Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4760 articles
Browse latest View live

’’قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گُم‘‘، انضمام یا صوبہ۔۔۔ کیا ہوگا فاٹا کے لیے منصوبہ

$
0
0

خیبرپختون خوا سے ملحقہ قبائلی ایجنسیوں کی تعداد سات ہے، جنہیں فاٹا یعنی فیڈرلی ایڈمنسٹریٹڈ ٹرائبل ایریاز‘‘ کہا جاتا ہے، جب کہ کچھ علاقے پراونشلی ایڈمنسٹریڈ ٹرائبل ایریاز ’’پاٹا‘‘ کہلاتے ہیں۔

فاٹا کے علاقے 28773 مربع میل پر پھیلے ہوئے ہیں، فاٹا باجوڑ ایجنسی، مومند ایجنسی، خیبرایجنسی، اورکزئی ایجنسی، کرم ایجنسی، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے۔ ان قبائلی علاقوں میں ملک کے دیگر علاقوں اور صوبوں کی طرح حکومتی قوانین نہیں چلتے، قبائلی علاقے دراصل صدر مملکت یعنی وفاق کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں لیکن صوبے میں یہ اختیارات گورنر کے پاس ہوتے ہیں۔ ایجنسی کا منتظم جو، ضلع کے ڈی سی او کے برابر ہوتا ہے، پولیٹیکل ایجنٹ کہلاتا ہے۔

ماضی میں حکومت برطانیہ نے صوبہ خیبرپختون خوا کے لیے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن کے نام سے قوانین وضع کیے جو عرف عام میں ’’ایف سی آر‘‘ کہلاتے ہیں، جس کے تحت فاٹا کی تمام ایجنسیوں اور ایف آر میں دیوانی اور فوجداری مقدمات اور دیگر معاملات کے فیصلے ہوتے ہیں۔ 1893 ء میں ڈیونڈر لائن معاہدے کے بعد ہندوستان پر قابض انگریزحکم رانوں کو صوبہ خیبرپختون خوا اور بلوچستان کے پختون اور بلوچ اقوام پر حکم رانی کے لیے ایک ایسے قانون کی ضرورت تھی جس میں زیادہ سے زیادہ اختیارات انگریز افسران (پولیٹیکل ایجنٹس) کے پاس ہوں۔ اس مقصد کے لیے انگریزوں نے1901ء میں ایف سی آر کے نام سے ایک قانون نافذ کردیا، جس کے چھ ابواب اور 64 سیکشن ہیں۔

مختلف مکاتب فکر کی جانب سے ایف سی آر پر زیادہ تر تنقید اس لیے کی جاتی ہے کہ ایجنسیوں میں تعینات پولیٹیکل ایجنٹس اکثر اوقات ایف سی آر کا غلط استعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے بے گناہ لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔ انگریز حکمرانوں نے قبائلی علاقوں میں جو انتظامی ڈھانچا مرتب کیا تھا اس نظام کی بدولت برطانوی سام راج کے لیے اپنے گماشتوں کے ذریعے یہاں حکم رانی کرنا ممکن ہوا اور قبائلی عوام کو خودمختاری کے نام پر مغالطے میں رکھ کر فرنگیوں نے دراصل اپنے سام راجی مفادات کو فروغ دیا اور یوں عام قبائلی ایک طویل عرصے تک ایک طاقت ور مفاد پرست گروہ کے یرغمال بنے رہے۔

برطانوی سام راج سے چھٹکارا پانے کے لیے قبائلی عوام نے بے شمار قربانیاں دیں تاکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک پاکستان میں ان کے ساتھ بھی دیگر علاقوں کے باشندوں کی طرح سلوک کیا جاسکے۔ قیام پاکستان کے وقت افغانستان سے تاریخی، خونیں، اسلامی اور ثقافتی رشتہ ہونے کے باوجود قبائل نے خود کو پاکستان کا حصہ بنایا، لیکن آزادی ملنے اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی ان قربانیوں کے ثمرات قبائلی عوام کو نہ مل سکے اور مختلف ادوار میں کسی نہ کسی وجہ کو بہانہ بنا کر ان علاقوں میں اسی نظام کو برقرار رکھا گیا۔ اتنی طویل مدت گزرنے کے بعد بھی قبائلی عوام ملک کی اقتصادی اور سیاسی ترقی کے فوائد سے مستفید نہ ہوسکے، وجہ اس کی یہ ہے کہ سیاسی عوامل سے انہیں الگ رکھا گیا اور یوں سیاسی عمل میں شرکت سے جو اقتصادی اور معاشرتی فوائد جنم لیتے ہیں ان سے قبائلی محروم رہے۔

امریکا، سعودی عرب اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے مل کر دنیا بھر سے جنگ جوؤں کو فاٹا میں لابسانے اور قبائلی علاقوں کو بیس کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا تو بھی قبائل نے ملکی مفاد میں ان لوگوں کو اپنے گھروں میں کیا اپنے دلوں میں بسایا، یہی قبائل ہیں جو گذشتہ 68 سال سے پاکستان کی مغربی سرحد کی حفاظت کررہے ہیں اور مشرقی سرحد کے برعکس کبھی وہاں ایک لاکھ فوج تعینات کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ جب نائن الیون کے بعد پرویز مشرف نے وہاں فوج بجھوانا چاہی تو قبائلی عوام نے فوج کے جوانوں کو ہار اور گل دستے پیش کیے، مگر بقول شاعر

جب پڑا وقت گلستاں پہ تو خون ہم نے دیا
اب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں

جب کبھی مادر وطن کی حفاظت یا جہاد کشمیر کے لیے ضرورت پڑتی ہے تو انہیں قبائل کی جنگی صلاحیتوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے، لیکن جب انہیں اپنے جائز سماجی اور سیاسی حقوق دینے کا وقت آتا ہے تو پھر انہیں دیگر پاکستانیوں کے برابر نہیں سمجھا جاتا۔ ان علاقوں کے محل وقوع کی دفاعی نوعیت کی بدولت سرد جنگ کے زمانے میں بھی جب سوویت یونین اور مغرب کے مابین مخاصمت عروج پر تھی، ان کا مختلف اور شاید مہذب طریقوں سے استحصال کیا گیا، لیکن اب سرد جنگ کا خاتمہ ہو چکا ہے، دنیا میں گلوبلائزیشن اور علاقائی تعاون کے نظریات فروغ پا رہے ہیں تو ان حالات کا اثر یقیناً قبائلی علاقوں میں موجود نظام پر بھی پڑرہا ہے۔

قبائل کے تعلیم یافتہ طبقے کا ایک بڑا حصہ سیاسی تبدیلی کے لیے متمنی رہا، لیکن ان کی بات نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی ٹھہری۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہمارے حکم رانوں نے قبائل کو ریاست کے وجود کا قانونی، آئینی اور انتظامی حصہ بنانا گوارا نہیں کیا۔ وہ ایک ایسے ظالمانہ قانون کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، جس کی مثال آج پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ قبائل اپنے انسانی حقوق کے لیے نہ ہائی کورٹ جاسکتے ہیں اور نہ سپریم کورٹ۔

پاکستان کے موجودہ وزیراعظم میاں نوازشریف نے قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کے لیے سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی، جس نے ایک سال میں اپنی سفارشات مرتب کیں، کمیٹی کی سفارشات میں سرفہرست نکتہ فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کرنا تھا۔ کمیٹی نے گورنر خیبر پختون خوا سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز سے صلاح مشورے کیے اور فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کرنے کے حق میں فیصلہ دیا اور پانچ سال کے عرصے میں اسے مکمل کرنے کے لیے ایک لائحہ عمل بھی ترتیب دیا۔ اس کے علاوہ فاٹا کے منتخب اراکین قومی اسمبلی کا بھی یہی ایک مطالبہ ہے کہ فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کیا جائے۔

ان کا یہ مطالبہ ہر لحاظ سے جائز اس لیے ہے کہ قبائلی عوام کی زندگی کا سارا دارومدار کل بھی خیبر پختون خوا پر تھا اور آج بھی ہے۔ چاہے تعلیم ہو، صحت ہو، روزگار اور کاروبار ہو، قبائلی عوام کا انحصار خیبرپختون خوا ہی پر ہے، جب کہ ساتھ ہی صوبے کے بنے بنائے انتظامی ڈھانچے کو قبائلی علاقوں تک بہ آسانی وسعت دی جاسکتی ہے۔ مطلب یہ مذکورہ شعبوں میں فاٹا کا سارا بوجھ ویسے بھی خیبرپختون خوا اٹھاتا ہے اگر اسے صوبے کا حصہ بنایا جائے تو کون سی قیامت آجائے گی؟ لہٰذا قبائلی علاقے کے ڈھانچے کی درستی کے سلسلے میں اگر موجودہ وفاقی حکومت کچھ اقدامات کرنے کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ ان علاقوں میں تبدیلی لانے کے لیے پالیسی سازی میں یہاں کے عوام کی اکثریت کی آواز نہ سنی گئی تو پھر تمام اقدامات بے فائدہ اور بے نتیجہ ہی رہیں گے۔

قانونی لحاظ سے قبائل ایف سی آر کے قانون کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ اگرچہ اکثر علاقوں کے قبائل خصوصاً نوجوان اب اس قانون کی موجودگی کو ایک آزاد ملک میں اپنے لیے باعث شرم سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ فاٹا کو خیبرپختون خوا میں ضم کیا جائے۔ قبائل کی اکثریت پولیٹیکل ایجنٹ کے مظالم اور اپنے اختیارات سے تجاوز کا رونا روتی ہے۔ ان کی رائے میں اس قسم کا انتظامی ڈھانچا چند افراد کی آمریت کی راہ ہموار کرتا ہے اور یہاں موجود افسر شاہی کے ایک گروہ کے مالی مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔

پولیٹیکل انتظامیہ کے بے تحاشا اختیارات، سول سوسائٹی کے گروپوں کی عدم موجودگی، تعلیم کی کمی اور حالات میں بہتری لانے کے لیے وفاقی حکومت میں حساسیت کا فقدان، وہ اسباب ہیں، جو قبائلی علاقوں کے انتظامی ڈھانچے کو مزید مضبوط کرنے کا سبب بنے رہے ہیں۔ قبائلی علاقے ملک کے پس ماندہ ترین علاقوں میں سے ہیں جہاں فی کس جی ڈی پی باقی سارے ملک کے مقابل میں 50 فی صد سے بھی کم ہے، گذشتہ68 سال میں یہاں کے انفراسٹرکچر کو ترقی دینے اور ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کے سلسلے میں بہت کم کوششیں کی گئی ہیں۔

ان علاقوں کی دفاعی لحاظ سے اہم جغرافیائی حیثیت اور ان میں حکومت کی جانب سے شروع کردہ انسداد دہشت گردی کی مہم کی بدولت سماجی و اقتصادی ترقی کے منصوبوں کی ضرورت اور بھی بڑھ جاتی ہے، لیکن یہ سب کچھ تب ممکن ہوگا جب فاٹا کی قسمت کا فیصلہ جلدازجلد کیا جائے اور حکومت اپنی تشکیل کردہ کمیٹی کی سفارشات پر من وعن عمل کرکے دکھائے، کیوں کہ ملک کی اکثر سیاسی جماعتیں اس بات کے حق میں ہیں کہ فاٹا کو خیبرپختون خوا کا حصہ بنایاجائے، اگرچہ اس وقت صرف دو جماعتیں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور محمودخان اچکزئی کی جماعت اس کی مخالفت کررہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق مولانا فضل الرحمان کی خواہش ہے کہ فاٹا الگ صوبہ بنے تاکہ وہاں پھر ان کی جماعت اقتدار کے مزے لوٹے اور محمود خان اچکزئی اس وجہ سے مخالفت کررہے ہیں کہ فاٹا میں ان کی جماعت کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں۔ بہرحال اگر وفاقی حکومت اپنی ہی کمیٹی کے فیصلے پر عمل کرتی ہے، جو اخلاقاً اور قانوناً کرنا بھی چاہیے، تو فیصلے کے ساتھ ہی قبائلی علاقوں کے لیے ایک جامع ترقیاتی پروگرام اس امر کا متقاضی ہو گا کہ دیگر حصوں کی مانند اس کے لیے بھی فنڈز نئی مردم شماری کی روشنی میں پھر آبادی کی بنیاد پر مختص کیے جائیں۔

تعلیم کے شعبے میں بھی قبائلی عوام باقی سارے ملک کے مقابلے میں کافی پس ماندہ ہیں، وجہ اس کی یہ ہے کہ ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلباء اور طالبات کو اعلیٰ اور پیشہ ورانہ تعلیم کے اچھے اداروں میں داخلہ لینے میں انتہائی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کا معیار یہاں اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتا جب تک لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ یونی ورسٹی قائم نہیں کی جاتی۔

قبائلی علاقوں میں صحت کے نظام کی ابتر صورت حال وہاں پر ہونے والی اکثر بے وقت اموات کی ذمے دار ہے۔ اس شعبے کے انفراسٹرکچر کی ابتری کی بدولت زچہ وبچہ کی اموات کی شرح باقی ملک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔ اس لیے یہاں کے عوام کی ضروریات کے پیش نظر صحت کے شعبے کا ایک مضبوط ڈھانچا بھی تعمیر کرنا ہوگا، اگر اب بھی وزیراعظم میاں نوازشریف نے قبائلی علاقوں کو ملک کا حصہ نہیں بنایا تو انہیں نہ صرف پختونوں کی موجودہ نسل بل کہ آئندہ نسلیں بھی کبھی معاف نہیں کریں گی۔ اگر آج انفارمیشن ٹیکنالوجی اور عالم گیریت کے دور میں بھی قبائلی عوام دورِجاہیلت کے قانون اور انتظام کے شکنجے میں قید رکھے گئے تو اس کے منفی اثرات سے ملک کے دیگر حصے بھی بچ نہیں سکتے، جیسا کہ ہم نے دیکھ بھی لیا اور دیکھ بھی رہے ہیں۔

بہرحال اگر فاٹا اصلاحات کی بات کی جائے تو اس حوالے سے تمام سیاسی جماعتوں کی رائے ایک جیسی ہے، جو فوری اصلاحات کا مطالبہ کررہی ہیں۔ تاہم انضمام کے بارے میں اختلاف رائے موجود ہے اور اس نکتے پر بھی صرف وفاقی حکومت کی اتحادی دو جماعتیں جے یو آئی (ف) اور پختون خوا ملی عوامی پارٹی تاحال مخالفت کررہی ہیں، جب کہ ملک کی دیگر چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں فوری انضمام کے حق میں کھڑی ہوئی ہیں۔ اگر جمہوری تقاضوں کو مدنظر رکھا جائے تو اس وقت فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام کی حامی سیاسی و غیرسیاسی قوتوں کی تعداد زیادہ اور ان کا پلڑا بھاری ہے۔ مرکز میں برسراقتدار جماعت پاکستان مسلم لیگ ن، پی ٹی آئی، پی پی پی، اے این پی، جماعت اسلامی، کیو ڈبلیو پی اور ایم کیو ایم انضمام کی بھرپور حمایت کررہی ہیں۔

جہاں تک جے یو آئی کی بات ہے تو وہ بھی انضمام کی مخالف نہیں بل کہ اسے طریقۂ کار پر اعتراض ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ انضمام کے بارے میں ریفرنڈم کرایا جائے، مگر قانونی اور آئینی ماہرین کے مطابق ریفرنڈم اس لیے ممکن نہیں کہ ملک کے آئین میں اس طرح کے ریفرنڈم کی گنجائش ہی نہیں، کیوں کہ ایسا کرنے سے پھر ایک نیا دروازہ کھل جائے گا۔ پھر ہزارہ، جنوبی پنجاب اور بہاول پور صوبے کے لیے بھی ریفرنڈم کے مطالبات سامنے آنا شروع ہوجائیں گے۔ ریفرنڈم ہی کو بنیاد بنانا ہے تو پھر سیاسی حلقوں کے مطابق 2013ء کے انتخابات میں اس حوالے سے ریفرنڈم ہو چکا ہے۔

جائزہ لیا جائے تو فاٹا کی تاریخ میں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کے حصول کی بنیاد پر پی ٹی آئی نشستوں کے لحاظ سے فاٹا کی سب سے بڑی جماعت ہے، جے یو آئی دوسرے اور مسلم لیگ (ن) تیسرے نمبر پر ہے۔ 2013ء کے عام انتخابات کے دوران فاٹا سے قومی اسمبلی کی کل بارہ میں سے گیارہ نشستوں پر مقابلہ ہوا، جس میں آزاد امیدواروں کا پلڑا بھاری رہا، جنہوں نے سات نشستیں حاصل کیں، ن لیگ نے دو، پی ٹی آئی اور جے یو آئی نے ایک ایک نشست اپنے نام کی، اے این پی، پی پی اور جماعت اسلامی کوئی نشست حاصل نہ کرسکی۔ ان انتخابات میں فاٹا کے ووٹروں کی تعداد 13 لاکھ سے زاید تھی جن میں سے 5 لاکھ 14 ہزار ووٹروں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا جن میں سے آزاد امیدواروں نے تین لاکھ بائیس ہزار ووٹ حاصل کیے۔

سیاسی جماعتوں کے امیدواروں نے ایک لاکھ 97 ہزار سے زاید ووٹ حاصل کیے۔ ووٹوں کے لحاظ سے تحریک انصاف سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی، جس نے 55376 ووٹ حاصل کیے، دوسرے نمبر پر جے یو آئی رہی، جس کے ووٹوں کی تعداد 49317 رہی، (ن) لیگ 37794 ووٹوں کے ساتھ تیسرے اور جماعت اسلامی 35279 ووٹ لے کر چوتھے نمبر پر رہی۔ اے این پی نے صرف چودہ ہزار اور پی پی پی نے ساڑھے تیرہ ہزار ووٹ لیے۔ فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی مخالفت کرنے والے محمود خان اچک زئی کی جماعت نے صرف ایک حلقے میں امیدوار کھڑا کیا تھا، جس نے محض 282 ووٹ حاصل کیے تھے۔

جے یو آئی کے علاوہ باقی تمام جماعتیں فاٹا کے خیبرپختون خوا میں انضمام کے حق میں ہیں، جن کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ 56 ہزار بنتی ہے۔ اسی طرح جو آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے ان میں سے جو اراکین اسمبلی اس وقت انضمام کی حمایت کر رہے ہیں ان کے ووٹوں کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ بنتی ہے۔ یوں انضمام کے حامیوں نے دو لاکھ چھپن ہزار اور مخالفین نے محض پچاس ہزار کے قریب ووٹ لیے ہوئے ہیں، جس کے بعد تجزیہ کاروں کے مطابق اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ فاٹا کے سیاسی کارکنوں کی اکثریت انضمام کے حق میں ہے۔

اس کے باوجود وفاقی حکومت نے انضمام کا معاملہ ملتوی کر کے شکوک و شبہات کو بڑھا دیا ہے، حالاں کہ یہ ایک ایسا ایشو ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور وزیراعظم نواز شریف اس کی منظوری دے کر تاریخ میں اپنا نام رقم کر سکتے ہی اور ایک ایسے مرحلے پر کہ جب تمام سیاسی و عسکری قوتیں اور فاٹا کے باشندوں کی اکثریت انضمام کی حامی ہے، اس معاملے سے راہ فرار اختیار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب سیاسی جماعتوں اور خود فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ نے لنگوٹ کسنے شروع کر دیے ہیں۔ قبائلی علاقوں کی ساخت اور حالات جوں کے توں رکھے گئے تو اس سے ملک کے دیگر صوبے بھی چین اور سکون کے ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ہمیں اپنے شاعر مشرق حکیم الامت علامہ اقبال کے ان فارسی اشعار کے مفہوم کے پس منظر اور پیش منظر کو سمجھنا ہوگا جن میں کہا گیا ہے کہ ایشیا ایک جسم ہے اور اس جسم میں افغان ملت کی مثال دل کی ہے۔ اگر دل بے قرار ہو تو پورا وجود بے قرار رہتا ہے، اگر دل سکون سے ہو تو پھر پورا وجود سکون میں رہتا ہے۔

The post ’’قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گُم‘‘، انضمام یا صوبہ۔۔۔ کیا ہوگا فاٹا کے لیے منصوبہ appeared first on ایکسپریس اردو.


شدت پسندی جب دہشت گردی کا روپ دھارتی ہے

$
0
0

12 فروری کو پاک فوج کے سربراہ، جنرل قمر جاوید باجوہ نے فاٹا کا دورہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آپریشن ضرب عضب نے شدت پسندوں کی کمر توڑ دی ہے تاہم اگلے ہی ہفتے جنگجوؤں نے پے در پے کارروائیاں کرکے ثابت کردیا کہ ابھی شدت پسندی کا سانپ مرا نہیں۔ پانچ دن میں انھوں نے چاروں پاکستانی صوبوں میں سکیورٹی فورسز، ججوں، میڈیا اور عوام بشمول خواتین اور بچوں کو حملوں کا نشانہ بنایا۔

سانپ کچلنے کی خاطر شدت پسندی کے عفریت کو سمجھنا بہت ضروری ہے جس کے تانے بانے اب ریاستی دہشت گردی سے جاملے ہیں۔ اس کا سہارا لے کر خصوصاً پاکستان پہ پراکسی یا خفیہ جنگ تھوپی جا چکی۔شدت پسندی کی تاریخ جان لینے کے بعد پاکستانی حکومت اور عوام کے لیے آسان ہو گا کہ وہ مل کر اس سانپ کو کچل سکیں جس نے وطن عزیز ہی نہیں پورے عالم اسلام میں جنگ و جدل اور قتل و غارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔یہ تاریخ ڈرامائی اور پُراسرار ہے۔

ماضی پر نظر
دور جدید کے عالم اسلام میں شدت پسندی نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جنم لیا جب مغربی استعماری طاقتوں کے چنگل سے کئی اسلامی ممالک آزاد ہوئے۔ جلد ہی بعض اسلامی ملکوں کے حکمران مغربی (امریکی) سرمایہ دارانہ بلاک یا سویت سوشلسٹ بلاک کا حصّہ بن گئے۔

دورِ غلامی میں استعماری قوتوں سے نبردآزما رہنے والے طبقے خصوصاً بعض علما نے حکمرانوں کو مغربی یا سویت حکمرانوں سے دوستی کی پینگیں بڑھاتے دیکھا تو طیش میں آگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ اپنے مفادات کی خاطر بیرونی طاقتوں کا آلہ کار بن کر یہ غدار حکمران عالم اسلام میں مغربی تہذیب وتمدن پروان چڑھا رہے ہیں۔ مصر ان اولین اسلامی ممالک میں شامل ہے جہاں بعض علما نے حکومتوں اور مغرب پرست مسلمانوں پر حملے جائز قرار دے دیئے۔

شکری مصطفی مصر کی مشہور سماجی و اصلاحی تنظیم، اخوان المسلمون کے کارکن تھے۔ 1965ء میں حکومت نے تنظیم کے پمفلٹ تقسیم کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرلیا۔ شکری پھر چھ سال جیل میں رہے۔ دوران قید انہوں نے مصری عالم دین، محمد قطب کی کتب کا مطالعہ کیا۔ ان کتب میں محمد قطب نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ مصری معاشرہ اب شریعت پر عمل پیر ا نہیں لہٰذا وہ دوبارہ دور جاہلیت میں داخل ہوچکا۔

اس نظریے سے شکری مصطفی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دور جاہلیت میں داخل ہونے کی وجہ سے بیشتر مسلمان مرتد ہوچکے۔ لہٰذا جو مصری شریعت پر عمل نہیں کرتا، اس کا قتل جائز ہے۔ شکری نے پھر اپنی مرتد حکومت ختم کرنے کے لیے ایک تنظیم ’’جماعت المسلمین‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ تنظیم اپنے شدت پسندانہ نظریات کی وجہ سے ’’تکفیر والھجرہ‘‘ بھی کہلاتی ہے۔حکومت مخالف سرگرمیاں انجام دینے پر1977ء میں شکری اور دیگر کارکنوں کو گرفتار کرلیا گیا۔

مارچ 1978ء میں شکری سمیت تنظیم کے چار لیڈروں کو پھانسی دے دی گئی۔ ایمن الظواہری بھی اسی تنظیم کا حصہ تھے جو فرار ہوکر افغانستان پہنچے اور پھر اسامہ بن لادن کے دست راست بن گئے۔مصری علماء کے فتاویٰ کی وجہ سے مصر میں نوجوانوں کی مزید شدت پسند تنظیمیں وجود میں آئیں جو سرکاری افراد، اداروں اور تنصیبات پر حملے کرنے لگیں۔ انہوں نے آخر کار 1981ء میں مصری صدر، انورسادات کو قتل کردیا۔

مصری شدت پسند اپنے نظریات سے اتفاق نہ کرنے والے مسلمانوں کو بھی واجب القتل سمجھتے ۔ یوں وہ جدید دور کے خارجی یا تکفیری کہلائے ۔ جب مصری حکومت نے شدت پسندوں پر کریک ڈاؤن کیا، تو بہت سے افغانستان چلے آئے جہاں افغان مجاہدین سویت حملہ آور فوج کے خلاف جہاد کررہے تھے۔ مصری شدت پسند بھی اس جہاد کا حصہ بن گئے۔

عالم اسلام کے تقریباً سبھی ممالک سے کئی پُر جوش مسلم نوجوانوں نے افغانستان کا رخ کیا تاکہ افغان بھائیوں کی مدد کرسکیں۔ ان میں امیر سعودی خاندان کے چشم و چراغ، اسامہ بن لادن بھی شامل تھے۔ کئی شدت پسند رہنما ان کے ساتھی بن گئے۔تاہم اس وقت شدت پسندوں کا نشانہ وہ استعماری قوتیں تھیں جنہوں نے مسلم علاقوں پر قبضہ کررکھا تھا۔ چناں چہ ان قوتوں کو شکست دینے کی خاطر 1988ء میں ایک جنگجو تنظیم ’’القاعدہ‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔

یہ تنظیم مقبوضہ کشمیر، فلسطین، چیچنیا اور فلپائنی جزائر کو آزاد کرانا چاہتی تھی۔امریکی سرمائے اور اسلحے کے بل بوتے پر افغان اور عرب مجاہدین نے سوویت فوج کو شکست دے دی۔ مگر بعدازاں افغان گروپوں میں خانہ جنگی اور اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی۔ اس جنگ نے افغان نسلوں اور فرقوں کے مابین موجود فرقہ وارانہ، نسلی اور لسانی اختلافات اجاگر کردیئے۔ تب تک پڑوسی پاکستان کا معاشرہ بھی اسی قسم کے اختلافات کا نشانہ بن کر قتل و غارت میں مبتلا ہوچکا تھا۔

پاکستان میں فرقہ وارانہ اختلافات پہلے سے موجودتھے مگر ان کے باعث تشدد و فساد کی نوبت کم ہی آتی ۔ انہوں نے شدت 1978ء کے بعد اختیار کی جب جنرل ضیاء الحق نے مذہبی قوانین متعارف کرائے۔ ایک فرقے نے چند قانون قبول کرنے سے انکار کردیا اور اپنی فقہ رائج کرنے کا مطالبہ کیا۔ تب تک ایران میں اسلامی انقلاب جنم لے چکا تھا۔ نئے ایرانی حکمران عالم اسلام میں راج کرتے بادشاہوں اور آمروں کے خلاف سخت تقریریں کرنے لگے۔

مشرق وسطیٰ میں شاہی خاندانوں کی حکومت تھی لہٰذا انہیں ایرانی حکمرانوں سے خطرہ محسوس ہوا۔ بعض مورخین دعویٰ کرتے ہیں کہ ان حکمرانوں نے پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں مخصوص مدارس کو فرقہ وارانہ تسلط قائم کرنے کے لیے بھاری امداد دی۔

جیسے ہی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تسلط قائم کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔ اِس کا ردعمل لازمی بات تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری شروع ہوگئی۔ اب انتقام کی آگ بھڑک اٹھی اور متحارب فرقوں کے لوگوں نے اپنی اپنی مسلح تنظیمیں قائم کرلیں۔حد یہ ہے کہ ایسی باتیں بھی سامنے آئیں کہ اپنے فرقے کے لوگوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تاکہ دوسرے فرقے پر حملے کا جواز پیدا ہو سکے۔

1980ء میں خلیجی ممالک کی شہ پر عراقی حکمران، صدام حسین نے ایران پر حملہ کردیا۔ مقصد یہ تھا کہ ایرانی حکومت کو عسکری و معاشی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ اس آٹھ سالہ جنگ میں دونوں ممالک کے لاکھوں فوجی اور شہری مارے گئے جبکہ اربوں ڈالر جنگ کی بھٹی کی نذر ہوئے۔

صدام حسین سویت بلاک سے تعلق رکھتا تھا مگر ایران کا مخالف ہونے کی وجہ سے امریکا بھی اسے خفیہ طور پر اسلحہ اور سرمایہ فراہم کرتا رہا۔جب 1988ء میں جنگ ختم ہوئی، تو عراق قرضوں کے بوجھ تلے دب چکا تھا۔خاص طور پر اسے کویت کے 14 ارب ڈالر ادا کرنے تھے۔ جب کویتی حکومت نے قرضے کی واپسی کا مطالبہ کیا، تو صدام حسین نے عراق ایران جنگ ختم ہونے کے صرف دو سال بعد کویت پر دھاوا بولا اور اس پر قبضہ کرکے اسے اپنی مملکت کا انیسواں صوبہ بنادیا۔

پڑوس میں عراقی فوج کی موجودگی سعودی حکومت کو کھٹکنے لگی۔ عراقی فوج ایک جست میں تیل سے بھرے سعودی کنوؤں پر قبضہ کرسکتی تھی۔ سعودی فوج کے پاس جدید اسلحہ تو تھا مگر نفری کم تھی۔ لہٰذا سعودی حکومت مدد کے واسطے اِدھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگی۔ اس زمانے میں اسامہ بن لادن واپس سعودی عرب آچکے تھے۔ انہوں نے سعودی حکومت کو پیش کش کی کہ القاعدہ کے مجاہدین سعودی فوج کے شانہ بشانہ عراقی فوج سے مقابلہ کریں گے۔ تاہم اسامہ کی پیش کش رد کردی گئی۔

جلد ہی سعودی حکومت کی مددکے لیے امریکی فوج آپہنچی اور کویت کو آزاد کرانے کے لیے جنگی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ جب غیر مسلم فوج نے جزیرہ عرب نما میں قدم دھرے، تو اسامہ بن لادن کو شدید تاؤ آگیا۔ انہیں محسوس ہوا کہ سعودی حکومت نے سرزمین حرمین شریفین کا تقدس پامال کردیا۔ چناں چہ انہوں نے حکومت کوشدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ سعودی حکومت نے اسامہ کو نکال باہر کیا اور وہ سوڈان میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے لگے۔ یہ 1992ء کی بات ہے۔

نائن الیون کا تاریخی واقعہ
1992ء ہی میں القاعدہ نے یمن میں مقیم امریکی فوجیوں پر پہلا حملہ کیا جو ناکام رہا۔ امریکی فوجی تو صحیح سالم رہے، البتہ ایک یمنی مسلمان مارا گیا۔یہ پہلا موقع تھا جس نے افشا کیا کہ القاعدہ کے نظریاتی و مذہبی رہنما امریکا اور مغرب سے جنگ کے دوران مسلمانوں اور غیر مسلم شہریوں کی ہلاکت کو بھی جائز قراردے چکے ہیں۔ القاعدہ اور خصوصاً امریکا کے مابین طویل جنگ چھڑگئی۔اس جنگ کا نقطہ عروج ’’واقعہ نائن الیون‘‘ ہے جب القاعدہ کے کارکن امریکی طاقت و عظمت کے استعارے، ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرنے میں کامیاب رہے۔

حقیقتاً 11 ستمبر  2001ء کا واقعہ انقلاب انگیز ثابت ہوا تاہم اس کے متعلق تین مختلف آرا رائج ہیں۔ عام مسلمانوں کی رائے ہے کہ القاعدہ نے امریکی استعمار کو چیلنج کرکے عظیم کارنامہ انجام دیا۔ دوسری رائے یہ کہ واقعہ گیارہ ستمبر میں شہریوں کا قتل کرکے القاعدہ نے آزادی کی تحریکوں کو دہشت گردی کے مماثل بنادیا۔ تیسری رائے یہ کہ یہ حملہ اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں، موساد اور سی آئی اے نے مل کر انجام دیا تاکہ نہ صرف مسلم مجاہدین کو دہشت گرد ثابت کیا جائے بلکہ دین اسلام بھی دنیا بھر میں جنگجوئی کا مترادف بن کررہ جائے۔

واقعہ گیارہ ستمبر کے بعد امریکا نے افغانستان اور عراق پر حملہ کردیا۔ تب القاعدہ کے بہت سے جنگجو پاکستانی سرحدی علاقوں میں چلے آئے۔ ان علاقوں میں آباد پشتون قبائل نے انہیں پناہ دی۔ القاعدہ اور افغان طالبان کے لیڈروں نے پاکستانی سرحدی علاقوں میں ٹھکانے بنائے اور افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج پر شب خون مارنے لگے۔امریکا نے پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ وہ اپنے سرحدی علاقوں میں القاعدہ کے ٹھکانوں کا صفایا کردے۔ چناں چہ 2002ء میں پاک فوج پہلی بار فاٹا اور دیگر سرحدی علاقوں میں داخل ہوگئی۔ وہاں آباد بعض قبائل نے نہ صرف اسے اپنی خودمختاری پر حملہ سمجھا بلکہ وہ جنگجوؤں کو اپنا مہمان بھی سمجھتے تھے۔ چناں چہ وہ بھی شدت پسندوں کے ساتھ پاکستانی سکیورٹی فورسز سے نبرد آزما ہوگئے۔

2003ء میں جنرل مشرف کی حکومت نے ان تنظیموں کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا جو مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے بھارتی سکیورٹی فورسز سے نبرد آزما تھیں۔ اس ’’یوٹرن‘‘ سے تنظیموں کے کئی لیڈروں اور کارکنوں کو سخت صدمہ پہنچا۔ ان میں سے اکثر بعدازاں پاکستانی حکومت کے مخالف بن گئے۔

یوں القاعدہ کے ملکی و غیر ملکی جنگجو، قبائلی اور مقامی فرقہ وارانہ تنظیموں کے گوریلے پاکستانی حکومت سے جنگ کرنے لگے۔یہ مختلف الخیال گروہوں اور متفرق علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کا اکٹھ تھا جنھیں بعض نکات نے یکجا کردیا۔ اول نکتہ یہ کہ غیر اسلامی پاکستانی حکومت کا خاتمہ کرکے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم کی جائے۔ دوم اقلیتی فرقوں کی نسل کشی تاکہ دنیا سے ان کا نام و نشان مٹایا جاسکے۔ ان تنظیموں کے لیڈروں کی اکثریت مذہبی لحاظ سے شدت پسند تھی۔ اعتدال پسند لیڈر خال خال تھے۔

2007ء میں انہی لیڈروں نے تحریک طالبان پاکستان نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تاکہ سبھی ہم خیال تنظیمیں ایک مشترکہ پلیٹ فارم سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔انھوں نے پھر اپنے ہی ہم مذہبوں اور ہم وطنوں کو بے دردی اورشقاوت سے قتل کرناشعار بنا لیا۔درحقیقت مسلم دشمن قوتوں سے زیادہ اپنوں پر ہی حملے کرنا عالم اسلام میں جدید شدت پسندوں کا وتیرہ بن چکا۔اسی لیے بعض مسلم دانشور انھیں مغربی استعمار کا ایجنٹ سمجھتے ہیں۔

غیروں کی سازشیں
یاد رہے، عالم اسلام میں مغرب سے تصادم کی رو نے سب سے پہلے جنم لیا جب رومیوں کے خلاف 9 ہجری (630ء) میں غزوہ تبوک انجام پایا۔ بعدازاں اسلامی فرقوں میں اختلافات پیدا ہوگئے اور مختلف ادوار میں سیاسی یا مذہبی خانہ جنگیوں نے امت مسلمہ کو خاصا نقصان پہنچایا۔ جب پندرہویں اور سولہویں صدی میں دنیا پر تین اسلامی سپرپاورز… عثمانی، صفوی اور مغلیہ کا راج تھا تو تیسری رو سامنے آئی۔یہ تیسری رو غیر مسلم طاقتوں کی پیداوار ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کے بھیس میں اپنے ایجنٹ عالم اسلام بھیجے اور انہیں یہ ذمے داری سونپی کہ وہ اسلامی فرقوں اور حکومتوں کے مابین موجود مذہبی، سیاسی اور معاشی اختلافات کی چنگاریوں کو ہوا دیں تاکہ وہ بھڑک کر شعلے بن جائیں۔ مدعا یہ تھا کہ عالم اسلام میں اتحاد و یک جہتی جنم نہ لے اور مسلمان منتشر ہوکر کمزور ہوجائیں۔

سولہویں صدی کے اواخر سے مغربی استعماری طاقتوں نے عالم اسلام پر دھاوا بول دیا۔ ان طاقتوں میں انگریز سب سے زیادہ چالاک و ہوشیار تھے۔ مثلاً ہندوستان میں قدم جمانے کی خاطر انہوں نے ’’مقامی آبادی کوآپس میں لڑاؤ اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کو رواج دیا۔ مزید براں وہ مقامی افراد میں غدار بھی ڈھونڈنے میں کامیاب رہے۔ نواب سراج الدولہ کا سپہ سالار، میر جعفر انگریزوں کے ہاتھوں بک گیا۔ اُدھر نظام حیدر آباد انگریزوں کے ساتھ مل کر سلطان ٹیپو پر حملے کرتا رہا۔

جنگ ِآزادی1857ء کے موقع پر کئی مسلمان راجوں،سرداروں اور جاگیر داروں نے انگریزوں کو نفری اور سرمایہ فراہم کیا اور بدلے میں اعزازات اور زمینیں پائیں۔روپے پیسے اور جاہ وحشمت کی خاطر ملک وقوم سے غداری کا یہ شرمناک سلسلہ دوسری جنگ عظیم تک جاری رہا۔دوسری جنگ عظیم کے بعد خصوصاً امریکا، اسرائیل اور بھارت اپنی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے اسلامی ممالک میں مذہبی و سیاسی اختلافات کی آگ بھڑکانے لگے۔ یہ تینوں طاقتیں وسائل سے مالا مال عالم اسلام کو انتشار کا شکار دیکھنا چاہتی ہیں۔انھیں بخوبی علم ہے کہ اسلامی ممالک کا اتحاد وجود میں آیا تو امت مسلمہ دنیا کی ایک عظیم قوت بن سکتی ہے۔ متذکرہ بالا تینوں طاقتیں ہی نہیں تقریباً تمام غیر مسلم ممالک عالم اسلام کو یکجا طاقت کے روپ میں نہیں دیکھنا چاہتے کہ یوں دنیا پر ان کی معاشی، تہذیبی،ثقافتی اور سیاسی حکمرانی کا دور ختم ہوسکتا ہے۔

بھارت نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے مشرقی پاکستان میں وفاق کے خلاف زہر پھیلایا اور بنگالی عوام کو باغی بنادیا۔ یہ بغاوت منظم کرنے کی خاطر 1968ء میں خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔ را نے پاکستان توڑنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہی نہیں، تب سے را پاکستان میں علیحدگی پسندوں اور ملک دشمن عناصر کی مدد کررہی ہے۔را کا ایک طریقہ واردات یہ ہے کہ اس کے ایجنٹ پاکستانی مسلمانوں کا روپ دھار کر پاکستان کی گلیوں، بازاروں اور محفلوں میں نفرت انگیز گفتگو کر کے پاکستانی قوم کو اپنے ملک سے متنفر کرتے اور معاشرے میں انتشار پھیلاتے ہیں۔

افغان جہاد کے دوران را نے روسی اور کمیونسٹ افغان حکومت کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں کئی بم دھماکے بھی کرائے جن میں سیکڑوں پاکستانیوں نے جام شہادت نوش کیا۔جب 1990ء کے بعد مقبوضہ کشمیر میں مسلح تحریک آزادی شروع ہوئی، تو اسے ناکام بنانے کی خاطر بھی را نے اہم کردار ادا کیا۔ اس نے مختلف کشمیری تنظیموں میں اپنے ایجنٹ و جاسوس چھوڑ دیئے۔ ان ایجنٹوں نے اپنی شاطرانہ سرگرمیوں سے جہادی کشمیری تنظیموں کے قائدین میں پھوٹ ڈلوا دی۔ چناں چہ ان کے مابین یک جہتی نہ ہونے سے تحریک آزادی کشمیر کو شدید نقصان پہنچا اور وہ کشمیری عوام سے کٹ کر رہ گئی۔ اس تحریک کو کئی سال بعد برہان الدین وانی اور دیگر دلیر کشمیری نوجوانوں نے اپنا لہو بہا کر زندہ کیا۔

پاکستان نشانے پر!
2002ء میں امریکا نے جب افغانستان پر قبضہ کیا اور اپنی کٹھ پتلی حکومت قائم کردی، تو بھارتی بھی وہاں جاپہنچے۔ بظاہر بھارتی افغانستان میں ترقیاتی منصوبے شروع کرنا چاہتے تھے مگر ان کا اصل مقصد پاکستان کی مغربی سرحد کے ساتھ قدم جمانا تھا۔ لہٰذا جوں ہی بھارتی افغانستان میں جم کر بیٹھ گئے، انہوں نے مختلف مقامات پر تربیتی کیمپ قائم کرلیے۔ ان کیمپوں میں علیحدگی پسند اور مذہبی عسکریت پسند تنظیموں کے کارکنوں کو تربیت دے کر مع اسلحہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں داخل کر دیا جاتا تاکہ وہ پاکستانی سکیورٹی فورسز اور سرکاری و نجی املاک پر حملے کرسکیں۔

تحریک طالبان پاکستان کی تشکیل کے بعد راکے ایجنٹ رفتہ رفتہ شدت پسند تنظیموں میں بھی داخل ہوگئے۔ یہ عین ممکن ہے کہ بعض را ایجنٹ اسلامی علوم پر مکمل دسترس رکھتے ہوں۔ ان کا بنیادی مقصد اسلامی احکام و قوانین میں ردوبدل کرکے انہیں ناخواندہ کارکنوں تک پہنچانا ہے۔ مدعا یہ کہ انہیں مذہبی طور پر اتنا شدت پسند بنا دیا جائے کہ وہ اپنے مقصد کی خاطر جان دینے سے بھی خوفزدہ نہ ہوں۔ یہ یقینی ہے کہ را کے ایجنٹوں نے سرمایہ اور اسلحہ فراہم کرکے تحریک طالبان پاکستان کی مختلف تنظیموں میں اثرورسوخ بڑھایا اور آخر کار اس درجے پر پہنچ گئے کہ گروہ کے فیصلوں اور سرگرمیوں پر بھی اثر انداز ہوسکیں۔

بھارت کا حکمران طبقہ اس قدیم جنگی اصول پر یقین رکھتا ہے کہ دشمن کے دشمن کو اپنا دوست سمجھو۔ چناں چہ تمام پاکستان دشمن تنظیموں اور گروہوں کی ہر ممکن مدد کرنا را کا شعار بن چکا۔ جب 2014ء میں جنگجو نریندر مودی بھارتی وزیراعظم منتخب ہوئے تو ان کے دور میں را کی پاکستان دشمن سرگرمیاں اور کارروائیاں عروج پر پہنچ گئیں۔

یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ بھارت کا موجودہ مشیر قومی سلامتی، اجیت دوال نوجوانی میں مسلمان بن کر سات برس پاکستان میں گزار چکا ہے۔ مارچ 2016ء میں پاکستانی سکیورٹی فورسز نے را سے تعلق رکھنے والے ایک اور جعلی مسلمان، کلبھوشن یادو عرف مبارک حسین کو دھرلیا۔ اس نے انکشاف کیا کہ بلوچستان، سندھ اور کراچی کے علیحدگی پسند عناصر کے علاوہ را داعش سے بھی تعاون کررہی ہے تاکہ وہ پاکستان میں دہشت گردی اور تخریب کاری کی سرگرمیاں انجام دے سکے۔

جب امریکا نے عراق پر دھاوا بولا، تو صدام حسین کی شکست کے بعد وہاں امریکی فوج شیعہ اور سنی تنظیموں سے نبرد آزما ہوگئی۔ ان آزادی پسند تنظیموں سے امریکی فوج نے کئی چھوٹے بڑے معرکے لڑے۔ رفتہ رفتہ شیعہ تنظیموں کی مزاحمت تو دم توڑ گئی، البتہ سنیوں کی سب سے بڑی تنظیم، القاعدہ امریکیوں سے نبردآزما رہی۔ تاہم امریکی سکیورٹی فورسز نے پے در پے حملے کرکے اسے نیم مردہ حالت کو پہنچادیا۔

اس دوران عراق میں ایک نئی صورت حال نے جنم لیا۔سنی قبائل نے دعویٰ کیا کہ عراقی حکومت مخصوص طبقات کو نواز رہی ہے اور انہیں نظر انداز کردیا۔ جب شکایات رفع نہ ہوئیں، تو قبائل احتجاج کرنے لگے۔ القاعدہ اور صدام حسین کی فوج کے سابقہ فوجی افسروں نے اس بغاوت سے فائدہ اٹھایا۔ انہوں نے قبائل کو ساتھ ملا کر 2013ء میں ایک نئی تنظیم، اسلامی ریاست عراق و شام کی بنیاد رکھ دی جو عرف عام میں ’’داعش‘‘ کہلاتی ہے۔

داعش کے لیڈر قبائل کی مدد سے ایک بڑی فوج تیار کرنے میں کامیاب رہے۔ اس نے اوائل 2014ء میں عراق و شام کے کئی شہروں پر قبضہ کرلیا۔ قائدین داعش تکفیری نظریات رکھتے ہیں اور آنے والے وقت میں اپنے متنازع اقدامات کی وجہ سے نہایت شدت پسند ثابت ہوئے۔ داعش نے یزیدی مذہب کے پیروکاروں پر ظلم و ستم ڈھایا نیز مخالفین کو ایسی خوفناک سزائیں دیں جو ناقابل فہم ہیں۔ حتیٰ کہ امیر القاعدہ، ایمن الظواہری نے بھی داعش سے ناتا توڑنے کا اعلان کردیا۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکا واسرائیل نے اسلحہ و سرمایہ دے کر داعش کو پروان چڑھایا تاکہ مشرق وسطی میں بدامنی وانتشار کے بیج بوئے جا سکیں۔داعش والوں نے پڑوس میں ہونے کے باوجود آج تک اسرائیل پہ ایک بھی حملہ نہیں کیا۔

جنوری 2015ء میں داعش نے پاکستان و افغانستان میں بھی اپنی موجودگی کا اعلان کردیا۔ اس علاقے کو ’’خراسان صوبے‘‘ کا نام دیا گیا۔دیگر اسلامی ممالک کی طرح ’’صوبہ خراسان‘‘ میں بھی داعش، القاعدہ اور مقامی تنظیموں کے مابین اقتدار پانے اور اثرو رسوخ بڑھانے کی جنگ شروع ہوگئی۔ داعش نے دلیل پیش کی کہ افغان طالبان کی ریاست شرعاً ان کی خلافت کے تابع ہے۔ تاہم افغان طالبان نے یہ دلیل قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چناں چہ القاعدہ و افغان طالبان مل کرداعش سے نبرد آزما ہوگئے۔ شدت پسندوں کی اس خانہ جنگی میں تحریک طالبان پاکستان کی بعض تنظیمیں داعش سے جاملیں جن میں جماعت الاحرار، لشکر جھنگوی اور لشکر جھنگوی العالمی قابل ذکر ہیں۔ اس خانہ جنگی کی لپیٹ میں آکر سیکڑوں افغان ہلاک ہوچکے۔

کمائی کی کمپنیاں
داعش ، القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان، نائجیریا کی بوکوحرام اور عالم اسلام میں کارفرما دیگر شدت پسند جھوٹی بڑی تنظیمیں اب ’’کمپنی‘‘ کی صورت اختیار کرچکیں۔ ایسی ہر شدت پسند ’’کمپنی‘‘ میں اوپر سے نیچے تک روایتی کمپنیوں کے مانند مختلف طبقات میں تقسیم افسر و کارکن پائے جاتے ہیں۔ افسران بالا احکامات جاری کرتے اور کارکن انہیں بجا لاتے ہیں۔ تجربے و درجے کے حساب سے ہر رکن کمپنی کی تنخواہ مقرر ہے۔یہ شدت پسند تنظیمیں اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکس لگا کر، اغوا برائے تاوان، منشیات کی اسمگلنگ، اسلحے کی تجارت، جنگلات کی کٹائی اور دیگر قدرتی وسائل بیچ کر کمائی کرتی ہیں۔ بعض تنظیموں مثلاً تحریک طالبان پاکستان کو بھارت اور امریکا سے بھاری امداد ملتی ہے جبکہ افغان حکومت نے انہیں لاجسٹک سہولیات مہیا کررکھی ہیں۔

کمپنی کی شکل اختیار کرلینے کے باعث خصوصاً دیہی اور پہاڑی علاقوں میں شدت پسند تنظیمیں روزگار کا بڑا ذریعہ بن چکیں۔ غریب اور ناخواندہ نوجوانوں کو جب علم ہوتا ہے کہ یہ تنظیمیں ہزاروں روپے تنخواہ دے رہی ہیں، تو وہ برضا و رغبت ان میں جا شامل ہوتے ہیں۔ یہ تنظیمیں پھر معصوم و سادہ لوح نوجوانوں کی برین واشنگ کرکے انہیں خودکش حملہ آور بنادیتی ہیں۔ کسی کو (خودکشی کے غیر اسلامی راستے) سے جنت پہنچنے کی نوید سنائی جاتی ہے، تو دوسرے کو یقین دلایا جاتا ہے کہ اس کے گھر والوں کو بھاری رقم بطور انعام دی جائے گی۔ غرض منہ مانگی تنخواہ دینے کے باعث شدت پسند تنظیموں کو شدید خطرات کے باوجود مسلسل افرادی قوت مہیا رہتی ہے۔

ڈھائی سال قبل شروع ہونے والے پاک فوج کے آپریشن ضرب عضب نے بہرحال تحریک طالبان پاکستان کی تنظیموں پر کاری ضرب لگائی۔ دیہی علاقوں اور شہروں میں ان کے خفیہ و عیاں ٹھکانے تباہ کردیئے گئے۔ چناں چہ بیشتر تنظیموں کے لیڈر اور کارکن فرار ہوکر افغانستان جاپہنچے۔ وہاں بھارت، امریکا اور افغانستان کا ٹرائیکا ان شدت پسندوں کا سرپرست بن گیا اور انھیں ہر ممکن سہولیات دینے لگا تاکہ وہ پاکستان پہ وار کر سکیں۔

دراصل چین اور روس سے پاکستان کی بڑھتی قربت نے امریکا کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ امریکا عالم اسلام کی اکلوتی ایٹمی طاقت کو اپنے زیر دام رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم اس نے پاکستان کے خلاف خود کوئی قدم نہ اٹھایا بلکہ بھارت کو آگے کردیا۔ یہی وجہ ہے، پچھلے ایک برس سے مودی حکومت کی سرتوڑ کوشش رہی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو یکا و تنہا کردیا جائے تاکہ وہ مجبوراً دوبارہ امریکی کیمپ میں شامل ہوجائے۔

لیکن مودی حکومت کی تمام تر کوششیں بیکار گئیں۔ کئی مواقع پر چین اور روس نے پاکستان کا ساتھ دیا اور مودی حکومت کو منہ کی کھانا پڑی۔ پاکستان عالمی سطح پر تنہا تو کیا ہوتا، مملکت میں بتدریج معاشی استحکام آنے لگا۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ بہترین مارکیٹوں میں سے ایک قرار پائی۔ پھر سی پیک کے منصوبے تیزی سے انجام پانے لگے جو پاکستان کو بین الاقوامی گزرگاہ میں تبدیل کرسکتے ہیں۔ حال ہی میں پاک بحریہ کی بین الاقوامی مشقوں اور پاکستان سپرلیگ کی کامیابی نے بھی مودی حکومت اور اس کے سرپرستوں کو بھونچکا کردیا۔

اس دوران امریکا میں مسلم مخالف جماعت، ریپبلکن پارٹی نے حکومت سنبھال لی۔ اس کا نمائندہ ڈونالڈ ٹرمپ کھل کر مسلمانان عالم کے خلاف کارروائیاں کرنے لگا۔ ٹرمپ انتظامیہ نے مودی حکومت کو بھی ہری جھنڈی دکھادی تاکہ پاکستان کے خلاف نئی پراکسی جنگ شروع کی جاسکے۔ چناں چہ بھارت اور افغانستان نے خصوصاً جماعت الاحرار کو کثیر سرمایہ اور اسلحہ فراہم کردیا تاکہ وہ پاکستان میں دہشت گردانہ سرگرمیوں کا نیا سلسلہ شروع کرسکے۔یہی وجہ ہے ،حالیہ خود کش حملوں کے بعد پاک فوج نے سب سے پہلے افغانستان میں جماعت الاحرار کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔

پاکستان دشمن ریاستوں کی بھر پور کوشش ہے، مختلف الخیال پاکستانی و غیر ملکی تنظیموں کے مابین نیا اتحاد بناکرایک پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے۔ مدعا یہ ہے کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ بے چینی اور انتشار پھیلایا جائے تاکہ چینی اور پاکستانی انجینئر سی پیک کے منصوبے مکمل نہ کرسکیں۔ نیز پاکستان معاشی، سیاسی اور معاشرتی طور پر مستحکم نہ ہونے پائے۔یہی وجہ ہے، جماعت الاحرار کے اعلان کردہ ’’آپریشن غازی‘‘ کا نشانہ پورا پاکستان ہے اور وہ تمام پاکستانی جو اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں۔

یہ وقت کی ضرورت ہے کہ شدت پسندوں اور پاکستان دشمن طاقتوں کے چیلوں کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے لیے تمام پاکستانی باہمی اختلافات بھلا کر ایک ہوجائیں۔ فوج اور پاکستانی عوام یکجا ہوکر ہی ان ملک دشمنوں کو شکست دے سکتے ہیں جو خاکم بدہن پاکستان کو ایک ناکام و کمزور ریاست بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔

جہاد یا اقتدار کی جنگ؟
اسلامی ممالک خصوصاً پاکستان میں جب شدت پسند تنظیموں نے فلاحی اسلامی مملکت کا خیال پیش کیا، تو اسے عوام میں خاصی پذیرائی ملی۔وجہ یہ کہ پاکستان سمیت اکثر اسلامی ملکوں میں قانون کی حکمرانی کمزور ہے اور عام آدمی کو انصاف آسانی سے میسّر نہیں آتا۔ اسی لیے جب شدت پسندوں نے انصاف کی فوری فراہمی کا اعلان کیا تو عوام الناس میں انہیں سراہا گیا۔ تاہم شدت پسندوں نے جب بھی حکومت سنبھالی، تو وہ حکمرانی کا موثر ماڈل پیش کرنے میں ناکام رہے۔ افغانستان میں طالبان برسراقتدار آئے، تو انہوں نے داعش کی طرح سزائوں کے نفاذ میں اپنی بیشتر قوتیں صرف کردیں۔

طالبان نے معیشت کی ترقی اور عوام کی بھلائی کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے پر بہت کم توجہ دی۔ سوات میں بھی پاکستانی طالبان نے کنٹرول سنبھالا تو ان کا سارا زور سزائوں کے نفاذ پر رہا۔ اس روش نے مقامی آبادی کو خوفزدہ کردیا اور سوات میں خوف کے ماحول نے جنم لیا۔

ان شدت پسندوں نے الٹا دین اسلام کو یوں نقصان پہنچایا کہ جہاد کو جنگجوئی کا نام دے دیا۔ چناں چہ عالمی میڈیا کے پروپیگنڈے کی بدولت جہاد اب دہشت گردی اور خون ریزی کا مترادف بن چکا۔ مگر شدت پسندوں کے لیے جہاد کا نظریہ بنیادی ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔جہاد کے لغوی معنی جدوجہد اور سخت محنت و کوشش کرنے کے ہیں۔شرعی معنی یہ کہ انسانیت کی بھلائی اور حق کے پھیلائو کی خاطر ایسی مادی، اخلاقی اور روحانی جدوجہد جو پُر امن اور تعمیری ہو۔ اس جدوجہد کے دوران جب جنگ انسان پر مسلط کردی جائے، تب اسے دفاع میں لڑنے کا حق حاصل ہے۔ اس لڑائی کی اجازت تو بین الاقوامی قانون نے بھی دے رکھی ہے۔

عالم اسلام میں یقیناً ایسے شدت پسند بھی گزرے ہیں جو اقتدار پاکر واقعتاً اسلامی فلاحی حکومت کا قیام چاہتے تھے۔ لیکن موجودہ حالات سے عیاں ہے کہ بیشتر شدت پسند جہاد کی آڑ لے کر ذاتی مفادات کی تکمیل چاہتے ہیں۔ کسی کو ہوس ملک گیری لاحق ہے، تو کوئی مال و دولت سمیٹنا چاہتا ہے۔ کوئی جہاد کو ’’مقدس جنگ‘‘ قرار دے کر حکمرانی پانے کا متمنی ہے۔یہ واضح رہے کہ قرآن کریم میں جنگ کے لیے ’’حرب‘‘ (البقرہ، المائدہ، الانفال، محمد) اور ’’قتال‘‘ (التوبہ، البقرہ، النساء) کے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جبکہ جہاد کو انسان کی اخلاقی و روحانی جدوجہد (العنکبوت۔ 69)، علم و شعور کے پھیلائو میں جدوجہد (الفرقان۔52)، دانش ورانہ جدوجہد (لقمان۔15 اور العنکبوت۔8) اور روحانی و اخلاقی ترقی (العنکبوت۔6) سے بھی تعبیر کیا گیا ہے۔ گویا قرآن پاک کی رو سے جہاد اور جنگ متبادل الفاظ ’’نہیں‘‘ ہیں۔

لیکن شدت پسند قرآن و حدیث کے الفاظ و اصلاحات ’’ہائی جیک‘‘ کرلیتے ہیں تاکہ اپنے مخصوص مفادات پورے کرسکیں۔ وہ انہیں سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کرتے اور فقہی دلائل کا تڑکا بھی لگادیتے ہیں۔ عام لوگ خصوصاً نوجوان لاعلمی کی بنا پر خود ساختہ دلائل کو درست سمجھتے اور شدت پسندوں کے اشاروں پر ناچنے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ وہ اسوہ حسنہﷺ کو بھی خاطر میں نہیں لاتے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پوری حیات مبارکہ میں دفاعی یا مدافعانہ جنگیں لڑیں، آپؐ نے کسی دشمن پر بھی حملہ کرنے میں پہل نہیں فرمائی۔

The post شدت پسندی جب دہشت گردی کا روپ دھارتی ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

روزگار فقیر
مصنف: فقیر سید وحید الدین
قیمت:1000 روپے،صفحات:487
پبلشرز: آتش فشاں، علامہ اقبال ٹاؤن، لاہور
حضرت علامہ اقبالؒ کی شخصیت پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اور ان کی شخصیت کے اتنے پہلو سامنے آ چکے ہیں کہ لگتا ہے کہ اب اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے مگر اللہ نے انھیں فکر کی جو وسعت اور جولانی عطا کی تھی وہ تحقیق کرنے والوں کو مزید آگے بڑھنے اور نئے جہاں کی تگ و دو میں لگے رہنے پر مجبور کرتی ہے۔ مشرق کے شعراء اور فلسفیوں میں سے جتنا کام علامہ اقبالؒ پر کیا گیا ہے شائد ہی کوئی اور شخصیت ان کے ہم پلہ ہو سکے۔ یوں کتابوں پر کتابیں لکھی جا چکی اور لکھی جا رہی ہیں مگر’’ روزگار فقیر‘‘ ان سب سے جدا واقعات کا ایسا مجموعہ ہے جو حضرت اقبالؒ کی شخصیت کے ایسے واقعات پر مشتمل ہے جو ان سے ملنے، سننے اور دیکھنے والوں نے بیان کئے ہیں ۔

پہلی مرتبہ یہ کتاب 1950 میں شائع کی گئی جسے بہت پذیرائی حاصل ہوئی، جس کا تعارف فیض احمد فیض جیسے نامور دانشور نے لکھا ، جو کہتے ہیں کہ اب یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں کہ علامہ اقبال مرحوم ہمارے دور کی سب سے اہم اور سب سے عظیم المرتبت ادبی شخصیت تھے۔ نقش اول کے بعد اسے ترامیم اور اضافوں کے ساتھ شائع کیا جاتا رہا جس سے روزگار فقیر کی دو جلدیں مرتب ہو گئیں، جو اب اکٹھی شائع کی گئی ہیں۔ کتاب کیا ہے واقعات کا گویا ایک خزانہ ہے جس میں قاری کھو کر رہ جاتا ہے یوں لگتا ہے جیسے وہ حضرت اقبالؒ کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہو جس سے ان کی شخصیت کی عظمت اس کے دل و دماغ کو اپنے سحر میں لے لیتی ہے۔ مصنف کے بیان کی دلنشینی الگ اپنا تاثر لئے ہوئے ہے۔ اگر کوئی حضرت علامہ محمد اقبال ؒ کی شخصیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

کیا سیاست عقیدہ اکٹھے رہ سکتے ہیں ؟
مصنف : عارف میاں
قیمت: 500/ روپے،، صفحات: 168
ناشر: نیڈ کونسل، لاہور
مذہب ، عقیدہ اور سیاست ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھا بھی بہت گیا ہے اور مباحث بھی بہت ہوئے ہیں ۔ مذہب کے ماننے والوں کا کہنا ہے کہ مذہب چونکہ الہامی ہدایت نامہ ہے جس کی روشنی میں انسان راہ عمل اخیتار کرتا ہے۔ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتا اور یہی اس کی دنیاوی اور اخروی زندگی کی کامیابی کی کلید ہے، دوسری طرف مذہب کے منکرین کے نزدیک یہ محض ایک واہمہ ہے جس کا انسان کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ دنیاوی زندگی ہی اصل زندگی ہے جسے انسان اپنی مرضی اور منشا کے مطابق گزارتا اور انجوائے کرتا ہے ۔ دونوں طرف کی سوچ رکھنے والے دانش وروں اورفلسفیوں کے پاس اپنے اپنے موقف کے حق میں دلائل ہیں جن کی بنیاد پر ان کی فکر کی عمارت استوار ہے لیکن ان متحارب اور متضاد نظریات کے حامل افراد کے درمیان افہام وتفہیم کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی اور یوں یہ مسئلہ کل کی طرح آج بھی اسی طرح بحث و مبا حث اور مکالمے کا متقاضی ہے۔

عارف میاں نے اپنی اس کتاب میں اسی موضوع پر قلم اٹھایا ہے اور منطقی انداز اپناتے ہوئے استدلال کے زور پر اس بحث کو آگے بڑھایا ہے ۔کتاب کے چھ باب ( عقیدہ ، تبدیلی، جنت ، حدود اخلاقیات ، تعلیم اور سیاست ) ہیں اور ہر عنوان پر سیر حاصل گفتگو کی گئی ہے۔ تمام ابواب میں انہوں نے پوری تفصیلات اور جزئیات کے ساتھ اس نکتے ہی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سیاست اور عقیدہ دونوں الگ الگ ہیں خصوصاً کاروبارِ مملکت چلانے کے لیے انہیں یکجا یا اکٹھے نہیں کیا جانا چاہئے تاکہ معاشرے میں ارتقا کا عمل جاری و ساری رہ سکے ۔ ان کا ماننا یہ ہے کہ محض مذہب کی بنیاد پر کوئی معاشرہ ترقی وخوش حالی، امن اور سلامتی کی منزل طے نہیں کر سکتا۔ وہ ( پرانی ) مذہبی تعلیم کو اجتماعی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں کہ ان کی نظر میں اس سے فرقے اور گروہ پیدا ہوتے ہیں، فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ وہ قراردیتے ہیں کہ ’’ مسلمان سیاست سے مذہب کو الگ کرکے اور جدید تعلیم سے آراستہ ہوکر بہتر ہو سکتے ہیں اور دنیا کا بوجھ بھی کم ہو سکتا ہے۔ وہ فرقہ واریت، نفرت ، گروہ بندی، انتہاپسندی اور دہشت گردی کا ذمہ دار مسلمانوں کو ٹھہراتے ہیں۔

وہ اہل مغرب اور غیر مسلم اقوام کی مادی ترقی سے مرعوب ضرور ہیں لیکن جہاں وہ ضروری سمجھتے ہیں کہ غیر مسلم اجتماعی امن، خوش حالی، خوبصورتی اور ترقی کے لیے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردانہ، مخلصانہ اور بردبارانہ رویہ اختیار کریں وہ مسلمانوں سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اپنے طرز فکر پر غور کریں اور مفید نتیجہ تک پہنچیں‘‘۔ کتاب میں بہت سے فکر انگیز پہلو ہیں جن پر بڑے حقیقت پسندانہ انداز میں روشنی ڈالی گئی ہے لیکن کہیں کہیں مصنف خود کنفیوز دکھائی دیتا ہے اور اپنی بات یا موقف کو بیان کرتے ہوئے الجھاو کا شکار ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کتاب میں لاتعدا د سوالات بھی اٹھائے ہیں جو کسی بھی انسان کے ذہن میں فطری طور پر جنم لیتے ہیں یا لے سکتے ہیں۔

کتاب کا آخری پیراگراف اس طرح ہے ’ ’ کیا سیاست عقیدہ اکٹھے رہ سکتے ہیں ؟ یہ سوال باقی ہے، اس کا جواب باقی ہے، اس کاجواب کوئی اکیلا انسان نہیں دے سکتا، اکیلا انسان رائے دے سکتا ہے، سوچنا، بولنا اور رائے ظاہر کرنا سب کا حق ہے، میری رائے میں سیاست عقیدہ جتنا اکٹھے رہ سکتے تھے، رہ چکے ہیں، مزید کوشش کی جا سکتی ہے، دور گزر چکا ہے، زیادہ مناسب جواب اجتماعی طور پر معاشرہ دے سکتا ہے‘‘۔ اپنے مذکورہ بالا اختتامی کلمات کے ذریعے صاحب کتاب نے سیاست عقیدہ کی ساری بحث کو گویا ادھورا چھوڑ دیا ہے۔ تاہم موضوع ایسا ہے کہ اس سے یقینی طور پر مکالمے اور بحث مباحثے کا عمل آگے بڑھے گا اور ان پہلووں پر بھی بات ہو سکے گی جو ابھی تک تشنہ ہیں ۔

راجہ گدھ (تنقیدی جائزہ )
مصنف: غلام حسین غازی
قیمت:400 روپے، صفحات: 128
ناشر : بک ہوم، لاہور
غلام حسین غازی انگریزی ادبیات کے استاد ہیں ۔ زیرتبصرہ کتاب ملک کی معروف ادیبہ بانوقدسیہ کے مقبول عوام ناول ’’ راجہ گدھ ‘‘ پر تنقیدی جائزہ پر مبنی ہے جو غلام حسین غازی کے بقول انہوں نے طلبہ کی ’ تحریک ‘ پر عمیق مطالعہ کے بعد رقم کی ہے۔کتاب پر انہوں نے بڑی چابک دستی کے ساتھ مختلف پہلووں سے روشنی ڈالی ہے اس کے اسلوب، اس میں بیان کردہ نظریے ( تھیوری )، اس میں شامل کرداروں، پیش کردہ ماحول، فضا اور خاص طور پر اس ناول کی وساطت سے قاری کودیے جانے والے ’ پیغام ‘ کو انہوں نے اپنے تنقیدی مطالعے کا ہدف بنایا ہے۔

ناول کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد انہوں نے ناول اور ناول نگار کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے ہیں اور ان ( مصنفہ ) پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ناول کے ذریعے نوجوان نسل کوگمراہ کرنے کی ایک شعوری کوشش قراردیا ہے کہ اس سے قاری کو زندگی کی ٹھوس حقیقتوں سے راہ فراراختیار کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔

بعض مقامات پر مصنف جارحانہ انداز اختیار کرجاتا ہے وہ جہاں ایک طرف بانو قدسیہ اور ان کے ’’ ادبی قبیلے ‘‘ کے لتے لیتے ہیں وہاں دوسری طرف وہ ان دانش وروں اوراہل قلم کو بھی ’’ مجرم ‘‘ ٹھہرادیتے ہیں جنہوں نے راجہ گدھ کو پڑھنے کے باوجود اس کا محاکمہ کرنے کے بجائے اسے سند قبولیت عطا کی اور بے ضمیری کا مظاہرہ کیا۔ یہ سوچ، فکر اور رویہ دراصل ان کی جدید نظریات سے مملو عملیت پسندی کا مظہر ہے جس کے اظہار میں افراط و تفریط کاشکار ہوگئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے فاضل نقاد بانو قدسیہ کے حوالے سے تعصب کا شکار ہوگئے ہیں اور تنقید برائے تنقید کے ذریعے اپنا مافی الضمیر قاری پر جبراً ’’ انڈیلنے ‘‘ کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم چونکہ یہ تنقیدی جائزہ ایک ایسے ناول کا ہے جس نے عوام ہی میں نہیں خواص میں بھی بے پایاں مقبولیت حاصل کی ہے اس لیے اس کتاب کے مخاطب اور توجہ کے مستحق عام قاری کی نسبت نقاد حضرات زیادہ ہیں۔’’ خالص تنقید ‘‘ پر مبنی اس جائزے نے بانوقدسیہ کی تحریروں کا ازسرِ نو (غیرجانبدارانہ انداز میں ) جائزہ لینے کا راستہ کھول دیا ہے۔ گویا ع صلائے عام ہے یاران ِ نکتہ داں کے لیے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

جدید دنیا، روبوٹ اور انسانی رشتے

$
0
0

مبین مرزا صاحب کا شمار اردو کے ممتاز اہل قلم میں ہوتا ہے۔ ایک شاعر، ادیب اور نقاد کی حیثیت سے ادبی دنیا میں انہیں ایک محترم مقام حاصل ہے۔ ان کی نثری اور منظوم تخلیقات کے متعدد مجموعے شایع ہو چکے ہیں، جن کی پزیرائی کا سلسلہ جاری ہے۔

نقادانِ ادب ہمیشہ سے ان کی قلمی کاوشوں کو سراہتے آئے ہیں کہ ان میں مطالعے اور فنی ریاضت کی بنیاد پر گہری معنویت اور بہت پُراثر اسلوب کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ مبین مرزا وقیع ادبی جریدے، ’’مکالمہ‘‘ کے ایڈیٹر ہیں، جو ان کے ادارے ’’اکادمی بازیافت‘‘ کے زیراہتمام شائع ہوتا ہے۔ اردو دنیا میں اسے ایک اہم مقام حاصل ہے۔ اس کے علاوہ وہ متعدد عالمی کانفرنسوں میں اپنے مقالے پیش کر چکے ہیں۔

ہماری درخواست پر مبین مرزا سنڈے میگزین میں زیرنظر شمارے سے مختلف ثقافتی، سماجی، ادبی اور سیاسی موضوعات پر مضامین کا سلسلہ شروع کر رہے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ کے درمیان ان مضامین کو سند قبولیت حاصل ہوگی۔

اس حقیقت سے بھلا کون انکار کرسکتا ہے کہ ہمارے اردگرد پھیلی ہوئی اس دنیا کے رنگ، خوش بُو اور رونقیں سب کچھ انسانی رشتوں ہی سے قائم ہیں۔ رشتوں کے بغیر یہ دنیا سائیں سائیں کرتے ہوئے صحرا سے مختلف نہیں ہوسکتی۔ اس سچائی کا اعتراف شعر و ادب سے وابستہ افراد ہی نہیں کرتے، فلسفے، نفسیات اور سماجیات کے ماہرین بھی اپنے اپنے انداز اور طریقِ کار کے مطابق ہمیشہ ایسا کرتے آئے ہیں۔

انسانی رشتوں کی بدلتی ہوئی صورتوں، طرزِ احساس کی تبدیلی اور سماجی نظام کے بدلتے ہوئے معیار کے تحت زندگی کو دیکھنے اور اس کی اہمیت کو جاننے پرکھنے کا سانچا تو بے شک زمانوں اور معاشروں کے فرق کے ساتھ الگ ہوسکتا ہے، لیکن تاریخ کے کسی بھی دور میں اور کسی بھی سماج میں رشتوں کے وجود اور ان کی اہمیت سے کبھی انکار نہیں کیا گیا— لیکن عہدِ جدید کی صورتِ حال ہمیں ایک بڑے سوال اور بڑے مسئلے سے دوچار کررہی ہے۔ سوال یہ ہے، کیا آنے والے وقت (مستقبل قریب) میں انسان اپنے رشتوں کی ضرورت سے آزاد ہوجائے گا؟

زندگی دونوں ہی طرح سے گزاری جاسکتی ہے، آزاد مشربی سے، یعنی بے پروا ہوکر اور سنجیدگی سے، یعنی ذمے داری کے ساتھ۔ اِس کا دارومدار اصل میں انسان کی اپنی اُفتادِ طبع پر ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی طبیعت میں لااُبالی پن ہوتا ہے، ان پر کچھ بھی پڑھ کر پھونک دیا جائے یا انھیں کچھ بھی گھول کر پلا دیا جائے، مجال ہے جو وہ ٹس سے مس ہوجائیں۔ اسی طرح بردباری اور ذمے داری کا مادّہ بھی آدمی میں شروع ہی سے نظر آنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ بالعموم حساس ہوتے ہیں۔ فراق نے کہا تھا:

بہت پہلے سے اِن قدموں کی آہٹ جان لیتے ہیں
تجھے اے زندگی ہم دور سے پہچان لیتے ہیں

یہ بات اُن سب حساس لوگوں پر صادق آتی ہے جو رُخ بدلتی ہوا کو محسوس کرلیتے ہیں اور جن تک نئے موسموں کی خوش بو پہلے ہی پہنچ جاتی ہے۔ اس کا مشاہدہ لوگوں کی انفرادی زندگی میں بھی کیا جاسکتا ہے اور اجتماعی یا سماجی سطح پر بھی۔ ہر سماج میں ایسے لوگ ہوتے ہیں جو وقت کے قدموں کی آہٹ سے آنے والے دنوں کی صورتِ حال کا اندازہ لگاتے اور اُس کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس وقت بھی اُن سب معاشروں میں ہورہا ہے جو اپنا ایک سماجی ضابطہ اور اخلاقی نظام رکھتے ہیں۔ یہ سوچ بچار بے جا نہیں ہے۔ اس لیے کہ آنے والے دنوں میں اُن کی تہذیب، اُن کا سماج ایک بڑے گمبھیر مسئلے سے دوچار ہوسکتا ہے۔

مسئلہ تو واقعی خاصا سنجیدہ ہے، بلکہ سنگین بھی۔ اس لیے آنکھیں چرانا ممکن نہیں ہے۔ یوں بھی اگر ہم ذمے داری کے ساتھ جینا چاہتے ہیں تو ہمیں آنکھیں کھلی رکھنا ہوتی ہیں، باخبر رہنا ہوتا ہے، دیکھنا اور سوچنا ہوتا ہے کہ ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ زندگی کس ڈگر پر چل رہی ہے۔ آگے ہمیں کس صورتِ حال کا سامنا کرنا ہوگا۔ انفورمیشن ٹیکنولوجی کے اس دور میں تو یوں بھی معلومات کے بغیر جینے کا مطلب ہے، غیرانسانی سطح پر زندگی گزارنا۔ ظاہر ہے، آپ، ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں چاہے گا۔ ویسے اس وقت ہم جس مسئلے کے بارے میں بات کررہے ہیں، وہ سنگین تو بے شک ہے، لیکن دل چسپی سے خالی نہیں۔

یہ مسئلہ سنجیدہ اور سنگین اس لیے کہ انسانی رشتوں کی تہذیب اپنے سارے اخلاقی ضابطوں کے ساتھ داؤ پر لگی دکھائی دیتی ہے۔ رہی بات دل چسپی کی تو اُس کی وجہ یہ ہے کہ سارا ماجرا انسانی فطرت کی آزمائش کا ہے۔ سو وہ لوگ جو انسانی فطرت کے بارے میں مثبت سوچ رکھتے ہیں، اس پر یقین کرتے ہیں یا اُسے اُمید کی نظر سے دیکھتے ہیں، وہ اس مسئلے سے لاتعلق نہیں ہوسکتے۔ اس لیے کہ انسانیت کی بقا کا سوال اُن کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ خیال رہے کہ یہاں انسانیت کی بقا سے مراد ابنِ آدم کی محض وجودی سلامتی نہیں ہے، مراد اصل میں یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کے سفر میں جو کچھ انسان نے اپنی ذات اور اپنے سماج کی پاس داری کے لیے سیکھا اور سمجھا ہے اور اس کے لیے جو نظام بنایا ہے اور جو اقدار قائم کی ہیں، اس سب کے ساتھ انسانی سماج قائم رہے۔

ویسے دیکھا جائے تو یہ مسئلہ آج اچانک پیدا نہیں ہوا۔ اب سے کئی برس پہلے اس کی نشان دہی اُس وقت ہوگئی تھی، جب ۸۰۰۲ء میں ڈاکٹر ڈیوڈ لیوی کی کتاب ’’روبوٹس سے محبت اور مباشرت‘‘ (Sex and Love with Robots) منظرِ عام پر آئی تھی۔ اس پر گفتگو کا آغاز تو فوراً ہی ہوگیا تھا، لیکن اس موضوع کی معلومات اور اس پر گفتگو کا دائرہ محدود رہا، یعنی کچھ مخصوص حلقوں کے معدودے چند ہی لوگوں نے اس مسئلے کو توجہ کے قابل سمجھا تھا۔ تاہم بیس ویں صدی کے آخری برسوں اور اکیس ویں صدی میں داخل ہوتے ہوتے ٹیکنولوجی نے جس حیرت انگیز بلکہ چکرا دینے والی رفتار سے ترقی کرکے دکھائی ہے اور اُس کے اثرات جس طرح امیروں کی دنیا کے ساتھ ساتھ آج ہمارے سامنے غریب ملکوں کے غریب تر عوام تک بھی پہنچ گئے ہیں، اُس نے اس سوال کو سوچنے اور غور کرنے والے لوگوں کے لیے اب محض نظری یا خیالی مسئلہ نہیں رہنے دیا۔ اب تو اسے ایک ایسی زمینی حقیقت کے طور پر دیکھا جارہا ہے کہ جس سے انکار ممکن نہیں۔ اس لیے کہ آج کی دنیا میں جو کچھ ہمارے تجربے کا حصہ بن رہا ہے، اُس کو دیکھتے ہوئے مستقبلِ قریب میں جو کچھ ہونے جارہا ہے، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں رہا۔

فرسٹ ورلڈ کے علمی، سائنسی (ٹیکنولوجی) اور نفسیات داں حلقوں میں اس مسئلے پر بحث میں شدت اُس وقت آئی جب اس موضوع پر اہلِ نظر کی کانفرنسوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی کانفرنس 2014ء میں پرتگال میں ہوئی۔ دوسری 2015ء میں ملائیشیا میں رکھی گئی، لیکن کانفرنس کے انعقاد سے کچھ وقت پہلے حکومت نے منع کردیا۔ چناںچہ دوسری کانفرنس گذشتہ سال (2016ء) لندن میں ہوئی۔ اس کے بعد سے یہ موضوع اپنے مختلف پہلوؤں کے ساتھ نمایاں طور پر بہت سے ایسے حلقوں میں گونج رہا ہے جو سماجیات، نفسیات، سائنس اور معاشیات وغیرہ کے مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو نشاۃِ ثانیہ کے بعد سے یورپ کے سماجی مزاج میں جو اہم تبدیلیاں آئیں، ان میں ایک یہ تھی کہ وہاں ہر موضوع پر گفتگو کی آزادی کا تصور رائج ہوگیا۔ اس سے کسی کو غرض نہ رہی کہ دیکھے آیا موضوع قابلِ غور ہے بھی کہ نہیں، یا کہ سماج پر اس کے اثرات منفی ہوں گے کہ مثبت۔ بس اظہار کی آزادی کا تصور قبول کرلیا گیا۔ چناںچہ اظہار کی آزادی کا یہ حق ہر شخص کو حاصل ہوگیا، خواہ اُس کا موضوعِ بحث سے کوئی علمی، فکری یا تحقیقی تعلق ہو یا نہ ہو۔ چناںچہ ہر موضوع پر گفتگو کا راستہ کھل گیا۔ اب یہ آزادی صرف ہائڈ پارک تک محدود نہیں ہے، بلکہ کوئی بھی اور کہیں بھی کسی بھی موضوع پر بات کرسکتا ہے۔

جیسا کہ انسانی معاشروں میں عام طور سے ہوتا آیا ہے کہ ہر خیال، مسئلے یا سوال کی بابت دو گروہ فوراً ہی بن جاتے ہیں، ایک جو اس کے حق میں رائے رکھتا ہے اور دوسرا مخالف۔ دیکھا گیا ہے کہ عام طور سے یہ دونوں حلقے کسی لمبی چوڑی بحث کے بعد وجود میں نہیں آتے، بلکہ ابتدا ہی میں قائم ہوجاتے ہیں۔

روبوٹ سے محبت کے مسئلے پر بھی یورپ میں ایسا ہی ہوا۔ ایک طرف ڈاکٹر ڈرس کول نے رائے دی کہ ابھی روبوٹ سے محبت اور قربت کے لمحات کا خیال الجھن کا باعث ہے، لیکن وہ دن دور نہیں جب انسان روبوٹ کی محبت میں مبتلا ہوجائے گا۔ خود ڈاکٹر ڈیوڈ لیوی نے تو ۷۰۰۲ء میں یہ کہہ دیا تھا کہ ۰۵۰۲ء کے آتے آتے روبوٹ کی شخصی (وجودی) حیثیت سماج میں اس حد تک قبول کرلی جائے گی کہ لوگ اس سے شادی کرنے لگیں گے۔

جب کہ ڈاکٹر ایان پیئر سن کا تو کہنا یہ ہے کہ اس وقت (2050ء) تک بروتھل اور اسٹرپ کلب جیسی جگہوں پر روبوٹ کا کردار اتنا نمایاں اور تسلیم شدہ ہوگا کہ لوگ اس کے ساتھ قربت کے لمحات کے لیے اپنی خواہش کا اظہار ترجیحی بنیاد پر کریں گے۔ یہی نہیں بلکہ عام لوگوں کی زندگی میں بھی انسان کے بجائے روبوٹ کے ساتھ قربت کے لمحات گزارنے کا رویہ اس حد تک فروغ پاچکا ہوگا، کہ انسان اور انسان کے بجائے انسان اور روبوٹ کے درمیان قربت کا تناسب سماج میں کہیں زیادہ ہوگا۔ تاہم اس بحث میں ہمیں دوسرے رویے کا اظہار بھی ملتا ہے۔

اس کی نمائندگی ڈاکٹر کیتھلین رچرڈ سن جیسے لوگ کرتے ہیں جو کہتے ہیں کہ روبوٹ کے ساتھ ایسی قربت کا تصور سخت ناگوار ہے اور ایسے خیال کو رد کرنا چاہیے اور اس پر گفتگو کو ہرگز بڑھاوا نہیں دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس موضوع پر جتنی زیادہ گفتگو کی جائے گی اتنی جلدی یہ خیال انسانوں کے لیے قابلِ قبول ہوجائے گا۔ ایسی ناگوار صورتِ حال کو روکنے کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے کسی موضوع پر گفتگو ہی نہ کی جائے۔

اس بحث میں کچھ اور لوگ بھی ہیں جو خاموشی کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ وہ اس مسئلے کے بارے میں کچھ اور سوالات اٹھاتے ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ ایک انسان کے دوسرے انسان سے تعلق کے حوالے سے ہر سماج میں ایک نظام پایا جاتا ہے، جو ایک مخصوص سماج میں ایسے تعلق کے اخلاقی تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے۔ کیا انسان اور روبوٹ کا تعلق بھی اسی نظام کے زیرِاثر ہوگا؟

کیا انسان اور روبوٹ کے تعلق کو سماجی حیثیت حاصل ہوگی؟ اسی طرح یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ جس طرح ایک مرد یا عورت کی کسی دوسری عورت یا مرد کی قربت کی خواہش کو مسترد کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، اسی طرح کیا روبوٹ کو بھی اس سطح کا شعور فیڈ کیا گیا ہوگا اور کیا وہ اقرار یا انکار کا اختیار استعمال کرسکے گا؟

ڈاکٹر کیٹ ڈیولن جو اس موضوع پر لندن میں ہونے والی دوسری کانفرنس کی مجلسِ صدارت کا حصہ تھیں، انھوں نے اس حوالے سے کہا ہے کہ ’’ہمیں انسان اور روبوٹ کے تعلق کے سلسلے میں ایک نیا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے جس میں روبوٹ کو صرف ایک مشین یا ایک جنسی ہدف کی حیثیت سے نہ دیکھا جائے، بلکہ اسے انسان کے ساتھی کے طور پر دیکھا جائے، جسے خود انسان نے اپنے لیے بنایا ہے۔‘‘ ان سب باتوں، اس قسم کے سوالوں اور ایسی بحثوں سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ مغرب میں روبوٹ کی وجودی حیثیت کو کس حد تک تسلیم کیا جاچکا ہے۔

لگ بھگ پون صدی پہلے فرانس کے مسلمان دانش ور عبدالواحد یحییٰ (رینے گینوں) نے وقت کے دھارے کو دیکھتے ہوئے کہا تھا، عہدِجدید ایک ایسے طوفان کی صورت رکھتا ہے جسے روکا نہیں جاسکتا، اس کے آگے کوئی بند نہیں باندھا جاسکتا۔ زندگی کے گذشتہ تین چار عشروں کو سامنے رکھا جائے تو رینے گینوں کے اس بیان کی سچائی اور اس عہد کے مزاج کی حقیقت کو بہ خوبی سمجھا جاسکتا ہے۔

آج نیو ورلڈ آرڈر کی اصطلاح کا مطلب بھی ہم پر پوری طرح آشکار ہوچکا ہے۔ اب قوموں اور ملکوں کے درمیان جنگ کا روایتی تصور بڑی حد تک تبدیل ہوگیا ہے۔ چناںچہ جنگ کے ذریعے دنیا کے جغرافیے کو بدلنے کا رجحان بہت حد تک ختم ہوچکا ہے۔ جغرافیائی سرحدیں اب برقرار رکھی جاتی ہیں۔ البتہ ثقافتی نقشہ تبدیل کردیا جاتا ہے۔ تہذیب کی کایا پلٹ دی جاتی ہے۔ سماجی اور اخلاقی اقدار کا تصور ختم کردیا جاتا ہے۔ بہت دور جانے کی ضرورت نہیں، حالیہ برسوں میں عراق، افغانستان، مصر اور اب شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

لگ بھگ ساٹھ باسٹھ برس پہلے عالمی منظرنامے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے برٹرینڈ رسل نے مشرق کی بیداری کے آثار دیکھے تھے۔ اس بیداری میں اسے تین تہذیبوں کا مرکزی کردار محسوس ہوا تھا، یعنی مسلم، چینی اور ہندی۔ ان تینوں کے دبیز اور وقیع ثقافتی مظاہر اور اپنے اپنے سماج پر ان کے گہرے اثرات کو محسوس کرتے ہوئے رسل نے کہا تھا کہ مشرق کے نئے طلوع میں ان تینوں تہذیبوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگی۔ اس نے کہا تھا کہ ان تینوں تہذیبوں کو یکسانیت کی طرف نہیں جانا چاہیے۔ انھیں اپنی اپنی انفرادی شناخت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ بیداری مشرق کی ہو یا شمال یا پھر جنوب کی، سامراجیت کے لیے کیوں کر قابلِ قبول ہوسکتی ہے۔

چناںچہ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس دور میں سامراجی حیلے بھی بدل گئے ہیں۔ آج انسانی آزادی، سماجی حقوق، امداد، اصلاح اور فلاح کے نام پر استحصالی ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ کسی بھی تہذیب و سماج کی بقا اور استحکام میں ایک اہم کردار اُس کے انفرادی ثقافتی نقوش اور سماجی نظام کا بھی ہوتا ہے۔ نئی سامراجیت نے اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے اس کا پورا پورا بندوبست کیا ہے۔ آج دنیا میں ایک سرے سے لے کر دوسرے تک برگر اور کولا کا پھیلاؤ دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کو تو چھوڑیے کہ تھرڈ ورلڈ کے ممالک میں سیاست نے جمہوریت کے نام پر وہی کھیل کھیلے ہیں جو آمریت نے کھیلے ہیں۔

یہاں سماجی اکائی کو توڑ کر سیاسی، سماجی، اخلاقی اور معاشی عدم استحکام کی راہ ہموار کی گئی ہے۔ یہ تھرڈ ورلڈ کے ممالک کی مشترک تقدیر ہے۔ افسوس تو زیادہ اس بات کا ہے کہ چین جیسا روایتی معاشرہ بھی جو اپنی تعمیر و ترقی کے لحاظ سے بجا طور پر فرسٹ ورلڈ کا حصہ ہے وہ بھی سامراجی ہتھکنڈوں کا شکار ہونے سے نہ بچ سکا۔ اب وہاں بھی آپ کو کولا اور برگر کی دنیا دیکھنے کو ملتی ہے۔ سوچنا چاہیے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا سیدھا اور صاف مطلب ہے یکسانیت کا نفوذ، یک رنگی کا پھیلاؤ، یعنی تہذیبوں کی اپنی اپنی انفرادی شناخت کا مٹ جانا۔ جب مشرق اور مغرب دونوں ایک جیسے ہوں تو پھر بھلا مشرق کی بیداری کے کیا معنی رہ جاتے ہیں۔

آج ہم سب واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ انسانی زندگی ایک مشینی سانچے میں ڈھالی جارہی ہے، اور یہ کام بہت تیزی سے ہورہا ہے۔ ساری دنیا ایک ہی طرح کے سماج میں تبدیل ہورہی ہے۔ گلوبل ولیج کا یہی مطلب ہے— یعنی ایک بے اقدار اور بے ثقافت سماج۔ ہمیں اس حقیقت کو واضح طور پر ابھی سمجھ لینا چاہیے کہ ایسے سماج کے لوگوں کی زندگی میں نہ تو اُلوہی یا روحانی رہنمائی کی گنجائش ہوگی اور نہ ہی انھیں ایسے مضامین، کہانیوں اور شاعری کی ضرورت ہوگی جو اُن کے اندر اپنی روح کی آواز سننے کی خواہش پیدا کریں۔ انھیں اپنے وجود سے اوپر اٹھنے اور اردگرد موجود دنیا اور اس کی حقیقتوں سے برتر حقائق کے بارے میں سوچنے، جاننے اور کوئی عملی راہ اختیار کرنے کی راہ سجھائیں۔ یہ سب حال مست لوگ ہوں گے۔ اخلاقی کشاکش، جذباتی اتار چڑھاؤ اور روحانی بحران سے قطعی ناآشنا لوگ۔ زندگی کے مارے ہوئے، زندگی سے عاری لوگ— مصنوعی ذہانت رکھنے والے روبوٹ کی طرح۔

اس جدید دنیا میں جہاں اب تیزی سے انسانوں کی زندگی مشینوں کے قبضے میں جارہی ہے، ابھی روبوٹ سے انسان کی شادی کا سوال حیرت کا باعث ہے۔ انسان کسی مشین سے کیسے ایسا رشتہ قائم کرسکتا ہے۔ ہمارے یہاں تو لوگ ابھی اس مسئلے پر بات ہی نہیں کررہے۔ خود یورپ کے بھی بہت سے لوگ حیرت کے ساتھ سوچتے ہیں، کیا واقعی یہ دنیا اور اس کے لوگ ایسے ہوجائیں گے؟ یورپ میں سائنس اور نفسیات کے شعبوں میں بہ یک وقت کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ سوال ابھی لوگوں کے ذہن میں اس لیے آتا ہے کہ وہ انسان کی جسمانی قربت کا تعلق اُس کے دل کے زیرِاثر سمجھتے ہیں۔ اور یہ بھی کہ وہ اس قربت کے لیے جمالیات کا ایک تصور رکھتے ہیں۔ اس منصوبے پر کام کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سارے مسائل جلد حل کرلیے جائیں گے۔

جہاں تک بات دل کی ہے تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اس دور میں خصوصیت کے ساتھ اس خیال کو فروغ دیا جارہا ہے کہ انسان کی خواہشیں بھی اصل میں اُس کی ضرورتوں ہی کی پیدا کردہ ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کی تحصیل میں بھی جذبے، شوق یا جوش سے نہیں محض عقل سے کام لینا چاہیے۔ گویا زندگی کے لیے دل کی نہیں صرف عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہاں ہم مشرق اور مغرب کے مزاج کا فرق بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مغرب عقل کو بڑی شے اور ایک الگ حقیقت سمجھتا ہے، جب کہ مشرق عقل کو دل کے ماتحت سمجھتا ہے۔ اس لیے اہلِ مشرق کہتے ہیں:

العقل فی القلب۔
یعنی عقل تو دل میں ہوتی ہے۔

اب رہی بات جمالیاتی ذوق کی۔ روبوٹ سے انسان کی ساری ضرورتوں (بشمول جنس اور جبلت) کو پورا کرنے کے خواہش مند ماہرین اہلِ مشرق کے اس رجحان سے بھی غافل نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ عورت روبوٹ کو دل کشی اور حسن کا وہ سارا سامان فراہم کیا جائے گا جو مرد کی توجہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اسی طرح مرد روبوٹ کو بھی ایسا ہی بنایا جائے گا کہ وہ عورتوں کے لیے ایک عام مرد سے زیادہ پرکشش ہو۔ اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ آنے والے زمانے میں انسانی زندگی سے دل کی پکار اور روح کی سرشاری کو نکال باہر کیا جائے گا۔ گویا روح، جذبے، ذوق، لگن اور تسکین ایسے غیرمادّی تصورات ہی انسان کی زندگی سے خارج ہوجائیں گے۔ جسم اور صرف جسم ہی ساری توجہ کا مرکز ہوگا۔ بس پھر تو انسان کے جمالیاتی ذوق کو بدلنا بھی مشکل نہیں رہے گا۔

حقیقت یہ ہے کہ بیس ویں صدی کے اختتام پر کم سے کم تھرڈ ورلڈ میں تو یہ نہیں سوچا جارہا تھا کہ موبائل فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ جیسی ساری اشیا اور سہولتیں عام لوگوں تک بھی اتنی فراوانی سے پہنچ جائیں گی۔ ہمارے یہاں اس وقت ڈیڑھ دو روپے میں ملنے والی تندوری روٹی اب آٹھ روپے کی ہوگئی۔ یہ افراطِ زر کا ایک رُخ ہے۔ دوسرا رُخ یہ ہے کہ اسی عرصے میں صرف فون کرنے اور میسج بھیجنے والے موبائل فون سے آج کے اسمارٹ فون تک کا سفر دیکھ لیجیے۔ اس فون کے ذریعے فراہم کی جانے والی سہولیات کو دیکھ لیجیے اور پھر ان کی قیمت کو بھی پیشِ نظر رکھیے۔ چناںچہ ماننا چاہیے کہ ہونے کو کیا نہیں ہوسکتا، اور پھر دنیا کو ایسا بنانے کے لیے تو اربوں ڈالر اور پاؤنڈ خرچ کیے جارہے ہیں، لہٰذا ایسا ہونے کے امکان سے انکار کرنا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینے کے مترادف ہوگا۔

اس وقت ہمیں یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ تبدیل ہوتی ہوئی اس دنیا میں ہم اپنے اس تہذیبی، اخلاقی اور سماجی نظام کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں کہ نہیں جس میں زندگی کا مطلب صرف جسمانی ضرورتیں اور خواہشیں نہیں ہیں، بلکہ وہ انسانی وجود کو روح کے ساتھ دیکھتا ہے۔ روح کے بغیر اُس میں جسم کے کوئی معنی نہیں۔ اگر ہمارا جواب اثبات میں ہو تو پھر ہمیں ضرور ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے کہ ایسا کس طور سے ممکن ہے اور اس کے لیے ہمیں کس کس سطح پر کن کن اقدامات کی ضرورت ہے۔

رینے گینوں جیسے لوگ آتے ہوئے وقت کی چاپ سن کر اس کے رُجحانات اور مسائل کا اندازہ لگاتے ہیں۔ اسی لیے اُس نے کہا تھا، عہدِجدید طوفان کی صورت رکھتا ہے، اور طوفان میں فصلیں کاشت نہیں کی جاتیں، صرف بیج کو بچایا جاتا ہے۔ رینے گینوں کی یہ بات درست ہے، اس لیے کہ بیج اگر بچ گیا تو فصلِ گل و لالہ بعد میں پھر سے اٹھائی جاسکتی ہے۔ آج ہم اپنی تہذیبی اور انسانی قدروں کی بقا کے لیے جو بھی حکمتِ عملی بنائیں ہمیں اس بات کا دھیان سب سے بڑھ کر رکھنا چاہیے کہ اس وقت ہمیں اپنے بنیادی تصورات کو خلط ملط یا گم نہیں ہونے دینا ہے۔ صرف اسی صورت میں ہم انسان کو انسان کے مقام پر اور روبوٹ کو روبوٹ کی جگہ رکھ پائیں گے۔

The post جدید دنیا، روبوٹ اور انسانی رشتے appeared first on ایکسپریس اردو.

کیا امریکا اور چین میں جنگ ہونے کو ہے؟

$
0
0

راج مینن Anne and Bernard Spitzer چیئر رکھنے والے ممتاز امریکی پولیٹیکل سائنٹسٹ ہیں۔ وہ سٹی یونیورسٹی نیویارک کے Powell اسکول مں۔ بین الاقوامی تعلقات عامہ کے پروفیسر ہیں۔ راج مینن کولمبیا یونیورسٹی کے Saltzman انسٹی ٹیوٹ آف وار اینڈ پیس کے سنیئر ریسرچ فولص بھی ہیں۔

جنگ و امن اور بین الاقوامی تعلقات کے موضوع پر ان کی سات کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں ’ سوویت پاور اینڈ دی تھرڈ ورلڈ‘،’لیمٹس ٹو سوویت پاور‘،’Russia, the Caucasus, and Central Asia‘، ’انرجی اینڈ کونفلیکٹ ان سینٹرل ایشیا اینڈ دی کوکاسس‘،’دی اینڈ آف الائنسز‘، ’کونفلیکٹ ان یوکرائن؛ دی ان ونڈنگ آف دی پوسٹ کولڈ وار آرڈر‘،’دی کونسیٹ آف سی ہیومینٹرین انٹر وینشن‘ شامل ہیں۔ جنگ اور بین الاقوامی تعلقات پر ان کے مضامین اور تجزیے ممتاز اخبارات اور جرائد میں شایع ہوتے رہتے ہیں۔ زیرنظر مضمون میں انہوں نے امریکا اور چین کے درمیان حالیہ کشیدگی اور جنگ کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے، جس کا ترجمہ قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے۔

چین قائم کی تو قوم پرست نقشے پر ڈیموکریشن لائن کو برقرار رکھا، جس کے تحت چین جنوبی چینی سمندر کے اہم حصوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس موقف پر بیجنگ کی پالیسی پر نیوی گیشن (بحری جہازوں کے گزرنے) اور اوور فلائٹ (ہوائی حدود کے استعمال) کے حقوق پر دوسرے ممالک کے تحفظات ہیں کہ کیا چین اسی وجہ سے زیادہ سے زیادہ طاقت ور ہوتا جا رہا ہے؟ یہ تحفظات بھی ہیں کہ ہر سال5کھرب ڈالر مالیت کا سامان جنوبی چینی سمندر سے گزرتا ہے۔

چین اور دیگر 167 ریاستوں نے 1994میں اقوام متحدہ کے کنوینشن آن دی لا آف دی سی ( یو این سی ایل او ایس) کے تحت ہونے والے ایکسکلوزو اکنامک زون (ای زی زی) معاہدے پر دستخط کیے، تاہم اس معاہدے میں امریکا شامل نہیں تھا۔ اس معاہدے کی رو سے چین کو اپنے ساحل سے بارہ ناٹیکل میل کی حدود میں خود مختاری حاصل ہے۔ ای زی زی کے تحت چین کو ٹیریٹوریل (علاقائی) سمندر میں دو سو ناٹیکل میل تک ماہی گیری اور آبی وسائل استعمال کرنے کا حق حاصل ہے، جب کہ وہ دیگر ریاستوں کو زمینی اور فضائی راستہ دینے کو یقینی بنانے کا پابند ہے۔

یو این سی ایل او ایس کے تحت ریاست کو ای زی زی کنٹرول زون میں مصنوعی جزائر، تنصیبات اور تعمیرات کرنے اور استعمال کرنے کا حق بھی حاصل ہے۔ یہ حق موجودہ صورت حال میں ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ ان سب کو زیادہ پیچیدہ جو بات بنا رہی ہے وہ یہ ہے کہ چینی جنوبی سمندروں میں زیادہ تر جزائر اور کھاڑیوں کو جو چین کو ای زی زی کی بنیاد پر فراہم کی گئی ان پر یو این سی ایل او ایس کے تحت دوسرے ممالک بھی دعویٰ کر رہے ہیں۔ اور اسی بات نے ان جزائر پر چین کی فوجی تعمیراتی پراجیکٹس کی قانونی حیثیت پر سوالات پیدا کردیے ہیں۔ اسی طرح توانائی کے وسائل، ماہی گیری کے حقوق اور زمینی ملکیت پر بھی دعویٰ کیے جارہے ہیں۔

اس پر بھی ہارڈ اور سافٹ دو نظریے ہیں۔ بیجنگ کا دعویٰ ہے اس نے جنوبی چینی سمندر میں بحری اور فضائی آمدورفت کو برقرار رکھا ہوا ہے، تاہم یہ حق جنگی بحری اور ہوائی جہازوں کو حاصل نہیں ہے۔ حالیہ برسوں میں جنگی جہازوں نے اس حدود کے قریب پروازیں کی ہیں اور امریکی جنگی جہاز بھی اس خطے میں چینی حدود کے باہر پروازیں کرتے ہیں۔ 2015 میں بھی چینی جنگی جہازوں نے اسپارٹلے جزائر کے سوبی ریف میں امریکی جہاز کو وارننگ دی تھی۔ اس جزیرے پر چین اور تائیوان دونوں ہی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ گذشتہ سال دسمبر میں بھی چینی بحریہ نے ایک زیرآب ڈرون کو پکڑلیا تھا جسے فلپائن کے ساحل کے قریب موجود امریکی جنگی جہازBowditch سے آپریٹ کیا جا رہا تھا۔ تاہم بعد میں اس جہاز کو چھوڑ دیا گیا۔

اسی نوعیت کے واقعات 2000 ,2001 ,2002 ,2009 ,2013اور 2014میں بھی ہوئے۔ 2001 میں ہنین جزیرے کی سات سو میل کی حدود میں چین کی جانب سے امریکی بحری جہاز کے جاسوسی پر مامور جہاز EP3کو چین میں زبردستی ایمرجینسی لینڈنگ کرائی گئی، جس پر عملے کے 24ارکان سوار تھے۔ اس واقعے نے بیجنگ اور واشنگٹن کے درمیان کشیدگی پیدا کردی تھی۔ چین نے عملے کو گیارہ دن بعد اور جہاز EP3 کو کھول کر تین ماہ بعد ٹکڑوں میں واپس کیا تھا۔

جنوبی چینی سمندر میں چین کی اجارہ داری کچھ نئی نہیں ہے۔ چین کا موقف ان پانیوں میں اپنے کم زور پڑوسیوں کے لیے بہت سخت رہا ہے۔ 1974میں اس کی افواج نے پراسیل/زیشا جزائر سے جنوبی ویت نام کی فوج کو بے دخل کردیا تھا۔ بیجنگ ان جزائر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے لیکن ابھی تک وہاں کا کنٹرول نہیں سنبھالا ہے۔ چین فضائی، بحری گشت اور سخت موقف کے ساتھ اسپارٹلے/نینشا جزائر پر بھی ملکیت کا دعوے دار ہے، جسے تائیوان، ویت نام، اور خطے کے دیگر ممالک مسترد کرتے ہیں۔ 1988میں چین نے ویت نام کے زیرانتظام جانسن ریف پر بھی زبردستی قبضہ کرلیا تھا اور یہ اسپارٹلے جزائر میں اس کا ساتواں قبضہ تھا۔

جنوب مشرقی ممالک میں صرف ویت نام ہی چین کے برے رویے کا شکار ملک نہیں ہے۔ فلپائن اور چین دونوں ممالک فلپائن کے لوزون جزیرے سے124ناٹیکل میل فاصلے پر موجود Panatag (Scarborough) Shoal /Huangyang جزیرے کی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ 2012 میں چین اس پر قابض ہوا، جب کہ 1995میں بھی چین نے فلپائن کے پیلاوان جزیرے سے 129ناٹیکل میل کے فاصلے پر موجودPanganiban (aka Mischief Reef)ریف سے فلپائن کو بے دخل کردیا تھا۔ 2016 میں جب ہیگ کی ایک بین الاقوامی ثالثی عدالت نے Mischief Reef اور Scarborough Shoal جزیرے پر فلپائن کی حیثیت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیا تو چین کی وزارت خارجہ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے تسلیم نہ کرنے کا اعلان کیا، جب کہ چینی وزیراعظم ژی جن پنگ نے وزارت خارجہ کے اس بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی چینی سمندر زمانہ قدیم سے ہی چین کی ملکیت ہیں۔

چین ان جزائر پر فوجی تعمیرات میں مصروف ہے جس میں بڑے پیمانے پر مصنوعی جزائر، بندرگاہیں، فوجی ہوائی اڈے، گودام اور فوجی جہازوں کو محفوظ رکھنے کے لیے ہینگرز شامل ہیں، جب کہ چین نے ان میں سے کچھ جزائر پرراڈار سسٹمز، اینٹی ایئر کرافٹ میزائل اور اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹمٕ بھی نصب کررکھا ہے۔

اور یہی وہ پراجیکٹس ہیں جن کے بارے میں ٹرمپ انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ انہیں بند کردیں گے، لیکن چین کی جنوبی چینی سمندر میں ان سرگرمیوں کو جاری رکھنے یا مستقل کرنے کے حوالے سے چین کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات ہیں۔ چینی قیادت ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے دیے گئے بیانات اور دھمکیوں کو ہوا میں اڑاتے ہوئے واضح کرچکی ہے کہ ’جنوبی چینی سمندر کے تنازعے میں امریکا فریق نہیں ہے اور اسے چاہیے کہ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے جنوبی چینی سمندر میں امن و استحکام کو نقصان پہنچانے سے گریز کرے۔‘

قوم پرست چینی اخبار گلوبل ٹائمز نے ٹرمپ کے دعویٰ کا تمسخر اڑاتے ہوئے اسے نتائج بھگتنے کی دھمکی دیتے ہوئے لکھا ہے ’امریکا کے پاس جنوبی چینی سمندر پر غالب ہونے کی طاقت نہیں ہے۔ اگر ٹیلر ایک بڑی نیوکلیئر طاقت کو اس کے اپنے علاقے سے بے دخل کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ پہلے نیوکلیئر اسٹریٹیجی کے بارے میں اچھی طرح پڑھ لیں اور کیا انتظامیہ کو فوجی کارروائی کے اس دھمکی آمیز بیان کو فالو کرنا چاہیے تھا۔‘

گلوبل ٹائمز مزید لکھتا ہے کہ ’دونوں طرف فوجی تصادم کی بھرپور تیاری ہے‘ اعلیٰ چینی قیادت یہ بات واضح کرچکی ہے کہ بیجنگ جنوبی چینی سمندر میں ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ اس تنازعے کا حل چین اور اس کے پڑوسی ممالک کو نکالنا ہے اور واشنگٹن کے بہتر یہی ہے وہ اس معاملے میں اپنی ٹانگ مت اڑائے۔ دیکھا جائے تو چین کا دفاعی بجٹ امریکا کے دفاعی بجٹ کا بہ مشکل ایک چوتھائی ہوگا جب کہ امریکا کی بحری اور فضائی افواج چین کی نسبت زیادہ جدید اور ہلاکت خیز آلات سے لیس ہیں۔ تاہم اس کے باوجود چین کی جنوبی چینی سمندر پر دعوے کی قانونی صحت اور تاریخی صداقت پر بحث واشنگٹن اور بیجنگ کے تعلقات میں موجود تلخی کو مزید بڑھا رہی ہے۔

اس میں اسٹریٹیجکلی اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ علاقے امریکا سے ہزاروں میل کی دوری پر ہیں۔ چین اب تک طاقت ور تاریخی اور قوم پرستی کی یادوں کے ساتھ اپنی قومی شناخت اور وقار قائم رکھے ہوئے ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ مغرب کے ہاتھوں دو صدیوں تک رسوا ہونے والا چین اب دنیا مںں تیزی سے ابھرتی ہوئی طاقت ہے۔

1990سے اب تک چین 30ارب ڈالر کا جدید روسی فوجی ساز و سامان خرید چکا ہے اور اپنے طور پر ایڈوانسڈ ویپنری (مختلف قسم کے ہتھیاروں کا مجموعہ) کی تعمیر اور ڈیولپمنٹ کی گنجائش رکھتا ہے۔ چین اپنی فوجی حکمت عملی سے جنوبی چینی سمندر میں ہونے والے کسی بھی تصادم میں امریکی بحریہ کو بڑا نقصان پہنچاسکتا ہے، کیوں کہ اس کا محل وقو ع بھی اس کے اتحادی کے طور پر کام کرتا ہے۔ آخر میں بیجنگ وہاں ہار سکتا ہے، لیکن امریکا کو اس فتح کی کتنی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، اور یہ ’فتح‘ کس نوعیت کی ہوگی؟

اگر ایک بار جنگ شروع ہوگئی تو پھر دونوں ممالک کے صدور کا پیچھے ہٹنا بہت مشکل ہوگا۔ ژی جن پنگ خود کو ٹرمپ کی طرح ایک مضبوط شخص قرار دیتے ہیں اور وہ اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے دشمنوں کو شکست دینے کے اہل ہیں۔ اور جب چینی سرزمین اور اس کے وقار کے دفاع کی بات ہو تو وہ پیچھے نہ ہٹ کر انہیں اپنے اس تاثر کو برقرار رکھنا ضروری سمجھیں گے۔ ژی کو اسی طرح ایک اور مسئلے کا سامنا ہے۔

قوم پرستی ملک میں ماؤازم کو بہت پہلے ایک طرف کرچکی ہے۔ اگر جن پنگ اور ان کے ساتھی ٹرمپ کے چیلنجز کے سامنے پست ہمت ثابت ہوئے تو نہ صرف انہیں اپنی قانونی حیثیت کھونے کا خطرہ لاحق ہوگا، بل کہ عوام کے سڑکوں پر نکلنے کے امکانات بھی ہیں اور سوشل میڈیا کے دور میں ایسا بہت جلد ہوسکتا ہے۔ اور یہ چین جیسے سرکش ملک میں ایک ممنوع خیال ہے۔ یقیناً چین کی حکم راں جماعت اس خطرے کو بھی سمجھتی ہے کہ قابو سے باہر ہونے والی قوم پرستی سے اس کے اقتدار کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

چینی اخبار پیپلز ڈیلی نے حال ہی میں بین الاقوامی ثالثی عدالت کی جانب سے فلپائن کے حق میں ہونے والے فیصلے پر سوشل میڈیافورمز اور سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کی اس خلاف عقل حب الوطنی کی مذمت کی۔ خارجہ پالیسی کو پیلن بار عوامی ردعمل سے دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ مثال کے طور پر 2005 میں ملک بھر میں ہونے والے جاپان مخالف مظاہروں میں جاپانی نصابی کتب کے خلاف اشتعال انگیزی پیدا کی گئی کہ جاپان نے ان کتب میں دوسری جنگ عظیم کے دوران چین پر کیے گیے جاپانی ظلم وستم کے ناخوش گوار حصے حذف کردیے۔ یہ مظاہرے کئی شہروں میں پھیل گئے اور صرف شنگھائی ہی میں سڑکوں پر مظاہرہ کرنے والے دس ہزار سے زاید مشتعل مظاہرین کو حراست میں لیا گیا۔ ابتدا میں قیادت نے ان ریلیوں کی حمایت کی لیکن بعد میں وہ انہیں قابو کرنے میں ناکام رہے۔

٭ کیا ہم جنوبی چینی سمندر میں جنگ کرنے جا رہے ہیں؟
چین کے خلاف چڑھائی کی صورت میں صدر ٹرمپ خود اسی طرح کی صورت حال کا شکار ہوسکتے ہیں، کیوں کہ وہ بھی خود کو بہت مضبوط قرار دیتے ہوئے امریکا کا کھویا ہوا وقار واپس لانے اور اسے دوبارہ عظیم بنانے کا وعدہ کرچکے ہیں۔ اُن کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اُن کی خود پرستی اور جیت کا تصور ہے جو انہیں ٹوئٹر کے ذریعے اشتعال انگیز پیغامات بھیجنے سے روکنے میں بھی ناکام ہے۔ ایک لمحے کے لیے تصور کریں کہ کیسے ایک صدر اپنے قریبی اتحادی ملک آسٹریلیا کے وزیراعظم کو فون کال کرکے غیرمہذب انداز میں دھمکی آمیز رویہ اختیار کرے۔

چین اور امریکا کے درمیان ہونے والے فوجی تنازعے میں دونوں فریق بات کو بڑھاوا دینے چاہتے ہیں، جو کہ ایٹمی جنگ کے سوا کچھ نہیں۔ اس کے علاوہ ٹرمپ نے چینی برآمدات پر 45 فی صد ٹیرف لاگو کردیا ہے اور وہ متواتر چین کی مذمت کرتے ہوئے اس پر کرنسی میں ہیر پھیر اور امریکیوں کی ملازمتیں چرانے جیسے الزامات عائد کرتے رہے ہیں، ان بیانات نے بھی دنیا کے دو طاقت ور ترین ملکوں کے درمیان تناؤ کی فضا پیدا کردی ہے۔

دسمبر میں تائیوانی صدرTsai Ing-wen کے ساتھ ہونے والی ٹیلے فونک گفت گو نے صورت حال کو مزید خراب کردیا ہے، جس نے ان کی ’ون چائنا‘ پالیسی کے بارے میں کمٹمنٹ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کردیے ہیں جس پر امریکا 1972سے قائم ہے۔ چینی حکام وائٹ ہاؤس پر یہ بات بالکل واضح کرچکے تھے کہ صدر ژی کو اس وقت تک پہلی فون کال بھی نہیں کی جانی چاہیے جب تک نئے صدر ون چائنا پالیسی کے ساتھ رہنے پر متفق نہیں ہوجاتے۔ نو فروری کو چینی صدر کے ساتھ ہونے والی طویل ٹیلے فونک گفت گو کے درمیان ٹرمپ نے ژی کو اس بات کی یقین دہانی کرائی۔ تاہم نئے امریکی صدر کی سیمابی فطرت سے واقف چینی حکام ان کے بیانات اور طرزعمل پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

جلد یا بہ دیر اگر ٹرمپ نے چین کے ساتھ تنازعے کے معاملے پر اپنے جوش خطابت پر قابو نہیں پایا تو چین کے راہ نما بھی اس بات کو بڑھائیں گے جس سے صورت حال مزید سنگین ہوگی۔

اب تک تو انہوں نے ٹرمپ کو سمجھنے کے لے خود کو روک رکھا ہے جو کہ خود امریکیوں کے لیے بھی آسان کام نہیں ہے۔ ٹرمپ اور ان کے ساتھی اس بات پر بضد ہیں کہ چین وہی کرے جیسا وہ کہہ رہے ہیں۔ وہ اپنی ذات اور ملک کو ایسے پیچیدہ علاقائی مسئلے میں ملوث کررہے ہیں جو کہ امریکی ساحلوں سے بہت دور ہے۔ واشنگٹن اس گھمنڈ میں ہے کہ جیسے وہ ورلڈ آرڈر کا پاسبان ہو، لیکن مستقل اپنی خواہش کے مطابق قانون توڑ رہا ہے، چاہے وہ 2003 میں عراق پر چڑھائی ہو یا خفیہ قیدیوں کے گلوبل نیٹ ورک میں کھلے عام بدترین تشدد، اس تناظر میں امریکی طرزعمل غیرملکی طاقتوں کے سامنے عیاں ہے۔ اگرچہ یہ ٹرمپ ازم کا جز دکھائی دیتا ہے مگر اس کی جڑیں کافی پرانی ہیں۔

ٹرمپ کے جیتنے کے بعد واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان ہونے والے تندوتیز بیانات کے تبادلے کو ہم نظرانداز نہیں کرسکتے۔ اسلحے کے بڑے ذخائر رکھنے والی دو حریف طاقتوں کے درمیان سیاسی محاذ آرائی بہت معنی رکھتی ہے۔ ایک دوسرے پر عدم اعتماد غلط معلومات کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرے گا۔ ٹرمپ کی بدگوئی، تند مزاجی سے مرتب ہونے والے اثرات پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ لیکن ملکی سیاست میں ادارے اور قانون، شہری آرگنائزیشز، پریس اور عوامی احتجاج تو اپنا کام کرسکتے ہیں۔

بین الاقوامی سیاست میں بحرانی صورت حال اچانک رونما ہوسکتی ہے۔ اور امریکی صدور کے تند اور جلد بازی کے رویے پر نظرثانی کا طریقہ ویسے بھی بہت کم زور ہے۔ وہ فوراً فوجی طاقت کے استعمال پر غور شروع کردیتے ہیں۔ وہ اپنی سیاسی طاقت اور معلومات کے بہاؤ سے رائے عامہ کو تبدیل کرسکتے ہیں (ذرا عراق جنگ کے بارے میں سوچیں)۔ اس صورت حال میں شہریوں کی تنقید اور بڑے احتجاج غداری یا بغاوت کو دعوت دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی چینی سمندر میں تصادم اور دونوں اطراف بڑھتی ہوئی دشمنی کیوبن میزائل کرائسز طرز کی صورت حال پیدا کر سکتی ہے، جب کہ اس وقت امریکا کو جغرافیائی فائدہ بھی حاصل نہیں ہے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ چین اور امریکا میں جنگ ممکن نہیں ہوسکتی تو یہ پھر آپ پرانے وقتوں کی بات سوچ رہے ہیں، جب کہ ایسا نہیں ہے۔

Breitbart نیوز کے سابق ایگزیکٹیو چیئرمین اسٹیفن بینن اور اب ٹرمپ کے سیاسی چیف اسٹریٹیجسٹ (فوجی حکمت عملی کے ماہر ) پرشایع ہونے والی حالیہ خبریں دیکھیں۔ انہیں قومی سلامتی کونسل اور پرنسپل کمیٹی (روزانہ کی بنیاد پر قومی سلامتی کے معاملات پر مشاورت کے لیے قائم اعلیٰ ترین انٹر ایجنسی فورم) کے ہر اجلاس میں بیٹھنے کی اجازت دی گئی ہے۔

ان خفیہ اجلاسوں میں انہیں شرکت کی اجازت ٹرمپ کی خصوصی منظوری سے دی گئی ہے۔ ان اجلاسوں کی حساس نوعیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ چیئرمین آف جوائنٹ اسٹاف اور نیشنل انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر بھی اس وقت شرکت کرتے ہیں جب ان کی ذمے داریوں یا پیشہ ورانہ مہارت پر بات کی جارہی ہو۔

بینن نے گذشتہ مارچ میں ایک ریڈیو انٹرویو میں چین کے بارے میں کہا تھا،’ہم اگلے 5 سے دس سالوں میں جنوبی چینی سمندر میں جنگ کرنے جا رہے ہیں ناں؟ اس بات میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ وہ وہاں ایئر کرافٹ کیریئر بناکر ان پر میزائل نصب کر رہے ہیں۔ وہ یہاں امریکا میں ہمارے سامنے آرہے ہیں اور آپ کو سمجھنا چاہیے یہ بات کتنی اہم ہے۔‘ بینن کی اس مہلک پیش گوئی کے بارے میں سوچیں۔ پھر نئے صدر کی سیمابی فطرت اور ان کی دی گئی ہدایت پر غور کریں۔ پھر اس اہم پیغام کو دیکھیں: یہ پرانا وقت نہیں ہے۔ امریکیوں کی بڑی تعداد تو جانتی بھی نہیں ہے کہ جنوبی چینی سمندر کہاں ہے۔‘

The post کیا امریکا اور چین میں جنگ ہونے کو ہے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

چقندرکا رس عمررسیدہ افراد کے لیے توانائی کا خزانہ

$
0
0

لندن: ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ چقندر کے رس میں موجود اہم مرکبات عمر رسیدہ افراد کے ساتھ ساتھ جوانوں کو بھی غیرمعمولی توانائی پہنچاتے ہوئے ان کے کام کاج ، سیڑھیاں چڑھنے اور ورزش میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

اسی طرح اگرکوئی 20 میٹر تک دوڑتا ہے تو چقندر کا رس ان کی اس صلاحیت کو 2 فیصد تک بڑھا سکتا ہے۔ اگرچہ یہ بہت معمولی فرق ہے لیکن دوڑ میں شریک اس کھلاڑی کے لیے اہمیت رکھتا ہے جو نصف سیکنڈ کے فرق سے تمغے سے محروم رہ جاتے ہیں۔

چقندر میں نائٹریٹس کی غیر معمولی مقدار پائی جاتی ہے جو پٹھوں اور عضلات کو توانائی فراہم کرتے ہیں۔ اس کے لیے ایک مطالعہ کیا گیا جس میں شامل افراد کو دو گروہوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک کو چقندر کا رس پلایا گیا اور دوسرے کو بھی نائٹریٹس نکال کر چقندر کا رس دیا گیا۔ دونوں طرح کے رس ذائقے میں یکساں تھے لیکن جنہوں نے نائٹریٹ والا رس پیا تھا وہ دوڑ کے مقابلے میں دوسروں سے زیادہ تیزی سے دوڑے۔

یہ تحقیق یونیورسٹی آف ایکسیٹر کے سائنسدانوں کی جانب سے کی گئی جس میں تیز دوڑ جیسی شدید مشقت پر نائٹریٹ کے اثرات کو نوٹ کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق وہ گزشتہ کئی برسوں سے نائٹریٹ کے صحت پر اثرات نوٹ کررہے ہیں۔ ماہرین کی توجہ طویل فاصلوں تک دوڑ جیسی ورزشوں پر نائٹریٹ کے اثرات کاجائزہ لینا تھا جن میں پٹھوں اور عضلات پر ان کے مثبت افراد کا جائزہ لینا تھا ۔

ڈاکٹروں کے مطابق روز مرہ زندگی میں بھی ہمیں فوری طور پر توانائی کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً بس کے پیچھے دوڑنا، سیڑھیاں چڑھنا اور دیگر امور شامل ہیں۔

غذائی ماہرین کا کہنا ہےکہ عمر رسیدہ افراد بھی اس جادوئی پھل سے فائدہ اٹھا کر اپنی توانائی بڑھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہرے پتوں والی سبزیاں مثلاً پالک وغیرہ میں بھی نائٹریٹس کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے۔

The post چقندرکا رس عمررسیدہ افراد کے لیے توانائی کا خزانہ appeared first on ایکسپریس اردو.

زمین سے باہر بھی سات ’عجوبے‘ دریافت

$
0
0

حضرت انسان کو یقین ہے کہ اس جہان فانی میں وہ تنہا نہیں ۔ خلائے بسیط میں کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی سیارے پر زندگی ضرور وجود رکھتی ہے جسے اس نے ’’خلائی مخلوق‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔

اس تصور کو ابتداً قصے کہانیوں اور ناولوں میں تحریری طور پر پیش کیا جاتا رہا۔ پھر گذشتہ صدی میں اظہار کے بصری ذرائع دست یاب ہوجانے کے بعد فلموں اور ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں خلائی مخلوق کو مختلف اشکال میں دکھایا جاتا رہا۔

تجسس، انسانی فطرت کا حصہ ہے۔ خلائی مخلوق کے بارے میں بھی انسان ہمیشہ سے متجسس رہا ہے۔ پھر جب سائنس اور ٹیکنالوجی کی سیڑھی میسر آئی تو اسی جذبے کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ خلائی مخلوق کو کھوجنے کے لیے عملی اقدامات کرنے لگا۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا بھر سے خلائی مخلوق اور اڑن طشتریاں دیکھے جانے کے دعوے ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے رہتے تھے۔ اس نوع کی خبروں کے تسلسل نے ان دیکھی مخلوق کے بارے میں عالمی سطح پر ایک فضا سی قائم کردی تھی۔ سائنس اور ٹیکنالوجی میں اقوام عالم پر برتری رکھنے والے ممالک کے درمیان خلائی مخلوق کی حقیقت جاننے اور اس تک رسائی حاصل کرنے کے ضمن میں بھی باقاعدہ دوڑ شروع ہوگئی اور اس مقصد کے لیے ادارے اور شعبے قائم کردیے گئے۔

ابتدائی طور پر خلائی مخلوق سے رابطہ کرنے کی غرض سے کرۂ ارض کی حدود سے باہر اشارات (سگنل ) بھیجے گئے۔ نیز خلا سے ( متوقع) اشارات وصول کرنے کے لیے جدید آلات بنائے اور نصب کیے گئے، مگر یہ کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوسکیں۔ اسی دوران انسان نے خلائی جہاز روانہ کرنے میں کام یابی حاصل کرلی۔ سائنس دانوں کا خیال تھا کہ مریخ پر زندگی پائی جاسکتی ہے کیوں کہ زمین کا پڑوسی ہونے کی وجہ سے اس کے طبعی حالات کرۂ ارض سے مشابہ ہوسکتے ہیں۔ چناں چہ مریخ کی جانب اولین تحقیقی خلائی جہاز 1971ء میں بھیجا گیا۔ اسی برس چار مزید خلائی جہاز سیارے کی جانب روانہ کیے گئے۔

پینتالیس برس گزر جانے کے باوجود مریخ، جسے اس کی رنگت کے باعث سُرخ سیارہ بھی کہا جاتا ہے، سائنس دانوں کی خصوصی توجہ کا مرکز چلا آرہا ہے۔ آج بھی اس کی سرزمین پر اور مدار میں کئی خلائی تحقیقی جہاز اور گاڑیاں موجود ہیں۔

1992ء میں نظام شمسی سے باہر جب پہلے سیارے ( exoplanet ) کی دریافت عمل میں آئی تو ماہرین فلکیات کی توجہ دوسرے سیاروں کی جانب مبذول ہوئی۔ رفتہ رفتہ بیرونی سیاروں ( exoplanets) کی تعداد بڑھتی چلی گئی۔ ان میں سے بعض سیارے ایسے تھے جو جسامت، اجزائے ترکیبی اور دوسرے طبعی خواص میں زمین سے کسی حد تک مشابہت لیے ہوئے تھے۔ ان کی دریافت کے بعد سائنس دانوں کو خیال آیا کہ مریخ کے ساتھ ساتھ زمین سے مشابہ سیاروں پر بھی توجہ دی جائے کیوں کہ ان کے خیال میں زندگی کسی ایسے سیارے ہی پر پنپ سکتی ہے جس کے طبعی خواص زمین سے مشابہ ہوں یعنی یہ چٹانی سیارہ ہو، درجۂ حرارت موزوں ہو اور وہاں پانی بھی رواں رہتا ہو۔

چناں چہ سائنس داں نودریافت شدہ سیاروں میں سے ان پر خصوصی توجہ دینے لگے جو habitable-zone میں واقع تھے۔ habitable-zone سے مراد کسی ستارے کے گرد وہ علاقہ ہے جس میں محو گردش چٹانی سیاروں پر پانی کی مائع شکل میں موجودگی کا امکان ہوسکتا ہے۔

رُبع صدی کے دوران تین ہزار سے زائد بیرونی سیارے دریافت ہوچکے ہیں۔ ان میں سے کئی زمین سے مشابہ ہیں۔ حال ہی میں امریکا کی نیشنل ایروناٹکس اینڈ اسپیس ایڈمنسٹریشن (ناسا) نے مزید سات سیارے دریافت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کی خاصیت یہ ہے کہ تمام سیارے ایک ہی شمسی نظام کا حصہ ہیں۔ زمین کے تقریباً مساوی جسامت رکھنے والے سیارے ایک ہی ستارے کے گرد محوگردش ہیں۔

فلکیات کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب ایک ہی نظام شمسی میں زمین سے مشابہ سات سیارے دریافت ہوئے ہوں۔ اسی لیے انھیں ’ سات عجوبے‘ بھی کہا جارہا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ تمام سیارے اپنے سورج سے اتنے فاصلے پر ہیں کہ ان کے طبعی حالات زندگی کی نمو کے لیے موزوں ہوسکتے ہیں۔ بالخصوص تین سیاروں پر پانی کی موجودگی کا قوی امکان ظاہر کیا گیا ہے۔

ناسا کے واشنگٹن میں واقع سائنس مشن ڈائریکٹوریٹ کے ایسوسی ایٹ ایڈمنسٹریٹر تھامس زُربوچین کہتے ہیں کہ ہم طویل عرصے سے اس سوال کا جواب تلاش رہے ہیں کہ کیا اس کائنات میں ہم اکیلے ہیں؟ حالیہ دریافت اس دیرینہ سوال کا جواب کھوجنے کی جانب اہم پیش رفت ہے۔

بیرونی سیاروں کا یہ نظام ابتدائی طور پر چلی میں نصب Transiting Planets and Planetesimals Small Telescopeکی مدد سے دریافت کیا گیا ہے۔ اسی دوربین کی مناسبت سے ماہرین فلکیات نے اس نظام کو TRAPPIST-1کا نام دیا ہے۔ اس دریافت میں کئی اور دوربینوں سے بھی مدد لی گئی ان میں یورپین سدرن آبزرویٹری کی ’ویری لارج ٹیلی اسکوپ‘ اور اسپٹزر شامل ہیں۔ TRAPPISTنے دو سیارے دریافت کیے تھے۔ اسپٹزر نے ان کی تصدیق کرنے کے ساتھ ساتھ مزید پانچ سیاروں کی موجودگی کا سراغ دیا۔ یوں سیاروں کی مجموعی تعداد سات تک پہنچ گئی۔

نودریافت شدہ شمسی نظام زمین سے چالیس نوری سال (235 کھرب میل) کے فاصلے پر واقع اور Aquarius نامی کہکشاں کا جزو ہے۔ یوں ہمارے سولر سسٹم سے یہ نظام، قبل ازیں دریافت ہونے والے شمسی نظاموں کی نسبت قدرے قریب ہے۔

اسپٹزر دوربین سے حاصل کردہ ڈیٹا کی بنیاد پر ناسا کے ماہرین فلکیات کی ٹیم نے ساتوں سیاروں کی جسامت کی پیمائش اور پھر ان میں سے چھے کی کمیت اور کثافت بھی معلوم کرلی۔ کثافت کے پیش نظر سیاروں کے چٹانی ہونے کا امکان قوی ہے۔ سائنس داں تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں جس سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ نودریافت شدہ اجرام فلکی کی سرزمین پر پانی رواں ہے یا نہیں۔ ساتواں سیارہ جس کی کمیت ہنوز نامعلوم ہے، اس کے بارے میں ماہرین کا خیال ہے کہ یہ آخری سیارہ برفانی ہوسکتا ہے۔ تاہم اسے حتمی طور پر برفانی دنیا قرار دینے کے لیے مزید تحقیق درکار ہے۔

عطارد، سورج سے جتنے فاصلے پر ہے ’سات عجوبوں‘ کی اپنے سورج سے دوری اس سے بھی کم ہے۔ اس کے باوجود یہاں حیات کی نمو کے لیے حالات سازگار ہوسکتے ہیں۔ اس کے برعکس عطارد سورج سے قریب ترین ہونے کے باعث آگ کا گولا ہے۔ جہاں دن میں درجۂ حرارت 427 ڈگری سیلسیئس تک پہنچ جاتا ہے۔ ساتوں سیاروں پر درجۂ حرارت معتدل ہونے کا سبب یہ ہے کہ یہ جس ستارے کے گرد محوگردش ہیں، وہ ہمارے سورج کے مقابلے میں سرد ہے۔ اس کی سطح پر درجۂ حرارت سورج سے کئی گنا کم ہے۔ یہی سبب ہے کہ سیاروں کی بہت کم دوری پر موجودگی کے باوجود ان کا اوسط درجۂ حرارت معتدل ہے۔

نودریافت شدہ سیاروں کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ اپنے سورج سے قریب ہونے کے ساتھ ساتھ ان کا باہمی فاصلہ بھی بہت مختصر ہے۔ یہ ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں، اس امر کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ اگر ایک سیارے کی سطح پر کھڑے ہوکر نظر اٹھائیں تو دوسرے سیارے کی فضا میں تیرتے بادل (اگر ہوئے) بہ آسانی دکھائی دے جائیں گے۔

ناسا کے ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر ’سات عجوبوں‘ کا گردشی زاویہ کچھ اس طرح کا ہے کہ ان کا ایک حصہ ہمیشہ سورج کی جانب رہتا ہے۔ یعنی ان کے نصف حصے پر ہمیشہ دن اور نصف پر رات رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہاں موسم، زمین کے موسموں سے یکسر مختلف ہوں گے۔ روشن نصف کرّے سے تاریک نصف کرّے کی جانب طوفانی رفتار سے ہوائیں چلتی ہوں گی اور درجۂ حرارت میں یکلخت بہت زیادہ تبدل در آتا ہوگا۔

ماہرین نودریافت شدہ نظام شمسی پر تحقیق جاری رکھے ہوئے ہیں۔ انھیں سات ’ عجوبوں‘ سے جُڑی مزید اہم اور دل چسپ معلومات سامنے آنے کی قوی امید ہے جو ان انوکھی دنیاؤں میں زندگی کے وجود یا عدم موجودگی کا پتا دیں گی۔

The post زمین سے باہر بھی سات ’عجوبے‘ دریافت appeared first on ایکسپریس اردو.

عام خاص باغ؛ ملتان میں مغل حکمرانی کی آخری نشانی

$
0
0

ملتان شہر اپنی قدامت اور تاریخی اہمیت کے حوالے سے ایک خاص مقام کا حامل ہے، قدامت کے ساتھ ساتھ گرد و گرما گدا و گورستان بھی ملتان کی دنیا بھر میں شہرت کا حوالہ بنتے ہیں، گردوگرما کے حوالے سے دیکھا جائے تو ملتان کا تصور ایک ریگزار کے طور پر سامنے آتا ہے جہاں بے آب وگیاہ صحرا میں قیامت کی گرمی پڑتی ہے اور خاک اُڑتی ہے۔

گو ملتان سخت موسموں کا خطہ ہے یہاں گرمی بھی زوروں پر ہوتی ہے اور سردی بھی یہی وجہ ہے کہ قدیم عہد میں یہاں موسموں کو اعتدال میں رکھنے کے لئے بڑی تعداد میں اشجار لگائے گئے اور ثمردار باغوں کا ایک سلسلہ قائم کیا گیا‘ ایک دور تھا کہ ملتان شہر چار اطراف سے باغوں میں گھرا ہوا تھا‘ اس کے باغات اپنے ثمردار اشجار اور خوش نوا پرندوں کے دم قدم سے آباد تھے۔

یہاں کی زمین زرخیزی میں اپنی مثال آپ تھی۔ ملتان چونکہ قدیم عہد سے مختلف قومیتوں کے حکمرانوں کا مرکز رہا، اس لئے ہر فرمانروا نے اپنے اپنے ذوق کے مطابق گردوگرما کے باوجود اس شہر کے گردو پیش ایسی سرسبز و شاداب فضائیں پیدا کیں جو واقعی قابل رشک تھیں‘ پرہلاد بھگت کازمانہ کتنا قدیم ہے لیکن اس عہد عتیق میں بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ دریا شہر سے لگ کر بہتا تھا اور محل سرائے شاہی بھی باغات میں گھرا ہوا تھا۔

ملتان میں مسلم حکمرانی کے آغاز میں بھی سرسبز وشاداب باغات کا سلسلہ قائم ہوا، خصوصاً محمد بن قاسم کی فتح کے بعد علمدیسورہ اور قاسم بیلا کے نخلستان تاریخ کے صفحات پر بھی نظر آتے ہیں۔ ملتان چونکہ قدیم عہد میں دریا کے کنارے پر آباد تھا اس لئے شہر کے قریب بھی اشجار کی بہتات تھی۔

ملتان کے اولین صوفی حضرت موج دریاؒ ہی وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے شہر سے باہر ایک خوبصورت باغ لگوایا جو رفتہ رفتہ ایک پرفضاء مقام میں تبدیل ہو گیا، سہروردی خاندان نے بھی شہر کے جنوب میں ایک قطعہ اراضی خرید کر اس میں باغ لگوایا‘ آج بھی بی بی پاک دامنؒ کا مزار اسی جگہ واقع ہے‘ سلطان غیاث الدین تغلق کے گورنر ملتان ملک شیر خان نے اپنے دور گورنری میں قلعہ شاہی کے غرب میں دریا کے کنارے باغات اور محلات کا نظر فریب سلسلہ قائم کیا لیکن آج ان باغات اور محلات کا نام ونشان بھی نہیں ملتا‘ یوں تو ملتان شہر میں مختلف اوقات میں بہت سے باغات اپنی بہاریں دکھاتے رہے لیکن چند معروف ترین باغوں میں باغ نواب عابد خان‘ باغ لانگے خان‘ باغ جیسمل والا‘ باغ قصائی والا‘ باغ زبردست خان‘ باغ مخدوم محمد زمان قریشی، باغ مخدوم محمد غوث قریشی، باغ شیش محل، کمپنی باغ، باغ دیوان والا اور باغ مخدوم گردیزی والا شامل تھے۔

سٹی سٹیشن کے پاس سیٹھ کلیان داس کا باغ بھی ایک خاص انفرادیت کاحامل تھا۔ مختلف ادوار میں ملتان پر حکومت کرنے والے مغل حکمرانوں نے اپنے دور حکومت میں ملتان میں تین باغات لگوائے‘ ان میں سے دو باغات لگوانے کا سہرا تو شاہ جہاں کے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ مراد بخش کے سر ہے جبکہ ایک باغ جو باغ بیگی کے نام سے معروف تھا آخری دور کے مغل حکمران معزالدین جہاندار شاہ نے لگوایا تھا۔

شاہ جہان نے دہلی کے تخت پر بیٹھتے ہی پہلے پہل قیلچ خان کو ملتان کا گورنر بنایا کچھ عرصہ بعد اسے تبدیل کرکے قندھار بھیج دیا اور ملتان کو اپنے سب سے چھوٹے بیٹے شہزادہ مراد بخش کی جاگیر قرار دیا‘ شہزادہ مراد بخش نے 1642ء میں ملتان کی حکومت سنبھالتے ہی یہاں رفاہ عامہ کے بہت سے کام کئے‘ اس نے سب سے پہلے قلعہ و فصیل کی مرمت کرائی‘ قلعہ کے اندر ایک مسجد‘ حمام بنوائے اور کنویں احداث کرائے‘ لوہاری دروازہ کے باہر جو پل شہر کو قلعہ سے ملاتا تھا، اسے پختہ کرایا۔ شہزادہ مراد بخش سے پہلے ملتان کے بیشتر حکمران قلعہ کہنہ کے اندر ہی رہائش رکھتے تھے، حفاظتی نکتہ نظر سے قلعہ سے باہر بہت کم حکمرانوں نے رہائش اختیار کی۔

سلاطین کے عہد میں تغلق خاندان نے پہلے پہل قلعہ کہنہ سے باہر رہائش اختیار کی اور کوٹلہ تغلق خان کے علاقے میں اپنے لئے محلات تعمیر کرائے۔ سلاطین کے بعد شہزادہ مراد بخش ملتان کا وہ پہلا حکمران تھا جس نے قلعہ کہنہ سے قربت رکھنے والے علاقے دولت دروازہ میں اپنی رہائش کے لئے ایک محل بنوایا اور اس کے اطراف ایک خوبصورت باغ بھی لگوایا جو عام خاص باغ کے نام سے آج بھی معروف ہے۔

شہزادہ مراد بخش نے عام خاص باغ کے علاوہ اپنے دور حکومت میں ایک اور باغ بھی لگوایا جو قلعہ کہنہ کی قربت کی وجہ سے حضوری باغ کہلاتا ہے‘ حضوری باغ جس کا اب نام ہی شہر کی تاریخ میں رہ گیا ہے کی طرف لوہاری دروازہ سے ایک راستہ جاتا تھا۔ ملتان کے بیشتر حکمران سرکاری مصروفیات سے فراغت کے بعد اسی باغ میں آرام کرتے تھے، ملتان کا یہ تاریخی باغ درانی حملوں کے دوران برباد ہوا۔

مغل حکمرانوں نے ملتان میں تیسرا باغ، باغ بیگی کے نام سے معزالدین جہاندار شاہ کے دور میں لگوایا جو ملتان شہر کے جنوب میں واقع تھا۔ اس باغ کے اندر ایک خوشنما محل اطراف میں شالامار باغ کی طرح خوبصورت بارہ دریاں‘ درمیان میں حوض‘ فوارے اور آبشاریں بنائی گئی تھیں۔ شہزادہ جہاندار شاہ نے یہ باغ اپنی منکوحہ لال کنور کو دے دیا تھا‘ جو ابتداء میں باغ بیگم بعدازاں باغ بیگی ہو گیا‘ ملتان پر درانی حملوں کے دوران یہ باغ اُجڑتا رہا‘ بعدازاں نواب مظفر خان کے صاحبزادے نواب سرفراز خان نے اپنی صوبیداری کے زمانے میں اس کی مرمت کرائی‘ اس باغ میں وہ سرکاری مہمانوں سے ملاقاتیں کرتا تھا۔ اس باغ کی آخری تباہی ملتان پر سکھوں کے حملوں کے دوران ہوئی‘ اب صرف باغ کا نام رہ گیا ہے اور باغ کی جگہ ایک پورا محلہ آباد ہے۔

مغل حکمران شہزادہ مراد بخش کا لگوایا ہوا ایک تاریخی باغ عام خاص جو آج بھی شہر میں موجود ہے، ملتان کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔ عام خاص باغ جو شہر میں شرقی سمت سے داخل ہونے والے راستے پر واقع ہے اپنے عروج کے دور میں یہ مغل شہزادوں کی رہائش کے کام آتا تھا۔ اس باغ کا کل رقبہ 50 بیگھے پختہ تھا‘ اس باغ میں شہزادہ مراد بخش کا مراد محل ایک غیر معمولی عمارت کے طور پر موجود تھا‘ باغ کے مشرقی کونے پر ایک مثمن شکل کا تالاب تھا‘ جہاں چہار اطراف بارہ دریاں اور دالان اندر دالان تھے۔

انتہائی مشرقی کونے میں وسیع گول حوض کے درمیان دو منزلہ چوگوشہ بارہ دری تھی جہاں شہزادگان غسل سے قبل اور بعد لباس تبدیل کرتے تھے‘ اس عمارت میں سنگ مر مر پر نفیس منقش سنگ کاری اور چھتوں پر شنگرفی و لاجوردی گلکاری کے اعلیٰ و حسین نمونے موجود تھے۔ اس باغ میں شہزادہ مراد بخش نے ایک خوبصورت مسجد بھی تعمیر کرائی جو مسجد مراد کہلاتی تھی۔ اپنی رہائش کے ساتھ شہزادہ مراد بخش نے دیوان خاص اور دیوان عام بھی اسی باغ میں بنوایا‘ شہزادہ اسی باغ میں اپنے درباریوں کو شرف ملاقات بخشتا تھا اور اسی جگہ عوام کی داد رسی کرتا تھا۔ شہزادہ مراد بخش اور اس کی کچہری کی وجہ سے یہ علاقہ ایک خاص اہمیت حاصل کرگیا تھا۔

شہزادہ مراد بخش کی ملتان میں عوامی مقبولیت اور رفاہ عامہ کے کام دیکھتے ہوئے بادشاہ نے خائف ہوکر اسے دکن بھیج دیا، کچھ عرصہ نجابت خان ملتان کا گورنر رہا بعد ازاں صوبہ ملتان اورنگزیب عالم گیر کی جاگیر میں شامل ہوگیا‘ اورنگزیب عالم گیر کے دور میں ملتان کا عام خاص باغ کسی خاص کردار کا حامل نہ رہا‘ البتہ اس علاقے کی شاہی حیثیت برقرار رہی‘ باہر کے شہروں سے ملتان آنے والے سرکاری مہمانوں کو اسی باغ میں ٹھہرایا جاتا تھا۔

نادر شاہ درانی اور بعد ازاں احمد شاہ ابدالی کے پے در پے حملوں کے دوران یہ باغ اجڑا‘ نواب مظفر خان کے دور میں اس باغ کا نصیب ایک بار پھر جاگا‘ نواب مظفر خان نے اپنے دور حکومت میں اس باغ کو دوبارہ تعمیر کرایا اور خوبصورت آبشار بنوائی‘ جس کی تاریخ تعمیر پر حضرت منشی غلام حسن شہیدؒ نے یہ قطعہ موزوں کیا:۔

مظفر طالعے نواب والا
بنا کرد است ایں باغ دل آرا
زہے گلزار باغ تازہ بنیاد
کہ باداز بہار بخت آباد
چوں تاریخ از خرد جستم بگفتا
’’مبارک بوستان رونق افراء‘‘ (1227ھ)

نواب مظفر خان کے عہد میں سکھ ہر سال خراج کے لئے ملتان پر حملہ کیا کرتے تھے‘ نواب مظفر خان کے عہد سے بھی پہلے شروع ہونے والے ان حملوں میں قلعہ ملتان تو ایک بار بھی فتح نہ ہوا البتہ ملتان شہر میں تباہی و بربادی کی تاریخ رقم ہوتی رہی‘ 1818ء میں جب ملتان سکھوں کے تصرف میں آگیا تو مہاراجہ رنجیت سنگھ نے دیوان ساون مل کو ملتان کا گورنر مقرر کیا۔

دیوان ساون مل کے دور میں ایک بار پھر اس باغ کی قسمت چمکی، دیوان ساون مل نے اس باغ میں رہائش رکھی اس کو باقاعدہ آباد کیا‘ اس میں بارہ دریاں اور کچہریاں بنائیں‘ شاہی محلات کو اپنے خانگی استعمال میں لایا اور نواب مظفر خان کی مسند پر بیٹھ کر مہمات ملکی انجام دینے لگا‘ آخر کار 1844ء میں دیوان ساون مل اسی عام خاص باغ میں اپنے ایک سپاہی کے ہاتھوں قتل ہوا‘ دیوان ساون مل کے بعد دیوان مولراج ملتان کا گورنر بنا تو اس نے بھی عام خاص باغ میں ہی اپنی رہائش رکھی۔

1845ء میں پہلی جنگ پنجاب کے بعد لاہور کا انتظام ریذیڈنٹ بہادر نے سنبھال لیا اور صوبے کے مختلف اضلاع سے حساب وصول کرنے کیلئے افسران روانہ کئے گئے۔ حساب کتاب کے معاملے پر دیوان مولراج مستعفی ہو گیا اور اقتدار کے انتقال کیلئے جب دو افسران 18 اپریل 1848ء کو ملتان آئے تو مولراج عام خاص باغ میں ہی ان کا منتظر تھا۔

مولراج اور انگریزوں کے درمیان انتقال اقتدار کا یہ مرحلہ ایک خونریز جنگ پر منتج ہوا‘ تو انگریز فوج عام خاص باغ کے راستے ہی ملتان میں داخل ہوئی۔ انگریز مؤرخین کے مطابق جب سکھوں اور انگریزوں کی لڑائی شروع ہوئی تو قلعہ کی توپیں چلنا شروع ہو گئیں، اسی طرح عام خاص باغ کی توپوں کو بھی گھسیٹ کر ایک اونچے ٹیلے پر لایا گیا۔

27 دسمبر 1848ء کو انگریز فوج کا دستہ سیتل ماڑی میں رکا‘ پھر انہوں نے شہر کی طرف پیش قدمی کی‘ 27 دسمبر کے حملے کا حقیقی ہدف عام خاص باغ اور دیوان ساون مل کی سمادھی تھی‘ دائیں دستے نے بڑی آسانی سے ان دونوں اہداف پر قبضہ کر لیا۔ 27 دسمبر کو ہی انگریز فوج نے بم مار کر عام خاص باغ کے داخلی دروازے کو تباہ کر دیا‘ یوں میجر ایڈورڈ اور لیفٹیننٹ مسٹر لیک اندر داخل ہو کر باغ پر قابض ہو گئے۔

برطانوی فتح کے بعد عام خاص باغ کی اراضی کو مختلف سرکاری محکموں کو سپرد کر کے اس کی قطع و برید شروع کر دی گئی، اس باغ کا کل رقبہ 50 بیگھے پختہ تھا، 1849ء میں برطانوی فتح کے ایک سال بعد 15 بیگھے رقبہ پر ملتان کا پہلا تحصیل آفس قائم کیا گیا، تحصیل آفس کے لیے مراد محل کا انتخاب کیا گیا، 1922ء میں تحصیل آفس سند باد ہوٹل کے سامنے ایک بلڈنگ میں شفٹ ہو گیا تو مراد محل کو تباہی و ویرانی کے سپرد کر دیا گیا، اس باغ میں قائم مسجد مراد بخش جو خشتی فن تعمیر کا نمونہ تھی وہ بھی ختم کر دی گئی۔

ملتان پر انگریزوں کے حملہ کے دوران اس مسجد کا ایک حصہ گر گیا تھا، قیام پاکستان سے پہلے ہی اس تاریخی مسجد کو ایک اور مسجد کی توسیع کے نام پر ختم کر دیا گیا، پاکستان بننے سے پہلے مارچ کے مہینے میں یہاں ڈسٹرکٹ بورڈ کے زیراہتمام گھوڑوں کا سالانہ میلہ بھی لگا کرتا تھا، عام خاص باغ کے قریب ہی مغل دور میں شاہی اصطبل بھی ہوا کرتا تھا، قیام پاکستان سے پہلے باغ عام خاص کی اراضی اردگرد کے تمام علاقے میں پھیلی ہوئی تھی آج جس اراضی پر اسلامیہ ہائی سکول عام خاص باغ اور گورنمنٹ ولایت حسین کالج قائم ہیں بعض روایات کے مطابق یہ ادارے بھی عام خاص باغ کی اراضی پر ہی قائم کیے گئے، اس دعوے کو دیوان ساون مل کی سمادھ بھی تقویت فراہم کرتی ہے کیونکہ ملتان کی تاریخ کے مطابق دیوان ساون مل کی سمادھی عام خاص باغ کے مشرقی کونے پر ہی بنائی گئی تھی۔

باغ عام خاص کے قریب ہی واقع چوک دولت بھی قلعہ کہنہ کی قربت کی وجہ سے ایک خاص اہمیت کا علاقہ ہے اس چوک کی وجہ تسمیہ کے پیچھے دو آراء ملتان کی تاریخ میں پائی جاتی ہیں، جن میں ایک روایت تو یہ ہے کہ یہ علاقہ چوک کے عین درمیان موجود حضرت دولت شاہؒ کے نام سے موسوم ہے جو ملتان کے برگزیدہ صوفی اور حضرت بہاء الدین زکریا ملتانیؒ کے خدام میں سے تھے، دوسری روایت یہ ہے کہ اس علاقہ میں اکبر بادشاہ کے دور میں سکے ڈھالنے کی ایک ٹکسال لگائی گئی تھی، اسی وجہ سے یہی علاقہ دولت درواز کے نام سے معروف ہو گیا۔ چوک دولت گیٹ سے حافظ جمال روڈ کی طرف مڑتے ہی سامنے عام خاص باغ کا مرکزی گیٹ نظر آتا ہے۔

چوک دولت گیٹ پر برطانوی دور میں قائم ہونے والا ملتان کا ایک ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ بھی موجود ہے، قیام پاکستان سے پہلے یہ انسٹی ٹیوٹ ملتان میں علمی و ادبی سرگرمیوں کا اہم ترین مرکز تھا۔ باغ عام خاص کی اہمیت اس حوالے سے بھی ہے کہ یہ لاہور، جھنگ، دہلی اور چولستان سے ملتان میں داخل ہونے والے راستے پر موجود ہے۔

حضرت سخی سرورؒ کے عرس کے موقع پر ہندوستان بھر سے سنگوں کے جو قافلے ملتان میں داخل ہوا کرتے تھے وہ سبھی عام خاص باغ کے علاقے میں ہی قیام پذیر ہوتے تھے، ملتان کے مزاروں پر حاضری کے بعد سنگوں کے لیے یہ قافلے سخی سرورؒ کی طرف کوچ کیا کرتے تھے۔

آج بھی بہاء الدین زکریا ملتانیؒ اور حضرت شاہ رکن عالم ملتانیؒ کے عرس میں شرکت کے لیے آنے والے سندھی زائرین بھی پہلے پہل عام خاص باغ میں ہی بیٹھتے ہیں جب ان کی رہائش کا انتظام سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ہو جاتا ہے تو وہ وہاں شفٹ ہو جاتے ہیں۔

باغ عام خاص اپنی خوبصورتی اور شہر کے مرکز میں واقع ہونے کی وجہ سے ایک خوبصورت تفریح گاہ تھا اندرون شہر اور بیرونی علاقوں سے قربت کی وجہ سے بھی اس تک رسائی بہت آسان تھی، گو یہ باغ ملتان میں مسلم حکمرانوں کی یادگار کے طور پر موجود رہا لیکن یہ باغ سناتن دھرم ہائی سکول سے قریب ہونے کی وجہ سے ہندوئوں کی ثقافتی و سماجی سرگرمیوں کا بھی مرکز رہا، باغ عام خاص نہ صرف ہندوئوں کی ثقافتی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز تھا بلکہ ملتان کے ہندو ادیبوں کی تحریروں میں بھی اس باغ کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔

اس حوالے سے ڈاکٹر عذرا شوذب نے اپنی کتاب ’’ملتان میں اردو نثر کا ارتقا‘‘ میں ملتان کے ایک ہندو ناول نگار لالہ مول چند کے ناول ’’چلتا پرزہ المعروف بگلا بھگت‘‘ کی خاص طور پر نشاندہی کی ہے، لالہ مول چند کا یہ ناول 1900ء کے قریب ملتان سے شائع ہوا تھا۔ اس ناول کی کہانی کسی ہندو تاجر کندن لعل اور ایک طوائف مہر النساء کے گرد گھومتی ہے اور وہ دونوں ملنے کے لیے شام کے وقت اسی باغ میں آتے ہیں، ڈاکٹر عذرا شوذب کے مطابق ناول ’’چلتا پرزہ المعروف بگلا بھگت‘‘ ایک صدی قبل کی ملتانی معاشرت کا عکاس ہے۔

ناول کے مطابق ’’کندن لعل کئی ماہ دیہاتوں کے دورے میں لگا کر کثیر سرمایہ جمع کر کے ملتان لوٹتا ہے اور یہاں آکر جمع شدہ مال سے دکان کو جنرل شاپ میں تبدیل کر لیتا ہے اور لوگوں کو سود پر روپیہ دینے لگتا ہے۔ اب وہ شادی بھی کر لیتا ہے لیکن اس کی بیوی سے نہیں بنتی اور دلہن اپنے میکے واپس ہو جاتی ہے، کندن لعل ایک دن دکانداری میں مصروف ہوتا ہے کہ ایک خوبصورت طوائف مہر النساء ریشمی مخمل خریدنے دکان پر آتی ہے، کندن لعل اس کے تیز نظر سے گھائل ہو جاتا ہے اور دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے دوست پریم چند کے ساتھ ملتان کے مشہور جنت نظیر باغ عام خاص باغ میں پہنچتا ہے جہاں شام کے وقت گلزار پور بستی کی طوائفیں جلوس کی شکل میں سیر کے لیے آتی ہیں، اس وقت اس سڑک پر جو دلی دروازے اور عام خاص باغ کے درمیان ہے بے شمار عاشق بھی سیر کے بہانے جمع ہو جاتے ہیں کندن لعل باغ میں مہر النساء کو دیکھتا ہے تو اس کے جنون عشق میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے وہ مٹھائی، پھول اور تحائف سے لدا پھندا مہر النساء کے ڈیرے پر پہنچ جاتا ہے‘‘۔

قیام پاکستان سے پہلے عام خاص باغ ملتان کے سیاسی و مذہبی اجتماعات کا بھی مرکز تھا، یہاں ہر سال مسلم لیگی لیڈر سید زین العابدین شاہ گیلانی کی تاج پوشی بھی کی جاتی تھی، تاج پوشی کے موقع پر انہیں سیپ کے بٹنوں سے آراستہ تاج پہنایا جاتا تھا، سید زین العابدین شاہ گیلانی کی تاج پوشی کے لیے عام خاص باغ کا انتخاب اس لیے کیا جاتا تھا کہ ملتان کا یہ تاریخی باغ ہندوئوں کے سناتن دھرم ہائی سکول کے سامنے تھا، سناتن دھرم ہائی سکول ہندوئوں کی بھی علمی و ادبی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا، قیام پاکستان کے بعد عام خاص باغ کی اصل عوامی صورت سامنے آئی اور سیرو تفریح کے لیے یہاں لوگوں کی بڑی تعداد بھی آنے لگی، یہاں پہلوانوں کے اکھاڑے بھی رہے، تن سازی کو بھی یہاں اچھا خاصا فروغ حاصل ہوا۔

1980ء تک اس باغ کی تمام قدیم تعمیرات منہدم ہو چکی تھیں، اسی زمانے میں باغ کی حافظ جمال روڈ اور معصوم شاہ روڈ سے ملحقہ اراضی پر قبضہ کر کے دکانیں تعمیر کر لی گئیں تھیں جنہیں دو عشروں بعد وزیراعظم پاکستان کے حکم پر ختم کیا گیا، عام خاص باغ کی تزئین و آرائش کے لیے مختلف ادوار میں بہت سے منصوبے شروع کیے گئے لیکن کسی صورت بھی اس باغ کی عظمت رفتہ بحال نہ ہو سکی۔

عام خاص باغ کا نام
ملتان کی تاریخی روایات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ عام خاص باغ مغل عہد میں شاہی رہائش اور دیوان خاص کے طور پر استعمال ہوتا تھا، مغلوں کے بعد بھی اس باغ کی شاہی حیثیت برقرار رہی اور یہ خواص کی ہی مصروفیات کا مرکز رہا، خواص کی سرگرمیوں کا مرکز ہونے کی وجہ سے اس باغ کا نام بھی پہلے خاص عام باغ تھا۔

مغل دور کے بعد نواب مظفر خان کے عہد میں پہلی مرتبہ اس باغ کو عوامی حیثیت ملی، نواب مظفر خان کے عہد میں جب اس باغ کی تزئین و آرائش کی گئی تو اس وقت ملتان کے میر منشی حضرت غلام حسن شہید تھے، منشی غلام حسن شہید کی خاندانی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ہی نواب مظفر خان کو یہ مشورہ دیا کہ اس باغ کا نام خاص عام کے بجائے عام خاص رکھا جائے کیونکہ اس سے پہلے یہ باغ صرف خواص کے لیے ہی مختص تھا‘ اس باغ کا ابتدائی نام جو بھی ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ جب تک یہ باغ خواص کے لیے تھا تو اس کا پھیلائو بھی بہت زیادہ تھا اور اس میں بہت اعلیٰ تعمیرات بھی موجود تھیں لیکن جب سے یہ باغ عوام کے لیے مخصوص ہوا اس کی اراضی بھی سکڑتی چلی گئی اور اس کی حالت بھی ایسی عام ہو گئی کہ اس میں کوئی خاص بات نہ رہی۔

عام خاص باغ میں ملتان کے سکھ گورنر دیوان ساون مل کا قتل
دیوان ساون مل اکال گڑھ کا رہنے والا تھا جسے ملتان میں دوسرے سکھ گورنر بدن ہزاری کے دور میں 350 روپے ماہانہ مشاہرے پر حسابات کا نگران بنایا گیا‘ اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے 1821ء میں دیوان ساون مل کو ملتان کا گورنر مقرر کر دیا تو اس نے اپنی رہائش گاہ کیلئے عام خاص باغ کو ہی پسند کیا‘ دیوان ساون مل جو ملتان میں سکھ عملداری کا اہم ترین اور مشہور ناظم تھا کو دیوان کا خطاب حسن کارکردگی پر رنجیت سنگھ نے دیا‘ دیوان ساون مل کی عدل گستری اور انصاف پروری ضرب المثل تھی۔

اس نے کم و بیش 17 سال ملتان پر حکومت کی۔ دیوان ساون مل کے قتل کا واقعہ اسی عام خاص باغ میں پیش آیا‘ ہوا یوں کہ صاحب داد خان نامی ایک سپاہی جو ساون مل کے سواروں میں سے تھا ملازمت چھوڑنا چاہتا تھا لیکن دیوان اسے کسی صورت چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھا۔ میجر ایڈورڈ اس کہانی کو یوں بیان کرتے ہیں ’’وہ ایک اچھا سپاہی تھا جو دیوان کو چھوڑ دینا چاہتا تھا چنانچہ دیوان نے اسے پہلے نرم الفاظ میں اور وعدوں کے ذریعے مائل کرنا چاہا لیکن جب سپاہی اپنی تنخواہ اور ڈسچارج کا مطالبہ کرتا رہا تو اس نے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور جیل میں ڈالنے کی دھمکی دی۔

سپاہی نے احتجاج کیا اور مطالبہ پر اڑا رہا تو ساون مل غصے میں آ گیا اور اپنے محافظوں سے کہا اس بدمعاش کو پکڑ لو، اس کی تلوار اور ڈھال ضبط کر لو‘ سپاہی نے محافظوں سے کہا کہ اگر انہوں نے اس پر ہاتھ ڈالا تو انجام اچھا نہیں ہو گا بلکہ پیچھے ہٹ جائیں تو وہ خود ہی اپنا اسلحہ حوالے کر دے گا۔ صاحب داد کو غیر مسلح کرنے کے بعد محافظوں نے پوچھا کیا اسے جیل لے جائیں۔ دیوان نے کہا نہیں اسے دروازے میں بٹھائو تاکہ میں باہر جاتے وقت اس سے چند باتیں کر سکوں۔ صاحب داد نے اپنے ہتھیار تو دیوان کے محافظوں کے سپرد کر دیئے تھے لیکن ایک بھرا ہوا پستول اپنی پگڑی میں چھپا کر دیوان پر حملہ کرنے کا انتظار کرنے لگا‘ دربار ختم ہوا تو ساون مل چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ سجائے زیر حراست سپاہی کے سامنے رکا اور مدافعت کے کسی خطرے کے بغیر طنزیہ باتیں کہنے لگا۔

صاحب داد جو انتقام کی آگ میں جل رہا تھا نے اچانک پستول نکال کر دیوان کے سینے پر فائر کیا۔ گولی دیوان کے دل سے ذرا اوپر لگی دیوان ساون مل دس دن تک زخمی حالت میں رہا پھر زخم خراب ہونے سے وفات پا گیا۔ دیوان ساون مل کی آخری رسومات بھی اسی باغ میں ادا کی گئیں‘ اسی باغ میں اس کی چتا جلائی گئی اور اسی باغ کے آخری شرقی کونے پر مزار شاہ شمس کے سامنے اس کی سمادھی بنائی گئی۔

اصل نقشے کے مطابق ہشت پہلو کمرے پر مشتمل اس سمادھی کے گرد ایک تالاب تھا جس پر متعدد پلیاں بنائی گئی تھیں، ان پلیوں کے ذریعے ہی سمادھی میں داخل ہوا جاتا تھا یہاں ایک کنواں بھی تھا کنویں سے تالاب تک نالیاں آتی تھیں‘ آہستہ آہستہ یہ کنواں مٹی سے بھر گیا‘ نالیاں ٹوٹ پھوٹ گئیں۔ 1992ء میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ایک مشتعل ہجوم نے اس سمادھ کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ انگریز دور حکومت میں دیوان ساون مل کی سمادھی کا انتظام اس کے خاندان کے پاس ہی تھا اور انتظام چلانے کیلئے ایک چھوٹی سی گرانٹ بھی دی جاتی تھی۔

The post عام خاص باغ؛ ملتان میں مغل حکمرانی کی آخری نشانی appeared first on ایکسپریس اردو.


سرد جنگ کے بعد اسلحہ کی فروخت نئے ریکارڈ قائم کرنے لگی

$
0
0

بدقسمتی! سے کرہ ارض پر انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے اور اس دشمنی میں ایک دوسرے کو زیر کرنے کے جنون نے آج اسے لاٹھی، خنجر، تلوار، نیزے، تیرکمان سے نیوکلئیر ہتھیاروں تک پہنچا دیا، حالاں کہ اس جنون کا نتیجہ انسانیت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

خود کو محفوظ رکھنے کی دوڑ نے ہتھیاروں کو مہلک بنا دیا لیکن ان ہتھیاروں کے جنون نے ان کے موجدوں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے جس کی ایک بڑی مثال مشہورِ زمانہ اے کے 47 رائفل کے بانی میخائیل کلاشنکوف ہیں، جو مرنے سے پہلے اپنے ڈیزائن کردہ ہتھیار سے پھیلنے والی تباہی اور اموات پر بہت رنجیدہ تھے۔

میخائل نے مرنے سے چند ماہ قبل روسی آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ پیٹریارک کیرل کو ایک خط کے ذریعے اپنی فکرمندی سے آگاہ بھی کیا۔ ’’میں تکلیف میں ہوں، میں اپنے آپ سے ایک الجھا ہوا سوال پوچھتا رہتا ہوں، اگر میری بنائی رائفل سے لوگوں کی زندگیاں چھینی جاتی ہوں، تو کیا ان کی اموات کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے؟ چاہے وہ دشمن ہی ہوں؟‘‘ ماہرین کے مطابق اے کے 47کلاشنکوف انسانی تاریخ کی سب سے موثر مارنے والی (killing) مشین ہے، جس کی وجہ سے آج بھی دنیا بھر میں ہر سال تقریباً تین سے ساڑھے تین لاکھ لوگ مارے جاتے ہیں۔

آج دنیا بھر میں اسلحہ کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، جس کی وجہ اس کی وہ منڈی ہے، جس کو بنانے میں امریکہ اور روس جیسی دنیا کی بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ ’’بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘‘ کے مصداق ایک طرف تخفیف اسلحہ کی باتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف اس صنعت کے ذریعے معاشی مضبوطی و استحکام کی تدبیریں کی جا رہی ہیں۔

چند روز قبل دنیا کے مستند اور بااثر تھینک ٹینکس میں شمار ہونے والے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) نے دنیا میں اسلحہ کی خریدوفروخت کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں بیان کئے جانے والے حقائق فکر کا وہ لمحہ ہیں کہ اگر بروقت اس کے تدارک پر اتفاق نہ کیا گیا تو دنیا کو تباہی سے شائد کوئی نہ بچا سکے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ پانچ سال (2012ء سے2016ء) میں اسلحہ کی بین الاقوامی فروخت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے، کیوں کہ سرد جنگ کے بعد اسلحہ کی فروخت میں اتنے عرصہ میں کبھی بھی اس حد تک اضافہ نہیں ہوا۔ اسلحہ کی فروخت میں2007-11 کی نسبت 2012-2016 کے دوران 8.4 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2012ء سے 2016ء کے دوران ایشیاء، مشرق وسطی اور بحرالکاہل کے ساحلوں پر واقع ممالک (Oceania) میں اسلحہ کی برآمد میں اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیہ میں یورپ، امریکہ اور افریقا میں یہ طلب کم ہوئی۔ براعظم جنوبی اور شمالی امریکہ میں واقع ممالک میں 2007-11ء کی نسبت 2012-2016ء میں اسلحہ کی خریداری میں 18 فیصد کمی واقع ہوئی۔

مغربی ممالک میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اسلحہ کی درآمد میں 36 فیصد کمی ہوئی۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں فراہم کیے جانے والے اسلحے کا نصف سے زائد امریکا اور روس مہیا کر رہے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں کو فراہم کیے گئے مجموعی اسلحے کا 56 فیصد امریکا اور روس کی جانب سے دیا جاتا ہے۔

ہتھیار برآمد کرنے والے ملکوں میں تیسرا نام چین کا ہے۔ اِس رپورٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ایک سو ملکوں کے نام اسلحے کی بین الاقوامی فروخت میں شامل ہیں اور ان سو ممالک کو درآمد کْل ہتھیاروں میں امریکی اسلحے کا حجم 33 فیصد ہے جبکہ روس نے اپنے اتحادی یا دوسرے ملکوں کو 23 فیصد کے قریب اسلحہ فراہم کیا۔ دنیا کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں چین کا نمبر تیسرا ہے، جو کل اسلحے کی برآمدات کے حجم کا 6.2 فیصد بنتا ہے۔ ان ممالک کے بعد اسلحہ کی برآمد میں فرانس اور جرمنی کا نام آتا ہے، جن کا اسلحہ کی مجموعی ایکسپورٹ میں بالترتیب 6 اور 5.6 فیصد حصہ ہے۔ یوں دنیا کو فراہم کئے جانے والے مجموعی اسلحہ کا 74 فیصد ان پانچ ممالک سے برآمد کیا جاتا ہے۔

تخفیف اسلحہ کے ذریعے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا علم بلند کرنے والا امریکا خود اس کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ دنیا کے مجموعی اسلحہ کی فروخت میں امریکا کا حصہ ایک تہائی ہے۔ امریکہ نے 2007-11 کی نسبت 2012ء سے 2016ء کے دوران اسلحہ کی برآمد میں 21 فیصد اضافہ کیا، جس کا تقریباً نصف صرف مشرقی وسطی کی ریاستوں کو بیچا گیا۔ دوسری طرف دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت کے مجموعی حجم میں 23 فیصد حصہ رکھنے والے روس کا 70 فیصد اسلحہ بھارت، ویت نام، چین اور الجیریا کو فروخت کیا گیا۔

چین نے 2007-11ء کے دوران 3.8جبکہ 2012-16ء کے دورانیہ میں دنیا کے کل اسلحہ میں سے 6.2 فیصد برآمد کیا۔ایشیاء اور بحرالکاہل کے ساحلوں پر واقع ممالک (Oceania) میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اسلحہ کی برآمد 7.7 فیصد بڑھی، جو اسلحہ کی مجموعی درآمد کا 43 فیصد بنتا ہے اور ہمارا پڑوسی ملک بھارت ان ممالک میں سرفہرست ہے، جس نے 2012ء سے 2016ء کے دوران دنیا کے مجموعی اسلحہ سے 13 فیصد حصہ حاصل کیا، جو اس کے اسلحہ خریدنے کے حجم میں 43 فیصد اضافہ ہے۔ بھارت اپنے جنگی جنون کی وجہ سے اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں اپنے روایتی حریف پاکستان اور چین سے کہیں آگے ہے۔

جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک نے اپنے لئے اسلحہ کی خریداری میں 6.2 فیصد اضافہ کیا تاہم ان میں ایک حیرت انگیز ملک ویت نام ہے، جو 2011ء تک اسلحہ خریدنے والے ممالک میں 29ویں نمبر تھا، لیکن اگلے پانچ سال کے دوران وہ 202 فیصد اضافہ کے ساتھ دسویں نمبر پر آ گیا ہے۔ آزربائیجان نے 2012ء 2016ء کے عرصہ میں ارمینیہ کے مقابلہ 20 گنا زیادہ اسلحہ درآمد کیا۔

سپری حکام کا کہنا ہے کہ یہ ممالک اسلحہ کے ٹھوس حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی ان ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں، جو درست عمل نہیں۔ دوسری طرف چین اسلحہ برآمدگی کا متبادل ملک بن کر ابھر رہا ہے جبکہ بھارت اسلحہ کے حصول کے لئے تاحال روس، امریکہ، مغربی ریاستوں، اسرائیل اور جنوبی کوریا کا محتاج ہے۔

گزشتہ پانچ سال یعنی 2012ء سے 2016ء کے دوران مشرقی وسطی کی ریاستوں نے 86 فیصد اضافہ کے ساتھ دنیا کے مجموعی اسلحہ کا 29 فیصد خرید کیا۔ 212 فیصد اضافہ کے ساتھ سعودی عرب سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا تاہم قطر کی جانب سے اپنے اسلحہ کے ذخائر میں گزشتہ پانچ سال کے دوران 245 فیصد اضافہ کیا گیا۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں گرنے کے نتیجے میں ہونے والے بھاری معاشی نقصان کے باوجود ان ریاستوں نے اپنے علاقائی اختلافات سے نمٹنے کے لئے اسلحہ کی خریداری میں اضافہ کیا۔

آئے روز دنیا کے خاتمے یعنی قیامت کی پیشین گوئیاں کرنے والے ماہرین و سائسندان دیگر وجوہات کے ساتھ نت نئے مہلک ہتھیاروں کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں، لیکن اسلحہ سازی کی صنعت کے دم پر معاشی مضبوطی کے ذریعے دنیا پر ’’چودھراہٹ‘‘ کے خبط میں مبتلا امریکہ اور روس جیسے ممالک کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ عالمی سلامتی اور امن کے لئے تخفیف اسلحہ ناگزیر ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کو بڑے ’’چودھریوں‘‘ نے صرف ایک خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک اجلاسوں، دفاتر کے قیام، معاہدوں اور تقرریوں سے آگے بڑھ کر عمل کی راہ پر چل پڑے، بصورت دیگر اس رجحان کے نقصانات کا اندازہ لگانا شائد عقلی انسانی کے بس میں نہ ہو۔

امریکہ اور روس اپنے اقتصادی مفادات کیلئے اسلحہ کی ایکسپورٹ نہیں روکیں گے جنرل (ر) طلعت مسعود
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) طلعت مسعود نے دنیا میں اسلحہ کی بڑھتی ہوئی طلب اور رسد پر ’’ایکسپریس‘‘ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں! اگرچہ یہ رجحان درست نہیں لیکن دنیا میں جب مجموعی طور پر حالات خراب ہوتے ہیں تو اسلحہ کی ریس میں بھی خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج ایک طرف امریکہ کے روس سے تعلقات کشیدہ ہیں تو دوسری طرف چین سے بھی کھچاؤ ہے، بھارت کی کبھی چین سے بنی ہے نہ پاکستان سے، اگرچہ یہ تمام ممالک ایک دوسرے سے تعلقات اور تجارت پر زور دے رہے ہیں، لیکن در پردہ تعلقات میں کھچاؤ میں موجود ہے۔ روس نے یوکرائن میں پیش قدمی کی تو امریکہ اس سے مزید ناراض ہو گیا، پاکستان اور بھارت میں عرصہ دراز سے کشمیر کا مسئلہ موجود ہے۔

دوسری طرف عرب ممالک کے حالات بھی اچھے نہیں، عراق اور شام میں جاری بحران نے بھی اسلحہ کی طلب کو بڑھاوا دیا۔ تخفیف اسلحہ کی باتیں اپنی جگہ لیکن امریکہ اور روس جیسے ممالک اپنی اسلحہ کی صنعت کو برقرار رکھتے ہیں، کیوں کہ اگر یہ ایکسپورٹ نہ کریں تو ان کی یہ انڈسٹری کمزور ہو جائے گی، جو کسی طور بھی انہیں قبول نہیں۔ ایشیائی ممالک میں اسلحہ کی خریداری میں بھارت کا سرفہرست ہونے پر جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے، وہ خطے میں اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتا ہے، جو ممکن نہیں، کیوں کہ پاکستان بھی ایک نیوکلیئر پاور ہے اور اس کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے صرف بھارت ہی نہیں پوری دنیا آگاہ ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار کا مزید کہنا تھا کہ بلاشبہ تخفیف اسلحہ اس دنیا کے پرامن قیام اور استحکام کے لئے بہت ضروری ہے، لیکن ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب دنیا میں امن ہو، تمام ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔ امریکہ اور روس تخفیف اسلحہ میں پہل کریں، پہلے نیوکلیئر اور پھر آہستہ آہستہ روایتی ہتھیاروں میں کمی لائی جائے، لیکن اگر کشمیر اور یوکرائن جیسے معاملات رہیں گے تو ہر ملک اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے اسلحہ کی دوڑ جیتنے میں جتا رہے گا اور معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے رہیں گے۔

The post سرد جنگ کے بعد اسلحہ کی فروخت نئے ریکارڈ قائم کرنے لگی appeared first on ایکسپریس اردو.

بولی وُڈ کی وہ اداکارائیں جن کے انداز سب نے اپنائے

$
0
0

لباس کسی بھی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ایک اچھا پہناوا دوسروں کو بہت جلد اپنی جانب متوجہ کرلیتا ہے۔

کسی بھی فیشن کا اہم اور بنیادی حصہ لباس ہی ہوتا ہے، اس کے بعد اس سے ہم آہنگ دیگر اشیاء کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ بدلتے رنگ اور رُتوں میں فیشن میں بڑی بڑی تبدیلیاں آتی رہی ہیں اور آتی رہیں گی، کیوںکہ یہ ہر خاص وعام کی اولین ترجیح بن چکا ہے۔ فیشن اپنانا ہر ایک کو ہی پسند ہوتا ہے، لیکن بات اگر فلم انڈسٹری کی ہو تو اس کے بارے میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ فیشن کی ابتدا یہاں ہی سے ہوتی ہے۔

بولی وڈ میں کم وبیش ہر کوئی اسٹار فیشن کی تقلید کرتا ہے اور کچھ فیشن کے نت نئے انداز تخلیق بھی کرتے ہیں، لیکن اتنے سارے چمکتے دمکتے ستاروں میں چند ہی ایسے ہیں جنہیں نہ صرف فلم انڈسٹری میں بل کہ اس سے باہر بھی فیشن آئیکون سمجھا جاتا ہے۔ دیکھیے وہ کون سے ستارے ہیں جنہیں سب سے زیادہ فیشن پرست کہا گیا:

٭مدھو بالا: بولی وڈ کی حسین ترین اداکارہ جس کا حسن آج بھی کسی پرانی پکچر کو دیکھتے ہوئے دیکھنے والے کو سحرزدہ کردیتا ہے۔ مدھو بالا کی اداکاری کی دھوم چا ر سو تھی۔ بے شمار کام یاب فلموں میں کام کرنے والی مدھوبالا کو اُس دور میں انڈسٹری کی سب سے زیادہ فیشن ایبل خاتون کہا جاتا تھا۔ اسکرین اور آف اسکرین ان کی لباس کے بارے میں خوش ذوقی قابل دید ہوا کرتی تھی ان کے سینس آف اسٹائل کی وجہ سے انہیں انڈسٹری میں فیشن آئیکون کا درجہ حاصل تھا۔ آج بھی اکثر روایتی لباس پسند کرنے والی خواتین مدھو بالا کا انداز اپنانا پسند کرتی ہیں۔ مدھو بالا کی فلم مغل اعظم میں اپنائے گئے تمام لباس خاص طور گانے پیار کیا تو ڈرنا کیا میں نیلے ، سرخ اور سفید رنگوں کے امتزاج سے تیار کیا گیا انار کلی لباس بے حد مقبول ہوا تھا۔ اس ک علاوہ پلیٹس والی ساڑھی اور پینٹ شرٹ مین جدت بھی مدھو بالا نے ہی متعارف کرائی تھی۔

٭سائرہ بانو: بولڈ اینڈ بیوٹی فل ماضی کی خوب صورت اداکارہ سائرہ بانو کی ایک شہرت یہ بھی تھی کہ انہوں نے اس دور میں بیرون ملک تعلیم حاصل کی تھی اور ان کا شمار انڈسٹری کی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیروئینز میں ہوتا تھا۔ ساٹھ کی دہائی میں ان کا بہت چرچا تھا۔ 1967میں ریلیز ہونے والی فلم شاگرد میں سائرہ بانو کے منی ساڑھی کے انداز نے بے انتہا مقبولیت حاصل کی تھی۔ سائرہ نے اپنا ہر لباس خود ہی ڈیزائن کیا۔ ان کے فیشن کے منفرد انداز نے انہیں دوسری تمام ہم عصر اداکاراؤں سے الگ کردیا تھا۔ ان کے مغربی اسٹائل کے جدید تراش خراش کے لباس اور اس کے ہم آہنگ زیورات کو بھی بے حد پسند کیا جاتا تھا۔ خواتین ان کی کاپی کرنا پسند کر تی تھیں۔

٭ممتاز: بیک وقت معصوم اور پُرکشش نظر آنے والی اداکارہ ممتاز کا شمار ان ہیروئنز میں بھی ہوتا ہے جنہیں خوش لباس خواتین کہا جاتا ہے۔ اپنے ملبوسات کے ساتھ بالوں کے مختلف انداز کی بدولت بھی انہیں پسند کیا جاتا تھا۔ ان کے ایک گانے آجا آجا جو کہ فلم برہمچاری کا تھا، میں ان کی پہنی ہوئی نارنجی رنگ کی منفرد انداز میں باندھی گئی ساڑھی آج بھی پسند کی جاتی ہے۔ ان کے بعد آنے والی کئی ہیروئنز نے ان کے اس انداز کو کاپی کیا۔ اس کے علاوہ فلم اپرادھ میں ممتاز کے سیاہ مختصر سوئمنگ کاسٹیوم نے انہیں بے انتہا مقبولیت بخشی تھی۔

٭شرمیلا ٹیگور: بولی وڈ کی ایک اور بے باک اداکارہ شرمیلاٹیگور کے ہوش ربا مختصر ملبوسات نے مقبولیت پائی۔ وہ اپنے الگ انداز میں پسند کی جاتی رہی ہیں۔ ساٹھ کی دہائی مین ان کے بکنی انداز کے کاسٹیوم کو پسند کیا جاتا رہا۔ اس کے علاوہ ایک مشہور فلمی میگزین کے سرورق پر پولکا ڈاٹ سوئمنگ کاسٹیوم پہنے ان کی تصویر نے کافی دھوم مچائی تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کے نازوانداز دیکھ کر کئی دیگر اداکاراؤں کو حوصلہ ملا تھا اور انہوں نے بھی شرمیلا کے اسٹائل کو اپنانا شروع کردیا تھا۔ شرمیلا ٹیگور کی ساڑھیوں کو بھی پسند کیا جاتا رہا۔ انہیں اس دور میں انڈسٹری کی سب سے زیادہ فیشن ایبل ایکٹرس کہا جاتا تھا۔

٭زینت امان: انڈین فلم انڈسٹری اور بڑے پردے پر سوئمنگ کاسٹیوم کو جدت اور زندگی دینے والی اداکارہ کا نام زینت امان ہے۔ بے باک، خوب صورت اور پرکشش اداکارہ زینت امان اپنی ہر فلم میں جس لباس مین نظر آئیں فلم بینوں کو متاثر کر گئیں۔ فلم قربانی اور پکار میں ان کے مختصر لباس ہوں یا فلم علی بابا چالیس چور میں پہنا گیا عبایا، زینت امان کو ہر ہر انداز میں پرفیکٹ کہا گیا۔

اپنی ہم عصر ساتھیوں میں فیشن کے معاملے میں زینت کو الگ ہی پہچان حاصل تھی۔ اس لیے کہا جاتا تھا کہ زینت ہر قسم کے لباس میں خواہ وہ مغربی ہو یا مشرقی سرتاپا پرکشش نظر آتی ہیں ان کی شہرت کی ایک وجہ ان کا جدید انداز میں فیشن تخلیق کرنا بھی تھا۔ اس لیے اسی کی دہائی میں ان کے ڈیزائن کردہ ملبوسات نے عام خواتین کو بھی اپنی جانب متوجہ کیا۔

٭شلپا شیٹھی: بولی وڈ میں پرفیکٹ یوگا کی ماہر اداکارہ شلپاشیٹھی نے جس طرح اپنے آپ کو گروم کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب فلم بازیگر میں شاہ رخ کے ساتھ اپنے کیریر کا آغاز کیا تھا، تب اور آج کی شلپا میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ کالی کلوٹی، موٹی اور موٹے نقوش ی حامل شلپا نے اس فلم میں جس قسم کے ڈریسز اپنائے، اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ انہیں اس بات کی کوئی سمجھ نہیں کہ ایک اداکارہ کو اپنے کردار کی مناسبت سے کس قسم کا لباس اور میک اپ کرنا چاہیے۔

یہاں تک کہ ان کا ہیئراسٹائل بھی بے ڈھنگا تھا، لیکن اس ایک فلم کے بعد شاید شلپا کو خود بھی احساس ہو گیا اور انہوں نے خود پر ہر طرح سے توجہ دینا شروع کردی، جس کے نتیجے میں آج ان کا شمار انڈسٹری کی ٹاپ کی فیشن ایبل ایکٹرس میں کیا جاتا ہے۔ ان کا لباس، جیولری، میک اپ، ہینڈ بیگز یہاں تک کہ بالوں کے اسٹائل کو خواتین کاپی کرتی ہیں۔ نہ صرف یہاں بل کہ انڈسٹری میں موجود کئی دوسری اداکارائیں شلپا کے نقش قدم پر چل رہی ہیں۔ موقع کی مناسبت سے لباس کا انتخاب کرنا شلپا کے بہترین فیشن سینس کو ظاہر کرتا ہے۔

٭کرینہ کپور: بولی وڈ میں اگر کسی اداکار کو نازک، طرح دار، حسین اور اسمارٹ کہا جاسکتا ہے تو وہ صرف کرینہ کپور ہی ہیں جنہیں قدرتی طور پر یہ تمام اوصاف حاصل ہیں۔ کرینہ انتہائی خوش قسمت بھی ہیں کہ شادی اور بچے کی پیدائش کے باوجود ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی بل کہ لوگ ان کے بارے میں ہر روز کچھ نہ کچھ جاننے کے شوقین ہوتے ہیں۔

کرینہ نے اپنی پہلی فلم رفیوجی ہی سے خود کو ایک فیشن پرست اداکارہ ثابت کیا۔ ان کی ہر فلم ان کا انداز اور اسٹائل مختلف ہوتا تھا۔ کرینہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پوری بھارتی فلم انڈسٹری مین سب سے بڑی وارڈ روب ان کی ہے، جس میں روایتی، جدید، ہر رنگ اور ڈیزائن کے ملبوسات ہیں۔ ان کی ساڑھیاں ہوں جینز، فراکس ہوں یا چوڑی دار پاجامہ کرتا۔ کرینہ کے بہترین ذوق کی نشان دہی کرتا ہے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انڈسٹری میں فیشن کے حوالے سے جدت لانے میں کرینہ کا بھی ہاتھ ہے۔ بہت سی ہیروئنز انہیں فخر سے کاپی کرتی ہیں۔ اس لیے ٹاپ اینڈ ہاٹ فیشن ایبل ایکٹرس کا خطاب دیا گیا ہے۔

٭دیپکا پاڈوکون: بڑی تیزی سے شہرت کی بلندیوں کو طے کرنے والی اداکارہ دیپکا جن کی مقبولیت کے چرچے اس وقت اور بڑھے جب انہوں نے ہالی وڈ کی فلم ریٹرن آف دا کیج میں اداکار ون ڈیزل کے ساتھ کام کیا۔ دیپکا ان چند ایکٹرسز میں شامل ہیں، جنہوں دوسرے خرافات کے بجائے صرف اپنے کام اور محنت سے خود کو بہترین اداکارہ ثابت کیا۔ انہوں ہر کردار کو اس کی اصل روح کے ساتھ پرفارم کرکے خود کو بولی وڈ کی نمبر ون اداکارہ بنایا، لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دیپکا میں زبردست سینس آف فیشن پایا جاتا ہے۔

ان کے لباس کے انداز اور ڈیزائن اور رنگوں کا انتخاب بتاتا ہے کہ وہ فیشن پرست ہیں۔ چنائے ایکسپریس میں مدراسی ساڑھیوں کے اسٹائل ہوں یا پھر اوم شانتی اوم میں ستر کی دہائی کی ایک اداکارہ کا لباس، انہوں نے اس اعتبار سے بھی خود کو نمبر ون ثابت کیا۔ فلمی تقریبات یا فنکشنز میں ان کے گاؤنز کے بھی خوب چرچے ہوتے ہیں۔

٭کنگنا رناوت: کنگنا گو کہ بولی وڈ کی ٹاپ فائیو ایکٹرسز کی فہرست میں شامل نہیں لیکن اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انہوں نے مشکل سے مشکل کردار کو بڑی کام یابی سے نبھایا اور ثابت کیا کہ وہ کسی بھی اداکارہ سے کم نہیں۔ کوئین، تنو ویڈ منو اور اس قسم کی دوسری فلموں میں ان کی بہترین اداکاری کی بدولت انہیں کئی ایوارڈز بھی ملے۔ کنگنا نے خو د کو ایک باصلاحیت اداکارہ کے ساتھ ساتھ فیشن ایبل ہیروئن کے طور پر بھی منوایا۔ ان کے چہرے کی معصومیت اور کِھلتا ہوا سرخ وسفید رنگ ان کے ہر لباس کی خوب صورتی کو بڑھا دیتا ہے۔

The post بولی وُڈ کی وہ اداکارائیں جن کے انداز سب نے اپنائے appeared first on ایکسپریس اردو.

وحشت کی فصل اور قومی بیانیہ

$
0
0

دہشت گردی کے یکے بعد دیگرے واقعات نے پوری قوم کو ہلاکر رکھ دیا۔

کراچی سے خیبر تک ان واقعات پر جس عوامی کیفیت اور احساس کا اظہار ہوا ہے، اُس میں دُکھ اور تشویش کے ساتھ ساتھ بے یقینی اور اس کا پیدا کردہ خوف بھی نمایاں طور سے شامل ہے۔ دُکھ اور تشویش تو خیر فطری چیزیں ہیں۔ بدامنی کے واقعات اور انسانی جانوں کے زیاں پر باقی سب چیزوں سے پہلے انسانی فطرت ملال کے احساس ہی سے مغلوب ہوتی ہے۔

یہ تو خیر اپنی قوم کو پیش آنے والے سانحات ہیں، ان پر بھلا ملال اور افسردگی کیوں نہ ہو، لیکن ایسے واقعات اگر کسی دوسرے ملک اور کسی دوسری قوم کو پیش آئیں تو بھی اُن پر ہمارا ردِعمل لگ بھگ ایسا ہی ہوگا اور یقیناً ہونا بھی ایسا ہی چاہیے۔ اس لیے کہ ہماری تو تعلیم کے لازمی اور اسباق میں سے ایک بہت بنیادی اور اہم ترین سبق یہ ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔

جی ہاں، اِس سبق میں ایک مسلمان کے نہیں، بلکہ ایک انسان کے قتل کی بات کی گئی ہے۔ گویا جو نکتہ یہاں تعلیم کیا گیا ہے، اس کے مطابق انسانی زندگی باقی تمام حوالوں سے قطعِ نظر، اپنی جگہ خود بڑی قیمتی اور قابلِ قدر شے ہے۔ دوسرے حوالے زندگی کی قدر و قیمت میں اضافہ تو ضرور کرتے ہیں، لیکن وہ سب بعد میں آتے ہیں۔ اس لیے انسانی جان کے نقصان پر دکھ کا اظہار انسان کی سادہ اور خالص فطرت کے عین مطابق ہے۔ البتہ ہماری اجتماعی بے یقینی اور خوف کا پہلو کچھ اور شے ہے، اس لیے یہ ذرا الگ سے قابلِ غور ہے۔

دیکھا جائے تو ہمارے یہاں بے یقینی اور خوف کا مسئلہ قدرے گہرا ہے اور گمبھیر بھی، کیوںکہ ایک نہیں، بلکہ اس کے کئی ایک محرکات ہیں۔ ان میں سے بعض محرکات اس دور کے پیدا کردہ بھی نہیں ہیں، بلکہ ان کی جڑیں ہماری قومی تاریخ کے مختلف ادوار میں پیوست ہیں اور خاصی گہری اُتری ہوئی ہیں۔ حالیہ واقعات کو پیشِ نظر رکھا جائے تو اس ضمن میں پہلی بات تو یہی ہے کہ دہشت کی یہ لہر جس طرح آئی اور جیسے اوپر تلے دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا، اور ان دھماکوں میں جتنی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، خاص طور پر لال شہباز قلندرؒ کے مزار پر اُس نے سراسیمگی کی شدید کیفیت پیدا کی۔

دوسری بات ان دھماکوں میں پولیس، فوج یا رینجرز کے جتنے سپاہی نشانہ بنے، وہ خود بڑی تشویش کا معاملہ ہے۔ یہ فطری بات ہے کہ جب محافظ خود نشانہ بننے لگیں تو عدم تحفظ کا احساس بہت شدت ہوجاتا ہے اور تیزی سے پھیلتا ہے۔ ایک اور پہلو بھی اہم ہے۔ آپریشن ضربِ عضب کے نتیجے میں دہشت گردی مکمل طور پر تو بے شک ختم نہیں ہوئی تھی، لیکن یہ سچ ہے کہ اس پر بڑی حد تک قابو پالیا گیا تھا۔ چناںچہ امنِ عامہ کی بہتر ہوتی ہوئی صورتِ حال نے عوام کو باور کرا دیا تھا کہ وہ ’’محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہیں۔

محفوظ ہاتھوں کے اس تصور میں سب سے نمایاں شبیہ جنرل راحیل شریف کی تھی۔ حکومت اور فوج کے درمیان تناؤ کی ساری خبروں، مسلسل فعال، ہمہ وقت سرگرم اور پرجوش نظر آنے والی شخصیت کے باوجود جنرل راحیل شریف نے جس طرح اپنی اعلیٰ قیادت کا دورانیہ پورا کیا اور بہت سے اندازوں کو غلط ثابت کرتے ہوئے جس اطمینان سے اپنی ذمے داریوں سے سبک دوش اور رخصت ہوئے، اُس نے بھی عوامی سائیکی کو امن کی مکمل بحالی کا گہرا تأثر دیا۔ اس تأثر کو دہشت گردی کی حالیہ لہر نے ایک دم زائل کردیا۔

اس کے نتیجے میں عوامی تحفظ اور امن و امان کے بارے میں ریاستی اداروں کے لیے ہی نہیں خود عوام کے لیے بھی کئی ایک سوالات یک لخت اٹھ کھڑے ہوئے۔ عوامی سطح پر جن سوالوں کی گونج سب سے زیادہ سنی گئی، ان میں دو اپنی جگہ خاص طور سے غور طلب ہیں۔ ایک یہ کہ کیا جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے بعد قومی تحفظ کی پالیسی بدل گئی ہے یا غیر مؤثر ہوگئی ہے؟ کیا ہمارے یہاں امن و تحفظ کی صورتِ حال ایک بار پھر ۴۱۰۲ اور ۵۱۰۲ والی کیفیت کی طرف لوٹ کر جارہی ہے؟

ان دونوں سوالوں سے جو بات سب سے پہلے اور نمایاں طور سے سامنے آتی ہے، وہ یہ کہ ہمارے قومی مزاج میں اس وقت تشکیک کا عنصر بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ اتنا زیادہ کہ چند دن کے دباؤ میں ہم لوگ مہینوں، بلکہ برسوں کے یقین و اطمینان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے، لیکن یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ ایسا آخر کیوں ہوا ہے؟ اہلِ دانش کا یہ خیال غلط نہیں کہ دنیا کی سب سے کم زور اور ناپائیدار شے عوامی حافظہ ہوتا ہے۔ آج کا ایک چھوٹا سا واقعہ گزرے ہوئے کل کی بڑی بڑی باتوں کو عوامی ذہن سے محو کردیتا ہے۔

ایسا صرف ہمارے ساتھ نہیں ہے، بلکہ بہت ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں میں بھی کچھ اسی طرح ہوتا ہے۔ گو کہ اس کا تناسب ذرا کم ہوتا ہے اور اس کے اثرات بھی زیادہ گہرے نہیں ہوتے۔ یہ بات اپنی جگہ، لیکن ہماری قومی سائیکی میں تشکیک کا عنصر صرف اسی وجہ سے نمایاں نہیں ہے۔ ذرا غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی متعدد وجوہ ہیں اور اُن میں سے ایک اہم اور اس کا بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں ادارے مستحکم نہیں ہوسکے۔

اس لیے قومی سطح پر اُن کا کردار جب بھی نمایاں ہوا، وہ افراد ہی کا مرہونِ منّت رہا۔ یہ ٹھیک ہے کہ ادارے افراد ہی چلاتے ہیں اور وہ قومی پالیسی اور ملکی مفاد کے اصولوں کو وہی بہ روے کار لاتے ہیں، لیکن ہمارا اجتماعی تجربہ کہتا ہے کہ اداروں کی کمان سنبھالنے والے افراد بدلتے ہیں تو ایسے اداروں کی پالیسی بھی بدل جاتی ہے۔ اگر بدلتی نہیں تو غیر اہم یا غیرمؤثر ضرور ہوجاتی ہے۔

قائداعظم، لیاقت علی خاں اور ان کے ساتھیوں کو تو چلیے بہ وجوہ رہنے دیتے ہیں۔ اس کے بعد ایوب خاں کے عہد سے لے کر اس وقت تک کی لگ بھگ ساڑھے پانچ دہائیوں کو ذرا دیکھیے۔ ایوب خاں کے زمانے کی انڈسٹریلائزیشن، بھٹو کے زمانے کی اشتراکیت، ضیاء الحق کے زمانے کی اسلامیت سے لے کر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالتِ عظمی کا سماجی کردار اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف کے دور میں افواجِ پاکستان کی کارگزاری تک جو نقشہ ہمارے سامنے آیا ہے، وہ کیا ہے۔

اس کو دیکھتے ہوئے کیا ہم اس حقیقت کی نفی کرسکتے ہیں کہ ہماری قومی صورتِ حال اور قومی بیانیے کی تشکیل فرد مرکز وہی ہے۔ فی الحال ہم اس سے کوئی بحث نہیں کررہے کہ ان افراد نے جو کردار ادا کیا، وہ قومی فلاح کے زمرے میں کس سطح کا شمار ہوگا اور اس کے نتیجے میں ہمیں قوم کی حیثیت سے کیا قیمت چکانی پڑی اور کن نتائج کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ تو ایک الگ اور تفصیل طلب بحث ہے، لہٰذا اس کو تو ابھی رہنے دیجیے۔ البتہ یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ مختلف ادوار میں ہمارے قومی بیانیے کی تشکیل میں جن افراد نے مرکزی کردار ادا کیا، اُن کے منظر سے ہٹنے کے بعد قومی بیانیہ وہی رہا یا تبدیل ہوگیا؟

یقیناً ہم سب کی مشترک رائے یہ ہے کہ ایسے افراد کے رخصت ہونے کے بعد بیانیہ تبدیل ہوجاتا ہے۔ سوچنا چاہیے اور پوچھنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ بہت سی ضمنی اور ذیلی تفصیلات سے قطعِ نظر، اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ اکثر و بیشتر نازک اور آزمائش کے حالات میں سامنے آنے والا قومی بیانیہ مرکزی اہمیت اور اثر و رسوخ رکھنے والے دراصل افراد کے ذاتی شعور و احساس کے زیرِاثر تھا۔ اجتماعی قومی قوت اس کے عقب میں متحرک اور مؤثر نہیں تھی۔ سوال کیا جانا چاہیے، کیوں نہیں تھی؟ چاہے یہ جواب ہمارے لیے شرمندگی اور افسوس کا باعث ہو، لیکن ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہمارے مقتدر افراد پر داخلی قومی قوت کا اثر اتنا نہیں ہوتا جتنا اثر خارجی قوتوں کا ہوتا ہے۔

ظاہر ہے، یہ خارجی قوتیں اپنے مفادات کو مقدم جانتی ہیں اور زیرنگیں افراد، قوتوں اور قوموں کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ہمیں تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم اپنی سیاسی و سماجی تاریخ کے ایسے مواقع پر عام طور سے ان قوتوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنتے آئے ہیں۔ اس کے لیے عوامی جذبات کے جھولے کو ہمیشہ بہت مہارت سے استعمال کیا گیا۔ لہٰذا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ایسے موقعے پر انسانیت، مذہب، ملت اور بقا کے بڑے بڑے اور خون گرمانے والے نعرے استعمال کیے گئے۔ ہمیں اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کرنا چاہیے کہ ایسے مراحل پر ان قوتوں کی طرف سے ہر بار مالی امداد بھی ہمارے استحصال کا ایک اہم محرک بنتی رہی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ یہ امداد تو اکثر اور زیادہ تر عوام کے بجائے اہلِ اقتدار کے کام میں آئی، اور قیمت ساری صرف اور صرف عوام نے چکائی۔

اگر ہم ذمے داری اور ہوش مندی سے اس مسئلے پر غور کریں تو یہ سب باتیں ہمارے لیے ملال اور ندامت کا باعث ہوں گی— لیکن! اب ہمیں اِس ملال اور ندامت کا سامنا کر ہی لینا چاہیے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا، ہم حقیقتِ حال کو پوری طرح سمجھ نہیں سکتے اور جب تک سمجھ نہیں سکتے اُس وقت تک ہمارا حقیقی شعور بروے کار نہیں آسکتا۔ ظاہر ہے، اس کے بغیر ہم اپنا اصل قومی بیانیہ تشکیل نہیں دے سکتے۔

باشعور لوگ اور زندہ قومیں صرف اپنے واقعات اور تجربات ہی سے سبق حاصل نہیں کرتے، دونوں ہی دوسروں سے بھی بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ ابتلا اور آزمائش کا زمانہ کسی نہ کسی عنوان ہر قوم پر گزرتا ہے۔ جب اس زمانے سے وہ سرخ رو اور ثابت قدم نکلتی ہے تو تعمیر و ترقی کی منزلوں سے ہم کنار ہوتی ہے۔ تاریخ کے اوراق ایسے حقائق سے بھرے ہوئے ہیں۔

آپ بہت زیادہ دور نہ جائیے، گذشتہ صدی کی سات آٹھ دہائیوں کے منظرنامے پر نگاہ کیجیے تو آپ دیکھیں گے کہ جاپان، چین، ایران، ملائیشیا، سنگاپور ایسے کتنے ہی ملکوں کا احوال سامنے ہے۔ یہ سب قومیں اپنے اپنے انداز میں آزمائش کے کڑے مرحلوں سے گزری ہیں۔

یہ آزمائشیں اخلاقی، معاشی، تہذیبی، سیاسی اور سماجی پہلو رکھتی ہیں۔ ہر قوم کے لیے یہ مرحلہ جاں گسل اور اعصاب شکن تھا۔ اس وقت میں سروں پر خوف کے بادل منڈلاتے تھے، بے یقینی کی تندوتیز ہوائیں چلتی تھیں۔ کہیں دو وقت تو کیا، ایک وقت کی روٹی فراہم ہونا ہی سب سے بڑا مسئلہ تھا اور کہیں اپنا ہی سایہ بیگانہ نظر آتا تھا۔ وجود اور روح کا رشتہ داؤ پر لگا ہوا تھا۔ قدم قدم پر زندگی کی آرزو ماند پڑتی تھی۔ یہ سب قصہ کہانی نہیں ہے۔ حقیقتِ احوال ہے۔

آج یہ قومیں اس لیے قامت کشیدہ اور مستحکم ہیں کہ انھوں نے ابتلا کے اس دور میں خود کو بے آسرا نہیں ہونے دیا۔ حالات کا مقابلہ کیا۔ یہ مقابلہ داخلی قوت کے سہارے کیا جاتا ہے۔ اپنے انفرادی اور اجتماعی وجود پر اعتبار کرکے کیا جاتا ہے۔ اس دور میں کسی فرد کے یا قوم کے لیے اثباتی رویہ قوت فراہم کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتا ہے۔ آج ہمیں اس رویے کی اشد ضرورت ہے۔

ہمارے یہاں افواہیں بہت جلد پھیلتی ہیں۔ منفی باتیں تیزی کے ساتھ سفر کرتی ہیں۔ ہم کسی ایک مسئلے سے دوچار ہوں تو فوراً خود کو شک کی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں۔ ہماری آنکھیں روشنی کے مرکز کی طرف جانے کے بجائے اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مارنے لگتی ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہمارے یہاں مثبت کام بھی ہورہے ہیں۔ ہماری صفوں میں سچے، مخلص اور محبت کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ سچ پوچھیے تو ایسے لوگ اکثریت میں ہیں اور وہ بے دست و پا بھی نہیں ہیں۔ وہ بے کار نہیں بیٹھے ہوئے۔ ہم مسائل کے دباؤ میں آکر اپنی صلاحیتوں سے غافل ہوجاتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ کم زوری غالب آجاتی ہے۔

اس بات کو سمجھنے کے بعد ہمیں اس حقیقت کو بھی ضرور ملحوظ رکھنا چاہیے کہ اس سے محض ہماری کم زوری کا اظہار نہیں ہوتا۔ بے شک یہ کم زوری تو ہے لیکن حالات کے دباؤ میں یہ فطری انسانی کیفیت اور اس کے ردِعمل کا اظہار بھی ہے۔ ہماری قومی سائیکی اس وقت اُسی طرح کام کررہی ہے جس طرح ایسے حالات اور تجربات سے دوچار کسی بھی قوم کی سائیکی کرسکتی ہے۔ اس مرحلے پر اس سچائی کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ ہم واقعی ایک زندہ اور باہمت قوم ہیں۔ بار بار وحشت کی فصل کاٹنے کے باوجود ہمارا قومی جذبہ مرا نہیں ہے۔ زندہ ہے اور جب ضرورت پڑتی ہے تو وہ اپنی پوری قوت کے ساتھ ظاہر ہوتا ہے اور بروے کار آتا ہے۔

اس کا ثبوت ہمیں قرض اتارو ملک سنوارو، کینسر ہسپتالوں کی تعمیر ایسی مہمات سے لے کر، ایدھی، چھیپا، سیلانی اور عالمگیر ایسے اداروں، کشمیری، افغانی، صومالی، فلسطینی بھائیوں کے لیے کیے جانے والے بے لوث اور ولولہ انگیز اقدامات اور ان کے ساتھ ساتھ ملک کے طول و عرض میں سیلاب اور زلزلہ زدگان کی امداد ایسے کاموں سے بار بار ملتا ہے۔ یہ ہماری قومی حمیت اور زندہ انسانی جذبوں کا بے پایاں اور قابلِ رشک منظرنامہ ہے۔ یہ بہت قابلِ قدر چیز ہے۔ اس کی توقیر کی جانی چاہیے۔ اس کا کھلے لفظوں میں اور بار بار اعتراف کیا جانا چاہیے۔ ہمارے یہاں منفی احساسات بہت پھیلتے ہیں، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ بہت پھیلائے جاتے ہیں۔ یہ احساسات قومی اضمحلال کا سبب بنتے ہیں۔

اب ہمیں انھیں رد کرنا سیکھ لینا چاہیے۔ ہمیں اپنی قوم اور اس کے جذبہ و شعور کے بارے میں پھیلائے جانے والے منفی پروپیگنڈے کو مسترد کرنا چاہیے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ایسی منفی سوچ کا پھیلایا جانا خود کسی ایجنڈے کا حصہ ہوتا ہے۔ ایسے اقدامات سے شر انگیز قوتوں کو مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں مدد ملتی ہے۔

اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ہم اس وقت ایک بار پھر قومی سطح پر ابتلا اور تکلیف کے مرحلے میں ہیں۔ ہمارے مسائل گمبھیر اور پیچیدہ ہیں۔ صورتِ حال اعصاب شکن ہے۔ تاہم یہ بات بھی تو یاد رکھنے کی ہے کہ ہم اس سے پہلے ایسے کتنے ہی جان لیوا آزمائشوں سے سرخ رو ہوکر نکلے ہیں۔ ہمیں یقین رکھنا چاہیے کہ ہم اس مرحلے سے بھی ثابت قدمی سے نکلیں گے۔

ہمارا آج مشکل ضرور ہے، لیکن ہمیں اعتبار ہونا چاہیے کہ ہمارا آئندہ خوش گوار اور روشن ہوگا۔ ہم اپنے بچوں کو اپنے سے بہتر دنیا دینے میں ضرور کامیاب رہیں گے۔ اس لیے کہ اب ہم آنکھیں کھول کر حالات کو دیکھنے لگے ہیں۔ ہم نے اپنی رائے اور داخلی قوت کے ساتھ خود اپنا رویہ بنانے کا عمل شروع کردیا ہے۔

چناںچہ ضروری ہے کہ ہم اپنے بارے میں ہر منفی پروپیگنڈے کو مسترد کردیں، تاکہ ہم اپنی توانائی کو زائل ہونے اور قومی سائیکی کو مجروح ہونے سے بچاسکیں۔ اس صورتِ حال کی تبدیلی میں عام آدمی کو اپنے کردار کی ضرورت اور اہمیت کا احساس دلانا ہوگا اور پھر ایک نیا اور مستحکم قومی بیانیہ تشکیل پائے گا۔ یہ بیانیہ ہماری آئندہ نسل کے لیے خوش حالی، استحکام اور وقار کی ضمانت ہوگا۔

The post وحشت کی فصل اور قومی بیانیہ appeared first on ایکسپریس اردو.

پرویز مشرف نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے ایکسپوز کیا

$
0
0

فروری کے آخری عشرے کی ایک دوپہر ، بزرگ سیاست دان راجہ ظفرالحق سے رابطہ کی کوشش کی، راجہ صاحب نے فون اٹھایا، میں نے ملاقات کی خواہش ظاہرکی، انھوں نے کمال محبت سے اگلے روز آنے کی اجازت مرحمت فرمائی، یہ پہلی ملاقات تھی، سوچا کہ حکمران جماعت کے چئیرمین تک پہنچنے کے لئے پروٹوکولکے کتنے ہی مراحل سے گزرنا پڑے گا۔

اسلام آباد کے ایک نہایت پرسکون علاقے میں واقع ان کے دفتر پہنچا، ان کے سیکرٹری نے چٹ اندر بھیجی اور فوراً مجھے طلب کرلیاگیا۔ اب قریباً پون صدی تک طالب علمی سے وکالت اور سیاست تک ایک بھرپور زندگی گزارنے والے راجہ ظفرالحق میرے سامنے تھے۔ انھوں نے فوجی اور عوامی ،ہر دوقسم کی حکومتوں میں فعال کردار ادا کیا، اقتدار میں بھی رہے اور اپوزیشن میں بھی ۔ پاکستانی ریاست اور سیاست کے بہت سے رازوں کے امین ہیں۔ میرے پاس سوالات کی ایک طویل فہرست تھی تاہم وقت صرف ایک گھنٹہ ۔ بہت سے سوالات نہ پوچھے جاسکے، جو پوچھے گئے ان کا تفصیل اور جامعیت سے جواب ملا۔

اسلام اور پاکستان سے محبت میں راسخ العقیدہ بزرگ سیاست دان سے پانامہ کیس کے حوالے سے جان بوجھ کر سوال نہیں کیا کیونکہ جب یہ گفتگو ہورہی تھی، سپریم کورٹ فیصلہ محفوظ کرچکی تھی تاہم میں نے راجہ صاحب سے یہ ضرور پوچھا کہ کیا پانامہ کیس کے دوران عائد ہونے والے الزامات اور کھڑے ہونے والے سوالات نے بحیثیت مجموعی مسلم لیگ ن کی شبیہ پر برے اثرات مرتب نہیں کئے؟

راجہ ظفرالحق نے کہا:’’ اس کا انحصار کیس کے فیصلے پر ہے ۔ اگر یہ طے ہوتا ہے کہ پٹیشنر اپنا کیس ثابت نہیں کر سکے، وہ کوئی مستند ڈاکومنٹ یا کوئی ایسی شہادت نہیں دے سکے جو الزام لگانے والے کو دینی چاہیے تو پھر اس کا نقصان انہی کو ہو گا۔ پھر مسلم لیگ بالخصوص جو لوگ میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں، انہیں بے پناہ فائدہ ہوگا۔بڑی کامیابی اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ انہوں نے بہت کچھ کیا، 126 دن کا دھرنا دیا، پھر جلسوں میں بڑی گندی زبان اختیار کی، بڑے سخت الفاظ استعمال کیے جو اخلاق کے دائرے سے باہر تھے۔ یہ سارا کچھ کرنے کے بعد انہوں نے آخری حملہ یہ (پانامہ کیس) کیا ہے۔ ان میں سے بعض لوگوں کی خواہش یہ بھی تھی کہ اس کیس کو اتنی طوالت دی جائے کہ یہ الیکشن تک چلا جائے، یہ الیکشن کمپین کا حصہ سمجھا جائے۔ اگر وہ اس میں ناکام ہوتے ہیں تو نقصان انہی کو ہوگا‘‘۔

اگلے عام انتخابات میں کتنی بڑی کامیابی کی توقع ہے ؟
’’ 2013 کے حالات کچھ اور تھے۔ اس وقت ہماری حکومت نہ تھی اور پرفارمنس کا موقع بھی نہیں ملا تھا۔ 2013 میں الیکشن ہوا، مرکز، صوبہ پنجاب اور کم از کم نصف حد تک بلوچستان میں، سندھ اور خیبرپختونخوا میں مسلم لیگ (ن) کو سیٹیں ملیں۔ وہ میاں صاحب کی سابقہ شہرت اور شخصیت کی وجہ سے تھی۔ لیکن جونہی یہ الیکشن ختم ہوا، اس کے بعد میاں صاحب نے اپنا آئندہ کا ایجنڈا دیاکہ آئندہ پانچ برسوں میں ان کی ترجیحات کیا ہوں گی۔

اُس وقت امن و امان کی صورت حال بگڑی ہوئی تھی، توانائی کا شدید بحران تھا۔ پھر اداروںکی اصلاح کرنا تھی۔پھر وزیراعظم صاحب نے دیگر ملکوں کے علاوہ خاص طور پرچین کے تین چار دورے کیے، وہاں کی قیادت نے میاں صاحبکے انداز سیاست، سرمایہ کاری، معیشت کے حوالے سے ان کے تجربات دیکھے تو انہوں نے پاکستان میں 46 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کی،کوئی آدمی اتنی بڑی سرمایہ کاری کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے مخالفین کو حیران اور ششدر کر دیا۔ جب یہ بات سامنے آئی تو دھرنے کا زمانہ تھا۔ چین کے صدر نے یہاں آ کر اس کا اعلان کرنا تھا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ عمران خان نے کنٹینر پر کھڑے ہو کر کہا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں۔

چینی صدر نہیں آ رہا اور نہ ہی کوئی سی پیک بن رہا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ اور سفارت خانہ نے کہا کہ نہیں، آپ غلط کہتے ہیں۔ چینی صدر کادورہ مختص تھا۔ یہ تو آپ کے اس دھرنے کی وجہ سے ملتوی ہوا ہے۔ پھر یہ چپ ہو گئے۔ ان کے پاس اتنی اخلاقی جرأت بھی نہیں تھی کہ یہ کہہ سکیں، مجھ سے غلطی ہو گئی ہے اور میں معذرت چاہتا ہوں‘‘۔

’’پھر جب سی پیک بننا شروع ہوا، اس پرچاروں صوبوں کی حکومتوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کی، جیسے کہ میاں صاحب کا طریقہ کار ہے، اس پر بھی انہوں نے طرح طرح کے شوشے چھوٹنے شروع کر دیے۔ بیانات میں اس قدر منفیت آ گئی کہ ہم سوچنے لگے کہ اس کا کیا جواب دیں۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک میں ہمارے لیے تو کچھ رکھا ہی نہیں ہے۔ احسن اقبال جتنی بھی وضاحتیں کرتے رہے، اس پر انہوں نے کان نہیں دھرے۔ آخر کار ان کو ساتھ لے کر چین گئے چینی قیادت کے پاس، انہوں نے وہ بنک بلائے جو یہاں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، وہ ادارے بلائے جو یہاں کام کر رہے ہیں، سرمایہ کار بلائے۔ یہ سارا کچھ ان کے سامنے کیا، اِن کی ضروریات بھی معلوم کیں۔

پھر انہوں نے سندھ کے لیے اور خیبرپختونوا کے لیے مزید بہت کچھ دیا ۔اس پر واپس آ کر کہنے لگے کہ اب ہمیں تسلی ہو گئی ہے۔ یہاں سرمایہ کاری کے لیے جو ملک ہمدردی سے کوشش کر رہا تھا، اسے یہاں کی قیادت پر اعتماد تھا، اس لیے کر رہا تھا۔ یہ اسے بھی خراب اور ضائع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لوگوں کے ذہنوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انھوں نے سوالات کھڑے کئے کہ مغربی روٹ ہو گا یا مشرقی؟ انہوں نے کہا کہ پہلے مغربی ہی ہو گا، ترجیح اسی کو دیں گے۔ اس پر کام بھی شروع ہو گیا۔ یہ جو چین سے قافلہ آیا تھا وہ اسی راستے سے گوادر تک گیا‘‘۔

’’ یہ سارا کچھ ہونے کے باوجود ان کی کوششیں جاری رہیں کہ کسی طریقے سے اس کو مشکوک بنایا جائے۔ اگر ان کی ساری باتیں غلط نکلیں تو ان کی کیا کریڈیبیلٹی رہ جائے گی، البتہ مسلم لیگ (ن) کی کارکردگی بالخصوص میاں نواز شریف پر عوامی اعتماد بڑھے گا۔ کچھ ملک کہہ رہے تھے کہ پاکستان تنہا ہوگیا، پھر اندرون ملک سے بھی آوازیں آنے لگیں پاکستان کا کوئی دوست ہی باقی نہیں بچا، تاہم اب کتنے ہی زیادہ ممالک یہاں آکر کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی سی پیک میں شامل کیا جائے۔ایسے ممالک جن کے بارے میں آدمی سوچ ہی نہیں سکتا تھا۔

عام آدمی کا خیال تھا کہ وسطی ایشیا کی چھ ریاستیں ہی ہوں گی اور کوئی نہیں۔ لیکن دو طرفہ تجارت کا سلسلہ ایسا بڑھا کہ یورپ کے ممالک نے بھی خواہش کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے کہ ہمیں بھی اس میں شریک ہونا چاہیے، اس کے بعد یہاں کھلے انداز سے ڈویلپمنٹ کے لیے پیسے دیے گئے، اکانومک انڈیکیٹرز ایسے ہیں جو پہلے منفی تھی، پھر برابر ہونے کے بعد اب ان کی تعریف کی جا رہی ہے۔ یہ سارا معاملہ بہت اچھا ہو گیا ہے، کچھ وقت مزیدگزرا، کوئی اکھاڑ پچھاڑ نہ ہوئی تو پاکستان دنیا کی 15 ویں بڑی معیشت بن جائے گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ اخلاقی طور پر کہتا کہ ہم غلط سمجھے تھے، ہمیں کچھ مغالطہ تھا، آپ جو کچھ کر رہے ہیں، ہم آپ کا پورا ساتھ دینے کو تیار ہیں‘‘۔

اگلے انتخابات میں کامیابی ملی تو آپ کی ترجیحات کیا ہوں گی؟
’’توانائی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا، اسے حل کرنے کے لیے ساری تدابیر اختیار کی گئیں، سولر سسٹم بھی لایا گیا، ڈیم بھی شروع کیے گئے، سارے معاملات اچھے انداز سے چل رہے ہیں کہ 2018 ء میں بہت تھوڑی لوڈ شیڈنگ رہ جائے گی،کارخانوں کے لیے بھی بجلی وافر ہو گی اور گھریلواستعمال کے لیے بھی ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو معیشت کا پہیہ ذرا تیزی سے چلنا شروع ہو جائے گا۔ ’’ذرا تیزی سے‘‘ کے الفاظ میں اس لیے استعمال کر رہا ہوں کہ ابھی وہ کیفیت نہیں آئی۔ بہرحال اس سے بے روزگاری ختم ہو گی، لوگوں کو سہولتیں ملیں گی۔ اگر تجارت بہتر ہو جاتی ہے، دنیا کا پاکستان پر اعتماد بڑھتا ہے تو پھر نوجوانوں کو باہر جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہیں یہاں پر ہی روزگار ملنا شروع ہو جائے گا انشاء اللہ۔ اگلے انتخابات کے بعد ہم اپنی پالیسیوں کا جائزہ لیں گے، اور د یکھیں گے کہ اس سے مزید کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے‘‘۔

مسلم لیگوں کا اتحاد ہوسکے گا؟
’’تھوڑے تھوڑے وقت کے بعد ان لوگوں کو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ سیاسی طور پر بہت کمزور ہو چکے ہیں، پرویز مشرف نے بھی ایک مسلم لیگ بنانے کی کوشش کی تھی، جو پرانی مسلم لیگیں تھیں ان کے بھی کئی ٹکڑے ہوئے۔ ان میں کوئی اپنا مستقبل غیر محفوظ سمجھتے ہوئے کسی دوسری جماعت میں چلا گیا، اب ان کے خیال میں کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اکٹھے ہوں تو شاید ہمارا کوئی وجود بن جائے لیکن اس طرح تو وجود نہیں بنتا‘‘۔

مشرف کو گنجائش ملی نہ ملے گی
’’میاں نوازشریف کا سعودی عرب جانے کی بابت کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا، مشرف کا یہ خیال تھا کہ جب تک نواز شریف یہاں رہیں گے، وہ جم نہیں سکیں گے کیونکہ میاں نواز شریف کی اہلیہ محترمہ بڑی جرأت اور دلیری سے جلوس نکال رہی تھیں، وہ اس سے بھی بہت تنگ تھے۔ باقی پارٹی بھی کوشش کر رہی تھی۔ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد بھی بن گیا جس کے سربراہ مرحوم نواب زادہ نصراللہ خان تھے، پیپلز پارٹی سمیت دیگر جماعتیں بھی اتحاد میں شامل تھیں۔

اس سب کچھ کی وجہ سیمشرف کی مقبولیت جو ابتدا میں ہو سکتی تھی، وہ بھی نہ ہوئی، پرفارمنس نہیں تھی، کشمیر کے مسئلے کو انھوں نے نقصان پہنچایا، مذہبی طبقات ان کے خلاف ہو گئے، وہ مکمل طور پر عدم استحکام کی طرف جا رہے تھے، مشرف نے یہی علاج سوچا کہ اگر انہیں(شریف فیملی کو) باہر روانہ کر دیا جائے تو شاید اس سے کوئی فائدہ ہوجائے لیکن وہ بھی نہیں ہوا۔ لندن میں کانفرنسیں ہوئیں، اس میں محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ بھی شریک ہوئیں اور باقی پارٹیاں بھی۔ ان سب نے میاں نواز شریف سے کہا کہ راجہ ظفرالحق کو مسلم لیگ کا سربراہ بنا دیا جائے۔ ہم اپنے طور پر پورے ملک میں کوشش کرتے رہے۔ چاروں صوبوں میں، جلسے بھی کیے اور میٹنگز بھی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پرویز مشرف کو کوئی گنجائش ہی نہیں ملی اور نہ ہی آئندہ گنجائش ملنے کا کوئی سوال پیدا ہوتا ہے‘‘۔

مشرف نے کہا کہ راجہ ظفرالحق قابو آجائے تو…
’’پرویز مشرف نے مجھ سے بھی رابطہ کیا تھا۔ میں نے اپنی جماعت کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کا اجلاس بلا کر بتایا کہ انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا ہے۔ کچھ نے کہا کہ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بات کرنے میں کیا حرج ہوسکتاہے بھلا، پتہ چلنا چاہئے کہ وہ کیا کہتے ہیں۔ انھوں نے جب مجھ سے بات کی، ہماری ملاقات ہوئی، اخبارات میں اس کی خبریں شائع ہوئیں، تو میں نے انھیں کہا کہ آپ نے بڑی زیادتی کی ہے، آپ نے ہمارا تختہ الٹا،کہنے لگے کہ انہوں نے مجھے کیوں ہٹایا تھا۔ میں نے کہا کہ مقرر بھی انہوں نے ہی کیا تھا، وہ بات آپ کو یاد نہیں رہی اور نکالنے والی بات آپ کو یاد آ گئی۔ پھر انھوں نے کچھ ناراضی کا اظہار کیا کیونکہ میں ان کی توقع پر پورا نہیں اترا تھا۔ میں نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ ناراض ہو گئے۔ وہ کہتے پھرتے تھے کہ یہ آدمی قابو آ جائے تو بہت سی مشکلات آسان ہو جائیں گی‘‘۔

مشرف کے خلاف قانونی کارروائی میں حکومت سرگرم کیوں نہیں؟
’’پرویز مشرف کے خلاف قانونی کارروائی کا معاملہ عدالتوں پر چھوڑا ہوا ہے کیوں کہ اگر ہماری حکومت گرم جوشی کا مظاہرہ کرے تو سمجھا جائے گا کہ یہ انتقامی کارروائی پر اتری ہوئی ہے، انصاف اس کے پیش نظر نہیں ہے، چونکہ مشرف نے ان کی حکومت توڑی تھی اس لیے یہ اس کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ جب آپ مدعی بن کرآرٹیکل 6 کا مقدمہ داخل کر دیتے ہیں تو اس کے بعد عدالتی کارروائی ہی رہ جاتی ہے۔ پھر مشرف نے بہانے شروع کر دیے، عدالت کی طرف آتے آتے ’اے ایف آئی سی ‘ کی طرف رخ کر لیا، وہاں کافی دن لیٹے رہے۔ کوئی بات ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ کمر میں سخت تکلیف ہے۔ ڈاکٹرز سرٹیفکیٹ بھی دے دیتے ہیں۔ پھر وہاں جا کر یہ ڈانس کرتے ہیں۔

’’راجہ صاحب! کہیں فوج کی طرف سے کوئی درخواست تو نہیں کی گئی کہ ہاتھ ہلکا رکھیں؟‘‘
’’نہیں، ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔‘‘

بھٹوکی پھانسی عدالتی قتل تھا؟
’’ جب عدالت کسی کے خلاف فیصلہ دیتی ہے اور وہ کسی کو منظور نہیں ہوتا تو وہ اسکے خلاف نظرثانی کی درخواست دائر کرتاہے۔ پیپلز پارٹی والوں نے نظرثانی کی درخواست بھی دائر کی تھی۔ پہلے جو 4/5 کا فیصلہ تھا، وہ پھر اتفاق رائے کا ہوگیا۔ انہوں نے ان کی اپیل مسترد کر دی تھی، پھر ان کو کچھ کرنا چاہیے تھا۔ آج تک انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ انہوں نے بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت کے بعد کوئی کارروائی نہیں کی، وہ معاملہ بھی آج تک پڑا ہوا ہے۔ پانچ سال تک انہوں نے حکومت کی ہے، اس دوران انہوں نے کچھ نہیں کیا‘‘۔

فوجی حکومت کا وزیراطلاعات، تجربہ کیسا رہا؟
’’ اُس وقت اتنے زیادہ ٹی وی چینلز بھی نہیں ہوتے تھے۔ اُس وقت محض یہ کہہ دینا کافی ہوتا کہ یہ خبر نہیں چھپنی چاہیے، وہ نہیں چھاپتے تھے۔ پھر بھی کچھ نہ کچھ چلتا رہتا تھا۔ ایک بار خدشہ پیدا ہوگیا کہ کوئی حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کے کچھ حصے نہ چھاپ دے گا۔ چنانچہ سب کو منع کر دیا گیا لیکن نوائے وقت نے چھاپ دیے۔ پھر ایک میٹنگ بلائی گئی جس میں وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان اور غلام اسحاق خان بھی تھے۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا کرنا چاہیے؟ میں نے کہا کہ کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ نتیجتاً کچھ نہیں کیا گیا‘‘۔

جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی کیسی رہی؟
’’ مجھے افسوس بھی ہوتا ہے کہ جنھیںجنرل ضیاء صاحب نے عزت دی، جنھیں پریشانیوں سے نکالا ، ان میں سے بعض لوگ جنرل صاحب کی شہادت کے بعد انہیں اچھے الفاظ سے یاد نہیں کرتے۔ اکثریت نہیں، بعض لوگ ایسے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ یہ اخلاقی طور پر اچھا رویہ ہے۔ اگر آپ کسی کے ساتھ شامل رہے ہیں تو آپ کو اس کی تمام اچھائیوں اور برائیوں کی ذمہ داری لینا پڑتی ہے۔ جنرل ضیا الحق جب سے فوج میں بھرتی ہوئے،انھیں کمیشن ملا، ان کے ساتھی کہتے ہیں کہ وہ اُس وقت بھی تہجد پڑھتے تھے، رات کو اٹھ کر قرآن مجید پڑھتے تھے۔

یہ کوئی بعد کی بناوٹ نہیں تھی۔ وہ حقیقی طور پر مسلمان تھے۔ اسلام کے نفاذ کے لیے ان کی خواہش بڑی حقیقی تھی اور صحیح تھی۔ نفاذ اسلام کے لیے پاکستان بننے کے بعد آج تک جو کچھ کیا گیا، انہی کے دور میں پیش رفت ہوئی۔ اگر وہ کہتے تھے کہ نظام صلوٰۃ ہونا چاہیے تو کئی لوگ کہتے کہ ہم مارشل لاء کی نماز نہیں پڑھنا چاہتے۔ بھئی! اگر نہیں پڑھنی تو مارشل لاء کا نام کیوں لیتے ہو۔

اسی طرح جنرل ضیا الحق نے فحاشی ختم کرنے کے لیے حقیقی کوشش کی۔ پوری اسلامی دنیا میں انہیں ایک رہنما کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔ اس کا بڑا ثبوت یہ ہے کہ 1980 میں جب اقوام متحدہ کا اجلاس ہو رہا تھا، سب ممالک نے ان سے درخواست کی کہ ساری اسلامی دنیا کی طرف سے آپ ہی اقوام متحدہ سے خطاب کریں۔ حالاں کہ اس وقت اسلامی ممالک میں زبردست قسم کی لیڈر شپ موجود تھی، ہرقسم کے لوگ تھے۔ ان میں سے آج کوئی بھی نہیں رہا۔ چنانچہ انہوں نے خطاب کیا، انہوں نے تمام مسائل، جو مسلم ممالک کو داخلی طور پر درپیش تھے یا انھیں عالمی قوتوں کے ہاتھوں پریشانیاں تھیں، سن کچھ انہوں نے کھلے اندازمیں بیان کیا‘‘۔

’’ایک اور عجیب بات ہوئی کہ انہوں نے کہا، میں اپنی تقریر سے پہلے قرآن مجید کی تلاوت کرواتا ہوں۔ یہاں بھی میں تقریر کروں گا تو پہلے قرآن مجید کی تلاوت ہو گی اور پھر میں اپنی گزارشات پیش کروں گا۔ انہوں نے بڑا احترام کمایا۔ پھر جب ان کی شہادت ہوئی تو ان کے جنازے میں کتنے زیادہ لوگ شریک ہوئے سوائے عراق کے صدر صدام حسین کے، انھوں نے تعزیت بھی نہیں کی۔

کیوں کہ انہوں نے کہا کہ تھا کہ جنرل ضیا الحق نے کہاتھا کہ ہم عراق ایران جنگ میں مصالحانہ کردار ادا کر سکتے ہیں لیکن ہمیں کسی کی طرف داری نہیں کرنی چاہیے کہ ہم ایک ملک کے ساتھ ہو جائیں۔ حالاں کہ پوری دنیا کی طرف سے ان پر دبائو تھا کہ آپ ایران کے خلاف عراق کا ساتھ دیں۔ انہوں نے بہت مختصر سا اجلاس بلایا، جس میں کہا کہ میری خواہش ہے کہ ایران ہمارا پڑوسی ملک ہے، ہمیں کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہیے، جس پر ہم بعد میں شرمندہ ہوں۔ ہم نے کوئی کردار ادا کرنا ہے تو مصالحت کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ پھر انہوں نے ایک امن کمیٹی بنائی۔ وہ خود بھی وہاں گئے۔ ایران بھی گئے اور دیگر ممالک میں بھی گئے ورنہ معاملات بڑی حد تک خراب بھی ہو چکے تھے‘‘۔

جنرل ضیاء نے اسلام کا نام اقتدار کو دوام دینے کے لئے استعمال کیا؟
’’یہ ایک ایسی بات ہے، جس کی کوئی لاجک نہیں ہے۔ خود اسلام کے بارے میں جو مخالفین، جن کو یہ دین پسند نہیں، اس کی ترویج پسند نہیں، اس کا اقتدار پسند نہیں، اس کی شان و شوکت پسند نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ اسلام کا اقتدار ابتدائی 29، 30 سال ٹھیک رہا، اس کے بعد اسے کیا ہوگیا؟ جنرل ضیا الحق نے سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا کہ کوئی قانون کتاب و سنت کے خلاف نہیں بنے گا۔ اگر کوئی ایسا قانون ہے تو اسے ختم کیا جائے گا۔ اس کے لیے کوئی طریقہ کار نہیں تھا ماسوا اسلامی نظریاتی کونسل کے۔

اس کا طریقہ کار بھی ایسا تھا کہ کسی معاملے کو قانون بننے تک ساڑھے سات سال لگ جاتے تھے ۔ وہ( پچھلی حکومت ) جو طریقہ کار آئین کے اندر لکھ گئے تھے، شاید وہ سمجھتے نہیں تھا کہ اسے زیادہ ترویج دینی چاہیے۔ انہوں نے طریقہ کار ایسا بنایا تھا کہ پانچ سال تک وہ پیش ہو گا، دو سال تک اس پر بحث ہو گی، چھ مہینے اس پر قانون سازی ہو گی۔ اس طرح ساڑھے سات سال بن جاتے تھے۔ تاہم جنرل ضیاء الحق نے اس کے متوازی ایک اور ادارہ قائم کیا، وفاقی شرعی عدالت۔ اس کے لیے بھی انہوں نے پہلے ہر ہائی کورٹ میں ایک شریعت بنچ قائم کیا۔ بعد میں خیال آیا کہ ایسا نہ ہو کہ چاروں صوبوں کی الگ الگ ہائی کورٹس الگ فیصلے دیں، اس وقت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نہیں تھی۔

کسی نے کہا کہ اس کے لیے سپریم کورٹ میں ایک شریعہ بنچ قائم کیا جائے، انہوں نے وہ بنا دیا۔ پھر چاروں صوبوں میں الگ الگ شرعی عدالتیں بنانے کے بجائے ایک ہی عدالت، وفاقی شرعی عدالت یہاں بنا دی۔اس کے ججز علماء سے بھی لیے، اور باقی پڑھے لکھے لوگوں کو بھی اس میں مقرر کیا گیا۔

جیوڈیشری سے بھی اور جو مذہبی سکالرز ہیں، ان میں سے بھی۔ وہاں پر ایک ایسا نظام قائم کیا گیا کہ کوئی آدمی بھی بغیر ٹکٹ چسپاں کیے ایک سفید کاغذ پر درخواست لکھ کر دے کہ فلاں قانون قرآن اور حدیث کے خلاف ہے تو وہ اس کے خلاف کارروائی کر سکتے ہیں، سن سکتے ہیں اور فیصلہ دے سکتے ہیں حتیٰ کہ وقت مقرر کر سکتے ہیں کہ یہ قانون جسے چیلنج کیا گیا ہے، فلاں تاریخ کے بعد نہیں رہے گا۔ یہ نظام کسی اور جگہ نہیں ہے۔ وہاں وکیل بھی پیش ہوتے تھے اور سکالر اور مذہبی سکالر بھی‘‘۔

’’اس کے بعد انہوں نے نظام زکوٰۃ رائج کیا جو اسلام کا ایک خاصہ ہے، سب سے غریب طبقہ کی کفالت معاشرے اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ’جن کو ہم اقتدار د یتے ہیں، ان کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ نماز اور زکوٰۃ کا نظام قائم کریں‘۔ جنرل ضیا الحق نے زکوٰۃ کا نظام قائم کیا جو پہلے نہیں تھا۔ اس پر بھی اعتراض ہوا کہ یہ زبردستی زکوٰۃ کاٹ لیتے ہیں، کسی کی مرضی نہ ہو تو بنکوں سے کاٹ لیتے ہیں۔کہاگیاکہ لوگ بنکوں سے رقمیں نکال لیں گے تو کیا ہو گا۔ آپ یقین کریں کہ ہر سال بنکوں میں زکوٰۃ کی رقم کاٹی جاتی ہے تو وہ پہلے سے زیادہ ہوتی ہے۔

الحمدللہ پاکستان کے لوگ مسلمان ہیں اور اسلام پر عمل کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہاں کچھ لوگوں نے کہا کہ زکوٰۃ زبردستی کوئی کیوں کاٹ لیتے ہیں ، زبردستی کوئی عبادت ہوتی ہی نہیں ہے، اس کا اجر ہی نہیں ملتا۔ جب میں قاہرہ (مصر) میں سفیر تھا تو یہاں سے ایک وفد گیا کہ ہم جامعۃ الازہر کے شیوخ سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس وقت شیخ الازہر جادالحق تھے۔

میں وفد کو لے گیا، انہیں ملایا، انہوں نے اپنے بڑے، پرانے سکالرز کو بلا لیا کہ یہ پتہ نہیں کیا پوچھیں، شاید میں اکیلا جواب نہ دے سکوں۔ انہوں نے پہلا سوال یہی کیا کہ یہ زکوٰۃ زبردستی کیوں لے جاتی ہے؟ یہ تو ٹھیک نہیں ہے۔ شیخ الازہر نے پوچھا کہ اگر آپ بجلی کا بل نہ ادا کریں تو زبردستی لے لیا جاتا ہے نا؟ لینڈ ریونیو نہیں دیتے تو آپ کی جائیداد قرق ہو جاتی ہے نا؟ اگر دنیاوی نظام میں ایسا ہو سکتا ہے تو خالق کائنات کی طرف سے مقرر کردہ اڑھائی فی صد زکوٰۃ کیوں نہیں لی جاسکتی، وہ بھی اموالِ ظاہرہ پر، بنک اکائونٹ بھی اموالِ ظاہرہ میں شامل ہے، وہ آپ کے گھروں میں آ کر نہیں کہتے کہ یہ زیور آپ نے چھپایا ہوا ہے وغیرہ وغیرہ۔ صرف ایک شق، اس پر بھی اعتراض! وہ لوگ واپس آئے، پھر انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا‘‘۔

کیا واقعی روس گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتاتھا؟
’’جب روس میں زار روس کی حکمرانی تھی، بادشاہت تھی، اس وقت سے ان کا کہنا تھاکہ ہم گرم پانیوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ ہم Land locked ہیں۔ ہمارے پاس بندرگاہیں نہیں ہیں کہ ہم دنیا کے ساتھ رابطہ کر سکیں۔ یہ اُس وقت کی بات ہے۔ یہ کوئی چند سال پہلے کی بات نہیں ہے۔ ان کے سمندر آٹھ مہینے جمے رہتے ہیں۔1993ء میں ، میں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کانفرنس میں شرکت کے لیے ویانا گیا ہوا تھا، میرے ساتھ بیگم نصرت بھٹو بھی تھیں۔ اس وقت بھی میں سینیٹر تھا۔ وہاں سے مجھے بلوایا گیا اور ایک خصوصی ایلچی کی حیثیت سے وسطی ایشیا کی چھ ریاستوں میں بھیجا گیا تھا، میں ان کے وزرائے خارجہ سے ملا۔ دو، تین دن تک ہر ملک میں رہا، ان کے وزیراعظم سے بھی ملا اور صدور سے بھی۔ ان میں سے ہر ایک نے کھڑے ہو کر نقشے کی مدد سے بتایا کہ ہمارا سب کچھ ماسکو کی طرف جاتا ہے، ریلوے لائنیں بھی، ہوائی راستہ بھی۔ ہمارا باقی دنیا کے ساتھ رابطہ کرنے کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہے، میاں نواز شریف جو موٹر وے بنا رہے ہیں۔

اس کی صورت میں ہمیں ایک نئی نوید ملی ہے۔ میں1993ء کی بات کر رہا ہوں۔ ہماری خواہش یہ ہے کہ اگرہمیں یہ راستہ مل جائے تو ہم دنیا میں اپنا سامان بھیج سکتے ہیں اور وہاں سے منگوا سکتے ہیں۔ یہ تو ہمارے لیے بہت بڑا راستہ کھل جائے گا۔ اب روس کا رویہ صرف اسی وجہ سے بدلا ہوا ہے، اب روسی کہتے ہیں کہ ہمیں بھی سی پیک میں شامل کریں۔ یہ نہر سویز سے 10 گنا بڑا موقع پاکستان کو ملا ہے۔ اسی وجہ سے انڈیا کہتا ہے کہ ہم اس کو برداشت نہیں کریں گے، انھیں اندازہ ہے کہ اس سارے سلسلے کا والیوم کیا ہے۔ یہ خطے کے لیے کتنی بڑی تبدیلی ہو گی جس کا مرکز پاکستان ہو گا۔ دشمن کو یہ بات برداشت نہیں، افسوس کہ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ ہیں جو طرح طرح کی باتیں کر رہے ہیں‘‘۔

پیپلزپارٹی نے سکھوں کی فہرستیں بھارت کو دی تھیں؟
’’دیکھیں جی! کسی نے یہ دیکھا تو نہیں کہ ان کا وزیر داخلہ فہرستیں دے رہا ہے نہ ہی اس طرح دی جاتی ہیں۔ لیکن جب انڈیا کا رویہ پاکستان سے متعلق ذرا سخت ہوا، بے نظیر صاحبہ کا دور تھا، بھارت نے کہا کہ جب آپ کا ملک ٹوٹنے لگا تھا تو ہم نے آپ کی مدد کی تھی۔ آپ ہمارے اس احسان کو یاد نہیں کرتے اور آپ نے ہمارے خلاف یہ کام شروع کردیے۔ تو جن کو پتہ نہیں تھا، انہیں بھی پتہ چل گیا‘‘۔

ن لیگ دفعہ 62 اور63 ختم کرے گی؟
’’اگر کوئی فرد بھی عوامی عہدہ سنبھالنا چاہتا ہے تو اسے امین اور صادق ہونا چاہئے۔ یہ کسی انسان کی سوچ کا نتیجہ نہیں ہے۔ یہ قرآن مجید کی صریح آیات کے تحت ہے۔ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو مصر کے بادشاہ نے بلایا اور کہا کہ میں نے آپ کو ناجائز جیل میں ڈالے رکھا ہے، آپ تو بڑی صلاحیت والے آدمی ہیں۔ آپ ملک کو فائدہ پہنچانے کے لئے کیا کر سکتے ہیں ؟ تو آپؑ نے فرمایا: مجھے ملک کے خزانے پر مقرر کر دیں۔ میں دیانت دار ہوں اورمیں اس فن کو بھی جانتا ہوں۔ وہاں جو قحط پڑتے تھے، اس کا علاج بھی آپ نے کرکے دیا تھا۔ اس لحاظ سے جو صادق ہو نہ امین، اسے تو یہ دفعات 62 اور 63 اپنے لیے زہر قاتل لگتی ہیں۔ وہ کیوں انہیں برداشت کرے گا‘‘۔

’’دراصل پرویز مشرف کے زمانے میں باقاعدہ ایک مہم چلی تھی ، جس کے ذریعے پاکستان کو ڈی اسلامائز، ڈی نیوکلیرائر اور کشمیر کے مسئلے کو بالکل ختم کرنا تھا۔ اس میں اندرون ملک کے لوگوں کی خواہش کم اور بیرونی دنیا کی خواہش زیادہ تھی۔ آپ دیکھیں کہ پرویز مشرف نے جو کتاب لکھی ہے “In the line of fire” اس میں ایک پورا باب، بہت بڑا باب پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کے بارے میں ہے جس میں اسے ایکسپوز کیا گیا، عالمی سطح پر پاکستان کو ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے کہ انہوں نے فلاں فلاں جگہوں سے یہ چیزیں لی ہیں اور یہ فلاں فلاں ملکوں کو دے رہے ہیں۔ پوری تفصیل سے جھوٹ کا ایک پلندہ بنا کر لکھا ہے۔

یہ بات وہ فرد کہہ رہاہے جو اپنے تئین ملک کا صدر بنا پھرتاتھا۔کہتے ہیں، باڑ اس لیے لگائی جاتی ہے کہ فصل کو محفوظ کرے لیکن اگر باڑ ہی فصل کو کھانا شروع کر دے تو پھر حفاظت کیسے ہوگی۔ مشرف نے بھارت کو لائن آف کنٹرول پر باڑ لگانے کی خود اجازت دی، وہ آگرہ جا رہے تھے تو فارن آفس نے کہا کہ ہم آپ کی بریفنگ کرنا چاہتے ہیں، انھوں نے کہا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے، میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نہیں مانتا۔ میں اس کا آئوٹ آف دی باکس حل نکالنا چاہتا ہوں۔ پھر وہاں بے عزتی کروا کے واپس آئے۔

اگلی سارک کانفرنس ہوئی تو انھوں نے اسٹیج پر جا کر واجپائی کو سیلوٹ کیا تھا۔ اس طرح تو ملک نہیں چلتے، اس طرح ملکوں کی عزت نہیں بنتی۔ ملک کے لیے نظریہ بھی بے حد ضروری ہے اور سیاسی استحکام بھی۔ جمہوریت بھی ضروری ہے۔ تنقید کرنے والے غور نہیں کرتے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں، اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ بہرحال مسلم لیگ (ن) 62 اور 63 دفعات دورکی بات ، آئین سے کوئی بھی اسلامی دفعہ نہیں نکالے گی۔ ہم حدود کے قوانین اور ناموس رسالتؐ والے قانون کو بھی ختم نہیں کریں گے‘‘۔

نوازشریف، جلاوطنی سے پہلے اور بعد
’’ایک آدمی اتنی مشکلات میں سے گزرا ہو، ان کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیاگیا، ان کی حکومت ختم کی گئی، ان پر تشدد کیا گیا، ایک کوٹھڑی میں انھیں بند رکھا گیا، بچوں کو رکھا گیا، ان کے گھر میں فوج آ کر بیٹھ گئی، وہاں روز عورتوں کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہوتا تھا۔ اس کے بعد انہیں یہاں سے ہتھکڑیاں لگا کر جہاز پر کراچی لے جایا جاتا تھا۔ قلعہ میں کس طرح بند کیا جاتا تھا، کیا کچھ اذیتیں دی گئیں، وہ وزیراعظم بننے سے پہلے بھی اچھے حالات میں رہتے تھے، مالی طور پر ان کی پوزیشن بڑی مستحکم تھی، ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا۔

ان چیزوں کا اثر تو ہوتا ہے نا! ریاستی معاملات میں ان کے رویے وہی ہیں جو اس سے پہلے تھے۔ وہ اس قوم کے انتہائی ہمدرد ہیں، وہ عام آدمی کی پریشانی نہیں دیکھ سکتے۔ وہ سافٹ سپوکن ہیں، کسی کی بے عزتی نہیں کرتے۔ وہ فوری طور فیصلہ نہیں کرتے، غور و فکر کرتے ہیں، مشورہ کرتے ہیں، انتہائی مخالف سے بھی مشورہ کرتے ہیں۔ سیاست دان کتنی ہی عجیب باتیں ان کے خلاف کرتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ان سے مشورہ کرتے ہیں وہ دروازے پر جا کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ گاڑی تک پہنچ کر انہیں الوداع کہتے ہیں، ان میں کوئی تکبر نہیں آیا۔ وہ اپنے معاملات میں پہلے سے بھی زیادہ احتیاط کرتے ہیں‘‘۔

داستانِ حیات
راجہ فضل داد خان کے فرزند ارجمند راجہ ظفرالحق کوئی بارہ برس کے تھے جب پاکستان معرض وجود میں آیا۔ضلع راولپنڈی کی تحصیل کہوٹہ کے ایک گائوں مٹور میں پیدا ہوئے، 1956ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کی۔سن 1958ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پالی ٹیکل سائنس میں ماسٹر اور پنجاب لا کالج سے ایل ایل بی کیا۔1958ء سے 1981ء تک وکالت کرتے رہے، 1987ء کے بعد سپریم کورٹ میں وکیل رہے۔گریجویشن کے فوراً بعد مسلم لیگ میں شامل ہوئے، تب سے اب تک یہی پارٹی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے، نصف صدی سے زائد عرصہ کے دوران میں کبھی پارٹی سے تعلق میں کمزوری نظر نہیں آئی۔1963ء سے1971ء تک مسلم لیگ ضلع راولپنڈی کے جنرل سیکرٹری رہے۔

اس کے بعد ضلعی صدر منتخب ہوئے،1981ء تک اس عہدہ پر فائز رہے۔ 1973ء میں انھیں مسلم لیگ کی سنٹرل ورکنگ کمیٹی کے رکن چنے گئے،1977-78ء تک راولپنڈی بار ایسوسی ایشن کے صدر جبکہ1981ء میں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔

جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں 1981ء سے 1985ء تک وزیراطلاعات و نشریات رہے، اس دوران میں مذہبی امور کی وزارت بھی انہی کے پاس تھی۔1985ء سے 1986ء تک مصر میں سفیر رہے، 1986ء سے 1987ء تک وزیراعظم محمد خان جونیجو کے سیاسی مشیر رہے، یہ عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔1990-91ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 45ویں سیشن میں پاکستانی کی نمائندگی کی،1991ء میں چھ برس کے لئے سینیٹر منتخب ہوئے،1997ء میں اگلی مدت کے لئے بھی سینیٹ کا انتخاب جیت گئے۔1991-94ء میں سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے قانون و مذہبی امور کے چئیرمین بنائے گئے۔

1992-97ء تک بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے بورڈ آف ٹرسٹیز کے رکن رہے۔سن 1992ء سے وہ موتمر عالم اسلامی کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے، یہ مسلمانوں کی سب سے پرانی عالمی تنظیم ہے جو 1926ء مکہ مکرمہ، سعودی عرب میں قائم ہوئی۔ آنے والے برسوں میں بھی اس عہدہ کے لئے بار بار منتخب ہوئے۔سن 1996ء میں مسلم لیگ کے مرکزی نائب صدر منتخب ہوئے، 1994-96ء کے عرصہ میں سینیٹ میں قائدحزب اختلاف بھی رہے جبکہ 1997-99تک قائدایوان۔ جولائی1997ء سے 1999ء تک وزیر مذہبی امور رہے۔ سن 2000ء میں وہ پاکستان مسلم لیگ کے چئیرمین منتخب ہوئے۔

The post پرویز مشرف نے پاکستان کا ایٹمی پروگرام دنیا کے سامنے ایکسپوز کیا appeared first on ایکسپریس اردو.

روشن راستہ

$
0
0

مراقبہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔؟
سوال: محترم ڈاکٹر وقار عظیمی! کئی مسائل کے جواب میں اکثر لوگوں کو آپ مراقبہ بھی تجویز کرتے ہیں۔ میں یونیورسٹی میں پڑھتا ہوں۔ میں نے اور میرے کئی فیلوز نے مراقبہ کے بارے میں سنا تو ہے لیکن ہم اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے۔ سر! پلیز ہمیں بتائیے کہ مراقبہ سے ذہنی صلاحیتوں اور قوت ارادی میں اضافہ کیوں کر ہوتا ہے؟
(محمد خاور:کراچی)

جواب: انتہائی مختصر الفاظ میں مراقبہ کی تعریف (Defination) ان الفاظ میں بیان کی جاسکتی ہے کہ مراقبہ ذہنی یکسوئی اور ذہنی سکون حاصل کرنے اور روحانی حواس کو بیدار اور متحرک کرنے کی مشق کا نام ہے۔

یہ مشق ٹھیک طرح کی جائے تو اس کے کئی فوائد یا نتائج سامنے آتے ہیں۔ مشرق میں تو مراقبہ اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کا صدیوں پرانا معمول ہے۔ صوفیاء ارتکاز توجہ لاشعوری کیفیات کے ادراک، باطنی یا روحانی صلاحیتوں کی بیداری کے لیے مراقبہ کا اہتمام بھی کرتے تھے۔ مراقبے کے ذریعے انسانی ذہن کائناتی شعوری کے ساتھ ہم آہنگ (Tune) ہوسکتا ہے۔ گویا انسانی ذہن ایک وصول کنندہ (Reciever)ہے۔ کائنات میں مختلف نشریات مسلسل جاری و ساری ہیں۔ انسانی ذہن مراقبہ کے ذریعے ان نشریات کو بہتر طور پر وصول کرنے اور اُنہیں سمجھنے کے قابل ہوسکتا ہے۔

اپنے کثیرالجہتی مفید اثرات کی وجہ سے مراقبہ صدیوں سے مشرق کی کئی تہذیبوں میں معروف اور رائج رہا ہے۔ اب امریکا اور یورپ میں بھی سائنس دان، ماہرینِ نفسیات، نیورولوجسٹ اور دیگر شعبوں کے طبی ماہرین مراقبے کے انسانی ذہن اور انسانی صحت پر اثرات پر تحقیقات کررہے ہیں۔ مراقبہ کے روحانی فوائد کے علاوہ ٹھیک طرح مراقبہ کرنے سے انسان کی ذہنی، جسمانی صحت اور کارکردگی بہتر بنائی جاسکتی ہے۔ مراقبہ کئی نفسیاتی مسائل مثلاً اسٹریس، ٹینشن، ڈپریشن، خوف، احساسِ کمتری، شک اور وسوسوںوغیرہ سے نجات پانے میں بھی مددگار ہے۔

علمِ باطن یا روحانی علوم کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اس دنیا میں انسان دو حواس میں زندگی بسر کرتا ہے۔ ایک نیند ، دوسرا بیداری۔ بیداری میں شعوری حواس متحرک ہوتے ہیں اور نیند میں لاشعوری حواس غالب ہوتے ہیں۔ مراقبے کا مقصد یہ ہے کہ بیداری یعنی شعوری حواس میں رہتے ہوئے نیند کے حواس کو خود پر غالب کرلیا جائے۔ کسی ٹیچر کی زیرِنگرانی مراقبے کی مسلسل مشق سے یہ مقصد حاصل ہونے لگے تو ذہن میں ایسی لہریں متحرک ہوتی ہیں جو انسان کی ذہنی اور جسمانی صحت کے لیے مفید ہیں۔ سائنس دانوں نے ان لہروں کو تھیٹا ویوزq کا نام دیا ہے۔ (اس موضوع پر مزید تفصیلات انشاء اللہ آئندہ پیش کی جاتی رہیں گی)

والد نے دوسری شادی کرلی
سوال: ہم چار بہنیں اور پانچ بھائی ہیں۔ تین بہنیں اور دو بھائی شادی شدہ ہیں۔ ہمارے ماں باپ میں شروع سے ہی نہیں بنی۔ ہم نے ان دونوں کو ہمیشہ لڑتے جھگڑتے اور ایک دوسرے کی برائیاں کرتے ہی دیکھا۔ ہمارے والد نے ایک ہی علاقے میں قریب قریب واقع دو مکان بنوائے۔ انہوں نے ایک مکان ہماری والدہ کو گفٹ کرکے اسے کرائے پر چڑھادیا۔ اگر ہم اپنی امی سے گزارش کریں کہ وہ ابا کے ساتھ لڑائی جھگڑا نہ کریں تو امی ہم سے ناراض ہوجاتیں۔ والد سے یہ بات کہیں تو وہ ہمیں والدہ کا حمایتی قرار دیتے۔

دو سال پہلے ہماری امی اور ابا کے درمیان بہت سخت لڑائی ہوئی۔ اس لڑائی میں بیٹوں نے ماں کا ساتھ دیا جب کہ ہم بیٹیوں کا خیال تھا کہ زیادتی امی کی طرف سے ہوئی ہے۔ اس جھگڑے کے فوراً بعد امی نے اپنے نام والے مکان کو کرایہ داروں سے خالی کروایا اور تین بیٹوں کو ساتھ لے کر وہاں شفٹ ہوگئیں۔ مگر بات صرف یہیں تک نہ رہی، پچھلے سال ہمارے والد نے اپنے کارخانے میں کام کرنے والی ایک لڑکی سے نکاح کرلیا۔ ہمارے والد کی عمر 65 سال جب کہ وہ لڑکی بتیس تینتیس سال کی ہے۔ پہلے تو ہماری والدہ ہم بہنوں سے ناراض تھیں اب دوسری شادی کے بعد والد کا رویہ بھی تبدیل ہوتا جارہا ہے۔ وہ معمولی معمولی باتوں پر ہمیں ڈانٹنے لگے ہیں۔ ہم بہنیں بھی ان کو پلٹ کر جواب دینے لگی ہیں۔
(ج۔ ا: حیدرآباد)
جواب: اللہ تعالیٰ آپ کے والدین کو ہدایت عطا فرمائے، وہ اپنی اپنی انا کے شدید حبس زدہ ماحول سے باہر نکلیں۔ آپ کی والدہ اور والد کے طرزعمل سے انانیت اور خودغرضیوں کے انداز سامنے آئے ہیں۔ جب آپ کے بھائی جوان ہوگئے تو آپ کی والدہ نے انہیں اپنے لیے ڈھال بنالیا اور اپنے شوہر سے انتقام پر اتر آئیں۔ اس کا جواب آپ کے والد نے دوسرا بیاہ رچاکر دیا۔ ان دونوں کی ساری عمر ذہنی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کا احترام کیے بغیر محض ایک کمپرومائز میں مجبوراً ایک دوسرے کے ساتھ گزری ہے۔ اب ان کے رویوں میں تبدیلی آجائے یہ بہت مشکل معلوم ہوتا ہے۔

آپ کے والد نے اپنے لیے ایک نئی شریک حیات ڈھونڈ لی ہے۔ اس وقت اپنے والد کی مخالفت کرنا ان کے غصے اور لاتعلقی کو مزید بڑھائے گا۔ اس لیے مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دوسری شادی کو تسلیم کرلیا جائے۔ انہیں اور ان کی بیگم کو طعنے اور طنزیہ القابات نہ دیے جائیں۔ امید ہے کہ اس طرح بیٹیوں کے ساتھ ان کے رویوں میں مثبت تبدیلی آئے گی۔

بطور روحانی علاج رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورہ بنی اسرائیل (17) کی آیت نمبر9گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے والد کا تصور کرکے دم کردیں اور انہیں اپنے بچوں کے فرائض کی اچھی طرح ادائیگی کی توفیق ملنے کی دعا کریں۔

یہ عمل کم ازکم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

احساسِ کمتری
سوال: میری عمر 25سال ہے۔ میں گذشتہ سات آٹھ سال سے نفسیاتی مسائل میں پھنسا ہوا ہوں۔ میں وقت پر فیصلہ نہیں کرپاتا۔ آخری وقت تک شش وپنج میں رہتا ہوں۔ جب وقت گزر جاتا ہے تو پچھتاتا ہوں۔ مجھے اپنا کیریر بہتر بنانے کے کئی مواقع ملے لیکن میں نے سوچنے میں ہی وقت ضائع کردیا۔ میرا کوئی دوست نہیں ہے۔ کوئی رشتے دار ملنے آجائے تو اُس کے پاس بیٹھنا بہت مشکل لگتا ہے۔ یہی سوچتا رہتا ہوں کہ کیا بات کروں اس لیے زیادہ تر خاموش بیٹھا رہتا ہوں۔ میرا احساس کمتری روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔
(فرید علی: مظفر گڑھ)
جواب: سرخ شعاعوں میں تیار کردہ پانی صبح نہار منہ اور شام کے وقت ایک ایک پیالی پییں۔ یہ پانی پینے سے قبل اکتالیس مرتبہ اسم الٰہی یا قوی تین تین مرتبہ دورد شریف کے ساتھ پڑھ کر اس پر دم کرلیں۔ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے اسم الٰہی یا حی یاقیوم کا ورد کرتے رہیں۔ رات سونے سے پہلے بستر پر لیٹ کر اپنے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لیں۔ اس طرح کہ بایاں ہاتھ سینے کے وسط میں رکھا ہوا ہو اور بائیں ہاتھ کے اوپر دایاں ہاتھ رکھ لیں۔ اب نہایت سکون واطمینان سے 101مرتبہ یا اﷲ کا ورد کریں ۔ ورد مکمل ہونے پر بستر پر لیٹے لیٹے اپنے سینے پر دم کرلیں اور بات کیے بغیر سوجائیں، ایک نیند لینے کے بعد بات کرسکتے ہیں۔ یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔

مزید اولاد کی خواہش
سوال: ہماری شادی کو سات سال گزرچکے تھے، لیکن اولاد نہیں ہورہی تھی۔ مجھ میں جرثوموں کی کمی تھی۔ مختلف علاج ہوتے رہے پھر ایک دوست کے مشورے پر آپ سے رابطہ کیا۔ آپ نے کلرتھراپی اور دعاؤں کے ساتھ کچھ دیسی دوائیں بھی تجویز کی تھیں۔ آپ سے علاج کے چند ماہ بعد اللہ نے کرم کیا۔ جرثوموں کی کمی ٹھیک ہوگئی اور ہمارے ہاں بیٹا پیدا ہوا۔ یہ بیٹا اب ماشا اللہ پانچ سال کا ہے۔ اس کے بعد امید نہیں ہورہی تھی۔ چند ماہ پہلے ہم نے دوبارہ ڈاکٹروں کو دکھایا۔ اب میری میڈیکل رپورٹس تو ٹھیک ہیں البتہ اہلیہ کو کچھ طبی مسائل درپیش ہیں۔ لیڈی ڈاکٹر سے ان کا علاج چل رہا ہے۔
(س۔ا: کراچی)
جواب: اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ کی اہلیہ کو جلد صحت عطا ہو اور آپ کو صحت مند، خوب صورت، خوش نصیب اولاد عطا ہو۔ ڈاکٹری علاج کے ساتھ ساتھ بطور روحانی علاج آپ کی اہلیہ رات سونے سے پہلے 101مرتبہ سورہ آل عمران آیت 38میں سے: رب ھب لی من لدنک ذریۃً طیبۃً انک سمیع الدعاO یا شافی یا مصور یا رحیم، گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر پانی پر دم کرکے پییں اور اپنے اوپر بھی دم کرلیں۔ یہ عمل چالیس روز یا نوے روز تک جاری رکھیں۔ وضو بے وضو کثرت سے یا شافی یا مصور یا رحیم کا ورد کرتی رہیں۔

بیوی میکے جاکر بدل جاتی ہے
سوال: میں ایک غریب آدمی ہوں اور اپنے گھر کا واحد کفیل ہوں۔ میرے چار بچے ہیں۔ دو بیٹیاں اور دو بیٹے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میری بیوی میرے ساتھ گھر میں اچھی طرح رہتی ہے لیکن جب وہ دوسرے شہر اپنے میکے جاتی ہے تو بہت لڑائی جھگڑا کرتی ہے اور گھر واپس آنے سے انکار کردیتی ہے۔ میں بہت منت سماجت کرکے اسے واپس گھر لاتا ہوں۔ گھر آکر وہ میرے ساتھ بالکل ٹھیک طرح رہنے لگتی ہے، کوئی شکایت نہیں کرتی۔ ایک ماہ ہوگیا ہے دونوں بیٹیوں کو ساتھ لے کر اپنے میکے گئی اور واپس آنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔
(خ۔ ز: سیالکوٹ)
جواب: رات سونے سے پہلے اکتالیس مرتبہ سورۂ اخلاص گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اپنی بیگم صاحبہ کا تصور کرکے دم کردیں اور ان کے رویہ میں اصلاح کی اور سسرال والوں کے ساتھ حسن سلوک کی توفیق ملنے کی دعا کریں۔ یہ عمل کم ازکم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

چوری کی عادت
سوال: میری شادی کو نو سال ہوئے ہیں۔ ہمارے دو بچے ہیں۔ ایک بیٹا سات سال کا اور چھوٹی بیٹی پانچ سال کی ہے۔ کچھ عرصے سے کبھی میرے پرس سے تو کبھی میرے شوہر کی جیب سے رقم غائب ہونے لگی۔ میں نے ایک دن دیکھا کہ شوہر اپنے کمرے میں سوئے ہوئے ہیں اور میرا بیٹا ان کی جیب سے رقم نکال رہا ہے۔ میں نے اس سے کچھ نہیں پوچھا بل کہ دوسرے دن اپنا پرس ٹیبل پر رکھ کر کھڑکی میں جا کھڑی ہوئی۔ میرا بیٹا تاک میں تھا۔ اس نے میرے پرس سے سو روپے نکالے۔ بس میں نے اسے پکڑ لیا اور خوب سرزنش کی۔ اس نے آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا۔ چوری کاوہ سلسلہ گھر سے تو ختم ہوگیا لیکن اب چوری کا یہ سلسلہ دوسروں کے گھروں میں شروع ہوگیا۔ کبھی اس کے تایا، کبھی ماموں، کے گھر سے پیسے غائب ہونے کی شکایت آنے لگی ہے۔ میں اسے بہت سمجھاتی ہوں۔ پیار سے بھی اور ڈانٹ ڈپٹ سے بھی، لیکن وہ اپنی ان حرکتوں سے باز نہیں آتا۔
(نام شائع نہ کیا جائے)
جواب: بچوں میں چوری کی عادت پڑجانا بعض اوقات اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ اس بچے کو گھر میں مناسب توجہ نہیں مل رہی اور اس کی خواہشات اور ضروریات نظرانداز ہورہی ہیں۔ بچے کی ہر خواہش پوری نہیں کی جاسکتی اور کرنی بھی نہیں چاہیے، لیکن بچے کو آسودگی اور خوشی کا احساس بہرحال دیا جاسکتا ہے۔ اسکول جانے والے بچوں کو مناسب جیب خرچ بھی دیا جانا چاہیے۔ والدین کے فرائض میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کے بچوں کے دوست کون کون ہیں اور وہ کس قسم کی عادتیں اور شوق رکھتے ہیں۔ اس کے دوستوں کے بارے میں معلومات حاصل کیجیے۔ اپنی مالی حیثیت سے زیادہ حیثیت والے بچوں کے ساتھ دوستی بھی بعض بچوں کو احساس کمتری اور ذہنی دباؤ میں مبتلا کردیتی ہے۔ روزانہ رات کو سوتے وقت سورہ لہب19مرتبہ پڑھ کر بیٹے کا تصور کرکے پھونک ماردیں اور دعا کریں۔ یہ عمل کم از کم اکیس روز تک جاری رکھیں۔

شادی میں تاخیر
سوال: میرے شوہر کے انتقال کو دس سال ہوگئے ہیں۔ میرے تین بچے ہیں۔ پہلی بیٹی پھر بیٹا اور پھر بیٹی۔ بیٹے اور چھوٹی بیٹی کی شادی ہوگئی ہے، لیکن بڑی بیٹی جو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرتی ہے اس کا کہیں رشتہ طے نہیں ہوسکا۔ شروع شروع میں تو بہت رشتے آئے لیکن جوڑ نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے منع کردیا۔ دو تین سال ہوگئے ہیں کوئی رشتہ نہیں آیا۔ میری بڑی بیٹی کی عمر نکلے جارہی ہے اور میری پریشانی بڑھ رہی ہے۔ میں بلڈ پریشر، شوگر کی مریضہ ہوں۔ زندگی کا کوئی پتا نہیں ہے۔ بس بیٹی کی فکر کھائے جارہی ہے۔
(ع:ی: لاہور)
جواب: عشاء کی نماز کے بعد گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ 101مرتبہ سورہ الزمر (39) کی آیت نمبر33-34پڑھ کر اپنے بیٹی کی شادی کے لیے دعا کریں۔ یہ عمل کم ازکم چالیس روز اور زیادہ سے زیادہ نوے روز تک جاری رکھیں۔ اس عمل کے دوران ہر جمعرات کو کم ازکم ایک مستحق شخص کو دو وقت کا کھانا کھلائیں یا کسی اور طرح ضرو رت مند کی مدد کریں۔

کاروبارکم ہوگیا ہے
سوال: میں گذشتہ کئی سال سے ایک چھوٹا سا کاروبار کررہا ہوں جو ماشاء اﷲ بہت اچھا چل رہا تھا۔ گذشتہ چار پانچ ماہ سے میرے ساتھ عجیب مسئلہ ہورہا ہے۔ گھر سے نکلنے کے بعد جیسے ہی میں دُکان کھولتا ہوں میرے سر میں اچانک بہت تیز درد ہوتا ہے اس کے بعد مجھے شدید غصہ آتا ہے۔ دُکان میں بھی کوئی کام صحیح طرح نہیں ہوپاتا۔ چیزیں رکھ کر بھول جاتا ہوں۔ چند ماہ سے کاروبار بھی کافی کم ہوگیا ہے۔ میں نے ایک دو جگہ سے معلوم کرایا تو بتایا گیا کہ کاروبار بند کرانے کے لیے کچھ بدعملیات کرائے گئے ہیں۔
(طارق : فیصل آباد)
جواب: صبح سویرے اُٹھ کر وضو کریں۔ ایک بوتل میں پانی بھرلیں۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ایک مرتبہ سورۂ الناس پڑھ کر اس پانی پر دم کردیں اور اپنے اوپر بھی دم کردیں۔ معمول سے کچھ پہلے دُکان پر چلے جائیں اور ایک مرتبہ سورۂ الناس پڑھ کر دُکان کے دروازے پر دم کردیں۔ گھر سے لایا ہوا دم کیا ہوا پانی دکان کے اندر چاروں طرف چھڑک دیں۔ دن میں کسی وقت دُکان میں لوبان کی دھونی بھی دے دیا کریں۔ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے یا حفیظ یا سلام کا ورد کرتے رہیں۔ حسب استطاعت صدقہ کردیں اور ہر جمعرات کم از کم دو مستحق افراد کو کھانا کھلادیں۔

پڑھائی میں کم زور بچہ
سوال: میرے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ میرے دوسرے نمبر کا بیٹا ویسے تو ذہین اور ہوشیا ر ہے لیکن پڑھائی کے معاملے میں کم زور ہے۔ اسکول میں پڑھائی کی طرف توجہ نہیں دیتا اور گھر آکر ہوم ورک بہت مشکل سے کرتا ہے۔ یاد کیا ہوا سبق فوراً ہی بھول جاتا ہے۔
(احمد علی: اسلام آباد)
جواب: صبح اور شام کے وقت اکیس اکیس مرتبہ سورۂ قمر کی آیت 17تین تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر ایک ایک ٹیبل اسپون شہد پر دم کرکے بیٹے کو پلائیں اور اس پر دم بھی کردیں۔ یہ عمل کم از کم دو ماہ تک جاری رکھیں۔ یونانی مرکب خمیرہ گاؤ زبان سادہ صبح اور شام ایک ایک چمچا کھلائیں۔

خط بھیجنے کے لیے پتا ہے۔
’’روشن راستہ‘‘ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پی او بکس 2213 ،کراچی۔74600
ای میل: dr.waqarazeemi@gmail.com
فون نمبر: 021-36685469

The post روشن راستہ appeared first on ایکسپریس اردو.

آپریشن اسٹورم سے آپریشن ردالفساد تک

$
0
0

یہ 27 اپریل 1978ء کا واقعہ ہے جب افغان کمیونسٹوں نے افغانستان میں شاہی حکومت کا خاتمہ کرکے اقتدار سنبھال لیا۔

نور محمد ترکئی جمہوریہ افغانستان کے پہلے صدر بن گئے۔ تاہم جلد ہی کمیونسٹ لیڈروں کے مابین اقتدار کی جنگ چھڑ گئی۔ چناں چہ 14 ستمبر 1979ء کو ترکئی کے نائب، حفیظ اللہ امین نے حکومت پر قبضہ کیا اور اپنے صدر کو موت کی نیند سلادیا۔ اس وقت تک سویت یونین افغانستان کے معاملات میں بہت دخیل ہوچکا تھا۔ اسے حفیظ اللہ امین کی حرکت پسند نہ آئی۔ چناں چہ 27 دسمبر 1979ء کو سویت فوج اور سویت خفیہ ایجنسی، کے جی بی کے ایجنٹوں پر مشتمل ایک دستے نے تاج باغ محل پر دھاوا بول دیا جہاں حفیظ اللہ امین کی رہائش گاہ واقع تھی۔ اس حملے کو ’’آپریشن سٹورم 333‘‘ کا نام دیا گیا۔

آپریشن میں حفیظ اللہ امین مارا گیا اور سویت فوج نے افغان حکومت کو باقاعدہ اپنی مٹھی میں لے لیا۔ اس وقت کسی کے وہم وگمان میں  نہ تھاکہ یہ حملہ تاریخ ِانسانی میں ایسا انقلاب انگیز ثابت ہوگا جس کے اثرات آج تک کافور نہیں ہوسکے۔ اسی حملے نے خصوصاً عالم اسلام میں ہزارہا ایسے جنگجو پیدا کردیئے جن میں آج بیک وقت تین نمایاں رجحان کارفرما ہیں…اول وہ مغربی استعمار سے نبرد آزما ہیں۔دوم اسلامی حکومتوں کو مرتد قرار دے کر ان پر حملے کرتے ہیں۔ سوم بعض اسلامی فرقے اور غیر مسلم بھی ان کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔

سویت حملے نے سب سے زیادہ پاکستان پر اثرات مرتب کیے۔ پاکستانیوں نے بے یارومددگار لاکھوں افغانیوں کو پناہ دی۔ افغان جہاد میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس باعث پاکستان کو سویت، افغان اور بھارتی خفیہ ایجنسیوں کی خون ریز کارروائیوں کا نشانہ بننا پڑا۔ لیکن بدقسمتی سے افغان جنگ کا حصّہ بن کر پاکستان کو نقصانات بھی اٹھانے پڑے۔افغان اسمگلروں نے پاکستان کے چپے چپے میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر پھیلا دیا۔

اسلحے کی فراوانی اور عام دستیابی کے باعث ملک میں فرقہ وارانہ اور قومیت کی بنیاد پر بننے والی تنظیموں کو بڑھاوا ملا اور وہ بتدریج تشدد وفساد کی جانب مائل ہوگئیں۔1989ء تک پاکستان مختلف مذہبی فرقوں اور قومیتی تنظیموں کے مابین جنگ کا نشانہ بن چکا تھا۔اسّی کے عشرے میں ایران اور عرب ممالک کے تصادم نے بھی عالم اسلام کو نقصان پہنچایا۔ عرب ممالک کا نمائندہ، صدام حسین آٹھ سال ایران سے نبرد آزما رہا۔ اس دوران سوویت یونین اور امریکا، دونوں بڑی طاقتوں نے برسرپیکار اسلامی ممالک کو اسلحہ بیچ کر خوب کمائی کی۔ اُدھر دونوں ملک لڑ لڑ کے بے حال ہوگئے۔

افغان جہاد میں ہزارہا غیر ملکی مسلم نوجوانوں نے بھی حصہ لیا۔ جب 1988ء میں افغان جنگ ختم ہوئی، تو ان نوجوانوں نے تمنا کی کہ غاصبوں سے دیگر اسلامی خطے بھی آزاد کرائے جائیں۔ امیر کبیر عرب نوجوان، اسامہ بن لادن نے ان کی خواہشات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے ’’القاعدہ‘‘ کی بنیاد رکھ دی۔1991ء میں جب سویت یونین کا خاتمہ ہوا، تو امریکہ دنیا کی اکلوتی سپرپاور بن گیا۔ وہ چاہتا تھا کہ القاعدہ اپنا عالمی جہاد ترک کردے۔

اسامہ  نے انکار کیا، تو فریقین کے مابین طویل تصادم نے جنم لیا۔واقعہ نائن الیون کے بعد امریکا نے القاعدہ اور دیگر اسلامی جنگجو تنظیموں کے خلاف کھلی جنگ چھیڑ دی۔ اس جنگ میں جن اسلامی ممالک نے امریکا کا ساتھ دیا، اسلامی جنگجوؤں کے نزدیک ان کی حکومتیں بھی دشمن  بن گئیں۔ جوں جوں تصادم بڑھا، جنگجو بھی زیادہ شدت پسند ہوگئے۔ رفتہ رفتہ مخالف اسلامی ممالک کے عوام بھی مرتد قرار دے کر مارے جانے لگے۔ یہ اعجوبہ پاکستان اور عراق میں سب سے زیادہ نمایاں ہوا۔

ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق 1995ء سے 2017ء تک پاکستان میں ’’432‘‘ خودکش حملے ہوچکے۔ ان کی زد میں آکر ’’23 ہزار‘‘ سے زیادہ پاکستانی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ حملے ان اسلامی جنگجو تنظیموں نے انجام دیئے جو اپنے مذہبی نظریات سے اتفاق نہ کرنے والے پاکستانیوں کو واجب القتل سمجھتی ہیں۔ گویا سویت۔ افغان جنگ کے دوران جن پاکستانی و غیر ملکی مسلم نوجوانوں نے فنون حرب سیکھے، ان کی اکثریت بعدازاں سیاسی یا مذہبی اختلافات کی وجہ سے پاکستان دشمن بن بیٹھی۔پاکستان مخالف تنظیموں کے مراکز قبائلی علاقے بن گئے۔ مخصوص طرز فکر رکھنے کے باعث کئی قبائلی شہری پاکستانیوں کو نام کا مسلمان سمجھتے تھے۔

لہٰذا تنظیموں کو قبائلی علاقوں میں گڑھ بنانے اور پروان چڑھنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی۔ مزید براں جب تنظیمیں اپنے کارکنوں کو بھاری تنخواہیں دینے لگیں، تو رقم کا لالچ بھی غریب و بیروزگار لوگوں کو ان کی جانب کھینچ لایا۔جب 2002ء میں امریکا نے افغانستان پر حملہ کیا، تو وہاں سے القاعدہ کے سیکڑوں ازبک، تاجیک اور عرب ارکان قبائلی علاقوں میں بھاگ آئے۔ 2004ء میں پاک فوج نے سب سے پہلے انہی غیر ملکی جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کیا اور انہیں زبردست نقصان پہنچایا۔ یہی وجہ ہے، آج تک ازبک اور تاجیک جنگجو پاکستان میں کبھی خودکش حملہ کرتے تو کبھی کسی منظم حملے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

پاکستانی حکومت نے بہت کوشش کی کہ جنگجو اور شدت پسند تنظیمیں راہ راست پر آجائیں مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات نکلا۔ شروع میں پاکستانی عوام کا ایک بڑا حصّہ مجاہدین سمجھ کر شدت پسند لیڈروں کے ساتھ تھا۔ مگر جب یہ لیڈر فرقہ وارانہ فسادات میں ملوث ہوئے اور عام پاکستانیوں کو بلا کھٹکے نشانہ بنانے لگے، تو پاکستانی عوام کی اکثریت ان کی مخالف بن گئی۔عالم اسلام میں حکمرانوں سے لے کر عوام تک کے باہمی اختلافات سے ہمیشہ مسلم دشمن قوتوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ تاریخ شاہد ہے، یہ قوتیں مسلمانوں میں منافرت و دشمنی پھیلانے کی خاطر باقاعدہ سازشیں کرتی ہیں۔ چناں چہ سیاسی یا مذہبی بنیاد پر پاکستان کی مخالفت کرنے والے مسلمانوں کو بھارت، اسرائیل اور امریکا کی بھی درپردہ حمایت حاصل ہوگئی۔

وطن عزیز کی محافظ، پاک افواج نے شدت پسندوں اور وطن دشمنوں کو ختم کرنے کے لیے کئی آپریشن کیے۔ ان میں آپریشن سائیلنس (2007ء)، آپریشن راہ حق (2007ء)، آپریشن زلزلہ (2008ء)، آپریشن صراط المستقیم (2008ء)، آپریشن شیردل (2009ء)، آپریشن بلیک تھنڈر سٹورم (2009ء)، آپریشن راہ نجات (2009ء)، آپریشن اورک زئی اورکرُم (2010ء)، آپریشن ٹائٹ اسکریو (2010ء)، آپریشن راہ شہادت (2013ء) اور آپریشن ضرب عضب (2014ء) شامل ہیں۔ان آپریشنوں اور باہمی تصادم کے باعث آخر شدت پسند تتر بتر ہوگئے۔

بہت سے لیڈر پاکستانی قبائلی علاقوں سے متصل افغان صوبوں، ننگرہار، کنٹر، خوست اور پکتیکا میں جاچھپے۔ اسی دوران افغانستان میں بھی عراقی شدت پسند تنظیم، داعش کا ظہور ہوچکا تھا۔ چناں چہ بہت سے پاکستانی اور افغان طالبان داعش میں شامل ہوگئے۔داعش نے القاعدہ سمیت پاکستان اور افغانستان کے تمام شدت پسندوں سے مطالبہ کیا کہ اسے لیڈر تسلیم کرلیا جائے۔ افغان طالبان، القاعدہ اور تحریک پاکستان طالبان کی بعض تنظیموں نے یہ مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ لہٰذا دونوں ممالک میں متحارب تنظیموں کے مابین لڑائی چھڑگئی جو اب تک جاری ہے۔

2015ء سے چین، پاکستان اور روس قریب آنے لگے۔ سی پیک منصوبہ خصوصاً تکمیل کے بعد پاک چین دوستی مزید مضبوط کردے گا۔ جب امریکا نے اپنے دو اہم مخالفوں کو جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا میں پر پھیلاتے دیکھا، تو اس نے بھارت اور اپنی کٹھ پتلی افغان حکومت کو ساتھ ملا کر خصوصاً پاکستان کے خلاف ’’پراکسی وار‘‘ یا خفیہ جنگ چھیڑ دی۔

اس جنگ کا بنیادی مقصد پاکستان میں ابتری پیدا کرکے سی پیک منصوبے کو ناکام بنانا ہے۔ درج بالا پراکسی وار میں حال ہی میں اس لیے شدت آئی کہ بھارت اور افغان حکومت پاکستان دشمن تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے میں کامیاب رہیں۔ خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کی دو سب سے طاقتور تنظیموں، لشکر جھنگوی اور جماعت الاحرار کا اتحاد داعش سے کرادیا گیا۔ چناں چہ اب تینوں تنظیمیں مل کے پاکستان بھر میں سول و عسکری ٹارگٹوں پر حملے کر رہی ہیں۔ ان تنظیموں کو پاکستان دشمن ٹرائیکا سے بہ شکل نقدی، اسلحہ اور لاجسٹک سپورٹ خوب مدد ملتی ہے۔

پاکستان دشمن طاقتوں کا بخوبی مقابلہ کرنے کی خاطر پاک فوج نے 22 فروری 2017ء کو ایک نئے ’’آپریشن ردالفساد‘‘ کا آغاز کردیا۔ آپریشن کا مقصد یہ ہے کہ اندرون و بیرون ملک سے بچے کھچے شدت پسندوں اور دہشت گردوں کا صفایا کردیا جائے۔ آپریشن میں پاک فوج کے علاوہ فضائیہ، بحریہ، رینجرز، پولیس اور دیگر سکیورٹی فورسز کے جوان بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے۔ امید ہے کہ اس آپریشن کے ذریعے پاکستان دشمن قوتوں کی کمر توڑ دی جائے گی تاکہ وہ وطن عزیز کے لیے خطرہ ثابت نہ ہوسکیں۔ بقول شاعر

نفرتوں کے دروازے خود پے بند رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سربلند ہی رکھنا
یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے
یہ چمن تمہارا ہے، تم ہو نغمہ خواں اس کے

نظریاتی آپریشن بھی ہونا چاہیے
آپریشن ردوالفساد سے یقیناً شدت پسندوں کا قلع قمع کرنے میں مدد ملے گی، لیکن ضروری ہے کہ اس ’’نظریے‘‘ کو بھی نشانہ بنایا جائے جس کے بطن سے پاکستان اور افغانستان ہی نہیں عالم اسلام کے دیگر ممالک میں بھی شدت پسند جنم لیتے ہیں۔ وطن عزیز میں خصوصاً یہ وقت کی ضرورت ہے کہ شدت پسندوں کے نظریات کے خلاف بھی افواج اور شہری مل کر ایک جامع اور بھر پور آپریشن شروع کریں۔

ان نظریات کے خاتمے سے شدت پسندی بھی اپنی موت آپ مرجائے گی۔عالم اسلام میں شدت پسندی ان ملکوں میں زیادہ ہے جہاں جہالت و غربت کا دور دورہ ہے۔ پاکستان و افغانستان ہی کو لیجیے۔ دونوں ممالک میں بمشکل 20 تا 30 فیصد باشندے ہی صحیح معنوں میں تعلیم یافتہ اور باشعور کہلائے جا سکتے ہیں۔ خصوصاً دیہات میں مقیم 60 تا 70 فیصد آبادی کی اکثریت ناخواندہ ہے۔ شدت پسند اپنے مفادات کی خاطر اسلامی تعلیمات توڑ مروڑ کر ناخواندہ نوجوانوں کے سامنے رکھتے اور انہیں اپنا حامی بنالیتے ہیں۔ بعض اوقات تنخواہ کا لالچ بھی بیروزگار نوجوانوں کو شدت پسند تنظیموں کا حصہ بنا ڈیتا ہے۔

عالم اسلام کے سبھی شدت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ وہ اسلامی حکومت قائم کرنے کی خاطر جہاد کر رہے ہیں۔ اس حکومت میں عدل و انصاف کا دور دورہ ہوگا اور قانون کی حکمرانی ہوگی۔ یقیناً سبھی مسلمان تو کیا ہر انسان ایسی فلاحی حکومت میں آباد ہونا پسند کرے گا۔ لیکن حالات اور واقعات شاہد ہیں کہ جب بھی شدت پسندوں کو اقتدار ملا، تو ان کا طرز عمل اسلامی تعلیمات اور خلافت راشدہ سے بالکل مختلف رہا۔مثال کے طور پر داعش نے عراق اور شام میں حکومت قائم کی تو وہ ان غیر مسلموں اور مختلف روحانی نظریات کے حامل گرہوں کو نشانہ بنانے لگی جو مسلمانوں سے برسرپیکار نہیں تھے۔

یہ عمل اسلامی جنگی اصولوں کے عین الٹ ہے۔ یہی نہیں، انہوں نے بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل کیا، نیز مخالفین آگ میں جھونک ڈالے۔ قرآن و حدیث میں ایسے اعمال کی ممانعت آئی ہے۔ تاہم قائدین داعش نے انتہا پسند فقہا کے اقوال و احکام کو قرآن و سنت پر ترجیح دے ڈالی۔اسی طرح قرآن پاک میں صریح طور پر خودکشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لیکن آج خودکش حملے شدت پسندوں کا اہم ہتھیار بن چکا۔ شدت پسندوں کی نظریاتی دلیل یہ ہے کہ صحابہؓ بھی جنگ میں اپنی جانیں دیا کرتے تھے۔ مگر آج کے شدت پسندوں اور صحابہ کرامؓؓ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

صحابہ کرامؓؓ میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرتے  بہادری سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ یہ دلیری واستقامت کا بلند ترین درجہ ہے۔ مگر شدت پسندخودکش حملہ آور چوروں کی طرح چھپتا چھپاتا آتا ہے اور بے گناہوں کو مار ڈالتا ہے۔ یہ کوئی دلیری نہیں بلکہ سراسر ظلم و جہالت ہے۔مزید براں صحابہ کرامؓ نے تمام جنگیں اس لیے لڑیں تاکہ حق و انصاف کا بول بالا ہوسکے اوردنیا میں امن و امان قائم ہو۔ اسلام میں صرف اسی نقطہ نگاہ سے جنگ کرنے کی اجازت ہے ۔ مگر آج شدت پسندوں کی جنگ نے اکثر اسلامی ممالک میں فساد برپا کررکھا ہے۔ قرآن و سنت کی رو سے ایسی جنگ ’’فتنہ‘‘ کہلاتی ہے۔یہی وجہ ہے، یہ جنگ امت مسلمہ کا اتحاد پارہ پارہ کرکے اسے بہت کمزور کرچکی۔یہ ستم کیا کم ہے کہ ان کی سرگرمیوں سے مقبوضہ کشمیر، فلسطین اور دیگر مقبوضہ اسلامی علاقوں میں حقیقی جہاد پس منظرمیں جا چکا ہے۔

یہ شدت پسند تلوار کے زور پر سبھی غیر مسلموں کو مسلمان بنا لینا چاہتے ہیں۔ ان جہلا کو علم نہیں کہ یوں وہ ہمارے دین پر مغربی دانشوروں کے اس سب سے بڑے الزام کی توثیق کرڈالتے ہیں کہ دنیا میں اسلام تلوار کے بل پر پھیلا۔ حالانکہ یہ بالکل غلط بات ہے۔ شدت پسندوں میں تمام غیر مسلموں کو  بزور مسلمان بنالینے کا نظریہ اس لیے پھیل گیا کہ وہ سیاق و سباق کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر آیات قرآنی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ یہ غلطی تمام شدت پسندوں کو گمراہ کردیتی ہے۔ ایسے حالات دیکھتے ہوئے پاکستان کے علماء و فضلا کا فرض ہے کہ وہ عوام و خواص میں حقیقی اسلامی تعلیمات کی تبلیغ کریں جو دنیا میں جنگ اور فساد ختم کرکے امن و شانتی قائم کرنا چاہتی ہیں۔

اسلامی تعلیمات کی آگاہی سے خصوصاً ناخواندہ مسلم نوجوان مفاد پرست شدت پسندوں کے زہریلے نظریات کے جال سے بچ سکیں گے۔دور جدید کے سبھی شدت پسند لیڈر سمجھتے ہیں کہ اقتدار سنبھال کر وہ عالم اسلام کو تمام مسائل سے نجات دلا دیں گے۔ ایک عام مسلمان بھی اُمت کو ترقی کرتا اور خوشحال ہوتا دیکھنے کا خواہش مند ہے۔ لیکن شدت پسندوں نے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے جو راہ اپنائی، وہ الٹا عالم اسلام کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہے۔ اب یہ شدت پسند فسادی و فتنہ بن چکے ہیں اور  اسلام دشمن طاقتوں کے آلہ کار کا کردار ادا کررہے ہیں۔

The post آپریشن اسٹورم سے آپریشن ردالفساد تک appeared first on ایکسپریس اردو.

روشن راستہ

$
0
0

مراقبے کے اثرات
(گذشتہ سے پیوستہ)
گذشتہ ہفتے شائع ہونے والے محمد خاور (کراچی) کے استفسار بعنوان ’’مراقبہ کیا ہے؟‘‘ پر مزید چند معروضات:

سائنس دانوں کے تحقیقی نتائج کے مطابق مراقبہ نہ صرف ذہنی سکون اور یکسوئی حاصل کرنے کے لیے بہت مفید ہے بل کہ یہ صحت اور حسن کا محافظ بھی ہے۔ یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ پابندی سے اور ٹھیک طریقے سے مراقبہ کرنے والوں میں کشش بہت بڑھ جاتی ہے۔

مراقبہ کرنے والے نوجوانوں میں قوتِ عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ چالیس سال سے زیادہ عمر کے افراد میں بڑھتی عمر (Ageing) کے اثرات بہت سست (Slow) ہوجاتے ہیں اور وہ دیر تک جوان رہتے ہیں۔ مختلف تعلیمی و تحقیقی اداروں میں ہونے والی ریسرچ سے واضح ہوا ہے کہ مراقبہ کا عمل انسانی دماغ کے کئی حصوں میں مختلف تبدیلیوں کا ذریعہ بنتا ہے۔

مراقبے کی وجہ سے دماغ کے بعض حصوں کی تحریکات بڑھ جاتی ہیں اور بعض کی مدہم پڑ جاتی ہیں۔ دماغ کے جن حصوں کا تعلق سیکھنے، سمجھنے، ذہانت اور بصیرت جیسے معاملات سے ہے۔ ان کی تحریکات مراقبے کے دوران بڑھ جاتی ہیں۔ جن حصوں کا تعلق بعض منفی کیفیات سے ہے ان حصوں کی حرکات میں دورانِ مراقبہ کمی نوٹ کی گئی ہے۔ ایک خاص بات یہ نوٹ کی گئی کہ مراقبہ کی وجہ سے غصہ، جذباتی ہیجان جیسے منفی جذبات میں کمی آئی۔ ان تحقیقی نتائج سے اس امر کی تصدیق ہوئی کہ جذبات پر کنٹرول (Emotional Control) کے لیے مراقبہ ایک بہت مفید و موثر ایکسرسائز ہے۔

مراقبے کی وجہ سے بیماریوں کے خلاف جسم کے مدافعتی نظام (Immune System) کو تقویت ملتی ہے۔ مراقبہ سے جلد کی حساسیت (Skin Sensitivity) میں کمی بھی نوٹ کی گئی ہے۔ مراقبے سے آدمی کی تخلیقی صلاحیت (Creativity)بھی بیدار ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ وجدان (Intuition)کی صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں۔ (جاری ہے)

کاروبار میں گھاٹا
سوال: پچھلے چند ماہ سے کاروبار میں فائدے کے بجائے مسلسل خسارہ ہورہا ہے۔ دن بہ دن قرض میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ گھر والوں کی بنیادی ضروریات مسلسل ٹالتے رہنے کی وجہ سے اب تو گھر والے بھی چڑچڑے ہونے لگے ہیں۔
(شرجیل: کراچی)
جواب: رات سونے سے پہلے303 مرتبہ اسمِ الٰہی یا فتاح، گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہوئے بات کیے بغیر سوجائیں۔ جب آپ کا مقصد پورا ہوجائے تو گھر میں میلادشریف کروائیں اور بچوں میں شیرینی تقسیم کردیں۔ ہر جمعرات تین مستحق افراد کو کھانا کھلائیں۔

نظامِ ہضم کی خرابی
سوال: میرے پیٹ میں سے اکثر گُڑگُڑ کی آوازیں آتی ہیں۔ پیٹ میں کبھی ہوا بھر ی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور کبھی پیٹ سخت ہوجاتا ہے۔ ڈاکٹر کے کہنے پر کچھ بلڈ ٹیسٹ کروائے ہیں جن کی رپورٹ نارمل آئی ہیں۔
(خالد۔ سرگودھا)
جواب: زرد شعاعوں میں تیار کردہ پانی (Yellow Charged Water) ایک ایک پیالی دوپہر اور رات کھانے سے پہلے پییں۔ کھانوں میں گھی، گائے کے گوشت، مرغن اور دیرہضم اشیاء سے چند ہفتوں تک پرہیز کریں۔ دوپہر اور رات کھانے کے بعد آدھی آدھی چمچی یونانی مرکب جوارش کمونی لیں۔

پیروں کی بدبو
سوال: پیروں سے ہر وقت پسینہ بہتا رہتا ہے۔ چاہے سردی ہو یا گرمی۔ گھر میں جب جوتے، موزے اتارتا ہوں تو پورے کمرے میں بدبو پھیل جاتی ہے۔ امّی مجھے ڈانٹتی ہیں کہ تم پیروں کو اچھی طرح نہیں دھوتے ہو۔ میں نے تو پیروں پر پرفیوم تک لگا کر دیکھ لیا کوئی فرق نہیں پڑا۔
(م۔ ک: لاہور)
جواب: آپ کے معدے کا نظام درست کام نہیں کررہا ہے۔ کچھ عرصے کے لئے ہر قسم کے گوشت کا استعمال بالکل ترک کردیں۔ پتوں والی ترکاریاں زیادہ سے زیادہ کھائیں نہار منہ ایک گلاس نیم گرم پانی پی لیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ قبض نہ ہونے پائے۔ مرغن غذا استعمال نہ کریں۔ اس غذائی احتیاط کے ساتھ سبز شعاعوں سے تیار کردہ پانی صبح شام اور زرد شعاعوں سے تیار کردہ پانی روزانہ کھانا کھانے سے قبل آدھی آدھی پیالی استعمال کیجیے۔ پانی تیار کرنے کا طریقہ یہ ہے کسی پکے شیشے یا سخت پلاسٹک کی کوئی بے رنگ بوتل لے کر پانی سے اچھی طرح دھو کر اس پر مطلوبہ رنگ کا سیلوفین پیپر چڑھالیں اس سیلوفین پیپر لگی بوتل میں پینے کا پانی ( بہتر ہے کہ تقریباً دس منٹ تک ا بال کر ٹھنڈا کر لیا گیا ہو) بھر کر دھوپ میں رکھ دیں۔ دو سے ڈھائی گھنٹہ تک بوتل کو دھوپ میں رکھا رہنے دیں اس کے بعد اس پانی کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔

شوہر خرچہ نہیں دیتے
سوال: خاوند پوری تنخواہ اپنی بڑی بہن کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہیں۔ مجھے ایک پیسہ بھی نہیں دیتے۔ کہتے ہیں بہن نے مجھے ماں بن کر پالا ہے۔ میں کھاتے پیتے گھر سے یہاں آئی ہوں مگر یہاں آنے کے بعد سلائی کڑھائی کرکے گزارہ کرتی ہوں۔ میرا تو اس گھر پر کوئی اختیار ہی نہیں ہے۔ نہ میں میکے جاسکتی ہوں نہ ماں باپ بھائی بہن مجھ سے ملنے آسکتے ہیں۔ سختیاں برداشت کرتے کرتے برسوں گزر گئے ہیں لیکن اب صبر نہیں ہوتا۔
(نام نہیں لکھا)
جواب: رات سونے سے پہلے 101مرتبہ اسمِ الٰہی یا عزیز، گیارہ گیارہ مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کریں۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز یا نوے روز تک جاری رکھیں۔

گھر لڑائی کا میدان
سوال: میں نے جب سے ہوش سنبھالا اپنے والدین کو لڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ ہم چار بہنیں دو بھائی ہیں۔ دونوں بھائی پڑھائی کے چور اور باتوں کے شیر ہیں۔ زیادہ تر وقت محلے کے لوگوں کے ساتھ فضول گھومنے میں صرف کرتے ہیں۔ بہنوں پر شک کرنا اور ان پر پابندیاں لگانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ والد صاحب نے بیٹوں کی پڑھائی اور ان کے روزمرہ معمولات کا کبھی بغور جائزہ نہیں لیا۔ وہ کہتے ہیں کہ لڑکے ہیں خود ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہوجائیں گے۔ میرے والد صاحب شاید ان لوگوں میں سے ہیں جو لڑکوں کو اپنی شان اور بیٹیوں کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ ماں باپ کی عدم توجہی اور ان کی جھڑکیاں سن سن کر ایک بہن نفسیاتی مریضہ بن گئی ہے۔ صرف ہماری باجی ہیں جو نہ صرف یہ کہ پڑھائی میں اچھی رہیں بلکہ اب کپڑے سی کر اپنے اور ہمارے لیے کچھ پیسے بھی کما رہی ہیں۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے والدین میں باہم حسن سلوک ہو وہ کم از کم بچوں کے سامنے تو آپس میں نہ لڑیں اور اولاد کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پوری کریں۔
(شبانہ۔ کراچی)
جواب: رات سونے سے پہلے سورہ احزاب (33) کی آیات 70-71، گیارہ گیارہ مرتبہ درود شریف کے ساتھ پڑھ کر اپنے والدین کا تصور کرکے دم کردیں اور دعا کریں کہ انہیں اپنی اصلاح کی توفیق ملے۔ یہ عمل کم از کم چالیس روز تک جاری رکھیں۔

شوہر مارتے پیٹتے ہیں
سوال: میری شادی آٹھ برس قبل ماموں کے رشتے داروں میں ہوئی تھی۔ میرے شوہر اپنے بچپن سے ہی لندن میں رہتے ہیں اور شادی کے بعد میں بھی یہیں شفٹ ہوگئی ہوں۔ ویسے تو مجھے زندگی کی ہر آسائش میسر ہے۔ کھانے پینے پہنے کے لیے اچھے سے اچھا میسر ہے۔ اﷲ نے صحت مند اولاد بھی دی ہے۔ شوہر کی طرف سے بھی کسی قسم کی پابندی نہیں ہے۔ لیکن شوہر کا مزاج ایسا ہے کہ وہ کسی بھی معمولی اور غیراہم بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور گالم گلوچ کے ساتھ ساتھ مارنے پیٹنے پر اتر آتے ہیں۔ یہ خیال نہیں کرتے کہ بچے بھی یہ تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ویسے تو یہ لوگوں سے انتہائی اخلاق سے ملتے ہیں ہر ایک کی عزت کرتے ہیں لیکن تمام خوبیوں کے باوجود ان کا منفی پہلو یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ ایسا غلط سلوک کرتے ہیں۔
(فرح علی۔ لندن، یوکے)
جواب: روزانہ رات کو سوتے وقت لیٹے لیٹے دل ہی دل میں یاممیت پڑھتے پڑھتے سوجائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ صبح نہار منہ اکیس مرتبہ اسمِ الٰہی یا ودود تین تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر پانی یا چائے پر دم کرکے اپنے شوہر کو پلادیں۔ یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔

اچھے نمبروں کی ضرورت ہے
سوال: میں سیکنڈایئر کا طالب علم ہوں۔ انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے بہت اچھے نمبروں کی ضرورت ہے لیکن میرا حال یہ ہے کہ پڑھائی میں بالکل دل نہیں لگتا۔ اگرچہ بڑے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھنے بیٹھتا ہوں، لیکن دوران مطالعہ یکسوئی نہیں ہوتی ذہن کتاب کی باتوں پر مرکوز رہنے کی بجائے ادھر ادھر کے خیالات آتے رہتے ہیں۔
(سعد: ایبٹ آباد)
جواب: ذہنی یکسوئی، حافظہ تیز کرنے اور پڑھی ہوئی باتوں کو دیر تک ذہن نشین رکھنے کے لیے آپ صبح کے وقت مغرب کی جانب اور شام کو یعنی عصر کے بعد مشرق کی جانب پانچ یا سات منٹ تک آرام دہ نشست میں بیٹھ کر آسمان کی طرف دیکھا کریں۔ اس دوران اﷲ تعالیٰ کا اسم ’’یا علیم‘‘ دل ہی دل میں پڑھتے رہیں۔ صبح شام ایک ٹیبل اسپون شہد پر اکیس مرتبہ ’’رب زدنی علماً‘‘ پڑھ کر پییں۔ یہ عمل کم از کم ایک ماہ تک جاری رکھیں۔

سگریٹ کیسے چھوڑوں
سوال: میں کالج میں پڑھتا تھا جب چند برے لڑکوں کے کہنے میں آکر سگریٹ پینا شروع کی کچھ عرصے تک تو کالج کے اوقات میں ان لڑکوں کے ساتھ ہی تین، چار سگریٹ پیتا تھا۔ رفتہ رفتہ اس تعداد میں اضافہ ہونے لگا اور میں نے محلے اور گھر میں بھی سگریٹ پینا شروع کردی۔ اس لت کو لگے ہوئے بارہ سال ہوگئے ہیں اور اب میری صحت پر اس کے منفی اثرات ظاہر ہونے لگے ہیں۔ میں دو مرتبہ پھیپھڑوں کے شدید انفیکشن میں مبتلا رہ چکا ہوں۔ بیماری کے دنوں میں سگریٹ نہیں پی لیکن کچھ عرصے بعد پھر شروع کردی۔ میری بیوی بھی میری اس عادت کو سخت ناپسند کرتی ہے۔ دفتر میں بھی سگریٹ نہ پینے والے زیادہ ہیں۔ ہماری سگریٹ نوشی سے بعض اوقات دفتر میں بھی تلخ اور ناخوش گوار صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ اپنی اور دوسروں کی صحت کی خاطر میں سگریٹ چھوڑنا چاہتا ہوں لیکن کئی بار کوشش کے باوجود چھوڑ نہیں پاتا۔
(ع۔ س: لاہور)
جواب: صرف سگریٹ ہی نہیں کسی بھی چیز کی عادت پڑجائے تو اسے ترک کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ عادتیں فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں۔ مسئلہ جسم میں پیدا ہونے والی سگریٹ کی طلب کو رد کرنے کا نہیں بل کہ نفس کی طلب اور لذت کوشی کو رد کرنے کا ہے۔ اس کام کے لیے اپنی ذات پر بھرپور اعتماد اور فکری پختگی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ صبح اٹھ کر ضروریات سے فارغ ہوکر وضو کرلیں سارا دن باوضو رہیں لیکن وضو قائم رکھنے کے لیے اپنی طبعیت پر جبر نہ کریں۔ اگر وضو ٹوٹ جائے تو دوبارہ کرلیں۔ چلتے پھرتے کثرت سے یا حی یاقیوم کا ورد کرتے رہیں۔ دن میں کئی بار سونف، خوب اچھی طرح چبا کر کھائیں۔ سرخ شعاعوں سے تیار کردہ پانی صبح شام آدھی آدھی پیالی پییں، جس روز سے یہ عمل شروع کریں اس روز سے ایک بھی سگریٹ اپنے پاس نہ رکھیں۔

بار بار ہاتھ دھونا
سوال: شادی کو آٹھ سال ہوئے ہیں۔ تین بچے ہیں۔ چھوٹا بچہ سوا سال کا ہے۔ اس بچے کی پیدائش کے دو ماہ بعد میری اہلیہ عجیب و غریب کیفیات میں مبتلا رہنے لگی ہیں۔ شروع شروع میں اس خیال سے کہ بچہ کو کہیں جراثیم نہ لگ جائیں وہ بچے کے کپڑے دھوکر ایک بڑے پتیلے میں پانی میں ڈال کر دیر تک پانی ابالا کرتی تھیں۔ اس کے بعد انہیں یہ محسوس ہونے لگا کہ ان کے ہاتھ پیروں پر گندے پانی کی چھینٹیں پڑ گئی ہیں لہٰذا انہوں نے بار بار ہاتھ پیر دھونے شروع کردیے۔ پھر انہیں یہ خیال ستانے لگا کہ بستر یا گدے پر بچہ کے پیشاب کی وجہ سے وہ ناپاک ہوگئی ہیں۔ اس پر وہ بار بار غسل کرنے لگیں، اب حالت یہ ہے کہ ناپاکی کا خیال ان کے ذہن سے بری طرح چمٹا ہوا ہے۔ نہانے میں دو سے ڈھائی گھنٹے لگا دینا عام سی بات ہوگئی ہے۔ اس کے بعد بھی وہ مطمئن نظر نہیں آتیں۔ اکثر وہ خود سے باتیں بھی کرنے لگتی ہیں۔
(عدنان: ملتان)
جواب: صبح شام اکیس مرتبہ اﷲ لا الہ ہو الحی القیوم اول آخر تین تین مرتبہ درودشریف کے ساتھ پڑھ کر نیلی شعاعوں میں تیار کردہ پانی پر دم کرکے پلائیں۔ آپ کی اہلیہ چلتے پھرتے وضو بے وضو کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کریں اور رات سونے سے قبل 101 بار درود شریف پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلیا کریں۔ کھانوں میں میٹھی چیزیں زیادہ استعمال کریں۔ نمک کم اور کھٹی اشیاء مثلاً اچار وغیرہ بالکل استعمال نہ کریں۔ اس کے علاوہ دن میں دو تین بار ایک ایک چمچہ خالص شہد لیں۔

وزن نہیں بڑھتا
سوال: میری عمر چوبیس سال ہے لیکن میرا جسم تیرہ چودہ سال کے لڑکوں کی طرح ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میرا وزن بڑھ جائے۔ الحمد اﷲ مجھے کوئی تکلیف یا مرض نہیں ہے۔ میں ہلکی پھلکی ورزش بھی کرتا ہوں لیکن میرا وزن نہیں بڑھتا۔
(ف۔ ج: حیدرآباد)
جواب: رات سونے سے آدھا گھنٹہ پہلے چار عدد کیلے کھا کر اوپر سے ایک گلاس دودھ پی لیں۔ اس بات کا خیال رہے کہ دودھ گرم نہ ہو بل کہ روم ٹمپریچر کے مطابق ہو۔ سرخ شعاعوں میں تیار کردہ پانی آدھی آدھی پیالی صبح شام پییں۔ یونانی مرکب شربت جگر دو دو ٹیبل اسپون دوپہر اور رات کھانے سے پہلے پییں۔

خط بھیجنے کے لیے پتا ہے۔
’’روشن راستہ‘‘ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی
پی او بکس 2213 ،کراچی۔74600
ای میل: dr.waqarazeemi@gmail.com
فون نمبر: 021-36685469

The post روشن راستہ appeared first on ایکسپریس اردو.


پرنسس بامبا سدھر لینڈ

$
0
0

پرنسس بامبا سکھ سرکار کی پنجاب پر حکومت کے حوالے سے ایک انتہائی اہم خاتون ہیں۔ وہ رنجیت سنگھ کے خاندان کی آخری خاتون تھیں جن کا پنجاب اور خصوصاً لاہور سے گہرا تعلق رہا۔

رنجیت سنگھ کی وفات کے بعداس کی اولاد آپسی جھگڑوں اور خون خرابے میں مصروف رہی۔ خوش قسمتی سے رنجیت سنگھ کا سب سے چھوٹا بیٹا دلیپ سنگھ اس کشت وخون سے بچا رہا۔ دلیپ سنگھ کی پیدائش 6 ستمبر 1838ء کو رانی جنداں کے گھر ہوئی۔

ایک دوسری روایت کے مطابق اس کی پیدائش 4 ستمبر1838ء کو قلعہ لاہور میں ہوئی۔ مغل شہزادے خرم کے بعد کسی بھی دوسرے شہزادے کا جنم تھا۔ وہ محض نو ماہ کا تھا جب رنجیت سنگھ کاانتقال ہوا۔ 1843ء میں دلیپ سنگھ محض پانچ برس کا تھا جب اس کو سکھوں کی خانہ جنگی کے بعد تخت لاہور پر بٹھایا گیا۔اس کے ماموں جواہر سنگھ کو وزیراعظم بنا دیا گیا اور اصل حکومت رانی جنداں ہی کے ہاتھ میں رہی۔ 1849ء تک انگریز مکمل طور پر پنجاب پر قابض ہو چکے تھے۔

رانی جنداں کو پہلے شیخوپورہ قلعہ اور بعد میں کانشی بجھوا دیا گیا اور دلیپ سنگھ کو سرکاری طور پر جان سپینر لوگن کے حوالے کر دیا گیا۔انگریز سرکار نے نوجوان سکھ شہزادے کو اپنے لئے خطرہ جانتے ہوئے 19فروری 1850ء کو لاہور سے فتح گڑھ منتقل کر دیا جو کہ اس وقت ایک فوجی کیمپ تھا۔ اس دن کے بعد دلیپ سنگھ کو کبھی بھی دوبارہ لاہور آنے کی اجازت نہ ملی۔ جان سپینر لوگن اور اس کی بیوی لینا لوگن کے زیر اثر دلیپ سنگھ عیسائیت کی جانب اتنا مائل ہوا کہ 8 مارچ 1953ء کو دلیپ سنگھ نے مسیحیت کو اختیار کر لیا۔ رانی جنداں قلعہ چنار سے روپ بدل کر نیپال چلی گئی جہاں اس وقت کے بادشاہ نے اس کی بہت عزت کی اور ایک ہزار روپے مہینہ پنشن مقرر کی۔

دوسری جانب 19اپریل 1854ء کو دلیپ سنگھ لندن روانہ ہوا ۔ وہاں وہ ملکہ انگلستان کا نورنظر ٹھہرا اور اپنے شاہی اخراجات کے باعث بلیک پرنس کے نام سے معروف رہا۔ اس دوران اس کی اپنی ماں رانی جنداں سے خفیہ خط و کتابت بھی جاری رہی۔ رانی جنداں رو رو کر اندھی ہو چکی تھی۔ اس سے دلیپ سنگھ کی ملاقات چودہ برس کے بعد 16جنوری 1861ء کو کلکتہ کے Spence Hotel میں ہوئی۔ اس وقت بھی دلیپ سنگھ کو پنجاب آنے کی اجازت نہ دی گئی۔ اسی برس رانی جنداں نیپال سے انگلینڈ چلی گئی جہاں یکم اگست 1863ء کو اس کا انتقال ہو گیا۔

اس کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد استھیاں لندن کے Elueden چرچ میں دفنائی گئیں۔ کچھ استھیاں لاہور بجھوا دی گئیں اور رنجیت سنگھ کی سمادھ کے مغربی جانب ایک سمادھی میں دفن کی گئیں۔ عصر حاضر میں وہ نامکمل تعمیر ابھی بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ دلیپ سنگھ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی شادی بمبا نامی مصری لڑکی سے ہوئی اور دوسری شادی ایڈا نامی خاتون سے ہوئی۔ روایات میں دلیپ سنگھ کے آٹھ بچے بتلائے جاتے ہیں۔ جن میں سے چھ بچے اس کے حقیقی اور دو ایڈا کے پہلے سے تھے۔ حقیقی بچوں میں ایک شہزادہ پرنس البرٹ ایڈورڈ بچپن میں فوت ہو گیا تھا‘ بقیہ پانچ بچوں کی تفصیل کچھ یوں تھی، شہزادہ وکٹر‘ پرنس فریڈرک‘ پرنسس کیتھرائین ‘ پرنسس صوفیہ اور پرنسس بامبا سدھر لینڈ۔

دلیپ سنگھ کی موت بھی انتہائی عجیب و غریب حالت میں ہوئی۔ وہ پیرس کے ایک ہوٹل Hotel de la Tremouille میں بیماری کی حالت میں رہائش پذیر تھا جہاں بروز اتوار 22اکتوبر 1893ء کو اس کی پراسرار موت واقع ہوئی۔ اس کی موت کے سرٹیفکیٹ پر کوئی وجہ درج نہ تھی اور نہ ہی کوئی پوسٹ مارٹم کروایا گیا۔ایک امریکی اخبار نے یہ شہ سرخی دی “King died without country” تمام عمر ماں سے بچھڑے دلیپ سنگھ کو اس جگہ دفن کیا گیا جس کے قریب ہی اس کی ماں رانی جنداں کی استھیاں دفنائی گئی تھیں۔ اس کے پاس ہی اس کی بیوی بمبا اور بیٹے پرنس البرٹ ایڈورڈ کی قبریں تھیں۔

دلیپ سنگ کی اولاد میں سب سے زیادہ شہرت پرنسس صوفیہ کو ملی۔ جن کا جنگی زخمیوں اور بیماریوں کے خلاف نبردآزمائی میں قابل قدر کردار رہا۔ دوسرا نام پرنسس بامبا کا ہے۔ جن کی شہرت کا باعث ان کی لاہور اور پنجاب سے وابستگی تھی۔ بامبا کی پیدائش 29 ستمبر1869ء کو لندن میں ہوئی۔ بامبا کا زیادہ وقت آرتھر آئی فینٹ اور فولک سٹون کے زیر نگرانی گزرا۔ بامبا نے اپنی دونوں بہنوں پرنسس کیتھرائین اور پرنسس صوفیہ کے ساتھ ستمبر 1893ء کو یورپ کا پہلا سفر کیا۔ بامبا کو لاہور سے خاص طرح کی انسیت تھی۔

انہیں اس بات کا شدید دکھ تھا کہ ان کے والد دلیپ سنگھ سے نہ صرف پنجاب کی حکومت لے لی گئی بلکہ اسے د وبارہ لاہور آنے کی اجازت بھی نہ دی۔ 1907ء میں وہ پہلی بار ہندوستان آئیں اور اس کے بعد زندگی کا زیادہ عرصہ لاہور ہی میں گزرا۔ 1907ء کے پہلے دورے میں ان کی ملاقات لاہور میں سدھر لینڈ سے ہوئی جو اس وقت کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پتھالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے۔ سدھر لینڈ پیدائشی طور پر آسٹریلین تھے اور 1895ء میں ملکہ کے میڈیکل آفیسر کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی تھی۔ 1915ء میںانہیں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کا پرنسپل بنادیا گیا تھا۔

بامبا نے 1909ء میں سدھر لینڈ سے شادی کر لی اور انہیں بھی اپنی بہن پرنس کیتھرائین کی مانند انگریز سرکار سے دس ہزار پاؤنڈ کی رقم بطور جہیز ملی۔1924ء میں بامبا نے اپنے شوہر اور بہن شہزادی صوفیہ کے ساتھ ہندوستان کی ایک خصوصی سیر کی جس میں انہوںنے اپنی دادی رانی جنداں کی ناستک میں ادا ہوئی آخری رسومات والی جگہ کی بھی زیارت کی اور 17 مارچ 1924ء ہی کو رانی جنداں کی استھیاں ریاست کپور تھلہ کے تعاون کے ساتھ ان کے دادا رنجیت سنگھ کی سمادھی کے پاس دفنائی گئیں۔

بامبا کے بھائی پرنس فریڈرک کی موت 1926ء میں ہوئی۔ جس کی وفات کے بعد تینوں بہنوں کی سالانہ پنشن 681 پونڈ سالانہ سے بڑھا کر 1500پونڈ کر دی گئی۔ پرنسس بامبا نے تمام زندگی دو عشق کیے ایک لاہور کے ساتھ اور دوسرا عشق اپنے شوہر سدھرلینڈ کے ساتھ‘ سدھر لینڈ 19اپریل 1939ء میں انتقال کر گئے اس وقت بھی بامبا لاہور ہی میں تھیں۔ جبکہ سدھرلینڈ لندن میں تھے۔ اس تمام عرصہ میں بامبا کا ہندوستان آنا جانا لگا رہا۔ وہ اپنی بہن صوفیہ کی انسان دوست کاموں میں بھی اس کا کچھ ساتھ ضرور دیتی تھیں۔ لیکن اتنی بھرپور محنت نہ تھی جس طرح کہ پرنسس صوفیہ کی۔

روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ دلیپ سنگھ کی اپنی حقیقی اولاد میں سے آگے کوئی بھی بیٹا اور بیٹی صاحب اولاد نہ ہو سکے۔ 1942ء میں پرنسس کیتھرائن کی موت واقع ہو جاتی ہے جس کے بعد پرنسس بامبا نے لاہور کو اپنی مستقل رہائشگاہ بنا لیا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس طرح اپنے مرحوم باپ دلیپ سنگھ کی روح کو کسی طور پر سکون پہنچا سکے گی۔ لاہور میںانہوں نے 16جیل روڈ پر ایک کوٹھی کو اپنی رہائش گاہ بنایا۔ وہ عمارت اس وقت گلزار کے نام سے معروف تھی۔

1944ء میں انہوں نے ماڈل ٹاؤن لاہور میں رہائش اختیار کر لی۔ ان کے گھر کا نمبر A-104 تھا۔ اسی گھر میں وہ آخری سانس تک رہیں۔ وہ عمارت1944ء میں سات ہزار روپے میں خریدی گئی تھی۔ آج بھی یہ عمارت ان کے خاص ملازم پیر بخش کی اولاد کے زیراستعمال ہے۔

تقسیم کے ایک برس قبل 13جولائی 1946ء کو بامبا نے رنجیت سنگھ کی اولاد کا ایک حقیقی وارث ہونے کے ناطے اپنے ایک وکیل رگھبیر سنگھ ایڈووکیٹ فیڈرل کورٹ آف انڈیا کی وساطت سے اپنی پنجاب کی سلطنت کا مطالبہ کر تے ہوئے ایک خط یو این او کو بھجوایا لیکن اس خط کا کوئی بھی خاطر خواہ جواب نہ دیا گیا۔ تقسیم کے وقت پرنسس بامبا انگلینڈ، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے کا حق رکھتی تھیں۔ لیکن انہوں نے اپنے دادا کی سلطنت پنجاب کے دارالحکومت لاہور کو ہر چیز پر ترجیح دی۔ وہ لاہور میں رہ کر دلیپ سنگھ کی جائیداد اور دیگر معاملات کو دیکھتی رہیں۔ وہ لاہور میں اکثر اپنی گاڑی پر مال روڈ اور دوسرے علاقوں میں چلی جاتیں اور عہد رفتہ کی عمارات کو دیکھتی رہتی تھیں۔

بامبا نے ایک مرتبہ ایک سرکاری افسر سے گلہ کیا کہ میں اس بادشاہ کی پوتی ہوں جس کی ملکیت میں تمام پنجاب تھا اور مجھے بس میں الگ سے کوئی نشست بھی نہیں دی جاتی۔ بامبا کے آخری ایام انتہائی تکلیف دہ تھے وہ اپنی وفات سے دو برس قبل ہی کانوں سے بہری ہو چکی تھیں، آنکھوں سے خاص دکھائی بھی نہیں دیتا تھا اور فالج کے حملے کے باعث وہ اپنے دستخط بھی نہ کر سکتی تھیں۔

ان تمام حالات کی خبر شہزادی کے قریبی رشتہ داروں میں سے پریتم سنگھ کو مکمل طور پر تھی۔ 10 مارچ 1957ء کو بامبا انتقال کر گئیں اور ان کو عیسائی رسومات کی ادائیگی کے بعد قبرستان جیل روڈ میں دفنایا گیا۔ ان کی وصیت کے مطابق ان کی تمام جائیداد کا وارث ان کے خاص ملازم پیر کریم بخش کو ٹھہرایا گیا تھا۔

Peter Bance نے اپنی کتاب’’دلیپ سنگھ‘‘ میں تحریرکیا ہے کہ شہزادی کے سندھانوالیہ رشتے داروں نے اس وصیت کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ لندن میں بچی ہوئی دلیپ سنگھ کی وسیع و عریض جائیداد کا کوئی بھی وارث نہ بچا اور نہ ہی کسی نے اس کا مطالبہ کیا اور یوں وہ تمام جائیداد تاج برطانیہ کو منتقل ہو گئی۔ لندن میں موجود سکھ خاندان کے نوادرات وصیت کے مطابق پیر کریم بخش نے حکومت پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دائر کی۔ متعلقہ بنک نے انتہائی ایمانداری سے وہ خاندانی نوادرات ایک ہفتے میں لاہور بھجوا دیئے۔

ان نوادرات کو بامبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر کے ’’اورئینٹل میوزیم‘‘ کھولا گیا۔ 1962ء میں وہ نوادرات شاہی قلعہ لاہور میں منتقل کر دیئے گے۔ جن میں سے رنجیت سنگھ کی گھوڑی کا انتہائی قیمتی سامان 14اکتوبر 1996ء کو ’’سکھ گیلری‘‘ شاہی قلعہ لاہور سے چوری ہو گیا اور 2002ء میں اس کی انکوائری کو بھی داخل دفتر کر کے ختم کر دیا گیا۔

شہزادی بامبا کی قبر آج بھی گورا قبرستان جیل روڈ پردیکھی جا سکتی ہے۔ یہ قبرستان جیل روڈ شیر پائو برج سے کچھ فرلانگ پہلے سڑ ک کے بائیں جانب واقع ہے۔ یہ قبر قبرستان کے داخلی دروازے سے سیدھا کچھ فاصلے پر بائیں جانب ہے۔ اس کی پکی تعمیر سیکرٹری پیر کریم بخش نے کروائی تھی۔ اس کے گرد خستہ حالت میں ایک جنگلہ بھی موجود ہے۔ قبر پر فارسی اور انگریزی زبانوں میں تحریریں موجود ہیں۔اس قبرستان کے ملازمین کا رویہ بھی مقامی طالب علموں سے کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ وہ مقامی طالب علموں کو کوئی تصویر اتارنے کی اجازت نہیں دیتے۔ غیر ملکی افراد اور مسیحی افراد اس معاملے میں آزاد ہیں یا وہ افراد جو کوئی دوسرا طریقہ کار جانتے ہیں۔ کھوج اور تاریخ کے طالب علموں کے لئے یہ سماجی حوصلہ شکنی اپنے اندر کئی سوال لئے کھڑی ہے۔ پرنسس بامبا کی قبر کے کتبے پر درج ذیل تحریر رقم ہے۔

Here lies in eternal peace The Princess Bamba Sutherland Eldest Daughter of Maharajah Daleep Singh and Grand Daughter of Maharajah ranjit Singh of Lahore.Born on 29th September 1869 in London-Died on 10th March 1957 at Lahore.

فرق شاہی و بندگی برخاست
چوں قضائے نوشتہ آید پیش
گر کسے خاک مردہ باز کند
نہ شناسد تو نگراز درویش
قبر کی لوح پر درج ذیل تحریر ہے۔
آخری آرام گاہ
شہزادی بمبا صدر لینڈ
دختر کلاں مہاراجہ دلیپ سنگھ و پوتی مہاراجہ رنجیت سنگھ شیرپنجاب
ولادت 29 ستمبر1869ء درلنڈن
وفات10 مارچ 1957ء لاہور
آورد باضطر ایم اول بوجود
جز حیرتم از حیات چیزے نفرود
رفتیم باکراہ وندا نیم چہ بود
زین آمدن و بودن و رفتن مقصود
مھر توچہ دو صد وچہ سیعد و چہ ہزار
زیں کہنہ سرابرون برندت ناچار
گر بادشے و گرگردائے بازار
ایں ہر دو بیک نرخ بود آخر کار
اے واقف اسرار ضمیر ہرکس
در حالت عجز دستگیر ہمہ کس
یارب تو مرا توبہ وہ دعا پذیر
اے تو بہ دہ و عذر پذیر ہمہ کس
This monument is erected by her Secretary pir karim Bakhash supra.

The post پرنسس بامبا سدھر لینڈ appeared first on ایکسپریس اردو.

منفی خیالات سے چھٹکارا پائیے؛ قیمتی راز جو زندگی بدل سکتے ہیں

$
0
0

ایک سیانے کا قول ہے: ’’جب زندگی رونے پیٹنے کی سو وجوہ آپ کو دکھائے، تو اسے بتائیے کہ ہنسنے کی ایک ہزار وجوہ موجود ہیں۔‘‘

یہ خوبصورت قول ہمارے سامنے زندگی کا مثبت رخ پیش کرتا اور اُمید دلاتا ہے۔ زندگی ٹھوکریں کھا کر گرنے اور پھر سنبھلنے کا نام ہے۔ جو لوگ اپنی غلطیوں سے سبق لیتے ہیں، کامیابی عموماً انہی کے قدم چومتی ہے۔ مزید براں ایک تجربہ کار اور دانا استاد کی رہنمائی بھی نو آموز کے لیے فائدے مند ثابت ہوتی ہے۔ اکیاسی سالہ پرمود بترا ایک ایسے ہی استاد ہیں۔

پرمود بترا 1936ء میں سرگودھا میں پیدا ہوئے۔جب ہندوستان تقسیم ہوا، تو مع والدین بھارت چلے گئے۔ انہوں نے دہلی یونیورسٹی سے ایم بی اے اور مینیسوٹا یونیورسٹی (امریکا) سے ڈی لٹ کیا۔ وہ پھر 1996ء تک ایک نامور کمپنی میں اعلیٰ عہدوں پر کام کرتے رہے۔ریٹائر ہونے کے بعد وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے بلکہ فیصلہ کیا کہ زندگی کے اپنے تلخ و شیریں تجربات سے فائدہ اٹھا کر دوسروں کی رہنمائی کریں گے۔

اس ضمن میں انہوں نے قلم کا سہارا لیا اور کردار سازی و تعمیر شخصیت سے متعلق کتابیں لکھ کرمایوس، ناکام اور نامراد لوگوں کو کامیابی و ترقی کا راستہ دکھانے لگے۔ بترا صاحب بھارت کے علاوہ بیرون ممالک بھی لیکچر دیتے اور مردو زن میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ، عزم اور ہمت ابھارتے ہیں۔ ان کی کتابوں سے امید افزا اور زندگی بدل دینے والے مثبت واقعات و اقوال درج ذیل ہیں۔

سوچ محدود نہ کیجیے
ایک مرغی کافی دیر تک شیشے کی دیوار کی دوسری سمت پڑے دانوں کو تاسف بھری نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ کبھی کبھی بے مقصد زمین پر ٹھونگ مار دیتی۔ مگر احمق مرغی اپنی محدود سوچ کے دائرے میں مقید رہی۔ اگر وہ محض ایک فٹ دیوار کے ساتھ ساتھ چلتی، تو وہ ختم ہوجاتی۔ تب مرغی دانوں تک پہنچ سکتی تھی۔اس واقعے کا سبق یہ ہے کہ انسان کبھی اپنی سوچ محدود نہ کرے۔ یوں اس کے خیالات بند گلی میں قید ہوجاتے ہیں۔ فکر کو وسعت دے کر ہی انسان اپنے مقاصد پاسکتا ہے۔

گاہک کی پسند
ایک کمپنی جانوروں کی خوراک بناتی تھی۔ ایک دن نئی مصنوعات کے سلسلے میں میٹنگ ہوئی جس میں کمپنی کے تمام اعلیٰ افسر شریک تھے۔ ہر افسر مشورے و تجاویز دے رہا تھا۔ اچانک مالک کمپنی کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے کمرے میں کھڑے چپڑاسی سے پوچھا ’’تم بتاؤ جانور کیسی خوراک پسند کرتے ہیں؟‘‘

چپڑاسی مسکرا کر بولا ’’جناب! میں کتا بلی تو نہیں کی اپنی پسند بتا سکوں۔ ایسا کیجیے کہ چند جانور حاصل کریں اور پھر ان کے سامنے اپنی مصنوعات رکھیے۔ معلوم ہوجائے گا کہ وہ کیسی خوراک پسند کرتے ہیں۔‘‘

مالک کمپنی کو یہ مشورہ بہت پسند آیا اور وہ کارگر بھی ثابت ہوا۔یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ گاہکوں کی ضروریات اور پسند مدنظر رکھ کر ہی ہر کمپنی اپنی مصنوعات تیار کرے۔ تبھی اس کی ایک نئی مصنوعہ کامیاب ہوسکتی ہے۔ کمپنی کے مالکان نے اپنی پسند ناپسند سامنے رکھ کر کوئی مصنوعہ تیار کی، تو اس کا کامیاب ہونا محال ہے۔

اب کیا کروں؟
ایک بوڑھا چینی اپنے گاؤں سے دوسرے گاؤں جارہا تھا۔ اس نے کاندھے پر ایک لکڑی جما رکھی تھی جس سے یخنی سے بھرا ایک برتن لٹک رہا تھا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ چلتے چلتے کسان کو ٹھوکر لگی، تو برتن نیچے گرا اور ٹوٹ گیا۔ کسان نے لحظہ بھر رک کر اسے دیکھا پھر اپنے قدم اٹھاتا آگے چل پڑا۔اتفاق سے وہاں کھڑا ایک آدمی یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگتا ہوا کسان کے پاس گیا اور پوچھا ’’بزرگو! آپ کا برتن ٹوٹ گیا اور ساری یخنی ضائع ہوگئی۔ آپ کو افسوس نہیں ہوا؟‘‘

بوڑھے کسان نے سکون سے کہا ’’ہاں، بیٹا، میں جانتا ہوں۔ مگر اب میں کیا کروں؟‘‘
وہ آدمی یہ سن اپنا سر ہلا کر رہ گیا۔یہ واقعہ ہمیں سبق دیتا ہے کہ جو نقصان ہوچکا، اس پر رونے کڑھنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ غم و افسوس کرنے سے الٹا صحت کو نقصان پہنچتا ہے۔ لہٰذا اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں سے سبق سیکھیے اور کوشش کیجیے کہ وہ مستقبل میں ظہور پذیر نہ ہوں۔ غلطیاں ہر انسان سے سرزد ہوتی ہیں، مگر جو لوگ ان پر ماتم کرنے لگیں، وہ اپنا وقت اور توانائی ہی ضائع کرتے ہیں۔

دماغ سلامت رکھیے
ایک دفعہ میں جاپان دورے پر گیا۔ وہاں میری ملاقات دونوں ٹانگوں سے معذور ایک امریکی سے ہوئی۔ معذوری کے باوجود وہ وہیل چیئر پر بیٹھا دنیا کی سیر کرنے نکلا ہوا تھا۔ اس کی بہادری اور عزم نے مجھے بہت متاثر کیا۔ میں نے اس معذور سے پوچھا ’’وہ کون سی بات ہے جس نے آپ کو بہادر اور دلیر بنادیا؟‘‘

معذور مسکرایا اور بولا ’’دوست! میں ٹانگوں سے معذور ہوں، مگر میرا دماغ تو سلامت ہے۔‘‘
سچ یہ ہے کہ جو انسان اپنے دماغ سے کام لے، وہ معذور ہوتیم ہوئے بھی کارہائے نمایاں انجام دے سکتا ہے۔ صرف مشین ہی ناکارہ نہیں ہوتی، دماغ کو بھی خراب ہونے سے بچانا چاہیے۔

تیرنے کی بنیادی شرط
ایک ملاح دریا میں کشتی چلاتا تھا۔ وہ ایک کنارے سے مسافروں کو دوسرے کنارے تک لے جاتا اور اپنی فیس کھری کرتا۔ کسی نے اس سے پوچھا: ’’تم دن میں کتنے چکر لگالیتے ہو؟‘‘

وہ بولا ’’جتنے زیادہ سے زیادہ لگ جائیں۔ کیونکہ میں جتنے چکر لگاؤں گا، اتنی ہی زیادہ رقم مجھے حاصل ہوگی۔ اگر میں بیٹھا رہا، تو کچھ حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘یہ معمولی ملاح ہمیں زندگی کا ایک بڑا سبق دیتا ہے، یہ کہ اپنی خوشحالی و ترقی کے لیے محنت کرنا بنیادی شرط ہے۔ انسان کو کم از کم اتنی تگ و دو ضرور کرنی چاہیے کہ اپنا وزن خود سنبھال لے اور اس زمین پر بوجھ نہ بنے۔

ہنرمندی: ایک قیمتی شے
ایک امریکی اپنی کار میںدنیا کی سیر کرنے نکلا۔ وہ پھرتا پھراتا افغانستان آپہنچا۔ ایک جگہ اس کی گاڑی کا انجن بند ہوگیا۔ بہت تگ و دو کی مگر کار اسٹارٹ نہ ہوسکی۔ اس علاقے میں آبادی کم تھی۔ امریکی پریشان ہوگیا کہ اب وہ کار مکینک کہاں سے ڈھونڈے۔ امریکی سیاح کی خوش قسمتی کہ علاقے میں ایک مکینک مقیم تھا۔ وہ اس تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ مستری نے انجن دیکھا بھالا، پھر ہتھوڑا اٹھایا اور سلنڈر پر پانچ ضربیں لگائیں۔ پھر چابی گھمائی، تو کار چل پڑی۔ امریکی بہت خوش ہوا۔اس نے افغان مکینک کا شکریہ ادا کیا اور پوچھا کہ کتنے پیسے ہوئے؟

افغان بولا ’’آپ ایک سو ڈالر دے دیں۔‘‘
امریکی نے حیران ہوکر کہا ’’بھائی‘ کام تو اتنا زیادہ نہیں تھا۔ تم نے جھٹ پٹ کر ڈالا۔‘‘

مکینک بولا ’’محترم! ضربیں لگانے کے تو صرف 5 ڈالر ہیں۔ خرابی ڈھونڈنے میں جو مہارت خرچ ہوئی، 95 ڈالر اس کے ہیں۔‘‘
امریکی خاموش ہوگیا اور چپ چاپ سو ڈالر دے دیئے۔ یہ واقعہ آشکارا کرتا ہے کہ ہنرمندی ایک قیمتی شے ہے۔ لہٰذا ہم سب کو اس کا احترام کرنا چاہیے۔ ہنرمندوں کی موجودگی ہی ہمارے بہت سے مسائل حل کرنے میں مددگار بنتی ہے۔

عقل کو آکسیجن دیجیے
ایک بار بادشاہ نبی حضرت سلیمانؑ نے ایک کمرے میں ایسے اصلی اور نقلی پھول رکھ دیئے جن میں بظاہر کوئی فرق نہ تھا۔ پھر اپنے وزیروں مشیروں کو بلایا اور پوچھا کہ ہاتھ لگائے بغیر بتاؤ، ان میں اصلی پھول کون سے ہیں اور نقلی کون سے؟
وزیر مشیر سر کھجا کر تُکے لڑاتے رہے مگر کوئی بھی سارے اصلی پھولوں کو ایک جگہ جمع نہیں کرسکا۔ انہیں ناکام دیکھ کرحضرت سلیمانؑ نے کمرے کی کھڑکی کھول دی۔ سامنے ہی وسیع و عریض باغ تھا۔ تھوڑی دیر بعد چند شہد کی مکھیاں کمرے میں داخل ہوئیں اور اصلی پھولوں پر منڈلانے لگیں۔ یوں حضرت سلیمانؑ نے اپنی دانش مندی سے مسئلہ حل کرلیا۔
یہ مثال یہی سبق دیتی ہے کہ ہم کو اپنا دماغ ہر وقت کھلا رکھنا چاہیے تاکہ عقل کو آکسیجن ملتی رہے۔ ایک عاقل و فہمیدہ انسان کٹھن ترین مسائل کا بھی بخوبی حل نکال لیتا ہے۔

خوبیوں پہ نظر
اٹلی کے عالمی شہرت یافتہ مجسمہ ساز، مائیکل انجیلو کا مجسمہ ’’ڈیوڈ‘‘دنیائے فنون لطیفہ میں کلاسک مانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ انجیلو نے سنگ مر مر کے جس تختے سے یہ مجسمہ تخلیق کیا، اسے دوسرے مجسمہ ساز ناقص قرار دے کر مسترد کرچکے تھے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ اس ٹکرے سے کچھ نہیں بنایا جاسکتا۔تاہم مائیکل انجیلو نے سنگ مر مر کا وہ تختہ دیکھا، تو اسے اس میں پوشیدہ ڈیوڈ کا مجسمہ نظر آگیا۔ چناں چہ اس نے تختے کے نقائص نظر انداز کیے اور چھینی و ہتھوڑی اٹھا کر مجسمہ تخلیق کرنے لگا۔ آج یہ مجسمہ فنون لطیفہ کی دنیا میں ’’ماسٹر پیس‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔

یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ عام لوگ زندہ یا مردہ اشیا کے عیوب و خامیوں پر تو دھیان دیتے ہیں لیکن ان میں چھپی خوبیاں نظرانداز کردی جاتی ہیں۔ لیکن دانا بینا لوگ خوبیاں ہی دیکھتے اور ناسازگار حالات کے باوجود ان سے فائدہ اٹھا کر کامیاب و کامران ہوجاتے ہیں۔

رہنما اقوال
٭… ہلکی سیاہی سے لکھی تحریر بھی بہترین یادداشت سے بہتر ہوتی ہے۔
٭… ایک انسان کے بے عیب ہونے کی بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ دوسروں کے عیب تلاش نہیں کرتا۔
٭… چھوٹی چھوٹی خامیوں پر بھی نظر رکھیے کیونکہ ایک معمولی سا سوراخ بھی جہاز ڈبو سکتا ہے۔
٭… دس غریب ایک کمبل میں سو جائیں گے مگر ایک سلطنت میں دو بادشاہ نہیں سماسکتے۔
٭… ایک وقت میں ایک ہی کام کرنے کی عادت ڈالیے۔ جو بیک وقت کئی کام کرنا چاہتے ہیں وہ کوئی بھی کام مکمل نہیں کرپاتے۔
٭… جو انسان ایک اسکول کھولے، وہ ایک قید خانہ بند کردیتا ہے۔
٭… بڑی کامیابی اس انسان کو ملتی ہے جو چھوٹے آغاز پر مطمئن رہنا سیکھ لے۔
٭… جن لوگوں کی آنکھیں کھلی اور دماغ بند نہ ہوں، ان کے لیے غلطیاں کامیابی کی کنجی ہیں۔ ایڈیسن نے کئی غلطیاں کیں پھر ان سے سبق سیکھ کر ہی وہ بلب بنا پایا۔
٭… وہ آدمی امیر ترین ہے جس کی خوشیاں سستی ہوں۔
٭… تعریف انسان کی عمدہ خوراک ہے۔
٭… رات کو اچھا آرام کرنے کے معنی ہیں کہ صبح کو اچھا آغاز۔
٭… صرف مردے اور بے وقوف ہی اپنی رائے تبدیل نہیں کرتے۔
٭… خوشی کا راز تجسّس میں پوشیدہ ہے۔
٭… محنت میں مواقع چھپے ہونے کی وجہ سے کئی لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا پائے۔
٭… شکست کتنی ہی تلخ ہو، عارضی ہوتی ہے۔ منصوبہ بندی کرکے آئندہ اسے جیت میں بدل لیجیے۔
٭… دوستوں اور کتابوں سے رابطے میں رہیے۔
٭… دریا کے نقش قدم پر چلیے، وہ آپ کو سمندر تک پہنچا دے گا۔
٭… مسکراہٹ واحد ایسی عالمی زبان ہے جسے دنیا کا ہر شخص سمجھتا ہے۔
٭… کامیاب و کامران انسان وہ ہے جو دوسروں کی نہیں اپنی خامیوں و غلطیوں پر نظر رکھے۔
٭…ایک ملی گرام احتیاط اذیت و تکلیف کے منوں بوجھ سے محفوظ رکھتی ہے۔
٭…چھوٹے دشمن کو بڑا دشمن نہ بنائیے۔
٭…بچے والدین کا سہارا بنتے ہیں یا نہیں، اس امر کا دارومدار 70 فیصد ماں باپ پر ہے اور 30 فیصد قسمت پر۔
٭… مالک اپنے ملازمین سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے کیونکہ عقل و دانش صرف مالکوں کی میراث نہیں۔
٭…لوگ آپ کے خلاف نہیں، وہ بس اپنے مفاد میں سوچتے ہیں۔
٭…جاہل کہتا ہے کہ اس نے اپنا ماضی اور حال تباہ کردیا۔ عقل مندکہتا ہے کہ ابھی مستقبل سلامت ہے۔
٭…ناکامیوں کو ریت پر جبکہ کامیابیوں کو سنگ مر مر پر تحریر کیجیے۔
٭…عزت و احترام کے بغیر کامیابی پانا ایسے ہی ہے جسے نمک کے بغیر کھانا۔ یہ کھانا بھوک تو ختم کردیتا ہے مگر بذذائقہ ہوتا ہے۔
٭… وہ انسان خوش قسمت ہے جسے من پسند کام کرنے کو مل گیا… اب اسے کسی اور خوشی کی ضرورت نہیں۔

The post منفی خیالات سے چھٹکارا پائیے؛ قیمتی راز جو زندگی بدل سکتے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

مردم شماری 2017 پرکیا ہیں خدشات اور کیا ہوں گے اثرات؟

$
0
0

پاکستان ایک ایسا ترقی پذیر ملک ہے جہاں بسنے والے افراد کی اکثریت اپنی شناخت بطور پاکستانی کے بجائے زبان، علاقائی نسبت اور برادری کی بنیاد پر کرنا پسند کرتی ہے جس کے سبب ان کے درمیان بھروسے کا شدید فقدان ہے۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا انتظامی، سیاسی، سماجی اور معاشی نظام مکمل طور پر مردم شماری کے تحت حا صل کیے گئے اعدادوشمار پر ہوتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مردم شماری کے عمل کو انتہائی صاف و شفاف رکھا جائے، تاکہ کسی طبقے کی جانب سے یہ متنازعہ قرار نہ دیا جاسکے۔ مردم شماری2017 کی جانب سفر عدالت عظمیٰ کی کاوشوں کا نتیجہ ہے جس کے سبب مردم شماری کی مشق میں حکومتی عدم توجہی سے خدشات جنم لے رہے ہیں جس سے پاکستان کے مستقبل میں بُرے اثرات کا اندیشہ غالب نظر آرہا ہے۔

1۔ مردم شماری اور پاکستان
سیاسی عناصر کی ایک کثیر تعداد کا گمان یہ ہے کہ پاکستان میں مردم شماری کے اعداد وشمار کا احاطہ مردم شماری کے لفظی ترجمہ تک محدود ہے جسکے معنیٰ لوگوں کا شمار کرنا یا گنا بنتا ہے۔ لہذا ان عناصر کی جانب سے اس بات کا عندیہ دیا جاتا ہے کہ نادرا کی ڈیٹابیس میں موجود لوگوں کی تعداد کو بطور آبادی تسلیم کرلیا جائے۔

پاکستان میں مردم شماری کا جائزہ لیا جائے تو 1951 سے لے کر 1998 تک دنیا بھر میں رائج نظام کی طرح ڈیٹا کے حصول کو یقینی بنایا گیا، جس میں نہ صر ف آبادی، جنس، دیہی / شہری آبادی کی تعداد بتائی گئی بل کہ ہر گھرانے میں موجود افراد کی عمریں، خواندگی، صحت عامہ، گھر، پیشہ، نقل مکانی، روزگار، معذوری، بے گھر افراد، گھروں کی تعداد، کمروں کی تعداد، سہولتوں کی فراہمی وغیرہ کے اعدادوشمار بھی مرتب کیے گئے مگر افسوس ہمارے ان سیاسی عناصر کو مردم شماری کے ڈیٹا کو دیکھنے کی توفیق نہیں ملتی کیوںکہ اس ڈیٹا سے لوگوں کی معیار زندگی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔

جس کے اثرات طرز حکم رانی پر مرتب ہوتے ہیں، جس سے ان سیاسی عناصر کی پول پٹی خود ان کے سامنے عیاں ہوجائیں۔ ان حضرات کی توجہ صرف آبادی کی گنتی پر مرکوز ہے کیوںکہ اس کی بنیاد پر قومی/صوبائی / بلدیاتی انتخابات کے لیے حلقہ بندی کی جاتی ہے۔ بجٹ مختص کیے جاتے ہیں جس سے ان کے خوراک کی تقسیم میں آسانی ہوتی ہے۔

جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے بعد قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کے لیے ترقیاتی فنڈ تفویض کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے سبب مردم شماری کی اہمیت سیاسی حلقوں میں زیادہ پُراثر ہوگئی اور ان کا اثرورسوخ سرکاری افسران پر بڑھ گیا، جس کی وجہ سے مردم شماری کا عمل شکوک و شبہات کا شکار ہو نے لگا، جس کا واضح ثبوت 1991 کی مردم شماری کا مرحلہ تھا، جس میں شدید بے قاعدگیوں کی نشان دہی کی گئی ۔

اس کے بعد دوبارہ سے 1994 میں مردم شماری کے ایک اور مرحلے کا آغاز ہوا اور یہ بھی تنازعات کا شکار رہا، جس کے سبب مردم شماری کے اس مرحلے میں حاصل ہونے والے اعدادوشمار کو منسوخ کیا گیا اور مردم شماری تاخیر کا شکار ہوئی۔ 1998 میں دوبارہ مردم شماری کی نئی تاریخ دی گئی جس کا دورانیہ 2 سے 18 مارچ تک تھا۔

1991اور1994کی صورت حال کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاک فوج کو شمار کنندگان کی حفاظت کی ذمہ داری دی گئی، تاکہ کو ئی شخص ان پر اثرانداز نہ ہوسکے۔ اس طرح پاکستان کی پانچویں مردم شماری تکمیل تک پہنچی۔ 1951 سے لے کر 1981 تک کی مردم شماری کراتے وقت فوج کو کبھی اس عمل کا حصہ نہیں بنایا گیا۔ حالاںکہ اس زمانے میں مالی وسائل سے لے کر افرادی وسائل تک محدود تھے۔

پاکستان کی چھٹی مردم شماری 2008 میں طے تھی مگر حکومتی عدم توجہی کی سبب اس کے انعقاد کا اعلان اپریل 2011 میں کیا گیا اور پہلے مرحلے کی تکمیل بھی ہوئی، مگر سیاسی عناصر کے حد درجہ اثرانداز ہونے پر اس کے نتائج کا حشر بھی 1991اور1994 کی مردم شماری جیسا ہوا، جس کے نتیجے میں اس کے دوسرے مرحلے کا انعقاد نہ ہونے کے سبب پہلا مرحلہ مردم شماری کے قوانین کے پس منظر میں بے اثر ہوگیا، یعنی Expired ہوگیا۔ اس طرح قوم کے کم وبیش چار ارب روپے گم نامی اکاؤنٹس کی نظر ہوگئے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت کے بعد اس کی نئی تاریخ کا مارچ 2017 مقرر کی گئی ہے۔

٭سیاسی مردم شماری 2017
قوموں کی سب سے بڑی پہچان ان کا صبر ہوتا ہے اور اس کی پرورش انصاف پر مبنی نظام کرتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں صبر کی کمی نے معاشرے کی اکثریت کو بے لگام کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے سیاسی نمائندے عام لوگوں سے بھی دو ہاتھ آگے نکل جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں چند حضرات کے بیانات پیش خدمت ہیں۔ جناب محترم عمران خان نے اپنے ایک اسلام آباد کے خطاب میں بروز ہفتہ 28 جنوری 2017 کو فرمایا کہ پاکستان کی 20 سال کے آس پاس کی آبادی مجموعی آبادی کے 60 فی صد ہے۔

میئر کراچی جناب وسیم اختر کراچی کی آبادی تین کروڑ سے زاید بتاتے ہیں۔ جناب احسن اقبال نے پاکستان چین JCC میٹنگز کے موقع پر پاکستان کی آبادی تئیس کروڑ بتائی۔ اس طرح جناب شاہی سید نے ANP کے کنونشن بہ مقام الآ اسکوائر میں انکشاف کیا کہ کراچی میں سب سے زیادہ آبادی پختونوں کی ہے۔ اس ضمن میں میری بااثر افراد سے گزارش ہوتی ہے کہ اس طرح کے حساس معاملات پر گفتگو سے احتیاط برتیں اور ہمیشہ مردم شماری کی ویب سائٹس پر دی گئی آبادی کو موضوع گفتگو بنائیں، تاکہ بحیثیت قوم ہم ایک صفحے پر آسکیں۔

٭مردم شماری2011 کے پہلے مرحلے کے نتائج اور نادرا
پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار میں چھٹی مردم شماری کی منظوری کے بعد شماریات ڈویژن کے ماتحت ادارے پاپولیشن سینس آرگنائزیشن کے تحت چیف سینس کمشنر خضر حیات کی زیرسربراہی مردم شماری کے پہلے مرحلے میں خانہ شماری کا آغاز اپریل 2011 میں کیا گیا۔ موجودہ چیف شماریات آصف باجوہ بطور سیکریٹری شماریات ڈویژن فرائض انجام دے رہے تھے۔

اس دوران ملک میں دہشت گردی اپنے عروج پر تھی جس سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ خیبر پختونخواہ، FATA ، صوبہ بلوچستان اور سندھ کے علاقے تھے جب کہ صوبہ پنجاب بھی کسی حد تک متاثر تھا۔ پاک فوج سرحدوں سے زیادہ اندرون ملک دہشت گردوں کے ساتھ جنگ میں مصروف تھی۔ اس دہشت زدہ ماحول میں کی گئی خانہ شماری کا نتیجہ مرتب کیا گیا تو اس کے ضمنی نتائج کچھ اس طرح سے سامنے آئے کہ پاکستان کی کل آبادی انیس کروڑ تہتر لاکھ کے قریب بنی، جوکہ 1998 کی مردم شماری کے مقابلے میں46.5 فی صد زیادہ تھی جس کی سالانہ شرح نمو 2.99 فی صد رہی جب کہ 1981-1998 کے دوران 2.69 فی صد سے آبادی میں سالانہ اضافہ مشاہدہ کیا گیا تھا۔

اگر خانہ شماری2011 کے نتائج کا پاکستان کے تمام انتظامی یونٹوں (آزاد جموںکشمیر اور گلگت بلتستان کے بغیر) کے حوالے سے مختصراً جائزہ لیا جائے تو اس کی تفصیل کچھ اس طرح مرتب ہوئی تھی دیکھیے (جدول۔1)۔

مندرجہ بال جدول سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خیبر پختون خواہ، فاٹا اور بلوچستان دہشت گردی کے کے زیراثر تھے مگر ان کی آبادی تیزی سے بڑھ رہی تھی اور اسے صحیح تسلیم کرلیا جائے تو سندھ کی آبادی میں اضافے کی بنیادی وجہ شورش زدہ علاقوں سے لوگوں کا سندھ کی جانب نقل مکانی کرنا ہے، یعنی خیبر پختون خواہ، فاٹا اور بلوچستان کی آبادی میں کے اعدادوشمار میں سقم ہے یا سندھ کے ڈیٹا میں۔ اس ڈیٹا کو عوام الناس میں لانے کا مقصد کچھ عناصر کی جانب سے اس ڈیٹا کو قا بل بحث بناکر عوام کو گم راہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

2011 کی خانہ شماری کے دوران ایک لاکھ چھیالیس ہزار سے زاید بلاکوں اور ان کے متعلقہ سرکل اور چارج کی حد بندی کا کام مکمل کیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات 2013 کے لیے ان بلاکوں کی تعداد کو باضابطہ نوٹیفائیڈ کرایا۔ اس کے بعد سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت اپنے فیلڈ سروے کے ذریعے ان بلاکوں میں قومی شناختی کارڈ رکھنے والے لوگوں کی نادار کے ڈیٹا بیس سے تصدیق کرائی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اس طریقۂ کار کو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں سے پزیرائی ملی۔

اب کوئی بھی پاکستانی جس کی عمر اٹھارہ سال سے زاید ہے ایک SMSکے ذریعے اپنے انتخابی حلقے کی معلومات بمعہ مردم شماری بلاک کوڈ کو ECPسے حاصل کرسکتا ہے۔ اب الیکشن کمیشن کو ووٹ کے اندراج کے لیے درخواست دینے کی ضرورت نہیں۔ اس عمل سے مردم شماری کے اٹھارہ سال سے زاید آبادی کا موازنہ کافی حد تک نادرا کے تحت بنائے گئے ووٹر لسٹوں سے کیا جاسکتا ہے ۔

٭مردم شماری 2017 : کس کی خوشی کس کا غم
وحدت پاکستان کو جانچنے کا آسان ترین آلہ یہ ہے کہ کسی حساس قومی نوعیت کے معاملے پر قوم کے ٹھیکے داروں کے صبر کے بجائے بے چینی کے پیمانے کو دیکھ لیں۔ مردم شماری کی تاریخ کا جیسے ہی اعلان کیا گیا اور پلان مکمل ہونے کے قریب جانے لگا تو عدالتوں میں کیسز کا اندراج ہونے لگا کہ کوئی گروپ اپنی برادری کا اندراج کرانا چاہتا ہے تو کسی کو خیال آیا کہ اس کی جنس کا اندراج نہیں۔ ان سب باتوں کے علاوہ سب سے اہم بات وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا شماریات کے چیف کو 17 جنوری 2017 کو اپنی کابینہ کا سامنے بلانا اور یہ انکشاف کرنا ہے کہ مردم شماری میں شناختی کارڈ کی شرط سے سندھ میں مسائل جنم لے سکتے ہیں، کیوںکہ ان کے مطابق سندھ میں لوگوں کی کثیر تعداد شناختی کارڈ سے محروم ہے۔

اس موقع پر نادرا کی جانب سے کا بینہ کو بتایا گیا کہ سندھ میں اس وقت 22.4 ملین لوگوں کو شناختی کارڈ کا اجراء ہوچکا ہے، جب کہ 3.3 ملین لوگ اٹھارہ سال سے کم ہیں (اس بات میں ابہام ہے کہ نادرا کے نمائندے کی اس بات سے مراد کیا یہ لیا جائے کہ یہ 3.3 ملین لوگ وہ ہیں جن کی عمر اٹھارہ سال سے کم ہے اور عنقریب اٹھارہ سال کو پہنچنے والے ہیں یا 0 سے 17.11 سال کے ہیں)۔ مزیدبرآں نادرا کے ڈیٹا کو الیکشن کمیشن کی ویب پر دیکھا جائے تو 5 دسمبر 2016 تک اٹھارہ سال سے زاید عمر کے افراد کی تعداد 20.65 ملین کے قریب ہے۔

گویا وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ کے سامنے دیے گئے ڈیٹا میں 1.75 ملین کا فرق ہے۔ یعنی نادرا نے سندھ بھر میں 5 دسمبر 2016 سے 16 جنوری 2017 تک کم وبیش1750000 لوگوں کو شناختی کارڈ جاری کیا۔ (اس ضمن میں مجاز حکام الیکشن کمیشن اور نادرا سے التماس ہے کہ صرف سندھ میں یہ فرق کیوں پایا گیا ہے؟ اور اسے درستی کی طرف لے جائیں) نادرا کے نمائندے نے اس سوال کے جواب میں کہ اندرون سندھ کے کچھ علاقوں کی آبادی شناختی کارڈ سے محروم ہے کو شناختی کارڈ کے اجراء کے لیے نادرا کی 60 موبائل سروس موجود ہے۔حالاںکہ شہری علاقے کے لوگوں کی کثیر تعداد بھی شناختی کے کارڈ کے حصول میں کوشاں ہے اور نادرا کی جانب سے انتہائی ذلت آمیز رویہ کا سامنا بھی کرتی ہے۔

یہاں یہ امر باعث حیرت ہے کہ اتنے حساس مسئلے کی نشان دہی پر وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا حالاںکہ یہ ان کے ماتحت ادارے نادرا کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ ان کا فرض ہے کہ قوم کو سندھ میں شناختی کارڈ کے حوالے سے صحیح صورت حال سے آگاہ کریں تاکہ مردم شماری کے نتائج کو آلودہ ہونے سے بچا یا جاسکے۔ اب آتے ہیں مردم شماری 2017 کے متوقع نتائج کی طرف جس پر مختلف حلقوں کی جانب سے یہ گمان کیا جارہا ہے کہ اس مردم شماری سے پاکستان کے سیاسی انتظامی ساخت کے معاملات میں بہت بڑی ڈرامائی تبدیلی آجائے گی۔ اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے ہمیں مردم شماری 1998کاجائزہ لینا ہوگا۔

پانچویں مردم شماری 1998کی آبادی کا مطالعہ بہ لحاظ عمر کیا جائے تو اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں اٹھارہ سال سے زاید آبادی کا تناسب اس کی کل آبادی کے 50.02 فی صد تھا یعنی 0 سے 17.99 عمروں کے آبادی 49.98 فی صد۔ اس کی مزید تفصیل جدول2 کے مطالعے سے حاصل ہوگی۔

پاکستان کے انتظامی یونٹوں (فاٹا،آزاد جموںو کشمیر اور گلگت بلتستان شامل نہیں) میں بھی یہ واضح نظر آرہا ہے کہ اٹھارہ سال سے زاید آبادی کا پچاس فی صد سے زیادہ آبادی والے یونٹوں میں اسلام آباد، سندھ اور پنجاب نمایاں ہیں جب کہ بلوچستان اننچاس فی صد کے قریب ہے۔ اس کے علاوہ جدول 2 میں مردوں اور عورتوں کے درمیان تناسب کا فرق بھی واضح ہے۔ مزید برآں اس کا مطالعہ دیہی اور شہری آبادی کے تناظر میں کیا جائے تو دیہی علاقوں میں مردوں کا تناسب خواتین سے زیادہ ہے جب کہ شہری آبادی میں یہ تناسب مزید اضافے کے ساتھ نمایاں ہے۔ تفصیل کے لیے جدول 3 ملاحظہ فرمائیں۔

مندرجہ ذیل جدولوں کو زیرمطالعہ لانے کا بنیادی مقصد اس جانب توجہ مبذول کرانا مقصود ہے کہ نادرا کے تحت بنائی گئی انتخابی فہرستیں بہت حد تک پاکستان کی آبادی کو بہ لحاظ اٹھارہ سال کے افراد کی آبادی کے تناسب کے پس منظر میں بہتر تخمینے کی جانب اشارہ دیتی ہیں۔ مزیدبرآں اکیسویں صدی میں ڈیجیٹل انقلاب نے انسانی امور کے ہر شعبے کو شدید متاثر کیا اور دنیا میں بسنے والے عوام کے درمیان فاصلے کو مواصلاتی نظام کے ذریعے گھٹا کر رکھ دیا۔ اس عمل نے دنیا میں آبادی کے رجحان میں اضافے کی سوچ کو بہت حد تک متاثر کیا اور پاکستان ترقی پذیر ملکوں کی فہرست میں ان ملکوں کے ساتھ شامل ہوتا نظر آرہا ہے جن کے یہاں شرح آبادی میں پچھلی شرح کے مقابلے میں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ اٹھارہ سال سے زاید لوگوں کے تناسب سے پرکھا جائے تو آبادی کے اس گروپ میں میں اضافہ متوقع ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم 2013 کے بعد الیکشن کمیشن نے اپنی انتخابی فہرستیں نادرا کی مدد سے تیار کرنے کا آغاز کیا۔ اس نظام کے تحت اٹھارہ سال سے زاید شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت کو جیسے ہی شناختی کا اجراء ہوتا ہے، نادرا کچھ مہینے کے وقفے سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو وہ فہرست فراہم کرتا ہے جس کے بعد انتخابی عملہ اس ووٹ کو محکمۂ مردم شماری کے تحت بنائے گئے بلاک میں شخصی تصدیق کے بعد درج کرتا ہے، جس کے نتیجے میں اٹھارہ سال سے زاید افراد کا ڈیٹاکم وبیش تین مہینوں کے فرق سے الیکشن کمیشن کی کاوشوں سے مائیکرولیول تک دست یاب ہوتا ہے، لہٰذا مردم شماری 1998 کے اٹھارہ سال کے تناسب کو مدنظر رکھا جائے تو پاکستان میں نادرا کے شہریت کا ڈیٹا کافی حد تک لوگوں کی تعداد کا تعین کرنے کے لیے قابل قبول ہے۔

پاکستان کے موجودہ امن و امان اور معاشی مسائل کی وجہ سے اٹھارہ سال کو پہنچنے والوں افراد کی پہلی ترجیح شناختی کارڈ کا حصول ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رقم کے حصول میں ATM کارڈ کی شرط کے بعد پاکستان کے غریب پس ماندہ علاقے میں رہنے والے افراد اپنی شناختی کارڈ کے حصول کو یقینی بناتے ہیں۔ اگر مردم شماری 1998 کے بالغ آبادی کا تنا سب کے پس منظر میں چھٹی مردم شماری کی آبادی کا اندازہ لگایا جائے تو متوقع آ بادی جدول۔ 5 میں دکھائی گئی ہے۔مردم شماری 2017 کے مکمل ہونے کے بعد متوقع پاکستان کی آبادی میں بہ لحاظ صوبے کی آبادی میں اندرون اعشاریہ اضافہ یا کمی دیکھی جائے گی۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان کے انتظامی یونٹس کی انتظامیہ اپنے ذہنوں کو آلودہ کیے بغیر مردم شماری کے کاموں کو ایمان داری کے ساتھ سرانجام دیں۔

پاکستان کے بڑے لسانی گروہوں کی آبادی کی تقسیم کو مشاہدے میں لایا جائے تو اس کی شرح نمو کے اعتبار سے اضافے یا کمی کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ جدول۔ 6 کا موازنہ جدول۔7 کے ساتھ کیا جائے تو کچھ دل چسپ نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اگر پاکستان کی سطح پر اردو بولنے والوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو 1981 کے مقابلے 1998میں معمولی کمی دیکھی جاسکتی ہے۔ اسی طرح پنجابی زبان بولنے والوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی یعنی 4 فی صد سے زاید نظر آرہی ہے جب کہ سندھی آبادی میں تقریباً 3 فی صد، پشتو آبادی میں2 فی صد سے زاید آبادی کا اضافہ ہوا ہے۔ بلوچی بولنے والی آبادی میں کمی، سرائیکی آبادی میں اضافہ اور دوسری زبانوں کے گروپ میں بھی کمی مشاہدے میں لائی جاسکتی ہے۔

جدول۔6 آبادی بہ لحاظ سے زبان۔ مردم شماری 1998
جدول۔7 آبادی بہ لحاظ سے زبان۔ مردم شماری 1981

اب آتے ہیں مردم شماری کے التواء کی طرف۔ ہمارے ملک میں ارباب اقتدار سے وابستہ افرادکو یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ جن غیرانسانی اصولوں کو آئین کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کہیں اس میں کسی قسم کا ردوبدل نہ ہوجائے۔ ملازمتوں کی کوٹا کی بنیاد پر تقسیم اور NFC کی آبادی کی بنیاد پر تقسیم سے یہ گروہ 1973 سے فیض یاب ہورہے ہیں۔

اس غیرمنصفانہ عمل رکھنے والی سوچ چوںکہ ظلم کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اس لیے ان کے دلوں میں آسائشیں چھن جانے کا خوف ہے۔ مردم شماری کے تحت حا صل کیا گیا ڈیٹا ملک میں آمدنی کی تقسیم، غربت کی شرح، لوگوں کو حا صل بنیادی سہولیات، نقل مکانی کی وجوہات، تعلیمی، طبی سہولیات گویا عوام الناس کی جملہ زندگی کی ضروریات کا احاطہ کرتا ہے، جس کی مدد سے ملک کے حاکموں کی پاکستانی عوام کے معیار زندگی کی بلندی کے لیے ترتیب دی گئی حکمت عملی کا تنقیدی و تعمیری جائزہ ملک کے عوام کے سامنے لایا جا سکتا ہے۔ شا ید یہی وہ اسباب ہیں جو ملک میں مردم شماری کے التواء کا باعث بنتے ہیں۔

ان خبروں پر انتہائی افسوس کا اظہار کیا جا سکتا ہے کہ مردم شماری کا انتہائی اہم جز معیار زندگی سے متعلق سوال نامہ کو موجودہ ہونے والی مردم شماری کا حصہ نہیں بنایا گیا جس کی وجہ سے مردم شماری اپنا حقیقی اثر کھو بیٹھی ہے۔ وزیراعظم اور ان کی کابینہ کو اس حوالے سے سختی سے نوٹس لینا چا ہیے۔ المیہ یہ بھی ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں اگر یہ دعویٰ کرتی ہیںکہ موجودہ حکومت پاکستان کی ترقی کے عمل میں نا کام رہی ہے تو ان کے ثبوت بھی ضائع ہو نے جارہے ہیں۔

مردم شماری کو صرف گنتی تک محدود رکھنا قومی دولت کا ضیاع ہے، کیوںکہ یہ عمل انتہائی کم لاگت سے نادرا کے ڈیٹا کی مدد سے کیا جا سکتا ہے، جس میں 95 فی صد تک بہتر نتیجہ حاصل ہو سکتا ہے اور اس کی تقسیم مردم شماری کے 2011 کے منظور شدہ بلاک جس کی مزید تصدیق انتخابی عملے نے خطیر رقم خرچ کرکے کی اور نادرا کا ڈیٹا انتخابی حلقہ بندیوں کے پس منظر میں کر دکھایا۔ اگر غور کیا جائے تو اس ڈیٹا کو اس حد تک ترتیب دے دیا گیا کہ اس کی مدد سے قومی مالیاتی کمیشن میں بھی صوبوں کے درمیان فنڈز کی تقسیم کا مرحلہ بھی بہ خوبی طے کیا جا سکتا ہے، مگر مقا می نظام حکومت میں مالیاتی تقسیم میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔

محکمۂ شماریات کے منتظم اعلیٰ پچھلے وقتوں میں مردم شماری کے حوالے سے اپنی بھرپور تیاریوں کا راگ الاپتے رہے مگر جیسے ہی ذمے داری ملی اپنی نااہلی کی وجہ سے مکمل مردم شماری کے عمل سے راہ فرار اختیار کر رہے ہیں اور کوئی ان سے بازپرس کرنے والا نہیں۔

2011 میں ناکام مردم شماری سے کم و بیش صوبوں کے چار ارب روپے ضائع کروائے پھر 2015 میں حکومت وقت سے مردم شماری کا شیڈول دکھاکر بھاری بھرکم بجٹ منظور کروالیا اور فوج کی مدد کے حوالے سے ان کی رضامندی حا صل نہ ہو نے کے باعث مردم شماری کرانے سے انکار کردیا، مگر بجٹ کے حصول کے بعد مشینوں، گاڑیوں وغیرہ کی خریداری میں مستعدی دکھائی اور اپنے زیراستعمال لے آئے اور آج بیشتر چیزیں قابل مرمت ہوگئی ہیں۔

جناب آصف باجوہ کی جانب سے اپنی حالیہ پریس کانفرنس بہ تاریخ 19 فروری 2017 کو یہ کہنا کہ مردم شماری کے اخراجات کا تخمینہ 30 ارب (کم و بیش 280 ملین امریکی ڈالر) تک متوقع ہے، حیرت انگیز ہے، اگر اس کا موازنہ پڑوسی ملک ہندوستان سے کیا جائے تو 2011 کی مردم شماری میں ایک ارب بیس کروڑ سے زاید آبادی کو شمار کرنے میں 330 ملین امریکی ڈالر خرچ ہوئے یعنی34 روپے فی فرد کے قریب ان کا خرچ آیا جب کہ پاکستان کی مردم شماری کا یہ خرچہ بقول آصف باجوہ 150 روپے فی فرد تک پہنچ جائے گا۔

اگر پاکستانی قوم ان اخراجات کے موازنہ اپنے پڑوسی ملک سے کرے تو اپنی خوش حالی پر نازاں ہو، کیوںکہ ہم نے ہندوستان کو اس معاملے میں شکست سے دوچار کردیا بس شرط یہ ہے کہ مردم شماری پایۂ تکمیل کو پہنچ جائے۔

The post مردم شماری 2017 پرکیا ہیں خدشات اور کیا ہوں گے اثرات؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

موٹاپے کی وجہ سے گردوں کے امراض بڑھ رہے ہیں

$
0
0

موٹے موٹے ہاتھوں، پیروں اور پھولے ہوئے گالوں والے بچے کی پیدائش پر مبارک باد سمیٹتے ہوئے والدین کو یہ فکر بھی ستاتی رہتی ہے کہ ان کے تن درست اور توانا بچے کو کسی کی نظر نہ لگ جائے۔

نومولود کی صحت کے حوالے سے والدین کا حساس ہونا فطری امر ہے، لیکن جسمانی وزن کی بنیاد پر اس کے تن درست ہونے کا خیال غلط بھی ہوسکتا ہے۔ انہیں ڈاکٹر سے معلوم کرنا چاہیے کہ بچہ زاید جسمانی وزن کا حامل تو نہیں۔ اسی طرح ہمارے ہاں بڑی عمر کے افراد کو بھی بھاری بھرکم ہونے کی وجہ سے توانا اور صحت مند خیال کیا جاتا ہے، لیکن یہ مٹاپے کی علامت بھی تو ہوسکتا ہے۔

دراصل ہمارے ہاں صحت اور جسمانی نشوونما سے متعلق بنیادی باتوں سے آگاہی نہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جب طبی سائنس زائد وزن کو جسمانی پیچیدگیوں اور مٹاپے کو مہلک امراض کی بڑی وجہ قرار دیتی ہے۔ ماہرینِ صحت کا کہنا ہے کہ مٹاپا وبائی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور اس کے نتیجے میں جسمانی کارکردگی متأثر ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف امراض کا شکار ہونے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

ایک طبی رپورٹ کے مطابق گذشتہ تین دہائیوں میں کوئی بھی ملک مٹاپے کی شرح کم کرنے میں کام یاب نہیں ہوسکا ہے۔ زاید وزن اور مٹاپے کے منفی اثرات ہمارے گردوں پر بھی پڑتے ہیں اور یہ عضو خطرناک حد تک متأثر ہوسکتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال مارچ کے مہینے میں گردوں کی صحت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس سال مٹاپے اور اس کے باعث گردوں کو لاحق خطرات کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اس حوالے سے معروف ماہرِامراضِ گردہ ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی سے کی گئی گفتگو پیشِ خدمت ہے۔

مٹاپا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے جو ہماری جسمانی اور ذہنی صحت کے لیے خطرہ بنتا جارہا ہے۔ طبی ماہرین نے مٹاپے کو گردوں کے امراض کی ایک وجہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف کوششیں تیز کرنے پر زور دیا ہے۔ ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی نے اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے تو ہمیں صحت مند جسم اور فربہی میں فرق کو سمجھنا ہو گا۔ بڑھا ہوا پیٹ، پھیلی ہوئی کمر اور بھاری بھرکم جسم کا مطلب کسی کا صحت مند اور توانا ہونا نہیں بلکہ یہ مٹاپا ہے جو ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا سبب بنتا ہے اور ان کے نتیجے میں انسان کے گردے بری طرح متأثر ہوتے ہیں۔ مٹاپے کا گردوں کی کارکردگی پر براہِ راست بھی برا اثر پڑتا ہے۔

ایسے افراد کے جسم میں گردوں کو نارمل وزن کے حامل افراد کے مقابلے میں زیادہ کام کرنا پڑتا ہے اور میٹابولک سسٹم کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ان اعضا کو جسم کو فراہم کرنے کے لیے زیادہ مقدار میں خون صاف کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح گردوں کی مجموعی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور وہ بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ فربہ افراد میں یکایک گردوں کا نظام ناکارہ ہونے کا خطرہ بھی رہتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ کسی کو اس کے زاید وزن یا مٹاپے کا علم طبی سائنسی طریقے سے ہوسکتا ہے۔ اس کے لیے ایک پیمانہ یا معیار مقرر کیا گیا ہے جسے باڈی ماس انڈیکس ( BMI ) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق انسانوں کو ان کے جسمانی وزن کے اعتبار سے مختلف زمروں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

ایک اوسط باڈی ماس انڈیکس 18.5 تا 24.9 کے درمیان ہوتا ہے اور ایسے لوگ نارمل کہے جاتے ہیں۔ 18.5 سے کم بی ایم آئی کے حامل افراد کو انڈر ویٹ یا اوسط سے کم وزن کا حامل جب کہ 25 سے اوپر بی ایم آئی کی صورت میں اوور ویٹ یا اوسط سے زیادہ وزنی مانا جاتا ہے۔ اسی طرح 30 اور اس سے اوپر بی ایم آئی کے حامل افراد موٹے ہوتے ہیں اور ایسے افراد میں ذیابیطس، فالج، دل کے امراض اور کینسر جیسی بیماریوں کے خطرات بہت بڑھ جاتے ہیں۔ اسے مزید بیان کیا جائے تو 35 بی ایم آئی کے حامل افراد شدید مٹاپے اور 40 سے اوپر بی ایم والے افراد کو ان کے مٹاپے کی وجہ سے شدید علیل تصور کیا جاتا ہے۔

مٹاپا جسمانی معذوری کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ مٹاپے کی وجہ سے لاحق ہونے والی بعض بیماریوں اور طبی پیچیدگیوں کو دواؤں اور دیگر طبی طریقوں پر عمل کر کے کنٹرول تو کیا جاسکتا ہے، لیکن کئی ایسے مسائل بھی سامنے آرہے ہیں جن کا مؤثر اور مکمل علاج موجود نہیں یا اتنا منہگا ہے کہ غریب آدمی نہیں کروا سکتا۔

ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی کا کہنا ہے کہ مٹاپے کی ایک وجہ غیرمعیاری کھانے، چربی دار اور چٹپٹی غذائیں، شکر کا غیرضروری اور اضافی استعمال، بیکری آئٹم اور ڈبہ بند مصنوعات ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا طرزِ زندگی بھی وزن میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ لوگوں کی اکثریت چہل قدمی اور ورزش کو اہمیت نہیں دیتی، کام کاج اور دفتری مصروفیات کے بعد ان کا زیادہ تر وقت ٹیلی ویژن، موبائل فونز اور کمپیوٹر اسکرین کے آگے گزرتا ہے جس سے لوگ فربہی کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ غذا اور خوراک کی افادیت یا نقصانات کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی نہیں ہے۔ بہت زیادہ چربی اور نشاستہ جسم کو فربہ کرتے ہیں اور یہ ناقص و غیرمتوازن خوراک کے استعمال کی صورت میں ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ زیادہ جسمانی وزن والے افراد کو ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر کے علاوہ دل کی بیماریوں، گٹھیا، فالج، خون میں چربی اور گردے کے مسائل کے علاوہ کینسر جیسے مہلک مرض کا خطرہ رہتا ہے جن سے بچنے کے لیے مرغن غذاؤں، کولڈ ڈرنکس اور زیادہ میٹھی چیزوں سے پرہیز ضروری ہے۔

ڈاکٹر نقوی کا کہنا تھاکہ مٹاپا ختم کرنے کا کوئی جادوئی نسخہ دنیا میں موجود نہیں۔ یہ چٹکی بجاتے ختم نہیں ہوجاتا بلکہ اس کے لیے ہمیں اپنا طرزِ زندگی بدلنا ہوگا۔ اگر غذائی عادات میں تبدیلی کے ساتھ وزن کم کرنے کے لیے چہل قدمی اور ورزش کو معمول بنا لیا جائے تو اس کے مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ ایسے کام ہیں جن پر کچھ خرچ کیے بغیر بہت سے فائدے سمیٹے جاسکتے ہیں۔

اس کے برعکس مٹاپے کی وجہ سے بیمار ہونے والا نہ صرف جسمانی تکلیف جھیلتا ہے بلکہ علاج معالجے کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں ورنہ زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ ستر فی صد گردے شوگر اور ہائی بلڈ پریشر کا بروقت اور درست علاج نہ ہونے کے سبب ناکارہ ہوجاتے ہیں اور ان کا علاج پاکستان جیسے ملکوں میں بہت مہنگا ہے۔ ہمارے ملک میں تو لوگوں کی اکثریت کو دو وقت کی روٹی مشکل سے نصیب ہوتی ہے، وہ ڈائیلاسس یا گردوں کی پیوند کاری کیسے کرواسکتے ہیں۔ ایک مریض کے ڈائیلاسس پر تین سے چار لاکھ خرچ ہوسکتے ہیں اور کوئی غریب یہ علاج نہیں کرواسکتا۔ نتیجتاً اموات کی شرح بڑھ رہی ہے۔

اسی طرح گردوں کی پیوندکاری بھی کروانا آسان نہیں اور اس کے لیے تو گردہ بھی چاہیے ہوتا ہے۔ منہگے علاج، دواؤں اور تکالیف سے بچنے کا واحد راستہ کھانے پینے میں احتیاط اور طرز زندگی میں تبدیلی ہی ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ بلڈ پریشر اور شوگر کی سطح کو باقاعدگی سے جانچنے کے ساتھ دواؤں کا استعمال جاری رکھنے سے ہم گردوں کے امراض سمیت کئی بیماریوں سے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی یونیورسٹی نے کڈنی فاؤنڈیشن کو گردوں کے حوالے سے ریسرچ سینٹر کے قیام کے لیے زمین دی تھی جس پر عمارت قائم کرکے علاج معالجے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔ اس عمارت میں جدید مشینری کے ساتھ لیبارٹری ٹیسٹ، ریڈیالوجی اور ڈے کیئر کی سہولت موجود ہے اور ایک ڈائلاسس یونٹ بھی کام کررہا ہے۔

ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی کے زیرِنگرانی گردوں کے حوالے سے تحقیقی کام کے ساتھ سستے علاج اور مریضوں کو بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے فنڈز کی بھی ضرورت ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ گردوں کے امراض کے حوالے سے طبی سہولیات کی فراہمی میں صاحبِ ثروت اور دردمند لوگ بھی مالی تعاون کریں تو کئی انسانی زندگیاں بچائی جاسکتی ہیں۔

ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی کا کہنا تھاکہ مشکلات کے باوجود محدود وسائل میں رہتے ہوئے لوگوں کی تکالیف کم کرنے کی کوشش کررہے ہیں، امید ہے کہ جلد ایک مکمل طبی سہولیات سے آراستہ گردوں کا اسپتال کام کرنے لگے گا۔ ڈاکٹر سید علی سید علی جعفر نقوی نے ایک اہم مسئلے کی نشان دہی کرتے ہوئے بتایا کہ یہاں زیادہ تر لوگ اس وقت اسپتال پہنچتے ہیں جب ان کے گردے بہت خراب ہوجاتے ہیں۔

اس کا سبب جسمانی صحت اور امراض سے متعلق شعور اور آگاہی نہ ہونا ہے، دوسری طرف غربت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور لوگ ڈاکٹر کے پاس جانے سے کتراتے ہیں۔ اس صورتِ حال میں یہ ضروری ہے کہ ہم خود اپنی صحت کا خیال رکھیں۔ غیرمعیاری کھانوں اور فاسٹ فوڈ کے بجائے گھروں میں سبزیوں، پھلوں، دالوں اور دیگر اجناس کو اپنی خوراک میں شامل رکھیں۔ اسی طرح شکر اور نمک کے علاوہ مرچ مسالوں اور مرغن غذا کا استعمال بھی اعتدال میں کیا جانا چاہیے۔ ہم انڈے کی سفیدی اور مچھلی کو غذا کا حصّہ بنا سکتے ہیں جو ہماری پروٹین کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔ دوسری طرف لوگوں کو طرز زندگی میں تبدیلی لانے پر آمادہ کرنے کی کوششیں کرنا ہوں گی اور اس حوالے سے بڑے پیمانے پر مہم چلانے کی ضرورت ہے۔

گردے کے افعال، عام امراض اور خرابیوں سے متعلق ڈاکٹر جعفر نقوی نے گفتگو کے دوران بتایا کہ گردے کے چند بنیادی افعال میں جسم سے اضافی پانی کا اخراج بھی شامل ہے جس کے ساتھ ہی ناکارہ اور فاضل مادے بھی جسم سے باہر نکل جاتے ہیں۔ یہ عضو جسم میں نمکیات وغیرہ کی مقدار کو بھی کنٹرول کرتا ہے۔ یعنی جسم میں نمکیات کی زیادتی دور کرتا ہے اور اگر پانی کی کمی ہورہی ہے تو اسے بھی روکے رکھتا ہے۔

گردے بلڈ پریشر کنٹرول کرنے کا کام بھی کرتے ہیں۔ یہ خود ایک ایسا مادہ پیدا کرتے ہیں جس کا تعلق بلڈ پریشر کنٹرول کرنے سے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گرد وٹامن ڈی کو ایک ایسی حالت میں تبدیل کرتا ہے جو ہماری ہڈیوں کی نشوونما اور مضبوطی کے لیے نہایت ضروری ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گردے کے مختلف امراض میں سب سے عام پتھری ہوجانا ہے۔ اسی طرح معمر لوگوں میں غدود کا بڑھ جانا اور پیشاب کی تکالیف، بچوں میں ورم کا مسئلہ اور پیشاب میں پروٹین آنا بھی خرابی کی نشانی ہے۔ گردے کے ان تمام امراض کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں اور انہی میں مٹاپا بھی شامل ہے۔ ان کا کہنا تھاکہ مٹاپے کے باعث استقرارِ حمل مشکل ہوتا ہے جب کہ حاملہ عورت ڈیلیوری کے دوران پیچیدگیوں کا سامنا کرسکتی ہے۔ ڈاکٹر سید علی جعفر نقوی نے شعبۂ صحت اور کڈنی فاؤنڈیشن کے تحت نہ صرف گردوں کی پیچیدگیوں اور امراض سے متعلق آگاہی پھیلائی بلکہ متعدد ماہر امراضِ گردہ بھی تیار کیے۔

انہوں نے اس حوالے سے اپنی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ملک بھر میں مذاکروں کا انعقاد کیا، باہر سے تعلیم حاصل کرکے آنے والوں کو ساتھ ملایا اور پاکستان میں امراضِ گردہ پر کام کرنے کے لیے مضبوط ٹیم تیار کی، پھر پاکستان سوسائٹی آف نیفرولوجی کی بنیاد رکھی۔ اب ملک میں مستند اور ماہر ڈاکٹروں کی تعداد پہلے کے مقابلے میں تو زیادہ ہے، مگر مریضوں کی شرح کے اعتبار سے دیکھا جائے تو بہت کم ہے اور یہ ماہرین بھی صرف شہروں تک محدود ہیں۔ ان کا کہنا تھاکہ گردہ ایک ایسا پیچیدہ عضو ہے جس کی خرابی کا مکمل اور مؤثر علاج کرنے کے لیے اس کے فنکشن کو پوری طرح سمجھنا ضروری ہے اور اس کے لیے ماہرین تیار کرنے کے ساتھ اس شعبے میں سہولیات کی فراہمی یقینی بنانا ہو گی۔

گردہ اور اس کے افعال
گردے انسانی جسم میں کمر کے نچلے حصے میں ریڑھ کی ہڈی کے دائیں بائیں پائے جاتے ہیں۔ ان کا شمار ایسے اعضائے رئیسہ میں ہوتا ہے جن میں معمولی خرابی بھی زندگی اور موت کا مسئلہ بن جاتی ہے۔ ہماری رگوں میں دوڑتے خون کی صفائی کا کام گردے ہی انجام دیتے ہیں۔ گردہ بے شمار باریک نالیوں پر مشتمل ہوتا ہے، جس پر جالی دار کپ لگے ہوتے ہیں۔ ان کا کام مخصوص نالیوں کے ذریعے گردے میں داخل ہونے والے خون کو چھاننا اور اسے دوبارہ خون کے نظام میں شامل کرنا ہوتا ہے۔

اس عمل کے دوران گردے خون میں شامل مختلف نمکیات، شکر، پروٹین اور پانی کی مقدار میں توازن بھی برقرار رکھتے ہیں۔ یعنی انسانی جسم کی ضرورت کے مطابق نمکیات اور پانی خون میں واپس جانے دیتے ہیں اور ان کی زائد مقدار کو پیشاب کی شکل میں جسم سے خارج کردیتے ہیں، لیکن پروٹین اور شکر مکمل طور پر واپس چلے جاتے ہیں۔

گردے ہمارے جسم کا وہ اہم ترین عضو ہیں جو نہ صرف خون کے اجزائے ترکیبی کو متوازن رکھتے ہیں بلکہ خون کے دباؤ کا معیار بھی برقرار رکھتے ہیں۔ گردوں کی صحت اور خون کی بہتر صفائی کے لیے پانی کی مناسب مقدار اور نمکیات بھی ضروری ہیں۔ ہماری غذاؤں میں مختلف اقسام کا نمک پایا جاتا ہے جن کا جسم میں توازن گردوں ہی کی بدولت برقرار رہتا ہے۔ اسی طرح ہمارے خون کے خلیے (RBC ) میں ہیموگلوبن نامی کیمیا ہوتا ہے جس کے ذریعے آکسیجن جسم کے کونے کونے تک جاتی ہے۔

گردے Erthroprotin نامی کیمیا بناتے ہیں جو RBC کی نشوونما اور صحت کے ضامن ہوتے ہیں۔ ان کی کمی سے خون کی کمی واقع ہوجاتی ہے۔ انسانی جسم کی عمارت ہڈیوں پر کھڑی ہوتی ہے۔ ان ہڈیوں کو کیلشیم اور وٹامن ڈی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ وٹامنز ہماری آنتوں سے جذب ہوکر گردے میں آتے ہیں اور یہی اعضا انہیں ہڈیوں کی نشوونما کرنے کے قابل بناتے ہیں۔

بلڈ پریشر یا خون کے دباؤ کا کنٹرول بھی گردے کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ گردہ ایک ہارمون بناتا ہے جو خون کی نالیوں کو مستحکم رکھتا ہے۔ اس ہارمون کی زیادتی بلڈ پریشر بڑھا دیتی ہے۔ گردے کے وہ امراض جو اس کے فعل کو متأثر کرکے ہماری زندگی کے لیے مسائل پیدا کردیتے ہیں ان میں نیفرائٹس (Nephrotic) یعنی گردوں کا متورم ہونا، بلڈ پریشر، شوگر، مختلف نوعیت کے انفیکشنز، گردے کی پتھریاں وغیرہ شامل ہیں۔

The post موٹاپے کی وجہ سے گردوں کے امراض بڑھ رہے ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.

زبانوں کے بارے میں دلچسپ حقائق

$
0
0

انسان روحانی و بدنی لحاظ سے تمام تر کائناتی مخلوقات پر فضیلت رکھتا ہے اور اس کی سب سے اہم صلاحیت اس کا مکمل اظہارخیال و رائے ہے جو کہ وہ گفتگو کی شکل میں بول کر کرتا ہے۔ اسے ’’زبان‘‘ کہتے ہیں اور ہر وہ زبان جو کہ انسان کو اس کی ماں کی گود سے ورثے میں ملتی ہے یعنی ’’مادری زبان‘‘، وہ اسے سب سے زیادہ پیاری اور قابل احترام ہوتی ہے۔

علم کے حصول کے لیے بھی ذریعہ تعلیم کا اہم اوزار زبان ہے اور خواندگی کے حوالے سے خواندہ کی تعریف بھی یہی ہے کہ کوئی شخص کسی ایک زبان میں جملہ پڑھ سکتا ہو اور سادہ سی تحریر لکھ سکے اس کا شمار پڑھے لکھے لوگوں میں ہوتا ہے۔ زبان نہ صرف علم حاصل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے بل کہ ہمارے خیالات و نظریات کو دوسروں تک منتقل کرنے میں کلیدی نوعیت کی حامل ہے۔

اشاروں کی زبان جو گونگے اور بہرے لوگ استعمال کرتے ہیں سے لی کر تصاویر (مصّوری) اور باقاعدہ رائج الوقت زبانوں تک کے وسیلے (میڈیمز) ہمارے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ زبانیں دلوں کو فتح کرتی اور جوڑتی ہیں۔ دنیا کی چھے ارب سے زاید آبادی میں ہزاروں زبانوں نے جنم لیا اور فروغ پایا ہے اور مختلف علاقائی و بین الاقوامی سطح پر ہزاروں زبانیں آج بولی جارہی ہیں۔

دنیا میں بولی جانے والی بہت سی زبانیں ختم ہوچکی ہیں جنہیں ’’مردہ زبانیں‘‘ کہتے ہیں۔ زبانوں کے فنا ہونے کا عمل ابھی بھی بڑی سرعت کے ساتھ جاری وساری ہے یا زبانیں معدومیت کے خطرات سے دوچار ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔

آج مواصلات کی ترقی اور انٹرنیٹ کی دنیا میں دنیا کی 100 سے زاید بڑی زبانیں جن میں ہماری ’’اردو‘‘ بھی سرفہرست ہے، بڑی کام یابی سے معلومات اور سماجی رابطوں میں استعمال ہورہی ہیں۔ کم ازکم ان زبانوں کے مستقبل کو روشن کہا جاسکتا ہے اور یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اب نیٹ پر سرگرم آج کی زندہ زبانیں معدومیت کے خطرے سے دوچار نہیں ہوسکتیں، تاوقت یہ کہ انٹرنیٹ کا جال (ویبس) قائم و دائم رہے، جو زبانوں کو مردہ ہونے سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

ہم سب ایک نہ ایک زبان بولتے ہیں۔ ہم میں سے کچھ ایک سے زاید زبانیں بولنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ ایسے بھی ذہین افراد ہوتے ہیں جو کہ درجن بھر زبانیں نہایت مہارت سے سمجھ اور بول سکتے ہیں۔ روزمرہ زندگی میں زبانیں نہ صرف ہماری بہت مدد کرتی ہیں بل کہ یہ مصیبت کے وقت میں ہمیں بچاتی بھی ہیں۔ اس تحریر میں دنیا میں زبانوں سے متعلق کچھ دل چسپ و حیرت انگیز حقائق سامنے لائے گئے ہیں، جو کہ UIC (Language for Liveing) نے فراہم کیے ہیں۔ امید ہے کہ قارئین کے لیے یہ معلومات اور دل چسپی کی حامل ہوں گے۔

٭ایک اندازے کے مطابق ساری دنیا میں 7 ہزار کے لگ بھگ زبانیں رائج ہیں۔

٭ چینی زبان کے کُل حُروف کی تعداد 50,000 ہے اور اخباری ضرورت کے لیے 2000 ہزار حروف پر مشتمل معلومات درکار ہوتی ہیں۔

٭ براعظم ایشیا میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 2200 کے لگ بھگ ہے۔

٭ دنیا کی کل آبادی کا 12.44 فی صد حصہ چینی “Mandarin” زبان بولتا ہے۔

٭ لیکسمبرگ ایسا ملک ہے جہاں بچوں کو تین زبانیں پڑھائی جاتی ہیں، جن کا تناسب 50 فی صد ہے۔ یہ قومی زبان لیکسمبرگش کے ساتھ پڑھائی جاتی ہیں، جن میں فرانسیسی، جرمنی اور انگریزی شامل ہے۔

٭ دنیا کی کل آبادی کا تناسب 1/4 ہے جو کہ انگریزی زبان کی کچھ نہ کچھ معلومات رکھتا ہے۔

٭ فرانسیسی زبان میں حرف o کے لیے13 تلفظ رائج ہیں۔

٭بوٹسوانا میں بولی جانے والی xoo ایک ایسی زبان ہے جس کے حروف تہجی پانچ کلکس (Clicks ) والی آوازوں پر بنائے گئے ہیں اور 17 سُروں پر۔

٭ عالمی درجہ بندی کی 2400 کلاس کی زبانیں ایسی ہیں جو کہ خطرے میں گھری ہیں۔

٭ دنیا میں زبانوں کے فنا ہونے کا عمل نہایت تیزی سے ہورہا ہے اور ہر دو ہفتے یعنی 14 دنوں میں ایک زبان مردہ ہوجاتی ہے۔

٭ اس وقت دنیا میں 231زبانیں ایسی ہیں جوکہ مکمل طور پر معدوم ہوچکی ہیں۔

٭ سخت موسمی حالات اور علاقے زبانوں کے لیے ’’ہاٹ اسپاٹس‘‘ ہیں۔ یہ زبانوں کے لیے سنگین خطرات رکھتے ہیں، جن میں مشرقی سائیبیریا، شمالی مغربی پیسیفک، شمالی امریکا کا Plateau اور شمالی آسٹریلوی علاقے شامل ہیں۔

٭ میکسیکو کی زبان جسے آیان پینیسو ( Ayapaneco ) کہا جاتا ہے فنا کے خطرے سے دوچار ہے، جس کی دل چسپ وجہ یہ ہے کہ اس کے بولنے والے محض دو اشخاص باقی بچے ہیں اور انہوں نے بھی آپس میں بولنے سے انکار کردیا ہے۔

٭ برطانیہ کے مشہورو معروف مصنف و اسکالر جے آر۔آر۔ ٹولکینِTolkien)   (J.R.R. بچوں کی کہانیوں کے حوالے سے زیادہ شہرت رکھتے ہیں۔ ان میں تخیلاتی قوت و جنگی معرکہ خیزی سے بھرپور کہانی ’’لارڈ آف دی رنگز‘‘ بھی شامل ہے، جس کی کہانیوں پر مقبول عام فلمیں بھی بنائی جاچکی ہیں۔ اس کی کہانیوں میں مصنف نے 12 تخیلاتی و افسانوی نوعیت کی زبانوں کا ذکر کیا ہے جن میں قیونیا(Quenya) اور اسکنڈیرن (Skindarin) سب سے زیادہ نمایاں ہیں۔

٭دنیا بھر کے 5 لاکھ سے 20 لاکھ لوگ مصنوعی زبان اسپرانتو بولتے اور سمجھتے ہیں، جسے 19 ویں صدی میں پولینڈ کے ماہرلسّانیات ڈاکٹر زامن ہوف نے ایجاد کیا تھا۔ 1960 کے عشرے میں دو فیچر فلموں کو مکمل طور پر اسپرانتو زبان میں بنایا جاچکا ہے۔

٭سائنس فکشن کی شاہ کار کلاسک ٹی وی سیریز ’’دی اسٹارٹریک‘‘ کی کہانی میں دوسرے سیّاروں کی اجنبی مخلوق کو ایک زبان بولتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ وہ کلنگن(Klingon) تھی۔ اس فرضی یا مصنوعی زبان کو ایک شخص مارک اوکرینڈ (Mark Okrand) نے تخلیق کیا تھا، جو کہ لسّانیات کا استاد تھا اور کیلی فورنیا کی ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔

٭ ٹی وی سیریز اسٹارٹریک کی کہانی میں دکھائی گئی خلائی مخلوق کی زبان ’’کلنگن‘‘ کو حقیقی زندگی میں ایک شخص نے آزمانے کے لیے اس کا عملی تجربہ کیا کہ انسان پر اس کے کیا اثرات ہوسکتے ہیں۔ یہ شخص آرمڈ اسپئیرز (Armond Speers) تھا، جو اپنے بیٹے کی پیدائش کے بعد سے تین سال تک اس سے یہ زبان بولتا رہا۔ اگرچہ بچے کا کلنگن کا لب و لہجہ بہت عمدہ رہا، لیکن اُس نے اِس زبان میں دل چسپی نہیں لی، جس کے سبب وہ تین سال تک یہ زبان بولنے کے باوجود اسے بھول چکا تھا۔ تب اس کی ماں نے اسے انگلش سکھائی۔

٭ ایسی ریاست کو جس میں مختلف جغرافیائی علاقوں اور قومیتوں کے گروہ شامل ہوں ’’مائیکرونیشیا ‘‘ کہا جاتا ہے اور اس کے باشندوں کو ’’مائیکرونیشین‘‘ کہتے ہیں۔ ان کی اپنی زبان ہوتی ہے، کیوںکہ زبانیں بہت ہی مختصر ہوتی ہیں اسی لیے زمانے کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ انہیں ان کے اعلان کے باوجود دنیا تسلیم نہیں کرتی۔ ایک ایسی ہی ریاست امریکا میں رہی ہے جسے ’’کنگڈم آف ٹلوسا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس ریاست کی زبان ’’ٹلوسین‘‘ تھی، جس میں 35 ہزار الفاظ شامل تھے۔ دل چسپ طور پر ریاست کی ٭مصنوعی زبان ’’ ٹلوسین‘‘ ایک چودہ سالہ امریکی لڑکے رابرٹ بین میڈیسن نے ترتیب دی تھی۔ اس نے سارا کام 1979 ء میں اپنے گھر کے بیڈ روم میں رہ کر مکمل کیا تھا اور یہ اس کے گھر تک ہی محدود رہا۔ رابرٹ میڈیسن کا تعلق امریکی شہر ملویکی(Milwauki) سے ہے۔

٭ 1990 ء میں سامنے آنے والے بچوں کے کھلونے “Furby” کی آفیشل زبان فُربش(Furbish) رکھی گئی تھی۔

٭ یورپی یونین سے منسلک 28 ممالک کی سرکاری اور مستعمل زبانوں کی تعداد 24 ہے۔

٭ اقوام متحدہ کا مقبول و معروف انسانی حقوق کا منشور جو کہ 60 سال پہلے منظور کیا گیا تھا، ایک ایسی دستاویز ہے جو کہ دنیا کی 300 بڑی زبانوں میں ترجمہ کرکے شائع کی جاچکی ہے۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ ترجمہ ہونے والی دستاویز ہے۔

٭ اقوام متحدہ دنیا کی ترجمانی کے لیے چھے سرکاری زبانیں رکھتا ہے، جن میں عربی، چینی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی شامل ہیں۔

٭ دنیا کی جس زبان میںسب سے زیادہ تعداد میں کتابیں ترجمہ ہوچکی ہیں وہ جرمن زبان ہے، اس کے بعد ہسپانوی اور فرانسیسی کا نمبر آتا ہے۔ اسی طرح انگریزی وہ زبان ہے جس سے کے گئے کتابوں کے ترجموں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، دوسرے نمبر پر فرانسیسی اور تیسرے نمبر پر جرمن کی کتابیں ہیں۔

٭’’بائبل‘‘ اب تک دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں شائع ہوچکی ہے اور 2454 زبانوں میں بائبل یا اس کے حصے دست یاب ہیں، جب کہ قرآن مجید دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے اور دنیا کی تمام بڑی زبانوں میں قرآن پاک کے ترجمے دست یاب ہیں۔

٭ بائبل کے بعد جو کتاب سب سے زیادہ مختلف زبانوں میں چھپ چکی اور دست یاب ہے وہ بچوں کی کتاب ’’پنوچیہو‘‘ (Pinocchio) ہے۔

٭ اگاتھا کرسٹی وہ مصّنفہ ہیں جن کی تخلیقات کو سب سے زیادہ زبانوں میں ترجمہ کیا جاچکا ہے۔

٭ پاپا نیوگنی(Papua New Guinea) جزیرے میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 830 ہے۔

٭ بعض زبانوں کے مابین طویل مواصلاتی دوری کے باوجود ان میں حیرت انگیز مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہ ایک نظریہ ہے جسے جاپانی اور ایک خالص امریکی قبیلہ کی زبان ’’زونی‘‘ کے درمیان نوٹ کیا جاسکتا ہے، جن میں ڈی این اے(DNA) جیسی وراثتی مماثلت موجود ہے۔

٭ Basque زبان فرانس اور اسپین کے درمیان پھیلے پہاڑی سلسلے “Pyrenees” کے اطراف بولی جاتی ہے۔ یہ یورپ کی وہ واحد زبان ہے جو کسی بھی یورپی زبان سے یکسر لاتعلق ہے۔

٭ ایک بھارتی شخص کا ریکارڈشدہ گانا جو کہ دو سی ڈی والی پیکنگ میں جاری کیا گیا تھا اسے دنیا کی 125زبانوں میں ڈبنگ کرکے ریکارڈ کیا جاچکا ہے، جو کہ موسیقی کا منفرد اعزاز ہے۔

٭ ’’لیکوئیڈ بلیو بینڈ‘‘ کا گایا ہوا ایک گیت “Earth Passort” بھی ایک ریکارڈ بن چکا ہے، جسے دنیا کی سب سے زیادہ زبانوں میں گایا جاچکا ہے۔

٭ یورپ کا منفرد گیتوں کا مقابلہ جو کہ یورپ کے نمبر ون گانے کا فیصلہ کرتا ہے ’’یوروویژن‘‘ ہے جسمیں تمام یورپی گلوکار اپنی قومی زبانوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں اور پرفارم کرتے ہیں۔ اب تک انگریزی زبان میں گائے ہوئے گیتوں نے کسی اور یورپی زبان کے مدمقابل سب سے زیادہ مقابلوں میں کام یابیاں سمیٹی ہیں جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

٭آج تک دنیا میں جو تحریر سب سے زیادہ قدیم ہونے کا اعزاز رکھتی ہے وہ 4500 قبل از مسیح کی ایک تحریر ہے۔ چینی زبان کی یہ تحریر “Yangshao” کی شاعری پر مبنی ہے۔

٭سب سے کم حروف تہجی والی زبان ’’روٹوکاس ‘‘ ہے جس کے حروف گیارہ سے بارہ ہیں۔

٭سب سے زیادہ حروف تہجی کمبوڈیا کی زبان خِیمرKhmer) ) میں ہیں، جن کی تعداد  74 ہے۔

٭” “Cryptophasia جڑواں لوگوں کی زبان کو کہتے ہیں۔ یہ ایسی زبان ہوتی ہے جو جڑواں) Twins ( لوگوں کے درمیان وجود میں آتی ہے اور فروغ پاتی ہے۔

٭ انگریزی لفظ ڈورڈ (Dord) کے معنی کثافت یا گھنے پن کے ہیں۔ یہ دراصل کوئی لفظ نہیں ہے۔ یہ لفظ غلطی سے مریم ویبسٹر ڈکشنری میں شامل ہوگیا اور اس غلطی کا 1939 ء میں پتا چلا۔

٭ رومن کیتھولک عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس (موجودہ پوپ) نے اپنے ہسپانوی اکاؤنٹ سے نو زبانوں میں ٹوئیٹس کرکے ریکارڈ قائم کیا۔

٭جن دو زبانوں کو ایک ووٹنگ کے ذریعے گریجویٹس کے لیے بہترین قرار دیا گیا ہے وہ جرمن اور فرانسیسی زبانیں ہیں۔ یہ سیکھنے کے عمل سے لے کر ملازمت کے حصول تک طالب علم کی مدد و راہ نمائی کرتی ہیں۔

٭ ایک کتاب ووئینچ “The Voynich Book” جس کا اسکرپٹ 1400 سال پرانا ہے۔ طویل عرصے سے جاری کوششوں کے باوجود اسے سمجھا نہیں جاسکا ہے اور اس کی زبان اب تک نامعلوم ہے۔

٭ایک تحقیقی مطالعہ کا حاصل یہ ہے کہ اگر نوزائیدہ بچوں کو ان کے ابتدائی چند ماہ کے دوران غیرملکی زبانیں سنائی جائیں تو اس کا نہایت مثبت اثر ہوتا ہے اور بعد کی زندگی میں ان کے لیے اجنبی زبانیں سیکھنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔

٭دنیا کی لب و لہجہ و آواز کا اتار چڑھاؤ(ACCENTS) رکھنے اور بولی جانے والی کئی زبانیں ہیں جن کا اس کے علاوہ علامتی زبان (Sign language) میں بھی اظہار ہوتا ہے۔ جہاں زبانی یا بولنے سے اطلاعات کی رسائی ممکن نہ ہو یا مافی الضمیر مناسب طریقے سے بیان نہ کیا جاسکے، وہاں ’’سائن لینگویج‘‘ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ علامتی زبان کا اظہار بازوؤں اور ہاتھوں کی حرکات سے بخوبی ہوتا ہے، جیسے کہ بے وفائی کے اظہار کے لیے کندھے اچکانا یا چہرے کو بگاڑ کر دکھانا۔ اس کی بہترین مثال گونگے اور بہروں کی ہاتھوں کے اشاروں کے ذریعے گفتگو ہے۔ دوسرے طریقے میں رقص کے ذریعے بھی علامتی بولی کو بہ خوبی بیان کیا اور سمجھا جاتا ہے۔ رقص جسمانی اعضاء کی شاعری ہے جب کہ موسیقی کو اس کی مخصوص زبان ’’میوزیکل نوٹیشن‘‘ میں لکھا جاتاہے، جہاں مختلف سُروں کی ترتیب کو ’’رِدھم‘‘ میں سمویا جاتا ہے۔

٭ریاست ہائے متحدہ امریکا کی غالب اکثریت امریکن انگلش بولتی ہے اس کے باوجود یوایس اے کی کوئی سرکاری زبان نہیں ہے۔

٭جنوبی افریقہ وہ ملک ہے جہاں بیک وقت 11 سرکاری زبانیں رائج ہیں، جن میں انگریزی کے ساتھ مقامی افریقی زبانیں شامل ہیں۔

٭ لسّانیات کی اصطلاح میں ایسے شخص کو پولی گلاٹ(Polyglot) کہا جاتا ہے جوکہ ایک سے زاید زبانوں میں بول اور لکھ پڑھ سکتا ہو۔

٭یورپ کی سب سے قدیم زبان لاطینی ہے، جس کے حروف تہجی (ABC)کو تقریباً ساری یورپی زبانوں میں اپنی آوازوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔

The post زبانوں کے بارے میں دلچسپ حقائق appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4760 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>