Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4736 articles
Browse latest View live

محمود احمد ہاشمی؛ نقاد، شاعر اور براڈکاسٹر، جو شعر پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جاملے

$
0
0

وہ ٹھیک ہی تو کہتا تھا

دُرِبتول ہوں، شیرِ جَلی کا بیٹا ہوں
میں عام شخص نہیں ہوں علی ؓکا بیٹا ہوں

محمد محمود احمد ہاشمی، جس کے قلم سے روشنی پھوٹتی تھی۔
وہ محمود جسے یقین تھا:

وہ مجھ کو میری خطاؤں پہ کچھ نہیں کہتا
اُسے خبر ہے کہ میں آدمی کا بیٹا ہوں

وہی محمد محمود احمد جو ماڑی انڈس میاںوالی میں ہونے والے مشاعرے کے دوران اسٹیج پر تیسری بار آکر شعر

’’علم دی، احساس دی کوئی تازگی دی گالھ کر
رات کالی ہے تاں کوئی روشنی دی گالھ کر
شاعری دا خُمس وی محمود تئیں تے فرض ہے
اپنی ہر پنجویں غزل وِچ توُں علی ؓدی گالھ کر

پڑھتے ہوئے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔
محمد محمود احمد سرائیکی وسیب کے ضلع میانوالی میں 1969ء میں پیدا ہوئے۔ والد صاحب محمد سلیم رضا قریشی درس و تدریس سے وابستہ تھے۔ اس کے ساتھ وہ بہت بڑے ادیب بھی تھے۔ روسی اور فارسی ادب پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ اچھے مترجم بھی تھے۔ انہوں نے فارسی کی بچوں کی کہانیوں کے تراجم بھی کیے۔ ان کی ترجمہ کردہ تین جلدوں پر مشتمل ’’ْقصہ یہ تھا ‘‘ کو گورا پبلشرز اور فارسی ناول کے ترجمے ’’چھوٹا امیر اور بڑا امیر‘‘ کو کلاسیک نے شائع کیا تھا۔ محمود احمد کو علمی ماحول میسر آیا جس سے ان کے اند ر کے ادیب کو آگے بڑھنے کا بھر پور موقع ملا اور وہ کم عمری ہی میں فکر اور شعور کی وہ منازل طے کرگئے جس کے لیے ریاضت اور عمر خضر درکار ہو تی ہے۔

محمد محمود احمد نے اپنی کتاب ’’عورت، خوش بو اور نماز‘‘ کے دیباچے میں لکھا ہے،’’میاںوالی میرے خاندان کا تیسرا پڑاؤ ہے۔ میرے تخیل کی دودھیا لہریں افغانستان کے راستے سرزمینِ حجاز میں داخل ہوتی ہیں۔ عرب تین باتوں میں سے ایک اس بات پر بھی جشن منایا کرتے تھے کہ ان کے خاندان میں شاعر پیدا ہوا ہے۔ آج مجھے دیگر مسرتوں کے ساتھ یہ اطمینان بھی ہو رہا ہے کہ میں اپنے خاندان کا پہلا صاحبِ کتاب شاعر بن چکا ہوں۔‘‘

وہ لکھتے ہیں، ’’جس عمر میں بچے پتنگیں اُڑاتے اور تتلیاں پکڑتے ہیں میری وہ عمر فردوسی کا ’’شاہ نامہ‘‘ سعدی کی ’’گلستان‘‘ عمر خیام کی ’’رُباعیاں‘‘رومی کی ’’مثنویاں‘‘ جامی کی ’’نعتیں‘‘ فریدالدین عطار کا ’’پند نامہ‘‘ پڑھنے اور حکیم الامت کے اشعار حفظ کرنے میں گزرتی رہی۔ اسی لیے میں کھیل کے میدان میں کبھی نہیں گیا۔ دوستوں کے قہقہوں میں اپنا قہقہہ شامل نہ کر سکا۔ کیمروں اور دور بینوں سے دور رہا۔ واک مین کے ذریعے مغربی موسیقی نہ سُن سکا۔ ہالی وُڈ کے حصار میں نہ آیا۔ دوسری طرف یوں ہوا کہ میں نے ’’عورت، خوش بو اور نماز‘‘ لکھ ڈالی۔

وہ کہتے تھے،’’میرے اند ر جو شخص بیٹھا ہے اس کی عمر میری طرح ستائیس برس نہیں ہے اس کے سارے بال سفید ہو چکے ہیں۔ اُس کی آنکھوں میں جو روشنی ہے وہ میں نے جسم سے باہر کبھی نہیں دیکھی۔ وہ میری کڑی نگرانی کر تا ہے۔ کبھی کبھار میں کسی کھلنڈرے بچے کی طرح اس سے آنکھ چُرا کر بھاگ نکلتا ہوں۔ میں نے اکثر نظمیں اُسی فرار کی ساعتوں میں لکھی ہیں اس کی رفاقت میں بہت سرور ہے۔‘‘

محمود کہا کرتے تھے۔۔۔

’’میں کتاب گھروں میں کم جاتا تھا۔ کنڈل شریف اور کافر کوٹ کے بھورے پہاڑوں پر جھکے نیلگُوں بادل ’’سندھ‘‘ کی چھاتی پر لہلہاتی ہوئی سرسبز کوندر، ریت کی چادر پر بکھرے ہوئے آک کے جامنی پھول، وطن کی یاد میں روتی کونجیں، اپنی موج میں تیرتی ہوئی مُرغابیاں، کالے تیتروں کی تسبیح، ہمت شاہ کی مسجد سے سنائی دیتی ہوئی شام کی اداسی بھری اذان۔ پائی خیل کے پہاڑی چرواہوں کے درد بھرے ماہیے، خانقاہوں میں بِکھری صدیوں پرانی سنجیدگی، رات کے تیسرے پہر کی گہری نیلی اور شوخ سنہری کرنیں۔ زمستانی ہواؤں کے ماتم، موسمِ گرما کی ایک ٹھنڈی دوپہر، حوا کے ہجر میں آدم کا پہلا آنسو، اُڑتے تخت پر بیٹھے سلیمان اور نشیبوں میں رینگتی چیونٹیوں کا مکالمہ۔ آصف برخیہ کا اعتماد۔ ابو جہل کی مٹھیوں میں کلمہ پڑھتی کنکریاں، فاروقِ اعظمؓ کا دریائے نیل کے نام خط، حضرت علی المرتضیٰؓ کی خا ک نشینی، حضرت زینبؓ کا ابنِ زیاد کی عدالت میں خطبہ میری شاعری کے اجزائے ترکیبی ہیں۔‘‘

اُن کا کہنا تھا:
’’مٹی اور پانی کی کہانی بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ شاعری وہ رزق ہے جو میری روح پر اترتا ہے۔ میں نے شاعری پر قبائلی نظام ِ زندگی کا فارمولا لاگو کیا ہے۔ میرا شاعری میں کسی سے کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ میں تو ایک قبائلی راہ نما کی طرح اپنی ذات اور ذات سے وابستہ لوگوں اور جگہوں کا بھرم برقرار رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہوں۔ شاعری میرے لیے جرگے کا منظر نامہ ہے۔ جرگے میں زرخیز دماغوں اور چمکتی آنکھوں کا اجتماع ہوتا ہے۔ اس لیے میں نے ہمیشہ انتہائی محتاط اور سنبھلی ہوئی گفت گو کی ہے۔

وہ اپنی نسبت پہ کس قدر نازاں تھے۔

’’قبائلی نظام میں کم زور اور افرادی قوت سے محروم لوگ بڑے سرداروں کی امان میں زندگی گزارتے ہیں تاکہ ان کی ہر طرح سے حفاظت ہوتی رہے میرے تفکرات حضرت علی ؓکے زیرِسایہ پروان چڑھ رہے ہیں۔ اسی لیے مجھے شاعری میں کبھی اصلاح لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔

محمود نے اتنی کم عمری میں جتنا طویل سفر طے کیا اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ اس نے اپنی پرواز کو ہمیشہ بلند رکھا۔ ہر وقت سفر کے لیے کوشاں۔ مکانِ ہستی کے لامکاں سے مراقبہ کرتا ہوا تو کبھی اپنے اندر کے آدمی سے مکالمہ کرتا ہوا محمود۔ اپنی مٹی کے ان ستاروں سے رابطے میں سرگرداں جو اس کے ساتھ آسماں سے زمین پہ گر کر بِکھر گئے تھے۔ کبھی کبھی تو وہ اپنے بدن کی مسجد میں بیٹھ کر اپنے ذہن اور دل کا مناظرہ

کرتا ہوا ملتا پوچھتے تو بتاتا کہ
اِنہوں نے باہم تفرقہ بازی سے منتشر کر دیا ہے مجھ کو
بدن کی مسجد میں بیٹھ کر ذہن و دِل کا مناظرہ کرنا چاہتا ہوں

شعرو ادب اور ثقافت کی ترویج کے لیے انہوں نے میاںوالی میں 2013ء کے محرم الحرام میں بنیاد رکھی، جس کے زیرِاہتمام سب سے پہلے محفلِ مسالمہ کرایا گیا، بعدازاں ’’محمود ایوارڈ‘‘ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں کارکردگی کے حامل مردوخواتین میں تقسیم کیے گئے، محفلِ سنگیت اور شبِ نغمہ منعقد ہوئی۔ ان کی زندگی کے آخری دنوں میں میاں والی کی تاریخ کا پہلی اور ریکارڈ آل پاکستان خواتین محفلِ مشاعرہ منعقد کی گئی۔ یہ اپنے لحاظ سے میاںوالی میں منفرد محفلِ مشاعرہ تھی۔

میں نے اُن سے مطالعے بارے ایک بار سوال کیا تو کہنے لگے:
’’پیشے کے لحاظ سے سرجن، ڈاکٹر اور مزاجاً ادیب انتونیو چیخوف کی ایک نصیحت میں نے ہمیشہ اپنے ساتھ ساتھ رکھی ہے۔ وہ کہتا ہے کتاب کو ہڑپ نہیں کرنا چاہیے (ایک دو نشستوں میں نہیں پڑھ لینی چاہیے ) بلکہ چبا چبا کے پڑھنا چاہیے۔ اس سے نتیجہ یہ اخذ ہوا کہ نہایت احتیاط، حاضر دماغی، توجہ اور ذوق و شوق سے پڑھنا چاہیے کہ تخلیق اور خالق کے معیار اور اس کی تفہیم تک رسائی حاصل ہو سکے ۔

محمد محمود احمد کو اﷲ پاک نے بے پناہ صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا۔ جس نشست میں محمود موجود ہوتے اس نشست کے سب مقرر سامع میں بدل جاتے۔ پڑھنے کا مخصوص انداز سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتا اور پھر مدتوں اسے اپنے سحر میں جکڑے رہتا۔

محمد محمود احمد نے اپنی شاعری کا آغاز اگرچہ اردو میں کیا لیکن انہوں نے اپنی مادری زبان سرائیکی کو بھی پیچھے نہیں رکھا۔ انہوں نے اس زبان میں شان دار گیت، دوہڑے اور غزلیں لکھیں۔ شروع میں محمود ہاشمی کے نام سے لکھتے رہے، لیکن بعدازاں بقول افضل عاجز انہوں نے ایک نشست میں آئندہ تخلیقات محمود احمد کے نام سے لکھنے کا ارادہ ظاہر کیا تو میں نے محمد محمود احمد نام تجویز کیا، انہوں نے پھر تاعمر یہی نام لکھا۔

انہوں نے بے پناہ سرائیکی، اردو، پنجابی، پوٹھوہاری گیت بھی لکھے جن میں سندھ سے تعلق رکھنے والی گلوکارہ شازیہ خشک کا گایا ہوا گیت ’’میڈا رانجھنا‘‘ بھی شامل ہے۔ محموداحمد کے درجنوں گیت عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی نے بھی گائے، جن میں ’’سانول سانول، ذرا انصاف کر ماہی، محبت پہلے کئیں کیتی‘ ملن دی رات لنگھ گئی ہے، وے چنگا ڈھولا رب راکھا ‘ بارشاں دے موسماں وچ پئے گئے وچھوڑے‘ اور دیگر گیت شامل ہیں۔ حامد علی خان نے ان کی کافی ’’سب مٹی کا مال ہے سائیں ‘‘ گائی، اسی طرح ملک بھر کے مختلف گلوکاروں جن میں فریحہ پرویز، شفاء اﷲ خان روکھڑی، عطا محمد نیازی، ستار زخمی، اعجاز راہی اور دیگر شامل ہیں نے ان کا کلام گایا۔ ’’اکھیوں سے جھروکوں سے‘‘ فیم انڈین گلوکارہ ہیم لتا نے بھی ان کا کلام اپنی آواز میں ریکارڈ کروایا۔ عطاء اﷲ خان عیسیٰ خیلوی اور لتا منگیشکر کا ڈوئیٹ البم ’’سرحدیں‘‘ جو ابھی ریلیز ہونا ہے، میں بھی ان کا کلام شامل ہے ۔

1995ء میں ان کا پہلا اردو شعری مجموعہ ’’عورت، خوش بو اور نماز‘‘ الحمد پبلی کیشنز نے شائع کیا، جس کے اب تک پانچ ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ حوم نئے اردو مجموعۂ کلام ’’آنکھ‘‘ کی تیاریوں میں مصروف تھے۔ سرائیکی غزلوں کا مجموعہ بھی زیرِترتیب تھا۔ انہوں نے سرائیکی زبان میں افسانے بھی لکھے۔

محمد محمود احمد ایم اے اردو کرنے بعد محکمۂ تعلیم سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اپنے آخری دنوں میں وہ ڈیپوٹیشن پر ٹیچرز انسٹرکٹر تھے۔ ایک طویل عرصے تک ریڈیو پاکستان میاں والی پر متعدد پروگرام بھی کرتے رہے جن میں ’’تھل سنگھار‘‘ اور غزل رنگ بہت مقبول ہوئے۔ 14اکتوبر2014 کو میاں والی کے قریبی قصبہ ماڑی انڈس میں ایک محفلِ مشاعرہ میں شریک تھے کہ شعر پڑھتے ہوئے دل کا دورہ پڑا اور خالقِ حقیقی سے جاملے۔ مرحوم نے سوگواران میں بیوہ اور پانچ بیٹیاں چھوڑی ہیں۔ وہ اولادِ نرینہ سے محروم تھے۔

محمد محمود احمد واقعتا ً محبتوں کے شاعر تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری کو نیا رنگ اور آہنگ دیا۔ ان کا نمونۂ کلام:
میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھا شجرۂ نسب
بات کرنے سے قبیلے کا پتا چلتا ہے
۔۔۔۔
اے فکرِ ساجدین عبادت ضرور کر
انسانیت سے پہلے محبت ضرور کر
۔۔۔۔
جاگتا کیسے نہ پھر میرا مقدر سائیں
میم ہیں پانچ مرے نام کے اند ر سائیں
۔۔۔۔
زمین کی گود میں مائیں بھی جا کے سوتی ہیں
زمین ماں کی بھی ماں ہے زمیں سے پیار کرو
۔۔۔۔
سدھار دیتا ہے سنگیت باغیانہ مزاج
پہاڑی جوگ تلنگ بھیرویں سے پیار کرو
۔۔۔۔۔
بیٹیاں سب کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر خدا کو جو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں
۔۔۔۔
ظاہر ہوا یہ مجھ پہ یتیمی کی پہلی رات
اب میرا جسم آدھا ہے، آدھا نہیں رہا
۔۔۔۔
دن اگر میرا پریشانی میں گزرے محمود
ماں تسلی کے لیے خواب میں آجاتی ہے
۔۔۔۔۔۔
ایسا ذائقہ کہاں گندم کے پاس ہے
روٹی میں ماں کے ہاتھ کی شامل مٹھاس ہے
۔۔۔۔
ایک ان پڑھ ماں نے مجھ کو علم کی تحریک دی
اس حوالے سے میں میکسم گورکی پر چھا گیا
۔۔۔۔
عہدِ غفلت میں مسلسل المیے بڑھتے گئے
زندگی گھٹتی گئی اور مسئلے بڑھتے گئے
۔۔۔۔
تجسس اُس کی آنکھوں کا خدا تک لے گیا مجھ کو
کبھی سوچا تھا اُن آنکھوں میں مصرعے کس نے لکھے ہیں؟
۔۔۔۔۔
سعدی، رومی، خُسرو اور مادھو لال
ہر مجذوب کے دل میں دھڑکا اِک لڑکا
۔۔۔۔۔
مجھے تو کوئی علامت نظر نہیں آتی
بزرگ کہتے ہیں میرا وطن عروج پہ تھا
۔۔۔۔۔
حافظِ شیراز کی زندہ غزل کے پانچ شعر
تم، تمہارے ہاتھ، آنکھیں، دل کی دھڑکن اور میں
۔۔۔۔۔
ہر رنگ بھری چیز کا انجام یہی ہے
تتلی کا یہ ٹُوٹا ہوا پَر ذہن میں رکھنا


برطانوی لڑکی جو دن میں صرف دو گھنٹے جاگتی ہے

$
0
0

وہ Kleine-Levin یا سلیپنگ بیوٹی سینڈروم میں مبتلا ہے جس کے وجہ سے وہ دن میں صرف دو گھنٹے جاگتی ہے۔ یہ ایک ایسی عصبیاتی کیفیت ہے جو چند ہفتوں میں تیزی دکھاتی ہے اور ایک سے تین ہفتوں تک رہتی ہے۔ اس کیفیت میں مبتلا فرد ایک دن (چوبیس گھنٹوں) میں 22گھنٹوں تک سوتا ہے۔ اس دوران وہ کوئی کام نہیں کرسکتا۔ بیتھ جب جاگتی ہے، اس وقت اس کی کیفیت کسی بچے جیسی ہوتی ہے۔ وہ ضدی اور ہٹ دھرم دکھائی دیتی ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اس کیفیت کا سبب کیا ہے، لیکن یہ زیادہ تر نوجوانوں کو متاثر کرتی ہے جس کا کوئی علاج بھی نہیں ہے۔

ہمارے نوجوان سونے میں ماہر ہیں۔ انہیں جب بھی موقع ملتا ہے، وہ گھوڑے بیچ کر سوتے ہیں، لیکن Beth Goodierنامی بیس سالہ نوجوان لڑکی ایک ایسی کیفیت میں مبتلا ہوگئی ہے جس کی وجہ سے وہ دن کے 24گھنٹوں میں سے 22گھنٹے سوتے ہوئے گزارتی ہے۔ بیتھKleine-Levin نامی سینڈروم میں مبتلا ہے، اسے ’’سلیپنگ بیوٹی‘‘ بھی کہتے ہیں۔

بیتھ گوڈیئر کا تعلق انگلستان کے علاقےStockport, Greater Manchesteسے ہے۔ اس کیفیت نے بیتھ کی زندگی عذاب کردی ہے۔ وہ 16 سال کی عمر میںاس عصبیاتی کیفیت میں مبتلا ہوئی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اوسطاً اس کی رات 18گھنٹوں کی ہوتی ہے۔ عام طور سے بیتھ پر اس کیفیت کا حملہ ہر پانچ ہفتے بعد ہوتا ہے تو وہ ایک سے تین ہفتوں تک نیند یا غنودگی کی کیفیت میں مبتلا رہتی ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے جب اسے چوبیس گھنٹے نگرانی اور خصوصی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔

یہاں تک کہ جب وہ جاگتی ہے تو بھی اس کی حالت کسی ننھے بچے کی سی ہوتی ہے، وہ کچھ الجھی ہوئی، بے چین اور چڑچڑی دکھائی دیتی ہے۔ اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ اسے حقیقت اور خواب کے درمیان بھی کوئی اندازہ نہیں ہوپاتا۔

ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں صرف ایک ہزار کے قریب افراد اس عارضے میں مبتلا ہیں اور ان میں سے بھی 70فی صد مریض مرد ہیں اور باقی خواتین۔ اس مرض کے اسباب ابھی تک واضح نہیں ہوسکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا ہے۔ حال ہی میں بیتھ نے بی بی سی کے پروگرام ’’بریک فاسٹ‘‘ میں اپنی اس کیفیت پر بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اسے ہر پانچ ہفتوں بعد یہ کیفیت پریشان کرتی ہے، جس سے ظاہر ہے اسے سخت چڑچڑاہٹ اور بیزاری ہوتی ہے۔ اس حوالے سے بیتھ نے کہا:’’میری زندگی کا ابھی تک آدھا حصہ بستر میں سوتے ہوئے گزرا ہے۔

یہ وہ وقت ہے جب کالج یا یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد نوجوان کوئی اچھی ملازمت تلاش کرتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ آپ کیا ہیں اور کن صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ مگر Kleine-Levin سینڈروم اس اہم وقت کو آپ سے چھین لیتا ہے۔ میری زندگی تو گویا ایک جگہ ٹھہر چکی ہے۔ مجھے پتا ہی نہیں چل رہا کہ میں کون ہوں، مجھے کیا کرنا ہے۔ مجھے تو اس بیماری کی وجہ سے زندگی کے صرف چھوٹے چھوٹے ٹکڑے یاد رہ گئے ہیں اور ایسا لگ رہا ہے کہ میری زندگی کہیں جاکر کھوگئی ہے، یہ میرے پاس نہیں ہے۔‘‘

بیتھ کی ممی جینی نے اپنی بیٹی کی اس بیماری کے حوالے سے بڑے دکھی لہجے میں کہا:’’جب میری بیٹی جاگتی ہے، یعنی پوری طرح ہوش و حواس میں ہوتی ہے تو یا تو وہ بستر پر لیٹی رہتی ہے یا سوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھتی رہتی ہے۔ عام طور سے وہ پہلے سے دیکھی ہوئی چیزیں، شوز یا ڈرامے ہی بار بار دیکھتی ہے۔

اسے ان چیزوں کو دیکھنے میں زیادہ مزہ آتا ہے جن کا انجام وہ پہلے سے جانتی ہو۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس بیماری میں مبتلا افراد وقفوں کے دوران عام طور سے نارمل بھی ہوجاتے ہیں، مگر یہ لوگ اس کیفیت میں مبتلا رہنے کی وجہ سے ڈیپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بیتھ کی ممی نے اپنی بیٹی کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اپنی ملازمت چھوڑ دی ہے۔ یہ گھرانا پوری کوشش کرتا ہے کہ کسی طرح بیتھ کو اس مشکل سے نجات دلادے، اسی لیے سب لوگ اس کیفیت کے دوران باری باری بیتھ کو وقت دیتے ہیں۔‘‘

بی بی سی کی ویب سائٹ پر لکھا گیا ہے کہKleine-Levin Syndrome نے بیتھ کی زندگی کو بہت بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس بے چاری کی زندگی ایک جگہ ٹھہر کر رہ گئی ہے۔ اسے گھر سے باہر جانے نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اس کو یونی ورسٹی جانے کی اجازت ہے۔ اس کیفیت نے بیتھ کو کسی بچے کی طرح کردیا ہے، خاص طور سے جب وہ جاگ رہی ہوتی ہے تو اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگتا کہ وہ کوئی بالغ یا جوان لڑکی ہے، بلکہ وہ الجھی ہوئی اور بیزار دکھائی دیتی ہے۔ اس کی ممی جینی کو بیتھ کی نگرانی کرنی پڑتی ہے، وہی ہر لمحے اس کا خیال رکھتی ہیں۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کیفیت میں مبتلا ہونے کے دوران متاثرہ فرد کسی بچے کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اسے ذرا ذرا سی دیر میں غصہ آجاتا ہے، ایسا لگتا ہے جیسے وہ کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں ہے۔ اس بیماری کے شکار افراد بہت زیادہ کھانے لگتے ہیں، پھر بھی ان کی بھوک کم نہیں ہوتی۔

یہ بیماری زندگی کے کسی نہ کسی اہم موڑ پر حملہ آور ہوتی ہے، خاص طور سے دورِبلوغت میں یہ اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بیماری یا انفیکشن کے بعد یہ یکایک اپنی علامات ظاہر کردیتی ہے۔ اس دورے کی علامات بہت تیزی سے نمودار ہوتی ہیں اور چند روز یا چند ہفتوں کے درمیان ختم ہوجاتی ہیں۔

ابھی تک سونے والی اس بیماری یا عارضے کی کوئی مستند یا ٹھوس وجہ دریافت نہیں ہوسکی، اسی لیے اس کا علاج بھی دریافت نہیں ہوسکا البتہ اس کا علاج یہ ہے کہ متاثرہ فرد پر اس کے گھر والے خصوصی توجہ دیں اور محبت سے اس کی نگرانی کریں، اس پر نگاہ رکھیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ دس سے پندرہ سال بعد اس عارضے میں رفتہ رفتہ کمی ہونے لگتی ہے۔

بی بی سی کے ایک پروگرام میں بات کرتے ہوئے بیتھ نے کہا:’’میری خواہش ہے کہ جب میں جاگ رہی ہوں یعنی ٹھیک حالت میں ہوں تو کوئی مثبت اور تعمیری کام کروں۔ میں اس سوسائٹی کے لیے ایک مفید اور کارآمد شہری بننا چاہتی ہوں، مگر اپنی اس کیفیت کی وجہ سے سوسو کر میں تھک چکی ہوں۔ بہرحال جب تک میری بیماری کا سبب معلوم نہیں ہوتا اور اس کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوتا، اس وقت میں اس عجیب و غریب خلل کے حوالے سے شعور بیدار کرنا چاہتی ہوں۔ متعدد لوگ اور گروپ اس ضمن میں میری مدد کرنے کو تیار ہیں۔ میں ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہوں۔‘‘

KLEINE-LEVIN SYNDROME آخر ہے کیا؟
یہ ایک ایسا عصبیاتی خلل یا بگاڑ ہے جو دورِبلوغت میں شروع ہوتا ہے اور بعض کیسوں میں یہ کسی انفیکشن یا بیماری کے بعد ظہور میں آتا ہے۔ اس بیماری کی خاص باتیں یہ ہیں:
٭اس میں متاثرہ فرد بے تحاشا سوتا ہے اور ایک دن کے 24گھنٹوں میں سے 22گھنٹوں تک سوتا رہتا ہے۔
٭اس بیماری کی علامات یکایک اور بڑی تیزی سے ظاہر ہوتی ہیں اور چند روز یا چند ہفتوں بعد ختم ہوجاتی ہیں۔

٭اس تکلیف دہ کیفیت میں متاثرہ فرد کسی ضدی اور ہٹ دھرم بچے کی طرح سلوک کرتا ہے۔ وہ غصے اور چڑچڑاہٹ کا اظہار بھی کرتا ہے۔ اس کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے وہ اپنے آپے میں نہیں ہے۔
٭اس خلل میں مبتلا فرد کو بہت زیادہ بھوک لگنے لگتی ہے اور وہ ضرورت سے زیادہ کھانے لگتا ہے، لیکن پھر بھی اس کی بھوک نہیں مٹتی۔
٭اس بیماری میں مبتلا مریضوں کو دیکھا گیا کہ جب وہ نارمل کیفیت میں ہوتے ہیں تو بھی اس کے اثر سے نہیں نکل پاتے۔ یہ لوگ ڈیپریشن میں مبتلا دکھائی دیتے ہیں۔

٭دنیا بھر میں لگ بھگ 1000افراد اس خلل یا بگاڑ سے متاثر ہیں جسے عام طور سے Sleeping Beauty Syndromeکہہ کر پکارا جاتا ہے اور اس سے متاثر ہونے والے دو تہائی افراد مرد ہوتے ہیں۔
٭اس بیماری یعنی سلیپنگ بیوٹی سینڈروم کا نہ تو ابھی تک سبب دریافت کیا جاسکا ہے اور نہ ہی اس کا علاج، اس لیے اس کا واحد علاج یہ ہے کہ متاثرہ فرد کے گھر والے، اس کے چاہنے والے اس پر نظر رکھیں اور اس کی بڑی محبت اور توجہ سے دیکھ بھال کریں تاکہ ان جانے میں کہیں وہ خود کو کوئی نقصان نہ پہنچالے۔
٭ ریسرچ کے بعد ماہرین نے بتایا ہے کہ اس کیفیت کی شدت8 سے 12ہفتوں کے درمیان خود بخود کم ہوجاتی ہے۔

مٹی سے برتن بناتے بناتے خود مٹی ہو گیا

$
0
0

 کوزہ گری (مٹی کے برتن بنانا) کی صنعت دنیا کی قدیم صنعتوں میں سے ایک ہے۔ گو کہ 24 ہزار قبل از مسیح مٹی سے انسانوں اور جانوروں کی مورتیاں بنائی گئیں، 14 ہزار قبل ازمسیح انڈیا اور میسوپوٹیمیا میں مقیم لوگوں نے مٹی کی ٹائل یعنی اینٹ بھی بنائی، لیکن مٹی کے برتنوں کا باقاعدہ استعمال ایک ہزار قبل ازمسیح اس وقت ہوا جب انسان نے اپنے لئے پانی اور خوراک کو محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

یونان میں کوزہ گری کی صنعت نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی، برتنوں پر نقش و نگار بنانے کے ساتھ نت نئے ڈیزائن بھی متعارف ہوئے۔ دسویں صدی میں بغداد کوزہ گری کا ایک بڑا مرکز بن چکا تھا، جہاں برتنوں پر رنگ و روغن کے ساتھ ان میں چمک پیدا کرنے کے لئے پہلی بار مسالا بھی تیار کیا گیا، یوں رفتہ رفتہ کوزہ گری کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہو گئی۔ گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتنوں کا استعمال ہونے لگا، ٹھنڈے اور فرحت بخش پانی کے لئے گھڑے استعمال ہونے لگے، پانی پینے کے لئے مٹی کا پیالہ اور دال سبزی چولہے پر چڑھانے کے لئے مٹی کی ہنڈیا استعمال کی جاتی تھی۔

مگر آج وقت گزرنے کے ساتھ مٹی کے برتن بنانے کا فن ختم ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ دھات، پلاسٹک اور چائنا مٹی کے بڑے پیمانے پر تیار ہونے والے برتن ہیں۔ اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ختم اور نتیجتاً اس قدیم فن کو زندہ رکھنے والا فنکار (کوزہ گر) بھی مالی مسائل سے دوچار ہو چکا ہے اور اسے اپنی آئندہ نسل کو منتقل کرنے پر تیار نہیں۔ ایسے ہی کوزہ گر سے ’’ایکسپریس‘‘ نے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی روداد یہاں پیش کی جا رہی ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ کے رہائشی 55 سالہ خان محمد کا خاندان کئی پشتوں سے کوزہ گری کے پیشہ سے وابستہ ہے۔ خان محمد کے والد کا نام امیر محمد تھا اور ان کے چار بچے (تین بیٹیاں اور ایک بیٹا) تھے۔ خان محمد ابھی بچپنے کی شرارتوں میں ہی مصروف تھے کہ ان کے والد دنیا سے چل بسے تو یوں کچی عمر میں ہی گھر کی ساری ذمہ داری ان کے ناتواں کندھوں پر آن پڑی۔ اس ضمن میں بات کرتے ہوئے خان محمد نے بتایا کہ ’’ والد کی وفات کے بعد ہمارے معاشی حالات بہت خراب ہو چکے تھے، کیوں کہ گھر میں کوئی کمانے والا تھا نہ والد نے وراثت میں جائیداد چھوڑی تھی۔

لہٰذا پڑھنے کے بجائے میں نے مزدوری کو ترجیح دی۔ پھر جب میرے بچے ہوئے تو میں نے انہیں پڑھانے کی کوشش کی لیکن صبح سے لے کر رات گئے تک سر توڑ کوشش (کام) کے باوجود چند روپے کمانے والا کہاں تک ان کا ساتھ دے سکتا تھا؟ لہٰذا وہ بھی پانچویں یا آٹھویں جماعت سے آگے نہ بڑھ سکے اور آج مختلف مزدوریاں کرنے میں مصروف ہیں۔‘‘ کوزہ گری کا شعبہ اختیار کرنے کے بارے میں بتاتے ہوئے خان محمد کا کہنا تھا کہ ’’ کوزہ گری ہمارا وراثتی پیشہ ہے، میرے آباؤ اجداد کئی نسلوں سے یہ کام کرتے آ رہے ہیں۔ میں نے 15سال کی عمر میں یہ کام شروع کیا اور اسے سیکھنے میں مجھے تین سال لگ گئے اور آج یہ کام کرتے ہوئے مجھے بھی 40 سال ہو چکے ہیں۔ کوزہ گری میں میرے استاد میرے بہنوئی ہیں، کیوں کہ والد تو فوت ہو چکے تھے۔‘‘

مٹی سے برتن بنانے کے عمل کے بارے میں کوزہ گر گویا ہوا کہ ’’ جس مٹی سے برتن بنتے ہیں وہ عام مٹی نہیں ہوتی، صرف چکنی یا سرخ مٹی سے ہی برتن بنائے جاتے ہیں، گارا، ریتلی یا سخت مٹی سے برتن نہیں بن سکتے۔ یہ مٹی شہر سے تو نہیں ملتی لیکن ہمارے شہر سے باہر ماموں کانجن روڈ پر دستیاب ہوتی ہے، جسے حاصل کرنے کے لئے ہم کسی بھی ریڑھی والے کو پیسے دیتے ہیں اور وہ آگے کسی اور سے خرید کر اپنا منافع رکھتے ہوئے ہمیں گھر تک پہنچا دیتا ہے۔ ہمارے علاقے میں چوں کہ یہ آسانی سے دستیاب ہے، اس لئے اس کا ریٹ بہت زیادہ نہیں ، تین سو روپے میں مٹی کی ایک ریڑھی مل جاتی ہے۔

تاہم دیگر علاقوں میں اس مٹی کی قیمت ہزاروں روپے میں بھی ہے۔ مٹی سے برتن بنانے کے لئے سب سے پہلے اس میں پانی ڈال کر اسے آٹے کی طرح گوندھا جاتا ہے، ہاتھوں اور پاؤں سے اس قدر مٹی کو گوندھا جاتا ہے کہ پانی اچھی طرح اس میں مکس ہو جائے اور مٹی کا کوئی حصہ بھی سخت نہ رہے، اس میں کوئی کنکر یا کوئی اور چیز نہ ہو کیوں کہ ایسی صورت میں اس مٹی سے کوئی برتن نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے بعد جو برتن بھی بنانا ہے، اس کے حساب سے گوندھی ہوئی مٹی اٹھا لی جاتی ہے، بالکل روٹی کے پیڑے کی طرح کہ جیسے بڑی روٹی بنانی ہے تو بڑا پیڑا اور اگر چھوٹی بنانی ہے تو چھوٹا پیڑا بنا لیا جاتا ہے۔

برتن کا وزن ڈیمانڈ کے مطابق ہوتا ہے، اس کے لئے ہمیں مٹی کا وزن نہیں کرنا پڑتا بلکہ اندازے سے ہی بالکل برابر وزن کا برتن بنا دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ان برتنوں کو آوی (بھٹی) میں پکایا جاتا ہے۔ آوی میں پہلے زمین پر اوپلوں کی ایک تہہ لگائی جاتی ہے، پھر برتنوں پر دوبارہ کچھ اوپلوں کو توڑ کر چڑھانے کے بعد انہیں ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ بعدازاں آوی کے نیچے کی طرف سے آگ لگا دی جاتی ہے جو آہستہ آہستہ سلگتی ہوئی اوپر کی طرف چڑھتی چلی جاتی ہے اور کچھ روز بعد برتن پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم سال کے بارہ ماہ یہ کام کرتے ہیں، کبھی کبھار مال آرڈر پر بھی تیار کرتے ہیں۔ میں مٹی سے ہر قسم کا برتن یعنی گھڑا، کنڈی، کنالی، گلدان، گملا، ہانڈی اور ان کے ڈھکن وغیرہ بنا لیتا ہوں۔‘‘

ظروف سازی کی صنعت اور آمدن کے بارے میں خان محمد کا کہنا تھا کہ ’’ دیکھیں جی! آج ہمارے گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، جس کی وجہ سے آمدن بہت کم ہو چکی ہے۔ مٹی سے بنے برتنوں میں اب صرف گھڑے اور گملے کا استعمال باقی رہ گیا ہے۔ گھروں اور نرسریوں میں پودوں کے لئے گملے استعمال ہو رہے ہیں اور لوڈشیڈنگ کے باعث گھروں میں فریج نہ چلنے کے باعث لوگ ٹھنڈے پانی کے لئے گھڑوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہانڈی بھی کسی حد تک استعمال ہوتی ہے لیکن وہ گجرات جیسے علاقوں کی مخصوص ہوتی ہے، ہمارے علاقے میں تو اس کا مکمل طور پر رواج ختم ہو چکا ہے۔

آمدن کی بات کریں تو پہلے زمانے میں مہنگائی نہیں تھی اور برتنوں کی فروخت بھی زیادہ تھی، اس لئے آمدن اچھی خاصی ہو جاتی تھی، لیکن آج کے دور میں مہنگائی بہت زیادہ جبکہ کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ آج میری ماہانہ آمدن صرف 8 سے 9 ہزار بنتی ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ان پیسوں میں بجلی، پانی اور گیس وغیرہ کے بل دوں یا اپنا اور اپنے خاندان کے پیٹ کا دوزخ بھروں؟ دکاندار حضرات ہم سے ایک گھڑا 35 سے 40 روپے کے درمیان خرید کر بازار میں 60 سے 100 روپے کا فروخت کرتا ہے اور بعض اوقات دکاندار اس سے بھی کہیں زیادہ پیسے کماتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے پاس چھوٹے پنیری والے گملے کی قیمت پانچ اور ڈیزاننگ والے کی 40 روپے ہے لیکن دکاندار اسے بہت زیادہ مہنگا فروخت کرتے ہیں۔ اچھا یہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ہمارے ساتھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ برتن بنا کر آوی میں لگا دیئے تو اچانک بارش آ گئی، جس سے سارا مال خراب ہو جاتا ہے، پھر آگ زیادہ یا کم ہو جائے تب بھی برتن تباہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ بارش کی صورت میں اس آوی کو سنبھال لیا جائے۔ یوں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس نقصان کا خمیازہ ہمیں کئی کئی مہینوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘

کوزہ گری کی وجہ سے ہونے والے جسمانی نقصان کا بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ بیماری یا تندرستی تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، کام کرنے کی عادت بن چکی ہے۔ صبح سے لے کر شام تک پاؤں کے ذریعے چاک کو گھما کر ہاتھوں سے برتن بناتے ہیں لیکن مٹی سے برتن بناتے بناتے آج میرا جسم قبر میں جانے سے پہلے ہی مٹی بن چکا ہے، جسم کے تمام جوڑ کمزور ہو چکے ہیں، جن کی وجہ سے ان میں ہر وقت درد اور تکلیف محسوس ہوتی ہے۔

اب آپ اگر میرا یہ بازو پکڑ لیں تو میں اسے ہلا تک نہیں سکتا چھڑوانا تو بہت دور کی بات ہے۔ جب تک کچھ نہ کچھ کام کر سکتا ہوں تب تک روٹی مل رہی ہے اور جس دن ہاتھ پاؤں مکمل طور پر جواب دے گئے تو پھر اللہ ہی جانتا ہے میرے ساتھ کیا ہوگا کیوں کہ اولاد کی مرضی ہے وہ ہمیں روٹی دے یا نہ دے۔ لیکن میرا اللہ گواہ ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو ہمیشہ حلال رزق کما کر کھلایا اور یہی وجہ ہے کہ میری اولاد فرماں برداراور نیک ہے۔‘‘ اپنی کسمپرسی پر حکومت اور حکمرانوں سے مایوس کوزہ گر نے کہا کہ ’’ حکومت سے کیا شکوہ کریں، کیوں کہ یہاں ہماری کوئی سنتا ہی نہیں۔

کسی حکمران نے آج تک کبھی پوچھا ہی نہیں کہ ہم پر کیا بیت رہی ہے؟ کوزہ گر کی چھوڑیں انہیں کوزہ گری کی فکر نہیں، جو صرف گھریلو ضروریات ہی پوری نہیں کرتی بلکہ ہماری ثقافت کا بھی اہم حصہ ہے۔ آج کوزہ گری اور کوزہ گر دونوں بدحالی کا شکار ہو کر مٹتے جا رہے ہیں لیکن کوئی اس طرف دھیان دینے کو تیار نہیں۔ میں آپ کو بتا دوں یہ ہنر اس وقت تک زندہ ہے جب تک ہمارے جیسے پرانے لوگ زندہ ہیں، میرے خیال میں یہ کام اب میرے جیسی آخری نسل کے ہاتھوں میں ہے، کیوں کہ محنت زیادہ اور آمدن نہ ہونے کے برابر ہونے کے باعث آئندہ آنے والی نسل اس سے نابلد ہے۔ میں نے خود یہ کام سکھانے کے بجائے اپنے ایک بیٹے کو فرنیچر، دوسرے کو بجلی، تیسرے کو درزی کا کام سکھایا جبکہ میرا چوتھا بیٹا ریڑھی چلاتا ہے۔‘‘

انسان ہونے کے ناطے مَن میں ابھرنے والی خواہشات کا ذکر کرتے ہوئے کوزہ گر کا کہنا تھا کہ ’’ زندگی میں خواہشات تو بہت ساری پالیں، لیکن وقت اور گھریلو حالات نے کبھی انہیں پورا کرنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا اور یونہی سلگتے سلگتے زندگی ختم ہونے کو ہے۔ بچپن اور لڑکپن کی خواہشات کو تو میں اب بھول بھی گیا ہوں تاہم اب زندگی کی آخری خواہش سوہنے (اللہ تعالیٰ) کا گھر دیکھنے کی ہے۔ میں حج کرنا چاہتا ہوں اور اپنے مالک سے دعا بھی کرتا ہوں کہ اب کی بار مرنے سے پہلے میری یہ خواہش وہ ضرور پوری فرما دے۔ اور اگر یہ خواہش پوری ہو گئی تو پھر باقی کسی خواہش کے پورے نہ ہونے کا کوئی غم نہیں رہے گا۔‘‘

زخمیوں کی مدد گار رکشے والی…

$
0
0

سنیتا چوہدری 14 برس کی عمر میں اپنے سے دگنے عمر کے مرد کے ساتھ بیاہی گئیں۔۔۔ سسرال میں انہیں نہایت خطرناک تشدد کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’میرے سسرالیوں کو شکایت تھی کہ میں بہت کم جہیز لے کر آئی ہوں۔ وہ میرے والدین سے جہیز میں گاڑی کی توقع رکھتے تھے۔‘‘

تشدد کا یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا۔ ایک دن ان کے شوہر اپنے دوستوں کے ہمراہ آگرہ گئے اور ایک ویران راستے میں انہیں اتار کر ان پر چھڑیوں اور کانٹے دار شاخوں سے شدید تشدد کیا۔ سنیتا کے بقول، وہ انہیں زندہ دفن کر دینا چاہتے تھے، لیکن ان کی قسمت اچھی تھی کہ وہ زخمی حالت میں جان بچا کر نکلنے میں کام یاب ہو گئیں، لیکن ابھی ان کی دکھ کی گھڑیاں تمام نہ ہوئی تھیں۔ ان کے اپنے گھر والوں نے انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ ان کے ہاں یہ رِیت ہے کہ جب عورت اپنے سسرال چلی جاتی ہے، تو پھر اسے کندھوں پر ہی واپس آنا چاہیے۔ اس لیے اب ایک بہت کٹھن زندگی ان کی منتظر تھی۔۔۔

اسی دوران ان کے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 15 برس تھی۔ نومولود بیٹا کافی بیمار رہا اور فقط آٹھ ماہ کی عمر میں ہی چل بسا۔ دنیا کی ستائی سنیتا پر ایک اور افتاد ٹوٹ پڑی، بقول ان کے کہ انہیں ایسا محسوس ہوا کہ بیٹے کے ساتھ ان کی زندگی بھی ختم ہو گئی ہے۔۔۔ لاچارگی کی اس گھڑی کے کسی لمحے ان کے ذہن میں انصاف کے حصول کی جدوجہد کا خیال آیا اور یوں تن تنہا ایک عدالتی جنگ کا آغاز کرتی ہیں۔۔۔ شوہر اور سسرالیوں کے خلاف عدالت میں ایک عرضی داخل کرا دی جاتی ہے، ان کا خاندان بدستور ان کی کسی بھی مدد سے گریزاں رہا۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے والدین کی خبر گیری نہ چھوڑی۔ مقدمے کے دوران سسرالیوں کی جانب سے ان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی، اس لیے انہوں نے گائوں چھوڑ دیا اور دلی چلی آئیں۔

ایک طرف زندگی کی گاڑی آگے دھکیلنی ہے، تو دوسری طرف  مقدمے کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہیں۔۔۔ کبھی گھروں میں کام کیا، تو کبھی فیکٹریوں کی مشقت جھیلی۔ عدالتی کارروائیوں کی وجہ سے ان کے کام کا حرج ہوتا، نتیجتاً تنگ دستی سے نبرد آزما ہونا پڑا۔۔۔ یوں انہیں خیال سوجھتا ہے کہ کیوں نہ رکشا چلا کر آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جائے۔ اس کے ذریعے  وہ زیادہ سہولت اور آزادی سے اپنے اخراجات پورے کرنے کے قابل ہوسکتی ہیں۔

یہ تقریباً دس برس پرانی بات ہے۔ جب کسی عورت کا یوں پبلک ٹرانسپورٹ چلانا اور بھی اچنبھے کی بات تھی۔ آج بھی ہندوستان میں خواتین ٹیکسیاں چلاتی تو نظر آجاتی ہیں، لیکن ایک رکشا چلاتی خاتون شاذ ونادر ہی دکھائی دیتی ہوگی۔ سنیتا چوہدری کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ آج بھی دلی شہر کے ہزاروں مرد ڈرائیوروں کے درمیان واحد خاتون رکشا ڈرائیور ہیں، مگر جب انہوں نے عام ڈگر کے برخلاف چلتے ہوئے اس کام کی ٹھانی، مگر انہیں تو کوئی کرائے پر گاڑی دینے کے لیے تیار تھا۔۔۔ نہ ہی کچھ ادھار دینے پر رضا مند کہ کسی طرح اپنے رکشے کا بندوبست کر سکیں۔

ادھر مقدمے کی کارروائی نے نیا رخ لیا، مقدمہ دلی سے ہریانہ منتقل کر دیا گیا۔۔۔ چاروناچار سنیتا بھی ہریانہ چلی آئیں۔۔۔ ساتھ ہی بھارتی صدر اور وزیراعظم کو اپنی مددکے لیے خط لکھا۔۔۔ دلی کی وزیراعلیٰ شیلا ڈکشٹ کے نام لکھی گئی عرضی کام آئی اور انہیں نرم شرائط پر قرض مل جاتا ہے، یوں سنیتا رکشا چلا کر زندگی کی کٹھنائیوں سے لڑتی ہیں اور دھیرے دھیرے قرض ادا کر کے  بالآخر وہ اپنے رکشے کی مالک بن جاتی ہیں۔

دوسری طرف 12 برس کی صبر آزما  جدوجہد کے بعد سنیتا چوہدری، شوہر اور سسرالیوں کے خلاف دائر مقدمے  میں بھی کام یابی حاصل کرتی ہیں۔ عدالتی حکم کے مطابق ان کے شوہر کو زندان بھیج دیا جاتا ہے، ساتھ ان کے اخراجات پورے کرنے کی ذمہ داری بھی اس پر عائد کی جاتی ہے۔ مقدمے کے دوران سسرالیوں کی جانب سے رشوت کے ذریعے مقدمے کی کارروائی پر اثر انداز ہونے کی کوششیں بھی ناکامی سے دوچار ہوتی ہیں۔

35 سالہ سنیتا چوہدری اب محض ایک رکشا ڈرائیور نہیں، بلکہ دلی میں حقوق نسواں کی بھی ایک بڑی کارکن بھی بن چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’زندگی بہت کٹھن ہی کیوں نہ ہو، یہ جینے کے ڈھنگ سکھا ہی دیتی ہے۔‘‘

انہیں اس دلی شہر میں رکشا چلاتے ہوئے 10 برس ہو چکے ہیں، جسے خواتین کے سفر کے حوالے سے دنیا کا چوتھا خطرناک ترین شہر قرار دیا گیا ہے۔ سنیتا کہتی ہیں کہ خواتین کے لیے یہ نچلی سطح کی ملازمت تصور کی جاتی ہے اور یقیناً خواتین کے لیے یہ کوئی سود مند اور مناسب کام نہیں، کیوں کہ دیگر سواریوں کی بہ نسبت زیادہ غیر محفوظ ہے۔۔۔ اس میں دروازے بھی نہیں۔ یہ ایک پُر خطر کام ہے۔

یہاں اچھے برے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں اور ہمیں انہیں سوار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے باوجود اب رکشا چلانا گویا سنیتا کا عشق بن چکا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’اگر کوئی مجھے بھاری رقم کے عوض بھی یہ کام چھوڑنے کے لیے کہے، تب بھی میں یہ نہیں چھوڑوں گی، کیوں کہ میرے اس رکشے کے پیچھے میری ایک جدوجہد کار فرما ہے اور مجھے اپنے رکشے سے بہت محبت ہے۔‘‘

سنیتا چوہدری اپنا اکثر وقت اور وسائل دوسروں کی ہر ممکن حد تک مدد کرنے میں صرف کرتی ہیں۔ وہ دلی پولیس کی تربیت یافتہ شہری دفاع کی فورس کا حصہ ہیں،  جو آتش زدگی اور گاڑیوں کے مختلف حادثات کے موقع پر متاثرین کی مدد کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے رکشے کے پچھلی طرف لکھوا رکھا ہے:

’’زندگی ایک جدوجہد ہے۔۔۔ یہ حادثے میں زخمی ہونے والوں کے لیے بلا معاوضہ سواری ہے۔‘‘

سنیتا چوہدری سیاسی عزائم بھی رکھتی ہیں۔ بقول ان کے کہ اگر آپ کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہوں، تو آپ زیادہ سے زیادہ لوگوں کے کام آسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دو بار لوک سبھا (ایوان زیریں) کے انتخابی دنگل میں اترنے کا تجربہ بھی کر چکی ہیں۔ اگرچہ 2014ء کے  انتخابات میں انہیں محض 600 رائے دہندگان کا اعتماد حاصل ہو سکا، جب کہ 2009ء کے چنائو میں انہوں نے  ڈیڑھ ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔

دوبارہ شادی کرنے کا خیال سنیتا کو ان کے تلخ ماضی کے کچوکے لگاتا ہے۔ تاہم وہ کہتی ہیں ’’میں صرف اسی شخص سے شادی کروں گی جو میرے کام سے محبت کرتا ہوگا۔‘‘

پسندیدگی، مخفی صلاحیتوں کی علامت

$
0
0

کہتے ہیں کہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی پوشیدہ صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ بچوں کی تربیت کرتے وقت والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچے کے میلان کے مطابق اس کی پرورش کریں۔

بچے پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے بہ جائے اس کے رحجان دیکھتے ہوئے اسے اپنی مرضی کی رائے چننے کا حق دیں، تاہم اسے صحیح اورغلط کی پہچان ضرور کرائیں۔ بچوں کی مخفی صلاحیتوں کو ابھارنے کی شروعات سے ہی کوشش کی جائے، تو بچہ ایک کام یاب، خود اعتماد اور خود مختار شخصیت کے روپ میں سامنے آتا ہے۔

٭ بچوں کی جسمانی اور ذہنی سرگرمیوں کا آغاز عموماً کھلونوں کی دنیا سے ہوتا ہے۔ بچے کن اقسام، سائز اور شکل و حجم کے کھلونوں کی طرف راغب ہوتا ہے۔ بطور والدین آپ کو چاہیے کہ اس چیز کا بغور مشاہدہ کریں۔ جب بچہ تین سال کا ہو جائے، تو اسے بلاکس  وغیرہ لا کر دیں۔ اسے بازار لے کے جائیں اور دیکھیں کہ وہ کس قسم کے کھلونوں میں دل چسپی لے رہا ہے۔ بچوں کے سامنے نمونے کے طور پر کچھ تصویریں اور اشیا رکھ سکتے ہیں کہ وہ ان میں سے اپنی پسند کی اشیا بلاکس اورپلے وڈکی مدد سے بنائے۔

٭ مطالعے کی عادت گو کہ اب ہم میں مقفود ہوتی جا رہی ہے، تاہم بچوں کا مشاہدہ اور ان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لیے انہیں سنانا اور پھر اس سے متعلق سوالات پوچھنا یا ادھوری کہانی سناکر ممکنہ اختتام پوچھنا بڑا ہی معاون عمل ثابت ہو سکتا ہے۔ کتابوں کو پڑھنے سے بچہ الفاظ کی پہچان بھی جلد ہی کرلیتا ہے۔

٭ مختلف اشکال بنانا اور رنگ بھرنا بچوں کا پسندیدہ مشغلہ ہوتا ہے۔ مثلاً اگر آپ انھیں ایک پھل یا سبزی کو دکھاکر ہٹا دیں اور پھر اس کی تصویر بنا کر دیں اور اس میں اس کا اصل رنگ بھرنے کو کہیں اور اگر بچہ ڈرائنگ کر سکتا ہو، تو اسے مختلف چیزیں جو اطراف میں موجود ہوں بنانے کو کہیں یہ عمل بچوں کی تخلیقی صلاحیتوں کو ابھارنے میں مدد دے گا۔

٭ دو، تین سال کی عمر کے بچوں کے لیے بازارمیں مختلف قسم کی چیزیں دست یاب ہیں، جو دراصل انہیں دل چسپ انداز میں سکھانے کا ذریعہ ہوتی ہیں۔ جس میں ایبکس، تعلیمی تاش اور اس نوع کے دیگر کھیل شامل ہیں، جس میں دل چسپی اور کارکردگی کے ذریعے  بچے کے رجحان کو بہ آسانی جانچا جا سکتا ہے۔

نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعداد کا حامل پاکستان مگر۔۔۔

$
0
0

’’ نوجوان ہمارا مستقبل ۔۔۔ نوجوان ہمارا اثاثہ‘‘یہ اقرار پاکستان کی قومی یوتھ پالیسی کی دستاویز کا حرف ِآغازہے۔ بے شک کوئی بھی ذی شعورا س حر ف ِآغاز کی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی عمر کی حامل دنیا کی آبادی میں نوجوان ہر ملک کی ترقی کا اثاثہ ہیں۔

نوجوان جو کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڈھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی ملک میں زیادہ تعداد افرادی قوت کی بے مثل صورت میں ترقی کے پہیہ کو رواں دواں رکھتی ہے۔ ان کا زیادہ پڑھا لکھا اور فنی تعلیم وتربیت کا حامل ہونا مسابقت کے اس دور میں ملک کو کہیں اونچا مقام مہیا کرتا ہے۔ اسی لئے تو دنیا بھر میں نوجوانوں کی صلاحیتوں سے بہتر استفادہ کی ہر ممکن سعی کی جاتی ہے۔ اور ایسی پالیسیوں کی تشکیل اور اقدامات کا سہارا لیا جاتا ہے جو نوجوانوں کے لئے زیادہ سے زیادہ تعمیری احساسِ شرکت کا باعث بنیں ۔ چاہے صنعت وحرفت، زراعت و لائیوسٹاک ، صحت وتعلیم، روزگار، سائنس و ٹیکنالوجی ، امن اور سیاست کا شعبہ ہو ان سب میں نوجوانوں کی عملی شرکت کو یقینی بنانے پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔

پاکستان کے لئے نوجوانوں کے اس اثاثہ کی اہمیت اور بھی دوچند ہے کیونکہ اس وقت دنیامیں نوجوانوں کی پانچویں بڑی تعدادکے حامل ملک کا نام پاکستان ہے۔ اقوام متحدہ 15 سے24 سال کے Age Group  کو بین الاقوامی طور پر نوجوانوں کی آبادی کا گروپ قرار دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group  15  سے 29 سال کو نوجوانوںکی آبادی کا گروپ تصور کرتا ہے۔

Age Group  چاہے کوئی بھی ہو پاکستان کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہے کہ وہ دنیا میں نوجوانوں کے دونوں Age Groups کے حوالے سے پانچویں بڑی تعداد کا مالک ملک ہے۔ اس کے علاوہ ملکی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کے تناسب کے حوالے سے پاکستان اقوام متحدہ کی مقرر کردہ Age Group کے مطابق دنیا میں 15 ویں نمبر پر ہے اور ملک کی 21.5  فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جبکہ دولتِ مشترکہ کی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی مجموعی آبادی میں نوجوانوں کی آبادی کا تناسب 30.7 فیصد ہے اور پاکستان اس تناسب کے حوالے سے دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر ہے۔

لیکن ملک میں نوجوانوں کی تعداد اور آبادی میں اُن کے تناسب کے حوالے سے اکثر حقیقت کے برعکس اعدادوشمار کا سہارا لیا جاتا ہے اور کہنے والے بڑی آسانی سے ملک کی آدھی آبادی یا کبھی تو اُس سے بھی زائد کو نوجوانوں کی آبادی قرار دے دیتے ہیں۔ یا پھر نوجوانوں کے Age Group کا تعین اپنے طور پر کرکے اُن کی آبادی میں رود و بدل کرتے رہتے ہیں اور اکثر ایسا ان فورمز پر بھی دیکھنے میں آتا ہے جہاں اس طرح کی غلطی کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس سلسلے میں نوجوانوں کے Age Group  کی بین الاقوامی طور پر متعین شدہ اقوامِ متحدہ یادولتِ مشترکہ کی حدکا استعمال اور مستند حوالہ جات کا استعمال اس غلطی کے امکان کو ختم کر دیتے ہیں۔

اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم پاکستان میں نوجوانوں کی حقیقی آبادی کا تعین کریں تو یو ایس سینسز بیوروکے انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے مطابق 30 جون 2014 ء تک پاکستان میں نوجوانوں کی تعداد اقوامِ متحدہ کے طے شدہ Age Group کے مطابق 42.26 ملین اور دولت ِمشترکہ کے متعین کردہ نوجوانوں کے Age Group کے مطابق 60.13 ملین ہے۔ ا س وقت دنیا میں 15سے24 سال کی عمر کے نوجوانوں کا 3.54 فیصد اور15 سے29 سال کی عمر کے نوجوانوں کی کل تعداد کا 3.38 فیصد پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔

اور اگر ہم خطے کی صورتحال کا جائزہ لیں تو جنوب ایشیاء جہاں نوجوانوں (15-24) کی عالمی تعداد کا 26.43 فیصد موجود ہے۔ اس خطے کے 8 ممالک کے نوجوانوں (15-24)کی کل تعداد کا 13.41 فیصد پاکستانی نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان ، بھارت ، پاکستان،مالدیپ، نیپال اورسری لنکا میںدنیا بھر کے ( 15 سے29 ) نوجوانوں کا 25.64 فیصد آباد ہے اور پاکستان میں سارک ممالک کے مذکورہ نوجوانوں کی کل آبادی کا 13.20فیصد موجود ہے۔

ملک کی آبادی کا تبدیل ہوتا ہوا یہ Demographic Profile اس بات کا متقاضی ہے کہ نوجوانوں کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے اور اُن کی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ کے لئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جائیں۔ لیکن ماضی قریب تک اس اثاثہ سے فیض یاب ہونے سے کسی حد تک چشم پوشی اختیار کی جاتی رہی۔ لیکن جیسے ہی ملک میں ووٹر کی کم ازکم عمر کو 18 سال کیا گیا۔ ملک کے سیاسی منظر نامے میں نوجوانوں نے یکدم اہمیت حاصل کرنا شروع کردی۔

نوجوانوں کی ترقی کے حوالے سے اقدامات اور پالیسیاں ملک کی سیاسی جماعتوں کے منشوروں میں ماضی کے مقابلے میں زیادہ جگہ پانے لگیں۔ حکومتی سطح پر نوجوانوں کے لئے زیادہ اقدامات ہونے شروع ہوئے۔ دسمبر2008 ء میں پاکستان کی قومی یوتھ پالیسی سامنے آئی۔ نوجوانوں کے لئے انٹرن شپ پروگرام کا آغاز، سکلز ڈویلپمنٹ پروگرامز، لیپ ٹاپ سکیم، صوبوں کی سطح پر یوتھ فیسٹیول اور اب وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ اور اُن میں اضافہ کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا آغازِ سفر ہے۔ کیونکہ ملک کی اکثر سیاسی جماعتوں نے اس حقیقت کا جلد ہی ادرا ک کرلیا ہے کہ اب نوجوان ووٹرز ہی اقتدار کے ایوانوں تک اُن کی رسائی میں اہم کردار ادا کریں گے۔

اور 2013 ء کے عام انتخابات کے لئے استعمال ہونے والی ووٹرز کی فہرستیں(Electoral Rolls ) بھی اس حقیقت کی تائید کررہی ہیں۔ ان فائنل فہرستوں کے مطابق ملک میں17.5 ملین رجسٹرڈ ووٹرز 18 سے 25 سال کی عمر کے گروپ پر مشتمل تھے۔ یعنی پاکستان بھر کے رجسٹرڈ ووٹرز کا 20.35 فیصد 18 سے 25 سال کے Age Group کے حامل ووٹرز پر مشتمل تھا۔ جن کے ووٹوں کی بنیاد پر قومی اسمبلی کی تقریباً 20 فیصد نشستیں جیتی جا سکتی ہیں۔ اور اگر ہم ایک پل کے لئے دولت مشترکہ کے نوجوانوں کے Age Bracket  کو 29 کی بجائے 30 سال تک محیط کرلیں تو پھر پاکستان کی قومی اسمبلی کی تقریباً ایک تہائی نشستیں صرف عمر کے اس گروپ یعنی 18 سے30 سال تک کے ووٹرز کے ووٹوں کے بل پر حاصل کی جاسکتی ہیں۔

کیونکہ 2013 ء کے انتخابات کے وقت ملک کے رجسٹرڈ ووٹرز کا 35 فیصد 18 سے 30 سال کی عمر کے حامل ووٹرز پر مشتمل تھا۔ NADRA Electoral Rolls Booklet 2012 کے مطابق 2013 ء کے عام انتخابات کے موقع پر صوبہ پنجاب نوجوان ووٹرز کے حوالے سے خصوصی اہمیت کا حامل رہا۔ جہاں پاکستان بھر کے رجسٹرڈ نوجوان ووٹرز کا 56 فیصد موجود تھا۔ اس کے بعد 22 فیصد نوجوان ووٹرز کا تعلق سندھ، 15 فیصد کا خیبر پختونخوا سے، 4 فیصد بلو چستان سے، 2 فیصد فاٹا اور ایک فیصدرجسٹرڈ نوجوان ووٹرز کا تعلق اسلام آباد سے تھا۔

2013ء کے عام انتخابات کی ووٹر فہرستوں میں ملک کے18 سے 25 سال کی عمر کے تقریباً 55 فیصد نوجوانوں اور18 سے 30 سال کی عمر کے تقریباً 62 فیصد نوجوانوں کی بطور ووٹر رجسٹریشن موجود تھی۔ جس نے سیاسی میدان میں ہل چل پیدا کردی اور ذرا سوچئے! اگر یہ اندراج 100 فیصد کے لگ بھگ ہو جائے اور نوجوان اپنے حق ِ رائے دہی کا مکمل استعمال کریں تو پھر ملک کی کوئی بھی سیاسی قوت نوجوانوں کو مطمئن کئے بغیر اقتدار کے ایوانوں تک واضح اکثریت میں نہیں پہنچ پائے گی۔

نوجوانوں کا ووٹنگ لسٹوں میں100 فیصد اندراج اور انھیں اپنے حقِ رائے دہی کے استعمال کے لئے قائل کرنے کے سلسلے میں الیکشن کمشن آف پاکستان، سیاسی جماعتوں، سول سوسائٹی اور میڈیا کو اپنا بھرپور کردار ایک الیکشن سے دوسرے الیکشن تک متواتر جاری رکھنا ہوگا۔ تاکہ انتخابی عمل میں نوجوانوں کی بطور نمائندہ اور ووٹر دونوں طرح سے شرکت بہتر قیادت کو سامنے لانے کے حوالے سے اپنا اہم کردار پوری طرح ادا کر سکے۔

پاکستان جہاں اس وقت یوایس سینسز بیورو انٹرنیشنل ڈیٹا بیس کے اعدادو شمار کے تجزیہ کے مطابق ہر پانچویں فرد کی عمر 15 سے24 سال اور ہر چوتھا فرد 15 سے29 سال کی عمر کا حامل ہے، اپنی سیاسی اور Human Capital اہمیت کے باوجود ملک کے نوجوان ابھی بھی گونا گوں مسائل کا شکار ہیں ۔ پاکستان اپنی افرادی قوت کے اس اثاثہ کو معاشی اثاثوں میں بدلنے کامتمنی تو ہے ہی لیکن ابھی اسے نوجوانوں کی فلاح وبہبود کے حوالے سے بہت سفر طے کرنا ہے اوریہ سفر سماج سے معاش تک پھیلا ہوا ہے۔

سماجی ناہمواریاں، دہشت گردی، امن وامان کی ابتر صورتحال، توانائی کا بحران، انسانی حقوق کی پامالی،مفت اور معیاری تعلیم کے مواقعوں کی کمی، کرئیر کونسلنگ کا نہ ہونا اور سب سے بڑھ کر نوجوانوں کی رائے کو اہمیت نہ دینے جیسے عوامل نوجوانوں کے سماجی سطح پر مسائل کا پیش خیمہ بن رہے ہیں جو آگے چل کر نوجوانوں کے معاشی مسائل پر منتج ہو رہے ہیں اور اُن کے لئے روزگار کے مواقع محدود اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہو رہے ہیں۔کیونکہ لیبر مارکیٹ میں کامیابی سے داخل ہونے کے لئے نوجوانوں کی تعلیم اور ٹریننگ بہت ضروری ہے۔ جبکہ پاکستان میں یونیسیف کی رپورٹ دی اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2014 کے مطابق 15 سے24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں خواندگی کی شرح لڑکوں میں79 فیصد اور لڑکیوں میں 61 فیصد ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عالمی ادارہ محنت کی گلوبل ایمپلائیمنٹ ٹرینڈز فار یوتھ 2012 نامی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 66.4 فیصد نوجوان خواتین اور 10.9 فیصد نوجوان مرد نہ توروزگار سے وابستہ ہیں اور نہ ہی تعلیم یا ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں جب آپ کے نوجوانوں کے48 فیصد حصہ پر مشتمل نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد ناخواندہ اور فنی تربیت سے نا آشنا ہوگی تو پھر آبادی کے اس بڑے حصے کو معاشی بہتری کے لیے استعمال کرنا کیوں کر ممکن ہوگا؟ دوسری طرف ملک میں توانائی کا بحران روزگار کے مواقعوں کو مجموعی طور پر محدود اور غیر یقینی صورتحال کا شکار بنائے ہوئے ہے۔

جس کی وجہ سے نوجوانوں کی نمایاں تعداد بے روزگار ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام یو این ڈی پی کی ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ 2014   کے مطابق’’ پاکستان میں 15 سے24 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 7.7 فیصد ہے‘‘۔ یہ امر قابل تشویش ہے کہ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد کم پیداواری، عارضی اور اس طرح کے دیگر کاموں/ نوکریوں میں Trap ہے جو اُن کی توقعات کو پورا نہیں کرتیں اور اُن کے لئے ایسے مواقع پیدا نہیں کرتے جو انھیں زیادہ اچھی، مستقل اور زیادہ اجرت کی حامل پوزیشنز دلاسکیں۔

اس کے علاوہ ملک میں نوجوانوں کے لئے مناسب روزگار کے مواقعوں کی کمی کے بہت سے منفی نتائج سٹریٹ کرائمز، چوریوں، اغواء برائے تاوان ، دہشت گردی ، تخریب کاری اور منشیات کے استعمال  اور فروخت کے واقعات کی صورت میںآج ہم ان کا سامناکر رہے ہیں۔اس لئے بہتر مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے نوجوانوں کی دیہات سے شہروں اور ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی کا عمل جاری ہے۔ جسے ہم Brain Drain کی اصطلاح کے استعمال سے یاد کرتے ہیں۔

یہ Brain Drain دیہات سے چھوٹے شہروں اور پھر بڑے شہروں اور دیگر ممالک میں منتقلی کی صورت میں موجود ہے۔ جس کی کچھ جھلک نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز اسلام آباد کے ان اعدادوشمار کے تجزیہ سے نظر آتی ہے کہ اس وقت پاکستان کے 15 سے24 سال کی عمر کے نوجونواں کا 37.66 فیصد شہروں میں آباد ہے۔ 1998ء میںیہ تناسب30.47 فیصد ہوا کرتا تھا۔ 1998ء سے 2014ء تک ملک کے شہروں میں 15 سے 24 سال کے نوجوانوں کی تعداد میں 62.87 فیصد اضافہ ہوا جبکہ اسی عرصہ کے دوران ملک کے دیہی علاقوں میں نوجوانوں کی آبادی میں18.14 فیصد اضافہ ہوا۔

ملک میں نوجوانوں کا ایک اور توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ملک میں موجود نوجوانوں کی تقریباً آدھی تعداد پر مشتمل لڑکیوں کے حوالے سے ہمارے معاشرتی رویئے بھی قابل توجہ ہیں۔ انھیں آگے بڑھنے کے کم مواقع مہیا کرنا اور ایسا کرنے کی بنیاد ان کی شادی کو بنانا ہمارا ایک عمومی طرزعمل بن چکا ہے۔کیونکہ کافی قابل اور لائق بچیوں کی شادی کم عمری میں ہی کر دی جاتی ہے اور پھرکم عمری میں ماں بننا بچیوں کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کے ساتھ ساتھ اُن کی جسمانی اور ذہنی صحت کو متاثر کرتا ہے۔

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے مطابق پاکستان میںاس وقت 15 سے 19 سال کی لڑکیوں کا 14 فیصد شادی کے بندھن میں بندھ چکا ہے۔ جبکہ 20 سے 24 سال کی عمر کی لڑکیوں کا 49 فیصد شادی شدہ ہے اور 15 سے 19 سال کی 5.4 فیصد شادی شدہ خواتین پہلے بچے کی ماں بن چکی ہیں جبکہ 2.5 فیصد اپنے پہلے حمل سے ہیں۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ حمل اور زچگی سے وابستہ پیچیدگیاں دنیا بھر میں 15 سے 19 سال کی لڑکیوں کی اموات کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ پاکستان میں اس کی شدت کا اندازہ پاکستان ڈیمو گرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2006-07 کے ان حقائق سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک میں20 سال سے کم عمر مائوں میں زچگی کے دوران شرح اموات 242 فی لاکھ کیسز ہے۔ اور یہ سب کیوں نہ ہو جب ملک میں 20 سال سے کم عمر مائوں کے 51 فیصد زچگی کے کیسز گھروں پر ہی ہوتے ہوں اوراُن کے 37.1 فیصد کیسز روایتی دائیاں کریںتو پھر سب کچھ ممکن ہے۔

ملک میں نوجوانوں کے معاشی مسائل کو حل کرنے اورمعیاری تعلیمی سہولیات تک اُن کی رسائی کو یقینی بنانے کے حوالے سے وزیر اعظم یوتھ پروگرام کے ذریعے کو ششوں کا آغاز کیا گیا ہے۔ لیکن قومی، صوبائی اور مقامی ترقی کے عمل میں نوجوانوں کی رائے کو شامل کرنے جیسے اقدامات پر ابھی کام ہونا باقی ہے۔ اس حوالے سے قومی یوتھ پالیسی میں وزیر اعظم کی سربراہی میں نیشنل یوتھ کونسل کے علاوہ سنٹرل یوتھ کونسل اور سٹی یوتھ کونسل کے قیام کا ذکر تو موجود ہے لیکن ابھی ان کی کوئی ظاہری صورت سامنے نہیں آئی۔ اگرچہ یوتھ پارلیمنٹ کی صورت میں ملک میں نوجوانوں کا ایک فورم موجود ہے۔ لیکن اس فورم کو قومی فیصلہ سازی کے عمل کے ساتھ جوڑنے کی ضرورت ہے تاکہ قومی اور علاقائی امورمیں نو جوانوں کی رائے کو بھی شامل کیا جا سکے۔

ان سماجی اور معاشی مسائل کی موجودگی میں اور بہتر و پرسکون زندگی کا خواب آج پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت کو بیرونِ ملک قسمت آزمائی کی ترغیب دے رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں مقامی علاقوں اور ملکی سطح پر Human Capital Flight  یعنی Brain Drain  کا عمل جاری ہے۔ اگرچہ نوجوانوں کی ہجرت کے معاشرے پر مثبت اور منفی دونوں طرح کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن ہمیں ملک کے وسع تر مفاد میں اپنے Brainکو ملک سے  Drain ہونے سے روکنا ہے تاکہ وہ پاکستانی معاشرہ میں اپنا بھر پور تعمیری کردار ادا کرسکیں۔

’’ٹِکر‘‘ تیزی، پھرتی اور مہارت کا دوسرا نام

$
0
0

برقی ذرائع ابلاغ میں خبروں کے حصول کی دوڑ اور جائے وقوع پر سب سے پہلے پہنچنے کی جنگ نے دیکھنے والوں کو بھی انسان کے بجائے روبوٹ میں تبدیل کر دیا ہے، جو کسی ایک مقام پر رکنے کے بجائے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ لمحہ بھر میں سب کچھ جاننے کا خواہش منددکھائی دیتا ہے، مگر فطرت کا اپنا الگ نظام ہے جس میں تیزی کے ساتھ قرینہ اور سلیقہ بھی جڑا ہوا ہے، جسے نفی کرنے کے بعد کچھ نہیں بچتا۔

خبر اور پیغام رسانی کا طریقہ کبوتر کے پروں کی پھڑ پھڑاہٹ اور گھوڑے کے سُم سے نکلتا ہوا جب اخبار کی سرخیوں میں منتقل ہوا تو کون جانتا تھا کہ معاملہ اس سے بھی آگے نکلنے والا ہے اور ایک دن ساری دنیا سمٹ کر ایک شہر بلکہ ایک گھر بن جائے گی۔ برقی ذرائع ابلاغ کی ابتدا ریڈیو سے ہوئی، جسے آج ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ نے عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اس کے باوجود ہر قدم پر عروج کو ہی عروج نظر آتا ہے، جس کا اگلا موڑ کیا ہو گا شاید کوئی نہیں جانتا۔ اسی لیے علامہ اقبال نے کہا تھا:

ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں برقی ذرائع ابلاغ نے جہاں زبان و بیان سے جُڑی اہم شخصیات کے منہ سے بکھرنے والے موتیوں کو یک جا کیا وہاں ایسے افراد کو بھی کام کرنے کا موقع فراہم کیا جو زبان و بیان کی اہمیت سے ناآشنا تھے یا انھیں وہ کمال حاصل نہ تھا جس کی ضرورت اس شعبے میں پائی جاتی ہے۔ ان میں سے بعض کے پاس کسی ایسے ادارے کی اسنادہی موجود نہیں جو اس فن کو سائنسی اور تحقیقی انداز سے ترقی دیتے ہوئے آگے لے جانے کے خواہش مند ہیں۔ اس سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مسلسل لکھا جا رہا ہے، اس کے باوجود لکھنے والوں میں اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ اس پر بھی ایک کتاب مرتب ہو سکتی ہے۔

ایک طبقہ یہ کہتا ہے کہ اردو مختلف زبانوں کا مرکب ہے، لہٰذا اس میں استعمال ہونے والے مختلف زبانوں کے الفاظ سے بھی واقفیت ضروری ہے۔ دوسرا طبقہ یہ کہتا ہے اس زبان میں استعمال ہونے والے دوسری زبانوں کے الفاظ کے بجائے سادہ، عام فہم اور عام الفاظ کا چنائو کرنا چاہیے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ سب کی سمجھ میں آسکتے ہیں یا نہیں۔ ہمارے خیال میں ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھنے والے افراد کو دوسرے طبقے سے اتفاق کرتے ہوئے سادہ اور عام فہم زبان ہی کا انتخاب کرنا چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ لکھتے وقت مصنف کے ذہن میں آنے والا خیالات کا بہائو اُسے اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ بار بار رُک کر الفاظ کا چنائو کرتا رہے۔ اُس نے دوران مطالعہ یا اپنی درس گاہ سے جو الفاظ سیکھے یا پڑھے، اُس کے ذہن میں تو وہی الفاظ آئیں گے اور وہ اُن سے باہر نکلنا بھی مناسب نہیں سمجھے گا۔

ذرائع ابلاغ میں برتی جانے والی زبان کی پہلی شرط ہی یہ ہے کہ وہ سادہ اور عام فہم ہو۔ برقی ذرائع ابلاغ کا معاملہ تو اس سے بھی زیادہ نازک اور پیچیدہ ہے۔ یہاں اس بات کی اجازت نہیں ہوتی کہ کسی اہم خبر (بریکنگ نیوز)کے لیے فوراً ایسے متبادل الفاظ تلاش کیے جائیں جو عام فہم بھی ہوں اور درست بھی۔ اس کے لیے تو صرف علم اور تجربہ ہی کام آسکتا ہے۔ اس طرح کی مشکلات ٹی وی کے پروگراموں یعنی ڈراما، فیشن شو، ٹاک شو اور دوسرے ریکارڈ پروگراموں کے اسکرپٹ کے ساتھ وابستہ افراد کے ساتھ تو بہت کم، لیکن خبروں کی چھان بین، فوری تبدیلی اور ان کا لب لباب ایک مختصر سی سطر یعنی Tickerمیں لکھ کر پیش کرنے والوں کو ضرور پیش آتی ہیں۔

برقی ذرائع ابلاغ میں منہ سے نکلنے والے الفاظ اُس تیر کی مانند ہوتے ہیں جو ایک دفعہ کمان سے نکل جائے تو دوبارہ واپس نہیں آتا، مگر لکھے ہوئے الفاظ بھی کسی تلوار سے کم نہیں ہوتے، جن کا غلط انتخاب انسان کے دل و دماغ پر بار بار حملہ کرتا ہے۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ٹی وی کی اسکرین پر دکھائی دینے والے بعض غلط الفاظ کو درست کرنے کی گنجائش ہونے کے باوجود درست نہیں کیا جاتا اور وہ دن بھر ناظرین کا منہ چڑاتے اور دل دکھاتے رہتے ہیں۔

ٹکر، جسے عام افراد اسکرین پر چلنے والی اہم خبروں کی پٹی کہتے ہیں، ٹکر کا انتہائی سادہ، درست اور بہترین ترجمہ ہے۔ ٹی وی پر چلنے والے اہم ٹکرز تین قسم کے ہوتے ہیں: پروموشنل ٹکر، ایونٹ ٹکر اور بریکنگ ٹکر، اور یہ اسی ترتیب سے ٹی وی کی اسکرین پر اوپر نیچے اور درمیان میں چلتے ہیں، جیسا کہ ہم پہلے بتاچکے ہیں کہ عام لوگ اسے پٹی بھی کہتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہاں اردو کے دو محاورے یاد آرہے ہیں،’’ پٹی پڑھانا‘‘ یعنی کہ کسی کو غلط تعلیم دینا یا بہلانا پھسلانا، مگر ٹیلی ویژن پر چلنے والی پٹی کو ہم ان معنوں میں استعمال نہیں کر سکتے۔

ہاں اگر اس میں لکھی ہوئی خبر یا واقعہ درست نہ ہو تو پھر یہ اس محاورے پر سو فیصد پوری اترے گی۔ اس سے ملتا جلتا ایک اور محاورہ بھی ہے، ’’آنکھوں پر پٹی بندھی ہونا‘‘ جس کا مطلب ہے کہ سامنے کی حقیقت بھی نظر نہ آنا اور دھوکا کھاجانا۔ ٹی وی پر چلنے والی پٹی دیکھ کر بعض دفعہ یہ دونوں محاورے انتہائی سچے اور موزوں لگتے ہیں۔

ٹکر یعنی پٹی لکھنے والے کی آنکھ پر اُس وقت پٹی بندھ سکتی ہے جب اُس کے ذہن میں کسی لفظ کا مترادف موجود نہ ہو اور وہ وہی کچھ لکھنے پر مجبور ہو جو کسی سیاست داں سماجی کارکن یا عام آدمی کے منہ سے نکلا ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں چلنے والے زیادہ تر ٹکر زمیں انگریزی کے الفاظ کی بھر مار ہوتی ہے۔ حال آں کہ اردو میں اس کے کئی متبادل الفاظ موجود ہیں۔ یاد رہے کہ ٹی وی صرف پڑھے لکھے اور دولت مند افراد ہی نہیں دیکھتے بلکہ اس کے زیادہ تر ناظرین کا تعلق کچی بستیوں، ہوٹلوں، تھڑوں اور پس ماندہ علاقوں سے ہوتا ہے، لہٰذا کوئی بھی ٹکر لکھتے وقت ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے باشندوں سے زیادہ مچھر کالونی، چیچو کی ملیاں، پڈ عیدن، نوشہرہ اور ڈیرہ بگٹی کے مکینوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر کوئی سیاست داں اپنی تقریر یا بیان میں اردو یا انگریزی کا کوئی غلط لفظ بول دے تو ٹکر لکھتے وقت اُسے درست نہیں کیا جاتا، بل کہ من و عن لکھ دیا جاتا ہے۔ مثلاً اس سال کے اکتوبر میں مختلف ٹی وی چینلز پر آصف زرداری کا پرویز مشرف کے بارے میں ایک بیان ٹکر کی صورت میں چلا تھا، جسے ایک چینل نے اس طرح چلایا تھا:

’’مشرف کو اقتدار سے مکھن سے بال کی طرح نکال دیا۔‘‘

ہمارے خیال میں اس ٹکر کو یوں ہونا چاہیے تھا کہ ’’مشرف کو اقتدار سے ایسے نکالا جیسے مکھن سے بال۔‘‘

ایک اور چینل پر سابق صدر آصف زرداری کے بیان کا ٹکر کچھ یوں چلا:

’’میرے سینے میں ایسے راز ہیں اگر افشا کردوں تو عوام پریشان ہوجائیں۔‘‘

ہمارے خیال میں اس ٹکر کو یوں ہونا چاہیے ’’سینے میں چھپے راز افشا کردوں تو عوام پریشان ہوجائیں۔‘‘

ٹی وی کی اسکرین پر چلنے والے بیک وقت ایک سے زیادہ ٹکرز ناظرین کی توجہ کو نشر ہونے والی خبر سے دور لے جاتے ہیں۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ کے مصداق اوپر کا لکھا ہوا ٹکر کچھ اور کہہ رہا ہوتا ہے اور اسی واقعے کے بارے میں نیچے والا ٹکر کچھ اور بیان کر رہا ہوتا ہے۔ لکھے ہوئے حروف، گرامر اور مطالب بھی کبھی کبھی عجیب وغریب لگتے ہیں۔ مثلاً اگر ایک ٹکر یوں ہو گا:

راول پنڈی: موسلا دھار بارش سے کئی اموات۔

تو اسی اسکرین پر اُس کے نیچے چلنے والا ٹکر کچھ یوں ہوگا:

راولپنڈی: بارش سے مرنے والوں کی تعداد پانچ ہوگئی۔

بہ ظاہر ان دونوں ٹکرز میں کوئی خاص خامی نہیں، مگر غور سے دیکھا جائے تو بہت بڑی خامی یہ ہے کہ ایک میں راول پنڈی کو توڑ کر اور ایک میں جوڑ کر لکھا گیا ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ راول پنڈی کے حروف کو جوڑ کر لکھنا چاہیے، جب دوسرے ہی لمحے آنے والی خبر یا پروگرام میں انھیں کرامت اللہ ملک، ایس پی، راول ڈویژن کا نام لکھنا پڑا تو کیا کریں گے۔ راول کے معنیٰ ہیں سردار، سپاہی، جوگی وغیرہ اور لفظ پنڈ سے پنڈی بنا ہے جس کے معنیٰ ہیں گائوں، آبادی یا دیہہ۔ یعنی سرداروں، جوگیوں یا سپاہیوں کی آبادی۔ اسی لیے دونوں کو الگ الگ لکھنا ہی درست ہے۔ راول پنڈی کی بات چلی تو ہمیں یاد آیا کہ ٹی وی پر صرف راول پنڈی کے ساتھ ظلم نہیں ہوتا بلکہ ساہی وال، جام شورو، پاک پتن، میاں والی، نواب شاہ، رحیم یارخان اور سیال کوٹ سمیت درجنوں شہروں کے ناموں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے۔

ٹی وی کی اسکرین پر چلنے والی خبروں کی پٹیاں پڑھنے کے بعد دل پر وہی گزرتی ہے جو کسی اچھے یا برے منظر کی جھلک دیکھ کر محسوس ہوتا ہے، لہذا کوئی بھی پٹی لکھتے وقت کسی خبر کے درست اعداد و شمار کا اندراج اور غلطیوں سے پاک زبان ہی اُسے اچھا یا برا بنا سکتی ہے۔ بعض دفعہ خبروں کے میدان میں سب سے تیز بھاگنے کی کوشش کرتے ہوئے کچھ چینل مختلف حادثات کے دوران ہلاک، زخمی اور شدید زخمیوں کی تعداد بتاتے ہوئے جھوٹ کی حد کو چھو لیتے ہیں، جو بعد میں اُن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان بھی لگا دیتا ہے۔

پٹی لکھتے وقت اس بات کا احساس بھی ضروری ہے کہ خطاطی، فنون لطیفہ کا جزو ہے، جسے دیکھ کر آنکھوں میں ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اور دل و دماغ پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس لیے پٹی لکھتے وقت اگر خط نستعلیق کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہو تو اُسے کم پڑھا لکھا طبقہ بھی آسانی سے پڑھ لے گا۔ ٹیلی ویژن پر چلنے والی پٹی کا اختصار ہی اُسے بامعنیٰ، جاذب نظر، پُرکشش اور مدلل بناتا ہے۔ اس میں ’’کا، کی، کے‘‘ جیسے الفاظ کی تکرار بعض دفعہ انتہائی ذومعنٰی ثابت ہوتی ہے اور اس کی طوالت ناظرین کو اکتا سکتی ہے۔

ہمارے خیال میں اُسی پٹی کو بہترین قرار دیا جا سکتا ہے جو ایک نظر میں پڑھنے والے کو اپنی گرفت میں لے سکے، نہ کہ دیکھنے والے کا ذہن پٹی کے جال میں الجھ کر رہ جائے اور وہ اُسے بار بار پڑھنے کے انتظار میں پروگرام یا خبریں دیکھنے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ بعض دفعہ کسی واقعے کی ایک ہی پٹی بنانے کے بجائے اُسے دو تین پٹیوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً جب تک ساری پٹیاں پڑھ نہ لی جائیں اُن کا مطلب واضح نہیں ہوتا۔ اس سے گریز کرنا چاہیے اور ایک پٹی میں ایک ہی واقعے کا خلاصہ درج کرنا چاہیے۔

ذرائع ابلاغ نے ٹی وی چینلز کے ذریعے اردو اور پاکستان کی دوسری زبانوں کے سہارے جس تیزی کے ساتھ اپنے علاقائی اور ملکی مسائل کو بے نقاب کیا ہے، وہ قابل تعریف ہے، مگر ان زبانوں کے نقاد اور محقق اس بات پر شاکی ہیں کہ اس تیزی کی وجہ سے زبان کی سمعی، بصری اور معنوی خوب صورتی دم توڑتی جا رہی ہے، جس کا الزام پٹی، یعنی ٹکرز لکھنے والے صاحبان کے سر بھی جاتا ہے۔

سوسی، سندھ کی قدیم دست کاری

$
0
0

وادیٔ سندھ میں قدیم زمانے سے لے کر آج تک ایسی کار آمد اشیا تیار ہوتی رہی ہیں جو نہ صرف قدیم قبائلی اور زرعی سماج میں بڑی اہمیت کی حامل تھیں بلکہ آج کے جدید اور صنعتی دور میں بھی ان کی اہمیت و افادیت، خوب صورتی اور دل کشی میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے اور اس بات پر دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ سندھ کے باشندے انسانی سماج کی تشکیل کے دور سے ہی بڑے ہنر مند رہے ہیں اور ان کے ہاتھ سے بنائی ہوئی چیزیں اقوام عالم میں بڑی پذیرائی حاصل کرتی رہی ہیں۔

سندھ کی ثقافت کی ایک قدیم دست کاری سوسی کا کپڑا بھی ہے جو کپاس اور ریشم کے دھاگے کی ملاوٹ سے تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی تیاری میں ’’چرخے‘‘ کا استعمال ہوتا ہے اور اس چرخے کو سندھ اور پنجاب کے صوفی شعرا شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ، سچل سرمستؒ، بابا بلھے شاہؒ اور فرید شکر گنجؒ نے اپنے کلام میں بڑی خوب صورتی سے اور کتنے ہی مفاہیم میں استعمال کیا ہے۔

چرخے پر تیار کی جانے والی سوسی بے حد آرام دہ، سادہ اور خوب صورت ہوتی ہے۔ سوسی بالخصوص سندھ کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کا پسندیدہ لباس رہا ہے۔ شہر کی خوش حال طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی فیشن یا اپنی دل کشی کی علامت کے طور پر سوسی پہنتی تھیں لیکن آج یہ خوب صورت اور تاریخی کپڑا نہ صرف دیہی سندھ بلکہ شہر کی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین بھی بڑے شوق سے پہنتی ہیں۔ پہلے خواتین صرف سوسی کی شلوار پہنتی تھیں لیکن اب پورا سوٹ ہی سوسی کا بنایا جاتا ہے۔ سوسی کے اسکرٹس بھی بنائے جاتے ہیں جو مغربی اور مشرقی ممالک کی خواتین میں کافی پسند کیے جاتے ہیں۔

تاریخ کی کتب سے پتا چلتا ہے کہ سب سے پہلے سندھ میں کپڑا تیار ہوا اور اس کی تیاری میں سندھ کے ہنرمندوں کا بڑا حصہ رہا ہے۔ وادیٔ سندھ میں تقریباً پانچ ہزار سال قبل موہن جو داڑو کی تہذیب نے کپاس کی کاشت اور اس کے ریشے سے دھاگے بنانے کے فن کا آغاز کیا۔ یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ جس وقت دوسری اقوام کھالوں سے سترپوشی کرتی تھیں اس وقت وادی سندھ کے زرخیز کھیتوں میں کپاس کے اجلے اجلے سفید پھول ستاروں کی طرح جگمگایا کرتے تھے۔

دوسری اقوام کے افراد درختوں کی چھال اور پتے پروکر کمر سے باندھتے تھے۔ اس وقت موہن جوداڑو کے ہر آنگن سے چرخوں اور تکلوں کے پہیے گھومنے کی آوازیں آتی تھیں، حتیٰ کہ جب مصر میں کوئی فرعون مرتا تھا تو اس کو کفن بھی سندھ کی بنی ہوئی ململ کے کپڑے کا دیا جاتا تھا۔

قدیم تہذیب موہن جو داڑو کے عہد میں پوری دنیا میں سوتی ملبوسات، کپاس، کپاس کے بیج یا کپاس کے ریشے سے بنائی جانے والی ہر چیز کے کاروبار پر سندھ کے لوگوں کی اجارہ داری تھی اور پوری دنیا کو سوتی ملبوسات، کپاس کے بیج یا سوتی دھاگا فقط سندھ سے سپلائی کیا جاتا تھا۔ میسوپوٹیمیا کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ اس دور میں کھالوں اور پٹ سن سے تیار کردہ لباس پہنا جاتا تھا۔

تب کپاس سے تیار کردہ پیراہن کی نرمی اور لطافت دیکھ کر میسوپوٹیمیا کے باسیوں نے وادیٔ سندھ کے باسیوں سے اس جنس کے بیج فراہم کرنے کی استدعا کی جس میں ریشے سے یہ ملائم کپڑا تیار کیا جاتا تھا اور وادیٔ سندھ کے باشندوں نے فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے انھیں یہ بیج فراہم کردیے۔ اس طرح تاریخ میں پہلی بار میسوپوٹیمیا کے اکثر باشندوں کے جسموں نے کھال اور پٹ سن سے بنے ہوئے کھردرے لباس کے بجائے کپاس سے بنے ہوئے پیراہن کے لطیف لمس کو محسوس کیا۔

اسی طرح جب سکندراعظم کی سالاری میں یونانی سندھ میں آئے تو وہ کپاس کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے۔ مشہور یونانی مورخ ہیروڈوٹس نے اپنی تحریروں میں کپاس کا ذکر بڑی حیرت سے کیا ہے۔ وہ لکھتا ہے،’’سندھ میں ایک ایسا پودا پیدا ہوتا ہے جس میں چاندی جیسے سفید پھول کھلتے ہیں۔‘‘ یونانی زعما کے ایک اور گروہ نے کپاس کو درختوں پر اگنے والی اون سمجھا۔ اس وقت سندھ کی کپاس سے بنی مصنوعات صرف میسوپوٹیمیا تک محدود نہ تھیں بل کہ مصر اور شام میں بھی ہاتھوں ہاتھ اور فخریہ انداز میں خریدی جاتی تھیں۔

اس بات کی گواہی تاریخ اور آثار قدیمہ کے ایک معتبر ماہر پروفیسر ایچ جی رابنسن کی کتاب میں ملتی ہے۔ ان کے مطابق، سیریا (شام) کے ایک حاکم اسد بنی پال (جس کا دور اقتدار 668 قبل مسیح بتایا جاتا ہے) کے زمانے کے نوشتوں میں سندھ کا نام سندھ کے علاقے سے آنے والے کپاس کے نام کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ علاوہ ازیں آثار قدیمہ کے ایک اور عالم پروفیسر لنسن کے بقول مصر میں کفن کے طور پر سندھ کی بنی ہوئی ململ استعمال کی جاتی تھی۔

شہادتوں سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ قدیم بولونیا (بابل) کے باشندے کپاس کو سندھو کے نام سے پہچانتے تھے، کیوں کہ وہ آتی ہی سندھ سے تھی۔ زمانۂ قدیم میں لاڑ کے علاقے میں پاتال یا پاتل نامی ایک مشہور بندرگاہ واقع تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بندرگاہ اس جگہ واقع تھی جہاں دریائے سندھ دو حصوں میں منقسم ہوکر سمندر میں جا گرتا ہے۔ یہ بندرگاہ نہایت قدیم تھی اور سکندراعظم کے وقت تک قائم تھی کیوں کہ یونانی تاریخ نویسوں نے اپنی تحریروں میں اس بندرگاہ کا ذکر کیا ہے۔

میجر جنرل ہیگ نے اپنی کتاب ’’انڈس ڈیلٹا کنٹری‘‘ میں تحریر کیا ہے،’’حضرت سلیمان ؑ کے وقت میں بھی کشتیاں اور جہاز دریا کے سمندر میں گرنے کی جگہ (پاتال بندرگاہ) پر آکر لنگر انداز ہوتے تھے۔ اسی دور میں ایران اور بولونیا کے تاجروں کے ذریعے قدیم یہودیوں نے سندھی سوتی مصنوعات اور دوسری اشیا کی تعریف سن کر ان سے تجارتی تعلقات استوار کیے اور انہی تعلقات کی وجہ سے سندھ کے نام کو عیسائیوں کی مذہبی اور الہامی کتاب انجیل کی سطور میں درج ہونے کا شرف حاصل ہوا۔‘‘

یوں دنیا کی یہ قدیم تہذیبیں اور قومیں مثلاً میسوپوٹیمیا، مصر اور شام وغیرہ تو صدیوں سے سندھ کی سوتی مصنوعات سے استفادہ کرتی چلی آرہی تھیں لیکن مغرب اور یونانیوں کو کپاس، سوتی دھاگے، سوتی کپڑے وغیرہ کا پتا اس وقت چلا جب سکندراعظم کی فوج کے سپاہی سندھ سے واپسی پر سندھ کی سوتی مصنوعات اپنے ساتھ بطور سوغات لے گئے۔

یہ کپڑے وغیرہ اس قدر باریک، نرم و ملائم تھے کہ ایک مغربی محقق ڈاکٹر جیمس اے بی شیر نے اپنی کتاب ’’کاٹن ایزورلڈ پاور‘‘ میں ان کو صبا سے بُنے گئے جالوں سے تعبیر کیا ہے۔ یونان اور مغربی دنیا میں اس کپڑے کو ’’سنڈن‘‘ کہا جاتا تھا جو سندھ سے مشتق ہے۔ سندھ کے اس کپڑے نے اپنی نرمی اور لطافت کی وجہ سے مغربی شعر و ادب میں بھی اپنی جگہ بنائی اور عظیم انگریز مصنفوں نے اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کرکے سندھ کے نام کو امر کردیا۔

انگریزی کے عظیم شاعر ملٹن نے بھی اس کا ذکر اپنی تحریروں میں کیا ہے جن میں ملٹن نے سنڈن کا ذکر جالی کے طور پر کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کپڑے کے باریک ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال جالی کے طور پر کیا جاتا ہو اور اسی وجہ سے ملٹن نے اس کا ذکر جالی کے طور پر کیا ہے۔

سندھ کی بنی ہوئی سوتی مصنوعات میں سے دوسری چیز جس نے مغربی شعر و ادب میں جگہ بنائی اس کا نام ’’سنڈل‘‘ ہے جس کے معنی ہیں ’’بٹا ہوا دھاگہ‘‘ اس زمانے میں سنڈل سے رسے بنائے جاتے ہوں گے، جن سے بڑے بڑے جہازوں اور بجروں کو باندھا جاتا ہوگا، جن کے بادبان ریشم کے بنے ہوتے تھے۔ یہ ہے سندھ میں تیار ہونے والے کپڑے کا پس منظر اور تاریخ، ململ کے باریک اور نرم کپڑے سے لے کر قدرے موٹا مگر ہلکا پھلکا کپڑا سوسی سندھ کی قدیم دست کاری ہے، ململ بھی چرخوں اور تکلوں سے بنائی جاتی تھی اور سوسی بھی چرخوں اور دور حاضر میں کھڈی میں بنائی جاتی ہے۔

ململ کا کپڑا گرمیوں کے دنوں میں بہترین تصور کیا جاتا ہے، لیکن سوسی کے کپڑے میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اسے ہر موسم میں پہنا جاسکتا ہے، یہ سردیوں میں حرارت اور گرمیوں میں ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے۔ پھر اس پر ہر طرح کی ڈیزائننگ بھی آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ سوسی کی پسندیدگی اور خوب صورتی کا راز اس کے کلر کامبی نیشن میں پنہاں ہے۔ یہ کپڑا ملائم ہے اور ہر موسم میں پہنا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں سوسی بازار میں نظر آنے والا کپڑا ہے۔

سوسی خاص طور پر نصر پور، ہالا اور تھرپارکر میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی مانگ پورے ملک میں ہے، بل کہ بیرون ملک بھی ہے۔ سندھ ہنرمندوں کی سرزمین ہے، جن کا ہنر خود بولتا ہے۔ چرخوں اور کھڈیوں میں تیار کردہ ململ اور سوسی سندھ کی ایک ایسی دست کاری ہے جس پر اہل سندھ بجا طور پر فخر کرسکتے ہیں۔ بلاشبہ ململ اور سوسی سندھ کا خوب صورت تاریخی کپڑا ہے اور قدیم دست کاری کا ثبوت بھی۔


بالی ووڈ وڈ اسٹارز کے مہنگے تحائف جو یادگار بن گئے

$
0
0

شوبز کی دنیا ایک ایسی طلسماتی کائنات ہے جہاں کچھ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ فلموں کی ناکامی اور کام یابی کے علاوہ بھی شوبز کے ہر میدان سے وابستہ افراد ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی تگ ودو میں مصروف رہتے ہیں۔

انھیں کہیں کسی کو نیچا دکھانا ہوتا ہے اور کہیں اپنے آپ کو اسپیشل پرسن قرار دینا ہوتا ہے۔ ایک دوسر ے سے مقابلہ اداکاری، ناکامی کام یابی، ڈریسز، ہیئراسٹائل اور اسی طرح کی دوسری چیزوں سے کیا جاتا ہے لیکن ان میں سب سے اہم چیز تحفہ ہے۔ انڈسٹری سے وابستہ افراد کبھی دوستی نبھانے کے لیے تو کبھی اپنے آپ کو بہت دیالو ثابت کرنے کے لیے اور کبھی دوسرے کو نیچا دکھانے کے ایک دوسرے کو منہگے سے منہگے تحائف دیتے رہتے ہیں۔ ان میں سب ہی ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ یہاں چند ایسے ہی بیش قیمت تحائف کا ذکر کیا جارہا ہے:

٭راج کمار کندر اور شلپا شیٹھی:

بالی ووڈ کی مہنگی ترین شادیوں میں سے ایک شادی راج کمار کندر اور شلپا شیٹھی کی تھی۔ شلپا نے برطانیہ سے نشر ہونے والے پروگرام بگ باس سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ اس نے یوگا ایکسپرٹ کے طور پر بھی کام یابی اور شہرت پائی۔ شلپا گو کہ ایک کام یاب اور منجھی ہوئی اداکارہ نہیں بن پائی لیکن اسے قسمت کی دھنی ضرور کہا جا سکتا ہے۔ راج کمار کندرا کی شلپا سے دوسری شادی تھی۔ یہ لو میرج تھی۔

راج نے شلپا کو پانے کے لیے اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔ راج کی طرف سے شلپا کو یوں تو تحفے ملتے ہی رہتے ہیں لیکن اس نے شلپا کو شادی پر بہ طور تحفہ دبئی میں قائم دنیا کے بلند ترین اسکوائر برج خلیفہ میں 19thفلور پر ایک لش اپارٹمنٹ گفٹ کیا۔ نہ صرف یہ بلکہ شادی کے بعد آئی پی ایل میں راجستھان رائل کی ٹیم بھی شلپا کو تحفے میں دی۔

٭شاہ رخ خان:

شاہ رخ خان صرف بالی ووڈ ہی کے کنگ نہیں بلکہ وہ ہر دل کے بادشاہ ہیں۔ ان کے دوست انہیں دوستوں کا دوست مانتے ہیں۔ غیرمحسوس طریقے سے اپنے یار دوستوں کی مدد کرنا شاہ رخ کی ایک بہت اچھی عادت ہے اور اسی لیے ان سے سب ہی خوش رہتے ہیں۔ شاہ رخ کی ایک فلم را ون جو کہ ان کی ہوم پروڈکشن تھی، بلاک آفس پر اوسط درجے کی کام یابی ہی حاصل کر پائی تھی۔ اس کے باوجود شاہ رخ نے راون کی ٹیم کے 5 ممبرز کو BMW7گاڑیاں تحفے میں دی تھیں۔ ان میں سے ہر ایک گاڑی کی قیمت ایک کروڑ کے قریب تھی۔

یہ تحفہ لینے والوں میں ساؤتھ انڈیا کے سپراسٹار رجنی کانت، ارجن رام پال اور انوبھاؤ سنہا شامل تھے۔ اس سے پہلے بھی شاہ رخ اپنی دریا دلی کی مظاہرہ کر چکے ہیں۔ فلم میں ہوں نا کی ریلیز کے بعد انہوں نے فرح خان کو Hyundai SUVتحفے میں دی تھی، جب کہ اوم شانتی اوم کی کام یابی پر فرح خان کو شاہ رخ نے مرسیڈیز کار گفٹ کی تھی۔ اس فلم کے ایک گانے میں، جس میں انڈسٹری کے کئی نامور اداکاروں نے پر فارم کیا تھا، شاہ رخ نے ان سب کو قیمتی تحائف بھجوائے تھے۔ راون میں ایک اسپیشل کردار کرنے پر شاہ رخ کان نے سنجے دت کو منہگی ترین موٹر بائیک گفٹ کی۔

گذشتہ سال ریلیز ہونے والی فلم چنائے ایکسپریس کے ڈائریکٹر روہیت شیٹھی کو بھی شاہ رخ نے ED Hardyکی موٹر بائیک تحفے میں دی تھی۔ اس کے علاوہ حال ہی میں شاہ رخ نے ابھیشیک بچن کو Harley Davidson کی موٹر بائیک تحفے میں بھجوائی ہے ۔

٭ودو ونود چوپڑہ اور امیتابھ بچن:

فلم میکر ودو ونود چوپڑہ کی فلم اکلیاوا میں بگ بی نے رائل گارڈ کا رول کیا تھا۔ ونود کی ایک لمبے عرصے سے خواہش تھی کہ وہ کبھی امیتابھ کے ساتھ کام کرے اور یہ خواہش اس وقت پوری ہوئی جب بگ بی کو اکیلاوا میں اپنا کردار اور فلم کی کہانی بے حد پسند آئے۔ فلم باکس آفس پر دھوم تو نہ مچاسکی البتہ ودو ونود کی خواہش پوری ہونے پر اس نے امیتابھ کو برانڈ نیورولز روائس کار تحفے میں دی۔ اس کی قیمت 3.5کروڑ تھی۔ امیتابھ نے اپنے ڈائریکٹر کا دیا ہوا گفٹ خوش دلی سے قبول کیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس سے اگلے دن ہی امیتابھ نے بھی رولز رائس کار ونود کو تحفہ میں بھجوائی تھی۔ بگ بھی کا گفٹ پانے کے بعد کہنا تھا کہ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہالی وڈ کے فلم میکر اسٹیون اسپیل برگ نے انہیں یہ تحفہ دیا ہو۔

٭سلمان خان:

بالی ووڈ میں بیڈ بوائے کا امیج حاصل کرنے والے سلمان خان جس کی فلمیں فلاپ ہو یا ہٹ وہ بولی وڈ میں نمبر تھری کے گیم میں شامل رہتا ہے۔ سلمان خان کا تحفے دینے میں کوئی ثانی نہیں۔ وہ اپنے دوستوں کو خوش رکھنا جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تحفہ دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے سلمان کی این جی او بینگ ہیومن کے ذریعے وہ عام یا غریب لوگوں کو تحائف دے کر مدد کرتا ہے۔ اسی لیے اس کے بارے میں انڈسٹری میں یہ ہی تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ سونے جیسے دل کا مالک ہے۔

سلمان کی فلم دبنگ ٹو میں کرینہ کپور نے آئٹم سونگ کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں لیا تھا تو سلمان نے اس احسان کا بدلہ اس طرح اتارا کہ اسے فلم کی ریلیز کے بعد ایک بی ایم ڈبلیو کار تحفے میں بھجوادی۔ اداکار رتیش دیکھ مکھ اور سلینا ڈی سوزا کی شادی میں سلماںن نے شرکت نہیں کی تھی، لیکن شادی کے تحفے کے طور سلمان نے اس نئے کپل کو ہنی مون ٹرپ پلان گفٹ کیا تھا۔ اس کے علاوہ رنبیر کپور کو رولیکس گھڑی، راج ببر کو مرسیڈیز بھی گفٹ کر چکا ہے۔

یہ بات تو سب ہی جانتے ہیں کہ فارغ اوقات میں سلمان کا دوسرا مشغلہ پینٹنگ کرنا ہے۔ اس کی یہ پینٹنگ منہگے داموں فروخت بھی ہوتی ہیں، لیکن سلمان اپنی پینٹنگ فروخت کرنے کے بجائے اس دوستوں میں گفٹ کردیتے ہیں۔ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم کک کی ہیروئن کو سلمان نے اپنی ایک قیمتی پینٹنگ گفٹ کی اور ممبئی کے پوش علاقے باندرا میں ایک لگژری اپارٹمنٹ بھی گفٹ کیا۔ دیوالی اور عید کے موقع پر وہ اپنے دوستوں کو اپنی پینٹنگ ہی گفٹ کرتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سلمان کی ایک پینٹنگ کی قیمت ڈھائی سے تین کروڑ تک کی ہوتی ہے۔

٭کرن جوہر:

دھرما پروڈکشن کے مالک کرن جوہر اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ تحائف کا تبادلہ کرنے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ اس لیے وہ اپنے ہر دوست کی برتھ ڈے اور خاص دن پر گفٹ ضرور دیتے ہیں، لیکن کسی کا احسان رکھنا بھی پسند نہیں کرتے۔ امیتابھ کی فلم اگنی پتھ کا ری میک بنایا گیا تو کرن نے کترینہ کیف سے چکنی چمبیلی آئیٹم سونگ کرایا۔ اس گانے کے لیے کترینہ نے کرن سے کو ئی معاوضہ طلب نہیں کیا اور بدلے میں کرن جوہر نے فلم کی ریلیز کے بعد اسے برانڈ نیو فراری گفٹ کی۔

٭بچن فیملی:

فلم انڈسٹری میں بچن خاندان کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ ہر ایک ان کی فیملی کو آئیڈیلائز کرتا ہے۔ اس فیملی کی لگژری زندگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور فیملی ممبرز آپس میں منہگے اور قیمتی تحائف کا تبادلہ کرتے رہتے ہیں۔ ابھیشیک کی اکتیسویں سال گرہ پر بگ بی نے اسے دو کروڑ کی Bentlyگفٹ کی تھی۔ اس کے علاوہ ایشوریا رائے کی بیٹی ارادھیا کو اس کے ڈیڈی ابھیشیک نے اس کی پہلی سال گرہ میں بی ایم ڈبلیوMini Cooperگفٹ کی تھی، جس کی مالیت پچیس لاکھ روپے ہے۔ اس کے علاوہ ایشوریا اور ابھیشیک نے اپنی بیٹی کے لیے 54کروڑ کا دبئی میں ایک گھر بھی خرید لیا ہے۔

٭سنجے دت:

سنجو بابا کے لیے فلم انڈسٹری میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس جیسا نرم دل انسان دوسرا کوئی نہیں۔ ہمہ وقت دوسروں کی مدد کے لیے تیار رہنے کی عادت سنجے کواپنے والد سنیل دت سے ورثے میں ملی۔ سنجے نے اپنے دو جڑواں بچوں اقراء اور شاہ ران کی پیدائش کی خوشی میں اپنی بیوی مانیاتا کو رولز رائس تحفے میں دی۔ اس کی قیمت تین کروڑ ہے۔ اس کے علاوہ ایکٹر رنبیرکپور کی 29 ویں سال گرہ پر سنجو بابا نے اسے30 لاکھ کی موٹر بائیک گفٹ کی تھی۔

٭اکشے کمار:

اکشے کو فلم انڈسٹری میں کھلاڑی کے نام سے جانا جاتا ہے کیوںکہ کھلاڑی کے نام سے بننے والی کئی فلموں میں اسے کام کیا ہے اکشے کے فلم انڈسٹری میں کئی ہیروئنز سے افیئر چلا روینہ ٹنڈن، شلپا شیٹھی، پریانکا چوپڑہ اور کترینہ کیف، لیکن ان سب افئیرز کے باوجود وہ یہ بات بھی جانتا ہے کہ اپنی بیوی ٹوئنکل کو کیسے خوش رکھا جاسکتا ہے۔ اس لیے وہ اکثرو بیشتر اسے قیمتی تحائف دیتا رہتا ہے۔ کچھ عرصے قبل اکشے نے ٹوئنکل کو Bentlyکار تحفے میں دی۔ اس کی قیمت تین کروڑ ہے۔ اس کے علاوہ اکشے نے اپنی بہن اور بہنوئی کو ان کی شادی کے تحفے کے طور پر ممبئی میں جوہو کے مقام پر ایک لگژری اپارٹمنٹ دیا ہے۔

٭عمران خان:

عمران نے جب اپنا فلمی کیریر شروع کیا تھا تب اسے سب ہی نے لور بوائے کا نام دیا تھا، لیکن جوں جوں اس کا کام سامنے آتا گیا عمران نے خود کو ایک بہترین اداکار ثابت کیا۔ عمران کی پہلی فلم جانے تو یا جانے نہ کی شان دار کام یابی کے بعد انکل عامرخان نے اسے برانڈ نیو بی ایم ڈبلیو کار تحفے میں دی جب کہ حال ہی میں عمران کو ڈائریکٹر وشال بھردواج کی طرف سے ROYAL موٹر بائیک گفٹ کی گئی۔

٭عامر خان:

عامر خان بھی کسی سے کم نہیں اپنی بیوی کرن سے وہ کتنا پیار کرتے ہیں اس کا اظہار ان کے قیمتی تحائف سے کیا جاسکتا ہے۔ سب سے پہلا گفٹ عامر کی طرف سے بیورلے ہلز میں75کروڑ کی مالیت کا گھر عارضی طور پر لے کر دیا، جہاں یہ دونوں چھٹیاں منانے گئے تھے۔ اس کے علاوہ کرن راؤ کی فلم دھوبی گھاٹ کی کام یابی پر عامر نے اپنی مسز رائٹ کو بی ایم ڈبلیو 5 گفٹ کی تھی۔

٭ودیا بالن:

فلم انڈسٹری کی کام یاب اور منجھی ہوئی اداکارہ ودیا بالن بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ ان کے شوہر سدھارتھ رائے کپور جو کہ UTVکے مالک ہیں، نے ودیا کو شادی کا تحفہ ممبئی میں جوہو کے مقام پر ایک لگژری فلیٹ کی صورت میں دیا تھا۔ اس اپارٹمنٹ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں صرف وہ ہی افراد فلیٹ خرید سکتے ہیں، جن کی جیب خاصی بھاری ہو ہر طرح کی سہولتوں سے آراستہ یہ فلیٹ ودیا کو اپنے خوابوں کی تعبیر نظر آتا ہے۔ اور کیو نہ ہو شادی کا اسپیشل گفٹ جو تھا۔

اسرائیل کے خلاف فلسطین میں نئی تحریک کا آغاز!!!

$
0
0

فلسطین کے محاصرہ زدہ گنجان آباد علاقے غزہ کی پٹی میں جولائی اور اگست کے دوران51 روز تک جاری رہنے والی خونخوار صہیونی سفاکیت اور جارحیت کے زخم ابھی مندمل نہیں ہونے پائے تھے کہ غاصب ریاست نے مقبوضہ مغربی کنارے، بیت المقدس اور شمالی فلسطین کے نہتے عرب باشندوں پرمشق ستم کا ایک نیاسلسلہ شروع کردیا۔

ایک ماہ سے مقبوضہ بیت المقدس اور غرب اردن میں جاری اسرائیل کی منظم ریاستی دہشت گردی کے ساتھ ساتھ اب ایک قدم اور آگے بڑھتے ہوئے مسلمانوں کے تیسرے مقدس ترین مقام مسجد اقصیٰ پربھی یہودی دست درازی کرنے لگے ہیں۔ تنگ آمد بہ جنگ آمد کے مصداق نہتے فلسطینیوں نے بھی بساط بھر صہیونی جارحیت کے خلاف سڑکوں پر نکل کر ریاستی دہشت گردی کے خلاف احتجاج شروع کردیا ہے۔

تازہ احتجاجی تحریک کو ایک ماہ ہونے کو ہے اور اس میں روز مرہ کی بنیاد پر شدت آتی جا رہی ہے۔ وحشیانہ کریک ڈائو ن کے باوجود فلسطینی ہر روز گھروں سے نکلتے اور یہودی شرپسندوں کے خلاف احتجاجی جلوس اور ریلیاں منعقد کرتے ہیں۔ پکڑ دھکڑ ، جیلیں اور حراستی مراکز میں روح فرسا تشدد فلسطینیوں کو صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے سے نہیں روک سکا ہے۔

تازہ تحریک کاآغاز

اسرائیلی درندگی کے خلاف فلسطینی ویسے تو ہمہ وقت حالت جنگ میں رہتے ہیں مگر بعض واقعات صہیونی ریاست کے خلاف فلسطینی قوم کو زیادہ مشتعل کردیتے ہیں جس کے بعد پورا ملک میدان جنگ کا منظر پیش کرنے لگتا ہے۔ غرب اردن اور بیت المقدس میں حالیہ پرتشدد تحریک کا آغاز گزشتہ جولائی میں ایک 14 سالہ فلسطینی لڑکے محمد ابو خضیر کے اغواء کے بعد یہودی شرپسندوں کے تشدد کے نتیجے میں ظالمانہ شہادت کے بعد شروع ہوا لیکن اس تحریک کو مہمیز ستمبر میں مغربی کنارے میں دو فلسطینی بچیوں کو کار تلے کچل ڈالنے کے اندوہ ناک واقعے نے دی۔

اس واقعے میں ایک چھ سالہ بچی موقع پر شہید جبکہ دوسری شدید زخمی ہوئی جو اب جسمانی طورپر مکمل معذور ہوچکی ہے۔ دونوں اسکول سے واپسی پرگھر کے قریب سڑک پار کررہی تھیں کہ ایک جنونی یہودی آباد نے دانستہ طورپر اپنی کار ان پر چڑھا دی۔ اسرائیل کے قریباً تمام اہم اخبارات نے اس خبر کو شہ سرخی میں شائع کیا لیکن سب نے کار ڈرائیور کے دفاع میں زمین وآسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔ ہر ایک نے الگ الگ پہلو سے یہودی قاتل کا بھر پور دفاع کیا لیکن عینی شاہدین اور کار کی زد میں آنے والی دونوں معصوم بچیوں کی مائیں موقع پرموجود تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ سڑک سنسان تھی اور بہت دور سے یہودی آباد کار ایک ہی رفتار کے ساتھ کار چلائے چلا آ رہا تھا بچیاں دور سے دکھائی دے رہی تھیں لیکن اس نے کھلی سڑک پر اپنی گاڑی کو دانستہ طورپر ان کے پیچھے لگا دیا جسکے نتیجے میںایک بچی اچھل کر دور جا گری اور وہیں تڑپ کرشہید ہوگئی جبکہ دوسری بھی بری طرح کچلی گئی۔ اس کی دونوں ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں۔ کھوپڑی میں میں بھی گہری چوٹیں آئی ہیں۔ وہ ھنوز رام اللہ کے ایک اسپتال میں انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل ہے۔

اس انسانیت سوز واقعے کے بعد مغربی کنارے اور مقبوضہ بیت المقدس میں پرتشد د مظاہرے پھوٹ پڑے۔ صہیونی ریاست نے حسب معمول مظاہرین پر طاقت کا وحشیانہ استعمال کیا ۔ مگر معاملہ تھمنے کے بجائے مزید اشتعال پکڑتا چلا گیا۔ اکتوبر کے آخری ہفتے میں بیت المقدس میں ایک فلسطینی نوجوان نے اپنی کار یہودی آباد کاروں پر چڑھا دی جس کے نتیجے میں ایک یہودی ہلاک اور آٹھ زخمی ہوگئے۔ اس واقعے کو بنیاد بنا کر صہیونی فوجیوںنے اہالیان بیت المقدس پرقیامت ڈھا دی۔

درجنوں افراد کو نہایت بے دردی سے حراست میں لینے کے بعد انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ فلسطینیوں میں اشتعال مزید بڑھنے لگا ۔ انہی ایام میں ایک دوسرے فلسطینی نوجوان نے ایک انتہا پسند یہودی ربی’’یہودا گلیک‘‘ کو فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا۔ اگلے روز اسرائیلی فوجیوں نے یہودی ربی پرحملہ کرنے کے الزام میں فلسطینی نوجوان کو اس کے گھر میں گھس کر گولیاں ماردیں اور اسے بھی ماورائے عدالت قتل کردیا گیا۔

اس واقعے کو ابھی تین روز ہی گزرے تھے کہ ایک اور فلسطینی وین ڈرائیور نے اپنی گاڑی اسرائیلی پولیس اہلکاروں پر چڑھاد ی جس کے نتیجے میں دوپولیس اہلکار ہلاک اور چودہ زخمی ہوگئے۔ پولیس کی فائرنگ سے فدائی حملہ آور بھی جام شہادت نوش کرگیا۔ ان واقعات نے فلسطینی شہریوں اور یہودی آباد کاروں کو ایک دوسرے کے مد مقابل لا کھڑا کیا۔ اسرائیلی فوج نے تشدد کا دائرہ بیت المقدس سے بڑھاتے ہوئے مغربی کنارے اور شمالی فلسطین تک وسیع کردیا اور نومبر کے پہلے دس ایام میں دونوں شہروں میں پانچ فلسطینی شہید کردیے گئے۔ فلسطینیوں کی سنگ باری اور جوابی کارروائیوںمیں ایک خاتون سمیت تین یہودی بھی ہلاک ہوگئے۔

اسرائیلی حکومت جب فلسطینیوں کے مظاہرے روکنے میں ناکام رہی تو اس نے مسجد اقصیٰ میں فلسطینیوں کے داخلے پرپابندی عائد کردی۔ مسجدا قصیٰ پرپابندی ایک نیا صہیونی حربہ تھا جس پر فلسطین بھر میں شدید رد عمل ہوا۔ یہ رد عمل صرف فلسطین تک محدود نہ رہا بلکہ مسلمان ملکوں کے ساتھ ساتھ امریکا نے بھی خلاف توقع اس کی شدید مذمت کردی۔ جب یہ سطور احاطہ تحریر میں تھیں تو یہ خبر آ رہی تھی کہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے اردن میں امریکی وزیرخارجہ جان کیری سے ملاقات میں مسجد اقصیٰ پرعائد پابندیاں اٹھانے کا اعلان کردیا ہے۔ لیکن اسرائیل کے اس اعلان پریقین کون کرے گا۔ اب تک کتنے ہی اعلانات، قراردادیں اور معاہدے ہوچکے جن میں اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کے حقوق دینے کی یقین دہانی کرائی مگر وہ سب قصہ پارینہ ہوگئے۔

عملاً اس وقت فلسطین میں ایک نئی تحریک شروع ہوچکی ہے۔ اسرائیل تھینک ٹینک ، ذرائع ابلاغ اور سکیورٹی ادارے یہ ماننے لگے ہیں کہ فلسطینیوں کی موجودہ عوامی مزاحمتی تحریک فیصلہ کن تحریک میں بدلتی جا رہی ہے۔ فلسطین میں یہودی شرپسندی کے خلاف فلسطینی قوم نے جس جرات اور بہادری کے ساتھ صہیونی ریاست کے خلاف پرامن احتجاج کا سلسلہ شروع کیا ہے یہ کسی بھی قیمت پراسرائیل کے لیے قابل برداشت نہیں ہے۔

یہ تحریک اس سے قبل برپا ہونے والی دو تحاریک ہائے انتفاضہ کا ایک تسلسل ہے ۔ یہ تحریک ایسے وقت میں شرو ع ہوئی ہے جب عالمی سطح پر فلسطینی ریاست میں حمایت میں سفارتی اور سیاسی مساعی بھی تیزی سے جاری ہیں۔ کئی یورپی ملکوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا باضابطہ اعلان کیا ہے جبکہ یورپی یونین نے بھی اپنی پالیسی واضح کرتے ہوئے فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کا عندیہ دیا ہے۔ فلسطینی عوام کی موجودہ تحریک انتفاضہ اگر مزید کچھ عرصہ جاری رہتی ہے تو یہ عالمی برادری، اسرائیل اور اس کے سرپرست اعلیٰ امریکا کے لیے واضح پیغام ہوگا کہ فلسطینی اب آزادی سے کم کسی چیز پرراضی نہیں ہوں گے۔

اگر عارضی طورپر اس تحریک کو دبا بھی دیا گیا جیسا کہ حالات اس کا اشارہ بھی کررہے ہیں تو فلسطین میں اسرائیل کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک جلد شروع ہوجائے گی۔ عوامی انتفاضہ سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے وہ یہ کہ اسرائیل فلسطینیوں کی منشاء کے مطابق انہیں آزاد او ر خود مختار ریاست تشکیل دینے کا حق فراہم کرے۔ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ خود اسرائیل کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔

صہیونی حکومت کے مقرب سمجھے جانے والے اخبار’’یروشلم پوسٹ‘‘ نے بجا طورپر لکھا ہے کہ ’’فلسطینیوں کی تازہ تحریک اسرائیلی سیاست دانوں اور برسراقتدار اتحاد کے لیے نوشتہ دیوار ہے۔ اسے پڑھ لینا چاہیے ۔ اب اس تحریک میں فلسطینی تنہا نہیں ہیں بلکہ انہیں عالمی برادری بالخصوص یورپی یونین کی بھی غیراعلانیہ حمایت حاصل ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کو ایک خود مختار حکومت تشکیل دینے کی اجازت دے اور عالمی برادری کو ساتھ ملاکر فلسطینی ریاست کی جغرافیائی حدو د کا تعین کرے‘‘۔

قبلہ اول کو تقسیم کرنے کی گھناؤنی سازش

سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب، اسرائیل جنگ میں صہیونی ریاست نے پورے بیت المقدس اور مقبوضہ مغربی کنارے پرفوجی طاقت کے بل بوتے پرجائز تسلط جمالیا۔ اس طرح فلسطین کے قریباً تمام مقدس مقامات اسرائیل کے قبضے میں آگئے۔ انتہا پسندیہودیوں کا یہ ایک دیرینہ خواب تھا کیونکہ وہ مسجد اقصیٰ کی جگہ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کی سازش کے ساتھ فلسطین کے تمام اہم مقدس مقامات کویہودیانے کی مکروہ منصوبہ بندی کررہے تھے۔

اپنے اس مذموم مقصد کی تکمیل کی خاطر شرپسند یہودیوں نے مسجد اقصیٰ اور مغربی کنارے میں مسجد ابراہیمی کو شورش کے ذریعے یہودی معابد میں بدلنے کی سازشیں شروع کردیں۔ مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی اور مسجد ابراہیمی کی مسلمانوں اور یہودیوں میں مکانی اور زمانی اعتبار سے تقسیم انہی سازشوں کا تسلسل ہیں۔ اب تک یہودی الخلیل شہرمیں جامع مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور اب یہ تجربہ مسجد اقصیٰ کے بارے میں بھی دہرانا چاہتے ہیں۔

چونکہ مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول ہے اور اس کے ساتھ اس دور فسوں کار کے گئے گزرے مسلمانوں کو بھی کسی نہ کسی شکل میں عقیدت ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل بیت المقدس پرقبضہ کرنے کے باوجود قبلہ اول کو یہودیوں کی ملکیت قرار دینے کی کسی سازش میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ پچھلے چند ہفتوں سے جاری شورش کامرکز و محور بھی مسجد اقصیٰ ہی رہی۔ اسرائیلی پارلیمنٹ میں اس وقت دو آئینی بل زیرغور ہیں جن میں کنیسٹ سے کہا گیا ہے کہ وہ مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں کے مابین زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنے کی منظوری دے۔

اگرچہ پارلیمنٹ ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرسکی لیکن عملاً پچھلے کئی سال سے یہودیوں نے قبلہ اول کو تقسیم کر رکھا ہے۔ انتہا پسند یہودی ربیوں کی معیت میں روز مرہ کی بنیاد پر علی الصباح صہیونیوں کے گروہ قبلہ اول میں داخل ہوتے ہیں اسرائیلی فوج اور پولیس انہیں فول پروف سکیورٹی مہیا کرتی ہے۔مقامی وقت کے مطابق دن گیارہ بجے تک کسی فلسطینی کو مسجد میں داخل نہیں ہونے دیا جاتا۔ مسجد اقصیٰ کے ساتھ داخلی دروازوں میں باب المغاربہ(مراکشی دروازہ) یہودیوں کی آمد و رفت کے لیے مختص ہے۔ اس دروازے سے فلسطینیوں کو مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں۔

دن کے پچھلے اوقات میں فلسطینی مشروط طورپر مسجد اقصیٰ میں داخل ہوسکتے ہیں لیکن اسرائیلی فوج نے کے داخلے کے لیے عمر کی قید مقرر کر رکھی ہے۔ نماز جمعہ کے اجتماعات میں صرف 50 سال یا زائد عمر کے افراد کو داخلے کی اجازت دی جاتی ہے۔ دیگر فلسطینی صہیونی فوجیوںکے ساتھ مسلسل مڈبھیڑ کے بعد باہر سڑکوں ہی پرنماز ادا کرتے ہیں۔اس لحاظ سے صہیونی حکومت نے غیراعلانیہ طوررپر مسجد اقصیٰ کو یہودیوں اور مسلمانوں میں تقسیم کررکھا ہے۔ مسجدا قصیٰ کی دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں تقسیم ایک نہایت ہی خطرناک سازش ہے اور یہ نہ صرف فلسطین، مشرق وسطیٰ بلکہ اسلامی دنیا میں اشتعال پھیلانے کا موجب بن سکتی ہے۔

فلسطینی ریاست کوتسلیم کرنے کا غصہ

صہیونی ریاست کے فلسطینی عوام پر غم و غصے کی ایک اور وجہ عالمی سطح پرفلسطینی ریاست کی فروغ پذیرحمایت بھی ہے۔ اگرچہ فلسطینیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کا ایک فائدہ فلسطینی عوام کو بھی ہورہا ہے۔ جولائی اور اگست کے دوران غزہ کی پٹی پراسرائیلی یلغار کے خلاف عالمی سطح پر جو رد عمل سامنے آیا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ یورپی ممالک جو ماضی میں اسرائیل کے ہرناجائز اقدام پر اعلانیہ یا درپردہ حامی رہے ہیں اب وہ بھی صہیونی جارحیت پر کھل کرمخالفت کرنے لگے ہیں۔

عالمی سطح پر فلسطینیوں کی بڑھتی حمایت ا ور آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کیے جانے کے لیے جو رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے۔ اس نے صہیونی ریاست کو بوکھلاہٹ سے دوچار کرر کھا ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اب یورپی ممالک کے سفیروں اور حکومتی شخصیات کو فلسطینی علاقوں کے دورے سے روکنے کی بھی کوشش کررہا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ اب عالمی برادری مسئلہ فلسطین کو مثبت انداز میں دیکھنے لگی ہے اور وہ وقت اب زیادہ دور نہیں جب فلسطینیوں کے سلب شدہ حقوق انہیں ملیں گے اور اسرائیل کو اپنی ہٹ دھرمی ترک کرنا پڑے گی۔

2014 میں افغانستان افیون کی کاشت میں سر فہرست

$
0
0

اسلام آباد: افغانستان سے غیر ملکی افواج سال 2014 کے آخر تک نکل تو جائے گی لیکن افواج کا یہ انخلا افغان انتظامیہ کو ایک ایسے چیلنج سے دوچار کر جائے گا جس سے نمٹنا اُن کے لیے قریباً ناممکن نظر آتا ہے۔

دراصل طالبان نے جب سے افیون کی تجارت کو بہ طور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا ہے اُس پر اب قابو پانا مشکل ہے کیوں کہ افغان طالبان اس تجارت سے حاصل ہونے والی اربوں روپے کی آمدنی کو اپنی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

خبر یہ ہے کہ سال2013 کے مقابلے میں 2014 کے دوران افغانستان میں پوست کی پیداوار والے صوبوں میں یہ شرح7 فی صد زیادہ رہی ہے۔ منشیات اور جرائم کی روک تھام کے لیے اقوام متحدہ کے دفتر UNODC کے ایک سروے کے مطابق 2014 کے دوران افغانستان میں افیون کی کاشت 224,000 ہیکٹر رقبے پر پھیل چکی ہے۔ اس وجہ سے ڈونر ممالک اور زیادہ امداد دینے والوں کو مزید شرمندہ اور فکرمند ہونا پڑے گا کیوںکہ انہوں نے انسداد منشیات کی مہم میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے مگر اس کے باوجود افیون کی کاشت میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور یہ ہی افغانستان میں کرپشن اور عدم استحکام میں اضافے کا سبب ہے۔

دوسری طرف غیر ملکی ایجنسیوں نے انسداد منشیات کی مہم میں کئی ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس امر کی نشان دہی ہے کہ منشیات کے انسداد کی مہم ناکام ہو چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے منشیات اور جرائم کے دفترکے ڈائریکٹر فار پالیسی اینڈ انیلیسز ژاں لیوک لیماہیو نے حال ہی میں  کہا ہے کہ نئی افغان حکومت کے دور میں منشیات کی روک تھام پر قابو پانے کی امید ہے۔ اب اس امید پر پورا اترنا خواہ کتنا ہی دشوار ہو، نئی حکومت کو یہ کرنا ہی پڑے گا۔

ژاں لیوک لیماہیو مزید کہتے ہیں کہ افغانستان کا اہم ترین مسئلہ سیاست اور اقتصادیات کے جرائم ہیں، جن کے ذریعے سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے جب کہ منشیات کے عادی افراد کی تعداد بھی افغانستان میں بہت زیادہ ہے۔ دوسری جانب افغانستان سے غیر ملکی دستوں کے مکمل انخلا کے بعد اس ملک میں طالبان ایک قوت کے طور پر باقی رہ جائیں گے اور ماضی میں اپنے کنٹرول والے  علاقوں پر دوبارہ قبضہ کر کے اس کاروبار کو فروغ دیں گے۔ طالبان نے اس کا آغاز کر دیا ہے اور چند علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق افغانستان دنیا بھر میں پیدا ہونے والی افیون کی کْل پیداوار کا 80 فی صد پیدا کرتا ہے اور اس کی غیر قانونی تجارت سے حاصل منافع طالبان، بغاوت کی فنڈنگ میں بھی استعمال کرتے ہتں۔ افیون کی فصل کے وافر ہونے کے سبب اگرچہ قیمتوں میں کمی آئی ہے لیکن یہ منافع 850 ملین ڈالر تک پہنچ چکا ہے، جو ملک کی مجموعی قومی پیداوار کا4 فی صد بنتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکی امداد افغانستان میں افیون کی کاشت کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوئی؟

جواب یہ ہے کہ امریکانے افغانستان میں منشیات کا قلع قمع کرنے کے لیے سات ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ تو کی لیکن ملک افیون کی پیداوار کے اعتبار سے ہنوز سرفہرست ہے۔ کیا امریکی امداد درست طریقے سے خرچ ہوئی؟ یہ دوسرا سوال ہے، جو ذہنوں میں اُٹھتا ہے۔ میڈیا کے مطابق وہ علاقے جہاں طالبان کا کنٹرول ہے وہاں کچھ رقم مقامی حکومتی اہل کاروں اور طالبان کو دے کر اب بھی افیون کاشت کی جاسکتی ہے۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ امریکی امداد کہاں خرچ ہوئی؟ اس کا سراغ لگانا امریکا کے لیے بھی ناممکن ہو گیا ہے ۔

صوبہ ہلمند میں افیون کی سب سے زیادہ پیداوار ہوتی ہے۔ یہ صوبہ دنیا میں افیون کی مجموعی کھپت کا 80 فی صد مہیا کرتا ہے۔ اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کے دفتر برائے منشیات اور جرائم نے اپنی ایک رپورٹ میں کی ہے۔افیون کی پیداوار میں اضافے کی ایک وجہ کاشت کے لیے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی میں ترقی بھی  ہے۔ ہلمند میں انسداد منشیات کے محکمے کے سربراہ لعل محمد عزیزی نے میڈیا کو بتایا کہ وہ نہیں جانتے کہ ان کے صوبے میں افیون کی پیداوار کو روکنے کے لیے کتنی رقم صرف ہوئی؟ وہ صورت حال کی خرابی کی ذمے داری  افغان حکام پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں ’’سن دو ہزار نو میں افیون کی پیداوار میں کمی ہوئی تو اس کی وجہ امریکا اور برطانیہ کی کوششیں ہی تھیں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان ممالک کی اس ضمن میں دل چسپی کم ہوتی گئی اور کاشت  پھر سے بڑھتی گئی۔

امریکی حکومت کے اخراجات پر نظر رکھنے والے حکام نے اکتوبر2014 میں کہا تھا کہ امریکا گذشتہ 13 سال میں افغانستان کی تعمیر نو کے پروگرام کے تحت افیون کی روک تھام پر سات ارب 60 کروڑ ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اقوام متحدہ کا خیال ہے کہ 2013 میں افغانستان میں افیون کی فصل کی کل مالیت تین ارب ڈالر کے قریب تھی جو کہ 2012 کے مقابلے میں 50 فی صد زیادہ تھی۔ یاد رہے کہ 2010  سے افغانستان میں افیون کی کاشت میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

افیون کی کاشت کم ہونے کی ایک دل چسپ وجہ یہ بھی رہی ہے کہ جب ایران پر اقوام متحدہ کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد ہوئی تھیں اور ایرانی کرنسی کی قدر میں کمی اور پاکستان میں ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تو اس صورت حال  نے پاک ایران سرحد پر ڈیزل کی اسمگلنگ کو انتہائی منافع بخش کاروبار بنا دیا تھا۔ اس سے اسمگلرز کی چاندی ہوگئی اور انہوں نے ڈیزل اسمگل کرنے کے نت نئے طریقے اختیار کیے۔ کچھ لوگ ڈیزل کو پیپسی کی بوتلوں میں بھر کے بچوں کے ذریعے اسمگل کراتے تو کچھ پلاسٹک کے ڈرموں میں خچروں کے ذریعے۔

چھوٹی پک اپ گاڑیاں بھی تیل سے بھرے ڈرموں کو اسمگل کرنے کے لیے استعمال کی جاتیں کیوں کہ پاکستان میں طلب زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈیزل ہاتھوں ہاتھ بک جاتا تھا اورتیل کی اسمگلنگ میں منافع اس قدر بڑھ گیا تھا کہ افیون کی خرید و فروخت کرنے والے اپنا دھندا چھوڑ کر اسی کام میں لگ گئے۔

اہل مغرب افیون سے خوف زدہ کیوں ہے اس کی وجہ بھی مغرب کا وہ کارنامہ ہے جو اُس نے خود سرانجام دیا۔ اس نے افیون کے انتہائی نقصان دہ جوہر کو اس سے الگ کر کے اسے مسکن درد، مقوی قلب اور سکون آور ’’ثابت‘‘ کر کے اشتہار بازی کے ذریعے اس کو فروغ دیا۔ 1813 میں صارفین کو افیون سے کشید کیے گئے اس جوہر کو جنگ  میں زخمی ہو جانے والے سپاہیوں کو اس صدی کے آخر تک استعمال کرایا گیا، جس کی وجہ سے اس جوہر کا نام ہی ’’فوجیوں کی دوا‘‘ پڑ گیا تھا حالاں کہ یہ افیون سے دس گنا زیادہ نقصان دہ تھا۔

ہیروئن بھی دنیا میں پہلی بار امریکا نے ہی متعارف کرائی۔ 1890  میں بہت بلند بانگ دعوؤں کے ساتھ اس کو امراض قلب کے لیے بہترین دو اقرار دیا گیا اور لوگوں کو باور کرایا گیا کہ اس سے زیادہ بے ضرر اور خواب آور دوا کوئی نہیں ہے جب کہ یہ افیون سے 80 گنا زیادہ نشیلی تھی۔ 1898 میں امریکا میں اسے ڈائسٹائل مارفین (Diacetyl Morphine) کے نام سے باقاعدہ پریکٹس میں شامل کر لیا گیا۔ انیسویں صدی کے آخر میں ایک جرمن فرم سے تیار کروا  کے اس ’’دوا‘‘ کو انتہائی وسیع پیمانے پر مارکیٹ میں یہ کہ کر متعارف کرایا گیا کہ درد دل  سے فوری نجات کے لیے یہ مارفین سے زیادہ مؤثر اور نشے سے بالکل پاک  دوا ہے۔

اہل مغرب نے مارفین اور ہیروئن کے علاوہ 25  دیگر نشیلے اجزا بھی  نکالے، جن میں گوڈین (Goodain)، پاپاویرین (Papaverine)،  تھی بین (Thebaine)، نارسین (Narcene) اور نار کوٹین (Narcotine) اہم ہیں۔ آخر الذکر کی وجہ سے ہی اب ہر نشہ آور چیز کو نارکوٹک (Narcotics) کہا جاتا ہے۔ اسی پر اقبال نے مغرب کو خبردار کیا تھا ’’تمہاری تہذیب آپ اپنے خنجر سے خودکشی کرے گی‘‘۔

اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اور مغرب افیون کے نقصانات کی وجہ سے اس کے خلاف عالمی تحریک نہیں چلا رہے بل کہ اس کا سبب کچھ اور ہے اور وہ سبب اس کے سوا کچھ اور نہیں کہ امریکی ہپیوں  اور یورپی نشہ بازوں کو مغرب کی شراب کے بجائے مشرق کی افیون سے  سکون ملتا ہے اور جب 400 روپے کلو گرام بکنے والی افیون سے ہیروئن برآمد ہو کر پاکستان اور بھارت کے ڈرگ مافیا کے ایجنٹوں کے پاس پہنچتی ہے تو اس کی قیمت لاکھوں روپے کلو گرام اور امریکا میں بریف کیس کی تبدیلی کے بعد کم از کم پچاس لاکھ روپے فی کلو گرام تک چلی جاتی ہے۔

مغرب جو اس بات کا عادی تھا کہ مشرق سے انتہائی سستے داموں خام مال خریدے اور اس سے مصنوعات تیار کر کے انہیں بیس گنا قیمت پر بیچے، یہاں آ کر مار کھا گیا۔ اب نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ امریکی ڈالر اور برطانوی پاؤنڈ اِس نشے پر اڑائے جا رہے ہیں اور اُن کا رُخ مشرق کی طرف ہے۔ اب ’’چمڑی جائے، دمڑی نہ جائے‘‘ کے مصداق اپنی دولت کو بچانے کے لیے انہوں نے نشے کے پردہ میں اس کام کے خلاف جہاد کا نعرہ لگا دیا۔

کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر صرف امریکا میں  ہیروئن کی فیکٹریاں ہوتیں تو1981 سے پہلے کی طرح ان کو  ہرگز تکلیف نہ ہوتی۔ اس سارے کھیل میں ایک دل چسپ اور قابل افسوس امر یہ بھی ہے کہ بھارت میں پاکستان  سے زیادہ مارفین اور ہیروئن بھی وہیں تیار ہوتی ہے لیکن بدنام بے چارا پاکستان اور آپ جانیے، بدنام، حقیقی بد سے برا زیادہ برا قرار پاتا ہے۔

اقوام متحدہ کے منشیات سے متعلق ادارے کے ایک اہل کار کا کہنا ہے کہ افغانستان کے لوگوں نے اب افیون، یہ سوچ کر جمع کرنا شروع کر دی ہے کہ جب غیر ملکی افواج یہاں سے چلی جائیں گی تو مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے اسی پر انحصار کیا جاسکتا ہے۔ افغان شہریوں اور حکومت میں بے یقینی کی یہ کیفیت اس لیے پیدا ہوئی کہ منصوبے کے تحت2014 میں نیٹو افواج کی اکثریت ملک سے چلی جائے گی، اور صورت حال خراب ہوجائے گی تو اس سے بچنے کے لیے انھوں نے افیون کی ذخیرہ اندوزی کرنا شروع کردی ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں افیون کی کاشت پر روس کی بڑھتی تشویش کے بعد روس نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں متعین نیٹو افواج افیون کی کاشت اور اسمگلنگ کی روک تھام میں ناکام ہو چکی ہے۔ روس کا الزام ہے کہ نیٹو افواج،  پوست کے ’’کھیتوں‘‘ کو تباہ نہیں کرتیں بل کہ کسانوں کو معاوضہ دے کر ان سے ’’کھڑی فصلوں‘‘ کو تلف کرنے کی بات کرتے ہیں، یہ کیسا آپریشن ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں؟

روس کی نیٹو پر مسلسل تنقید کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ماسکو حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق روس میں 30 ہزار نوجوان ہر سال منشیات کے عادی ہو کر ہلاک ہو رہے ہیں۔ نیٹو کے لیے روسی مندوبروگوزین دیمتری نے کہا تھا کہ وہ افغانستان میں افیون کی کاشت تلف کرنے کی جانب نیٹو اور امریکا کی عدم توجہ کے سبب بہت زیادہ غیر مطمئن ہیں۔ یاد رہے کہ افغانستان میں اس کی کاشت کا رواج سابقہ سوویت یونین کے حملے کے بعد ہی فروغ پایا تھا۔ سوویت فوج نے افغانستان میں آب پاشی کے ذرائع جیسے، کاریز اور کینال وغیرہ تباہ  کر دیے تھے، جس کے بعد کسانوں نے کم پانی سے زیادہ منافع بخش فصل کے طور پر افیون کی کاشت کو ترجیح دینا شروع کر دی تھی۔

امریکا اور اس کے اتحادی ممالک 2002 سے اب تک انسداد منشیات کے سلسلے میں ایک ارب ڈالر سے زیادہ خرچ کرچکے ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ نئی پالیسی کے تحت منشیات کے اسمگلروں اور اس ناجائز کاروبار سے زیادہ منافع کمانے والوں کو تو نشانہ بنایا جارہا ہے  مگرعام کسان زد پر نہیں آتے۔ روس البتہ سخت ترین اقدامات کا مطالبہ کرتے ہوئے فضائی سپرے کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے جس سے افیون کے علاہ دیگر فصلوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کو بھی نقصان پہنچنے کا ڈر ہے۔ ماضی میں کولمبیا اور برما میں اس نوعیت کے فضائی سپرے سے پانی اور کھیت شدید متاثر ہوئے تھے اور دیہات میں بیماریاں پھیلی تھیں۔ افغان اور نیٹو حکام افیون کے کھیتوں پر سپرے کے عمل کی مخالفت کرتے ہوئے دیگر ذرائع تلاش کررہے ہیں۔

افیون ۔۔۔ سکندراعظم کی سوغات

افیون در حقیقت خشخاش کے پودے کے کچے پھل کا ایک منجمد رس ہوتا ہے، جو بذات خود نقصان دہ نہیں۔ طب اسلامی اور ویدک طریقۂ علاج میں بے شمار امراض کے لیے اس کو مفید قرار دیا گیا ہے۔ یہ بے خوابی کو دور کر کے نیند لاتی ہے لیکن نشیلی نہیں ہوتی۔ قدیم یونانی اس دوا سے متعارف تھے۔ بقراط کا ہم عصر ریاگوراس اس کے استعمال سے واقف تھا اور دماغی اور نخاعی امراض کے لیے مریضوں کو استعمال کرایا کرتا تھا۔ حضرت عیسیؑ کی پیدائش سے 300 سال قبل حکیم ثاؤفرطس اور دسقیوریدوس نے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے۔ جالینوس، پلاتینی، رومی، بو علی سینا اور رازی نے بھی افیون کی افادیت بیان کی ہے۔ چودھویں صدی میں شائع ہونے والی ویدک کی معروف تصنیف شارنگندھر اور سولہویں صدی میں بھاؤمشر میں اس کے سُن کرنے اور نیند لانے کی کیفیت کا تذکرہ موجود ہے۔

برصغیر کے تمام معروف اطبا اور وید اس کو استعمال کرتے تھے۔ کوئی بھی طبی اور ویدک تصنیف ایسی نہیں ہے جس میں تیار ہونے والی ادویہ کو بعض امراض کے لیے مفید تسلیم نہ کیا گیا ہو۔ 1979 میں حدود آرڈیننس کے نفاذ سے پہلے تک پاکستان میں آٹے اور چینی کے ڈپوؤں کی طرح افیون کے ڈپو بھی ہوتے تھے اور اس وقت یہ سستے داموں ملتی تھی مگر افیونیوں کی تعداد دیہات اور قصبوں میں انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی۔ شہروں کے اندر کسی محلے میں ہی کوئی افیونی ہوتا تھا اور اسے بھی لوگ برداشت نہیں کیاکرتے تھے۔ حکماء اور وید جن مریضوں کو ایسی دوا دیتے تھے، جس میں افیون شامل ہوتی تو انہیں اس کے ساتھ دودھ اور گھی کثرت سے استعمال کرنے کی تاکید کیا کرتے، تاکہ اس کی خشکی سے محفوظ رہا جاسکے لیکن اہل مغرب کی طرح دھوکے باز نہ تھے۔

افیون جسے ’’فتنہ عظیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے دراصل یہ برصغیر پاکستان و ہند، ایران، افغانستان کی پیداوار ہے لیکن اس علاقہ میں اس کو لانے والا یونانی فاتح سکندر اعظم تھا۔ انگریز نے جب ہندوستان پر قبضہ کیا تو سب سے پہلے افیون کی تجارت پر ہی اجارہ حاصل؛ کیا اور کاشت کاروں پر پابندی لگا دی کہ وہ انگلش سرکار کو ساری فصل فروخت کریں گے۔ وہ ڈپو کے ذریعہ لائسنس ہولڈرز کو معمولی مقدار مہیا کرکے باقی افیون چین اور دوسرے ممالک کو برآمد کردیتا تھا۔ یہ مقدار بلامبالغہ ٹنوں میں ہوتی تھی، انگریز اور امریکی سمگلر مل کر یہ ’’خدمت‘‘ سر انجام دیتے تھے۔

اس کی آمدن کا 20 فی صد انگریز لے جاتا تھا۔ برطانیہ اور چین کے درمیان ’’جنگ افیون‘‘ کے نام سے دو معرکے بھی ہوئے جن کے نتیجے میں چین کو ہانگ کانگ کے ہاتھ سے گیا۔ انگریزکی اس سازش نے اچھی بھلی چینی قوم کی پہچان ’’افیونی قوم‘‘ کے نام سے کرائی۔ 1913 تک چینی آبادی کا ہر چوتھا آدمی افیونی تھا۔ امریکی خود افیون کے دوائی خواص کے اس حد تک مداح تھے کہ انیسویں صدی کے آخر میں شمالی امریکا میں تیار ہونے والی 78 فی صد ادویات میں افیون شامل کرتے تھے۔

1888 میں بوسٹن میڈیکل سٹورز کے ایک سروے میں بتایا گیا کہ 1800 نسخوں میں سے 1481 میں افیون شامل ہوتی ہے۔ انیسویں صدی میں یورپ میں اس کی مقبولیت اس قدر زیادہ تھی کہ بڑے بڑے دانشور، زعما اور امرا راحت، سکون اور دردوں سے نجات کے لیے اس کا فخریہ استعمال کرتے تھے۔ معروف انگریز مصنف سموئیل کولرج نے اپنی مشہور تصنیف ’’قبلائی خان‘‘ پوری کی پوری افیون کے نشے میں ڈوب کر لکھی تھی۔

روزمرہ کام کاج نمٹاتے جب ہو جائے ’بھوت‘ سے ملاقات

$
0
0

رات یا دن کو معمول کے مطابق کام کرتے ہوئے آپ نے کبھی کبھی ضرور محسوس کیا ہوگا کہ کمرے میں آپ کے ساتھ یا پیچھے کوئی دوسرا ذی حس بھی موجود ہے …حالانکہ اس جگہ کوئی موجود نہیں ہوتا! اس عجیب کیفیت کو بعض لوگ ’’وہم‘‘ کہتے ہیں۔

دیگر نے اس غیر مرئی وجود کا نام ’’بھوت‘‘ رکھا ہوا ہے ۔جبکہ جدید تعلیم سے شناسا لوگ بھوت پریت پر یقین رکھنے والے کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’اس کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔‘‘

دلچسپ بات یہ کہ بھوتوں اور روحوں کے وجود پہ یقین رکھنے والے مرد وزن پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ چناں چہ چالاک و عیار لوگ دوسروں کے اس اعتقاد سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ہاں کئی نام نہاد روحانی رہنما یا پیر دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے قبضے میں جنّ بھوت ہیں۔ ان سے وہ جو مرضی کام کراسکتے ہیں۔ لہٰذا دیہاتی و ان پڑھ افراد ان روحانی بزرگوں کی مانگیں پوری کر کے اپنے کام کرانے کی سعی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی تُکا لگ جائے، تو الگ بات ہے، ورنہ اکثر لوگ بھوتوں کے پیچھے اپنی جمع پونجی لٹا بیٹھتے ہیں۔

راقم کا بچپن لاہور کے محلہ کلفٹن کالونی میں گزرا ہے۔ وہاں ایک خاتون اندھیرے کمرے میں لوگوں کے فوت شدہ پیاروں کی روحیں بلایا کرتی تھی۔ ایک ایسی ہی محفل میں شرکت کی دھندلی یاد راقم کے ذہن میں محفوظ ہے۔ مگر یاد نہیں، اس تنگ و تاریک کمرے میں روحیں آئی تھیں یا نہیں؟یہ تصّور کہ پیاروں کی روحیں ہمیں دیکھ رہی ہیں، یقینا ہر انسان کو انبساط و تسکین دیتا ہے۔ پھر ہمارے مذہب کی رو سے بھی روحیں بلکہ جن بھی وجود رکھتے ہیں۔ گو اسلامی تعلیمات کی رو سے جنوں کی دنیا علیحدہ ہے جس کا ہم مشاہدہ نہیں کرسکتے۔

دلچسپ بات یہ کہ سائنس بھی روح و جنّ کی موجودگی تسلیم کرتی ہے۔ آئن سٹائن کا نظریہ بتاتا ہے کہ ایک دفعہ جو توانائی (Energy) پیدا ہوجائے وہ تباہ نہیں ہوسکتی… صرف اشکال بدلتی رہتی ہے۔ لہذا سوال یہ ہے کہ جب انسان یا حیوان مرجائے، تو اس کی توانائی (روح یا نفس) کہاں جاتی ہے؟

قرآن و سنت کے مطابق بعداز موت انسان کی روح جنت یا دوزخ میں پہنچتی ہے۔ تاہم یہ قیام عارضی ہے۔ روزِ حشر گناہوں و نیکیوں کے حساب سے ہر انسان کے دائمی ٹھکانے کا فیصلہ ہوگا۔

ہمارے ہاں روح کی ایک قسم ’’بدروح‘‘ بھی پائی جاتی ہے۔ مگر دین کی رو سے یہ کوئی وجود نہیں رکھتی۔ وجہ یہی کہ مرنے کے بعد ہر مسلمان کی روح جنت یا جہنم میں پہنچ جاتی ہے۔ اِدھر اُدھر بھٹکتی نہیں پھرتی جیسا کہ ہندوئوں کا عقیدہ ہے۔اس عقیدے پہ بالی وڈ میں کئی فلمیں بھی بن چکیں۔

تاہم سائنس داں بھوت پریت،روح، جنّ وغیرہ پر یقین نہیں رکھتے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انسان سمیت جو بھی ذی حس چل بسے، اس کی توانائی بہ شکل حرارت (Heat) لاش کھانے والوں یعنی جراثیم، کیڑوں یا جانوروں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ گویا انہیں دعویٰ ہے،ہماری توانائی ماحول (Enviroment) ہی کا حصہ بنتی ہے۔ لیکن یہ بھی محض ایک نظریہ ہے۔ ممکن ہے کہ انسانی توانائی (بہ شکل روح) کسی اور علاقے (جنت یا دوزخ) کا رخ کرتی ہو! سائنس تو حال کی پیداوار ہے، اللہ تعالیٰ سوا چودہ سو سال پہلے قرآن پاک میں فرما چکے :’’اور یہ (کفار) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روح کے متعلق دریافت کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے کہ روح میرے خدا کا معاملہ ہے اور انسان کو اس کے بارے میں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔‘‘ (17:85)

بات شروع ہوئی تھی اس غیر مرئی وجود سے جو روزمرہ کام کاج کے دوران اکثر ہم سے ٹکرا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ تندرست مرد و زن بھی اس کی موجودگی محسوس کرکے چونک جاتے اور پھر کچھ خوفزدہ ہوتے ہیں ۔جبکہ نفسیاتی امراض میں مبتلا لوگ یا کوئی دشوار گزار کام مثلاً کوہ پیمائی کرتے افراد تو باقاعدہ اس پُراسرار ہستی کو دیکھتے ہیں۔

1933ء میں مشہور برطانوی کوہ پیما، فرینک سمتھی نے مائونٹ ایوریسٹ سر کرنے کی کوشش کی تھی۔ دوران چڑھائی وہ محسوس کرنے لگا کہ کوئی انسان اس کے ساتھ ہے حالانکہ وہ بالکل تنہا تھا۔ ایک بار تو اس نے اپنے اجنبی ساتھی کو کافی بھی پیش کر ڈالی۔ یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ ایک سخت اور کٹھن کام کرتے ہوئے انسان وہموں کا نشانہ بن سکتا ہے۔تنہائی میں کسی نظر نہ آنے والے وجود کی موجودگی محسوس کرنے کا عمل سائنسی اصطلاح میں ’’موجودگی کا احساس‘‘ (Feeling Of Presence) کہلاتا ہے۔ سائنس دانوں کی نگاہ میں یہ وہم کی ایک قسم ہے۔ دیگر اقسام میں ’’جسم سے باہر ہونے کا احساس‘‘ ( Out-Of-Body Experiences) اور ڈوپل گینگر اثر ( Doppelgänger Effect) شامل ہیں۔ اس اثر میں مبتلا انسان اپنے ہم شکل کو دیکھتا اور باتیں کرتا ہے۔

کئی چیزوں کی طرح وہم بھی نیک یا بد خصوصیات رکھتا ہے۔ جب نیک ہو، تو ’’چھٹی حس‘‘ کہلاتا ہے۔ یہ روحانی کیفیت عموماً مثبت معنی میں لی جاتی ہے کیونکہ کسی خطرے سے بروقت خبردار کرکے انسان کو نقصان سے بچاتی ہے۔ بد ہونے کی صورت میں وہم ’’گمان‘‘ بن جاتا ہے۔ اور یہ ذہنی کیفیت عام طور پر منفی معنی رکھتی ہے۔ مثال کے طور پہ قرآن و سنت میں مسلمانوں پر زور دیا گیا ہے کہ دوسروں کے متعلق زیادہ گمان نہ رکھیں، وجہ یہی کہ وہ انسان کو بھٹکاتے اور گمراہ کرتے ہیں۔

گویا وہم بذات خود بری شے نہیں، اس کا استعمال اسے اچھا یا برا بناتا ہے۔ اسی لیے کئی دانشوروں نے وہم کو تعریف وتوصیف سے نوازا ۔ مثلاً آئرش ڈرامہ نگار، آسکر وائلڈ کہتا ہے: ’’تمام لذتوں میں سب سے پہلی لذت وہم ہے۔‘‘ امریکی ہنگری نژاد برطانوی ادیب، آرتھر کوسٹلر لکھتا ہے:’’ وہم کی موت سب سے بڑا غم ہے۔‘‘ جبکہ امریکی ادیبہ، آئرس مردوخ کہتی ہے: ’’انسان ایک تصّوراتی، وہموں کی دنیا میں بستا ہے۔ انسانی زندگی کا کٹھن کام یہ ہے کہ اس میں سے حقیقت تلاش کرے۔‘‘

کہتے ہیں، وہم کا علاج تو حکیم لقمان کے پاس بھی نہیں تھا، مگر ایک سوئس ماہر اعصاب (نیورو سائنسٹسٹ) نے یہ ضرور دریافت کرلیا کہ ’’موجودگی کا احساس‘‘ انسان میں کہاں اور کیوں جنم لیتا ہے۔ اس دریافت کی داستان خاصی دلچسپ ہے۔

ہوا یہ کہ چھ ماہ قبل سوئس ماہر اعصاب، ڈاکٹر اولف بلنک کے پاس مرگی کی ایک مریضہ لائی گئی۔ مرگی بھی ان گنے امراض میں شامل ہے جن کا علاج طبی سائنس بے پناہ ترقی کے باوجود تلاش نہیں کرسکی۔ بس یہ معلوم ہے کہ مرگی دماغ میں کوئی چول یا چولیں ڈھیلی ہونے سے جنم لیتی ہے۔

ڈاکٹر اولف نے مریضہ کو ایک مشین میں بٹھایا اور اس کے ایک دماغی حصّے، پاریٹئل لوب(Parietal lobe) کو بجلی کے معمولی جھٹکے دیئے۔جب بھی جھٹکا دیا جاتا، تو مریضہ کبھی مڑ کر دیکھتی، کبھی دائیں بائیں دیکھنے لگتی جیسے کسی کو تلاش کررہی ہو۔ یہ دیکھ کر ڈاکٹر اولف خاصا حیران ہوا۔ دریافت کرنے پر مریضہ نے بتایا ’’مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میرے آس پاس کوئی اور ذی حس بھی موجود ہے۔‘‘

واضح رہے،پاریٹئل لوب ہی وہ دماغی علاقہ ہے جہاں ہمارے سننے،دیکھنے خصوصاً چھونے سے متعلق اعضاسے آنے والے پیغامات کو ملا کر یہ معین و منضبط تصویر بنتی ہے کہ ہم کیا سن،دیکھ اور چھو رہے ہیں۔مثال کے طور پر آپ ٹی وی دیکھ اور سن رہے ہیں۔ چناں چہ آنکھوں اور کانوں کے آخذے (Receptors) بذریعہ اعصاب ٹی وی دیکھنے و سننے سے متعلق برقی پیغامات مسلسل اور بڑی تیزی سے پاریٹئل لوب تک بھجواتے ہیں۔ وہاں جب مختلف اعضا سے آنے والے پیغامات ترتیب پا جائیں تبھی ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فلم میں ہیرو ہیروئن سے عشق فرما رہا ہے یا غنڈوں سے بھڑچکا۔

ڈاکٹر اولف کو پہلے بھی مرگی اور نفسیاتی بیماری شیزو فرینیا کے کئی مریضوں نے بتایا تھا :’’ہمیں اکثر لگتا ہے کہ ہمارے پیچھے کوئی ذی حس کھڑا ہے اور وہ نقصان پہنچانے کے لیے ہمیں چھونے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر اولف نے اس عجوبے کا مزید مطالعہ کرنے کی خاطر ایک تجربہ کیا۔انہوں نے ایک ایسا روبوٹ بنایا جس کے دو ہاتھ تھے۔ ایک سامنے سے ہاتھ ملاتا، دوسرا پیچھے سے۔ سامنے والے مشینی ہاتھ پر انگلی پھیری جاتی تو پیچھے والا ہاتھ بھی خود کار انداز میں آگے پیچھے حرکت کرتا۔ اس پچھلے ہاتھ کا کنٹرول ڈاکٹر اولف نے اپنے پاس بھی رکھا۔

اب بیس مردوزن تجربہ گاہ میں لائے گئے۔ ان میں مرگی و نفسیاتی امراض کے مریض شامل تھے اور تندرست افراد بھی۔ انہیں یہی بتایا گیا کہ ایک نئے روبوٹ کا تجربہ کرنا مقصود ہے۔ دوران تجربہ ایک فرد کی آنکھوں پر پٹیاں باندھ اورکانوں پر ہیڈفون چڑھا اسے دونوں مشینی ہاتھوں کے درمیان کھڑا کردیا جاتا۔ مدعا یہ تھا کہ وہ اپنے احساسات پر توجہ مرکوز کرسکے۔

دوران تجربہ ہر مرد یا عورت اگلے مشینی ہاتھ کی ہتھیلی پر انگلی پھیرتا، تو پچھلا ہاتھ بھی پشت پر ٹہوکے دینے لگتا۔ لیکن ایک منٹ بعد ڈاکٹر اولف پچھلے ہاتھ کی حرکت میں دو تین سیکنڈ کا وقفہ دے دیتا۔ یوں وہ کچھ دیر بعد حرکت کرتا۔ جب یہ وقفہ دیا جاتا،تو 75 فیصد مردو عورتوں نے محسوس کیا کہ وہاں کوئی دوسرا شخص بھی موجود ہے جو ان کی کمر پر ٹہوکے دے رہا ہے۔ بعض خواتین تو اتنی خوفزدہ ہوئیں کہ آنکھوں پر بندھی پٹی اتار کر پیچھے دیکھنے لگیں۔یوں اس انوکھے تجربے سے معلوم ہوا کہ تنہائی میں کئی غیر مرئی وجود کی موجودگی کا احساس پاریٹئل لوب میں ترتیب پاتے پیغامات کی بے ترتیبی سے جنم لیتا ہے۔

جیسا کہ پہلے بتایا گیا،پاریٹئل لوب ہی وہ دماغی علاقہ ہے جہاں تمام جسمانی اعضا سے آنے والے پیغامات ترتیب پا کر کسی وقوع پذیر ہوتے عمل کی تصویر دکھاتے ہیں۔ جب پاریٹئل لوب میں کوئی خرابی جنم لے تو پھر وہ پیغامات کو منظم طریقے سے ترتیب نہیں دے پاتا۔ اسی انتشار ِخیالات کے باعث انسان کو تنہائی میں کسی غیر مرئی وجود یا بھوت کی موجودگی کا نرالا احساس ہوتا ہے۔

اب درج بالا تجربے کا نتیجہ ہی دیکھیے۔ ہر مرد وزن کو علم تھا کہ اگلے مشینی ہاتھ کی ہتھیلی میں انگلی کی حرکات کے مطابق پچھلا مشینی ہاتھ بھی اوپر نیچے اور دائیں بائیں حرکت کرے گا۔ پہلے ایک منٹ تو انگلی اور پچھلا ہاتھ، دونوں ایک ساتھ حرکت کرتے رہے ۔لیکن جب ڈاکٹر اولف دانستہ پچھلے ہاتھ کی حرکت میں دوسیکنڈ کا وقفہ لے آئے،تو انگلی اور ہاتھ کی حرکات مختلف انداز میں انجام پانے لگیں۔

حرکت کے اسی اختلاف نے سبھی مردوزن کا ذہن گڈمڈ کر دیا ۔ان میں جو زیادہ حساس یا نفسیاتی مریض تھے،تب انھیں یہی محسوس ہوا کہ اس جگہ کوئی دوسرا موجود ہے۔چناں چہ وہ کچھ ڈر سے گئے۔ ڈاکٹر اولف نے مذید تحقیق کی خاطر ایک اور تجربہ کیا۔انھوں نے اپنے چار ساتھیوں کو تجربہ گاہ میں کھڑا کر دیا۔پھر تجربے میں شامل مردوزن کو بتایا’’آپ جب مشینی ہاتھوں کے درمیان کھڑے ہوں گے،تو یہ ساتھی بھی آپ کو چھوئیں گے۔آپ نے بعد ازاں یہ بتانا ہے کہ آپ کو کتنی بار چھوا گیا؟‘‘

دوران تجربہ دس مردوزن پہ انگلی اور پچھلے مشینی ہاتھ کی حرکات یکساں رکھی گئیں۔یعنی ہاتھ کی حرکت میں دو تین سیکنڈ کا وقفہ نہیں دیا گیا۔بعد ازاں دس میں سے دو نے کہا کہ انہیں دو بار چھوا گیا۔ حالانکہ کسی محقق نے نہیں چھوا تھا۔اس تجربے کا بھی یہی نتیجہ نکلا کہ چار لوگوں کی موجودگی سے تو انسانی دماغ بھی تردد و گھبراہٹ کا شکار ہوگیا۔ اسی گھبراہٹ کے بطن سے پھر یہ تصّور جنم لیتا ہے کہ اس کے پاس کوئی ہستی موجود ہے۔

گویا آئندہ کبھی آپ کو اردگرد کوئی ہیولا دکھائی دے، یا محسوس ہو، تو اسے نظرانداز کردیجیے۔ یہ صرف آپ کے دماغ کا فتور ہے جو پاریٹئل لوب میں پیغامات کے گڈمڈ اور بے ترتیب ہونے سے پیدا ہوتا ہے۔ اپنا دماغ درست کیجیے اور لو، ہیولا غائب ہوگیا۔ بڑے بوڑھے کہہ گئے ہیں: ’’اپنے خیالات بدل لو تو دیکھو گے کہ تمہاری دنیا بھی بدل جائے گی۔

دماغ کا اہم حصہ

ماہرین نے انسانی دماغ کو چھ حصوں میں تقسیم کیا ہے۔پاریٹئل لوب دماغ کا دوسرا اہم حصہ ہے۔ یہ حصہ خصوصاً چھونے کے احساس سے متعلق ہے۔ اگر اس حصے کی نسوں میں کوئی خرابی جنم لے، تو انسانی جلد چھونے کی حس ہی کھو بیٹھتی ہے۔ اسی حصے میں موجود عصبی خلیے (نیورون) لکھنے، تصویر بنانے اور گنتی کرنے کے عمل کو بھی کنٹرول کرتے ہیں۔نیز یہ دیگر حصوں کے ساتھ مل کر دیکھنے اور سننے کی حسوں کو منضبط کرتا ہے۔

بنگلہ دیش، متحدہ پاکستان کے حامی بھارت نواز حکمرانوں کے زیر عتاب

$
0
0

عصر حاضر میں بنگلہ دیش کے سوا شاید ہی دنیامیں کوئی ایسا ملک ہوجہاں سیاسی مخالفین کوچن چن کر پھانسیوں پر لٹکایا جارہا ہو یا 80، 90 برس کے لئے جیلوں میں بھیجا جارہا ہو اور پھر وہاں بدترین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہو۔

ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی اور وزیراعظم بیگم حسینہ واجد کو سب سے زیادہ غم وغصہ جماعت اسلامی پر ہے۔ جماعت کی پوری قیادت کوپاکستان سے علیحدگی کی جنگ71ء میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ یہ مقدمات ایسے’’انٹرنیشنل وارکرائمز ٹریبونل ‘‘ میں چلائے جارہے ہیں جو عالمی قوانین انصاف سے متصادم ہے، مختلف غیرملکی حکومتوں اورانسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے غیرقانونی قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ اس ٹریبونل کے پہلے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق تھے ، جنھوں نے20 برس قبل( جب وہ وکیل تھے)،ایک ’عوامی عدالت‘ لگاکر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا تھا۔ٹریبونل کا سربراہ بننے پر وہ بے حد خوش تھے کہ اب وہ اپنا دیرینہ خواب پورا کرسکیں گے تاہم پھراچانک انھیں استعفیٰ دیناپڑا، بھلاکیوں؟ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے جو ممتازبین الاقوامی جریدے ’اکانومسٹ‘ نے شائع کی۔

اس کہانی نے ٹریبونل کی حقیقت اور حسینہ واجد کے منصوبے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ہوایوں کہ جسٹس نظام الحق نے بریسلز میں ایک بنگالی قانون دان ضیاء الدین سے بذریعہ سکائپ طویل گفتگوکی، مختلف نشستوں میں ہونے والی اس گفتگوکا مجموعی دورانیہ 17گھنٹے تھا جبکہ دونوں کے درمیان 320ای میلز بھی ہوئیں۔ یہ ساری گفتگو اور ای میلز ’اکانومسٹ‘ تک پہنچ گئیں۔

ان میں جسٹس نظام نے کہا:’’حسینہ واجد حکومت تو چاہتی ہے کہ میں جلد سے جلد فیصلہ دوں، اور اس خواہش میں یہ لوگ پاگل لگتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ، جب استغاثہ نالائقوں پر مشتمل ہے اور ان سے صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں ہورہا، تو اس میں مَیں کیا کروں؟ مَیں انھیں کمرہ عدالت میں ڈانٹتا ہوں، مگر ساتھ ہی پرائیویٹ چیمبر میں بلا کر کہتا ہوں، بھائی! ناراض نہ ہوں، یہ سب ڈراما ہے تاکہ غیر جانبداری کا کچھ تو بھرم باقی رہے۔ پھر انھیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کیا کہیں۔ اب تم ہی رہنمائی دو میں کس طرح معاملے کو انجام تک پہنچاؤں‘‘۔

یہ گفتگو ثبوتوں کے ساتھ ’اکانومسٹ‘ لندن کے خصوصی نمائندے نے جریدے کو اشاعت کے لئے بھیج دی ، جریدہ نے فون کر کے جسٹس نظام سے پوچھا کہ ہمارے پاس یہ رپورٹ ہے، وہ جواب میں کہنے لگے: ’’ایسا نہیں ہوسکتا، ہم تو عدالتی معاملات اپنی بیوی کے سامنے بھی زیربحث نہیں لاتے‘‘۔ پھر’اکانومسٹ‘ نے دسمبر 2012ء کے ایک شمارے میں خلافِ معمول رسالے کے مدیر نے اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ ساری کہانی شائع کردی جس نے بنگلہ دیش میں تہلکہ مچادیا۔ یوں جسٹس نظام کو مستعفی ہونا اور حسینہ واجد حکومت کو سبکی کاسامناکرناپڑا تاہم اس کا بدلہ مخالفین پر ظلم وستم کا سلسلہ مزیدتیز کرکے لیا۔

بھارت نوازحکمران جماعت کادعویٰ رہا ہے کہ جنگِ1971ء میں پاکستانی فوج اور جماعت اسلامی نے مل کر 30لاکھ افراد قتل کئے تھے۔ حکومت مخالفین کاکہناہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا بڑھاچڑھا کر پیش کی گئی ہے۔ یہ امر خاصادلچسپ ہے کہ حسینہ واجدحکومت کو اچانک 42برس بعد ان لوگوں پر مقدمہ چلانا یادآیاجنھیں اس نے اپنے سابقہ دور حکومت میں کابینہ میں شامل کر رکھاتھا اور سب سے بڑی بات کہ جن کے بارے میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستان سے معاہدہ کیاتھا کہ بنگلہ دیش کے ان شہریوں پر مقدمات نہیں چلائے جائیں گے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے خلاف اورمتحدہ پاکستان کے حق میں تھے۔

اقوام متحدہ نے بھی حسینہ واجدحکومت کے قائم کردہ اس وارکرائمز ٹریبونل کے بارے میں تحفظات ظاہرکئے کہ یہ بین الاقوامی قانونی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ملک کے اندر بھی اس ٹریبونل پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حسینہ واجد نے ٹریبونل جماعتِ اسلامی سے نمٹنے کے لئے قائم کیاتھا۔ 2010ء میں قائم ہونے والے اس خصوصی ٹریبونل کے تمام ججز کا تعلق بنگلہ دیش ہی سے ہے جبکہ اسے ’’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے بھی ٹریبونل کو بین الاقوامی معیار کے منافی قراردیاہے۔ جس معیارکا ٹریبونل ہے، اسی معیار کے ججز اور ویسے ہی گواہان۔ فرق صرف یہ ہے کہ سن 71ء جو نوجوان مکتی باہنی(بھارت میں عسکری تربیت پانے والا گروہ) کے افراد کے ہاتھوں بدترین تشدد کا نشانہ بنے، وہی پھانسیوں کے پھندوں میں جھول رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کی تقریباً پوری قیادت کوسزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ جماعت اسلامی کے چوتھے سینئر ترین رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ عبدالقادرملاسے کہاگیا کہ وہ صدرمملکت سے رحم کی اپیل کرنے کا حق استعمال کریں تاہم انھوں نے ایسا کرنے سے انکارکردیا۔

انھوں نے پھانسی سے پہلے اپنی اہلیہ کے نام خط میں لکھا کہ ان(بنگلہ دیشی حکمرانوں) جیسے لادینوں نے کئی پیغمبروں کو بغیر کسی جرم کے قتل کیا،نبی کریم ﷺ کے کئی ساتھی جن میں خواتین بھی شامل تھیں،انہیں نہایت بیدردی کے ساتھ ماراگیا،ان شہادتوں کے بدلے میں اللہ تعالی نے سچائی کے راستے میں آسانی پیداکی اوراسلام کوفتح سے ہمکنار کیا، مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی میرے معاملے میں بھی ایساہی کرے گا۔ یہ بات میں روزاول سے کہہ رہاہوں کہ ہمارے خلاف جوبھی اقدامات کئے جارہے ہیں وہ دہلی کی میزپرتیارکئے جاتے ہیں،عوامی لیگ اگر واپس ہٹنا بھی چاہے تواب ان اقدامات سے پیچھے نہیں مڑسکتی کیونکہ اس باروہ صرف دہلی کے آشیربادہی سے اقتدارمیں آئی ہے۔

انھوں نے مزید لکھاکہ کسی بھی آزاد، فطری ٹرائل اورانصاف کی توقع ایسے لوگوں سے نہیں کی جاسکتی لیکن قوم اوردنیابھرکے لوگ جانتے ہیں کہ سچ کیاہے،میری موت جبرکی اس حکومت کے خاتمے کاسبب بنے گی۔ میں نے سورہ توبہ کی آیت نمبر17سے24 کا مطالعہ کیا،آیت نمبر19میں واضح اندازمیں لکھاہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اورمال کے ساتھ جہادکرنا،خانہ کعبہ کی خدمت اورحاجیوں کوپانی پلانے سے زیادہ افضل ہے۔

اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اس لیے لڑناکہ اسلام کا نظام قائم ہو اور ناانصافی کے خلاف لڑتے ہوئے مرناطبعی موت مرنے سے افضل ہے،اگراللہ تعالیٰ کی ذات مجھے جنت میں افضل درجہ دیناچاہتی ہے تومیں بخوشی اس موت کوگلے لگانے کیلئے تیار بیٹھا ہوں، کیونکہ جلادوں کے ہاتھوں غیرمنصفانہ موت توجنت کا پروانہ ہے۔

یہ گھاٹے کاسودانہیں ہے۔ جب نبی کریمﷺشہادت کے اعلیٰ مرتبہ کی بات کرتے تھے تواپنی خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ انہیں بارباریہ زندگی ملے اور بار بار اللہ کی راہ میں شہید ہوتے رہیں،وہ لوگ جو شہید ہوچکے ہیں وہ جنت کے اعلیٰ درجوں میں بیٹھ کراللہ کے حضور اس خواہش کااظہارکریں گے کہ یاخالق ومالک! ہمیں ایک بار پھر اس دنیا میں بھیج تاکہ ہم ایک بار پھر تیری راہ میں شہیدہوں،اس سچی ذات کے الفاظ سچے ہیں اوراس کی طرف سے بھیجے گئے صادق کے الفاظ بھی سچے ہیں، اگر ان پر کوئی شک ہے توہمیں اپنے ایمان اورعقیدے پرشک کرناچاہیے‘‘۔

ٹریبونل نے جماعتِ اسلامی کے ایک دوسرے رہنما مولانا ابوالکلام محمد یوسف کوبھی ان کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی تھی۔ وہ پہلے شخص تھے جنہیں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے تین برس قبل بنائے جانے والے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے مجرم قرار دیا تھا۔ ان کا کچھ عرصہ بعد ا نتقال ہوگیا۔سابق امیر جماعت پروفیسرغلام اعظم کو 90برس قید کی سزاسنائی گئی، ان کی عمر92 سال تھی، ان کا 23 اکتوبر 2014ء کو انتقال ہوگیا، لواحقین کا کہنا ہے کہ بزرگی کی اس عمر میں بھی ان پر بدترین تشدد کیاگیا۔ بعدازاں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیرمطیع الرحمن ظامی، نائب امیر محمد قمر الزمان اور دیگرمرکزی رہنماؤں دلاورحسین سعیدی،علی احسن مجاہد ،میرقاسم علی،اشرف الزماں خان اور چودھری معین الدین کوبھی سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔

ٹریبونل نے انھیں تشدد اور قتلِ عام کے الزامات میں قصور وار ٹھہرایا تاہم یہ تمام رہنماان الزامات کو جھوٹ قراردیتے ہیں۔ محمد قمرالزمان کے بارے میں خیال ظاہرکیاجارہاہے کہ انھیں جلد ہی پھانسی دیدی جائے گی،کیونکہ انھوں نے بھی عبدالقادر ملا کی طرح صدرمملکت سے رحم کی اپیل کرنے سے انکارکردیاہے۔سوال یہ ہے کہ پھانسی پانے والے رہنما عبدالقادرملا کی یہ بات درست ہے کہ حسینہ واجد جماعت اسلامی کے خلاف یہ سب کچھ بھارت کے ایماپر کررہی ہے؟ اگرایساہے تو کیوں؟

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے حوالے سے سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا یہ بیان پڑھئے، جو انھوں نے بنگلہ دیش کا دورہ شروع کرنے سے پہلے30جون2011ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:’’بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی کم از کم 25 فی صد آبادی علانیہ طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں‘‘۔

اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کا بیان بنگلہ دیشی حکومت کے لئے پالیسی بیان کا درجہ رکھتاتھا ، اس کا مطلب اس کے علاوہ کیاہوسکتاتھا کہ ڈھاکہ حکومت جماعت اسلامی کے خلاف جو کچھ کررہی ہے، اس پر شاباش لیکن ڈومور… ڈومور… ڈومور۔ اگرمزیدلوگوں کو پھانسی کے پھندوں میں نہ لٹکایاگیاتو بنگلہ دیش سے مزیداچھے تعلقات بھی ممکن نہیں ہوں گے۔حالیہ نومبر کے دوسرے عشرے میں بھارتی حکمران بھارتیہ جنتاپارٹی کے رہنما سدارتھ ناتھ سنگھ نے کلکتہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مغربی بنگال کی حکمران ممتابینرجی ریاستی انتخابات جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مدد سے جیت کر حکمران بنی ہیں۔ ان کے خیال میں ممتابینرجی نے بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحقہ علاقے سے75 نشستیں حاصل کی ہیں۔

گزشتہ برس بنگلہ دیشی حکومت کے وزیر بے محکمہ سرنجیت سین گپتا نے کہا: ’’ہمیں1972ء کا اصل دستور بحال کرنا چاہیے۔ یاد رہے، اس دستور میں ایک پارٹی سسٹم اور غیرسرکاری اخبارات پر پابندی کا قانون ہے۔ جماعت اسلامی پر ہرسطح پر پابندی لگانی چاہیے اور اس کے رہنماؤں کو موت کی سزا دی جائے‘‘۔ اسی وزیر نے شیخ مجیب کے سابق ساتھی قانون دان اور بنگلہ دیش کے اوّلین وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہاتھا: ’’یہ لوگ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے لیے سزائے موت کی تائید نہ کرکے قومی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں‘‘ (روزنامہ انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، 12فروری 2013ء )۔

تاہم دوسری طرف بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر، جو ماہر معاشیات، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے مشیر بھی رہے ہیں، کا کہناہے: ’’میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں 1971ء کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانشوروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔

مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں (بنگلہ دیش کے حوالے سے) بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ1971ء میں (مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ) جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔ اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

گویا کہ1971ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے‘‘۔ یادرہے کہ شاہ جہاں عمر نے پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں بنگلہ دیش کے دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا گیا۔

آخر میں یہ بھی پڑھ لیجئے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی: ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا، جب میں نے پاکستان میں مداخلت کر کے بنگلہ دیش بنایا‘‘ اس کے بعد یہ سوال کھل جاتاہے کہ جماعت اسلامی جس نے پاکستان کے دونوں حصوں کو متحد رکھنے کی جدوجہد کی تھی، کے رہنمائوںکوپھانسیوں پر کیوں لٹکایا جارہاہے۔

سرما رُت میں اوڑھی دھوپ، سجایا روپ

$
0
0

سرما رُت نے آنگن آنگن ڈیرے ڈال لیے، دھوپ نرم پڑگئی، شامیں خنک اور راتیں برفیلی ہوچلی ہیں۔

سرد موسم میں دبازت اور حرارت جسم وجاں کی پہلی ضرورت بن جاتی ہیں، سو اپنے دھاگوں میں دھوپ پروئے اور اپنے اندر روئی کی نرماہٹ سموئے شالیں تن کی زینت بننے لگی ہیں۔

مختلف رنگوں کی دیدہ زیب اور دل فریب شالیں سرد شاموں اور راتوں میں جسم کو حرارت ہی عطا نہیں کرتی شخصیت کو خوب صورتی بھی دیتی ہیں۔ طرح طرح کے ڈیزائنز میں دست یاب شالیں جب تن کو ڈھانپتی ہیں تو شخصیت دل آویز ہوجاتی ہے۔

شہرت کے طلبگار 2 امریکیوں کا اسامہ بن لادن کو قتل کرنے کا دعویٰ

$
0
0

یہ 2مئی 2011 ء کی تاریک رات تھی جب دو ہیلی کاپٹروں پہ سوار دو درجن امریکی کمانڈوز المعروف بہ نیوی سیلز ایبٹ آباد کے مضافات میں اترے۔ان کی منزل بقول امریکیوں کے بیسویں صدی میں ’’دہشت گردوں‘‘کی سب سے بڑی تنظیم،القاعدہ کے بانی،اسامہ بن لادن کا گھر تھا۔کمانڈوز نے اسامہ کو گولیوں سے چھلنی کیا،لاش اپنے طیارہ بردار جہاز میں لے گئے اور وہاں کسی نامعلوم مقام پہ سمندر برد کر دی۔

بیشتر مسلمانوں کے نزدیک اسامہ ایک عظیم مجاہد تھے جو مغربی استعمار کے خلاف کھڑے ہوئے مگر دنیائے مغرب میں انھیں دہشت گرد اور قاتل سمجھا جاتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ  کہ اب بھی ان کی شخصیت سربستہ راز ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ کسی بیماری کے ہاتھوں وہ 2002ء میں چل بسے تھے۔

اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ  ہی رہائش پذیر تھے تو وہاں ان کی زندگی ماضی سے بالکل مختلف تھی۔ اب وہ  اہل خانہ کے ساتھ خاموش عائلی زندگی گزار رہے تھے۔ انھیں کسی حملے کا خطرہ نہیں تھا۔ اسی لیے گھر میں سرنگ تھی نہ فرار کا کوئی راستہ!حتی کے گھر میں اسلحہ بھی نہ ہونے کے برابر تھا۔ بہرحال اسامہ کی موت پہ امریکیوں نے خوشی کے شادیانے بجائے۔

عجیب بات یہ کہ اسامہ مر کر بھی ان کی سائیکی پہ سوار ہیں۔ اس کا ثبوت پچھلے دنوں سامنے آیا۔ ہوا یہ کہ 2 نیوی سیلز نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا انوکھا دعوی کر ڈالا ۔امریکی عوام حیران پریشان ہو گئے کہ کس پہ اعتبار کیا جائے کہ دونوں امریکی فوج کے ایک ایلیٹ دستے سے تعلق رکھتے ہیں۔ رفتہ رفتہ لوگوں پہ آشکارا ہوا کہ دونوں کمانڈوز اپنے دعوی کے ذریعے شہرت و دولت پانے کے متمنی ہیں۔ گویا معاملہ ازل سے انسان کے ساتھ لگے لالچ و ہوس کا نکلا۔

اسامہ کی ہلاکت کو پہلی بار مشہور امریکی صحافی‘ مارک بوڈن نے اپنی کتاب ’’دئ فنش‘‘(The Finish: The Killing of Osama Bin Laden) میں تفصیل سے بیان کیا۔ یہ کتاب جون 2013ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مواد امریکی فوجیوں و جرنیلوں سے انٹرویو کر کے حاصل کیا گیا۔ اس میں درج ہے: ’’تینوں کمانڈو ایک ساتھ کمرے میں داخل ہوئے۔ تب اسامہ زندہ اور وہاں استادہ تھا۔ کمرے میں دو خواتین بھی تھیں۔ سب سے پہلا کمانڈو یا ’’پوائنٹ مین‘‘ ان خواتین پر جا پڑاپھر انہیں ایک طرف لے گیا۔ تب دروازے پر کھڑے دوسرے کمانڈو نے پہلی گولی اسامہ کے سینے اور دوسری سر پر مار کر اسے ہلاک کر دیا۔‘‘

اگست 2013ء میں اس تاریخی واقعے کا نیا ورژن سامنے آیا۔ تب ان تین کمانڈوز میں سے ایک‘ مارک بیسونیٹی (Mark Bissonnette)مارک اوون کے قلمی نام سے اپنی کتاب’’ نوایزی ڈے‘‘ لکھنے میں مصروف تھا۔ اس نے کتاب کی تشہیری مہم کے سلسلے میں مختلف انٹرویو دیئے۔ کتاب ستمبر2013ء میں شائع ہوئی۔ درج بالا کتاب میں لکھا ہے:جب ہم تین تیسری منزل پر پہنچے‘ تو ابھی سیڑھیوں پر ہی تھے کہ دیکھا‘ ایک کمرے سے کسی مرد کا چہرہ جھانک رہا ہے۔

پوائنٹ مین نے اس پر گولیاں چلا دیں۔ چہرہ اندر ہوگیا۔ جب ہم کمرے میں پہنچے‘ تو د یکھا کہ وہ آدمی زمین پر گرا پڑا ہے۔ اس کے سر سے خون بہہ رہا ہے۔ گویا پوائنٹ کی گولیاں اسے جا لگی تھیں۔کمرے میں دو عورتیں موجود تھیں۔ پوائنٹ مین انہیں گھسیٹ کر ایک طرف لے گیا کیونکہ اسامہ اب خطرہ نہیں رہا تھا۔ تب مجھ سمیت میرے ساتھی نے دم توڑتے اسامہ کے بدن میں مزید سیسہ اتار دیا۔ بعدازاں ہمیں احساس ہوا کہ مرنے والا اسامہ سے ملتا جلتا شخص تھا۔‘‘

اس واقعے کا تیسرا ورژن پچھلے دنوں سامنے آیا۔ اب کمانڈوز کی تکڑی کا دوسرا رکن‘ رابرٹ اونیل بول پڑا۔ اس نے امریکی میڈیا کو کئی انٹرویو دے کر اپنا ورژن پیش کیا جو کچھ یوں ہے:’’جب ہم تیسری منزل کی طرف بڑھے‘ تو پوائنٹ مین میرے آگے تھا۔ تب اس نے ایک کمرے سے کسی مرد کا جھانکتا چہرہ دیکھا۔ پوائنٹ مین نے گولیاں چلا دیں مگر وہ ضائع گئیں۔ جب ہم کمرے کے دروازے پر پہنچے‘ تو وہاں دو خواتین کھڑی تھیں۔

پوائنٹ مین ان پر جا پڑا تاکہ انہوںنے خودکش دھماکے والی جیکٹیں پہن رکھی ہیں تو وہ پھٹ جائیں۔(گویا پوائنٹ مین اپنی جان دے کر اپنے ساتھیوں کی جانیں بچانا چاہتا تھا)۔میں اس کے پیچھے کمرے میں داخل ہوا۔ تب میں نے اسامہ کو کھڑے پایا۔ اس کی آنکھوں میں خوف جھلک رہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی AK-47 رائفل تک پہنچتا‘ میں نے اس کے سر میں دو گولیاں دے ماریں۔ اسامہ کا سر کھل گیا۔‘‘

گویا رابرٹ اونیل کی رو سے کمرے میں صرف دو امریکی کمانڈو داخل ہوئے: ایک پوائنٹ مین اور دوسرا وہ خود۔ اس ورژن میں تیسرا کمانڈو یا مارک بیسونیٹی غیر حاضر ہے۔

اسامہ بن لادن کی ہلاکت سے وابستہ یہ تنازع معمولی بات نہیں۔ لاکھوں مسلمان انھیں استعماری طاقتوں کے خلاف جہاد کا سرخیل سمجھتے ہیں۔ دوسری سمت بعض مسلم دانش وروں کا دعویٰ ہے کہ استعماری طاقتوں نے اسلام کو بدنام کرنے اور آزادی کی تحریکیں ختم کرانے کے لیے انہیں بطور مہرہ استعمال کیا۔ حقیقت جو بھی ہو‘اسامہ کی موت سے متعلق مختلف ورژنوں کا سامنے آنا چند پہلو اجاگر کرتا ہے۔

پہلا پہلو یہ کہ اسامہ بن لادن امریکی حکومت و عوام‘ دونوں کے لیے سب سے اہم مطلوب ترین شخصیت تھے۔ چنانچہ جس نیوی سیل نے اسے ہلاک کیا‘ وہ امریکا میں ہیرو بن جائے گا۔ اسے عزت ہی نہیں شہرت و دولت بھی ملے گی۔ خود امریکا میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ شہرت و دولت کے لالچ میں آ کر ہی دونوں سیل اسامہ کو ہلاک کرنے کا سہرا اپنے سر بندھوانا چاہتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ لالچ و ہوس کی اس لڑائی نے نہ صرف امریکی کمانڈوز بلکہ امریکی تہذیب وتمدن کو دنیا بھر میں رسوا کر دیا۔ مادہ پرستی کے جال میں پھنسا امریکی معاشرہ پہلے ہی تنقید اور شکست و ریخت کا شکار ہے۔ یہ نیا ڈرامہ امریکیوں کی بڑھتی ہوس زر نمایاں کر گیا۔ گاندھی جی کا قول ہے:’’ زمین پر انسان کی ضرورت کا ہر سامان موجود ہے‘ لیکن لالچ کوئی حد نہیں رکھتا۔‘‘

اس ڈرامے میں حسد  بھی کارفرما ہوا۔ اسامہ کی موت کے بعد ساری تعریف و توصیف امریکی صدر کے حصے میں آئی۔ کیونکہ ظاہر ہے‘ تب مہم میں شامل کمانڈو گمنام تھے۔ یہی نہیں‘ عسکری قانون و روایات کی رو سے انہیں اس خفیہ مہم سے متعلق ہر بات اپنے تک ہی محدود رکھنی تھی۔مگر مارک بیسونیٹی کو یہ دیکھ کر تاؤ آیا کہ دوران مہم تو اس سمیت دیگر کمانڈوز نے اپنی جانیں خطرے میں ڈالیں‘ جبکہ ’’واہ واہ‘‘ امریکی حکومت کی ہوئی۔

اسی دوران دوستوں سے گفت و شنید کے بعد اسے خیال آیا‘ اگر وہ  واقعے سے متعلق اپنی یادداشتیں لکھ ڈالے تو اسے صرف عزت ہی نہیں شہرت و دولت بھی نصیب ہو سکتی ہے۔چناں چہ مارک نے فوج کی ملازمت چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تاکہ سکون سے کتاب لکھ سکے۔ستمبر2011ء میں مارک بوڈن اپنی کتاب (دی فنش) کے سلسلے میں مارک بیسونیٹی سے ملا۔ مارک  نے مہمان سے پوچھا کہ اس کی کتاب کب مارکیٹ میں آئے گی؟ بوڈن کو یہ سوال کچھ عجیب سا لگا ۔بعدازاں اس پر سوال کی حقیقت منکشف ہوئی…وہ کہ مارک اپنی کتاب اس سے پہلے لانا چاہتا تھا۔

جلد از جلداپنی کتاب مارکیٹ میں لانے کے لیے مارک بیسونیٹی  نے قبل از اشاعت اس کا ایک نسخہ اپنے محکمہ دفاع (پینٹا گون) کو نہیں بھجوایا۔ وجہ یہ کہ کتاب کا جائزہ لیتے محکمے کے افسر کئی ماہ لگا دیتے ہیں۔ یاد رہے‘ امریکا میں کوئی بھی حاضر یا ریٹائرڈ فوجی کوئی کتاب لکھے‘ تو قبل از اشاعت وہ اسے اپنے محکمہ دفاع کو بھجواتا ہے۔ مقصد یہ کہ اگر کتاب میں کوئی قابل اعتراض یا قومی سلامتی سے متعلق حساس مواد موجود ہے تو اسے ہٹایا جا سکے۔چنانچہ مارک نے پینٹا گون کو دکھائے بغیر اپنی کتاب شائع کرا دی ۔اس میں نیوی سیلز کے متعلق خاصی معلومات موجود ہیں جو امریکی افواج کی خصوصی کمانڈو فورس ہے۔

امریکی حکومت اس فورس سے متعلق معلومات چھپاتی ہے تاکہ دشمن نیوی سیلز کے بارے میں زیادہ نہ جان سکیں۔ مگر مارک نے اپنی کتاب میں تفصیل سے بتایا کہ کمانڈو کیونکر تربیت پاتے ہیں اور اس فورس کے کیا اصول و روایات  ہیں۔چناں چہ پینٹاگون اس کتاب کی اشاعت پر بہت برافروختہ ہوا۔ اب وہ مارک پر مقدمہ چلانے کا سوچ رہا ہے۔ دوسری طرف حاضر نیوی سیلز بھی کتاب پڑھ کر ناراض ہوئے۔ انہوں نے مارک کو غدار قرار دیا اور اس سے کنی کترانے لگے۔ یوں آج مارک امریکی معاشرے میں بہت سے لوگوں کے لیے ناپسندیدہ شخص بن چکا۔گو اس نے کتاب کی فروخت سے کروڑوں روپے کمالیے۔

اسامہ بن لادن پہ گولیاں چلانے والا دوسرا امریکی کمانڈو، رابرٹ اونیل تو مارک سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا۔ اس کا یونٹ امریکا میں جہاں بھی تعینات ہوتا، رابرٹ شراب خانوں میں نشے سے چور ہوکر شیخی مارنے لگتا: ’’اسامہ کو میں نے قتل کیا ہے۔‘‘ شراب خانے میں بیٹھے لوگ یہ سن کر حیران رہ جاتے۔

جب اعلیٰ فوجی افسروں کو یہ خبر ملی کہ بڑبولا اونیل شراب خانوں میں شیخیاں مارتا پھرتا ہے تو اسے تنبیہ کی گئی کہ اپنی زبان بند رکھو۔ مگر اونیل دوسروں پر اپنی اہمیت جتا کر لذت محسوس کرتا تھا۔ چنانچہ جب بھی نشے میں آتا، ڈینگیں مارنے لگتا :’’میں نے اسامہ بن لادن کو گولیاں ماریں، اسے بھاگنے کا موقع نہیں دیا، وہ مجھے دیکھتے ہی دیکھتے تھر تھر کانپنے لگا۔‘‘

آخر نیوی سیلز کی ہائی کمان نے شہرت کے بھوکے رابرٹ اونیل کو نکال باہر کیا ۔چونکہ کمانڈو کو بیس سالہ ملازمت کے بعد پنشن ملتی ہے اور اس کے ابھی چار سال باقی تھے۔ لہٰذا رابرٹ اپنی پنشن سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔رابرٹ اونیل پھر جوش و جذبہ بڑھانے والے (Motivation) لیکچر دے کر اپنے اخراجات پورے کرنے لگا۔ پھر شاید اسے خود خیال آیا کہ اسامہ بن لادن کی موت کی داستان کو ’’کیش کرائو‘‘، سو اس نے امریکی میڈیا سے رابطہ کرلیا۔امریکی میڈیا تو سنسنی خیز خبروں کی تلاش میں رہتا ہے۔ لہٰذا اس نے رابرٹ اونیل کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اونیل نے بھی اسامہ پر حملے کی کہانی خوب نمک مرچ لگا کر سنائی اور اپنے آپ کو بہادر ہیرو کی حیثیت سے پیش کیا، جیسے وہ گولیاں نہ مارتا تو اسامہ زندہ بچ نکلتے۔موصوف بھی انٹرویو دے کر کروڑوں روپے کما چکے۔

حقیقت میں دیگر نیوی سیلز نے اونیل کی داستان کو ’’کوڑا‘‘ قرار دیا۔ وجہ یہی کہ اس نے جھوٹ بول کر خود کو اسامہ کا قاتل قرار دے ڈالا۔ جبکہ مارک اپنی کتاب میں رقم طراز ہے کہ پوائنٹ مین کی گولیوں نے اسامہ کو نیم مردہ کردیا تھا۔

گویا پوائنٹ مین یا حملے میں شریک تیسرا امریکی کمانڈو ہی  یہ بات صاف کرسکتا ہے کہ اسامہ سب سے پہلے کس کی گولیوں کا نشانہ بنے۔ تاہم یہ تیسرا نیوی سیل شیخی خورا نہیں اور نہ ہی شہرت ودولت کا بھوکا !اس کے دوستوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنے کارنامے کی تفصیل بیان نہیں کرنا چاہتا۔ تیسرا کمانڈو ابھی ملازمت میں ہے۔ شاید ریٹائرڈ ہونے کے بعد اس کی جانب سے سچائی سامنے آجائے۔ تب تک یہ امر معّمہ ہی رہے گا کہ اسامہ بن لادن کس امریکی نیوی سیل کی گولیوں کا شکار ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے۔

امریکا کے نیوی سیلز

امریکی بحریہ کی یہ کمانڈو فورس سرکاری طور پہ ’’یونائیٹڈ سٹیس نیوی سیلز‘‘ کہلاتی ہے۔ تقریباً تین ہزار کمانڈو اس فورس کا حصہ ہیں۔ یہ فورس بحر کے علاوہ خشکی اور فضا میں بھی خطرناک مہمات انجام دیتی ہے۔ کمانڈوز کو دشوار گزار مراحل طے کرنے اور دشمن سے لڑنے کی خصوصی تربیت دی جاتی ہے۔

نیوی سیلز میں داخل ہونے والا ہر کمانڈو یہ حلف اٹھاتا ہے: ’’میں اپنے کام کی کبھی تشہیر نہیں کروں گا۔ اور نہ ہی اس بنیاد پر کارنامے انجام دوں گا کہ شہرت حاصل کرسکوں۔‘‘ مگر مارک بیسونیٹی اور رابرٹ اونیل کی سرگرمیوں سے عیاں ہے کہ وہ اس حلف کی خلاف ورزی کرچکے ۔

اسامہ بن لادن پر حملے سے قبل امریکا میں نیوی سیلز کو بہت عزت و احترام سے دیکھا جاتا تھا ۔لیکن اب دو نیوی سیلز کی باہمی جنگ نے اس ادارے کو نقصان پہنچا دیا۔ وجہ یہی کہ دونوں ذاتی مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں۔پچھلے چند برس کے دوران کئی اعلیٰ امریکی فوجی افسر کرپشن اور جنسی سرگرمیوں میں پائے گئے۔ ان کی وجہ سے امریکی افواج کی دنیا بھر میں بدنامی ہوئی۔ اب امریکی کمانڈوز کی لڑائی نے اس ادارے کو مزید ضعف پہنچایا۔ امریکی حکمرانوں کو سوچنا چاہیے کہ جنگ و جدل پر مبنی ان کی سوچ معاشرے میں کسی قسم کے منفی اثرات پیدا کردی ہے.


بلوچستان میں نصاب اور نصاب سازی کے مسائل

$
0
0

پاکستان میں نصاب سازی کبھی بھی مقتدر حلقوں کے ہاں سنجیدہ موضوع نہیں رہی۔ بلوچستان تو یوں بھی اپنی پیشانی پر شروع دن سے پس ماندگی کا داغ سجائے ہوئے ہے۔

وفاق کے رویے اور رجحانات ہمیشہ یہاں اثرانداز ہوتے رہے ہیں۔ ابھی چند برس قبل تک نصاب سازی کے تمام تر اختیارات جب وفاق کے پاس ہوا کرتے تھے تو بلوچستان میں نصاب کی تمام کتابیں اسلام آباد یا پنجاب سے تیار ہوکر آتی تھیں۔ اب جب کہ اٹھارھویں ترمیم کے بعد نصاب سازی کا اختیار صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے، اس کے باوجود بلوچستان میں اب تک نصاب کی کوئی کتاب صوبائی سطح پر تیار نہیں کی جا سکی ہے۔ شعبۂ نصابیات کے ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان حکومت نے یہ کہہ کر کہ ان کے پاس نصاب سازی کے اہل افراد ہی موجود نہیں، 2016ء تک وفاقی نصاب کو ہی بروئے کار لانے کا حکم جاری کیا ہے۔

قطع نظر اس بحث کے، پاکستان میں تین مضامین نصاب کی سطح پر ہمیشہ نظریاتی افکار کی ترویج کا باعث رہے ہیں؛ اردو، اسلامیات اور مطالعۂ پاکستان۔ مطالعہ پاکستان کا مضمون جنرل ضیاء الحق کے عہد میں متعارف ہوا۔ یہ آج بھی لازمی مضمون کی صورت میں میٹرک سے لے کر انٹر (بعض مضامین میں یونیورسٹی کی سطح تک) پڑھایا جاتا ہے۔ ان مضامین سے بالخصوص طلبہ کی نظریاتی تربیت کا کام لیا جاتا ہے اور جو مضمون ریاست کی نظریاتی تربیت کا ذریعہ بن جائے، اس میں مبالغہ آمیزی کا عنصر یقینی ہوجاتا ہے۔

لیکن پاکستان میں پڑھایا جانے والا مطالعہ پاکستان کا اہم مضمون مبالغہ کے علاوہ حقائق کی اغلاط اور تعصبات سے بھی بھرا ہوا ہے۔ بلوچستان میں گذشتہ برس نئی ’روشن خیال‘ حکومت نے آتے ہی تعلیمی ایمرجینسی کا جو اعلان کیا تھا، اس میں نصاب میں نفرت انگیز اور متعصب مواد کو خارج کرنے کا عزم بھی شامل تھا۔ لیکن آج ڈیڑھ برس بعد بھی جو نصاب پڑھایا جا رہا ہے، وہ کس قدر تعصبات اور اغلاط سے بھرا ہوا ہے، ذیل میں ہم محض اس کی ایک جھلک پیش کر رہے ہیں۔

اس مطالعے کے لیے ہم نے بلوچستان میں میٹرک اور انٹر لیول پر پڑھائی جانے والی مطالعۂ پاکستان کی نصابی کتب کو منتخب کیا۔ ہر دو کتب میں شامل اغلاط اور متعصبانہ مواد کی الگ الگ نشان دہی کی گئی ہے۔

پہلے تذکرہ کرتے ہیں میٹرک، جماعت دہم میں پڑھائی جانے والی مطالعہ پاکستان کی کتاب کا۔ اس کے مصنفین ہیں، پروفیسر احمد سعید خٹک، پروفیسر محمد نصیرخان۔ مدیر: ڈاکٹر محمد نواز، اشاعت:2013۔ منظور شدہ: بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ، کوئٹہ۔ پبلشر: نیو کالج پبلی کیشنز، کوئٹہ۔

یہ کتاب ہندو دشمنی کے مواد سے بھری ہوئی ہے۔ اس کی چند مثالیں دیکھیں:
1۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان 14اگست1947کو آزاد ہوا، اس کے ایک روز بعد بھارت کا قیام عمل میں آیا۔ (ص،۶۳)
2۔ لاکھوں مہاجرین نے پاکستان کا رخ کیا، جن کے قافلوں کے ساتھ بھارت کے اندر ہندوؤں اور سکھوں نے وہ انسانیت سوز سلوک کیا جس کے بیان سے بھی دل لرز جاتے ہیں۔ اس ہجرت کے دوران بعض واقعات میں تو بھارتی فوج بھی برملا عام ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مسلمانوں کے قتل و غارت میں شامل تھی۔ (ص، ۶۴)
3۔ پاکستانی علاقوں میں قائم دفتروں کے ہندو اہل کار ہندوستان جاتے ہوئے تمام ریکارڈ تباہ کر گئے تھے ۔ (ص، ۶۵)
4۔ 1971ء میں بھارتی جارحیت کی بدولت ہی تو مشرقی پاکستان بنگلادیش بن گیا۔ (ص،۹۷)
انٹرمیڈیٹ کی سطح پر رائج مطالعہ پاکستان کی کتاب بھی اسی قسم کے مواد سے بھری ہوئی ہے۔ اس کے مدیران ہیں؛ محمد سلیم اختر، حفصہ جاوید سبط حسن، مسز شفقت افتخار۔ اشاعت: 2011۔ منظور شدہ: بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ، کوئٹہ۔ پبلشر، فہد پبلشنگ کمپنی، کوئٹہ۔

1۔ اونچی ذات کے ہندو، نچلی ذاتوں خصوصاً ویش اور شودروں سے بہت برا سلوک کرتے تھے۔ مسلمان حملہ آوروں نے جب ان لوگوں سے رواداری کا مظاہرہ کیا تو انھوں نے اپنے حکم رانوں کا ساتھ دینے کی بجائے مسلمان حملہ آوروں کا ساتھ دیا۔ (ص، ۱)
2۔ عوام کی اکثریت جاہل، پس ماندہ اور توہم پرستی کا شکار تھی…ہندو، ترقی اور جدت کے دشمن تھے، غیرملکیوں کو ناپاک سمجھتے تھے۔…ذات پات کے بندھنوں کے باعث عوام میں باہمی رواداری کا فقدان تھا…عورت کی معاشرے میں کوئی عزت نہ تھی۔ وہ مرد کی دست نگر اور لونڈی بن کر رہتی تھی۔ ستی کا رواج عام تھا۔…گوتم بدھ کی اصلاحی کوشش جو بدھ مت کے نام سے مشہور تھی اندرونی انتشار اور شاہی سرپرستی سے محرومی کے باعث ناکامی کا شکار ہو چکی تھی۔ (ص،۲)
یہ باتیں وہاں بھی پڑھانی پڑتی ہیں جہاں کلاس میں کہیں کہیں ہندو طلبہ کی تعداد مسلمان طلبہ سے زیادہ ہوتی ہے، جیسے بیلہ وغیرہ۔
3۔ مسلمانوں کی آمد سے پہلے ہندو، لباس کے معاملے میں سلیقہ مند نہ تھے۔ وہ اپنے جسم کو ایک یا دو چادروں سے ڈھانپ لیتے تھے، مسلمانوں نے پہلی دفعہ لباس سینے کا طریقہ رائج کیا، جو زیادہ باپردہ اور زیادہ خوب صورت تھا۔ (ص،۳)
4۔ مسلمانوں کی آمد سے اس خطے کے عوام کو ہندو سماج کی ناانصافیوں سے بڑی حد تک نجات مل گئی۔ ذات پات کی چکی میں پسنے والے پسماندہ طبقات نے سُکھ کا سانس لیا اور اپنی آزاد مرضی سے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔ (ص،۴)
5۔ مسلمانوں کوہمیشہ اپنی بلندپایہ تہذیب و ثقافت پہ ناز رہا ہے، ہندو قوم اس تہذیب کو مٹانے کے درپے تھی۔…جنوبی ایشیا میں مسلمانوں نے صدیوں حکومت کی تھی چناںچہ وہ نہایت خوش حال قوم تھے۔ انگریزوں کے دور حکومت میں ہندوؤں اور انگزیزوں کی ملی بھگت سے مسلمان اس علاقے کی نہایت مفلس وبدحال قوم بن گئے۔ (ص،۶)
6۔ انسانیت دشمن ہندوؤں اور سکھوں نے ہزاروں بل کہ لاکھوں عورتوں ، بچوں، بوڑھوں اور جوانوں کو انتہائی بے دردی اور سنگ دلی سے قتل کیا اور بے آبرو کیا۔ (ص،۴۳)
7۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ نہیں کہ نہ صرف پاکستان کی ابتدائی مشکلات اور مسائل بھارت کے پیداکردہ ہیں بلکہ پاکستان کا ہر مسئلہ بھارت کا پیداکردہ ہے، جب کہ پاکستان نے شروع ہی سے بھارت کے ساتھ اچھے ہمسایوں جیسے خوش گوار تعلقات قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ (ص،۴۰)

میٹرک کی کتا ب میں حقائق کی چند غلطیاں:
1۔ خیبر پختونخوا کی ریاستیں تحریک پاکستان کے دور سے ہی پاکستان کی حامی تھیں ۔ (ص،۶۶) ……(تاریخ کا قتل عام!)
2۔ (۱۹۶۵ء کی) جنگ میں بھارت کی شکست کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اس کے 110طیارے تباہ ہوئے جب کہ پاکستان کے صرف 14طیارے تباہ ہوئے۔ (ص،۷۲)
ان اعدادوشمار کی تصدیق کہیں سے نہیں ہوتی۔
3۔ اس وقت پاکستان میں غربت کی شرح 25%ہے۔ (ص، ۱۴۰)
جب کہ درحقیقت ۲۰۱۳ء میں صرف غربت کی لکیر سے نیچے افراد کی شرح 22% تھی۔ (ذریعہ، عالمی مالیاتی بینک سروے)
4۔2009ء کے ایک سروے کے مطابق مجموعی طور پر ملک میں خواندگی کی شرح 54فی صد ہو چکی ہے۔ (ص،۱۴۸)
یونیسکو کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح 72%ہے۔ 2013ء کے اعدادوشمار کے مطابق شرح خواندگی کے حوالے سے دنیا کے 221 ممالک میں پاکستان کا نمبر 180ہے۔
5۔ منیر احمد بادینی، حکیم بلوچ، ڈاکٹر نعمت گچکی، عبداﷲ جان جمالدینی اور شاہ محمد مری کو بلوچی کے ’مشہورشعرا‘ کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے (ص،۱۵۷) حالانکہ ان سب کا تعلق نثر سے ہے۔
6۔ پاکستان کی دیگر زبانوں میں ’مکرانی‘ کو بھی اہم زبان قرار دیا گیا ہے۔ (ص،۱۵۸) حالانکہ مکرانی ، بلوچی زبان کا ایک لہجہ ہے نہ کہ الگ سے کوئی زبان۔
7۔ پرویزمشرف کی معاشی اصلاحات کے ضمن میں بتایا گیا ہے،’’آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات حاصل کرنا ان کی حکومت کا اہم کارنامہ تھا۔‘‘ (ص،۹۱) آسان زبان میں اسے ’سفید جھوٹ‘ کہتے ہیں۔

انٹر کی کتاب میں حقائق کی غلطیاں:
1۔ باب پنجم، ’پاکستان کا کلچر‘ میں لکھا ہے؛’’سرزمین پاکستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں قدیم ترین انسانی تہذیب نے جنم لیا، اسے وادی سندھ کی تہذیب کہا جاتا ہے۔ یہ مصر اور عراق کی تہذیبوں کی ہم عصر تھی، اور آج سے چار پانچ ہزار سال پہلے اپنے عروج پر تھی۔ دنیا کے دوسرے حصوں میں بسنے والوں کے مقابلے میں یہ لوگ بہت زیادہ ترقی یافتہ اور مہذب تھے۔ ‘‘ (ص، ۹۷)
حالانکہ جدید تحقیق کے مطابق بلوچستان میں واقعہ مہرگڑھ کی تہذیب کو دنیا کی قدیم ترین تہذیب قرار دیا گیا ہے۔ یہ وادی سندھ کی تہذیب کی نسبت گیارہ ہزار سال قدیم ہے۔ لیکن کتاب میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں۔
2۔ براہوی زبان بولنے والوں سے متعلق لکھا ہے؛’’ساراوان، جھالاوان، کیچ اور مکران کے علاقوں میں ان کی آبادی گنجان ہے۔‘‘ (۱۲۷)
براہوی بولنے والے قبائل کی اکثریت ساروان اور جھالاوان کے علاوہ کچھی اور بولان میں بستی ہے۔ کیچ اور مکران میں ان کی آبادی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہی نہیں، یہ کتابیں بیان کی غلطیوں (Mistakes in Statements) سے بھی بھری ہوئی ہیں، جو نہ صرف ان کے مصنفین، بلکہ بورڈ انتظامیہ اور پبلشرز کی اہلیت پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ پہلے میٹر ک کی کتاب میں موجود ایسی

چند اغلاط کی نشان دہی:
1۔ تین جون 1947ء کا منصوبہ: (نمبر۴) چوںکہ اس زمانے میں بلوچستان کو صوبے کا درجہ حاصل نہیں تھا، لہٰذا تجویز یہ تھی کہ اس کے بھارت یا پاکستان سے الحاق کا فیصلہ کوئٹہ میونسپل کمیٹی اور شاہی جرگہ کے عمائدین مل کر کریں گے۔
(نمبر۶) برصغیر میں سیکڑوں ایسی ریاستیں تھیں جن کو خارجی تعلقات کی آزادی تو نہ تھی مگر اندرونی انتظام میں خودمختار تھیں۔ ایسی ریاستوں کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنی آبادی کے رحجان اور جغرافیائی قربت کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کرلیں۔ (ص،۲۲)
حالانکہ بلوچستان دوسری قسم کی ریاستوں میں شامل تھا اور یہ پاکستان کے قیام کے سات ماہ بعد مارچ 1948ء میں پاکستان کا حصہ بنا۔
2۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک تمام فوجی حکم رانوں کی کارکردگی تو گنوائی گئی ہے، لیکن ان کے حکومت میں آنے کو کہیں بھی غیرجمہوری قرار نہیں دیا گیا۔ سیاسی حکومتوں کی بعض ناکامیاں یا خامیاں بھی بتائی گئی ہیں، لیکن فوجی حکم رانوں کی صرف کام یابیاں بتائی گئی ہیں۔
3۔’سقوطِ مشرقی پاکستان‘ کے اسباب میں مشرقی پاکستان میں ہندو اساتذہ کا کردار، معاشی بدحالی، نوکرشاہی کا رویہ، سیاسی بصیرت کا فقدان اور بھارت کی مداخلت شامل ہیں، عسکری ناکامی کا تذکرہ کہیں نہیں۔
4۔ ضیاء الحق کے دورِ حکومت کے بیان میں ’نفاذِ اسلام کے لیے اقدامات‘ کے عنوان سے پورا ایک صفحہ ان کی شان میں صرف کیا گیا ہے۔ اسلام کا چہرہ مسخ کرنے والے اس آمر کے بنیادپرستانہ اقدامات کو بھرپور طور پر سراہا گیا ہے۔ (ص،۸۳)
5۔ جہادِ افغانستان اور اس کے اثرات‘ کو بھی مثبت طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس میں پاکستان کے کردار کو بالخصوص سراہا گیا ہے۔ (ص،۸۴)
6۔ پرویز مشرف کی جانب سے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں میں اضافہ، انتخابی اہلیت کے لیے بی اے کی لازمی شرط، اور غیرمسلموں کے لیے جداگانہ انتخاب کے خاتمے جیسے اقدامات کو مشکوک بناتے ہوئے لکھا گیا ہے…’’اگرچہ ملک کے اندر اس قانون پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تاہم امریکا اور دیگر غیرمسلم قوتیں مشرف کے اس اقدام سے بہت خوش ہوئیں۔‘‘(ص،۹۰)
7۔ ’’غربت کے نتائج اور تدارک‘‘ کے ضمن میں مقتدر قوتوں کا موقف دہراتے ہوئے لکھا ہے ؛’’تمام انتظامی اکائیاں اپنے اپنے طور پر غربت کا رونا رہی ہیں۔ اس صورت حال سے ہمارے بیرونی دشمن خوب فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ہمارے اپنے ہی عوام ہیں کہ دشمن ممالک کے کارندوں کے ہاتھوں گم راہ ہو کر یا کچھ معاوضے کے لالچ میں آکر اپنے ملک کی سلامتی کے خلاف کام کر جاتے ہیں۔‘‘ (ص،۱۴۱)

ایسی ہی کچھ اغلاط اور غلط بیانیاں انٹر کی کتاب میں بھی موجود ہیں:
1۔ پاکستان میں صحیح اسلامی معاشرہ قائم کر کے مسلمان جدید دنیا کے سامنے ایک مثال قائم کرنا چاہتے تھے کہ دوسری اقوام اس سے متاثر ہو کر اس کی تقلید کرسکیں۔ ان کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ پاکستان کو عالم اسلام کا قلعہ اور مرکز بنا دیا جائے اور یہ مرکز مسلم ممالک کے مسائل حل کرنے میں مدد دے۔ (ص،۷)
’صحیح اسلامی معاشرہ‘ کی وضاحت کہیں نہیں کی گئی۔
2۔ قیام پاکستان کے وقت فیصلہ کیا گیا تھا کہ بلوچستان کا شاہی جرگہ طے کرے گا کہ آیا یہ صوبہ، پاکستان میں شامل ہوگا یا بھارت میں۔ اس موقع پر کانگریس نے سازشوں کا جال بچھایا لیکن اس کی ایک نہ چلی۔ (ص،۱۰)
قیام پاکستان کے وقت قلات کی حیثیت آزاد ریاست کی تھی، شاہی جرگہ اس معاملے کا اختیار ہی نہ رکھتا تھا۔ یہ فیصلہ ریاست قلات کے دارالعوام اور دارالعمرا پر مشتمل ایوان کو کرنا تھا۔
3۔ یہ کتاب 2011میں شائع ہوئی ہے، لیکن اس میں ایک جگہ لکھا گیا ہے،’’موجودہ حکومت نے ڈویژنل نظام ختم کر کے مقامی حکومت کے حوالے سے ضلعی نظام متعارف کروا یا ہے۔ (ص،۹۴)

گویا یہ پرویزمشرف کے زمانے کی بات ہو رہی ہے، جب کہ کے پی کے کو بعض جگہ صوبہ سرحد اور بعض جگہوں پہ خیبر پختونخوا لکھا گیا ہے۔ صوبے کو یہ نام پیپلزپارٹی کی حکومت میں ملا۔ اس سے مدیران کی متن سے سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مزے کی بات یہ ہے بلوچستان میں انٹرمیڈیٹ کی سطح پر مطالعہ پاکستان کی دو مختلف کتابیں بلوچستان کے کالجز میں پڑھائی جا رہی ہیں۔ ایک بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی منظور کردہ، جس کا تذکرہ ہم گذشتہ سطور میں کر چکے ہیں اور دوسری وفاقی وزارتِ تعلیم کی منظورکردہ جسے نیشنل بک فاؤنڈیشن نے شائع کیا۔ بعض اساتذہ کے مطابق پچھلے پانچ سالوں سے وہ وفاقی وزارت تعلیم کی منظورکردہ کتاب ہی پڑھا رہے ہیں، لیکن اندرونِ بلوچستان بعض مقامات پر بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتاب بھی پڑھائی جار ہی ہے۔ یہ کتاب انتظامی سطح پر منسوخ نہیں کی گئی، اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ اس کا آخری ایڈیشن2011ء میں شائع ہوا ہے۔
بلوچستان ٹیکسٹ بیک بورڈ کی کتاب کا تذکرہ تو ہم نے کردیا، اب وفاقی وزارتِ تعلیم کی کتاب کی بھی بات کرلیتے ہیں۔ اس کے مصنف ہیں، مصنف: ڈاکٹر عبدالقادر خان (کتاب میں اندر ایک جگہ مصنف، ڈاکٹر عبدالقدیر بھی لکھا ہوا ہے) ایڈیشن: 2013۔ منظور شدہ: وفاقی وزارتِ تعلیم (شعبہ نصاب) اسلام آباد۔ پبلشر: نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد:

٭تعصبات:
1: ثقافتی ورثے کے حوالے سے پاکستان کے اہم مقامات (ص،۱۱۶) میں کوٹ ڈیجی، ہڑپہ، موئن جو دڑو، ٹیکسلا، سوات، بھنبھور، منصورہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
مہرگڑھ، چاکر کا قلعہ اور ہنگلاج کا کوئی تذکرہ نہیں۔
2 : باب ’پاکستان کی قومی زبانیں‘ میں لکھا ہے؛ ’’قائداعظم نے ابتدا میں ہی میں دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا تھا، اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہو کر ترقی کی شاہراہ پر گام زن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہی ہو سکتی ہے، جو میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔ ‘‘ (ص، ۱۳۰)
یہ نہیں بتایا گیا کہ بنگال میں ان کے اسی خطاب سے بنگلا زبان کی تحریک اٹھی، جو پاکستان کی تقسیم پر منتج ہوئی۔
3 : اردو زبان کی امتیازی خصوصیات: تاریخ نے اسلام، پاکستان اور اردو کو ایک دوسرے کے لیے اس طرح لازم و ملزوم بنا دیا ہے کہ اب ایک کے بغیر دوسرے کا تصور بھی محال ہے۔ اردو میں اسلامی لٹریچر کا قابلِ فخر ذخیرہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مملکت کے نظریاتی مقاصد کی تکمیل قومی زندگی کے ہر شعبے میں اردو کے نفاذ کے بغیر مکمل ہی نہیں۔ (ص، ۱۳۱)

پاکستان کی علاقائی زبانیں:
پنجابی: پنجابی شاعری کا شمار دنیا کی اعلیٰ ترین شاعری میں ہوتا ہے ۔
بلوچی: بلوچ قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے اور زمانہ جاہلیت کے عرب معاشرے کی تمام خصوصیات ان میں موجود تھیں۔ (ص، ۱۳۷)

اغلاط:
1: صفحہ 124پر لکھا ہے؛ ’’چیف آف آرمی اسٹاف جنرل پرویز مشرف بارہ اکتوبر1999کو برسراقتدار آئے اور انھوں نے چیف ایگزیکٹیو کا عہد ہ سنبھال لیا۔ ان کا سیاسی فلسفہ یا وژن یہ ہے …‘‘
کتاب کا پہلا ایڈیشن 2004ء میں شائع ہوا جب پرویز مشرف برسراقتدار تھے، موجودہ ایڈیشن 2013ء میں شائع ہوا ہے، لیکن زبان سے پتا چلتا ہے کہ دس برسوں میںاس پہ کوئی نظر ثانی نہیں کی گئی۔
2: کے پی کے کو ایک جگہ ’سرحد اسمبلی‘ لکھا گیا ہے (ص،۱۲۵)، حالانکہ 2010ء سے اس کا سرکاری نام خیبرپختونخوا ہوچکا ہے، لیکن 2004ء میں شایع شدہ کتاب کے تازہ ایڈیشن میں بھی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
3: بلوچی زبان کے ضمن میں لکھا ہے: ’’ہر قبیلے کا اپنا اپنا شاعر ہوا کرتا تھا جو قبیلے کے بہادروں اور جواں مردوں کی شان میں قصیدے کہتا اور مدمقابل کی ہجو کیا کرتا۔ اس طرح جو ادب پیدا ہوتا رہا، تحریری طور پر اس کا نام و نشان بھی موجود نہیں۔‘‘ (ص،۱۳۷)
بلوچستان میں بے شمار قبائل ہیں، ہر قبیلے کے الگ شاعر کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ اسی طرح ہجو بلوچی شاعری میں کہیں نہیں ملتی، جب کہ کلاسیکی رزمیہ و بزمیہ شاعری کا تمام ریکارڈ آج بھی تحریری صورت میں موجود ہے۔
3: ایک جگہ لکھا ہے؛’’تحریک پاکستان میں میر محمد حسین عنقا کی خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔‘‘ (ص، ۱۳۸)
افسوس کہ عملی طور پر ایسی کوئی بھی خدمت گنوائی نہیں جا سکتی۔ بہتر ہوتا کہ اس ضمن میں کوئی اور نام گنوایا جاتا (جیسے کہ میر جعفرخان جمالی، قاضی فائز عیسیٰ وغیرہ)
4: صفحہ ۱۳۸ پر ہی درج ہے؛’’جدید بلوچی ادیبوں میں محمد رمضان، گل خان نصیر اور آزاد جمال دین ممتا ز ہیں۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ یہ نام بھی ازراہِ مروت ڈال دیے گئے ہیں، ورنہ یہ فہرست بہتر طور پر مرتب ہو سکتی تھی۔ نیز آخری الذکر نام کا درست املا آزاد جمالدینی ہے۔
یہ وہ نصاب ہے جو اس وقت بھی بلوچستان کے سرکاری تعلیمی اداروں میں رائج ہے، اور واضح رہے کہ بلوچستان میں میٹرک اور انٹر لیول پر نوے فی صد سے زاید طلبہ سرکاری اداروں سے ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ حکم راں تو اس معاملے میں یوں سوئے ہیں کہ اٹھنا حشر کو معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا کام زنجیر ہلا دینا ہے…عدل کی پوچھ گچھ اہلِ انصاف سے ہی ہو گی۔

مطالعہ پاکستان
متضاد بیانات ( Paradox in Statements)
یہ جاننا دل چسپ ہو گا کہ ایک ہی صوبے میں میٹرک اور انٹر لیول پر پڑھائے جانے والے ایک ہی مضمون میں ایک دوسرے سے یکسر متضاد بیانات شامل ہیں۔ ذیل کے جدول میں ایسے ہی چند بیانات کی نشان دہی کی گئی ہے:

برائے جماعت دہم
مصنفین: پروفیسر احمد سعید خٹک، پروفیسر محمد نصیر خان
مدیر: ڈاکٹر محمد نواز, اشاعت:2013
منظور شدہ: بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ، کوئٹہ

پبلشر: نیو کالج پبلی کیشنز، کوئٹہ
1۔ باب ہفتم: پاکستان کا عالمی کردار:
۰ روس اور پاکستان کے درمیان اعتماد کا فقدان تھا۔ تاہم پاکستان نے کبھی بھی ناجائز طور پر کسی ایک بلاک کا ساتھ نہیں دیا بل کہ ہمیشہ غیرجانب دارانہ پالیسی اپنائی۔ (ص،۴۰۱)
۰ بلاشبہہ پاکستان سیاسی طور پر کافی عرصے سے مغربی بلاک کا حامی رہا ہے۔ (ص،۶۹)
۰ پاکستان دوسرے ممالک کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے اور اسی طرح اپنے معاملات میں مداخلت کو بھی برداشت نہیں کرتا ۔ (ص، ۵۹)
۰ حکومت پاکستان نے روس سے برسرپیکار افغان مجاہدین کی ہر طرح کی امداد کی، جس کے نتیجے میں 1988ء کے جنیوا معاہدے کے تحت روس کو افغانستان سے اپنی فوجیں نکالنا پڑیں۔
۰ 1991ء کے مشرقِ وسطیٰ کے انتشار کے دوران پاکستان نے سعودی عرب کی مقدس سرزمین کی حفاظت کے لیے فوجی دستے بھی روانہ کیے۔ (ص، ۱۰۱)
2۔ 11ستمبر2001کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے واقعے کے بعد امریکا کی توجہ ایک بار پھر پاکستان کی طرف ہوئی اور دھونس دھمکی کے ذریعے القاعدہ اور تحریک طالبان کے خلاف جنگ میں ساتھ ملا لیا ۔ (ص، ۵۰۱)
3۔ 1971ء میں بھارتی جارحیت کی بدولت ہی تو مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ (ص، ۷۹)
4۔ پاکستان نے بھی چھے ایٹمی دھماکے کر کے بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔ (ص، ۷۹)
5۔ بھارت کے رویے سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ پر امن بقائے باہمی میں دل چسپی نہیں رکھتا۔ (ص،۷۹)

برائے انٹر میڈیٹ
مصنف: ڈاکٹر عبدالقادر خان
ایڈیشن: 2013
منظور شدہ: وفاقی وزارتِ تعلیم(شعبہ نصاب) اسلام آباد
پبلشر:نیشنل بک فاؤنڈیشن، اسلام آباد
1۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی خارجہ حکمت عملی:
۰ غیرجانب داری: دنیا کے ممالک کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے؛ سوشلسٹ بلاک اور سرمایہ دار بلاک۔ پاکستان کا بنیادی نظریہ اسلام دونوں بلاکوں کے نظریات سے مختلف ہے۔ اس لیے پاکستان نظریاتی طور پر کسی بلاک کا حصہ نہیں رہا۔ عملی طور پر پاکستان کی یہ خواہش رہی ہے کہ قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے تمام ممالک سے دوستانہ تعلقات قائم کیے جائیں۔ 1979ء میں پاکستان غیر جانبدار تحریک کا ممبر بن گیا ۔ (ص،۰۷۱)
۰ پاکستان اور ریاست ہائے متحدہ امریکا: 1950ء میں لیاقت علی خان وزیراعظم پاکستان نے امریکا کا دورہ کیا۔ انہیں سوویت یونین اور ریاست ہائے متحدہ امریکا دونوں کی طرف سے دورے کی دعوت موصول ہوئی تھی لیکن انھوں نے امریکا جانے کا فیصلہ کرکے پاکستان کی مستقبل کی خارجہ پالیسی کا رخ متعین کردیا۔ (ص،۰۸۱)
۰ 1954ء میں ترکی، ایران اور پاکستان کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا اور اس طرح پاکستان باضابطہ طور پر امریکی بلاک کا حصہ بن گیا۔ (ص،۱۸۱)
2۔گیارہ ستمبر2001 کو امریکی ٹریڈ سینٹر اور دفاعی مراکز پر دہشت گردانہ حملوں کا الزام امریکا نے طالبان حکومت پر لگایا اور پاکستان سے یہ کہا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم کا حصہ بنے ۔ پاکستان چوں کہ خود بھی دہشت گردی کا شکار رہا اور اس کے ہاتھوں جانی و مالی نقصان اٹھا چکا تھا، لہٰذا یہ فیصلہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے عالمی کوششوں میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ لہٰذا افغانستان میں اتحادی افواج کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی گئی۔ (ص،۲۸۱)
۰ اس موقع پر حکومت پاکستان نے عالمی برادری کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ (ص،۴۸۱)
3۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال سے عہدہ برآں ہونے کے لیے جس سیاسی تدبر اور حوصلہ مندی کی ضرورت تھی، پاکستان کے حکم راں اور سیاست داں اس کا مظاہرہ نہ کرسکے، جس کے نتیجے میں مشرقی بازو پاکستان سے الگ ہو گیا۔ (ص، ۶۷۱)
4۔ وقت نے ثابت کردیا کہ دونوں ملکوں کے لوگوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی کی قیمت ادا کرنے کے لیے معیارِزندگی کی قربانی دینا پڑی ۔ (ص، ۶۷۱)
5۔ دونوں ملکوں کی قیادت یہ سمجھ چکی ہے کہ انسانی تہذیب کی ترقی کے لیے علم اور امن بنیادی قدریں ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ دوست بدلے جا سکتے ہیں، ہمسائے نہیں بدلے جا سکتے ۔ (ص،۷۸۱)

بلوچستان میں مطالعہ پاکستان کا بائیکاٹ
2006ء میں نواب اکبر خان بگٹی کے بہیمانہ قتل کے بعد بلوچ طلبہ تنظیم نے کالج سطح پہ مطالعہ پاکستان کے مضمون کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس دوران بلوچستان کے مختلف علاقوں میں مطالعہ پاکستان کی نصابی کتب جلائی گئیں اور بلوچ طلبہ نے امتحانات میں مطالعہ پاکستان کا پرچہ دینے سے انکار کر دیا۔ ظاہر ہے اس کا منطقی انجام طلبہ کے تعلیمی نقصان کی صورت ہی میں برآمد ہوا۔ یوں اس احتجاج کا انجام حال ہی میں ایک راہ نما کی جانب سے اعلان کردہ سول نافرمانی کی تحریک جیسا ہی ہوا۔

لگا ہے مصر کا بازار دیکھو

$
0
0

صدیوں پہلے طاقت اور مال و زر نے ایک زنجیر تیار کی تھی۔ اس زنجیر کی کڑیوں میں ظلم، بربریت، وحشی پن، تشدد، ایذا، جبر، تذلیل، سفاکی، کرب اور توہین جیسے بدترین اور تاریک جذبوں کا رقص ہمہ وقت جاری رہتا۔ یہ زنجیر کم زور اور مفلس انسان کو طاقت ور اور مال دار انسان کا قیدی بنادیتی تھی۔ اُس دور میں کچھ لوگ ’آقا‘ کا خطاب پاکر بلند رتبہ ٹھیرے اور زنجیروں کی منحوس اور بھونڈی آواز سننے کے لیے اپنے ہی ہم جنسوں میں ’غلام‘ بنالیے۔

یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ عدم مساوات، استحصال کی قدیم، مگر تاریک اور بھیانک شکل یعنی غلامی نے دنیا بھر میں تین کروڑ 60 لاکھ انسانوں کو جکڑ رکھا ہے۔ یہ اعدادوشمار بین الاقوامی ادارے واک فری فاؤنڈیشن کی ایک رپورٹ میں ظاہر کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج بھی انسان مختلف صورتوں میں غلام ہے۔

گلوبل سلیوری انڈیکس 2014کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ غلام رکھنے والا ملک بھارت ہے، جہاں ایک کروڑ 40 لاکھ سے زاید افراد غلامی میں زندگی بسر کر رہے ہیں، جب کہ آئس لینڈ اور لیکسمبرگ میں غلاموں کی تعداد سب سے کم ہے۔

167ممالک میں کیے گئے سروے کے مطابق صرف پانچ ممالک بھارت، چین، پاکستان، ازبکستان اور روس میں ہی تقریباً دو کروڑ بیس لاکھ افراد بہ طور غلام ہیں جو کہ دنیا میں غلاموں کی کُل تعداد کا 61 فی صد ہے۔ اگر جغرافیائی تناظر میں دیکھا جائے تو ایشیا پیسیفک میں دور جدید کے غلاموں کی تعداد 2کروڑ 35 لاکھ 42 ہزار800 ہے، جو کہ دنیا بھر میں غلامی کرنے والے 3کروڑ 60 لاکھ افراد کا 65 اعشاریہ8 فی صد بنتا ہے، جب کہ اس خطے میں جدید غلامی اپنی تمام شکلوں بشمول جبری مشقت، جنسی استحصال کے لیے انسانی اسمگلنگ، اور زبردستی شادی، میں پائی جاتی ہے۔

ایشیائی خطے بالخصوص پاکستان اور بھارت میں اکثروبیشتر پورے پورے خاندان کو غلام بناکر تعمیراتی، زرعی زمینوں، اینٹوں کے بھٹوں اور گارمنٹ فیکٹریوں میں جبری مشقت کرائی جاتی ہے، جب کہ وہ نیم خواندہ اور غیرہنر مند ایشیائی باشندے جو روزگار کی تلاش میں خلیجی ممالک کا رخ کرتے ہیں، وہاں ان میں سے بہت سوں سے غلام کے طور پر کام کروایا جاتا ہے۔ اگرچہ موجودہ دور میں غلاموں کی باقاعدہ خریدوفروخت تو نہیں کی جاتی، لیکن قرض ادا نہ کرنے پر غلام بنانے کا طریقہ اب دنیا کے بیشتر ممالک خصوصاً جنوبی ایشیا میں رائج ہے۔

اس طریقۂ کار میں اپنی شرائط پر قرض دینے والا نادہندہ کو پورے خاندان سمیت اپنے پاس قید کرلیتا ہے اور کبھی نہ ختم ہونے والے اس قرض کو نادہندہ کی کئی نسلیں جبری مشقت کر کے اتار تی رہتی ہیں۔ دوسری طرف انسانی اسمگلنگ بھی اس خطے میں عروج پر ہے، جہاں غلام بنائی جانے والی عورتوں اور بچوں سے قحبہ خانوں میں غیراخلاقی کام کروائے جاتے ہیں۔

یہ رپورٹ دور جدید کی غلامی کو انسانی اسمگلنگ، جبری مشقت، قرض کی عدم ادائیگی پر قید، زبردستی شادی اور تجارتی بنیادوں پر جنسی استحصال کے نکات پر وضع کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق غلاموں کی تعداد میں گذشتہ سال کی نسبت 20 فی صد اضافہ ہوا ہے۔

واک فری فاؤنڈیشن کے بانی اور چیئرمین اینڈریو فاریسٹ کا کہنا ہے،’’لوگوں کا مفروضہ ہے کہ غلامی قدیم دور کا مسئلہ ہے یا یہ صرف جنگ اور غربت سے تباہ حال ملکوں میں پائی جاتی ہے، جو کہ بالکل غلط ہے۔‘‘ ان کا کہنا ہے،’’غلامی کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے ہمارا پہلا قدم اس کی شدت اندازہ لگانا ہے اور اس معلومات کی بنیاد پر استحصال کی سب سے خطرناک قسم کو حتمی طور پر ختم کرنے کے لیے ہم سب کو، حکومتوں، کاروبار اور سول سوسائٹی کو متحد ہونے کی ضرورت ہے۔‘‘

اگرچہ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی رکھنے والی کچھ اقوام دور جدید کے غلاموں کا گڑھ ہیں تو دوسری طرف دیگر ممالک میں بھی ان کی فی صد شرح بہت زیادہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مغربی افریقا کے ملک موریطانیہ میں اس کا پھیلاؤ بہت زیادہ ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق اس کی 4فی صد آبادی غلامی یا نجی قید میں ہے۔ ازبکستان ، ہیٹی اور قطر میں یہ شرح بالترتیب3 اعشاریہ 97، 2 اعشاریہ 30اور1اعشاریہ35 فی صد ہے۔ قطر جو 2022میں فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کرے گا، میں لیبر لا (مزدوروں کے حق میں قانون) پر تحفظات اور کفالا اسپانسر شپ سسٹم، جس کے تحت کفیل جو مقامی شہری ہوتا ہے، کا ہر کام میں شامل ہونا ضروری ہے) جو غیرملکی مزدوروں کی تحریک کے حق کو محدود کردیتا ہے، پر کئی سوال پیدا کردیے ہیں۔

واک فری فاؤنڈیشن کی پالیسی اور ریسرچ مینیجر جینا ڈیفیلیا کا کہنا ہے کہ قطر میں غیرملکی مزدوروں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ اس قوم میں تارکین وطن مزدوروں کو غلام بنانے کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اور یہ ملک کُل آبادی کا 1اعشاریہ 4 فی صد حصہ دور جدید کے غلاموں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے گلوبل سلیوری انڈیکس میں چوتھے نمبر پر ہے۔

گذشتہ ماہ ہی قطر کی حکومت نے کفالا اسپانسر شپ نظام پر کڑی تنقید کے بعد 2015کے آغاز میں اس متنازعہ قانون کو مزید کسی بہتر قانون سے تبدیل کر نے کا اعلان کیا تھا۔ رپورٹ کے مرکزی مصنف کیون بیلز کا کہنا ہے کہ پناہ گزین غلامی کے لیے سب سے زیادہ غیرمحفوظ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ایسے ممالک جہاں پناہ گزینوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں غلامی کا پھیلاؤ بھی بڑھ رہا ہے۔

گلوبل سلیوری انڈیکس 2014میں پاکستان چھٹے نمبر پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ’جدید غلاموں‘ کی تعداد20 لاکھ58ہزار سے زاید ہے۔ پاکستان کے صوبے پنجاب اور سندھ مزدوروں سے کم اجرت پر زبردستی کام لینے کا گڑھ ہیں، جہاں ان مزدوروں سے اینٹوں کے بھٹوں، زراعت اور قالین بانی کی صنعت میں کام لیا جا رہا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے محتاط اندازے کے مطابق پورے ملک میں اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے ’جدید غلاموں‘ کی تعداد تقریبا ً45 لاکھ ہے۔

انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے مطابق سندھ اور پنجاب میں اینٹوں کے بھٹے پر کام کرنے والے افراد اور ان کے اہل خانہ کو مسلح افراد کی نگرانی میں قید رکھا جاتا ہے، جہاں انہیں نہایت معمولی اجرت دی جاتی ہے ۔ دوسری طرف سندھ میں زمیں دار ’’ہاری سسٹم‘‘ کے تحت ایک معاہدہ کر تے ہیں، جس کی رو سے ہاری اپنی تمام فصل زمیں دار کو دے دیتا ہے اور زمین دار اسے نہ ہونے کے برابر رقم کی ادائیگی کرتا ہے۔

سر چھپانے کے لیے جگہ اور کھانے پینے کے لیے اخراجات پورے کرنے کے لیے ہاری کو مجبوراً زمیں دار سے رقم ادھار لینی پڑتی ہے اور ایک بار پیسے لینے کے بعد اس کی ساری عمر اور آنے والی نسلیں بھی زمیں دار کا قرض اتارنے کے لیے اس کی غلام بن کر کام کرتی ہیں۔پاکستان میں جبری مشقت کرنے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ ہے، جن میں سے 38لاکھ بچے اینٹوں کے بھٹے، زراعت، گھریلو ملازم، گاڑیوں کے گیراج، قالین سازی کے کارخانوں میں جبری مشقت اور تجارتی بنیادوں پر جنسی استحصال کا نشانہ بنتے ہیں۔

پاکستان میں جدید غلامی کی ایک مثال منو بھیل کی ہے۔ ہاری منو بھیل اور ان کے اہل خانہ اندرون سندھ کے ایک زمین دار عبدالرحمٰن کی زمینوں پر ہاری تھے۔ جو ان سے جبری مشقت لیتا تھااور انہیں اپنے کھیتوں میں مبینہ طور پر قید کر رکھا تھا۔ موقع ملنے پر منو بھیل نجی جیل سے فرار ہوگیا اور اس نے ایک غیرسرکاری تنظیم سے رابطہ کیا، جس نے زمین دار عبدالرحمٰن کی نجی جیل پر چھاپا مار کر وہاں قید 71 ہاریوں کو آزادی دلوائی۔

منو بھیل کا زمیں دار کی جیل سے فرار اور وہاں چھاپا پڑوانے کی ’’جسارت‘‘ کرنے پر 1998 میں متعلقہ زمیں دار نے اپنے مسلح ساتھیوں سمیت اس کے اہل خانہ کو اغوا کرلیا، جو تاحال وہ لاپتا ہیں۔ اغوا ہونے والوں میں منو بھیل کے والد خیرو بھیل، والدہ اخو، بھائی جلال، بیوی موتاں، دو بیٹیوں مومل اور ڈھیلی، دو بیٹوں چمن اور کانجی کے علاوہ ایک مہمان کِرتو بھیل شامل ہیں۔

٭ دور جدید کی غلامی، اربوں ڈالر کی صنعت
دور جدید کی غلامی سالانہ اربوں ڈالر کا منافع کمانے والی صنعت بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے مطابق جبری مشقت اور جنسی استحصال کے ذریعے سالانہ اربوں ڈالر منافع کمایا جا رہا ہے۔ جو کہ پچھلے اعداد و شمار کی نسبت تین گنا زیادہ ہے۔

(آئی ایل او) کے اندازے کے مطابق جبری مشقت کی صنعت ہر سال 150ارب ڈالر سے زاید کا ناجائز منافع کماتی ہے، اور یہ منشیات کی تجارت کرنے والی بین الاقوامی جرائم پیشہ تنظیموں کا منافع کمانے کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے۔ خواتین اور بچوں کے جنسی استحصال سے حاصل ہونے والے منافع کی شرح جبری مشقت کی نسبت چھے گنا زیادہ ہے، کیوں کہ قحبہ خانے چلانے والے افراد کی آپریٹنگ کاسٹ (پیداواری لاگت) کم اور گاہک کی جانب سے ملنے والی رقم زیادہ ہوتی ہے۔ آئی ایل او کے مطابق یہ شعبہ سالانہ تقریباً 99ارب ڈالر منافع کما رہا ہے۔

جبری مشقت کی بدولت مینو فیکچرنگ، کان کنی، اور یوٹیلیٹیز اور دیگر صنعتوں کا سالانہ منافع34 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جس میں بتدریج اضافہ ہورہا ہے۔ زراعت کاشعبہ 9ارب ڈالر اور 8ارب ڈالر کا منافع گھروں میں معمولی اجرت پر کام کرنے والے افراد سے مل رہا ہے۔ آئی ایل او کے محتاط اندازے کے مطابق دنیا بھر میں ماڈرن سلیوری (جدید غلامی) کرنے والوں میں نصف تعداد خواتین اور ایک چوتھائی تعداد اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی ہے۔ جبری مشقت سے ایشیا پیسیفک کا خطہ 51ارب 80کروڑ ڈالر سالانہ منافع کماتا ہے، اور اس خطے میں متاثرین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔

ترقی یافتہ معیشت اور یورپی یونین جبری مشقت سے 46ارب 90کروڑ ڈالر، سابق سوویت ریاستیں 18ارب، افریقا13 ارب10کروڑ، لاطینی امریکا اور کیریبین ممالک 12ارب، مشرق وسطی8ارب50کروڑ ڈالر سالانہ منافع کما رہا ہے۔ یورپی یونین جیسی ترقی یافتہ معیشت بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے سے محروم نہیں ہے۔ یہاں ایک ’مشقتی غلام ‘ کی بدولت سب سے زیادہ رقم کمائی جاتی ہے جو اوسطاً34 ہزار800ڈالر سالانہ ہے۔ مشرق وسطی 15ہزار، سابق سوویت ریاستیں 12ہزار9سو، لاطینی امریکا اور کریبین 7ہزار 5سو، ایشیاء پیسیفک 5ہزار، افریقا3ہزار9سو ڈالر کا سالانہ منافع ایک مشقتی غلام سے کما رہا ہے۔

اگر ان اعداد و شمار کو شعبہ جاتی لحاظ سے دیکھا جائے تو ایک ’’جدید غلام‘‘ کے جنسی استحصال سے سالانہ 21ہزار8سو ڈالر، جبری مشقت (گھریلو کام کے علاوہ) سے 4ہزار8 سو ڈالر، زراعت میں 2ہزار5سو ڈالر، اور گھریلو کام کرنے والے غلاموں کی بدولت سالانہ 2ہزار3سو ڈالر منافع کمایا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق جبری مشقت سے ہونے والے منافع کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے، کیوں کہ بچوں کو بہ طور فوجی بھرتی کرنے جیسی سرگرمیوں کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا کے 58 ممالک میں کم از کم 122مصنوعات کی پیداوار کے پیچھے ’جدید غلاموں‘ کی محنت کارفرما ہے۔ یہ صنعت تھائی لینڈ میں ماہی گیری کرنے والے افراد سے کانگو میں ہیروں کی کان کنی کرنے والے، ازبکستان میں کپاس چنتے بچوں، پاکستان میں اینٹیں ڈھوتے بچے اور بھارت میں فٹ بال کی سلائی کرتی بچیوں سے گھروں میں سلائی کرنے والی خواتین تک پھیلی ہوئی ہے۔

تصویر کے دوسرے رُخ کو دیکھا جائے تو آئس لینڈ اور لیکسمبرگ جیسے ممالک بھی ہیں جہاں غلاموں کی تعداد سو سے بھی کم ہے اور یہاں اس کا پھیلاؤ بھی نہ ہونے کے برابر ہے، جب کہ نیدر لینڈ، سوئیڈن، امریکا اور آسٹریلیا اس بین الاقوامی مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کر رہے ہیں۔

جدید غلامی ایک ایسا عالم گیر مسئلہ بن چکی ہے جس کے تدارک کے لیے صرف انسانی ہم دردی کے دو بول ہی کافی نہیں بل کہ یہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم سب کی ذمے داری ہے۔ دنیا کا تقریباً ہر ملک بین الاقوامی کنوینشن کے ساتھ معاہدوں اور قومی پالیسیوں کے ذریعے ’جدید غلامی‘ کے تدارک کے لیے کوشاں ہے۔ تاہم جبری مشقت، انسانی اسمگلنگ، جنسی استحصال کی روک تھام کے حکومتی سطح پر مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔

٭ غلامی کی تاریخ
قدیم دور میں غلامی کو قانونی تصور کیا جاتا تھا اور کسی جنس کی طرح غلاموں کی خرید و فروخت بھی کی جاتی تھی۔ جس طرح جانوروں کی خریدوفروخت میں صحت اور تن درستی کی بنا پر ان کی قیمت بڑھتی ہے، اسی طرح غلاموں کی خریداری میں بھی ان کی صحت کو مد نظر رکھا جاتا تھا۔ غلام بننے والے فرد پر تاحیات اپنے مالک کے ہر حکم کی بجا آوری کرنا لازم تھا۔ انسانوں کو غلام بنائے جانے کی روایت قدیم مصر، قدیم چین، اکادین سلطنت، ہندوستان، یونان، رومن سلطنت، اسلامی خلافت سے لے کر اٹھارہویں صدی تک یورپی ممالک میں رہی ہے۔ جہاں جنگی قیدیوں کو غلام تصور کیا جاتا تھا اور غلام کا بچہ بھی اپنے والدین کی طرح ساری عمر غلامی میں گزارتا تھا۔

اگر موجودہ دور کی بات کی جائے تو تین دہائی قبل سوڈان میں ہونے والی دوسری سول وار کے دوران 14سے20 ہزار افراد کو غلام بنایا گیا، جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔ افریقی ملک موریطانیہ میں خواتین اور بچوں سمیت 6 لاکھ افراد غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں جو کہ کل آبادی کا 20فی صد بنتا ہے، جن میں سے زیادہ تر کو قید میں رکھ کر مشقت کرائی جا رہی ہے۔

اگرچہ جدید دور میں غلامی کو ایک جرم تصور کیا جاتا ہے اس کے باوجود مختلف شکلوں میں لوگوں کو غلام بنانے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ ایک دہائی قبل ایک غلام کو ہزاروں ڈالر میں فروخت کیا جاتا تھا اور آج آپ اپنی پسند کے غلام کو محض 90ڈالر میں خرید سکتے ہیں۔

٭ غلامی کی اقسام
جنسی استحصال اور جبری مشقت
جبری مشقت کی تعریف کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے کہ ڈرا دھمکا کریا تشدد سے آپ کو مرضی کے برخلاف کام کے لیے مجبور کیا جائے۔ انسانی اسمگلنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں بچوں اور خواتین کو قحبہ خانوں میں عصمت فروشی پر مجبور کیا جا رہا ہے، جب کہ بچوں کے جنسی استحصال کے لیے تھائی لینڈ، کمبوڈیا، بھارت، میکسیکو اور برازیل سر فہرست ہیں جہاں دنیا بھر سے اسمگل کیے گئے بچوں اور خواتین کو قید کر کے زبردستی قحبہ گری کرائی جاتی ہے، جب کہ فحاشی کی صنعت میں بھی بچوں کا جنسی استحصال کیا جا رہا ہے۔ بچوں کی فحش فلموں، کتابوں، آڈیو ٹیپس اور دیگر مواد سے یہ صنعت سالانہ لاکھوں ڈالر منافع کما رہی ہے۔

جبری مشقت کا ایک اور تاریک پہلو انہیں بہ طور فوجی استعمال کرنا ہے۔ تاریخ میں کئی قومیں ایسی گزری ہیں جنہوں نے کم عمر بچوںکو زبردستی فوجی تربیت دے کر جنگ کا ایندھن بنادیا۔ پہلی جنگِ عظیم میں برطانیہ نے 19سال سے کم عمر کے ڈھائی لاکھ بچوں کو زبردستی فوج میں بھرتی کیا۔ دوسری جنگ عظیم میں بھی بچوں کی فوج نے مشرقی یورپ اور وارسو کے محاذ پر جنگ لڑی۔ خانہ جنگی اور جنگ میں بچوں کو نہ صرف فرنٹ لائن پر رکھا جاتا رہا ہے، بل کہ انھیں پورٹر، پیغام رسانی، جاسوسی، خودکش حملوں اور انسانی شیلڈ کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ کچھ جنگ جو گروپ معصوم بچوں کو اپنی حیوانی خواہشات پوری کرنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

٭ انسانی اسمگلنگ….. زبردستی شادی
مرضی کے برخلاف شادی بھی جدید غلامی کی ایک شکل ہے۔ شادی کی اس قسم میں لڑکی کے والدین رقم کے عوض کسی بھی شخص سے اپنی لڑکی کی شادی کردیتے ہیں۔ رقم کی ادائیگی کرنے والا فرد لڑکی کو نہ صرف جنسی مقاصد کے استعمال کرتا ہے بل کہ اسے قید رکھ کر کسی معاوضے کے بنا گھریلو ملازمہ کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ شادی کے نام پر لڑکیوں کی خرید و فروخت کی رسم اب بھی دنیا کے بہت سے ممالک خصوصاً جنوبی ایشیا، مشرقی ایشیا اور افریقا میں جاری ہے، جب کہ افریقی ملک ایتھوپیا سمیت دنیا کے کچھ ممالک میں شادی کے لیے لڑکیوں کو اغوا کرنے کی روایت بھی اب تک ختم نہیں ہو سکی ہے۔ ایتھوپیا میں شادی کے لیے لڑکیوں کو اغوا کرنے کی شر ح دنیا بھر میں سب سے زیادہ 69فی صد ہے۔

٭ غلاموں کا انقلابی راہ نما اسپارٹیکسSpartacus
غلاموں کا کردار ہمیشہ سے ظلم و جبر برداشت کرنے والا رہا ہے، لیکن تاریخ میں ایک غلام ایسا بھی گزرا ہے جس نے نہ صرف اپنے جیسے غلاموں کے ساتھ ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کی، بل کہ ایک ایسا انقلاب بھی برپا کیا جس نے رومن فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔ 73قبل مسیح میں ’’تھرڈ سروائل وار‘‘ کے نام سے برپا ہونے والے انقلاب کو مورخ ’’اسپارٹیکس کی جنگ‘‘ کا نام بھی دیتے ہیں۔ رومی فوج کے خلاف ہونے والی غلاموں کی بغاوت اگرچہ کام یابی سے ہم کنار نہیں ہوسکی لیکن تاریخ میں اسپارٹیکس کا نام امر کرگئی۔

دوسری صدی کے یونانی مورخ Appian نے لکھا ہے کہ اسپارٹیکس کا تعلق جنوب مشرقی یورپ کے ایک قبیلے ’تھریشین‘ سے تھا اور وہ رومی فوج میں ایک فوجی کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے چکا تھا۔ تاہم بعد میں غلاموں کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک کے خلاف آواز اٹھانے پر اسے گلیڈی ایٹر ( لڑنے بھڑنے میں ماہر جنگ جو) بنانے کے لیے فروخت کر دیا گیا۔

73قبل مسیح میں اسپارٹیکس گلیڈی ایٹرز کے اس گروپ میں شامل تھا جو قید سے فرار کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ تاہم اس منصوبے کا راز فاش ہوگیا۔ اسپارٹیکس نے اپنے 70 ساتھیوں کے ساتھ فرار کے لیے لڑتے ہوئے رومیوں کے ہتھیاروں پر قبضہ کرلیا۔ Appianنے ’’غلاموں کی تیسری جنگ‘‘ کا محرک اسپارٹیکس کو قرار دیا ، جس نے براہ راست رومیوں کو دہشت میں مبتلا کردیا تھا۔

اسپارٹیکس کی اس بغاوت کو رومی فوج نے بڑے پیمانے پر کارروائی کرکے ختم تو کردیا تھا لیکن وہ روم کے باشندوں کے دل سے اس کا خوف ختم نہیں کرسکے۔ اسپارٹیکس کی زندگی پر 1951میں امریکی لکھاری ہوورڈ فاسٹ نے ’’اسپارٹیکس‘‘ ہی کے نام سے ناول لکھا، جس نے فروخت کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔ اس ناول کی بنیاد پر 1960میں بننے والی فلم ’’اسپارٹیکس‘‘ نے بھی کام یابی کے نئے ریکارڈ قائم کیے تھے ۔ ایک کروڑ 20لاکھ ڈالر کی لاگت سے بننے والی اس فلم نے باکس آفس پر 6کروڑ ڈالر کا کاروبار کیا تھا۔

امریکی جرنیل کا چشم کشا اعتراف ’’ہم افغان جنگ ہار چکے!‘‘

$
0
0

ابراہام لنکن امریکا کے لیجنڈری حکمران گزرے ہیں۔ ان کا قول ہے: ’’سیکھنے کے عمل میں غلطیاں پانی پر پڑے پتھروں کی طرح ہیں۔ ان پہ چل کر آپ منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔‘‘ لنکن صاحب نے سولہ آنے سچی بات کہی۔ انسان سے غلطیاں و کوتاہیاں سرزد ہونا فطری ہے۔ مسئلہ اس وقت جنم لیتا ہے جب انسان غلطیوں سے کوئی سبق نہ سیکھے اور انہیں دہراتا رہے۔

حال ہی میں ایک سرکردہ امریکی ریٹائرڈ جنرل، ڈینئل بولگر نے اپنی چشم کشا کتاب’’ہم کیوں ہارے؟‘‘(Why We Lost: A General’s Inside Account of the Iraq and Afghanistan Wars) میں ان غلطیوں کی نشان دہی فرمائی جو عراق و افغانستان میں امریکی سیاسی و عسکری قیادت کے باعث ظہور پذیر ہوئیں۔امریکا میں دونوں جنگوں کے اسباب ِشکست پہ بحث کرنا تقریباً ممنوع ہے۔گویا اس کتاب کو ’’پہلا پتھر ‘‘ کہا جا سکتا ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ امریکی سیاست داں اور جرنیل ان غلطیوں سے سبق سیکھتے ہیں یا انہیں بدستور دہراتے رہیں گے۔ ایک سیانا کہتا ہے :
’’ماضی نے آپ کو جو دکھ دیئے، انہیں بھول جائیے، لیکن ان دکھوں سے جو سبق ملے، انہیں کبھی نہ بھولیے۔‘‘
٭٭
’’میں امریکا کا جرنیل ہوں اور میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ہار چکا۔‘‘ یہ ہے وہ چونکا دینے والا جملہ جس کے ذریعے جنرل (ر) بولگر کی کتاب کا آغاز ہوتا ہے۔موصوف معمولی امریکی جرنیل نہیں، وہ عراق اور افغانستان میں ان فورسز کے سربراہ رہے جو عراقی و افغان افواج کو عسکری تربیت دیتی رہیں۔ مزید براں تاریخ کا (پی ایچ ڈی) پروفیسر ہونے کے ناتے بھی انھیں امریکی عسکری حلقوں میں احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جنرل (ر) بلوگر نے افغان و عراق جنگوں میں شکست کے باعث اپنی سیاسی و عسکری قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔اس کی شدت کا اندازہ یوں لگائیے کہ جنرل صاحب کا کہنا ہے :’’مجھے یقین ہے، اس دسمبر مجھے باوردی دوستوں سے بہت کم کرسمس کارڈ موصول ہوں گے۔‘‘

امریکا کی ’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘ کا آغاز 7 اکتوبر 2001ء کو افغانستان پر حملے سے ہوا۔ اس کے بعد یہ جنگ عراق، پاکستان، یمن، صومالیہ اور شام تک پھیل گئی۔ فی الحال اس کا کوئی انت نظر نہیں آتا کہ امریکا عراق میں پھر داعش (آئی ایس) کے خلاف سرگرم عمل ہو چکا۔گو امریکی افواج و حکومت تسلیم نہیں کرتیں، مگر یہ حقیقت ہے، افغانستان اور عراق میں انہیں ہار کا سامنا کرنا پڑا۔

وجہ یہی کہ امریکا دونوں ممالک میں اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہابلکہ الٹا انھیں مزید تباہی و بربادی کی سمت دھکیل دیا۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپنی ناکامیوں اور غلطیوں سے امریکی سیاست داں اور جرنیل کوئی سبق سیکھتے ہیں یا نہیں؟ دو ہزار سال قبل رومی فلسفی و مدبر، مارکس سسیرو نے کہا تھا ’’غلطیاں تو ہر انسان کرتا ہے، لیکن صرف احمق ہی انہیں دہراتا رہتا ہے۔‘‘

جنرل (ر) بلوگر نے اپنی انکشاف انگیز کتاب میں امریکی شکست کے کئی اسباب بیان کیے۔ ان میں نمایاں یہ ہیں: اول ویت نام جنگ کے بعد امریکی افواج کا ڈھانچا سریع الحرکت فوج کی طرز پر بنایا گیا تھا جو جلدازجلد فوجی آپریشن ختم کرسکے۔ لیکن افغانستان اور عراق، دونوں جگہ امریکی فوجیوں کو طویل عرصہ جنگجوؤں سے نبردآزما ہونا پڑا۔دوم افغانستان اور عراق میں فوری کامیابیوں نے امریکی جرنیلوں و حکومت میں حد سے زیادہ خود اعتمادی پیدا کردی۔ امریکی جرنیل سمجھنے لگے کہ وہ تمام مشکلات پہ قابوپا سکتے ہیں۔ مگر ان کی توقعات پوری نہیں ہوسکیں۔

سوم افغانستان اور عراق میں مزید فوجی بھجوانے کی حکمت عملی ناکام رہی۔ وجہ یہی کہ صدر اوباما نے آتے ہی اعلان کر دیا کہ فلاں تاریخ تک امریکی افواج دونوں ممالک سے نکل جائیں گی۔ چناں چہ جنگجو پسپا ہوکر امریکی فوج کے جانے کا انتظار کرنے لگے۔چہارم جب ایک فوج کسی ملک پر حملہ آور ہو، تو پہلے وہاں کی تہذیب، ثقافت، معاشرت، روایات وغیرہ کے متعلق معلومات حاصل کرتی ہے۔ مگر امریکی افواج نے افغانستان و عراق پر دھاوا بولتے ہوئے مقامی معلومات لینا ضروری نہیں سمجھا۔ چناں چہ بعدازاں انہیں نقصان اٹھانا پڑا۔

کتاب کی اشاعت کے بعد جنرل (ر) ڈینئل بولگر نے مختلف امریکی اخبارات و ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیئے۔ ان انٹرویوز میں سے چیدہ و بینا سوالات و جوابات کا انتخاب درج ذیل ہے۔

سوال: افغانستان اور عراق میں امریکی افواج کو شکست کیوں ہوئی؟
جواب: بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی افواج سے صحیح طرح کام نہیں لے سکے۔ یہ افواج طویل عرصہ چھاپہ مار جنگ لڑنے کے قابل نہیں تھیں۔ماضی میں جب کبھی امریکی فوج کسی ملک پر حملہ آور ہوتی، تو اس موضوع پر عوامی بحث ہوتی ۔ یوں منصوبے کی خامیاں و خوبیاں سامنے آجاتیں۔ مگر افغانستان و عراق پر لشکر کشی کرتے ہوئے کوئی عوامی مباحثہ نہیں ہوا۔
ابتداً ان دونوں ممالک میں امریکی افواج کو کامیابیاں ملیں، لیکن کوتاہیوں پر کسی کی نظر نہیں گئی۔

خصوصاً یہ سوال اٹھایا ہی نہیں گیا ’’کیا یہ بات درست ہے کہ ہزارہا نوجوان امریکی لڑکے لڑکیوں کو بیرون ممالک بھجواؤ تاکہ وہاں وہ گھر گھر تلاشی لے کر دیکھ سکیں، کون جنگجو ہے اور کون دیہاتی؟‘‘ ہم نے ویت نام میں بھی یہی عمل اپنایا مگر اس کا کچھ فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے باوجودافغانستان اور عراق میں اسے دہرایا گیا۔ میں سمجھتا ہوں، اس غلطی نے ہمیں شکست خوردہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

سوال: عراق و افغانستان میں مزید فوجی بھجوانے کا کیا نتیجہ نکلا؟
جواب: ان ممالک میں جنگجوؤں کو روکنے کے لیے بش حکومت نے ’’انسداد بغاوت‘‘ (Counter-insurgency) کا طریق کار اپنایا۔ امریکی فوج میں جنرل ڈیوڈ پیٹریاس اس طریق کار کا بڑا حامی تھا۔ جنرل پیٹریاس نمود و نمائش کا شوقین تھا اور اپنے آپ کو ’’بادشاہ‘‘ کہلوانا پسند کرتا۔

2007ء میں جب وہ عراق میں امریکی فوج کا کمانڈر بنا، تو اپنا انسداد بغاوت منصوبہ شروع کرنے کی خاطر اس نے مزید فوجی منگوالیے۔ زائد فوج کی بنا پر جنگجوؤں کے خلاف امریکا کو کامیابی تو ملی مگر یہ عارضی تھی کیونکہ نفری میں اضافہ مسئلے کا عارضی حل ہے۔ مثلاً بخار میں مبتلا ایک مریض کو آپ اسپرین دیں۔ مریض افاقہ محسوس کرے گا، مگر بخار تو موجود ہے۔ چناںچہ عراق اور پھر افغانستان میں بھی مزید فوجی بھجوانے سے جنگجویانہ کارروائیاں کم تو ہوئیں، رک نہ سکیں۔ وجہ یہی کہ دونوں ممالک میں صرف خود عراقی اور افغان ہی جنگ جوئی روک سکتے تھے۔

سوال:عراق و افغانستان میں مزید نفری بھجوانے کا نتیجہ یہ بھی نکلا کہ دونوں جانب سیکڑوں لوگ مارے گئے۔ پھر امریکا نے عراق میں بظاہر طاقتور عراقی فوج تیار کی مگر وہ داعش کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئی۔ یہ حیران کن واقعہ کیونکر رونما ہوا؟
جواب: عراقی فوج کی شکست پر حیران مت ہوں۔ آپ کو یاد ہوگا، 1991ء اور 2003ء میں جب بھی ہمارا عراقی فوج سے مقابلہ ہوا، وہ بہت جلد تتّر بتّر ہوگئی۔ اب وہ داعش کا مقابلہ نہ کرسکی۔وجہ یہ ہے کہ ایک ملک کی مضبوط، تجربہ کار اور پیشہ ور فوج کئی عشروں کی تربیت و محنت سے وجود میں آتی ہے۔ چند برس کی تربیت، رائفل رینج میں چاند ماری اور اِدھر اُدھر مارچ پاسٹ سے طاقتور فوج جنم نہیں لیتی۔
مثال کے طور پر 1950ء میں جنوبی کورین فوج ناتجربے کار اور بوری تھی، اسی لیے جنگ میں مات کھاگئی۔ وہ نصف صدی بعد اب اس قابل ہوئی کہ ایک مضبوط فوج کا روپ دھارسکے۔ایک مضبوط و طاقتور فوج لڑاکا طیاروں اور ہزارہا فوجیوں کی موجودگی سے وجود میں نہیں آتی۔ ضروری ہے کہ فوج میں مٹھی بھر تجربے کار تربیت کار اور محبت وطن افسر موجود ہوں۔ وہ پھر فوجیوں کو تربیت دیتے اور ایک طاقتور فوج وجود میں لاتے ہیں۔ ( دلیر پاک فوج کا قیام بھی اسی طور عمل میں آیا)

سوال: آپ نے اپنی کتاب میں واضح کیا ہے کہ امریکی افواج انسداد بغاوت کی جنگیں نہیں لڑ سکتی۔ وہ روایتی جنگیں لڑنے میں تو طاق ہے‘ مگر انسداد بغاوت کی جنگ بالکل مختلف دنیا ہے۔ اس موضوع پر مزید کچھ روشنی ڈالیے۔
جواب: دراصل جب ایک ملک میں بغاوت یا خانہ جنگی ہو‘ تو اسے اس دیس کے باشندے ہی ختم کر سکتے ہیں۔ یہ مسئلہ عسکری سے زیادہ سیاسی پہلو رکھتاہے۔ میں نے آرمی وار کالجوں میں تعلیم پاتے ہوئے یہی سیکھا کہ ایک ملک کی فوج چاہے کتنی ہی بڑی اور تجربہ کار ہو‘ وہ دوسرے ملک جا کر خانہ جنگی پر قابو نہیں پا سکتی۔
بدقسمتی سے مجھ سمیت تمام امریکی جرنیل یہ بنیادی بات بھول گئے ۔ دراصل ہم غرور یا حد سے زیادہ خود اعتمادی میں مبتلا ہو بیٹھے۔ ہم نے سوچا‘ ہمارے پاس جدید ترین اسلحہ ہے‘ ہم بہترین تربیت یافتہ فوجی رکھتے ہیں۔ انہیں عوام کی بھی حمایت حاصل ہے۔ لہٰذا اب ویت نام کے برعکس افغانستان و عراق جا کر انہیں کامیابیاں ملیں گی۔ ہم فراموش کر بیٹھے کہ روایتی جنگ اور خانہ جنگی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

سوال: آپ نے امریکی قیادت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک کمیشن بنائے۔ یہ کمیشن اس بات کا جائزہ لے کہ ہم افغان اور عراقی جنگیں کیوں ہارے؟ ہم نے کچھ عرصہ قبل رچرڈ کلارک سے گفتگو کی تھی جو صدر بش جونیئر کے مشیر برائے سیکورٹی رہے۔ جب 2003ء میں صدر بش نے عراق پر حملے کا حکم دیا‘ تو رچرڈ کلارک نے استعفیٰ دے ڈالا۔ صدر بش چاہتے تھے کہ رچرڈ کلارک 9/11کے حملوں کا ذمے دار صدر صدام حسین کو قرار دیں۔ لیکن اس امر کا کوئی ثبوت نہیں تھا کہ عراقی حکومت نے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پرحملے کرائے۔ چنانچہ رچرڈ نے استعفیٰ دے دیا‘ اپنے صدر کا غیر قانونی و غیر اخلاقی حکم تسلیم نہیں کیا۔

اب رچرڈ کلارک کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی عدالت انصاف میں صدر بش اور ان کے ارکان کابینہ پر جنگی جرائم کے سلسلے میں مقدمہ چلنا چاہیے۔ بین الاقوامی عدالت صدور اور وزرائے اعظم پہ مقدمات چلانے کے لیے قوانین تشکیل دے چکی۔ لہٰذا صدر بش جونیئر پر مقدمہ چل سکتا ہے۔ آپ اس ضمن میں کیا کہتے ہیں؟
جواب: مجھے علم نہیں کہ کیا سابق امریکی صدر پہ ازروئے قانون جنگی جرائم کا مقدمہ چل سکتا ہے۔ تاہم میں رچرڈ کلارک کے اس استدلال سے اتفاق کرتا ہوں کہ افغان و عراقی جنگوں پر عوامی سماعت (Congressional hearing)منعقد ہونی چاہیے تاکہ ہماری سیاسی و عسکری کوتاہیاں سامنے آ سکیں۔(امریکہ میں عوامی سماعت سے مراد ارکان اسمبلی کی ایسی کارروائی ہے جس میں عام لوگ بھی شریک ہو سکیں۔)

آپ یہ دیکھئے کہ کوریائی جنگ (1950ء تا1953ء) کے دوران امریکا میں اہم عوامی سماعتیں منعقد ہوئیں۔ ان کا مقصد دوران جنگ امریکی سیاسی و عسکری قیادت کی خامیاں تلاش کرنا تھا۔ ان سماعتوں میں امریکی صدر ٹرومین کے علاوہ سبھی اہم جرنیل و سیاسی راہنما شریک ہوئے۔ مثال کے طور پر جنرل ڈگلس میک آرتھر‘ چیرمین آف دی جوائنٹ چیفس آف سٹاف‘ جنرل عمر بریڈلے‘ اور سیکرٹری داخلہ ڈین ایچسن! ویت نام جنگ کے دوران سینٹر فل برائٹ نے ایسی ہی عوامی سماعتیں منعقد کیں۔ ان میں بھی سبھی اہم جرنیل وسیاست داں آئے اور انہوں نے ویت جنگ سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

لیکن عراقی اور افغان جنگوں پر منعقد ہونے والی عوامی سماعتیں کہاں ہیں؟ یہ عوامی عدالتیں لگنی چاہئیں اور ان میں رچرڈ کلارک جیسے سرکاری افسر‘ سیاسی راہنما اور فوجی افسر اظہار خیال کرنے آئیں۔ان عوامی سماعتوں کا فائدہ یہ ہے کہ سبھی کے سامنے ایک معاملے کی خامیاں و خوبیاں سامنے آ جاتی ہیں۔ پھر غلطیوں سے سبق سیکھ کر اگلی بار بہتر عمل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن امریکا میں پچھلے بارہ سال سے حالیہ جنگوں میں کوئی عوامی سماعت منعقد نہیں ہوئی۔ بس امریکی حکومت سالانہ بجٹ پاس کر دیتی ہے اور اس پر کوئی عوامی بحث نہیں ہوتی۔

سوال: امریکیوں کی اکثریت یہ نہیں جانتی کہ ان کی حکومت ’’آپریشن اینڈ یورنگ فریڈم‘‘ کے نام سے جاری ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کو کئی ممالک میں پھیلا چکی۔ تاہم ان آپریشنوں کا خاص نشانہ ایشیائی اور عرب مسلمان ممالک ہیں۔ بہ حیثیت جرنیل کیا آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ اسلامی دنیا اور مغرب کے مابین تہذیبوں کا تصادم جاری ہے؟
جواب: جی ہاں‘ امریکا و یورپی ممالک نے عالم اسلام میں جو جنگیں چھیڑ رکھی ہیں‘ وہ تشویش ناک بات ہے۔ کئی ماہرین ان جنگوں کو ’’صلیبی جنگیں‘‘ کہتے ہیں۔ یہی دیکھیے کہ امریکا نے افغانستان اور عراق میں جو جنگیں شروع کیں‘ ان کا نشانہ افغان و عراقی باشندے بھی بنے۔دوران جنگ ہماری کوشش رہی کہ شہری ہلاک نہ ہوں مگر دو وجوہ کی بنا پر ہم ناکام رہے۔ اول جدید ہتھیار بہت تباہ کن ہیں۔ دوسرے ہم یہ نہ جان سکے کہ شہری لباس میں ملبوس فرد جنگجو ہے یا نہیں؟ اس امر کی تمیز کرنا بہت کٹھن مرحلہ ہے۔
امریکی سیاسی وعسکری قیادت کا مسئلہ یہ ہے کہ اب تک وہ عالم اسلام میں اپنے حقیقی دشمن کو’’پن پوائنٹ‘‘ نہیں کر سکی۔ اسی لیے ہماری افواج کئی مقامات پر مختلف گروہوں کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔ مزید براں ہماری انٹیلی جنس کا بیشتر زور دفاع وطن پر ہے۔ یقیناً میں نہیں چاہتا کہ 9/11 جیسا کوئی اور حادثہ جنم لے۔ مگر ہم اپنی کمزور انٹیلی جنس کے باعث بھی دنیا میں اپنے دشمن پہچان نہیں پاتے۔

سوال: درج بالا سچائی کہنے کے لیے کیا آپ کا ریٹائرڈ ہونا ضروری تھا؟
جواب: بالکل نہیں‘ لیکن امریکا میں یہ روایت ہے کہ جرنیل اپنی سیاسی حکومت کے سامنے سرجھکا دیتے ہیں۔ میں بند دروازوں کے پیچھے منعقد ہونے والے کئی اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں شریک ہو چکا۔ اس میں ہم جرنیل سیاست دانوں پہ اچھی خاصی تنقید کرتے ہیں۔ لیکن سیاست داں یا عوامی نمائندے جو فیصلہ کریں‘ وہ ہمیں تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ اور ہم جرنیلوں کی ذمہ داری ہے کہ اس فیصلے پہ جی جان سے عمل کریں۔اور کسی کو فیصلہ تسلیم نہیں‘ تو وہ رچرڈ کلارک کے مانند استعفیٰ دے کر گھر چلا جاتا ہے۔

سوال: بہ حیثیت فوجی افسر آپ کو کب محسوس ہوا کہ امریکی سیاسی و عسکری پالیسیاں غلط ہیں اور ان سے کوئی فائدہ نہیں ہو رہا؟
جواب: میں 2005ء کے موسم بہار میں عراق پہنچا۔ رفتہ رفتہ وہاں زمینی حقائق سے واقف ہوا۔ دشمن کی تلاش میں امریکی فوجی گھروں کی تلاشی لیتے۔ مارکیٹوں پہ چھاپے مارتے حتیٰ کہ اسپتالوں اور اسکولوں کی بھی چھان بین ہوتی۔یہ سعی لاحاصل تھی۔بالفرض آپ کو طارق نامی شخص کی تلاش ہے‘ تو بغداد یا موصل میں سیکڑوں طارق موجود ہیں۔ پھر امریکی فوجی عربی زبان سے بھی ناواقف تھے اور ترجمان کا سہارا لیتے۔ ان مسائل کے باعث مطلوبہ شخص کو ڈھونڈنا کٹھن کام بن جاتا۔مجھے تب احساس ہوا کہ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور کی فوج تو پولیس بن چکی۔اب اس کا کام یہ ہے کہ گھروں کی تلاشی لے اور تفتیش کرے۔ اسی حقیقت نے مجھے باور کرایا کہ ہماری عسکری پالیسیاں غلط ہیں۔ یہ وہ جنگ تو نہیں جسے لڑنے ہم عراق یا افغانستان پہنچے۔
میں سمجھتا ہوں، ہمیں صرف عراقی عوام کی مدد کرنا چاہیے تھی جو اپنے آمر حکمران سے نبرد آزما تھے۔ اسی طرح افغانستان میں بھی افغان راہنماؤں کو صف اول پہ رکھا جاتا۔ وہی طالبان سے معاہدے اور مذاکرات کرتے۔ ان دونوں ممالک میں مسائل بنیادی طور پر سیاسی تھے‘ مگر ہم نے انہیں اپنی افواج کے سپرد کر دیا۔ نتیجہ، دونوں ملکوں میں جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے جو اب تک بجھ نہیں سکے۔

سوال: امریکا نے عراق پر اس لیے حملہ کیا کہ وہاں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار تباہ کر دے۔ حالانکہ یہ دعویٰ جھوٹ تھا؟
جواب: اسے مکمل جھوٹ نہیں کہا جا سکتا۔ صدام حسین نے کیمیائی ہتھیار ضرور تیار کرائے۔ پھر وہ بہت بڑا ڈکٹیٹر تھا۔ اس نے پڑوسی ممالک پر حملے کیے۔ کرد اور شیعہ اقوام کا جینا حرام کیے رکھا۔ لہٰذا وہ ایک بڑی مصیبت تو تھا۔

سوال: لیکن کیمیائی ہتھیار بنانے کی ٹیکنالوجی امریکا نے صدام حسین کو فراہم کی؟
جواب: یہ بات درست ہے۔ جب عراق‘ ایران جنگ جاری تھی‘ تو امریکا نے یہ ٹیکنالوجی صدام حسین کو دی تھی تاکہ وہ ایرانیوں کو شکست دے سکے۔

سوال: گویا ایران کے خلاف جنگ میں صدام حسین کو امریکا کی مدد حاصل رہی؟
جواب: جی ہاں‘ مگر کویت پر حملے نے اسے ہمارا دشمن بنا دیا۔ چناں چہ ہمیں صدام سے خلیجی جنگ (1991ء) لڑنا پڑی۔

سوال: مگر واقعہ 9/11 میں تو عراق کا کوئی کردار نہیں تھا۔ لیکن صدر بش جونیئر کی خواہش تھی کہ اس معاملے میں عراق کو بھی قصور وار ٹھہرایا جائے؟
جواب: جی ہاں‘ صدربش نے رچرڈ کلارک پر زور دیا کہ عراق کو بھی واقعہ 9/11 میں ملوث کرو۔ دراصل ہمیں افغانستان کے متعلق کم معلومات حاصل تھیں۔ جبکہ ہم عراقی جغرافیہ‘ تہذیب و تمدن وغیرہ سے زیادہ شناسائی رکھتے تھے۔

سوال: لیکن امریکا نے صرف صدام حسین ہی کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ عراق پہنچ کے عراقی حکومت اور فوج میں شامل ارکانِ بعث پارٹی کا بھی صفایا کر ڈالا۔ چنانچہ پورے ملک کا انتظامی ڈھانچا تاش کے پتوں کی طرح بکھر گیا۔ اسی حکمت عملی کے باعث آج عراق میں مضبوط حکومت نہیں رہی اور وہ ناکام ریاست کا روپ دھار چکا۔افغانستان میں بھی امریکا نے یہی انتہائی ناقص حکمت عملی اپنائی۔ امریکی افواج نے القاعدہ پر حملہ کیا تھا لیکن وہ طالبان سے مقابلہ کرنے لگیں…
جواب: جنہوں نے امریکا پر حملہ نہیں کیا تھا۔

سوال: جی بالکل‘ طالبان نے امریکا یہ کوئی حملہ نہیں کیا۔ آپ دونوں ممالک میں اس حکمت عملی کے نتائج پر روشنی ڈالیے؟
جواب:دراصل امریکی حکومت نے بعث پارٹی کو جرمنوں کی نازی پارٹی سے تشبیہہ دی۔ حالانکہ بعث پارٹی میں شامل سنی و شیعہ عرب تعلیم یافتہ و عاقل لوگ تھے۔ وہ پولیس‘ فوج اور انٹیلی جنس ہی نہیں اسپتال‘ اسکول‘ بجلی گھر‘ پانی کا نظام… گویا پورا نظام مملکت چلاتے تھے۔امریکی قیادت نے عراق پہنچتے ہی ان لوگوں کو حکومت سے نکال باہر کیا اور انہیں عضو معطل بنا دیا۔ عراق میں اسی اقدام سے خانہ جنگی کا بیج بویا گیا۔ داعش کے کئی جنگجو بعث پارٹی کے سابق رہنماؤں کے قبیلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔

عراقی نظام حکومت تباہ و برباد کرنے کا ایک اور بڑا نقصان یہ ہوا کہ معاشرے میں بے ترتیبی پھیل گئی۔ جو انتظامیہ شہریوں کو بجلی‘ پانی و پیٹرول فراہم کرتی تھی‘ سڑکوں کو صاف رکھتی اور انہیں دیگر سہولیات دیتی تھی‘ وہ نابود ہو گئی۔ چنانچہ عراقی تمدن زوال پذیر ہو گیا۔ سرجان کیگن برطانیہ کا مشہور جنگی مورخ گزرا ہے۔ اس نے عراقی جنگ پر اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’’عراق پر قابض ہونے کے بعد امریکیوں کو چاہیے تھا کہ وہ سابق حکومت کے زیادہ سے زیادہ وزرا و مشیروں کو ساتھ ملا تے۔ یوں انہیں عراق میں صدام مخالف حکومت بنانے میں آسانی رہتی۔ لیکن انہوں نے حکومت کے سارے انتظامی انفراسٹرکچر کا تیا پانچا کر ڈالا۔ چناںچہ عراقی معاشرہ بھی شکست و ریخت کا شکار ہو گیا۔‘‘

اب بھی عراق کا مسئلہ وہاں کے باشندے مل بیٹھ کر ہی حل کر سکتے ہیں۔ امریکا ہو یا روس‘ کوئی بھی خصوصاً اسلحے کے بل یہ مسائل حل نہیں کر سکتا۔
اب افغانستان کی طرف آیئے۔ اسامہ بن لادن وہاں کا رہائشی تھا۔ اس کی تنظیم نے امریکا پر حملہ کیا۔ لیکن اس حملے میں طالبان براہ راست ملوث نہیں تھے۔ گو امریکا کے ساتھ ان کی کچھ چپقلش چل رہی تھی۔ مزید براں انتہا پسندی کے باعث بھی دنیا والے انہیں پسند نہیں کرتے تھے۔

سوال: واقعہ9/11 میں ملوث10 ہائی جیکروں میں سے15کا تعلق سعودی عرب سے تھا؟
جواب: جی ہاں کیونکہ القاعدہ عالمی تنظیم بن چکی تھی۔ خود اسامہ کا تعلق یمن سے تھا‘ گو اس کے والد سعودیہ میں کاروبار کرتے تھے۔تو امریکی قیادت نے افغانستان میں بھی طالبان کا قائم کردہ انتظامی ڈھانچا تباہ کر دیا اوراسے میدان جنگ بنا دیا۔

سوال: جنرل بلوگر، کیا یہ ممکن تھا کہ افغان و عراقی جنگیں جنم نہ لیتیں؟
جواب: ایک جنگ چھیڑنے سے قبل اس کی مخالفت ضرور ہوتی ہے۔1991ء کی خلیجی جنگ میں جنرل کولن پاول اس کے مخالف رہے۔ وہ ویت نام جنگ میں حصہ لے چکے تھے۔ لہٰذا اپنے تجربے کے بل بوتے پر انہوں نے واویلا مچایا کہ امریکی فوج بیرون ملک نہ بھیجی جائے تاہم ان کی آواز صدا البصحرا ثابت ہوئی۔ پھر 2002ء تک جنرل پاول کی آواز مزید کمزور پڑگئی۔

سوال: امریکی جرنیل میڈیا کے سامنے بہت کم آتے ہیں۔ اسی لیے صحافی جرنیلوں سے مختلف موضوعات پہ ان کی آرا نہیں لے پاتے۔ مثلاً ہمیں نہیں معلوم کہ جرنیل اور امریکی افواج کے ٹھیکے دار (Private military contractors) کس قسم کے تعلقات رکھتے ہیں؟ اور کیا جرنیل ٹھیکوں سے مالی فائدہ پاتے ہیں؟
جواب: میں کسی ملٹری کنٹریکٹر کو نہیں جانتا۔

سوال: ہم نے مجموعی طور پر بات کہی۔ یہ سننے میں تو آتا ہے کہ فلاں جرنیل بوئنگ کمپنی اور فلاں لاک ہیڈ مارٹن کمپنی کے لیے کام کرتا ہے؟
جواب: اگر کوئی امریکی جرنیل یا فوجی افسر کسی عسکری کمپنی سے خفیہ تعلق رکھتا ہے، تو یہ غیر قانونی ہے۔ میڈیا کا فرض ہے کہ وہ ایسے چور کو بے نقاب کرے۔

سوال: پچھلے بارہ برس میں امریکی حکومت خصوصاً بیرون ممالک میں بہت سے عسکری معاملات نجی ملٹری ٹھیکے داروں کے سپرد کرچکی۔ خیال ہے کہ یہ ملٹری کنٹریکٹر مختلف حیلے بہانوں سے ان ملکوں میں جنگ و جدل کی آگ مزید بھڑکاتے ہیں کیونکہ مار دھاڑ بڑھنے سے ہی ان کا کاروبار بھی پھلتا پھولتا ہے۔
جواب: ملٹری ٹھیکے داروں کا یہ روپ خاصا خوفناک ہے اور یقینا اس پر بحث ہونی چاہیے ۔بلکہ اہم سوال یہ ہے کہ امریکی حکومت ان ٹھیکے داروں کو عسکری معاملات کیوں سونپ رہی ہے؟ کیا امریکی افواج اتنی کمزور اور نااہل ہوچکیں کہ اپنے معاملات نہیں سنبھال سکتیں؟

افغان فوج بامقابلہ طالبان

افغانستان اور امریکہ کے دوستانہ معاہدے کی رو سے اب تقریباً 10 ہزار امریکی فوجی سرزمینِ افغانان میں قیام کریں گے۔ افغان افواج کو تربیت اور مدد فراہم کرنا ان امریکی فوجیوں کی بنیادی ذمے داری ہوگی۔ گویا اب افغان افواج اور طالبان کے مابین اصل مقابلہ ہوگا۔

افغان افواج کی تعداد تقریباً ’’دو لاکھ‘‘ ہے۔ یہ جدید امریکی، برطانوی اور بھارتی اسلحے سے لیس ہے۔ طالبان کی فوج ’’60 ہزار‘‘ سپاہ پر مشتمل ہے۔ وہ چھوٹے ہتھیار زیادہ رکھتی ہے۔ گویا بظاہر افغان فوج کا پلّہ بھاری ہے۔ تاہم یہ فوج نسلی اختلافات اور جوش و جذبے میں کمی جیسے مسائل کا بھی شکار ہے۔

پچھلے سال جب عراق میں داعش کا عجوبہ رونما ہوا تو عراقی فوج ’’آٹھ لاکھ‘‘ فوجیوں پہ مشتمل تھی۔ امریکہ نے انہیں بھی جدید ہتھیار فراہم کررکھے تھے۔ مگر داعش کے صرف بیس پچیس ہزار جنگجوئوں نے اس طاقتور عراقی فوج کو کئی علاقوں سے مار بھگایا۔ گویا یہ قدیم روایت درست ثابت ہوئی کہ میدان میں جوش و جذبہ بھی بہت قدر و قیمت رکھتا ہے۔

افغان فوج کے 43 فیصد فوجی پشتون جبکہ بقیہ 57 فیصد غیر پشتون ہیں۔ غیر پشتونوں میں 32 فیصد فوجی تاجک، 12 فیصد ہزارہ، 10 فیصد ازبک اور 3 فیصد دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ گویا فوج میں غیر پشتون اکثریت میں ہیں۔

طالبان کی 99 فیصد سپاہ پشتونوں پر مشتمل ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ جب افغان افواج اور طالبان کا صحیح معنوں میں مقابلہ ہوا، تو اول الذکر کے پشتون کس کا ساتھ دیں گے؟ اگر افغان فوج میں شامل پشتونوں کی اکثریت طالبان سے جاملی تو وہ قدرتاً طاقت ور ہوجائیں گے۔ دوسری صورت میں طالبان اتنے طاقتور نہیں کہ باقاعدہ فوج کی صورت کابل پر حملہ کرسکیں۔ گویا وہ بدستور چھاپہ مار جنگ کی تکنیک اپنائے رکھیں گے۔

فی الوقت افغانستان کے خصوصاً دیہی علاقوں میں طالبان کا اثرورسوخ زیادہ ہے۔تاہم شہروں کا کنٹرول افغان فوج نے سنبھال رکھا ہے۔امریکی افواج کی واپسی کے بعد دونوں میں خانہ جنگی چھڑ سکتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔

لیفٹیننٹ جنرل (ر) ڈینئل پی بولگر جنوری 1957ء میں پیدا ہوئے۔ 1978ء میں امریکی بری فوج کا حصہ بنے۔ جون 2005ء تا جون 2006ء عراق میں ’’ملٹی نیشنل سکیورٹی ٹرانزیشن کمانڈ‘‘ کے سربراہ رہے۔ یہی ادارہ عراقی فوج کو تربیت اور مسلح کرنے کا ذمے دار تھا۔ آپ نے طویل عرصہ عراق میں گزارا اور اہم عسکری عہدوں پر فائز رہے۔

2010ء میں امریکی فوج کے ڈپٹی چیف آف سٹاف بنائے گئے۔ 2011ء میں افغانستان میں کمبائنڈ ٹرانزیشن کمانڈ کے سربراہ بنائے گئے۔ اسی ملٹی نیشنل عسکری ادارے نے جدید افغان فوج کھڑی کی، افغان فوجیوں کو تربیت دی اور اسلحہ فراہم کیا۔ 2013ء میں اس عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے۔

جنرل بلوگر نے تاریخ میں پی ایچ ڈی کررکھی ہے۔ فی الوقت نارتھ کیرولینا سٹیٹ یونیورسٹی میں تاریخ پڑھاتے ہیں۔ لکھنے پڑھنے سے بھی دلچسپی ہے۔ عسکریات محبوب موضوع ہے۔ مختلف عسکری موضوعات پر اب تک آپ کی گیارہ کتب شائع ہوچکیں۔ ’’ہم کیوں ہارے؟‘‘ تازہ ترین کتاب ہے۔

مقبوضہ کشمیر؛ بندوق کے سائے میں انتخابات کا ڈھونگ

$
0
0

مقبوضہ جموں وکشمیر پرفوجی قبضے کے بعد بھارتی سرکار نے ڈیڑھ عشرے تک انتخابات سے پہلو تہی اختیار کیے رکھی ۔سنہ 1965ء میں ریاستی اسمبلی کے پہلا باضابطہ چناؤ عمل میں لایا گیا۔اس کے بعد سے اب تک کل 12ریاستی انتخابات منعقد ہوچکے ہیں۔ پچیس نومبر کو مقبوضہ ریاست میں 13واں انتخابی ڈھونگ ہوا۔

ان سطور کی اشاعت تک یہ اندازہ ہوجائے گا کہ آیا اب کی بار میدان کس نے مارا ہے۔ اس سے قبل سستی شہرت کے دلدادہ شیخ محمد عبداللہ اینڈ سنز کی جماعت نیشنل کانفرنس چھ مرتبہ ریاست میں نئی دہلی کے کٹھ پتلی حکومت بنا چکی ہے۔ چار مرتبہ نیشنل کانگریس کو کشمیر کو لوٹنے کا موقع ملا جب کہ مفتی محمد سعید اور ان کی باقیات کی پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی(پی ڈی پی) کو ایک مرتبہ اور غلام محمد شاہ کی عوامی نیشنل کانفرنس کو ایک مرتبہ حکومت بنانے کا موقع ملا۔ لیکن اب کی بار ایک نئی جماعت ریاست کے انتخابات میں کودی ہے۔ جی ہاں یہ نئی پارٹی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جماعت’’بھارتیہ جنتا پارٹی‘‘ (بی جے پی) ہے۔

بی جے بھی وادی کشمیر میں بالکل نووارد نہیں بلکہ ماضی میں بھی اس نے حتی الامکان اپنے پاؤں جمانے کی بھرپور کوششیں کیں لیکن ماضی میں اس کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہوسکی۔ اب کی بار چونکہ مرکز میں اس کی حکومت ہے اور وزیراعظم نریند ر مودی نے مقبوضہ وادی میں اپنی جیت کو یقینی بنانے کے لیے ریاستی مشینری کا بھرپور استعمال کرنے کا عزم کر رکھا ہے۔آنے والے دنوں میں اس کی زندہ مثالیں دیکھنے کو ملیں گی۔ ماضی کی روایت عموماً یہی رہی ہے کہ جس پارٹی کی مرکز میں حکومت بنی کم وبیش اسی کے ہمنوا و ہم خیال گروپ نے وادی میں بھی اپنی حکومت بنائی۔

مجموعی طورپر وادی کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی 87 نشستیں ہیں۔ ان میں 41 جموں اور لداخ کے ان علاقوں پر مشتمل ہیں جہاں ہندو پنڈتوں کی اکثریت ہے اور مسلمانوں کی تعداد کم ہے جبکہ 46 نشستیں کشمیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کے لیے ہیں۔ نریندر مودی اور ان کے مصاحبین کی نظریں سری نگر کے بجائے جموں اور لداخ پرمرکوز ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ جنتا پارٹی نے لداخ اور جموں میں اپنے امیدواروں کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے بھرپور پیسہ خرچ کیا ہے۔ چونکہ مرکزی انتخابات میں بھی جمو ں اور لداخ سے جنتا پارٹی کو کامیابی مل چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کی نریندر مودی اسی کامیابی کو اب ریاستی انتخابات پراثرانداز ہونے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔

ووٹوں کی خریداری کا سلسلہ پورے زور وشور کے ساتھ جاری ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ بھارتی حکمراں جماعت نے اپنے من پسند اُمیدواروں کی کامیابی کے لیے فی ووٹر تین سے پانچ ہزار روپے تقسیم کیے ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق بی جے پی نے نئی دہلی اور اپنے گڑھ گجرات سمیت ملک کے کئی دوسرے شہروں سے بھی سیکڑوں پارٹی کارکن لداخ اور جموں میں بھیج رکھے ہیں جو نہ صرف انتخابی مہم چلا رہے ہیں بلکہ ووٹروں کو دھونس اور لالچ کے ذریعے جنتا پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے اثرانداز ہو رہے ہیں۔

یہ سیکڑوں نام نہاد سیاسی ورکر دن رات اپنے ’کام‘ میں مصروف عمل ہیں۔ جموں شہر میں ڈیرہ جمائے بی جے پی کے مربی سمجھے جانے والے پروفیسر ’’ھری اوم‘‘ کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست میں اب مستقبل صرف بی جے پی کا ہے۔ جنرل نیشنل کانگریس اور نیشنل کانفرنس کی باریوں کا دور لد چکا ہے۔ کشمیر کے عوام اب تبدیلی چاہتے ہیں اور تبدیلی صرف بھارتیہ جنتا پارٹی لا سکتی ہے۔

ان کا دعویٰ ہے کہ لداخ اور جموں کے عوام نے انتخابات سے قبل ہی ان کی جماعت کی کھل کر حمایت کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ آئندہ کشمیر میں حکومت بی جے پی بنائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے پوری ودای کشمیر میں ’’مشن 44 پلس‘‘ کے عنوان سے انتخابی مہم شروع کی ہے۔ یہ مہم وقت سے قبل ہی نتائج دکھا رہی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وادی میں وہ جہاں بھی جلسہ کرتے ہیں تو لوگ دیوانہ وار ان کے انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں شرکت کرکے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔

پروفیسر ہری اوم کا دعویٰ اپنی جگہ مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ غیرجانب دار مبصرین کا کہنا ہے کہ جنتا پارٹی نے ریاستی انتخابات کے نتائج اپنے حق میں کرنے کے لیے جو طریقہ واردات اختیار کر رکھا ہے وہ قطعی غیر جمہوری ہے۔ بندوق کی نوک پر لوگوں کو ڈرایا دھمکایا جا رہا ہے اور ان سے کہا جا رہا ہے کہ وہ بی جے پی کے امیدواروں کو ووٹ دیں ورنہ انہیں سخت انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ جب بندوق اورپیسہ دونوں دھڑلے کے ساتھ استعمال ہو رہے ہیںتو لازماً اس کے انتخابی نتائج پر بی جے پی کے حق میں اثرات مرتب ہوں گے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ کشمیر میں علیحدگی پسند قیادت کی جانب سے انتخابی ڈھونگ کے بائیکاٹ اور جمو ں اور لداخ کے پنڈتوں کی بڑھتی حمایت سے بی جے پی کو نہ صرف جموں میں فائدہ پہنچ سکتا ہے بلکہ جنتا پارٹی ریاست کے دوسرے علاقوں میں بھی اپنے پاؤں مضبوط کرسکتی ہے۔ پروفیسر اوم کا کہنا ہے کہ جموں کے امیرہ کد، حبہ کدل، سوپور، بیج بہاڑہ اور اننت ناگ جیسے حلقوں پران کے امیدواروں کی کامیابی یقینی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہی وہ حلقے ہیں جہاں بھارتی سرکار نے اپنے امیدواروں کی جیت کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا ہے۔

عوام کیا سوچتے ہیں؟
ملک کی نئی قیادت کے چناؤ کے لیے انتخابات جب اور جہاں بھی ہوں تو ان کا محور اور مرکزبیچارے عوام ہی ہوتے ہیں۔ ہرسیاسی جماعت اور انتخابی امیدواربلند بانگ دعووں اور وعدوں کے ساتھ میدان میں نکلتا اور عوام کو سبز باغ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔

مقبوضہ وادی کشمیر کے سیاسی پنڈت بھلا اس میدان میں ایک دوسرے سے کب پیچھے رہ سکتے ہیں۔ بار بار عوام کو لوٹنے والے بھی خود کو آسمان سے اترے فرشتے ثابت کرتے اور ایسے ایسے سہانے باغ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سادہ لوح عوام ان کے دعوؤں کے اسیر ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس باب میں کشمیر کی موجودہ نام نہاد کٹھ پتلی قیادت نہ صرف اپنے سیاسی مخالفین کے بھرے بازار میں خوب لتے لیتی ہے بلکہ ایک دوسرے کی بگڑیاں اچھال کر اپنا ووٹ بنک بڑھانے اور ایک بار پھر عوام کی گردنوں پرمسلط ہونے کی راہ ہموار کررہی ہے۔

الزام تراشی کی سیاست میں نیشنل کانگریس ،نیشنل کانفرنس ، بھارتیہ جنتا پارٹی اور پیپلز ڈیمو کریٹک کے رہنما سب برابر ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ وہاں کے عوام کیا سوچتے ہیں؟ مقامی اخبارات اور غیر جانب دار مبصرین کے خیالات و تجزیات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کشمیری عوام اپنی گردنوں پر مسلط بھارتی ایجنٹ نما سیاست دانوں سے سخت نالاں ہیں۔آج تک کوئی بھی مقامی حکومت کشمیری عوام کی فلاح بہبود کے لیے کوئی موثرحکمت عملی وضع نہیں کرسکی۔

مبصرین کا خیال ہے چونکہ کشمیر میں حکومت سازی میں دہلی سرکار کا ہاتھ ہوتا ہے اس لیے جو بھی حکومت بنے گی اس کی اول تا آخر کوشش عوام کی فلاح بہبود نہیں بھی بلکہ بھارتی حکومت کی خوشنودی ہوگی۔ کشمیر کی انتخابی سیاست میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کے سامنے عوام کے مسائل کبھی نہیں رہے۔ انتخابات سے قبل، مہم کے دوران اور کامیابی کے بعد ہرسیاست دان دہلی سرکار کی مالا جپتا اور اس کی جی حضوری میں اپنے شب و روز بتاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام سخت مایوس اور پریشان ہیں۔

اگرچہ بی جے پی کا دعویٰ ہے کہ وہ کشمیر کی سیاست اور وہاں کی سماجیات میں جوہری تبدیلیاں لانا چاہتی ہے لیکن وہ کیا تبدیلیاں ہوسکتی ہیں؟ ان پرالگ سے بحث کی جائے گی۔ سردست جنتا پارٹی کے امیدواروں کے سیاسی کردار اور عوامی فلاح و بہبود کے حوالے سے ان کے نقطہ نظر پرنگاہ ڈالنے سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ بی جے پی کے انتخابی امیدواروں میں اکثریت ڈاکوؤں، رسہ گیروں اور بدمعاشوں پر مشتمل ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو ماضی میں دیہاتوں میں آباد گجرآبادی کی بھیڑ بکریوں کے ریوڑ کے ریوڑ ہڑپ کرتے رہے ہیں۔ چونکہ ان کی پشت پربڑے بڑوں کا ہاتھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ قانون کی گرفت میں بھی نہیں آسکے اور نہ کشمیر ی پولیس انہیں روکنے میں ناکام رہی ہے۔ کٹھ پتلی فوج اور پولیس آخر انہیں روک ہی کیوں سکتی ہے۔ یہی تو وہ عناصر ہیں جن کے بل پربھارت نے وادی پرغاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے۔

ایک بھارتی اخبار کے ادارتی مضمون میںوہاں کی مقامی سیاست کا بجا طور پر تجزیہ کرتے ہوئے لکھا کہ’’کشمیر میں روز اول سے کرسی کے متوالوں نے عوام کی خدمت کو پس پشت ڈالا اور آج تک کسی حکومت نے عوامی فلاح بہود کو ادنیٰ درجے کی حیثیت بھی نہیں دی۔ ہربرسراقتدار گروپ کو یہی دھن سوار رہی کہ وہ کس طرح نئی دہلی کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ سیلاب میں بھی پریشان حال عوام کی کسی کو کوئی فکر نہیں تھی اور نہ ہی مابعد سیلاب کسی نے عوام کی یاوری کی۔ محض فوٹو سیشن کی حد تک کام ہوا اور یہ سراسر جھوٹ ہے کہ ریاستی سرکار اور اس کے کارندے عوام کے کندھے سے کندھا ملا کر اس ناگہانی مصیبت میں ان کی مدد کرتے رہے۔

 

چشم فلک نے ہر بار یہی دیکھا کہ کشمیر کی اقتدار کی نیلم پری کا حصول عوام کی من مرضی کا تابع نہیں، دلی کے کنگ میکروں کی مرہون منت رہا۔ اس لیے ہرسیاست دان اور ہر پارٹی نے ہمیشہ اہل کشمیر کو نظرانداز کرکے دلی کی خوشنودی کا بیڑا اٹھایا۔ اگر سیلاب جیسی مصیبت کسی دوسری ریاست میں آئی ہوتی تو وہاں کب کا صدارتی یا گورنر رول نافذ کردیا گیا ہوتا، لیکن یہاں پرمقامی حکومت کی نالائقیوں پرکسی نے ٹوکا تک نہیں۔ اسی لیے کسی کو کشمیر ی عوام کی فکر نہیں‘‘۔

جہاں تک نیشل کانفرنس کاتعلق ہے تو وہ اب ویسے ہی مردہ گھوڑا بن چکی ہے۔ پچھلے چھ سالہ اقتدار کے دوران مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی ریاستی دہشت گردی کے ایسے ایسے اندوہناک واقعات نیشنل کانفرنس کی سیاست کو تباہ کرنے کا موجب بنے ہیں۔ مبصرین کے خیال میں نیشنل کانفرنس کے پچھلے چھ سال کے دوران کشمیر میں حقیقی معنوں میںبھارتی فوج کی حکومت رہی ہے۔

سنہ 2009ء شوپیا ں کے مقام پرآسیہ اور نیلوفر نامی دو خواتین کی آبرو ریزی کے بعد جس بہیمانہ طریقے سے انہیں شہید کیا گیا، سنہ 2010ء میں چند ہفتوں کے دوران بھارتی فوج نے120 نہتے نوجوانوں کو گولیوں سے بھون ڈالا تو نیشنل کانفرنس کی قیادت کے ماتھے پرایک شکن تک نہیں آئی۔ ان حالات میں کشمیر ی عوام کو اندازہ ہوگیا کہ نیشنل کانفرنس کشمیر ی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے نہیں بھارتی سرکار کی خوشنودی کے لیے کام کرتی ہے۔

عوام کا بدلتا روپ دیکھ کر پارٹی کے کئی رہ نما جن میں شیخ غلام احمد سالورہ، شیخ غلام رسول اور محبوب بیگ جیسے اہم رہ نماشامل ہیں پارٹی سے الگ ہوگئے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ نیشنل کانفرنس کا شیرازہ بکھرتا دیکھ کر کئی پنچھی اب نریندر مودی کی منڈیر پر بیٹھنے کا سوچ رہے ہیں۔ چڑھتے سورج کے پجاریوں کو شاید اندازہ ہو چکا ہے کہ نریندر مودی ہرقیمت پرکشمیر میں اپنا اثرو رسوخ بڑھا نا چاہتے ہیں۔ مرکز میں کانگریس کی شکست کے بعد اس جماعت کو بھی کشمیر کے حالیہ الیکشن میں اپنی دال گلتی دکھائی نہیں دے رہی۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے وادی کشمیر میں مقاصد نہایت خطرناک ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی حکومت بنانا چاہتی ہے بلکہ ایک سازش کے تحت ریاست کی الگ حیثیت اور شناخت کے اس قانون کو بھی ختم یا ترمیم کے ذریعے تبدیل کرنا چاہتی ہے جسے آج تک کوئی دوسری حکومت چھیڑنے کی جرات نہیں کرسکی۔ ریاستی قانون کے آرٹیکل370 کو چھیڑا جاتا ہے تو اس کا تنازعہ زیادہ خطرناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔ کشمیر کی حریت قیادت پہلے ہی نظربند ہے ۔

یوں لگ رہا ہے کی نریندر مودی کی جماعت طاقت اور سیاست دونوں راستے اختیار کرکے وادی کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کی سازش تیار کر رہی ہے۔ نریندر مودی کے حمایت یافتہ بدمعاش قسم کے سیاسی چمچے وادی کشمیر میں برسر اقتدارآئیں گے تو بی جے پی کی یہ سازش ممکنہ طورپر کامیاب ہوسکتی ہے۔

ساڑھی : پُرکشش بھی، پُروقار بھی

$
0
0

برصغیرپاک و ہند کے ملبوسات میں ساڑھی کو ہمیشہ سے ایک خاص اہمیت حاصل رہی ہے۔

اس خطے میں بسنے والی تمام عمر کی خواتین خاص تہواروں اور شادی بیاہ کی تقریبات کے موقع پر ساڑھی کو ہی زیب تن کرنا پسند کرتی ہیں۔ ایک طرف ساڑھی ان کی شخصیت کو پرکشش بناتی ہے تودوسری جانب فیشن کے تمام تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہے۔

چند برس قبل تک تو بڑی عمر کی خواتین ہی ساڑھی میں دکھائی دیتی تھیں لیکن اب فیشن کے بدلتے رجحانات نے نوجوان نسل کو بھی ساڑھی کا دیوانہ بنا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہلکے اورشوخ رنگوں میں پرنٹڈ اور زری کے کام والی ساڑھیاں سب کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔

’ایکسپریس سنڈے میگزین‘ کیلئے کئے گئے شوٹ میں معروف اداکارہ ماہ نورکا کہنا تھا کہ شوبزکے پروگرام ہوں یا دیگر تقریبات میری کوشش ہوتی ہے کہ میں ساڑھی کا استعمال کروں۔ یہ لباس مجھے بے حد پسند ہے اور میری شخصیت کو پرکشش اور پُروقار بناتا ہے۔

Viewing all 4736 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>