Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4754 articles
Browse latest View live

سال 2014؛ واقعات، سانحات، حادثات

$
0
0

وقت، گزرتا وقت اپنے پیچھے یادیں چھوڑ جاتا ہے۔ واقعات سے جنم لیتی تلخ و شیریں یادیں۔ پر پاکستانی بدقسمت واقع ہوئے ہیں کہ اُن کی یادوں میں تلخی کچھ زیادہ۔ ترشی کا غلبہ۔ مٹھاس عنقا ہوئی۔ کرب باقی رہا۔

عالمی دنیا پر نظر ڈالیں، تو فضائی حادثات (بالخصوص ملائشین طیاروں سے جڑے قصے)، یوکرائن کے سبب روس اور امریکا کے درمیان کشیدگی، اسرائیلی جارحیت جیسے واقعات رونما ہوئے، تاہم پاکستان کے لیے 2014 پر سرخی چھائی ہے۔ دہشت گردی اور مزید دہشت گردی۔

اس تحریر میں رواں برس کے اہم واقعات کا ماہ بہ ماہ جائزہ لیا گیا ہے:

جنوری

٭یکم جنوری: یورو کے تاج میں ایک اور پنکھ

شمال یورپی ریاست، لٹویا نے یورو کو سرکاری کرنسی کا درجہ دے دیا۔ لٹویا Eurozone کا حصہ بننے والا 18 واں ملک ٹھیرا۔

٭  9 جنوری: ناقابل فراموش قربانی

ہنگو ڈسٹرکٹ کا چودہ سالہ طالب علم، اعتزاز احسن خودکش بمبار کی راہ میں آہنی دیوار بن گیا۔ اپنی جان کی پروا کیے بغیر اُس نے اسکول میں داخل ہونے دہشت گرد کو روکنے کی کوشش کی۔ اس دوران دھماکا ہوگیا۔ اعتراز شدید زخمی ہوا، اور اسپتال میں دم توڑ گیا۔ واقعے کی ذمے داری عسکریت پسندوں نے قبول کی۔ اعتزاز کی قربانی نے ملک گیر توجہ حاصل کی۔ ٹوئٹر پر  #onemillionaitzaz کا ٹرینڈ شروع ہوگیا۔ زندگی کے تمام طبقات نے اُسے شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ اس جرأت مند نوجوان کو ستارۂ شجاعت سے نوازنے کا اعلان کیا گیا۔

٭  9 جنوری: سفارتی کشیدگی

دسمبر 2013 میں ویزا فراڈ کیس میں گرفتار ہونے والی ہندوستانی ڈپٹی قونصل جنرل، Devyani Khobragade کو امریکا نے سفارتی استثنا دیتے ہوئے رہا کردیا۔ اُنھیں ایک ملازم کے ویزے کے لیے غلط بیانی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اِس واقعے سے ہندوستان اور امریکا کے سفارتی تعلقات کشیدہ ہوگئے۔ ہندوستان نے الزام لگایا کہ تفتیش کے دوران اُن کی اہل کار کی تذلیل کی گئی۔ سفارتی استثنا کا مدعا بھی اٹھایا گیا۔ ابتدا میں امریکا نے کسی بھی قسم کے استثنا سے انکار کیا، مگر آخر اُنھیں ہندوستان روانہ کر دیا گیا۔

٭  10 جنوری: کراچی کا اسلم

کراچی کے علاقے عیسیٰ نگری میں کار خودکش حملے میں سنیئر پولیس افسر، چوہدری اسلم اپنے ایک محافظ اور ڈرائیور سمیت ہلاک ہوگئے۔ واقعے کی ذمے داری تحریک طالبان نے قبول کی۔ حکومت نے اس سانحے کو بھاری نقصان قرار دیا۔ چوہدری اسلم کو کراچی میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں نے شہرت بخشی۔ اُن کے ناقدین کی بھی کمی نہیں۔

فروری

٭  پہلا ہفتہ: قاتل لہر

ایبولا وائرس نے مغربی افریقا میں وبائی شکل اختیار کرلی۔ ڈیڑھ لاکھ افراد کو متاثر کرنے والے اس قاتل وائرس نے چھے ہزار افراد کی جان لے لی۔ سب سے زیادہ لائبیریا اور سیرالیون کی ریاستیں متاثر ہوئیں، جہاں آنے والے مہینوں میں ہلاکتوں کی تعداد، مجموعی طور پر، 14 ہزار تک جا پہنچی۔ سائنس داں اس لہر کو ایبولا کا گھاتک ترین حملہ خیال کرتے ہیں۔ سال کے آخر تک اس وائرس پر قابو نہیں پایاجاسکا۔

٭  7 تا 23 فروری: روس کا پہلا اولمپک

روسی شہر، سوچی میں 2014 سرمائی اولمپکس کا انعقاد۔ یہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد روسی سرزمین پر ہونے والا پہلا اولمپک تھا۔ ان مقابلوں میں میزبان ملک 13 سنہری تمغے حاصل کرکے اول نمبر پر رہا۔ ناروے نے 11 اور کینیڈا نے 10 گولڈ میڈل حاصل کیے۔ پورا ایونٹ تنازعات میں گھرا رہا۔

٭  11 فروری: سنیما نشانے پر

پشاور کے ایک سنیما میں گرینڈ کے حملے میں 11 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ آنے والے دنوں میں بھی پشاور کے سنیما گھروں کو نشانہ بنا گیا۔

٭  13 فروری: جب موت ہی علاج ٹھیری

بیلجیم نے ناقابل علاج امراض میں مبتلا، کسی بھی عمر کے افراد کو تکلیف دیے بغیر، طبی طریقے سے ہلاک کرنے کی قانونی اجازت دے دی۔ Euthanasia یا بے ایذا موت کی تحریک دنیا کے کئی ممالک میں جاری ہے۔ البتہ بیلجیم اِسے قانون کی شکل دینے والے پہلا ملک ٹھیرا۔

٭  17 فروری: مشرف کٹہرے میں

سابق صدر، پرویز مشرف پہلی بار اپنے خلاف جاری مقدمے میں سول کورٹ کے سامنے پیش ہوئے۔ اس واقعے نے خصوصی توجہ حاصل کی۔ آنے والے دنوں میں اس مقدمے میں کئی ڈرامائی موڑ آئے۔

٭   22 فروری: یوکرائن کا بحران

یوکرائن کے شہر، کیف میں جاری خانہ جنگی کے بعد، جس میں سو سے زاید افراد ہلاک ہوئے، پارلیمینٹ نے صدر وکٹوریانوکویچ کو ہٹا کر اولکساندرا تور چیخوف کو نیا صدر منتخب کرلیا، جنھوں نے جون میں اگلے صدر پیٹرو پروشکنو کے حلف لینے تک یہ ذمے داری نبھائی۔ پورے برس یوکرائن انتشار کا شکار رہا، جس نے عالمی سطح پر بھی کشیدگی کو جنم دیا۔

مارچ

٭  یکم مارچ: گولیوں کے قطرے

خیبر پختون خواہ میں پولیو ٹیم پر ایک اور گھاتک حملہ۔ دس افراد اپنی جان سے گئے۔ اِس وحشت ناک عمل کی بھرپور مذمت کی گئی، دعوے بھی ہوئے، مگر کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی پولیوٹیموں پر حملے ہوئے اور کئی پولیو ورکرز کو زندگی بانٹنے کے جرم میں شہید کردیا گیا۔

٭  3 مارچ: انصاف قتل

اسلام آباد کچہری خودکش دھماکوں اور فائرنگ سے گونج اٹھی۔ اس ہول ناک واقعے میں ایڈیشنل جج، رفاقت اعوان اور 4 وکلا سمیت 11 افراد شہید اور 25 شدید زخمی ہوئے۔ اس حملے کی ذمے داری غیرمعروف تنظیم، احرارالہند نے قبول کی۔ تحریک طالبان پاکستان نے اس سے لاتعلقی ظاہر کی۔ واقعہ اس وقت ہوا، جب حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی بازگشت سنائی دے رہی تھی۔ اس واقعے کے بعد شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔

٭  5 مارچ: چاویز کے دیس سے

ہیوگوچاویز کی موت کے بعد وینزویلا کے صدر کا منصب سنبھالنے والے، نیکلس مادورو نے وسطی امریکی ریاست، پاناما سے تمام سفارتی تعلقات منقطع کر لیے۔ نیکلس مادورو کا الزام تھا کہ پاناما سرکار وینزویلا کے خلاف عالمی سازشوں میں شریک ہے۔

٭  8 مارچ: زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا

ملائیشین ایئرلائن کی فلائٹ 370، جس میں 239 مسافر سوار تھے، کوالالمپور سے بیجنگ جاتے ہوئے پُراسرار طور پر لاپتا ہوگئی۔ اِس گم شدگی نے کئی سازشی نظریات کو جنم دیا۔ آخری پیغام کی وصولی کے وقت جہاز بحیرۂ جنوبی چین پر پرواز کر رہا تھا۔ جہاز کی تلاش کی عالمی کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ عام خیال ہے کہ اس بدقسمت جہاز کا ملبہ بحرہند میں گم ہوگیا۔

٭  22  مارچ: جُھلسا ہوا سانحہ

بلوچستان کی تحصیل حَب میں دو مسافر بسوں اور آئل ٹینکرز کے تصادم میں عورتوں اور بچوں سمیت 38 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ جھلسنے کے باعث کئی لاشیں ناقابلِ شناخت ہوگئیں۔ حادثے کے بعد گاڑیوں میں رکھے ڈیزل کے ڈرم دھماکے سے پھٹ گئے، اور آگ بھڑک اٹھی۔ واقعے کے بعد ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی اور امدادی ٹیموں کے درمیان رابطے کا فقدان نظر آیا۔

٭  24 مارچ: روس امریکا تنازعہ

برطانیہ، امریکا، جرمنی، فرانس، جاپان اور کینیڈا نے روس کی جی 8 کی رکنیت عارضی طور پر معطل کردی۔ اس کا سبب یوکرائن میں روس کا بڑھتا کردار ٹھیرا۔ روسی ردعمل میں سردمہری عیاں تھی۔

٭  31 مارچ: ملزم حکومت سے رجوع کریں

خصوصی عدالت نے غداری کیس میں سابق صدر، پرویز مشرف پر فرد جرم عاید کر دی۔ عدالت کی جانب سے ملزم کو اپنا نام ای سی ایل سے نکلوانے کے لیے حکومت سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا گیا۔

اپریل

٭  5 اپریل: ایک اور متنازعہ چناؤ

افغانستان میں صدارتی انتخابات کا آغاز ہوگیا۔ انتخابات کا دوسرا مرحلہ 14 جون کو منعقد ہوا۔ توقع کی جارہی تھی کہ یہ افغانستان میں جمہوری دور کا حقیقی آغاز ثابت ہوگیا، مگر  جلد ہی یہ تنازعات کے گرداب میں پھنس گیا۔ پہلے مرحلے میں عبداﷲ عبداﷲ کو اپنے مخالف اشرف غنی پر برتری حاصل تھی، دوسرے مرحلے کے بعد 22 جولائی کو حتمی نتائج کا اعلان ہونا تھا، مگر دھاندلی کے الزامات نے ماحول گرما دیا۔ امریکا کو مداخلت کرنی پڑی۔ ستمبر میں الیکشن کمیشن نے اشرف غنی کو فاتح قرار دیا، جنھوں نے 29 ستمبر کو صدارت کا منصب سنبھالا۔

٭  8 اپریل: ٹرین دھماکا

کوئٹہ سے پنڈی جانے والی جعفر ایکسپریس میں سبی کے مقام پر بم دھماکا ہوا، جس میں 17 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ دھماکا ٹرین کے سبی جنکشن پر پہنچتے ہی ہوا۔ دھماکا خیز مواد بوگی کے بیت الخلا میں رکھا گیا تھا۔

٭  7 اپریل: اب کی بار، مودی سرکار

آسام اور تری پورہ میں ہونے والی پولنگ سے ہندوستانی انتخابات کے پہلے مرحلے کا آغاز ہوگیا۔ یہ انتخاب 12 مئی کو بنگال اور اترپردیش میں اختتام کو پہنچا۔ 16 مئی کو نتائج کا اعلان ہوا۔ نریندر مودی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے واضح فتح حاصل کی۔ کانگریس کو بدترین شکست ہوئی۔ عام آدمی پارٹی سے وابستہ توقعات بھی پوری نہیں ہوئیں۔ 26 مئی کو نریندر مودی نے بہ طور وزیراعظم اپنی کابینہ کے ساتھ حلف اٹھایا۔

٭  9 اپریل: سبزے پر سرخ چادر

اسلام آباد سبزی منڈی میں ہونے والے دھماکے میں 25 افراد ہلاک ہوگئے۔ 110 افراد شدید زخمی ہوئے۔ بم امرود کی پیٹی میں چُھپایا گیا تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے سبزی منڈی اور گذشتہ روز سبی کے مقام پر ہونے والے دھماکوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے بے گناہوں کے قتل کی مذمت کی، اور اسے بیرونی سازشوں کا نتیجہ قرار دیا۔

٭  14 اپریل: عِلم دشمنی کی تازہ لہر

ایک عرصے سے اندرونی خلفشار کا شکار نائجیریا ایک اور سانحے کی زد میں آگیا۔ شدت پسند تنظیم، بوکوحرام نے 276 طالبات کو اغوا کرکے یرغمال بنالیا۔ یہ تنظیم مغربی تعلیم کے خلاف برسرپیکار ہے۔ واقعے نے عالمی توجہ حاصل کی۔ لڑکیوں کی بازیابی کی ابتدائی کوششوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

٭  16 اپریل: سمندر میں موت

جنوبی کوریا کا MS Sewol نامی بحری جہاز غرقاب ہوگیا۔ اس سانحے میں 304 افراد اپنی جان سے گئے، جس میں اکثریت طلبا کی تھی۔ تحقیقات کی مطابق اس کا سبب اوور لوڈنگ اور عملے کی غلطی تھی۔ امدادی کارروائی میں سقم کا موضوع بھی ایک عرصے زیر بحث رہا۔

مئی

٭   5 مئی: بوکو حرام کا ایک اور وار

نائجیرین شدت پسند تنظیم، بوکو حرام نے ضلع برنو کے جڑواں شہروں Gamboru اور Ngala پر دھاوا بول دیا۔ بارہ گھنٹے تک جاری رہنے والی اس ہول ناک کارروائی میں 300 سے زاید لوگ ہلاک ہوئے، اور شہر کا بڑا حصہ تباہ ہوگیا۔ واقعے کے بعد بحث چھڑگئی کہ نائجیرین حکومت کی گرفت کم زور ہورہی ہے۔

٭  20 مئی: موت کا رقص

نائجیریا کے شہر جو میں ہونے والے دو ہول ناک بم دھماکوں میں 118 شہری لقمۂ اجل بن گئے۔

٭  22 مئی: تھائی انقلاب

اپنی خوش ذایقہ ڈشز کے لیے مشہور تھائی لینڈ، جو ایک عرصے سے خلفشار کا شکار تھا، ایک اور فوجی انقلاب کی زد میں آگیا۔ فوج نے نگراں حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کی باگ ڈورسنبھال لی۔

٭  26 مئی: ثناء خوانِ تقدیس مشرق کہاں ہیں

لاہور میں فرازنہ پروین نامی ایک 25 سالہ خاتون غیرت کے نام پر قتل کردی گئی۔ یہ افسوس ناک واقعہ ہائی کورٹ کے باہر پیش آیا۔ پولیس کے مطابق قتل میں مقتولہ کا باپ، دو بھائی اور سابق منگیتر ملوث تھا۔ مقتولہ حاملہ تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ قتل کے الزام میں 12 افراد کو گرفتار کیا گیا۔

٭   27 مئی: مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی

بھارتی ریاست اترپردیش کے ضلع بدایوں میں دو نابالغ لڑکیوں کو آبروریزی کے بعد مبینہ طور پر قتل کردیا گیا۔ اس ہول ناک واقعے پر سول سوسائٹی سمیت پوری دنیا کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ واضح رہے کہ 2012 میں دہلی ریپ کیس کے عورتوں کے تحفظ کے مسئلے نے ملک گیر توجہ حاصل کرلی تھی۔ ہلاک ہونے والی دونوں لڑکیاں آپس میں کزن تھیں۔ وہ رفع حاجت کے لیے کھیتوں میں گئی تھیں۔ اس سانحے کے بعد یہ مطالبہ زور پکڑنے لگا کہ دیہی علاقوں میں، گھروں میں بیت الخلاء قائم کیے جائیں۔ کچھ تفتیش کاروں کا خیال ہے لڑکیوں نے بدنامی کے خوف سے خودکشی کی تھی۔

٭  27 مئی: عمران فاروق کیس

لندن کی میٹروپولیٹن پولیس نے متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما، ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے کیس میں مطلوب دو افراد کی تصاویر جاری کردیں۔ پولیس کے مطابق جس روز ڈاکٹر عمران فاروق کا قتل ہوا، پاکستانی شہریت رکھنے والے یہ دونوں افراد لندن سے سری لنکا روانہ ہوگئے تھے۔

جون

٭  8 جون: کراچی میں قہر

خوف کے عفریت نے کراچی ایئرپورٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ دہشت گردوں کے حملے میں 19 افراد شہید، 26 زخمی ہوئے۔ واقعے میں تیل کے ذخیرے اور کارگو ٹرمینل کو شدید نقصان پہنچا۔ منظر شعلوں اور دھویں سے بھر گیا۔ گردو نواح میں خوف و ہراس پھیل گیا۔ تفصیلات کے مطابق دہشت گرد فوکر گیٹ سے داخل ہوئے تھے، اور مسلسل فائرنگ کرتے ہوئے اولڈ ٹرمینل تک پہنچ گئے۔ واقعے کے بعد تمام پروازیں منسوخ کر دی گئیں۔ آپریشن میں دس دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ تحریک طالبان نے اسے حکیم اﷲ محسود کے قتل کا بدلہ قرار دیا۔ واقعے کا ایک الم ناک پہلو یہ رہا کہ انتظامیہ کی جانب سے آگ میں لپیٹے کولڈ اسٹوریج میں مقید لوگوں کو نظرانداز کر دیا گیا۔ ریسکیو آپریشن تاخیر سے شروع ہوا، جس کی ناکامی باعث کولڈ اسٹوریج میں پناہ لینے والے سات افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ یہ لاشیں واقعے کے 28 گھنٹے بعد نکالی گئیں۔ اس سانحے کا الزام سول ایوی ایشن پر عاید کیا گیا۔

٭  8 جون: زائرین پر حملہ

بلوچستان میں تفتان سرحد کے نزدیک زائرین کے ہوٹل اور بسوں پر ہونے والے دستی بم حملوں میں 23 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ جوابی کارروائی میں ایک حملہ آور ہلاک ہوا۔ یہ زائرین ایران سے لوٹ رہے تھے۔ کالعدم تنظیم، جیش الاسلام نے اس حملے کی ذمے داری قبول کی۔

٭  12 جون: عالمی جنون

برازیل میں منعقدہ فٹ بال ورلڈ کپ کا آغاز ہوگیا۔ اس مقابلے میں جرمنی فاتح ٹھیرا، جس نے ارجنٹینا کو سخت مقابلے میں شکست دے کر یہ اعزاز اپنے نام کیا۔

٭  17 جون: سانحۂ لاہور

لاہور میں پنجاب پولیس اور عوامی تحریک کے کارکنوں میں تصادم نے خونیں شکل اختیار کرلی۔ فائرنگ سے کئی افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ عوامی تحریک نے اس کا الزام پنجاب حکومت پر عاید کیا۔ ڈی چوک پر دھرنے کے دوران اس واقعے کی بازگشت سنائی دیتی رہی۔

جولائی

٭  8 جولائی: اسرائیلی جارحیت

اسرائیل اور حماس کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ گئی۔ آغاز جون میں رونما ہونے والے واقعے سے ہوا، جب اغوا کے بعد تین اسرائیلی نوجوانوں کو قتل کردیا گیا۔ جوابی کارروائی میں، جولائی کے اوائل میں ایک فلسطینی نوجوان قتل کیا گیا۔ اسرائیل نے بربریت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ پر حملہ کر دیا۔ نہتے شہریوں پر سیکڑوں میزائل برسائے گئے۔ اگلے ہفتے زمینی کارروائی کا آغاز ہوا۔ کئی مظلوم فلسطینی نشانہ بنے۔ سات ہفتے تک جاری رہنے والی اس جنگ میں 2,100 فلسطینی ہلاک ہوگئے۔ اسرائیل نے اپنے 71 شہریوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔ اس پورے واقعے میں جہاں اسرائیل کی پُرزور الفاظ میں مذمت کی گئی، وہیں کچھ مسلم ممالک نے حماس کے کردار کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔

٭  17 جولائی: ملائشیا کی فضاؤں میں سوگ کے بادل

ملائشین حکومت کو ایک اور ہول ناک فضائی حادثے کا سامنا کرنا پڑا۔ ملائیشیا کی فضائی کمپنی کے طیارے پر سوار 283 مسافر اور عملے کے 15 ارکان ہلاک ہوگئے۔ اس واقعے نے عالمی طاقتوں کی کشیدگی عیاں کردی۔ تفصیلات کے مطابق ملائیشین ایئرلائنز کی ایمسٹرڈیم سے کوالالمپور جانے والی پرواز یوکرائن کے ہرابو نامی دیہات میں گر کر تباہ ہوگئی۔ یہ علاقہ روسی سرحد سے تقریباً 40 کلومیٹر دور ہے۔ امریکا نے جہاز کو مار گرانے کا دعویٰ کیا۔ یوکرائن کی وزارت داخلہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا۔ واضح رہے کہ یوکرائن میں روسی کردار کو بنیاد بناتے ہوئے امریکا نے اپنے مخالف پر معاشی پابندیاں عاید کر دی تھیں۔ یوکرائنی صدر نے اسے ’’دہشت گردانہ اقدام‘‘ قرار دیا، جب کہ روس نواز باغیوں نے یوکرائنی حکومت پر اس کا الزام عاید کیا۔

٭  24 جولائی: الجزائر کا فضائی حادثہ

الجزائر کی قومی ایئرلائن کا طیارہ پڑوسی ملک مالی میں گر کر تباہ ہوگیا۔ واقعے میں 116 افراد اپنی جان سے گئے۔ حادثے کے اسباب کا ہنوز تعین نہیں ہوسکا۔ اس ضمن میں تحقیقات جاری ہیں۔

٭  29 جولائی : لہریں زندگیاں کھاگئیں

مسرت بھرے لمحات، قہقہے، آرزوئیں اور چہکتی ہوئی آوازیں سمندر کی غصیل اور کف اڑاتی لہروں میں دم توڑتی چلی گئیں۔ وہ عید  کا دوسرا دن تھا، جب ساحلی تفریح گاہ مقتل بنی۔ کلفٹن کی ساحلی پٹی ’سی ویو‘ پر یوں تو روزانہ ہی شہری تفریح کے لیے جاتے ہیں، لیکن موسمِ گرما اور خصوصاً عیدین و دیگر تہواروں پر رش بڑھ جاتا ہے۔ موسمی تغیرات کے باعث سمندر کا مزاج بھی بدلتا رہتا ہے اور پانی چڑھ جاتا ہے، جسے دیکھتے ہوئے حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے پانی میں جانے پر پابندی بھی عاید کی جاتی ہے اور شہریوں کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ سمندر میں نہانے سے گریز کریں، لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ اکثریت غیرذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر احتیاط اور ہدایت کو نظر انداز کر دیتی ہے۔ اس طویل ساحلی پٹی پر خصوصاً نوجوان بپھرے ہوئے سمندر میں دور تک جانے سے گریز نہیں کرتے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہمارے ہاں سمندر سے متعلق انتظامی ادارے شہریوں کو فقط متنبہ کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ ساحلوں پر کوئی مددگار، ماہر تیراک یا غوطہ خور  نظر نہیں آتا، جو ممکنہ حادثے کی صورت میں آگے بڑھے اور کسی زندگی کو محفوظ بنائے، لیکن قصور ہمارا بھی ہے۔ اس سال بھی عیدالفطر کے دوسرے دن سمندر میں نہاتے ہوئے چالیس افراد ڈوب گئے، جن کی لاشیں نکالنے کے لیے پاک بحریہ کا ریسکیو آپریشن چار روز جاری رہا۔ اس کام میں غوطہ خوروں، بوٹس اور ہیلی کاپٹرز کی مدد لی گئی۔ ساحل پر اپنے پیاروں کی یاد میں سینہ پیٹتے، دہائی دیتے اور آنسو بہاتے اہلِ خانہ کو دیکھ کر شاید بے رحم سمندر بھی اپنی سفاکی اور سنگ دلی پر رو پڑا ہو، لیکن وہ کیا کرے کہ یہ عناصر اس کی فطرت میں گوندھے گئے ہیں اور قدرت کے آگے وہ محض بے بس ہے۔

اگست

٭  4 اگست: سجادہ نشین ہلاک

ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں سڑک کے کنارے نصب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے سے نوری دربار کلاچی کے سجادہ نشین، راہ نما تحریک انصاف فقیر جمشید اپنے گن مین سمت ہلاک ہوگئے۔

٭  9 اگست: سفیدی سیاہی میں تبدیل

امریکی ریاست میسوری کے شہر، فرگوسن میں ایک 28 سالہ پولیس افسر، ڈیرن ولسن نے 18 برس کے سیاہ فام نوجوان کو فائرنگ کرکے قتل کر دیا۔ اس واقعے پر سیاہ فام کمیونٹی کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔ تین ماہ تک مقدمہ چلا، جس میں گرینڈ جیوری نے اسے بے گناہ قرار دیا۔ عوام نے عدالتی فیصلہ رد کرتے ہوئے احتجاج کا راستہ اپنایا، جس کے پیش نظر ڈیرن ولسن نے اپنی ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔

٭  10 اگست: پڑوس میں حادثہ

ایرانی شہر، تہران سے اڑان بھرنے والا ایک چھوٹا مسافر طیارہ فنی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہوا گیا۔ اس واقعے میں 39 افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔

٭  15 اگست: حملہ ناکام

کوئٹہ میں سمنگلی اور خالد ایئربیس پر دہشت گردوں کا حملہ ناکام بنا دیا گیا۔ تفصیلات کے مطابق حملہ آور بھاری ہتھیاروں سے لیس تھے، اور حفاظتی باڑ کاٹ کر اڈوں میں داخل ہوئے، تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے مشترکہ اور موثر کارروائی کرتے ہوئے حملہ آوروں کے عزائم خاک میں ملا دیے۔ اس دوران 11 دہشت گرد مارے گئے، جب کہ تین کو گرفتار کرلیا گیا۔ فائرنگ کے تبادلے میں سیکیورٹی فورسز اور دو شہریوں سمیت 14 افراد زخمی ہوئے۔

٭  7 اگست: ’’سُرخ جرائم‘‘ کی سزا

کمبوڈیا کی مائوسٹ تنظیم Khmer Rouge کے دو لیڈروں Nuon Chea اور Khieu Samphan کو انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا مجرم پاتے ہوئے عمرقید کی سزا سنا دی گئی۔ یہ تنظیم 75ء تا 79ء اقتدار میں رہی۔ ایک اندازے کے مطابق پارٹی کے دور حکومت میں بیس لاکھ افراد کو قتل کیا گیا، جو کل آبادی کا ایک چوتھائی تھا۔

ستمبر

٭  9 ستمبر: چھت نے ڈھے کر قیامت ڈھادی

لاہور کے علاقے داروغہ والا میں واقع جامع مسجد حنفیہ کی، نماز ظہر کے دوران دو منزلہ چھت گرنے سے دو بچوں سمیت 24 نمازی شہید ہوگئے۔ اس واقعے نے علاقے میں کہرام مچادیا۔ امدادی کارکنوں نے سات افراد کو بہ مشکل ملبے سے نکالا۔ ماہرین نے دو منزلہ عمارت کے انہدام کا سبب کم زور ڈھانچے کو قرار دیا۔

اکتوبر

٭  10 اکتوبر: ملتان میں بھگدڑ

ملتان میں تحریک انصاف کے جلسے کے اختتام پر بھگدڑ مچ گئی۔ درجنوں افراد کچلے گئے۔ اس افسوس ناک واقعے میں 7 افراد ہلاک اور 55 شدید زخمی ہوگئے۔ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب جلسے کے اختتام پر لوگ بیرونی دروازوں کی سمت گئے، جہاں جگہ کی تنگی اور بدنظمی کی وجہ سے حالات قابو سے باہر ہوگئے۔ جلسے کے دوران بھی بدنظمی کے واقعات دیکھنے میں آئے۔ حکومت نے اس کا ذمے دار پی ٹی آئی کا ٹھیرایا، جب کہ عمران خان کی جانب سے مقامی انتظامیہ کو قصور وار قرار دیا گیا۔

٭   25 اکتوبر: ریحانہ کی کہانی

2007 سے عالمی توجہ کا مرکز بنی 26 سالہ ایرانی خاتون، ریحانہ جباری کو پھانسی دے دی گئی۔ عدالت نے ریحانہ کو قتل کا مجرم قرار دیا تھا۔ ریحانہ کا موقف تھا کہ اس نے یہ اقدام اپنے دفاع میں کیا، مقتول نے عصمت دری کی کوشش کی تھی۔ ایران کی سماجی تنظیموں کے ساتھ بین الاقوامی میڈیا نے بھی ریحانہ جباری کے حق میں آواز بلند کی، مگر ایرانی قانون کے باعث، جس میں قاتل کو معاف کرنے کا اختیار فقط مقتول کے اہل خانہ کے پاس ہے، کوئی حل نہیں نکل سکا۔ ریحانہ کی کہانی اس کے وکیل کے بلاگز میں شایع ہوئی، جس نے بین الاقوامی توجہ حاصل کی۔

٭  29 اکتوبر: بنگلادیش میں پھانسیاں

بنگلادیش کی تیسری بڑی سیاسی جماعت، جماعت اسلامی کے سربراہ، مطیع  الرحمان نظامی  کو جنگی جرائم میں ملوث ہونے پر پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔ یہ اس نوع کا تیسرا بڑا واقعہ ہے۔ 2010 میں حسینہ واجد کی جانب سے قائم کردہ جنگی جرائم کے کے خصوصی ٹریبیونل کے فیصلے پر شدید ردعمل سامنے آیا۔ اس سے پہلے 2 نومبر کو بنگلادیش میں جماعت اسلامی کے سنیئر راہ نما، 62 سالہ میر قاسم علی کو 71ء میں پاکستان کے خلاف جنگ کے دوران جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر سزائے موت سنادی گئی۔ اسے انتقامی کارروائی قرار دیا گیا۔

٭  31 اکتوبر: صدر کی رخصتی

مغربی افریقی ریاست، برکینا فاسو کے صدر، بلز کمپائورو نے فوجی مداخلت کے بعد اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ واقعہ فسادات اور احتجاج کے اس سلسلے کا نتیجہ تھا، جس نے بلز کمپائورو کی اپنے عہدے میں توسیع کے لیے آئین میں ترمیم کی کوششوں سے جنم لیا۔ وہ اکتوبر 87ء سے پر برا جمان تھے۔

نومبر

٭  2 نومبر: واہگہ خون میں ڈوب گیا

لاہور پر قیامت اتر آئی۔ واہگہ بارڈر آگ اور خون میں نہا گیا۔ خودکش دھماکے میں رینجرز اہل کار، خواتین اور بچوں سمیت 55 افراد ہلاک اور 123 شدید زخمی ہوگئے۔ واقعہ اس وقت پیش آیا، جب آزادی پریڈ کے بعد شہری واپس لوٹ رہے تھے۔ دھماکے میں 15 سے 20 کلو وزنی بم استعمال کیا گیا۔ کالعدم تنظیم، جند اﷲ نے ذمے داری قبول کی۔ یہ آپریشن ضرب عضب کے بعد شہری علاقے میں پہلا بڑا حملہ تھا، جس کی پاکستان سمیت دنیا بھر میں شدید مذمت کی گئی۔ اطلاعات کے مطابق خفیہ ایجینسیوں نے ایک رات قبل متعلقہ حکام کو خبردار کیا تھا، جس کی وجہ سے سیکیوریٹی سخت کر دی گئی تھی۔ واقعہ حفاظتی حصار سے باہر، فوڈ مارکیٹ میں پیش آیا۔

٭  11 نومبر: ایک اور ٹریفک حادثہ

خیرپور کے نزدیک مسافر کوچ اور ٹرک میں وحشت ناک تصادم میں بچوں اور خواتین سمیت 60 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ تصادم میں بس پوری طرح تباہ ہوگئی۔ حادثے کے فوراً جائے وقوع پر آگ بھڑک اٹھی۔ متعدد افراد جھلس کر ہلاک ہوئے۔ ریسکیو آپریشن دو گھنٹے جاری رہا۔ صرف 19 افراد ہی کو بچایا جاسکا۔ کوچ کاٹ کر لاشیں نکالی گئیں۔ حادثہ بس ڈرائیور کی غفلت سے پیش آیا۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت کا تعلق پشاور سے تھا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر ٹریفک قوانین پر سوالیہ نشان لگا دیا۔

٭  12 نومبر: دُم دار ستارے پر لینڈنگ

یورپی اسپیس ایجینسی کا تیار کردہ Philae نامی اسپیس روبوٹ 67P/Churyumov–Gerasimenko نامی دم دار ستارے پر اترنے میں کام یاب رہا۔ یہ پہلا موقع تھا، جب کسی اسپیس کرافٹ نے اس نوع کے ناہموار اور تیزی سے حرکت کرتے جسم پر لینڈنگ کی ہو۔ سائنس دانوں نے خلائی میدان میں اسے ایک بڑی کام یابی قرار دیا۔

٭  23  نومبر: میدان، قبرستان میں تبدیل

افغانستان کے یحییٰ خیل ڈسٹرک میں والی بال میچ کے دوران ہونے والے خودکش حملے میں بچوں سمیت 61 افراد لقمۂ اجل بن گئے۔ کئی افراد شدید زخمی ہوئے۔ اس حملے کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عاید کیا گیا۔

دسمبر

٭  17 دسمبر: سزائے موت بحال

پشاور سانحے میں بچوں سمیت 141جانیں ضایع ہونے کے بعد جیلوں میں قید سزائے موت کے قیدیوں کو پھانسی دینے کا مطالبہ اتنی شدت سے دہرایا گیا کہ حکومت کو آل پارٹی کانفرنس بلوانی پڑی، پھانسیوں کا سلسلہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگلے روز آرمی چیف نے فوجی عدالتوں میں سزا پانے والے چھے دہشت گردوں کے ڈیتھ وارنٹ پر دست خط کیے۔ 19 دسمبر کو فیصل آباد جیل میں ڈاکٹر عثمان اور ارشد نامی مجرموں کو پھانسی دے دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی دہشت گردوں کو پھانسی دینے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

٭  17 دسمبر: تجدیدِ تعلقات کا لمحہ

امریکا اور کیوبا کے درمیان کشیدگی میں کمی آنے لگی۔ باراک اوباما نے کاسترو کے دیس سے اپنے منقطع رشتہ بحال کرنے کا اعلان کردیا۔ البتہ تجزیہ کار اس بارے میں متذبذب نظر آئے۔

٭  24 دسمبر: آسام میں قہر

بھارتی ریاست آسام کے دو ضلعوں کوکرا جھار اور سونت پور میں چار مختلف مقامات پر علیحدگی پسند قبائلیوں نے حملہ کرکے عورتوں اور بچوں سمیت 72 افراد کو بے دردی سے قتل کردیا۔ اس کا الزام نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ آف بوڈولینڈ پر عاید کیا گیا۔ گذشتہ برس مئی میں ہونے والے حملے میں بھی 32 افراد ہلاک ہوئے تھے، جب کہ 2012 میں ہونے والے نسلی فسادات میں 100 افراد قتل اور چار لاکھ بے گھر ہوئے تھے۔


داعش کی ’’خلافت‘‘ کا قیام

$
0
0

سن 2014ء میں داعش(دولت اسلامیہ عراق وشام) ایک ایسا بڑا خطرہ بن کر ابھری ہے جس نے ایک طرف امریکا کو چکرا کر رکھ دیا، دوسری طرف ایران کو بھی امریکی اتحادی بننے پرمجبورکردیا۔

شام اور عراق میں اس کی کہانی تب شروع ہوئی جب عرب بہار کے سلسلہ کی ایک کڑی شام میں بھی شروع ہوئی، قریباً نصف صدی سے برسراقتدار ڈکٹیٹر بشارالاسد کے خلاف شامی قوم کا ایک بڑا حصہ اٹھ کھڑا ہوا اور ملک میں جمہوریت کے لئے وسیع پیمانے پر جدوجہد شروع ہوگئی۔ ابتدا میں جمہوری تحریک چلانے والوں کو چند اصلاحات اور کچھ سیاسی قیدیوں کی رہائی کے وعدوں کے ساتھ ٹرخانے کی کوششیں ناکام ہوئیں تو اسے انتہائی بے دردی سے کچلنے کے تمام تر حربے اختیارکئے گئے۔

شامی فوج نے تحریک میں شامل مرد وخواتین کو قتل کرنا شروع کردیا، بڑے بڑے گڑھے کھود کر مخالفین کے بچوں کو زندہ دفن کیاگیا۔ ایسے میں عوامی تحریک مسلح جدوجہد میں تبدیل ہوگئی۔ اس میں سیکولر گروہ بھی تھے اور جہادی بھی۔امریکی اور بعض عرب ممالک بشارالاسد کی حکمرانی ختم کرنا چاہتے تھے تاہم یہ نہیں چاہتے تھے کہ  اس کے بعد اقتدار اسلام پسندوں کے ہاتھ میں آئے۔

یہ مسئلہ بھی تھا کہ شامی ڈکٹیٹر کے خلاف موثرمسلح جدوجہد جہادی ہی کررہے تھے، سیکولرگروہ اس معاملے میں خاصے نااہل واقع ہوئے تھے۔ یادرہے کہ شام میں ہونے والی خانہ جنگی  کے نتیجے میں پونے چاربرسوں کے دوران میں مختلف اندازوں کے مطابق دو لاکھ 82 ہزار افراد ہلاک ہوچکے ہیں، ایک لاکھ تیس ہزار گرفتار یالاپتہ ہیں، 4 سے50 لاکھ لوگوں کو اپنا گھربارچھوڑناپڑا جن میں سے 33 لاکھ باقاعدہ مہاجر کیمپوں میں مقیم ہوچکے ہیں۔

دوسری طرف عراق میں شام سے ملحقہ وسیع وعریض علاقے میں نوری المالکی کے آٹھ سالہ دور حکومت کے ظلم وستم کے شکار سنی اور کرد لوگوں سے جب کچھ بن نہیں پڑا تو انھوں نے یہاں متحرک جہادی گروہوں کے جھنڈے تلے رہنے کا فیصلہ کرلیا۔  مغربی ذرائع بھی اعتراف کرتے ہیں کہ بشارالاسد اور نوری المالکی کے مظالم کا نشانہ بننے والے لوگ یہ امید بھی کھو چکے تھے کہ ایک دن مغرب ان کی مدد کو آئے گا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ لوگ ان جہادیوں کی جانب متوجہ ہو گئے جنھیں خلیجی ریاستوں کی زبردست مالی مدد حاصل تھی۔

قطر کے رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر مائیکل سٹیونز کا کہنا ہے کہ اس جنگ میں واضح نہیں کون کیا کر رہا ہے۔ مغربی اور ایرانی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس گروہ کو بنانے اور قائم رکھنے کی تمام ذمہ داری قطر، ترکی اور سعودی عرب پر عائد ہوتی ہے۔ تاہم حقیقت اس الزام سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام میں برسِرپیکار شدت پسند گروہوں کی مالی معاونت خلیجی ریاستوں کے کچھ امرا کرتے رہے ہیں جو بھاری رقوم سے بھرے ہوئے تھیلے ترکی لے جا کر لاکھوں ڈالر اس گروہ کے حوالے کرتے رہے ہیں۔

گزشتہ دو تین برسوں میں لوا التوحید، احرار الشام اور جیش الاسلام نامی گروہ یہ کام کرتے رہے ہیں اور ان تینوں گروہوں کے النصرۃ فرنٹ اور شام میں موجود القاعدہ سے کسی نہ کسی قسم کے روابط رہے ہیں۔ سعودی عرب پر الزام ہے کہ وہ اس سارے عرصے میں دولتِ اسلامیہ کے نام کے تحت کام کرنے والے اسلام پسند گروہوں کو مالی مدد فراہم کرتا رہا ہے، لیکن سعودی عرب اس الزام کی سختی سے تردید کرتا ہے۔ جہاں تک خلیجی ریاستوں سے دولت اسلامیہ کی مدد کا تعلق ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بشار الاسد کے خلاف جاری شورش کے ابتدائی دنوں سے ہی یہاں سے باغی گروہوں کو رقوم فراہم کی جاتی رہی ہیں۔

قطر پر خصوصاً یہ الزام ہے کہ دولتِ اسلامیہ کے ساتھ اس کے خفیہ روابط رہے ہیں۔ اسی طرح ترکی کے کردار پر بھی بہت سے سوالیہ نشان موجود ہیں کہ اس نے سعودی عرب اور قطر کی پشت پناہی کو راستہ دیا اور اس کی سرحد کے راستے دولت اسلامیہ تک اسلحہ اور بھاری رقوم پہنچائی جاتی رہی ہیں۔ تمام لوگوں کا خیال تھا کہ ترکی کی اس حکمت عملی کی بدولت بشارالاسد کے دور کا خاتمہ ہو جائے گا اور شام میں سنی اکثریت کو غلبہ حاصل ہو جائے گا جس کے بعد شیعہ ایران اور بحیرہ روم کے درمیان رابطے کٹ جائیں گے لیکن جب سنہ 2013 میں دولت اسلامیہ کا زور بڑھ گیا تو شام میں برسر پیکار چھوٹے چھوٹے گروہ یا تو دولتِ اسلامیہ کے زور تلے دب گئے یا انھوں نے اپنے اسلحے اور دولت سمیت اس تنظیم میں شمولیت اختیار کر لی۔

قطر کی طرح سعودی عرب پر بھی الزام ہے کہ اس نے دولت اسلامیہ کی پشت پناہی کی ان گروہوں میں سے النصرۃ ہی وہ واحد گروہ تھا جو اپنے پاؤں پر کھڑا رہا، تاہم اس کی مضبوط تنظیم بھی دولتِ اسلامیہ کے سامنے زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی اور گزشتہ دو برسوں میں اس کے کم از کم تین ہزار جنگجو اسے چھوڑ کر دولت اسلامیہ سے مل چکے ہیں۔

ایک مغربی نشریاتی ادارے سے وابستہ صحافی پال وْڈ کے مطابق سْنی دیہاتوں میں پھیلے ہوئے دولت اسلامیہ کے جنگجو زیادہ تر مقامی قبائلی افراد پر ہی مشتمل ہیں۔ یہ لوگ غیر ملکی نہیں بلکہ ان کا خمیر عراق اور شام کی مٹی سے ہی اٹھا تھا۔امریکی افسران کا خیال ہے کہ دولت اسلامی کے جنگجوؤں کی تعداد تقریباً 15ہزار ہے، تاہم عراقی ماہر ہشام الہشامی کہتے ہیں کہ دولت اسلامیہ کے پاس 30 سے 50 ہزار جنگجو موجود ہیں جن میں سے تقریباً 30 فیصد پکے ’نظریاتی‘ ہیں جبکہ باقی خوف یا دباؤ کے تحت تنظیم میں شامل ہوئے۔

تاہم غیرملکی جنگجوؤں کی تعداد 12 ہزار کے لگ بھگ ہے جن کا تعلق دنیا کے 81 ممالک سے ہے،ان میں ڈھائی ہزار ایسے ہیں جو مغربی ممالک سے آئے ہیں اور وہ گزشتہ تین برس سے شام میں سرگرم ہیں۔ یہ تناظر ہے داعش کا جس نے بعدازاں ’دولت اسلامیہ عراق وشام‘ کے نام سے ایک مملکت کی صورت اختیار کرلی، ا س کے قبضہ میں فوری طورپر مشرقی شام اور شمالی عراق آگئے، بعدازاں باقی علاقے بھی اس میں شامل ہونے لگے۔

دولت اسلامیہ کی جڑیں اردن کے ابو مصعب الزرقاوی کی تنظیم سے ملتی ہیں جنھوں نے سن 2002ء میں ’توحید والجہاد‘ نامی تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ عراق پر امریکی قبضے کے بعد زرقاوی نے القاعدہ کے بانی سربراہ اسامہ بن لادن کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر عراق میں القاعدہ قائم کی جو اتحادی فوجوں کے خلاف سب سے بڑی مزاحمتی تحریک ثابت ہوئی۔ سن2006 میں زرقاوی کے انتقال کے بعد ’القاعدہ فی العراق‘ نے ’داعش کے نام سے تنظیم قائم کی جو عراق میں مزاحمتی گروہوں کی نمائندہ تنظیم تھی۔

عراق سے امریکی افواج کے نکل جانے کے بعد تنظیم کی سرگرمیوں میں خاصی کمی واقع ہوگئی تاہم 2010 میں جب ابوبکر البغدادی(پورا نام: ابوبکرالبغدادی الحسینی الہاشمی القریشی) تنظیم کے سربراہ بنے تو تنظیم میں نئی جان پڑگئی۔ وہ 1971ء میںعراق کے صوبہ سمارا میں پیدا ہوئے، انھوں نے اسلامی یونیورسٹی بغداد سے مطالعہ علوم اسلامی میں بی اے، ایم اے اور پھر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعض دیگرذرائع کا کہناہے کہ انھوں نے بغداد یونیورسٹی سے ایجوکیشن میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔

وہ صدام حسین کے دور میں ہی جہادی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگے تاہم یہ معلومات مصدقہ نہیں ہیں۔ یہ بھی کہاجاتاہے کہ جب سن 2003ء میں امریکا نے عراق پر جارحیت کی تو ابوبکر البغدادی کسی مسجد میں خطیب تھے۔ امریکی جارحیت کے خلاف انھوں نے فوراً ’ جماعت جیش اہل سنۃ  والجماعۃ‘ کے نام سے ایک مزاحمتی تنظیم قائم کرنے والوں سے تعاون کیا، انھیں اس تنظیم کی شریعہ کمیٹی کا سربراہ بنایاگیا۔ ابوبکر البغدادی 2005ء تا 2009ء چار سال کے عرصہ تک ایران کے زیرتسلط عراق کے علاقے ام القصر کے نزدیک واقع بوکا جیل میں قید و بندکی صعوبتیں برداشت کرتے رہے۔

داعش کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا حسب و نسب رسول اکرم ﷺ کے قبیلے سے ملتا ہے، وہ شریعت اور علوم اسلامی پر عبور رکھتے ہیں۔ سن 2013  تک تنظیم نے ایک طرف عراق میں فوج کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں، دوسری طرف شام  کے مزاحمت کاروں سے بھی روابط قائم کرلئے اور نئی تنظیم ’النصرہ‘ بھی قائم کر لی۔ اپریل 2013 ء میں ابوبکر البغدادی نے عراق اور شام میں اپنی تنظیموں کو متحد کرنے کا اعلان کیا اور داعش کے نام سے ایک بڑی تنظیم کھڑی کرلی۔

اس کے بعد داعش کی فتوحات کا سلسلہ چل نکلا، اس نے عراق کے مرکزی شہر فلوجہ، شمالی شہر موصل، تکریت اور تل عفر سمیت درجنوں شہروں پر اپنا پرچم لہراتے ہوئے بغداد کی جانب پیش قدمی شروع کردی۔ اورپھر جون 2014ء میں خلافت قائم کرنے کا اعلان بھی کر دیا اور نیا نام ’دولتِ اسلامیہ‘ رکھ لیا۔ ان کی قائم کردہ ریاست میں انھیں ’خلیفہ ابراہیم‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

خلیفہ بننے کے فوراً بعد انھوں نے ایک پیغام میں کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ سے یورپ تک اسلامی خلافت قائم کریں گے ۔پھردولت اسلامیہ نے دعویٰ کیا کہ اسے دنیا بھر سے مسلمانوں کی حمایت حاصل ہو رہی ہے اور مطالبہ کیا کہ ہر مسلمان ان کے رہنما ابو بکر البغدادی کے ہاتھ پر بیعت کر لے۔ 5 نومبر 2014ء کو ابوبکر البغدادی نے القاعدہ کے سربراہ  ڈاکٹرایمن الظواہری کو ایک پیغام بھیجا کہ وہ  ان کے ساتھ اتحاد قائم کریں۔ تاہم  الظواہری نے اس پیغام کا کوئی جواب نہیں دیا۔

ابوعمر الشیشانی دولت اسلامیہ کے فیلڈ کمانڈر ہیں۔ وہ شام میں زیادہ تر لڑائی میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اس سے پہلے وہ جارجیا کی فوج میں  سارجنٹ تھے۔ شام میں مہاجرین بریگیڈ کے کمانڈر رہے۔ انھوں نے شام میں بشارالاسد کی فوج کے خلاف کئی ایک اہم کامیابیاں حاصل کیں۔ ابوعبدالرحمن البلاوی الانبری کے بعد جون 2014ء میں انھیں دولت اسلامیہ کی فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا۔

اب تک شام اور عراق کے تقریباً 40 ہزار مربع کلومیٹر کے علاقہ پر اس کی عمل داری قائم ہوچکی ہے جو بیلجئم کے کل رقبے کے برابر ہے۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ  رقبہ 90 ہزار مربع کلومیٹر ہے جو  اردن کے کل رقبے کے برابر ہے۔ تیل کے کئی کنویں، ڈیم، مرکزی سڑکیں اور سرحدی چوکیاں دولت اسلامیہ کے پاس ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق اس وقت دولت اسلامیہ کے زیرقبضہ علاقے میں 80 لاکھ لوگ آباد ہیں۔

دولت اسلامیہ کے پاس نہ صرف مختلف انواع کے چھوٹے اور بڑے ہتھیار موجود ہیں بلکہ اس کے جنگجو ان ہتھیاروں کا استعمال بھی بخوبی جانتے ہیں۔ ان ہتھیاروں میں ٹرکوں پر لگی ہوئی مشین گنیں، راکٹ لانچرز، طیارہ شکن بڑی توپیں اور زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل شامل ہیں جنہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ ان کے پاس وہ ٹینک اور بکتربند گاڑیاں بھی موجود ہیں جو انھوں نے شامی اور عراقی فوجیوں سے چھینی ہیں۔

اس کے علاوہ دولت اسلامیہ نے بارود اور چھوٹے ہتھیاروں کی ترسیل کا ایک نظام بھی ترتیب دے رکھا ہے جس کے تحت وہ جب چاہیں نیا اسلحہ اور بارود منگوا سکتے ہیں۔ یہ دولت اسلامیہ کی بے پناہ عسکری طاقت ہی تھی جس کی بدولت اس نے اگست میں شمالی عراق میں کرد پیش مرگہ فوجی کی چوکیوں پر قبضہ کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق دولتِ اسلامیہ کے پاس دو ارب ڈالر کیش کی شکل میں موجود ہیں، اس کا مطلب ہے کہ وہ اس وقت دنیا کا امیر ترین شدت پسند گروہ ہے۔ شروع میں اسے زیادہ تر مالی مدد خلیجی ریاستوں کے مخیر افراد سے ملی، تاہم آج کل یہ تنظیم کافی حد تک خود کفیل ہو چکی ہے اور لاکھوں ڈالر کما رہی ہے۔ تیل اور گیس کی فروخت، اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹیکسوں کی آمدنی، چونگی، سمگلنگ اور اغوا برائے تاوان  تنظیم کے مختلف ذرائع آمدن ہیں۔

اقوامِ متحدہ  جہاں شامی حکومت کومختلف مواقع پر کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا ذمہ دار قراردیتی رہی، وہاںداعش پر بھی الزام عائد کرتی رہی کہ اس نے متعدد بار لوگوں کو شہریوں کے سامنے قتل کیا ہے۔ اقوام متحدہ نے پاؤلو پِنیرو کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا جس نے قراردیا کہ’عالمی برادری اپنی انتہائی بنیادی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام رہی ہے جن میں عام شہریوں کا تحفظ، ظالمانہ کارروائیوں کو روکنا اور احتساب کے لیے راستہ ہموار کرنا شامل تھے۔

سب کچھ اس حد تک حالات کے رحم و کرم پر ہے کہ اب عالمی قوانین کی پاسداری کا دکھاوا تک نہیں رہا۔‘ کمیشن کے تفتیش کاروں نے خبردار کیا کہ یہ تنازع پہلے ہی عراق تک پھیل چکا ہے اور اب تمام خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔متعددماہرین کیمطابق  اب شام اور عراق کے متعدد شہروں اور قصبوں میں دولت اسلامیہ کے پرچم لہرا رہے ہیں اورکئی مغربی سیاسی رہنما بار بار اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ ایک طویل جنگ ثابت ہو گی۔

سوال یہ ہے کہ داعش کے خلاف اب تک ہونے والی کارروائی کے نتائج کیارہے اور آگے کیاہوگا؟

دولتِ اسلامیہ عراق و شام کی سرحدوں سے دْور دنیا بھر کے سنی نوجوانوں کو اپنا گرویدہ بنا چکی ہے کیونکہ یہ نوجوان داعش کو وہ ہراول دستہ سمجھ رہے ہیں جو انھیں دائمی فتح سے ہمکنار کر سکتا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ دولتِ اسلامیہ کا رعب و دبدبہ ہی ہے کہ جس نے اسلام کے دشمنوں پر خوف اور حیرت طاری کر رکھی ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں ہر روز سامنے آنے والے نئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ النصرہ فرنٹ اور اسلامک فرنٹ جیسے وہ اسلامی شدت پسند گروہ جو دولتِ اسلامیہ کا نام نہیں سننا چاہتے تھے، وہ بھی اب البغدادی کی آواز پر لبیک کہہ چکے ہیں۔

دولت اسلامیہ کی فتح کی دھوم اتنی زیادہ ہے کہ اس کے دروازے پر بھرتی کے لیے تیار نوجوانوں کی طویل قطار نظر آتی ہے۔ مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان نوجوانوں کی دولتِ اسلامیہ اور دیگر شدت پسند گروہوں میں شمولیت کی وجہ یہ ہے کہ وہ ان گروہوں میں شمولیت کے بعد خود کو ایک عظیم تحریک کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں جس کا مقصد ماضی کی کھوئی ہوئی خلافت کا دوبارہ قیام ہے۔

شروع شروع میں لندن، پیرس، برلن اور دیگر مغربی شہروں سے ہجرت کرنے والے نوجوانوں نے عراق اور شام کا رخ اس وجہ سے کیا تھا کہ وہ اپنے عراقی اور شامی مسلمانوں کو جابر حکمرانوں سے بچاسکیں، لیکن اب وہ نئی مملکت کا حصہ بن چکے ہیں۔

اب تو ابوبکر بغدادی نے اپنے گروہ کے عسکری بازو کی تشکیل نو بھی کی ہے۔ صدام حسین دور کے سابق فوجیوں کی شمولیت کے بعد داعش ایک پیشہ ور فوجی طاقت بن چکی ہے۔ اگرچہ فی الحال یہ گروہ عراق اور شام تک محدود ہے لیکن اس کا عہد ہے کہ وہ ’اردن اور لبنان کی سرحدوں کو مسمار کر کے فلسطین کو آزاد کرائے گا۔ انھوں نے سپین اور روم کا خصوصی طور پر ذکر کیا کہ انھیں اسلامی خلافت میں شامل کیاجائے گا۔

داعش کو بڑے پیمانے پر ملنے والی حمایت کے سبب سن 2014ء میں اس کی کامیابیوں کا دائرہ پھیلتا چلاگیا۔ اس دوران اس کے باقی  جہادی گروہوں کے ساتھ اختلافات بھی پیدا ہوئے لیکن ختم بھی ہوئے، متعدد جنگجوگروہ اس کے حلقہ اطاعت میں آئے۔

فروری 2014ء میں القاعدہ اور داعش کے درمیان باقاعدہ قطع تعلقی ہوگئی۔ القاعدہ کی حامی تنظیم النصرہ  کے ذرائع کہتے ہیں کہ  تمام تر جدوجہد بشارالاسد حکومت کے خاتمہ کے لئے ہونی چاہئے لیکن داعش اپنی طاقت اور اپنی ریاست قائم کرنے میں کوشاں نظرآئی۔ دونوں گروہوں کے مابین لڑائی بھی ہوتی رہی۔ تاہم مئی 2014ء میں ایمن الظواہری نے النصرہ کو داعش پر حملے کرنے سے روک دیا۔

جون 2014ء کے وسط میں داعش  نے عراق اردن سرحد پر واقع ایک اہم علاقے ترابیل پر قبضہ کرلیا۔ یہ دونوں ملکوں کو ملانے والی اہم گزرگاہ ہے۔ اس واقعہ کے فوراً بعد اردن اورسعودی عرب کی افواج نے عراقی سرحدوں پر اکٹھ کرلیا۔

جولائی 2014ء میں ساڑھے چھ ہزار ایسے جنگجوؤں نے داعش میں شمولیت اختیارکی جو اس سے پہلے آزاد شامی فوج کے جھنڈے تلے بشارالاسد کے خلاف مسلح جدوجہد کرتے رہے تھے۔

تین اگست 2014ء کو داعش نے شمالی عراق کے بڑے شہر زمر، سنجر اور وانا پر قبضہ کرلیا۔

گیارہ اکتوبر 2014ء کو داعش نے شام اور موصل سے دس ہزار جنگجوؤں کو عراقی دارالحکومت بغداد پر قبضہ کرنے کے لئے بھیجا، تب عراقی فوج اور الانبار کے قبائلیوں نے امریکا کو خبردار کیا کہ  داعش کا حملہ روکنے کے لئے زمینی فوج نہ بھیجی گئی تو وہ داعش کے سامنے ہتھیار پھینکنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ تیرہ اکتوبر کو داعش کے جنگجوؤں نے بغداد ائرپورٹ کی طرف 25 کلومیٹر تک پیش قدمی کی۔

دوسری طرف اکتوبر ہی  میں لیبیا میں بھی داعش کے800 جنگجوؤں نے شہر درنا کا کنٹرول سنبھال لیا۔ درنا شام اور عراق سے باہر پہلا شہر تھا جو دولت اسلامیہ کے کنٹرول میں آیا۔

دو نومبر 2014ء کوایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک خبرچلائی تھی کہ امریکی حملوں کے جواب میں داعش، النصرہ فرنٹ، خراسان گروپ جند الاقصیٰ کا ایک اہم مشترکہ اجلاس ہوا جس میں امریکی حمایت یافتہ  اور سیکولر باغی گروہوں کے خلاف متحد ہونے پر زور دیاگیا۔ 10 نومبر کو مصری جہادیوں کے ایک اہم گروپ ’انصاربیت المقدسہ‘ نے داعش کی اطاعت کااعلان کردیا۔ 23 نومبر کو عراقی فوج اور پیش مرگہ فورسز نے ایک خونریز لڑائی کے بعد عراقی صوبہ دیالہ کے دوشہر جوالہ اور سادیہ  داعش سے واپس حاصل کرلئے۔ اسی روز بغداد سمارا روڈ  کو بھی داعش کے کنٹرول سے آزاد کرالیا گیا۔

تیرہ دسمبرکو داعش کے جنگجوؤں نے عراقی صوبہ الانبار کے شہر رمادی کی طرف 32 کلو میٹر تک پیش قدمی کی۔ شہر ’ھیت‘ تادم تحریر داعش کے زیرکنٹرول ہے۔

سترہ دسمبر پیشمرگہ فورسز نے سنجر اور زمر کے شہر داعش سے واپس لینے کے لئے حملہ کیا، انھوں نے تل عفر کے قرب میں سات سو مربع کلومیٹر علاقہ واپس لینے کا دعویٰ کیا۔

اٹھارہ دسمبر کو  گولان کی پہاڑیوں کے قریب اثرورسوخ رکھنے والے تین باغی گروہ جنھیں اس سے پہلے  امریکا اور اسرائیل سے امداد ملتی تھی، نے داعش کی اطاعت قبول کرلی۔

سال 2014ء میں داعش کو سعودی عرب، انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات ، مصر اور بھارت کی حکومتوں نے دہشت گرد گروہ قراردیا۔ یادرہے کہ ترکی، کینیڈا، آسٹریلیا، امریکا، برطانیہ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ پہلے ہی اسے دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرچکے ہیں۔

امریکا کے وزیرِ دفاع چک ہیگل دعویٰ کرتے ہیںکہ شدت پسندوں کی پیش قدمی روک دی گئی ہے تاہم انھوں نے اعتراف کیا کہ اب بھی عراق اور شام کے بڑے حصے پر شدت پسند تنظیم کا اثرونفوذ باقی ہے۔ امریکی فوج کے سربراہ جنرل جیک ڈیمپسی کا کہنا ہے کہ داعش کے خلاف کارروائی پر امریکا روزانہ 80 لاکھ ڈالر خرچ کر رہا ہے۔عراق اور شام میں داعش کے خلاف جنگ میں امریکی فورسز کی کمان کرنے والے لیفٹیننٹ جنرل جیمز ٹیری کاکہنا ہے کہ اس جنگ میں ٹرننگ پوائنٹ کے حصول میں کم سے کم تین سال لگ سکتے ہیں۔

داعش کے جنگجوؤں کی پیش قدمی کو روک دیا گیا ہے اور فضائی حملوں کے نتیجے میں اب انھیں نقل وحرکت اور آپس میں ابلاغ میں دشواری کا سامنا ہے۔ وہ اپنے زیر نگیں علاقوں پر ہی اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ان کے بقول ’’ہم نے داعش کے خلاف جنگ میں ایک راز تو یہ پالیا ہے کہ عراقی سکیورٹی فورسز کی صلاحیت میں اضافہ کیا جائے اور جارحانہ حکمت عملی اپنانے کے لیے ان کی ذہنی ساخت تبدیل کی جائے‘‘۔

کچھ عرصہ پہلے امریکی حکام نے ایک کارروائی کے دوران داعش کے سربراہ ابوبکرالبغدادی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تاہم بعدازاں یہ دعویٰ غلط ثابت ہوا۔ ابوبکر البغدادی نے ایک آڈیو ٹیپ جاری کی، آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے قائم امریکی اتحاد میں شامل خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو غدار کہا گیا۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ شام اور عراق میں امریکا کی قیادت میں فوجی کارروائیاں ناکام ہو رہی ہیں۔ آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے حامیوں کو دنیا بھر میں جہاد شروع کرنے کا کہا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں بھی حملے کرنے کا کہتے ہوئے سعودی حکمرانوں کو ’سانپ کا سر‘ کہا گیا ہے۔ آڈیو پیغام میں دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں کے لیے قائم امریکی اتحاد میں شامل خلیجی ممالک کے حکمرانوں کو غدار کہا گیا ہے۔

دسمبر کے آخری ہفتے دولت اسلامیہ سے واپس لوٹنے والے معروف جرمن صحافی جورگن ٹوڈن ہوفر نے کہاہے کہ داعش کے بارے میں  مغرب کے اندازے غلط ہیں، وہ  ان اندازوں سے کہیں زیادہ مضبوط اور خطرناک ہے۔ یہ پہلے مغربی صحافی ہیں جنھیں مہینوں تک دولت اسلامیہ کے حکام سے مذاکرات کے بعد خطے میں داخل ہونے کی اجازت ملی تھی۔ 74 سالہ جرمن صحافی ترکی کے راستے موصل پہنچے تھے اور انھوں نے وہاں دس روز گزارے تھے۔ جرمن میڈیا کے توسط سے ان کے خیالات معروف برطانوی اخبار ’انڈیپینڈنٹ‘ میں بھی شائع ہوئے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ اسی ہوٹل میں ٹھہرے تھے جہاں امریکی صحافی جیمز فولی ٹھہرا تھا اور جسے داعش  نے گزشتہ اگست میں ہلاک کردیاتھا۔ جرمن صحافی نے بتایا کہ میں نے کسی دوسرے وارزون میں لوگوں کا ایسا جوش وجذبہ نہیں دیکھا۔ دنیا بھر سے یہاں سینکڑوں رضاکار جنگجو آرہے تھے۔ یہ صورت حال میرے وہم وگمان میں بھی نہیں تھی۔ جورگن  نے جنگجوؤں کا انداز رہن سہن دیکھا اور ان  کے زیراستعمال اسلحہ بھی۔ موصل میں پانچ ہزار جنگجو ہیں جو اس طرح وسیع پیمانے پر پھیلے ہوئے ہیں کہ امریکی بمباری  ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔

ان کی حکمت عملی دیکھ کر فوری طورپر اندازہ ہوجاتا ہے کہ مغربی فوجوں کی زمینی مداخلت یا فضائی حملے انھیں نقصان نہیں پہنچاسکتے۔  فضائی حملوں  میں گرنے والا ہر بم صرف اور صرف سویلینز کی جان لے گا۔ اور اس کا منطقی نتیجہ دہشت گردی میں اضافہ کی صورت ہی میں نکلے گا۔ ان کاکہنا ہے کہ داعش اپنی ریاست کو ایک مکمل مملکت کا روپ دینے کے لئے سخت محنت کررہی ہے۔ رفاہ عامہ اور تعلیمی نظام ان کی پہلی ترجیحات ہیں، میں یہ جان کر حیران ہوا کہ وہ لڑکیوں کو بھی تعلیم دینے کے منصوبے بنارہے ہیں۔

داعش اس قدرمقبولیت اختیارکررہی ہے اور اس قدر اعتماد سے بھرپور ہے کہ جیسے وہ پوری دنیا کو بھی فتح  کرسکتی ہے۔ جورگن  نے بتایا کہ داعش کا خطرناک ترین عقیدہ یہ ہے کہ وہ تمام مذاہب جو جمہوریت کے ساتھ ہم آہنگ ہوں گے، ختم ہوجائیں گے۔دہشت گردی کے خلاف کام کرنے والے تھنک ٹینک ’کوئلیم‘ کے ریسرچر چارلی ونٹر کہتے ہیں کہ جرمن صحافی کی فراہم کردہ اطلاعات  ایسی کڑوی گولیاں ہیں جو پالیسی سازوں کے لئے نگلنامشکل ہوں گی۔

جرمن صحافی کا کہنا ہے کہ وہ وقت قریب ہے جب داعش مغرب کے ساتھ  بقائے باہمی کے لئے مذاکرات کرے گی۔ امریکی ٹی وی چینل’ سی این این‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جرمن صحافی نے بتایا کہ  دولت اسلامیہ کے لوگ  پرجوش  اور اس یقین سے سرشار ہیں کہ یورپ کی فتح زیادہ دیر کی بات نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ سوال ہی نہیں ہے کہ یورپ فتح ہوسکے گا یا نہیں، سوال صرف یہ ہے کہ کب فتح ہوگا؟

سیلاب کی تباہ کاریاں

$
0
0

پاکستان کی چھے دہائیوں پر پھیلی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی آسمان سے اس ملک کی دھرتی پر پانی اپنی حد سے زیادہ برسا، تو دنوں میں سیکڑوں لوگ ڈوبے اور لاکھوں بے گھر ہو کر در بہ در ہوگئے۔

حسب روایت سال 2014  میں بھی ایسا ہی ہوا اور دریاؤں کے قرب وجوار میں بسنے والوں پر قیامت ٹوت پڑی۔ ستمبر 2014 کے آغاز میں آزاد جموں کشمیر کے علاقے میں شدید بارشوں سے ایک بہت بڑے سیلاب کی خبریں جب محکمۂ موسمیات کی قبل از وقت پیشین گوئیوں کے عین مطابق پوری ہورہی تھیں تو اُن دنوں اس دھرتی کے حکمران اپنے اقتدار کو بچانے میں مصروف تھے۔

اس سیلاب سے بھارت کے جموں و کشمیر اور پاکستان میں آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور پنجاب کے علاقے متاثر ہوئے تو میڈیا نے بہت شور مچایا مگر ۔۔۔۔۔۔ نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ 7 ستمبر 2014 تک بھارت میں 200 جب کہ پاکستان میں 205 کے قریب لوگ سیلاب کی وجہ سے ہلاک ہوچکے تھے۔ ان ہلاکتوں پر جب حکومتی بے حسی پر عوامی سطح پر سیاپا شروع ہُوا تو حکمرانوں کی جانب سے روایتی بیانات کے ذریعے ’’پرسہ کاری‘‘ شروع ہو گئی مگر لوگوں کو بچانے کے لیے بروقت اقدامات پھر بھی نہ کیے جا سکے۔ پاکستان کے قیام سے اب تک ہمیں 20  بڑے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بارہا کے اس منظر نامے کو دیکھ کر محسن نقوی کا یہ شعر ذہن کے دریچوں میں گونجتا رہا

محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے

محکمۂ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں ہونے والی ان بارشوں کا 75 فی صد صرف چار مہینوں میں یعنی جون سے ستمبر تک ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ اس بار بھی بروقت اطلاعات اور پیشن گوئیوں کے باوجود حکومت کسی بھی مناسب منصوبہ بندی سے عاری نظر آئی۔ بلاشبہ 2005 کے زلزلے کے بعد نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی NDMA کا قیام وجود میں آیا تھا، جو یقینا ایک احسن قدم  ہے لیکن یہ ادارہ بھی اب ایسے چیلنجز سے نمٹنے میں اس لیے ناکام نظر آتا ہے کہ یہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔

پاکستان میں 2014 کے سیلاب سے دیہی علاقوں میں انفرا اسٹرکچر اور کھڑی فصلوںکو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، پچیس لاکھ افراد اور چار ہزار سے زیادہ دیہات متاثر ہوئے۔ دریائے چناب کے سیلاب سے پنجاب کے بیش تر ایسے دیہی علاقے متاثر ہوئے ،جہاں وسیع پیمانے پر قربانی کے جانور پالے جاتے تھے۔ سیلاب سے قربانی کے ہزاروںجانور مر گئے اور سال 2014 میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر بڑے شہروں کی منڈی مویشیاں میںبچ جانے والے جانوروں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ دیکھا گیا۔

انٹرنیشنل ریڈکراس کے اعدادوشمار کے مطابق 2025 تک دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے 50 فی صد سے زیادہ لوگ سیلاب اور طوفانوں کے خطروں سے دوچار ہوں گے، یقیناً یہ ایک انتہائی خطرناک پیشن گوئی ہے۔ دوسری جانب اقوام متحدہ کے اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی قومی پیداوار کو بارش اور سیلاب سے جو نقصان پہنچ رہا ہے، وہ فی کس آمدنی کی نشو و نما سے بھی زیادہ ہے۔ یہ نقصان تمام ایشیائی ممالک میں ہونے والا سب سے بڑا نقصان شمار کیاگیا ہے۔

اقوام متحدہ کے تجزیہ نگاروں کے بقول 2010 کے سیلاب میں پاکستانی معیشت کو جو نقصان ہوا وہ 2005 کے زلزلے اور ایشیا میں آنے والی سونامی کے مجموعے سے زیادہ ہے۔ اس نقصان کی مالیت تقریباً 10 بلین ڈالر بنتی ہے ۔ 2012 میں سیلاب کے نتیجے میں تقریباً 2.5 بلین ڈالر کا نقصان ہوا تھا۔ 2013 کے مون سون میں ہونے والی بارشوں سے 15 لاکھ لوگ متاثر ہوئے تھے، 80 ہزار بہے اور لاکھوں ایکڑ سے زیادہ اراضی پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی تھیں۔

قدرتی آفات شروع دن سے ہی انسانی کی آزمائش بنی ہوئی ہیں۔ ان آفات سے نمٹنے میں اب تک وہی قومیں سرخ رو ہوئیں، جنہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی اور اتحاد و یگانگت کا مظاہرہ کیا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری قوم میں یہ دونوں صفات مفقود ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ہمارے پاس کوئی موثر منصوبہ بندی ہے اورنہ ہی اتحاد کا وہ مظاہرہ جو ان آفتوں سے نمٹنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

اس وقت ہمارے سیاسی رہنماوں کی آپس میں ضد اور انا پرستی سے پوری قوم انتشار کا شکار ہوچکی ہے ۔ سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں، یہ لوگ اپنی جمع پونجی بارشوں اور سیلاب میں ہار چکے ہیں اور اب تک بحال نہیں ہوسکے۔ پاکستان میں اس سیلاب کے نتیجے میں بیس لاکھ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے ہیں جب کہ ہلاکتوں کی تعداد تین سو سے زیادہ ہے۔

ایسے میں پھر ذہنوں میں سوال اُٹھتا ہے کہ کیا قدرتی آفات بھی طبقاتی ہوتی ہیں ؟ یہ ہمیشہ استحصال زدہ  اورمحروم طبقوں کو ہی نشانہ کیوں بناتی ہیں؟ چلو مان لیا کہ سیلاب یا زلزلے قہر خداوندی ہوتے ہیں لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ یہ قہر پہلے سے عذابوں میں گھرے ہوئے غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟ دنیا کا وہ کون سا گناہ ہے جوحکم ران طبقے کے محلات میں نہیں ہوتا۔ زلزلوں اور سیلابوں میں کتنے سرمایہ دار یاجاگیر مرتے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وسائل پر قابض یہ طبقہ ان سیلابوں سے بہت دور میٹرو پولیٹن شہروں کے پوش علاقوں میں بستا ہے۔

ان کے بنگلے زلزلوں میں اس لیے منہدم نہیں ہوتے کہ وہ بنائے ہی اس طرح جاتے ہیں کہ منہدم ہی نہ ہوں۔ پھریہ بھی توسچ ہے کہ ہمارا جاگیر دار اور سرمایہ دار حکم ران ذرا جدید قسم کے ساہو کار بن چکا ہے لیکن مگرمچھ کے آنسو بہانے والا یہ ہی طبقہ دراصل ان تباہ کاریوں کا ذمہ دار ہے اور اس نظام کے محافظ بھی ۔ وہ ہیلی کاپٹر سے بربادیوں کا نظارہ کرتا ہے، اپنی سیاست چمکاتا ہے ، پھرفوٹو سیشن ہوتے ہیں، عالمی برادری سے امداد کی اپیل کی جاتی ہے، جب امداد مل جاتی ہے تو یہ امداد نچلی و بالائی افسر شاہی سے لے کر سیاسی اشرافیہ تک کی غربت دور کرنے کے کام آتی ہے۔

این جی اوز اور امدادی کاموں میں سرگرم مذہبی اور کالعدم تنظیموں کی چاندی الگ ہوتی ہے۔ سول سوسائٹی کی کئی تنظیمیں بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتی ہیں۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ڈونرز سے ملنے والی بھاری امداد کی پائپ لائن چالو ہوجاتی ہے۔ 2005 کا زلزلہ ہو، تھرپاکر میں قحط سالی یا پھر ہر سال آنے والے سیلاب، ہر آفت، خیرات کے اس کاروبار کو فروغ دیتی ہے۔

پاکستان میں سیلاب آنے کے ذمہ دار کون ہوسکتے ہیں ؟۔ اس حوالے سے جوباتیں سامنے آئیں، اُن میں یہ بھی شامل تھا کہ پاکستان میں سیلاب کے لیے بھارت ذمے دار ہے ۔ خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق حافظ سعید کو اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کو درپیش سیلاب کی صورتِ حال کے لیے کِسے ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔ کیوں کہ انہوں نے رائٹرز سے بات چیت میں کہا  تھا ’’بھارت اپنے ریگستانوں کو سیراب کرتا ہے اور اضافی پانی بغیر کسی انتباہ کے پاکستان میں چھوڑ دیتا ہے، اگر ہم بھارت کو اب نہیں روکیں گے تو پاکستان کو یہ خطرہ درپیش رہے گا‘‘۔

یہ امر بھی اہم ہے کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو بھی سیلاب کی تباہ کاریوں کا سامنا تھا اور وہاں گزشتہ ایک صدی کا بدترین سیلاب آیا تھا جب کہ ہلاکتوں کی تعداد دو سو سے زیادہ تھی۔  کشمیر میں سیلاب سے متاثرہ ایک علاقے شیر شاہ میں ایک کسان سید علی کا کہنا تھا ’’یہ غلطی نہیں ہے، یہ پاکستان کو تباہ کرنے اور عوام کو مشکل میں ڈالنے کی سوچی سمجھی کارروائی ہے‘‘۔

بعض پاکستانی اس صورتِ حال کے لیے اپنی حکومت کی نااہلی کو ذمہ دار قرار دیتے رہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا ’’کچھ لوگ کہیں گے کہ پانی بھارت نے چھوڑا لیکن میرا سوال یہ ہے اگر بھارت وقت پر انتباہ جاری کر بھی دیتا تو کیا ہم اس پر توجہ دیتے؟ کیا یہ حکومت اس کے لیے کوئی اقدامات کرتی؟ مجھے تو حکومت پر شبہ ہے۔‘‘

پاکستان میں مسائل اور مشکلات کی ایک ایسی کھچڑی پکی ہوئی ہے، جس کو سمجھنا اور سلجھانا تو دور کی بات اس کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریاں، ٹارگٹ کلنگ ،خود کش بم دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ اور ان سب کی زد میں آئے ہوئے ہیں اور بے بس عوام کا کوئی پرسان حال نہیں!

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کی اب تک ہر طرف داستانیں بکھری ہوئی ہیں۔ ملک کے بہت سے شہر، قصبے اور دیہات جوزیر آب آئے تھے، ہزاروں گھر بہے تھے اور سیکڑوں کی تعداد میں قیمتی جانور اور کھڑی فصلیں تباہ ہوئی تھیں، کاروبار اجڑے، لاکھوں متاثرین کھلے آسمان تلے اب تک بے یارومددگار پڑے ہیں، معصوم بچوں کو سینوں سے لگائے مائیں مایوس آنکھوں سے اپنے گھروں کو ڈوبتا دیکھتی رہیں۔ یہ بات پرانی ہو چکی مگر صورت حال آج بھی ویسی کی ویسی ہے۔

پاکستان کو تاریخ کے ایسے بدترین سیلاب کا سامنا ہے جسے اقوام متحدہ نے سونامی سے بھی تباہ کن قرار دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سیلاب سے متاثرین کی تعداد 2004 کے سونامی ، 2005 کے کشمیر کے تباہ کن زلزلے اور 2010 کے ہیٹی میں آنے والے زلزلے کے سارے متاثرین سے بھی زیادہ ہے اور ان کی بحالی کے لیے اربوں ڈالرز درکار ہوں گے۔ ہمیشہ کی طرح حکومت پاکستان کے اقدامات ناکافی رہے اور بے بس و بد حال لوگ مدد کی دہائیاں دے رہے ہیں۔

سیلاب اور اسکی تباہ کاریوں کے علاوہ بجلی، پانی، اشیا ئے خوردنی کی قلت و مہنگائی اور عدم دست یابی کی داستاں اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ ساتھ دیگر معاشی مسائل نے بھی پاکستان کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف 9 سال سے جاری جنگ اور اس کے مضر اثرات سے نہ صرف حالات کشیدہ ہو رہے ہیں بل کہ پاکستان میں تو اس کے نتائج انتہائی تباہ کن ثابت ہو رہے ہیں۔

اس الم ناک صورت حال میںجہاں ایک طرف پاکستانی قوم مسائل و مشکلات اور سیلاب جیسی قدرتی آفت میں مبتلا ہوئی تو دوسری طرف افسوس ناک طرز عمل یہ بھی رہا کہ سیاسی قائدین ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے بیان بازی میں مصروف رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے ملکی قائدین اپنے مفادات سے بالا تر ہو کر ان مسائل اور مشکلات سے نجات حاصل کریں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی اور انہیں ایک نئی زندگی شروع کرنے میں مدد کے لیے ہنگامی بنیادوں پر کام کریں تاکہ اس قدرتی آفت کے آثار کو مٹایا جاسکے۔

ہمت، حوصلے اور بہادری کا اعتراف

$
0
0

کسی بھی قسم کی تکلیف، مشکلات یا بیماری اﷲ کی طرف سے آتی ہے، ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دیکھا جائے کہ خالق کائنات کی مخلوق خاص طور پر انسان ان مشکلات و تکالیف پر کیسا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔

جن کا اپنے پروردگار پر ایمان کم زور ہوتا ہے، جن کی ناامیدی حد سے بڑھ جاتی ہے وہ تو کسی بیماری یا پریشانی کی وجہ سے جینا چھوڑدیتے ہیں اور خود کو ہمیشہ کے لیے اس تکلیف کا اسیر سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن دنیا میں ایسے بھی بے شمار لوگ ہیں جو کسی بیماری یا پریشانی کو دنیا والوں کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے اور دوسروں کو اس پریشانی یا تکلیف سے بچانے کا موقع سمجھ کر کام شروع کردیتے ہیں، ایسے ہی لوگ سراہے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔

عالمی شہرت یافتہ امریکی ہفت روزہ ’’ٹائم‘‘ نے ہر سال کی طرح گذشتہ سال 2014 کے لیے بھی ’’سال کی بہترین شخصیات‘‘ کے ایوارڈ کا اعلان کیا اور اس بار یہ اعزاز اُن 5 افراد کے نام کیا گیا جو انتہائی مہلک بیماری ایبولا وائرس کے خلاف لڑرہے ہیں۔

ان پانچوں افراد نے اپنی بیماری کے باوجود ہمت نہیں ہاری، اُن کی اسی جرأت و ہمت کا اعتراف عالمی سطح پر ’’ٹائم میگزین ‘‘ کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ٹائم میگزین ہر سال ایسی شخصیات یا افراد یا کسی چیز کو اس ایوارڈ سے نوازتا ہے، جو پورے سال خبروں میں رہے ہوں۔ 2014 میں ٹائم میگزین کی منتخب کردہ یہ پانچوں شخصیات ڈاکٹر جیری برائون (Dr Jerry Brown)، ڈاکٹر کینٹ برینٹلی (Dr Kant Brantly)، فودے گالا  (Foday Galla)، ایلا واٹسن اسٹرائیکر(Ella Watson Stryker) اور سیلوم کاروا (Salome Karwah) ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جنگیں چمک دار ہتھیاروں سے نہیں بل کہ حوصلہ مند دلوں سے جیتی جاتی ہیں، ایبولا وائرس کے خلاف کام کرنے والے یہ لوگ بھی اس مشکل جنگ کو حوصلے سے لڑرہے ہیں۔

آئیے ان پانچوں شخصیات کے بارے میں ضروری تفصیلات جانتے ہیں:

٭ ڈاکٹر کینٹ برینٹلی (Dr Kant Brantly)

لائبیریا میں ایبولا وائرس کے شکار مریضوںکا علاج کرتے ہوئے خود اس وائرس کا شکار ہوئے۔ جب انھیں یہ خبر ملی کہ اُن کا نام بھی ’’ٹائم میگزین ‘‘ نے سال کی سب سے نمایاں شخصیات میں شامل کیا ہے تو ڈاکٹر کینٹ برینٹلی کا کہنا تھا،’’یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔‘‘ ڈاکٹر کینٹ کہتے ہیں کہ مجھے صحیح طرح اندازہ نہیں کہ میں کب اور کس طرح اس بیماری کا شکار ہوا۔ ہم تو روزانہ ہی بہت سے مریضوں کا چیک اپ کرتے تھے، لیکن مجھے کچھ کچھ احساس ہورہا ہے کہ جب مجھے بخار کی شدت نے جکڑا تو اُس سے 9 روز قبل ایک لڑکی اپنی والدہ کو لے کر آئی تھی، اُس کی والدہ کی حالت بہت خراب تھی۔ کچھ گھنٹوں کے علاج کے بعد وہ عورت انتقال کرگئی۔ اُس کے ایک ہفتے بعد ہی میں بیمار ہوا اور چند میڈیکل ٹیسٹ کرانے کے بعد چلا کہ میں جس بیماری سے لوگوں کو بچانے کی کوشش کررہا ہوں، وہ مجھے لاحق ہوگئی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں زندہ ہوں اور کوشش کررہا ہوں کہ لوگوں کو اس وائرس سے بچائوں۔

٭ڈاکٹر جیری براؤن (Dr Jerry Brown)

افریقی ملک لائبیریا کے دارالحکومت مونروویا کے اسپتال میں میڈیکل ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب 2014 ء کے مارچ میں ہمیں اس ایبولا کے تیزی سے پھیلنے کا پتہ چلا توہم نے فوری طور پر اس سے بچائو کے اقدامات شروع کردیے تھے۔ ابتدائی دنوں میں تو بہت سے لوگ ایبولا وائرس کی سنگینی کا احساس نہیں کرپائے ۔ جب لوگوں میں کچھ شعور بڑھا تو اس وقت بہت سے لوگوں کے لیے دیر ہوچکی تھی۔

٭ فودے گالا (Foday Galla)

میڈیکل کے طالب علم اور ایمبولینس ڈرائیور کی حیثیت سے فودے گالا نے درجنوں مریضوں کو ان کے گھروں سے اسپتال منتقل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک مریض کو اسپتال لے جاتے ہوئے ہی وہ ایبولا کا شکار ہوا۔ فودے گالا کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی بھرپور محنت اور حوصلہ افزائی کا ہی نتیجہ ہے کہ میں ایبولا کا مریض ہوتے ہوئے بھی دوسروں کے لیے کام کررہا ہوں۔

٭ایلا واٹسن اسٹرائیکر(Ella Watson Stryker)

(ڈاکٹروں کے ساتھ کام کرنے والی ہیلتھ پروموٹر)

ایلا واٹسن کہتی ہیں کہ مجھے گذشتہ سال مارچ (2014) میں ایبولا وائرس کے بارے میں پہلی بار پتا چلا۔ مجھے اپنے ادارے کی جانب سے افریقی ملک گنی میں ایبولا وائرس پھیلنے کی خبر ملی ۔ میں ایک لمبا سفر کرکے متاثرہ علاقوں میں پہنچی، میرے ذہن میں بہت سے سوالات تھے، جب میں متاثرہ مریضوں سے ملتی رہی، ان کے ساتھ وقت گزار ا تو مجھے کافی سوالات کے جواب مل گئی۔ مجھے اپنی بھی فکر تھی، گھر والے بھی اس حوالے سے کافی پریشان تھے، لیکن میں ان لوگوں کی پریشانیاں دور کرنا چاہتی ہوں جو ایبولا کی وجہ سے اپنی خوشیوں کو خود سے دور کربیٹھے ہیں۔

٭ سیلوم کاروا (Salome Karwah)

سیلوم کاروا بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ افریقہ میں ایبولا کے مریضوں کی امداد میں مصروف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس مہلک مرض کا مقابلہ کرنے کے قابل ہوئی، جس کا کریڈٹ ان ڈاکٹروں کو بھی جاتا ہے جنھوں نے میرا علاج کیا۔ اب میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ایبولا کے مریضوں سے زیادہ سے زیادہ ملاقاتیں کروں گی، کیوںکہ میں جتنا زیادہ لوگوں سے ملوں گی، ان سے باتیں کروں گی، ان کے دکھ درد سنوں گی تو میری اپنی تکالیف اور پریشانیاں ختم ہوجائیں گی۔

ایبولا ہے کیا؟

ناظرین کی معلومات میں اضافے کے لیے بتاتے چلیں کہ آخر ایبولا ہے کیا؟، یہ ہلکے سے بخار، گلے، پٹھوں اور سر میں درد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور پھر مریض کو قے آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جیسے جیسے مرض کی شدت بڑھتی ہے، ایبولا تیزی سے مریض کے جگر اور گردوں کو متاثر کرنا شروع کردیتا ہے۔

کس کس کو ملا یہ اعزاز

1923 سے ٹائم میگزین کی اشاعت کا آغاز ہوا، اس کا صدر دفتر امریکی شہر نیویارک میں ہے اور اسے دنیا کے موقر ترین جرائد میں سے ایک شمار کیا جاتا ہے۔ سال کی بہترین شخصیت کا ایوارڈ دینے کا سلسلہ 1927 میں شروع کیا گیا۔ ٹائم میگزین کی پہلی بہترین شخصیت کے لیے امریکی پائلٹ چارلس لنڈنبرگ کو نام زد کیا گیا، جس نے نیویارک سے پیرس تک اکیلے نان اسٹاپ جہاز اڑایا۔ ٹائم میگزین کی اس طویل فہرست میں مہاتما گاندھی (1930) ، امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ (1932, 1934) ، جرمن چانسلر ایڈولف ہٹلر (1938)، روسی راہ نما جوزف اسٹالن (1939) ، برطانوی وزیراعظم ونسٹن چرچل (1940) ، ایرانی وزیراعظم محمد مصدق (1951) ، جان ایف کینیڈی(1961) ، پوپ جان (1962) ، مارٹن لوتھر کنگ (1963)، اپالو کے خلاباز (1968) ، امریکی صدر رچرڈ نکسن (1971) ، سعودی عرب کے شاہ فیصل (1974) ، امریکی صدر جمی کارٹر (1976)، مصر کے صدر انور سادات (1977) ، ایرانی انقلاب کے بانی آیت اﷲ خمینی(1979) ، امریکی صدر رونالڈ ریگن (1980) ، کمپیوٹر بطور ایک مشین (1982) ، سابق سوویت یونین (روس) کے صدر میخائیل گورباچوف (1987)، زمین (1988) ، امریکی صدر جارج بش سنیئر (1990) ، دنیا کے مختلف علاقوں میں کام کرنے والے امن رضاکار (1993) ، جارج بش جونیئر  (2000)، روسی صدر ولادیمر پوتن  (2007) ، امریکی صدر بارک اوباما (2008) ، فیس بک کا بانی مارک زکربرگ (2010) ، دنیا کے مختلف ممالک میں احتجاجی تحریک چلانے والے مظاہرین (2011) ، پوپ فرانسس (2013) شامل ہیں۔n

سال 2014 کے ایوارڈ کے لیے ٹائم میگزین کا ایوارڈ جیتنے کے لیے نام زد کیے جانے والوں میں 8 امیدوار شامل تھے۔ ان میں امریکا میں سیاہ فام نوجوان کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت پر فرگوسن میں احتجاج کرنے والے مظاہرین، ایبولا وائرس سے لڑنے والے، روسی صدر ولادیمر پوتن، پاپ موسیقی کی دنیا میں سب سے مقبول پاپ اسٹار ٹیلر سوئفٹ (Taylor Swift) ، چین میں ای کامرس کمپنی ’’علی باباAlibaba ‘‘ کی سی ای او جیک ما(Jack Ma)    جو استاد ہیں، ایپل آئی فون متعارف کرانے والے ٹم کُک (Tim Cook) ، عراق میں کرد علاقے کے 2005 سے صدر مسعود بارزانی (Maoud Barzani)، اور امریکا کی نیشنل فٹبال لیگ کے کمشنر روجر گڈڈیل (Roger Goodell) شامل تھے۔

ٹائم میگزین کی منیجنگ ایڈیٹر نینسی گبز (Nancy Gibbs) نے ایوارڈ جیتنے والوں کے ناموں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو انتہائی مشکل حالات میں انتہائی کٹھن اور خطرناک کام انجام دے رہے ہیں، تاکہ دنیا کے دیگر لوگوں کو اس وبا (ایبولا وائرس) سے محفوظ رکھ سکیں۔ دوسرے نمبر پر امریکی ریاست میسوری کے علاقے فرگوسن میں سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت پر احتجاج کرنے والے مظاہرین کو رکھا گیا، جب کہ روسی صدر پوتن تیسرے نمبر پر رہے۔

ٹائم میگزین کی انتظامیہ نے ایبولاوائرس کے شکار افراد کو منتخب کرنے کے حوالے سے بتایا کہ سال 2014 میں افریقی ممالک گنی، سیرالیون، لائبیریا میں ایبولا ایک چھوٹے سے وائرس سے مہلک اور موذی وبا بن گیا ہے، جہاں کئی ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوکر موت کی نیند سوچکے ہی۔ اب یہ مرض آہستہ آہستہ دنیا کے دیگر ممالک کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔

دنیا کے مختلف ملکوں میں ایبولا وائرس پھیل رہا ہے اورعالمی ادارۂ صحت کے ڈاکٹروں نے اس بات کا خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایبولا وائرس 2015 کے آخر تک اپنی تباہ کاریوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ مختلف افریقی علاقوں میں یہ مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ بہت سے لوگ روزانہ کی بنیاد پر اس مہلک مرض کی وجہ سے ہلاک ہورہے ہیں اور درجنوں لوگ اس بیماری کا شکار بن رہے ہیں۔

جو بھی ایبولا کے مریضوں کا علاج کرنا چاہتا ہے، اس کے بھی ایبولا کا مریض بننے کا قوی امکان رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے سوچا کہ وہ لوگ واقعی بہت جرأت مند اور انسان دوست ہیں جو خود کی پروا کیے بغیر دوسروں کی بھلائی کے لیے آگے بڑھ کر کام کررہے ہیں۔ انھیں متنبہ بھی کیا جاتا ہے، میڈیکل کی فیلڈ میں رہتے ہوئے وہ خود بھی موذی اور متعدی امراض کے خطرات سے آگاہ ہیں، لیکن دوسروں کو محفوظ رکھنے اور اس وبائی مرض سے لڑنے کے لیے انھوں نے زیادہ سوچا نہ خود کو بچانے کی کوشش کی، بس انھوں نے اپنا کام شروع کردیا۔ ان پانچوں شخصیات نے ٹائم میگزین میں اپنا نام منتخب ہونے پر خوشی کا اظہار بھی کیا ہے اور ایبولا وائرس کو مکمل ختم کرنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے۔

ڈاکٹرکینٹ برینٹلی، ڈاکٹر جیری برائون، فودے گالا، سیلوم کاروا اور ایلا واٹسن جیسے لوگ واقعی سراہے جانے کے قابل ہیں جو خود کو مصیبت میں ڈال کر دوسری کی مصیبتیں اور پریشانیاں ختم کرنے یا انھیں کم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے شاعر نے کہا ہے :

ہیں وہی لوگ جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے

دنیا کے انوکھے اور دلچسپ ریت و رواج

$
0
0

دنیا کے مختلف ملکوں میں نئے سال کی آمد پر خوشی کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس کے لیے مختلف ملکوں میں مختلف اقوام کے لوگ الگ الگ انداز سے نئے سال کا جشن مناتے ہیں، جس میں بعض اوقات تو ان کے اپنے کلچر، اپنی تہذیب و ثقافت کی جھلک نمایاں ہوتی ہے اور بعض اوقات اس موقع پر عجیب بے تکی حرکتیں کی جاتی ہیں، جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، بل کہ یہ سب روایات اور رسومات توہم پرستی کے زمرے میں آتی ہیں۔

امریکا کے ٹائم اسکوائر کی گھڑی جیسے ہی رات کے 11 بج کر 59 منٹ کا اعلان کرتی ہے،  نئے سال کی آمد کا شور مچ جاتا ہے۔ دنیا بھر کے مختلف ملکوں میں لوگ اپنے اپنے معیاری وقت کے مطابق نئے سال کے آنے پر جشن مناتے ہیں اور نئے سال کا کھلے دل کے ساتھ خیرمقدم کرتے ہیں۔ 2015کا استقبال بھی ساری دنیا نے اس امید کے ساتھ کیا ہے کہ یہ سال پوری دنیا کے لیے اپنے دامن میں امن، خوشیاں اور انصاف لے کر آئے گا اور عالم انسانیت کو اس سال کے دوران سکون کا سانس نصیب ہوگا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ دنیا کے مختلف ملکوں میں نئے سال کو کس طرح خوش آمدید کہا جاتا ہے:

٭برازیل:

فٹ بال کے متوالے برازیل کے رہنے والوں کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر آپ آنے والے اس نئے سال میں نقصان پہنچانے والی، گندی اور خراب روحوں سے بچنا چاہتے ہیں تو نئے سال کی شام کا استقبال سفید لباس کے ساتھ کریں۔ اگر آپ نے اس شام کو مکمل طور پر سفید لباس زیب تن کیا تو سمجھ لیں کہ نئے سال میں کوئی بھی بدروح آپ کو نہیں ستائے گی، آپ کی سفید یونیفارم تمام گندی روحوں کو آپ کے قریب بھی نہیں پھٹکنے دے گی۔

یہ تو ایک چیز ہوئی، مگر اس حوالے سے برازیل کی دوسری انوکھی روایات میں یہ روایت بھی شامل ہے کہ اس شام کو لوگ پہلے سے سمندر کے کنارے جاکر کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہوتا ہے کہ  اگر انہوں نے سات سمندروں کی لہروں میں چھلانگ لگائی تو نیا سال ان کے لیے خوش بختیاں لائے گا۔ یہ لوگ پہلے سے تیار ہوتے ہیں۔ جب  گھڑی میں بارہ بجنے میں چند سیکنڈ باقی ہوتے ہیں تو لوگ سمندر کی لہروں میں چھلانگ لگادیتے ہیں اور جب وہ ڈبکی لگاکر سمندر کے پانی سے سر باہر نکالتے ہیں تو گویا وہ نئے سال میں داخل ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس طرح وہ خود کو برائیوں اور آلودگیوں سے پاک صاف کرلیتے ہیں۔ ویسے برازیل کے لوگ سمندر میں تازہ پھول اور گل دستے پھینک کر بھی نئے سال کو خوش آمدید کہتے ہیں۔

٭چلی:

چلی کے لوگ نئے سال کی آمد کا تہوار بڑے عجیب و غریب انداز سے مناتے ہیں۔ یہ لوگ  آدھی رات کے قریب یعنی بارہ بجے سے چند سیکنڈ پہلے ایک چمچا بھر مسور کی دال یا مختلف بیج کھاتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ ایک کام اور بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے جوتے کے تلے میں تھوڑی بہت رقم بڑے اہتمام سے رکھ دیتے ہیں۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ عمل کرنے سے اگلے بارہ ماہ تک انہیں روپے پیسے کی کوئی کمی یا پریشانی نہیں ہوتی۔

چلی کے جو لوگ چیلینج قبول کرنے کے شوقین ہیں اور خطرات سے کھیلنا جانتے ہیں، وہ نئے سال کی آمد کے موقع پر رات کا یہ خاص حصہ کسی قبرستان میں گزارتے ہیں  اور وہاں گھنٹی بجاکر اپنے ان محبوب لوگوں کو بتاتے ہیں کہ نیا سال آگیا ہے۔

٭چین:

کہتے ہیں کہ دنیا میں چین وہ ملک ہے جس نے سب سے پہلے بارود یا آتش گیر مواد  ایجاد کیا تھا، اس لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ نیا سال آئے اور اہل چین اس خوشی کے موقع پر آتش بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ چناں چہ اس ملک میں نئے سال کی آمد کے موقع پر زبردست آتش بازی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے اور آسمان نصف شب کو مختلف رنگوں سے منور ہوجاتا ہے۔ اہل چین نئے سال کی آمد کے موقع پر ایک اور خصوصی کام بھی کرتے ہیں جو اب ان کا لازمی رواج بن چکا ہے۔ یہ لوگ یعنی یہاں کے مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان سبھی سرخ لباس زیب تن کرتے ہیں، سرخ غباروں اور اسی رنگ کی آرائشی چیزوں سے اپنے گھروں، بازاروں، گلیوں، دکانوں اور عمارتوں کو سجاتے ہیں۔

اس رات کو بچوں کو سرخ رنگ کے لفافوں میں کچھ رقم بطور انعام دی جاتی ہے جسے بچے اپنے لیے نیک شگون قرار دیتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق یہ رقم ان کے لیے خوشی اور خوش حالی لاتی ہے۔ مگر یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری ہے کہ دوسرے ایشیائی ملکوں کی طرح چینی نئے عیسوی سال کی آمد بڑے اہتمام سے تو مناتے ہیں، مگر ساتھ ہی یہ اپنے چینی قمری سال کی آمد کے موقع پر بھی زبردست جشن مناتے ہیں، جس سے انہیں دو سال یعنی قمری اور عیسوی سال منانے کا موقع مل جاتا ہے اور ان کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے۔

٭کیوبا:

کیوبا کے لوگوں کا ایک عجیب سا عقیدہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر دوران سفر کسی بھی مسافر کو کوئی زہریلا کیڑا یا سانپ وغیرہ کاٹ لے تو اس سے بچاؤ کا طریقہ بہت آسان ہے۔ کیوبا کے روایتی معالج اپنے لوگوں کو یہ ہدایت دیتے ہیں کہ جیسے ہی نئے سال کی آمد کا اعلان ہو یعنی رات کے بارہ بجیں، ایک سوٹ کیس سے اپنے گھر کے اطراف ایک خیالی یا تصوراتی دائرہ بنادیں۔ یہ ایک حفاظتی حصار ہے، اگر آپ نے یہ بنادیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اب سال بھر تک نہ تو کوئی زہریلا کیڑا ہی آپ کو کاٹ سکتا ہے اور نہ ہی سال بھر آپ کے دوسرے ملکوں کے سفر کے دوران کوئی رکاوٹ پیش آئے گی اور غیرملکی سفر کے بہت سے مواقع ملیں گے۔

بعض لوگ اس سلسلے میں قدیم روایات پر بھی عمل کرتے ہیں۔ یہ لوگ نصف شب کو جب نیا سال آرہا ہو، اپنے گھروں کی صفائی کرتے ہیں، اسے جھاڑو لگاتے ہیں اور کھڑکیوں میں کھڑے ہوکر باہر پانی پھینکتے ہیں، تاکہ گھر کے اندر کی بلائیں باہر نکل جائیں اور سال بھر پلٹ کر نہ آئیں۔ اس طرح یہ لوگ اپنے گھروں کو  موجودہ سال کے لیے صاف اور محفوظ بنالیتے ہیں۔

٭ڈنمارک:

ڈنمارک کے لوگ نئے سال کی آمد کے خاص موقع پر اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے ساتھ بہت ہی خاص انداز سے محبت اور پیار کا اظہار کرتے ہیں، جسے پڑھ کر آپ یقینی طور پر ہنسیں گے۔ یہ لوگ ان کے گھروں اور مکانوں کی دیواروں پر پلیٹیں اور گلاس پھینکتے  ہیں جو ان سے ٹکراکر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتے ہیں۔

یہ تو نئے سال کی آمد کا عام رواج ہے، مگر ایک اور خاص طریقہ یہ ہے کہ نصف شب کے قریب یہ لوگ ایک کرسی رکھ کر اس پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور جیسے ہی کلاک کی سوئیاں رات کے بارہ بجنے کا اعلان کرتی  ہیں اور نیا سال شروع ہوتا ہے تو یہ اپنی کرسیوں سے نیچے فرش پر چھلانگ لگادیتے ہیں اور اس  طرح بڑے پرجوش انداز میں نئے سال میں قدم رکھ کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ وہ سال بھر اسی طرح ہر کام کریں گے اور کسی سے نہیں ڈریں گے۔

٭ایکواڈور:

ایکواڈور میں نئے سال کی آمد بڑے ہی عجیب و غریب انداز سے منائی جاتی ہے۔ یہ لوگ  اس موقع پر اپنے سیاست دانوں کے پتلے تو جلاتے ہی ہیں، ساتھ ہی اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالفین کے پتلے بناکر انہیں بھی نذر آتش کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ بعض لوگ اپنے ناپسندیدہ لوگوں کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کرتے ہیں۔ گویا اس ملک میں گزرے سال کے آخری لمحات اور آنے والے سال کی ابتدائی گھڑیوں میں لوگ اپنے دل کی بھڑاس نکال کر آسمان کو روشن کردیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ناپسندیدہ لوگوں کو صفحۂ ہستی سے مٹادیا۔

بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ اس طرح  ایکواڈور کے لوگ گذشتہ سال کی منفی توانائی، منفی سوچ اور جذبے سے نجات حاصل کرلیتے ہیں۔

تھوڑی بہت تبدیلی کے ساتھ لگ بھگ اسی انداز سے پنامہ، پیراگوئے اور کولمبیا میں بھی لوگ نئے سال کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ان ملکوں میں اس موقع پر ایک اور اہم کام بھی کیا جاتا ہے، جو لوگ اپنے مخالفین یا سیاست دانوں کے پتلے جلانا پسند نہیں کرتے، وہ اپنے گھر میں تھوڑی بہت رقم اس طرح چھپادیتے ہیں کہ کوئی اسے تلاش نہ کرسکے۔ ان کا یہ عقیدہ ہے کہ  گھر میں چھپائی گئی یہ رقم ان کے لیے سال بھر کی خوش حالی لاتی ہے۔

٭جرمنی:

چائے کی پتی بھی مستقبل کا پتا دیتی ہے۔ جرمنی کے لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ نیا سال ہمیں مستقبل کی جھلک دکھاتا ہے۔ نئے سال کی آمد کے موقع پر یعنی نصف شب کو اہل جرمنی ایک پیالی میں  چائے کی پتی ڈال کر اس میں پانی ڈالتے ہیں اور پھر اس میں جھانکتے ہیں تو انہیں مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی جھلکیاں دکھائی دے سکتی ہیں۔

ایسا ہی کچھ آسٹریا میں بھی ہوتا ہے۔ کچھ لوگ ایک چمچا سیسہ ٹھنڈے پانی میں ڈالتے تو جو شکل بنتی ہے، وہ مستقبل میں پیش آنے والے واقعات کی ترجمانی کرتی ہے۔ ویسے جرمنی کے لوگ نئے سال کی آمد کے موقع پر ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر اپنے پسندیدہ پروگرام دیکھتے ہیں۔

٭یونان:

یونان میں نئے سال کی آمد پر خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس اہم موقع کے لیے یہ لوگ خصوصی طربیہ نغمات تیار کرتے ہیں۔  یہ تمام خوشی کے گیت بچے گاتے ہیں، جس کے بدلے میں ان کے بڑے، ان کے پڑوسی اور ان کے خاندان کے لوگ انہیں انعامی رقم بھی دیتے ہیں۔ اس رقم کی ان کی نظر میں بڑی اہمیت ہوتی ہے اور یہ بچے اسے سال بھر سنبھال کر رکھتے ہیں، کیوں کہ ان کے لیے یہ خوش بختی کی علامت ہے۔

اہل یونان نئے سال کا خیرمقدم کھلی آنکھوں سے کرتے ہیں۔ جیسے ہی کاؤنٹ ڈاؤن شروع ہوتی ہے تو اہل یونان  اپنے گھروں، بازاروں کی لائٹس بند کردیتے ہیں، تاکہ نئے سال کو اپنی کھلی اور تازہ آنکھوں سے اترتے دیکھیں، جس کے بعد تمام لائٹس آن ہوجاتی ہیں تو پرانے سال کا نام و نشان نہیں باقی نہیں ہوتا، جب کہ نیا سال پوری آب و تاب کے ساتھ آچکا ہوتا ہے۔ اس اہم ایونٹ کی ایک اور قدیم روایت Vasilópita ہے۔ یہ ایک کیک ہے جو خاص طور پر اسی موقع کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کیک کے اندر کوئی سکہ یا کوائن یا کوئی چھوٹی سی چیز چھپی ہوتی ہے، جس فرد کے حصے میں کیک کو وہ ٹکڑا آتا ہے جس میں سکہ چھپا ہوتا ہے، اسے بہت خوش قسمت سمجھا جاتا ہے کہ آنے والا سال اس کے لیے اپنے ساتھ بہت سی کام یابیاں لایا ہے۔

٭جاپان

جاپان میں بھی نیا سال خاص انداز سے منایا جاتا ہے، مگر یہاں کے بودھوں کی نظر میں  اپنا کیلینڈر اہم ہے۔ بہت سے جاپانی اس سال کے جانور کے حساب سے مناتے ہیں۔ جیسے 2014 کے سال کا جانور گھوڑا ہے۔ یہ لوگ اس موقع پر مندروں میں جاتے ہیں اور ان کی گھنٹیاں 108 بار بجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اہل جاپان نئے سال کی آمد کے موقع پر اپنے گھروں کی صفائی ستھرائی کا خاص اہتمام کرتے ہیں۔

ان کے ہاں ایک بات بہت اچھی ہے، یہ لوگ گذشتہ سال کے جھگڑے اور تنازعات اس موقع پر ختم کردیتے ہیں تاکہ نئے سال میں بالکل نئے اور تازہ انداز سے داخل ہوں اور یہ سال جھگڑوں اور اختلافات سے پاک شروع ہو۔ اس طرح  ان کا ملک تنازعات سے پاک ہوجاتا ہے۔

٭نیدرلینڈ یا ہالینڈ:

ہر بار نئے سال کی آمد کے موقع پر ہر ولندیزی  کاربائیڈ شوٹنگ کے ایونٹ میں ضرور شریک ہوتا ہے۔ اس میں دودھ کے ڈبوں میں کیمیکل ڈال کر پہلے ہلایا جاتا ہے اور اس کے بعد اسے ہلکے دھماکے سے اڑادیا جاتا ہے۔ مگر چوں کہ یہ کسی حد تک خطرناک بھی ہوتا ہے، اس لیے ہالینڈ کے متعدد شہروں میں اس رسم پر پابندی عاید ہے۔ اس کے باوجود نوجوان اس موقع پر اس کاربائیڈ شوٹنگ سے لطف اندوز ہونے سے باز نہیں آتے۔

لیکن ہالینڈ کے اکثر لوگ اس کو پسند نہیں کرتے، مگر چوں کہ اس موقع پر جشن تو منانا ہے، چناں چہ اکثر شوقین لوگ  اس موقع پر سمندر کا رخ کرتے ہیں، جہاں وہ اس سرد موقع پر سوئمنگ کے مختصر لباس میں نہ صرف منجمد کرنے والے پانی میں غوطہ خوری کرتے ہیں، بل کہ شمالی سمندر کی سرد لہروں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نئے سال کا استقبال اس جرأت سے کرتے ہیں کہ دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ گویا ہالینڈ کے لوگ آنے والے نئے سال کو جرأت و بہادری کے حوالے سے وقف کرتے ہیں۔

٭فلپائن:

اگر نیا سال کسی نئے انداز کے فیشن سے شروع کیا جائے تو یہ ایک اچھی علامت ہوتی ہے۔ فلپائن کے لوگ ہر نئے سال کی آمد ایک خاص انداز سے مناتے ہیں۔ وہ اس موقع کے لیے مخصوص لباس زیب تن کرتے ہیں جن پر گول گول سے ڈیزائن بنے ہوتے ہیں۔ اس مخصوص شام کو وہ اپنی جیبوں میں گول سکے بھی رکھتے ہیں، کیوں کہ گول ڈیزائن انہوں نے اس ایونٹ کے لیے خاص کیا ہوا ہے۔

اہل فلپائن نے گول ڈیزائن کو خوشی اور خوش حالی کی علامت قرار دے رکھا ہے۔ اس لیے بعض فیملیاں اور افراد تو اس موقع پر گول پھل جیسے سنگترے اور گریپ فروٹ (چکوترے) کھاتے ہیں، گول پھل سجاتے ہیں اور گول ڈیزائن کے پرچم اور جھنڈیاں اپنے گھروں پر لگاتے ہیں۔

٭جمہوریہ روس:

روس میں نئے سال کے حوالے سے ایک دل چسپ رواج ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی ایسی خواہش ہے جس کے لیے وہ چاہتا ہے کہ یہ جلدازجلد پوری ہو؟ یا اس کا کوئی خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہورہا؟ تو وہ نئے سال کے موقع پر یہ کرتا ہے کہ اپنی اس خواہش کو کسی کاغذ پر لکھ کر اس کاغذ کو جلاتا ہے اور اس کی راکھ شمپئن کے ایک گلاس میں ڈال کر اسے غٹاغٹ پی جاتا ہے۔

روسی نئے سال کی آمد کے موقع پر اپنی ادھوری اور تشنہ خواہش کی تکمیل کے لیے ایسا ہی کرتے ہیں۔ نئے سال کی روایتی تقریبات میں نئے سال کا درخت بھی شامل ہے جسے خصوصی اہتمام سے سجایا اور سنوارا جاتا ہے۔ اس موقع پر سانتا جیسی ایک فیگر بھی آتی ہے جسے روسی  Ded Moroz (Grandfather Frost) کہہ کر پکارتے ہیں۔ ڈیڈ موروز اصل میں فروسٹ یا انجماد کا دادا ہے۔ برف جیسی سفید داڑھی والا یہ بوڑھا اپنی پوتی Snegurochka کے ساتھ آتا ہے۔ یہ لڑکی برف کی خادمہ کہلاتی ہے۔ دونوں دادا پوتی مل کر بچوں میں تحفے تقسیم کرتے ہیں۔

٭اسکاٹ لینڈ:

اسکاٹ لینڈ کے لوگوں کو تحفے دینے کا کریز ہے۔ یہ لوگ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کو بہانے بہانے سے تحفے دیتے ہیں اور اس حوالے سے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ نئے سال کے موقع پر بھی اسکاٹ لینڈ میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ اپنے کسی دوست یا رشتے دار کے ہاں اس وقت پہنچتے ہیں جب نیا سال اپنی آمد کی گھنٹی بجارہا ہوتا ہے، تو میزبان آپ کے سامنے بچھ جائیں گے اور آپ کی خاطر مدارات میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

لیکن چوں کہ آپ اس گھر میں نئے سال میں داخل ہونے والے پہلے فرد قرار پائے، اس لیے آپ پر لازم ہے کہ اپنے میزبانوں کے لیے تحفے تحائف ضرور لے جائیں۔ لیکن یہ تحفے زیادہ قیمتی نہیں ہونے چاہییں بل کہ کم قیمت اور چھوٹے ہوں، مگر ان سے محبت کا اظہار ہوتا ہو۔ مثال کے طور پر ان تحفوں میں ڈبل روٹی بھی ہوسکتی ہے اور وہسکی بھی۔ اسکاٹ لینڈ کے لوگ نئے سال کا خیرمقدم آتش بازی سے بھی کرتے ہیں جو یہاں کی قدیم روایت ہے۔

٭جنوبی افریقا:

اگر آپ جنوبی افریقا میں رہتے ہیں اور پیدل چلنے کے شوقین ہیں تو نئے سال کی آمد کے موقع پر ذرا محتاط رہیں، کیوں اس ملک کے شہر جوہانسبرگ میں ایک عجیب سی روایت ہے۔

جوہانسبرگ کے لوگ نئے سال کی آمد کے موقع پر اپنا پرانا فرنیچر، بجلی کی مصنوعات جیسے ریڈیو، ٹی وی وغیرہ اٹھاکر بڑی بے پروائی کے ساتھ گھروں کی کھڑکیوں میں سے باہر سڑکوں پر پھینک دیتے ہیں۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں ہوتی کہ یہ سامان کسی کو نقصان بھی پہنچاسکتا ہے۔ گویا  جنوبی افریقا کے لوگ نئے سال کے آنے سے پہلے پرانی چیزوں سے نجات پانا پسند کرتے ہیں اور نئے سال میں نئی چیزیں خریدتے ہیں، تاکہ نیا زمانہ ان کے لیے نئی خوشیاں لائے۔

٭اسپین:

اسپین میں اور اسپینی زبان بولنے والے دوسرے ملکوں میں نئے سال کی آمد بڑے خاص انداز سے منائی جاتی ہے۔ اس روز نصف شب کو 12 انگور کھانا یہاں کی قدیم روایت ہے۔ بارہ انگور بارہ مہینوں کی ترجمانی کرتے ہیں اور انہیں کھانے کا مقصد یہ ہے کہ آنے والے سال کا ہر مہینہ ان کے لیے خوش بختی لائے گا۔

یہ بارہ انگور بھی بڑے اہتمام اور سلیقے سے کھائے جاتے ہیں۔ اس موقع پر رات کے بارہ بجے جب نیا سال بارہ گھنٹیوں کے ساتھ اپنی آمد کا اعلان کرتا ہے تو اس کی ہر گھنٹی پر ایک انگور کھانا ہوگا، واقعی بہت دل چسپ روایت ہے۔ ویل ڈن اسپین!

انٹرنیٹ پر’’اپ لوڈ‘‘ کردہ پانچ سو اردو کتب قارئین کے لیے تحفہ ہیں، راشد اشرف

$
0
0

تذکرہ کراچی کا ہو، اور پرانی کتابوں کے بازار کا ذکر نہ آئے، تو اُسے ادھورا جانیں۔ مطالعے کے شایق اتوار کے اتوار ادھر ہی ملیں گے۔

کبھی یہ مشن روڈ اور لائٹ ہاؤس پر لگا کرتا تھا۔ وہ ٹھکانہ ختم ہوا، تو کتب فروش 58ء میں ریگل چوک اٹھ آئے۔ گو اُنھیں اِس بازار کا گرویدہ ہوئے سات برس ہی بیتے ہیں، مگر مختصر سے وقت میں عشق کے ساتوں درجات طے کر ڈالے۔ وہاں کے مشاہدات الفاظ کی لڑی میں یوں پروتے ہیں: ’’پرانی کتب کا اتوار بازار منفرد مقام ہے۔ یہاں بڑے بڑے شاعر، دانش وَر اور کتابوں کے شوقین اپنے مرتبے کا خیال کیے بغیر، اکڑوں بیٹھے ڈھیر میں اپنی پسند کی کتابیں تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔ کئی صاحب ثروت لوگ ہزاروں روپے کی کتب ایک ہی وقت میں خرید لیتے ہیں۔‘‘

ان کے مطابق کتب فروش گلی گلی گھومنے والے کباڑیوں سے کتابیں خریدتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی نام وَر شاعر یا ادیب انتقال کر گیا، اور اُس کے لواحقین نے ذخیرہ کوڑیوں کے مول ردی فروش کو سونپ دیا۔ معروف ادیب، صحافی اور شاعر، حسن عابدی کا کتب خانہ اُن کی وفات کے تین برس بعد اتوار بازار آیا۔ شوکت صدیقی کا کتب خانہ 2013 میں فٹ پاتھ پر پہنچا، تو کتنی ہی اہم کتابیں خود انھوں نے پچاس پچاس روپے میں خریدیں۔

کراچی کی دو بڑی لائبریریوں کی کتابیں بھی اتوار بازار میں نظر آئیں۔ بہ قول ان کے؛ ’’تخلیق‘‘ کے مدیر اظہر جاوید کی کتابیں تو اُن کے انتقال کے محض بارہ روز بعد لاہور کے فٹ پاتھ پر دیکھی گئی تھیں۔ شاید اِسی ناقدری اور عدم توجہی کے باعث ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنے کتب خانے کے لیے جاپان کی ایک یونیورسٹی کا چناؤ کیا۔

یہاں اُنھیں نام وَر ادیب اور شاعروں کی ایسی کتب بھی ملیں، جن پر اُن کے دست خط ثبت ۔ کنور مہندر سنگھ بیدی کی خودنوشت ’’یادوں کا جشن‘‘ انتہائی ارزاں قیمت پر حاصل کی۔ دست خط سے اندازہ ہوتا ہے کہ 85ء میں یہ کتاب مہندر صاحب نے کراچی کی کسی خاتون کو پیش کی تھی۔

مقبول جہانگیر کے خاکوں کی یادگار کتاب ’’یاران نجد‘‘ کی ایک کاپی، جو اُنھوں نے اپنے دست خط کے ساتھ معروف براڈ کاسٹر اور ادیب، اخلاق دہلوی کو پیش کی، اُنھیں کراچی کے اتوار بازار سے ملی۔ ساقی، نیرنگ خیال، ادب لطیف اور نقوش جیسے جراید کے برس ہا برس پرانے شمارے بھی اُدھر پائے۔ جو معروف شخصیات اتوار بازار میں اکثر دِکھائی دیتی ہیں، اُن میں پروفیسر سحر انصاری اور ڈاکٹر ظفر اقبال نمایاں۔ قمر سہارنپوری بھی کسی زمانے میں باقاعدگی سے آیا کرتے تھے۔ غالب جیسی وضع قطع والے ماسٹر اقبال کتب فروشوں کے قبیلے کی معروف ترین شخصیت تھے، جو گاہک کے حساب سے کتاب کی قیمت لگاتے۔

یہ راشد اشرف کی کہانی ہے، جو ہیں تو انجینئر، مگر عشق کتابوں سے کیا۔ فقط اتوار بازار کا احوال اس داستان کا حصہ نہیں۔ جم کر تحقیق کی۔ ابن صفی، مولانا چراغ حسن حسرت اور عبدالسلام نیازی جیسی شخصیات کو موضوع بنایا۔ پانچ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ یوں تو ہر کتاب قابل ذکر، مگر ’’طرز بیاں اور‘‘ کی کیا بات ہے۔ کہنے کو ایک کتاب، پر کتنی ہی کتابوں تک رسائی کا وسیلہ۔ اتوار بازار سے خریدی، فراموش کردہ کتب سے ماضی کی گرد جھاڑی، اُن پر تبصرے اور مضامین لکھے۔ یعنی خود بھی اُدھر کی سیر کی، ہمیں بھی کروائی۔ اور تو اور اُنھیں اسکین کرکے انٹرنیٹ پر بھی پیش کر دیا۔

پانچ سو سے زاید اردو کتب ’’اسکرائبڈ‘‘ (Scribd) نامی ویب سائٹ پر ’’اپ لوڈ‘‘ کر چکے ہیں، جنھیں قارئین کے لیے تحفہ قرار دیتے ہیں۔ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ مہاراشٹر میں بیٹھے محمد انیس الدین اور علی گڑھ کے پروفیسر اطہر صدیقی کا بھی اس ضمن میں تعاون حاصل رہا۔ اس ویب سائٹ تک رسائی کا طریقہ بے حد سہل۔ گوگل سرچ انجن پر راشد اشرف لکھیں، ابتدائی نتائج ہی میں اسکرائبڈ کا لنک پائیں، اور ایک طلسماتی دنیا میں داخل ہوجائیں۔ ایک لاکھ 31 ہزار افراد اس کی سیاحی کر چکے ہیں۔ کاپی رائٹ قوانین کا خیال رکھتے ہیں۔

وہ کتابیں چنتے ہیں، جن کے مصنفین یا تو انتقال کر چکے ہیں، یا شایع کرنے والے ادارے قصۂ پارینہ ہوئے۔ تازہ کتابیں اپ لوڈ نہ کرنے کی وجہ اُن کے بہ قول یہ کہ ایک کتاب سے کم از کم سو افراد کا روزگار وابستہ ہوتا ہے۔ تو نئی کتاب اپ لوڈ کرنا ناانصافی ہوگی۔ ’’طرز بیاں اور‘‘ میں انٹرنیٹ پر پیش کردہ کتب کی فہرست بھی دی ہے۔ پاک و ہند کے کئی طلبا کو ایم فل اور پی ایچ ڈی میں مدد دے چکے ہیں۔

اب ذرا توجہ حالاتِ زندگی پر مرکوز کرتے ہیں:

جائے پیدایش؛ کراچی۔ محمد سلیم اشرف کے گھر آنکھ کھولی، جو نیشنل بینک سے منسلک تھے۔ وہ ایک سخت گیر اور ایمان دار افسر کی شہرت رکھتے تھے۔ بہ طور باپ شفیق، مگر شفقت کا برملا اظہار نہیں کرتے تھے۔ مراسلت والدہ کے ذریعے ہوتی، مگر اولاد کی تمام ضروریات پر نظر رکھتے۔ اس بات کا قلق ہے کہ جس لگن سے اُنھوں نے پرورش کی، اس یک سوئی سے وہ اُن کی خدمت نہیں کرسکے۔

شعور کی دہلیز حیدرآباد میں عبور کی۔ بچپن میں بلا کے شرارتی۔ کرکٹ کا جنون تھا۔ ہاکی اور فٹ بال کا بھی تجربہ کیا۔ شمار اچھے طلبا میں ہوتا۔ پبلک کالج، حیدرآباد سے انٹر کرنے کے بعد لاہور کی ایک درس گاہ میں داخلہ لیا۔ آٹھ ماہ اُدھر ہاسٹل میں رہے۔ وہ وقت اب خوش گوار یادوں کا حصہ ہے۔ جب خبر ملی کہ داؤد انجینئرنگ کالج، کراچی میں داخلہ ہوگیا ہے، تو شہر قائد کا رخ کیا۔ 97ء میں کیمیکل انجینئرنگ کی ڈگری لی۔ اُس زمانے میں ماموں کے ہاں رہایش رہی۔ گذشتہ دو عشروں سے وہ آئل اینڈ گیس سیکٹر سے منسلک ہیں۔

لکھاری کے لیے قاری ہونا شرط۔ پہلے پہل فیروزسنز کی بچوں کی سیریز نے گرویدہ بنایا۔ چھٹی جماعت میں تھے، جب ابن صفی کے ناولوں کا ذایقہ چکھا۔ تجربہ انوکھا رہا۔ آگے بڑھے، تو بڑھتے چلے گئے۔ کہتے ہیں،’’جس طرح Prolific writers ہوتا ہے، بے تحاشہ لکھنے والا۔ تو اس طرح سے ہم Prolific reader رہے۔ یعنی مروجہ ادب میں سب کچھ پڑھا۔ البتہ دل چسپی کا محور خودنوشت، سوانح عمری اور شخصی خاکے رہے۔‘‘

جب لکھنے بیٹھے، تو خشک موضوعات سے اجتناب برتا۔ مشفق خواجہ کے انداز میں، شگفتگی کے حامل مضامین لکھے۔ خواہش یہی رہی کہ قاری کو دل چسپ اور متنوع مواد فراہم کیا جائے۔ مضامین یہ پاک و ہند کے مختلف جراید میں شایع ہوئے۔ شاید اُن ہی میں ایک کتاب کا خاکہ چُھپا تھا۔ اپنے من پسند ادیب، محمد خالد اختر کے الفاظ دہراتے ہیں: ’’یہ مضامین اکیلے، اداس لمحوں میں خود کو بہلانے کے لیے لکھے۔ جب وہ مدیروں کی فراخ دلی کی بدولت چھپے، تو دیکھ کر تعجب ہوا کہ چند پڑھنے والوں کو ان کا انداز اچھا لگا۔‘‘

تحقیق کے لیے اَن چھوئے موضوعات کا تعاقب کیا۔ ابن صفی بھی ان میں سے ایک۔ 2012ء میں پہلی کتاب ’’ابن صفی: کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا‘‘ شایع ہوئی۔ چار سو صفحات کی کتاب میں ابن صفی پر لکھے نادر مضامین اور خاکوں کو یک جا کیا۔ تلاش میں بڑا پتا مارنا پڑا کہ بیش تر ڈائجسٹوں میں گم۔ مضمون نگاروں میں نصر اللہ خاں، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، مجنوں گورکھپوری، شبنم رومانی، شاعر لکھنؤی اور شکیل عادل زادہ جیسے نام شامل۔

اگلے برس ’’ابن صفی: شخصیت و فن‘‘ شایع ہوئی، جس میں ان کے ادوار زندگی، ابن صفی بہ حیثیت شاعر اور مزاح نگار، اُن کے ناولوں کے رومانوی کردار اور ان کے ادبی مقام پر بحث کی۔ کئی ابہام دور کیے۔ ادب کے ناخداؤں نے ابن صفی کو کیوں تسلیم نہیں کیا، کس کس کی رائے معاندانہ رہی؟ اِس مدعا پر بھی حوالہ جات کے ساتھ تفصیلی بات کی۔ وامق جون پوری، خالد اختر اور نیازفتح پوری کا اس ضمن میں تذکرہ آتا ہے۔

ابن صفی کے بیش تر مخالفین اُن کے بہ قول، حسد کے نرغے میں تھے۔ اُنھیں گوارا نہیں تھا کہ قارئین ابن صفی کے ناول قطار لگا کر خریدتے ہیں۔ ایڈیشن راتوں رات ختم ہوجاتا۔ تو اُن پر پھبتیاں کَسی گئیں۔ اُسے سری ادب کہہ کر ایک خانے میں بند کرنے کی کوشش کی گئی۔

جب عالمی ادب میں سائنس اور کرائم فکشن کے شعبے الگ، رومانوی اور پُراسرا ادب کے قاری جدا، تو یہاں ابن صفی کے جاسوسی ناولوں کو ادب عالیہ میں شمار کرنے پر اصرار کیوں؟ اس بابت راشد اشرف کہتے ہیں،’’مغرب کے پاپولر فکشن میں آپ کو ادبی چاشنی اور شاعرانہ تخیل نہیں ملے گا۔ ابن صفی کے ناول ان عناصر کے حامل تھے۔ اتنے پرقوت کہ انسان کی عقل حیران رہ جائے۔ 2013 میں مولانا آزاد یونیورسٹی، دکن میں منعقدہ سیمینار میں تسلیم کیا گیا کہ ابن صفی کی تخلیقات ادب عالیہ کا حصہ ہیں۔ تو اب یہ بحث ختم ہوگئی ہے۔ اُن پر کتابیں لکھی جارہی ہیں۔ سیمینار ہورہے ہیں۔ طلبا ان پر ایم فل اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔

ان کا کمال یہ تھا کہ پان والا بھی ان کا اسیر، ایٹمی سائنس داں بھی اُن کا قاری۔ وہ کمال کے مزاح نگار تھے۔ کچھ عرصے قبل ان کا شعری مجموعہ ’متاع قلب‘ شایع ہوا، جسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ 2009 میں پہلی بار ایک پرائیویٹ چینل نے اُن کی برسی پر رپورٹ نشر کی تھی، اُس سے قبل اُن سے متعلق کبھی کوئی خبر نہیں چلی۔ مگر اب میڈیا کا رویہ بھی تبدیل ہوا ہے۔‘‘

ابن صفی کے مشہور زمانہ کردار، عمران پر کئی کہانی کاروں نے طبع آزمائی کی۔ راشد اشرف کے مطابق 61ء میں جب ابن صفی بیماری کے باعث اگلے تین برس تک نہیں لکھ سکے، تو مارکیٹ کی طلب پوری کرنے کے لیے کئی لوگوں نے جعلی ناموں سے لکھا، مگر انھوں نے لوٹ کر جب ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ لکھا، تو یہ تمام افراد غائب ہوگئے۔

جب ہم نے ذکر کیا کہ مظہر کلیم کی عمران سیریز خاصی مقبول ہوئی تھی، تو کہنے لگے،’’ہے تو وہ چربہ، مگر ہر شخص میں کوئی نہ کوئی قابلیت ہوتی ہے۔ اُنھوں نے جدید انداز اپنایا۔ جیمز بانڈ کی فلموں کے مانند ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔ میں قطعی نہیں کہوں گا کہ انھوں نے اچھا لکھا۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ ان کی ریڈر شپ ہے۔‘‘ ایچ اقبال کی عمران سیریز کو وہ ناکام کوشش قرار دیتے ہیں۔ ’’ہاں، ان کی پرمود سیریز مقبول ہوئی، جسے ابن صفی نے بھی سراہا، مگر مشہور یہ ہوگیا کہ انھوں نے ایچ اقبال کی عمران سیریز کی تعریف کی ہے۔‘‘

’’مولانا عبدالسلام نیازی: آفتاب علم و عرفان‘‘ اُن کی تیسری کتاب۔ دلی کی اس عبقری شخصیت سے مولانا مودودی اور اُن کے بھائی، ابو الخیر مودودی نے اکتساب فیض کیا۔ عنوان مودودی صاحب کے بیٹے، حیدر فاروق مودودی نے تجویز کیا۔ کتاب میں جوش، اخلاق دہلوی، شاہد دہلوی ، ملا واحدی اور خلیق انجم جیسے قلم کاروں کے مضامین۔ رزی جے پوری اور مسعود حسن دہلوی کے تحریر کردہ خاکوں کا حصول بڑی کام یابی تھا۔

یہیں بیٹھے بیٹھے ان کی قبر کی تصویر بھی حاصل کرلی۔ حالاں کہ دلی کے ایک محقق کا دعویٰ رہا کہ مولانا کی قبر کی کسی کو خبر نہیں۔ کہتے ہیں؛ محقق کو حکم نہیں لگانا چاہیے۔ موقف میں لچک ضروری ہے۔ کوشش کریں، تو راستہ نکل آتا ہے۔ دل چسپ امر یہ کہ عزیز میاں قوال کی سوانح سے مولانا نیازی کا تذکرہ بھی حاصل کر لیا۔ یہ ٹکڑا پنڈی کے ایک صاحب، حسن نواز شاہ کے توسط اُن تک پہنچا۔ قارئین نے اسے بہت پسند کیا۔

’’چراغ حسن حسرت: ہم تم کو نہیں بھولے‘‘ تازہ ترین کاوش۔ اس ممتاز صحافی، کالم نویس اور شاعر پر مرتب کردہ اِس شگفتہ اور معلوماتی کتاب میں شامل بیش تر تحریر 70 سے 80 برس پرانی۔ 33 خاکے۔ خود نوشتوں سے تذکرے۔ ’’چٹان‘‘ اور ’’امروز‘‘ کی فائلوں سے حسرت کے یادگار واقعات۔ دیباچہ انتہائی دلچسپ۔ اُن کے پسر، ظہر الحسن جاوید اور بھانجے، محمود الحسن کے مضامین بھی شامل۔ کتاب کا بہت چرچا ہوا۔

مجیب الرحمان شامی، جبار مرزا، ڈاکٹر مظہر محمود شیرانی اور الطاف حسن قریشی نے تعریف کی۔ اس نابغۂ روزگار شخصیت پر تحریر کردہ ڈاکٹر طیب منیر کے پی ایچ ڈی مقالے سے بھی بہت مدد ملی۔ راشد اشرف کے بہ قول؛ مولانا اہل زبان نہ ہونے کے باوجود بہت شستہ زبان لکھتے تھے۔ ناقدین نے سرسید، شبلی اور حالی کی تحریروں سے تو زبان کی غلطیاں نکالیں، مگر دو ادیبوں پر وہ انگشت نمائی نہیں کر سکے، ایک مولانا ظفر علی خان اور دوسرے مولانا چراغ حسن حسرت۔ قلق ہے کہ اس قوم، بالخصوص صحافی برادری نے ان جیسے قدآور اور دیانت دار صحافی کو یک سر فراموش کر دیا۔

زیر ترتیب کتابوں پر بھی بات ہوجائے۔ آج کل مختلف سوانح عمری اور خود نوشتوں سے ماورائے عقل واقعات اکٹھے کرنے میں جٹے ہیں۔ اگلے چند ماہ میں اس کی اشاعت متوقع۔ پاک و ہند کے شخصی خاکوں کے انتخاب پر بھی کام کر رہے ہیں۔ پچاس خاکوں کا انتخاب کیا ہے۔ ممکن ہے، کتاب یہ دو جلدوں پر مشتمل ہو۔ بنگال میں مقیم، مشتاق اعظمی نے، جو خاکوں کے بہت بڑے شوقین، اپنے ذاتی کتب خانے سے خاکے بھجوائے۔ اِس تناظر میں مشفق خواجہ کے تین جلدوں پر مشتمل انتخاب کا بھی تذکرہ آیا۔ راشد اشرف کا کہنا ہے؛ ان کی کاوش خواجہ صاحب کی کتاب سے یک سر مختلف ہوگی۔ معلومات کے ساتھ ساتھ انھوں نے دل چسپی کے عنصر کو بھی پیش نظر رکھا ہے۔

تمام کتابوں کی اشاعت کا اہتمام خود ہی کیا۔ ’’بزم تخلیق ادب‘‘ کے تحت کتابیں منصۂ شہود پر آئیں۔ اِسے وہ دیوانے کا خواب کہتے ہیں۔ البتہ خوشی ہے کہ مشاہیر نے اُن کی حوصلہ افزائی کی۔ قارئین کا ردعمل بھی مثبت رہا۔ ان کے مطابق ہمارے ادبی ادارے جو کتابیں چھاپ رہے ہیں، اُن کا معیار ہمارے سامنے ہے۔ ’’کتنے ہی افراد اچھی کتاب کا مسودہ بغل میں لیے گھوم رہے ہوں گے، مگر جیب اُن کی خالی ہوگی، اور سرکاری اداروں سے ان لوگوں کی کتابیں چھپ رہی ہیں، مشفق خواجہ جن سے متعلق کہا کرتے تھے؛ دو سوگرام کے کاغذ پر دس گرام کی بات۔ تو ایسا نظام وضع کیا جائے، جس کے تحت تخلیقات کو جانچ کر شایع کیا جائے۔‘‘

خوشیاں اور غم کتابوں سے جڑے ہیں۔ جب کوئی اچھی کتاب ہاتھ میں ہو، اردگرد خاموشی ہو، تو خوشی کے کامل لمحات کا تجربہ کرتے ہیں۔ کتابوں کی تقریب رونمائی میں جب خواہ مخواہ مصنف کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملائے جارہے ہوں، تو دکھ ہوتا ہے۔

فکشن نگاروں میں وہ قرۃ العین حیدر، شوکت صدیقی اور عبداللہ حسین کو سراہتے ہیں۔ ’’جانگلوس‘‘ کو شاہ کار قرار دیتے ہیں۔ کلاسک شعرا کے مداح۔ کہنا ہے؛ اب تو اتنی شاعری ہورہی ہے کہ اس کے بوجھ تلے انسان دب کر ہلاک ہو جائے۔ البتہ کبھی کبھار اچھا شعر سامنے آجاتا ہے۔ گائیکی میں محمد رفیع، لتا اور جگجیت سنگھ کو سراہتے ہیں۔ آرٹ فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں۔ ’’شطرنج کے کھلاڑی‘‘، ’’پارٹی‘‘ اور ’’منڈی‘‘ کا بالخصوص ذکر کرتے ہیں۔ پینٹ شرٹ کو آرام دہ محسوس کرنے والے راشد اشرف سادہ خوراک ہیں۔ سردی کے موسم سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

چین میں میڈیکل تعلیم؛ پاکستانی نوجوانوں کی دلچسپی بڑھنے لگی

$
0
0

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک مشہور حدیث ہے کہ ’’اگر مسلمان کو علم حاصل کرنے چین بھی جانا پڑے، تو وہ ضرور جائے۔‘‘ بعض علماء نے اسے ضعیف حدیث قرار دیا ہے۔ تاہم یہ قرآن و سنت کی عظیم تعلیمات کے عین مطابق ہے، لہٰذا اکثر علما اسے ’’حسن‘‘ سمجھتے ہیں۔ عالم اسلام کے مشہور رہنما ملائشیا کے سابق وزیراعظم، ڈاکٹر مہاتیر محمد درج بالا حدیث کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’یہ مقدس حدیث مسلمانوں پر آشکارا کرتی ہے کہ صرف مذہبی ہی نہیں دنیاوی علوم مثلاً طب، انجینئرنگ، طبیعیات، کیمیا وغیرہ پڑھنے کے لیے انہیں کسی دور دراز مقام جیسے چین بھی جانا پڑے، تو وہ ضرور جائیں۔ گویا اس حدیث کے ذریعے اسلامی معاشرے میں علم کی انتہائی زیادہ اہمیت واضح کی گئی۔ یہ علم ہی ہے جو ایک قوم کو فرش سے اٹھا کر عرش تک پہنچاتا ہے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے چند برس میں خصوصاً ان پاکستانی نوجوانوں کے لیے چین پسندیدہ ملک بن چکا ہے، جو میڈیکل تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ چین میں میڈیکل تعلیم پاکستان کی نسبت خاصی سستی ہے۔ تاہم کسی چینی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے سے قبل بعض باتیں مدنظر رکھنا ضروری ہیں۔ وجہ یہی کہ چین جانے کے فوائد ہیں، تو یہ عمل کچھ نقصان بھی رکھتا ہے۔

اول یہ کہ چھوٹے شہروں میں قائم چینی میڈیکل کالجوں یا یونیورسٹیوں کا معیار تعلیم کمتر ہے۔ اسی لیے یہ چینی تعلیمی ادارے کم فیس بھی لیتے ہیں۔ نیز چھوٹا شہر ہونے کے باعث طالب علم کے لیے قیام و طعام کا خرچ بھی تھوڑا اٹھتا ہے۔ بڑے چینی شہروں مثلاً شنگھائی، بیجنگ وغیرہ کی میڈیکل یونیورسٹیاں معیاری ہیں، مگر وہاں فیس اور قیام و طعام کے اخراجات پاکستان سے بھی زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ مزید براں چینی معاشرے کے رسوم ورواج سے ہم آہنگ ہونے میں بھی خاصا وقت لگ جاتا ہے۔ جہاں تک معیار تعلیم کا تعلق ہے، اس بابت ماہرین کا کہنا ہے کہ چین اور پاکستان میں تقریباً ایک جیسی میڈیکل تعلیم ملتی ہے۔ خاص طور پہ وطن عزیز کی آغا خان یونیورسٹی، کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی، ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی، شفا میڈیکل میڈیکل کالج تعلیمی معیار میں چینی تعلیمی اداروں کے ہم پلہ ہیں۔

بہرحال پاکستان میں طبی تعلیم دینے والے اداروں کی کمی سے بھی خصوصاً وہ طلبہ و طالبات بیرون ممالک کا رخ کرتے ہیں جو مالی طور پر بھاری فیس ادا کرنے کے قابل ہیں۔ ماضی میں چین پاکستانی طلباء و طالبات کی نظر میں بہت کم قدرو قیمت رکھتا تھا مگر معاشی طور پر یہ انتہائی مضبوط ہونے کے بعد اب چین میں تعلیم سمیت زندگی کا ہر شعبہ زبردست ترقی کررہا ہے۔ چناں چہ اب یونیورسٹیوں کی عالمی درجہ بندی (Ranking) میں چینی یونیورسٹیاں تیزی سے اوپر بڑھ رہی ہیں۔ جو پاکستانی طالبان علم چینی یونیورسٹیوں میں داخلہ لینا چاہتے ہیں، وہ یہ بات ضرور مدنظر رکھیں کہ جس یونیورسٹی میں داخلہ لینا مقصود ہو، وہاں کا نظام تعلیم انگریزی ہونا چاہیے۔

ماضی میں کئی پاکستانی طلبہ اسی بات پر دھوکہ کھا چکے۔ انہوں نے پہلے بے سوچے سمجھے داخلہ لے لیا، مگر یونیورسٹی پہنچ کر منکشف ہوا کہ وہاں کا نظام تعلیم تو چینی زبان میں ہے۔ پاکستانی طلبہ و طالبات کو صائب مشورہ یہ ہے کہ جس چینی کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہو، پاکستان میں واقع چینی سفارتخانے سے اس کے متعلق ساری معلومات حاصل کرلیں۔ یوں یہ بھی پتا چل جائے گا کہ داخلہ دلوانے والا ادارہ فراڈ تو نہیں کر رہا! افسوس کہ چین میں قائم ہمارا پاکستانی سفارتخانہ اس ضمن میں اپنے نوجوانوں کی کوئی مدد نہیں کرتا۔ اس کی بے حسی دیکھ کر یہی لگتا ہے کہ اسے پاکستانی نوجوانوں کا مستقبل سنوارنے سے کوئی لگاؤ نہیں۔ دوسری طرف چین میں بھارت کا سفارتخانہ بھارتی طلبہ و طالبات کو ہر ممکن مدد فراہم کرتا ہے۔ اس نے بھارتی نوجوانوں کی رہنمائی کے لیے اپنی ویب سائٹ پر ایک صفحہ بھی بنا رکھا ہے جس کا ایڈریس یہ ہے:

http://www.indianembassy.org.cn/DynamicContent.aspx?MenuId=82&SubMenuId=0

اس صفحے کی وساطت سے پاکستانی طلبہ و طالبات بھی خاصی معلومات حاصل کرسکتے ہیں۔ یاد رہے دونوں ممالک میں پائے جانے والے گہرے سیاسی اختلافات کے باصف چین میں بھارتی نوجوان لڑکے لڑکیوں کی بڑی تعداد زیر تعلیم ہے۔

چین کی کئی سرکاری ونجی میڈیکل یونیورسٹیاں ذہین طالبان علم کو سکالر شپ بھی دیتی ہیں۔ سکالر شپ دیتے ہوئے قدرتاً سب سے پہلے طالب علم کے تعلیمی کارکردگی کو پرکھا جاتا ہے۔ پاکستانی طلبہ و طالبات کے لیے مزید شرائط یہ ہیں:

٭… انڈر گریجویٹ سکالر شپ حاصل کرنے والے کی عمر 25 سال سے کم ہو
٭… وہ پاکستان یا آزاد کشمیر کا شہری ہو
٭… ایپیٹیوڈ ٹیسٹ میں 50 فیصد نمبر حاصل کرے

پاکستان اور چین کی دوستی بہت گہری ہے، اسی لیے پاکستان میں موجود چینی سفارت خانہ پاکستانیوں سے ویزے کے سلسلے میں کوئی رقم نہیں لیتا۔ مزید براں چین کی سرکاری یونیورسٹیوں نے خاص طور پہ پاکستانی طلباء و طالبات کے لیے سکالر شپس ’’مخصوص‘‘ کر رکھے ہیں۔ ان سکالر شپس کے لیے ہر سال جنوری تا اپریل کے مہینوں میں درخواستیں موصول کی جاتی ہیں۔ جو پاکستانی کسی چینی یونیورسٹی کے مطلوبہ معیار پر پورا اترے، اسے سکالر شپ مل جاتی ہے۔ سکالر شپ سے طالب علم کو یہ فوائد ملتے ہیں:۔

٭… ٹیوشن فیس، لیبارٹری تجربات کی فیس اور درسی کتب
٭… مفت طبی سہولیات
٭… گزارے کا الاؤنس

فی الوقت چین کی درج ذیل سرکاری میڈیکل اور انجینئرنگ یونیورسٹیاں پاکستانی طلبہ و طالبات کو سکالر شپ فراہم کررہی ہیں۔ ہماری نئی نسل کو ان کی پیشکش سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔

٭… ہوبائی یونیورسٹی آف انجینئرنگ( Hubai University of Engineering)
٭… چائنا میڈیکل یونیورسٹی(China Medical University)
٭… شونگ قنگ میڈیکل یونیورسٹی( Chongqing Medical University)
٭… شین یانگ میڈیکل کالج(Shenyang Medical College)

یاد رہے کہ چین میں ایم بی بی ایس کے کورس کی مدت بھی پانچ سال ہے۔ پھر ایک سالہ انٹرن شپ ہوتی ہے جبکہ ہاؤس جاب پاکستان واپس آکر بھی ہوسکتی ہے۔ تاہم چین اور دیگر ممالک سے ایم بی بی ایس کرنے والوں کو پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا ایک امتحان پاس کرنا پڑتا ہے۔ تب وہ پاکستان میں پریکٹس یا ملازمت کرسکتے ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ حکومت چین نے صرف 50 چینی تعلیمی اداروں کو اجازت دی ہے کہ بیرون ممالک سے ایم بی بی ایس کے سٹوڈنٹ لے سکتے ہیں۔

ان کی فہرست سفارتخانہ چین مہیا کرسکتا ہے۔ چین کے علاوہ وسطی ایشیا کے ممالک مثلاً کرغزستان، تاجکستان، قازقستان، ترکمانستان وغیرہ کے تعلیمی اداروں میں بھی ایم بی بی ایس اور دیگر کورس کرنا ممکن ہے۔ چین کی طرح وسطی ایشیا کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی ایم بی بی ایس پروگرام کی ٹیوشن فیس 8 تا 18 لاکھ روپے کے مابین بتائی جاتی ہے جبکہ پاکستان میں ایک معالج بننے کا خرچہ 35 لاکھ روپے تک پہنچ چکا۔ گویا اب متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا باپ بھی اپنے بچوں کو ڈاکٹر نہیں بنا سکتا۔

نئے سال میں نوجوانوں سے وابستہ توقعات

$
0
0

وقت ہاتھوں سے ریت کی مانند پھسلتا جا رہا ہے۔ دن تسبیح کے دانوں کی طرح ایک کے بعد ایک آتے اور ماہ و سال میں متغیر ہوتے جارہے ہیں۔

وقت اپنی ایک ہی رفتار سے رواں دواں ہے، کبھی راتیں طویل اور دن مختصر اور کبھی دن طویل اور راتیں مختصر، مگر آج کل شب و روز کی طوالت اور اختصار کسی پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ہماری ایک سہیلی کہنے لگی راتیں کچھ لمبی نہیں ہو گئیں؟ اس کے جواب میں دوسری سہیلی نے کہا ہمارے دن رات توہمیشہ ایک ہی جیسے گزرتے ہیں۔ رات دن کا گھٹنا بڑھنا ان لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے، جو سورج کے حساب سے چلتے ہیں مگر ہم تو گھڑی کے حساب سے چلتے ہیں وہ ہی صبح سویرے چھ بجے اٹھنا اور تمام دن مصروف رہنے کے بعد رات دس، گیارہ بجے سونا۔

آج کے اس افراتفری کے دور میں زندگی مصروفیات سے بھر پوراسی انداز سے گزر رہی ہے کوئی چند لمحوں میں زندگی جی لیتا ہے اور کوئی زندگی جینے کے لیے ایک لمحے کی تلاش میں رہتا ہے۔ ہم سال کے ختم ہونے پر خوشیوں کے دیپ جلا لیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ ہماری زندگی سے ایک سال اور کم ہو گیا۔ اچھی بات ہے جو گزر گیا اس پر غم کرنے کے بجائے جو آ رہا ہے اس کی خوشیاں منائیں مگر اس کے ساتھ ہی جو کام ادھورے رہ گئے تھے، جو وعدے وفا کرنے ضروری تھے، جو خدمت گزاری، جو عبادات کل پر ٹال رکھیں تھیں انہیں پورا کریں۔

خوشی کے لمحات اگرچہ کتنے ہی طویل کیوں نہ ہوں، ہمیں وہ صرف چند لمحے لگتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر خدانخواستہ ہمیں کوئی دکھ ملے تو ایک ایک لمحہ بھی صدیوں برابر لگتا ہے، مگر سچ تو یہ ہے کہ وقت اپنی ایک ہی مخصوص رفتار سے چلتا ہے تاہم ہمارے احساسات، کیفیات اسے طویل کر دیتے ہیں تو کبھی مختصر۔ ہمیں غم کے لمحات میں بھی مایوس نہیں ہونا چاہیے بلکہ یہ سوچنا چاہیے کہ ظلمت کی رات کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو سحر ضرور ہوتی ہے۔

اللہ سے دعا ہے کہ یہ نیا سال کسی کے لیے بھی کوئی رنج و الم کا لمحہ نہ لائے جس کا ایک پل صدیوں کے برابر لگنے لگے۔ دکھ ہر کسی کا ایک ہوتا ہے اور خوشیاں ہر کوئی اپنے اپنے طریقے سے مناتا ہے مگر ہماری نوجوان نسل کی سال ختم ہونے سے پہلے ہی خوشی کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں اور ان کا نئے سال کی خوشیاں منانے کا ایک الگ ہی جان جوکھم میں ڈالنے والا طریقہ ہوتا ہے اور انداز بھی ایسا جس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے، رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔

رات بارہ بجتے ہی نئے سال کی خوشی میں ہلا گلا، موج مستی اور جشن شروع ہو جاتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں سوچتے کہ ہماری ذرا سی لاپرواہی وبالِ جان بن سکتی ہے اور ساتھ عمر بھر کا روگ بھی۔ نئے سال کی خوشی اپنی جگہ مگر اس کے ساتھ احتیاط بھی لازم ہے کیوں کہ ہماری ذرا سی غلطی ہمارے ساتھ ان لوگوں کے لیے جو ہمیں چاہتے ہیں جن کی زندگیاں ہم سے وابستہ ہیں پچھتاوا بن سکتی ہے۔

ہمارے نوجوانان اپنے گزشتہ سال پر نظر ڈال کر اپنی کوتاہیوں سے عبرت حاصل کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے، اگر وہ یہ زحمت گوارا کر لیں تو بہت سے ممکنہ انتشارات سے بچ سکتے ہیں۔ نہ صرف خود خوش رہیں بلکہ دوسروں میںبھی خوشیاں بانٹیں۔ آئیں سب مل کہ اس نئے سال کے آغاز پر اللہ سے یہ دعا کریں کہ اللہ ہمارے ملک کو اس کے ہر شہری کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور پھر سے کوئی سانحہ پشاور نہ ہو۔


پھر آرہا ہے جیمزبانڈ؛ سیریز کی نئی فلم S P E C T R E بس آنے کو ہے

$
0
0

4 دسمبر 2014 ء، بکنگھم شائر کے پائن وڈ اسٹوڈیو میں دنیا بھر سے میڈیا کے نمائندے اس گلیمرس اور نگا رنگ تقریب میں مدعو ہیں اور نہایت بے صبری اور بے چینی سے منتظر ہیں کہ دنیائے فلم کی سب سے بڑی اور کام یاب ترین فرنیچرائز فلمی سیریز ’’جیمزبانڈ‘‘ کی چوبیسویں فلم کے ٹائٹل اور کاسٹ کا اعلان کیا جائے۔

مسرتوں سے لبریز اس موقع پر فلم کے ڈائریکٹر سیم مینڈس نے پروڈیوسر باربرا بروکولی کی موجودگی میں ٹی وی کی بڑی اسکرین کا بٹن آن کردیا، جس پر نئی بانڈ فلم کا ٹائیٹل، ’’ S P E C T R E ‘‘ تحریر ہے، جس کے ساتھ ایک عکس بھی ہے۔ یہ شیشے کی دیوار پر شکار ہونے والی گولی کاسوراخ ہے جوکہ آکٹوپس کی ترجمانی بھی کررہی ہے۔ سیم مینڈس نے اس عظیم الشان آسٹن مارٹن کار کے نئے اور دسویں فلمی ماڈل  DB10  کے غلاف کو بھی اتارا پھینکا اور حاضرین کی آنکھوں کو چکاچوند کردیا۔

بانڈ سیریز کی فلمیں اپنی اہمیت اور افادیت کے لحاظ سے ہمیشہ ہی سے عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتی رہی ہیں، جنہوں نے اپنے مالکان کی دولت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ پچھلی فلم ’’اسکائی فال‘‘ کی گلوبل بوکس آفس پر مجموعی آمدنی ایک ارب،10کروڑ ڈالر رہی تھی، جس نے برطانیہ میں سنیما کی تاریخ میں آمدنی کا نیا ریکارڈ بناڈالا اور اپنی کارکردگی پر دو آسکر ایوارڈز بھی جیتے۔ بانڈ سیریز فلموں کو پروڈیوس کرنے والا لندن کا ادارہ EON پروڈکشنز ہے، جب کہ میٹرو گولڈن میئر (ایم جی ایم) اور سونی انٹرٹینمنٹ والے اس کی عالمی تقسیم کاری کرتے ہیں۔

پروڈکشنز کے مالکان البرٹ بروکولی فیملی ہیں۔ بروکولی کی وفات کے بعد ان کی صاحب زادی باربرا بروکولی اور سوتیلے بیٹے مائیکل جی ولسن یہ خدمات نہایت خوش اسلوبی ادا کررہے ہیں ۔ بانڈ سیریز کے ناولوں کی اشاعت 1953 ء سے ہوئی تھی جب کہ فلم میں جیمزبانڈ نے 1962 ء میں جنم لیا، جب ’’ڈاکٹر نو ‘‘ کام یابی کے ساتھ ریلیز ہوئی اور بانڈ فلمیں سنیما کی تاریخ کا لازمی جزو بن گئیں۔ اس طرح 50 سال سے زاید عرصے میں بانڈ سیریز کی 23 فلموں کو سنیما کے پردے کی زینت بنایا جاچکا ہے۔

بانڈ فلموں کو تواتر کے ساتھ دو یا زاید سال کے وقفہ سے نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔ پچھلی فلم ’’اسکائی فال‘‘ 2012 ء میں پیش کی گئی تھی اور تین سال کے بعد سیریز کی نئی فلم ’’اسپیکٹر‘‘ کو 2015 ء میں پیش کیا جارہا ہے، جسے اکتوبر میں برطانیہ اور نومبر میں عالمی سنیما کے لیے پیش کیا جائے گا۔ بانڈ کے پرانے مدّاحوں کے لیے ’’اسپیکٹر‘‘ یقیناً ایک جانا پہنچانا اور مانوس کردار ہے اور ان کے لیے یہ خوشی کا موقع ہے کہ وہ سرپرائز کے طور پر اسے بانڈ کے مدمقابل دیکھ سکیں گے، جب کہ یہاں نئی جنریشن کے اسپیکٹر کو جاننا دل چسپی کا حامل ہوگا اور بانڈ اور اس کے دشمنوں کی آئیڈیا لوجی کو جاننے کا موقع ملے گا۔

فلم ’’اسپیکٹر‘‘ کے ذریعے بانڈ کے سب سے بڑے روایتی اور ازلی دشمن ارنسٹ اسٹیورو بولڈ فلڈ (Ernst Stavro Blofeld)کی واپسی ہورہی ہے، جوکہ تنظیم SPECTRE (SPecial Executive for Counter-intelligence,Terrorism,Revenge and Extortion) کا بانی اور سرغنہ ہے اور اسپیکٹر نمبر ۔1کے نام سے شناخت رکھتا ہے۔ یہ تنظیم جرائم، دہشت گردی، انتقام اور لوگوں کا استحصال کرنے کے لیے سرگرم رہتی ہے، جسے دنیا کے بعض امیر ترین افراد کی حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ یہ 1950 ء کے عشرے کی ایسی دہشت گرد تنظیم ہے جو کہ فرد واحد کی کمرشیل انٹرپرائز ہوتی ہے، جسے بولڈ فلڈ چلاتا ہے۔ اس کا مرکز ی خیال آئن فلیمنگ نے اس وقت مافیا کے گروپوں کی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر تخلیق کیا تھا، جو منظم طور پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اپنا نشانہ بناتے ہیں۔ وہ نہایت رازداری اور خاموشی سے اپنا وار کرتے ہیں۔

ان میں مافیا کے ساتھ امریکی گینسٹرنگ، فرانس کی خفیہ جرائم کی سوسائٹی ’’یونین کورس‘‘ چینی ’’ٹانگ اور ٹرینا‘‘، جاپان کی خطرناک ترین بلیک ٹریگون سوسائٹی اور Yakingaگروپ خاص طور پر نمایاں تھے، جن کے ایلیمنٹس آئن فلمینگ کی تخلیاتی تنظیم اسپیکٹر کے فیچرز بنے تھے۔ اسپیکٹر کا کام دو طاقت ور ملکوں یا اسٹیٹ کے درمیان لڑائی کروانا ہوتا ہے، تاکہ دنیا پر غاصبانہ تسّلط قائم کیا جاسکے۔ ہوتا یوں ہے کہ امریکا میں سرخ چین کے منشیات فروش فرانسیسی وزیرخارجہ کے کہنے پر ایک منحرف روسی کو ہلاک کردیتے ہیں اور ناٹو سے نیوکلیائی ہتھیار چرانے کے لیے بلیک میلنگ کی جاتی ہے۔ 1959 ء میں فلیمنگ نے محسوس کرلیا تھا کہ سرد جنگ جلد ہی سرَد ہوجانے والی ہے اور اب بانڈ کے حقیقی سیاسی دشمن کو بھی بدلنا چاہیے۔

اسپیکٹر تنظیم کے 21 ٹاپ ارکان ہیں، جن کا لیڈر بولڈ فلڈ ہے۔ اس کے تمام ایجنٹس اسپیکٹر اپنے نمبروں سے پکارے جاتے ہیں۔ بولڈ فلڈ تنظیم کا بانی اور ماسٹر مائنڈ ہے۔ وہ ہمیشہ نمبر ون رہنا چاہتا ہے، ان کے نمبروں کو ہر ماہ بدلا جاتا ہے، مثلاً جب اسپیکٹر نمبر ۔2 ایمیلیو لارگو نمبر ون ہوجاتا ہے، تو بولڈ فلڈ نمبر۔2 پر آجاتا ہے۔ منحرف یا باغی ہوجانے والے ایجنٹوں کی سزا صرف اذیت ناک موت ہے۔ اسپیکٹر نمبر۔3 اسپیکٹر ایجنٹ کے روپ میں خاتون ہائی رینک والی روسی روسا کلیب ہوتی ہیں، جوکہ اپنے مخالف پر جوتے کی نوک میں چھپے تیز دھار والے چاقوؤں کا استعمال کرتی ہے۔ بانڈ کے تمام جاسوسی کیریر میںچیف اسپیکٹر اسٹیج کے پیچھے اس کی گھات لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔

بولڈ فلڈ کو مایوس کرنے والوں کو عبرت ناک سزائیں دی جاتی ہیں۔ ناول کی ادبی کہانیوں میں اسپیکٹر کی شروعات ایک چھوٹے سے جرائم پیشہ گروہ کی صورت میں ہوئی تھی اور پھر یہ ایک وسیع بین الاقوامی جرائم کی تنظیم میں ڈھل گئی، جس کا اپنا اسپیکٹر آئی لینڈ اور تربیتی مرکز ہوتا ہے۔ اسپیکٹر کو بانڈ کی آفیشل فلموں میں روسی ایجنسی ’’S M E R S H ‘‘ سے تبدیل کیا گیا تھا۔ اِسمرش آئن فلیمنگ کی تخلیاتی کاؤنٹر انٹیلی جنس تھی، جسے روس کے حقیقی S M E R S Hکو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا۔ اسمرش کو مغرب کے خلاف سیاسی بغاوت اور جرمن نازیوں سے لڑنے کے فیصلے کے نتیجے میں تشکیل دیا گیا تھا، جو کہ روسی خفیہ ایجنسی KGB کے زیراثر تھی۔

یہ 1943 سے لے کر 1946 ء تک کام کرتی رہی، جس کا موٹو تھا۔ ’’جاسوسوں کو موت۔Death To Spies ـ‘‘ اور یہ مغربی جاسوسوں کا کھوج لگانے اور ٹھکانے لگانے کے خصوصی حربے اختیار کرتی ہے۔ فلم ’’دی لیونگ ڈے لائیٹس‘‘ میں بھی اس خیال کو مرکز بنایا گیا ہے۔ جب بانڈ روس سے برسربیکار افغان جہادیوں کی مدد کرتا ہے۔ فلیمنگ کے معروف و مقبول کردار ایورک گولڈ اور جلاّد ’’ریڈ‘‘ اسمرش کے لیے کام کرتے ہیں۔ اسپیکٹر کے 21 اہم ایجنٹوں میں 18 ایجنٹس روزمرہ کے معاملات پر نظر رکھتے ہیں، جب کہ یہ 3 اور 6 کے گروپوں کی شکل میں ہوتے ہیں جن میں جرائم کی دنیا کے بڑے بڑے پیشہ ور مجرم شامل ہیں۔ایذا رسانی دینے کا ماہر، شاطر اسپرولن ارنسٹ اسٹیورو بولڈ فلڈ پہلی بار عمومی طریقے سے 1961 ء کے ناول ’’تھنڈربال‘‘ کی کہانی میں پیش ہوا اور پھر عالمی سطح پر طاقت ور فلمی کردار اسپیکٹر کی نمائندگی کرتا ہوا ’’تھنڈر بال‘‘ میں جلوہ گر ہوا۔

جیمز بانڈ کی ادبی کہانیوں کو آگے بڑھانے اور جاری رکھنے میں مصّنف جان گارڈنر اور ریمنڈ بینسن نے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ جان گارڈنر کے بانڈ ناول ’’فاراسپیشل سروسسز‘‘ میں انہوں نے اسپیکٹر کو بولڈ فلڈ کی بیٹی نینابسمارکیور کے سامنے لاکر فعال کیا تھا۔ حالیہ بانڈ کی فلمی سیریز میں بھی اس کا کردار ٹیمل راہینی ( Tamil Rahani) کی صورت میں جاری رکھا گیا ہے۔ تنظیم اسپیکٹر کا ذکر فلم ’’ڈاکٹر نو‘‘ ہی سے کیا گیا تھا، جس کا سرغنہ ڈاکٹر جولیئس نو ہے جو کہ اسپیکٹر کے لیے کام کررہا ہوتا ہے۔ اسے فلیمنگ کے ادبی کہانی والے پلاٹ سے تھوڑا بدلا گیا ہے، جس میں ڈاکٹر نو سوویت یونین کے لیے کام کررہا ہوتا ہے، جہاں اسپیکٹر کے بجائے ’’اسمرش‘‘ کو پس منظر میں رکھا گیا تھا اور اسمرش ہی اصل ولین کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ اگرچہ مختصر حوالے سے ناول کی ادبی کہانی اور فلم ’’فرام رشیا ودھ لو‘‘ کے اسکرپٹ میں اسپیکٹر کا ذکر ہوا تھا اور ادبی کہانی کے مطابق فلمی کہانی میں بھی محبت کو اہم فیچر کے طور پر رکھا گیا ہے۔

بانڈ سیریز فلموں کے مالکانہ حقوق کا دعویٰ فلم تھنڈبال کے پروڈیوسر کیون میکلوری نے کردیا تھا، جب کہ فلم ساز البرٹ بروکولی اور ان کے پارٹنر سالز مین تھے، کیوںکہ میکلوری نے بانڈ کو سنیما کی اسکرین تک پہنچانے میں دونوں کے ساتھ مل کر کام کیا تھا اور تمام معاملات میں شریک رہے تھے۔ چناںچہ انہوں نے فلمی پروڈکشن کے بانڈ اور اسپیکٹر کے کرداروں کے حقوق کی جنگ میں کاپی رائیٹس حاصل کرلیے وہ اب مشترکہ طور پر کریڈٹ پر تھے۔

بانڈ سیریز کے پروڈیوسروں اور میکلوری کے مابین یہ معاملہ ایک طویل متنازع بنا رہا، جس کے باعث بانڈ کے آفیشل پروڈیوسرز اسپیکٹر کے کردار کو کھل کر سنیما میں نہ پیش کرسکے۔ اسی تنازعے کے سبب فلم تھنڈربال بانڈسیریز کی تیسری فلم کی صورت میں پیش کی گئی، حالاں کہ فلم کے پروڈیوسرز اسے سیریز کی پہلی فلم کے طور پر پیش کرنا چاہتے تھے۔ یوں ’’ڈاکٹر نو‘‘ بانڈ سلسلے کی پہلی فلم ثابت ہوئی۔ میکلوری نے قانونی حیثیت حاصل کرنے کے بعد بانڈ کے کچھ حقوق کو استعمال کرتے ہوئے تھنڈربال کو دوبارہ ’’نیورسے نیور اگین‘‘ کے نام سے بنایا تھا، جوکہ 1983 ء میں ریلیز کی گئی تھی، جب کہ اسی سال بانڈ کی آفیشل فلم ’’آکٹوپسی‘‘ بھی پیش کی گئی، جس میں کاپی رائیٹس کی مشکلات کی بنا پر اسپیکٹر کو ’’آکٹوپس‘‘ سے تعبیر کیا گیا تھا، جو کہ اسپیکٹر تنظیم کا علامتی نشان ہے۔ موجودہ فلمی بانڈ ڈینئیل کریگ کی ابتدائی فلموں میں اسپیکٹر کی خاموش واپسی ہوئی ہے۔

جس میں اسپیکٹر سے ملتی جلتی۔ زیرزمین دہشت گرد تنظیم کو پلاٹ کا حصہ بنایا گیا ہے۔ اسے “Quantum” کے نام سے فلم “Quantum of Solace” میں برقرار رکھا گیا تھا، کیوں کہ یہ پچھلی فلم ’’کسینورائل‘‘ کا دوسرا حصہ تھا۔ بلغارین زبان میں اس فلم کے سب ٹائیٹل کو ’’کوانٹم آف سولس‘‘ سے ترجمہ کرکے “Spectre of Solace” بنایا گیا ہے۔ بلغارین زبان میں اسپیکٹر کا مطلب ’’کوانٹم‘‘ ہے۔ آئرش فلم پروڈیوسر کیون میکلوری کا 2006 ء میں انتقال ہوچکا ہے اور بالآخر میکلوری کے کاپی رائٹس کی طویل جنگ EON پروڈکشنز کے حق میں جیتی جاچکی ہے اور اب بانڈ کے تمام حقوق کی محافظ اور ذمے دار بانڈ سیریز پروڈکشنز کے ساتھ ایم جی ایم ہے، جن کے مابین پچھلے سال معاہدہ طے پاگیا ہے۔

بانڈ سیریز کی اگلی فلم ــ”S P E C T R E” کے اعلان کو ٹوئٹر پر اور دوسرے تمام میڈیا میں سراہا گیا ہے۔ بانڈ سیریز فلموں میں سب سے زیادہ بار جیمز بانڈ بننے والے َسر راجر مور نے بولڈ فلڈ کے کردار کی واپسی پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ عالمی دہشت گردی کی اذیت کا نشان ’’آکٹوپس‘‘ کی نمائندگی کرنے والا ماسٹر مائنڈ خوف ناک، جرائم کا سرغنہ ’’ارنسٹ اسٹیوروبولڈفلڈ‘‘ کے پاور فل رو ل کو اب منجھے ہوئے آسٹروی فن کار کرسٹوف والز ادا کرنے جارہے ہیں، جوکہ دیکھنے والا ہوگا۔ یہ افواہیں اور خبریں بھی گردش کرتی رہیں کہ وہ اسپیکٹر کا رول ادا کرنے والے ہیں۔ کرسٹوف فلمی پیش منظر میں “Oberhuser” کے طور پر ہوں گے، جن کے پیچھے ولین بولڈ فلڈ چھپا بیٹھا ہے۔

کرسٹوف اپنی کارکردگی پر دو آسکر ایوارڈز جیت چکے ہیں۔ بانڈسیریز کی اس 24 ویں فلم میں 47 سالہ ڈینئل کریگ بانڈ کا رول چوتھی بار ادا کررہے ہیں۔ بانڈ کے کردار کے بعد دوسرے اہم کرداروں میں بانڈ گرلز کا رول اس بار اٹلی کی حسین اور بے باک اداکارہ مونیکابلوچیِ اور فرانس کی نوجوان اور خوبرو لیاسیڈوکس نے سنبھالا ہے، جو لوُسیا اور میڈِلین کے کردار ادا کریں گی۔ فلمی کاسٹ کا مرکز مونیکا بلوچی ان فن کاروں میں شامل ہیں، جنہیں روس میں بہت زیادہ سراہا جاتا ہے۔ وہ فلم سیریز ’’میٹرکس‘‘ سے پہلے ہی بین الاقوامی پزیرائی حاصل کرچکی ہیں۔ فلمی کاسٹ میں جو دوسرے اہم اداکار اس بار فلم کا حصہ بننے ہیں ان میں برطانیہ کی معروف ٹی وی جاسوسی سیریز ’’شیرلاک‘‘ کے مرکزی اداکار اِینڈریو اِسکاٹ بھی شامل ہیں، جو سرکاری نمائندے “Denbigh” کے طور پر پیش ہوں گے۔ اس کے علاوہ بانڈ کے ’’باس ایم‘‘ کا اہم رول نئی فلم میں دوسری بار اداکار Ralph Fiennes اداکر رہے ہیں۔

اس سے پہلے سیریز کی سات فلموں میں متواتر باس ایم کے طور پر خاتون جوڈی ریسنک پرفارم کرتی آئی تھیں اور ان کی ریٹائرڈمنٹ پر نئے ایم کو متعارف کروایا گیا ہے، جب کہ نیومی ہیرس (مس پینی)،Ben Whishaw  )گیجٹس ماسٹر ’’کیو‘‘(اور Rory Kinnear (چیف آف اسٹاف بل ٹینر) کے طور پر فلم میں بدستور شامل ہیں۔ چیف آف اسٹاف کا کردار آئن فلیمنگ کی نیوی کی ملازمت کے حقیقی چیف آف اسٹاف سے مماثلت رکھتا ہے، جسے فلم ’’مین ودھ دی گولڈن گن‘‘ میں متعارف کروایا گیا تھا۔ بل ٹینر بانڈ کے ایک مخلص رفیق کا ر بھی ہیں۔ ولین کے قاتل جلّاد(Hench Man) ’’گارجین آف گلیکسی‘‘ کے طاقت ور اداکار Dave Bautistaبنے ہیں، جو کہ “Mr Hinx” سے پہنچانے جاتے ہیں۔

پچھلی فلموں سے ایک اہم کردار ’’مسٹر وائٹ‘‘ کی واپسی کا بھی اشارہ ملا ہے، جسے اداکار جیسپر کرسٹینسن نے عمدگی سے نبھایا ہے فلم ’’کسینورائل‘‘ اور ’’کوانٹم آف سولس‘‘ میں۔ برطانیہ کی اہم شخصیت عظیم سائنس داں اسٹیفن ہاکنگ بھی بڑے پُرتجسّس اور پرعزم ہیں کہ بانڈ کی نئی فلم میں ان کا اہم دشمن کردار ادا کرنے جارہا ہے۔ اس فلم کی کہانی اسکرین کے لیے جان لوگن نے تحریر کی ہے، جب کہ ان کی معاونت بانڈ سیریز کے روایتی لکھاریوں نیل پوُروِس اور رابرٹ ویڈ نے کی ہے۔ فوٹو گرافی ڈائریکٹرHoyte van Hoytema نے کی ہے، جب کہ سیٹ ڈیزائنر کرسٹوفر نولان ہیں جو کہ فلمی کاسٹ کا حصہ بنے ہیں۔ کاسٹیوم ڈیزائن کیا ہے ہالینڈ کےJany Temme نے، اور فلم کے ڈائریکٹر ’’اسکائی فال‘‘ کے سیم مینڈنس ہیں جو دوسری مرتبہ فلم کی ڈائریکشن دے رہے ہیں۔

فلم بندی کے اہم مقامات میں پائن وڈ اسٹوڈیو۔ لندن، میکسیکو سٹی، روم، تنجیر،Ertound اور صحارا کا نخلستان ’’ارفوہ‘‘ (مراکش) شامل ہیں۔ بانڈ کی آمد ’’آن ہر مسجٹیزسیکرٹ سروس‘‘ کی طرح آسٹریا کے اونچے برفانی مقام پر “Ski Slopes” سے ہوگی، جہاں خیال ہے کہ فلم بندی میں سات ماہ کا عرصہ لگے گا۔ فلم اسپیکٹر میں بانڈسیریز کا اہم ترین فیچر جیمزبانڈ کی آسٹن مارٹن DB10 کو بھی پیش کیا جارہا ہے، جو بانڈ سیریز کی پچاس سالہ تاریخ کی 10 ویں آسٹن مارٹن کار ہے۔

اس کار کو سب سے پہلے اوریجنل فلمی بانڈ َسر شین کونری نے 1965 ء میں”Gold Finger” میں دوڑایا تھا۔ بانڈ کا یہ ماڈل بھی فروخت کے لیے نہیں ہوگا۔DB10 کے لیے سیم مینڈس نے کار کے ڈیزائنر اور ڈویپلر کے ساتھ مل کر کام کیا ہے، تاکہ فلمی ضروریات کے عین مطابق کار کی دست یابی ہو۔ کار میں نئے فیچروں کے ساتھ ماضی کے مقبول عام فیچرز کو بھی رکھا گیا ہے، جن میں ایجیکٹ سیٹ اور راکٹ لانچرز نصب ہوتے ہیں۔ آسٹن مارٹن کے مرکز Gaydon میں اس کی پچاسویں سال گرہ کے موقع پر کمپنی کے ڈائریکٹر اینڈی پالمر نے کہا کہ ہم جیمز بانڈ کے ساتھ شراکت کی پچاسویں سال گرہ منارہے ہیں اور اس موقع پر اس کا ر کو پیش کیا جارہا ہے۔ نئی اسپورٹس کار ونڈرفل DB10 کو بانڈ کو سامنے رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا تھا۔

زمین کی گہرائیوں سے خلا کی وسعتوں تک!

$
0
0

ارتقا، وقت کے مانند ایک کبھی نہ تھمنے والا عمل ہے۔ البتہ وقت کے برعکس اس کی رفتار یکساں نہیں رہتی۔ کچھ شعبہ ہائے زندگی میں یہ عمل کچھوے کی سی رفتار سے وقوع پذیر ہوتا ہے اور کچھ شعبوں میں اس کی تیزی برق کو بھی شرما دیتی ہے۔ بالخصوص جہانِ سائنس میں ترقی کا عمل اوج پہ ہے۔ ہر روز متعدد ایجادات، اختراعات، دریافتیں اور تحقیق منظرعام پر آجاتی ہیں۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ دنیا کی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی سے مشروط ہے۔ ہزاروں، لاکھوں کے سال کے ارتقائی سفر میں کرۂ ارض کو ہر ہر قدم پر علم سائنس کا سہارا درکار رہا ہے۔ اسی علم کا اعجاز ہے کہ آج بنی نوع انسان زمین کی گہرائیوں اور خلائے بسیط کی وسعتوں میں پوشیدہ کتنے ہی اسرار سے پردہ اٹھا چکا ہے اور قدرت کی عطاکردہ فہم و دانش اور علم سائنس سے کام لیتے ہوئے راز ہائے کائنات کو بے نقاب کرنے کی جدوجہد میں مسلسل مصروف ہے۔

سالِ گذشتہ میں بھی سائنس و ٹیکنالوجی میں برق رفتار ترقی کا عمل جاری رہا۔ جہاں نت نئی ایجادات و اختراعات کی گئیں وہیں متعدد دریافتیں ہوئیں اور تحقیق کا میدان بھی گرم رہا۔
ذیل کی سطور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی دنیا میں گذشتہ برس ہونے والی اہم پیش رفتوں اور سرگرمیوں کا اجمالی جائزہ پیش کیا جارہا ہے:

طب و صحت
طب و صحت ان چند شعبوں میں سے ایک ہیں جن میں 2014ء کے دوران کئی اہم پیش رفت ہوئیں۔ محققین نے کئی لاعلاج امراض کا علاج دریافت کرنے کے سلسلے میں کئی اہم کام یابیاں حاصل کیں۔ مثلاً اوکسفرڈ یونی ورسٹی کے سرجنوں نے جینیاتی تھراپی کی تیکنیک استعمال کرتے ہوئے چھے افراد کی بینائی بڑھادی جو دیکھنے سے تقریباً معذور ہوچکے تھے۔

٭خون کا سرطان (لیوکیمیا) انتہائی خطرناک بیماری ہے جو سالانہ لاکھوں انسانوں کو زندگیوں سے محروم کردیتی ہے۔ 2012ء میں لیوکیمیا کی وجہ سے دنیا بھر میں 265000 ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ لیوکیمیا کے علاج کے سلسلے میں برطانیہ کی کارڈیف یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے اہم پیش رفت کی۔ انھوں نے ایک نئی ویکسین تیار کرنے میں کام یابی حاصل کی جو سرطان کے خلیوں کو خون میں پھیلنے سے پہلے نشانہ بناتی ہے۔ تحقیقی ٹیم کے رکن اور بیس سال سے اس بیماری پر تحقیق کرنے والے پروفیسر کرس پیپر کا کہنا تھا کہ اب بہت جلد لیوکیمیا ایک عام مرض بن جائے گا جس کا علاج ایک عام ڈاکٹر بھی کرسکے گا۔

٭لیوکیمیا کی طرح دل کے عوارض بھی جان لیوا ہوتے ہیں۔ دل کو دورے اور دیگر عوارض سے محفوظ رکھنے کے لیے اسپین میں ایک نئی دوا بنائی گئی۔ تجربات کے دوران اس دوا کے حیران کن نتائج سامنے آئے۔ ابتدائی طور پر اس دوا کی امریکا میں رجسٹریشن کے لیے درخواست دائر کردی گئی، بعدازاں اس کی یورپ میں فروخت کے لیے منظوری حاصل کی جائے گی۔ اس دوا سے متعلق تحقیقی مقالہ یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی کے سالانہ اجلاس میں پیش کیا گیا تھا جسے حاضرین نے متاثرکُن اور اس دوا کو کرشماتی قرار دیا۔

٭ گذشتہ برس فالج کے علاج میں اس وقت بے حد اہم پیش رفت ہوئی جب نچلے دھڑ سے مفلوج ایک شخص خلیوں کی تبدیلی کے بعد چلنے کے قابل ہوگیا۔ ڈیرک فڈکا نامی پولش باشندے پر چاقو سے حملہ کیا گیا تھا۔ حملے میں ڈیرک کا حرام مغز شدید متاثر ہوا تھا اور اس کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا تھا۔ پولینڈ اور برطانیہ کے سائنس دانوں کی مشترکہ ٹیم نے چالیس سالہ ڈیرک کے حرام مغز اور حفرہ بینی ( nasal cavity ) کے متاثرہ خلیوں کو صحت مند خلیوں سے بدل دیا۔ خلیوں کی تبدیلی کے بعد ڈیرک ڈھانچے یا فریم کے سہارے چلنے کے قابل ہوگیا۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ یہ فالج کے مریضوں کے علاج میں انتہائی اہم پیش رفت ہے۔

٭ رعشہ یا پارکنسن کا شمار لاعلاج امراض میں ہوتا ہے۔ دیگر مہلک بیماریوں کی طرح اس مرض پر بھی عرصۂ دراز سے تحقیق جاری ہے۔ سویڈن کے سائنس دانوں نے اپنی تحقیق میں بتایا کہ دماغ کے مخصوص حصے کے خلیوں کا متاثر ہونا رعشہ کا سبب بنتا ہے، ان متاثرہ خلیوں کا علاج اسٹیم سیلز کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔ تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے چوہوں کے ان دماغی خلیوں کو ختم کردیا جو ڈوپامائن نامی کیمیکل خارج کرتے ہیں۔ نتیجتاً چوہے رعشے میں مبتلا ہوگئے۔ بعدازاں انھوں نے انسانی ایمبریونک اسٹیم سیلز کو ڈوپامائن پیدا کرنے والے خلیوں میں تبدیل کردیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس تحقیق سے رعشے کے علاج میں اہم پیش رفت ہوئی ہے، تاہم انسانوں پر اس طریقۂ علاج کی آزمائش کے لیے وقت درکار ہوگا۔

٭ گذشتہ برس عالمی ادارۂ صحت نے اینٹی بایوٹکس کی مزاحمت کے بارے میں پہلی جامع رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا تھا کہ صحت انسانی کا مستقبل مخدوش ہوتا جارہا ہے۔ اس رپورٹ کے لیے 114ممالک سے اعدادوشمار اور دیگر معلومات حاصل کی گئی تھیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ مختلف امراض کا سبب بننے والے جراثیم میں اینٹی بایوٹک ادویہ کے خلاف مزاحمت بڑھتی جارہی ہے، جس کی وجہ سے ان دوائوں کی افادیت محدود ہوتی جارہی ہے۔ جراثیم میں بڑھتی ہوئی یہ مزاحمت انسانی صحت کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ اگر دنیا نے اس پر توجہ نہ دی تو پھر آج کے معمولی امراض مستقبل میں ہلاکت خیز صورت اختیار کرجائیں گے۔

ستارے ؍ سیارے ؍ خلا ؍ دوربین ؍ خلائی جہاز
خلا پر سائنس دانوں کی توجہ بڑھتی جارہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نت نئے سیارے دریافت ہونے کے ساتھ ساتھ خلائے بسیط میں چھپے بہت سے رازوں سے پردہ اٹھ رہا ہے۔

٭گذشتہ برس ماہرین فلکیات نے سب سے ’ بوڑھا‘ ستارہ دریافت کیا۔ کائنات کے ’معمر ترین‘ ستارے کو SM0313 کا نام دیا گیا۔ ماہرین کے مطابق اس ستارے کی تشکیل بگ بینگ کے فوراً بعد ہوئی تھی۔ ہائیڈروجن، ہیلیئم اور تھوڑی مقدار میں لیتھیئم پر مشتمل SM0313 ایک گیسی ستارہ ہے۔

٭ ناسا کی دوربین کیپلر کی مدد سے فلکیاتی ماہرین نے زمین کا ’جُڑواں سیارہ‘ دریافت کیا۔ سائنس دانوں کے مطابق یہ سیارہ ہماری زمین سے پانچ سو نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کی جسامت زمین سے کچھ بڑی ہے اور یہ اپنے ستارے سے اتنی دوری پر ہے کہ اس کا سطحی درجۂ حرارت نہ تو بہت زیادہ ہے اور نہ ہی بہت کم۔ یعنی اس کا سطحی درجۂ حرارت پانی کی موجودگی کے لیے موزوں ہے۔ اسی وجہ سے یہ اپنی دیگر طبعی خصوصیات میں بھی زمین سے مماثل ہوسکتا ہے۔

سائنس دانوں نے Chariklo نامی سیارچے کے گرد دو کثیف ہالے دریافت کیے۔ یہ دریافت ماہرین فلکیات کے لیے یوں باعث حیرت ہوئی کہ Chariklo نظام شمسی کی حدود میں موجود سب سے چھوٹا جسم ہے جس کے گرد دائرے دریافت ہوئے۔ مشتری، زحل، یورینس اور نیپچون کے بعد یہ ہالہ دار پانچواں جَرم فلکی ہے۔

٭امریکی خلائی ادارے ناسا نے 715 نئے سیاروں کی دریافت کا اعلان کیا۔ ناسا کے کیپلر مشن سے متعلق ماہرین فلکیات کے مطابق نودریافت شدہ سیارے 305 ستاروں کے گرد گردش کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ ستارے ہمارے نظام شمسی جیسے نظاموں کا مرکز ہیں۔ نئے سیاروں میں سے 95 فی صد نیپچون سے چھوٹے ہیں جو زمین سے چار گنا زیادہ بڑا ہے۔

٭یورپین اسپیس ایجنسی نے خلاء میں چٹانی سیاروں کا سراغ لگانے کے لیے زمین کے مدار میں رصدگاہ روانہ کرنے کا اعلان کیا۔ Plato نامی رصدگاہ 2024ء میں راکٹ کے ذریعے ارضی مدار میں پہنچائی جائے گی۔ اس منصوبے پر 60 کروڑ یورو کی لاگت آئے گی۔

٭ خلائی جہاز Cassiniکو ارضی مدار کی حدود سے باہر نکلے ہوئے دس برس مکمل ہوگئے۔ یہ خلائی جہاز 30جون 2004ء کو سیارہ زحل کی جانب روانہ کیا گیا تھا۔ دس برس کے دوران اسپیس کرافٹ نے زحل، اس کے دائروں اور چاند کے بارے میں قیمتی معلومات ارسال کیں۔

٭ناسا کا خلائی شٹل پروگرام بند ہونے کے بعد امریکی خلاباز، ارضی مدار میں جانے کے لیے روس کے محتاج ہیں۔ تاہم گذشتہ برس ناسا نے بوئنگ اور اسپیس ایکس نامی امریکی کمپنیوں سے معاہدہ کیا، جس کی رُو سے 2017ء کے بعد روس پر امریکی انحصار ختم ہوجائے گا اور مذکورہ کمپنیاں اپنے تیار کردہ خلائی جہازوں میں خلابازوں کو بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک پہنچائیں گی۔

٭ہندوستان کا پہلا خلائی جہاز ’’منگلیان‘‘ مریخ کے مدار میں داخل ہوگیا۔ سرخ سیارے کی جانب یہ خلائی مشن گذشتہ برس روانہ کیا گیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہندوستان کا پہلا ہی خلائی جہاز کام یابی سے مریخ کے مدار میں داخل ہوگیا۔ اس سے قبل امریکا، روس اور چین کی اپنے اپنے خلائی جہاز مریخ کی حدود میں پہنچانے کی اولین کوششیں ناکامی سے دوچار ہوئی تھیں۔

٭ ورجن گلیکٹک برطانیہ کی نجی تجارتی خلائی کمپنی ہے جو مسافروں کو ارضی مدار میں لے جانے کے لیے ارب پتی رچرڈ برانسن نے قائم کی ہے۔ ورجن گلیکٹک کا راکٹ جہاز آزمائشی پرواز کے دوران کیلی فورنیا کے صحرائے موجائو میں گر کر تباہ ہوگیا۔ اس حادثے میں طیارے کا ایک پائلٹ ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا۔

٭ دس برس تک خلا میں محوِ سفر رہنے کے بعد ’’فلائی‘‘ نامی تحقیقی خلائی جہاز ایک سیارچے پر اترنے میں کام یاب ہوگیا۔ یہ جہاز یورپین اسپیس ایجنسی نے روانہ کیا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی خلائی جہاز نے سیارچے پر ’سوفٹ لینڈنگ‘ کی ہو۔

خلائی حیات
سائنس داں برادری کے ساتھ ساتھ عام انسان بھی ایک عرصے سے خلائی مخلوق کے سحر میں مبتلا ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ اس لامتناہی کائنات میں انسان اکیلا نہیں بلکہ زمین کے علاوہ بھی کہیں نہ کہیں زندگی موجود ہے۔ ٹیکنالوجی میں تیزرفتار ترقی کے ساتھ ساتھ سائنس دانوں کی خلائی مخلوق کا سراغ لگانے کی خواہش بھی جنون کی شکل اختیار کرگئی ہے۔ اس مقصد کے لیے مریخ ان کی توجہ کا خصوصی مرکز چلا آرہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر سیاروں پر بھی وجود حیات کی کھوج لگانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں ان کی توجہ مریخ اور دیگر سیاروں اور سیارچوں کی سطح پر پانی کا سراغ لگانے پر ہے، کیوں کہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جہاں پانی ہوگا وہاں زندگی بھی لازماً کسی نہ کسی شکل میں وجود رکھتی ہوگی۔

٭ ناسا کے خلائی جہاز ’’کیسینی‘‘ اور ’’ڈیپ اسپیس نیٹ ورک‘‘ نے زحل کے چاندEnceladus پر زیرزمین آبی سمندر دریافت کرلیا۔ اس دریافت کے بعد Enceladus میں ماہرین فلکیات کی دل چسپی بڑھ گئی ہے۔ اس سے پہلے 2005ء میں خلائی جہاز نے زحل کے چاند کی فضا میں آبی بخارات کا سراغ لگایا تھا، جس کے بعد سائنس دانوں نے خیال ظاہر تھا کہ وہاں پانی موجود ہوسکتا ہے۔

٭ کارنیگی ملن یونی ورسٹی کے سائنس دانوں کی ٹیم نے ہمارے نظام شمسی سے باہر پانی کی موجودگی کے شواہد دریافت کیے۔ برفابی بادلوں کی صورت میں پانی مشتری، زحل، یورینس، اور نیپچون جیسے سیاروں پر بھی موجود ہوسکتا ہے مگر یہ پہلی بار ہے جب نظام شمسی کی حدود سے باہر پانی کے شواہد ملے ہوں۔

گلوبل وارمنگ
دنیا کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت اور اس کے نتیجے میں جنم لینے والی موسمیاتی تبدیلیاں کئی عشروں سے عالمی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہیں۔ پچھلے دس پندرہ برسوں سے خاص طور پر یہ مسئلہ عالمی سطح پر اٹھایا جارہا ہے۔ اس سلسلے میں متعدد تحقیقی کاوشیں منظرعام پر آچکی ہیں جن میں بتایا گیا تھا کہ گلوبل وارمنگ کے بطن سے جنم لینے والی موسمیاتی تبدیلیاں نہ صرف جنگلی حیات کے لیے مہلک ثابت ہورہی ہیں بلکہ بہ تدریج یہ انسان کو بھی بقا کی جدوجہد سے دوچار کردیں گی۔

گلو بل و ارمنگ کے حوالے سے تحقیق اور رپورٹوں کے اجرا کا سلسلہ گذشتہ برس بھی جاری رہا۔

٭گذشتہ برس مارچ میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق گلوبل وارمنگ کے سبب سطح سمندر میں اضافے کی وجہ سے بہت سے ساحلی مقامات زیرآب آجائیں گے۔ ان میں 720 ایسے تاریخی مقامات بھی شامل ہوں گے جنھیں یونیسکو عالمی ثقافتی ورثہ قرار دے چکا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اگر عالمی درجۂ حرارت میں موجودہ شرح سے اضافہ ہوتا رہا تو پھر آنے والی چند صدیوں میں مجسمۂ آزادی، لندن ٹاور اور سڈنی کے اوپیرا ہائوس سمیت سات سو بیس تاریخی مقامات اور یادگاریں سمندربُرد ہوجائیں گی۔ ظاہر ہے کہ ان کے ساتھ ساتھ متعدد شہر بھی غرقاب ہوجائیں گے۔

٭ یورپی خلائی جہاز Cryosat کے بھیجے گئے اعدادوشمار کی روشنی میں سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ انٹارکٹیکا میں بڑی مقدار میں برف پگھلنے کی وجہ سے سال کے آخر تک سمندروں کی سطح 0.43 ملی میٹر بلند ہوجائے گی۔ اس رپورٹ کے لیے 2010ء سے 2013ء کے درمیان ’سفید براعظم‘ میں برف کے پگھلنے کی رفتار کا جائزہ لیا گیا تھا۔

عالمی حدت کا سبب بننے والی سبزمکانی (گرین ہائوس) گیسوں کے بارے میں کیے گئے ایک جامع تحقیقی مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ فضا میں ان گیسوں کا ارتکاز بڑھ رہا ہے۔ اس اسٹڈی کی بنیاد پر عالمی موسمیاتی تنظیم (WMO ) نے ایک بین الاقوامی موسمیاتی معاہدے کی ضرورت پر زور دیا۔

٭ برطانوی محققین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سمندروں میں بڑھتی ہوئی تیزابیت آبی حیات کو شدید متاثر کرے گی جس سے لامحالہ انسان بھی متاثر ہوں گے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بڑھتی ہوئی مقدار کی وجہ سے سمندروں کی ’پی ایچ‘ گر رہی ہے، نتیجتاً ان کا پانی تیزابی ہوتا جارہا ہے۔ اسی نوع کی ایک رپورٹ اقوام متحدہ کے کنوینشن برائے حیاتی تنوع ( CBD ) نے بھی شائع کی ۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ سمندروں میں بڑھتی ہوئی تیزابیت ایک سنجیدہ مسئلہ ہے جس کے متعلق ایک مربوط پالیسی تشکیل دیے جانے کی ضرورت ہے۔

کمپیوٹر ٹیکنالوجی
روزمرّہ زندگی کے مختلف شعبوں میں انقلابی تبدیلیوں کا سہرا بلاشبہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے سر ہے۔ جیسے جیسے کمپیوٹر کا استعمال اس کی رفتار میں اضافے کی ضرورت بھی شدید تر ہوتی چلی گئی۔ بعدازاں انٹرنیٹ کی آمد کے بعد تو تیز رفتار کمپیوٹر ناگزیر ضرورت بن گئے۔ دو عشرے قبل کے مقابلے میں آج کمپیوٹر کئی گنا تیزی سے کام کررہے ہیں، اس کے باوجود یہ استعمال کنندگان کو دھیمے محسوس ہوتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ صارفین چاہتے ہیں یہ مشین پلک جھپکنے میں ہر کام کی تعمیل کردے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ادھر وہ بٹن دبائیں اور اُدھر کئی گیگابائٹ حجم رکھنے والی وزنی فائل ڈائون لوڈ یا ٹرانسفر ہوجائے۔ بہرحال کمپیوٹر کی رفتار اور ڈیٹا ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافے کی کوششیں گذشتہ برس بھی جاری رہیں۔

٭اسٹینفرڈ یونی ورسٹی کے بایو انجنیئرز نے انسانی دماغ کی ساخت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک سرکٹ بورڈ تخلیق کیا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ بورڈ کمپیوٹنگ کے ساتھ ساتھ روبوٹکس کے میدان میں بھی انتہائی کارآمد ثابت ہوگا۔ نیوروگرڈ نامی یہ سرکٹ بورڈ سولہ چِپس پر مشتمل ہے۔ ماہرین کے مطابق اس سرکٹ بورڈ کی وجہ سے کمپیوٹر پروسیسر کی رفتار کئی گنا بڑھ جائے گی۔

ہارڈ ڈسک اور میموری کارڈ بنانے والی کمپنی سین ڈسک نے سب سے زیادہ، 512 گیگابائٹ گنجائش کا حامل ایس ڈی کارڈ فروخت کے لیے پیش کردیا۔ اس کارڈ کا سائز ڈاک ٹکٹ کے برابر ہے۔
٭دنیا کا مقبول ترین کمپیوٹر آپریٹنگ سسٹم بنانے والی کمپنی مائیکروسوفٹ نے نیا آپریٹنگ سسٹم ونڈوز 10 جاری کرنے کا اعلان کیا۔

جینیات
٭چینی محققین نے ڈی این اے انجنیئرنگ سے کام لیتے ہوئے تبدیل شدہ جینز کے حامل بندر کام یابی سے ’ تیار ‘ کرلیے۔ یہ جینیات کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا جینیاتی تبدیلیوں کے حامل جانوروں کی پیدائش میں کام یابی سے انسانوں کے جینیاتی خرابیوں سے بچائو میں مدد ملے گی۔

٭برطانوی سائنس دانوں نے آلو کو جینیاتی تبدیلیوں کے ذریعے گلنے سڑنے سے مامون کردیا۔ یہ کام یابی اس لحاظ سے بے حد اہم ہے کہ سبزیاں اور ترکاریاں گلنے سڑنے ہی کی وجہ سے خراب ہوتی ہیں۔ اس تحقیق کے بعد، سائنس دانوں نے امید ظاہر کی کہ آلو کی فصل لمبے عرصے تک تروتازہ رہے گی۔

٭ کیمبرج یونی ورسٹی کے سائنس دانوں پر مشتمل ایک ٹیم نے سرطان پر ریسرچ کے دوران خلوی تقسیم کے سب سے اہم اور پیچیدہ ترین پروٹین کی ساخت دریافت کی۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کام یابی سے انھیں یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ خلیے کس طرح اپنے کروموسومز کی نقول تیار کرتے ہیں اور تقسیم ہوتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس تحقیق سے سرطان کی مزید مؤثر ادویہ کی تیاری میں بھی پیش رفت ہوگی۔

اسٹیم سیل
اسٹیم سیلز سے مکمل انسانی اعضا اُگانے کی باتیں کئی برس سے ہورہی ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم پیش رفت گذشتہ برس اُس وقت ہوئی جب ورجینیا یونی ورسٹی میں ایمبریونک اسٹیم سیلز سے مچھلی کا جنین بنالیا گیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے والی ٹیم کا کہنا تھا کہ اس تحقیق کی بنیاد پر آنے والے دنوںمیں اسٹیم سیلز کو مکمل انسانی اعضا میں ڈھلنے پر ’ آمادہ‘ کرلیا جائے گا۔

٭اسٹروک یا فالج کے حملے کے علاج میں اہم پیش رفت ہوئی۔ ایک تحقیق کے دوران ماہرین نے مریضوں کے ہڈیوں کے گودے سے حاصل کردہ اسٹیم سیلز کو بہ طور علاج استعمال کیا۔ اس کے نتائج خاصے حوصلہ افزا ثابت ہوئے۔ اہم بات یہ کہ کسی بھی مریض میں اس کا منفی اثر دیکھنے میں نہیں آیا۔ محققین کے مطابق یہ اسٹیم سیلز ایسے کیمیکلز خارج کرتے ہیں جو دماغ کے متاثرہ حصے میں نئے خلیوں اور خون کی نئی نالیوں کی پیدائش کے عمل کا آغاز کرتے ہیں۔

٭ذیابیطس کے علاج کے سلسلے میں بھی اہم پیش رفت ہوئی۔ ہارورڈ یونی ورسٹی کے سائنس دانوں نے انسان کے ایمبریونک اسٹیم سیلز کو انسولن پیدا کرنے والے خلیوں میں بدل دیا۔ سائنس داں کئی برس سے اس موڑ تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے جہاں سے ذیابیطس کے علاج کے نئے راستے نکل سکتے ہیں۔ ذیابیطس کے کروڑوں مریض دوران خون میں شکر کی سطح معمول کے مطابق رکھنے کے لیے انسولن لینے پر مجبور ہیں، مگر یہ ذیابیطس کا حتمی علاج نہیں ہے۔ محققین نے یہ طریقۂ علاج چند مریضوں پر کام یابی سے آزمایا۔ ان کے جسم میں داخل کردہ خلیے انسولن کی کمی کی صورت میں ازخود یہ مرکب پیدا کرنے لگے تھے۔ سائنس دانوں کا کہنا تھا کہ فی الحال اس طریقے سے مریضوں کی بڑی تعداد کا علاج ممکن نہیں، کیوں کہ ابھی تک وہ زیادہ مقدار میں اسٹیم سیلز حاصل کرنے کی تیکنیک وضع نہیں کرسکے۔

روبوٹکس؍ خود کار ہاتھ
میکانیکی مصنوعی انسانی اعضا کئی برس پہلے بنالیے گئے تھے۔ گذشتہ سے پیوستہ برس میں انسانی سوچ کے تحت کام کرنے والے ہاتھ بنائے گئے تھے۔ 2014ء میں ماہرین نے ایسا مصنوعی ہاتھ بنالیا جس کے ذریعے قدرتی ہاتھ ہی کی طرح چیزوں کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اس مصنوعی بازو میں ایک انتہائی حساس ڈیوائس نصب ہے جو مختلف احساسات کو بازو کے اعصاب تک منتقل کرتی ہے۔ یہ ہاتھ امریکی ریاست اوہایو کے ایک شخص کو لگایا گیا۔

کلوننگ
گذشتہ برسوں کے دوران کلوننگ کی تیکنیک میں ہونے والی اہم پیش رفت نے سائنس دانوں کو اس قابل کردیا کہ وہ معدوم ہوجانے والے جانوروں کو پھر سے وجود میں لانے کے لیے کوششوں کا آغاز کرسکیں۔ صفحۂ ہستی سے مٹ جانے والے جان داروں کو کرۂ ارض پر بھاگتے دوڑتے دیکھنا ایک سنسنی خیز تصور ہے جسے حقیقت میں بدلنے کے لیے سائنس دانوں کی کوششیں گزرے سال بھی جاری رہیں۔

٭ قدیم دور کے دیوقامت ہاتھی جنھیں ’میمتھ‘ کہا جاتا ہے کو ’وجود میں لانے‘ کے سلسلے میں سائنس دانوں نے اہم پیش رفت کا اعلان کیا۔ روس، برطانیہ، امریکا، ڈنمارک، جنوبی کوریا اور مالدووا کے ماہرین پر مشتمل ٹیم نے جمہوریہ سخا کے دارالحکومت یاقوتسک سے میمتھ کا رکاز دریافت کیا تھا۔ محققین نے جدید آلات کی مدد سے رکاز کا جائزہ لیا۔ اس دوران ان پر انکشاف ہوا کہ رکاز بہترین حالت میں تھا۔ اس دریافت نے سائنس دانوں کو پُرجوش کردیا تھا۔ انھیں یقین تھا کہ وہ اس رکاز سے ڈی این اے حاصل کرنے میں کام یاب ہوجائیں گے۔ اس سلسلے میں تحقیق جاری ہے۔ رشین ایسوسی ایشن آف میڈیکل اینتھروپولوجسٹس کے نائب صدر Radik Khayrullin کا کہنا تھا کہ رکاز کے جائزے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق میمتھ کی کلوننگ کی روشن امکانات موجود ہیں۔

موبائل ٹیکنالوجی ؍ بیٹری ؍ چارجر
موبائل فون ہماری روزمرّہ زندگی کا جزو لازم بن چکا ہے۔ یہ ڈیوائس ہمارے معمولات میں اتنی دخیل ہوگئی ہے کہ اگر اس سے عارضی دوری بھی اختیار کرنی پڑجائے تو ایک طرح کی کمی اور ادھورے پن کا احساس ہونے لگتا ہے۔ موبائل فون کے اسمارٹ فون کی شکل اختیار کرلینے کے بعد اس کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ نتیجتاً اس کی بیٹری بھی جلدختم ہونے لگی ہے۔ بیٹری ری چارج کرنے میں اچھا خاصا وقت صَرف ہوتا ہے۔ اسی لیے ایسے موبائل فون کے صارفین کو ایسے چارجر کی شدت سے ضرورت محسوس ہورہی ہے جو چند منٹوں میں بیٹری ری چارج کردے۔

٭ ایک اسرائیلی کمپنی نے مائیکروسوفٹ کی کانفرنس کے دوران اپنے تیار کردہ چارجر کی نمائش کی جو محض 30 سیکنڈ میں اسمارٹ فون کی بیٹری ری چارج کردیتا ہے۔ ’اسٹور ڈاٹ‘ نامی کمپنی چارجر کی کارکردگی کا عملی مظاہرہ بھی کیا۔ اس دوران چارجر نے فقط نصف منٹ میں بیٹری کو مکمل طور پر ری چارج کردیا۔ یہ چارجر آزمائشی طور پر تیار کیا گیا تھا۔ کمپنی کا کہنا تھا کہ تین برس کے بعد یہ ڈیوائس عام فروخت کے لیے تیار ہوگی۔

٭سنگاپور کی نانیانگ ٹیکنالوجی یونی ورسٹی کے محققین نے انتہائی کم وقت میں ری چارج ہوجانے والی بیٹری تخلیق کرلی۔ یہ بیٹری محض دو منٹ میں 70 فی صد تک ری چارج ہوجاتی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ نئے طرز کی یہ بیٹری بیس سال تک کارآمد رہ سکے گی۔ اس طرح اس کا ’عرصۂ حیات‘ موجودہ لیتھیم آیون والی بیٹریوں کے مقابلے میں دس گنا زیادہ ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بیٹری کا استعمال محض موبائل فون تک محدود نہیں رہے گا، بلکہ یہ ٹیکنالوجی تمام صنعتوں پر دور رس اثرات مرتب کرے گی۔ برقی کاروں کی صنعت کو اس بیٹری سے خاص طور پر فروغ ملے گا، کیوں کہ بیٹری کو ری چارج کرنے میں صَرف ہونے والے طویل وقت کے پیش نظر لوگ بجلی سے چلنے والی کاریں خریدنے میں ہچکچاتے ہیں۔

ڈائنو سار
گزرے برسوں کے دوران مختلف ممالک میں ڈائنوسارز کی کئی اقسام کے رکاز دریافت ہوچکے ہیں۔ 2014ء میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

٭ارجنٹائن میں سائنس دانوں نے ڈائنوسار کا رکاز دریافت کیا۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ رکاز کرۂ ارض پر لاکھوں سال قبل دندنانے والے سب سے بڑے (معلوم ) ڈائنوسار کا تھا۔ ماہرین کے مطابق رکاز سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈائنوسار 65 فٹ اونچا اور 130 فٹ لمبا تھا۔ اس کا وزن 77 ٹن تھا جو چودہ افریقی ہاتھیوں کے وزن کے برابر ہے۔ اس سے قبل دریافت ہونے والے سب سے جسیم ڈائنوسار کا وزن گیارہ ٹن تھا۔

٭ صحرائے صحارا میں ماہرین رکازیات نے ایک دیوقامت ڈائنوسارز ’’اسپائنوسارس‘‘ کی باقیات دریافت کیں۔ اسپائنوسارس معلوم جسیم ترین گوشت خور ڈائنوسار ہے۔ تاہم ساڑھے نوکروڑ سال پرانے رکاز پر تحقیق سے اس نظریے کی تصدیق ہوگئی کہ اسپائنوسارس تیرنے والا اولین ڈائنوسار بھی ہے۔

نیورو سائنس
اپنے طرز کے اولین تجربے کا مظاہرہ کرتے ہوئے سائنس دانوں نے دو انسانوں کے درمیان دماغی رابطہ ممکن بنادیا، جب کہ ان کے درمیان ہزاروں میل کا فاصلہ تھا۔ دماغوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ انٹرنیٹ کے ذریعے عمل میں آیا۔ ہاورڈ میڈیکل اسکول کے محققین کی ٹیم نے ایک دوسرے سے پانچ ہزار میل کی دوری پر موجود دو انسانوں کی کھوپڑی پر دماغ کی سوچ پڑھنے اور اسے منتقل کرنے والے آلات نصب کیے۔ ان آلات کے ذریعے ایک انسان کے خیالات دوسرے کے دماغ میں منتقل ہوگئے۔ یوں انھوں نے محض سوچ کے ذریعے تبادلۂ خیال کیا۔ یہ اپنی نوعیت کا منفرد تجربہ تھا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ آگے چل کر ایسی ٹیکنالوجی کی بنیاد بن سکتا ہے جس کے ذریعے انسان کو اپنے عزیز و اقارب سے رابطے کے لیے موبائل فون اور انٹرنیٹ کی ضرورت نہیں رہے گی اور وہ ان سے دماغی رابطہ کرسکے گا۔

تھری ڈی پرنٹنگ
گذشتہ برس جو ٹیکنالوجیز سائنس کے افق پر چھائی رہیں، ان میں سے ایک تھری ڈی پرنٹنگ ہے۔ جہاں تھری ڈی پرنٹرز کے ذریعے نت نئی اشیاء بنائی گئیں وہیں جدید ترین تھری ڈی پرنٹر بھی سامنے آئے۔ سوئی سے لے کر گاڑیاں تک تھری ڈی پرنٹرز کی مدد سے بنالی گئیں۔ برطانیہ میں ایک انجنیئر نے تھری ڈی پرنٹر سے تخلیق کیے گئے اسپیئر پارٹس کو کار کی شکل دے دی۔ امریکا میں اسی پرنٹر کی مدد سے قابل استعمال گن بنالی گئی۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی سے بنائی گئی پستول کی خبروں نے عوامی سطح پر یہ تشویش دوڑا دی کہ اب کسی کے لیے بھی غیرقانونی ہتھیار حاصل کرنا مشکل نہیں رہے گا۔ مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد گھر بیٹھے اسلحہ ’چھاپ‘ سکیں گے۔ تھری ڈی پرنٹر کے ذریعے خوراک تیار کرنے کا تصور بھی سامنے آیا۔ ابتدائی طور پر امریکی فوج کے لیے مخصوص قسم کے تھری ڈی پرنٹرز تیار کرنے کا منصوبہ بنایا گیا جن کے ذریعے محاذ جنگ پر رہتے ہوئے ہر سپاہی اپنے لیے ’تھری ڈی فوڈ‘ تیار کرکے نوش کرسکے گا۔

نوبیل انعام 2014ء
طبیعیات
بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھگتتے پاکستانی عوام کی بڑی تعداد اپنے گھروں کو روشن رکھنے کے لیے مقامی یا چینی ساختہ ایمرجینسی لائٹیں استعمال کرتی ہے۔ یہ ایمرجینسی چھوٹے چھوٹے درجنوں بلبوں یا روشنیوں پر مشتمل ہوتی ہیں جنھیں سائنس کی زبان میں light-emitting diodesکہا جاتا ہے۔ ایمرجینسی لائٹ کے علاوہ یہ ننھے بلب ٹریفک کے اشارات، گاڑیوں سے لے کر ہزاروں اشیاء میں استعمال ہورہے ہیں۔ عام بلبوں کے مقابلے میں ان میں بجلی کا استعمال کئی گنا کم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ عام بلب کے مقابلے میں ماحول دوست ہیں اور 85 فی صد کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج کرتے ہیں۔

نوبیل انعام برائے 2014ء ان ہی ’لائٹنگ امیٹنگ ڈائی اوڈز‘ کے تخلیق کاروں کو دیا گیا ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ ایل ای ڈی کے تینوں موجدوں جاپانی ہیں۔ پروفیسر اسامو اکاساکی، ہیروشی امانو اور شوجی ناکامورا نے پہلی نیلی ایل ای ڈی 1990ء کی دہائی کے آغاز میں بنائی تھی۔

کیمیا
نوبیل انعام برائے کیمیا مشترکہ طور پر اسٹینفرڈ یونی ورسٹی کے ولیم موئرنر، ہوورڈ ہیوز میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے ایرک بیزگ اور میکس پلانک انسٹیٹیوٹ برائے بایوفزیکل کیمسٹری کے اسٹیفن ہیل کے حصے میں آیا۔ ابتدائی دو سائنس دانوں کا تعلق امریکا سے ہے جب کہ اسٹیفن ہیل جرمن شہری ہے۔ انھیں نوبیل انعام کا حق دار محققین کو خلیوں کے اندر جاری سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے کے قابل بنانے کے عوض قرار دیا گیا۔

ان سائنس دانوں کی وضع کردہ تیکنیک کی بنیاد پر انتہائی طاقت ور خردبینیں وجود میں آئیں جن کی مدد سے یک مالیکیولی سطح پر نسیجوں ( ٹشیوز) کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ خلیوں پر تحقیق کے ضمن میں یہ طاقت وَر خردبینیں انقلابی ثابت ہوئی ہیں۔ ان کی مدد سے اب تحقیق کار اعصابی خلیوں کی سرگرمیوں کے مشاہدے سے لے کر مختلف امراض کا سبب بننے والے پروٹین پر نگاہ رکھنے تک، مالیکیولی سطح پر مختلف افعال سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں۔

طب
ایڈورڈ موسر اور مے برٹ موسر ناروے ایک دوسرے کے جیون ساتھی اور نیوروسائنٹسٹ ہیں۔ ان کا تعلق ناروے سے ہے۔ جان اوکیفی بھی ان ہی کے ہم پیشہ ہیں۔ ان کے پاس برطانوی شہریت ہے۔ طب کا نوبیل انعام ان ہی تینوں سائنس دانوں کو دیا گیا۔

دماغ کے مختلف افعال پر تحقیق ان سائنس دانوں کا میدان ہے۔ اعصابی خلیے ان کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔ جسم میں ایسے اعصابی خلیے پائے جاتے ہیں جو ہمارے اردگرد کا نقشہ ترتیب دیتے ہیں اور پھر جب ہم چلتے پھرتے ہیں تو یہ خلیے ہماری ’حرکات‘ پر ’نگاہ ‘ رکھتے ہیں۔ ان خلیوں کی دریافت کا سہرا تینوں سائنس دانوں کے سَر ہے۔ اس انقلابی دریافت کے بعد دماغ کے افعال کا مطالعہ کرنے والے سائنس دانوں اور فلسفیوں کو اس دیرینہ سوال کا جواب مل گیا تھا کہ انسان کے دماغ میں اس کے گرد وپیش کا نقشہ کیسے ترتیب پاتا ہے؟ دوسرے الفاظ میں وہ یہ کیسے محسوس کرپاتا ہے کہ کون سا مقام یا کون سی عمارت کہاں ہے؟ یا کوئی شے کہاں رکھی ہے؟

ان اعصابی خلیوں کو place cells کہا جاتا ہے جو دماغ میں گردوپیش اور مختلف اشیاء کے محل وقوع کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ تینوں سائنس دانوں نے مجموعی طور پر چالیس برس ان خلیوں پر تحقیق کرتے ہوئے گزارے۔

کورووائی قوم

$
0
0

Korowai یعنی کورووائی قوم ایک ایسی عجیب و غریب قوم ہے جو جنوب مشرقی پاپوائے نیوگنی کے گھنے جنگلات میں آباد ہے۔

اس قوم کو Kolufo کہہ کر بھی پکارا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق کورووائی قوم کی آبادی کم و بیش 3000افراد پر مشتمل ہے۔ 1970تک مہذب دنیا کو اس عجیب و غریب قوم کے بارے میں کچھ معلوم نہیں تھا اور یہ قوم بھی اس بات سے مکمل طور پر ناواقف تھی کہ دنیا میں اس کے علاوہ بھی لوگ اور اقوام بستی ہیں اور یہ کہ یہ ان سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہیں۔

٭ زبان: کورووائی زبان کا تعلق Awyu–Dumutفیملی سے ہے۔ یہ زبانوں کا ایک قدیم خاندان ہے جس سے کورووائی زبان نکلی ہے۔ یہ زبان جنوب مشرقی پاپوائے سے تعلق رکھتی ہے اور نیوگنی میں آباد خاندانوں اور نسلوں میں رائج چلی آرہی ہے۔ کسی زمانے میں یہاں ایک ولندیزی مشنری سے تعلق رکھنے والا ایک شخص رہتا تھا جو اس زبان کا ماہر بھی تھا۔ اس نے اس زبان پر ریسرچ کرکے اس کی گرامر بھی لکھی تھی اور ایک ڈکشنری بھی تیار کی تھی۔

٭ طرز رہائش: کورووائی قوم کے لوگوں کی اکثریت ایسے گھروں میں رہتی ہے جو بلند درختوں کی چوٹیوں پر بنائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ زمین پر اس لیے نہیں رہ سکتے، کیوں کہ ان کا علاقہ بہت الگ تھلگ اور خطرناک کیڑے مکوڑوں اور رینگنے والے جانوروں سے بھرا ہوا ہے۔ چناں چہ اپنی حفاظت اور سلامتی کے لیے یہ لوگ بلندی پر بنائے گئے گھروں میں رہتے ہیں۔پھر ان کے خطے میں بہتری آئی اور رہائشی انقلاب آیا۔

یہ 1980کی بات ہے جب ان لوگوں نے درختوں پر بنے ہوئے گھروں کو چھوڑا اور Yaniruma کے علاقے میں آباد کیے گئے نئے دیہات کی طرف نقل مکانی کی۔ یہ گاؤں کورووائی قوم کے لوگوں نے دریاؤں کے کناروں پر خود بسائے تھے۔ یہ کورووائی کا کومبائی علاقہ کہلاتا ہے۔ اس علاقے کے ساتھ قریبی مو اور مباسمن نامی علاقے بھی شامل کرلیے گئے تھے۔ پھر  1987 میں ایک اور گاؤں  Manggélقائم ہوا، 1988میں دریائے Eilanden کے کنارے Mabül نامی گاؤں آباد ہوااور 1989اور 1998میں Khaiflambolüp نامی گاؤں بھی آباد ہوگیا۔ اس کے باوجود اب بھی گاؤں کم ہیں اور یہاں رہنے والے کورووائی قوم کے لوگوں کو خوراک کے حصول میں بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

٭ کورووائی کی معیشت: چوں کہ کورووائی قوم کے لوگوں کو خوراک کے حصول میں بہت مشکلات پیش آتی ہیں، اس لیے ان کا گزارہ شکار پر ہوتا ہے۔ وہ لوگ بڑی محنت سے جانور شکار کرتے ہیں اور انہی سے اپنا اور اپنی فیملیوں کا پیٹ بھرتے ہیں۔ جانوروں کے شکار کے علاوہ یہ لوگ باغ بانی بھی کرتے ہیں اور کاشت کاری بھی۔ انہیں اس شعبے میں اچھی خاصی مہارت حاصل ہے۔ یہ لوگ اپنے کھیتوں پر فصلیں بدل بدل کر اگاتے ہیں۔ شکار اور کھیتی باڑی کے علاوہ کورووائی قوم کے لوگ بہت اچھے ماہی گیر بھی ہیں۔

مچھلی پکڑنے میں ان کی صلاحیتوں سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اس کے علاوہ کورووائی لوگوں کے پیشوں سے متعلق مزید معلومات نہیں مل سکیں۔ ان کی عورتوں کی گھریلو سرگرمیوں کے بارے میں بھی کچھ پتا نہیں۔ بس یہ پتا چلا ہے کہ اس قوم کے لوگ ’’ساگو‘‘ نامی پکوان بنانے میں ماہر ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی تقاریب کا اہتمام بھی بڑے جوش و خروش سے کرتے ہیں ، مگر ان تمام سرگرمیوں میں اس قوم کے مرد دکھائی دیتے ہیں۔

٭ذریعۂ آمدنی: 1990 کے عشرے کے اوائل سے اس خطے میں بیداری کی لہر آئی ہے جس کے بعد بعض کورووائی لوگوں نے خود کو جدید دور کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ہے۔ اب یہ لوگ بعض سیاحتی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے لگے ہیں اور اس کے بدلے میں نقد آمدنی (کرنسی نوٹوں کی شکل میں) حاصل کرنے لگے ہیں۔ یہ لوگ ان کمپنیوں کو اپنے علاقے میں سفر و سیاحت کے سہولیات بھی فراہم کرنے لگے ہیں۔ گویا انہوں نے اپنے ہاں ٹورسٹ انڈسٹری کو متعارف کرادیا ہے اور اپنے علاقے کی حالت بدلنے کی کوشش کی ہے۔ اس قوم کے لوگ اپنے علاقے میں آنے والے سیاحوں کو ہر طرح کی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب اس خطے میں ساگو فیسٹیول کا انعقاد ہوتا ہے تو بیرونی دنیا سے سیاح اسے دیکھنے آتے ہیں۔ یہاں کے لوگ ان کا سامان ڈھوتے ہیں اور انہیں راستے بتاکر ان کی راہ نمائی بھی کرتے ہیں۔

٭قیمتی لکڑی کہاں گئی؟  اس خطے کی سب سے قیمتی لکڑی gaharu یا Agarwoodکہلاتی ہے جس کے لالچ میں غیرملکی اس علاقے میں آتے ہیں۔ 1997میں ایک کلو gaharu  یا Agarwood کی قیمت چار ڈالر بنتی تھی جو مقامی کورووائی وصول کرتا تھا، مگر جب یہی لکڑی مشرق وسطیٰ اور یورپ کی مارکیٹ میں پہنچتی تو اس کی قیمت ایک ہزار ڈالر فی کلو تک پہنچ جاتی تھی۔ اس خطے سے اس لکڑی gaharu  یا Agarwood کو پاپوائے تک متعدد بندرگاہوں کے ذریعے بھیج دیا جاتا تھا، جن میں جایا پورا کے جنوبی ساحل کی Agatsنامی بندرگاہ اور شمالی ساحل کی بندرگاہ شامل ہیں۔

اس کے علاوہ انہیں مشنری فلائٹس کے ذریعے یانیروما اور بوما سے باہر بھجوادیا جاتا ہے۔مگر بعد gaharuکی تجارت پر اس خطے کی فوجی حکومت نے کنٹرول کیا اور پھر اس بزنس کو منظم طریقے سے شروع کیا۔ اس قیمتی لکڑی gaharu کی تجارت کی وجہ سے پاپوائے کے گھنے جنگلات میں بدکاری بھی تیزی سے بڑھی، جس نے اس خطے کے لوگوں کو ایڈز کا تحفہ دیا اور یہ بیماری پورے خطے میں پھیل گئی۔

٭ خونی رشتے: کورووائی کے معاشرے میں چچا، خالو، ماموں وغیرہ جیسے رشتے موجود ہیں۔ یہاں کے لوگ شادی بھی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے رشتے کو تسلیم بھی کرتے ہیں۔ یہ لوگ ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں اور اپنے قبیلے کے علاوہ دوسرے قبیلوں میں بھی شادیاں کرلیتے ہیں۔

٭سماجی زندگی: کورووائی کے لوگ لیڈر یا راہ نما بھی رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں ہر وہ شخص لیڈر یا قبیلے کا سربراہ بن سکتا ہے جو غیرمعمولی صلاحیتوں کا مالک ہو، وہ مضبوط اور توانا ہو اور اس کی ذاتی خصوصیات زبردست ہوں۔ ویسے تو یہ لوگ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے، مگر ان کے ہاں صرف دو چیزوں کی وجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے: یہ لوگ جادو ٹونے اور خاص طور سے کالے جادو پر ایک دوسرے کی جان کے دشمن ہوجاتے ہیں۔ یہ لوگ جادو ٹونے یا وچ کرافٹ پر اتنا یقین رکھتے ہیں کہ اس کے بغیر ایک قدم بھی نہیں اٹھاتے۔ جب انہیں کوئی نیا کام کرنا ہوتا ہے تو پہلے جادو ٹونے کرنے والوں سے رابطہ کرتے ہیں، شادی کرنی ہوتی ہے تو ان کی مدد لیتے ہیں اور دشمنوں سے نمٹنے کے لیے بھی انہی جادوگروں کے مشوروں پر عمل کرتے ہیں۔

٭مذہبی زندگی: کورووائی لوگ کوئی خاص عبادت تو نہیں کرتے، مگر ان کے مذہبی عقائد کا دائرہ روحوں کے گرد گھومتا رہتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق کورووائی کی دنیا ہر قسم کی اچھی اور بری روحوں سے بھری ہوتی ہے۔ ان میں سے بعض روحیں ذاتی ہوتی ہیں یعنی ان کے اپنے رشتے داروں کی ہوتی ہیں جو دنیا سے جاچکے ہوتے ہیں، جب کہ بعض روحیں افسانوی یا کرداری ہوتی ہیں۔ یعنی یہ تمام روحانی کردار اس قبیلے کے اپنے بنائے ہوئے ہیں۔ خاص طور سے یہ لوگ اپنے آبا و اجداد کی روحوں کو بہت اہمیت دیتے ہیں، ان سے مشورے بھی کرتے ہیں۔

انہی سے بات چیت کرنے کے بعد یہ کوئی قدم اٹھاتے ہیں۔ ان کے عقیدے کے مطابق اس دنیا کو تخلیق کرنے والی روح کا نام Ginol Silamtenaہے جسے یہ سب سے بڑی روح مانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔ کورووائی لوگ اپنی روزمرہ زندگیوں میں نہ تو کوئی ذمہ داری قبول کرتے ہیں اور نہ کسی کے سر کوئی کام تھوپتے ہیں۔ کورووائی لوگوں پر یہ لازم ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک بار ساگو کا تہوار ضرور منعقد کرے یا اس میں حصہ لے۔ ایسا کرنا اس کی خوش حالی اور بہتری کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ مذکورہ فرد ایک مذہبی تقریب میں یہ رسم انجام دیتا ہے۔مشکل زمانے میں مسائل سے نجات حاصل کرنے کے لیے کورووائی لوگ اپنے پالتو سؤر اپنے آبا و اجداد کی روحوں کے لیے قربان کردیتے ہیں، تاکہ ان پر سے بدحالی اور بدقسمتی دور ہوجائے۔

٭لوک ورثہ اور آواگون کا تصور: کورووائی لوگ غیرمعمولی اور خوب صورت روایات کے امین ہیں جن میں داستان گوئی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس خطے کی لوک کہانیاں (جادوئی) اقوال اور جادو منتر اور قدیم تہذیبوں کے مظاہر بے مثال ہیں۔ موت اور موت کے بعد کی زندگی کے بارے میں کورووائی لوگوں کا عقیدہ یہ ہے کہ موت کے بعد انسان اس دنیا میں کسی اور شکل میں دوبارہ آتا ہے۔ گویا یہ لوگ آوا گون کو مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو لوگ ایک بار دنیا میں مرگئے، وہ کسی بھی وقت اس دنیا میں دوبارہ جاسکتے ہیں۔ اس سارے عمل کے بعد وہ انسان کسی بھی نومولود بچے کی شکل میں دنیا میں دوبارہ آجاتا ہے اور اس کی آمد سے اس کا خونی رشتے دار واقف ہوتا ہے۔

٭اہل مغرب سے رابطہ: اہل مغرب سے کورووائی لوگوں کا پہلا باقاعدہ دستاویزی رابطہ  17مارچ 1974کو ہوا تھا جب کچھ سائنس دانوں نے Peter Van Arsdale کی سربراہی میں یہاں کا دورہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ماہرِجغرافیہ Robert Mitton اور کمیونٹی ڈویلپر Mark (Dennis) Grundhoeferبھی تھا۔ یہاں دریا کے کنارے اس ٹیم کے ملاقات لگ بھگ تیس افراد سے ہوئی تھی۔ 1970 کے عشرے کے اواخر میں چند مسیحی مشنریوں نے اس خطے میں آکر رہنا شروع کردیا۔ ایک انڈونیشیائی سماجی سائنس داں Dea Sudarman نے کورووائی پر متعدد دستاویزی فلمیں تیار کیں۔ یہ فلمیں جاپانی ٹیلی ویژن کے لیے 1980کی دہائی میں تیار کی گئی تھیں۔ 1993میں ایک فلمی عملے نے Dayoگاؤں کے علاقے میں سماجی سائنس کے مطالعے پر ایک دستاویزی فلم بنائی، جس میں  درختوں پر گھر بنانے کو موضوع بنایا گیا تھا۔

٭مقامی مزاحمت: اس دوران مقامی لوگوں کی طرف سے مشنریوں کو بھی اور دستاویزی فلمیں بنانے والوں کو بھی اچھی خاصی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ خاص طور سے ان کے وچ ڈاکٹرز اور جادوگروں نے نئے آنے والوں کے خلاف پورا محاذ کھڑا کردیا۔ چوں کہ اس جگہ کے بعض لوگ انسانوں کو بھی کھاجاتے ہیں، اس لیے اس بات کا اندیشہ پیدا ہوا کہ کہیں باہر سے آنے والے مقامی جنگلیوں کی خوراک نہ بن جائیں۔ اس مزاحمت کی وجہ سے بعض مقامی افراد نے اس علاقے میں آنے والے غیرملکی سیاحوں کے ساتھ تعاون بھی بند کردیا ہے، جس سے علاقے کی خوش حالی پر برا اثر پڑا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے بھی ویزے کے مسائل کھڑے کردیے ہیں جس سے یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد میں خاطر خواہ کمی ہوئی ہے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ کورووائی میں آج بھی چوری چھپے  آدم خوری کا سلسلہ جاری ہے۔ مگر  بعض لوگوں کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس علاقے سے آدم خوری اب مکمل طور پر ختم ہوچکی ہے۔  یہاں کے ذمہ دار لوگ کورووائی کو اب ایک ایسا صاف ستھرا اور محفوظ علاقہ بنانے کے لیے سرگرم ہیں جہاں غیرملکی سیاح بے فکری سے آسکیں تاکہ اس خطے میں بھی خوشیاں اور خوش حالی آسکے۔

پاک چائنا اکنامک کاریڈور: 2014 کی نئی پیش رفت

$
0
0

اسلام آباد:  گذشتہ دنوں وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے خیبر پختون خواہ میں ساٹھ کلومیٹر طویل نئی شاہ راہ ہزارہ موٹر وے کی تعمیر کا افتتاح کیا، اس کو ’’پاک چائنا اکنامک کاریڈور‘‘ کا پہلا حصہ قرار دیا جارہا ہے۔

وزیر اعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ یہ منصوبہ خطے میں گیم بدل دے گا۔کاشغرگوادر پراجیکٹ سے دنیا کے تین ارب لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق اس کاریڈور نے پاکستانی کشمیر سے بھی گزرنا ہے، اس لیے بھارت نے اس منصوبے پر ناپسندیدی کا اظہار کیا ہے۔ کشمیر سے گزرے بغیر یہ شاہ راہ چین اور پاکستان کو ملا نہیں سکتی، اس لیے بھارت کو خوف پیدا ہو رہا ہے کہ اس شاہ راہ کی تعمیر کے بعد پاکستان کی اس علاقے میں عمل داری مزید مضبوط ہو جائے گی۔ یہ شاہ راہ چین کے شہر کاشغر کو پاکستان کی بندرگاہ گوادر سے ملائے گی۔

سڑک کے علاوہ اس کاریڈور میں ریلوے لائن، تیل اور گیس کی پائپ لائنیں اور فائبر آپٹکس کیبلز بچھائے جانے کی تجویز بھی منظور کی جاچکی ہے۔ یہ شاہ راہ چین کی’’گرینڈ ویسٹرین ڈیولپمنٹ اسٹریٹجی‘‘ کے نام سے شروع کیے جانے والے اُن منصوبوں میں سے ایک ہے جن کا آغاز1978 میں چینی رہ نما ڈنگ ژیاؤپنگ نے کیا تھا۔

اس منصوبے کے تحت اوئغور سنکیانگ کے علاقوں کو مشرقی چین سے جوڑنے کے لیے ہزاروں کلومیٹر لمبے ہائی ویز تعمیر کیے گئے،ریلوے لائنیں بچھائی گئیں،ٹیکس میں غیرمعمولی چھوٹ دی گئی اور اس کے علاوہ شنگھائی ‘ بیجنگ کے ساتھ مشرقی یا وسطی چین سے آنے والے صنعت کاروں کو صنعتیں لگانے میںہر طرح کی مراعات دی گئیں۔ چینی حکومت نے ہر سال بجٹ میں  اس علاقے کو اربوں روپے کے خصوصی فنڈ فراہم کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے چین کا یہ پس ماندہ علاقہ ترقی یافتہ مشرقی یا وسطی چین کے برابر آ گیا لیکن اس خطے کو مکمل فعال بنانے کے لیے ضروری تھا کہ اس علاقے میں تیار ہونے والی مصنوعات کو عالمی منڈی تک کم سے کم فاصلے کے ساتھ رسائی فراہم کی جائے۔

کاشغر سے شنگھائی تک کا فاصلہ پانچ ہزار کلو میٹر بنتا ہے اس لیے چینی قیادت نے بہت سوچ بچار کے بعد کاشغر کو پاکستان کی نئی بندرگاہ گوادر سے ملانے کے لیے اس تجارتی کاریڈور کی تعمیر کا منصوبہ بنایا، جس میں پاکستان نے بھی بھرپور دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں اس کاریڈور کو تعمیر کرنے سے متعلق بات چیت کا آغاز ہوا تھا اور اس شاہ راہ کے لیے دوہزار کلو میٹر روٹ فائنل کیا گیا۔ منصوبے کے مطابق اس روٹ نے ایبٹ آباد‘ حسن ابدال‘ میاں والی‘ ڈی آئی خان ‘ ژوب اورکوئٹہ سے گزرتے ہوئے گوادر تک جانا ہے اور اس شاہ راہ کو موٹر وے کی بجائے ٹریڈ کاریڈور طرز پر تعمیر کیا جانا ہے، جس پر مخصوص فاصلوں پر صنعتی زون قائم کیے جانے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر یہ منصوبہ اُسی طرح تیار ہو، جس طرح ڈیزائن گیا تو اس سے پورے پاکستان اور بالخصوص فاٹا‘ خیبرپختون خوا اور بلوچستان، تجارت اور اقتصادی سرگرمیوں کا مرکز بنتے ہیں، اس سے ان علاقوں سے انتہاپسندی اور دہشت گردی کا خاتمہ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔

گوادر بندرگاہ سے خلیج فارس محض200 میل دور ہے،جو دنیا کے سب سے بڑے آئل امپورٹر چین کے لیے خوش کن بات ہے کہ گوادر کا روٹ کھلنے سے اُسے 12 ہزار کلو میٹر طویل سمندری مسافت کے دوران امریکا کی ممکنہ بلیک میلنگ اورسمندری مسافت کے اخراجات سے چھٹکارہ ملنے کے علاوہ تیل کو آف لوڈ کرنے کے بعد پائپ لائنوں سے گزارنے کی مشقت سے بھی جان چھوٹ جائے گی اور یوں بیجنگ مسلسل دباؤ سے آزاد ہو جائے گا۔ اس بات کو امریکا بھی اچھی طرح سمجھتا ہے، اس لیے یہ منصوبہ چین سے زیادہ پاکستانی قیادت کا امتحان بن سکتا ہے۔ پاک چین اکنامک کاریڈور کا یہ ہی وہ پہلو ہے جس سے فریقین فی الوقت جان بوجھ کر اغماض برت رہے ہیں جب کہ صورت حال سے نمٹنے کی حکمت عملی کے برعکس بھی کچھ ہو سکتا ہے، جس سے پاکستان کی نسبت چین کو کم نقصان ہو گا کیوں کہ چین کے لیے دیگر راستے بدستور کھلے ہیں۔

چین کی وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت میں ترقی کے لیے طویل شاہ راہوں کا سلسلہ پایۂ تکمیل تک پہنچ چکا ہے اور بڑے دہانوں والی پائپ لائنیں بھی بچھ چکی ہیں۔ برما سے لے کر چین تک پائپ لائن پراجیکٹ پر کام ختم ہوچکاہے۔ خدانخواستہ گوادر پورٹ آپریشنل نہیں ہوپاتی تو بھی چین اپنے آئل ٹینکروں کو برما کے ساحل پر خالی پائپ لائن میں ڈال سکتا ہے، اس سے بارہ ہزار نہیں تو چین کو کم از کم چھ ہزار کلومیٹر سفر کی بچت تو ہوگی۔

اسی طرح اس کے ہم سائے میں موجود روس کے انرجی وسائل بھی چین کی آنکھوں سے اوجھل نہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ روس سے تیل اور گیس کی درآمد کا ایک زبردست معاہدہ جلد ہی منظر عام پر آنے والا ہے۔ شاید اسی لیے ایک امریکی تھنک ٹینک فرماتے ہیں’’پاک چین اکنامک کاریڈور بے معنی شور شرابے کے سوا کچھ نہیں ہوگا، سنکیانگ میں جاری اسلامی تحریکوں اور علیحدگی پسندی کے ڈانڈے پاکستان کے اندر ہیں جن کو اسلام آباد، بیجنگ کی منشا کے مطابق اگر کچلا نہ گیا تو یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ جائے گا۔ چین کی خواہش کے باوجود کچھ بھی نہیں ہو پائے گا اور قرآئن بتاتے ہیں کہ مستقبل میں بھی کچھ نہیں ہوگا۔

جب کہ روس کے انسٹی ٹیوٹ برائے تزویری تحقیق کے محقق بورس وولہونسکی کے مطابق’’اس منصوبے کی معاشی اہمیت سے انکار نہیں۔ اوّل، یہ چین کی ترقی کے لیے خوش آیند ہوگا اور علاقے سے سرگرم بنیاد پرستوں اور علیحدگی پسندوں کے پاؤں تلے سے زمین سرکائی جا سکے گی۔

دوئم ،چین کو خلیج فارس سے تیل لانے کا مختصر ترین زمینی راستہ مل جائے گا، اس سے چین کو آبنائے ملاکا سے نہیں گزرنا پڑے گا اور یوں یہ ضمانت بھی مل جائے گی کہ کوئی بھی غیر ملکی قوت خام مال کی آمد میں حارج نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ کاریڈور بننے سے پاکستان میں سرمایہ کاری  بڑھنے کا امکان پیدا ہو جائے گا اور زیادہ اہم بات یہ ہوگی کہ ساری ترقی پس ماندہ صوبوں کے پی کے اور بلوچستان میں ہوگی‘‘۔ جب کہ چین اور پاکستان بھی کہ چکے ہیں’’اس منصوبے کی تکمیل سے صرف ہمیں ہی نہیں، نزدیکی ہم سایہ ملکوں کو بھی فائدہ ہوگا‘‘۔

انسٹی ٹیوٹ برائے عالمی معیشت و بین الاقوامی تعلقات کے ایک ماہر اور روس کی وزارت برائے امور خارجہ کی سفارتی اکادمی برائے مشرق تحقیق مرکز کے سربراہ آندرے وولودین کہتے ہیں’’چین نے ایک بار پھر پاکستان کو اپنا سچا اتحادی اور اہم ترین تزویری شریک کار ظاہر کردیا ہے۔ اب چین کی رضامندی کے بغیر پاکستان میں کچھ ہو سکتا ہے اور نہ ہی کچھ ہوگا۔

اب چین دنیا میں سرمایہ کاری کی سب سے بڑی قوت ہے، وہ ہر ممکن کوشش کرے گا کہ افغانستان سے اتحادی دستوں کے انخلا کے بعد پاکستان مستحکم ہو کیوں کہ پاکستان کے حالات بہت ناقابل قیاس ہیں، یہ بھی ممکن ہے کہ امریکا کے جانے کے بعد افغانستان ٹوٹ جائے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہاں سے امریکا کے نکلنے کے بعد  افغانستان کے لیے اچھے حالات پیدا ہوجائیں۔ میرے خیال میں اس وقت دوسرے امکان پر شی جن پنگ اور ان کے رفقا کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح پاکستان کی قیادت بھی یہ سمجھتی ہے کہ ان کے لیے امکانات بہت اچھے نہیں چنانچہ وہ چین کی مدد سے کبھی انکاری نہیں ۔ یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ پاکستان میں زیادہ کام اور اثرورسوخ امریکا کا ہے مگر اس نقطہ نظر کو اب درست کیے جانے کی اشد ضرورت ہوگی ‘‘۔

اگر چین پاکستان کاریڈور کو بطور معاشی کاریڈور لیا جائے تو علاقے میں انفراسٹرکچر کے کئی معاملات حل ہونے کے امکانات ہیں جو جنوبی، مرکزی اور وسط ایشیا سے شمالی یوریشیا تک پھیلے ہوئے ہیں لیکن اس کاریڈور کے روٹ میں جب سے تبدیلی کی باتیں سامنے آنے لگیں ہیں، اُس وقت سے اس منصوبے کے متنازعہ بننے کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔ خبر یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے اپنے حلقۂ انتخاب یعنی لاہور کو اس کاریڈور سے مستفید کرنے کے لیے اس سڑک کا رخ اصل روٹ سے ہٹا کر لاہور کی طرف موڑنے کی منصوبہ بندی کی ہے، جس پر بلوچستان اور خیبر پختون خوا کے سینیٹرز نے حکومت کو سخت احتجاج کی دھمکی دی تھی، تاحال یہ معاملہ راکھ میں دبا ہواہے لیکن یہ چنگاری کسی وقت بھی جنگل کی آگ بن سکتی ہے ۔ روٹ بدلنے سے متعلق حکومت کی دلیل یہ ہے کہ وسائل کم ہونے کے باعث نئی سڑک تعمیر نہیں کی جاسکتی ۔

اس لیے حسن ابدال سے گوادر تک نئی سڑک بنانے کی بجائے اس ٹریڈ کاریڈور کے لیے موجودہ موٹروے (ایم ٹو) کو ہی استعمال کیا جائے، بعد ازاں اس کو ملتان سے گوادر کے ساتھ ملا دیا جائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ اس بہانے کی آڑ میں بلوچستان اور خیبر پختون خوا کو اس نعمت سے محروم کیوں رکھا جارہا ہے؟ جب کہ شہر شہر میٹرو منصوبوں کے اعلانات نے سوچنے والوں کو ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے،حال آں کہ اس کاریڈور پر کئی صنعتی بستیاں تعمیر ہونے والی ہیں، جن کی سب سے زیادہ بلوچستان اور کے پی کے کو ہی ضرورت ہے۔

دوسری جانب چین نے بھی اس منصوبے میں اس تبدیلی کو پسند نہیں کیا، وہ اب بھی برہان سے براستہ میانوالی اور ڈی آئی خان ‘ ژوب اور کوئٹہ سے ہوتے ہوئے گوادر تک رسائی چاہتا ہے۔ لاہور سے ملتان اور پھر کوئٹہ سے گوادر روٹ کے باعث چین کے لیے یہ فاصلہ کئی سوکلومیٹر بڑھ جائے گا۔ اس حوالے سے یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ وزیراعظم نے روٹ میں تبدیلی کے ارادے کو ملتوی کردیا ہے لیکن اس کے باوجود خطرہ یہ بھی ہے کہ مستقبل میں اس منصوبے کو تبدیلی کے ساتھ ہی مکمل کیا جائے گاکیوں کہ میاں نوازشریف نے ایبٹ آباد حسن ابدل سیکشن کا افتتاح تو کردیا لیکن حسن ابدال تا گوادر تک شاہ راہ کی تعمیر کے لیے کوئی روڈ میپ نہیں دیا۔

اسلام آباد میں پاک چین اکناک کاریڈور سیکریٹریٹ 27 اگست 2013 سے فعال ہوگیا تھا لیکن بعض حلقوں کے نزدیک یہ منصوبہ خواب دیکھنے کے مترادف ہے۔اس منصوبے کا عرصۂ تکمیل متعین نہیں،منصوبے کے اخراجات کا تخمینہ 35 بلین ڈالر بتایا جارہا ہے،اس کے علاوہ بھی تخمینے سامنے آرہے ہیں۔ یہ بھی وضاحت نہیں کہ اس میں چین اور پاکستان کا حصہ کتنا ہوگا اور پاکستان کی ذمہ داری کیا ہوگی؟ قیاس یہ بھی ہے کہ انرجی، انفرا اسٹرکچر اور داخلی شاہ راہوں پر اٹھنے والے اخراجات کا بڑا حصہ پاکستان کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔ چین کی جانب سے تعاون آیا تو قرضے کی شکل میں ہوگا مگر یہ واضح ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں جذبات نہیں چلتے ہر کوئی اپنے مفاد کا تحفظ کرتا ہے۔

ایک وقت تھا جب پاکستان کے دوستوں کی ترتیب یوں ہوا کرتی تھی،سعودی عرب، امریکا، برطانیہ اور اس کے بعد چین آیا کرتا تھا، اس دفعہ اپنے اولین بیرونی دورے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف نے چین کا انتخاب کرکے اپنی فارن پالیسی کی ترجیحات کا بڑا واضح اظہار کیا تو ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اس فارن پالیسی میں اس تبدیلی کے فیصلے سے خطے میں حقیقی تبدیلی کا نقطۂ آغاز طے ہو جائے گا؟ کیا اس مرتبہ معاملات واقعی مختلف ہوں گے ؟

کاریڈور کے آغاز اور اختتام پر مذہبی انتہاپسندی اور عسکری تنظیموں نے جو غیریقینی صورت حال پیدا کررکھی ہے اور اگر اس کا مکمل سدباب بھی نہیں ہورہا تو ایسے میں یہ سارا منصوبہ دیوانے کی بڑ ثابت ہوگا؟ گوادر خود بھی محفوظ جگہ نہیں اور علاقے میں تعمیراتی کاموں کے دوران چینی کارکنوں کو اس کا تجربہ ہے اور پائپ لائن اور متعلقہ تنصیبات ہر وقت دہشت گردوں کے نشانہ پر ہوتی ہیں۔ موجودہ قراقرام ہائی وے بھی گوناگوں مسائل سے دوچار رہتی ہے۔ یہ 800 کلومیٹر طویل شاہراہ کبھی قدرتی آفت کی تو کبھی فرقہ واریت کی زد پر ہوتی ہے۔ اس کی شکست و ریخت اور اپ گریڈیشن کا مسلسل عمل ایک الگ کہانی ہے، پھر اس شاہ راہ کی سیکیوریٹی کا مسئلہ اس قدر شدید ہے کہ اس سے نمٹنے کے لیے فورسز کو دن رات ایک کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے اکنامک کوریڈور کے حوالے سے پاکستان فطری طور پر نسبتاً زیادہ پرجوش تو ہے مگر اقتصادی پریشانیوں سے نکلنے کے لیے اس کے آپشنز بہت محدود ہیں۔

مندرجہ بالا امکانات کو سامنے رکھتے ہوئے حکومت کو فوری طور پر اس کاریڈور کا حتمی روٹ، مالی تخمینہ، اس تخمینے میں پاکستان کا حصہ اور منصوبے کی تکمیل کی مدت کو جاری کردینا چاہیے تاکہ اس منصوبے کو ابہام اور تحفظات سے نکال کر شفافیت کے اُجالے میں لایا جاسکے۔

دنیا کی سب سے مہنگی کتابیں

$
0
0

بعض کتابیں بہت منہگی ہوتی ہیں لیکن اپنے مقصد کے لحاظ سے اتنی کاآمد نہیں ہوتیں، اس کے برعکس بعض کتابیں آپ کو بہت سستے میں مل جاتی ہیں، مثلاً ردی والوں کے ہاں سے، لیکن انہیں پڑھ کر آپ سرشار ہو جاتے ہیں، آپ کی یہ سرشاری اس کی اصل قیمت ہوتی ہے، اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اس کتاب کی قیمت روپے پیسے میں شمار نہیں کی جاسکتی۔ بعض

اوقات بعض کتابوں کی قیمتیں سر چکرا کر رکھ دیتی ہیں لیکن ان میں کوئی خاص بات نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ یہ کسے خاص عہد سے تعلق رکھتی ہیں اور نایاب ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ذیل میں اک ہسپانوی ناول ڈان کوئکزوٹ کا ذکر ہے۔ یہ کتاب اگر آپ خریدنے جائیں تو یہ نئی حالت میں آپ کو چند سو روپے میں نہایت آسانی سے مل جائے گی، یہ مغربب کے کلاسیکی ادب کی لاجواب مثال ہے اور اس نے یورپ کے ادب خاص طور پر ناول نگاری کو یک سر نئے زاویوں سے آشنا کیا ہے لیکن اس کتاب کا ایک بوسیدہ نسخہ اس قدر منہگا ہے کہ قیمت پڑھ کر آپ دنگ رہ جائیں گے۔

اس انتہائی بوسیدہ نسخے کے لیے کروڑوں روپے ادا کرنے کے باوجود آپ اس کی ورق گردانی نہیں کر سکتے بل کہ بعض حالات میں تو اسے آپ انہیں چھو تک نہیں سکتے۔ جرمنی میں Gosple of Henry the lion کی تو سال میں نمائش ہی دو مرتبہ کی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ کوئی بات تو یقناً ہے جو خریدنے والے اس قدر قیمتیں ادا کرنے سے نہیں چوکتے۔ ایسی کتابوں پر کم از کم اس کے مصنف کی لمس ہو سکتا ہے، اس پر ممکن ہے کہیں نہ کہیں اس کے اصل دست خط مل سکتے ہیں، یہ افتخار بھی کم نہیں کہ آپ کے پاس کتاب کا ایک ایسا نسخہ موجود ہے جو کسی اور کے پاس نہیں۔

ذیل میں دی گئی کتابیں 2014 میں خریدی یا بیچی نہیں گئیں تاہم ان میں سے اکثر کی اصل قیمتوں کا علم اسی سال ہوا ہے۔ کتابوں کے حفظِ مراتب کا پاس نہیں رکھا گیا۔

Bay Psalme Book
قیمت :30 ملین ڈالر
اسے Whole Books of Psalme بھی کہا جاتا ہے۔ یہ 1640 میں کیمبرج میسا چوسٹس میں اس وقت چھپی تھی جب امریکا برطانیہ کے زیرنگیں تھا۔ یہ امریکا میں شایع ہونے والی پہلی کتاب تھی۔ اس کی زبان انگریزی ہے، یہ انگریزی اب مروج نہیں ہے۔ یہ گیتوں اور موسیقی کی دھنوں کامجموعہ ہے۔ اس کی زبان تو اب متروک ہو چکی لیکن چوں کہ موسیقی کی عمر طویل ہوتی ہے سو اس کی چند دھنیں آج بھی موجود ہیں۔ اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کے گیارہ نسخے باقی بچے ہیں۔

اسے عبرانی زبان سے ان مذہبی تطہیر پسندوں (Puritans) نے ترجمہ کرائی جو مذہبی آزادیوں کی تلاش میں یورپ سے یہاں منتقل ہوئے تھے۔ انہوں نے عبرانی سے ترجمہ کرانے کے لیے 30 ’’پارساؤں‘‘ کی خدمات معاوضے پر حاصل کی تھیں۔ اس کی پہلی اشاعت اسٹیفن ڈے پریس میں ہوئی۔ اس کے صفحات 148 ہیں۔ اس کی نیلامی سے قبل اس کا اندازہ 30 ملین ڈالر ہے، اس حوالے سے اسے 2014 میں دنیا کی سب سے منہگی کتاب ہونے کا اعزاز حاصل رہا۔

The Birds of America
قیمت 73 لاکھ پاؤنڈ سے زیادہ
یہ کتاب مصوری کے نمونوں پرمشتمل ہے۔ جنہیں فطرت پرست جون جیمز آڈو بون نے 1827 سے 1838 کے درمیان تخلیق کیا۔ اس میں شامل تمام تصاویر شمالی امریکا کے پرندوںکی ہیں۔ ان میں سے اب اکثر پرندے کم یاب یا یک سر نایاب ہو چکے ہیں۔ ان کی مصوری کا آغاز انگلستان میں لندن اور ایڈن برا میں کیاگیا تھا۔ جون نے اکثر تمام تصاویرآئل پینٹ میں بنائی، بعض جگہ پنسل اور پن وغیرہ کا استعمال بھی ہے۔ تصاویر میں پرندوں کو ان کے قد و قامت کے عین مطابق مصور کیا گیا ہے۔

ایسے پرندے جن کا قامت کتاب سے بڑا ہے، ان کی تصاویر تہ کی گئی ہیں۔ تصویروں کی چھپائی کندہ کاری (Engraving) کا بھی عمدہ نمونہ ہے۔ پینٹنگ کے لیے استعمال کیاگیا کاغذ بھی مشینی کے بجائے ہاتھ سے بنایا گیا ہے۔ اس کی منہگی اشاعت کے اخراجات کے لیے جون جیمز کی مدد کرنے والوں میں فرانس کے چارلی دہم، برطانیہ کے ولیم چہارم کی ملکہ ایڈیلیڈ، ارل سپنسر، امریکا کے ڈینیئل ویبسٹر اور ہنری کلے شامل ہیں۔ یہ مجموعہ لندن کے سو دربائی کے نیلام گھر میں میگنی فی سینٹ بکس کی فروخت کے دوران 73 لاکھ 21 ہزار 250 پاؤنڈ میں فروخت ہوا۔

The Guttenberg Bible
قیمت: 50000 پاؤنڈ فی صفحہ
یہ مسیحیت کی کتاب مقدس کا لاطینی ترجمہ ہے، جو چوتھی صدی عیسوی کے اواخر میں کیاگیا تھا۔ اسے 42-Line Bible یا Mazarin Bible of B42 کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے ہر صفحے پر 42 سطریں چھپی ہیں۔ یہ وہ پہلی قابل ذکر کتاب ہے جو مغرب میں Moveable Type میں شایع ہوئی۔ اسے گٹن برگ انقلاب یعنی اشاعتی کتابوں کا آغاز قرار دیا جاتا ہے۔ اسے 1450 میں شہر مینز (Mainz) میں شائع کیاگیا، یہ شہر موجودہ جرمنی کا حصہ ہے۔ کتاب کی باقیات میں 48 نسخے شامل ہیں، جو دنیاکے انتہائی قابلِ قدر نسخے قرار دیے جاتے ہیں۔ یہ بائیبل پہلی بار چھپی تو اس کے بہت کم نسخے سامنے لائے گئے تھے۔

اس کے بعض نسخے اس زمانے میں 3 فلورن میں فروخت ہوئے، جو اس وقت ایک کلرک کی تین برس کی تنخواہوں کے برابر تھا تاہم یہ قیمت اسی کتاب کے قلمی نسخوں سے بہت ہی کم تھی۔ اس کا پہلا ایڈیشن انگلستان، سویڈن اور ہنگری جیسے دور دراز مقامات پر فروخت ہوا اور اس کے خریداروں میں یونی ورسٹیاں مذہبی ادارے اور اہل ثروت لوگ تھے۔ دولت مند لوگ اسے خرید کر مذہبی اداروںکو بہ طور صدقۂ جاریہ ہدیہ کر دیا کرتے تھے۔ اس کتاب کی اشاعت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس سے اشاعتی دنیا ایک نئے انقلاب سے متعارف ہوئی۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ اس کتاب مقدس کے 48 نسخے باقی ہیں ۔

تاہم ان میں سے صرف 21 مکمل حالت میں ہیں، باقی اوراق کی صورت میں ادھر ادھر بکھرے ہوئے ہیں۔ مکمل کتابیں آسٹریا، بیلجیئم، ڈنمارک، فرانس، جرمنی، جاپان، پولینڈ، پرتگال، جاپان، روس، اسپین، یوکے، امریکا اور ویٹی کن سٹی میں ہیں اور اکثر لائبریریوں میں یا گرجا گھروں میں رکھی ہیں۔ اس کتاب کی بیش قیمتی کا اندازہ اس سے لگایا جائے کہ اس کے ایک ورق کی قیمت 50 ہزار پاؤنڈ ہے۔ اس طرح دیکھا جائے تو پوری کتاب دسیوں کروڑ پاؤنڈ میں پڑتی ہے۔

The First Folio
قیمت: 50 لاکھ پاؤنڈ
یہ ولیم شیکسپیئر کے کام کا مجموعہ ہے، جو پہلی بار اس کے تخلیق کار کی موت کے صرف سات برس بعد یعنی 1623 میں شائع ہوا تھا۔ اسے Mr. William shakespeare’s comidies, Histories & Tragedies کا نام بھی دیا جاتا ہے، تاہم آج کے نقاد اور دانش ور اسے The first folio کے مختصر نام سے یاد کرتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے پہلی بار Folio کے انداز میں شایع کیا گیاتھا۔ اس میں شیکسپیئر کے 36 کھیل شامل ہیں۔ یہ انگریزی ادب کی دنیا میں شیکسپیئر کا سب سے زیادہ معتبر مجموعہ قرار دیاجاتا ہے، یہ یقین کیا جاتا ہے کہ اس میں شیکسپیئر کا نام پر کسی اور کی ملاوٹ نہیں ہے، حال آں کہ اس سے پہلے شیکسپیئر کی زندگی میں بھی اس کے کام کا کچھ حصہ چھپ چکا تھا۔

شیکسپیئر کے مرنے کے بعد اس کے نام پر متعدد ایسے نامعتبر مجموعے چھپے جن ’’غیر مطبوعہ کام‘‘ کے نام پر ایسا کام بھی شامل کر لیا گیا تھا جس میں شیکسپیئر جیسی لطافت اور گہرائی و گیرائی نہیں تھی، نقاد انہیں بالاتفاق مشکوک قرار دیتے تھے۔ دی فرسٹ فولیو کی شاملات کو ہیمنگز اور کونڈل نے تالیف کیا، یہ دونوں ’’سٹیشنرز کمپنی‘‘ کے اراکین تھے، جس نے کتاب شایع کی تھی جب کہ اس کے فروخت کنندگان ایڈورڈ بلاؤنٹ اور ولیئم اینڈ آئزک جیگرڈ تھے۔ ہیمنگز اور کونڈل نے کام یاب کوشش کی کہ کتاب خالصتاً شیکسپیئر کے اصل ڈراموں ہی پر مبنی ہو اور اس میں کھوٹ شامل نہ ہو پائے۔ اس نسخے کی پروف ریڈنگ بڑی احتیاط سے کی گئی تاہم اس کے باوجود اس میں 500 اغلاط کی نشان دہی کی گئی ہے۔

1623 میں جب یہ کتاب مارکیٹ میں آئی تو اس کی قیمت ایک پاؤنڈ رکھی گئی تھی، جو موجودہ وقت میں اڑھائی سو ڈالر یا کم و بیش ایک سو پاؤنڈ کے برابر بنتی ہے۔ اس دور میں یہ غیر مجلد چھپی تھی لیکن خریدار اس پر مزید رقم خرچ کرکے اسے چرمی جلد کروا لیا کرتے تھے، جو کتاب کی اصل قیمت سے دوگنا میں پڑتی تھی۔ آغاز میں اسے 800 کی تعداد میں چھاپا گیا تھا۔ ان میں سے 233 جلدیں اس وقت موجود ہیں، جن میں سے 5 برٹش لائبریری کی زینت ہیں۔ 2001 میں اس کے ایک نسخے کی قیمت 6 ملین ڈالر پڑی تھی، جب کہ آج اس کی قیمت کا اندازہ 5 ملین برطانوی پاؤنڈ ہے۔

Don Quixote
قیمت: 15 لاکھ ڈالر
ناول ڈان کو یکڑوٹ، دنیا کے اعلیٰ ترین ادب میں شمار ہوتا ہے۔ اسپین کے ناول نگار میگوئل ڈی سروانتے ساودرا کی تخلیق ہے۔ یہ ناول دو جلدوں میں ہے، جو بہ تدریج 1605 اور 1615 میں شائع ہوئیں۔ اس کا پورا نام انگریزی میں The ingenious Gentleman Don Quixote of La Mancha ہے۔ یہ ناول ہر دور میں ہر عمر کے لوگوں میں مقبول رہا۔ آج بھی بڑے ذوق وشوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بائیبل کے بعد سب سے زیادہ پڑھی اور چھاپی جانے والی کتاب ہے۔

اس کا ہیرو الونسو کوئکزانو ایک ہڈالگو ( Hidalgo)ہے۔ ہڈالگو اسپین کے معززین کے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ کوئیکزانو کو ناول پڑھنے کی لت پڑی ہوئی ہے اور وہ اس قدر پڑھتا اور اس کا اثر لیتا ہے کہ اپنی معمول کی زندگی سے ہٹ کر قدیم وقتوں کی نائٹ ہڈ (جاں بازی) کی ژقافت کا احیاء کرنے، برائیوں کو ختم کرنے اور دنیا میں انصاف کا بول بالا کرنے کا فیصلہ کر کے نکل پڑتا ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ اپنا نام کوئکزانو سے بدل کر ڈان کوئکزوٹ رکھ لیتا ہے۔

سانچو پانزا ایک سادہ لوح کسان ہے، جسے وہ اپنے سپر بردار (Shield Holder) کے طور پر بھرتی کرتا ہے۔ قرون وسطیٰ میں نائٹ (Knight) اپنی زرہ بکتر اور ڈھال اٹھانے کے لیے اس طرح کے ملازم ساتھ رکھا کرتے تھے یہ ملازم الگ گھوڑے یا گدھے پر سوار مالک سے چند قدم پیچھے چلا کرتے تھے۔

سانچو پانزا کا کردار گہری دیہی دانش کا مالک ہے۔ میگوئل سروانتے کی یہ طنز بھری تخلیق یورپ کے جدید ادب میں بہت بڑے مقام کی حامل ہے۔ دنیا کی بے شمار زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ انجیل مقدس کے بعد سب سے زیادہ ترجمہ کی گئی یہ ہی کتاب ہے۔ میڈرڈ (اسپین) کے پلازا ڈی اسپانا میں نصب اس ناول کے کرداروں ڈان کوئکزوٹ اور سانچو پانزا کے مجسمے نصب ہیں، جو ان سے اسپینیوں کی محبت کا ثبوت ہیں۔ اس کے پہلے ایڈیشن کاایک محفوظ نسخہ 15 لاکھ ڈالر میں نیلام ہوا۔

Geographia Cosmographia Ptolemaies
قیمت: 20 لاکھ پاؤنڈ
یہ جغرافیہ کی قدیم کتاب ہے، اسے Geography Ptolemy بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ایک ایڈیشن بولوگنیا بھی کہلاتا ہے۔ یہ کتاب دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں اس کے مصنف پٹولمی نے جو ڈیٹا اپنے پہلے کے رومی اور ایرانی ماہرین سے لیا، اس پر بحث کی ہے اور اپنے مشاہدات درج کیے ہیں جب کہ دوسرا حصہ اٹلس پر مبنی ہے۔ پٹولمی کی اٹلس میں جو نقشے کھینچے گئے ہیں، ان میں سے اس وقت چند ایک ہی دست یاب ہیں کیوں کہ اس کے عہد میں چھاپہ خانہ نہیں تھا اور دستی طور پر اس کے پے چیدہ نقشے نقل کرنا دشوار کام تھا لہٰذا اگر نقول بنائی بھی گئی ہوں گی تو ان کی تعداد بہت کم رہی ہوگی اور وہ بھی وقت کے ساتھ ساتھ گم یا ضایع ہوتی رہیں۔

ایرانی مصنف المسعودی نے 956 عیسوی کی اپنی ایک تحریر میں انکشاف لکھا ہے کہ اس نے پٹولمی کا کھینچا ہوا ایک رنگین نقشہ دیکھا تھا، جس میں 4530 شہر اور 200 پہاڑ دکھائے گئے تھے۔ اس کی قدیم ترین نقل 1295 کی ہے تاہم اس میں بھی نقشوں کا کوئی نمونہ موجود نہیں۔ مسلمان سائنس دانوں نے نویں صدی عیسوی میں یہ تصنیف دیکھی، جس سے ان کے ہاں جغرافیہ کا ذوق و شوق پیدا ہوا تاہم انہوں نے اس کتاب سے کچھ زیادہ استفادہ نہیں کیا البتہ بعد میں اپنے طور پر جغرافیہ کے باب میں قابلِ قدر اضافے کیے۔ یہ کتاب چودھویں صدی میں قسطنطنیہ سے اٹلی پہنچی، جہاں اسے 1406 میں جیکوبس اِنجے لس نے اطالوی میں ترجمہ کیا۔ یہیں پہلی مرتبہ اسے بولوگنیا میں شایع کیا گیا۔ اس اشاعت میں نقشے بھی موجود تھے جو کتاب کے پہلے حصے میں درج پٹولمی کی ہدایات کے مطابق بنائے گئے تھے۔

اس کی تمام تصاویر کندہ ہیں۔ اسی اشاعت کو بولوگنیا ایڈیشن کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پٹولمی نے چوتھی صدی عیسوی ہی میں زمین کو مدور قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ زمین کا یہ گولہ ایک مسطح مقام پر دھرا ہوا ہے۔ اس کی بہت سی پیمائشیں اور اندازے یا مشاہدے معیاری نہیں تھے بل کہ غلط بھی ہیں تاہم مستقبل کے ماہرین اور محقیقین کے لیے اس نے ایک بنیاد فراہم کر دی تھی۔ اس کتاب کے بولوگنیا ایڈیشن کا ایک نسخہ 20 لاکھ پاؤنڈ میں فروخت ہوا ہے۔

The Canterbury Tales
قیمت: 50 لاکھ پاؤنڈ
یہ بیس کہانیوں کا مجموعہ ہے, جنہیں جیوفری چاسر نے چودھویں صدی عیسوی کے اواخر میں، جب ’’سو سالہ جنگ‘‘ جاری تھی، تخلیق کیا تھا۔ اس کی زبان وسطی انگریزی Middle English ہے۔ کہانیاں زیادہ تر منظوم اور چند ایک نثری ہیں۔ یہ کہانیاں، قصہ گوئی کے ایک مقابلے میں تخلیق کی گئی تھیں۔ یہ مقابلہ ان زائرین کے ایک گروہ کے درمیان برپا ہوا تھا، جو انگلستان کے ساؤتھ وارک سے اکٹھے کنٹربری کیتھیڈرل میں تھامس بیکٹ کی زیارت گاہ کو جا رہے تھے۔ اس کا انعام واپسی پر ساؤتھ وارک میں ایک ظہرانہ یا عشائیہ تھا۔

کنٹربری ٹیلز کی کہانیوں میں اس عہد کے انگلستان کی معاشرت پر طنز و استہزاء ہے اور اس میں چرچ کو خاص طور پر زد پر لیا گیا ہے۔ انگریزی ادب میں اس مجموعے کا مقام اس لحاظ سے بلند ہے کہ اس میں ورنیکلر انگلش کا ادبی استعمال کیا گیا ہے اور قارئین کو فرانسیسی اور لاطینی ادب کے بجائے انگریزی ادب کی طرف راغب کرنا تھا۔ چانسلر انگلستان کے دربار کا ایک معزز رکن تھا اور سفارتی خدمات انجام دیتا رہا، اسے درباری شاعر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کتاب کی 1477 کی اشاعت کے بارہ نسخے محفوظ رہ سکے ہیں۔ 1998 میں اس کی قیمت 46 لاکھ پاؤنڈ لگی تھی جو اب یقیناً بڑھ کر 50 لاکھ پاؤنڈ تک پہنچ چکی ہو گی۔

The Tales of Beedle the Bard
قیمت: 1950000 پاؤنڈ
یہ جے کے راؤلنگ کی مشہورِ عالم سیریز ہیری پوٹر کا حصہ ہے۔ اس کے قلمی نسخے کے لیے ایمیزون (آن لائن ریٹیلر) نے 19.5 ملین پاؤنڈ اداکیے ہیں، جو موجودہ عہد میں بچوں کے ادب کی کسی کتاب کی انتہائی قیمت ہے۔ اس نسخے کی صرف ایک ہی کاپی نیلام کی گئی ہے، باقی چھے کاپیاں ہیری پوٹر سیریز سے قریب تر تعلق رکھنے والی شخصیات میں تقسیم ہوئیں۔ کاپی بھورے رنگ کے چمڑے میں مجلد ہے اور اس پر چاندی کے فریم میں درِنجف (Moon Stones)جڑے ہوئے ہیں۔

The Codex Leicester
قیمت: 30 ملین ڈالر
یہ کتاب اطالیہ کے سولہویں صدی کے شہرۂ آفاق مصور، سائنس دان، موسیقار، فلسفی، موجد لیونارڈو ڈ ا ونچی کی تصنیف ہے۔ یہ کوڈیکس ہیمر کے نام سے بھی معروف ہے۔ اس میں سائنسی موضوعات پر تحریریں شامل ہیں۔ ڈا ونچی کی اس کتاب کا یہ نام یوں پڑا کہ تھامس کوک نے اسے 1719 میں اس وقت خریدا، جب اسے ارل آف لِسٹر کا خطاب دیا گیا تھا اور یہ ہی نسخہ ڈا ونچی کے کام کی ایک جہت کا معروف ترین نسخہ ہے۔ اسے دنیا کی امیر ترین شخصیت بل گیٹس نے 1994 میں 30 ملین ڈالر میں حاصل کیا تھا۔

The St. Cuthbert Gospel
قیمت:90 لاکھ پاؤنڈ
یہ بھی ایک مذہبی کتاب ہے اور ساتویں صدی عیسوی سے محفوظ ہے۔ کسی گوسپل میں سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش، ان کی رسالت، مصلوب ہونے اور ان کے احیاء کے واقعات درج ہوتے ہیں۔ سینٹ کتھ برٹ کی گوسپل جیبی سائیز کی ہے۔ اس کی چرمی جلد اپنے عہد کے ذوق کی بہترین نمائندگی کرتی ہے۔ یہ چھوٹی سی کتاب آج بھی بہترین حالت میں موجود ہے۔ اس گوسپل کا نام یوں پڑا کہ یہ مشرقی انگلستان کے سینٹ کتھ برٹ کے زیراستعمال رہی ہے۔ سینٹ کا انتقال 687 عیسوی میں ہوا تھا، ان کے انتقال کے چند برس بعد یہ گوسپل ان کے مرقد پر زیارت کے لیے رکھی گئی تھی۔ غالب خیال یہ ہے کہ یہ مقدس کتاب سینٹ کتھ برٹ کو کسی صاحبِ ثروت عقیدت مند نے نذرانے یا سوغات کے طور پر پیش کی تھی۔

کتاب کی زبان لاطینی ہے، جلد انتہائی عمدہ ہے جو ساتویں صدی کی جلد بندی کا شہ کار ہے۔ اس کے صفحات کا سائز 3.4X3.6 انچ ہے۔ اسے اینگلو سیکسن مخطوطوں کے سب سے چھوٹے سائیز کا گوسپل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے اور اس کا رسم الخط بھی پروقار سادگی کا اعلیٰ نمونہ قرار دیا جاتا ہے۔

سٹونی ہرسٹ گوسپل (Stonyhurst Gospel) بھی اسی کا نام ہے۔ جولائی 2011 میں برٹش لائبریری نے اسے خرید کر اپنے ذخیرے کی زینت بنانا چاہا تو معلوم ہوا کہ اس کی قیمت 90 لاکھ پاؤنڈ ہے۔ اتنی رقم جمع کرنے کے لیے برٹش لائبریری نے فنڈ ریزنگ کمپین چلائی اور یوں نو ماہ بعد ادارہ اس کی قیمت چکانے کے قابل ہوا۔

Gosple of Henry the lion
قیمت: 28 ملین ڈالر
ہنری دی لائن، ڈیوک آف سیکسونی Duke of Saxony کا خطابی نام ہے۔ گوسپل آف ہنری دی لائن کے بارے میں معلوم ہوا ہے کہ اس ڈیوک نے یہ گوسپل برنس وک کیتھیڈرل کو نذر کی تھی۔ اس نسخے کو بارہویں صدی کی رومانزیک کتابوں میں سے شہ کار قرار دیا جاتا ہے۔ رومانزیک ہزارویں صدی عیسوی کا اسلوب فن ہے۔ یہ ہی طرز بعد میں گوتھک اسلوب فن میں ڈھلا۔ ڈیوک نے یہ کتاب ورجن میری کی قربان گاہ پر 1188 میں رکھوایا تھا۔ اس کے 266 صفحات ہیں اور اس میں چار گوسپلوں کا متن موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس میں پورے پورے صفحے کی 50 تصاویر ہیں۔ یہ کتاب لندن کے سودر بائی نیلام گھر میں نیلامی کے لیے لائی گئی تھی تو اس کی قیمت 81 لاکھ 40 ہزار پاؤنڈ پڑی لیکن اسی دوران حکومت جرمنی نے اسے قومی ورثے میں شامل کرنے کے لیے خریدا اور اس وقت یہ گوسپل 28 ملین ڈالر مالیت کو چھو رہا ہے۔ جرمنی میں سال میں دو مرتبہ اس کی نمائش کی جاتی ہے۔

Rothschild Prayerbook
قیمت:13.9 ملین ڈالر
اسے روتھس چائلڈ پرئیر بک کے علاوہ روتھس چائلڈ آور بھی کہا جاتا ہے۔ اسے انتہائی اہم کتاب قرار دیا جاتا ہے۔ اس کی آرائش متعدد فن کاروں کی مرہون منت ہے۔ یہ پندرہویں صدی عیسوی سے لے کر بیسویں تک کے تخلیق کاروں کا کام ہے۔ بہت پہلے یہ کتاب آسٹریا کی قومی لائبریری کی زینت تھی بعد میں یہ اپنی فروخت کے بعد قیمت کے لحاظ سے ازحد بیش قیمت کتابوں میں شامل ہو چکی ہے۔ 2014 میں اسے کرسٹیز نیلام گھر نیو یارک سے آسٹریلیا کے ایک دولت مند شخص نے خریدا اور اب یہ اسی کی ملکیت ہے۔

کتاب کے 25 فولیو ہیں اور اس کا سائز 228X160 ملی میٹر ہے۔ اس کے منی ایچرز کی تیار میں روشن رنگ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس کی تصاویر اور اس کے صفحات پر کی گئی، گل کاری انتہائی دیدہ زیب ہے۔ اس کے حاشیے بھی خاصے چوڑے رکھے ہیں۔ کتاب کی ابتدائی تاریخ ابھی تک تاریکی میں ہے، یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ اس کا اصل مالک کون تھا تاہم کتاب کی زیب و زینت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی انتہائی خوش حال شخصیت کی ملکیت رہی ہو گی البتہ یہ معلوم ہے کہ آسٹریا پر 1938 میں جرمنی نے قبضہ کیا تو یہ کتاب روتھس چائلڈ خاندان کے پاس تھی، جس سے اسے ضبط کیا گیا۔ جنگ کے اختتام کے بعد حکومت آسٹریا نے قانون سازی کی جس کے تحت روتھس چائلڈ فیملی کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے نوادرات سرکاری عتیق خانے کو عطیہ کرے، اس طرح یہ کتاب سرکاری تحویل میں چلی گئی لیکن عالمی قوانین کے دباؤ کے تحت حکومت نے 1999 میں یہ عطیات حکومت کو روتھس چائلڈ فیملی کو واپس کرنا پڑے۔ ان عطیات میں سے خاندان نے مذکورہ کتاب نیلامی کے لیے کرسٹیز نیویارک کو بھیجی، جہاں اسے 13.9 ملین ڈالر میں خریدا گیا اور اب یہ کتاب آسٹریلیا میں ہے۔

Copy of The constitution, Bill of Rights ……
قیمت: 10.2 بلین ڈالر
یہ امریکی دستور کی دستاویز کا اصل مسودہ ہے جو 1789 میں جارج واشنگٹن کے عہد میں منظور کیا گیا تھا۔ یہ مسودہ ماؤنٹ ورنن لیڈیز ایسوسی ایشن نے خریدا ہے۔

Magna Carta
قیمت :24.5 ملین ڈالر
یہ کتاب 12 صدی عیسوی میں لکھی گئی تھی اور اب دنیا میں اس کی صرف 17 جلدیں بچی ہیں ان ہی میں سے ایک کتاب کھرپ پتی روس پیرٹ کی ملکیت تھی جو اس نے آگے کارلائل گروپ کے بانی ڈیوڈ روبنسٹین کو 24.5 ملین ڈالر میں فروخت کی۔ یہ Great Charter کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ یہ معاہدہ (چارٹر) 15 جون 1215 کو ونڈ سر کے قریب رنی میڈ میں انگلستان کے بادشاہ جون آف انگلینڈ نے جاری کیا تھا۔ اس کا مسودہ آرک بشپ آف کنٹربری نے تیار کیا تھا۔

جون آف انگلینڈ ایک نامقبول بادشاہ تھا اور اس کے خلاف اس عہد کے نوابوں نے بغاوت کر دی تھی۔ اس چارٹر کا مقصد بادشاہ اور ان نوابوں کے مابین امن قائم کرنا تھا۔ اس چارٹر میں چرچ کے حقوق کا تحفظ ، نوابوں کو غیر قانونی قید و بند سے تحفظ ، انصاف کی فوری ترسیل اور جاگیروں کے خراج کی وصولی میں سہولت دینا تھا۔ اس پر عمل درآمد کے لیے نوابوں (Barons) کی 25 رکنی کونسل بھی بنائی گئی تھی۔ بعد میں یہ چارٹر برطانوی سیاسی زندگی کا لازمہ بن گیا۔ اس میں ہر شاہی خاندان اس کی تجدید کرتا رہا، حتیٰ کہ جدید عہد میں برطانیہ کا پارلیمانی نظام وجود میں آیا اور قانون سازی نے نئی صورت اختیار کی۔

بُک شیلف

$
0
0

پورا ماجرا

مصنف: انور سعید صدیقی
ناشر: میڈیا کونٹیکٹ، 101، پی ای سی ایچ ایس کمیونٹی سینٹر بلاک 2، کراچی
صفحات: 166،قیمت:200

صحافت اور درس و تدریس انور سعید صدیقی کا حوالہ ہیں۔ ان کا صحافتی سفر روزنامہ مشرق سے شروع ہوا اور پھر مختلف اخبارات، ٹیلی ویژن چینل اور ریڈیو سے جڑ کر انہوں نے صحافتی ذمہ داریاں نبھائیں۔ بہ طور کنٹرولر نیوز ریڈیو پاکستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد انور سعید صدیقی نے اخبارات میں کالم نویسی شروع کی اور یہ کتاب انہی کالموں اور چند مطبوعہ مضامین پر مشتمل ہے۔ حالاتِ حاضرہ اور مختلف مسائل کی نشان دہی کرتے یہ کالمز مصنف کی زندگی کے مختلف ادوار کے تجربات اور گہرے مشاہدے کا نچوڑ ہیں۔ اس کتاب کے پیش لفظ میں سنیئر صحافی مقصود یوسفی لکھتے ہیں:

’’انور سعید ایسے عامل صحافی ہیں جنہیں نجی اداروں کے ساتھ سرکاری ادارے کے شعبۂ خبر میں کام کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔ اس تجربہ میں وہ سب شامل ہے، جس کا نجی اداروں میں کام کرنے والوں کو پتا بھی نہیں چلتا۔ اپنے اس تجربے اور مشاہدے کے ساتھ انور سعید اب پھر میدانِ صحافت میں اپنے وجود کا احساس دلانے اترے ہیں۔‘‘

’’ایک مخصوص مدت پر ریٹائرمنٹ کی رسمی کارروائی تک صحافی کے مشاہدات اور تجربات اس قدر پختہ ہو جاتے ہیں کہ ان سے استفادہ نہ کرنا زیادتی کے زمرے میں آجاتا ہے۔ انور سعید عملی صحافت کے ساتھ کالم اور مضامین بھی لکھتے رہے تھے اور اب تو ان کے پاس لکھنے کا وقت بھی ہے اور عملی زندگی کے بھرپور تجربات اور مشاہدات بھی، اس لیے ان کے مضامین اور کالموں میں نہ صرف معلومات ہیں بلکہ بہت سے سوالوں کے تسلی بخش جوابات ملتے ہیں۔‘‘

باطنی بیماریوں کی معلومات
تصنیف و تالیف: ابو ماجد مولانا محمد شاہد عطاری
ناشر: مکتبۃُ المدینہ، باب المدینہ، کراچی
صفحات:352، قیمت: درج نہیں

دینِ اسلام فقط عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ یہ ہر سطح پر انسانوں کی راہ نمائی اور تربیت بھی کرتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب اپنے موضوع اور مواد کے لحاظ سے بنیادی طور پر اخلاقی تعلیمات پر مشتمل ہے اور انہیں قرآن اور احادیث کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ان خامیوں اور ان خرابیوں کی نشان دہی کرتی ہے، جو انفرادی طور پر ہماری شخصیت کو دھندلانے کے ساتھ معاشرے کا حُسن برباد کرنے کا باعث بھی بنتی ہیں۔ ان میں دھوکا دہی، غیبت، تکبر، خود پسندی، خوشامد، ریا کاری، بدگمانی وغیرہ شامل ہیں، جو دین اور دنیاوی اعتبار سے بھی ناپسندیدہ ہیں۔

اس سلسلے میں قرآن و حدیث سے مدد لیتے ہوئے ان کا علاج یا حل بھی بتایا گیا ہے۔ ابو ماجد مولانا محمد شاہد عطاری نے انہیں باطنی بیماری کہا ہے اور یہ بڑی حد تک درست بھی ہے۔ جس طرح ہمارا جسم مختلف عوارض کا شکار ہوتا ہے، اسی طرح ہم بری عادات اور افعال کی وجہ سے روحانی طور پر کم زور ہو جاتے ہیں۔ اسلام ہمیں ان سے دور رہنے کی ہدایت کرتا ہے۔

یہ کتاب دراصل تبلیغِ قرآن و سنت کی غیرسیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے شعبۂ نشرواشاعت کے تحت شایع کی گئی ہے۔ یہ تنظیم ہر مسلمان کی اصلاح اور دینی تربیت کے لیے سرگرم ہے اور ان کا مقصد معاشرے کی شرعی راہ نمائی کرنا ہے۔ اس کتاب کی طباعت اور اشاعت کے مختلف مراحل میں تنظیم کی مجلسِ المدینۃُ العلمیہ نے بہت محنت کی ہے۔ موضوع سے متعلق اسناد، مواد کا ماخذ اور دیگر حوالہ جات شامل کیے ہیں۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے، جسے ہر گھر اور لائبریری میں رکھا جانا چاہیے۔

عزم و ہمت کا پیکر، حاجی عیسیٰ کچھی
مصنف:کھتری عصمت علی پٹیل
شایع کردہ: کتیانہ میمن ایسوسی ایشن، کراچی
صفحات:160،قیمت: بلا قیمت دست یاب ہے

یہ کتاب حاجی عیسیٰ کچھی کی زندگی کے مختلف ادوار اور ان کی سماجی خدمات کے تذکرے پر مشتمل ہے۔ کتیانہ میمن برادری سے تعلق رکھنے والے 84 سالہ حاجی عیسیٰ کچھی کاروباری دنیا کی معروف شخصیت ہیں۔ تجارتی و معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلاحی کاموں میں بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا اور میمن برادری میں انہیں سماجی سرگرمیوں اور خدمات کی بدولت نمایاں مقام حاصل ہے۔ یہ کتاب کھتری عصمت علی پٹیل کی تصنیف ہے، جس میں انہوں نے حاجی عیسیٰ کچھی کے حالاتِ زندگی اور ان کی سماجی خدمات کا احاطہ کیا ہے۔

عصمت علی پٹیل کے مطابق اس کتاب کے لیے حاجی عیسیٰ کچھی سے ملاقات کر کے ان کی زندگی کے اہم اور یادگار واقعات جاننے کے علاوہ اپنی برادری کے لیے ان کے فلاحی کاموں اور دیگر سرگرمیوں سے متعلق مختلف ذرایع سے مکمل معلومات اکٹھی کیں اور انہیں اختصار کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ انہیں حاجی عیسیٰ کچھی کے ساتھ کام کرنے کے دوران انہیں جاننے کا موقع بھی ملا اور وہ ان کی شخصیت اور کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ عصمت علی پٹیل کا میدان تصنیف اور تالیف ہے اور ان کا مخصوص انداز اس تذکرے کے قاری کی دل چسپی اور توجہ حاصل کرنے کا باعث بنے گا۔

ابتدائی صفحات میں مختلف کاروباری اور سماجی راہ نماؤں کی حاجی عیسیٰ کچھی سے متعلق آرا اور ان کی مختلف ادوار کی تصاویر شامل کی گئی ہیں۔ آگے چلیے تو چند صفحات میمن قوم کا مختصر تعارف پڑھنے کو ملے گا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے شہر کتیانہ کا تذکرہ، ہجرت کے بعد پاکستان کے شہر کراچی میں سکونت اختیار کرنے والی کتیانہ برادری کی مختلف شخصیات اور ان کی اپنی برادری کی فلاح و بہبود سے متعلق کوششوں اور سرگرمیوں کو مصنف نے مختصراً بیان کیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کتاب میمن برادری کی تاریخ اور اس سے متعلق بنیادی معلومات فراہم کرنے کا ذریعہ بھی بنے گی۔ آخر میں حاجی عیسیٰ کچھی کی مختلف موضوعات پر چند تحریریں بھی شامل ہیں۔

نگار (جولائی تا اکتوبر2014)
مدیرِ اعلیٰ: علی ابرار بن فرمان فتح پوری

نگار کا یہ شمارہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی پہلی برسی پر اُن کی شخصیت اور ادبی کارناموں پر خصوصی تحریروں سے مزین ہے۔ تنقید اور تحقیق کے ساتھ انہوں نے درس و تدریس کے شعبے میں نمایاں خدمات انجام دیں۔ اُن کا اصل نام سید دلدار علی تھا۔ قلم اور قرطاس کی طرف آئے تو فرمان فتح پوری کے نام سے اپنی پہچان بنائی۔ وسیع مطالعے اور موضوعات کا تنوع نے تحقیقی اور تنقیدی میدان میں انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد اور ممتاز بنایا۔ اردو ادب کی اس معتبر شخصیت نے نثر کے ساتھ نظم کی صنف میں بھی اپنی فکر اور جذبات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا شعری سرمایہ بہت کم ہے، لیکن یہ اردو کی مختلف اصناف میں ان کی دل چسپی اور دسترس کا اظہار ہے۔

مرحوم نے پچاس سے زیادہ کتابیں تصنیف کیں، جن میں تحقیق و تنقید، اردو رباعی کا فنی و تاریخی ارتقا، اردو شعرا کے تذکرے اور تذکرہ نگاری، فنِ تاریخ گوئی اور اس کی روایت، ہندی اردو تنازع، غالب: شاعرِ امروز و فردا، زبان اور اردو زبان اور اردو املا، قواعد، رسم الخط پر نہایت پُرمغز اور مستند کتب شامل ہیں۔ وہ کئی سال تک اردو ڈکشنری بورڈ سے بھی وابستہ رہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے ابتدائی تعلیم فتح پور، الہ آباد اور آگرہ سے حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو ادب میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کے بعد اسی درس گاہ میں استاد کی حیثیت سے اپنا سفر شروع کیا۔ اس شمارے میں مضامین کے علاوہ مختلف علمی و ادبی شخصیات کی ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی شخصیت اور ان کے علم و فن پر آرا شامل ہیں۔

انتقال کے ایک سال بعد نگار کے اس خصوصی شمارے نے جہاں رفتگاں کے ذکر کی ایک روایت برقرار رکھی ہے، وہیں ایک نابغۂ روزگار کی ادبی فکر، نظریات، خدمات اور تخلیقات پر مضامین اور مستند آرا جہانِ ادب کے مختلف شعبوں میں قلم کاروں کی فکری تربیت اور راہ نمائی کا ذریعہ ثابت ہوں گی۔

پاکستان میں جوٹ کی کاشت؛ روشن حقائق اور سنہرے امکانات

$
0
0

پاکستان کو درپیش معاشی بحران کے خاتمے کے لیے حکومتی سرپرستی میں کئی صنعتیں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں، جن میں سے ایک جوٹ کی صنعت بھی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جوٹ کی فصل کی مقامی کاشت کروڑوں ڈالر اضافی آمدنی کا باعث بنے گی، جب کہ ملک میں ماحول، روزگار، توانائی، صحت اور زرعی اجناس کے تحفظ کے چیلینجز سے نبردآزما ہونے میں بھی مدد ملے گی۔

یہ صنعت 1966 میں حکومتی ایماء پر قائم کی گئی تھی، تاکہ ملک میں زرعی اجناس کے ذخیرے کی ضروریات کو پورا کیاجاسکے۔ جوٹ کی فصل مشرقی پاکستان میں ہوتی تھی، جہاں اس کی مصنوعات کی متعدد فیکٹریاں قائم تھیں۔ پاکستان کے دولخت ہونے کے بعد پاکستان میں قائم 12جوٹ ملو ں کو خام مال کے حصول میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اور ہر سال پیدا ہونے والی بڑی فصلوں کو محفوظ کرنے کے لیے جوٹ کی صنعت اسٹریٹیجک اہمیت اختیار کرگئی۔ چناں چہ پاکستان میں جوٹ کی کاشت کا منصوبہ بنایا گیا۔ پاکستانی سرمایہ کاروں کے سرمائے سے مشرقی پاکستان میں لگائی گئی بہت سی فیکٹریاں اور کارخانے سقوط ڈھاکا کے وقت ضبط کرلیے گئے تھے۔

اس لحاظ سے پاکستان میں جوٹ کی صنعت کی نئے سرے سے بنیاد رکھی گئی اور بنگلادیش اور بھارت سے ہی خام جوٹ درآمد کرکے پاکستان میں جوٹ کے تھیلے تیار کیے جاتے رہے۔ تاہم پاکستان میں جوٹ کی کاشت کے امکانات کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان میں جوٹ کی کاشت کا آغاز کیا گیا۔ 80کی دہائی میں 1323ہیکٹر رقبے پر جوٹ کاشت کی جاتی رہی۔ تاہم وقت کے ساتھ یہ رقبہ کم ہوتے ہوتے 200ایکڑ تک محدود ہوگیا۔ اس وقت پنجاب کے کچھ علاقوں بالخصوص مظفر گڑھ میں دریائے چناب کے کنارے کاشت کے علاقوں میں جوٹ انتہائی محدود پیمانے پر کاشت کی جارہی ہے۔ پاکستان میں کاشت کی جانے والی جوٹ کا معیار نہ صرف بنگلادیش اور بھارت کا ہم پلہ ہے بل کہ یورپی ملکوں کو ایکسپورٹ کے قابل ہے۔

دنیا میں جوٹ پیدا کرنے والے بڑے ملکوں میں بھارت، بنگلادیش، چین، میانمار، نیپال، تائیوان، تھائی لینڈ، ویتنام، کمبوڈیا اور برازیل شامل ہیں۔ پاکستان میں بھی جوٹ کام یابی سے کاشت کی گئی، لیکن کاشت کاروں میں جوٹ کی پیداوار سے متعلق آگہی میں کمی، کاشت بالخصوص جوٹ کو پانی میں طویل عرصہ بھگوکر چھال کو تنے سے الگ کرنے کے صبر آزما مراحل کی وجہ سے یہ رجحان فروغ نہ پاسکا، لیکن یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ دیگر فصلوں گندم، چاول، کپاس، گنے کے مقابلے میں جوٹ کی کاشت لاگت میں آسان ہے اور جوٹ کی فصل کو دیکھ بھال کی بھی اتنی زیادہ ضرورت نہیں جوٹ کو دیگر فصلوں کی کاشت کے بعد زمین کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لیے بطور ’’کتر‘‘ بھی کاشت کیا جاسکتا ہے۔

٭جوٹ کس طرح کاشت کی جاتی ہے؟
جوٹ قدرتی فائبر کی نسل کے پودوں میں شامل ہے، جن میں کپاس اور السی کا پودا (فلیکس) بھی شامل ہیں۔ جوٹ کو گولڈن فائبر بھی کہا جاتا ہے، جو سوکھنے کے بعد سنہرا، گندمی اور بھورا رنگ اختیار کرتی ہے۔ جوٹ کے ریشے کی چمک اور رنگت کے لحاظ ہی سے جوٹ کی قیمت کا تعین ہوتا ہے فی الوقت جوٹ کی قیمت درجہ بندی کے لحاظ سے 45ہزار روپے سے 85 ہزار روپے تک بتائی جاتی ہے۔ نیچرل فائبر ہونے کی وجہ سے ماحول دوست اور غذائی اشیا بالخصوص بیج دار فصلوں کو طویل عرصے تک موسمی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جوٹ کا استعمال صدیوں سے رائج رہا ہے۔

جوٹ کے پودے سرکنڈوں اور گنے کی طرح چھے سے آٹھ فٹ اونچے ہوتے ہیں عموماً سال میں ایک فصل کاشت ہوتی ہے، جو 12ہفتوں میں تیار ہوتی ہے۔ جوٹ کی فصل دیگر چھوٹی فصلوں کے ساتھ بھی کاشت کی جاسکتی ہے۔ جوٹ کی فصل کو کاٹنے کے بعد گٹھوں کی شکل میں باندھ کر پانی میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ عمل 12سے 15روز تک جاری رہتا ہے۔ اس دوران جوٹ قدرتی بیکٹریائی عمل سے گزرتی ہے، جسے انگریزی میں ریٹنگ کہتے ہیں۔ ریٹنگ کا عمل جتنا بہتر ہوگا جوٹ کا معیار بھی اتنا ہی اچھا ہوگا ریٹنگ کے عمل کے بعد جوٹ کی چھال تنے سے الگ کی جاتی ہے اور چھال کو سکھایا جاتا ہے۔ جوٹ کی کاشت کے دوران فصل کو کسی قسم کی کیمیاوی کھاد کی ضرورت نہیں ہوتی اور نہ ہی زرعی ادویات کے بڑے پیمانے پر استعمال کی ضرورت پیش آتی ہے۔

اس لیے اس فصل کی پیداواری لاگت دیگر فصلوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ ریٹنگ کے عمل کے بعد حاصل ہونے والی خام جوٹ ملوں کو بھیج دی جاتی ہے، جس سے جوٹ کا ریشہ، دھاگا اور آخر میں بنائی کرکے جوٹ کا کپڑا اور اس سے تھیلے و دیگر اشیا تیار کی جاتی ہیں۔ مظفر گڑھ میں جوٹ کاشت کرنے والے کاشت کاروں نے بتایا کہ بنگلادیش کے مقابلے میں پاکستان میں زرعی شعبے میں یومیہ مزدوری اور اجرت کہیں زیادہ ہے۔ اس لیے جوٹ کی پیداوار کو ریٹنگ کے عمل سے گزارنے کے بعد چھال الگ کرنے اور سُکھانے کے عمل پر اُٹھنے والی مزدوری کی لاگت مجموعی فصل کی لاگت کا 70فی صد ہے۔ اس لیے کاشت کاروں میں جوٹ کی پیداوار کا رجحان زور نہیں پکڑ سکا، جب کہ جوٹ کی کاشت کی ترغیب دینے والی آل پاکستان جوٹ ملز ایسوسی ایشن کا موقف ہے کہ ایک ایکڑ پر ایک ٹن جوٹ کی فصل حاصل کی جاسکتی ہے، جس کی قیمت 45 ہزار سے85 ہزار روپے تک ہے۔

بڑے پیمانے پر جوٹ کاشت ہونے سے ملک میں ایک جانب مقامی طلب پوری کرنے کے لیے جوٹ مہیا ہوگی، جس سے خام جوٹ کی درآمد پر خر چ ہونے والے زرمبادلہ کی بچت ہوگی وہیں جوٹ ایکسپورٹ کرکے زرمبادلہ کمایا جاسکے گا۔ جوٹ کی صنعت میں لیبر کی بڑے پیمانے پر کھپت ہے۔ عموماً ایک جوٹ مل میں ڈھائی سے تین ہزار افراد کام کرتے ہیں۔ جوٹ کے بیگز کی تیاری کا کام مسلسل جاری رہتا ہے۔ اس لیے لیبر بھی تین شفٹوں میں کام کرتی ہے۔ پاکستان میں جوٹ کی کاشت کے موزوں علاقے دریاؤں کے کنارے ہیں، جب کہ مارچ سے مئی کا وقت کاشت اور مئی سے جون کا موسم بیج حاصل کرنے کے لیے موزوں ہیں۔

دنیا بھر میں غذائی اجناس کو جوٹ کے ماحول دوست بیگز میں محفوظ کرنے کا رجحان فروغ پارہا ہے ۔ یورپ امریکا، بھارت سمیت بہت سے ملکوں میں غذائی اجناس کو محفوظ رکھنے کے لیے جوٹ کے بیگز کا استعمال لازمی قرار دیا جاچکا ہے۔ اقوام متحدہ نے بھی جوٹ کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے عالمی سطح پر اس کے استعمال کے رجحان کو فروغ دینے کے لیے 2009کو نیچرل فائبر کا سال قرار دیا اور اس سال دنیا میں جوٹ سمیت دیگر نیچرل فائبرز کے استعمال کو عام کرنے کے لیے شعور کو اجاگر کرنے کے لیے مختلف سرگرمیاں انجام دی گئیں۔ ساتھ ہی حکومتوں کو نیچرل فائبر انڈسٹریز کی مشکلات کے حل کے لیے پالیسیاں وضع کرنے کی ترغیب دی گئی۔

عالمی رجحان کے برعکس پاکستان میں جوٹ انڈسٹری زوال کا شکار ہے، جس کی بنیادی وجہ گذشتہ تین دہائیوں سے جوٹ کی جگہ پولی پراپلین کے تھیلوں کا استعمال ہے۔ جوٹ انڈسٹری کے مطابق حکومتی سطح پر اس رجحان کی سرپرستی کی جارہی ہے۔ سندھ اور پنجاب کے فوڈ ڈپارٹمنٹ ہر سال جوٹ کی جگہ پولی پراپلین کے تھیلوں کا استعمال بڑھارہے ہیں۔ پنجاب فوڈ ڈپارٹمینٹ کے جوٹ کے تھیلوں کی سالانہ خریداری 60 فی صد جب کہ سندھ کی 40 فی صد تک پولی پراپلین پر منتقل ہوچکی ہے۔ پولی پراپلین کے تھیلے غذائی اجناس کو محفوظ کرنے کے لیے طبی لحاظ سے غیرموزوں ہیں اور ماحولیات کے لیے بھی خطرہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ملکوں سمیت خطے کے بیشتر ممالک نے بھی غذائی اجناس کو محفوظ کرنے کے لیے پولی پراپلین کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی عاید کررکھی ہے۔ مغربی ملکوں میں جوٹ کا استعمال بڑھ رہا ہے، لیکن پاکستان میں اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔

پولی پراپلین کے مقابلے میں جوٹ کے تھیلوں کی عمر کہیں زیادہ ہے اور یہ تھیلے ماحول دوست بھی ہیں۔ جوٹ کے تھیلے متعدد مرتبہ استعمال ہونے کے بعد گل سڑ کر زمین کا حصہ بن جاتے ہیں اور قدرتی طور پر زمین کے لیے کھاد کا کام کرتے ہیں اور زمین سے مضر اجزا کو ختم کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔ جوٹ کے تھیلوں میں رکھی گئی غذائی اجناس طویل عرصے تک محفوظ رہتی ہیں۔ بالخصوص جوٹ کے تھیلوں میں موجود اجناس اور بیجوں کا آکسیڈیشن کا عمل جاری رہتا ہے، جس سے ان بیجوں کی غذائیت اور بارآواری میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس پولی پراپلین کے تھیلوں میں رکھے گئے اجناس اور بیجوں کا معیار آکسیڈیشن نہ ہونے اور پولی پراپلین کے ساتھ کیمیائی عمل کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے، بل کہ عالمی سطح پر کی جانے والی تحقیقات میں اس کے انسانی صحت پر بھی مضر اثرات ثابت ہوئے ہیں۔

عالمی سطح پر پولی پراپلین بیگ کا استعمال ٹرانسپورٹیشن کے مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے، جب کہ گندم یا دیگر غذائی اجناس کے لیے مضر رساں ہونے کی وجہ سے استعمال نہیں کیا جاتا، کیوںکہ محدود وقت کے بعد اس کے نقصانات سامنے آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ایک اسکالر کی حالیہ تحقیق کے مطابق جوٹ بیگز پولی پراپلین تھیلوں کے مقابلے میں غذائی ذخیرے کے لیے زیادہ سود مند ہیں۔ اس سے غذائی اجناس کا معیار برقرار رہتا ہے۔ گندم کے تھیلوں میں اگر ہوا کا گزر نہ ہو تو گندم کا معیار برقرار نہیں رہ سکتا، جب کہ جوٹ بیگ کے برعکس پولی پراپلین پلاسٹک کے تھیلوں میں ہوا کا بالکل گزر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے جوٹ بیگ غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے قدرتی ذریعہ ہے۔ گندم پنجاب، اپر سندھ اور سندھ اور بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں ذخیرہ کی جاتی ہے، جہاں درجۂ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ اور ہوا میں نمی کا تناسب 75 فی صد تک پہنچ جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق گندم کے اجزاء ذخیرے کے دوران حرارت خارج کرتے ہیں اور ان میں تنفس کا عمل پایا جاتا ہے۔ یہ اجزاء کاربن ڈائی آکسائڈ اور نمی خارج کرتے ہیں۔ اگر نمی کے اثرات فوری خارج نہ کیے جائیں تو گندم خراب ہوجاتی ہے اور اس میں پھپھوند لگ جاتی ہے۔ پولی پراپلین پلاسٹک کے بیگ میں ہوا کا گزر ممکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے ان تھیلوں میں گندم کے ذخیروں سے فصل کو نقصان اور خرابی کی سطح کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ دنیا بھر میں گندم اور دیگر غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے جوٹ کے تھیلوں کو موزوں قرار دیا گیا ہے۔ جوٹ کے تھیلوں میں یہ خصوصیات ہوتی ہیں کہ وہ اجناس اور دیگر غذائی اشیاء کے ذخیرے کو زیادہ عرصے تک اور ہر ماحول میں محفوظ اور معیار کو برقرار رکھتے ہیں۔

اس حقیقت کو پڑوسی ملکوں میں بھی تسلیم کیا گیا ہے اور وہاں جوٹ کے تھیلوں کو قانون سازی کے ذریعے لازمی پیکیجنگ میٹیریل قرار دیا گیا ہے جب کہ غذائی اجناس کے لیے جوٹ کا استعمال لازمی شرط قرار دیا گیا ہے۔ حکومت نہ صرف یونائٹڈ نیشن انوائرمنٹ پروگرام کو نظر انداز کررہی ہے، جو اجناس کے ذخیرے کے لیے پلاسٹک بیگ پر پابندی کا مطالبہ کرتا ہے بل کہ عوام کی صحت کے لیے بھی خطرات کا باعث بنتے ہیں۔ دنیا بھر کے ممالک نے غیرغذائی اشیاء کے لیے بھی ان کا استعمال محدود کردیا ہے۔ اس لیے ان کی تیاری ان میں غذائی اجناس کے ذخیرے کا کوئی جواز ممکن نہیں ہے۔

٭جوٹ کی پیداوار:
عالمی سطح پر جوٹ کی پیداوار کا اندازہ 30لاکھ ٹن سالانہ لگایا گیا ہے، جس میں بھارت کا حصہ 45 فی صد ہے۔ بھارت نہ صرف جوٹ پیدا کرنے والے ملکوں میں نمایاں ہے بل کہ کھپت کے لحاظ سے بھی بھارت دنیا میں جوٹ کا استعمال کنندہ بڑا ملک ہے۔ دنیا میں بنگلادیش جوٹ برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے، جب کہ پاکستان جوٹ درآمد کرنے والے ملکوں میں سرفہرست رہا ہے۔ تاہم اب چین اور بھارت دنیا میں خام جوٹ درآمد کرنے والے بڑے ملک بن چکے ہیں۔ سال 2012-13 میں بھارت میں جوٹ کی پیداوار 1.67ملین ٹن، بنگلادیش میں 1.36ملین ٹن رہی ۔ پاکستان میں 60اور 70کی دہائی تک 12جوٹ ملیں کام کررہی تھیں، جن میں سے بیشتر بند ہوچکی ہیں۔

اس وقت نجی شعبے میں پانچ جوٹ ملز کام کررہی ہیں، جن کی مجموعی گنجائش 125,000 ٹن سالانہ ہے، جب کہ موجودہ پیداوار 0,000 10 ٹن سالانہ ہے۔ اس صنعت سے براہ راست 25 ہزار افراد کا روزگار وابستہ ہے، جب کہ بالواسطہ طور پر ایک لاکھ لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔ یہ انڈسٹری 10 کروڑ ڈالر کی درآمدی بدل (امپورٹ سبسٹی ٹیوشن) فراہم کرتی ہے، جب کہ ٹیکسز، ڈیوٹیوں اور دیگر مدات میں 80کروڑ روپے سالانہ قومی خزانے میں جمع کراتی ہے۔ دنیا بھر میں جوٹ کو قدرتی فائبر ہونے کی وجہ سے زرعی اجناس کو محفوظ کرنے کے لیے اس کے استعمال کو فروغ دیا جارہا ہے۔ پاکستان میں غذائی اجناس کے ذخیرے کے لیے 180 ملین تھیلوں کی ہر سال ضرورت ہوتی ہے۔

ان میں سے 60 ملین مقامی طور پر تیار کیے جاتے ہیں، جب کہ باقی طلب پرانے جوٹ بیگ سے پوری کی جاتی ہے جو کئی مرتبہ استعمال کے بعد بھی قابل استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ جوٹ صنعت سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ اس صنعت کا شمار پاکستان کی ان صنعتوں میں ہوتا ہے جو عوام کو سب سے زیادہ روزگار کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔

٭جوٹ صحت کا ضامن:
پلاسٹک یا پولی پراپلین بیگ سخت موسم میں اکڑ کر ٹوٹ جاتے ہیں اور ان کے ذرات غذائی اجناس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح گندم کے دانوں میں شامل ہوکر معدے میں جانے کا باعث بنتے ہیں اور اس صورت میں ہیپاٹائٹس، دستوں کی بیماری، اور پیٹ کی بیماریوں سمیت بہت سے دیگر امراض کا باعث بنتے ہیں۔ ہم انہیں جلاکر ضائع کرنے کا خطرہ بھی مول نہیں لے سکتے، کیوں کہ یہ یقینی طور پر فضا کو آلودہ کر دیتے ہیں اور سینے اور سانس سے متعلق امراض کی وجہ بن جاتے ہیں۔

٭جوٹ سے توانائی کی بچت:
پلاسٹک بیگز کی تیاری اب زیادہ بچت کا باعث نہیں ہوتی، کیوں کہ ایک ٹن پلاسٹک بیگز کی تیاری پر تقریباً4,000ڈالر لاگت آتی ہے۔ اس کی پیداوار سے پلاسٹک بیگ وینڈرز کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ یہ ہمارے قدیم ایندھن کی فراہمی کو بھی متاثر کر رہے ہیں۔ چین نے پلاسٹک بیگز کے استعمال پر پابندی لگانے سے قبل ایندھن کے 37ملین سے زیادہ ڈرم ضائع کیے، جب کہ بہت سے ممالک ان بیگز پر پابندی لگانے کے اقدام کی کوشش کر رہے ہیں اور ان میں سے کچھ اس میں کام یابی بھی حاصل کر چکے ہیں۔

پلاسٹک بیگز کی تیار ی کا عمل بھی نقصان دہ ہے۔ کارکنوں کو resin نامی مواد بہت سی شافٹس اور ٹنلز میں رکھنا ہوتا ہے، جنہیں 1,000ڈگری سے بھی زاید حرارت پہنچائی جاتی ہے۔ کام کرنے کی جگہ پر انتہائی گرمی ہوتی ہے، لہٰذا جن مشینوں اور پلی پر کارکنوں کو کام کرنا ہوتا ہے، وہ ہیٹ پروف ہوتی ہیں اور کارکن خود اس سخت گرمی سے بچتے ہوئے اس پورے سسٹم کو آپریٹ کرتے ہیں۔ اس عمل میں تیل کے ہزاروں ڈرم استعمال ہوتے ہیں جو ہمارے ایندھن کے قیمتی ذخیروں کو ضائع کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ پھر پلاسٹک بیگز کو پیداواری لاگت سے کہیں کم پر فروخت کردیا جاتا ہے۔

٭جوٹ سے ماحولیات کا تحفظ:
پلاسٹک بیگز کا استعمال نہ صرف سمندری حیات کے لیے خطرناک ہے، بل کہ ماحول اور انسانی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ استعمال شدہ بیگز کو کسی بھی جگہ ٹھکانے لگانا یا جلانا بھی بہت مشکل ہے؛ اگر ہم استعمال شدہ بیگز کسی کوڑے کے ڈھیر پر ڈال دیں گے تو یہ فضا کو آلودہ کردیں گے اور پانی کے ذخیروں کو بھی گندا کریں گے۔ نکاسی آب کی نالیاں بھی پولی تھین بیگز پھنس جانے کی وجہ سے بند ہوجاتی ہیں۔ پلاسٹک بیگز دو بڑے طریقوں سے زمین کو آلودہ کرتے ہیں۔

بہت سے پلاسٹک بیگز مٹی کے گڑھوں میں پھینک دیئے جاتے ہیں، جو وہیں پر رہ جاتے ہیں اور کم از کم 1,000سال تک مٹی کو آلودہ کرتے اور خطرناک گیس پیدا کرتے ہیں۔ اس عمل کو فوٹو ڈی گریڈنگ کہتے ہیں۔ فوٹو ڈی گریڈ کے دوران، خارج ہونے والی خطرناک گیس زمین میں بگاڑ پیدا کرتی ہے اور ہمارے تازہ پانی کے قیمتی ذخیروں کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ اس دوران وہ فضا میں میتھین خارج کرتے ہوئے ہماری اوزون لیئر کو نقصان پہنچاتی ہے۔ میتھین دہ دوسرا بڑا محلول ہے جو گلوبل وارمنگ کی وجہ بنتا ہے۔ صرف کاربن ڈائی آکسائیڈ استعمال شدہ پلاسٹک بیگز سے خارج ہونے والی میتھین کو آلودہ کرتی ہے۔

٭ملکی برآمدات میں اضافہ:
جوٹ کی ویلیو ایڈڈ برآمدات میں کئی گنا اضافہ ممکن ہے۔ جوٹ کی برآمدات میں اضافے کے لیے جوٹ انڈسٹری کو حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے تاکہ موجودہ 14 ملین ڈالر کو بڑھایا جاسکے۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے زرعی اجناس کے ذخیرے کے لیے نقصان دہ پیکیجنگ میٹیریل پولی پراپلین کی بجائے جوٹ کے استعمال کی منصوبہ بندی سے جوٹ کی پیداوار اور مصنوعات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے، جب کہ زرعی اجناس کو نقصان سے بچایا جاسکتا ہے ۔

 

حکومتی اقدام سے ملک خام مال کے لیے خود انحصاری حاصل کرنے کے ساتھ برآمدات کے نئے مواقع بھی حاصل کرسکتا ہے۔ جوٹ کی باقاعدہ مقامی پیداوار نہ صرف عالمی تجارت کے مسائل کو ختم کرنے میں مدد دے گی بل کہ اس فصل کے خام مال کی درآمد پر خرچ ہونے والا قیمتی زرمبادلہ بھی بچایا جاسکے گا فی الوقت خام مال پڑوسی ملک سے درآمد کیا جاتا ہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کئی ممالک بشمول بھارت اور بنگلادیش نے زرعی اجناس اور گندم کے ذخیرے کے لیے صرف جوٹ کو پیکیجنگ میٹیریل کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ اسی طرح بنگلادیش میں غذائی خوراک کی خود انحصاری کے لیے بھی جوٹ کے استعمال کو لازمی قرار دے کر ہدف حاصل کیا گیا۔ بھارت اور بنگلادیش دنیا میں سب سے زیادہ جوٹ پیدا کرتے ہیں۔ تاہم پاکستان کی زمین جوٹ کے لیے قابل کاشت ہونے کے باوجود اس کی کاشت کی سرپرستی نہیں کی جاتی۔

کام یابی کے ساتھ جوٹ کی ملک میں بڑے پیمانے پر پیداوار سے ثابت ہوگیا ہے کہ یہ نظریہ غلط تھا کہ جوٹ کی کاشت صرف چند ملکوں ہی میں کی جاسکتی ہے۔ اگر حکومت جوٹ انڈسٹری کو تیکنیکی انفرااسٹرکچر کی معاونت فراہم کرے اور جوٹ کی پیداوار کے لیے طویل المدت پالیسی اور راہ نمائی فراہم کرے تو جوٹ کی ویلیو ایڈڈ مصنوعات سے پاکستان درآمدی بل میں کمی کے ساتھ ساتھ قابل قدر زرمبادلہ بھی حاصل کرسکتا ہے۔


یوں سنور کے جانا ہے لوگ دنگ رہ جائیں

$
0
0

 نئے دیدہ زیب ملبوسات میں حسن اور تازگی نے نت نئے فیشن اپنانے والوں کو انتخاب کے لیے وسیع رینج مہیا کی۔

لانگ ڈریسز سے جمپ سوٹس تک، ہر عمر کی خواتین کی دل چسپی کا سامان موجود ہے۔ مختلف رنگوں کی قوس قزح سے سجے ملبوسات نے نمائش میں شریک لوگوں کے لیے انتخاب کی وسیع راہ دی ہے۔ جب ذکر ہو شادی کا یا کسی خاص موقع کا، تو پھر کپڑوں کے انتخاب کے لیے اور ابھی زیادہ اہتمام کرنا پڑتا ہے۔

ہر دور نت نئے برانڈز ابھرتے اور دنیا کی فیشن انڈسٹری پر اپنی چھاپ چھوڑتے ہیں۔ زیرنظر ملبوسات میں قدیم و جدیدیت اور گلیمر کا حسین امتزاج پایا جاتا ہے۔ سرد موسم کے حساب سے ہماری ماڈل نے کچھ اسی طرح کے ملبوسات زیب تن کیے ہیں، جو نئے رواج کی خبر دیتے ہیں۔ لباس کی مناسبت سے زیورات کا انتخاب اور بالوں کا سنگھار اس رواج کو اور بھی نمایاں کر رہا ہے۔

شیخ دین محمد؛ انگریزی زبان کا پہلا ہندوستانی مصنف

$
0
0

وہ انگریزی زبان میں کتاب لکھنے اور چھاپنے والا پہلا ہندوستانی تھا۔ اس نے وسطی لندن کے پوش علاقے پورٹ مین اسکوائر میں برطانیہ کی پہلی دیسی رستوران کھولی۔

اس نے ہندوستانی کے عام لفظ ’’چمپی‘‘کو انگریزی میں شیمپو کا نام دیا جو آج ’’چائے‘‘،’’ قہوہ‘‘ اور ’’فٹ بال‘‘ کے ساتھ عالمی سطح پر زبان زدِ عام ہیں۔ 25 سال کی عمر میں وہ آئرستان کی بندرگاہ ’’کارک ‘‘ میں وارد ہوا اور اپنی زندگی کے بقیہ 76 سال برطانوی جزائر میں بسر کئے اور کبھی واپس ہندوستان نہ لوٹا ۔ برطانیہ کو برِصغیر کے مسلمانوں کی ثقافت سے روشناس کروانے والا یہ دین محمد (1759-1851) کون تھا؟

میں نے اس دین محمد کا نام سب سے پہلے 2005میں کراچی سے شائع ہونے والی انگریزی زبان کے پاکستانی لکھاریوں کے ایک انتخاب میں دیکھا جسے منزہ شمسی  نے تالیف کیا ۔ کتاب کے دیباچہ میں منزہ شمسی لکھتی ہیں کہ اس انتخاب میں فکشن اور انشائیوں کے ذریعہ پاکستانیوںکے ہجرت کے تجربے کاجائزہ پیش کیا ہے۔ وہ کہتی  ہیں کہ ’’میں نے یہ جانا کہ برصغیر کی پہلی انگریزی کتاب ہجرت کے بیان سے شروع ہوتی ہے۔  پس میں نے علامتی طور پر اس کا ایک اقتباس کتاب کے پیش لفظ کے طور پر شامل کیا ہے۔‘‘ اس اقتباس کو پڑھ کر میں نے دین محمد کے بارے میں مزید کھوج لگائی۔

بی بی سی کے مطابق دنیا کو دین محمد کے بارے میں یاد دلانے والا اولین شخص انگریزی زبان کا ہمارا مایہ ناز شاعر عالمگیر ہاشمی ہے۔ کچھ سال قبل ہاشمی صاحب نے مجھے بتایا تھا کہ 1970کی دہائی میں بر ٹش لائبریری، لندن کی کتب کی فہرست کے معائنہ میں انہوں نے دین محمدکی کتاب کو دریافت کیا ، جس کا مکمل عنوان یوں تھا ۔

The Tavels of Deen Mohamed:

A Native of Patna in Bengal Through several Parts of India while in the Service of the Honourable East India Company,written by Himself in a series of Letters to a Friend.

ہاشمی صاحب نے لائبریری سے یہ کتاب نکلوا کر اس کا مطالعہ کیا اور اس پر مقالات لکھے۔ 1970 کی دہائی میں دین محمد کی اس کتاب کو امریکا سے دوبارہ شائع کیا گیا جس کا مکمل متن انٹر نیٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔

اس کتاب میں دین محمد اپنا تعارف کراتے ہوئے لکھتا ہے کہ وہ پٹنہ کے شہر کے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا ، جس کا مرشدآباد کے نوابوں سے رشتہ تھا ۔ اس کا والد کمپنی بہادر کی فوج میں صوبیدار (کپتان) کا عہدہ  رکھتا تھا جو اس وقت کے دیسی فوجیوں کیلئے اعلیٰ ترین درجہ تھا ۔

برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کے ساتھ دین محمد وادی گنگا اور دلی، بنارس، ڈھاکہ، کلکتہ اور مدراس کے علاقوں میں متعین رہا ۔ جہاں نوابوں، مہاراجوں اور عوام کو زبردستی محکوم بنا یا جا رہا تھا۔ دین محمد نے ہر جگہ کے اپنے مشاہدات کو انگریز خواں دنیا کیلئے اپنی کتاب میں قلمبند کیا۔ چونکہ وہ ہندو معاشرے کے بارے میں زیادہ معلومات نہ رکھتا تھا  لہٰذا اس کی کتاب میں مسلمانوں کی سماجی تنظیم، رسم و رواج ، تہوار اور تقویم ، طعام و قیام مذکور ہیں۔

دین محمد کی اپنے کمپنی کمانڈر کیپٹن ایونز بیکر سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی۔ کیپٹن بیکر کا آئرستان کے ایک جاگیردار خاندان سے تعلق تھا۔ ہندوستان میں سپاہ گری کی زندگی سے تنگ آنے پر اس نے نوکری چھوڑ کر آئرستان واپس جانے کا فیصلہ کیا اور کمپنی بہادر کی فوج سے استعفیٰ دے دیا۔ دین محمد نے بھی کیپٹن بیکر کے ساتھ جانے کی خواہش کی اور اپنی والدہ کی ناخوشی کے باوجود آئرستان جانے کی ٹھان لی ۔ 1784ء کے اواخر میں وہ دونوں آئرستان پہنچے جہاں بیکر کے خاندان نے اس کا خیر مقدم کیا اور اسے اسکول میں داخل کروا دیا جہاں اس محنتی جوان نے انگریزی زبان پر حیرتناک حد تک عبور حاصل کر لیا۔

دین محمد کی اپنی ایک کلاس فیلو جین ڈیلی سے اچھی خاصی دوستی ہو گئی ۔ جین ڈیلی کارک شہر کے ایک متمول خاندان سے تھی۔گو اس نے دین محمد سے شادی کی ہامی بھر لی لیکن اسے خوف تھا کہ اس کی فیملی کو یہ رشتہ منظور نہ ہو گا۔ لہٰذا دین محمد کے ساتھ گھر چھوڑ کر بھاگنے کو آمادہ ہو گئی اور وہ دونوں جنوب مغربی آئرستان کے پہاڑوں میں روپوش ہو گئے۔ ایک سال بعد لڑکی کے والدین ان کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب ہوئے اور اس اجنبی ہندوستانی کو داماد بنانے پر رضا مندی ظاہر کی ۔ اس بن باس میں دین محمد نے اپنی محبوبہ کو ہندوستان کے بارے میں جو قصے سنائے ان کو قلمبند کرنے کا سوچا اور شاید اس نے اس عرصہ میں کافی کچھ لکھ بھی لیا ہو گا۔ کارک واپس آ کر اس نے اپنی کتاب پر باقاعدہ کام کیا اور جلد مکمل کرلیا۔

آئرستان میں اپنی تعیناتی کے دوران مجھے کارک شہر جانے کے متعدد مواقع نصیب ہوئے۔ سرکاری مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر میں نے دین محمد اور اس کتاب کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ ایک تو مجھ کو یہ بتایا گیا کہ جس ہوٹل میں میرا قیام تھا (Springfield Hotel)  وہ بیکر خاندان کی زمین پر واقعہ تھا۔ ہوٹل کی عمارتوں میں دین محمد کے وقت کی ایک عمارت اب بھی کھڑی تھی۔کتاب کی طباعت کے اخراجات کیلئے  دین محمد نے ایک انوکھی حکمت عملی اپنائی جو آج بھی مغربی دنیا میں اور کسی حد تک ہمارے ہاں بھی رائج ہے:  پہلے بیچو  پھر بناؤ۔ مثلاًہمارے شہروں میں یہ جو کثیرالمنزلہ پلازے کھڑے ہو رہے ہیں ان کی تعمیر کے آغاز پر ہی ان کی مختلف دکانوں یا فلیٹوں کی ’’بکنگ‘‘ کا کاروبار شروع ہو جاتا ہے۔

کارک شہر کے روز نامہ ’’ایگزامینر‘‘  میں اس نے اپنی کتاب کے پہ در پہ اشتہارات دیئے جن کے ذریعے کتاب کی ایک کاپی بعوض ڈھائی شلنگ کی پیشگی ادائیگی پر بیچنے کی آفر دی گئی ۔ انگریزی زبان کا یہ روزنامہ ’’ ایگزامینر‘‘  آج بھی شائع ہو رہا ہے۔ اخبار کے دفتر جا کر میں نے دین محمد کے اشتہار والی کاپیوں کو دیکھنے کی خواہش کی۔ مجھے بتایا گیا کہ ان کے پاس اٹھارویں صدی کے آخر کے اخبارات کا کوئی ریکارڈ محفوظ نہیں ہے اور یہ کہ شاید کہیں اور بھی دستیاب نہ ہو۔

البتہ دین محمد کی کتاب کے پہلے ایڈیشن کی دو کاپیاں کارک شہر کی لائبریریوں میں محفوظ ہیں جن تک پہنچنے کا مجھے وقت نہ مل سکا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ  دین محمد کے زمانے میں مصنفوں کے اپنی کتب کی پیشگی فروخت کا یہ طریقہ رائج تھا لیکن کسی سمندر پار کے مہاجر کے اس طریقے کو اپنانے کا شاید یہ پہلا موقع تھا۔ اخباری اشتہار وںکے علاوہ شیخ دین محمد نے جنوبی آئرستان کے اشرافیہ کے گھروں پر جا کے اپنی کتاب کی پیشگی فروخت کا ڈھنڈورا پیٹا۔ اس سب کا وش کے نتیجہ میں اس نے 320 خریداروں سے ڈھائی شلنگ فی کاپی کے حساب سے رقم اکٹھی کر کے کتاب کی اشاعت کا انتظام کیا۔

اس وقت آئرستان انگریزوں کے استعماری قبضے میں تھا۔ چند انگریز جاگیرداروں کے علاوہ  مقامی آئرستانی عوام نہایت غریب اور بد حال تھے ۔ لہٰذا دین محمد کو وہاں اپنی معاشی ترقی کے مواقع محدود لگے اور 1807ء میںوہ اپنی بیوی بچوں کو لے کر لندن منتقل ہو گیا اور بھاپ سے علاج کرنے والے ایک شفاخانہ میں ملازمت کر لی ۔ یہاں اس نے شیمپو (چمپی) کو متعارف کروایا  جس میں سر کی مالش اور بالوں کا معالجہ شامل تھا ۔ تھوڑے عرصہ بعد اس نے ملازمت چھوڑ کر شہر کے وسط میں واقع پوش علاقہ پورٹمین اسکوائرمیں ’’ہندوستانی کافی ہاوس‘‘ کے نام سے ایک ریستوران  قائم کی۔ جہاں پہ کئی ہندوستانی کھانے دستیاب تھے اور چلم والے حقے بھی۔

کافی ہاؤس کی دیواروں کو اس نے ہندوستانی مناظر کی تصویروں سے سجایا اور بید کے بنے کرسی میز استعمال کئے۔ جلد ہی’’ ہندوستانی کافی ہاؤس‘‘  لندن کے امراء اور روساء میں مقبول ہو گیا اور وہاں پر گاہکوں کا تانتا لگا رہنے لگا ۔ کافی ہاؤس اتنا کامیاب ہوا کہ تین سال کے عرصہ میں دین محمد کنگال ہو گیا کیونکہ اتنے  کامیاب کاروبار کو چلانے کیلئے اب اس کے پاس رقم نہ تھی ۔ اور شاید کوئی ’’گورا‘‘ اس ہندوستانی کے کاروبار میں رقم لگانے کو تیار بھی نہ تھا ۔دین محمد نے کافی ہاؤس کی قرقی کروا کر قرضوں سے جان چھڑوائی۔ تاہم نئے مالکان نے ہندوستانی کافی ہاؤس کو اسی مقام پر  1833ء تک چلایا جس کے بعد اسے بند کر دیا گیا۔

دین محمد کی کتاب کے امریکی مدون پروفیسر مائیکل فِشر کتاب کے دیباچہ میں لکھتا ہے کہ ہم عصر یورپی مصنفوں کے ہندوستان کے بارے بیانات اور اس کی کتاب  کے مندرجات میں واضح  فرق ہے۔ دین محمد یورپی قارئین کو مخاطب کر رہا تھا جو ہندوستانیوں کو محکوم قوم  اور اس کی تہذیب و تاریخ کو نیچ جانتے تھے۔ اس نے اپنی کتاب میں یہ مدعا پیش کیا کہ ہندوستانی اقوام بھی احترام کے لائق ہیں اور یہ کہ چند باتوں میں اس کی قوم یورپی اقوام سے زیادہ مہذب ہے۔ اس کی کتاب میں یورپی اور ہندوستانی مسلمانوں کی اچھائیوں اور خامیوں کا موازنہ پیش کیا گیا ہے ۔ یاد رہے کہ دین محمد کی اپنی شناخت ان دونوں رنگوں میں گندھی ہوئی ہے ۔

لندن کے اخبار و جرائد نے دین محمد کی کتاب کا کوئی نوٹس نہیں لیا، کوئی خبر چھپی، نہ کوئی تبصرہ نہ ذکر ہی شائع ہوا۔ پروفیسر فِشر کے مطابق اس وقت کے فرنگیوں کو یقین نہیں تھا کہ ایک ایشیائی ایسی اعلیٰ انگریزی تحریر لکھنے کے قابل تھا۔ پروفیسر نے لکھا کہ ہو سکتا ہے کہ دین محمد کی کتاب میں کچھ اقتباس انگریز مصنفوں سے مستعار لئے گئے ہوں لیکن کتاب دین محمد کی اپنی ہے۔

دین محمد کے پانچ بیٹے تھے جن میں سے ایک فریڈرک محمد تھا جس کا بیٹا ڈاکٹر فریڈرک اکبر محمد (1849-1884)  ایف آر سی ایس کی ڈگری یافتہ سرجن تھا اور لندن کے مشہور ہسپتال سینٹ گایئز سے منسلک تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس نے انسانی بلڈ پریشر ماپنے کا آلہ ایجاد کیا جو آج بھی دنیا میں استعمال ہوتا ہے ۔ اس کی اس ایجاد کا ذکر طب کے لٹریچر میں نہیں ملتا۔ برطانیہ کی ایک ویب سائٹ www.black-history.org.uk  پر درج ہے کہ ڈاکٹر فریڈرک اکبر محمد کا اپنی دریافت پر تحریر کردہ مقالہ سینٹ گائیز ہسپتال کے کتب خانہ میں آج بھی محفوظ ہے۔ دین محمد کے ورثا کی کھوج جاری ہے، جس کے تازہ ترین نتائج اسی ویب سائٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں۔

اس ویب سائٹ پر درج ہے کہ ’’آج دین محمد کو بھلا دیا گیا ہے، اس کی بھرپور زندگی اور اس کی کامیابیوں کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ اس کی نسلیں آج بھی برطانیہ میں آباد ہیں ۔‘‘

دین محمد لندن چھوڑ کر ساحلی تفریحی مقام برائٹن منتقل ہو گیا جہاں اس نے ایک بھاپی شفا خانہ قائم کیا جسے ’’ محمد بھاپی حمام‘‘ کا نام دیا گیا۔ اس کلینک کے اشتہارات میں اس نے خود کو ’’شیمپو سرجن‘‘ کے طور پر متعارف کروایا اور یہ کہ وہ ’’انڈین معالجی بھاپ اور شیمپو غسل‘‘ کا موجد  ہے۔ اس کے کلینک میں گنٹھیا، دمہ، جوڑوں کی سوزش، جلدی امراض اور خون کی گردش کی سستی کی وجہ سے لاحق جسمانی نقاہت اور اضمحلال اعضاء کا علاج کیا جاتا تھا ۔ یہاں دین محمد نے اپنے نام کے آگے’’ شیخ‘‘ کا اضافہ کیا تا کہ سماج میں اس کی قدر و منزلت بڑھ سکے۔ اس کے گاہکوں میں دو برطانوی بادشاہ جارج چہارم اور ولیم چہارم اور برطانوی اشرافیہ، مثلاً مستقبل کے وزیر اعظم رابرٹ پیل اور مستقبل کے گورنر جرنیل کی بیگم لیڈی کارن والس شامل تھے۔ اس کو ’’ ڈاکٹر برائیٹن‘‘ کا لقب دیا گیا۔

برائٹن اور گرد و نواح کے ڈاکٹر اور سرجن اس ’’ ڈاکٹر برائیٹن‘‘ کی کامیابی سے پریشان ہونا شروع ہو گئے۔ اس کے حمام کے ساتھ انگریزوں نے بھی حمام قائم کئے لیکن وہ شیمپو سرجن سے مریض نہ چھین سکے۔ برائیٹن کی بلدیہ  کے ساتھ مل کر انہوں نے شیخ دین محمد کے کلینک کے گرد و نواح میں اونچی دیوار کھڑی کر کے کلینک تک رسائی کیلئے صرف ایک تنگ راستہ چھوڑ دیا۔ 1820ء  میں اس نے بھاپ سے علاج کے مختلف طریقوں پر ایک کتاب شائع کی جو اس کی دوسری تصنیف تھی ۔ یوں اس کے معالجی حمام کی خوب تشہیر ہوئی۔

75 سال کی عمر میں 1834ء میں دین محمد نے ریٹائرمنٹ لے لی اور کلینک حمام  اپنے بیٹے آرتھر کے حوالہ کر دیا۔ 1841ء میں مالی مشکلات کے شکار کلینک کو نیلام کر دیا گیا۔ آج برائیٹن شہر میں اس مقام پر کوئنز ہوٹل کی عمارت کھڑی ہے۔ سن 1850ء میں اس کی بیوی جین انتقال کرگئی۔ شیخ دین محمد 91 برس کی عمر میں فروری 1851ء میں گزر گیا۔ برائیٹن کے قبرستان میں اس کی قبر آج بھی موجود ہے جس کے کتبہ پر اس کا نام کے آ گے ’’پٹنہ، ہندوستان‘‘ درج ہے۔

اس غیر معمولی ہندوستانی مسلمان کو ہمیں یاد رکھنا چاہیے ۔ جیسا کہ کچھ سال قبل برطانیہ میں ایک دیسی تھیٹر گروپ نے اس کی حیات پر مبنی ایک ڈرامہ اسٹیج کیا۔ اور 2005ء میںلندن کی  ویسٹ منسٹر سِٹی نے ہندوستانی کافی ہاوس 102 George Street کے مقام پر تختی لگا کر ایک یاد گار قائم کی۔

عالمی طاقتوں کے گم شدہ ’ایٹمی ہتھیار‘

$
0
0

نام نہاد تیسری دنیا کا پاکستان جیسا ملک ایٹم بم اپنی جائز ضرورت کے لیے بھی بنالے تو دنیا بھر میں دھماکے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ اندیشۂ ہائے دور دراز ظاہر کیے جاتے ہیں کہ ایسے ممالک اپنے ایٹمی اثاثوں کی حفاظت کے لائق نہیں ہیں اور یہ کہ خاص طور پر پاکستان کا ایٹم بم ضرور کسی دہشت گرد کے ہتھے چڑھ جائے گا اور وہ اسے کم از کم ہم سائے پر تو ضرور دے مارے گا۔

ان کے ایسے اندیشوں سے محسوس یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ایٹم بم کوئی فٹ بال ہے، جس سے بچے کھیل رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے ایٹم بم کے خلاف واویلا کرنے والے اپنے ایٹمی اثاثوں کے بارے میں اتنے غیر محتاط ہیں کہ کوئی بچہ اپنے کھلونوں کو ان سے بڑھ کر محفوظ رکھتا ہو گا۔ نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرد جنگ کے دوران میں دنیا بھر کے ماموں امریکا (USA)  درجنوں بار اپنے جوہری ہتھیار گم کر بیٹھے ہیں۔

ایک اندازے کے مطابق 1950 سے اِس دم تک تین درجن ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں، جن میں یہ جوہری بم بردار ممالک امریکا، یوکے، فرانس، روس، چین، اسرائیل اپنے جوہری ہتھیار گم کر بیٹھے ہیں لیکن انہیں ایسے واقعات کو انتہائی خفیہ رکھاجاتا ہے، بس وہی واقعات سامنے لائے جاتے ہیں جنہیں چھپانا غیرممکن ہو جاتا ہے، مثال کے طور پر، سوویت یونین کے دور کا چرنوبیل حادثہ۔

امریکا ایک لحاظ سے باقی ممالک سے اس لحاظ سے بہتر ہے کہ اس کے ہاں بعض حساس معاملات کو ایک خاص مدت کے بعد افشاء کرنے کا رواج ہے تاہم وہ سچ میں جھوٹ کا کھوٹ ضرور شامل کرتا ہے، مثال کے طور پر جاپان کے ایک ساحلی شہر سے محض سو کلومیٹر کے فاصلے پر اس کا ایک ہائیڈروجن بم ایک حادثے کے نتیجے میں سمندر میں ڈوب گیا، واشنگٹن نے اس کا اعتراف کیا تو مگر یہ جھوٹ ملایا کہ حادثہ جاپان کے مذکورہ ساحل سے پانچ سو میل دور کھلے سمندر میں پیش آیا ہے۔ یاد رہے کہ وہ ہائیڈروجن بم آج بھی بحرالکاہل کی گہرائیوں میں کسی مقام پر زندہ و سلامت پڑا ہے تاہم بہت تلاش کے باوجود آج تک نہیں مل سکا۔

بیسویں صدی کی صرف پانچویں دہائی میں امریکا  20 بار ایسے حادثات سے دوچار ہوا، چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔

23 فروری 1950 کو امریکا کا ایک B-36 پیس میکر طیارہ الاسکا کے ایلسن ائیر فورس بیس سے MK4 قسم کا ایک ایٹم بم لے کر ٹیکساس جا رہا تھا۔ یاد رہے کہ الاسکا امریکا کی یخ ترین ریاست ہے۔ دوران پرواز جہاز کے کاربوریٹر پر برف جمنے لگی تو پائلٹ نے جہاز کے 6 انجمنوں میں سے تین بند کر دیے اور باقی تین کی طاقت بھی کم کر دی لیکن موسم جہنمی حد تک سرد پڑتا گیا اور جہاز نے جواب دینا شروع کر دیا۔ عملے نے فیصلہ کیا کہ جہاز کو چھوڑ دیا جائے۔ سو ایک جزیرے پر سے گزرتے ہوئے انہوں نے جہاز کو چھوڑ دیا۔ جو بحرالکاہل کی گہرائیوں میں غرق ہو گیا۔ عملے کے بارہ افراد کو بہ مشکل برف ہونے سے بچایا گیا تاہم 6 افراد رزقِ آب ہو گئے اور وہ ایٹم بم بھی، جو اس جہاز میں موجود تھا، آج تک نہیں مل پایا۔

11 اپریل 1950 کو نیو میکسیکو کے قریب ایک B-29 سوپر فورٹریس طیارہ اڑان بھرتے ہی تباہی کا شکار ہو گیا۔ عملے کے 13 افراد ہلاک ہو گئے۔ اس طیارے میں ایک ایٹم بم لے جایا جا رہا تھا۔ خوش بختی یہ رہی کہ بم کا نیوکلیئر کور (Core)اور اس کے چار ڈیٹونیٹر اس سے منسلک نہیں تھے۔ اسی لیے آگ لگ جانے کے باوجود اس بم نے تباہی نہیں مچائی۔

اسی طرح کے دو واقعات 13 جولائی اور 5 اگست 1950 کو بھی پیش آئے۔ 5 اگست کے واقعہ میں ایک ایسا بامبر طیارہ ایک ایٹم بم لے کر جا رہا تھا، جس کے انجنوں میں خاصی خرابیاں تھیں۔ حادثہ کیلی فورنیا کے فیئر فیلڈ سوئی گیس ایئر بیس پر گر کر تباہ ہو گیا اور اس میں لگنے والی آگ سے بم چل گیا، 19 افراد ہلاک ہو گئے جن میں ایک بریگیڈیئر جنرل رابرٹ ٹراوس بھی تھا۔ بعد میں اس جنرل کے اعزاز میں اس ایئر بیس کو اسی کے نام سے منسوب کر دیا گیا۔

یہ بم بھی خوش قسمتی سے نیوکلیئر کور سے منسلک نہیں تھا۔ 10 نومبر 1950 میں ایک B-29 طیارہ ایک ایٹم بم لے کر کینیڈا سے امریکا روانہ ہوا ہی تھا کہ اس کے انجن میں خرابی پیدا ہو گئی۔ عملے کو جب محسوس ہوا کہ وہ ہنگامی لینڈنگ نہیں کر پائیں گے تو انہوں نے بھاری بھر کم بم کینیڈا کے صوبے کیوبک کے قریب دریائے لارنس میں گرا دیا۔ یہ بم فضا ہی میں پھٹ گیا اس میں بھی پلوٹونیم کور نصب نہیں تھا تاہم لگ بھگ 45 کلو گرام استعمال شدہ یورانیم دریا کے نیچے پھیل گیا۔

10 مارچ 1956 کو امریکی ایئر فورس کے ایک B-47 سٹریٹو جیٹ طیارے میں دو ایٹم بموں کا مال دو کیسوں میں بند کرکے کسی ایئر بیس پر بھیجا جا رہا تھا۔ یہ ایک مسلسل (نان اسٹاپ) پرواز تھی اور اس کے لیے ایندھن فضا میں ہی حاصل کیا جانا تھا۔ ایک بار تو اس نے کام یابی سے فضا ہی میں ایک ایندھن بردار طیارے سے ایندھن حاصل کر لیا لیکن اس کے بعد یہ طیارہ غائب ہو گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طیارہ بحیرۂ عرب میں کسی مقام پر غرق ہوا تھا جو تلاش بسیار کے باوجود نہیں مل سکا۔

7 جون 1956 کو انگلینڈ کے لیک ہیتھ ناٹو ایئر بیس پر ایک امریکی B-47 بامبر طیارہ تین MK6 ایٹم بم لے کر اترا ہی تھا کہ رن وے پر توازن کھو بیٹھا اور ایک سٹوریج سے ٹکرا گیا جس سے اس میں آگ بھڑک اٹھی۔ ان بموں سے ہونے والی تباہی کو روکنے کا کریڈٹ فائر فائیٹرز اور بم ڈسپوزل کے ماہرین کو جاتا ہے۔ اس واقعے کے رونما نہ ہونے کو معجزہ قرار دیا جاتا ہے۔

22 مئی 1957 میں بھی ایک ہول ناک حادثہ رونما ہونے سے بال بال بچا۔ ایئر فورس کا B-36 بامبر طیارہ ٹیکساس کے بگز بیس سے ایک MK17 ایٹم بم لے کر نیو میکسیکو کے کرٹ لینڈ بیس کی طرف محو پرواز تھا۔ اس بم کا وزن 19 ہزار 50 کلوگرام (42 ہزار پائونڈ) تھا۔ دوران پرواز زیادہ وزن کی وجہ سے یہ بم اپنے بندھن توڑ کر گر پڑا۔ اس کے ساتھ ایک پیراشوٹ منسلک تھا لیکن طیارہ اس وقت نیچی پرواز کر رہا تھا لہٰذا اس پیراشوٹ کے کھل جانے کے باوجود بم ایک اونچی گھاس والی چراگاہ میں گرا۔ بم سے زمین میں 12 فٹ گہرا اور 25 فٹ چوڑا شگاف بن گیا۔ بم کا ملبہ بہت بڑے رقبے پر پھیلا لیکن اس کا جوہری کیپسول جہاز ہی میں رہ گیا تھا۔ اس بم کے اثرات بھی فوری طور پر زائل کر دیے گئے تاہم اس کے باوجود علاقے میں چھوٹے پیمانے پر اس کی تاب کاری پھیلی۔

فروری 1958 میں امریکی ریاست جارجیا میں ایک B-47 اور F-86 سیبر طیارے میں ٹکرا ہو گئی۔ B-47 میں ایک MK15 ہائیڈروجن بم موجود تھا۔ طیارے کے پائلٹ نے جب صورت حال کو ہاتھ سے نکلتا دیکھا تو اس وزنی بم کو سمندر میں گرانے کا فیصلہ کر لیا تاکہ نقصان کم از کم ہو لہٰذا اسے دریائے سوانا کے دہانے سے میلوں دور ٹائے بی نامی جزیرے کے قریب گہرے سمندر میں گرا دیا گیا۔ یوں ایک بڑے سانحے سے بچت ہو گئی۔ بعد ازاں اس بم کو تلاش کرنے کی کوششیں 2001 تک کی جاتی رہیں تاہم یہ بم بھی آج تک نہیں مل سکا گو اس کے تاب کاری اثرات کے واضح آثار ملتے ہیں۔

24 جنوری 1961 کو بھی ایک بہت بڑا سانحہ رونما ہوتے ہوتے رہ گیا۔ امریکی ایئر فورس کا ایک B-52 دو MK39 ایٹم بم لے کر کیرولینا جا رہا تھا۔ ان بموں کا وزن 20 میگا ٹن تھا۔ جہاز جب 10 ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچا تو اس کا ایندھن لیک کرنے لگا جس سے اس کے دائیں بازو میں ایک ہلکا سا دھماکا ہوا۔ اس کے نتیجے میں جہاز ایک بڑی خرابی سے دوچار ہو گیا اور وہ زمین پر آن گرا۔ 8 افراد کے عملے میں سے تین مارے گئے اور جہاز کا ملبہ وسیع رقبے پر بکھر گیا۔ یہ دونوں بم بھی پیراشوٹوں سے منسلک تھے۔ ان میں سے ایک کا پیراشوٹ تو کھل گیا اور وہ سہولت کے ساتھ زمین پر آ رہا لیکن دوسرا زمین سے ٹکرا گیا۔

یہ بم قریب تھا کہ پھٹ جاتا اور علاقے کو تہس نہس کر دیتا لیکن خوش قسمتی یہ ہوئی کہ اس کی 6 میں سے ایک سیفٹی ڈیوائس کام کر گئی اور شہر خاک ہونے سے بال بال بچ گیا۔ ائیر فورس نے فوری طور پر علاقہ خالی کروایا اور تاب کاری پر قابو پانے کی ہنگامی کوششیں کیں۔ بعد ازاں ادارے نے یہ علاقہ، جہاں بم گرا تھا، خرید ہی لیا۔ بم کا پلوٹونیم تو مل گیا لیکن اعلیٰ درجے کی افزودہ یورانیم کبھی واپس نہ مل سکی۔ اس واقعے کے بعد امریکا اور روس ایٹم بموں کی نقل و حمل کے معاملے میں زیادہ محتاط ہو گئے۔

عالمی طاقتوں کے محتاط ہو جانے کے باوجود شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہو جب اس طرح کے ایک سے زیادہ ایسے واقعات رونما نہ ہوئے ہوں۔

اس نوع کاایک بڑا واقعہ 24 جون 1984 کو رونما ہوا جب سوویت یونین کی ایک جوہری میزائل بردار آب دوز بحر منجمد شمالی کے آب نائے سونائے میں ڈوب گئی۔ اس حادثے میں اس کے عملے کے 120 افراد میں سے 16 ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ یوں رونما ہوا کہ آب دوز کے کیپٹن کو حکم موصول ہوا کہ وہ زیر آب تارپیڈو کا تجربہ کرے۔ اس وقت آب دوز میں مرمت کا کچھ کام ہو رہا تھا۔

کیپٹن نے حکم موصول ہوتے ہی جلدی میں آب دوز کو زیر آب اتارنا چاہا لیکن عجلت میں آب دوز کا وینٹی لیشن سسٹم درست طور پر سیل نہ کر پایا، اسی طرح بیلسٹ ٹینک بھی برابر نہ کر سکا۔ اب جو آب دوز اتھلے پانیوں میں اتری تو وینٹی لیشن کی راہ سے پانی کا سیلاب پوری شدت سے آب دوز کے اندر داخل ہو گیا۔ آب دوز K 429، پانیوں کی سطح کے 130 فٹ نیچے تہ میں جا بیٹھی تاہم عملے کی اکثریت زندہ تھی اور آب دوز میں سطح پر پہنچنے کے لیے کیپسول موجود تھے۔

عملے کے دو افراد رضاکارانہ طور پر یخ پانیوں میں سے تیر کر ساحل پر پہنچے تاکہ  مدد حاصل کی جا سکے۔ ان کو گرفتار تو کرلیا گیا تاہم وہ اپنی بحری کمان کو حادثے سے مطلع کر چکے تھے، جس پر امدادی جہاز فوری طور پر جائے حادثہ پر پہنچ گئے اور باقی عملے کو بچا لیا گیا۔ اس جوہری میزائل بردار آپ دوز کو ایک بار پھر قابل استعمال بنا کر اگست میں لانچ کر دیا گیا تاہم یہ آب دوز ستمبر میں ایک بار پھر ڈوب گئی، جس کے بعد اسے ریٹائر کر دیا گیا۔

اسی طرح 5 اکتوبر 1986 کوبھی روس کی یانکی کلاس ون ایٹمی آب دوز K-219 امریکی ساحل کے قریب پٹرولنگ کے دوران حادثے کا شکار ہوگئی۔ ہوا یہ کہ پٹرولنگ کرتے ہوئے اس کی ایک میزائل ٹیوب لیک ہو گئی۔ اب جو پانی اس میں داخل ہوا تو اس کے اندر موجود مواد سے مل کر مہلک گیس میں بننے لگی۔ گیس کی مقدار جو بڑھی تو دھماکا ہوگیا، جس کے  نتیجے میں عملے کے چار ارکان ہلاک اور باقی باہرنکلنے پر مجبور ہوگئے کہ نہ نکلتے تو گیس انہیں ہلاک کر دیتی۔

اس حادثہ زدہ  آب دوز کو ساحل کی لایا جا رہا تھا کہ یہ برمودا سے کوئی 7 سو میل کے فاصلے پر ڈوب گئی۔ اس میں دو ایٹمی ری ایکٹر اور 17 ایٹمی میزائل نصب تھے۔ ہر میزائل میں دو، دو وار ہیڈز تھے اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس میں دو ایٹمی تارپیڈو بھی موجود تھے۔ اس طرح 34 ایٹمی ہتھار پانیوں میں موجود ہیں۔

12 اگست  2000 کو روس کی ایٹمی کروز میزائل آب دوز K-141 کرسک شمالی روس میں سمندر میں ہونے والی فوجی مشق کے دوران حادثے کا شکار ہو گئی۔ اس کے 118 افراد کے عملے میں سے صرف 23 افراد کو بچایا جا سکا۔ دوران مشق اس آب دوز میں اچانک دھماکا ہو گیا اور یہ سطح سمندر سے 350 فٹ نیچے تہ میں جا بیٹھی۔

دھماکا ہوا تو آب دوز میں پانی انتہائی تیزی سے داخل ہوگیا اور پانی کے اندر ہونے کی وجہ سے اس میں آکسیجن بالکل ہی نہ رہی۔ تحقیقات کے بعد معلوم ہوا کہ دھماکا آب دوز کے تارپیڈو روم میں اچانک آگ لگ جانے سے ہوا تھا۔ آب دوز میں یہ تارپیڈو 1968 میں نصب کیے گئے تھے۔ یہ تارپیڈو چلا تو آب دوز کا اگلا حصہ پلک جھپکتے میں تباہ ہو گیا اور پانی بے روک ٹوک اندر داخل ہو گیا۔

’’دی انٹرویو‘‘، شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان کشیدگی کو ہوا دے گئی

$
0
0

امریکا بہادر، شمالی کوریا کو اپنا سب سے بڑا دشمن گردانتا ہے مگر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس یہ ملک عراق اور افغانستان نہیں جس پر وہ بلاخوف و خطر چڑھ دوڑے۔ چناں چہ دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے وہ گاہے بگاہے اپنے دشمن کو زچ کرنے کی کوششیں کرتا رہا ہے۔

امریکی ایما پر عالمی ذرائع ابلاغ شمالی کوریا اور کم جونگ اُن کی شبیہہ مسخ کرنے میں عرصے سے مصروف ہیں، اور ’’ دی انٹرویو‘‘ کے ذریعے اب ہالی وڈ بھی اس مہم میں شامل ہوگیا ہے۔ اس متنازع فلم میں شمالی کوریا کے حکم راں کِم جونگ اُن کو مرکزی کردار بنایا گیا ہے جسے امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) قتل کرنے کا منصوبہ بناتی ہے اور بالآخر اس میں کام یاب ہوجاتی ہے۔

’’دی انٹرویو‘‘ کے ہدایت کار اور پیش کار سیتھ روجن اور ایوان گولڈ برگ ہیں۔ فلم کی کہانی کے مطابق سی آئی اے ایک ٹیلی ویژن پروگرام کے میزبان اور پیش کار کو کم جونگ اُن کے قتل پر آمادہ کرتی ہے ( یہ کردار بالترتیب جیمز فرانکو اور سیتھ روجن نے ادا کیے ہیں)۔ دونوں کردار انٹرویو کے بہانے شمالی کوریا پہنچتے ہیں۔ یہاں وہ ایک خاتون سرکاری ملازم کی مدد سے کم جونگ اُن کی اصل شخصیت کو عوام کے سامنے لانے اور بالآخر اسے ہلاک کرنے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ کم جونگ اُن کا کردار رینڈل پارک نے ادا کیا ہے۔ فلم کو مزاحیہ انداز میں بنایا گیا ہے۔ اس میں شمالی کوریا کے فرمانروا کی تضحیک بھی کی گئی ہے اور ملک کو جمہوریہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان تعلقات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں۔ سابق امریکی صدر بُش نے شمالی کوریا کو ’برائی کا محور‘ قرار دیا تھا۔ شمالی کوریا کے ساتھ کشیدہ تعلقات ہی کی وجہ سے جنوبی کوریا میں امریکی فوجیں موجود ہیں۔ 1958ء میں امریکا نے شمالی کوریا کے خلاف استعمال کرنے کے لیے ایٹمی ہتھیار بھی جنوبی کوریا میں ذخیرہ کیے تھے۔ یہ ہتھیار1991ء تک جنوبی کوریا کی سرزمین پر موجود رہے تھے۔ یوں شمالی کوریا اور امریکا کے درمیان دشمنی کی تاریخ کئی عشروں پر محیط ہے۔

سیتھ روجن اور ایوان گولڈ برگ کو ’’دی انٹرویو‘‘ بنانے کا خیال چند برس پہلے آیا تھا، جب کم جونگ اُن کے والد کم جونگ اِل حکم راں تھے۔ انھوں نے اس سلسلے میں تیاریوں کا آغاز بھی کردیا تھا کہ سنیئر کم جونگ راہیٔ ملکِ عدم ہوگئے۔ ان کے بعد زمامِ اقتدار جواں سال کم جونگ اُن کے ہاتھ میں آگئی۔ سیتھ اور ایوان کو ازسرنو ابتدائی تیاریوں کا مرحلہ انجام دینا پڑا۔ انھوں نے فلم کی تیاری کا باقاعدہ اعلان مارچ 2013 ء میں کیا۔ رینڈل پارک کو پہلے ہی آڈیشن کے بعد کم جونگ اُن کے کردار میں منتخب کرلیا گیا تھا۔ اس کے بعد اگلے مرکزی اداکار جیمز فرانکو کا انتخاب عمل میں آیا۔ تیسرے مرکزی کردار میں سیتھ روجن نے خود اپنی صلاحیتیں آزمانے کا فیصلہ کیا تھا۔ فلم کی تقسیم کے حقوق کے لیے کولمبیا پکچرز سے معاملات طے پاگئے تھے جو جاپانی کمپنی سونی کے ذیلی ادارے سونی پکچرز اینٹرٹینمنٹ کی ذیلی شاخ ہے۔

’’دی انٹرویو‘‘ پر شمالی کوریا کی جانب سے پہلا ردعمل 20 جون 2014ء کو سامنے آیا جب غیررسمی حکومتی ترجمان کم میانگ چول نے کہا،’’امریکی حکومت اور امریکی عوام شمالی کوریا میں بھی وہی کچھ کرنے کے شدت سے آرزو مند ہیں جو وہ افغانستان، عراق، شام اور یوکرین میں کرچکے ہیں۔ یہ فلم ان کی اسی خواہش کا آئینہ ہوگی۔‘‘ پانچ روز کے بعد شمالی کوریا کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے خبر دی کہ فلم ریلیز ہونے کی صورت میں حکومت نے سخت اور بے رحمانہ ردعمل ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ خبر میں مزید کہا گیا تھا،’’ایسی فلم بنانا اور ریلیز کرنا جس میں ہماری اعلیٰ ترین لیڈرشپ کو حملے کا نشانہ بنتے ہوئے دکھایا گیا ہو، دہشت گردی اور جنگ کا بدترین عمل ہے، جسے مطلق برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘

شمالی کوریا نے ’’دی انٹرویو‘‘ کا معاملہ اقوام متحدہ میں بھی اٹھایا۔ 11 جولائی 2014ء کو اقوام متحدہ میں شمالی کوریا کے سفیر جا سونگ نم نے کہا،’’ایک ایسی فلم کی تیاری اور تقسیم کو جس میں ایک خودمختار ریاست کے موجودہ حکم راں کو قتل کرتے ہوئے دکھایا گیا ہو، دہشت گردی کو فروغ دینے کا صریح عمل اور جنگی اقدام سمجھا جانا چاہیے۔‘‘

شمالی کوریا کے احتجاج کے بعد سونی پکچرز نے ’’دی انٹرویو‘‘ کی ریلیز 25 دسمبر تک ملتوی کردی تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ فلم کو شمالی کوریا کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اس میں تبدیلیاں کی جائیں گی اور کم جونگ اُن کی ہلاکت سمیت شدید قابل اعتراض مناظر نکال دیے جائیں گے، تاہم اس پر عمل نہیں ہوا۔

’’دی انٹرویو‘‘ کی ریلیز میں بھی کئی موڑ آئے۔ 24 نومبر کو سونی پکچرز انٹرٹینمنٹ کا کمپیوٹر نیٹ ورک ہیک کرلیا گیا۔ اس کارروائی کی ذمے داری ہیکرز کے ’’گارجینز آف پیس‘‘ نامی ایک غیرمعروف گروپ نے قبول کی۔ ہیکروں نے سونی کی ای میلز، ملازمین کے ریکارڈ، اور کئی حالیہ اور غیرریلیز شدہ فلمیں انٹرنیٹ پر جاری کردیں۔ امریکی حکام کی جانب سے اس ’حرکت‘ کا ذمہ دار شمالی کوریا کو ٹھیرایا گیا مگر شمالی کوریا نے ایسے کسی فعل میں ملوث ہونے کی تردید کردی۔

16دسمبر کو ہیکرز نے فلم بینوں کو دھمکی دی کہ وہ ’’دی انٹرویو‘‘ کے نیویارک میں ہونے والے پریمیئر میں شرکت نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے سنیما مالکان کو بھی دھمکاتے ہوئے کہا کہ اس فلم کی نمائش کی صورت میں وہ حملوں کے لیے تیار رہیں۔

ہیکرز کی جانب سے دھمکیاں ملنے کے بعد ’’دی انٹرویو‘‘ کے اداکار تشہیری پروگراموں میں شرکت کرنے سے انکاری ہوگئے اور سونی نے بھی ٹیلی ویژن پر فلم کے اشتہارات چلوانے بند کردیے۔ اگلے ہی روز تمام بڑے سنیماؤں نے بھی اس فلم کی نمائش کرنے سے انکار کردیا۔ بعدازاں سونی کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ وہ کسی بھی پلیٹ فارم پر ’’دی انٹرویو‘‘ ریلیز نہیں کرے گی۔

اس فیصلے پر سونی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ باراک اوباما نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران سونی کے اس فیصلے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا،’’میرے خیال میں سونی نے یہ فیصلہ کرکے غلطی ہے۔ ہم یہ برداشت نہیں کرسکتے کہ کسی دوسری جگہ پر بیٹھا ہوا آمر امریکا میں سنسرشپ نافذ کرنے لگے۔ میری خواہش تھی کہ وہ ( سونی کے کرتا دھرتا) یہ فیصلہ کرنے سے پہلے مجھ سے بات کرتے۔ میں ان سے کہتا کی کسی کی دھمکی میں مت آؤ۔‘‘

امریکی صدر کی کانفرنس کے بعد سونی اینٹرٹینمنٹ کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر مائیکل لنٹن نے وضاحت دیتے ہوئے کہا کہ فلم کی ریلیز منسوخ کرنے کا سبب ہیکرز کی طرف سے ملنے والی دھمکیاں نہیں بلکہ سنیما مالکان کا فلم کی نمائش کرنے سے انکار تھا۔ لنٹن نے کہا کہ ہم آزادیٔ اظہار پر یقین رکھتے ہیں اور دھمکیوں سے خوف زدہ ہوئے بغیر ’’دی انٹرویو‘‘ کی ریلیز کے دیگر ذرائع تلاش کریں گے۔

اس ’وضاحت‘ کے بعد چند روز تک ذرائع ابلاغ میں خبریں آتی رہیں کہ وائٹ ہاؤس اور فلم انڈسٹری کے مسلسل دباؤ کے سبب سونی کی انتظامیہ فلم ریلیز کرنے پر غور کررہی ہے۔ سونی نے 25 دسمبر سے محدود پیمانے پر فلم ریلیز کرنے کا اعلان کیا۔ چناں چہ ایک طویل انتظار اور کش مکش کے بعد یہ متنازع فلم تین سو سے زاید ’آزاد‘ اور ’آرٹ ہاؤس‘ سنیماؤں کی زینت بن گئی۔ سنیماؤں کے ساتھ ساتھ ’’دی انٹرویو‘‘ آن لائن موویز دکھانے والی سروسز اور ویب سائٹس پر بھی جاری کردی گئی۔ ان ویب سائٹ اور سروسز پر یہ فلم معاوضے کی ادائیگی پر آن لائن بھی دیکھی جاسکتی تھی اور اسے ڈاؤن لوڈ بھی کیا جاسکتا تھا۔ تاہم سیکیوریٹی نقص کے باعث چند ہی گھنٹوں میں یہ فلم فائل شیئرنگ ویب سائٹس پر بھی دست یاب ہوگئی، جس کے بعد اسے بڑی تعداد میں ڈاؤن لوڈ کیا گیا۔

شمالی کوریا نے ’’دی انٹرویو‘‘ کی نمائش کے لیے امریکی صدر کو ذمہ دار ٹھیراتے ہوئے انہیں استوائی جنگلوں میں بھٹکنے والے بندر سے تشبیہہ دے ڈالی۔

حال ہی میں جنوبی کوریا نے غباروں کے ذریعے ’’دی انٹرویو‘‘ کی ڈی وی ڈیز شمالی کوریا کی سرزمین پر گرانے کا اعلان کیا ہے۔ دراصل یہ اعلان جنوبی کوریا میں انسانی حقوق کے کارکن پارک سینگ ہاک نے کیا ہے، جسے اس معاملے میں حکومت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ پارک کے مطابق گیس کے غباروں سے باندھ کر ’’دی انٹرویو‘‘ کی ایک لاکھ ڈی وی ڈی ز اور یو ایس بی ز شمالی کوریا پہنچائی جائیں گی۔ اس سلسلے میں پارک کو امریکی این جی او ’’ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن‘‘ اور ’’فائٹرز فار اے فری نارتھ کوریا‘‘ کا تعاون بھی حاصل ہے، جو اسے کورین سب ٹائٹل کے ساتھ ڈی وی ڈیز اور یو ایس بی میموری اسٹکس فراہم کریں گی۔ یہ ادارے اس سے پہلے بھی اس نوع کا اقدام کرچکے ہیں۔ ماضی میں انھوں نے کورین وکی پیڈیا کی نقول ہو اکے دوش پر شمالی کوریا کی جانب روانہ کی تھیں۔

جنوبی کوریا کے اس اقدام پر جواباً شمالی کوریا نے اعلان کیا جو شہری ’’دی انٹرویو‘‘ سے لطف اندوز ہوتا ہوا پایا گیا اسے گولی مار دی جائے گی۔

شمالی کوریا کو اگر ’بند ملک‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا، کیوں کہ اس سرزمین کی خبریں بیرونی دنیا تک کم کم ہی پہنچ پاتی ہیں۔ کہنے کو تو شمالی کوریا عوامی جمہوریہ ہے مگر عملاً وہاں ایسا انداز حکم رانی رائج ہے جو آمرانہ طرز حکومت کی اصطلاح پر پورا اترتا ہے۔ شمالی کوریا میں موروثی حکومت چلی آرہی ہے۔ کم جونگ اُن سے پہلے زمام اقتدار ان کے والد کم جونگ ال کے ہاتھ میں تھی۔ ان سے پہلے کم جونگ اُن کے دادا کم ال سنگ 1948 سے 1994 تک وزیراعظم و صدر رہے تھے۔

اقتدار پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے شمالی کوریا کے حکم راں مختلف اقدامات کرتے رہتے ہیں۔ ملک کو ایک ’بند ملک‘ میں بدل دینا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ تاہم دسمبر 2011ء میں مسند اقتدار پر براجمان ہونے کے بعد کم جونگ اُن نے کچھ ایسے اقدامات بھی کیے ہیں جنھیں بیرونی دنیا نے تمسخرانہ انداز میں دیکھا۔ مثلاً پہلے یونی ورسٹی کے طلبا پر اپنے حکم راں کے ہیئراسٹائل کی نقل کرنا لازم قرار دیا گیا۔ پھر کم جونگ اُن کے حالات زندگی کے مطالعے کو مضمون کی شکل دے کر تدریسی نصاب کا حصہ بنادیا گیا۔ بعدازاں عوام کو پابند کردیا گیا وہ نومولود بچوں کے نام کم جونگ اُن نہیں رکھ سکتے، کیوں کہ ملک میں ایک ہی کم جونگ اُن رہ سکتا ہے۔ انھیں یہ ہدایت بھی کی گئی جن افراد کے نام کم جونگ اُن ہیں وہ اپنے نام بدل ڈالیں۔

جو رہے سب سے آگے

$
0
0

فلم انڈسٹری کا جب سے آغاز ہوا اور یہاں مختلف اداکاروں نے پرفارم کرنا شروع کیا، شاید تب ہی سے ان میں مسابقت کے ساتھ ساتھ مقابلہ بازی کے رحجان کو فروغ ملنا شروع ہوا۔

یہ مقابلہ جب تک مثبت رہا تو ٹھیک تھا، لیکن جب اس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد اور جلن جیسے جذبات پیدا ہو جائیں تو عروج سے زوال کا سفر بڑی جلدی طے ہو جاتا ہے۔ فلموں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور اداکاروں کو ان کی کام یاب اور سپر ہٹ فلموں کے حوالے سے کٹیگرائز کیا جاتا رہا ہے، لیکن وقت بدلنے کا ساتھ ساتھ نمبر گیم کا یہ کھیل مزید وسیع ہوتا گیا۔ اب نہ صرف فلموں کی کام یابی کے اعتبار سے آرٹسٹوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے، بلکہ اب یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ سوشل میڈیا یعنی گوگل، ٹوئٹر، فیس بک، یاہو اور انسٹاگرام وغیرہ پر کون سا اداکار یا اداکارہ کتنے مقبول ہیں۔ اس حوالے سے دیکھتے ہیں کہ سال 2014میں کس اداکار کو سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔

٭سلمان خان: بولی وڈ کے دبنگ خان کے2014 کا آغاز فلم جے ہو سے ہوا تھا۔ اس فلم میں ان کے مقابل رانی مکھرجی سے مشابہت رکھنے والی نئی اداکارہ ڈیزی شاہ نے ہیروئن کا رول کیا تھا۔ فلم کو اتنی مقبولیت نہیں ملی، جس کی توقع کی جارہی تھی، اس کے باوجود یہ فلم صرف سلمان کی وجہ سے کام یابی سے ہم کنا ر ہوئی اور سلمان کی سحرانگیز کرشماتی شخصیت نے اس فلم کو چار چاند لگادیے۔ سلمان کی اس سال ریلیز ہونے والی دوسری فلم کک تھی جس نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔ یہ فلم سال کی سپرہٹ فلموں ہیپی نیو ائیر، بینگ بینگ میں شامل ہوکر نمبر تین پر رہی۔ 2014میں اپنی بہن ارپتا کی شادی اور شاہ رخ خان کے ساتھ روابط کے خبروں اور اس کے علاوہ ان کی آنے والی فلموں بجرنگی بھاجن اور پریم رتن دھن پاؤ نے انہیں سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سرچ کیا جانے اسٹار بنادیا ہے ۔

٭کترینہ کیف: سلمان خان کی سابق گرل فرینڈ کترینہ کیف کی سال میں ریلیز ہونے والی فلم دھوم تھری اور بینگ بینگ سپر ہٹ قرار پائیں۔ اس کے علاوہ رنبیرکپور کے ساتھ دیرینہ تعلقات اور رنبیر کی فیملی کی جانب سے پذیرائی نہ ملنے کی بنا پر کترینہ کیف سال 2014 سب سے زیادہ سرچ کی جانے والی اداکارہ بنادیا ہے۔

٭شاہ رخ خان: بولی وڈ کے کنگ خان کو مقبولیت یا شہرت حاصل کرنے کے لیے کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، کیوں کہ ان کے کریڈٹ پر پہلے ہی ان گنت کام یابیاں ہیں۔ سال2014  میں کنگ خان کو خبروں میں رہنے کے لیے کسی نیوز کی ضرور ت نہیں تھی۔ سال میں شاہ رخ کی فلم ہپی نیوایئر سب بڑی ہٹ فلم قرار پائی۔ اس فلم کے لیے شاہ رخ نے ہر قسم کی پبلسٹی کا سہارا لیا۔ انڈیا کے ہر پلیٹ فارم سے ہی نہیں دبئی اور یورپ میں بھی اس کی بھرپور تشہیر کی گئی۔ اس کے علاوہ شاہ رخ کی فلم دل والے دلہنیا لے جائیں گے نے اپنی ریلیز کے انیس برس یعنی ایک ہزار ہفتے پورے کر لیے۔ اسی لیے شاہ رخ کو گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔

٭دیپکا پاڈوکون: دیپکا پاڈوکون 2013 سے کام یاب اداکارہ تسلیم کی جارہی ہیں۔ اس سال ان کی فلم ہیپی نیوایئر سپر ہٹ ہوئی، اس کے علاوہ ارجن کپور، ڈمپل کپاڈیہ اور نصیرالدین شاہ کے ساتھ ان کی فلم فائینڈنگ فنی کو بھی پذیرائی ملی۔ دیپکا نے خود کو ایک بہت میچور اور سلجھی ہوئی اداکارہ ثابت کیا ہے۔ اپنے کواسٹار رنویرسنگھ کے ساتھ خفیہ تعلقات کی بنا پر دیپکا اس سال سب سرچ کی جانے والی ہیروئینز میں نمایاں قرار پائی ہیں۔

٭اکشے کمار: اکشے کمار کو بولی وڈ کا اصل کھلاڑی کہا جاتا ہے۔ اس کی بُری سے بُری فلم بھی چلتے چلتے کام یابی کے قدم چوم ہی لیتی ہے۔ گذشتہ سال یعنی 2014 میں اکشے کی ریلیز ہونے والی فلم ہالیڈے سپرہٹ ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ اس فلم میں گبر کے گیٹ اپ میں ایک گانا گبر اکشے کے لیے خوش قسمتی کی علامت ثابت ہوا۔ اس گیت نے اکشے کی آن لائن مقبولیت میں کئی گنا اضافہ کیا۔

٭عالیہ بھٹ: مہیش بھٹ کی چھوٹی بیٹی عالیہ بھٹ کو سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ شہرت اس وقت ملی جب ٹی وی کے ایک پروگرام کافی ودھ کرن میں کرن جوہر کی جانب سے پوچھے جانے والے سوال کہ انڈیا کے صدر کا کیا نام ہے؟ کے جواب میں عالیہ نے کہا تھا کہ وہ پریزنٹ آف انڈیا کے نام سے واقف نہیں۔ بعدازاں عالیہ نے اس بات کی مختلف مواقع پر تردید بھی کی۔ اس کے علاوہ گذشتہ سال اس کی ریلیز ہونے والی تینوں فلمیں ہائی وے، ٹو اسٹیٹس اور ہمپٹی شرما کی دلہنیا کام یابی سے ہم کنار ہوئیں، جس سے انڈسٹری میں اس کی ساکھ بہتر ہوئی۔

٭رنبیر کپور: رنبیر کپور گذشتہ سال کام کی نسبت دوسر ی سرگرمیوں کی بنا پر خاصے مقبول اور معروف ٹھیرے۔ سوشل میڈیا میں گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیے جانے والے اسٹارز کی فہرست میں رنبیر کپور چوتھے نمبر پر ہیں، جس کی پہلی وجہ کترینہ کیف کے ساتھ ان کے زبان زد عام تعلقات ہیں، جس کی وہ ہر جگہ تشہیر کرتے پھرتے ہیں۔ ساتھ ہی اپنی مما اور ڈیڈی کو بھی اپنی اور کترینہ کی شادی کے لیے بھی منا رہے ہیں۔ ان خبروں کو لے کر رنبیر اس سال سب سے زیادہ سرچ کیے گئے۔ اس کے علاوہ انڈین سپر لیگ میں ممبئی ٹیم کی ساتھ شراکت کی بنا پر بھی وہ خبروں کا حصہ بنے رہے۔ یاد رہے کہ سال 2014 میں رنبیر کی کوئی فلم ریلیز نہیں ہوئی۔ اس کے باوجود وہ پبلسٹی میں سب سے آگے رہے۔

٭پریانکا چوپڑہ: سابقہ مس ورلڈ پریانکا چوپڑہ نے خود کو انڈسٹری کی بہت منجھی ہوئی اور کام یاب اداکارہ ثابت کیا ہے۔ اس کے ساتھ آنے والی کی کئی اداکارائیں انڈسٹری چھوڑ چکی ہیں یا کم فلموں میں کام کر رہی ہیں، لیکن پریانکا نے خود کو ہر طرح سے ثابت قدم رکھا ۔ گذشتہ سا ل پریانکا کی ایک فلم میری کوم ریلیز ہوئی تھی۔ یہ فلم ایک حقیقی کہانی پر مبنی تھی۔ اس فلم میں پر یا نکا نے خاتون باکسر میری کوم کا لازوال کردار کیا۔ گو کہ مدھر بندھارکر کی یہ فلم باکس آفس پر کوئی دھماکا نہ کر سکی، لیکن میری کوم کے روپ میں پریانکا کے کام کی سب ہی نے تعریف کی۔ اس فلم کے حوالے سے وہ سوشل میڈیا پر سر چ کی جانے والی ہیروئنز میں نمبر چار پر رہی۔

٭شاہد کپور: حیرت انگیز طور پر سوشل میڈیا یا گوگل پر سرچ کیے جانے والے اسٹارز میں شاہد کپور نے پانچویں پوزیشن حاصل کی ہے۔ اس کی وجہ ان کی فلم حیدر ہے، جوکہ 2014 میں ریلیز ہوئی تھی۔ اس فلم کے حوالے سے یہ بات کہی جارہی ہے کہ اس کے ذریعے انڈسٹری میں شاہدکپور کا دوسرا جنم ہوا ہے۔ یہ فلم باکس آفس پر کام یاب ہوئی تھی۔ خود شاید بھی حیدر کو اپنے لیے خوش قسمتی کی علامت تصور کرتے ہیں کہ جس کی کام یابی کی بدولت انہیں ایک نئی پہچان ملی۔

٭ایشوریا رائے بچن: یوں تو مسز ایشوریا رائے بچن کا نام اور کام کسی بھی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ وہ بغیر کسی وجہ کے بھی سوشل میڈیا پر خاصی مقبول و معروف ہیں، لیکن گذشتہ سال وہ کینز فلم فیسٹول میں اپنی شرکت کی بنا پر مقبول رہیں۔ فیسٹول کے لیے ایشوریا کا خاص طور پر تیار کیا گیا ۔ اس کے علاوہ تین سال کے وقفے کے بعد فلم جذبہ کے ذریعے کم بیک کرنے والی ایشوریا اس وجہ سے بھی گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کی گئیں۔

٭امیتابھ بچن: مسٹر بگ بی کا نام انڈسٹری کے لیے ایک اہم ستون کا درجہ رکھتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ کام یابی، شہرت، عزت اور پیسہ خود امیتابھ کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ گذشتہ سال امیتابھ گوگل کے علاوہ سوشل میڈیا کی دیگر سائٹ پر بھی مقبولیت کے اعتبار چھٹے نمبر پر رہے۔ اس کی سب سے پہلی وجہ ان کا کام یاب ترین ٹی وی شو کون بنے گا کروڑ پتی ہے، جس کی مقبولیت میں اضافہ صرف بگ بی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے۔ اس کے علاوہ 72سال کی عمر میں سولو ہیرو کے طور پر انہوں نے بھوت ناتھ ریٹرن جیسی سپرہٹ فلم دی۔ یہ بولی وڈ کا ایک ریکارڈ ہے۔ ساتھ ہی ان کی آنے والی فلموں پیکو اور شمیتابھ کے بارے میں جاننے کے لیے گوگل پر سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔

٭کرینہ کپور: کرینہ کپور کو سیف سے شادی کے بعد سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔ اس کی وجہ اس کی سال 2014میں اجے دیوگن کے ساتھ سپر ہٹ ہونے والی فلم سنگھم ریٹرن تھی۔ اس کے علاوہ اپنے شوہر کے ساتھ ہنی مون منانے کے لیے وہ دنیا کے مختلف ممالک بھی گئی۔ پاکستانی اسٹار فواد خان کے ساتھ فلم میں کام کرنے کے حوالے سے بھی کرینہ خبروں کا حصہ بنی رہی اور اس کا کہنا تھا کہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں ہے کہ وہ کسی فلم میں فوادخان کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

٭ورون دھون: فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کا بیٹا ورون نئی نسل کے ہیروز میں سوشل میڈیا میں سب سے زیادہ مقبول ہے۔ اپنی پہلی فلم میں تیرا ہیرو اور پھر اس کے بعد ہمٹی شرما کی دلہنیا کی باکس آفس پر کام یابی نے ورون کو کام یاب اداکار بنادیا۔ یہ ہی وجہ تھی کہ سوشل میڈیا پر مقبولیت کے اعتبار سے وہ چھٹے نمبر پر رہا۔

٭انوشکا شرما: اپنی پہلی فلم رب نے بنادی جوڑی سے ہٹ ہونے والی اداکارہ انوشکا شرما نے اب تک معیاری اور بہترین کام کیا ہے اور اس نے فلموں کے انتخاب میں تعداد سے زیادہ معیار پر توجہ دی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی اداکاری میں دن بہ دن بہتری آتی گئی۔ گذشتہ سال کے آخر میں ریلیز ہونے والی فلم پی کے کی کام یابی، پھر کافی ودھ کرن میں اسے بطخ جیسے ہونٹوں والی کا خطاب دیا گیا اور سوشل میڈیا پر ان باتوں کے علاوہ کرکٹر ویرات کوہلی کے ساتھ انوشکا کے تعلقات کے چرچے عام رہے۔ اسی لیے گوگل پر انوشکا مقبولیت کے اعتبار سے چھٹے نمبر پر رہی۔

٭رنویر سنگھ: رنویر سنگھ 2014 میں ریلیز ہونے والی فلم کل دل کے حوالے سے سوشل میڈیا پر مقبول رہا۔ فلم کل دل میں پاکستانی اداکار علی ظفر بھی ان کے ساتھ تھے۔ فلم نے باکس آفس پراوسط درجے کی کام یابی حاصل کی۔ اس کے علاوہ سڑک پر عجیب وغریب حرکتیں کرتے ہوئے بھی وہ کافی مقبول رہا۔ ساتھ ہی دیپکا پاڈوکون کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات نے رنویر کی شہرت میں اضافہ کیا۔

٭فواد خان: بہت سے لوگ فواد کو ان کے ان کے ڈراموں کے کردار اشعر اور زارون کے نام سے جانتے ہوں گے، لیکن بھارتی فلم خوب صورت میں کام کرنے کے بعد ان کی شہرت میں بے پناہ اضافی ہوا ان کی مقبولیت نوجوان لڑکیوں میں بہت زیادہ رہی سونم کپور کے ساتھ فلم خوب صورت میں کام کرنے کے بعد سوشل میڈیا پر انہیں سب سے زیادہ سرچ کیا گیا۔ لوگ ان کے بارے میں مکمل جاننے میں دل چسپی لینے لگے تھے۔

٭سونم کپور: سونم کپور کو ہر طرح سے خبروں میں رہنے کا گُر آتا ہے۔ وہ فلم میں کام کر رہی ہو یا نہیں، اپنے کسی نہ کسی بیان کے حوالے سے وہ خبروں کا حصہ بنی رہتی ہے۔ گذشتہ سال بھی دیپکا پاڈوکون کی کینز فلم فیسٹول میں شرکت کے حوالے سے سونم نے بیان دیا تھا کہ دیپکا اداکارہ تو اچھی ہے لیکن کینز فلمی میلے میں اس کا ڈریس سینس انتہائی خراب تھا۔ اس بیان کے علاوہ اس کی ریلیز ہونے والی فلم خوب صورت اور آنے والی فلم ڈولی کی ڈولی حوالے سے وہ سوشل میڈیا پر کافی مقبول رہی۔

Viewing all 4754 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>