہجوم رہتا۔

اب یہ حال ہے کہ امام دینو سرکاری بجلی استعمال نہیں کرتا۔ سولر پینلوں سے بنی بجلی ہی دکان میں موجود برقی اشیا چلاتی ہے۔ اس نے دکان میں موبائل فون چارجنگ کا بندوبست بھی کررکھا ہے تاکہ گاہکوں کی نظروں میں اپنے کاروبار کو مزید پُرکشش بناسکے۔ سولر پینلوں کا ماہانہ ڈھائی ہزار روپے کرایہ نکال کر اسے اچھی خاصی بچت ہوجاتی ہے۔ سولر پینل اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوئے۔ ان کی بدولت امام دینو کو نہ صرف لوڈشیڈنگ سے نجات مل گئی اور کاروبار بجلی کی عدم موجودگی میں خطرے سے دوچار نہیں ہوا۔

آج دیہی پاکستان میں سولر پینل امام دینو کی طرح دیگر ہزارہا ہم وطنوں کی زندگیوں میں انقلاب رہے ہیں۔ وطن عزیز میں تقریباً 65 تا 70 فیصد لوگ دیہات اور قصبات میں مقیم ہیں۔ بدقسمتی سے ان کی آدھی تعداد بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔ گویا جب بھی سورج غروب ہو، تو تقریباً سات کروڑ پاکستانیوں کے گھر اندھیرے میں ڈوب جاتے ہیں۔ مگر اب سولر پینلوں کی بدولت رات کی تاریکی میں بھی ان کے گھروں اور کام کی جگہوں پر اجالا پھیلنے لگا ہے۔ یہ اجالا ہمارے دیہی باشندوں کی زندگی میں کئی مثبت تبدیلیاں لارہا ہے۔

مثال کے طور پر اب دیہات کے بچے رات کو بھی پڑھ سکتے ہیں۔ مرد و خواتین اس قابل ہوگئے کہ رات کو بھی اپنے مختلف کام کرسکیں۔ یوں انہیں کام کرنے کی خاطر زیادہ وقت مل گیا۔ایک بڑی تبدیلی یہ آئی کہ اب دیہی پاکستان کے دور دراز علاقوں میں بھی بجلی سے چل کر زیرزمین پانی نکالنے والے پمپ لگ چکے۔یوں ان علاقوں کے مکین اس قابل ہو گئے کہ بارش کا انتظار کیے بغیر کھیتی باڑی کر سکیں۔

مزید براں دیہی پاکستان کے ایسے علاوں میں شمسی چولہا بھی مقبول ہو رہا ہے جہاں سورج بکثرت چمکتا ہے۔یہ چولہا جلانے کے لیے نہ مٹی کے تیل کی ضرورت پڑتی ہے اور نہ لکڑیاں کاٹنے کی مشقت ،بس چولہا دھوپ میں رکھیے اور اس پہ دیگچی رکھ دیجیے۔سالن آہستہ آہستہ پکتا رہے گا۔شمسی چولہے پہ سالن دیر سے پکتا ہے مگر دیہات کی سست رفتار زندگی کے لیے یہ موزوں و مفید آلہ ہے۔

بجلی بنانے کی نئی ٹیکنالوجی

آج دنیا بھر میں سائنس داں ہوا، سورج اور دیگر قدرتی وسائل توانائی کی مدد سے بجلی بنانے پر تحقیق و تجربات کررہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو ان قدرتی وسائل سے بھی وافر طور پر نوازا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان ہوا اور شمسی توانائی کی بدولت ’’پچاس، پچاس ہزار‘‘ میگاواٹ بجلی بناسکتا ہے۔ گویا پاکستان اپنے قدرتی وسائل… پانی، ہوا اور سورج کی مدد سے بجلی بنانے لگے تو اللہ کے فضل وکرم سے فاضل بجلی پڑوسی ممالک کو فروخت کرسکتا ہے۔ چین اور بھارت، دونوں میں بجلی کی طلب بڑھ رہی ہے۔برطانیہ کی ایک ویب سائٹ، فائنڈ کام (www.finder.com) سے منسلک ماہرین دنیا بھر میں جاری مختلف سرگرمیوں کے اعدادو شمار جمع کرتے ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک دلچسپ تحقیق سامنے آئی۔ انہوں نے دنیا کے 147 ممالک پر تحقیق کرکے یہ دیکھا کر ہر ملک میں کتنے رقبے پر سولر پینل لگا دیئے جائیں، تو اس ملک میں بجلی کی طلب پوری ہوجائے گی۔

اس تحقیق سے افشا ہوا کہ اگر پاکستان کے 4380 مربع کلو میٹر رقبے پر سولر پینل لگ جائیں، تو وہ تیس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ گویا تب کسی اور ذریعے سے بجلی بنانے کی ضرورت ہی ہی نہیں رہے گی۔ پاکستان کا رقبہ 818,913 مربع کلو میٹر ہے۔ 4380 مربع کلو میٹر اس کا صرف 0.6 فیصد حصہ بنتا ہے۔ یعنی حکومت پاکستان چاہے تو اس رقبے پر سولر پینل لگا کر باآسانی ملکی ضروریات کے لیے درکار بجلی بناسکتی ہے۔اس کے علاوہ یہ بجلی بہرحال رکازی ایندھن(Fossil fuel ) سے چلتے بجلی گھروں سے سستی ہوگی۔ہمارا پڑوسی چین سولر پینلوں کے ذریعے دنیا میں سب سے زیادہ بجلی پیدا کرتا ہے۔ اس کی مقدار 53 ہزار میگاواٹ ہے۔ چین کے بعد بھارت کا نمبر ہے جہاں 20 ہزار میگاواٹ بجلی سولر پینل بنانے لگے ہیں۔ بھارتی حکومت کی خواہش ہے کہ وہ 2022ء تک سولر پینلوں کے ذریعے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی بنانے لگے۔مگر پاکستان اس شعبے میں خاصا پیچھے ہے۔نیز افسوس کے پاکستانی حکمران متبادل ذرائع توانائی اپنانے کی خاطر کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کر رہے۔

بھارت کے حکمرانوں میں لاکھ خرابیاں ہوں، مگر وہ ملکی ترقی و خوشحالی کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔مثلاً ریاست کرناٹک میں ’’پوگادا سولر پارک‘‘ تعمیر کررہا ہے۔ تکمیل کے بعد یہ دنیا میں سب سے بڑا سولر پارک بن جائے گا۔ اس پارک میں لگے ہزاروں سولر پینل دو ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کریں گے۔ یہ پارک تیرہ ہزار ایکڑ رقبے (53 مربع کلو میٹر) پر پھیلا ہوا ہے۔

یاد رہے،سولر پینل میں سولر سیل نصب ہوتے ہیں۔ یہی سیل سورج کی روشنی سے بجلی بناتے ہیں۔ یہ بجلی پھر براہ راست الیکٹرونکس اشیا چلاتی ہے یا اسے بیٹری میں مقید کیا جاتا ہے۔ ماہرین مسلسل تحقیق و تجربے کررہے ہیں تاکہ نہ صرف معیاری سولر پینل وجود میں آئیں بلکہ وہ سستے بھی ہوجائیں۔

پچھلے پانچ سال کے دوران سولر پینل اچھے خاصے سستے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے دیہات میں ان کی مانگ بڑھ رہی ہے جو اکثر لوڈشیڈنگ کا نشانہ بنتے ہیں۔ وہاں دن میں سولہ تا اٹھارہ گھنٹے بجلی غائب رہتی ہے۔ ان علاقوں میں مصروف کار بعض کمپنیاں ایک تا تین ہزار روپے میں سولر پینل کرائے پر بھی دینے لگی ہیں۔

یہ 50 تا 500 واٹ بجلی بنانے والے چھوٹے سولر پینل ہیں۔ ان سے پیدا کردہ بجلی چھ بلب اور دو پنکھے چلاسکتی ہے۔ بعض دیہاتی ٹی وی چلانے کی خاطر سولر پینل لگواتے ہیں۔ غرض وطن عزیز کے دیہی علاقوں میں سولر پینل لگانے کا رجحان بڑھ رہا ہے اور یہ ایک خوش آئند امر ہے۔ بجلی کی مدد سے کاروبار پھلتے پھولتے ہیں اور یوں دیہاتیوں کو غربت کے پنجوں سے آزاد ہونے کا موقع ملتا ہے۔

بجلی کا بحران

اس برس بھی موسم گرما آتے ہی وطن عزیز کے کئی علاقوں میں لوڈشیڈنگ شروع ہوگئی۔ بجلی کی عدم دستیابی سے نہ صرف شدید گرمی انسان پر منفی انداز میں اثر انداز ہوتی ہے بلکہ روزمرہ کام کام کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔ افسوس کہ حکومت وقت پچھلے پانچ برس میں لوڈشیڈنگ پر پوری طرح قابو نہیں پاسکی۔

حکومت وقت کا دعویٰ ہے کہ لوڈشیڈنگ ان علاقوں میں ہورہی ہے جہاں بجلی چوری ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ بجلی چوروں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا؟ ان چند مجرموں کی وجہ سے پورے علاقے کے لوگوں کی بجلی بند کردینا کس قسم کا انصاف ہے؟ بجلی چور چاہے کتنا ہی طاقتور اور بااثر ہو، اگر اسے ایک بار سخت سزا مل جائے، تو وہ آئندہ بجلی چوری کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ مزید براں اس طرح دوسرے بجلی چور بھی عبرت پکڑ کر اپنے گناہ سے تائب ہوں گے۔اعدادو شمار کی رو سے پاکستان 29573 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکتا ہے مگر بجلی گھروں کی مرمت اور ڈیموں میں پانی کی کمی کے باعث بجلی کی پیداوار 17 سے 19 ہزار میگاواٹ کے درمیان ہے۔ موسم گرما میں بجلی کی طلب 21 ہزار میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ چنانچہ دو سے چار ہزار میگاواٹ کی کمی بذریعہ لوڈشیڈنگ پوری ہوتی ہے۔

یہ درست ہے کہ پچھلی حکومتوں کے ادوار کی نسبت موجودہ حکومت کے دور میں لوڈشیڈنگ کم ہوئی ہے مگر افسوس کہ وہ بھی بجلی کی پیداوار سے متعلق ماحول دشمن سرکاری پالیسی سے چھٹکارا نہیں پاسکی۔آج بھی وطن عزیز میں 64 تا 67 فیصد بجلی ان بجلی گھروں میں بنتی ہے جہاں رکازی ایندھن مثلاً گیس،فرنس آئل وغیرہ استعمال ہوتا ہے۔ یہ رکازی ایندھن ماحولیات کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ خصوصاً ان کی وجہ سے ہوا بتدریج زہریلی ہورہی ہے۔ آلودہ ماحول میں رہنے کے باعث لاکھوں پاکستانی نت نئی بیماریوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

یہ رکازی ایندھن پھر مہنگا پڑتا ہے۔ اسے خریدنے پر پاکستان کا قیمتی زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے۔ دوسری طرف حکومت پاکستان رکازی ایندھن استعمال کرنے والے نجی بجلی گھروں کو بروقت ادائیگی نہیں کررہی۔ چناں چہ اب حکومت کو انہیں تقریباً 935 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ اس ہوش ربا عدد کے بڑھنے کی رفتار خاصی تیز ہے۔رکازی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھروں میں بنی بجلی مہنگی بھی ہوتی ہے۔

ماہرین کے مطابق ایسی بجلی کے ہر ایک کلوواٹ پر 12 سے 15 سینٹ خرچ اٹھتا ہے۔ یہ ہوا اور شمسی توانائی سے پیدا کردہ بجلی سے بھی زیادہ مہنگی بجلی ہے۔ اس کے باوجود طاقتور لابیوں کی وجہ سے حکومت پاکستان رکازی ایندھن سے چلنے والے بجلی گھر بند نہیں کرسکی۔ حالانکہ پوری دنیا میں ایسے بجلی گھر ختم کیے جارہے ہیں۔

وطن عزیز میں بجلی کا صرف 30 فیصد حصہ ڈیم پیدا کرتے ہیں۔ اس بجلی کے ہر ایک کلو واٹ پر صرف دو سینٹ لاگت آتی ہے۔ افسوس کہ ہماری حکومتیں پچھلے پچاس سال میں قابل ذکر تعداد میں نئے ڈیم تعمیر نہیں کرسکیں۔ اگر مناسب تعداد میں ڈیم بن جاتے تو پاکستانیوں کو سستی بجلی میسر آتی۔ یوں سستا مال بناکر پاکستان اپنی برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ کر لیتا۔ ماہرین کے مطابق پاکستان ڈیموں سے کم از کم 41 ہزار میگاواٹ بجلی بناسکتا ہے۔ یہ بجلی آلودگی سے پاک ہوتی ہے۔ یوں پاکستانیوں کو صاف ستھری ہوا میسر آتی ہے۔

آزادی کے بعد بھارت میں 4300 ہزار ڈیم بن چکے۔ یہ ڈیم بجلی بنانے کے علاوہ پانی ذخیرہ کرنے میں بھی کام آتے ہیں۔ پاکستان میں پانی تیزی سے کم ہورہا ہے۔ جبکہ ہر سال دریاؤں کا بہت سا پانی سمندر میں جاگرتا ہے۔ یہ پانی محفوظ کرنے کے لیے بھی ہمیں نئے ڈیم بنانے ہوں گے تاکہ مستقبل میں پانی کی کمی جنم نہ لے۔

The post شدید گرمی کو بجلی میں بدلیے appeared first on ایکسپریس اردو.

انتخابی نشانات کی دنیا؛ کون کون سے نشان ہیں میدان میں

$
0
0

ملک میں انتخابی جنگ کا طبل بج چکا ہے، ہر طرف الیکشن کا ہی تذکرہ ہے اور سیاسی جماعتوں نے اس حوالے سے اپنی سرگرمیوں کا آغاز کردیا ہے۔

سیاسی کارکنوں کو متحرک ہونے، ووٹروں سے رابطے بڑھانے کی ہدایات دی جاچکی ہیں اور خود سیاسی راہ نما بھی اپنی اپنی پارٹی کے منشور کو لے کر عوام کے پاس جارہے ہیں تاکہ 25جولائی کو اُن کے انتخابی نشان پر ہی لوگ مہر لگائیں اور انتخابات میں فتح اُن کی ہی پارٹی کو ملے۔ وفاقی سطح پر نگراں وزیراعظم نے حلف اٹھالیا ہے اور چاروں صوبوں میں نگراں وزرائے اعلیٰ حلف اٹھا کر ذمے داریاں سنبھال چکے ہیں۔

یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اس وقت ملک بھر میں لوگوں کو ’’انتخابی بخار‘‘ (Election Fever) چڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ الیکشن میں سیاسی جماعتوں اور اُن کے امیدواروں کی جتنی اہمیت ہوتی ہے اُس سے زیادہ اہمیت ہر پارٹی کے انتخابی نشان کو حاصل ہوتی ہے، کیوںکہ انتخابات بغیر انتخابی نشان کے لڑے ہی نہیں جاسکتے۔ زیرنظر مضمون میں پاکستان میں انتخابی نشانات کے حوالے سے کچھ معلومات قارئین تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کی روز بروز بڑھتی تعداد کو دیکھتے ہوئے درجنوں اشیاء کو انتخابی نشان کے طور پر منتخب کیا ہے اور ان نشانات کی الاٹمنٹ ہوئی ہے، ان میں گھریلو استعمال کی اشیا، جانور، پرندے، گاڑیاں، ملبوسات، پھول، سبزیاں، درخت، اوزار، ہتھیار، قدرتی مناظر سب کچھ شامل ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے انگریزی کے چند حروف تہجی کو بھی الیکشن کمیشن نے انتخابی نشان بنایا ہے۔

اب یہ الیکشن کمیشن کا انتخاب ہے یا سیاسی پارٹیوں کی خواہش، مگر انگریزی حروف تہجی بھی انتخابی نشان کے طور پر شامل ہیں۔ ہوسکتا ہے آئندہ برسوں میں اردو حروف تہجی بھی انتخابی نشان کے طور پر متعارف کرادیے جائیں۔

آئیے انتخابی نشانات کی کچھ کیٹیگریز کو دیکھتے ہیں:

٭مشہور اور جانے پہچانے نشانات: شیر، بَلّا، پتنگ، کتاب، سائیکل، تیر، لالٹین، موم بتی ایسے انتخابی نشان ہیں جو ملک کی معروف سیاسی جماعتوں کی پہچان بن چکے ہیں۔ مسلم لیگ ن کا ’’شیر‘‘ ، تحریک انصاف کا ’’بَلّا‘‘، ایم کیو ایم پاکستان کی ’’پتنگ‘‘، پیپلزپارٹی کا ’’تیر‘‘، متحدہ مجلس عمل کی ’’کتاب‘‘کا سب کو علم ہے۔ ق لیگ کا پہلے انتخابی نشان ’’سائیکل ‘‘ تھا لیکن اس بار وہ ’’ٹریکٹر‘‘ کے نشان پر الیکشن لڑ رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو ’’ترازو‘‘، آل پاکستان مسلم لیگ کو ’’عقاب‘‘ جب کہ پاک سرزمین پارٹی کو ’’ڈولفن‘‘ ملی ہے۔

٭انگریزی حروف تہجی: A,B,G,K , P,S

٭جانور: جن جانوروں کو انتخابی نشان بنایا گیا ہے اُن میں شیر، ریچھ، شہد کی مکھی، تتلی، اونٹ، ہرن، گائے، ڈولفن، فاختہ، بطخ، عقاب، فلیمنگو (سارس)، طوطا، شترمرغ، بیل، کینگرو، ہاتھی، گھوڑا، مرغی، زرافہ، بکری، مچھلی، مور، خرگوش، بھیڑ، بارہ سنگھا، چڑیا، مکڑی، ابابیل، پینگوئن ، مگرمچھ، کچھوا، ہُدہُد شامل ہیں۔

٭ذرائع نقل و حمل: ذرائع نقل و حمل میں ہوائی جہاز، سائیکل، کشتی، بس، کار، جنگی طیارہ، گدھاگاڑی، ہیلی کاپٹر، بیل گاڑی، رکشا، موٹرسائیکل، تانگہ، روڈرولر، اسکوٹر، تین پہیوں والی سائیکل، ٹریکٹر، پک اپ، جیپ، ٹرک، آئل ٹینکر انتخابی نشان کے طور پر متعارف کرائے گئے ہیں۔

٭ہتھیار: توپ، بندوق، کمان، تیر، غلیل، میزائل ، 2 تلواریں، تلوار بھی انتخابی نشان ہے، اب انتخابی سرگرمیوں، جلسے اور جلوسوں میں ان نشانات کی حامل پارٹیوں کے ارکان ان ہتھیاروں کی نقول سجائے نظر آئیں گے۔

٭پھل، سبزیاں، پھول ، درخت:بینگن، سیب، گندم کا خوشہ، ناریل، سورج مکھی کا پھول، انگور کا خوشہ، گلاب، درخت، کھجور کا درخت، تربوز، گوبھی کا پھول، پائن ایپل (انناس)، کنول کا پھول، سبز مرچ، مالٹا، جڑیں، پیاز۔

٭موبائل فون سے متعلق:آج کل موبائل فون ہر ہاتھ میں نظر آتا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن موبائل فون، موبائل چارجر، موبائل سِم کو بہ طور انتخابی نشان سامنے لایا ہے۔

٭ قدرتی مناظر:  آبشار، فوارہ، سورج

٭برتن:گھریلو استعمال کی اشیا میں برتنوں کو خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ شاید اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن نے بہت سے برتنوں کو انتخابی نشان بنایا ہے۔ ان میں بالٹی، بوتل، پیالہ، پرچ پیالی، کانٹا، فرائی پین، چمچا، جگ، مٹکا، پریشر کُکر، چائے دانی، تھرماس، گلاس، کیتلی، لنچ باکس، مگ، توا شامل ہیں۔

٭ملبوسات:ملبوسات کی کیٹیگری میں ٹی شرٹ، ٹوپی، چترالی ٹوپی اوورکوٹ موجود ہیں۔

مذکورہ نشانات کے علاوہ بھی انتخابی نشانات کی ایک طویل فہرست ہے۔ تعمیراتی سامان اور اوزار بھی اس میں شامل ہیں۔ انتخابی نشانات کی طویل فہرست میں ہمیں ایئرکولر، ایئرکنڈیشنر، کمپیوٹر، پانسہ، انرجی سیور، غبارے، پنکھا، گیس سلینڈر، ہار، ہارمونیم، دستی بیگ، استری اسٹینڈ، ہینگر، آئس کریم، لیٹر بکس، سیڑھی، پینسل، قلم، پرنٹر، شاور، دَف، تندور، تختی، بیٹری، لٹو، فتح کا نشان، ٹرالی، خیمہ، سلیٹ، پڑھائی والی میز، اسٹریٹ لائٹ، بیلچہ، انگوٹھی، انسانی آنکھ، اولمپک ٹارچ، اخبار، لاؤڈ اسپیکر، تمغہ، مینار پاکستان، مائیک، بادشاہ، انسانی ہاتھ، حقہ، آتشدان، گراموفون، بجلی کا کھمبا، ہیٹر، گھڑیال، کیلکولیٹر،آڈیو کیسٹ، کلہاڑا اور ایسے ہی بہت سے نشانات بھی نظر آتے ہیں۔

یوں یہ کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہوگا کہ الیکشن کمیشن نے ہم سب کے روزمرہ استعمال میں آنے والی تقریباً ہر اہم شے کو انتخابی نشان کے طور پر رکھا ہے اور ان میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ کچھ نئے نشانات کو شامل کیا جاتا ہے تو بعض کو ختم بھی کیا جاتا ہے۔ عام انتخابات کے علاوہ بھی الیکشن کمیشن میں اس حوالے سے کام جاری رہتا ہے کیوںکہ انتخابی نشانات بلدیاتی انتخابات کے موقع پر بھی استعمال ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس تقریباً 300 سے زاید سیاسی جماعتوں نے رجسٹرڈ کرایا ہوا ہے، یہ اور بات ہے کہ ان میں سے شاید 50 ہی عملی طور پر الیکشن کی موقع پر فعال نظر آتی ہیں ۔ بہت سی پارٹیاں رجسٹریشن کی شرائط جن میں ایک معینہ تعداد میں کارکنوں کے شناختی کارڈ کی فراہمی ہے ، اسے پورا نہیں کرپاتیں جس کی وجہ سے انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت نہیں ملتی۔ ملک میں ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے سیاسی پارٹیاں بنائی ہیں مگر وہ ’’تانگہ پارٹی ‘‘ کی اصطلاح پر پوری اترتی ہیں، یعنی ان کے پاس اتنے ہی لوگ ہوتے ہیں جو ایک تانگے میں آجائیں۔

الیکشن کمیشن نے تقریباً 103 جماعتوں کو الیکشن لڑنے کا اہل قرار دیا ہے۔ کوئی جماعت الیکشن لڑے یا نہ لڑے، اس کو انتخابی نشان کی ضرورت ہوتی ہے۔ بہت سی جماعتیں اپنی پسند کا نشان حاصل کرنے کے لیے بھی الیکشن کمیشن کو درخواست دیتی ہیں اور کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی انتخابی نشان پر2 یا اس سے زاید پارٹیوں کی نظر ہوتی ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ یہ نشان ان کو ملے، ایسی صورت میں فیصلہ الیکشن کمیشن کرتا ہے اور فیصلے سے قبل تمام فریقین کا موقف بھی سنا جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے کسی بھی فیصلے کے خلاف اپیل کی جاسکتی ہے۔

جیسے جیسے 25 جولائی قریب آتی جائے گی، سیاسی سرگرمیاں، جلسے، جلوس، ریلیاں ، کارنر میٹگنز کا سلسلہ بھی تیز ہوتا جائے گا اور یہ سرگرمیاں انتخابی مہم ختم ہونے کی ڈیڈ لائن تک عروج پر پہنچی ہوئی ہوں گیا۔ ان تمام انتخابی مراحل میں انتخابی نشانات بھی اپنی اہمیت منوائیں گے، ہر پارٹی کے کارکن اور راہ نما اپنا انتخابی نشان لے کر عوام کے پاس جائیں گے، سیاسی راہ نما اپنی تقاریر میں بھی کہیں نہ کہیں اپنے انتخابی نشان کا تذکرہ کرکے مخالفین کو للکاریں گے۔ مثال کے طور پر ن لیگ کا ہر امیدوار کہے گا کہ ’’شیر سب سے طاقت ور ہے، وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا‘‘،’’ایم کیو ایم کا نعرہ ہوگا کہ ’’پتنگ نہیں کٹے گی، اڑتی ہی رہے گی‘‘۔ تحریک انصاف کے کھلاڑی ’’بَلّا‘‘ لے کر مخالفین کی سیاسی دُھنائی کے نعرے لگائیں گے تو پیپلز پارٹی کے جیالوں کی رائے میں ہمارا ’’تیر‘‘ نشانے پر لگے گا اور ہم ہی فتح یاب ہوں گے۔ متحدہ مجلس عمل والے ’’کتاب‘‘ کے ذریعے اقتدار حاصل کرکے اپنے منشور کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا دعویٰ کریں گے۔

دیگر نمایاں جماعتوں میں سنی اتحادکونسل کو ’’گھوڑا‘‘، مسلم لیگ (جونیجو) کو ’’بس‘‘، پاکستان عوامی راج پارٹی کو ’’جھاڑو‘‘، بلوچستان عوامی پارٹی کو ’’گائے‘‘، تحریک لبیک کو ’’کرین‘‘، جے یوآئی ف کو ’’قلم‘‘، عوامی نیشنل پارٹی کو ’’لالٹین‘‘، پاکستان عوامی تحریک کو ’’موٹرسائیکل ‘‘، مسلم لیگ ضیا کو ’’ہیلی کاپٹر‘‘، جمہوری وطن پارٹی کو ’’پہیا‘‘، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو ’’درخت‘‘، قومی وطن پارٹی کو ’’چراغ‘‘، سنی تحریک کو ’’گھڑی‘‘، عوامی ورکرز پارٹی کو ’’بلب‘‘، تحریک جوانان پاکستان کو ’’لیپ ٹاپ‘‘، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کو ’’اسٹار‘‘، پیرپگارا کی مسلم لیگ فنکشنل کو ’’گلاب‘‘، بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) کو ’’اونٹ‘‘، پاکستان سنی تحریک کو ’’ٹیبل لیمپ‘‘، عوامی مسلم لیگ کو ’’قلم دوات‘‘ تحریک انصاف گلالئی کو ’’ریکٹ‘‘ کا نشان دیا گیا ہے۔

انتخابی نشانات اور الیکشن کے موقع پر ایک اہم بات یہ ہے کہ اس سیزن میں بہت سے لوگوں کا کاروبار بھی چمک جاتا ہے۔ پلاسٹک، کپڑے، لوہے، لکڑی اور دیگر دھاتوں سے مختلف اشیا جو انتخابی نشانات میں شامل ہیں، تیار کی جاتی ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن اور حامی خریدتے ہیں، کہیں لوگ جانوروں کے مجسمے اور تصاویر لے کر جلسے جلوسوں میں شرکت کریں گے تو کہیں گھریلو استعمال کی اشیاء لوگوں کے ہاتھوں میں نظر آئیں گی۔ کسی جگہ پر الیکٹرانکس کے آلات لوگوں کے ہاتھوں میں ہوںگے تو کہیں آلات حرب والے نشان لے کر لوگ گھوم رہے ہوں گے، کسی جگہ پر گاڑیاں انتخابی نشان کی صورت میں رواں دواں ہوں گی۔

گھروں میں سیاسی پارٹیوں کے دفاتر، محلوں اور سڑکوں پر جگہ جگہ پارٹی پرچموں کے ساتھ انتخابی نشان بھی نظر آئیں گے۔ کہیں ان نشانات کو مجسمے کی صورت میں رکھا جائے گا، کہیں آویزاں کیا جائے گا تو مختلف علاقوں میں نمایاں جگہ پر لٹکایا جائے گا تاہم عوام کو دور سے ہی پتہ چل جائے گا کہ اس علاقے میں کون آگے ہے۔

اچھا بھائیو! اردو میں ’’تھالی کا بینگن‘‘ ایک محاورہ ہے، یہ اصطلاح ایسے لوگوںکے لیے استعمال ہو تی ہے جن کی اپنی کوئی رائے یا فیصلہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جس طرف جھکاؤ ہو اس طرف چلے جاتے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے ’’بینگن‘‘ کو بھی انتخابی نشان بنایا ہے۔ بہت سے لوگوں کی کوشش ہوگی کہ وہ یہ نشان نہ لیں۔ اسی طرح ’’لوٹا ‘‘ بھی ایسی چیز ہے جس کو بطور انتخابی نشان لینا کوئی نہیں چاہتا۔

انتخابی نشانات کے حوالے سے یہ مختصر تحریر لوگوں کو تھوڑی بہت معلومات دینے کے لیے ہے، جب کاغذات نامزدگی کی اسکروٹنی کا معاملہ آئے گا تو بہت سے کاغذات اور امیدوار الیکشن میں حصہ لینے کے اہل نہیں ہوں گے، یوں بہت سے انتخابی نشانات بھی انتخابی معرکہ لڑنے سے قبل ہی فائلوں میں دبے رہیں گے لیکن جو میدان میں ہوں گے ان کے حوالے سے پارٹیوں کا جوش و خروش عروج پر ہی نظر آئے گا، ہر سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان کو اپنی فتح کا نشان سمجھ کر ہی الیکشن میں اترے گی۔

The post انتخابی نشانات کی دنیا؛ کون کون سے نشان ہیں میدان میں appeared first on ایکسپریس اردو.

خدیجہ صدیقی کا پُر پیچ کیس

$
0
0

یہ تین مئی 2016ء کی دوپہر تھی جب بائیس سالہ خدیجہ صدیقی کار میں سوار ڈرائیور کے ساتھ لاہور کی مشہور شاہراہ ڈیوس روڈ پہنچی۔ وہ اپنی چھ سالہ بہن صوفیہ کو سکول سے چھٹی کے بعد لینے آئی تھی۔

صوفیہ کو کار میں سوار کرکے خدیجہ خود بھی بیٹھنے لگی تھی کہ اچانک اس پر آفت آپڑی۔ایک موٹر سائیکل قریب آکر رکی اور اس پر سوار ہیلمٹ پہنے نوجوان اتر کر خدیجہ پر چاقو سے وار کرنے لگا۔ اس نے خدیجہ کے گلے اور گردن پر چاقو پے در پے وارکیے۔ دیکھتے ہی دیکھتے لڑکی کا گلا خون سے رنگین ہوگیا۔

اس دوران ڈرائیور حملہ آور کے قریب پہنچ چکا تھا۔ کھینچا تانی میں ہیلمٹ اترگیا۔ حملہ آور ایک خوبصورت نوجوان تھا۔ وہ چاقو لہراتا جائے وقوعہ سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ نزدیک ہی ایک ہوٹل واقع ہے۔ اس پر لگے سی سی ٹی وی کیمرے نے سارا واقعہ ریکارڈ کرلیا۔مزید برآں ایک سو سے زائد چلتے لوگوں نے بھی اس قاتلانہ حملے کا مشاہدہ کیا۔خدیجہ کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا۔ خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اس کی حالت تشویشناک تھی۔ تاہم ڈاکٹروں کی بروقت کارروائی اور مہارت کے باعث جان جانے کا خطرہ ٹل گیا۔ خدیجہ کو پچاس سے زائد ٹانکے لگے۔

3 مئی کی شام ہی خدیجہ کے والدین نے نامعلوم حملہ آور کے خلاف سول لائنز پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرادی۔ 8 مئی کو خدیجہ نے حملہ آور کو شناخت کرلیا…وہ شاہ حسین تھا، اس کا ہم جماعت!دونوں طویل عرصے سے ایک دوسرے کو جانتے تھے۔آپس میں دوستی تھی اور کچھ کچھ پسندیدگی کا جذبہ بھی۔خدیجہ نے سترہ سال کی عمر میں شاہ حسین کو خط لکھ کر اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تھی۔وہ پھر اکٹھے وکالت کی تعلیم دینے والے ایک کالج میں پڑھنے لگے۔ خدیجہ کا کہنا ہے کہ رفتہ رفتہ شاہ حسین اس پر حاوی ہونے کی کوشش کرنے لگا۔

اسی لیے خدیجہ نے اس سے بات چیت بند کردی۔ شاہ حسین کو اس امر پہ تائو آگیا۔ خدیجہ کے بقول یہ غصہ پھر اس پر قاتلانہ حملے کی صورت ظاہر ہوا۔شاہ حسین سپریم کورٹ کے ایک معروف وکیل کا بیٹا ہے۔

یہ وکیل بڑی قومی سیاسی جماعت کا رہنما بھی ہے۔ اس نے 16 مئی کو سیشن کورٹ سے بیٹے کی گرفتاری قبل از وقت ضمانت کروالی۔ خدیجہ کے اہل خانہ نے بھی وکیل کی خدمات حاصل کیں جس نے سیشن کورٹ میں ضمانت منسوخ کرنے کی درخواست دائر کردی۔خدیجہ اور اس کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ فوراً ہی مخالف پارٹی انہیں بدنام کرنے کی مہم چلانے لگی۔ اس دوران خدیجہ کی کردار کشی کی گئی جبکہ اس کے وکیل کو ڈرایا دھمکایا گیا کہ وہ یہ کیس نہ لڑے۔ چناںچہ  وکیل خوفزدہ ہوکر پیچھے ہٹ گیا۔ تاہم خدیجہ کے اہل خانہ بھی مالی طور پر مضبوط ہیں۔ نیز انہیں اپنے خاندان کے دیگر افراد کی بھی حمایت حاصل تھی۔ اس لیے فیصلہ کیا گیا کہ یہ کیس ضرور لڑا جائے۔

خدیجہ کی والدہ یہ کیس نہیں لڑنا چاہتی تھیں۔ انہیں ڈر تھا کہ یوں گھرانے کی عزت پر حرف آسکتا ہے۔ مگر خدیجہ کا کہنا تھا کہ وہ انصاف و قانون کی تعلیم پارہی ہے۔ اگر وہی انصاف پانے کے لیے جدوجہد نہیں کرے گی تو معاشرے میں ظالموں کو حوصلہ ملے گا اور وہ پہلے سے زیادہ شیر ہوجائیں گے۔ مزید برآں بقول خدیجہ کے وہ یہ کیس لڑ کر دکھانا چاہتی تھی کہ کمزور و بے بس سمجھے جانے والی پاکستانی عورت بھی اتنی مضبوط اور توانا ہے کہ اپنے حق کی خاطر اثرو رسوخ رکھنے والے طاقتور لوگوں سے ٹکر لے سکے۔

مئی 2016ء میں خدیجہ اور اس کے اہل خانہ نے کیس لڑنے کا فیصلہ کیا، تو پچھلے دو سال کے دوران اس مقدمے میں کئی ڈرامائی موڑ آچکے ہیں۔ یہ مقدمہ بہرحال عیاں کرتا ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام خامیاں رکھتا ہے۔ خاص طور پر کسی مقدمے کا جلد فیصلہ نہ ہونا اس عدالتی نظام کی اہمیت کو زک پہنچاتا ہے۔سیشن کورٹ میں خدیجہ صدیقی کا مقدمہ کچھوے کی چال سے رینگنے لگا۔ کبھی ملزم کا وکیل نہ آتا، کبھی سیشن جج غیر حاضر ہوتے۔ اس دوران ایک سیشن جج کا تبادلہ بھی ہوگیا۔ جب بھی ملزم کا وکیل عدالت آتا، تو اس کے ساتھ تیس چالیس وکلا ہوتے۔ وہ خدیجہ، اس کے اہل خانہ اور وکیل کے خلاف نعرے لگاتے اور دھمکیاں بھی دیتے۔

آخر 23 جولائی 2016ء کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج، نسیم احمد ورک نے ملزم شاہ حسین کی ضمانت قبل از گرفتاری منسوخ کردی اور پولیس کو حکم دیا کہ اسے گرفتار کرلیا جائے۔ شاہ حسین عدالت میں موجود تھا اور پولیس بھی، مگر وکلاء اسے اپنے گھیرے میں لیے باہر لے گئے۔ باہر جاکر شاہ حسین فرار ہوگیا۔اب ملزم کے وکلاء نے ضمانت قبل از گرفتاری کرانے کی خاطر لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔ 26 ستمبر 2016ء کو لاہور ہائی کورٹ نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کا فیصلہ برقرار رکھا۔ اسی وقت شاہ حسین کو گرفتار کرلیا گیا۔

ملزم کے وکلا نے ضمانت کرانے کے لیے پھر سیشن کورٹ سے رجوع کیا۔ 30 نومبر کو سیشن کورٹ نے شاہ حسین کی درخواست ضمانت منظور کرلی۔ سیشن جج نے قرار دیا کہ خدیجہ حملہ آور کو اچھی طرح جانتی تھی۔ لہٰذا اس نے اسے شناخت کرنے میں پانچ دن کیوں لگا دیئے؟ اسی بنا پر ملزم کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے ضمانت دے دی گئی۔خدیجہ نے اس فیصلے کو ’’انصاف کا قتل‘‘ قرار دیا۔ وہ پھر میڈیا کے پاس پہنچ گئی اور ٹی وی چینلوں اور اخبارات کے ذریعے اپنے مقدمے کی داستان اہل وطن تک پہنچائی۔ سوشل میڈیا میں بھی اس کیس کا چرچا ہوا۔ آخر پنجاب اسمبلی میں بعض خواتین ارکان نے مطالبہ کیا کہ خدیجہ صدیقی کو انصاف دلایا جائے۔

مئی 2017ء میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، منصور علی شاہ نے جوڈیشنل مجسٹریٹ، مبشر اعوان کو حکم دیا کہ وہ خدیجہ صدیقی کا کیس دیکھیں اور اسے دو ماہ میں مکمل کرلیں۔یوں مئی 2017ء سے جوڈیشنل کورٹ میں خدیجہ کے مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع ہوئی۔ یاد رہے، صوبہ پنجاب کے عدالتی نظام میں جوڈیشنل کورٹ سب سے نچلی عدالت ہے۔ اس کا جج جوڈیشنل مجسٹریٹ کہلاتا ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ سات سال قید کی سزا سنانے کا مجاز ہے۔

ملزم کے وکلاء نے جوڈیشنل مجسٹریٹ سے درخواست کی کہ کیس میں اقدام قتل کی دفعہ ختم کردی جائے۔تاہم مجسٹریٹ نے یہ دفعہ ختم کرنے سے انکار کر دیا۔ مقدمہ چلتا رہا۔ 29 جولائی2017ء کے دن مبشر اعوان نے ملزم شاہ حسین کو مجرم قرار دے کر اسے سات سال قید کی سزا سنا دی۔اس فیصلے پر خدیجہ نے اظہار خوشی کیا اور اسے انصاف اور خواتین کے حقوق کی خاطر لڑنے والوں کی جیت قرار دیا۔ فیصلے کے خلاف شاہ حسین سیشن کورٹ پہنچ گیا۔ اب اگلی عدالت میں مقدمہ چلنے لگا۔

اس دوران جائے وقوعہ سے ملنے والے ملزم کے ہیلمٹ کے ڈی این اے رپورٹ سامنے آ گئی تھی۔رپورٹ کے مطابق ہیلمٹ پر لگے خون کے دھبے شاہ حسین کے خون سے مل گئے۔ نیز ہیلمٹ پر لگے بال بھی اسی کے تھے۔ ڈی این اے رپورٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے ثبوت سامنے رکھ کر ہی جوڈیشنل مجسٹریٹ نے ملزم کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔

مارچ 2018ء میں سیشن کورٹ نے مقدمے کا فیصلہ سنایا اور ملزم کی سزا کم کر کے پانچ سال کر دی۔ اس فیصلے کے خلاف دونوں فریق لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئے۔ خدیجہ ملزم کو زیادہ سے زیادہ برسوں کی سزا دلوانا چاہتی تھی۔ جبکہ شاہ حسین اپنی سزا ختم کرانا چاہتا تھا۔ اب لاہور ہائی کورٹ میں کیس کا آغاز ہوا۔4 جون کو لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس سردار احمد نعیم نے ملزم کے خلاف کیس میں ’’جھول‘‘ عیاں کرتے ہوئے شاہ حسین کو بری کردیا ۔اس پر خدیجہ نے ٹویٹ کیا:’’انا للہ وانا الیہ راجعون۔انصاف ذبح ہوا۔‘‘ جج صاحب کے مطابق کیس میں مندرجہ ذیل جھول ہیں جن کی بنا پر ملزم کی بریّت کا فیصلہ دینا پڑا:

٭…لڑکی پر دن دیہاڑے حملہ ہوا مگر اس کے وکلا ایک بھی آزاد گواہ پیش نہیں کر سکے۔(یعنی اجنبی گواہ جو جائے وقوعہ پر موجود ہو)

٭…لڑکی نے تسلیم کیا کہ وہ ملزم کو جانتی تھی۔ کالج اور اس کے باہر بھی دونوں کی تصاویر موجود ہیں۔

٭…لڑکی کا کہنا ہے کہ حملے کے بعد وہ بے ہوش ہو گئی تھی مگر اس کے وکلا یہ بات ثابت نہیں کر سکے۔

٭…جرح کے دوران ہسپتال کے میڈیکل افسر نے تسیلم کیا کہ جب خدیجہ لائی گئی‘ تو اس نے لڑکی سے سوالات کیے۔ لڑکی نے ان کے درست جواب دیئے۔ (گویا لڑکی تب ہوش میں تھی)۔ اس نے پھر ملزم کو دریافت کرنے میں چھ دن کیوں لگا دیئے؟

٭…میڈیکل افسر نے بتایا کہ لڑکی کی گردن و گلے پر 11 زخم تھے۔ مگر دوران مقدمہ خدیجہ نے 23 زخم لگنے کا دعوی کیا (جو غلط بات ہے۔)

٭…ملزم کا چاقو پانچ ماہ بعد دریافت ہوا۔ شک ہے ،کیا یہ وہی ہتھیار ہے جس سے حملہ کیا گیا؟

٭…لڑکی کا کہنا ہے کہ ملزم اسے پریشان اور دق کرتا تھا۔ لیکن خدیجہ ہی نے شاہ حسین کو چار صفحات پر مشتمل خط لکھا تھا اور کہا کہ مجھ سے شادی کر لو۔

٭…گواہوں کے بیانات سے یہ تو عیاں ہے کہ حملہ ہوا۔ مگر ان کے بیانات میں تضاد ہے‘ اس لیے حملے کا حقیقی ماجرا سامنے نہیں آ سکا۔

٭…یہ ممکن ہے کہ تفتیشی پولیس افسر نے کیس خراب کر دیا کیونکہ وہ ملزم کے خون آلود کپڑے اور کار کے میٹ حاصل نہیں کر سکا جو اہم ثبوت ہو سکتے تھے۔

جب لاہور ہائی کورٹ نے ملزم کو بری کیا‘ تو فیصلے کے خلاف میڈیا خصوصاً سوشل میڈیا میں طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ فیصلے پر تنقید کی جانے لگی۔ اگلے دن چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار نے سوموٹو لیتے ہوئے کیس کی تفصیل طلب کر لی۔دس جون کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس نے یہ کیس جسٹس آصف سعید کھوسہ کی عدالت میں منتقل کر دیا اور اب مقدمہ وہاں سنا جائے گا۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے ملزم کے والد،  تنویر ہاشمی سے استفسار کیا کہ انہوں نے لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن سے سپریم کورٹ کے خلاف قرار داد کیوں اور کیسے منظور کرائی؟ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس نے غیر ضروری طور پر سوموٹو نوٹس لیا اور یہ ایک غیر قانونی اقدام تھا۔ چیف جسٹس نے تنویر ہاشمی سے سوال کیا:’’اگر کسی وکیل کی بیٹی کے ساتھ یونہی معاملہ پیش آئے‘ تو کیا تب بھی آپ  کا رویّہ ایسا ہی ہو گا؟‘‘

اسی موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ حسین نے دعویٰ کیا کہ خدیجہ صدیقی اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔ لیکن جب اس نے انکار کیا‘ تو خدیجہ نے اسے جھوٹے مقدمے میں ملوث کر دیا۔خدیجہ نے شاہ حسین کے دعوی کو اپنے خلاف کردار کشی کی مہم کا حصہ قرار دیا۔

خدیجہ صدیقی کا مقدمہ اب سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ تاہم یہ کچھ حقائق ضرور عیاں کر گیا۔ مثال کے طور پر یہ کہ ہمارا عدالتی نظام بہت پیچیدہ ہے اور اسی لیے سائل کو انصاف ملتے ہوئے کئی برس لگ جاتے ہیں ۔ اس تاخیر سے خصوصاً بااثر اور گناہ گار پارٹی کو موقع ملتا ہے کہ وہ شہادتیں مٹانے‘ گواہوں کو ترغیب و تحریض یا دھمکیاں دینے سے کیس خراب کر دے۔ خدیجہ صدیقی کا کہنا ہے کہ اس کے کیس سے یہ امر بھی نمایاں ہوا کہ وکلا ایک مافیا کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو مل جل کر اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ خدیجہ کا دعویٰ ہے کہ گورنر پنجاب اور ایک سیشن جج نے اسے مخالف پارٹی سے مفاہمت کرنے کا مشورہ دیا تھا۔

اسلام میں عدل و انصاف

انسانی معاشرے کی اہم ترین بنیادوں میں عدل و انصاف بھی شامل ہے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے پر بہت زور دیا گیا ہے۔ سورہ النسا آیت 135 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ایمان والو! انصاف پر مضبوطی سے قائم رہنے والے بنو۔ اگر تمہارے والدین یا رشتے داروں کے خلاف گواہی دینا پڑے تو پیچھے نہ ہٹو۔ ملزم مال دار ہے تب بھی گواہی دو۔ خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ یوں عدل کی راہ سے ہٹ جاؤ گے۔ اگر تم گواہی میں پیچ دار بات کرو گے یا حق سے منہ موڑو گے‘ تو اللہ تعالیٰ تمہاری ان حرکتوں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘

اسلامی تعلیمات کی رو سے مقدمے کے فریقین وکیل کی خدمات حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن وکیل کو چاہیے کہ وہ مظلوم کا مقدمہ لڑے۔ اگر وہ کسی ظالم یا گناہ گار کو قانون سے بچانے کے لیے اس  کی مدد کرتا ہے‘ تو وہ خود بھی معاشرے میں بے انصافی اور ظلم و جبر کو فروغ دینے والا بن جائے گا۔ وہ بھی ظالم اور گناہ گار کہلائے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو۔ گناہ اور ظلم کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ نافرمانوں کو سخت سزا دے گا۔(سورہ المائدہ ۔2)

حضور اکرم ﷺکا یہ ارشاد مبارک بھی ہماری عدالتوں کی دیواروں پر طلائی حروف سے لکھا جانا چاہیے: ’’ ماضی میں اقوام عالم اس لیے بھی تباہ ہوئیں کہ وہ طاقتور کا جرم تو معاف کر دیتی تھیں جبکہ کمزور کو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی سزا دے دیتیں۔‘‘

The post خدیجہ صدیقی کا پُر پیچ کیس appeared first on ایکسپریس اردو.

گلوبل وارمنگ؛ جنگلات کو نگلتی، صحراوں اور خشک سالی میں اضافہ کر رہی ہے

$
0
0

دنیا کی آبادی تقریباً 130سالوں میں ایک ارب سے بڑھ کر آج تقریباً ساڑھے سات ارب ہو چکی ہے۔ اس دوران انسان نے بظا ہر ترقی کی اور دنیا میں کئی نئے شہروں سمیت شہروں کی آبادیوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔

موٹر گاڑیوں کی تعداد میں کارخانوں، فیکٹریوں کی تعداد میں کروڑوں کا اضافہ ہوا، بلند عمارتوں کی تعداد بھی لاکھوں تک بڑھ گئی اور یہ بڑھوتی اب بھی تیزی سے جاری ہے تو دوسری جانب اس ترقی نے ہزاروں سال کے متوازن اور مستحکم ماحول کو عدم توازن کا شکار کردیا ہے۔

جنگلات انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے تیزی سے ختم ہو رہے ہیں تو ساتھ ہی کلائمیٹ چینج اورگلوبل وارمنگ کے ساتھ پوری دنیا میں مختلف ماحولیاتی مسائل کے ساتھ ساتھ خشک سالی کے واقعا ت میں اضا فہ بھی ہوا ہے اور دنیا میں بڑھتی ہوئی حدت اور حرارت سرسبز ز مینوں کو بھی کھاتی جا رہی ہے۔ اس مسئلے کو اجاگر کرنے کے لیے اب گلو بل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کو روکنے کے لیے دنیا بھر میں شعور بیدار کیا جا رہا ہے ، اس مقصد کے لیے عالمی سطح پر جہاں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی ادارے کا م کررہے ہیں وہاںاب پوری دنیا میں یونیورسٹیوں کی سطح پر ماحولیات ،گلوبل وارمنگ اورکلائمیٹ چینج کو بطور مضامین پی ایچ ڈی تک کی سطح تک پڑھا یا جا رہا ہے۔

ہمارے ہاں پاکستان میں بھی اب کئی یونیورسٹیوں میں ان مضامین کو ایم ایس سی، اور ایم ایس تک کی سطح تک تو باقاعد گی کے ساتھ شعبوں کی صورت میں شروع کردیا گیا ہے اور اس کے بعد کچھ اسکالر مزید رسرچ کے لیے پی ایچ ڈی بھی کرنے لگے ہیںکیونکہ آج اس دنیا کو جب گلوبل ویلج کہا جاتا ہے تو واقعی اس کے مسائل بھی اب ایسے ہوچکے ہیں جن سے پوری دنیا کے تمام لوگ یکساں متاثر ہوتے ہیں یا ہوسکتے ہیں۔

یہ مسائل اقتصادی مالیاتی تجارتی اور معاشی بھی ہیں اور سیاسی جغرافیائی ماحولیاتی بھی ہیں اور اس کے لیے اب لازمی ہے کہ پوری دنیا کے تما م لوگ مل کر ان مسائل کو حل کریں اور جو لوگ یہ مسائل پید ا کر رہے ہیں ان کو روکیں اور سب کو یہ بتائیں کہ زمین کی قدر وقیمت حقیقی اور سچی ہے ، اس میں سرمایہ کاری کریں ۔ ہمارے ہاں ہزاروں برسوں سے کہا جاتا ہے کہ زمین پر سرمایہ لگا ئیں یہ کبھی نقصان نہیں دیتی اگرآج کی دنیا کے تناظر میں دیکھیں تو یہ بات انفرادی سرمایہ کاری کے مقابلے میں اجتماعی اعتبار سے کہیں زیادہ اہم اور درست نظر آتی ہے ۔ چین اور امریکہ سمیت دنیا کے ترقی یا فتہ اور ترقی پذیرممالک اپنی سرزمینوں کو خشک سالیوں، فرسودگی اور صحرایت سے بچانے کے لیے اربوں کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

اس وقت خشک سالی، زمین کی فرسودگی اور صحرایت کے لحاظ سے دنیا میں صورتحال یہ ہے کہ دنیا کی کل زمین کا 40 سے41 فیصد رقبہ بارانی یا خشکابہ ہے جس پر دنیا کی کل آبادی میں سے دو ارب انسان آباد ہیں۔ ان بارانی زمینوں کا 10%سے20 فیصد رقبہ اب تک خشک سالی سے متاثر ہو چکا ہے۔ 6 سے12 ملین مربع کلومیٹر زمین صحرایت سے متاثر ہو رہی ہے۔

بارانی علاقوں میں رہنے والی آبادیوں کا 6% انہی صحرائی علاقوں میں رہتا ہے۔ صحرایت کی پیمائش پہلے آسان نہیں تھی لیکن آج ماہرین بہت آسانی سے سیٹ لائٹ کے ذریعے تمام صورتحال کو لمحہ بہ لمحہ معلوم کرلیتے ہیں اور خشک سالی اور صحرایت جیسی قدرتی آفاقت سے بر وقت آگاہ کردیتے ہیں، یوں تو تمام قدرتی آفات ہمارے لیے عذب ِ الٰہی ہیں جیسے زلزلے، سونامی، طوفان، سیلاب، ٹڈی دل، وبائی امراض، لیکن ان سب میں زیادہ نقصان دہ خشک سالی اور صحرایت کو قرار دیا جاتا ہے۔

جہاں تک سیلاب کا تعلق ہے تو اس سے بھی جانی و مالی نقصان ہوتا ہے مگر سیلا ب کے بعد کئی برسوں تک زمین کی زرخیزی بڑھ جاتی ہے کیونکہ سیلاب سے زیر کاشت زمینوں پر نئی زرخیز مٹی کی تہہ جم جاتی ہے، جھیلوں سے پرانے پانی کی نکاسی کے ساتھ نیا تازہ پانی آجاتا ہے۔ جہاں تک تعلق زلزلوں اور دوسری آفات کا ہے تو آج کے دور میں اس سے بچتے ہوئے کم سے کم جانی نقصان ہوتا ہے اب جہاں تک تعلق خشک سال اور صحرایت کا ہے تو اس کا نقصان اکثر نا قابل ِ تلافی ہو تا ہے اور اگر اس نقصا ن کی تلا فی کی کامیاب کو شش کی بھی جائے تو اس میں قومی مستقل مزاجی اور بڑے سرمائے کے ساتھ کئی دہائیوں تک کام کرنا پڑتا ہے کیونکہ اس سے زمین کی پیداواری صلاحیت ختم ہو جا تی اور نہ صرف زمین بانجھ ہوجاتی ہے بلکہ اگر علا قہ گر م ،گرم مرطوب ہے تو اس سے پورے علاقے میں گرمی کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔

آج دنیا کے مختلف علاقوں میں چونکہ خشک سالی اور صحرایت کا عمل تیز ہو گیا ہے اور یہ دنیا میں کلائمیٹ چینج اور گلو بل وارمنگ کی ایک بڑی اور بنیاد ی وجہ ہے ۔ دنیا میں دو طرح کے صحرا ہیں ایک سرد ترین اور دوسرے گرم ترین ہیں۔ جہاں تک تعلق صحرایت کا ہے تو دنیا میں صحرایت کا پھیلا ؤ صحرائی ریگستانی علاقوں میں ہے اور اس میں پہلے نمبر 1 پر صحارا کا گرم ترین صحرا ہے جس کا مجموعی رقبہ 3300000 مربع کلو میٹر ہے یہ صحرا شمالی افریقہ ،انگولا ،چاڈ،مصر، مراکش،نائجیر،سوڈان ، تیونس، مغربی صحارا تک پھیلا ہوا ہے، صحارا کے صحرا کے بارے میں اعداد وشمار یہ بتاتے ہیںکہ اس علاقے میںصحرا جنوب کی جانب 250 کلو میٹر آگے ہے اور مشرق میں 600 کلومیٹر بڑھا ہے۔

یہاں ساحلی ممالک میں صحرایت 70% تیز ہے United Nation Convention کے مطابق صحارا کے علاقے میں ساحلین کی شہری آبادی کی منتقلی 1997 ء سے2020 ء تک 60 لاکھ ہو جائے گی ۔ دوسرا صحرائی علاقہ صحرائے گوبی کا ہے جو عرصہ دراز سے چین کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے، یہ دنیا میں تیزی سے پھیلنے والا صحرا ہے جو سالانہ 3370 مربع کلو میٹر زمینی رقبے کو نگل رہا ہے اس رقبے پر پھیلے دیہات اورگھاس کے میدان ختم ہو رہے ہیں اور اب صورتحال یہ ہے کہ ریت کے ٹیلے بیجنگ سے صرف 70 کلو میٹر دور رہ گئے ہیں، لیکن چین نے اس کو ایک چیلینج تسلیم کرتے ہوئے 1978 ء سے گرین گریٹ چائینا وال یعنی چین کی عظیم سبز دیوار بنانے کا پروجیکٹ شروع کیا ہے، یہ پروجیکٹ 2050 ء تک مکمل کیا جائے گا۔ یہ دیوار بھی چین کی تاریخی دیوارکی طرح اہم ہے۔

دیوار چین جو دنیا کے سات عجائبات میں شامل ہے اس کی لمبائی 21196 کلومیٹر بتائی جاتی ہے ۔کہا جاتا ہے کہ یہ دیوار چین کے حکمرانوں نے 220 برسوں میں مرحلہ وار تعمیر کی اور اس کی بنیادی وجہ منگو لوں سے چین کا دفاع تھا۔ اب یہ عظیم سر سبز دیوار اینٹوں اور پتھروں کی سلوں کی بجائے 66 ارب درختوں پر مشتمل ہوگی۔ یہ درخت 4500 کلو میٹر طویل دیوار کی صورت لگائے جا رہے ہیں۔ اس وقت صحرائے گوبی سے ریت کے طوفان اٹھتے ہیں اور چین کی زمین کے اوپر پھیل جاتے ہیں۔ دیوار کے مکمل ہونے سے نہ صرف چین کو بلکہ جاپان، شمالی اور جنو بی کوریا کو بھی فائد ہوگا۔ چین کے اس منصوبے سے شمالی چین میںصحرایت کو روکنے کے لیے جنگلات کے رقبے میں 5 سے 15فیصد اضافہ کیا جائے گا۔

اس منصوبے کی کامیابی کے لیے 2003 ء میں چین نے عوامی شمولیت کے لیے 1.2 ارب ڈالر کے فنڈز جاری کئے۔ 2009 ء میں چین نے 500000 مربع کلو میٹر رقبے پر درخت لگائے۔ یہاں درختوں کی تعداد میں 12%سے18% اضافے کے ساتھ یہ اب بھی دنیا کا سب سے بڑا مصنوعی جنگل ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ یہاں چینی عوام صحرایت کا مقابلہ کر رہے ہیں، مثلا چینیوں نے 2008 ء میں یہاں جب درخت لگائے تو ریت کے طوفان نے یہا ںدس فیصد درختوں کو تباہ کردیا۔ ویسے یہاں یہ قدرتی آفت ہر سال 33% درخت تباہ کر دیتی ہے لیکن یہ چینی قوم کی فتح ہے کہ یہاں 67% درخت بچ جاتے ہیں۔ یہ قوم یہاں اس سے مسلسل مقابلہ کر رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ آخر کار یہ کامیاب ہوں گے۔ اگر چہ چین نے اس کا ہدف 2050ء کا سال رکھا ہے جو بظاہر دور معلوم ہوتا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ یہ مصنوعی جنگل چین کی عظیم سبز دیوار چین کے مستقبل کو محفو ظ کردے گی۔

گرین گریٹ وال کا یہ تصور چین نے امریکہ سے لیا جہاں 1930 ء کی دہائی میں کینیڈا اور امریکہ کے درمیان مسلسل ریت کے مٹی کے شدید طوفان آتے رہے جن کی وجہ سے یہ اندیشے پیدا ہوگئے کہ یہ تمام علاقہ صحرا میں بدل جائے گا۔ اس زمانے میں یہاں سے لاکھوں افراد نے دوسرے مقامات پر ہجرت کی اس کو امریکیوں نے The Green Midwest dust bowl  نامی منصوبے سے کامیابی سے روکا لیکن یہاں یہ مسئلہ عارضی نوعیت کا تھا کہ اس عرصے میں دنیا میں بارشوں کے نظام میں بے ترتیبی کی وجہ سے ہوا تھا۔

اس لیے ایک جانب تو لاکھوں درخت لگائے گئے تو دوسری جانب آٹھ دس برسوں میں یہاں خشک سالی کا دورانیہ بھی مکمل ہو گیا ۔ اس کے بعد افریقہ کے صحارا کے علاقے میں صحرایت کو روکنے کے لیے 1952 ء میں ماحولیات کے ماہر رچرڈ سینٹ بار بی باکر، نے یہ منصوبہ پیش کیا کہ یہاں صحرایت کو روکنے کے لیے تیس میل فرنٹ پر گہرائی پر درختوںکی دیوار یعنی جنگلات لگائے جائیں اس آ ئیڈیا کو 2002 ء چاڈ میں خصوصی اجلاس میں رکھا گیا اور اس پر سن دو ہزار سات، آٹھ، بارہ اور پندرہ میں کسی حد تک عمل کیا گیا لیکن حقیقت میں جو گریٹ گرین وال ہے وہ چین ہی کی ہے جس پر 1978 ء میں جب عمل شروع کیا گیا تو اس کو نا ممکن سمجھا گیا تھا ۔

اگر چہ ابھی اس منصوبے کو مکمل ہونے میں 32 سال باقی ہیں مگر یہ بھی خوشگوار حقیقت ہے کہ اس منصوبے کو چالیس سال کامیابی سے گزر گئے ہیں اور اس کی کامیابی کی سطح کو دیکھتے ہوئے اب دنیا کو یقین آگیا ہے کہ آج کے دور میں جب قدرتی آفات شدت اختیار کرگئی ہیں اور ان آفات میں نہا یت خطر ناک آفت خشک سالی اور صحرایت ہے اس کو چین روک دے گا، وہ صحرائے گوبی کو عظیم سبز دیوار سے روک دے گا ،لیکن یہ بات صحرائے اعظم صحارا کے اعتبار سے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ وہاں اب بھی اس طرح کام نہیں ہو رہا جیسا چین میں ہوا ۔

اب جہاں تک دنیا کے دوسرے خطوں اور ہمارے جیسے ممالک کا تعلق ہے تو بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس حوالے سے شعور بیدار نہیں ہے۔ ہمیں اب تک درختوں کی اہمیت کا حساس نہیں ہے جبکہ درختوں کا ختم ہونا جنگلات کے رقبے میں کمی کا واقع ہو نا ایک بہت بڑا المیہ ہے دنیا پر دو اقسام کے جنگالات ہیں۔ ایک ٹروپیکل جنگلات اور دوسرے ٹیمپیرٹ جنگلات کہلاتے ہیں جن کی تفصیلات 1700 ء سے ہمارے سامنے ہیں۔ 1700 ء سے 1849 ء تک ٹروپیکل جنگلات کا رقبہ 110 ملین مربع ہیکٹر تھا۔

1850 ء سے 1919 تک 75 ملین ہیکٹر 1920ء سے 1949 تک 280 میلن ہیکٹر 1950 سے 1970 تک 320 ملین ہیکٹر 1996 تا 2010 ء 105 ملین ہیکٹر رہا ہے، جب کہ ٹیمپیریٹ جنگلات کی صورتحال اسی عرصے میں یوں رہی، 1700 ء سے 1849 ء تک ان جنگلات کا دنیا میں رقبہ 175 ملین ہیکٹر تھا، 1850 ء سے 1919 ء تک رقبہ 140 ملین ہیکٹر ہو گیا، اس کے بعد 1920 سے 1949 کے درمیانی عرصے میں یہ جنگلاتی رقبہ سو ملین ہیکٹر رہ گیا، پھر 1950 سے 1970 کے درمیان یہ رقبہ 20 ملین ہیکٹر رہ گیا اور اب یعنی 1996  سے 2010 کے درمیانی عرصے میں یہ جنگلاتی رقبہ دنیا میں صرف پانچ ملین ہیکٹر رہ گیا ہے جب کہ اس کے مقابلے میں دنیا بھر میں ان عظیم صحرا ئے اعظم صحارا اور صحرائے گوبی کے علاوہ بھی دوسرے چھوٹے بڑے صحرا بڑھ رہے ہیں ، اور ساتھ ہی مو سمیاتی تبدیلیاں منفی رخ اختیار کر رہی ہیں جن کو کلائمیٹ چینج کا نام دیا گیا ہے۔

اس کی وجہ سے دنیا کے مختلف ملکوں میں موسموں کا مزاج اور انداز بدل رہا ہے یعنی جب فصلوں، دوسرے پودوں ، جنگلات کو بارشوں کے موسم کے مطابق بارشوں کی ضرورت ہوتی ہے تو بارشیں نہیں ہوتیں یا بہت کم ہوتی ہیں اور پھر یہ بھی مشاہدہ کیا جا رہا ہے جیسے ہماری مون سون کی بارشیں معمول سے ہٹ رہی ہیں اور جن کی وجہ سے ایک طرف زرعی پیداوار متا ثر ہو رہی ہے تو دوسری جانب ہر پانچ دس سال بعد شدید نوعت کے بے موسم سیلاب تباہیاں مچا دیتے ہیں۔

پاکستان میں اگر چہ دنیا کا سب سے بڑا نہری نظام ہے لیکن رقبے کے اعتبار سے اس کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے جو ملک کے کل رقبے کا 43% سے زیادہ ہے اور اس کے علاوہ جنوبی پنجا ب اور سندھ میں بھی بڑا رقبہ بارانی ہے، جہاں وقفے وقفے سے خشک سالی آتی رہی ہے مگر اب گلوبل وارمنگ اور کلائمیٹ چینج کی وجہ سے خشک سالیوں کے درمیانی وقفے بھی مختصر ہو رہے ہیں اور جب خشک سالی رونما ہوتی ہے تو اس کی شدت اور دورانیہ بھی ماضی قریب کے مقابلے میں بڑھ رہا ہے۔

واضح رہے کہ خشک سالی دنیا میں مو سمیاتی تبدیلیوں کے لحاظ سے ہزاروں سال سے رونما ہوتی رہی ہے، اس کا ذکر حضرت یوسف علیہ السلام اور اُ ن کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کے حوالے سے بھی ملتا ہے اور اس کے بعد ایک بڑی خشک سالی کا تاریخی ذکر حضر ت عمر بن خطاب ؓ کے عہد میں بھی ملتا ہے یہاں ان دونوں واقعات کا حوالہ اس لیے دیا جا رہا ہے کہ تاریخ انسانی میں پہلی اور دوسری مرتبہ اس زمانے میں جب منصوبہ بندی اور سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی یہ خشک سالی قحط میں تبدیل نہیں ہو ئی۔

حضرت یوسفؑ نے راشن بندی کے نظام کو متعارف کروایا تھا اور بادشاہ کو اس کے خواب کی تعبیر بتا کر مستقبل کی پیش بندی کر لی تھی جبکہ حضرت عمرؓ نے اسی واقعے کی بنیاد پر اور اپنی کھری سچی اور سخت ایڈمنسٹریشن کی بنیاد پر اپنے عہد کی بڑی خشک سالی کو قحط میں بدلنے سے روک دیا اور اس وقت فرمایا کہ اگر دریائے دجلہ کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مرا تو اس کا جوابدہ قیامت میں خلیفہ وقت عمر ؓ ہوگا۔

یہ دور ہے جب حضر ت عمرؓ بھیس بدل کر مدینہ کی گلیوں میں چکر لگاتے تھے اور جب معلوم ہوتا کہ کوئی بھوکا ہے تو خود اپنی پیٹھ پر غلہ رکھ کر اس کے گھر پہنچاتے تھے اور آج بھی جب کبھی کسی ملک میں خشک سالی رونما ہو اور غلہ کہیں یا کسی اور ملک سے لا کر بھوکے لو گوں کو دے دیا جائے تو خشک سالی تو رہتی ہے مگر قحط کی صورت پیدا نہیں ہوتی یعنی خشک سالی اس موسمی حالت کو کہتے ہی جب ایک خاص عرصے تک یا تو بارشیں نہ ہوں یا اگر ہوں تو برسوں کے بارانی ریکارڈ سے بہت کم ہوں اور اس کے اثرات زرعی پیداوار مال مویشی اور انسانی صحت پر مرتب ہونے لگیں۔

یوں بعض علا قوں میں جہاں دریائے سندھ کی طرح بڑے دریا سارا سال بہتے ہیں مگر بارشیں یہاں نہ ہوں تو فضا میں نمی کے تناسب کے خطر ناک حد تک کم ہوجانے سے بھی خشک سالی نمودار ہو جا تی ہے۔

یہاں ضروری ہے کہ ہم ماضی قریب میں دنیا کے مختلف علاقوں میں رونما ہو نے والی خشک سالیوں کا ایک جائزہ لیں۔ چین کی عظیم خشک سالی اور قحط جو 1941 ء میں رونما ہوئی ، چونکہ اس خشک سالی میں چین میں متاثرین کو بر وقت خوراک نہیں پہنچائی گئی اس لیے یہاں 30 لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس مضمون میں 1930 ء کی دہائی کے حوالے سے امریکہ کینیڈا Midwest dust bowl کا ذکر ہوا ہے جہاں خشک سالی اور صحرایت کی وجہ سے 1930 سے 1939 تک لاکھوں افراد نے ریت کے طوفانوں اور خشک سالی کی وجہ سے امریکہ کے دوسرے علاقوں میں ہجرت کی اور یہ حقیقت ہے کہ امریکہ چو نکہ وسائل سے مالا مال ملک ہے۔

اس لیے یہاںخشک سالی سے اموات نہیں ہوئیں، اگر اُس وقت ایسی خشک سالی اور صحرایت کسی اور ملک میں رونما ہو تی تو یہ صورت قحط میں بدل جاتی اور یہاں بھی چین کی طرح لاکھو ں افراد ہلاک ہو جاتے ۔ آسٹریلیا کی خشک سالی جو 1982-83 ء میں رونما ہوئی تھی ۔ اسی طرح ایتھوپیا کی خشک سالی اور یہاں خوراک کی کمی کی وجہ سے قحط بھی رونما ہوا، یوں 1983-85 ء کے دوران یہاں چارلاکھ افراد بھوک کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے ۔ ساحلی خشک سالی جو صحارا کے علاقے میں رونما ہوئی تھی جس میں 1997 ء سے ابتک ایک کروڑ سے زیادہ افراد یورپ اور دوسرے علاقوں میں منتقل ہوئے۔ آسٹریلیا کی خشک سالی جس میں 1993 سے 2012 ء تک وفاقی حکومت نے ساڑھے چار ارب ڈالر خرچ کئے۔ اس خشک سالی میں لاکھوں مویشی ہلاک ہوئے۔ صحارا ساحلی علاقوں کی خشک سالی 2010 ء جس میں ایک بار پھر صحرایت کا عمل تیز رفتار ہوگیا۔

چین کی خشک سالی اور قحط 1958 سے 1961 تک اس میں ڈیڑھ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مشرقی افریقہ کی خشک سالی 2011 ء سے 2017 ء تک صومالیہ ،ڈجیبوتی،ایتھوپیا اور کینیا میں دس لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ یہاں پر دنیا کے بڑے صحراوں کا ایک ٹیبل اس مضمون کے ساتھ ہے لیکن یہاں ذکر پاکستان کے صحراوں اورصحرایت اور خشک سالی کا اس لیے ضروری ہے کہ ویسے تو ہمارے ہاں سرکاری سطح پر ماحولیات اور قدرتی آفات کے مسائل کی جانب عرصے سے کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے،تاہم اس بار صوبہ خیبر پختو نخوا میں 2014-18 شجر کاری اور جنگلاتی رقبے میں اضافے پر تھوڑی توجہ دی گئی۔

ویسے ہمارے ہاں عوام اور حکومت قدرتی آ فات پر اسی وقت پریشان ہوتے ہیں جب اکتوبر 2005 کی طرح کا تباہ کن زلزلہ آتا ہے یا پھر 2010 کی طرح کا سیلاب آتا ہے جب کہ خشک سالی بڑھتی ہوئی صحرایت جیسی قدرتی آفات پر سنجیدگی سے توجہ ہی نہیں دی جاتی ، اس کی واضح مثال بلوچستان میں رونما ہو نے والی 1997 ء سے 2003 -2004 ء تک کی شدید اور طویل ترین خشک سالی تھی جس پر قومی سطح کے اعتبار سے کوئی توجہ نہیں اور حال ہی میں تھر پارکر کے علاقے میں جہاں بچوںکی اموات پر سیاسی رہنما اور سیاسی جماعتیں بجائے اسے ایک قومی المیہ سمجھیں اور اسے مل کر سلجھانے کی کو ششیں کریں، اب تک ٹی وی چینلوں پر اسکور گیمز کھیل ہوتے ہوئے ایک دوسرے پر الیکشن کے قریب اس لیے الزامات عائد کر رہے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کر سکیں ۔

جبکہ ہمارے ہاں یہ خشک سالی اور بڑھتی ہوئی صحرایت ایک ایسا خطرناک مسئلہ ہے کہ جس پر بر وقت توجہ نہیں دی گئی تو آئندہ 30 برسوں میں ہمارے گرم صحرا اور دشت کے علاقوں میں انسانی زندگی گرمی کی وجہ سے مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو جائے گی۔ ہمارے پانچ بڑے اور اہم صحرا ہیں۔ پہلے نمبر پر وادی ِ سندھ کا صحرا اس کا رقبہ 20500 مربع کلو میٹر ہے، یہ دریائے چناب اور سندھ کے درمیان واقع ہے۔ دوسرے نمبر پر صحرائے خاران جس کا رقبہ 19000 مربع کلو میٹر ہے۔ تیسرے نمبر پر تھل کا صحرا یہ ضلع بھکر میں واقع ہے۔ دریائے سندھ اور جہلم سے ایک بڑے نہری پروجیکٹ کے ذریعے یہاں کا م ہو رہا ہے اس کا ایک حصہ کوہستان نمک ضلع جہلم سے ملتا ہے۔

پھرصحرائے تھر ہے یہ صحرا بھارت اور پاکستان کے علاقوں میںپھیلا ہوا ہے یہ دنیا کا نواں وسیع اور گرم ترین صحرا ہے۔ صحرائے تھر کا 85% حصہ بھارت میں واقع ہے اس صحرا کا مجموعی رقبہ 320000 مربع کلو میٹر ہے اور اس کا زیادہ حصہ بھارتی علاقے راجسھتان میں واقع ہے۔ صحرائے چولستان مقامی زبان میںاسے روحی بھی کہتے ہیں، یہ بہا ولپور میں واقع ہے اور اس کا کچھ حصہ بھارت میں بھی ہے، یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ مغرب میںواقع خاران و چاغی کا صحرا ہے جس سے آگے ایران اور افغانستا ن کے صحرا نزدیک واقع ہیں۔ دوسری جانب صحرائے تھر یعنی تھر پارکر کا علاقہ ہے اور ہمارا چولستان کا صحرا ہے اس کے پار بھی بھارت کے وسیع صحرا ہیں۔

پھر عجیب بات ہے کہ مئی 1998 ء میں ایک جانب ہم نے خاران اور چاغی میں بھارت کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کئے اور دوسری جانب بھارت نے بھی ہماری سرحد کے قریب راجستھان کے علاقے پوکرن میں پانچ دھماکے کئے جبکہ انڈیا نے اپنا پہلا ایٹمی دھماکہ اسی مقام پر 1974 ء میں کیا تھا۔ یوں ایک بڑی عجیب سی بات ہے کہ پاکستان کا بیشتر علاقہ راجستھان سے صحرائے خاران اور چاغٰی کے درمیان واقع پہاڑ راس کوہ تک ڈھا ئی ہزار کلو میٹر کے درمیان واقع ہے۔ چاغی سے نزدیک سرحد پار ایرانی علاقے میں دشت لوط واقع ہے جو دنیا کے بڑے صحراؤں میں27 ویں نمبر پر ہے، اس کا رقبہ 20100 مربع کلومیٹر ہے ۔

یہ غالباً دنیا کا گرم ترین صحرا ہے جہاں جون،جولائی اور اگست کے مہینوں میں درجہ حرارت 60 سینٹی گریڈ تک چلا جا تا ہے، اس صحرا کے حوالے سے گذشتہ چند برسوں سے کلائمیٹ چینج کے اعتبار سے کوئٹہ سمیت بلو چستان کے وسیع رقبے پر ایک نئی اور منفی ماحولیاتی تبدیلی مشاہدے میں آئی ہے ،کہ موسم گرما میں دشت لوط میں گرمی کی وجہ سے بہت باریک پوڈر کی مانند مٹی بگولوں کی صورت کئی کئی ہزار فٹ بلندی تک فضا میں اڑتی ہے اور پھر یہ پاکستان میں بلوچستان کے علاقے میں کو ئٹہ بلکہ اس سے بھی آگے آتی ہے اور پھر دو دو، تین، تین دن تک فضا میں ہزاروں فٹ بلندی سے یہ باریک پوڈر جیسی مٹی بہت آہستہ آہستہ زمین پر گرتی ہے، جب یہ صورتحال پیدا ہوتی ہے تو کوئٹہ میں پروازیں معطل یا بند ہو جاتی ہیں جب کہ یہ مٹی بہت آہستہ آہستہ زمین پر گر تی ہے تودرختوں کے پتوں اور ہری بھری فصلوں پر جم کر ا ن کو نقصان پہنچاتی ہے۔

پاکستان میں اب ایک بار پھر خصوصا بلوچستان کے اعتبار سے خشک سالی کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں اور28-29 مئی کو بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے اس خشک سالی کے پیش نظر روس سے یہاں بلوچستان میں مصنوعی بارشیں کرانے کا معاہدہ کیا کیونکہ ماہرین کے مطابق اب ایک بار پھر بلوچستان میں خشک سالی کی آمد کے خطرات مستقبل قریب میں ہیں۔ واضح رہے کہ 1997ء سے2002 ء کے دوران بلوچستان میں جو خشک سالی آئی تھی اس سے صوبے کے لاکھوں افراد متا ثر ہوئے تھے۔

لاکھوں ایکڑ رقبے پر فصلوں اور باغات کو نقصان پہنچا تھا اور تقریباً دوکروڑ مال مویشی ہلاک ہوگئے تھے۔ اگرچہ اس خشک سالی میں خوراک کی امداد آگئی تھی اس لیے یہاں قحط کی صورتحال پیدا نہیں ہو ئی مگر یہاں زمین کی زرخیزیت کو اتنا نقصان پہنچا کہ اس کا ازالہ ابھی تک نہیں ہو سکا، اس لیے اب جب کہ دوبارہ خشک سالی کے اندیشے پیدا ہو رہے ہیں تو ہم قومی سطح پر ابھی سے خشک سالی اور ساتھ ہی ساتھ پھیلتی ہوئی بڑھتی ہوئی صحرایت کو روکنے کے لیے نہ صرف منصوبہ بندی کرلیں بلکہ موثر انداز میں ایسی منصوبہ بندی پر فوراً عمل درآمد بھی کرنا شروع کردیں۔ آج جب 17 جون 2018 کو ہم صحرایت اور خشک سالی سے مقابلے کا عالمی دن منا رہے ہیں تو ہم بھی کوئی نہ کوئی ٹھوس اقدامات کرنے کا ہی اعلان کردیں۔

The post گلوبل وارمنگ؛ جنگلات کو نگلتی، صحراوں اور خشک سالی میں اضافہ کر رہی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

استحصال اور سامراجیت کے بل بوتے پروان چڑھنے والی سلطنتیں

$
0
0

تاریخ میں بے شمار انسانی تہذیبیں ابھریں اور پھر زوال پذیر ہوگئیں۔ کچھ نے انسانیت کو امن اور خوشحالی سے ہمکنار کیا جبکہ چند نے ظلم اور بربریت سے تباہی و بربادی کی داستانیں رقم کیں۔

تباہی پھیلانے والی ان سلطنتوں نے ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے اپنے دشمنوں کے علاوہ اکثر اپنے ہی حلیفوں، یہاں تک کہ اپنے عوام کو بھی نہ بخشا اور ان پر رحم نہ کھایا۔ انہوں نے جب بھی کسی دشمن پر غلبہ پایا تو انہیں عبرت کا نشان بنادیا اور لاکھوں انسانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ ذیل میں ایسی ہی سلطنتوں کی معلومات دی جارہی ہے جو شاید ہم میں سے بیشتر لوگوں کے لیے ناقابل یقین ہوں۔

1۔ دی کمینچی ایمپائر (The Comanche Empire)

’’کمینچی‘‘ براعظم امریکہ کے مقامی باشندے ہیں۔ تاریخی طور پر ان کا علاقہ موجودہ مشرقی نیو میکسیکو، جنوب مشرقی کولاریڈو، جنوب مغربی کنساس ریاست، مغربی اوکلوہامہ، شمال مغربی ٹیکساس کے بیشتر حصوں اور شمالی ’چیہوا ہوا‘ پر مشتمل تھا اور وہ لوگ گھوڑے پالتے اور شکار پر گزارا کرتے تھے۔ یہ امریکہ کا سب سے بڑا قبیلہ تھا جو اوپر بیان کیے گئے ایک وسیع رقبے پر پھیلا ہوا تھا۔

یہ لوگ اپنے دشمن پر ناقابل یقین حد تک اچانک کیے جانے والے ہولناک حملوں کی وجہ سے مشہور تھے۔ ان اچانک حملوں میں وہ بچوں کو ذبح کرنے سے بھی نہیں چوکتے تھے۔ ان کی اسی دہشت کی وجہ سے اسپینش اور فرنچ زیادہ تر ان کے علاقوں سے دور ہی رہے۔ 1868ء سے لے کر 1881ء تک یورپی آباد کاروں کی جانب سے اس علاقے میں  اکتیس ملین بھینسوں کا منظم شکار کمینچی سلطنت کے زوال کا باعث بنا۔

-2 دی سلٹکس (The Celts)

’’سلٹکس‘‘ کی حکومت قدیم دور کے ان علاقوں میں قائم تھی جو آج فرانس، بلجیم اور انگلستان کہلاتے ہیں۔ ان کا تعلق یورپ کی ’’میڈیول ایج‘‘ (Medieval age) یا ’’لوہے کے دور‘‘ کے زمانے سے ہے۔ اس دور کی سپر پاور ’’رومن ایمپائر‘‘ کو بھی ’’سلٹکس‘‘ پر فتح حاصل کرنے میں زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ ’’سلٹکس‘‘ ناقابل یقین حد تک تندخو بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی حد تک پاگل ہی تھے۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ وہ جنگ کے دوران بالکل برہنہ ہوکر لڑتے تھے جو اس چیز کا اظہار ہوتا تھا کہ وہ مرنے سے نہیں ڈرتے۔ اور اگر وہ جنگ جیت جاتے تھے تو اپنے مارے جانے والے حریفوں کے سرکاٹ کر اپنے ساتھ گھر لے جاتے اور انہیں ٹرافیوں کی طرح سجا کر رکھتے۔

-3 دی وائی کنگ ایمپائر (The Viking Empire)

وائی لنگ سلطنت کی شروعات آٹھویں صدی کے اواخر یعنی 793 بعد از مسیح میں ہوئی اور گیارہویں صدی کے لگ بھگ تک برقرار رہی۔ یہ سلطنت جزیرہ نما سکینڈ نیویا کے ممالک ڈنمارک، ناروے اور سوئیڈن پر مشتمل تھی۔ وائی کنگ جرمن نسل کے لوگ تھے۔ انہوں نے اپنے قریبی ہمسایہ ممالک انگلستان، فرانکش ایمپائر، اسپین اور روس میں غارت گری اور لوٹ مار شروع کردی۔ ان کا طریقۂ کار انتہائی ظالمانہ تھا۔

وہ غیر محفوظ یہاتوں پر چھاپے مارتے، وہاں قتل و غارت کرتے، عزتیں لوٹتے اور اس سے قبل کہ گاؤں والے سنبھلتے اور انہیں روکنے کی کوشش کرتے، وہ لوٹ مار کرکے چلتے بنتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے اس بہیمانہ کام میں اتنے ماہر ہوتے چلے گئے کہ بہت ڈھٹائی کے ساتھ اپنے حملوں کا دائرہ کار بڑھاتے چلے گئے۔ لیکن ہر ظلم کی ایک حد ہوئی ہے۔ بالآخر ان کے ہمسائے میں رہنے والے لوگوں نے ان کے طریقہ کار کو بھانپتے ہوئے اپنا دفاع اس کے مطابق مضبوط کرلیاجس کے باعث وائی کنگز کے اچانک حملے بہت زیادہ کارآمد نہ ہوتے۔ جب ناروے کے بادشاہ ’’ہیرالڈ ہارڈ راڈا‘‘ (Harald Hardrada) کو انگلستان کے ہاتھوں ’’سٹپفورڈ برج‘‘ (Stamford Bride) کی جنگ میں شکست فاش ہوئی تو وائی کنگ اپنی طاقت کھو بیٹھے۔

-4 ماوری تہذیب (Maori Civilization)

ماوری، موجودہ نیوزی لینڈ کے قدیم مقامی باشندے ہیں۔ وہ اپنے زمانے میں بہت خوفناک جنگجو، آدم خور، غلاموں کے تاجر اور بہترین شکاری ہوتے تھے۔ ان کے تندخو اور غصیلے ہونے کی شہرت اتنی عام تھی کہ نیوزی لینڈ پہنچنے والے انگریز سامراجی جو خود بھی کم ظالم نہ تھے ان کے قریب پھٹکنے سے گریزاں ہی رہنے میں عافیت محسوس کرتے تھے۔ پہلے پہل جب انگریز کیپٹن جیمز کک (James Cook) نیوزی لینڈ پہنچا تو معاملات اتنے دگرگوں نہ تھے مگر جب اس کے ایک ساتھی ’’جیمز رو‘‘ (James Rowe) نے مقامی ماوری باشندوں کو ناراض کردیا تو وہ ان دونوں کو بغیر بھونے، کچا ہی کھاگئے۔

پھر جب انگریزوں کی بندوقیں ماوریوں کے ہاتھ لگیں تو پھر تو حالات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے۔ وہاں ایک قبائلی جنگ پھوٹ پڑی اور تقریباً 18,000 افراد اس کی بھینٹ چڑھ گئے۔ انگریزوں اور ماوریوں کے درمیان یہ جنگ وجدل برس ہا برس تک چلی اور ہولناک خون ریزی بڑھتی ہی چلی گئی۔ آخر کار ماوری انگریزوں کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہوئے اور یوں نیوزی لینڈ انگلستان کی کالونی بن گیا۔

-5 کونفیڈریٹ اسٹیٹس آف امریکا (Confederate States of America)

براعظم شمالی امریکہ کی گیارہ جنوبی ریاستوں کے اتحاد پر مشتمل یہ ملک 1861ء تا 1865ء قائم رہا۔ یہ ریاستیں غلامی جیسی لعنت کی پرجوش حامی تھیں کیونکہ ان کی معیشت کا دارومدار زیادہ تر زراعت پر تھا۔ جس میں غلام ایک اہم کردار ادا کرتے تھے۔ گو ان ریاستوں کے اس اتحاد کو بیرونی دنیا نے باقاعدہ تسلیم نہیں کیا تھا تاہم ان کا اپنا ایک صدر، ایک پرچم، اپنی کرنسی اور اپنی ہی ایک تہذیبی شناخت تھی (جو آج کے دن تک برقرار ہے)۔ لیکن اب ریاستوں کی اصل شناخت غلامی کے فروغ اور نیگرو غلاموں پر غیر انسانی تشدد، مارپیٹ اور عصمت دری کے لاکھوں واقعات کے وجہ سے ہے۔

خاص طور پر’’اینڈرسنول‘‘ (Andersonville) کے قیدیوں پر کیا جانے والا بہیمانہ اور غیرانسانی سلوک ان کی پہچان بن کر رہ گیا تھا۔ خوش قسمتی سے یہ ملک زیادہ دیر تک قائم نہ رہ سکا اور 1865ء میں اپنے قیام کے محض چار سال بعد یہ ابرام لنکن کی فوجوں کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہوکر اپنے انجام کو پہنچا اور اب ریاست ہائے متحدہ امریکا کا حصہ ہے۔

-6 قدیم مصری سلطنت (Ancient Egyptian Empire)

دریائے نیل کے کنارے جنم لینے اور عروج حاصل کرنے والی شمالی افریقہ کی اس مشہور اور معروف تہذیب سے اکثر لوگ واقف ہیں۔ جہاں اس تہذیب میں سماجی ترقی کو لے کر بہت سی اچھی باتیں تھیں وہیں بدقسمتی سے کئی چیزیں بہت بری بھی پائی جاتی تھیں۔ مثلاً قدیم مصر میں غلامی کا نظام رائج تھا اور غلاموں کے ساتھ انتہائی برا سلوک روا رکھا جاتا تھا۔

تحقیق یہ بتاتی ہے کہ اگر کوئی مزدور اپنی قطار سے باہر نکل جاتا تھا تو اس کو 100 کوڑے مارے جاتے اور 5 مرتبہ اس کے جسم پر خنجر سے وار کیے جاتے اور پھر اس کو فوراً ہی دوبارہ کام پر لگا دیا جاتا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ یہی طبقہ غذائیت کی کمی اور بیماریوں کا شکار بھی رہتا تھا۔ ان بیماریوں میں جوڑوں کی بیماریاں عام تھیں کیونکہ انہیں سارا سارا دن وزنی پتھر اور تعمیراتی سامان اٹھا کر اہراموں کی تعمیر کے سلسلے میں بہت اونچائی پر پہنچانے پڑتے تھے۔

-7 میانمار (برما) Myanmar

میانمار، جو برما کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، میں 1962ء میں فوج نے مارشل لاء لگا کر حکومت پر قبضہ کرلیا تھا۔ فوج نے اپنے ناقدین کو جیلوں میں ڈالا، پارلیمنٹ کو توڑ دیا اور ہر قسم کی جمہوریت کو ختم کرکے اس پر قدغن لگادی۔ فوج کی ظالمانہ ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے میانمار ساری دنیا سے کٹ کر ایک تنہا ملک بن کر رہ گیا ۔

جس کی وجہ سے ملک کے بیشتر عوام مفلس ہوکر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ صرف حکمران طبقہ اور ان کے خاندان ہی اپنے اقتدار کی بدولت پر تعیش زندگی گزارنے کے اہل تھے۔ ستم ظریفی مگر یہ ہے کہ اسی ملک میں جب حال ہی میں جمہوریت آئی تو اس میں رہنے والے بدھ بھگشوؤں نے جو مذہبی طور پر عدم تشدد کے پیروکار سمجھے جاتے ہیں، روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انہیں ملک چھوڑنے پر مجبور کردیاموجودہ دور میں ایسی بربریت نے انسانیت کے ضمیر کو جھنجوڑتے ہوئے اس کا سر شرم سے جھکا دیا۔

-8 نیو اسیرین ایمپائر (Neo-Assyrian Empire)

’’نیو اسیرین ایمپائر، لوہے کے دور میں مصر اور میسوپوٹیمیا پر مشتمل ایک عظیم سلطنت تھی۔ اس سلطنت کا زمانہ 911 قبل از مسیح سے لے کر 609 قبل از مسیح تک کا ہے۔ اس وقت یہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت شمار کی جاتی تھی۔ ’’اسیرین‘‘ باشندوں نے بادشاہت کے وہ ابتدائی اصول مرتب کیے جن میں سے کئی کو بعدازاں دوسری سلطنتوں نے ایک معیار کے طور پر اپنا لیا۔ تاریخ دانوں کے نزدیک یہ دنیا کی پہلی باقاعدہ سلطنت تھی۔ ’اسیرینز‘ وہ پہلے لوگ تھے جنہوں نے لوہے کے ہتھیار بنائے اور ایسے طریقہء جنگ ایجاد کیے جن کی بدولت وہ ناقابل تسخیر بن گئے۔

ان کی فوج، حربی صلاحیتوں کی تو انتہائی ماہر تھی ہی لیکن ساتھ ساتھ بہت ظالم بھی تھی۔ آس پاس کی ریاستوں کو فتح کرنے کے بعد وہ وہاں کے باشندوں کو غلام بناکر بیچ دیتے اور اس طرح ان کو اپنے وطن سے نکال کر دربدر کردیتے۔ وہ دشمنوں کے جسموں میں لوہے کی کیلیں ٹھونک کر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے، ان کی لاشوں کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتے اور اپنے مفتوحہ شہروں کے باہر ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنا کر خوشی کا اظہار کرتے۔ ان کی کئی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ زندہ انسانوں کی آنکھوں کو لوہے کی چھنی کی مدد سے حلقوں سے باہر نکالنے، بچوں کو زندہ جلانے اور شہر کے اردگرد موجود درختوں پر اپنے دشمنوں کی کھوپڑیاں لٹکانے پر بہت فخر محسوس کرتے تھے۔

-9 دی پرتگیز ایمپائر (The Portuguese Empire)

’’پرتگیز‘‘ ایمپائر ’’رینائسینس‘‘ (Renaissance) یعنی نشاۃ سانیہ کے دور کی پہلی سامراجی سلطنت تھی جو دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی اور سب سے طویل عرصے تک برقرار رہنے والی سلطنت تھی۔

یہ چھ صدیوں تک قائم رہی۔ افریقہ کے شمالی کنارے پر واقع اسپین کے ایک خود مختار شہر ’’سیوتا‘‘ (Ceuta) کی 1415ء میں تسخیر سے جنم لینے والی یہ سلطنت 1949ء میں ’’مکاؤ‘‘ کو چین کے حوالے کرنے تک اپنا وجود برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ یہ سلطنت یورپ، افریقہ، انڈیا، جاپان اور برازیل پر محیط تھی۔ اپنے اس طویل سامراجی دور میں انہوں نے مقامی باشندوں کا استحصال کیا، افریقی گاؤںدیہاتوں پر حملے کیے اور افریقی غلاموں کی تجارت کے بہت بڑے حصہ دار بنے۔ ان کے سامراجی دور کے اختتام کے قریب  1961ء  میں ’’انگولا‘‘ کے مزدوروں نے بغاوت کی تو اس کے نتیجے میں پرتگیز نے ان کے خلاف جنگ چھیڑ دی۔ یہ دردناکجنگ 14 سال چلتی رہی جس کے دوران 500 مردوں، عورتوں اور بچوں کا پرتگیز افواج کے ہاتھوں اجتماعی قتل عام کا واقعہ بھی شامل ہے۔

-10 دی مقدونین ایمپائر (The Macedonian Empire)

سکندر اعظم کو تاریخ انسان میں ایک عسکری نابغے کے طور پر مانا جاتا ہے۔ وہ یونان کی ریاست مقدونیہ کا بادشاہ تھا۔ اس نے اپنی فوج تشکیل دی اور فتوحات کا سلسلہ شروع کردیا۔ یونان، شام، مصر، ایران سے ہوتا ہوا وہ ہندوستان تک آپہنچا۔ لیکن ظاہر ہے کہ اس کی یہ فتوحات ہولناک جنگوں اور بربریت کے مظاہروں کے بغیر مکمل نہ ہوئیں۔ ان مظالم میں ہزاروں جانوں کا ضیاع، شہروں کو نظر آتش کرنا اور بے گناہ شہریوں کا ہزاروں کی تعداد میں ہلاک کیا جانا شامل تھا۔ تمام حکمرانوں کی ہی طرح سکندر بھی ذہنی عدم تحفظ کا شکار تھا۔ اسے یہ خطرہ اور اندیشہ لاحق رہتا تھا کہ کوئی اس کے خلاف بغاوت کرکے اس کا تخت نہ الٹ دے۔ اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے اس نے محض شکوک و شبہات کے باعث کئی لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ مقدونیہ کی سلطنت اس کی موت کے ساتھ ہی 323 قبل از مسیح میں ختم ہوکر تین حصوں میں تقسیم ہوگئی۔

-11 اٹالین ایمپائر (Italian Empire)

1869ء میں بحر احمر کے ساحلی قصبے ’’اساب‘‘ (Assab) پر قابض ایک تجارتی کمپنی سے اس قصبے کا کنٹرول خرید لینے سے اٹالین سامراجی سلطنت کا آغاز ہوا جو بعدازاں دیگر افریقی مقبوضات تک پھیل گیا۔ اس زمانے میں تمام بڑی یورپی طاقتوں کا یہی طریقہء واردات تھا کہ وہ تاجروں کے بھیس میں ایشیا اور افریقہ آئے اور پھر انہیں اپنی کالونیاں بناکر یہاں کے مالک بن بیٹھے اور یہاں کی دولت، معدنیات اور انسانوں (غلاموں) پر خوب ہاتھ صاف کرکے اپنے ممالک کو امیر سے امیر تر بناتے گئے۔

اٹالین ایمپائر کو یہ ’’اعزاز‘‘ حاصل رہا کہ اس نے پہلی جنگ عظیم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مقبوضات کا دائرہ، خود مشرقی یورپ کے کچھ ممالک کے علاوہ چین کے چند حصوں تک بھی بڑھالیا۔ یہ ’’کارنامہ‘‘ اس نے بدنام زمانہ ڈکٹیٹر ’’مسولینی‘‘ کی زیر قیادت 1922ء میں سرانجام دیا۔ ’مسولینی‘ نے اقتدار میں آکر اٹلی کو ایک پولیس اسٹیٹ میں تبدیل کردیا۔ اس نے پارلیمنٹ تحلیل کردی اور اپنے خلاف اٹھنے والی اختلاف کی تمام آوازوں کو بزور قوت دبا دیا۔ اٹلین ایمپائر کی اس ہوس ملک گیری کے ان تمام معرکوں کے دوران ہزاروں لوگ اپنی جانوں سے گئے جو اپنے آپ اور اپنے وطنوں کو اس سامراجی قوت کے زیر تسلط آنے سے بچانا چاہتے تھے۔

-12 دی اسپینش ایمپائر (The Spanish Empire)

اسپینش ایمپائر دنیا کی چند بڑی سلطنتوں میں سے ایک تھی۔ پندروہویں صدی کے اواخر سے لے کر انیسویں صدی کے شروع تک براعظم امریکہ (جو اس زمانے میں نئی دنیا کہلاتا تھا) اور فلپائن (جسے اسپین والے ’’انڈیز‘‘ کہتے تھے) کے وسیع علاقے اسپین کے زیر تسلط تھے۔ ’’کرسٹوفر کولمبس‘‘ کے امریکہ دریافت کرنے کے فوراً بعد اسپین نے اس کو اپنی کالونی بنانے کی تگ و دو شروع کردی تھی اور کسی حد تک اس میں کامیاب بھی ہوگیا۔ اسپین سمیت اس دور کی تمام سامراجی قوتیں دراصل ہندوستان تک پہنچنا چاہتی تھیں جو اس وقت سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔

’کولمبس‘ اور اس جیسے دوسرے بہت سے مہم جوؤں نے اپنی مہمات کے دوران مقامی باشندوں کے قتل عام، لوٹ مار، عصمت دری اور قتل و غارت کا ایسا طوفان بپا کیا کہ انسانیت شرما کر رہ گئی لیکن آج انسانی حقوق کے چیمپیئن یورپی ممالک میں سے کوئی بھی ان مظالم کا نام بھی نہیں لیتا بلکہ ان تمام مہم جوؤں کو اپنی اپنی اقوام میں ہیروؤں کا درجہ حاصل ہے۔

حالانکہ امریکہ، آسٹریلیا اور ایسے ہی دیگر ملکوں کے مقامی قبائل، جیسے ’’ریڈ انڈین‘‘ اور ’’ایب اوریجنز‘‘ اس موجودہ ترقیاتی اور انسانی حقوق کے علمبردار دور میں بھی انتہائی پسماندگی اور محرومی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کی زمین اور معدنی دولت پر یہ یورپی اقوام قابض ہوگئیں تھیں۔ کولمبس جیسے مہم جوؤں نے ناصرف ان علاقوں کے مقامی قبائل کی زمینوں پر قبضہ کرکے اسے کالونی بنایا بلکہ ان کے باشندوں کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ کر انسانیت کی سطح سے نیچے گرادیا۔

حالانکہ اصل میں وہ خود اپنے ان افعال کی بدولت انسانیت کے درجے سے گرچکے تھے۔ انہوں نے مقامی عورتوں تک کو نہ بخشا اور انہیں پھانسیوں پے لٹکایا اور ان مقامات میں بسنے والوں کے مذہبی راہنماؤں کو زندہ جلا دیا جاتا۔ دوسری طرف وبائی امراض نے بھی ہزاروں افراد کو لقمہء اجل بنادیا اور یہ نام نہاد ترقی یافتہ دنیا سے تعلق رکھنے والے مہم جو انہیں بچانے کے لیے کچھ نہ کرسکے۔ الٹا اس آفت پر خوش ہوئے جو ان کے ’’کام‘‘ کو مزید آسان بنارہی تھیں۔

-13 رومن ایمپائر (Roman Empire)

100 قبل از مسیح تا 400 قبل از مسیح، روم دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ ازاں بعد 500 قبل از مسیح میں نیا روم (قسطنطنیہ پل) Constantinople دنیا کا سب سے بڑا شہر بن گیا جس کی آبادی 50 تا 90 ملین افراد پر مشتمل تھی جو اس وقت کی معلوم دنیا کی آبادی کا تقریباً 20 فیصد حصہ تھا۔ اپنے بالکل عروج کے دور میں رومن ایمپائر بہت وسیع اور متنوع تھی جو یورپ، شمالی افریقہ، مصر اور شام پر محیط تھی۔ رومنز نے اپنی اس عظیم سلطنت کی حدود کو پھیلانے کے لیے  ہر حربہ استعمال کیا ۔

جس میں جارحانہ حملے، لوگوں کو غلام بنانا، اپنی طاقت و قوت کے بے دریغ مظاہرے کے ذریعے خوف و ہراس پھیلانا اور اپنے احکامات بزور شمشیر نافذ کروانا وغیرہ شامل ہیں۔ وہ لوگوں کو مصلوب کرنے کو صرف سزا ہی نہیں بلکہ اپنی طاقت و اختیار کے مظاہرے کے طور پر بھی استعمال کرتے تھے۔ ان کی معیشت کا دارومدار غلاموں کی تجارت، جنسی استحصال اور ہمسایہ ممالک میں لوٹ مار پر تھا۔ رومن ایمپائر کے بہت سے حکمران جیسے نیرو، کالیگولا اور ڈومیٹین وغیرہ خبطی اور ظالم تھے جن کا محبوب مشغلہ انسانوں کی ایزا رسانی تھا۔

-14 ازٹیک ایمپائر (Aztec Empire)

جیسا کہ اوپر اسپینش ایمپائر کا ذکر آیا کہ وہ امریکہ کو کالونی بنانے کے دوران وہاں کے مقامی قبائل کے لیے وحشی ثابت ہوئی اسی طرح براعظم امریکہ کے میدانی علاقوں میں پایا جانے والا  یہ سب سے بڑا قبیلہ بھی اپنی وحشت اور بربریت میں کم نہ تھا۔ اس کا نام آزٹیک (Aztec) تھا اور وہ وہاں اپنی وسیع سلطنت کا مالک تھا۔ یہ قبیلہ دیگر مقامی قبائل کے لیے بھی کسی عفریت سے کم نہیں تھا۔ ان کے عقیدے کے مطابق ان کے دیوتاؤں میں سے ایک دیوتا ’’ہوئٹزیلو پوشٹلی‘‘ (Huitzilopochtli) کو تازہ تازہ نکالے گئے انسانی دل بطور غذا انتہائی مرغوب تھے۔ 1487ء کے اعدادو شمار کے مطابق ’’آزٹیک‘‘ نے محض چار دن میں 84,000 لوگوں کی قربانی صرف اسی مقصد کے لیے دی تھی۔

-15 دی برٹش ایمپائر  (The British Empire)

ہم برصغیر پاک و ہند کے لوگ تو خاص طور پر اس ایمپائر سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ ہم ان ہی کی کالونی تھے۔ جی ہاں، تاجروں کے بھیس میں ہندوستان آنے والے انگریزوں نے سولہویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک دنیا کے بیشتر حصے، بشمول ہندوستان پر بلا شرکت غیرے مطلق العنان حکومت کی۔ اپنے عروج کے دور میں یہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت تھی اور کہا جاتا تھا کہ انگریز کی حکومت میں سورج غروب نہیں ہوتا۔ یہ سلطنت قریباً ایک صدی تک دنیا کی سپرپاور رہی۔

1913ء تک برٹش ایمپائر کی حکومت کا جوا 412 ملین لوگوں کی گردن پر تھا جو اس وقت کی  دنیا کی آبادی کا تقریباً 23% بنتا ہے اور 1920ء تک اس سلطنت کی حدود 35,500,000 کلو میٹرز سکوائر علاقے تک پھیل چکی تھیں جو دنیا کے کل رقبے کا 24% بنتا ہے۔ یعنی یہ کہا جاسکتا ہے کہ 1922 تک برٹش ایمپائر دنیا کے کل رقبے کے ایک چوتھائی پر قابض تھی اور دنیا کی کل آبادی کا پانچواں حصہ اس کی رعایا تھی۔ ویسے تو انگریزوں کا مطمع نظر اپنی ان کالونیز کے ذریعے معاشی فوائد کا حصول تھا مگر انھوں نے اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے جو کیا، وہ یقینا ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔ انہوں نے دوسری ’’بوئر‘‘ (Boer) وار کے دوران لوگوں کو حراستی کیمپوں میں مقید رکھا، جہاں انہیں انتہائی کم خوراک دی جاتی۔

ان کیمپوں میں پھیلنے والے امراض کے علاج کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہوتا تھا اور دیگر حالات بھی بہت نامساعد تھے، جس کی وجہ سے 27,000 لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔ جب انگریزوں نے بھارت کو تقسیم کیا اور پاکستان معرض وجود میں آیا تو سرحدوں کی غیر منصفانہ حد بندی اور پاکستان کو بیشتر علاقوں سے محروم کرنے کی سازش کی وجہ سے دس ملین لوگوں نے ہجرت کی اور ان میں سے ایک ملین افراد اپنی جانوں سے گئے۔ علاوہ ازیں دوسری جنگ عظیم میں 12 سے 29 ملین ہندوستانی، قحط کے دوران محض اس وجہ سے فاقوں کا شکار ہوکر اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے کہ انگلستان کے اس وقت کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کے حکم پر ٹنوں گندم ہندوستان سے انگلستان روانہ کردی گئی تھی تا کہ جنگِ عظیم کی وجہ سے معاشی طور پے بے حال انگریزوں کو سستی خوراک مہیا کی جا سکے۔

The post استحصال اور سامراجیت کے بل بوتے پروان چڑھنے والی سلطنتیں appeared first on ایکسپریس اردو.

اب پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد خود کشی سے کم نہیں ہوگا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی

$
0
0

کم گو اور منکسر المزاج طبیعت کے حامل ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کی ایم کیوایم سے وابستگی کا سفر اس کی طلبہ تنظیم آل پاکستان مہاجر اسٹوڈینٹس آرگنائزیشن میں شمولیت سے شروع ہوا، بعدازاں اے پی ایم ایس او کے چیئرمین بنے، ایم کیوایم کے ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور پارٹی کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنونیئر کی حیثیت سے فرائض انجام دیے۔

جلاوطنی کے بارہ سالوں میں وہ امریکا میں ایم کیو ایم اوور سیز کے معاملات دیکھتے رہے۔ 2013میں وطن واپس آئے اور خاموشی سے تنظیمی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔ رواں سال فروری میں ایم کیو ایم پاکستان میں ہونے والے اختلافات کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کو ان کے عہدے سے ہٹا کر ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا کنونیر بنادیا گیا۔ اس فیصلے کی توثیق گزشتہ دنوں اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی کردی ہے۔ متحدہ قومی پاکستان کے سربراہ ہونے کے باوجود خود کو اب بھی ایک ادنیٰ کارکن سمجھتے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ماضی اور حال اور مستقبل کے لائحہ عمل کو جاننے کے لیے ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے ایک ملاقات کا اہتمام کیا گیا۔

ایکسپریس: طلبہ سیاست سے قومی سیاست میں قدم رکھنے اور عملی جدوجہد کرنے کا سفر کیسا رہا؟ سیاست میں آنے پر گھر والوں کی مخالفت یا حمایت کس حد تک رہی؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: اس پوری جدوجہد کو اگر میں سیاست سمجھتا تو شاید کبھی اس شعبے میں نہ آتا۔ اَسّی کی دہائی کے آغاز میں سندھ کے شہری علاقوں میں رہنے والے نوجوانوں کے پاس اے پی ایم ایس او کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔ انہیں اپنی تعلیم اور بہتر مستقبل کے حوالے سے کسی فیصلہ کن جدوجہد سے گزرنا ہی تھا۔  1982ء میں میرا سندھ میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا، اسی دور میں مجھے اے پی ایم ایس او کا چیئر مین بنادیا گیا۔

پاس آؤٹ کرنے کے ایک سال بعد ہی 1990ء میں ایم کیو ایم نے مجھے میری خواہش کے برخلاف حیدرآباد سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ دے دیا اور اس طرح میں مکمل طور پر سیاست میں آگیا۔ پھر تین سال بعد ہی ایم کیو ایم کے خلاف بدترین ریاستی آپریشن کا آغا ز کردیا گیا۔ اگر اُس وقت ہم گھروں پر بیٹھ جاتے تو میرے خیال میں یہ اپنی قوم اور جماعت کے ساتھ بہت بڑی بے وفائی ہوتی۔ جہاں تک گھر والوں کی مخالفت یا حمایت کی بات ہے تو میں خود کو اس لحاظ سے خوش نصیب سمجھتا ہوں کہ میں اپنے والدین کا اکلوتا اور لاڈلا بیٹا تھا تو مجھے کسی قسم کی مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

ایکسپریس: سیاسی مصروفیات کے باوجود اہلیہ اور بچوں کے لیے وقت کس طرح نکالتے ہیں؟ یا گھر والوں نے اس بات پر سمجھوتا کرلیا ہے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: میں سیاسی مصروفیات کی وجہ سے نہ ہی والدین کو صحیح طرح وقت دے سکا اور نہ ہی بیوی بچوں کو، کیوں کہ تنظیمی معاملات میں مصروفیات اتنی رہیں کہ شادی بھی تقریباً پندرہ سال تاخیر سے کی۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے، اسے زیادہ سے زیادہ وقت دینے کی کوشش کرتا ہوں۔

ایکسپریس: امریکا میں بھی میڈیکل پریکٹس نہیں کی؟ مصروفیات سیاسی ہی رہیں؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : ہاؤس جاب مکمل کرنے کے ساتھ ہی میں ایم این اے بن گیا، جس کی وجہ سے مجھے ہاؤس جاب کرنے کا موقع نہیں ملا۔ میں ایک ہفتے کے سرکاری دورے پر امریکا گیا تھا لیکن بدلتے ہوئے حالات نے مجھے وہاں بارہ سال رہنے پر مجبور کردیا۔ وہاں بھی پریکٹس کا موقع نہیں ملا کیوں کہ وہاں میری سیاسی ذمے داریاں زیادہ تھیں۔ میں ایم کیو ایم اوور سیز کے سارے معاملات دیکھتا تھا۔

ایکسپریس: ڈاکٹروں کا اپنے کلینک چھوڑ کر کُل وقتی سیاست کرنا کیا ہمارے جیسے سماج میں ایک ڈاکٹر کی نشست ضایع کرنے کے مترادف نہیں ہے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : میرے نزدیک یہ ہماری بدنصیبی ہے، لیکن جب شہری سندھ کے طالب علم جب میڈیکل کالج میں پہنچتے ہیں تو انہیں پیشہ ورانہ تعلیم میں خاص طور پر مہاجروں کے حوالے سے ناانصافی کا ادراک ہوتا ہے۔ اس بات کا احساس آپ کو صحیح معنوں میں میڈیکل کالجز میں ہوتا ہے جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ جیسے، اُردو بولنے والے بہت سے ذہین طالب علم صرف لسانی تعصب کی وجہ سے اس میڈیکل کالج میں نہیں پہنچ سکے اور بہت ہی نالائق سیکنڈ ڈویژن، تھرڈ ڈویژن والے طلبا وہاں موجود ہیں۔ مجھے بھی سندھ میڈیکل کالج میں داخلہ صرف اس بنیاد پر مل سکا کہ میں ٹاپ میرٹ پر تھا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مجھ سے بہت زیادہ ذہین لڑکے ہمارے ناقص نظام تعلیم اور کوٹا سسٹم کی وجہ سے داخلے سے محروم رہے۔

ایکسپریس: آپ نے سینیٹ انتخابات کے دوران ایم کیو ایم میں اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی، متعدد بار ڈاکٹر فاروق ستار کو پارٹی سربراہ کی حیثیت سے ذمے داریاں سنبھالنے کا کہا، کیا وجہ ہے کہ مصالحت کی کوشش میں ناکام رہے؟ بہ ظاہر دونوں دھڑے ایک ہوچکے ہیں، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہوا ہے؟ کیا کہیں گے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: یہ سارا معاملہ فاروق بھائی کی معلوم خواہشات اور نامعلوم مجبوریوں کے درمیان ہے۔ دیکھیے پارٹی میں پہلے بھی کسی حد تک ایک سینٹرلائزڈ ڈیمو کریسی تھی جس کی شکل تبدیل ہوتی چلی گئی۔ ایم کیو ایم اپنے اندر بھی جمہوریت پر یقین رکھتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی اتنا مکمل نہیں کہ جس کی انفرادی سوچ اجتماعی سوچ سے زیادہ بہتر ہو۔

فارق بھائی کی کچھ مجبوریاں ہیں جن کے بارے میں لوگوں کو پتا بھی ہے اور نہیں بھی پتا۔ فاروق بھائی زیادہ تر ایوانوں میں رہے ہیں، ہم میں سے بہت سے لوگ ایوان سے ہٹ کر تنظیم سنبھالتے رہے ہیں، تنظیمی تجربہ شاید فاروق بھائی کے پاس اس لیے اس قدر نہیں ہے کہ انہیں کبھی تنظیم چلانے کے لیے دی ہی نہیں گئی۔ میئر سے لے کر اب تک فاروق بھائی ایم کیو ایم کے سیاسی ونگ کو دیکھتے رہے ہیں۔ ہاں، میں نے زندگی بھر سیاسی ونگ بھی دیکھا ہے اور تنظیم بھی چلائی ہے۔ 1993ء میں جب پہلی دفعہ رابطہ کمیٹی بنی تو میں ایم کیو ایم کا پہلا کارکن تھا جو انچارج ڈپٹی کنونیئر بنا اور دس سال یہ ذمے داری ادا کی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اب ایم کیو ایم اتنی مضبوط اور بڑی ہوتی جارہی ہے کہ لیڈروں کی تقسیم اور چہروں کی تبدیلی سے تنظیم تقسیم نہیں ہو گی، بہ ظاہر تو یہ تقسیم نظر آرہی ہے لیکن درحقیقت تنظیم نیچے سے جڑتی جارہی ہے۔ کنونیئرہونے کے ناتے فاروق بھائی کو کنونیئر بننے کی دعوت دینا میری ذمے داری تھی۔ فاروق بھائی کو کنونیئر بننے کی دعوت آج بھی ہے، لیکن پارٹی کے آئین، ہماری روایات کی پاسداری لازم ہے۔

موروثی اور پیشہ ورانہ سیاست کی ایم کیوایم میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ فاروق بھائی اپنے گھر والوں کو تو لانے کی ضد نہیں کر رہے تھے لیکن اگر میرٹ سے ہٹ کر وہ اپنے کسی دوست کو بھی لانا چاہ رہے ہیں تو پھر پارٹی تو اسٹینڈ لے گی۔ ہم نے بھی شروع میں تھوڑی کم زوری دکھائی، کیوں کہ بائیس اگست کے بعد پارٹی بحران میں تھی تو فاروق بھائی کی کچھ خواہشات کو تسلیم کیا گیا۔ خود فاروق بھائی آج اسے ہماری بڑی غلطی قرار دیتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اس کی ایک حد تھی اور اس حد سے تجاوز کرنے پرہم نے بند باندھ دیے۔ میں اس سارے معاملے میں صرف کامران ٹیسوری کو ہی مورود الزام نہیں ٹھہراؤں گا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر میںاپنے کسی دوست کو لانا چاہتا ہوں تو یہ میرے دوست سے زیادہ میری غلطی ہوگی، کیوں کہ لیڈر میں ہوں میرا دوست نہیں۔

ایکسپریس: پاکستان پیپلزپارٹی اب ایم کیو ایم کے گڑھ لیاقت آباداور دیگر روایتی حلقوں میں جلسے اور سرگرمیاں انجام دے رہی ہے۔ اس حوال  سے آپ کے حامیوں اور ووٹروں میں بے چینی پائی جاتی ہے، اسے دور کرنے کے لیے کیا کوشش کررہے ہیں؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: ہم نے کبھی پاکستان پیپلزپارٹی یا کسی دوسری جماعت کو لیاقت آباد میں جلسہ کرنے سے نہیں روکا۔ خود پیپلزپارٹی یا دوسری جماعتوں نے ان علاقوں میں جلسہ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ میں شروع سے ایک بات کہہ رہا ہوں کہ یہ پارٹی بکھر نہیں رہی، نکھر رہی ہے۔ ایم کیو ایم کو اس کی طاقت سے زیادہ ریاستی آپریشن سے کچلنے کی کوشش کی گئی، لیکن ایم کیو ایم ختم نہیں ہوئی ناں؟ بانوے کے آپریشن کے بعد لوگوں کو مغالطہ تھا کہ ایم کیو ایم کم زور ہوگئی ہے، اس کی طاقت ختم ہوگئی ہے۔

پھر حقیقی کی شکل میں ایک نئی جماعت لائی گئی، لیکن کیا کراچی کے عوام کا فیصلہ تبدیل ہوگیا؟ ہمیں تھوڑا سا فائدہ یہ ہے کہ دوسری جماعتوں کے مقابلے میں ہمارا ووٹر نسبتاً زیادہ سیاسی شعور رکھتا ہے۔ لوگوں کو بہادر آباد یا پی آئی بی کی تفریق یا تقسیم کے حوالے سے بھی مغالطہ ہے کہ اس سے سینیٹ کے انتخابات پر اثر پڑا تو یہ ان کی غلطی ہے۔ سینیٹ انتخابات پر اثر ہمارے خلاف آپریشن کے نام پر  جبر سے پڑا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے کتنے ہی ایم پی ایز ایک مصنوعی انتظام کے تحت بنائی گئی جماعت میں چلے گئے۔ بہرحال تمام تر مشکلات کے باجود ہم فرو غ نسیم بھائی کو جتوانے میں کام یاب ہوگئے۔

ایکسپریس: پیپلزپارٹی کی جانب سے کراچی کے جلسوں میں ایم کیو ایم پر دہشت گردی، لسانیت کو فروغ دینے کے الزامات عاید کیے جارہے ہیں، اگر پی پی پی نے ایم کیوایم پاکستان سے انتخابی اتحاد کی بات کی تو کیا آپ ہامی بھریں گے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: میری ذاتی رائے یہ ہے کہ اب پی پی پی سے اتحاد خود کشی سے کچھ کم نہیں ہوگا، آپ ایک سوراخ سے ایک دو بار نہیں، آٹھ دس مرتبہ ڈسے جاچکے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس حوالے سے اگر کوئی دباؤ بھی آتا ہے تو ایم کیو ایم کو اس دباؤکا سامنا کرنا چاہیے۔ ہمیں پی پی پی کے ساتھ انتخابی اتحاد کے بہ جائے انتخابی سیاست سے باہر جانے کو ترجیح دینی چاہیے ۔

دیکھیے! تیس ستمبر 1988ء کو حیدرآباد میں ڈھائی سو مہاجروں کا قتل عام کیا گیا۔ اس قتل عام کے ذریعے لسانیت کو اس درجے پر پہنچا دیا گیا کہ سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں پی پی پی کے ساتھ انتخابی اتحاد ممکن نہیں تھا۔ ہم نے ان سے انتخابی اتحاد تو نہیں کیا لیکن یہ سوچ کر کہ کل ہمیں تاریخ یہ نہ کہے کہ ہم نے سندھ سے جیتنے والی جماعت کو حکومت بنانے میں مدد نہیں دی۔ اسی بات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایم کیو ایم نے تمام تر اندیشوں اور خدشات کے باوجود اٹھاسی میں پی پی پی کا ساتھ دیا۔ 1993ء میں ہم تمام دباؤ کے باوجود حکومت میں شامل نہیں ہوئے حالاںکہ اس وقت ہمارے خلاف خوف ناک آپریشن چل رہا تھا۔ ہم اس آپریشن سے بچنے کے لیے حکومت میں شامل ہوسکتے تھے۔ انتخابی اتحاد ہم کرتے ہی نہیںاور نہ ہی ہمیں اس کی ضرورت ہے۔ ہم جن سیٹوں سے جیتتے رہے ہیں وہاں سے اس بار بھی جیتیں گے۔

ایکسپریس: 22 اگست کے بعد تو فاروق ستار اور آپ نے پریس کانفرنس میں لندن کے اشتعال انگیز بیانات کو یکسر مسترد کیا۔ یہ بتائیں کہ اس سے پہلے کبھی الطاف حسین سے اشتعال انگیز بیانات اور تقاریر کرنے پر اختلاف کیا؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : ہماری جدوجہد کی بنیاد ہی پاکستان کی سلامتی پر ہے، بائیس اگست کو جو نعرے لگوائے گئے وہ ہمارے لیے کسی طور قابل قبول نہیں تھے۔ اس پہلے بھی ایم کیو ایم کے اندرونی حلقوں میں الطاف حسین کے اشتعال انگیزبیانات اور تقاریر پر اختلاف ہوتا رہا، انہیں سمجھایا بھی جاتا رہا، لیکن پاکستان مردہ باد کا نعرہ لگ جانا بالکل مختلف بات ہے۔ حکومت سے اختلاف کرنا ملک سے اختلاف کرنا نہیں ہے۔ کبھی کبھی ہم بھی کھڑے ہوکر پاکستان سے شکایت کرتے ہیں کہ؛

تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارض وطن

جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کرے

لیکن یہ پاکستان کے خلاف نہیں ہوتا، یہ تو اپنوں سے کی جانے والی شکایت ہے، لیکن نعرہ بالکل مختلف معاملہ ہوتا ہے۔

ایکسپریس: گذشتہ سال پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت نے ایک ہونے کا اعلان کیا لیکن اگلے ہی دن ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کی گئی، اس مشترکہ پریس کانفرنس کا فیصہ کس کا تھا؟ اور اس اتحاد کے ٖفوری خاتمے کی وجہ کیا تھی؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: ہماری جماعت کی سو فی صد لیڈر شپ اور کارکنان اس بات کو سمجھتے ہیں کہ سیاسی جماعتوں سے آپ انتخابی اتحاد اور دیگرمعاملات تو طے کرسکتے ہیں، لیکن ایم کیوایم کسی جماعت میں کسی صورت ضم نہیں ہوسکتی۔ اور وہ بھی کسی ایسی پارٹی میں جو کسی سیاسی انتظام کے تحت بنی ہی نہ ہو۔ اس کانفرنس کا فیصلہ ڈاکٹر فاروق ستار اور کچھ ایسے لوگوں کا تھا جو بائیس اگست کے بعد ایم کیو ایم میں آئے جن کے بارے میں کہا گیا کہ یہ ایم کیو ایم کو سہولت پہنچا سکتے ہیں، مدد کر سکتے ہیں جو کہ بالکل غلط ثابت ہوا۔

پی ایس پی کے ساتھ ہونے والی پریس کانفرنس کے چند گھنٹے بعد ہی پارٹی کی اکثریت نے بیان دے دیا تھا کہ یہ ایم کیو ایم کا فیصلہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے ہمیں پریس کانفرنس کے بارے تو بتایا تھا، لیکن یہ نہیں بتایا تھاکہ وہ وہاں جاکر دوسری پارٹی میں ضم ہونے کی بات کریں گے۔ ہمیں بتایا کچھ گیا اور پریس کانفرنس میں ہوا کچھ اور۔ ایم کیو ایم ہزاروں شہیدوں کی امانت ہے۔ مجھے، فاروق ستار یا رابطہ کمیٹی سمیت کسی کو اس بات کاحق نہیں ہے کہ وہ اس کا نام تبدیل کرے، ہم میں سے کسی کو بھی یہ نام پسند نہیں تو وہ چھوڑ کر چلاجائے اوراپنی نئی پارٹی بنالے۔

ایکسپریس: مصطفی کمال نے ڈاکٹر فاروق ستار پر الزامات عاید کیے، جس پر آپ نے کہا کہ یہ  ہمارے لیے نئے الزام نہیں، اگر ان الزامات سے رابطہ کمیٹی آگاہ تھی تو اس پر ڈاکٹر فاروق ستار سے وضاحت طلب کیوں نہیں کی گئی؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: ان سے ان الزامات کی وضاحت کئی بار طلب کی گئی۔ لیکن کچھ نادان دوست انہیں یہ بتا رہے تھے کہ آپ سربراہ نہیں پارٹی کے مالک ہیں، جس طرح آپ چاہیں پارٹی اسی طرح چلنی چاہیے۔ سب سے بڑا الزام جو مصطفی کمال نے اُن پر عاید کیا کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے الیکشن کمیشن کے فیصلے سے دو دن پہلے انیس قائم خانی سے کہا کہ میرے لیے کیا پیکیج ہے؟ میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر صاحب کو کم از کم اس الزام کی وضاحت کرنی چاہیے تھی۔

ایکسپریس: مہاجر قومی موومنٹ کو لسانی سیاست کی قید سے آزاد کرکے متحدہ قومی موومنٹ بنایا گیا، لیکن حال ہی میں ہونے والے جلسے میں ایک بار پھر جاگ مہاجر جاگ کے نعرے کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو لسانی رنگ دینے کی کوشش کی گئی، کیا آپ آئندہ انتخابات لسانی بنیاد پر لڑنا چاہتے ہیں؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: کوئی بھی سیاسی جماعت لسانی رنگ سے آزاد نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی ایک نسل پرست ، قوم پرست سندھی جماعت ہے، مسلم لیگ ن جاگ پنجابی جاگ کے نعرے کے ساتھ بنی تھی۔ عوامی نیشنل پارٹی کا نام صرف عوامی نیشل پارٹی ہے لیکن وہ پختونوں کی غیرت اور حقوق کے لیے ہی جدوجہد کر رہی ہے۔ مجھے ایسی سیاسی جماعت کا نام بتائیں جو لسانی رنگ نہ رنگتی ہوں۔

ہاں، ایم کیو ایم منافق نہیں تھی، اس نے جب مہاجروں کے اتحاد اور حقوق کے حوالے سے آواز اٹھانے کی بات کی تو وہ بھی کوئی ملکی نام، وفاقی نام رکھ سکتی تھی، لیکن وہ منافقت کہلاتی۔ ایم کیو ایم نے جو کرنا چاہا وہی کہا۔ 1987میں جب ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات میں حصہ لیا تو اس سے دو ماہ پہلے کارکنوں کے اجلاس میں طے ہوا تھا کہ ایم کیو ایم کبھی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی، لیکن عظیم پورہ کے واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا اور کراچی سے انتخابات میں حصلہ لینے والی مذہبی اور سیاسی جماعتیں اس آپریشن پر بغلیں بجانے لگیں تب ہم انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر مجبور ہوئے۔

اس وقت کا سیاسی تجزیہ کار کہتا تھا کہ ووٹ تو ایم کیو ایم کو پڑے گا، لیکن ایم کیو ایم کے پاس دو چیزوں کی کمی ہے ایک تو سیاسی تجربہ، دوسرا انتخابی سیاست کے لیے درکار وسائل۔ میری گناہ گار آنکھوں نے ایم کیو ایم کے دفاترمیں ہماری موٹر سائیکلوں اور سائیکلوں کی جگہ بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوتی دیکھیں، وہ مہاجر تاجر، صنعت کار جو ایم کیو ایم سے فاصلے سے رہتے تھے انہوں نے ایم کیو ایم میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ سیاست داں جن کی سیاسی عمریں اس وقت کی ایم کیو ایم کی قیادت کی عمروں سے زیادہ تھیں وہ بھی ایم کیو ایم میں آگئے لیکن میں ان کا نام نہیں لوں گا۔

اس طرح ایم کیو ایم میں آپ کو سیاسی تجربے اور وسائل کی کمی پوری ہوتی نظر آرہی تھی ناں؟ پھر بھی ایم کیو ایم نے مجھ جیسے متوسط طبقے کے لوگوں کو الیکشن میں کھڑا کرکے طبقاتی جدوجہد کا آغاز کیا۔ اس طبقاتی جدوجہد نے ملک بھر کے مڈل کلاس کے نوجوانوں کو متاثر کیا، جن کی خواہش اور شدت خواہش کی وجہ سے ہم نے مہاجر قومی موومنٹ کو متحدہ قومی موومنٹ میں تبدیل کیا تھا، لیکن اس کا مقصد قطعاً یہ نہیں ہے کہ ہم مہاجروںکے اتحاد، اُن کی بقا او ر ان کے حقوق کی جدوجہد سے دست بردار ہوگئے ہیں۔ ہر جماعت انتخابات میں اپنے ووٹرز کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتی ہے، ہمارے ووٹرز اب بھی سندھ کے شہری علاقوں کے ہیں تو ان کے لیے آواز اٹھتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

ایکسپریس: ’ہمیں راہ نما نہیں منزل چاہیے‘ کا نعرہ لگاکر آپ نے ٹنکی گراؤنڈ میں اپنا روایتی نعرہ بھی بدل دیا، کیا سمجھتے ہیں کہ اس سے آپ اپنے حامیوں کو قریب لا رہے ہیں یا پرے دھکیل رہے ہیں؟ راہ نما کا تعین تو آپ کرچکے تھے لیکن اب آپ کی منزل کیا ہے اور اس کا تعین کون کرے گا؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: سیاسی قیادت کو کبھی بھی سچ کہنے میں عار نہیں ہوتا۔ عوامی لیڈر وہ ہوتا ہے جو عوام کی مرضی سے نہ چلے بلکہ عوام کو اپنی مرضی پر چلائے، عوام کی مرضی تو انتخابات کے ذریعے ظاہر ہوتی ہے۔ مجھ پر الزام تھا کہ ’ہم کو منزل نہیں راہ نما چاہیے‘ کا نعرہ میرا بنایا ہواتھا۔ آج کے دور میں، میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب راہ نماؤں سے زیادہ اہم منزل ہے۔

وہ ایک دور کا نعرہ تھا اور اسی دور میں ختم ہوگیا تھا، لیکن اعتراض کرنے والوں نے اس نعرے کو زندہ رکھا۔ اس وقت ایم کیو ایم کی اجتماعی قیادت ہی راہ نما ہے، افراد راہ نمائی نہیں کریں گے ، مقصد راہ نمائی کرے گا۔ ہماری منزل ایک مستحکم اور مضبوط پاکستان ہے جس میں تمام قومیتیں اور تمام علاقے برابر کے وفادار اور حق دار ہوں، مہاجر اس ملک کے سب سے وفادار شہری ہیں، ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کو ختم کیا جائے۔

ایکسپریس: آفاق احمد جنوبی سندھ صوبے کے لیے پُرزور مہم چلا رہے ہیں، کیا آپ کے خیال میں مہاجروں کے احساس محرومی کو ختم کرنے کے لیے الگ صوبے کا قیام ناگزیز ہے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: میں سمجھتا ہوں کہ نئے صوبے پاکستان کی بقا کے لیے ناگزیر ہیں، گو کہ پاکستان کے چاروں صوبے لسانی بنیادوں پر قائم ہیں، اس کے باجود ہم لسانی بنیاد پر صوبے بنانے کی تو بات ہی نہیں کر رہے۔ ہم انتظامی بنیادوں اور ضرورت کے تحت صوبوں کے قیام کے حامی ہیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر وہ جنوبی سندھ صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں تو یہ اُن کا حق ہے، ہم بھی صوبے بنانا چاہتے ہیں اور ان کے اس مطالبے کی حمایت کرتے ہیں۔ پاکستان کا کوئی صوبہ ملک نہیں ہے اور نہ ہی بننے دیا جائے گا۔ ہم سب کی دھرتی ماں پاکستان ہے، باقی تمام صوبے اس کا حصہ ہیں۔

ایکسپریس: انتخابی حلقہ بندیوں کے ذریعے واضح طور پر متحدہ کے حلقوں کو اس طرح تقسیم کیا گیا ہے کہ آیندہ آپ کے لیے یہاں سرخرو ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے؟ آپ نے اس حوالے سے کوئی چارہ جوئی کی؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: اس مسئلے پر ہم الیکشن کمیشن میں گئے تو انہوں نے ہمارے سارے اعتراضات مسترد کردیے۔ اب ہم عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔ صوبائی اسمبلی کا ایک ایسا حلقہ کراچی میں بنایا گیا ہے جو یونین کونسل سے چھوٹا ہے یوسی میں پانچ وارڈ ہیں اور اس میں چار وارڈ ہیں، سہراب گوٹھ والی ایک یوسی کو اس حلقے سے جوڑا گیا ہے جہاں ماضی میں ایم کیو ایم جیتتی رہی ہے، اس طرح کے ہتھکنڈوں سے ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو متاثرکرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ نئی حلقہ بندیاں مکمل طور لسانی اور نفرت کی بنیاد پر سازش کے طور پر کی گئی ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ عدالت اس بات کا نوٹس لے گی۔

ایکسپریس: چند ماہ قبل کراچی پریس کلب پر ایک تقریب میں آپ نے واضح طور پر اس شکایت کا اظہار کیا کہ مہاجر قوم کے دانش وروں نے آپ کا ساتھ نہیں دیا؟ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اس کا سبب متحدہ سے تعلق رکھنے والوں کے غیرمناسب رویے اور دھونس دھمکیاں تھیں؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: چلیں یہ طبقہ ایم کیو ایم کا ساتھ نہیں دیتا لیکن مہاجروں کا توساتھ دیتا، برسہا برس کی ناانصافیوں کی وجہ سے اردو بولنے والے طبقے کا لہجہ بڑا معذرت خواہانہ ہوگیا ہے، لیکن یہ رویہ دانش ور طبقے کا نہیں ہوتا، وہ صرف لکھنا، بولنا نہیں جانتے بلکہ ان کا ظرف اور ضمیر اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ وہ اپنے لیے کچھ نہیں کر رہا ہوتا ، نہ اپنی جان بچانے کے لیے اور نہ ہی اپنی نوکری بچانے کے لیے۔ بانوے کے آپریشن کے دو تین ہفتے پہلے جون میں جام شورو میں بھی یہ آپریشن شروع ہوا اور وہاں چند غریب سندھی دیہاتیوں کو ’’را‘‘ کا ایجنٹ قرار دے کر مار دیا گیا، لیکن سندھی دانش ور اس کے خلاف کھڑے ہوئے تو نہ صرف اس آپریشن میں شامل فوجی افسران کو گرفتار کیا گیا بلکہ بعد میں انہیںاسے سزائے موت دی دی گئی۔

لیکن جب کراچی میں گلی گلی، کوچے کوچے سے ٹارچر سیل نکالے جا رہے تھے، جناح پور کا نقشہ نکالا جا رہا تھا تو اس وقت ہمارا دانش ور کہا ں تھا؟ کیا اس وقت وہ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایم کیو ایم جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس نے آپریشن کے ڈر سے بیس لاکھ کلاشنکوف چھپا دی ہیں، تو کیا یہ ایم کیو ایم اتنی احمق ہے کہ اپنے سارے عقوبت خانے کُھلے چھوڑ دیے کہ آپ آئیں اور دریافت کریں، ثبوت چھوڑ دیے؟ لیکن ہمارا دانش ور نہیں بولا بل کہ وہ اس جبر کے ساتھ ہی اپنی آواز سے آواز ملانے لگا۔

ایکسپریس: 30 سال بعد مڑ کر دیکھتے ہیں تو آج ’ایم کیو ایم‘ کہاں کھڑی ہے۔ اس نے اپنے کیا مقاصد حاصل کیے؟ آپ کی نظر میں اس تحریک کے بڑے المیے کیا ہیں؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: اس تحریک کی بنیاد تھی مہاجروں کی شناخت اورآج ہماری شناخت پر کسی کو کوئی شک نہیں ہے۔ ایم کیو ایم ناکام نہیں ہوئی، یہ اپنی پہلی منزل طے کرچکی ہے، اب ایم کیو ایم نے مہاجروں کے حقوق کے لیے دوسرے سفر کا آغاز کیا ہے جس میں نئے صوبے کا معاملہ، ڈویژن اور ڈسٹرکٹ کی تقسیم بھی ہماری ترجیح ہے۔ اس وقت سندھ میں ایک مصنوعی اکثریت رکھنے والی جماعت ہم پر مسلط ہے۔ آج سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی سندھ کی مجموعی آبادی کا پچاس فی صد سے زاید ہے، جس وقت پاکستان میں غیر جانب داری سے مردم شماری کی گئی اور اس دن سب کو پتا چل جائے گا کہ ایم کیو ایم کتنی کام یاب رہی ہے۔

ایم کیو ایم نے اپنے اندرجاگیردارنہ سوچ کو نہیں پنپنے دیا، ہم نے تیس سال کی سیاست میں موروثی سیاست کی گنجائش ہی نہیں رکھی، ہم نے ایم کیو ایم کے کارکنان ، لیڈروں کو پابند کیا کہ وہ اپنے خاندان کے لوگوں کو اسمبلی میں نہیں لاسلتے اوراس پر ایم کیو ایم ابھی تک کام یاب ہے اور انشاء اللہ آگے بھی رہے گی۔ پاکستان میں جاگیردارانہ، سرمایہ دار ذہنیت کیسے برداشت کرتی کہ ایک متوسط طبقے کی جماعت کا قومی اور صوبائی اسمبلی کا رکن موٹر سائیکل پر ایوان میں آئے، عام آدمیوں کے ساتھ زمین پر، تخت پر بیٹھ کر جھونپڑا ہوٹل میں کھانا کھائے۔ ہمارا طرز عمل یہ پیغام ہے کہ پاکستان کا ایک مڈل کلاس نوجوان بھی انتخابات میں کھڑا ہوکر جاگیرداروں، وڈیروں کو شکست دے سکتا ہے۔ اب حقیقی معنوں میں ایسے نمائندے منتخب کرنے ہوں گے جن کے حلقے کے عوام صبح اٹھتے ہی گھر کی گھنٹی پر ہاتھ رکھ کر بولیںکہ باہر نکل کر ہمارے معاملات حل کرو۔ اگر ایم کیو ایم کے راستے میں روڑے نہیں اٹکائے گئے تو ہم پاکستان کو اس کا مقدر واپس کریں گے۔

ایکسپریس: کراچی اور حیدرآباد کی ریلیوں اور جلسوں کے دوران کارکنان متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی قیادت کے سامنے الطاف حسین کے حق میں نعرے لگاتے رہے۔ ان حالات میں آپ سمجھتے ہیں کہ الطاف حسین کے بغیر کارکنان اور ہمدرد انتخابی مہم میں آپ کا ساتھ دیں گے اور آپ کو ووٹ بھی دیں گے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: دیکھیے ایم کیو ایم بائیس اگست کے بعد کراچی حیدرآباد میں بڑے جلسے کرچکی اور ریلیاں بھی نکال چکی ہے۔ بائیس اگست کے بعد تو کوئی ہمارے حق میں نہیں تھا نہ انتظامیہ ہمارے حق میں تھی، نہ ادارے ہمارے حق میں تھے، اس کے باوجود ہم نے کراچی سے صوبائی اسمبلی کے دو ایسے انتخابات ایسے ملے جو ہم کبھی جیتتے تھے کبھی ہارتے تھے، اور ان میں ہم نے اس سے زیادہ ووٹ لیے جوہم نے بائیس اگست سے پہلے ضمنی انتخابات میں لیے تھے۔

ایک جگہ سے ہم اٹھارہ ہزار ووٹ کے ساتھ ہارے، ہمیں بائیکاٹ کے مطالبے کے باوجوداٹھارہ ہزار حقیقی ووٹ پڑے،اگر بائیکاٹ کا مطالبہ نہیں ہوتا تو یہ ووٹ بڑھ کر اکیس ہزار ہوجاتے۔ بائیس اگست سے پہلے ایم کیو ایم نے نو ہزار ووٹوں سے پی آئی بی کا الیکشن جیتا ، عزیز آباد کے حلقے سے ہونے والے انتخاب میں ہم ساٹھ ہزار ووٹوں سے جیتے تھے، اگر ہمیں آئندہ انتخابات میں اسی طرح حصہ لینے کا حق دیا گیا جو دوسری جماعتوں کو حاصل ہے تو پھر حیران کن نتائج ایم کیو ایم کے حق میں سامنے آئیں گے۔ ہم تمام اداروں کو پاکستان کا وفادار اورجمہوریت کا خیر خواہ سمجھتے ہیں اور اگر انہیں کوئی غلط فہمی تھی تو ایم کیو ایم کی موجود قیادت نے اس حوالے سے اپنی ذمے داریاں پوری کی ہیں۔

ایکسپریس: اگر کبھی الطاف حسین کو سیاست کی اجازت مل جاتی ہے، تو آپ کا اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کا کیا لائحہ عمل ہوگا؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی: سیاست ہمارا پیشہ نہیں ہے، اگر کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام کسی اور کو منتخب کرتی ہے تو ہمارے لیے بہتر ہوگا کہ گھر جا کر اپنے اپنے پیشے سے جڑ جائیں، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ اب وہ کام یاب ہو پائیں گے۔اگر لوگوں کو ان سے اتنی ہی محبت ہوتی تو پھر بائیس اگست کا اقدام کام یاب ہو ہی نہیں پاتا۔ اور دوسری بات یہ کہ ہماری لیڈر شپ میں ان کے مزاج ، عمر کے اعتبار سے اور ذہنی صحت کی وجہ سے گزشتہ کئی سال سے بگاڑ پیدا ہوتا جا رہا تھا۔

ایکسپریس: اس سال سانحہ بارہ مئی ایک بار پھر خبروں میں رہا، پی ٹی آئی، پی ٹی ایم اور پیپلز پارٹی نے اس کا ساری ملبہ ایم کیو ایم پر ڈال دیا، اس سانحے میں ایم کیوایم کس حد تک ملوث یا ذمے دار ہے؟ کیا پارٹی کی سطح پر معزول چیف جسٹس (ر) کو کراچی آمد سے روکنے کا فیصلہ کیا گیا تھا؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : آپ ہی بتائیے کہ اس وقت کون سی جماعتیں چوہدری محمد افتخار کے ساتھ تھیں؟ کیا ان تینوں نے جماعتوں نے سابق چیف جسٹس کوان کی موجودگی میں اور بعد میں گالیاں نہیں دیں؟ کیا عمران خان نے اُن پر گزشتہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات اور گالیاں نہیں دیں؟ پاکستان پیپلز پارٹی نے تو انہیں بحال کرنے کی شدید مخالفت کی تھی۔

بات صرف یہ ہے کہ اُس وقت وہ حب علی نہیں، بغض معاویہ کے مصداق چوہدری محمد افتخارساتھ د ے رہے تھے۔ ایم کیوایم منافقت کی سیاست نہیں کرتی اور وہ یہ سمجھتی تھی کہ آؤٹ آف پروپورشن خود ایک آدمی کو انصاف کا منبع سمجھا جا رہا ہے، ہم انصاف کے نہیں انصاف کے نام پر ہونے والی سیاست کے خلاف تھے۔ اسی کے اظہار کے لیے ہم نے بارہ مئی کو ایک ریلی نکالی تھی جس میں خواتین اور بچے شامل تھے، تاہم میں سمجھتا ہوں کہ اس دن ہمارا ریلی نکالنے کا انتخاب غلط تھا، ایم کیو ایم اس جال میں آگئی جو اس کے گرد بُنا گیا تھا۔ یہ لوگ بارہ مئی کی باتیں کرتے ہیں لیکن ستائیس دسمبر کو کیوں بھول جاتے ہیں جب پورے کراچی کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔

بے نظیر بھٹو کی شہادت جہاں ہوئی وہاں صرف ٹائر جلائے گئے اور کراچی میں تو انسان زندہ جلادیے گئے، بچیاں غائب کر دی گئیں۔ یہ کیسے سوگواران بے نظیر تھے جنہیں ’صدمے‘ کے باوجود اتنا ہوش تھا کہ بینک جلانے سے پہلے انہیں لوٹنا ہے، گاڑیاں جلانے سے پہلے ان میں سے قیمتی سامان نکالنا ہے، یہ کیسے سوگواران بے نظیر تھے جنہوں نے گاڑیاں جلنے میں بھی قوم پرستی کو ملحوظ خاطر رکھا، اس دن کراچی میں سترہ سو ساٹھ گاڑیاں جلائی گئیں جن میں ایک رکشہ اور منی بس نہیں تھی۔ مجھے یقین ہے کہ جن لوگوں نے ستائیس دمبر کو کراچی کو یرغمال بنایا انہیںبے نظیر بھٹوکی شہادت کا پیشگی علم تھااور لوٹ مار کے لیے انہیں تربیت دی گئی تھی، کیوںکہ لوٹ مار کے منظم طریقے سے لے کر ڈنڈے اور آگ لگانے والے کیمیکل تک سب ایک جیسے تھے۔

ایکسپریس: بارہ مئی کو افتخار چوہدری کی مخالفت میں ریلی نکالنے کا فیصلہ کس کا تھا، آپ کی ریلی کا روٹ اولڈ ایریا کی طرف تھا، لیکن پھر آپ کے کارکن شارع فیصل اور ایئر پورٹ پر کیا کر رہے تھے۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : یہ فیصلہ اس وقت کی قیادت کا تھا، میں امریکا میں تھا اور میں نے ریلی نکالنے کی بہت مخالفت کی تھی، حیدر عباس رضوی نے مجھے فون کر کے کہا کہ خدا کے لیے خالد بھائی یہ ریلی رکوائیں، میں نے ڈاکٹر عمران فاروق سے کہا کہ ہم غلط فیصلہ کرنے جا رہے ہیں، یہ ہمارے گرد جال بُنا جا رہا ہے۔ لیکن تمام تر خدشات کے باوجود ریلی نکالی گئی اور اس کے نتائج بھی آپ کے سامنے ہیں۔ اور چلیں اگر ہم پر اس الزام کو درست بھی مان لیا جائے کہ سارا ہنگامہ ایم کیو ایم نے کیا تو پھر تو ایم کیو ایم مسلح ہوکر آئی ہوگی! لیکن باقی لوگ کیوں مسلح تھے؟ اگر ایم کیو ایم کے کارکنان اس سڑکوں پر نہ ہوتے تو کراچی میں وہی کچھ ہوتا جو ستائیس دسمبر کو ہوا۔ لوگ گھروں میں گھُس جاتے، خواتین کی عزتیں محفوظ نہیں رہتیں۔

لوٹ مار کا بازار گرم ہوجاتا۔

ایکسپریس: 2013 کے انتخابات کے بعد رابطہ کمیٹی کے اراکین سے پارٹی کے مرکز پر کارکنوں نے بدسلوکی کی اور مبینہ طور پر تشدد کا نشانہ بھی بنایا، اس کے پیچھے کیا کہانی ہے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : یہ ایک افسوس ناک ترین واقعہ تھا جو قیادت کی غلطی کی وجہ سے وقو ع پذیر ہوا۔ ایم کیو ایم کو آج تک اس کے اثرات کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

ایکسپریس: الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کے دستور میں ترامیم منظور کرلی ہیں؟ جس میں الطاف حسین کا کردار ختم کیا گیا ہے؟ لیکن کیا آپ کو لگتا ہے کہ آپ 2018 کے انتخابات میں ماضی کی طرح کام یابی حاصل کر سکیں گے؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : میرے خیال میں ابھی تک کوئی ایسی سیاسی قیادت نہیں ابھری ہے جس کی وجہ سے لوگ اپنا فیصلہ تبدیل کرلیں۔ ہاں ایم کیو ایم کے گرد ایسے انتظامات ضرور کیے جا رہے ہیں جن کے ذریعے اس کے ووٹ بینک کو کم دکھانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ 2002ء میں مشرف صاحب کے دور جس طرح ہم سے کراچی کی چھے نشستیں چھین کر متحدہ مجلس عمل کودلائی گئیں تھی، اس طرح کا اب بھی کوئی انتظام کیا گیا تو وہ عارضی ثابت ہوگا۔ اگر فیصلہ بیلیٹ نے نہیں کیا، اگر فیصلہ ووٹ نے نہیں کیا تو پھر فیصلہ روڈ کرے گا۔

ہم پاکستان کے آئین اور قانون کی حدود میں رہتے ہوئے پُرامن احتجاج کریں گے۔

ایکسپریس: الطاف حسین کی متنازع تقاریر کی وضاحت رابطہ کمیٹی کے ارکان کرتے تھے، ایسے میں ان کا آف دی ریکارڈ ردعمل کیا ہوتا تھا، ایسا کوئی واقعہ سنائیں۔

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : دیکھیے اس معاملے پر کئی مرتبہ ان کے ساتھ بہت سختی سے بھی بات کی گئی اور کنور نوید نے تو اس حوالے سے ایک پورا مقدمہ بنا کر ان کے سامنے پیش کیا کہ جی آپ کی اس ذہنی حالت کے ساتھ ہم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ آپ کو پتا نہیں ہے کہ آپ کے اس رویے کی وجہ سے تنظیم دن بہ دن کم زور ہوتی جارہی ہے، بعض جگہ کام کرنے کے لیے لوگ نہیں ہیں، اگر آپ اتنے غصے میں اور اتنے متلون مزاج رہے تو پھر آپ راہ نمائی نہیں کر پائیں گے۔

ایکسپریس: مہاجر صوبے کا نعرہ بار بار لگایا جاتا ہے اور پھر یہ نعرہ پُراسرار طور پر غائب ہوجاتا ہے۔ یہ نعرہ لگنے اور اس کے غائب ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : دیکھیے ایم کیو ایم تو بعد میں بنی، اے پی ایم ایس او کے مطالبے میں صوبے کا ذکرتھا۔ ، میں نے پانچ مئی کے جلسے میں بھی کہا کہ ہم ابھی مہاجر صوبے کا نعرہ نہیں لگا رہے، لیکن اس سے دست بردار بھی نہیں ہو رہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان میں مزید صوبے بنائیں۔ موجودہ ایم کیو ایم کا مہاجر نام سے صوبے کا کوئی مطالبہ نہیں ہے، تاہم انتظامی بنیاد پر صوبے بنانے کا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ صرف سندھ نہیں بلکہ پورے پاکستان میں جہاں بھی الگ صوبے کی آواز اٹھ رہی ہے تو وہاں صوبہ بننا چاہیے۔

ایکسپریس: فاروق ستار نے الیکشن نہ لڑنے کا اعلان کیا ہے، کیا اسے آپ اپنے گروپ کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : فاروق بھائی کو اس اعلان کا یاد یھی ہے کہ نہیں؟ شاید انہیں یہ بات یاد بھی نہ ہو، وہ فرسٹریشن میں نہ جانے کیا کیا کہہ رہے ہیں۔ ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ انتخاب لڑیں اور ایم کیو ایم کے پلیٹ فارم سے ہی لڑیں۔ اور ہم ایک ہیں کوئی گروپ اے یا بی نہیں ہے۔

ایکسپریس: ایم کیوایم کے متحد ہوجانے کا کوئی امکان ہے؟ اور کیا ایک دوسرے پر لگائے جانے والے الزامات کے بعد دونوں گروپوں کی موجودہ قیادت اور رابطہ کمیٹیاں ایک ساتھ کام کر سکیں گی؟

ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی : ایم کیو ایم پاکستان پہلے کی طرح ایک متحد اور منظم جماعت ہے۔ چند لوگوں کے نہ ہونے سے پارٹی میں کوئی دراڑیں نہیں پڑی ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کا مرکزی دفتر بہادر آباد ہی ہے۔ میں خود کئی بار ڈاکٹر فاروق ستار کو کنوینئر کا عہدہ واپس لینے کی پیش کر چکا ہوں، لیکن اس شرط کے ساتھ کہ پارٹی کا آئین مقدم ہوگا، اجتماعی فیصلے ہوں گے، کوئی فرد واحد پارٹی کا مالک نہیں ہوگا، انتخابات ہوتے رہیں گے، سربراہ تبدیل ہوتے رہیں گے، پارٹی مفادات کو مقدم رکھنا ہوگا۔ اگر کسی نے کسی پر ذاتی احسان کیا ہے تو وہ اس احسان کا بدلہ اپنے کھاتے سے چکائے پارٹی کے اکاؤنٹ سے نہیں۔

The post اب پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد خود کشی سے کم نہیں ہوگا، ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی appeared first on ایکسپریس اردو.


کم جونگ اور ٹرمپ ملاقات، نئے دور کا آغاز؟

$
0
0

دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جس کی نظریں شمالی کوریا کے صدر کم جونگ اُن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑی ملاقات پر نہ جمی ہوں اور جس نے دونوں رہنماؤں کی ایک ایک حرکت سے طرح طرح کے معانی ومفاہیم اخذ نہ کیے ہوں۔

ملاقات کے مقام کو جس طرح دونوں ملکوں کے قومی پرچموں کے ساتھ سجایاگیاتھا، اس سے پوری طرح واضح ہورہاتھا کہ یہ دو برابر کے رہنماؤںکی ملاقات ہے۔ ملاقات کے لئے دونوں اپنی سمت سے چل کر عین درمیان میں پہنچے اور پھر مصافحہ کیا۔ دونوں میں سے کسی بھی رہنما کو دوسرے کی جانب ایک زائد قدم بھی نہیں بڑھانا پڑا۔ایسا محسوس ہوا جیسے دونوں رہنما رات کو ریہرسل کرتے رہے کہ صبح مصافحہ کرنے کے لئے کہاں تک آگے بڑھنا ہے۔

دونوں رہنما ابھی ایک دوسرے سے بہت دور تھے کہ ڈونلڈٹرمپ نے پہلے ہی اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھادیا۔ ان کا مصافحہ 12سیکنڈ کاتھا، کہا جاسکتا ہے کہ اس مرحلہ پر امریکا کو شمالی کوریا کی مرضی ماننا پڑی،ٹرمپ طویل مصافحہ کرنے والے آدمی ہیں لیکن کم جونگ  نے اُن سے جلد ہی ہاتھ چھڑالیا۔ اس کے بعد ایک مختصر سی ملاقات ہوئی جس میں فوٹوگرافروں کو تصاویر بنانے کا موقع دیاگیا۔ چند لمحوں کی اس ملاقات میں ٹرمپ مسلسل اپنے ہاتھ مَلتے رہے جبکہ کم جونگ سامنے زمین پر دیکھ کر بات کرتے رہے۔

شمالی کوریا اور امریکا کے باہمی تعلقات کے باب میں گزشتہ 65 برسوں کے دوران میں یہ بڑا واقعہ 12جون2018ء کو پیش آیا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ اُن نے سنگا پور کے تفریحی جزیرے ’سینتوسا‘ میں قائم ’کاپیلا‘ ہوٹل میں ایک تاریخی ملاقات کی، 1950ء سے 1953ء تک جاری رہنے والی کوریائی جنگ کے بعد پہلی بار دونوں ملکوں کے سربراہان  نے ملاقات کی ہے، ملاقات قریباً پون گھنٹہ جاری رہی۔

سن 1910ء سے1945ء تک کوریائی خطہ جاپان کے قبضے میں تھا، جنگ عظیم دوم کے اختتام پر اس کے شمالی حصے پر سوویت یونین جبکہ جنوبی حصے پر امریکا نے قبضہ کرلیا، یوں طویل عرصہ سے مختلف بادشاہتوں کے جھنڈوں تلے زندگی بسر کرنے والا یہ عظیم خطہ دوالگ مملکتوں میں تقسیم ہوگیا۔1950 میں شمالی کوریا کی فوجوں نے جنوبی کوریا پر چڑھائی کر ڈالی، یوں جنگ کوریا کا آغاز ہو گیا۔ یہ جنگ تین سال جاری رہی۔ خیال ہے کہ کوریا کی جنگ امریکا کی پہلی محدود جنگ اورپہلی غیر علانیہ جنگ تھی اور امریکا کی پہلی جنگ تھی جسے وہ جیت نہ سکا۔ یہ دنیا کی پہلی جنگ تھی جسے دنیا کی دو سپر طاقتیں (امریکا اور سوویت یونین) ’پراکسی وار‘ کے طور پر لڑتی رہیں۔

تین سالہ جنگ میں30 لاکھ لوگ ہلاک ہوئے جس میں 36940 امریکی شامل تھے۔ یادرہے کہ ویتنام کی 16 سال جنگ میں امریکا کے 58218 شہری مارے گئے تھے۔1953ء میں جنگ بندی عمل میں آئی۔ جزیرہ نما کوریا کی جنگ میں حصہ لینے والے7700 امریکی اب بھی لاپتا ہیں،امریکا کا خیال ہے کہ ان میں سے زیادہ تر شمالی کوریا میں ہیں۔دونوں کوریاؤںکے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت1990 سے 2005 کے عرصے میں 229 افراد کی باقیات امریکہ واپس لائی گئیں، جبکہ اور بہت سی باقیات کی شناخت کرلی گئی تھی، بعدازاں دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے پر یہ سلسلہ رک گیا تھا۔

امریکی نقطہ نظر سے اس ملاقات سے بڑی کامیابی یوں حاصل ہوئی کہ شمالی کوریائی رہنما نے جوہری ہتھیار ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ جواب میں امریکا نے وعدہ کیاکہ وہ جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں روک دے گا، ٹرمپ کا خیال ہے کہ یہ مشقیں معطل کرنے سے امریکا کو’’بچت‘‘ ہوگی۔ امریکا نے 1953ء میں طے پانے والے دفاعی معاہدہ کے مطابق جنوبی کوریا میں اپنے فوجیوںکو تعینات کیا، میزبان ملک کو اڈے اور دیگر تربیتی سہولیات فراہم کی تھیں۔ اس وقت 29ہزار امریکی فوجی جنوبی کوریا میںموجود ہیں۔ یہاں امریکا کے 80کروڑ ڈالر سالانہ کے اخراجات اٹھ رہے ہیں۔اس اعتبار سے دیکھاجائے تو امریکا جیسے ملک کے لئے یہ رقم بہت زیادہ تکلیف دہ نہیں ہے۔

یادرہے کہ امریکا اور جنوبی کوریا کی مشترکہ  فوجی مشقیں کوریائی خطے میں کشیدگی کا بڑا سبب تھیں۔ ایسی مشقوں کے موقع پر شمالی کوریا سمجھتا رہا ہے کہ یہ اس کے خلاف جنگ کی ریہرسل ہیں، وہ ہمیشہ خبردار کرتا رہاکہ  لڑائی شروع ہوئی تو وہ دشمنوں پرکیمیائی ہتھیار برسادے گا۔ اب ڈونلڈ ٹرمپ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ شمالی کوریا کو سلامتی کی ضمانت فراہم کرے گا اور  اس کے خلاف  پابندیوں میں کمی کرے گا، دونوں سربراہان نے ایک دوسرے کو اپنے ہاں دورہ کی دعوت دی، دونوں نے یہ دعوت قبول بھی کرلی۔ دونوں رہنماؤں نے باہمی خوشگوار تعلقات کو شمالی کوریا اور دنیا کے امن کے لیے نہایت کارگر قرار دیتے ہوئے  مندرجہ ذیل چار نکات پر اتفاق کیا:

1۔ اپنے اپنے ملک کی عوام کی امنگوں اور خوشحالی کو مد نظر رکھتے ہوئے امن و استحکام کے لیے امریکا اور شمالی کوریا کے سربراہان نے ایک نئے اور مستحکم تعلق کا عزم کیا ہے۔

2۔ جزیرہ نما کوریا میں پائیدار و مستحکم امن کے قیام کے لیے امریکا اور شمالی کوریا مشترکہ جدوجہد کریں گے۔

3۔ شمالی کوریا رواں سال 27 اپریل کو جاری ہونے والے پنمجوم اعلامیے پر عمل در آمد کو یقینی بناتے ہوئے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی کارآمد کاوشیں کرے گا۔

4۔ امریکا اور شمالی کوریا جنگ کے دوران اسیر اور لاپتہ ہونے والوں کی تلاش کی سنجیدہ کوششیں کریں گے اور جن کی شناخت ہوجائے انہیں فوراً ملک واپس بھیجا جائے گا۔

اعلامیہ میں مزید کہا گیا کہ طے پانے والے امور پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے امریکا کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو شمالی کوریا کے متعلقہ اعلیٰ حکام سے مسلسل رابطے میں رہیں گے اور جلد دونوں ممالک کے اہم حکام کی جانب سے اس حوالے سے ہونے والی اجلاس کی تاریخ کا اعلان کیا جائے گا۔ بعدازاں امریکی صدر سے صحافیوں نے پوچھا کہ ’شمالی کوریا اپنے جوہری ہتھیار کس طرح تلف کرے گا اور اسے کون یقینی بنائے گا؟‘، ٹرمپ  کا کہناتھاکہ ا ن کے خیال میں جاپان اور جنوبی کوریا اس معاملے میں شمالی کوریاکی مدد کے لیے تیار ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ شمالی کوریا کے ساتھ مزید بات چیت میں چین اور جنوبی کوریا بھی شامل ہوں تو بہتر ہوگا۔

ٹرمپ نے واضح کیا کہ شمالی کوریا پر اقتصادی پابندیاں اُس وقت تک برقرار رہیں گی جب تک ان کے بقول وہاں سے’’جوہری ہتھیاروں کی لعنت‘‘ کو ختم نہیں کردیا جاتا۔ دوسری طرف شمالی کوریائی صدر نے کہا کہ امریکا نے اعتماد سازی کے لئے حقیقی اقدامات کئے تو شمالی کوریا بھی خیرسگالی کے مزید اقدامات کرے گا۔ امریکا کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھنے پر اتفاق ہواہے، امریکا سہولتیں دے گا تو شمالی کوریا جوہری ہتھیارکم کرے گا۔ شمالی کوریا میں میڈیا نے اس ملاقات کو خوب نمایاں کیا، یہاں کے عوام بے چینی سے منتظر ہیں کہ ان کے لئے باقی دنیا کے دروازے کھلیں، البتہ جنوبی کوریا سے مشترکہ مشتقیں معطل کرنے کے ڈونلڈٹرمپ کے اعلان کو جنوبی کوریا کو اچھی نظر سے نہیں دیکھاگیاہے۔ یادرہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان اگلی مشقیں اگست میں ہونا تھیں۔

امریکی ماہرین  شمالی کوریائی صدر کے اعلانات اور وعدوں کو علامتی سمجھتے ہیں، ان کے خیال میںکم جونگ اْن کبھی اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو ختم کرنے پر سنجیدہ نہیں ہوں گے۔ امریکی نشریاتی ادارے’وائس آف امریکا‘ کے مطابق اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے کہ شمالی کوریا مکمل طور پر جوہری ہتھیاروں کو تلف کرے۔ اس کے سامنے بھارت اور پاکستان کی واضح مثالیں موجود ہیں،دونوں ممالک جوہری ہتھیار تیار کرنے کے باوجود امریکہ کے قریبی حلیف رہے ہیں لہذا شمالی کوریا کے لیڈر کوئی ایسا راستہ اختیار کر لیں گے۔

جس کے ذریعے امریکہ کو مطمئن بھی رکھا جائے ا ور اپنا جوہری پروگرام بھی جاری رکھا جائے۔ بعض امریکی ماہرین کا کہناہے کہ اعلیٰ ترین سطح پر یہ علامتی سمجھوتہ بھی ایک بڑی کامیابی ہے اور اس میں مزید پیش رفت بعد میں ہونے والے رابطوں سے ہی ظاہر ہوگی۔ امریکی تھنک ٹینک ’بروکنگز انسٹی ٹیوٹ‘ کی سینئر فیلو اور کوریائی اْمور کی ماہر جنگ پاک کہتی ہیں کہ وہ گذشتہ تیس برس سے کم جونگ اْن کو بڑا ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہیں۔ اْن کے مطابق کم اپنے اقتدار کے پہلے چھ برسوں کے دوران امریکہ اور دیگر ممالک کے ساتھ محاذ آرائی اور جوہری اور میزائل پروگرام کو فروغ دینے پر پوری طرح کاربند رہے ہیں تاہم حالیہ دنوں میں اْنہوں نے جس یو ٹرن کا مظاہرہ کیا ہے اْس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 34 سالہ کم نے اپنے والد اور دادا کی طرح زیادہ سے زیادہ دباؤ بڑھانے اور سفارتکاری دونوں میں یکساں مہارت حاصل کر لی ہے۔

اْنہوں نے علاقے میں دلچسپی رکھنے والے تمام ممالک کے ساتھ دو طرفہ رابطوں میں مہارت حاصل کر لی ہے۔ مثلاً وہ  چین سے اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے اور چین کی سائنٹیفک اور ٹیکنالوجیکل ترقی سے فائدہ اْٹھانے کی بات کرتے ہیں جس کی چین اْن سے توقع رکھتا ہے۔ اسی طرح وہ شمالی اورجنوبی کوریا، دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان موجود خونی رشتوں، امن اور اتحاد کی بات کرتے ہیں، ان کی یہ بات جنوبی کوریائی باشندوں کو خوب پسند آئی۔ جنگ پاک کے مطابق: ’’کم جونگ اُن امریکہ کے ساتھ رابطوں کو عمومی سطح پر نہیں دیکھ رہے ہیں بلکہ اْن کی تمام تر توجہ صدر ٹرمپ کے ساتھ رابطے پر ہے۔ یوں وہ اْنہی باتوں پر توجہ دے رہے ہیں جن میں صدر ٹرمپ کو بالخصوص دلچسپی ہے۔

شمالی کوریا اور امریکا کے صدور کی اس ملاقات میں دونوں رہنماؤں نے ایک دوسرے کا جائزہ لیاہے کہ ان کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لئے کیا کچھ ہے۔ فوری طور پر خیرسگالی کے چند معمولی اقدامات کے علاوہ کسی بڑی پیش رفت کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ امکان ہے کہ  امریکا شمالی کوریا کو سہولتیں فراہم کرنے سے پہلے جوہری ہتھیاروں کی تلفی کا سلسلہ شروع کرنے کا مطالبہ کرے، دوسری طرف شمالی کوریا امریکا سے پہلے پابندیاں ختم کرنے کا مطالبہ کرے، یہ ایک نازک مرحلہ ہوگا، اس موقع پر دونوں اقوام کے درمیان باہمی تعلقات میں رخنہ پڑنے کا خدشہ ہے۔ ممکن ہے کہ دونوں ممالک پہلی پیش رفت کے طور پر ایک ایک قدم آگے بڑھائیں، امریکا جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں معطل کرے گا اور شمالی کوریا میزائل تجربے کی ایک سائٹ تباہ کردے گا لیکن اس کے بعد دوسرے قدم کا امکان بہت کم ہے۔

اگرچہ امریکی وزیرخارجہ  مائیک پومپیو امیدظاہر کررہے ہیں کہ شمالی کوریا 2020ء تک  اپنے جوہری ہتھیاروں کی بڑی تعداد تلف کردے گا  تاہم یہ ایسی بات ہے جس پر خود انہیں بھی یقین نہیں ہے۔ امریکا یہ ساری مشق جنوبی کوریا کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کو بھی اپنے اقتصادی منڈی بنانے کے لئے کررہاہے، یہ بات طے ہے کہ اسے یہ سب کچھ شمالی کوریائی میزائلوں کی موجودگی ہی میں کرناہوگا، 34سالہ کم جونگ اُن 72سالہ ٹرمپ کے ٹریپ میں نہیں آنے والا بالخصوص ایک ایسے وقت میں جب امریکا سپرپاور نہیں رہا، محض ایک پاور ہے، جسے بے شمار بیماریوں کا سامنا ہے۔

The post کم جونگ اور ٹرمپ ملاقات، نئے دور کا آغاز؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

جہاںِ گشت

$
0
0

دوسری قسط

سڑک کو زنگ آلود کھمبوں پر لگے ہوئے پیلے بلبوں کی مدقوق روشنی اور بھی تنہا اور ویران بنا رہی تھی۔ شمشیر بہ دست تیز ہوا رگوں کو کاٹ رہی تھی۔ اِکا دُکا کتّے بھونک رہے تھے اور میں تنہا، اس اداس اور ویران سڑک پر چلا جارہا تھا۔ کہاں۔۔۔۔ ؟ یہ تو میں بھی نہیں جانتا تھا۔ بڑی شاہ راہ پر پہنچ کر میں نے اِدھر اُدھر دیکھا، کوئی نہیں تھا، بس سناٹا، اک ہُو کا عالم۔ ایک مکان کے باہر سیمنٹ کی ایک بینچ تھی جس کے نیچے ایک کتّا سو رہا تھا، میں اس بینچ پر جاکر بیٹھ گیا۔ وہ برف کی سل کی طرح سرد تھی، میں اٹھ کر ٹہلنے لگا، رات اور گہری ہونے لگی۔

رات گہری، اداس، تنہا سی، لیکن میں اداس نہیں تھا بالکل بھی نہیں۔ نیند نے مجھ پر اترنا شروع کیا اور میں پھر بینچ پر بیٹھ گیا۔ اب مجھ میں سکت نہیں رہی تھی، میں نے بینچ پر سونے کی کوشش کی لیکن سرد ہوا نے بھی ٹھان لی تھی۔ آخر میں نے بینچ کے نیچے سوئے ہوئے کتے کو پتھر مار کر بھگانے کی کوشش کی اور وہ صبر و رضا کا پیکر مجھے اپنی جگہ دے کر نہ جانے کہاں چلا گیا۔ رب کی کبریائی کا آوازہ بلند ہوا تو میری آنکھ کھل گئی۔ میں نے قریبی مسجد میں جاکر وضو کیا اور خود کو رب کے حوالے کردیا۔ تم آج اتنی دور کیوں آئے نماز پڑھنے۔ ابا جی کے ایک دوست نے مجھے پہچان لیا تھا۔ بس ویسے ہی آگیا۔ تمہارے کام بھی نرالے ہیں کہتے ہوئے وہ چلے گئے۔

نمازی ایک ایک کرکے جانے لگے تو میں مسجد سے باہر نکلا۔ شاہراہ پر چلتے چلتے خاصی دیر ہوگئی تھی، دکانیں بند تھیں لیکن ہوٹل کھل گئے تھے۔ لیکن میں چلا جا رہا تھا اور بار بار اپنی جیب میں پڑے ہوئے اکلوتے سکے کو دیکھتا اور پھر چلنا شروع کردیتا، جب چلنے کی سکت نہیں رہی اور میں ایک فٹ پاتھ پر بیٹھ گیا۔ کیا ناشتہ ہوتا تھا گھر میں پراٹھے، انڈے، مکھن، شہد اور نہ جانے کیا کیا، میرے سامنے یہ سب ناچ رہے تھے اور اب میرے سامنے گھر نہیں فٹ پاتھ تھا اور دور تک کوئی روشنی نہیں تھی۔ پیٹ کی آگ سب سے زیادہ خوف ناک ہوتی ہے، پیٹ کا جہنم کبھی آسودہ نہیں ہوتا مزید مزید کی گردان کرتا رہتا ہے۔ میں دن بھر میں بھوکا پیاسا گھومتا رہا، لیکن اب پھر رات آگئی تھی۔

عشاء کی نماز ادا کرنا دو بھر ہوگیا تھا۔ میں نے نماز ادھوری چھوڑی اور باہر نکل آیا۔ میں جس جگہ نکل آیا تھا یہ سب میرا دیکھا بھالا تھا ۔ قریب ہی ایک قبرستان تھا۔ میں نے رات قبرستان میں گزارنے کا فیصلہ کیا۔ وہ دو قبریں تھیں ساتھ ساتھ سنگ مرمر کی۔ درمیان میں جگہ خالی تھی اور میرے لیے بہت، میں لیٹ گیا لیکن سردی۔

جیتے جی ہی قبرستان پہنچ گئے تم۔ یہ لو، اس نے ایک کالی چادر مجھے دیتے ہوئے کہا۔ تم ہو کون، میں نے پوچھا۔ تم ہمارے ہو بس، کہتے ہوئے وہ چل پڑی اور میں اسے دیکھتا رہ گیا۔ نقاہت کی وجہ سے میرا بُرا حال تھا، میں نے کالی چادر اوڑھی اور پھر مجھے نہیں پتا، میری آنکھ کھلی تو اذان ہورہی تھی، میں نے قریبی مسجد میں نماز ادا کی اور پیٹ بھر کر پانی پیا اور پھر قبرستان آگیا۔ چھوٹے خان آپ صبح صبح یہاں کیا کررہے ہیں۔ وہ بوڑھا گورکن تھا جو اکثر ابا جی کے پاس آتا رہتا تھا۔ نہ جانے کیوں، آئو میرے ساتھ چائے پیتے ہیں، میں اس کے ساتھ چل پڑا۔

قبرستان ہی میں چھوٹا سا گھر تھا اس کا۔ اس کی بیوی مجھے دیکھ کر پریشان ہوگئی۔ چھوٹا خان مجھے مل گیا تو میں اسے بھی ساتھ لے آیا، ہمیں ناشتہ دو۔ چائے کے ساتھ پراٹھے تھے، وہ مجھ بے صبرے کو حیرت سے کھاتا دیکھ رہا تھا۔ میں خان کے پاس جا رہا ہوں آئو چلو، میرے ساتھ۔ آپ جائیں میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ وہ یقیناً مجھے اس طرح قبرستان میں اکیلا اور اتنی صبح دیکھ کر پریشان ہوگیا تھا۔

اب اس شہر میں میرے لیے رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ لیکن جائوں کہاں کرایہ کہاں سے لائوں۔ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا۔ میں سوچنے لگا۔

اب کہاں جائوگے ۔۔۔۔ ؟ وہ پھر میرے سامنے کھڑی تھی۔ تم ہو کون۔ بس تم ہمارے ہو، یہ لو اس نے میری مٹھی میں بہت سے نوٹ دیتے ہوئے کہا لیکن تم ہو کون۔ بس تم ہمارے ہو۔ جائو تسلیم کی راہ بہت مشکل ہے وہ پھر چلی گئی تھی۔

میں تانگے میں بیٹھ کر بس اسٹاپ پہنچا اور کراچی جانے والی بس میں سوار ہوگیا۔ راستے بھر ادھر ادھر دیکھتا رہا۔ طرح طرح کے لوگ، طرح طرح کے مناظر بھاگتے دوڑتے، کئی گھنٹے کا سفر نہ جانے کیسے کٹ گیا اور پھر بڑی بڑی عمارتوں نے میرا استقبال کیا۔ کراچی، مسافر اترنے لگے تھے۔ کاکے تو کہاں اترے گا۔ پتا نہیں۔ ایک بوڑھا مجھ سے مخاطب تھا۔ کیا تیرے پاس پتا ہے۔ میں نے کہا کیسا پتا، جہاں تونے جانا ہے۔ نہیں تو میرے پاس تو نہیں ہے۔ اتنے بڑے شہر میں کیا کرے گا۔ پتا نہیں۔ تو تو بہت مخولی ہے یار۔ چل پھر میرے ساتھ۔ کہاں…؟ میں دھوبی گھاٹ کے پاس رہتا ہوں۔ چلے گا۔

ہاں چلوں گا۔ لیاری ندی کے کنارے دھوبی گھاٹ تھا۔ قریب ہی چھوٹے چھوٹے سے کوارٹر جن میں دھوبی مقیم تھے صبح سویرے دھوبی پٹخا شروع ہوتا اور مغرب تک جاری رہتا۔ بچے ندی میں کھیلتے رہتے اور عورتیں بس پان چباتی اور باتیں کرتی رہتی تھیں۔ مجھے آئے ہوئے دوسرا دن تھا اور میں ہی موضوع گفت گو تھا۔ کس کا لڑکا ہے، گھر سے بھاگ گیا، لگتا تو کسی اچھے گھر کا ہے، اب یہ کرے گا کیا اور نہ جانے کیا کیا۔ جب میں پہنچا تھا تو نمائش لگ گئی تھی۔ نہ جانے کون کون مجھے دیکھنے آیا تھا۔ میرے کپڑے ناقابل استعمال ہوگئے تھے اور کالی چادر نے میرا بھرم قائم رکھا ہوا تھا، لیکن کسی نے میرا نام نہیں پوچھا تھا۔ مجھے وہ سب کاکا کہنے لگے تھے لیکن مجھے یہاں سے جانا تھا۔ کہاں یہ میں نہیں جانتا تھا۔

تیسرے دن فجر میں آنکھ کھلی تو وہ موجود تھی۔ پہنچ گئے تم۔ لیکن تم، تم ہمارے ہو بس۔ جہاں جائوگے ہم ملیں گے۔ قیام موت ہے چلتے رہنا ہے زندگی۔ اور پھر میں مسجد میں تھا۔ نماز ادا کرکے میں بازار نکل آیا سڑک کے کنارے میں چلتا ہوا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا، یہ سب کچھ میرے لیے نیا تھا، ایک دکان کے سامنے جاکر میں رُک گیا۔ اندر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا اور بہت سارے چھوٹے چھوٹے کھلونے بکھرے پڑے تھے۔ آپ کے پاس کوئی کام ہے۔ اس نے میری طرف سر اٹھا کر دیکھا، کیا کام کرسکتے ہو تم۔ کوئی بھی کام ہو کرسکتا ہوں۔

اس نے ایک مشین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ چلا سکتے ہو؟ اگر آپ سکھا دیں تو چلا لوں گا۔ پھر وہ ہنسنے لگا اتنے چھوٹے سے تو تم ہو کیسے چلائو گے۔ چلو یہ لو پلاس اور یہ تار۔ اسے اس سائز میں کاٹتے رہو۔ پھر اس نے چھوٹے چھوٹے پہیوں کی ایک ٹوکری میرے سامنے رکھی اور بہت سی چھوٹے چھوٹی پلاسٹک کی کاریں اور مجھے کام سمجھانے لگا، اس تار کے ایک سرے پر یہ پہیا لگانا ہے۔ پھر اسے کار میں فٹ کرکے دوسرا پہیا لگانا ہے۔ سمجھ گئے۔ میں نے کہا جی سمجھ گیا۔ یہ تھی میری پہلی مزدوری۔

ابا جی کا ایک منیجر تھا اس کا نام تھا قاسم اور اس کی بیوی کا صفیہ۔ وہ ہمارے مکان کے اندر ہی احاطے کے کونے میں جہاں گھوڑے بندھے ہوتے تھے رہتا تھا۔ مجھ سے بہت پیار کرتا اور اکثر وہ مجھے کھلونے لاکر دیا کرتا۔ اور اس کی بیوی صفیہ میرا بہت خیال رکھتی، چھوٹے چھوٹے سے کھلونے، ابا جی کے ڈر سے وہ کھلونے اس کے گھر میں ہوتے تھے اور میں کبھی کبھی ان سے کھیلا کرتا تھا۔

میں سوچتا یہ کھلونے بنتے کیسے ہیں، کون بناتا ہوگا اور سب کے پاس تو یہ ہیں بھی نہیں۔ اب مجھے معلوم ہوا تھا کہ یہ کیسے بنتے ہیں۔ اب تو میں خود بنارہا تھا، میرے سارے کھلونے تو گھر پر ہی رہ گئے تھے۔ کہاں کھوئے ہوئے ہو، دھیان سے کام کرو۔ اپنی انگلی نہ کاٹ لینا ادھر آئو۔ میں نے پلاس زمین پر رکھا اور دکان دار کے پاس پہنچا، جائو سامنے سے چائے لائو۔ اچھا جی قریب ہی ہوٹل پر جاکر میں نے چائے مانگی او جی بسم اﷲ کتنی چائے دوں۔ ایک چائے۔ کیا نام ہے تمہارا، سلطان ہے میرا نام۔ واہ جی بہت اچھا نام ہے۔ میں چائے لے کر پہنچا تو پہلے انھوں نے مجھے گھورا، ایک چائے کیوں لائے۔ تم نہیں پیو گے؟ نہیں جی میں نے کہا، چائے پیا کرو یہ کراچی ہے یہاں چائے کے بغیر گزارا نہیں ہے۔

دوپہر کے کھانے پر بھی انھوں نے بہت اصرار کیا مگر میں کام کرتا رہا۔ مغرب کی اذان ہوئی تو میں مسجد جانے لگا۔ یہ لو اپنی مزدوری سترہ روپے انھوں نے میرے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ جی شکریہ، شکریہ کس بات کا۔ محنت کی کمائی ہے۔ دیکھ کر مزدوری اور کھا چوری، صبح جلدی آجانا۔ میں نے سترہ روپے لیے اور مسجد پہنچا۔ نماز کے بعد میں بہت دیر تک کہیں کھویا رہا۔ میرے سامنے میرے دوست، اسکول، گھر اور کھیل کا میدان گھوم رہے تھے۔ پھر مجھے وہ یاد آئے بہت عجیب عجیب سی باتیں ان کے متعلق مشہور تھیں۔ ہمارے مکان اور اسکول کے درمیان ایک میدان تھا اور میدان کے درمیان ایک کمرہ، باہر ایک بابا بیٹھا ہوتا تھا جس کے چاروں طرف بہت ساری بلیاں بیٹھی ہوئی تھیں۔ رنگا رنگ بلیاں۔ بلیاں ہی بلیاں وہ بلیوں والے بابا مشہور تھے۔

میں نے ان کے پاس کبھی کسی کو بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ بس تنہا بیٹھے رہتے، کبھی دروازہ بند ہوتا وہ نہ جانے کہاں چلے جاتے تھے لیکن بلیاں بدستور وہاں میلہ لگائے رکھتی تھیں۔ بچے کیا بڑے بھی وہاں سے گزرنے سے گھبراتے تھے۔ نہ جانے کیوں۔ ایک دن بادل چھا گئے تو اسکول میں جلدی چھٹی ہوگئی میں اپنے دوستوں کے ساتھ پیدل ہی اپنے مکان کی طرف روانہ ہوا نہ جانے کیا ہوا میں نے اپنے دوستوں سے کہا آج بلیوں والے بابا کے پاس چلیں۔ سب نے انکار کردیا کہ وہاں نہیں جانا۔ وہ بہت خطرناک ہیں، وہ جادوگر ہیں۔

وہ انسان کو جادو سے بلی بنادیتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا۔ لیکن مجھ پر دھن سوار تھی میں ان سے ضرور ملوں گا سب نے میرا ساتھ چھوڑ دیا۔ لیکن میں نے ٹھان لی تھی کہ ضرور ملوں گا۔ میدان میں داخل ہوتے ہی بوندا باندی شروع ہوگئی وہ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ رہے تھے ایک لمحے کے لیے تو دل میں آیا کہ اپنا ارادہ اور راہ بدل لوں لیکن پھر میں نے اسے جھٹک دیا۔ وہ اپنی جگہ بیٹھے ہوئے تھے۔ چاروں طرف بلیاں تھیں۔

میں مسلسل آگے بڑھ رہا تھا اور وہ مجھے گھور رہے تھے۔ پھر میں ان کے سامنے تھا وہ ہی کیا ان کی بلیاں بھی مجھے گھور رہی تھیں۔ آپ جن ہیں کیا؟ میرے منہ سے نکلا۔ جادوگر ہیں۔ آپ انسان کو بلی بناکر اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ میں بہت سارے سوالات کر بیٹھا تھا۔ وہ مسکرائے اور اپنے پاس بلاکر بٹھایا۔ میں نے بستہ اپنی گود میں رکھا ہوا تھا۔ برسات ہورہی ہے تمہاری کتابیں بھیگ جائیں گی جائو کمرے میں رکھ آئو اپنا بستہ۔ میں سامنے بنے ہوئے کمرے میں داخل ہوا۔ وہاں کچھ نہیں تھا سوائے ایک سیاہ صندوق کے۔ لکڑی کا کالا سیاہ صندوق، میں نے بستہ اس پر رکھا اور واپس آکر ان کے پاس بیٹھ گیا۔

(جاری ہے۔)

The post جہاںِ گشت appeared first on ایکسپریس اردو.

حالات کی ٹھوکروں سے ’’کِک‘‘ لگانے تک

$
0
0

روس کے میدانوں میں دنیائے کھیل کی عظیم ترین جنگ لڑی جارہی ہے۔ اس معرکے میں بتیس ممالک کے دستے شریک ہیں۔

ہر دستے میں شامل ’سپاہی‘ زندگی کے نشیب و وفراز سے گزرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے ہیں جہاں انھیں اپنے ملک کی جانب سے ’لڑنے‘ کا اعزاز حاصل ہوا۔ تاہم اس معرکے میں شامل کچھ ’سپاہی‘ ایسے ہیں جنھیں اپنی زندگی میں انتہائی نامساعد حالات کا سامنا رہا، مالی مشکلات ، غربت، گھریلو مسائل، اور بے سروسامانی نے ان کا خوب خوب امتحان لیا۔ وہ فٹ پاتھ پر راتیں گزارنے اور گزر اوقات کے لیے چھوٹے موٹے کام کرنے پر مجبور ہوئے، کچھ کو والدین کے باہمی جھگڑوں نے جذباتی دھچکے پہنچائے۔ تاہم اپنے مقصد کی راہ میں حائل ہونے والی ہر رکاوٹ کا انھوں نے پامردی سے مقابلہ کیا اور بالآخر اپنے خوابوں کو تعبیر دینے میں کام یاب ہوگئے۔ ذیل کی سطور میں کچھ ایسے ہی باہمت ’سپاہیوں‘ کا تذکرہ کیا جارہا ہے۔

1 ۔  جیکب بلاشٹی کوفسکی (پولینڈ)

جیکب دس برس کا تھا جب ایک شب اسے اپنی زندگی کے بھیانک ترین واقعے کا شاہد بننا پڑا۔ اس کے والدین کے درمیان لڑائی جھگڑا معمول بن چکا تھا۔ آئے دن کی چخ چخ اور مارکٹائی اس کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کررہی تھی۔ پھر جب ایک رات اس نے اپنے باپ کو ماں پر خنجر سے حملہ آور ہوتے دیکھا تو اس کے اوسان خطا ہوگئے۔ جیکب کی ماں کے قتل کے جُرم میں اس کے باپ کو پندرہ سال کی جیل ہوگئی، یوں وہ ماں کی ممتا کے ساتھ ساتھ شفقت پدری سے بھی محروم ہوگیا۔

ان واقعات کے بعد جیکب اور اس کے بڑے بھائی کو ان کی دادی نے کفالت میں لے لیا۔ یہاں خوش قسمتی سے جیکب کو اپنے چچا کا ساتھ میسر آگیا جو پولینڈ کی قومی فٹبال ٹیم کے کپتان تھے۔ فٹبال کھیلنے کا شوق جیکب کو شروع ہی سے تھا۔ چچا نے اس کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ تمام تلخ یادیں فراموش کرکے صرف اپنے کھیل پر توجہ دے۔ چچا کی حوصلہ افزا باتوں نے جیکب کے اندر نئی روح پھونک دی۔ اس نے فٹبال کی تربیت لینی شروع کی، ساتھ ہی ساتھ خود کو ذہنی طور پر مضبوط کرنے اور تلخ ماضی سے پیچھا چھڑانے کے لیے ماہرنفسیات سے بھی رجوع کیا۔ یہاں سے اس کی زندگی نے ایک نیا موڑ لیا۔ اور کئی برس بعد ان دنوں وہ ورلڈ کپ میں اپنے ملک کی نمائندگی کررہا ہے۔

2 ۔  روبرٹو فرمینو (برازیل)

برازیلی دستے میں مڈفیلڈر کی پوزیشن پر کھیلنے والے فرمینو کی اس کھیل میں آمد معجزے سے کم نہیں تھی، کیوں کہ اس کا خاندان اسے فٹبال کے میدان کے بجائے پڑھائی میں مصروف دیکھنے کا متمنی تھا۔ تازہ انٹرویو میں فرمینو نے انکشاف کیا ہے کہ ’’میرے والدین نہیں چاہتے تھے کہ میں کھیل کود میں وقت ضایع کروں، ان کی دیرینہ خواہش تھی کہ میں تعلیم حاصل کرکے بڑا آدمی بنوں، جب کہ مجھے فٹبال کھیلنے کا جنون تھا۔ تنگ آکر کبھی کبھی وہ مجھے کمرے میں بند کرکے باہر سے تالا لگادیتے تھے مگر میں پھر بھی باز نہیں آتا تھا۔ ہمارے گھریلو حالات بے حد خراب تھے۔ گزربسر کے لیے والدین ناریل کا پانی فروخت کرتے تھے۔ اس کام میں، میں بھی ان کا ہاتھ بٹادیا کرتا تھا، مگر فٹبال سے دوری مجھے پھر بھی گوارا نہیں تھی۔‘‘

بالآخر قسمت روبرٹو پر مارسیلس پورٹیلا کی صورت میں مہربان ہوئی۔ وہ ڈینٹسٹ تھا۔ اس نے مقامی کلبوں کے درمیان ایک میچ میں روبرٹو کو کھیلتے ہوئے دیکھا۔ فٹبال کا رسیا مارسیلس بھانپ گیا کہ اس لڑکے میں ایک اچھا کھلاڑی بننے کی صلاحیت موجود ہے۔ مارسیلس نے روبرٹو کو اس کا ایجنٹ بننے کی پیش کش کردی۔ مختلف کلبوں کی جانب سے کھیلتے ہوئے آخرکار وہ قومی ٹیم کا حصہ بننے میں کام یاب ہوگیا۔

3 ۔  گیبریل جیسس (برازیل)

2014ء کا ورلڈ کپ برازیل میں منعقد ہوا تھا۔ مانچسٹر سٹی کا یہ اسٹار اس وقت کلب کی ٹیم کا حصہ ضرور تھا مگر فرسٹ ڈویژن کے مقابلوں میں اس کی آمد نہیں ہوئی تھی۔ کلب کی طرف سے اسے برائے نام معاوضہ ملتا تھا جس سے گزراوقات ممکن نہیں تھی۔ چناں چہ گیبریل روزی روٹی کے لیے محنت مزدوری اور چھوٹے موٹے کام کیا کرتا تھا۔ ورلڈکپ کے دوران اسے ساؤ پالو میں اسٹیڈیم کے اطراف کے راستوں پر پینٹ کرنے کی عارضی ملازمت مل گئی تھی۔

اس کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ چپل ہی خرید سکتا، چناں چہ وہ برہنہ پا ساؤ پالو کی سڑکوں پر برش اور رنگ کا ڈبّا ہاتھ میں لیے صبح سے رات گئے تک کام میں مصروف رہتا تھا۔ اس وقت گیبریل سترہ سال کا تھا۔ باپ نے بہت پہلے گیبیرل اور اس کی ماں سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ گیبریل کی پرورش اس کی ماں نے کی تھی۔ چار سال میں گیبیرل کی زندگی بدل چکی ہے۔ 2014ء کے ورلڈ کپ میں وہ اسٹیڈیمز کے باہر ننگے پاؤں اطراف کے راستوں کو رنگا کرتا تھا، اب اس کے پاؤں میں ہزاروں یورو مالیت کے جوتے نظر آتے ہیں اور وہ اسٹیڈیم کے اندر اپنے ملک کی نمائندگی کررہا ہے۔

4 ۔  علی رضا بیران وند (ایران)

علی رضا گول کیپر ہیں۔ ورلڈ کپ تک ان کی رسائی کے پس پردہ طویل جدوجہد ہے۔ علی رضا کی پیدائش خانہ بدوشوں کے گھر میں ہوئی تھی جن کی گزراوقات کا ذریعہ مال مویشی تھا۔ علی رضا کا بچپن اور لڑکپن مویشی چَراتے ہوئے گزرا تھا۔ اسے فٹبال کھیلنے کا شوق تھا۔ اس شوق کی تکمیل کے لیے اس نے بڑی قربانیاں دیں۔ اہل خانہ سے دوری اختیار کی، کئی برس اس نے خانہ بدوشی کی حالت میں سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر شب بسری کرتے ہوئے گزارے۔ والد اسے فٹبال کھیلنے سے روکتے تھے، چناں چہ اپنے خوابوں کو تعبیر دینے کے لیے وہ گھر سے بھاگ کر تہران آگیا۔ یہاں اس نے ریستورانوں میں بیراگیری سے لے کر، گاڑیاں دھونے تک بے شمار چھوٹے موٹے کام کیا۔ اس دوران اس کی راتیں فٹ پاتھ پر گزرتی تھیں۔ دن میں وہ مقامی کلب کی جانب سے کھیلتا تھا۔ آخرکار علی رضا کی جدوجہد رنگ لانے لگی اور وہ تہران کے ایک بڑے فٹبال کلب نفت نوین کی ٹیم میں شامل ہوگیا۔ اور آج وہ اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے لیے روس میں موجود ہے۔

5 ۔  ڈیلے ایلی (انگلستان)

ڈیلے ایلی کا بچپن پیچیدہ حالات میں گزرا۔ ڈیلے کا باپ ایک نائجیرین قبیلے کا متمول شہزادہ تھا۔ بیٹے کی پیدائش سے ایک ہفتہ قبل وہ اپنی بیوی کو چھوڑ کر چلا گیا۔ ڈیلے کی پرورش ماں نے کی، مگر ماں بھی مے نوشی کی عادی تھی چناں چہ ڈیلے کو صحیح توجہ نہ مل سکی۔ وہ آواراہ لڑکوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا جو منشیات کا استعمال اور جرائم کا ارتکاب کرتے تھے۔ بری صحبت کے باوجود ڈیلے کو فٹبال کھیلنے سے دل چسپی تھی۔ ڈیلے کا کہنا ہے کہ فٹبال کا کھیل اسے سایہ دار شجر کے مانند محسوس ہوتا تھا جس کی چھاؤں میں پہنچ کو وہ گردش دوراں کی دھوپ سے پناہ حاصل کرلیتا تھا۔ آج وہ ایک معروف کھلاڑی اور قومی ٹیم کا رکن ہے۔

6 ۔  جوآن گلرمو کواڈراڈو (کولمبیا)

یہ 1992ء کی بات ہے جب کولمبیا میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ اس وقت جوآن گلرمو چار سال کا تھا۔ ایک روز ان کے قصبے پر مسلح افراد کے ایک گروپ نے دھاوا بول دیا۔ ان کی اندھادھند فائرنگ کی زد میں جوآن کا باپ بھی آگیا۔ جوآن نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے زخمی باپ کو موت کے بے رحم جبڑوں میں جاتے ہوئے دیکھا۔ اس حملے میں دیگر دیہاتیوں کے ساتھ جوآن اور اس کی ماں بھی بچ گئے تھے۔ ماں اسے ساتھ لے کر قصبے سے فرار ہوگئی۔ اس نے اپنے بیٹے کی پرورش کے لیے محنت مزدوری شروع کردی۔ لڑکپن کی حدود میں قدم رکھنے کے بعد جوآن بھی ماں کا سہارا بن گیا۔ محنت مزدوری کے ساتھ وہ فٹبال بھی کھیلنے لگا تھا۔ زندگی کے نشیب وفراز سے گزرتے ہوئے آج وہ اپنے عروج پر ہے۔

7 ۔  وکٹر موسس (نائجیریا)

وکٹر کے والد پادری اور ماں گھریلو خاتون تھیں۔ ملک میں جاری خانہ جنگی کی لہر وکٹر کو یتیم و مسکین کرگئی۔ 2002ء میں حملہ آوروں نے گھر میں گُھس کر پادری اور اس کی بیوی کو قتل کردیا تھا۔ ان لمحات میں ان کا گیارہ سالہ بیٹا اپنے دوستوں کے ساتھ گلی میں فٹبال کھیل رہا تھا۔ اس واقعے کے بعد وکٹر نے کئی برس بے سر و سامانی کے عالم میں گزارے اور پھر انگلینڈ میں سیاسی پناہ کی درخواست دائر کردی۔ بدترین حالات میں بھی فٹبال سے اس کا ناتا نہیں ٹوٹا جس کے صلے میں آج وہ فٹبال کے عالمی مقابلوں میں اپنے آبائی وطن کی نمائندگی کررہا ہے۔

8 ۔  لوکا موڈرک (کروشیا)

کروشیا میں جنگ کا آغاز 1991ء میں ہوا تھا۔ چار سال جاری رہنے والی جنگ 1995ء میں اختتام پذیر ہوئی۔ اس وقت لوکا کی عمر محض پانچ سال تھی۔ لوکا کا باپ کروشین فوج میں سپاہی تھا۔ لوکا کا باپ اور داد اس جنگ کی نذر ہوگیا اور ماں اپنے بیٹے کے ساتھ جنگ زدہ شہر سے ہجرت کرگئی۔ وہ کئی برس تک پناہ گزینوں کے کیمپ میں رہے جہاں لوکا نے فٹبال کھیلنے کا آغاز کیا۔ وہ دوسرے بچوں کے ساتھ کیمپ کے کچے راستوں پر فٹبال کھیلتا تھا۔ لوکا کا کہنا ہے کہ ماضی کی یہ یادیں اس کے لیے بے حد تکلیف دہ ہیں اور وہ انھیں دہرانا نہیں چاہتا۔

9 ۔  جیمی ورڈے (انگلستان)

سولہ سالہ جیمی کو قد چھوٹا ہونے کی بنا پر شیفلڈ وینزڈے نامی کلب نے اپنی ٹیم کا حصہ بنانے سے انکار کردیا تھا۔ اس انکار سے جیمی کو شدید دھچکا لگا تھا، کیوں کہ اسے قوی امید تھی کہ اس کی درخواست منظور کرلی جائے گی اور اسے گزراوقات کا معقول ذریعہ میسر آجائے گا، تاہم یہ امید ٹوٹ گئی۔ وہ ایک بار پھر چھوٹی ٹیموں میں شامل ہوکر فٹبال کھیلنے اور ریستورانوں اور فیکٹریوں میں عارضی ملازمتیں کرنے پر مجبور ہوگیا۔ اس دوران وہ لڑائی جھگڑوں میں بھی ملوث ہوگیا۔ اسے تھانے جانا پڑا جہاں اسے تنبیہہ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ جیمی کی قسمت اس وقت بدلی جب اسے ایک بڑے کلب لیشسٹر کی ٹیم کا حصہ بنا لیا گیا۔ یہاں جیمی کا غیرمعمولی ٹیلنٹ کُھل کر سامنے آیا، اور آج وہ قومی ٹیم کی نمائندگی کررہا ہے۔

10 ۔  کارلوس باکا (کولمبیا)

کارلوس اپنی کہانی اپنی زبانی اس طرح بیان کرتے ہیں،’’میرا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے۔ بیس سال کی عمر میں میں اپنے قصبے پورٹو کولمبیا میں ایک بس پر کنڈکٹری کرتا تھا۔ اس سے پہلے بہت سے چھوٹے موٹے کرتا رہا تھا۔ بعد میں بس ڈرائیور ہوگیا۔ مالی مشکلات کے باعث فٹبال سے کئی برس پہلے دور ہونا پڑا تھا، ڈرائیوری ملنے کے بعد کچھ حالات بہتر ہوئے تو یہ پرانی محبت دوبارہ سر اٹھانے لگی۔ میں نے کھیلنا شروع کیا۔ جونیئر سطح کی فٹبال کے لیے ٹیسٹ دیے اور کام یاب رہا۔ پھر خدا کی مہربانی سے آگے بڑھتا چلا گیا اور آج آپ کے سامنے ہوں۔‘‘

The post حالات کی ٹھوکروں سے ’’کِک‘‘ لگانے تک appeared first on ایکسپریس اردو.

اگلے 100 سالوں میں دنیا تباہ ہو جائے گی ؟

$
0
0

خیرہ کن سائنسی ترقی نے جہاں انسان کی زندگی کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے وہیں دنیا کی تباہی کے ممکنہ طریقوں کے امکانات کو بھی بہت حد تک بڑھا دیا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے لے کر ایٹمی اسلحہ تک، انسان یقینا اپنے آپ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے بہت سے طریقوں سے واقف ہوچکا ہے۔

حالیہ برسوں میں سائنس دانوں نے متعدد بار خبردار کیا ہے کہ دنیا کا خاتمہ قریب ہے اور شاید اگلے سو سال تک ہماری یہ دنیا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم خود یعنی انسان بھی نیست و نابود ہوجائیں۔ کہا جاتا ہے کہ تیسری جنگ عظیم جو ایک ایٹمی جنگ ہوگی، اس دنیا اور انسانوں کو ختم کردے گی۔ اس وقت دنیا کے مختلف ممالک کے پاس 15,000 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں جبکہ دنیا کو تباہ کرنے کے لیے صرف 50 تا 100 ایٹم بم ہی کافی ہیں۔ تو کسی ایٹمی حملے کے نتیجے میں یا فصلوں کو تباہ کرنے والے کسی وائرس اور یا پھر کسی وبائی مرض، آبادی کے بے ہنگم پھیلاؤ کی وجہ سے یا پھر بدلتے موسموں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے پڑنے والا قحط اس تباہی کے باعث ہوں گے؟ خوراک اور پانی کے ذخائر اگر ختم ہوجائیں تو لازماً قحط پھوٹ پڑے گا جو انسانیت کے خاتمے کا باعث بن جائے گا۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دنیا اور یہاں موجود زندگی کے اختتام کو صرف یہی خطرات لاحق ہیں یا ان کے علاوہ بھی کچھ ایسے امکانات موجود ہیں جو ایسی ہی تباہی لاسکتے ہیں۔ آئیے آج ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں۔

-1 غیر ارضی مخلوق سے رابطےCantacting Extraterrestrial Life)

SETI مخف ہے The Search For Extraterrestrial Life کا، جس کا مطلب ہے ’’غیر ارضی مخلوق کی تلاش‘‘۔ سائنس دان کسی دوسرے سیارے کی خلائی مخلوق سے رابطہ قائم کرنے کے لیے مسلسل خلا میں ریڈیائی سگنلز بھیج رہے ہیں۔ تاہم اسٹفن ہاکنگ جیسے چند سائنس دان اس عمل کو ایک خطرناک کھیل سمجھتے ہیں جو تمام نوع انسانی کے خاتمے کا سبب بن سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے کولمبس امریکہ پہنچا تو اس نے وہاں کی مقامی آبادی کے بڑے حصے کا صفایا کردیا۔ اگر کوئی خلائی مخلوق زمین پر آتی ہے تو غالب امکان یہ ہے کہ وہ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی کرسکتی ہے۔

-2 زمبی اپوکلیپس (Zombie Apocalypse)

’’زمبی‘‘ اس مردے کو کہتے ہیں جو زندہ ہوگیا ہو۔ اس موضوع پر ہالی وڈ نے کئی فلمیں بھی بنائی ہیں۔ گو یہ خیال کہ مردے زندہ ہوکر آگئے اور انہوں نے باقی زندہ انسانوں کو مارنا شروع کردیا، محال ہی لگتا ہے تاہم ایسی سائنسی توجیہات موجود ہیں جن کے مطابق ’’زمبی‘‘ کی طرح کا خیالی تصور حقیقت کا روپ دھار سکتا ہے۔ ’زندہ لاشوں‘ کے اس تصور کو سمجھنے کے لیے متعدد مثالیں دی جا سکتی ہیں، جیسے دماغ کے طفیلی کیڑے (جس کی ایک مثال گائیوں میں پائی جانے والی ’’میڈکاؤ‘‘ کی بیماری ہے)، نینوبوسٹس یعنی انسانی خلیے کے حجم کا وہ خود مختار روبوٹ جو اکیلا یا بہت بڑی تعداد میں انسانی جسم میں داخل کرکے اس سے کوئی اہم کام سرانجام دلوایا جاسکے۔ (ایسے روبوٹس کا ابھی باقاعدہ استعمال شروع نہیں ہوا) اور نیوروٹاکسن یعنی عصبی خلیوں میں پیدا ہوجانے والے زہریلے مادے۔ یہ وہ حقیقتوں ہیں جن کے ذریعے اس معاملے کو آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ ان تینوں چیزوں میں سے کوئی ایک شے بھی انسان کو پاگل بنانے کا باعث بن سکتی ہے اور پھر ایسا انسان طیش میں آکر دیگر انسانوں کو قتل کرنا شروع کرسکتا ہے۔ سو، ضروری نہیں کہ یہ تصور محض تخیل ہی ہو، بلکہ یہ حقیقت بھی بن سکتا ہے۔

-3 کرہ ارض کے قطبین کی تبدیلی(Earth Pole Shift)

چند سائنس دانوں کا خیال ہے کہ اگر زمین نے کبھی اپنے قطبین یعنی قطب شمالی اور قطب جنوبی کی پوزیشنز کو تبدیل کیا تو یہ عمل انسانوں کو خلا سے آنے والے مردہ ذرات کے سامنے غیر محفوظ بنادے گا اور یہ چیز انسانیت کی مکمل تباہی کے لیے کافی ہے۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہی عمل مریخ پر بھی وقوع پذیر ہوا تھا۔ اس کے نتیجے میں اس کا مقناطیسی میدان کمزور پڑگیا اور یوں اس کا کرۂ فضائی شمسی ہواؤں سے بھرگیا۔ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ایسا ہی ہماری زمین کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

-4 خلائی بستیوں کی بغاوت(Space Colony Uprising)

امید ہے کہ خلائی بستیاں انسانوں کا ممکنہ مستقبل ہیں۔ ناسا (NASA) پہلے ہی سے اس پروجیکٹ پر کام کررہا ہے اور اس مقصد کے لیے مریخ کو چنا گیا ہے۔ چاند پر بستی بسانا بھی اسی منصوبے کا ایک حصہ ہے۔ یہ خلائی بستیاں زمین پر انسانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی اور کوڑے کرکٹ کو کم کرنے کا ایک بہترین حل ہوسکتی ہیں مگر یہ کرۂ ارض کے لیے ایک مسئلے کا باعث بھی بن سکتی ہیں اور وہ یہ کہ اگر کسی خلائی بستی نے بغاوت کردی اور زمین پر ایٹمی حملہ کردیا تو پھر کیا ہوگا؟ کیونکہ ان خلائی بستی والوں کو تو اپنے ناپید ہوجانے کا کوئی اندیشہ یا ڈر خوف ہوگا نہیں۔ کیا خیال ہے یہ ملین ڈالر کا سوال ہے یا نہیں؟

-5 مصنوعی ذہانت(Artificial Intelligence)

کمپیوٹرز اور مصنوعی ذہانت کے حامل روبوٹس پہلے ہی ہزاروں انسانوں کی نوکریوں پر قابض ہوچکے ہیں اور دکھائی یہ دیتا ہے کہ مستقبل میں انسانوں کے لیے زیادہ نوکریاں نہیں بچیں گی۔ بس ایک مرتبہ کمپیوٹرز کے ذی شعور اور انسانوں کی طرح جذبات اور محسوسات کو سمجھ سکنے کے حامل ہونے کی دیر ہے پھر بقول ’’ایلون مسک‘‘ (Elon Musk) اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے دوعظیم سائنس دانوں کے، اس وقت انسانیت کا خاتمہ ہوجانے کا قوی خطرہ موجود ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے موٹر گاڑیوں کے آنے سے گھوڑے کی مسلمہ اہمیت ختم ہوکر رہ گئی تھی۔ اس بارے میں نظریہ یہ ہے کہ انسانوں اور مصنوعی ذہانت کے حامل کمپیوٹرز کا باہمی ملاپ ہوجانے سے یہ کمپیوٹرز ہم انسانوں سے زیادہ طاقتور اور ذہین ہو جائیں گے اور یہ انسانوں کو اپنے ساتھ ایک وسیع تر جنگ میں جھونک دیں گے۔

-6 مسکنوں کی تباہی(Habitat Destruction)

انسانی آبادیوں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی کھپت، جنگلی حیات کے مسکنوں کو مسلسل تباہ و برباد کررہی ہے۔ اس میں سمندر، جنگل، صحرا اور پہاڑ سب جگہیں شامل ہیں جو انسانی دست برد سے بچ نہیں پارہیں۔ جنگلی حیات کے ان مسکنوں کی تباہی کے ذریعے ہم انسان بڑی تیزی سے جنگلی حیات کی بہت سی اقسام اور نسلوں کو معدوم ہو جانے کے خطرے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ اس سے قدرت کی طرف سے ہمارے کرہ ارض میں قائم شدہ حیاتیاتی سائیکل کا توازن بگڑنے کا اندیشہ ہے جویہاں پر زندگی کو رواں دواں رکھنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اگر یہ توازن خراب ہوجاتا ہے تو یہ مشکلات اور مصیبتوں کی ایک پوری پوٹ کو دعوت دینے کے مترادف ہے، جن میں قحط سالی سے لے کر عالمی معیشت کے انہدام تک بہت سی چیزیں شامل ہیں۔

-7 سورج کا بجھ جانا (Solar Shut Down)

ویسے تو سائنس دانوں کا ماننا یہ ہے کہ سورج پانچ بلین سال تک یونہی چمکتا دمکتا رہے گا اور دوسرے سیاروں کے ساتھ ساتھ ہماری زمین کو بھی ایک بلین برس تک حرارت مہیا کرتا رہے گا جو یہاں پر موجود زندگی کی بقا کے لیے ازحد ضروری چیز ہے۔ تاہم یہ امکانات بھی ہمیشہ سے موجود رہے ہیں کہ اندازوں کے برعکس سورج کی موت قبل از وقت ہی وقوع پذیر ہوجائے۔ اس خطرے کی وجہ یہ ہے کہ سورج اکثر و بیشتر اچانک ہی اپنے اوسط درجہ حرارت کی نسبت کچھ ٹھنڈا پڑجاتا ہے۔ اگر کبھی ایسا ہوا کہ سورج ٹھنڈا ہی ہوتا چلا گیا اور دوبارہ گرم نہ ہوا تو یقینا زمین پر حیات منجمد ہوکر رہ جائے گی اور یوں سورج کے ساتھ ساتھ ہمارا یہ پیارا سیارہ بھی بجھ کر رہ جائے گا۔

-8 عظیم الشان آتش فشاں(Super Volcano)

ایسا لگتا ہے کہ ہم ایک ٹک ٹک کرتے ہوئے ٹائم بم پر بیٹھے ہیں جس کا نام ’’ارتھ کور‘‘ (Earth’s Core) یعنی زمین کا اندرونی مرکزی حصہ ہے جو ابھی بھی انتہائی گرم ہے۔ آج سے تقریباً 75,000 سال پہلے زمین کے اس مرکزی حصہ سے گرم گرم لاوا بہت شدت کے ساتھ زمین کی بیرونی سطح (جو اس وقت زیادہ تر سمندری پانی پر مشتمل تھی) کو پھاڑ کر باہر نکلا اور اس نے  ٹھنڈا ہونے پر سخت ہوکر زمین کی شکل اختیار کرلی تھی۔ اسی جگہ

پر آج کل موجودہ بھارت واقع ہے۔ اس واقعہ نے مگر زمین پر بسنے والی تقریباً 95% انواع کا صفایا کردیا۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگلے 80 سالوں میں ایسا ہی ایک اور واقعہ رونما ہونے کے قوی امکانات ہیں۔ خوش قسمتی سے آج ہم سائنسی لحاظ سے اس قابل ہیں کہ اگر ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمیں قبل از وقت ہی اس کے متعلق پتا چل جائے گا کیونکہ امریکا کا جیولاجیکل سروے ڈیپارٹمنٹ اس تمام تر صورت حال پر پوری طرح سے نظر رکھے ہوئے ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ آئندہ اس طرح کے کسی واقعہ کے رونما ہونے کی صورت میں بہرحال زمین پر موجود زندگی بڑے پیمانے پر اجڑ جائے گی۔

-9 روکے نہ جاسکنے والے وبائی امراض (Unstoppable Panemic)

چاہے یہ SARS (سانس گھٹنے کی وبائی بیماری) ہو یا H1 N1 (زکام کی ایک شدید قسم)، ’’ایبولا (Ebola) (اندرونی و بیرونی اخراج خون کا وبائی مرض جس کا اثر گردوں اور جگر پر ہوتا ہے) ہو یا ’’زیکا‘‘ Zika وائرس (جو ڈینگی کی طرح کا ایک وبائی بخار ہے) ہو، اس بات کا قوی امکان ہے کہ کوئی وبائی مرض پھوٹ پڑے جسے بدقسمتی سے ہم روکنے کے لیے پوری طرح تیار ہی نہ ہوں۔

آج اکثر امراض انٹی بائیوٹک کے خلاف مزاحمت کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ بالفرض کوئی مرض ہماری ادویات کے خلاف مدافعتی نظام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور وہ جنگل کی آگ کی طرح پھیلانا شروع ہوجاتا ہے تو یقینا وہ ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر اتھل پتھل کر دے گا۔ اس کی وجہ سے معیشت کا بھٹہ بیٹھ جائے گا اور سماجی زندگی کا بیڑا غرق ہوجائے گا۔ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں محصور اور اپنے گھروں میں قید ہوکر رہ جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس مرض کے متاثرین کے علاوہ ان دیگر عوامل کی وجہ سے فسادات پھوٹ پڑیں گے، ہر طرف افراتفری اور بے چینی پھیل جائے گی اور جنگیں شروع ہوجانے کا بھی اندیشہ ہے جن کی وجہ سے مزید لوگ موت کا شکار ہوجائیں گے۔

-10 بڑھتی ہوئی آبادی (Overpopulation)

ہماری زمین پر پائے جانے والے وسائل محدود ہیں، جنہیں انسان بڑی بے دردی کے ساتھ بے دریغ خرچ کررہا ہے۔ ایک ایوارڈ یافتہ سائنس دان کا دعویٰ ہے کہ زمین پر بڑھتی ہوئی آبادی یقینا ہمیں لے ڈوبے گی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں ہونے والی روز افزوں ترقی اس کی ایک اہم وجہ ہے، جس کی بدولت انسانوں کی اوسط عمر میں کافی اضافہ ہوگیا ہے۔ دنیا کی کل آبادی اس وقت تقریباً سات ارب کے قریب ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جب نو ارب سے تجاوز کرجائے گی تو ہر انسان کے لیے خوراک مہیا ہونا بہت مشکل ہوگا۔ وسائل کی کمی کے باعث معیشت مفلوج ہوجائے گی اور یہ صورتحال بالآخر دنیا بھر میں بھوک کے ایک بھیانک عفریت کو جنم دے گی جو دنیا کے خاتمے کا باعث بن سکتا ہے۔

-11 نینوٹیکنالوجی کی آفت(Nanon Technology Disaster)

نینوٹیکنالوجی وہ صلاحیت ہے کہ جس کے ذریعے ایک ایٹمی ذرے جتنے چھوٹے کمپیوٹرز بنائے جاسکتے ہیں۔ سائنس دان اس ٹیکنالوجی کو مزید بہتر بنانے پر کام کررہے ہیں تاکہ ان کمپیوٹرز کو انسانی جسم میں داخل کر کے اس کے امیون سسٹم یعنی مدافعتی نظام کو مدد دے کر کینسر اور دیگر موذی امراض کا علاج کیا جاسکے۔ دوسرے کئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ یہ ننھے کمپیوٹرز اور بھی کئی مقاصد اور چیزیں بنانے کے لیے استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ابتدائی کام اور تحقیق جاری ہیں۔

دوسری طرف بہت سے سائنس دان ایسے بھی ہیں جن کا ماننا یہ ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی سب کچھ لپیٹ دے اور اپنے راستے میں آنے والی ہر چیز کو بھسم کردے کیونکہ جس طرح انسان مصنوعی ذہانت والے روبوٹس اور کمپیوٹرز بنانے کے لیے کوشاں ہے اور نت نئے تجربات اس ضمن میں کیے جارہے ہیں ان میں یہ تجربہ بھی شامل ہے کہ انسانی جین اور مشین کے اختلاط سے ایک انسان نما روبوٹ یا کمپیوٹر تخلیق کیا جائے جس میں انسان اور کمپیوٹر دونوں کی خصوصیات ہوں اور وہ باقاعدہ اپنی نسل کو بھی آگے بڑھاسکے۔ سو، خطرہ یہ ہے کہ یہ انسان نما کمپیوٹر خودمختار ہو کر بے قابو ہو جائے اور یہ تمام عمل دنیا کی تباہی کا سبب بن جائے۔ تاہم سائنس دان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ نظریہ تکنیکی طور پر ممکن ہے اور یقینا ٹیکنالوجی انسانی زندگی کے لیے آسانیوں کی حامل ہوسکتی ہے۔

-12 شہاب ثاقب کے اثرات(Asteroid Impact)

کسی شہاب ثاقب کا زمین سے ٹکرا جانا دنیا کے خاتمے کا وہ پہلا حقیقی خطرہ ہے جو اس امکان میں حقیقت کا رنگ بھرنے کی موثر صلاحیت رکھتا ہے کیونکہ خلا کے اندر تیرتے بے شمار شہاب ثاقب کسی بھی وقت ہماری زمین کا رخ کرسکتے ہیں اور ان کو روکنے کا کوئی بھی طریقہ موجود نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ہزاروں سال پہلے شہاب ثاقبوں کے زمین پر گرنے کی وجہ سے ہی ڈائنوسارز کی نسل دنیا سے نیست و نابود ہوگئی تھی۔ اسی لیے اب بھی اگر کوئی شہاب ثاقب زمین سے ٹکرایا تو یہ نا صرف انسان بلکہ یہاں بسنے والی دوسری مخلوقات کو بھی تباہ و برباد کردے گا۔

بدقسمتی سے ہالی وڈ والے ایسے موضوعات پر فلمیں بنانا تو بہت پسند کرتے ہیں لیکن ان فلموں میں وہ اس خطرے کا حل یہ دکھاتے ہیں کہ ان شہاب ثاقبوں کو خلائی اسٹینوں میں موجود خلا بازوں کی مدد سے یا پھر زمین سے خلا میں مار کرنے والے ایٹمی میزائلوں کے ذریعے خلا میں ہی تباہ کرکے اس مسئلے کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ’’ناسا‘‘ کے پاس زمین کی طرف بڑھتے ہوئے کسی شہاب ثاقب کو روکنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی شہاب ثاقب زمین کی طرف بڑھے تو پھر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ ہاں، اچھی بات مگر یہ ہے کہ کسی شہاب ثاقب کے زمین سے ٹکرانے کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔

-13 گاما شعاعوں کا پھوٹ پڑنا (Gamma Ray Burst)

گاما شعاعوں کی پھوار توانائی کی ایک انتہائی تیز رفتار، طاقتور اور منہ زور ندی کی مانند ہوتی ہے جو ایٹمی ذرات تک کو تباہ کرنے کے قابل ہوتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر اپنے راستے میں آنے والی کسی بھی چیز کو ختم کردینے کی اہلیت رکھتی ہے۔ سورج سے گاما شعاعوں کی ہلکی ہلکی پھوار ہر وقت پھوٹتی رہتی ہے مگر زمین کے اردگرد موجود غلاف، جسے ’’اوزون‘‘ کہتے ہیں اس پھوار کو روکنے کے لیے ایک عمدہ ڈھال کا کردار ادا کرتی ہے۔ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ انسان اپنی صنعتی ترقی اور اس کے نتیجے میں حاصل ہونے والی تعیشات کے حصول کے لیے اس انتہائی ضروری اور اہم حفاظتی حصار یعنی اوزون کو کمزور کرنے پر تلا ہوا ہے۔

فرض کریں کہ اگر ہم سے ایک ہزار نوری سالوں کے فاصلے پر موجود کوئی ستارہ ٹوٹ کر کسی بلیک ہول میں جاگرتا ہے تو اس کے نتیجے میں گاما شعاعوں کا بڑے پیمانے پر اخراج ہوسکتا ہے اور اگر ان شعاعوں کا رخ ہماری زمین کی طرف ہوجائے تو یہ ناصرف ہماری زمین بلکہ ہماری پوری کہکشاں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے کافی ہے۔ خطرناک بات یہ ہے کہ اگر خدانخواستہ ایسا کچھ ہوتا ہے تو ہمارے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں ہے جو ہمیں بروقت اس خطرے سے آگاہ کرسکے۔ جب تک ہمیں اس بات کا علم ہوگا اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی لیکن خوش قسمتی کی بات یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات رونما ہونے کے امکانات بھی بہت قلیل ہیں۔

-14 جنیاتی طور پر ترمیم شدہ غیر معمولی انسان (Genetically Modified Superhumans)

جنیاتی انجینئرنگ کے کمالات کا سورج طلوع ہوتے ہی سائنس دان تمام نومولود بچوں میں جیناتی تبدیلی کرکے انہیں آج کے انسان کے مقابلے میں مزید ہوشیار تر، تیز و طرار، ذہین و فطین اور مضبوط ترین روپ دینا شروع کردیں گے۔ یہ نئی نسل انسانی جو بہت ذہین اور غیر معمولی ہوگی، یقینی طور پر نوع انسانی کے اپنے ان ہم نسلوں کو جو ان کے مقابلے میں پسماندہ ہوں گے، ناکارہ اور دھرتی پر بوجھ سمجھتے ہوئے آہستہ آہستہ ختم کردیں گے تاکہ ان جیسی غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والی نئی نسل انسانی کے لیے جگہ بن سکے اور صرف وہی زمین کے وسائل سے فائدہ اٹھاسکیں کہ یہی نظر ارتقاء کا اصول ہے۔

-15 موسمیاتی تبدیلیاں (Climate Change)

اچھی بات یہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے مضمرات کا ادراک دنیا کے بیشتر سائنس دانوں کے علاوہ عالمی لیڈروں کے دل و دماغ میں موجود ہے۔ دنیا کو لاحق خاتمے کے خطرات کی فہرست میں سب سے پہلا نمبر موسمیاتی تبدیلیوں کو حاصل ہے۔ تاہم چند سائنس دان پر امید ہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اس عمل کو دھیما یا کم کیا جاسکتا ہے اور شاید ممکنہ طور پر الٹ یا واپس بھی کیا جاسکتا ہے جبکہ دوسرے سائنس دانوں کے خیال میں یہ سب کچھ عبث ہے اور بہت دیر ہوجانے کی وجہ سے اب اس معاملے کو سدھارنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر موسمیاتی تبدیلیوں کو روکنے کی کوششیں نہ کی گئیں تو موسموں کے مزید شدید ہونے، خشک سالی، قحط اور ان سب کے نتیجے میں ہونے والی جنگلوں سے بچنا محال ہوگا اور یہ سب بد سے بدتر ہوتا چلا جائے گا۔ یہاں تک کہ نسل انسانی اس کرۂ ارضی سے معدوم و ناپید ہوجائے گی۔

zeeshan.baig@express.com.pk

The post اگلے 100 سالوں میں دنیا تباہ ہو جائے گی ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

طیب اردوان کی کامیابی مغرب کے لئے ہضم کرنا مشکل

$
0
0

گزشتہ سترہ برس سے ترکی پر حکمرانی کرنے والے رجب طیب ایردوان جب استنبول کے میئر تھے، انھوں نے مشہور ترک شاعر ضیا گوکل کی ایک انقلابی رباعی ایک جلسہ عام میں پڑھی، جس پر ان کے خلاف مقدمہ قائم ہوا  اور انھیں جیل بھیج دیاگیااور برسوں تک سیاست میں حصہ لینے پر پابندی بھی جھیلنا پڑی۔ رباعی کا خلاصہ یہ ہے: ’’مسجدیں ہماری چھاؤنیاں ہیں، مسجدوں کے مینار ہمارے میزائل اور گنبد ہمارے ٹینک ہیں جبکہ مساجد کے نمازی ہمارے لشکری ہیں۔‘‘

سیکولر فوجی جرنیل محض ان چارمصرعوں کو برداشت نہ کرسکے کیونکہ اس سے ان کے بنائے ہوئے’سیاسی نظام‘ کو ’شدید خطرات‘ لاحق ہوگئے تھے، پھروہی طیب ایردوان  جیل سے باہرآیا تو یہی رباعی جلسوں میں سناتا، ترک قوم کی اکثریت اس پر جھومتی اور ایردوان کو سر،آنکھوں پر بٹھاتی رہی۔ سبب وہ رباعی نہ تھی بلکہ کارکردگی تھی، طیب ایردوان نے معاشی دیوالیہ پن کے شکار ترکی کو زوال کی تہوں سے نکالا اور اسے معاشی، سیاسی اعتبار سے دنیا کی بڑی طاقتوں میں لاکھڑا کیا۔ دو عشرے بیت رہے ہیں، ایردوان ایوان اقتدارمیں موجود ہیں لیکن اقتدار کے بھوکے جرنیلوں کا کہیں نام ونشان نہیں ملتا۔ اس میں بہت سوں کے لئے سیکھنے کو بڑے اسباق موجود ہیں۔

24جون 2018ء کو  منعقدہ  صدارتی انتخابات کے نتیجے میں طیب ایردوان نے52.6 فیصد ووٹ حاصل کرکے پہلے ہی راؤنڈ میںنئے سیاسی(صدارتی) نظام کے تحت  پہلا منتخب  صدر  بننے کا اعزاز حاصل کرلیا، دوسرے نمبر پر اتاترک کی قائم کردہ سیاسی جماعت’ری پبلیکن پیپلزپارٹی‘ کے محرم اینجہ نے30.6 فیصد، تیسرے نمبر پر پانچ کردسیاسی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار صلاح ایدین دیمرتاس نے8.4فیصد، چوتھے نمبر پر نیشنلسٹ جماعت ’حزب الخیر‘ کی بانی سربراہ میرال آکشنر نے7.3فیصد ، پانچویں نمبر پر ’سعادت پارٹی‘ کے تمل کرم اللہ اوغلو نے0.9 فیصد اور چھٹے امیدواردوغو برینجک نے 0.2 فیصد ووٹ حاصل کئے۔

شکست خوردہ محرم اینجہ نے رجب طیب ایردوان اور ان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کے خلاف انتہائی نفرت انگیز تقاریر کرنے میں خوب نام کمایا۔دوسری شکست خوردہ امیدوار میرال آکشنر 1996-97 میں وزیرداخلہ رہیں ، وہ اپنے آپ کو نماز پنجگانہ کی پابند قرار دیتی ہیں، عمومی طور پر وہ بغیر سکارف اوڑھے زندگی گزارتی ہیں لیکن حالیہ صدارتی انتخابی مہم کے دوران میں ان کی ایسی تصاویر عام کی گئیں۔

جن میں وہ باحجاب نظر آئیں، بہرحال وہ ایک نیشنلسٹ نظریات کی حامل فولادی خاتون ہیں۔ چوتھے امیدوار صلاح الدین دیمرتاس کو حالیہ صدارتی انتخابات میں 9.77 فیصد ووٹ ملے، ان کی جماعت نے 2015 کے عام انتخابات میں 13 فیصد ووٹ حاصل کئے تو انھوں نے بھرپور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آج سے ان کی جماعت ایچ ڈی پی ترک جماعت ہے،ایچ ڈی پی ترکی ہے اور ترکی ایچ ڈی پی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2014ء کے صدارتی انتخابات میں بھی انھیں 9.77 فیصد ووٹ ملے تھے۔صلاح الدین دیمرتاس نومبر2016ء سے  جیل میں قید ہیں۔

ان پر الزام تھا کہ وہ علیحدگی پسند کردوں کی ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ پانچویں امیدوار تمل کرم اللہ اوغلو تھے اسلامی جماعت سعادت پارٹی کے امیدوار تھے، 2001ء سے پہلے طیب ایردوان اور کرم اللہ اوغلو نجم الدین اربکان کی قیادت میں  ایک ہی جماعت کا حصہ تھے، یہ جماعت ترک فوجی ڈکٹیٹروں کے ہاتھوں بار بار پابندیوں کی شکار ہورہی تھی، اربکان ہر عام انتخابات میں بڑی کامیابی حاصل کرتے، نوے کی دہائی میں انھوں نے پارلیمان میں اکثریت حاصل کرکے وزارت عظمیٰ بھی حاصل کرلی تھی لیکن فوجی ڈکٹیٹروں نے ان کی حکومت نہ چلنے دی، انھیں برطرف کرکے اور ان کی جماعت پر پابندی عائد کردی۔

جس کے بعد وہ نئے نام سے جماعت قائم کرکے جدوجہد شروع کردی، اب کی بار طیب ایردوان نے ایک مختلف حکمت عملی اختیار کرکے سیاسی جدوجہد کا فیصلہ کیا، جس میں انھوں نے کامیابی حاصل کی تاہم ان کے پرانے ساتھی سعادت پارٹی کے جھنڈے تلے جدوجہد کررہے ہیں۔ دوغو برینجک چھٹے صدارتی امیدوار تھے، بائیں بازو کی وطن پارٹی کے سربراہ 2013ء میں حکومت کے خلاف ایک بڑی بغاوت میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار ہوئے، حکومت کے خلاف اس سازش میں پونے تین سو افراد گرفتار ہوئے تھے جن میں فوجی افسران، صحافی اور ارکان پارلیمان بھی شامل تھے تاہم چند ماہ بعد دوغو برینجک کو رہا کردیا گیا۔

ملک میں24 جون ہی کو پارلیمانی انتخابات منعقد ہوئے جس میں صدر طیب ایردوان کے ’پیپلزالائنس‘ کو53.7 فیصد، اپوزیشن کے نیشنل الائنس کو34 فیصد جبکہ کرد اتحاد ایچ ڈی پی نے11.7فیصد ووٹ حاصل کئے۔ فتح کے بعد ترک صدر نے ایک بڑی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ہم دہشت گرد گروہوں سے مزید قوت سے نمٹیں گے اور دنیا میں ترکی کے کردار کو وسعت دیں گے۔

یادرہے کہ صدارتی انتخابات نومبر2019ء میں ہونا تھے تاہم طیب ایردوان نے اپنی اتحادی جماعت ملی حرکت پارٹی کے سربراہ دولت باہلی سے مشاورت کے بعد قبل ازوقت انتخابات کا اعلان کردیا۔ وقت سے پہلے انتخابات کرانے کا سبب ایردوان نے یہ بتایا:’’ شام میں ترک فوج کے آپریشنز اور خطے بالخصوص شام اور عراق میں تاریخی تبدیلیوں کے تناظر میں ملک کے اندر سے غیریقینی کی صورت حال کا خاتمہ ضروری تھا۔ نئے سیاسی نظام میں جلد داخل ہونا ضروری ہوگیا تھا  تاکہ مستقبل کے بارے میں ٹھوس  فیصلے اور اقدامات کئے جائیں‘‘۔

صدرطیب ایردوان کی کامیابی کو ترک اپوزیشن جماعتوں نے تسلیم کرلیاہے لیکن مغربی ذرائع ابلاغ کا غصہ اور مایوسی دیدنی ہے۔ جب انتخابی نتائج آنا شروع ہوئے تو طیب ایردوان کے حاصل کردہ ووٹوں کی شرح 59 فیصد تھی، اُس  وقت مغربی ذرائع ابلاغ پر تجزیہ کاروں کادعویٰ تھا کہ  یہ  برتری جلد ہی نیچے چلی جائے گی، جب اس شرح میں کمی  واقع ہونے لگی توان مغربی تجزیہ کاروں کی باچھیں کھل اٹھیں۔

ایردوان کی شرح میں مزید کمی آئی تو تجزیہ کار اچھلنے لگے کہ ایردوان ناکامی کی طرف بڑھ رہے ہیں تاہم 60فیصد ووٹوں کی گنتی کے بعد جب ترک صدر کو حاصل کردہ ووٹوں کی شرح میں کمی کا سلسلہ تھم گیا تو ہرمغربی تجزیہ کار کو سانپ سونگھنے لگا۔ پچھلے دو مہینوں کے دوران میں امریکی، برطانوی، فرانسیسی حتی کہ بھارتی اخبارات اور چینلز کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتاتھا کہ ان کے لئے سب سے بڑا خطرہ طیب ایردوان ہی ہیں۔ ان دنوں میں بی بی سی، سی این این اور نیویارک ٹائمز سمیت مغربی ذرائع کی خبریں، تجزیے  پڑھے جاتے تو بخوبی سمجھ آجاتا تو آزادانہ اور غیرجانبدارانہ صحافت کا دعویٰ کرنے والے دراصل زردصحافت ہی کرتے ہیں۔

مغربی ذرائع میں سے بعض نے انتخابی نتائج بتاتے ہوئے کامیابی کو طیب ایردوان کی طرف سے دعویٰ ظاہرکیا۔ اسرائیلی اخبار ’ہرتز‘ نے سرخی جمائی:’’ایردوان کی فتح، ترکی آمریت کی راہ پر‘‘، امریکی ’سی این بی سی‘ کا کہناتھا کہ طیب ایردوان کی کامیابی سے ترک معیشت کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘ بی بی سی کا کہناتھا کہ ملک اس قدرزیادہ تقسیم ہوچکاہے کہ ماضی میں اس کی نظیر نہیں ملتی۔ مغربی ذرائع ابلاغ واضح طور پر ترک قوم کو نصیحت کرتے رہے کہ طیب ایردوان نے بہت عرصہ حکمرانی کرلی، اب تبدیلی آنی چاہئے۔ تاہم مغربی ذرائع نے واضح طور پر یہ نہ بتایا کہ آخر یہ تبدیلی کیوں آنی چاہئے۔ قبل ازانتخاب ’بی بی سی‘ نے ایک سٹوری شائع کی جس کا عنوان تھا:’’ کیا اب ہم عثمانی تھپڑ کھائیں گے؟‘‘ اس سے بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ مغرب طیب ایردوان کو کیوں اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتاہے۔

ترک صدرطیب ایردوان اب کیا کریں گے؟ وہ  ’وژن 2023ء ‘ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں، یہی وژن  مغرب کے لئے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہورہاہے۔ ایردوان نے اپنی قوم سے وعدہ کیاتھا کہ وہ 2023ء تک ترکی کو دنیا کی دس بہترین معیشتوں میں شامل کریں گے، یادرہے کہ اس وقت ترکی دنیا کی اٹھارھویں بڑی معیشت ہے۔ اسلام پسند ترک رہنما 2023ء تک جی ڈی پی کو دوگنا تک بڑھانا چاہتے ہیں۔

اگلے پانچ برسوں کے دوران  فی کس اوسط آمدن 25000 ڈالر(امریکی) کے برابر ہوجائے گی،برآمدات کو 500بلین ڈالر تک بڑھایاجائے گا، غیرملکی تجارت کا حجم ایک کھرب ڈالر تک پہنچ جائے گا، شرح روزگار میں دس درجے کا اضافہ ہوگا، بے روزگاری کی شرح کو پانچ فیصد تک کم کردیاجائے گا، ونڈانرجی میں 20ہزارمیگاواٹ اور جیوتھرمل انرجی میں 600میگاواٹ کا اضافہ  بھی ہدف ہے۔ اسی طرح14700میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے تین نیوکلئیر پلانٹ پیداوارشروع کردیں گے۔

سن2023ء تک ترکی یورپی یونین کا رکن بن جائے گا، وہ خطے کے ممالک کے ساتھ تعاون کو غیرمعمولی حد تک بڑھالے گا، پورے خطے میں تنازعات کو حل کرانے میں اہم کردار ادا کرے گا۔2023ء میں ہرترک شہری کی ہیلتھ انشورنس ہوجائے گی، ملک میں ہر ایک لاکھ افراد کے لئے 210 ڈاکٹرز ہمہ وقت موجود ہوں گے۔ ریلوے ٹریک میں گیارہ ہزار کلومیٹر اور ہائی وے میں 15ہزار کلومیٹر کا اضافہ ہوگا، اسی طرح بندرگاہوں میں بھی اضافہ ہوگا اور انھیں دنیا کی بڑی بندرگاہوں میں شامل کیاجائے گا۔ 2023ء میں ترکی دنیا کا پانچواں بڑا سیاحتی مرکز ہوگا،یادرہے کہ اس وقت اس کی چھٹی پوزیشن ہے۔ اگلے پانچ برس بعد ہرسال 50ملین سیاحوں کی میزبانی کی جائے گی جبکہ اس انڈسٹری سے 50بلین ڈالر کے برابر سالانہ  ریوینیوحاصل کیاجائے گا۔

یہ ہیں وہ اہداف جو طیب ایردوان حاصل کرناچاہتے ہیں، کوئی بھی فرد چشم تصور سے دیکھ سکتاہے کہ 2023ء میں ترکی دنیا میں کس قدر مضبوط معاشی اور سیاسی مقام حاصل کرلے گا،  اُس وقت عالمی فیصلہ سازی میں ترکی اہم کردار ادا کرے گا، ایک مسلمان ملک کو یہ مقام و مرتبہ حاصل ہو، بعض مغربی طاقیں یہ برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ان مغربی قیادتوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا کی باقی اقوام کو مسائل سے دوچار رکھ کر خود حکمرانی کے مزے لیناچاہتی ہیں۔ تاہم طیب ایردوان کی کامیابی کا منطقی نتیجہ یہ ہوگا کہ اگلے پانچ برس بعد ترکی کے اردگرد کے خطے میں معاملات ترکی ہی کی مرضی سے سرانجام دئیے جائیں گے۔ یادرہے کہ فلسطین اور بیت المقدس بھی اسی خطے میں واقع ہے۔

انتخابات سے قبل رائے عامہ کے جائزے کیاظاہر کررہے تھے؟

ترکی کے انتخابی قوانین کے مطابق یوم انتخاب سے دس روز پہلے یعنی چودہ جون کے بعد انتخابی نتائج سونگھنے کی خاطر رائے عامہ کا کوئی بھی جائزہ منعقد نہیں ہوسکتا تھا، اس کے باوجود چند اداروں نے اس ضابطے کی خلاف ورزی کی۔ ان میں سے اداروں کے جائزوں کے مطابق رجب طیب ایردوان پہلے ہی مرحلے میں پچاس فیصد سے زائد ووٹ لے کر صدر منتخب ہوجائیں گے تاہم دو اداروں کے نتائج کے مطابق وہ سب امیدواروں سے کہیں آگے ہوں گے لیکن صدارتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ بھی منعقد ہوگا جو ممکن ہے کہ فیصلہ کن ہو۔ چودہ سے بیس جون کے درمیان میں آپٹیمر کے زیراہتمام سروے میں طیب ایردوان اکاون اعشاریہ چھ فیصد لوگوں کی حمایت حاصل ہے، ان کے مقابل انسی کو اٹھائیس فیصد عوامی حمایت حاصل تھی۔

ایک دوسرے ادارے او آر سی کے مطابق طیب ایردوان پہلے مرحلے ہی میں تریپن فیصد ووٹ حاصل کرلیں گے، اس جائزے کے مطابق انسی کی حمایت انتیس فیصد ہے۔ اے کے اے ایم نامی ادارے کی رپورٹ کے مطابق تئیس جون کو ایردوان کی حمایت چوالیس اعشاریہ پانچ فیصد تھی جبکہ انسی کواٹھائیس اعشاریہ تین فیصد۔ گیزیسی نامی ادارے نے سولہ اور سترہ جون کو لوگوں کی رائے معلوم کی تو معلوم ہوا کہ طیب ایردوان کو اڑتالیس اعشاریہ دو فیصد جبکہ انسی کو انتیس فیصد عوامی حمایت حاصل تھی۔

The post طیب اردوان کی کامیابی مغرب کے لئے ہضم کرنا مشکل appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4746 articles
Browse latest View live