Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4690 articles
Browse latest View live

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
25 تا 31 مارچ 2024
پیر 25مارچ 2024
آج کا حاکم عدد 2 ہے۔تبدیلیوں کا دن ہوسکتا ہے، مادی حوالے سے ایک بہتر دن ، قریبی رشتوں سے قربت بڑھ سکتی ہے۔ جذباتی ہونے سے گریز بہتر ہوگا۔آپ کی تاریخ پیدائش میں اگر 1،3،4،5،8 اور9 خصوصاً 4 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ت،د یا م ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،6 اور7 خصوصاً 6 کا عدد یا پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و،س یا خ ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔

صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔ اسمِ اعظم ’’یارحیم، یارحمٰن، یااللہ‘‘ 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 26 مارچ 2024
آج کا حاکم عدد1 ہے۔ ایک کا عدد منگل کے دن ہمیشہ ہی کچھ کر گرزنے کی تحریک و توانائی فراہم کرتا ہے۔ بادشاہ اور سپاہ سالار کی ہم خیالی میں نیا حکم نامہ! اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،4،5،6 اور9 خصوصاً 5کا عدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ،ن یا ث ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،7 اور8 خصوصاً 7 یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز،ع یا ذ ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذور سیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔ وظیفۂ خاص ’’یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم‘‘ 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 27 مارچ 2024
آج کا حاکم عدد 7 ہے۔ ایسی سوچیں جو بنا کسی وجہ کے ہوں سر میں مکھیوں کی طرح بھنبھناتی محسوس ہوسکتی ہیں، ایسے میں کسی بھی قسم کے قدم یا فیصلے سے گریز بہتر ہے۔

3، 4، 5،7، 8 اور9 خصوصاً 8 کا عدد یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ح،ف یا ض ہے تو آپ کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2 اور6 خصوصاً 1 یا پیدائش کا دن اتوار یا نام کا پہلا حرف ا،ی یا غ ہے تو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔

صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے۔ تایا، چچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔ وظیفۂ خاص ’’یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ‘‘ 41 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 28 مارچ 2024
آج کا حاکم عدد 6 ہے۔ آگے بڑھنے، ترقی اور راحت کے امور میں بہتری لانے والا دن ہے۔ آج کوئی اچھی خبر آپ کے دروازے پر دستک دے سکتی ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،4،5،6،8 اور9 خصوصاً 9 کا عدد یا پیدائش کا دن منگل ہے یا نام کا پہلا حرف ص، ط یا ظ ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2،3 اور7 خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز،ع یا ذ ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔ وظیفۂ خاص ’’سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ‘‘ 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 29 مارچ 2024
آج کا حاکم عدد 1ہے۔ انا، تکبر اور شیخی بگھارنے سے دور رہیں، آپ کی کار کردگی خود ہی آپ کو مسندِعزت پر بٹھادے گی۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،4،5،6 اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلاحرف ہ،ن یا ث ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش 3،7 اور8 کا عدد خصوصاً 7 یا پیدائشی دن پیر یا جن کے نام کا پہلا حرف ز،ع یا ذ ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا 6 کلو چینی، سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔ وظیفۂ خاص ’’سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ‘‘ 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 30 مارچ 2024
آج کا حاکم عدد 4 ہے۔ غیرمتوقع واقعہ، رویہ، حالات، حادثہ یا سوچ سے آمنا سامنا ہوسکتا ہے۔ صدقہ لازم دیں۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2،3،6،7 اور8 خصوصاً 2کا عدد یا پیدائشی دن پیر یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4،5 اور 9 خصوصاً 9 کا عدد یا پیدائشی دن منگل یا نام کا پہلا حرف ص،ط یا ظ ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 80 یا800 روپے یا کالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔ وظیفۂ خاص ’’یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ‘‘ 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 31 مارچ 2024
آج کا حاکم نمبر 7 ہے۔ مراقبہ، سیروتفریح یا ایسے دوستوں کے ساتھ ملاقات کے لیے موزوں ہے جن سے آپ کا مادی تعلق نہیں ہے، بلکہ ایک روح کا رشتہ ہے اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3،4،5،7،8 اور9 خصوصاً 8 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا ح، ف یا ض ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1،2 اور6 خصوصاً 6 عدد یا جن کا پیدائشی دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و،س یا خ ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل، کپڑے، کتابیں دینا یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔ وظیفۂ خاص ’’یاحی، یاقیوم، یااللہ‘‘ 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.


علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ
21 مارچ تا 20 اپریل
25 مارچ بروز پیر کو چاند گرہن ہونے جارہا ہے جو دن میں ہونے کی وجہ سے پاکستان میں نظر نہیں آئے گا لیکن 25، 26 اور27 ان تاریخوں میں آپ کا سیارہ بارھویں گھر میں ہوگا اور چاند کم زور، ایسے وقت میں آپ کے ازدواجی، گھریلو اور وراثتی امور شدید متاثر ہوسکتے ہیں۔ آپ کسی مشکل میں پڑ سکتے ہیں۔ اسپتال، جیل سے واسطہ پڑسکتا ہے یا کسی کے چکر میں پڑ سکتے ہیں۔ محتاط رہیں۔

برج ثور
سیارہ زہرہ
21اپریل تا 20 مئی
25 تاریخ یعنی ہفتے کے پہلے ہی دن چاند کو گرہن سے گزرنا پڑے گا۔ ایسے میں قریبی عزیزوں کے ساتھ تعلقات میں خرابی ہوسکتی ہے، بہن بھائیوں کے ساتھ بگاڑ کا شدید اندیشہ ہے۔ ایسے وقت میں سفر سوچ سمجھ کے کریں۔ پرانے مراسم دوبارہ سے متحرک ہوسکتے ہیں۔

برج جوزا
سیارہ عطارد ، 21مئی تا 21 جون
پیر 25 مارچ کا چاند گرہن آپ کے مالی امور کو متاثر کرسکتا ہے۔ آپ کے کھانے پینے میں کسی بے احتیاطی کی وجہ سے صحت متاثر ہونے کا اندیشہ موجود ہے۔ ایک بڑے عہدے پر براجمان ایک دوست آپ کے کام آسکتا ہے۔ آپ کے کیریئر یا رہائش میں تبدیلی یا کسی قسم کی الجھن ہوسکتی ہے۔

برج سرطان
سیارہ قمر
22جون تا 23 جولائی
آپ کا سیارہ گرہن سے گزر کے فوراً عقرب میں جانے والا ہے۔ ممکنہ طور پر آپ سے کوئی غلط فیصلہ سرزد ہوسکتا ہے۔ آپ کو خود پر قابو رکھنے کی ضرورت ہے، جذبات میں بہنے سے بچیں، ورنہ گھر اور ازدواجی حوالے سے متعلق کوئی فیصلہ ایسا ہوسکتا ہے جسے اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنا کہتے ہیں۔

برج اسد
سیارہ شمس
24جولائی تا 23 اگست
آپ کی توانائی کا گراف کافی بلند ہے لیکن اس وقت آپ خود بھی محسوس کررہے ہیں کہ کہیں کچھ غلط ہونے والا ہے۔ اچانک کوئی اجنبی آپ کی ذہنی پریشانی کا سبب بن سکتا ہے۔ ازدواجی حوالے سے خرابی ہوسکتی ہے۔ ایسے وقت میں علیحدگی کی سمت معاملہ جاسکتا ہے۔ آپ کو نظامِ انہضام سے متعلق کوئی پریشانی ہوسکتی ہے۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد
24 اگست تا 23 ستمبر
25 مارچ کا چاند گرہن کسی مہربان کو آپ کی مالی حالت کو مشکل میں ڈالنے کا سبب بنا سکتا ہے۔ ازدواجی حوالے سے اگرچہ کوئی بڑی الجھن نہیں ہوسکتی لیکن پھر بھی ایک تناؤ اور تلخی ضرور ہوسکتی ہے۔ آپ کا سیارہ آٹھویں خانے میں ہے۔ آپ کو کچھ سوچیں وہمی سا بناسکتی ہیں۔ خود کو پرسکون بنانے کی کوشش کریں۔

برج میزان
سیارہ زہرہ
24 ستمبر تا 23اکتوبر
آپ کے کیریئر کا سیارہ چاند اس ہفتے کی ابتدا پیر 25 مارچ کو ہی گرہن سے گزرنے والا ہے۔ آپ کو اپنے کیریئر کے حوالے سے کچھ غیرمتوقع تبدیلیوں سے سامنا ہوسکتا ہے۔ تعلقات کا خانہ متاثر ہورہا ہے، شریکِ کاروبار سے اختلاف ہوسکتا ہے، صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ ایسے میں آپ کوئی فیصلہ جذباتی پن میں غلط کرسکتے ہیں۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو
24 اکتوبر تا 22 نومبر
آپ کا سیارہ محبت، اولاد اور تخلیقی ہنر کے مقام پر آچکا ہے۔ یہاں یہ آپ کے امور میں کافی توانائی دینے والا ہے۔ آپ خود کو پہلے سے بہت بہتر محسوس کریں گے، لیکن بزرگوں اور بیرون ملک کے امور کا سیارہ چاند پہلے گرہن اور پھر ہبوط سے گزرنے والا ہے۔ متعلقہ امور کے حوالے سے کسی فکر سے گزرنا پڑسکتا ہے۔

برج قوس
سیارہ مشتری
23 نومبرتا 22 دسمبر
چاند گرہن آپ کے دوستوں کے خانے میں لگنے والا ہے۔ کسی دوست کی وجہ سے آپ کو پریشانی ہوسکتی ہے یا کوئی قریبی کسی مشکل میں پڑنے والا ہے۔ آپ کا کوئی غیرمتوقع فائدہ ہوکے نقصان ہوسکتا ہے۔ کسی قریبی سے جدائی بھی ہوسکتی ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل
23 دسمبر تا 20 جنوری
چاند آپ کے نظامِ بروجی میں ساتویں یعنی ازدواجی امور کا مالک ہے، 25 مارچ بروز پیر کا گرہن آپ کے ازدواجی امور، معاشرتی تعلقات اور آپ کی صحت کے گردہ، مثانہ اور نظامِ انہضام کا مالک ہونے کی وجہ سے مذکورہ امور کو متاثر کرسکتا ہے۔ رہائش گاہ میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔ دوستوں کے ساتھ غلط فہمیاں ہوسکتیں ہیں۔

برج دلو
سیارہ یورنیس
21 جنوری تا 19 فروری
چاند آپ کے زائچے میں آپ کے کام، کاروبار، ملازمت اور صحت کا نمائندہ ہے، اسے 25 مارچ کو آپ کے بیرون ملک، اعلٰی تعلیم اور لمبے سفر کے مقام پر گرہن لگنے جارہا ہے ، بیرون ملک سفر کے حوالے سے کسی الجھن سے دوچار ہونا پڑسکتا ہے۔ صحت متاثر ہوسکتی ہے، کسی مہربان کی وجہ سے کاروبار میں نقصان ہوسکتا ہے محتاط رہیں۔

برج حوت
سیارہ نیپچون
20 فروری تا 20 مارچ
چاند کو اس ہفتے کی ابتدا پیر کے روز گرہن لگنے والا ہے۔ یہاں اولاد اور محبوب کے حوالے سے پریشان کرنے والا ہے۔ بچوں کی صحت کا خصوصی خیال رکھیں۔ اس واقعے کی وجہ سے آپ خدا کے مزید قریب ہوسکتے ہیں۔ آپ کے ایمان کا درجہ بلند ہوسکتا ہے۔

The post علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

قصوں کے میلے سے کچھ سوغاتیں

$
0
0

 (حصہ اول)

اردو زبان کے نثری ادب کو اپنی قابل رشک متنوع اصناف کے سبب اردو شعری ادب پر فوقیت حاصل ہے۔ افسانچے سے داستان تک، تحقیق سے تنقید تک اور مضمون نگاری سے ترجمہ نگاری تک، نثری ادب کے مطالعاتی سفر کا ہر پڑاؤ قاری کے ذہن و قلب اس طرح مسحور کر لیتا ہے کہ وہ دادِذوق دیے بنا نہیں رہ سکتا۔

ایک محتاط اندازے اور عمومی جائزے کے مطابق مختلف معیاری، جامع اور ہمہ رنگ اصناف کے باوجود، نثری ادب میں ’’آپ بیتی اور سوانح‘‘ کو سب سے زیادہ پڑھی جانے والی صنف کی حیثیت سے نمایاں مقام حاصل ہے۔ دیگر شعبۂ ہائے زندگی کے نمائندہ افراد کی تحریرکردہ آپ بیتیوں کے مقابل، اردو شعر و ادب سے وابستہ صاحبان قلم کی آپ بیتیاں اپنی ادبی چاشنی، مرصع اسلوب، دل آویز اندازبیاں، دل چسپ مشاہدات و واقعات کی بنا پر صاحبان ذوق میں زیادہ مقبول اور ہردل عزیز ہیں۔ سبب یہ ہے کہ ’’خودنوشتی ادب‘‘ کا معتدبہ حصہ اہالیان شعر و ادب کے قلم کا مرہون منت ہے۔

زیرنظر مضمون، انہی حاملان شعر و نثر کی معروف وغیرمعروف آپ بیتیوں اور سوانح سے منتخب چند ایسے منفرد، قابلِ ذکر، پُرکشش اور حاصلِ مطالعہ واقعات پر مشتمل ہے، جس میں شعراء و ادباء کی ادب پروری، تخلیق و تحقیق، تحسین و تنقید، معاصرانہ چشمک، سخن وری و خوش کلامی، حیاتیاتی نشیب و فراز اور ذہنی و قلبی تاثرات سے مزین رنگا رنگ قصے بیان کیے گئے ہیں۔ وقت طلب، محنت پسند اور طویل مطالعاتی ریاضت کا یہ ماحصل، میر تقی میر کے الفاظ میں اس امید کے ساتھ پیش خدمت ہے کہ:

؎باتیں ہماری یاد رہیں پھر باتیں نہ ایسی سنیے گا

پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا

ادبی رسالہ ’’سب رس‘‘ کے زور ؔنمبر میں ڈاکٹر سیدہ جعفر محی الدین قادری زور ؔپر تحریر اپنے مضمون میں لکھتی ہیں کہ ایک روز ڈاکٹر زور ؔکہنے لگے کہ ’’بڑی تلاش اور تحقیقِ بسیار کے بعد لال دروازے کے اس گورستان کا پتا چلایا جہاں اوائل دور کے قدیم استاد شاعر میر شمس الدین فیض ؔکا مدفن تھا۔ یہاں ہر طرف ایک ہو کا عالم تھا۔ قبروں کی حالت انتہائی شکستہ تھی۔ ہر طرف مٹی کے ڈھیر اور کوڑاکرکٹ کے انبار لگے ہوئے تھے۔

مقامی لوگوں کی نشان دہی پر جب میں فیضؔ صاحب کی قبر پر پہنچا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ ان کی قبر دوسروں کے مقابلے میں صاف اور گردوغبار سے پاک تھی۔ میں اپنی جگہ حیران تھا کہ اس ویرانے میں فیضؔ صاحب کے مزار کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟ غرض میں فاتحہ خوانی کے بعد گھر واپس آگیا، لیکن یہ سوال میرے ذہن میں ہنوز موجود تھا۔ میں نے فیض ؔکا دیوان اٹھایا، اور اس سوال کا اعادہ کرتے ہوئے دیوان کھولا اور دائیں ہاتھ کے پہلے صفحے پر دیکھا تو سب سے اوپر یہ شعر لکھا پایا:

؎موجۂ بادِ بہارِ چمنستانِ بہشت

مشہدِ فیضؔ پہ جاروب کشی کرتا ہے‘‘

اخلاق احمد دہلوی اپنی کتاب ’’اور پھر بیاں اپنا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ پنجاب یونیورسٹی کے اورئینٹل کالج میں ایک بار فراقؔ صاحب شاعر کے بے عمل ہونے کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے کہنے لگے، ’’پہلی شاعری دنیا میں بے عملی سے ہی شروع ہوئی، کیوںکہ جب انسان نے درختوں سے اتر کر غاروں میں رہنا شروع کیا تو کچھ بے عمل لوگ ایسے بھی تھے غذائی ضروریات کے عمل کی تکمیل کے لیے شکار پر جانے والے اپنے ساتھیوں کا ساتھ دینے کے بجائے اپنے باعمل ساتھیوں کی عدم موجودگی میں غار کو صاف ستھرا رکھتے اور غاروں کو پھولوں سے آراستہ کرتے، میرے نزدیک یہ دنیا کی پہلی شاعری تھی۔

چناںچہ غاروں کی تزئین و آرائش سے لے کر آج تک شاعر کا کام یہی رہا ہے کہ وہ کیسے اس دنیا کو مزید پر آسائش اور خوب صورت بنا سکتا ہے۔ ہر چند کہ یہ کام اب آرکیٹیکٹ، انجنیئر اور سائنس داں کرتے ہیں ِمگر ان کو یہ خواب بظاہر بے عمل شاعر ہی دکھاتا ہے، کیوںکہ عمل ایک غیرشاعرانہ فعل ہے، جیسے کھانا جب دسترخوان پر سجا ہو تو بہت مرغوب لگتا ہے، لیکن کھانا پکانا، دسترخوان چننا اور کھانا کھانا، یہ سب غیرشاعرانہ افعال ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال جیسا داعی عمل خود ساری زندگی اسی بات کا شکوہ کرتا رہا کہ:

اقبالؔ بڑا اُپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا‘‘

ڈاکٹر محمد حسن اپنے ایک مضمون بیادِجوش ؔمیں لکھتے ہیں کہ جوش ؔصاحب نے ایک محفل میں اپنی ایک نظم پڑھی جس کا ٹیپ کا مصرعہ کچھ یوں تھا:

؎رواں دواں بڑھے چلو، رواں دواں بڑھے چلو

محفل کے اختتام پر مسعود حسین ادیب ؔنے بڑی شائستگی سے جوش صاحب سے کہا،’’جوش صاحب!!آپ جب یہ نظم شائع کریں تو ساتھ یہ نوٹ ضرور دیں کہ ’رواں دواں‘ کا لفظ لغوی مفہوم میں استعمال ہوا ہے، محاورے کے اعتبار سے نہیں۔‘‘ جوش ؔصاحب نے چوکَنّا ہو کر پوچھا کہ محاورے کے اعتبار سے کیا معنی ہیں؟ مسعود صاحب نے بتایا کہ محاورے کے اعتبار سے وہ مفہوم ہے جو صفی ؔلکھنوی نے یتیموں کے بارے اپنی ایک نظم میں ادا کیا ہے:

؎رواں دواں ہیں، غریب الدیار ہیں ہم لوگ

رواں دواں یعنی ’’مارے مارے پھرنے والے بے سہارالوگ۔‘‘ اب محاورے کے حساب سے آپ کی نظم کے ٹیپ کے مصرعہ کا مطلب یہ ہوا کہ ’’مارے مارے پھرنے والے بے سہارا لوگوں کی طرح بس چلتے رہو۔‘‘

تابشؔ دہلوی اپنی خودنوشت ’’دید بازدید ‘‘میں بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں نے فانیؔ بدایونی سے کہا کہ مجھے اپنی شاگردی میں لے لیں تو فانیؔ بولے، اگرچہ سوال بے جا نہیں اور اس کا چلن بھی عام ہے لیکن شاعری میں استاد شاگرد والے فلسفے کے بارے میں میری رائے تھوڑی مختلف ہے۔ پھر فرمانے لگے دیکھو! اگر تم کو خیاطی سیکھنی ہے تو اور بات ہے، کیوںکہ کپڑے کی کتربیونت کے بارے میں تو بتایا جاسکتا ہے، لیکن شعر کہنے کے لیے مبادیات شعر سے واقفیت نہایت ضروری ہے، جو مطالعے سے آ سکتی ہے مگر حسنِ کلام کی نعمت مطالعے کی دین نہیں، وہ ودیعت ہوتی ہے، اس طرح فطری شاعر کو شاعری سیکھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لہٰذا اگر تم اپنی شاعری کو استادی کا محتاج سمجھتے ہو تو ایسی شاعری فوراً چھوڑ دو۔ فانیؔ مرحوم کے اسی فلسفہ شاعری کو محبوب خزاں ؔنے اس رنگ میں بیان کیا ہے:

؎بات یہ ہے کہ آدمی شاعر

یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا

ہندوستانی ادیب اور شاعر عابد سہیل اپنی آپ بیتی ’’جو یاد رہا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ اورئی میں قیام کے دوران ایک محفل میں ہمارے دوست ابرار صاحب نے غالبؔ سے منسوب شعر سنایا:

؎چند تصویر بتاں، چند حسینوں کے خطوط

بعد مرنے کے مرے گھر سے یہ ساماں نکلا

میں نے کہا، یہ شعر غالبؔ کا نہیں ہو سکتا، سب حیران ہوئے، میری دلیل یہ تھی کہ ’’تصویر بتاں‘‘ کی ترکیب غلط ہے، یہاں ’تصاویر بتاں‘ ہونا چاہیے، اور غالبؔ ایسے قادرالکلام شاعر کے لیے یہ عیب دور کرنا مشکل نہ تھا۔ علاوہ ازیں 1922 میں نظامی پریس سے شائع ہونے والے غالبؔ کے دیواں کے علاوہ بعد میں شائع ہونے والے کسی بھی دیوان غالب میں یہ شعر شامل نہیں۔ حقیقتاً یہ شعر ایک غیرمعروف شاعر بزمؔ اکبر آبادی کا ہے جس کی اصلی شکل کچھ یوں ہے:

؎ایک تصویر کسی شوخ کی اور نامے چند

گھر سے عاشق کے پسِ مرگ یہ ساماں نکلا

ایک روز صادقین لاہور آرٹس کونسل کی عمارت میں اپنے مداحوں کے جھرمٹ میں سورہ الرحمٰن کی آیات کی خطاطی کے نمونے دکھا رہے تھے کہ کالج کی کئی طالبات نے انہیں گھیر لیا۔ اپنی فطری حسن پرستی کے سبب انہیں دیکھ کر صادقین نے یہ آیت پڑھی:

فَبایِ اَلاء رِبِکُما تُکذِبٰن

مجمع میں موجود ایک زاہد خشک، درازریش نے اُنہیں ٹوکتے ہوئے کہا، صادقین صاحب! آپ بھی کمال کرتے ہیں قرآن کی آیات کا بے جا استعمال کرتے ہیں، اور لاحول پڑھا۔ صادقین نے مسکرا کر جواب دیا،’’حضرت! اپنی اپنی فکر کی بات ہے، آپ کو اس موقع پر شیطان الرجیم یاد آیا اور مجھے رب العالمین۔‘‘ اور پھر میر انیس ؔکا یہ شعر پڑھا:

؎پڑھیں درود نہ کیوں دیکھ کر حسینوں کو

یخیال صنعت صانع ہے پاک بینوں سے

غیرمعروف مگر باکمال شعراء کے تذکرے پر مبنی کتاب ’’وہ جنہیں کوئی نہیں جانتا‘‘ کے مصنف انورصابری لکھتے ہیں کہ جالندھر سے تعلق رکھنے والے سر تیج بہادر سپرو کے داماد، پنڈت شیو نرائن شمیم کے پوتے منشی چاندؔ نرائن رینہ شاعر مشرق علامہ اقبال کے واحد شاگرد تھے جن کے کلام پر علامہ نے باقاعدہ اصلاح دی تھی۔ علامہ سے ان کی عقیدت اور محبت کا اندازہ اس شعر سے لگایا جا سکتا ہے جو انہوں نے علامہ کی وفات سے ڈیڑھ ماہ پیشتر ان کے روبرو پڑھا تھا:

؎ساغرِدل میرا جذبوں سے ترے لبریز ہے

جس میں مے تیری چھلکتی ہے میں وہ پیمانہ ہوں

ان کا شعری مجموعہ ’’کاروان سخن‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ ان کے کلام پر علامہ کی چھاپ واضح دیکھی جا سکتی ہے:

؎خرد جنوں کی لطافت کا راز پا نہ سکی

وہ ایک گوشۂ وحشت میں بھی سما نہ سکی

؎وہ عقل، عقل نہیںجو خجستہ گام نہ ہو

وہ عشق، عشق ہے جو عقل کا غلام نہیں

تمثیل احمد اپنی کتاب ’’مرزا یاس یگانہ چنگیزی، حیات اور شاعری‘‘ میں لکھتے ہیں کہ لکھنؤ میں منعقدہ ایک مشاعرے میں محشر ؔلکھنوی نے اپنی غزل سنائی اور مطلع پڑھا:

؎ارے محشرؔ ہی کبھی کہہ کے پکارا ہوتا

مارنا تھا تو اسی تیر سے مارا ہوتا

تو مشاعرہ اڑ گیا کہ ’’پکارا‘‘ کا قافیہ اس سے بہتر باندھنا نا ممکن ہے، مگر جب یگانہ ؔنے اپنی باری پر غزل کا مقطع پڑھا تو مشاعرے پہ سناٹا چھا گیا کہ اس پہلو سے پکارا قافیہ کے بارے سوچا ہی نہیں گیا:

؎دیکھتے رہ گئے یاسؔ آپ نے اچھا نہ کیا

ڈوبتے وقت کسی کو تو پکارا ہوتا

نظیرؔ صدیقی اپنے خاکوں کی کتاب ’’جان پہچان ‘‘میں عندلیب ؔشادانی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کراچی کے ایک مقامی انگریزی رسالے کے ایڈیٹر نے مجھ سے فرمائش کی کہ شادانی صاحب سے اردو کی چند نمائندہ نظموں کے انگریزی تراجم کرواوں۔ منتخب نظموں میں ساحرؔ لدھیانوی کی نظم ’’تاج محل‘‘ بھی شامل تھی۔ شادانی صاحب نے اس کا ترجمہ کرنے کی بجائے اس پر ایسی تنقید کی کہ وہ نظم میری نظر سے گرگئی، بلکہ میں خود اپنی نظر سے بھی گرگیا ۔ مثلاً پہلے تو انہوں نے کہا کہ اس نظم کی ہیئت میں باقاعدہ کوئی order نہیں، قافیوں کے استعمال میں خوش آہنگی کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔ نظم کا ایک شعر ہے:

؎کون کہتا ہے کہ صادق نہ تھے جذبے ان کے

کیوںکہ وہ لوگ بھی اپنی ہی طرح مفلس تھے

’’اپنی ہی طرح‘‘ پہ اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگے،’’ساحرؔ چوںکہ پنجابی تھے لہٰذا یہاں بھی پنجابی طرز بیان کو کو اردو قالب میں ڈھال دیا یعنی ’ساڈے ورگے‘ کا اردو ترجمہ ’اپنی ہی طرح‘ کردیا، جب کہ یہاں ’’ہماری ہی طرح ‘‘ہونا چاہیے تھے:

ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِِ؎کیوںکہ وہ لوگ ’’ہماری ہی طرح‘‘مفلس تھے

پھر اس نظم کا مصرع ہے:

میرے محبوب! پسِ پردہِ تشہیرِوفا

اس مصرعہ میں تشہیر کے لفظ کا استعمال بے محل ہے، جب کہ ’’ان کے پیاروں کے مقابر رہے بے نام و نمود ‘‘ پر اعتراض کرتے ہوئے کہا غریبوں کے مقابر کہاں سے آئے؟ غریبوں کی تو قبریں ہوا کرتی ہیں۔

مجاز ؔصاحب کے زمانے میں ایک معروف سید صاحب سے کسی خوبرو محترمہ کے دوستانہ تعلقات پر معتبر حلقوں میں طرح طرح چہ می گوئیاں ہورہی تھیں۔ اسی دوران ایک صاحب جو غالباً خود کبھی مذکورہ خاتون کے پرستاروں میں شامل تھے، مجاز کے پاس ایک تصویر لے کر آئے جس میں موصوف سید اور وہ خاتون اکٹھے دکھائی دے رہے تھے، اور مجاز ؔ سے کہنے لگے،’’بھئی اس تصویر کو فریم کر کے اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں، تم اس پر کوئی چبھتا ہوا شعر لکھ دو۔‘‘ مجاز نے ایک نظر تصویر کو دیکھا اور اس کے نیچے لکھا:

؎ ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید ’’کام‘‘ کرتا ہے

نہ بھولو فرق ہے جو کہنے والے، کرنے والے میں

آل احمد سرور ؔ اپنی آپ بیتی ’’خواب باقی ہیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک محفل میں جہاں نواب جعفر علی خان اثرؔ بھی موجود تھے، شعراء کی مشکل پسندی اور آسان گوئی پر بحث چل نکلی تو جعفر خان اثر ؔبولے کہ میر ؔ کی آسان پسندی اور سادہ طرزادائی سے لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں جب کہ ان کے اکثر اشعار انتہائی غوروخوض کے متقاضی ہیں۔ بطور نمونہ انہوں نے میرؔ صاحب کا درج ذیل شعر سنایا اور مطلب پوچھا‘‘:

؎اُگتے تھے دستِ بلبل و دامانِ گُل بہم

صحنِ چمن نمونۂ یوم الحساب تھا

حاضرین محفل کی جانب سے شعر مذکورہ کی نوع بنوع تشریحات کے بعد وہ بولے۔۔۔ یہاں ’دستِ بلبل‘ سے مراد وہ پتیاں ہیں جو پھول کے نچلے حصے پر ہوتی ہیں اور چوںکہ پانچ ہوتی ہیں، اس لیے پنجے سے مشابہ ہیں۔ ’’دامانِ گل‘‘ سے مراد پھول کی سرخ یا گلابی پنکھڑیاں ہیں۔ اب شعر کا مطلب یہ ہوا کہ بلبل اپنے پنجے میں گل کا دامن تھامے گل کی بے اعتنائی پر فریاد و فغاں کر رہی ہے۔ لہٰذا جس طرح حشر میں مظلوم ظالم کا دامن پکڑ کر فریاد کرے گا اسی طرح صحن چمن میں بھی بلبل کی فریاد سے روزحشر کا منظر سامنے آتا ہے۔

خاکوں پر مبنی کتاب ’’گم شدہ لوگ‘‘ میں آغا ناصر لکھتے ہیں کہ پطرس بخاری کے چھوٹے بھائی ذوالفقار بخاری جن لوگوں کو عزیز رکھتے تھے ان میں سے اگر کسی کے ساتھ ناراض ہوتے تو اپنی خفگی کے اظہار کے لیے ان سے بول چال بند کر دیتے۔ اسی تناظر میں، جب بزرگ شاعر ارمؔ لکھنوی اور بخاری صاحب میں بول چال بند تھی، تو کراچی کے ایک مشاعرے میں جس کی صدارت بخاری صاحب کر رہے تھے، ارمؔ لکھنوی بھی بطور شاعر مدعو تھے۔ اپنی باری آنے پر جب انہوں نے غزل سنائی تو ساری محفل داد و تحسین کے شور سے گونج اٹھی، مگر بخاری صاحب ٹس سے مس نہ ہوئے، خشمگیں نگاہوں اور تنی ہوئی بھنوؤں کے ساتھ ساری غزل سماعت کی۔ غزل کے اختتام پر ارم ؔصاحب نے بخاری صاحب کو مخاطب کرتے کہا، حضور! ایک شعر صرف آپ کی خدمت میں عرض ہے، اور پھر بڑی رقت کے ساتھ درج ذیل شعر پڑھا:

؎یوں وہ گزرے نظر چرائے ہوئے

ہم لیے رہ گئے سلام اپنا

بخاری صاحب شعر سن کے پھڑک اٹھے اور جذباتی انداز میں اپنی نشست سے اٹھ کر ارمؔ لکھنوی کو گلے لگا لیا۔

The post قصوں کے میلے سے کچھ سوغاتیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کراچی کے باشندوں پر کیا گزری!

$
0
0

تکلیف سے بے کل مریض ڈاکٹر کے روبرو ہے، مگر ڈاکٹر کو علاج سے قبل مریض کے خون کے مختلف نمونوں کی رپورٹس کا انتظار ہے، جن پر مرض کی تشخیص کا انحصار ہے۔ یہ منظرنامہ اکیسویں صدی کا ہے۔

تو ماضی قریب اور قبل از مسیح کی صدیوں میں معالجوں کا امراض کی تشخیص کے مناظر کیا رہے ہوں گے۔

مرض کی شناخت اور اس کی چارہ گری کے ان مناظر کے مشاہدے کے لیے تاریخ کے صفحوں کو پلٹنا ہوگا۔

معلوم گذری صدیوں کے طبی تاریخی حوالوں کے مطابق انسانی جسم کو لاحق ہونے والی بیماریوں اور حادثات کی نوعیت میں کوئی نمایاں تبدیلی نظر نہیں آئی۔ بس ان روگ کے نام اور ان کے طریقۂ علاج اپنے اپنے دور کی مناسبت سے جداگانہ رہے۔

معالجوں کے باقاعدہ پیشے کے وجود میں آنے سے پیشتر قبل از مسیح، جنگلوں میں رہنے والا انسان اپنے درد کا مداوا خود ہی کرتا تھا۔

قدرت کے عطا کیے شعور کے مطابق شفایابی کے لیے وہ مختلف وسیلے استعمال میں لاتا رہا۔ ان وسیلوں میں سرفہرست زمین پر اگنے والی ہزارہا جڑی بوٹیاں ہیں، جن سے شفایابی کا علم اسے گزرتے وقت کے ساتھ ملنے والی آگہی اور شعور کی پختگی پر ہوتا رہا۔

مزید کئی صدیاں بیتنے پر یہ علم ارتقاء کی کئی اور منزلیں طے کرتا رہا، اور یوں معالجوں کی جماعت تو وجود میں آچکی تھی، پر یہ ایک مستند ادارے کی شکل اختیار نہ کر سکی تھی۔

ان ادوار کے معالج یہی جڑی بوٹیاں مریض کو علاج کے طور پر تجویز کرتے تھے۔ مگر تشخیص کا انحصار معالجوں کے اپنے تجربے کی بنیاد پر تھا۔ یہ قدیم اطباء اپنے مریض کی ظاہری حالت، جسمانی ساخت، نبض کی رفتار اور اس کے دباؤ سے مرض کی تشخیص پر دسترس حاصل کرچکے تھے۔

نیز قدیم مصر میں مردہ جسم کو ’’ممی‘‘ کے عمل سے گزارنے کے لیے جسم کی جراحت کے دوران بھی اطباء کو سیکھنے کا کچھ موقع ملا۔

دوا کے طور پر تجویز کئے جانے والے اجزاء میں جڑی بوٹیوں کے علاوہ گھریلو استعمال کی اشیاء بھی شامل تھیں، اور ان کا حصول بھی آسان تھا۔ لہٰذا کچھ طریقہ علاج گھریلو ٹوٹکوں کے طور پر بھی معروف ہوگئے۔ اور یہ تیر بہدف بھی تھے۔

حکماء کی دوائیں اور گھریلو ٹوٹکوں کو بطور علاج اختیار کرنے کے دوران تاثیر کی مدت طویل ہونے پر ہر درد کا مداوا فوراً چاہنے والی بے چین اور جلد باز انسانی فطرت جا دو ٹونے کی طرف مائل ہوجاتی۔

مریض اور تیمارداروں کا مرض کے بارے میں یہ منفی طرز عمل ہزاروں سالوں سے آج تک کسی نہ کسی روپ میں موجود ہے۔

بابائے طب کہلانے والے یونان کے معروف فلسفی اور مستند طبیب ’’بقراط‘‘ نے امراض کے مشاہدے اور دور دراز کے سفر کے بعد تجربے کی بنیاد پر فنِ طب کو اوہام پرستی اور جادو ٹونے سے نکال کر عملی اساس فراہم کی۔

بقراط کے زمانے تک ہر بیماری کو اپالو دیوتا کے تیر یا آسیب کا اثر قرار دیا جاتا تھا۔ بقراط نے ان توہمات کو یکسر نظرانداز کرکے بیماری کو طبعی قرار دیا۔ مثال کے طور پر مرگی کو ’’مقدس بیماری‘‘ قرار دیا جاتا تھا۔ جس کے دوران انسان کو کسی دیوتا یا آسیب کے قبضے میں بتایا جاتا تھا۔ بقراط نے مرگی اور دوسرے کئی امراض کو صحیح عقل و توضیح پیش کی، جس سے فنِ طب کو صحیح عملی اساس فراہم ہوئی، اور اس طرح فنِ طب کو دیو مالا اور توہم پرستی سے ہمیشہ کے لیے نجات مل گئی۔

فن طب کی اسی لازوال خدمت کی بنا پر دنیا کی مختلف یونیورسٹیاں اپنے فارغ التحصیل طلباء سے ’’حلف بقراط‘‘ لیتی ہیں۔ اسِ حلف کے بغیر کوئی بھی طبیب اپنے پیشے کے میدان میں قدم نہیں رکھ سکتا۔ اس حلف کے بعد کوئی بھی طبیب کسی قسم کا غیر اخلاقی کام نہ کرنے کا پابند ہوجاتا ہے۔

گزرے وقتوں میں نسل انسانی کچھ مہلک وبائی بیماریوں سے نبرد آزما رہی، یہ بیماریاں حتمی علاج دریافت ہونے تک کے عرصے میں آبادی کا ایک بڑا حصہ چاٹ چکیں۔ ان بیماریوں کے عالم گیر اثرات بھی مرتب ہوئے۔

اِن مہلک بیماریوں کے تناظر میں دیکھیں گے، کہ اُن وقتوں میں کراچی کے باشندوں پر کیا گذری، اس دور کی انتظامیہ نے اس کے سدباب کے لیے کیا اقدامات کیے اور نتیجے میں رونما ہونے والے حالات نے شہر کے سماج پر کیا اثرات نقش کیے۔

طاعون

چودھویں صدی عیسوی کے وسط میں اِس بیماری نے ایشیا، افریقہ اور یورپ میں لاکھوں زندگیاں نگل لیں۔ ایشیا سے ہونے والی جہاز رانی کے سبب یہ بیماری یورپ اور افریقہ تک پھیل گئی۔ یورپ میں اس وبا نے لاکھوں زندگیوں کے چراغ گل کردیے، جہاں اسے ’’سیاہ موت‘‘ کا نام دیا گیا۔

طبی ماہرین نہ اس بیماری کی وجوہات کا پتا چلا سکے، اور نہ اِس کا علاج دریافت کر سکے۔ بیماری میں مبتلا ہوجانے پر یقینی موت کے ڈر، خوف اور افراتفری کے عالم میں عجیب و غریب طریقہ علاج رواج پاتے رہے، جو بالاخر موت پر ہی منتج ہوئے۔

1896ء میں اِس بیماری نے کراچی کا رخ کیا، علاج نہ ہونے کے سبب متاثرہ مریضوں کو صحت مند افراد سے دور لیاری، رنچھوڑ لائن، رام باغ اور سول لائن جیسی ویران بستیوں میں قرنطینہ کیمپوں تک محدود کردیا گیا۔

1897ء میں اس بیماری نے کراچی سے نکل کر ٹھٹھہ، حیدرآباد اور سکھر تک تباہی مچا دی۔ اس بیماری سے بچاؤ کے طریقے اور موثر علاج کے نہ ہونے کے سبب کراچی سمیت پورے سندھ میں تقریباً دو لاکھ افراد موت کا شکار ہوگئے۔

بعدازآں تحقیق سے ثابت ہوا کہ اس بیماری کے جراثیم چوہوں کے بدن پر چپکے ہوتے ہیں، اور یہیں پروان چڑھتے ہیں۔ لہٰذا اس بیماری کی روک تھام کے لیے چوہوں کو پکڑنے کی مہم چلائی گئی۔

ساٹھ کی دہائی تک کراچی میں اس بیماری کے آثار بڑی حد تک ختم ہوچکے تھے، مگر خطرہ ضرور تھا۔ لہٰذا حفظ ماتقدم کے طور پر ’’کے ایم سی‘‘ کی انتظامیہ چوہوں کو پکڑنے کے لیے مفت پنجرے تقسیم کرتی رہی۔ انتظامیہ کے اہل کار ہر ہفتے آتے، چوہوں سے بھرے پنجرے لے جاتے اور خالی پنجرے دے جاتے۔

ہیضہ

اہل کراچی 1896ء میں تباہی مچانے والی طاعون کی وبا کو ابھی بھولے نہ تھے کہ 1903ء میں ہیضے کی وبا نے اپنے خونی پنجے دراز کردیے اور شہر ایک عجیب سناٹے میں ڈوب گیا۔ موت ہر وقت ایک مرتبہ پھر ہر شخص کو اپنے اوپر سوار ہوتی محسوس ہوئی۔

ہیضے کی وبا نے شہر میں ہراس پھیلا دیا، جو بستر سے لگا اس نے جینے کی آس ختم کردی۔ ایک افراتفری کا عالم تھا، کئی لوگ اس بیماری سے بچنے کے لیے جنگلوں کی طرف نکل گئے، مگر اجل نے انہیں وہاں بھی آ گھیرا۔ ان بدقسمت افراد کو دوا دارو تو اپنی جگہ، پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہ ہو سکا۔ کیا شہر کیا جنگل ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں۔

اس بیماری میں مبتلا کئی ایسے مریض بھی اسپتالوں میں لائے گئے جو اس بیماری کی شدت سے بول چال سے قاصر ہوگئے تھے۔ چپ سادہ لینے والے یہ مریض دو تین گھنٹوں میں زندگی کی بازی ہار جاتے۔ اپنے پیاروں کے یوں بچھڑنے پر تیمارداروں کا ماتم اور دلدوز چیخیں ماحول کو رنجیدہ کردیتیں۔

چیچک

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں ’’چیچک‘‘ نامی وبائی بیماری نے کراچی کے باشندوں کو شدید متاثر کیا۔ جلد خصوصی طور پر چہرے پر نمودار ہونے والی پھنسیاں خشک ہو کر جلد پر چھوٹے سے گڑھے چھوڑ جاتی تھیں۔

اُن دنوں چیچک کا حفاظتی ٹیکا بازو کے گوشت میں براہ راست انجیکٹ نہیں کیا جاتا تھا، بلکہ آدھے انچ کے دائرے میں لگی چھوٹی چھوٹی سوئیوں کو دوا کے محلول میں ڈبو کر بازو کی چمڑی پر دباؤ سے گھمایا جاتا، جس کے نتیجے میں کھال ادھڑ جاتی اور دوا جسم میں داخل ہوجاتی۔ بازو پر اس زخم کے مندمل ہوجانے کے بعد بھی تاحیات رہنے والے دو گول نشان اس بات کی گواہی تھے کہ اس شخص کو چیچک کا حفاظتی ٹیکا لگ چکا ہے۔

ان نشانات کے حامل کئی شخص آج بھی حیات ہیں۔

ٹی بی

یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بیسویں صدی کے پہلے نصف یعنی 1940ء تک ٹی بی لا علاج مرض تھا۔ ممکن ہے قدیم دور میں اس کا علاج ہو، لیکن وہ طریقہ علاج ان حکیموں کے ساتھ ہی دفن ہو چکا۔ مگر اب اس کا علاج دریافت ہو چکا ہے۔

ٹی بی کے مرض کے لاعلاج ہونے کی گواہ ماضی قریب کی وہ فلمیں ہیں، جن میں اس مرض کے حامل شخص کو دھیرے دھیرے موت کی آغوش میں پہنچتا ہوا پیش کیا جاتا تھا۔

مرض کے ابتدائی اسٹیج کے حامل کچھ مریض شہر سے دور کھلی آب ہوا، مناسب خوراک اور دیکھ بال کے سبب زندگی کی طرف واپس لوٹ بھی آتے تھے۔

ٹی بی کے ان مریضوں کو دوسرے لوگوں سے دور رکھنے، انہیں صاف سنہری آب و ہوا اور صحت مند ماحول مہیا کرنے کے لیے ایک اسپتال کا قیام ضروری سمجھا گیا۔

آبادی سے دور مطلوبہ پلاٹ شہر کی ایک مخیر شخصیت کراچی میونسپلٹی کے وائس چیئرمین، جناب ’’دیپ چند بھنداس اوجھا‘‘ نے اس اسپتال کے لیے وقف کیا، جو 25 ایکڑ رقبے پر مشتمل تھا۔ جس پر مقامی حکومت نے ایسے مریضوں کے علاج کے لیے 1938ء میں اسپتال تعمیر کروایا، جس کا نام ’’اوجھا ٹی بی سینی ٹوریم‘‘ رکھا گیا، جہاں آج تک ان مریضوں کا انتہائی توجہ سے علاج کیا جاتا ہے۔

ملیریا

سرعت کے ساتھ انسانی آبادی کے ایک بڑے حصے کو موت کے منہ میں دھکیلنے والی اس بیماری کو آج سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، کیوں کہ آج اس کا علاج انتہائی سہل سے، مگر آج سے تقریباً ایک صدی قبل کراچی میں انگریزوں کی آمد سے پہلے یہاں صفائی ستھرائی کے انتہائی فقدان کے سبب ملیریا جان لیوا روپ کی صورت موجود تھی۔

اس کی ہلاکت خیزی کو ہم اس طرح دیکھ سکتے ہیں کہ، دوسری جنگ عظیم کے دوران جنگلوں میں ڈیوٹی دینے والے فوجیوں کی بڑی تعداد اس مرض کے سبب ہلاک ہوگئی۔

دوسری جنگ عظیم کے خاتمے میں دیگر عوامل کے ساتھ اس مہلک بیماری نے بڑا اہم رول ادا کیا، جہاں جنگ کے تمام شریک ممالک کے تربیت یافتہ فوجیوں کی یوں ہلاکت نے ان کے اعصاب توڑ کر رکھ دیے۔

بیسویں صدی کے آغاز میں کراچی شہر آنکھوں کی بیماری کی لپیٹ میں آگیا۔ اس حملے کی سدباب کے لیے لی مارکیٹ کے علاقے ٹمبر مارکیٹ کے ساتھ ایک ڈسپنسری کھولی گئی، جسے وسعت دے کر آنکھوں کی بیماریوں کے علاج کے ایک بڑے اسپتال کی صورت دی گئی۔

چوںکہ اس اسپتال کے قیام میں ڈاکٹر ’’کے این اسپنسر‘‘ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ اس لیے آنکھوں کے اس پہلے بڑے اسپتال کو موصوفِ ڈاکٹر کی خدمات کے اعتراف میں ’’اسپنسر آئی اسپتال‘‘ کا نام دیا گیا۔

The post کراچی کے باشندوں پر کیا گزری! appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
وہ شور تھا کہ لفظ نہیں ہے زبان پر
آواز قتل ہونے لگی حرف دان پر
میں حالت ِ خمیر میں سب دیکھتا رہا
کیا کیا گزر رہا تھا مری ایک جان پر
طعنہ نہیں ہے تیرے لیے کوئی فاحشہ
شجرے کا بوجھ ہوتا ہے ہر خاندان پر
اک شکل آئنے کی سواری پہ لاد لی
اک شخص کو سوار کیا اپنے دھیان پر
یہ کون شاہراہ پہ کرتا ہے یوں خرام
گزرے جو تو زمانہ گزارے جہان پر
اب موج مجھ سے دست گریبان ہو نہ ہو
میں اپنا پنجہ گاڑ چکا ہوں چٹان پر
(دانیال زمان۔ خوشاب ،پنجاب)

غزل
کنارہ ڈھونڈلو اور پانیوں سے دور رہو
شکستہ ناؤ ہے طغیانیوں سے دور رہو
میں درد و رنج کا مارا ہوں اس لیے مجھ سے
کنارہ کر کے پریشانیوں سے دور رہو
لپک رہے ہو کسی شعلہ فام کی جانب
یہ دل فریب سی تابانیوں سے دور رہو
پہاڑ کاٹ کے رستہ نکالتے جاؤ
مِرے عزیز! تن آسانیوں سے دور رہو
قریبِ مرگ ہوں آؤ نہ اب عیادت کو
بلا جواز پشیمانیوں سے دور رہو
شکستہ گھر سے نکلنے میں عافیت جانو
دلِ تباہ کی ویرانیوں سے دور رہو
یہ بندگی کا تقاضا ہے اس لیے صادقؔ
خدا کی مان لو من مانیوں سے دور رہو
(محمد ولی صادق۔ؔ کوہستان ،خیبر پختونخوا)

غزل
تھے کہاں کے، کہاں پر اتارے گئے
کھینچ کر ہم زمیں پر جو مارے گئے
جو اتارے گئے تھے ہمارے لیے
سب کے سب چاند، سورج، ستارے گئے
ناؤ احساس کی ڈگمگا سی گئی
اور ہاتھوں سے ندیا کے دھارے گئے
عشق لپٹا ہی سارا خساروں میں ہے
فائدہ کیا ہوا گر خسارے گئے
اور کچھ بھی تو ہم سے نہیں بن پڑا
اپنے ارماں کے سر ہی اتارے گئے
جو عقیدت کے اپنے دلوں میں رہے
سلسلے وہ ہمارے تمہارے گئے
عاشقوں کے لیے ہم ہوئے سربکف
موت کے منہ میں جتنے بھی سارے گئے
یاد آئیں تو آنسو چھلکنے لگیں
وہ زمانے کہ تجھ بِن گزارے گئے
آگ کا ایک دریا ہے کرنا عبور
اور حسرتؔ یہ بازی جو ہارے، گئے
(رشید حسرت۔ کوئٹہ)

غزل
مری آنکھیں سمندر ہیں پہ طغیانی نہ پاؤ گے
کہ ان میں تم کبھی اشکوں کی ارزانی نہ پاؤگے
کسی کی یاد کی دنیا بسا رکھی ہے اس دل میں
سو اس گھر میں کبھی چاہ کر بھی ویرانی نہ پاؤ گے
سنو!کارِ محبت میں مشقت در مشقت ہے
کسی پل کوبھی اس میں تم تو آسانی نہ پاؤگے
کھلے گا راز تم پر جب مسلسل ہجر جھیلو گے
کہ ہو گے جان بلب لیکن کہیں پانی نہ پاؤگے
کبھی جو نازِ ہستی تھے وہ اب حیواں سے بدتر ہیں
کہ ان لوگوں میں جو فطرت ہو انسانی،نہ پاؤ گے
ذرا سی بات پر شہروں کے لونڈے تو بپھر جائیں
طبیعت گاؤں کے بچوں کی ہیجانی نہ پاؤ گے
کروں جب شکرِ باری تو سکونِ قلب ملتاہے
کبھی دیکھو جو دائم کو تو ارمانی نہ پاؤ گے
(ندیم دائم۔ ہری پور)

غزل
کمانے کی دھن سے لگتا ہے انقلاب کی پرورش کریں گے
یہ فدویانِ نگر،دہر کے جناب کی پرورش کریں گے
شگوفے کا خوف بے وجہ تو نہیں،وہ بھی جانتا ہے اک دن
بناوٹوں سے فرار گلچیں،گلاب کی پرورش کریں گے
ابھی تو سرگوشیوں کو بہلانے کا کہا ہے سماعتوں نے
اگر یہ چپ ہوگئیں تو شاید خطاب کی پرورش کریں گے
رکھا ہے صندوق نامناسب جگہ پہ جس کے اوپر لکھا ہے
ذرا ادب صدقہ کیجیے اک کتاب کی پرورش کریں گے
مہاتما ہو گئے ہو تو پھر خدا پرستوں کے شہر جانا
یقیں کو پچکار کر تمہارے سراب کی پرورش کریں گے
سخن کے اژدر نے خامہ داروں کی جلد نیلی کی زہر اُگلا
سروں کے یہ بھیڑیے کہاں اس رباب کی پرورش کریں گے
کپاس کے پھول پر نہ کَس بے حجاب ہونے کا طنز ایسے
یہ بے لبادہ ہی تو ہمارے نقاب کی پرورش کریں گے
بلک رہا ہے جو جاگتی آنکھ کے سہانے سے جسم و جاں پر
نجانے کتنے ہی رتجگے اب اس خواب کی پرورش کریں گے
کوئی بھی آزار دے دے توحوصلہ وری اوج پر ہے ساگرؔ
جفا سے اس ہجر تک ہر اک انتخاب کی پرورش کریں گے
(ساگرحضورپوری۔سرگودھا)

غزل
شدتِ غم یہ کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
اس مصیبت سے، کوئی ہے، جو نکالے مجھ کو
یا خدا تجھ کو ترے چاہنے والوں کی قسم
اس طرح چھوڑ نہ دنیا کے حوالے مجھ کو
تیرا ہونے سے میں انکار نہیں کرسکتا
چاہے وہ قتل کرے، مار ہی ڈالے مجھ کو
غوطہ زن مجھ سا زمانے میں نہیں تھا کوئی
ساتھ لے ڈوبے مگر ڈوبنے والے مجھ کو
اس نے ارشادؔ مجھے دل میں چھپا رکھا ہے
کیسے ممکن ہے کوئی ڈھونڈ نکالے مجھ کو
(ارشاد عرش۔ ممبئی، بھارت)

غزل
ہے غم کی بارشوں سے یہی حال دوستو
اِک دن بھی اب لگے ہے مجھے سال دوستو
بادل غموں کا جس طرح مجھ پر برس پڑا
اپنے سناؤں اب کسے احوال دوستو
ساون کی بارشوں سے ہو جیسے تباہ گھر
یہ دل بھی اس طرح ہوا پامال دوستو
دنیا سے رفتگاں ہوئے ہیں نامور بہت
ہوتا ہے کیا اگر گیا اقبال دوستو
(اقبال جعفر۔وادیٔ دُرگ)

غزل
بادلوں کے موسم میں جس طرح سویرا ہے
خواہشوں نے ایسے ہی آدمی کو گھیرا ہے
ڈس رہے ہو تم جس کو تم کو قید کرلے گا
سانپ ہو اگر تم تو وہ بھی اک سپیرا ہے
شہر کی فصیلوں سے ہر گلی و کوچے میں
جس طرف نظر جائے ہر طرف اندھیرا ہے
فکرِ نو سے ہی ہوگی روشنی دریچوں میں
یاس کا یہاں سایا جس قدر گھنیرا ہے
جال پھینک دیتا ہے ہر طرف محبت کا
لگ رہا ہے میرا دل آج کل مچھیرا ہے
تیز تر ہواؤں سے راہ کے چراغوں کا
جل بجھی سی لو جیسا حال آج میرا ہے
ہم کہاں کے دانا ہیں ہم کہاں سے بہتر ہیں
اب بھی ذہنِ انساں پر نفرتوں کا ڈیرا ہے
آ گیا اگر شیرازؔ وصل کا کبھی لمحہ
ہجر کی مصیبت نے فوراً آن گھیرا ہے
(شیراز جعفری۔ سکھر، سندھ)

غزل
پوچھ مت! جب وہ میرے گھر آئی
روشنی چشم و دل میں در آئی
درد ہیں، دکھ ہیں، آنکھ بھر آئی
زندگی! سکھ کہاں پہ دھر آئی؟
چاند نے اس سے پھیر لی آنکھیں
اور وہ افلاک سے اتر آئی
نعتیہ شاعری سنانے کو
شاعرہ بال کھول کر آئی
خاک چمکائے گی وہ بھاگ ترے
جو ترے ساتھ بھاگ کر آئی
راستہ واپسی کا بھول گئی
ہر وہ کلفت جو میرے گھر آئی
قہقہے اشک بن گئے باصرؔ
بات جب اپنی ذات پر آئی
(عبداللہ باصرؔ۔گوجرانوالہ)

غزل
اپنی آنکھوں کے آب میں رکھا
ہم نے اس کو حجاب میں رکھا
جام منہ سے لگا کے دیکھو تو
سارا نشہ شراب میں رکھا
ہائے کیا ہی حسین لمحہ تھا
میں نے بس خودکوخواب میں رکھا
میرے ہاتھوں دیا ہوا اک پھول
اس نے اپنی کتاب میں رکھا
اک طرف آگ اک طرف پانی
میں نے خود کو حساب میں رکھا
اس نے پوچھی جو داستاں میری
دل کا قصّہ جواب میں رکھا
ہم بھی کیا سخت جان تھے ارسلؔ
ہم نے خود کو عذاب میں رکھا
(ارسلان شیر ۔کابل ریور، نوشہرہ)

غزل
جب سے تم کو دیکھا ہے
دل میں کچھ کچھ ہوتا ہے
نظر نظر سے بات ہو پھر
جھٹ پٹ سنگم ہوتا ہے
دن بھر آ نکھ میں رہتا ہے
رات کو دل میں سوتا ہے
کل کو وہی تو کاٹے گا
آ ج تو جو کچھ بوتا ہے
ہجر کے موسم میں ساجدؔ
لہو لہو دل روتا ہے
( محمد نواز ساجد قریشی۔ موضع حسوکے، فیصل آباد)

غزل
ہیں درمیان فاصلے، یہ جانتے بھی تھے
پر ساتھ پھر بھی رہنے کے وعدے کیے بھی تھے
جو راستہ کٹھن تھا، وہی دل کو بھا گیا
منزل کے ورنہ اور کئی راستے بھی تھے
گزرا جو وقت سنگ تیرے وہ کمال تھا
ہاں زندگی میں اور کئی مشغلے بھی تھے
یہ کیا؟ تو پہلی بات ہی سن کر کھڑا ہوا
میں نے سنانے تم کو کئی واقعے بھی تھے
روکا تھا اس کو ہم نے مگر وہ نہیں رکا
رکنے کے لیے ہم نے دیے واسطے بھی تھے
نیّرؔ مصیبتوں میں تو بیگانے کیا ملیں
وہ بھی نہیں ملے جو مجھے جانتے بھی تھے
ضامن نیّر۔ اسکردو، بلتستان

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

فضائل قرآن
مصنف : عبداللہ بن جار اللہ بن ابراہیم ، قیمت : 145روپے، صفحات : 90
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ ، لوئر مال، لاہور
برائے رابطہ : 042-37324034


رمضان کے مہینے میں قرآن مجید نازل کر کے اللہ نے قرآن مجید کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے رمضان کے ساتھ جوڑ دیا ہے تو آئیں ہم بھی رمضان المبارک کے مہینے میں قرآن مجید کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں ۔

رمضان المبارک کے مہینے میں زیادہ سے زیادہ قرآن مجید پڑھیں اور اسے سمجھیں ۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ فضائل قرآن‘‘ ان شاء اللہ قرآن مجید کے ساتھ ہمارے تعلق کو مضبوط کرنے میں ممدو و معاو ن ثابت ہو گی ۔ قرآن مجید کے مقام ، احترام اور فضائل وبرکات کو سمجھنے کیلئے اس کتاب کا مطالعہ بے حد مفید ثابت ہو گا۔ یہ مختصر اور جامع کتاب دارالسلام نے شائع کی ہے اور اس کے مولف فضلیۃ الشیخ عبداللہ بن جاراللہ بن ابراہیم ہیں۔

کتاب کی جامعیت کا اندازہ اس میں دیے گئے عنوانات سے لگایا جا سکتا ہے جو کہ درج ذیل ہیں : قرآن کے نام اور اوصاف ، قرآن کی سورتوں ، آیات ، حروف اور کلمات کی تعداد ، قرآنی سورتوں کی اقسام ، ناپاک آدمی کا قرآن کو چھونا ، تلاوت قرآن ، خوش الہانی سے قرآن پڑھنے کا حکم ، مستحب قرآت کی مقدار ، قر آن کا حامل اسلامی جھنڈا اٹھانے والا ہے، قرون اولی کے مسلمانوں کا قرآن سے تعلق، قرآن کے حفاظ کے والدین کی قیامت کے روز تاج پوشی، مساجد میں قرآن پڑھنے پڑھانے والے اجتماع کی فضیلت ، قرآن پڑھنے والے کے لیے آداب، قرآن کریم شریعت کی بنیاد ہے، قرآن کریم میں ہر چیز کا بیان ہے۔

قرآن ایک معجزہ ہے، قرآ ن کے معجزہ ہونے کے مختلف پہلو ، زندگی کے وہ شعبے جن کے متعلق احکام قرآن میں موجود ہیں، قرآن سے مستنبط علوم اور معانی، قرآن کی تفسیر اور اس کی فضیلت، تفسیر قرآن کا حسین ترین طریقہ، قرآن کی دوسری کتابوں پر فضلیت ، قرآ ن کے خزانے، قرآ ن سے فائدہ اٹھانے والے کون ۔۔۔۔؟ قرآن کو چھوڑنے کا گناہ، حامل قرآن کے شایان شان کام ، قرآ ن کی ہدایت سب سے زیادہ درست ہے، صاحب قرآن کو کیا کچھ کرنا چاہیے۔۔۔۔؟ مصحف شریف با لحاظ کتابت ۔ ان عنوانات سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ زیر تبصرہ کتاب ’’ فضائل قرآن ‘‘ ایک جامع کتاب ہے ۔ یہ وہ کتاب ہدایت ہے جس کے بارے میں رسالت ما بﷺ نے فرمایا جس شخص نے قرآن پڑھا ، اس کی تعلیم حاصل کی اور اس پر عمل کیا قیامت کے دن اس کے والدین کو نور کا ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی آب و تاب سورج کی چمک جیسی ہو گی۔

جب والدین کے اعزاز کا یہ عالم ہو گا تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان کے عالم قرآن بیٹے کو کیسے کیسے زبردست انعام و اکرام سے نوازا جائے گا ۔ اب جبکہ رمضان المبارک کا ماہ مقدس سایہ فگن ہو چکا ہے آئیں ’’فضائل قرآن‘‘ کا مطالعہ کریں اور ہم بھی قرآن مجید سے اپنا تعلق مضبوط کریں ۔

تجلیات نبوت (نیاایڈیشن )
مصنف : مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ
ناشر : دارالسلام انٹر نیشنل ، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ،لاہور
قیمت : بڑا سائز 1750روپے، چھوٹا سائز 1350روپے
صفحات : بڑا سائز 296 ،چھوٹا سائز 432
برائے رابطہ : 042-37324034


پیش نظر کتاب ’’ تجلیات نبوت ‘‘ دارالسلام کی خوبصورت ترین کتابوں سے ایک ہے ۔ اس کتاب کے تعارف میں اتنا ہی لکھ دینا کافی ہے کہ اس کے مصنف ممتاز محقق ، عالم اسلام کے معروف عالم دین اور سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ہیں جو کہ ’’ الرحیق المختوم ‘‘ جیسی کتاب کے بھی مصنف ہیں۔

لہذا اس کتاب کا مطالعہ ہر مسلمان کے لئے از حد ضروری ہے ۔ سیرتِ طیبہ کا موضوع اتنا متنوع ہے کہ ہر وہ مسلمان جو قلم اٹھانے کی سکت رکھتا ہو ، اس موضوع پر حسبِ استطاعت لکھنا اپنی سعادت سمجھتا ہے۔ اسی طرح ہر ناشر سیرتِ رسولﷺ پر کتب شائع کرنا اپنے لیے سعادت سمجھتا ہے اور اسے خوب سے خوب تر شائع کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔

دارالسلام اب تک عربی اور انگریزی زبان میں سیرتِ رسولﷺ پر مختلف عالمی زبانوں میں 90 سے زائد کتب شائع کر چکا ہے، تاہم نوجوان نسل کو تفاصیل میں لے جائے بغیر سیرتِ طیبہ سے آگاہ کرنے کی اشد ضرورت محسوس کرتے ہوئے عصرِ حاضر کے عظیم سیرت نگار مولانا صفی الرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ سے درخواست کی گئی کہ نوجوانوں اور بطورِ خاص میٹرک تک کے طلبہ کے لیے ایک مختصر مگر جامع کتاب سیرتِ رسول پر لکھیں جو عام فہم اور صحیح واقعات پر مبنی ہو اور اس کا انداز اتنا دلکش ہو کہ نوجوانوں کے دلوں میں رسول اللہﷺ کی محبت اور سیرت نقش ہو جائے ۔

انھوں نے اس التماس کو شرفِ قبولیت بخشا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد ’’روضۃ الأنوار في سیرۃ النبي المختار‘‘ کے نام سے کتاب کا مسودہ تیار کر دیا۔ کتاب شائع ہوئی تو سعودی عرب کے متعدد تعلیمی اداروں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ بہت سے افراد اور اداروں نے اسے مفت تقسیم کیا، کچھ اسکولوں نے اسے اپنے نصاب میں داخل کر لیا۔ زیرنظرکتاب’’ تجلیات نبوت‘‘اسی کااردو ترجمہ ہے۔ فاضل مصنف نے کمال ہنرمندی سے ’’تجلیاتِ نبوت‘‘ میں سیرت کے تمام تر وقائع کو ایک ایسی نئی ترتیب اور تازہ اسلوب کے ساتھ پیش کیا ہے کہ اس کے مطالعے سے دل و دماغ پر ایک پاکیزہ نقش قائم ہوتا ہے ۔

دارالسلام جسے دینی اور دعوتی لٹریچر کو عالمی سطح پر جدید اسلوبِ طباعت کے ساتھ پیش کرنے کا شرف حاصل ہے، اس نے’’تجلیاتِ نبوت‘‘ کے اس نئے ایڈیشن کو نہایت معیاری طباعت کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ کتاب میں چہار رنگوں پر مشتمل تین شجرے بھی شامل کئے گئے ہیں ۔

پہلا شجرہ بنوعدنان سے شروع ہوتا ہے، دوسرا شجرہ بنو قحطان کے بارے میں ہے جبکہ تیسرا شجرہ امام الانبیاء علھیم السلام کے بارے میں ہے۔ ان شجرات نے کتاب کوچار چاند لگا دیے ہیں ۔ اس طرح سے یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اپنے تحقیقی مواد اور لوازم، عام فہم اسلوب اور موزوں واقعاتی ترتیب کے باعث یہ تالیفِ سیرت ان شاء اللہ العزیز نوجوانوں اور عامۃ المسلمین میں قبولِ عام کا درجہ حاصل کرے گی ۔ ماہ رمضان میں اس کتاب کے مطالعہ سے جہاں ایمان میں اضافہ ہو گا وہاں سیرت النبیﷺ سے بھی آگاہی حاصل ہو گی۔

حصن المسلم
نام مولف : سعید بن علی القحطانی ، صفحات : 152
قیمت : پاکٹ سائز 190روپے درمیانہ سائز 300روپے، بڑا سائز 600 روپے
ناشر : دارالسلام انٹرنیشنل، نزد سیکرٹریٹ سٹاپ، لوئر مال، لاہور
برائے رابطہ : 042-37324034


رسول مقبول ﷺ نے ’’دعا‘‘ کو مومن کا ہتھیار قرار دیا ہے۔ انسان جسمانی اور روحانی طور پر کمزور ہے۔ مصائب، مشکلات اسے نڈھال اور پریشان کر دیتے اور گناہ اسے روحانی طور پر کمزور کر دیتے ہیں۔ تب انسان بے بس، مجبور اور لاچار ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں رسالت ماٰبﷺ نے ہر مشکل کا حل بتا دیا ہے کہ تم ہر حال میں اللہ کی رحمت کے محتاج ہو ۔

اس قادر مطلق کے سوا تمہیں کوئی کچھ نہیں دے سکتا ۔ پس اسی کے حضور محتاج اور فقیر بن کر التجا کرو اور دعائیں مانگو ۔ جب بھی تم اس کی چوکھٹ پر جھکو گے تو اپنی دعاؤں کے لیے راستے اور دروازے ہمیشہ کھلے پاؤ گے ۔ رسول مقبولﷺ خود بھی ہمیشہ اور ہر موقع پر اللہ کے حضور دعائوں کا دامن پھیلا تے تھے۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو ہر موقع محل کی دعائیں سکھائی ہیں ان دعاؤں کے مضامین مختصر ہونے کے ساتھ ساتھ جامع اور نہایت بلیغ ہیں اور ان کی قبولیت بھی یقینی ہے۔

’’ دعا ‘‘ ایک ایسا عمل ہے جسے رسول مقبولﷺ نے مومن کا ہتھیار اور قلعہ قرار دیا ہے مشکل وقت میں ہتھیار سے انسان اپنا بچائو کرتا ہے اور حفاظت کیلئے قلعہ میں پناہ لیتا ہے ۔ دعاؤں کی اسی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر سعودی عرب کے جید عالم دین فضیلۃ الشیخ سعید بن علی القحطانی نے دعاؤں کا یہ مسنون اور جامع مجموعہ مرتب کیا ہے جو کہ’’ حصن المسلم‘‘ یعنی’’ مسلمان کا قلعہ ‘‘ کے نام سے معروف ہے ۔

ہماری معلومات کے مطابق دنیا بھر میں اس سے زیادہ مستند اور مقبول ترین دعاؤں کی کتاب اور کوئی نہیں ۔ یہ کتاب دنیا کی مختلف زبانوں میں سینکڑوں اداروں کی طرف سے بلا مبالغہ کئی سو ملین کی تعداد میں چھپ کر تقسیم کی جا چکی ہے ۔ دارالسلام انٹرنیشنل نے چند سال قبل اس کتاب کو اردو ترجمے کے ساتھ شایان شان طور پر شائع کیا جو کہ بہت ہی پسند کی گئی ۔ دارالسلام کے محققین نے اس اہم اور مقبول ترین کتاب کو مزید مفید اور کارآمد بنانے کے لیے اس کی ترتیب میں تبدیلیاں کیں اور چند ضروری اضافے کئے جس سے اس کتاب کی اہمیت وافادیت دو چند ہو گئی ہے ۔

موجودہ ایڈیشن میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں ان کی مناسبت سے کتاب میں درج ذیل آٹھ ابواب قائم کیے گئے ہیں ۔ کتاب میں درج ذیل موضوعات پر دعائیں شامل ہیں : حمددو ثنا ، درود و سلام اور توبہ استغفار، سونے اور بیدار ہونے کی دعائیں ،طہارت اذان اور نماز ، صبح و شام کے اذکار اور دعائیں ، مشکلات اور قرض سے نجات کی ، دعائیں، حج و عمرہ اور سفر کی دعائیں ، کھانے پینے اور لباس سے متعلقہ دعائیں، روزمرہ کی دعائیں ہر باب کی دعائیں مضامین کے اعتبار سے نہایت ہی عمدہ ترتیب سے پیش کی گئی ہیں ۔ آئیں رمضان المبارک میں یہ دعائیں خود بھی یاد کریں اور اپنے اہل خانہ کو یہ دعائیں یاد کروائیں۔

دھوپ چھائوں
شاعرہ : شہناز انجم، قیمت :600 روپے، صفحات :160
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)


شاعری عطا ہے ، اگر کوئی یہ سوچ رکھتا ہے کہ کوشش سے شعر کہا جا سکتا ہے تو وہ بالکل غلط ہے، کیونکہ جسے اس کی عطا نہیں وہ کوشش بھی نہیں کرے گا جسے عطا ہے وہ اپنی تمام تر دنیاوی مصروفیات کے باوجود اس طرف آجائے گا، یعنی کوشش کرنا بھی عطا ہی کی وجہ سے ہے ، ایسا ضرور ہے کہ کچھ لوگ شہرت کے لئے کسی کی شاعری کو اپنے نام سے منسوب کر لیتے ہیں مگر ان کا بھرم جلد ہی کھل جاتا ہے ۔

شہناز انجم کی تمام تر مشکلات اور مسائل کے باوجود ان کا یہ وصف چھپا نہ رہ سکا کیونکہ جسے یہ عطا ہو وہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ وہ کہتی ہیں کہ بچپن سے ہی انھیں بڑی مشکلات دیکھنا پڑیں جس سے ان میں حساسیت بہت بڑھ گئی اور یہی حساسیت ان کی شعر گوئی کا باعث بنی ۔ اصل بات یہ کہ شاعر ہوتا ہی حساس ہے ، یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنے دل کی بات کب قرطاس پر اتارتا ہے جس سے اس کی حساسیت عیاں ہوتی ہے ۔ شاعرہ بڑے خوبصورت انداز میں اپنے دل کی بات کہتی ہیں جیسے

جو میر زیست میں تاروں سا جھلملائو تم
تو لائق رشک میں اک آسمان ہو جائوں
جو میری ذات کو پھولوں کا جیسا مہکائو
تو میں مہکتا ہو ا گلستان ہو جائوں
جو سرفراز کرو تم مجھے محبت سے
تو میں وفائوں بھری داستان ہو جائوں

معروف صحافی وحید احمد زمان کہتے ہیں ’’ محترمہ شہناز انجم نے عام روایتی شاعروں کی طرح بالکل بھی شاعری نہیں کی ، ان کی شاعری ان کے سچے اور پرخلوص جذبوں کی عکاس ہے ۔ نبی کریمﷺ اور شہر نبی سے ان کی عقیدت ایسی ہے کہ ان کا ذکر کرتے ہوئے ہوئے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں ۔

کتاب کے پہلے حصے میں ایسی نعتیں بھی شامل ہیں جو انھوں نے روضہ رسولﷺ پر جا کر کہی ہیں ۔ جو بہت بڑی سعادت ہے ۔ ان کی زندگی میں سچے رشتوں کی بہت قدر ہے ، ان کی کتاب میں شامل زیادہ تر نظمیں انھی رشتوں کے گرد گھومتی ہیں ۔ ان کی زیادہ تر غزلیں بغیر مطلع کے ہیں اور ان میں بعض ’’ موضوعاتی غزلیں‘‘ بھی ہیں ۔‘‘ شاعری میں اچھا اضافہ ہے ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

میں اور میرا ملتان
مصنف: شاہد راحیل خان
قیمت:700 روپے
صفحات:152
ملنے کا پتہ : گرد و پیش، 73 اے جلیل آباد کالونی، ملتان (03186780423)


ملتان شہر کی تاریخ صدیوں قدیم ہے، یہ اس وقت بھی شہر تھا جب برصغیر کے آج کل کے بڑے بڑے شہر ابھی آباد بھی نہیں ہوئے تھے ۔ اب مدینۃ الاولیاء کہلانے والا یہ شہر قدیم دور میں مختلف ناموں سے پکارا جاتا تھا ۔ ہزاروں سال قبل آباد ہونے والا یہ شہر اپنے اندر ہزاروں داستانیں رکھتا ہے۔ لکھنے پر بیٹھیں تو ایک لائبریری تیار ہو جائے گی ۔ زیر تبصرہ کتاب تاریخ کے جھروکے تو دکھاتی ہے مگر اصل میں یہ آج کل کے ملتان کی شکل و صورت دکھاتی ہے ۔

مصنف قاری کو انگلی سے لگائے گلی گلی گھومتا نظر آتا ہے ۔ انھوں نے جو دیکھا، سنا، برتا سب بلاکم کاست بیان کر دیا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ قاری یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ تصور کی آنکھ سے سب کچھ دیکھ رہا ہے۔ معروف دانشور رضی الدین رضی کہتے ہیں ’’ شاہد راحیل خان کے فن کے کئی حوالے ہیں ۔

وہ کالم نگار، فیچر نگار، سفر نامہ نگار، افسانہ نگار، اور شاعر کے طور پر تو جانے ہی جاتے ہیں لیکن کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ جوانی میں تھیٹر سے بھی وابستہ رہے ۔ انھوں نے سٹیج کے لیے ڈرامے لکھے ، ہدایت کاری بھی کی اور اگر ضرورت پیش آئی تو اداکاری کے جوہر دکھانے سے بھی گریز نہیں کیا ۔ شاہد راحیل نے عمر بھر بینک کی ملازمت کی اور وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں ملازمت کے سلسلے میں انھیں مختلف شہروں میں ہجرت بھی کرنا پڑی لیکن ملتان ان سے کبھی بھی جدا نہ ہو سکا ۔ ملتان کے بارے میں یوں تو بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں لیکن شاہد صاحب کی اس کتاب میں ہمیں 1954ء کے بعد کے ملتان کی کہانیاں بہت تفصیل کے ساتھ پڑھنے کو ملتی ہیں ۔

یہ کتاب ملتان کی تاریخ ہی نہیں یہاں کی سماجی اور معاشرتی زندگی کے حوالے سے بھی ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ شاہد راحیل خان کی اب تک دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن میں قدم قدم سوئے حرم ، سفرنامہ حج اور تیری میری کہانی کچھ آپ بیتی کچھ جگ بیتی شامل ہیں ۔‘‘ ڈاکٹر انوار احمد کہتے ہیں ’’ شاہد راحیل خان مجھ سے کچھ چھوٹے ہیں لیکن وہ میری طرح نواں شہر کے محلہ باغبان میں پلے بڑھے اس لیے ہمارا بہت کچھ مشترک ہے، غنی دودھ فروش (جس کا کتاب میں بھی ذکر ہے) جو بظاہر ان پڑھ تھا مگر کراچی کے دو اخبار روزانہ منگواتا تھا اور جب کبھی ابن انشاء یا ابراہیم جلیس کے کسی فقرے پر میں مسکرا دیتا تو وہ کہتا ’’ کلھے کلھے‘ مسکرانے کا کیا فائدہ؟ ہمیں بھی تو بتائو۔ ادبی مراکز سے دور ہونے کے سبب آپ بہت کچھ کر لیں ۔

کتابوں کے انبار لگا دیں تو بھی ملتان کی ادبی تاریخ مکمل نہیں ہوتی کہ یہ ایک طرح سے اورل ہسٹری ہے اس لیے شاہد راحیل سے میں کہتا ہوں اور یاد کرو اور بولو اور اس چھاپو کہ تمھارے پاس ابھی وسائل ہیں ، یادداشت کا ساتھ دینے والا قلم اور کچھ بینکوں سے مشاورت کاکام کہ تم نے اپنی ممتاز محل کے کہنے پر بینک ملازمت کے دوران ایل ایل بی بھی کر لیا تھا ۔‘‘ ملتان کے حوالے سے بہت شاندار کتاب ہے کیونکہ اس میں وہاں کی بول چال، رہن سہن حتی کہ کھانے اور وقت کے ساتھ آنے والی تبدیلیوں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے ۔ مجلد کتاب کو شاندار ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

خوابوں کی تعبیر

$
0
0

بانسری بجانا
نصیر احمد، لاہور
خواب : چند روز پہلے ایک عجیب سا خواب دیکھا کہ میں کہیں گیا ہوا ہوں کوئی پہاڑی علاقہ ہے اور ادھر میرے ساتھ میرے دوست بھی ہیں ۔ ہم سب کسی دریا کے کنارے بیٹھے ہیں اوروہاں کوئی مقامی آدمی بانسری بجا رہا ہے جس کو سن کر ہم بہت خوش ہوتے ہیں ۔ میں اس سے کہتا ہوں کہ میں بھی بجاوں گا ۔ پھر دیکھتا ہوں کہ میں ایک پتھر کے اوپر بیٹھا ہوں اور بانسری بجانے کی کوشش کر رہا ہوں ۔ اس میں سے بہت ہی سریلی آوازیں آتی ہیں اور میں خود بھی بے خود ہو کر سنتا رہتا ہوں۔

تعبیر: اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی اندیشہ یا پریشانی آپ کے ذھن پہ سوار رہے گی جس کو لے کر آپ پریشان رہیں گے۔ اس کا تعلق کاروباری معاملات سے بھی ہو سکتا ہے اور تعلیمی بھی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یا حی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔ آپ کے لئے دعا کروا دی جائے گی ۔

پیسے گم ہونا
بسمہ خان، لاہور
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں نے اپنے گھر میں کہیں پیسے رکھ دئیے ہیں ،جو اب مل نہیں رہے ۔ اس پہ میرے میاں بہت زیادہ ناراض ہیں اور ان کو لگتا ہے کہ شائد میں نے اپنے بھائی کو دے دئیے ہیں مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے ، بلکہ میں نے سیف میں ہی رکھے ہوتے ہیں ۔ خواب میں بھی اور آنکھ کھلنے کے بعد بھی میں خود کو پریشان ہی دیکھتی ہوں کیونکہ یہ بہت تکلیف دہ تھا ۔

تعبیر: یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی مشکل پیش آ سکتی ہے ۔ گھر کا ماحول بھی کچھ پریشان کن ہو سکتا ہے ۔ گھریلو سطح پہ تعلقات بھی متاثر ہو سکتے ہیں ۔ کاروبار میں بھی مشکل پیش آ سکتی ہے جس سے مال و وسائل میں کمی آ سکتی ہے ۔ آپ یاحی یاقیوم کا زیادہ سے زیادہ ورد کیا کریں ۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں ۔

گھر میں تقریب
مراد علی قصوری، شیخوپورہ
خواب: میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر میں ایک تقریب میں موجود ہوں، جس میں تقریباً سبھی رشتے دار موجود ہیں اور ہر شخص میری شاندار صحت کا راز پوچھ رہا ہے اور تعریف کر رہا ہے ۔ مجھے بھی بہت اچھا لگ رہا ہوتا ہے ۔ پھر سب کھانے کی بھی بہت تعریف کرتے ہیں ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت و وقار میں اضافہ ہو گا ۔ علم حاصل کرنے کی جانب توجہ ہو گی اور ذھن میں بزرگی آئے گی ۔ گھر میں بھی آرام و سکون ملے گا ۔ اللہ کے گھر کی زیارت بھی ممکن ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات بھی کیا کریں ۔

ہائیکنگ پر جانا
عبدالہادی، لاہور
خواب : میں نے خواب دیکھا کہ میں اور میرا دوست ھائیکنگ کرنے جاتے ہیں اور جس رسی سے میرا دوست بندھا ہوتا ہے وہ میرے ہاتھ میں ہوتی ہے جس کو کس کر باندھنے کی بجائے میں چھوڑ دیتا ہو ں جس سے اس کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے رسی سہار نہیں پاتی اور ٹوٹ جاتی ہے جس سے وہ اوپر سے نیچے پکے فرش پہ جا گرتا ہے ۔ میں یہ دیکھ کر اپنی غلطی کا احساس کرتا ہوں کہ یہ مجھ سے کیسے ہوا ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے ۔ کاروباری معاملات میں کسی غیریقینی صورتحال کا سامنا ہونے کا امکان ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار کیا کریں ۔آپ کے لئے محفل مراقبہ میں دعا کرا دی جائے گی ۔ ممکن ہو تو کچھ صدقہ و خیرات کیا کریں ۔

مردانہ ریشمی کپڑے
شوکت بشیر،لاہور
خواب: میں نے دیکھا کہ مجھے میری بیوی نے ایک ڈبہ گفٹ دیا جس میں سارے ریشمی کپڑے تھے ۔ اگرچہ مردانہ انداز میں سلے ہوئے تھے مگر تھے ریشمی ۔ میں ان کو دیکھ کر بہت پریشان ہوتا ہوں کہ اتنی اہم میٹینگ کے لئے میں کیسے یہ پہن سکتا ہوں ۔ مجھے سوچ سوچ کر اتنا غصہ آتا ہے کہ میں فیصلہ کرتا ہوں کہ گھر جا کر اس کو طلاق دے دوں گا جس نے سارے دفتر کے سامنے مجھے شرمندہ کروانا چاہا ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ نہ کرے کوئی پریشانی غم یا خوف مسلط ہو سکتا ہے ۔ کاروبار میں رکاوٹ آ سکتی ہے ۔ رزق میں بھی اس کی وجہ سے کمی ہو سکتی ہے ۔ آپ نماز پنجگانہ ادا کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

سیڑھیوں میں سانپ
شمائلہ علی، گوجرانوالہ
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے گھر میں ایک سانپ ہے جو میری بہن سیڑھیوں میں بیٹھا ہوا دیکھتی ہے مگر پھر کسی کو نظر نہیں آتا ۔ مگر میری امی سب کو گھر خالی کرنے کا کہہ دیتی ہے میرے ابو انکار کر دیتے ہیں کہ گھر سے مت جائیں بلکہ سانپ کو تلاش کریں ، مگر سارے لوگ اتنا ڈر جاتے ہیں کہ کوئی بھی رکنے کو تیار نہیں ہوتا ۔

تعبیر : اس خواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی دشمن نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہو جائے جس کی وجہ سے گھریلو کاروباری یا تعلیمی معاملات میں کوئی رکاوٹ آپ کے لئے پریشانی کا باعث بنے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کیا کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

گھر میں پھٹی ہوئی بوریاں
ذوالفقار علی، لاہور
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ ہمارے گھر کسی نے راء کی بوریاں بھیجی ہیں جو کہ پھٹی ہوئی ہیں اور سارے گھر میں وہ پھیلی ہوئی ہیں ۔ میرے والد پریشانی میں سب کو فون کر کے پوچھ رہے ہیں کہ کیا انہوں نے یہ راء کی بوریاں بھیجی ہیں مگر کسی بھی عزیز یا دوست احباب نے نہیں بھیجی ہوتیں ۔ اس پہ ہمارے گھر کے سب لوگ بہت پریشان ہو جاتے ہیں ۔

تعبیر : اس خواب سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ نا کرے کسی پریشانی یا غم کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ بیماری یا تعلیمی سلسلے میں کوئی رکاوٹ پیش آ سکتی ہے۔ کاروباری معاملات میں بھی کوئی مسلہ پیش آ سکتا ہے ۔ آپ کوشش کریں کہ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور حسب استطاعت صدقہ کیا کریں ۔

درخت لگانا
حلیمہ ہاشمی، بہاولپور
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک خشک جگہ پہ کھڑی ہوں دور دور تک کوئی سایہ نہیں اور گرمی کافی ہے۔ اگلے ہی لمحے میں دیکھتی ہوں کہ میں اپنی دوستوں کے ساتھ مل کر اس علاقہ میں درخت لگا رہی ہوں اور ساتھ ہی دیکھتی ہوں کہ وہ جگہ بہت ہری بھری ہو گئی ہے ۔ ہر طرف سبزہ ہے اور لہلہاتے درخت ہیں ۔ سب لوگ بہت خوش ہوتے ہیں اور میں بھی یہ سب دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہوں ۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا ۔ دوست آپ کے معاون رہیں گے ۔ آپ نماز کی پابندی ضرور رکھیں ۔ اسلامی شعائر کو اپنائیں۔

بیل خریدنا
عامر ورک، سرگودھا
خواب : میرے ابو نے خواب دیکھا کہ ہم ایک بیل خرید کر لائے ہیں اور ہم نے اس کو اپنے صحن میں باندھ دیا ہے ۔ ہمسائے وغیرہ بھی آ کر ہم کو مبارک دیتے ہیں ۔ پھر میں اس کے آگے چارہ ڈالتی ہوں مگر وہ کھاتا نہیں ۔کچھ دیر بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کہیں نہیں ہے ۔ ہم سارا علاقہ دیکھتے ہیں مگر وہ کہیں نہیں ہوتا ۔

تعبیر:۔ یہ خواب اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ نہ کرے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے۔کاروبار اور نوکری میں مالی پریشانی کا بھی سامنا ہو سکتا ہے۔آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار پڑھا کریں ۔ ممکن ہو سکے تو کچھ صدقہ و خیرات کریں۔ چھت پہ پرندوں کو دانہ ڈالنے کا بھی اہتمام کیا کریں۔

تحفہ میں قلم ملنا
شاہد خان، شیخوپورہ
خواب : میں نے دیکھا کہ ہم اپنی نانی کے گھر گرمیوں کی چھٹیوں میں آئے ہوئے ہیں ۔ یہاں میری خالہ بھی آئی ہوئی ہوتی ہیں اور ان کے پاس سب بچوں کے لئے تحفے ہوتے ہیں ۔ مجھے بہت خوبصورت قلم ملتا ہے جس سے میں قرآن پاک کی آیات لکھتا ہوں ۔ سب لوگ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں اور میں خود بھی حیران ہو رہا ہوتا ہوں کہ اتنی خوبصورتی سے میں نے کیسے لکھ لیا ۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بزرگی عطا ہو گی ۔ علم و حکمت ملے گی ۔ دینی و روحانی معاملات میں ترقی ہو گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور تلاوت قرآن پاک کو باقاعدگی سے جاری رکھیں ۔کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

تیل خریدنا
فرزانہ شیخ، حیدرآباد
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنی ساس کے گھر گئی ہوئی ہوں ۔ وہاں پہ میرے دیور کی فیملی بھی آئی ہوئی ہے اور نند بھی ۔ میری ساس مجھے اور میری نند کو کچھ سامان لانے کو پیسے دیتی ہیں ۔ میں اور میری نند بازار جاتے ہیں اور سامان لے کر آتے ہیں ۔ اور وہ سارا کا سارا تیل پہ ہی مشتمل ہوتا ہے۔ گھر آ کر جب میری ساس اس تیل کو دیکھتی ہیں تو بہت خوش ہوتی ہیں ۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے آپ کی عزت اور وقار میں اضافہ ہو گا ۔ نیک نامی میں اضافہ ہو گا جو کاروبار یا نوکری یا پھر گھریلو سطح پہ بھی ہو سکتی ہے ۔ آپ صلہ رحمی سے کام لیا کریں۔ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں ۔کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔

دوستوں کے ساتھ کھانا
نصیر احمد، گوجرانوالہ
خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے دوستوں کے ساتھ کہیں کسی خوبصورت سی جگہ پہ موجود ہوں اور ہم سب کھانا کھانے کے لئے اس جگہ آئے ہیں ۔ پھر ایک آدمی آتا ہے اور میرے سامنے ایک خوان رکھ دیتا ہے جس میں تیتر تلے ہوئے رکھے ہوتے ہیں ۔ میں اپنے دوستوں کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں اور ہم سب اس کھانے سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی ۔

تعبیر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

انار توڑنا
نوشیرواں ، مانسہرہ
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں کسی درخت سے انار توڑ کر کھا رہا ہوں اور اپنے گھر والوں کو بھی توڑ توڑ کر دیتا ہوں ۔ وہ سب بھی انتہائی مزے لے کر کھاتے ہیں ۔ اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

تعبیر:۔ اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں۔

تنہا کھانے سے لطف اندور ہونا
محمد موسیٰ، کراچی
خواب :۔ میں نے دیکھا کہ میں اکیلا کہیں کسی کمرے میں بیٹھا ہوں اور وہاں ایک میز پہ انواع و اقسام کے کھانے پڑے ہوئے ہیں جن سے انتہائی خوشبو اٹھ رہی ہے۔ بلکہ کئی کھانے تو ایسے تھے جو کبھی دیکھے نہ کھائے ۔ میں ادھر انتہائی بے تکلفانہ انداز میں بیٹھ جاتا ہوں اور مزے لے لے کر انتہائی لذیذ کھانے کھاتا ہوں ۔ دل میں مسلسل خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہم کو یہ نعمت دی ۔ وہ خوشی سکون اور مزہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔ برائے مہربانی اس کی تعبیر بتا دیں ۔
تعبییر: اچھا خواب ہے جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالی کی مہربانی سے آپ کے رزق میں اضافہ ہو گا ۔ کاروبار میں وسعت ہو گی اور برکت بھی ۔ وسائل میں بھی بہتری آئے گی ۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یا قیوم کا ورد کیا کریں ۔

گائوں میں شادی
زرینہ خان، لاہور
خواب :۔ میں نے خواب دیکھا کہ میں اپنے سسرال کے ساتھ کسی گاوں میں کوئی شادی اٹینڈ کرنے آتی ہوں ۔ میرے سارے سسرال والے وہاں خوشی خوشی رہتے ہیں مگر مجھے گاوں میں بنیادی سہولیات کے بنا کافی مشکل ہو رہی ہوتی ہے ۔ ایک دن میرے سسر باہر گئے ہوتے ہیں پھر کہیں سے گندگی میں سارے لتھڑ کر گھر آتے ہیں۔ ان کے پاس سے شدید بو آ رہی ہوتی ہے ۔ بس اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی ہے۔

تعبیر :۔ یہ خواب اللہ نہ کرے پریشانی و حرام مال کو ظاہر کرتا ہے ۔کاروباری معاملات میں قناعت اور ایمانداری کا مظاہرہ کریں ۔ سب لوگ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور ہر نماز کے بعد کثرت سے استغفار بھی کیا کریں اور اللہ کے حبیبﷺ کی سیرت پر عمل کریں ۔

پرانے گھر میں گرد وغبار
کلیم عثمانی، جھنگ
خواب : ۔ میں نے دیکھا کہ میں اپنے گھر گاوں گیا ہوں ۔ اس خالی گھر میں ہر طرف ابتری پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور جیسے پورے گھر میں اس کا غبار پھیلا ہوا ہے۔ جبکہ ہم اس گھر میں رہتے بھی نہیں اور نہ ہی ادھر کچھ خاص سامان موجود ہے ۔

تعبیر:۔ یہ خواب ظاہر کرتا ہے کہ مالی معاملات میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔ غیر ضروری اخراجات یا اصراف اس کا سبب ہو سکتا ہے ۔ کاروبار میں بھی رقم بلاک ہونے کا احتمال ہے ۔ اس سے اللہ نہ کرے کہ قرض تک کی نوبت آ سکتی ہے ۔ آپ حلال روزی کا اہتمام کریں اور نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے یاحی یاقیوم کا ورد کیا کریں ۔ صدقہ وخیرات بھی حسب توفیق کرتے رہا کریں ۔

ساحل سمندر پر روزہ افطار
لیاقت علی، ٹھٹھہ
خواب: میں نے خواب دیکھا کہ میں ایک ساحل سمندر پہ ہوں اور ادھر روزہ افطار کر رہا ہوں، وہاں میرے ساتھ اور بھی بہت سے لوگ ہیں، وہ سبھی روزہ افطار کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔ جب اذان مغرب ہوتی ہے تو سب دعا مانگتے ہیں ۔ آس پاس کے ایریا میں ایک بہت خوبصورت سی روشنی پھیلی ہوتی ہے۔

تعبیر : اچھا خواب ہے جو کسی دلی مراد کے پورا ہونے کی طرف دلیل کرتا ہے۔ دینی معاملات میں بہتری کے ساتھ ساتھ دنیاوی معاملات میں بھی آسانی و بہتری ہو گی ۔ رزق حلال میں اضافہ ہو گا اور اس کے لئے وسائل مہیا ہوں گے۔ آپ نماز پنجگانہ کی پابندی کریں اور کثرت سے ہر نماز کے بعد استغفار بھی کیا کریں ۔

The post خوابوں کی تعبیر appeared first on ایکسپریس اردو.

اعتکاف

$
0
0

اللہ پاک کے قرب و رضا کے حصول کے لیے گذشتہ امتوں نے ایسی ریاضتیں لازم کرلی تھیں، جو اللہ نے ان پر فرض نہیں کی تھیں۔ قرآن حکیم نے ان عبادت گزار گروہوں کو رہبان اور احبار سے موسوم کیا ہے۔

حضرت محمدمصطفیﷺ نے تقرب الی اللہ کے لیے رہبانیت کو ترک کر کے اپنی امت کے لیے اعلٰی ترین اور آسان ترین طریقہ عطا فرمایا، جو ظاہری خلوت کی بجائے باطنی خلوت کے تصور پر مبنی ہے۔ یعنی اللہ کو پانے کے لیے دنیا کو چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کی محبت کو دل سے نکال دینا اصل کمال ہے۔ ان طریقوں میں سے ایک طریقہ اعتکاف ہے ۔

اعتکاف لغوی اعتبار سے ٹھہرنے کو کہتے ہیں، جب کہ اصطلاحِ شریعت میں اعتکاف کا معنی ہے: مسجد میں اور روزے کے ساتھ رہنا، جماع کو بالکل ترک کرنا اور اللہ تعالٰی سے تقرب اور اجروثواب کی نیت کرنا اور جب تک یہ معانی نہیں پائے جائیں گے تو شرعاً اعتکاف نہیں ہوگا، لیکن مسجد میں رہنے کی شرط صرف مردوں کے اعتبارسے ہے۔

عورتوں کے لیے یہ شرط نہیں ہے بلکہ خواتین اپنے گھر میں نماز کی مخصوص جگہ کو یا کسی الگ کمرے کو مخصوص کرکے وہاں اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ ہر مسجد میں اعتکاف ہوسکتا ہے، البتہ بعض علما نے اعتکاف کے لیے جامع مسجد کی شرط لگائی ہے۔ (احکام القرآن: جلد 1 صفحہ 242)

اعتکاف کی تاریخ

اعتکاف کی تاریخ بھی روزوں کی تاریخ کی طرح بہت قدیم ہے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ ساتھ اس کا ذکر بھی یوں بیان ہوا ہے۔ ارشادِخداوندی ہے:

ترجمہ: اور ہم نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہماالسلام کو تاکید کی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں کے لیے، اعتکاف کرنے والوں کے لیے اور رکوع کرنے والوں کے لیے خوب صاف ستھرا رکھیں۔ (سور البقرہ: آیت نمبر125)

یعنی اس وقت کی بات ہے جب جدالانبیاحضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کعبۃ اللہ کی تعمیر سے فارغ ہوئے تھے یعنی اس زمانے میں اللہ تعالٰی کی رضا کے لیے اعتکاف کیاجاتا تھا۔

اعتکاف کی فضیلت واہمیت

حضوراکرم ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں ہمیشہ اعتکاف کیا ہے اور اس کی بہت زیادہ تاکید فرمائی ہے۔ چناںچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ بے شک حضور نبی کریمﷺ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف کرتے تھے، یہاں تک کہ آپﷺ خالق حقیقی سے جاملے۔ پھر آپﷺ کی ازواجِ مطہرات اعتکاف کیا کرتی تھیں۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

تین خندقیں

رسول اللہﷺ نے ایک دن کے اعتکاف کے بارے میں فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالٰی کی خوش نودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرے گا، اللہ تعالٰی اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا جن کی مسافت آسمان و زمین کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔ (کنزالعمال)

ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص خالص نیت سے بغیر ریا اور بلاخواہش شہرت ایک دن اعتکاف بجا لائے گا، اس کو ہزار راتوں کی شب بیداری کا ثواب ملے گا اور اس کے اور دوزخ کے درمیان فاصلہ پانچ سو برس کی راہ ہوگا (تذکرۃ الواعظین)

تین سو شہیدوں کا ثواب

رسول اللہﷺ نے فرمایا جو شخص خالصتاً رمضان شریف میں ایک دن اور ایک رات اعتکاف کرے تو اس کو تین سو شہیدوں کا ثواب ملے گا (تذکرۃالواعظین)

سبحان اللہ چند گھنٹوں کے اعتکاف کی اس قدر فضیلت ہے تو جو رمضان شریف میں پورے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے ہیں ان کی شان کیا ہوگی۔

دو حج اور دوعمروں کا ثواب

حضرت حسین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: جس شخص نے رمضان المبارک میں آخری دس دنوں کا اعتکاف کیا تو گویا کہ اس نے دو حج اور دو عمرے ادا کیے ہوں۔ (شعب الایمان)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے معتکف (اعتکاف کرنے والے) کے بارے میں فرمایا کہ: وہ گناہوں سے باز رہتا ہے اور نیکیاں اس کے واسطے جاری کردی جاتی ہیں، اس شخص کی طرح جو یہ تمام نیکیاں کرتا ہو۔ (سنن ابن ماجہ، مشکوٰۃ)

اس حدیث مبارک سے معلوم ہوا کہ معتکف یعنی اعتکاف کرنے والا، اعتکاف کی حالت میں بہت سی برائیوں اور گناہوں….مثلاً غیبت، چغلی، بری بات کرنے، سننے اور دیکھنے سے خودبہ خود محفوظ ہوجاتا ہے، ہاں البتہ اب وہ اعتکاف کی وجہ سے کچھ نیکیاں نہیں کرسکتا، مثلاً نمازِجنازہ کی ادائی، بیمار کی عیادت ومزاج پرسی اور ماں باپ واہل وعیال کی دیکھ بھال وغیرہ۔ اگرچہ وہ ان نیکیوں کو انجام نہیں دے سکتا لیکن اللہ تعالٰی اسے یہ نیکیاں کیے بغیر ہی ان تمام کا اجرو ثواب عطا فرمائے گا، کیوںکہ معتکف اللہ کے پیارے رسول ﷺ کی سنت مبارکہ ادا کررہا ہے جو درحقیقت اللہ تعالٰی کی ہی اطاعت وفرماںبرداری ہے۔

اعتکاف کی غرض وغایت، شب قدر کی تلاش

حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرمﷺ نے رمضان کے پہلے عشرے میں اعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے میں بھی ترکی خیموں میں اعتکاف فرمایا۔ پھر خیمے سے سرِاقدس نکال کر ارشاد فرمایا کہ: میں نے پہلے عشرے میں شب قدرکی تلاش میں اعتکاف کیا تھا پھر میں نے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا، پھر میرے پاس ایک فرشتہ آیا اور مجھ سے کہا کہ شب قدر آخری عشرے میں ہے، پس جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرتا تھا تو اسے آخری عشرے میں ہی اعتکاف کرنا چاہیے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)

مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اس اعتکاف کی سب سے بڑی غرض وغایت شبِ قدر کی تلاش وجستجو ہے اور درحقیقت اعتکاف ہی اس کی تلاش اور اس کو پانے کے لیے بہت مناسب ہے، کیوںکہ حالت اعتکاف میں اگر آدمی سویا ہوا بھی ہو تب بھی وہ عبادت وبندگی میں شمار ہوتا ہے۔ نیز اعتکاف میں چوںکہ عبادت وریاضت اور ذکروفکر کے علاوہ اور کوئی کام نہیں رہے گا، لہٰذا شب قدر کے قدردانوں کے لیے اعتکاف ہی سب سے بہترین صورت ہے۔ حضور سیدعالمﷺ کا معمول بھی چوںکہ آخری عشرے ہی کے اعتکاف کارہا ہے، اس لیے علمائے کرام کے نزدیک آخری عشرہ کا اعتکاف ہی سنت موکدہ ہے۔

اعتکاف کی قسمیں

اعتکاف کی تین قسمیں ہیں۔

اول…. اعتکاف ِ واجب

دوم…. اعتکاف ِ سنت

سوم…. اعتکافِ مستحب

1۔اعتکاف ِ واجب

اعتکاف واجب یہ ہے کہ کسی نے نذر مانی کہ میرا فلاں کام ہوجائے تو میں اتنے دن کا اعتکاف کروں گا اور اس کاوہ کام ہوگیا تو یہ اعتکاف کرنا اور اس کا پورا کرنا واجب ہے۔ ادائی نہیں کی تو گناہ گار ہوگا۔ واضح رہے کہ اس اعتکاف کے لیے روزہ بھی شرط ہے، بغیر روزہ کے اعتکاف صحیح نہیں ہوگا۔

2۔اعتکاف سنت

اعتکاف ِسنت رمضان المبارک کے آخری عشرے میں کیا جاتا ہے یعنی بیسویں رمضان کو سورج غروب ہونے سے پہلے اعتکاف کی نیت سے مسجد (جائے اعتکاف) میں داخل ہوجائے اور تیسویں رمضان کو سورج غروب ہوجانے کے بعد یا انتیسویں (29ویں) رمضان کو عیدالفطر کا چاند ہوجانے کے بعد مسجد (جائے اعتکاف) سے نکلے…. واضح رہے کہ یہ اعتکاف سنت موکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر محلے کے سب لوگ چھوڑدیں گے تو سب تارکِ سنت ہوں گے اور اگر کسی ایک نے بھی کرلیا تو سب بری ہوجائیں گے۔ اس اعتکاف کے لیے بھی روزہ شرط ہے، مگر وہی رمضان المبارک کے روزے کافی ہیں۔

3۔اعتکافِ مستحب

اعتکاف ِمستحب یہ ہے کہ جب کبھی دن یارات میں مسجد میں داخل ہو تو اعتکاف کی نیت کرلے۔ جتنی دیر مسجد میں رہے گا اعتکاف کا ثواب پائے گا۔ یہ اعتکاف تھوڑی دیر کا بھی ہوسکتا ہے اور اس میں روزہ بھی شرط نہیں ہے، جب مسجد سے باہر نکلے گا تو اعتکافِ مستحب خود بہ خود ختم ہوجائے گا۔

اعتکاف کی نیت

نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کرلیا کہ میں سنت اعتکاف کی نیت کرتا ہوں تو یہی کافی ہے۔ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا بہتر ہے۔ اپنی مادری زبان میں بھی نیت ہوسکتی ہے۔ اگر عربی زبان میں نیت آتی ہو تو بہتر و مناسب ہے۔

اعتکاف کی نیت عربی میں یہ ہے۔

نویت سنت الاعتکاف للہ تعالٰی

ترجمہ: میں نے اللہ تعالی کی رضا کے لیے سنت اعتکاف کی نیت کی۔

مسئلہ: مسجد کے اندر کھانے، پینے اور سونے کی اجازت نہیں ہوتی، مگر اعتکاف کی نیت کرنے کے بعد اب ضمناً کھانے، پینے اور سونے کی بھی اجازت ہوجاتی ہے، لہٰذا معتکف دن رات مسجد میں ہی رہے، وہیں کھائے، پیے اور سوئے اور اگر ان کاموں کے لیے مسجد سے باہر ہوگا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

مسئلہ: اعتکاف کے لیے تمام مساجد سے افضل مسجد حرام ہے۔ پھر مسجد نبوی شریف، پھر مسجد اقصٰی (بیت المقدس) پھر ایسی جامع مسجد جس میں پانچ وقت باجماعت نماز ادا کی جاتی ہو۔ اگر جامع مسجد میں جماعت نہ ہوتی ہو تو پھر اپنے محلہ کی مسجد میں اعتکاف کرنا افضل ہے۔

مسئلہ: اعتکاف کا اہم ترین رکن یہ ہے کہ آپ اعتکاف کے دوران مسجد کی حدود ہی میں رہیں اور حوائج ضروریہ کے سوا ایک لمحہ کے لیے بھی مسجد کی حدود سے باہر نہ نکلیں، کیوںکہ ایک لمحہ کے لیے بھی شرعی اجازت کے بغیر حدود مسجد سے باہر چلا جائے تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔

مسئلہ: کسی شرعی عذر کے بغیر مسجد سے باہر نکلنے سے اعتکاف ٹوٹ جاتا ہے۔ بول وبراز کے لیے اور نمازِ جمعہ کے لیے جانا شرعی عذر ہے….وضو کے لیے اور غسل جنابت کے لیے جانا بھی عذرشرعی ہے …. کھانے پینے اور سونے کے لیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں ہے اور اگر کوئی مریض کی عیادت کے لیے یانمازِ جنازہ پڑھنے کے لیے مسجد سے باہر گیا تو اس کا اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔

اعتکاف کی قضاء

فقیہ الامت علامہ ابن عابدین شامی علیہ الرحمتہ (متوفی1252ھ) لکھتے ہیں کہ: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف ہرچندکہ نفل (سنت موکدہ) ہے، لیکن شروع کرنے سے لازم ہوجاتا ہے۔ اگر کسی شخص نے ایک دن کا اعتکاف فاسد کردیا تو امام ابویوسف کے نزدیک اس پر پورے دس کی قضالازم ہے، جب کہ امام اعظم ابوحنیفہ اور امام محمدبن حسن شیبانی رحمۃاللہ علیہما کے نزدیک اس پر صرف اسی ایک دن کی قضا لازم ہے۔

اعتکاف کی قضا صرف قصداً اور جان بوجھ کر ہی توڑنے سے نہیں بلکہ اگر کسی عذر کی وجہ سے اعتکاف چھوڑ دیا مثلاً عورت کو حیض یانفاس آگیا یا کسی پر جنون و بے ہوشی طویل طاری ہوگئی ہو تو اس پر بھی قضا لازم ہے اور اگر اعتکاف میں کچھ دن فوت ہوں تو تمام کی قضا کی حاجت نہیں بلکہ صرف اتنے دنوں کی قضا کرے، اور اگرکُل دن فوت ہوں تو پھرکُل کی قضا لازم ہے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالٰی معتکفین کے اعتکاف کو قبول فرمائے اور سنت کے مطابق اعتکاف کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

The post اعتکاف appeared first on ایکسپریس اردو.


سحری کی فضیلت

$
0
0

حضرت انسؓ روایت فرماتے ہیں کہ رسول کریم ؐ نے ارشاد فرمایا ’’سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے۔‘‘ حدیث پاک میں رمضان المبارک کی مقدس عبادت روزے میں اختیار کی جانیوالی ایک خاص غذا کی برکت کا ذکر فرمایا گیا ہے اس طرز طعام کا نام سحری ہے، یہ لفظ سحر سے ہے یعنی صبح کا وقت اور سحری سے وہ کھانا مراد ہے کہ جو روزہ دار نصف رات کے بعد اٹھ کر طلوع صبح صادق سے پہلے کھاتے ہیں۔

روزے کے شروع کرنے کا وقت صبح صادق ہے یعنی طلوع فجر کی وہ علامت جو آسمان کے مشرق میں اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ افق پر سفیدی کی دھاری رات کی سیاہی سے جدا ہو جاتی ہے، یہی صبح صادق ہے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ سفیدی بڑھتی جاتی ہے یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہو جاتا ہے۔ روزے کے آغاز کا جو وقت قرآن کریم نے متعین فرمایا ہے اس کی یہی علامت مقر ر فرمائی ہے لہٰذا صبح صادق سے پہلے تک کھایا پیا جا سکتا ہے ۔

روزہ صبح صادق کے بعد شروع ہوتا ہے اور اس حدیث پاک میں روزے کے افتتاحی طعام کو سحری فرمایا گیا ہے اور امت کو اس کی برکت سے نوازا گیا ہے۔ یہ کھانا جہاں ایک طرف روزے دار کو روزے کی ادائیگی میں ایک طرح کی توانائی اور تقویت عطا کرتا ہے اور روزے کی شدت اور سختی کو کسی حد تک کم کر کے ایک طرح کا تعاون عطا کرتا ہے وہیں یہ عمل اور بھی بہت سارے فوائد رکھتا ہے۔

اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ سحری کا تعین چونکہ رسول اللہ ﷺ نے کیا اور رسول اللہﷺ کی اتباع ہی دین ہے اس طرح یہ کھانا بھی ایک طرح کی عبادت ہے جب ہم سحری کھاتے ہیں تو اسے سنت سمجھ کر کھاتے ہیں اللہ تعالی کی بارگارہ میں مقبولیت کا معیار نیت کی سلامتی اور رضا الٰہی کے حصول کی پاکیزگی ہے ۔

حدیث پاک میں سحری کی بہت تاکید کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا (سحری میں برکت ہے اور اس کو ہر گز نہ چھوڑو) اگر کچھ نہ ہو تو اس وقت پانی کا ایک گھونٹ ہی پی لیا کرو کیونکہ سحر میں کھانے پینے والوں پر اللہ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے اس کے لیے دعا ئے خیر کرتے ہیں۔ دیکھئے سحری کھانے کا جو اجر ثواب یہاں بیان ہوا ہے اس میں برکت اور رحمت کا ذکر ہے اور اس بات کا اظہار بھی ہے کہ یہ اللہ کی رحمت کا باعث اور فرشتوں کی دعاوں کا محرک بھی ہے لہذا سحری کا اہتمام ضرور کیا جائے۔

بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص کی آنکھ اتنی دیر سے کھلی کہ فجر کی اذان ہو رہی تھی یا اس کے بھی کچھ دیر بعد کھلی تو اُس کے لئے جلدی جلدی سحری کھا لینا جائز ہے، یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے، اس لئے کہ سحری کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے صبح صادق کے بعد سحری کھانا جائز نہیں خواہ اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو (معارف القرآن)۔ بعض لوگ آدھی رات سے سحری کھا کر بیٹھ جاتے ہیں، اتنی جلدی سحری کھانا شریعت کے منشاء اور سحری کے مقاصد کیخلاف ہے، کوئی معذوری اور مجبوری ہو تو علیحدہ بات ہے ۔

جب صبح صادق کا وقت قریب ہو تو اس وقت سحری کھانی چاہیے اور صبح صادق سے پہلے ہی سحری سے اطمینان کے ساتھ فارغ ہو جانا چاہیے۔ (شرح البدایہ و ردالمحتار) بعض لوگ سحری کھانے کے لئے اُٹھتے تو ہیں مگر فجر کی نماز پڑھے بغیرسحری کھا کر سو جاتے ہیں، اس طرح رمضان میں بھی اُن کی فجر کی نماز قضاء ہو جاتی ہے۔ یاد رکھیئے! اس طرح سحری کی سنت ادا کر کے فجر کے فرضوں کو قضا کرنا جائز نہیں (ماہ ِ رمضان کے فضائل و احکام)، امت کی بہتری سحری کے عمل میں ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ:” جب تک لوگ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کریں گے تو وہ خیر اور بھلائی پر رہیں گے (صحیح مسلم: باب فضل السحور) حضرت عبد اللہ بن حارث ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا: میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ، اور آپ ﷺ سحری تناول فرما رہے تھے ۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : یہ اللہ کی دی ہوئی برکت ہے ، تم اسے ترک نہ کیا کرو‘‘ (سنن النسائی)۔ حضرت ابوہریرہ ؓروایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: مومن کی بہترین سحری کھجور ہے۔ (سنن ابی داوؤد/ حدیث2342) پس ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی سحری میں بھی کھجور شامل کریں ، صرف افطاری کے لیے خاص نہ سمجھا جائے۔ ایک حدیث میں ہے: بیشک اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے ان کیلئے رحمت کی دعا کرتے ہیں (مسنداحمد) حضرت ابوسعیدؓبیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سحری کرنا سراپا برکت ہے۔

لہٰذا اسے نہ چھوڑو، اگرچہ پانی کے ایک گھونٹ کے ذریعے ہی ہو ۔ اللہ اور فرشتے سحری کھانے والوں کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں‘‘ (مسند، امام احمد بن حنبل) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ سحری کھانے والوں پر رحمت بھیجتے ہیں اور اس کے فرشتے ان کیلئے دعا کرتے ہیں ۔

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہوئی کہ سحری کھانی چاہیے بعض لوگ سستی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اس کی فضیلت سے محروم ہو جاتے ہیں جبکہ بعض لوگ رات ہی کو اس لیے کھانا کھا لیتے ہیں تاکہ صبح سحری کے وقت میں اٹھنا نہ پڑے (موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان، رقم الحدیث:880) حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کے ساتھ سحری کھائی پھر ہم نماز کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، جب پوچھا گیا کہ سحری ختم ہونے اور نماز پڑھنے کے درمیان کتنا فاصلہ تھا؟تو انہوں نے بیان فرمایا: پچاس آیات پڑھنے کی مقدار (صحیح مسلم: کتاب الصیام باب فضل السحور وتاکید) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس دو مؤذن تھے۔

ایک کا نام بلالؓ اور دوسرے کا نام ابن ام مکتومؓ تھا (ابن ام مکتوم نابینا تھے) پس رسول اللہ نے فرمایا کہ بلالؓ رات باقی رہتی ہے تو اذان دیتے ہیں جب تک ابن ام مکتوم ؓ اذان نہ دیں تو تم کھاؤ پیو ۔ ابن عمر رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ان دونوں اذانوں کے درمیان اتنا ہی فاصلہ ہوتا تھا کہ یہ بلال رضی اللہ عنہ اذان دے کر اترتے اور ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دینے کیلئے چڑھتے ۔ حدیث میں آتا ہے رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا کہ ’’سحری‘‘ کھا کر روزہ پر قوت حاصل کیا کرو! اور دوپہر کو سو کر (قیلولہ کر کے) اخیر شب میں (تہجد وغیرہ کے لئے) اٹھنے پر مدد چاہا کرو!۔‘‘حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ؐ نے ایک مرتبہ ’’سحری‘‘ کے وقت مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’انسؓ! روزہ رکھنا چاہتا ہوں ، کچھ کھانے پینے کے لئے ہے تو لے آؤ! حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ ’’میں کھجور اور ایک پانی کا برتن لے کر حاضر خدمت ہوا‘‘ (سنن نسائی) نبی کریم ؐ جب کسی صحابی کو اپنے ساتھ ’’سحری‘‘ کھانے کے لئے بلاتے تو ارشاد فرماتے کہ ’’آؤ! برکت کا کھانا کھا لو!۔ حضرت عبد اللہ بن حارثؓ ایک صحابیؓ سے نقل کرتے ہیں کہ میں حضور اقدسؐ کی خدمت میں ایسے وقت میں حاضر ہوا کہ آپؐ ’’سحری‘‘ نوش فرما رہے تھے۔ آپؐ نے فرمایا کہ: ’’یہ ایک برکت کی چیز ہے جو اللہ تعالیٰ نے تم کو عطاء فرمائی ہے۔

اس لئے اس کو مت چھوڑنا!۔ بلکہ ایک اور جگہ تو یہاں تک ارشاد ہے کہ اور کچھ نہ ہو تو ایک چھوہارہ ہی کھا لیاکرو! یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لیا کرو! چنانچہ مسند احمد میں حضرت ابو سعیدؓ سے مروی ہے کہ ’’سحری‘‘ ساری کی ساری برکت کی چیز ہے۔

لہٰذا اسے (کسی بھی صورت میں) نہ چھوڑنا چاہیے اگرچہ ایک گھونٹ پانی پی کر ہی کیوں نہ ہو (مسند احمد) لیکن علامہ ابن نجیم حنفیؒ نے لکھا ہے کہ ’’محدثین کے کلام میں ا یسی کوئی تصریح میری نظر سے نہیں گزری کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ محض پانی کا ایک گھونٹ پی لینے سے ’’سحری‘‘ کی سنت کا ثواب حاصل ہو جاتا ہو، البتہ ظاہر حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے‘‘ (البحر الرائق شرح کنز الدقائق) ایک حدیث میں آتا ہیٗ حضورِ اقدس ؐ کا ارشاد ہے کہ تین چیزیں رسولوں کے اخلاق میں سے ہیں (۱) افطاری میں جلدی کرنا (۲) سحری میں تاخیر کرنا (۳) اور نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھنا‘‘ ( مراقی الفلاح علیٰ حاشیۃ الطحطاوی شرح نور الایضاح) بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس شخص کی آنکھ اتنی دیر سے کھلی کہ فجر کی اذان ہو رہی تھی یا اس کے بھی کچھ دیر بعد کھلی تو اُس کے لئے جلدی جلدی ’’سحری‘‘ کھا لینا جائز ہے ٗ یہ ان لوگوں کی غلط فہمی ہے، اس لئے کہ ’’سحری‘‘ کا وقت صبح صادق سے پہلے ہے۔

صبح صادق کے بعد ’’سحری‘‘ کھانا جائز نہیں خواہ اذان ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو ۔ (معارفُ القرآن) سحری کھانا سنت ہے اور اس میں برکت بھی ہے کیونکہ سحری کھانے سے انسان کو توانائی اور طاقت وقوت ملتی ہے اور اس کا بہترین وقت فجر کی اذان سے پندرہ یا بیسں منٹ قبل ہوتا ہے۔ اور اس وقت سحری کھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان فجر کی نماز باجماعت ادا کر لیتا ہے۔ اور سحری کے لئے ضروری نہیں ہے کہ مختلف قسم کے پکوان ہوں یا بہت ساری چیزیں ہوں تبھی سحری مانی جائے گی بلکہ اگر آدمی کی طبیعت کچھ کھانے کو نہیں چاہتی ہے تو کم از کم کھجور یا چند گھونٹ پانی وغیرہ سحری کی نیت سے کھا پی لے تو سحری ہو جائے گی، یہ تہجد، استغفار اور دعا کا وقت ہوتا ہے۔

اس لیے سحری کا مطلب یہ نہیں کہ سارا وقت کھانے میں ہی گزار دیا جائے بلکہ تہجد، دعا و استغفار کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بعض لوگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ سحری میں بہت زیادہ کھانا کھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے دن بھر کھٹی ڈکاریں، معدے کی جلن اور تیزابیت کا شکار رہتے ہیں، سحری کھائیں لیکن مناسب مقدار میں کھائیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر سحری نہ کی تو روزہ نہیں ہو گا اس لیے جب کبھی سحری نہ کریں تو روزہ ہی چھوڑ دیتے ہیں یہ درست نہیں ۔

روزہ کے لیے سحری کھانا مستحب اور پسندیدہ چیز ہے، شرط نہیں کہ اس کے بغیر روزہ ہی نہ ہو۔ اس لیے محض سحری کے چھوٹ جانے کی وجہ سے روزہ چھوڑنا شرعاً غلط ہے۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب تک فجر کی اذان نہ ہو سحری کی جا سکتی ہے۔ یہ بات سراسر غلط ہے ختم سحری کے اعلان کے وقت ہی سحری کا وقت ختم ہو جاتا ہے اس کے بعد کھانا پینا غلط ہے۔ بعض لوگ سحری کھاتے ہی سو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی نماز فجر قضا ہو جاتی ہے یہ بھی غلط ہے۔ سحری کے بعد تلاوت، ذکراللہ، درود پاک، استغفار، دعا ومناجات وغیرہ کریں ۔

چل کر مسجد پہنچیں وہاں نماز فجر باجماعت ادا کریں۔ پھر ایک اور حکمت جو سحر ی میں نظر آتی ہے وہ یہ ہے کہ روزہ ضبط نفس کی ایک تربیت ہے اور اس تربیت میں سحری کھانا بھی اپنی جگہ ایک خاص حصہ ادا کرتا ہے بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ آدمی پر اس وقت نیند غالب ہوتی ہے اور وہ بھوک پیاس برداشت کر لیتا ہے مگر نیند سے دستبردار ہونا اس کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ روزے قمری کلینڈر سے وابستہ ہیں لہٰذا یہ سال کے سال گردش کرتے رہتے ہیں کبھی گرمی میں کبھی سردی میں روزے ایسے دنوں میں بھی ہوتے ہیں کہ جب بھوک کوئی بہت بڑی تکلیف کا سبب نہیں ہوتی بلکہ رات کو گرم بستر چھوڑ کر اٹھنا نفس پر بھاری ہوتا ہے۔

لہٰذا ایسی حالت میں اس حکم پر عمل کہ سحری کو ہر گز نہ چھوڑو بھوک نہ ہو تب بھی اٹھو ایک گھونٹ پانی پی لو، ایک بہت بڑا جہاد نفس ہے اور سنت پر عمل آدمی کے لیے ضبط نفس کا ایک بڑا ہی حکیمانہ طریقہ ہے اور اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ روزہ صرف ایک عبادت ہی نہیں بلکہ بہت سی عبادتوں کا مجموعہ ہے جس میں کبھی رات کی نیند چھوڑ کر قیام تروایح ضروری ہے تو کبھی سحری کھانے کے لیے اٹھنا بندگی ہے اور کبھی دن میں بھوک و پیاس عبادت ہے پھر افطار کے ٹھیک وقت پر روزہ کھولنا عبادت ہے۔ سحری بلاشبہ اہم اور ایک بابرکت اور عالی شان عمل ہے۔

روحانی فیوض و برکات سے قطع نظر سحری دن میں روزے کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔ اس کی وجہ سے روزے میں کام کی زیادہ رغبت پیدا ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں سحری کا تعلق رات کو جاگنے کے ساتھ بھی ہے کیونکہ یہ وقت ذکر اور دعا کا ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور دعا اور استغفار کی قبولیت کاباعث بنتا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں ماہ رمضان کے فیوض و برکات سے مستفیذ ہو نے کی توفیق نصیب فرمائے۔

The post سحری کی فضیلت appeared first on ایکسپریس اردو.

ڈرون سازی میں پاکستان کی شاندار کامیابیاں

$
0
0

ایم ون ابرامز (M1 Abrams)کا شمار دنیا کے سب سے طاقتور اور خطرناک ٹینکوں میں ہوتا ہے۔یہ امریکی فوج کا مرکزی یعنی مین بیٹل ٹینک ہے۔اس کی قیمت ایک کروڑ چھیاسٹھ لاکھ ڈالر ہے جو پاکستانی کرنسی میں چار سو چونسٹھ کروڑ روپے بنتی ہے۔

یہ ایک مہنگا اور بڑا بھاری ٹینک ہے۔پچھلے سال امریکا نے تیس سے زائد ایم ون ٹینک یوکرین کو فراہم کیے تھے تاکہ وہ روس کا مقابلہ کر سکے۔ حال ہی میں مگر انکشاف ہوا ہے کہ روسی بڑی ہوشیاری سے کام لے کر ایک سستے ہتھیار کی مدد سے اس نہایت مہنگے امریکی ٹینک کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

صرف پانچ سو ڈالر لاگت

یہ سستا ہتھیار اسلحہ بردار ڈرون ہے جسے روس میں ’غول ‘ (Ghoul)کہا جاتا ہے۔یہ ایک چھوٹا ڈرون ہے جو آر پی جی۔7 کاایک راکٹ لیے اڑ سکتا ہے۔اس کی تیاری پہ صرف پانچ سو ڈالر لاگت آتی ہے۔تاہم اس ڈرون کی مدد سے روسی تین ایم ون ابرامز ٹینک تباہ کر چکے۔اس کے بعد یوکرینی امریکی ٹینکوں کو پیچھے لے گئے۔یوں روسیوں نے کمال ہوشیاری سے سستے ڈرون کو کام میں لا کر مہنگے امریکی ٹینک کو میدان جنگ میں بے اثر بنا دیا۔یہ واقعہ جدید جنگ وجدل میں ڈرون کی بڑھتی اہمیت بخوبی نمایاں کرتا ہے۔

عالم اسلام کے لیے فخر

یہ امر قابل فخر اور خوش کن ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے اُن گنے چنے ممالک میں شامل ہے جو اسلحہ بردار ڈرون بنا رہے ہیں۔عالم اسلام میں تو وطن عزیز ترکی کے بعد دوسرا ملک ہے جس کے سائنس داں و ہنرمند اسلحہ بردار ڈرون بنانے میں کامیاب رہے۔یوں وہ بے پناہ رکاوٹوں اور مسائل کے باوجود اپنی محنت و ذہانت کے بل بوتے پر قومی دفاع مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں کامیاب ہو گئے۔

دنیا کا پہلا اسلحہ بردار ڈرون (Unmanned combat aerial vehicle) ایم کیو ۔1 پریڈیٹر ہے جو امریکا میں 1995ء میں متعارف کرایا گیا۔2010 ء میں ترکی عالم اسلام میں اسلحہ بردار ڈرون تیار کرنے والا پہلا ملک بن گیا جب اس نے ٹی اے آئی انکا(TAI Anka)کو اپنی افواج کا حصہ بنایا۔تب سے ترکی سات اقسام کے اسلحہ بردار ڈرون تیار کر رہاہے۔

ترکی کا امتیاز

ترک سائنس داں اور ہنرمند مسلسل تحقیق وتجربات کرتے رہتے ہیں تاکہ نئے اور بہتر ڈرون بنا سکیں۔ترکی کے بنائے ڈرون پاکستان سمیت دنیا کے چھبیس ممالک استعمال کر رہے ہیں۔اس سے ترک ڈرونوں کی مقبولیت کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ میدان جنگ میں ترک ڈرون کارگر ثابت ہوئے ہیں۔اسی لیے روس سے جنگ کرتے ہوئے یوکرینی بھی ترک ڈرون برت رہے ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترک ڈرون ٹیکنالوجی اور کارگذاری میں امریکی ڈرون کے ہم پلّہ ہیں۔

براق ڈرون

ترکی کے بعد پاکستان 2016 ء میں اپنا پہلا اسلحہ بردار ڈرون’’براق‘‘ متعارف کرانے میں کامیاب رہا۔یہ ڈرون فضا سے زمین پر مار کرنے والا ’’برق میزائیل ‘‘چھوڑ کر اپنے اہداف تباہ کر سکتا ہے۔یہ ڈرون عسکری سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں سرگرم سرکاری ادارے، نیسکوم (The National Engineering & Scientific Commission)کے ہنرمندوں کی محنت ومشاقی کا شاہکار ہے۔

نیسکوم کی بنیاد 2000ء میں رکھی گئی تھی۔اس کے ذریعے دفاعی سائنس وٹیکنالوجی سے منسلک چار سرکاری اداروں کو متحد کر دیا گیا۔نیسکوم کے ماہرین اب تک مختلف اقسام کے میزائیل، گائیڈڈ بم، روایتی بم، بارودی سرنگیں اور دیگر اسلحہ تیار کر کے قومی دفاع کو مضبوط کر چکے جس پر وہ داد وتحسین کے مستحق ہیں۔ادارے کے ماہرین ترکوں کی مدد سے انکا ڈرون بھی مقامی سطح پہ تیار کرتے ہیں۔

براق 22.97 فٹ لمبا، 29.53 فٹ چوڑا اور 6.56 فٹ اونچا ڈرون ہے۔اس کا کل وزن 500 کلو ہے۔یہ 500 کلو وزنی اشیا لے کر اڑ سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ رفتار 134 میل فی گھنٹہ ہے۔621 میل دور تک جا سکتا ہے۔اڑتے ہوئے 24,606 فٹ کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔یہ دو برق میزائیل فائر کرنے پہ قادر ہے۔

شہپر دوم

2021ء میں پاکستان نے اپنا دوسرا اسلحہ بردار ڈرون ’’شہپر دوم ‘‘متعارف کرایا۔ یہ ڈرون دفاعی سائنس وٹیکنالوجی سے متعلق ایک اور سرکاری ادارے، جی آئی ڈی ایس (Global Industrial Defence Solutions)کے ماہرین وہنرمندوں کی شاندار تخلیق ہے۔ادارے کے ماہرین اس ڈرون کا اگلا نمونہ یا ورژن، شہپر سوم ایجاد کرنے کے لیے دن رات محنت وکوششوں میں مصروف ہیں۔

شہپر دوم 26.3 فٹ لمبا اور31 فٹ چوڑا ڈرون ہے۔اڑتے وقت زیادہ سے زیادہ وزن 1,075 کلو ہوتا ہے۔ اس کی رفتار 220 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔مسلسل بیس گھنٹے دشمن کی جاسوسی کر سکتا ہے۔اگر اس میں میزائیل لگے ہوں تو بارہ گھنٹے مسلسل اڑ سکتا ہے۔جاسوسی کے دوران 23 ہزار فٹ تک بلند ہو سکتا ہے۔مسلح ہو تو21 ہزار فٹ تک پہنچ پاتا ہے۔اس میں چار برق میزائیل یا دیگر اسلحہ لادا جا سکتا ہے۔اس کی حد مار ایک ہزار کلومیٹر تک ہے۔ یعنی وہ اتنی دور تک جا سکتا ہے۔ شہپر دوم میں درج ذیل جدید ترین آلات نصب ہیں تاکہ وہ بہترین انداز میں اڑ سکے، ہدف کو درست نشانہ بنائے اور دشمن کے حملوں سے بچ سکے:

GIDS Zumr-II (EO/IR) multi-sensor turret٭

Autonomous GPS-based tracking and control      system    ٭

Real-time data link (LoS) (300 km range)٭

SATCOM data link (1500 km range)٭

شہپر سوم

ذرائع کے مطابق اس وقت نیسکوم اور جی آئی ڈی ایس کے ماہرین شہپر کا اگلا ورژن، شہپر سوم ڈیزائین و تیار کرنے کی سعی کر رہے ہیں۔ یہ نیا نمونہ زیادہ بڑا اور جدید ترین آلات سے لیس ہو گا۔ خیال ہے کہ اس کا اسلحے سمیت کل وزن 1,650 کلو تک ہو گا۔یہ ڈرون چالیس گھنٹے تک مسلسل اڑ سکے گا۔41 ہزار فٹ کی بلندی چھو لے گا۔ نیز اس میں چھ بم یا میزائیل لادنا ممکن ہو گا۔ یوں پاکستان ایک زیادہ کارگر ڈرون بنا لے گا۔یہ ڈرون تین ہزار کلومیٹر تک پہنچ کر دشمن کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھے گا جو ایک زبردست خوبی ہے۔

ترکی اور پاکستان کے علاوہ ایران بھی چھ اقسام کے اسلحہ بردار ڈرون تیار کر چکا مگر ان کی کارکردگی ابھی تک سامنے نہیں آ سکی۔ترکی کے ڈرون تو کئی جنگوں میں استعمال ہو چکے، پاکستان بھی دہشت گردوں کے پہاڑی ٹھکانے تباہ کرنے کی خاطر اپنے ڈرون کام میں لا چکا۔اس لیے پاکستانی ڈرون بھی عملی تجربات سے گذر کر کامیابی و داد پا چکے۔ان کی موجودگی سے وطن عزیز کا دفاع طاقتور ہوا ہے۔

ونگ لونگ دوم

پاکستان چین اور ترکی کے اسلحہ بردارڈرون بھی اپنے اسلحہ خانے میں رکھتا ہے۔چین کا ڈرون، ونگ لونگ دوم (CAIG Wing Loong II)ممکنہ طور پہ پاک فضائیہ کے زیراستعمال ہے۔ یہ 36 فٹ لمبا اور 67. 3فٹ چوڑا ڈرون ہے۔زیادہ سے زیادہ 4,200 کلو وزن لیے اڑ سکتا ہے۔اس پہ 480 کلو وزنی میزائیل یا بم لادنا ممکن ہے۔230 کلومیٹر فی گھنٹہ زیادہ سے زیادہ رفتار ہے۔32 گھنٹے فضا میں رہنے کے قابل ہے۔32,500 بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔یہ 1,000 کلومیٹر دور تک جا سکتا ہے۔

بیرقدار آکینجی

پاکستان سات یا زیادہ ترک ساختہ ’’بیرقدار آکینجی‘‘ (Baykar Bayraktar Akinci) ڈرون بھی استعمال کر رہا ہے۔یہ ایک بڑا اسلحہ بردار ڈرون ہے۔اس کی لمبائی 40 فٹ اور چوڑائی 65.7فٹ ہے۔یہ 5,500 کلو وزن تک لے کر اڑ سکتا ہے۔زیادہ سے زیادہ رفتار 361 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔7,500 کلومیٹر دور تک جا سکتا ہے۔مسلسل پچیس گھنٹے اڑنے پہ قادر ہے۔45 ہزار فٹ بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔اس میں آٹھ مختلف اقسام کے میزائیل، بم اور راکٹ لگ سکتے ہیں۔

بیرقدار ٹی بی ٹو

پاکستان ایک اور ترکی ساختہ اسلحہ بردار ڈرون،بیرقدار ٹی بی ٹو(Bayraktar TB2) بھی اپنے اسلحے خانے میں رکھتا ہے۔یہ 21.4فٹ لمبا اور 39.4 فٹ چوڑا ڈرون ہے۔زیادہ سے زیادہ 700 کلو وزن لے کر اڑ پاتا ہے۔222 کلومیٹر زیادہ سے زیادہ رفتار ہے۔4 ہزار کلومیٹر دور تک حد ِمار رکھتا ہے۔25 ہزار فٹ کی بلندی تک پہنچ جاتا ہے۔ستائیس گھنٹے مسلسل اڑنے پہ قادر ہے۔اس میں چار میزائیل یا بم لادے جا سکتے ہیں۔

نئی قومی عسکری پالیسی

ڈرون کی بڑھتی اہمیت کے پیش نظر اب افواج پاکستان کی یہ پالیسی بن رہی ہے کہ اس ہتھیار سے نہ صرف جاسوسی کا کام لیا جائے بلکہ اسے دشمن کے ٹھکانوں پہ حملہ کرنے کے لیے بھی استعمال کرنا ممکن ہے۔یہ ایک نئی جنگی حکمت عملی ہے جس پہ پاکستانی افواج سنجیدگی سے کام کر رہی ہیں۔مقصد یہی ہے کہ دفاع ِ پاکستان کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنا دیا جائے۔

حال ہی میں نئے شروع کیے گئے نیشنل ایرو اسپیس سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پارک (NASTP) کا احاطہ کرنے والی ایک نئی پروموشنل ویڈیو میں پاکستان ایٔر فورس نے انکشاف کیا کہ وہ اپنے نئے شامل کردہ ترک ڈرونوں میں متعدد اسٹینڈ آف رینج (SOW) فضا سے زمین تک مار کرنے والے میزائیل مربوط کر رہی ہے۔پاک فضائیہ آکینجی اور بیرقدار ٹی بی ٹو حاصل کر کے ایک ‘ہیوی ویٹ-ہلکا امتزاج ‘‘پانے میں کامیاب رہی ہے۔

جدید ترین ہتھیار

پارک میں پاک فضائیہ کے آکینجی ڈرون Akinci کو ’انڈیجینس رینج ایکسٹینشن کٹ‘ (IREK) پریزیشن گائیڈڈ بم (PGB) کٹ، لیزر گائیڈڈ بم (LGB) اور MK-83 جنرل پرز بم (GPB) کے ساتھ دکھایا گیا ۔ دوسری طرف ٹی بی ٹو میں KEMANKES کروز میزائل نصب تھے۔ اس کا وزن 30 کلو گرام ہے اور یہ 6 کلوگرام وار ہیڈ کے ساتھ 200 کلومیٹر کی رینج رکھتا ہے۔پاک فضائیہ کا کہنا ہے کہ وہ KEMANKES کروز میزائل کا جدید ترین ورژن (سوم) بھی حاصل کر چکی جو مبینہ طور پر بڑا اور طویل فاصلے تک مار کرنے والا کروز میزائل ہے۔

ماہرین عسکریات کا کہنا ہے، آکینجی اور ٹی بی ٹو میں نصب جدید اسلحے کی تنصیب اس امر کا ثبوت ہے کہ پاک فضائیہ ڈرون کو ’’اسٹرائیک اثاثے‘‘ کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ مثال کے طور پر پی اے ایف کے آکینجی ڈرون کو بھاری ہتھیاروں کے ساتھ دکھایا گیا ، خاص طور پر 500 کلوگرام کلاس MK-83s بم لیے ہوئے، چاہے وہ فری فال GPBs، لانگ رینج PGBs، یا LGBs ہوں۔

ڈرون کی اہم خوبیاں

ڈرون کو حملہ کرنے کے ہتھیار کا درجہ دینے کی بنیادی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کی شکل میں افواج پاکستان کے پاس ایسا سستا اسلحہ آ جائے گا جو کارگر بھی ہے۔حالیہ جنگیں اس تاثر کو مضبوط کر رہی ہیں۔جیسا کہ آغاز ِ مضمون میں بتایا گیا کہ سستے روسی ڈرون نے مہنگے امریکی ٹینک تباہ و برباد کر ڈالے۔

ایک اور اہم خوبی یہ بھی ہے کہ اسلحہ بردار ڈرون میں کوئی انسان براجمان نہیں ہوتا، صرف مشین ہی دشمن کے علاقے میں جاتی ہے۔اس طرح قیمتی انسانی زندگیاں بھی خطرے میں نہیں پڑتیں اور محفوظ رہتی ہیں۔

تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ نئے ڈرون مصنوعی ذہانت کو بروئے کار لا کر اہداف پہ درست نشانہ لگانے لگے ہیں۔یوں ان کی افادیت اور کارکردگی میں اضافہ ہو گیا۔

ڈرون کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس کو جعلی یعنی ڈیکوئے(Decoy) یا ڈمی ہتھیار کے طور پہ استعمال کرنا بھی ممکن ہے۔ ہمارا دشمن، بھارت روس اور دیگر ممالک سے اینٹی میزائیل بڑی تعداد میں خرید رہا ہے۔مقصد یہی ہے کہ پاکستان کے میزائیلوں کو بے اثر بنایا جا سکے۔بھارت کا یہ اینٹی میزائیل نظام توڑنے کی خاطر ڈرون کام میں آ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پہ ایسے ڈرون بنا لیے جائیں جو جنگی طیاروں یا بڑے میزائیلوں سے مماثلت رکھتے ہوں۔ان کی تیاری پہ زیادہ خرچ نہیں آئے گا۔مگر وہ بھارت کے مہنگے اینٹی میزائیل تباہ کرنے کا باعث بن جائیں گے۔یوں دشمن کا اینٹی میزائیل نظام کمزور کر کے ممکن ہو جائے گا کہ اصلی ڈرون اور میزائیل بھیج کر اس کے فوجی اڈے اور عسکری تنصیبات تباہ کی جا سکیں۔

یہ درست ہے کہ ڈرون مار گرانے کے لیے بھی سائنس داں مختلف اقسام کا اسلحہ بنانے لگے ہیں۔جیسے امریکا میں لیزر گن کی تیاری جاری ہے۔اس سے اڑتے ڈرون کو سستے انداز میں نشانہ بنایا جا سکے گا۔مگر دوسری طرف ڈرون بنانے والے ماہرین بھی ڈرونوں میں ایسے جدید آلات نصب کر رہے ہیں جن کی مدد سے انھیں نشانہ بنانا کٹھن مرحلہ بن جائے۔

پاکستان معاشی طور پہ کمزور ملک ہے۔اس کے پاس اتنے زیادہ وسائل نہیں ہیں کہ وہ جدید ترین اسلحہ بڑی تعداد میں خرید سکے۔جبکہ اسی دوران بھارت معاشی طور پہ طاقتور ہو چکا۔اور بدقسمتی سے بھارت میں قوم پرست ہندو اقتدار میں آ چکے جو پاکستان کو اپنا مطیع وفرماں بردار بنانا چاہتے ہیں۔ اس مخالفانہ ماحول میں ضروری ہو چکا کہ افواج پاکستان ڈرون جسیے جامع کمالات رکھنے والے ہتھیار سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔یوں دشمن کا منہ توڑ مقابلہ کرنا سہل ہو جائے گا۔

مثال کے طور پرJF-17 یا F-16 کو اڑانے کے لیے ڈرون سے زیادہ لاگت آتی ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے لیے پی اے ایف انسانی تیز رفتار جیٹ طیاروں کے مقابلے میں درست طریقے سے حملوں کے لیے آکینجی پر زیادہ انحصار کرسکتی ہے۔ بدلے میں پی اے ایف اپنے F-16 اور JF-17 کو اسٹرائیک مشن کے دباؤ سے بچا سکتی ہے ۔جبکہ یہ طیارے بیرونی روایتی خطرات سے نمٹنے کے لیے فوری دستیاب بھی ہوں گے۔

دہشت گردوں کا مقابلہ

پاکستان دشمن تنظم، ٹی ٹی پی کے جنگجو پڑوسی ملکوں میں اپنی کمیں گاہیں اور اڈے بنا چکے۔پاکستان دشمن طاقتیں انھیں ہر ممکن عسکری ومالی مدد بھی فراہم کر رہی ہیں۔پاک افواج اب اپنے چار اسلحہ بردار ڈرون کے ذریعے ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کی اچھی پوزیشن میں آ گئی ہیں۔

پاکستانی ڈرون نہ صرف دہشت گردوں کی سرگرمیوں پہ نظر رکھ سکتے ہیں بلکہ ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر انھیں تباہ بھی کر سکتے ہیں۔یوں کسی انسانی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر پاکستان کو اپنے اسلحہ بردار ڈرون کی صورت میں ایسا کارگر و سستا ہتھیار مل گیا گیا ہے جس کی مدد سے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کا صفایا کرنا ممکن ہے۔یہ ڈرون سمارٹ اسلحہ رکھتے ہیں اور کسی بے گناہ کو نشانہ نہیں بناتے اور نہ کوئی سول عمارت ان سے تباہ ہوتی ہے۔

ماضی میں دہشت گردوں کے اڈوں پہ حملے کرنے کے لیے جنگی طیارے استعمال ہوتے تھے جن کو برتنے پہ اچھی خاصی رقم استعمال ہوتی ہے۔مگر اب سستے ڈرونوں کی مدد سے وہی کام زیادہ بہتر انداز میں انجام دینا ممکن ہو چکا۔یہ ایک نمایاں اور خوشگوار تبدیلی ہے۔ڈرون طویل عرصے تک ہوا میں رہ سکتے ہیں۔ ہوائی عملے کی تھکاوٹ کی وجہ سے مجبور نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی قیمت اتنی زیادہ ہوتی ہے۔یہ مستقل طور پہ حرکت پذیر ہدف بھی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

خوش آئند خبر

ایک خوشی کی خبر یہ ہے کہ پاکستان ساختہ اسلحہ بردار ڈرون دنیا بھر میں مقبول ہو رہے ہیں۔گویا ان کا معیار اتنا زیادہ اچھا ہو چکا کہ اب پاکستان انھیں دیگر ممالک کو بھی فروخت کر سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں بھارت اسلحہ بردار ڈرون بنانے کے میدان میں خاصا پیچھے ہے۔بھارتی سائنس داں اب تک صرف ایک اسلحہ بردار ڈرون، گھاتک بنا پائے ہیں۔گو وہ ڈرون طیارہ بنانے کی تگ ودو میں ہیں۔

بھارتی ماہرین کی ’’مشہوری‘‘

بھارت کے ماہرین کی مگر سستی و نااہلی دنیا بھر میں ضرب المثل بن چکی۔وہ ایک ہتھیار بناتے ہوئے کئی برس بلکہ عشرے لگا دیتے ہیں۔اور جب خدا خدا کر کے ہتھیار تیار ہو بھی جائے تو رفتہ رفتہ اس میں خامیاں سامنے آتی رہتی ہیں۔یوں وہ ایجاد غلطیوں کی پوٹ بن کر رہ جاتی ہے۔بھارتی ماہرین نے کم ہی ایسے ہتھیار تیار کیے ہیں جو غلطیوں سے پاک ہوں۔

پاکستانی ماہرین کی شہرت دنیا بھر میں اچھی ہے کیونکہ وہ اپنی محنت و ذہانت اور جذبہ حب الوطنی کے بل بوتے پر بروقت غلطیوں سے پاک اسلحہ ایجاد کر لیتے ہیں۔ان کے بنائے ہتھیاروں میں بھی سقم ہوتے ہیں۔مگر وہ اتنے زیادہ نہیں ہوتے کہ انھیں دور کرتے کرتے کئی سال بیت جائیں۔

حال ہی میں پاکستان نے 11 ممالک کے فوجی حکام کو شہپر دوم (بلاک ٹو )ڈرون دکھایا ۔یہ شہپر دوم کا نیا نمونہ یا ورژن ہے۔پاکستانی ماہرین کا دعوی ہے کہ یہ چین کے ڈرون، CH-4 اور ترکی کے TB2 سے بہتر ہے۔ گلوبل انڈسٹریل اینڈ ڈیفنس سلوشنز (GIDS) نے گیارہ اتحادی ممالک کے سینئر فوجی نمائندوں کے سامنے شہپر دوم کی براہ راست فائرنگ کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔

یہ مظاہرہ بہاولپور میں انجام پایا۔شہپر دوم نے اپنے ہوا سے زمین پر مار کرنے والے گائیڈڈ میزائل “برق” کا استعمال کرتے ہوئے 14 ہزار فٹ کی بلندی سے اہداف کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا۔اس کی فائرنگ کی صلاحیتوں کی درستگی اور کارکردگی پوری طرح سے ظاہر تھی کیونکہ پاکستانی ڈرون نے زمینی اہداف کو درست طریقے سے بے اثر کر دیا۔معزز مہمانوں میں سعودی عرب، آذربائیجان، کینیا، نائجیریا اور دیگر اتحادی ممالک کے فوجی نمائندے شامل تھے۔

اس تقریب نے گیارہ ممالک کو پاکستان کی مقامی ڈرون ٹیکنالوجی کی صلاحیتوں کا خود مشاہدہ کرنے اور دفاع میں ممکنہ تعاون تلاش کرنے کا موقع فراہم کیا۔آن لائن گردش کرنے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ جی ڈی آئی ایس کے حکام دوست ممالک کے نمائندوں کو شہپردوم کی جنگی صلاحیتوں کے بارے میں بریفنگ دے رہے ہیں۔ تصاویر بتاتی ہیں کہ مظاہرے کے دوران، شہپردوم (بلاک II) نئے Zumr-2-HD EO سینسر اور دو برق اول میزائلوں سے لیس تھا۔

یہ مظاہرہ ڈرون ٹیکنالوجی میں پاکستان کی ترقی اور اس کی دفاعی صلاحیتوں کو مضبوط بنانے کے عزم کا ثبوت ہے۔یہ پیش رفت پاکستان کی اپنے فضائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو متنوع بنانے اور دفاعی شعبے میں تکنیکی جدت طرازی میں آگے رہنے کے لیے جاری کوششوں کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

The post ڈرون سازی میں پاکستان کی شاندار کامیابیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

انقرہ کا قلعہ، گڑیوں کا بازار

$
0
0

(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ گیارہواں پڑاؤ)

انقرہ کاسل کو ترک زبان میں Ankara Kalesiکہتے ہیں۔ یہ کاسل (قلعہ) آٹھویں صدی قبل مسیح میں تعمیر ہوا اور اس کو دوبارہ 278 قبل مسیح میں Galatians   نے تعمیر کیا۔ اس کے بعد رومن بازنطنیہ اور سلجوق اور اس کے بعد خلافت کے دور میں بھی اس کی تعمیر ہوتی رہی۔

انقرہ میں تاریخی اعتبار سے یہ سب سے پرانا قلعہ ہے۔ ہمارا ارادہ صبح سویرے نکلنے کا تھا۔ ہم رات کو جو روٹیاں لے کر آئے تھے چائے کے ساتھ جام لگاکر کھائیں۔ بہت مزیدار لگیں۔ بالکل شیرمال جیسا

مزا تھا۔ تیار ہوکر جب ہوٹل سے باہر آئے تو گیارہ بج رہے تھے۔ لیجیے جناب آج بھی لیٹ ہوگئے۔ میں سویرے اٹھنے کی عادی ہوں اور ہر جگہ اس اصول پر قائم رہتی ہوں مگر آج جب صبح آنکھ کھلی تو خاصا اندھیرا تھا۔ وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوا حالاںکہ انقرہ میں پہلا دن خاصا آرام دہ تھا۔ باہر آکر وجہ معلوم ہوئی پورا آسمان گہرے سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ ہلکی سی سردی محسوس ہورہی تھی۔ اتنے سیاہ بادلوں اور سردی کے باوجود بھی بارش نہیں ہورہی تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا نے موسم خوشگوار کردیا تھا۔

ہم جس علاقے میں ٹھہرے ہوئے تھے وہ خاصا سنسان تھا مگر ہم جیسے ہی ہوٹلوں والی سڑک پر آئے تو معلوم ہوا کہ سارے ہوٹل کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ لوگ ناشتے سے لطف اندوز ہورہے تھے اور ساتھ موسم بھی انجوائے کررہے تھے۔ ہم نے بھی ایک ایک کپ چائے پی اور بس اسٹاپ پر آگئے۔ ہم سمجھ رہے تھے آج زیادہ رش نہیں ہوگا مگر بس کافی رش لے رہی تھی۔ انقرہ کا تو ٹرانسپورٹ سسٹم استنبول جیسا ہی ہے۔ ہمیں بس نے انقرہ کاسل کے اسٹاپ پر اتار دیا۔

دائیں طرف تو خاصا موڈرن علاقہ تھا مگر بائیں جانب کچھ پرانی عمارتوں کے آثار تھے، لیکن یہ انقرہ کاسل نہیں تھا، اس کے لیے ہمیں خاصا اوپر جانا پڑا۔ یہ قلعہ خاصی اونچائی پر بنا ہوا ہے۔ ایک طرف تو وہی پرانی عمارت تھی۔ درمیان میں خاصی چوڑی پتھریلی سیڑھیاں تھیں۔ کم از کم سو سے کم نہیں تھیں مگر سیڑھیوں کے دوسری طرف دکانیں تھیں اور ان کے آگے ہر سیڑھی کی چوڑائی کے برابر چبوترا تھا جس پر کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ اکثر پر دکان دار بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے نظر ایک دکان پر پڑی جہاں باہر وینڈو شوکیس میں ہر طرح کے اسکارف سجے ہوئے تھے۔ مجھ سے آتے وقت لڑکیوں نے ٹرکش اسکارف کی خاص طور پر فرمائش کی تھی۔ اب جو میں دکان میں داخل ہوئی تو مختلف طرح کے اسکارف کی الماریاں بھری ہوئی تھیں۔ ایک سے ایک خوب صورت اور نفیس اور قیمتی اسکارف موجود تھا۔ معلوم ہوا تھوک کی دکان ہے جو اسکارف باہر سو لیرا کا تھا یہاں پچاس لیرا کا مل رہا تھا۔ جو ذرا کم کوالٹی کے تھے وہ اور بھی کم قیمت کے تھے۔ میں نے دونوں طرح کے کافی اسکارف لے لیے مجھے معلوم تھا یہ اچھے والے تو بہویں اور بیٹیاں پہلے ہی ہتھیالیں گی۔ ہم بھی پہلے ایسا ہی کرتے تھے جو باہر سے آتا تھا حال چال پوچھنے کی بجائے بیگ میں پہلے جھانکتے تھے کہ سب سے پہلے اچھی چیز پر حق جتالیں۔

یہ بازار صرف اسکارف کا نہیں تھا۔ ہر طرح کی دکانیں ان سیڑھیوں کے ساتھ بنی ہوئیں تھیں۔ یعنی سیڑھیاں چڑھتے جاؤ خریداری کرتے جاؤ۔ سیڑھیاں جیسے ہی ختم ہوئیں سامنے ایک چوڑی سی سڑک تھی جس پر دو طرفہ دکانیں تھیں۔ معلوم ہوا یہ قلعے کی پہلی فصیل ہے جو پہاڑی کے اطراف بنی ہوئی ہے۔ جہاں اب فصیل کے ساتھ دکانیں بنادی گئی ہیں۔ قلعہ تو یہاں سے بہت اوپر تھا۔ ابھی ہمیں بیس پچیس سیڑھیاں اور چڑھنا تھیں جہاں یہ سیڑھیاں ختم ہورہی تھیں وہاں ایک چھوٹے میدان نما پکی جگہ تھی۔ یہاں سے دائیں طرف والی سڑک اوپر جارہی تھی اور بائیں طرف والی نیچے کی طرف جارہی تھی اور جو سامنے کی سمت سڑک تھی وہ بھی اونچائی کی طرف جارہی تھی اس کے دونوں طرف فٹ پاتھ بنے ہوئے تھے جہاں بیچیں لگیں ہوئیں تھیں۔

یہاں تو ایک طرف میوزیم کی عمارت تھی جو درختوں اور پتھریلی چاردیواری سے گھری ہوئی تھی اور دوسری طرف گھنے درختوں میں گھری پہاڑی ڈھلوانیں تھیں جو سبزے اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ ان جنگلی پھولوں میں عجیب سی مہک تھی جو بہت بھلی معلوم ہورہی تھی۔ اتنا خوش گوار موسم اور ٹھنڈی ہوائیں جو اوپر آکر اور ٹھنڈی ہوگئی تھیں۔ یہ کئی ایکڑ رقبے کا میوزیم تھا۔ ہم گیٹ کے بالکل سامنے والی بیچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ لوگ پیدل بھی آرہے تھے اور اِکا دکا گاڑیاں بھی آرہی تھیں۔ کچھ میں میوزیم آنے والے سیاح تھے اور کئی ایک گاڑیاں قلعہ جانے والی سڑک پر چلی گئیں جہاں درختوں سے گھری ایک پگڈنڈی نما سڑک اور تھی، اس کے سامنے بیریئر لگا ہوا تھا اور ایک چھوٹا سا گارڈروم بھی بنا ہوا تھا۔

ابھی ہم کو بیٹھے ہوئے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ گیٹ کے سامنے ایک کوسٹر آکر رکی اس میں جاپانی سیاح سوار تھے۔ کوسٹر نے سیاحوں کو اتارا اور واپس چلی گئی۔ اب سارے جاپانی لائن لگاکر ہاتھ باندھ کر ایسے کھڑے ہوگئے جیسے اسکول کے بچے ہوں۔ ان کے گائیڈ نے وہاں کھڑے ہوکر کچھ ہدایات دیں مگر کسی سیاح کے منہ سے آواز بھی نہیں نکلی۔ ہم نے صرف ان کی گردنیں ہلتی ہوئی دیکھیں۔ پھرسب گائیڈ کے پیچھے لائن سے میوزیم کے سائیڈ روم میں چلے گئے جہاں ان کی چیکنگ کرکے اندر جانے کی اجازت ملنی تھی۔ سیاحوں میں نوجوان لڑکے لڑکیاں ادھیڑ عمر بوڑھے، عورتیں اور مرد سب شامل تھے مگر کیا نظم وضبط تھا جیسے فوجی پیریڈ کرنے آئے ہوں۔

اب ہم کو قلعے میں جانے کے لیے ایک مرحلہ اور طے کرنا تھا۔ جب اس بیریئر والی جگہ سے گزرے تو ہم نے گارڈ سے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے؟ انقرہ میں ایک بات بہت اچھی لگی دکان دار ہوں، گارڈ ہوں یا عام لوگ ہوں وہ تھوڑی بہت انگریزی ضرور جانتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یہاں غیر ملکی بہت آتے ہیں اور تعلیم کا تناسب بھی استنبول سے زیادہ ہے۔ وہ گارڈ کہنے لگا یہ ممنوع علاقہ ہے۔ یہ رہائشی علاقہ بھی ہے یہاں غیرملکی اور ترکی کی ایلیٹ کلاس کے لوگ رہتے ہیں اور بغیر تصدیق کے کوئی اندر نہیں جاسکتا۔ ہمیں اندر جانا بھی نہیں تھا مگر باہر سے اندازہ ہوگیا تھا کتنا خوب صورت علاقہ ہوگا۔

یہاں تک تو عام سڑک تھی مگر جب ہم قلعے کی سمت مڑے تو وہی پتھریلی سڑک شروع ہوگئی۔ یہاں آکر میوزیم کی دیوار بھی ختم ہوگئی تھی اور پتھریلی سڑک چڑھائی کی سمت جارہی تھی مگر ابھی قلعہ نہیں آیا تھا۔ ہلکی ہلکی پھوار شروع ہوگئی تھی جو جلدی تیز بارش میں تبدیل ہوگئی۔ سڑک کے دونوں طرف دکانیں بنی ہوئی تھیں جس کے اوپر ایک یا دومنزلہ عمارت تھی۔ ہم ایک دکان کے شیڈ کے نیچے جاکر کھڑے ہوگئے اور بارش رکنے کا انتظار کرنے لگے۔ یہ لمبائی میں بنی ہوئی بہت خوب صورت دکان تھی جس کے اندر ہینڈی کرافٹ شیشے کے شوکیسوں میں سجی ہوئی تھیں۔ ایک فیملی وہاں پہلے سے موجود تھی۔ باپ اپنے دو بچوں اور ماں کے ساتھ شیڈ میں ہمارے ساتھ ہی تھا اور اس کی بیوی دکان میں اپنی بیٹی کے ساتھ چیزیں دیکھ رہی تھی۔ دونوں لڑکے بہت شرارتی تھے اور ایک پانچ سال کا بچہ تو عزیز کا بیگ چھینا چاہتا تھا۔ کبھی بازو میں لٹک جاتا کبھی اس سے کہتا کہ مجھے گود میں اٹھالو۔ دادی اس کو سنبھال نہیں پارہی تھیں جو چھوٹا بچہ تقریباً دو سال کا تھا وہ باپ کی گود میں تھا وہ بھی گود سے اترنے کی ضد کررہا تھا۔

دادی ترکی زبان میں معذرت کررہی تھیں آخر کار باپ سے برداشت نہ ہوسکا اس نے تھوڑی سی بچے کو سرزنش کی تو وہ بچہ تو زمین پر لوٹ پوٹ ہوگیا اور اس طرح چلا چلا کر رویا کہ جیسے اس کی بہت پیٹائی ہوئی ہو۔ باپ نے شرمندگی سے عزیز کو دیکھتے ہوئے ترکی میں کچھ کہا۔

عزیز نے انگریزی میں جواب دیا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے بچے ایسے ہی کرتے ہیں وہ صاحب تو انگریزی سن کر خوش ہوگئے۔ ہم جرمنی سے آئے ہیں۔ بچے پہلی بار ترکی آئے ہیں یہ کافی ضدی بچہ ہے صرف ماں کی بات سنتا ہے۔ یہ میری گود میں آنے کی ضد کررہا ہے ماں آجائے تو میں چھوٹے کو گود میں دے کر اسے گود میں اٹھالوں گا۔ عزیز نے کہا میرے بھی چھوٹے بھتیجے بھانجے ہیں۔ میں ان کو گود میں اٹھاتا ہوں اگر آپ کو برا نہ لگے تو میں اسے گود میں اٹھالیتا ہوں۔ وہ تو خوش ہوگیا۔ ’’well come well come یہ جب تک چپ بھی نہیں ہوگا، میرا چھوٹا بھائی بھی اسے گود میں اٹھاتا ہے تو یہ چپ ہوجاتا ہے۔‘‘ عزیز نے اس روتے ہوئے بچے کو گود میں اٹھالیا تو وہ واقعی چپ ہوگیا مگر ان صاحب کی بیگم اور بیٹی جو گیارہ بارہ سال کی تھی انہوں نے روتے بچے کی طرف توجہ نہیں کی اور آرام سے شاپنگ کرتی رہیں۔

بارش رک گئی تھی بچہ عزیز کی گود میں تھا اور ترکی زبان میں اس سے باتیں کررہا تھا اور دادی اور باپ اس کو دیکھ دیکھ کر نہال ہورہے تھے۔ ان صاحب نے عزیز سے کہا میری ماں کہہ رہی ہے یہ اپنے چچا کو یاد کررہا تھا۔ یہ لڑکے کا ہم عمر ہے جبھی تو چپ ہوگیا۔ خوش ہوگیا ہے دیکھو تو کتنی باتیں کررہا ہے۔ لیکن یہ خوشی کی بات تھی کہ بچہ جرمنی میں پیدا ہونے کے باوجود ترکی زبان جانتا تھا اور وہ لوگ انگریزی جاننے کے باوجود بھی اس سے انگریزی یا جرمن میں بات نہیں کررہے تھے۔ ان صاحب نے ہم کو بتایا کہ انقرہ میں بارش کا یہی طریقہ ہے۔ جلدی رک جاتی ہے۔ ماں بیٹی بھی شاپنگ کرکے لدی پھندی آگئی تھیں۔ شاپنگ کی وجہ سے دونوں بہت خوش تھیں اور ماں کو تفصیل بتانے میں مگن تھیں۔ چھوٹے نے ماں کو دیکھ کر رونا شروع کردیا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوئی۔ عورت کہیں کی بھی ہو شاپنگ اس کی بہت بڑی کم زوری ہے۔ میاں نے بچہ ماں کو دے کر بڑے بچے کو گود میں لے لیا اور ماں اور بیٹا بار بار عزیز کا شکریہ ادا کررہے تھے۔

ہم شیڈ سے باہر آنے لگے تو بچہ بھی ہم کو ہاتھ ہلاہلا کر خدا حافظ کررہا تھا۔ ترکی شاپنگ رکھنے کے لیے ہلکے پھلکے بیگ استعمال کرتے ہیں جن میں پہیے (ویل) لگے ہوتے ہیں۔ وہ فیملی ابھی بھی شیڈ میں کھڑی تھی اور سامان بیگ میں پیک کررہی تھی۔ ہم باہر آئے تو پتھریلی سڑک دُھلی ہوئی صاف ستھری لگ رہی تھی، وہ تو پہلے ہی اتنی صاف ستھری تھی اب تو چمک رہی تھی۔ آسمان پر بادل تھے مگر بارش کے بعد ہلکے ہوگئے تھے۔

قلعے کی دیوار کے ساتھ ہوٹل اور دکانیں بنی ہوئی تھیں مگر ہینڈی کرافٹ کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ دکانیں ہاتھ سے بنی گڑیوں کی تھیں۔ کچھ گڑیاں تو ایک چار پانچ سال کے بچے کے برابر تھیں۔ ہم نے ایک ایسی دکان بھی دیکھی جو نیچی چھت اور دروں والی پرانی سی دکان تھی جس کی دیواروں پر ہاتھ سے بنی گڑیاں لائن سے لگی ہوئیں تھیں۔ پوری دکان گڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ کچھ خاصی ڈرؤانی لگ رہی تھیں۔ دکان کے آخرکونے میں دکان دار زمین پر لگی ہوئی گدی پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ خاصا عمررسیدہ تھا اور اس نے ہمیں دیکھ کر بھی کوئی توجہ نہیں کی بلکہ چھوٹے سے حقے کے کش لگاتا رہا۔ لگ رہا تھا اسے اپنی گڑیاں بیچنے سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ دکان میں تمباکو کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی جس کی وجہ سے دکان کی فضا اور پراسرار لگ رہی تھی اور بوڑھا دکان دار بھی بہت پراسرار شخص لگ رہا تھا۔

ہم تھوڑی دیر کھڑے رہے جب تک عزیز ویڈیو بناتا رہا پھر انہیں قدموں واپس پلٹ گئے۔ ہم آگے بڑھے تو ایسی کئی اور دکانیں نظر آئیں جن میں گڑیاں فروخت ہورہی تھیں۔ شاید یہ خاص قسم کی گڑیاں تھیں اور یہ گڑیا بازار تھا۔ قلعہ کی دیوار کے ساتھ یہ جو چھوٹا سا گاؤں یا شہر آباد تھا۔ وہاں شاید قدیم زمانے میں بھی شہر ہی ہوگا۔ جو اب ایک موڈرن علاقے میں تبدیل ہوچکا تھا۔ یہاں قدیم اور جدید کا عجیب سا امتیاز نظر آیا۔ دیواریں اور سیڑھیاں پرانے سیاہ پتھروں کی ٹوٹی پھوٹی اور دکانیں اور مکانات نئے بنے ہوئے۔ اس قلعے کو کئی طرف سے راستے آرہے تھے اور اوپر جانے کے لیے بھی کئی طرف سے سیڑھیاں موجود تھیں۔ ہم جس راستے سے اندر داخل ہوئے وہ ایک بہت بڑا در تھا جس کا دروازہ نہیں تھا، مگر اس در کے فوری بعد ایک کشادہ پتھریلا چبوترا اور اس کے ساتھ ہی اوپر جانے والی سیڑھیاں اور ساتھ ہی نیچے جانے والی سیڑھیاں تھیں۔ یہ سیڑھیاں ایک چھوٹے سے تہہ خانے میں جارہی تھیں۔ لوگ اس میں جھانک کر دیکھتے ضرور تھے مگر اندر جانے کی کسی نے بھی ہمت نہ کی کیوںکہ وہاں خاصا اندھیرا تھا اور مسلسل پانی جمع ہونے سے بدبو تھی۔ بارشیں تو بہت ہوتی تھیں شاید نکاسی کا راستہ نہیں ہوگا۔

میری توہمت اندر جھانکنے کی بھی نہیں ہوئی تھی۔ اوپر جانے والی سیڑھیاں تعداد میں نو دس تھیں اور پھر ایک چبوترا اور پھر ایسی ہی سیڑھیاں ہر سیڑھی کے ساتھ ہی ایک در بنا ہوا تھا۔ اندازہ ہورہا تھا کہ یہ جگہ ضرور لیمپ یا روشنی کے لیے مشعل وغیرہ رکھنے کے لیے بنائی گئی ہوگی، مگر اس قلعے کی حالت خاصی مخدوش تھی۔ سیڑھیاں بھی آدھی سے زیادہ ٹوٹی ہوئی تھیں ۔ ایسی پانچ چھے سیڑھیاں عبور کرکے ہم اوپر پہنچ گئے۔ میں یہ سوچ رہی تھی کہ آخر اس مخدوش قلعے میں ایسا کیا ہے کہ ایک خلقت اسے دیکھنے آرہی ہے۔ کوئی بیس پچیس افراد تو ہمارے ساتھ ان سیڑھیوں پر موجود تھے۔ ابھی ہم جس جگہ آئے تھے یہ ایک لمبی راہ داری تھی جس میں جگہ جگہ در بنے ہوئے تھے۔ کبھی یہاں سے باہر دیکھا جاتا ہوگا کیوںکہ ان دروں سے اندر جاؤ تو کھڑکیاں بھی تھیں جن کو اب بند کردیا گیا تھا۔ یہ چھوٹے چھوٹے سے کمرے بن گئے تھے۔ مگر سب آپس میں ملے ہوئے تھے اور ہموار بھی نہیں تھے اور عجیب سی سیلن زدہ بو بھی تھی۔ مجھے تاریخ سے دل چسپی ضرور ہے مگر میں کوئی تاریخ داں نہیں کہ قلعہ کی ایک ایک اینٹ کا مطالعہ کرتی۔ عزیز کو بھی صرف دیکھنے سے دل چسپی تھی مگر کچھ لوگ تو اندر جاکر جائزہ لے رہے تھے۔

تھوڑے تھوڑے فاصلے پر اوپر جانے والی سیڑھیاں اور بنی ہوئیں تھیں جو قلعے کی فصیل پر جارہی تھیں۔ ہمارے پیچھے جو لوگ آرہے تھے ان میں سے کسی نے عزیز کو پیروں سے پکڑلیا۔ یہ وہی ننھا منا بچہ تھا جو ہمیں شیڈ میں ملا تھا۔ وہ تو عزیز کو دیکھ کر خوشی سے دیوانہ ہوگیا اور پھر مچلنے لگا کہ مجھے گود میں لے لو کیوںکہ بچے کا ہاتھ دادی نے پکڑا ہوا تھا ابا اماں اور بیٹی تو اندر جاکر دیکھنا چاہ رہے تھے مگر دادی نے معذرت کرلی تھی۔ وہ بچے کو دادی کو پکڑا کر اندر جارہے تھے کہ اس نے عزیز کو دیکھ لیا اور اس سے آکر لپٹ گیا۔ اب دادی، ماں باپ بچے کو دیکھ کر نہال ہورہے تھے۔ ماں تو ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہی تھی۔ عزیز اس بے گار کو سوچ کر ہلکان ہورہے تھے کہ کہیں بچہ ان کی گود میں چڑھ کر فصیل پر جانے کی ضد نہ پکڑلے اور اگر عزیز گود میں لینے سے انکار کردے گا تو وہ زمین پر لیٹ کر رونے لگے گا۔ ان صاحب نے عزیز سے بے تکلفی سے کہا اچھا ہوا کہ تم مل گئے۔ میں آرام سے اندر جاکر ان تجسس کی ماری بلیوں کو دکھاکر لے آؤں گا، ورنہ اس شرارتی بچے کی طرف سے پریشان رہتا۔ عزیز نے بے بسی سے میری طرف دیکھا اور بچے کو گود میں اٹھالیا۔ دادی نہ جانے ہم سے ترکش میں کیا کچھ کہتی رہیں مگر ہماری سمجھ میں تو کچھ بھی نہیں آرہا تھا اور بچہ بھی وہ کہانیاں جو شیڈ میں ادھوری رہ گئیں تھیں سنارہا تھا۔ اﷲ بھلا کرے اس سیلن زدہ بدبو کا وہ لوگ جیسے اندر گئے تھے الٹے پاؤں واپس آگئے۔ دونوں ماں بیٹی نے منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور ابا ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہورہے تھے اور بچہ عزیز کے گلے میں ہاتھ ڈالے چپکا ہوا تھا۔

اتنی دیر میں بچے کی ماں کو کچھ خیال آیا اس نے میاں سے ترکش میں کہا تو اس نے موبائل نکال کر ہمارے سامنے کردیا۔ وہاں عزیز کی گود میں اس کا بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔ اب حیران ہونے کی ہماری باری تھی۔ میرا چھوٹا بھائی ہے تمہاری شکل اس سے ملتی ہوئی ہے۔ تمہارا ہم عمر ہے مگر اس کی چھٹیاں نہیں تھیں تو وہ ہمارے ساتھ نہ آسکا میرا بیٹا اس سے بہت اٹیچ ہے ہم کو زیارت کے لیے حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار آنا تھا ورنہ ہر ٹور پر وہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے۔ اب ہماری سمجھ میں آیا کہ بچہ عزیز سے اتنا بے تکلف کیوں ہورہا تھا۔ واقعی اتنی شباہت ہونا حیرانی کی بات تھی۔ حد تو یہ کہ باتوں سے، اسٹائل بھی عزیز جیسا تھا ۔ ان صاحب نے تمام رابطے لے لیے اور عزیز کو تصویر بھی سینڈ کردی۔ عزیز نے انہیں بتایا کہ ہم بھی حضرت ابوایوب انصاریؓ کے مزار کی زیارت کرکے آرہے ہیں۔ وہاں ہم نے اس طرح کے چھوٹے لڑکے دولہا بنے دیکھے تھے۔ عزیز نے انہیں بھی ان لڑکوں کی تصویریں دکھائیں۔ تو ماں کبھی اشاروں سے عزیز کو چومیں، کبھی دعا کریں۔ بار بار اسے سینے پر ہاتھ رکھ کر خلیل خلیل کہیں اور اپنے بیٹے سے کہا کہ انہیں خلیل کی اور اپنی دولہا بنی تصویریں دکھاؤ اور وہ صاحب ایک کے بعد ایک تصویریں دکھاتے رہے۔ خلیل کی تصویریں دیکھ کر تو ایسا لگ رہا تھا کہ عزیز کے بچپن کی تصویریں ہیں، سبحان اﷲ تیری شان۔ یہ تصویریں دیکھ کر تو یقین ہوگیا کہ دنیا میں ایک شکل کے سات لوگ ہوتے ہیں۔ باپ نے عزیز کی گود سے بچہ لے لیا تو ہم خدا حافظ کہہ کر اوپر والی سیڑھیاں چڑھ کر فصیل پر آگئے۔ وہ لوگ بھی ہمارے ساتھ ہی اوپر آگئے تھے۔

میں نے اس قلعے کی مخدوش حالت دیکھ کر سوچا تھا کہ لوگ اس قلعے میں کیا دیکھنے آتے ہیں، تو فصیل پر آکر جواب مل گیا۔ یہ تقریباً سو گز چوڑی فصیل تو ہوگی جس کے سارے کنگورے تو جھڑچکے مگر حفاظت کے لیے لوہے کی مضبوط اونچی گرل لگادی گئی تھی۔ کہیں کہیں دیوار سلامت تھی تو وہاں بھی اونچائی پر گرل لگی ہوئی تھی۔

کچھ نوجوان تو اس دیوار پر چہل قدمی بھی کررہے تھے اور چاہتے تھے کہ گرل پر بھی چڑھ جائیں یہاں کوئی بھی گارڈ موجود نہ تھا۔ تمام سیاح جن میں یورپی، جاپانی، جرمن، سب ہی شامل تھے دیوار پر کسی نے چڑھنے کی کوشش نہیں کی۔ سوائے ان چند زندہ دل نوجوانوں کے، دیوار پر اتنا رش تھا کہ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ یہاں آکر سردی کا احساس بڑھ گیا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی مگر بادل پھر گہرے ہونا شروع ہوچکے تھے۔ ہم فصیل پر تھوڑا آگے بڑھے تو فصیل کے پاس جگہ مل گئی۔ یہاں رش کچھ کم تھا۔ فصیل کے قریب آنے سے معلوم ہوا کہ یہاں سے پورے شہر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ایک ناقابل یقین حد تک خوب صورت نظارہ تھا۔ قلعے کے اندر اور باہر بنے ہوئے مکانات جن کی چھتیں ایک انداز کی سرخ کھپریل کی بنی ہوئی تھیں اور آگے کا شہر بھی دور دور تک نظر آرہا تھا۔

حالاںکہ قلعے کے اندر اور باہر کا تمام علاقہ Botanical تھا اور وقت کے ساتھ خود ہی آباد ہوتا رہا تھا مگر پھر بھی ترتیب بہترین تھی اور صفائی ستھرائی کی وجہ سے اور خوب صورت لگ رہی تھی۔ ہم یہاں زیادہ دیر نہیں رک پائے کیوںکہ بوندا باندی شروع ہوچکی تھی۔ بادلوں کی وجہ سے لگ رہا تھا کہ کچھ دیر میں اور تیز ہوجائے گی کیوںکہ قلعہ خاصا مخدوش تھا، اس لیے بارش سے پھسلن بھی ہوجاتی۔ آہستہ آہستہ فصیل خالی ہورہی تھی کیوںکہ فصیل سے اترنے کے کئی راستے تھے، اس لیے زیادہ رش نہیں لگ رہا تھا مگر جب ہم نیچے آئے تو وہ لوگ ہم کو پھر مل گئے۔ بچہ تو باپ کے کاندھے سے لگا سورہا تھا۔ دو سالہ بچے کو ماں نے سنبھالا ہوا تھا اور بچی نے دادی کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ ترکی میں مسلمان خاندانوں میں مشترکہ خاندانی نظام اب بھی موجود ہے۔ ان کو دیکھ کر خوشی ہورہی تھی حالاںکہ ماں اتنی بوڑھی اور کم زور نہیں تھیں مگر فیملی ان کا خیال رکھ رہی تھی۔ شاید وہ دوسرے راستے سے آئے تھے اس لیے اسی طرف چلے گئے۔ ہم میوزیم والے راستے سے واپس آگئے۔ یہ ڈھلوانی راستہ تھا مگر قلعہ کی سیڑھیاں اترنے چڑھنے سے خاصی تھکن ہورہی تھی۔

میوزیم کے آگے جو دیوار تھی اس میں سے سیڑھیاں دوسری طرف سڑک پر اتر رہی تھیں، کیوںکہ ہمیں اندازہ ہورہا تھا کہ اگر ہم جس راستے سے آئے تھے اس طرف سے واپس جائیں گے تو پھر سیڑھیاں اترنی ہوں گی وہ بھی پتھریلی۔ یہ نئی بنی ہوئی اچھی سیڑھیاں تھیں ہم آرام سے نچلی سڑک پر آگئے۔ یہ رہائشی علاقہ لگ رہا تھا ایک کمپاؤنڈ میں بہت خوب صورت مکان بنے ہوئے تھے اور ساتھ پارکنگ ایریا تھا۔ دوسری طرف پہاڑی ڈھلوانیں تھیں جو بے انتہا سرسبز تھیں اور اونچے اونچے درخت سایہ کیے ہوئے تھے اور پھوار کو بھی روکے ہوئے تھے۔ ہم آرام سے چلتے ہوئے بازار کی سمت آگئے مگر ہمارے دائیں بائیں کچھ جگہیں ایسی بھی ملیں جن سے لگ رہا تھا کہ یہ کاٹج انڈسٹری کا علاقہ ہے۔ اب پھوار پھر سے بارش میں تبدیل ہوگئی تھی۔ ہم ایک ریسٹورنٹ میں آگئے۔ یہاں آکر احساس ہوا کہ ہمیں خاصی بھوک لگ رہی ہے اور اب سردی بھی لگ رہی تھی حالاںکہ میں نے سویٹر پہنا ہوا تھا مگر عزیز کے بیگ پیک میں شال بھی رکھوائی ہوئی تھی وہ بھی پہن لی۔

اس وقت جو ہم نے کھانا کھایا وہ اس ٹور کا سب سے بہترین کھانا تھا یا موسم اتنا خوب صورت ہوگیا تھا کہ کھانے کا لطف آگیا۔ بارش رکنے کے بعد جب ہم باہر آئے تو سڑک پر ایک قطرہ پانی کا نہیں تھا۔ بس بھی ہمیں جلدی مل گئی۔ ہوٹل آکر جو سوئے تو سویرے آنکھ کھلی۔ ہمیں آج ہوٹل چھوڑ دینا تھا اور قونیہ کے لیے روانگی تھی، اس لیے جلدی اٹھ گئے۔ ناشتہ تو باہر ہی کرنا تھا، کیوںکہ چائے کا سامان بھی ختم ہوگیا جب ہم چیک آؤٹ کرکے باہر آئے تو موسم آج بھی ابرآلود تھا اور ناشتے کے لیے ہوٹل کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔

ہم جب ناشتہ کررہے تھے تو ہمارے سامنے والی میز پر کچھ جرمن بیٹھے ہوئے تھے۔ جرمن بڑی سخت لہجے والی زبان ہے اور جرمن قوم بھی سخت رویہ رکھنے والی نظم وضبط کی پابند قوم ہے۔ ہمیں اس بات کا بخوبی اندازہ اس لیے ہے کہ میرے جیٹھ پچاس سال سے زیادہ عرصے تک جرمنی میں رہے ہیں اور ان کے بچے بھی آتے جاتے رہتے ہیں۔ جرمنوں کا رہن سہن بہت سادہ ہے اور کھانا نہ زیادہ پکاتے ہیں نہ ضائع کرتے ہیں۔ عزیز اس بات پر حیرت زدہ ہورہا تھا کہ انقرہ میں جاپانی اور جرمن سیاح بہت نظر آتے ہیں اور ترکوں کے پورے پورے خاندان جرمنی میں آباد ہیں اور آرام سے ایک دوسرے کے ملک میں سفر کرتے ہیں۔ میں نے عزیز کو بتایا کہ مجھے اس کے پس منظر کا اتنا تو اندازہ نہیں ہے مگر جنگ عظیم دوئم کے زمانے میں جرمنی، جاپان، اٹلی اتحادی ممالک تھے اور ترکی کی حکم رانی خلافت عثمانیہ کے ہاتھ میں تھی، انہوں نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا۔ ہمارے مسلمان نظام حیدرآباد نے برصغیر میں تحریک خلاف کا ساتھ دیا تھا جس کے خلافت عثمانیہ کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔ جب جاپان پر ایٹم بم مارا گیا اور جنگ ختم ہوگئی تو جرمنی اور ترکی میں آزادانہ دو طرفہ تعلقات قائم رہے اور آزاد تجارت اور ویزے کی آسانی ہوگئی تو ہزاروں ترک باشندوں نے جرمنی کی ترقی میں ہاتھ بٹانے کے لیے وہاں ہجرت کرلی تھی، کیوںکہ جرمنی میں افرادی قوت کی کمی ہوگئی۔ ہزاروں جرمن جنگ میں مارے گئے تھے اور جرمنی مکمل طور پر تباہ ہوچکا تھا اور یہ تعلقات آج تک قائم ہیں۔

’’اماں اِس کا مطلب ترک لوگ تعلقات رکھنا چاہتے ہیں، یہ دیکھیں ایک میسج آیا ہے۔‘‘ اس نے موبائل میرے سامنے کیا اس میں عبدالرحمان کا میسج آیا ہوا تھا۔ عبدالرحمان خلیل کا بھائی جو ہمیں قلعہ میں ملا تھا۔ اس نے ہمیں خدا حافظ کہا تھا اور قونیہ کے سفر کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔ اس کے ساتھ خلیل اور عزیز کی تصویر بھی ساتھ ساتھ لگائی ہوئی تھی۔

واقعی مسیج دیکھ کر خوشی ہوئی تھی۔ عزیز نے اسے خداحافظ کہا اور بتایا کہ ہم میٹرو ٹرین کے اسٹاپ جارہے ہیں۔ انشاء اﷲ جیسے ہی وقت ملا میں جواب دوں گا۔ اس وقت اس کا میسج آگیا،’’میں انتظار کروں گا خداحافظ۔‘‘

یہاں ہم اپنے پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں تاکہ بارہویں پڑاؤ کی سمت قدم بڑھاسکیں۔

The post انقرہ کا قلعہ، گڑیوں کا بازار appeared first on ایکسپریس اردو.

ہارٹ اٹیک کی خاموش علامات

$
0
0

قدرت نے انسانی جسم کو وہ بہترین نظام دیا ہے، جسے سمجھنے کے لئے عقل انسانی ہزاروں سال سے محنت کر رہی ہے، لیکن آئے روز ہونے والی نت نئی تحقیقات حیران کن حقائق سے پردہ اُٹھا رہی ہیں؟ انسانی جسم کا ہر عضو انمول ہے لیکن اس پورے ڈھانچے میں ’’دل‘‘ کو خاص اہمیت حاصل ہے، کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ قدرت نے انسانی جسم کے ہر اہم عضو کو جوڑے میں بنایا یعنی دو دو بنائے لیکن دل وہ واحد عضو ہے، جو صرف ایک ہی ہے۔

صحت مند، خوبصورت اور پاکیزہ دل صرف ایک انسان نہیں بلکہ پورے معاشرے پر اثرانداز ہوتا ہے، کیوں کہ یہ دل دو کو چار بنانے کے بجائے ’’دو‘‘ دوسرے کو دینے کا ظرف پیدا کرتا ہے اور یہی ایک بنیادی چیز ہے، جو کسی بھی معاشرے کو مہذب اور خوشحال بناتی ہے۔ لیکن آج کی دنیا میں یہ دل صرف روحانی ہی نہیں بلکہ طبی اعتبار سے بھی مشکلات کا شکار ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال دنیا میں ایک کروڑ 79 لاکھ افراد دل کی بیماریوں کے باعث جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ دنیا میں31 فیصد اموات کی وجہ صرف دل کی بیماریاں ہیں جبکہ کچھ ممالک میں یہ شرح 80 فیصد ہے۔ ورلڈ ہارٹ فیڈریشن کے اعداد و شمار کے مطابق 2030ء تک دل کی بیماریوں سے ہونے والی اموات ایک کروڑ 79 لاکھ سے بڑھ کر 2 کروڑ30 لاکھ سے تجاوز کر سکتی ہیں۔

اگرچہ دل کی علالت کا بڑا ذمہ دار انسان خود ہی ہے کیوں کہ آج کے طرز زندگی نے اسے ناکارہ بنا دیا ہے، تمباکو نوشی،کولیسٹرول کی زیادتی، بے قاعدہ ورزش یا اس کابالکل نہ ہونا ،خوراک میں پھلوں اور سبزیوں کے استعمال کا نہ ہونا، بلڈپریشر، ذہنی دباؤ، تفریح کا فقدان اور موٹاپا وغیرہ جیسی انسانی غفلت نے دل کے امراض میں بے پناہ اضافہ کیا ہے لیکن ایک غفلت کے بعد دوسری غفلت یعنی بیماری سے لاعلمی نے اسے مزید مہلک بنا دیا ہے۔

ایک امریکی تحقیق کے مطابق امریکا جیسے جدید ملک میں بھی صرف27 فیصد افراد دل کی بیماری کی علامات سے واقف ہیں، یہی وجہ ہے کہ امریکا میں اچانک حرکت قلب بند ہونے کے باعث ہونے والی 50 فیصد اموات ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ہو جاتی ہیں تو ایسے میں پاکستان جیسے غریب ممالک کے کم علم باسیوں کا کیا معاملہ ہوگا؟ پھر دی جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق امراض قلب میں مبتلا 10 مرد و خواتین میں سے 8 کا یہ کہنا ہے کہ ان کے پہلے ہارٹ اٹیک سے قبل انہیں اپنی دل کی کسی بھی قسم کی خرابی کے بارے میں معلوم ہی نہیں تھا۔

سینے میں درد، دباؤ، ٹھنڈے پسینے یا اچانک بہت زیادہ کمزوری محسوس ہونا تو ہارٹ اٹیک کی بڑی اور معروف علامات ہیں، جن کے بارے میں فوری طور پر بتایا جا سکتا ہے لیکن ہارٹ اٹیک کی کچھ ایسی خاموش علامات بھی ہیں، جن کے بارے میں عمومی آگاہی نہیں ہوتی اور اپنی ناسمجھی میں ہم انہیں وہ اہمیت نہیں دیتے، جس کی یہ متقاضی ہیں۔ تو آئیے اب آپ کو جدید ترین ریسرچ کی روشنی میں ایسے چند علامات سے روشناس کرواتے ہیں۔

کچھ غلط ہونے کا احساس

زندگی میں بعض اوقات ایسا وقت بھی آتا ہے، جب انسان خود کو بالکل بجھا ہوا محسوس کرتا ہے تو ایسے میں اس معاملہ پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آپ کا جسم آپ کو کیا بتانے کی کوشش کر رہا ہے؟ نیویارک میں امراض قلب میں 25سالہ تجربہ کی حامل امریکی ڈاکٹر سٹیسی ای روزن کا کہنا ہے کہ ’’ہارٹ اٹیک کے مریضوں نے مجھے بتایا ہے کہ انہیں بے چینی کا احساس ہوا، جیسے کہ کچھ بھی ٹھیک نہ ہو، لہذا اگر آپ کچھ غلط محسوس کریں تو یہ اچھا ہے کیوں کہ اس سے آپ محتاط ہو سکتے ہیں‘‘ مزید برآں ڈاکٹر روزن نے رپورٹ کیا ہے کہ ان کے کچھ مریضوں نے دل کا دورہ پڑنے سے پہلے ذہنی طور پر کمزوری محسوس کرنے کی اطلاع بھی دی۔

شدت سے جسم کو جکڑنے کا احساس

امریکی ماہر امراض قلب اور اوہائیو سٹیٹ یونیورسٹی ویکسنر میڈیکل سینٹر میں کارڈیو ویسکولر میڈیسن کے اسسٹنٹ پروفیسر جم لیو کہتے ہیں کہ اگرچہ ہارٹ اٹیک یعنی سینے کے درد کو چھرا گھونپنے کی مانند یا ایک مدھم درد کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔ تاہم، بعض اوقات دل کا دورہ پڑنے سے آپ کے سینے پر دباؤ اور بھاری پن محسوس ہوتا ہے، یا جیسے آپ کو مضبوطی سے نچوڑا جا رہا ہو۔ تو یہ ہارٹ اٹیک کی پیشگی اطلاع ہو سکتی ہے، لہذا فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

تھکاوٹ

ڈاکٹر روزن کا مشاہدہ ہے کہ تھکاوٹ دل کے دورے کی سب سے عام علامات میں سے ایک ہے، جسے وہ خاص طور پر خواتین میں دل کے دورے کے مریضوں میں دیکھتی ہیں۔ ڈاکٹر روزن کہتی ہیں کہ میرے 25 سالہ تجربے کا یہ نچوڑ ہے کہ دل کے دورے کے دہانے پر موجود لوگ تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں اور اپنی معمول کی سرگرمیاں نہیں کر پاتے۔ ہارٹ اٹیک کے دوران دل میں خون کا بہاؤ کم ہو جاتا ہے۔

یہ پٹھوں پر اضافی دباؤ ڈالتا ہے، جس کی وجہ سے تھکن کا یہ احساس ہوسکتا ہے۔ جو سرگرمیاں آپ بہت آرام سے کر رہے ہوتے ہیں اور اچانک ان کی ادائیگی میں مشکلات پیش آنے لگیں تو یہ سرخ جھنڈی کے مترادف ہے، اگر رات کی بھرپور نیند آپ کو تھکاوٹ کے احساس سے نجات نہیں دلاتی تو آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر آپ بہت زیادہ تھکاوٹ محسوس کر رہے ہیں، تو برائے مہربانی اپنے ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت حاصل کریں۔

کمر، سینے یا دونوں بازوؤں میں درد

ڈاکٹر روزن واضح کرتی ہیں کہ کمر، سینے یا دونوں بازوؤں میں نمایاں درد، اکثر خاموش دل کے دورے کی علامت ہے۔ چونکہ یہ درد اکثر سینے کے بوجھ کے ساتھ نہیں ہوتا ہے جو عام طور پر دل کے دورے سے منسلک ہوتا ہے، اس لیے لوگ اکثر اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ یہ درد غلط سونے یا کسی زخم کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے لیکن اگر ان دونوں میں سے کوئی بھی صورت نہ ہو تو پھر آپ کو ایک بار ضرور ڈاکٹر سے ملنا چاہیے۔

ورزش کے دوران درد

امریکی ماہر امراض قلب اسسٹنٹ پروفیسر جم لیو کہتے ہیں کہ ہارٹ اٹیک کی عام طور پر نظر انداز کی جانے والی علامت سینے، بازوؤں، کندھوں یا کمر کے گرد درد ہے جو کہ صرف ورزش کے دوران ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کی دل کی شریانوں میں جزوی رکاوٹ ہے، تو یہ آپ کے دل میں خون کے بہاؤ کو محدود کر سکتا ہے، جس سے کمزوری اور درد کا احساس ہوتا ہے۔ جب آپ ورزش کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو درد رک سکتا ہے، کیونکہ دل کو اس اعتبار سے خون کے بہاؤ کی بہت ضرورت نہیں ہوتی، یا یہ آرام کے دوران بھی جاری رہ سکتا ہے۔ لہذا یہ دونوں عمل دل کی بیماری کی علامات سے متعلق ہو سکتے ہیں۔

سانس لینے میں دشواری اور خراٹے

اگرچہ عام طور پر سیڑھیاں چڑھنا آپ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا ہے لیکن اچانک آپ اپنے آپ کو ہوا کے لیے ہانپتے ہوئے محسوس کرتے ہیں، تو یہ دل کے دورے کا اشارہ دے سکتا ہے۔ ڈاکٹر روزن کہتی ہیں کہ خواتین مجھے بتاتی ہیں کہ انہیں قدموں پر چلتے ہوئے یا گروسری لے جانے کے دوران تھکاوٹ یا سانس لینے میں دشواری محسوس ہوتی ہے، جب کہ وہ عام طور پر ایسا محسوس نہیں کرتی تھیں۔ مزید برآں نیند کے دوران سانس لینے کے عمل میں دشواری خراٹوں اور نتیجتاً ہارٹ اٹیک کا باعث بن سکتی ہے۔ دوران نیند سانس لینے میں دشواری کے باعث انسانی جسم میں آکسیجن کی سطح گر جاتی ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے خون کی نالیوں میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے جو دل کے لئے بالکل بھی اچھا نہیں۔

سینے کی جلن یا ڈکار

اگر آپ کو پیٹ بھر کر دوپہر کے کھانے کے بعد کبھی کبھار سینے کی جلن کا احساس ہوتا ہے، تو اس کے بارے میں فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ہوسکتی ہے۔ لیکن اگر یہ معمول سے باہر ہے، یا اگر سینے کی جلن نے آپ کو پہلے کبھی پریشان نہیں کیا تو پھر آپ کو فوری طور پر ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔ ڈاکٹر لیو کہتے ہیں کہ انجائنا، سینے میں جلن جیسا درد، دل میں خون کے بہاؤ کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے جو دل کے دورے کا اشارہ دے سکتا ہے۔

پیٹ خراب

دل کے دورے کی علامات بعض اوقات پیٹ کے مسائل جیسے متلی، الٹی یا مجموعی طور پر معدے کی خرابی بھی ہو سکتی ہیں، خاص طور پر خواتین میں ایسا ہونے کا زیادہ خدشہ رہتا ہے۔ ڈاکٹر روزن کہتی ہیں کہ اگر آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے تو ہمیشہ اپنے ڈاکٹر کو کال کریں، خود سے کوئی ٹوٹکا استعمال نہ کریں کیوں کہ اس سے مرض کی شدت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

گلے، گردن یا جبڑے کی تکلیف

ماہرین امراض قلب کی جدید تحقیق بتاتی ہے کہ گردن، گلے یا جبڑے میں انجانی تکلیف دل کے دورے کی نشاندہی کر سکتی ہے۔ ڈاکٹر روزن کا کہنا ہے کہ ذیابیطس کے شکار لوگوں کے لیے اس طرح کی باریک تبدیلیوں پر توجہ دینا خاص طور پر اہم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کچھ ایسے احساسات کو محسوس کرنے میں پریشانی کا سامنا کر سکتے ہیں جو اہم الارم کے طور پر کام کرتے ہیں کہ کچھ سنگین غلط ہوسکتا ہے۔

علاوہ ازیں ایک صحت مند دل کے لئے آپ کو ایک تندرست منہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ نئی تحقیقات میں امراض قلب کے متعدد مریض ایسے سامنے آئے جنہیں جبڑے میں درد یا سوجن کی شکایت تھی لیکن درحقیقت یہ امراض قلب کی شروعات تھی۔ ڈاکٹر میکاؤس کے مطابق جو لوگ جبڑے کی سوجن یا درد جیسی شکایات کرتے ہیں انہیں ضرور کسی طبی ماہر سے ملاقات کرنی چاہیے کیوں کہ جبڑے کی یہ سوزش دل کی خرابی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔

بے وجہ پسینہ آنا

جسمانی سرگرمی یا عمر بڑھنے سے ہارمونز کی تبدیلی کی وجہ سے پسینہ آنا ایک معموم کی بات ہے، جسے صاف کرکے سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ضرورت سے زیادہ پسینہ آنا صحت کے سنگین مسئلے کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ ڈاکٹر لیو کا کہنا ہے کہ اگر آپ ورزش یا کوئی بھی جسمانی حرکت نہیں کر رہے اور پھر بھی آپ کو پسینہ آ رہا ہے تو یہ دل کے دورے کی ایک علامت ہو سکتی ہے۔

The post ہارٹ اٹیک کی خاموش علامات appeared first on ایکسپریس اردو.

عیدالفطر…رب کریم کی طرف سے انعام و اکرام اورگناہوں سے معافی کا دن

$
0
0

عیدالفطر کا دن اللہ کی طرف سے انعام کا دن ہے اور عام معافی کا دن ہے ، مسلمانوں کیلئے یہ دن خوشی کا تہوار ہے اور اللہ کریم اپنے بندوں پر راضی ہو جا تا ہے۔

یومِ عید ، ماہِ صیام کی تکمیل پر اللہ تعالیٰ سے انعامات پانے کا دن ہے، تو اس سے زیادہ خوشی و مسرّت کا موقع کیا ہو سکتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ میں اِس دن کو ایک خاص مقام اور اہمیت حاصل ہے۔’’عید کا لفظ ’’عود‘‘ سے مشتق ہے، جس کے معنیٰ’’لَوٹنا‘‘ کے ہیں ، یعنی عید ہر سال لَوٹتی ہے ، اس کے لَوٹ کے آنے کی خواہش کی جاتی ہے ۔ اور ’’فطر‘‘ کے معنی ’’روزہ توڑنے یا ختم کرنے‘‘ کے ہیں ۔

چونکہ عید الفطر کے روز ، روزوں کا سلسلہ ختم ہوتا ہے اور اس روز اللہ تعالیٰ بندوں کو عباداتِ رمضان کا ثواب عطا فرماتے ہیں ، تو اِسی مناسبت سے اسے ’’عید الفطر‘‘ قرار دیا گیا۔ حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ اہلِ مدینہ دو دن بہ طورِ تہوار مناتے اور اُن میں کھیل تماشے کیا کرتے تھے ۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ سلم نے اُن سے دریافت فرمایا ’’یہ دو دن، جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟‘‘ تو اُنہوں نے کہا’’ہم عہدِ جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اِسی طرح منایا کرتے تھے۔‘‘ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں ان سے بہتر دو دن مقرّر فرما دیے ہیں۔

یوم عیدالاضحٰی اور یوم عیدالفطر۔‘‘(ابو داؤد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیدین کے موقعے پر شرعی حدود میں رہتے ہوئے خوشیاں منانے کی اجازت دینے کے ساتھ، دوسروں کو بھی ان خوشیوں میں شامل کرنے کی ترغیب دی اور ان مواقع پر عبادات کی بھی تاکید فرمائی کہ بندہ مومن کسی بھی حال میں اپنے ربّ کو نہیں بھولتا۔ احادیثِ مبارکہؐ میں شبِ عید اور یومِ عید کی بہت فضیلت بیان فرمائی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’جب عیدالفطر کی رات ہوتی ہے، تو اسے آسمانوں پر’’لیلۃ الجائزہ‘‘یعنی’’انعام کی رات‘‘ کے عنوان سے پکارا جاتا ہے اور جب صبح عید طلوع ہوتی ہے، تو حق تعالیٰ جل شانہ فرشتوں کو تمام بستیوں میں بھیجتا ہے اور وہ راستوں کے کونوں پر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ایسی آواز سے، جسے جنّات اور انسانوں کے سِوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ’’اے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کریم ربّ کی بارگاہِ کرم میں چلو، جو بہت زیادہ عطا فرمانے والا ہے۔‘‘ جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں، تو اللہ ر ب العزت فرشتوں سے فرماتا ہے’’اُس مزدور کا کیا بدلہ ہے، جو اپنا کام پورا کر چکا ہو؟‘‘ وہ عرض کرتے ہیں’’اے ہمارے معبود! اس کا بدلہ یہی ہے کہ اُس کی مزدوری اور اُجرت پوری پوری عطا کر دی جائے‘‘، تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’اے فرشتو! تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اُنہیں رمضان کے روزوں اور تراویح کے بدلے میں اپنی رضا اور مغفرت عطا فرما دی‘‘ اور پھر بندوں سے ارشاد ہوتا ہے کہ’’اے میرے بندو! مجھ سے مانگو، میری عزت و جلال اور بلندی کی قسم! آج کے دن آخرت کے بارے میں جو سوال کرو گے، عطا کروں گا۔

دنیا کے بارے میں جو سوال کرو گے، اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا۔ میرے عزوجلال کی قسم! میں تمہیں مجرموں اور کافروں کے سامنے رُسوا نہ کروں گا۔ میں تم سے راضی ہوگیا۔‘‘(الترغیب والترہیب) بلاشبہ وہ لوگ نہایت خوش قسمت ہیں کہ جنھوں نے ماہِ صیام پایا اور اپنے اوقات کو عبادات سے منور رکھا۔ پورا رمضان اللہ کی بارگاہ میں مغفرت کے لیے دامن پھیلائے رکھا۔ یہ عید ایسے ہی خوش بخت افراد کے لیے ہے اور اب اُنھیں مزدوری ملنے کا وقت ہے۔

تاہم، صحابہ کرامؓ اور بزرگانِ دین اپنی عبادات پر اِترانے کی بجائے اللہ تعالیٰ سے قبولیت کی دُعائیں کیا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عید کی مبارک باد دینے کے لیے آنے والوں سے فرمایا ’’عید تو اُن کی ہے، جو عذابِ آخرت اور مرنے کے بعد کی سزا سے نجات پا چکے ہیں۔

کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں’’چاند رات‘‘ کو ایک لحاظ سے شرعی پابندیوں سے فرار کی حیثیت حاصل ہو گئی ہے، حالاں کہ چاند رات کو حدیث شریف میں ’’لیلۃ الجائزہ‘‘ یعنی’’انعام والی رات‘‘ کہا گیا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا’’رمضان المبارک کی آخری رات میں اُمّتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا’’یارسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا وہ شبِ قدر ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا’’نہیں۔ کام کرنے والے کو مزدوری اُس وقت دی جاتی ہے، جب وہ کام پورا کر لیتا ہے اور وہ آخری شب میں پورا ہوتا ہے، لہٰذا بخشش ہو جاتی ہے۔‘‘ (مسند احمد) جو لوگ پورے ماہِ مقدّس میں تقویٰ و پرہیزگاری کی راہ پر کاربند رہے، اُن میں سے بھی بہت سے اس رات لہو ولعب میں مشغول ہو کر اپنی ساری محنت اکارت کر بیٹھتے ہیں۔

دراصل، شیطان آزاد ہوتے ہی خلقِ خدا کو تقویٰ و پرہیزگاری کے راستے سے ہٹا کر فسق وفجور کی طرف مائل کرنے کی کوششوں میں لگ جاتا ہے اور بدقسمتی سے بہت سے لوگ اُس کے پُرفریب جال میں پھنس جاتے ہیں۔ نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے’’جب یومِ عید آتا ہے، تو شیطان چلا چلا کر روتا ہے، اُس کی ناکامی اور رونا دیکھ کر تمام شیاطین اُس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ’’تجھے کس چیز نے غم ناک اور اُداس کردیا؟‘‘  شیطان کہتا ہے کہ’’ہا ئے افسوس!اللہ تعالیٰ نے آج کے دن امت محمدیہ کی بخشش فرما دی ہے۔

لہٰذا تم اُنہیں پھر سے لذّتوں اور خواہشاتِ نفسانی میں مشغول کر دو۔‘‘ ہم چاند رات بازاروں اور غل غپاڑے میں گزار دیتے ہیں، جب کہ احادیثِ مبارکہؐ میں اس رات میں عبادت کی تاکید کی گئی ہے۔ حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص عید الفطر اور عید الاضحٰی کی راتوں میں عبادت کی نیّت سے قیام کرتا ہے ، اُس کا دِل اُس دن بھی فوت نہیں ہو گا جس دن تمام دِل فوت ہو جائیں گے ۔‘‘ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو زمانہ خلافت میں لوگ عید کی مبارک باد دینے گئے ، تو دیکھا کہ امیر المومنین خشک روٹی کے ٹکڑے تناول فرما رہے ہیں۔

کسی نے کہا ’’آج تو عید کا دن ہے؟‘‘ یہ سن کر آپؓ نے ایک سرد آہ بھری اور فرمایا ’’جب دنیا میں ایسے بہت سے لوگ موجود ہوں، جنھیں یہ ٹکڑے بھی میّسر نہیں، تو ہمیں عید منانے کا حق کیوں کر حاصل ہے؟‘‘  روایت ہے کہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عید سے فارغ  ہو کر واپس تشریف لے جا رہے تھے کہ راستے میں آپؐ کی نظرایک بچّے پر پڑی، جو میدان کے ایک کونے میں بیٹھا رو رہا تھا ۔ نبی کریمؐ اُس کے پاس تشریف لے گئے اور پیار سے اُس کے سَر پر دستِ شفقت رکھا، پھر پوچھا’’کیوں رو رہے ہو؟‘‘ بچّے نے کہا’’میرا باپ مر چُکا ہے، ماں نے دوسری شادی کر لی ہے، سوتیلے باپ نے مجھے گھر سے نکال دیا ہے ، میرے پاس کھانے کو کوئی چیز ہے۔

نہ پہننے کو کپڑا۔‘‘یتیموں کے ملجا صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے، فرمایا کہ’’اگر میں تمہارا باپ، عائشہؓ تمہاری ماں اور فاطمہؓ تمہاری بہن ہو، تو خوش ہو جاؤ گے؟‘‘ کہنے لگا’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! اس پر میں کیسے راضی نہیں ہو سکتا۔‘‘ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بچّے کو گھر لے گئے۔

صدقہ فطر ہر صاحبِ استطاعت مسلمان پر واجب ہے، اس ضمن میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ’’رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقہ فطر واجب کیا تاکہ روزہ لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہو جائے اور مساکین کے لیے کھانے کا بندوبست بھی ہو جائے۔‘‘ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر صدقہ فطر کا فلسفہ یہی ہے کہ عید الفطر کی خوشیوں میں غریب مسلمان بھی بھرپور طریقے سے شریک ہو سکیں۔

اسی طرح ایک اور حدیث شریف ہے کہ’’عید الفطر کے دن محتاجوں کو خوش حال بنا دو ۔‘‘ گو کہ صدقہ فطر کبھی بھی دیا جا سکتا ہے، تاہم عام طور پر ماہِ رمضان کے آخری دنوں میں ادا کیا جاتا ہے، جب کہ بہت سے لوگ نمازِ عید کے لیے جاتے ہوئے راہ میں بیٹھے بھکاریوں کو فطرانہ دیتے جاتے ہیں، جو کہ مناسب طریقہ نہیں ۔ بہتر یہی ہے کہ عید سے قبل ہی فطرانہ ادا کر دیا جائے تاکہ ضرورت مند افراد بھی عید کی تیاری کر سکیں۔

حضرت ابو امامہؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص عید الفطر اور عید الاضحی کی راتوں میں عبادت کی نیّت سے قیام کرتا ہے، اُس کا دِل اُس دن بھی فوت نہیں ہوگا جس دن تمام دِل فوت ہو جائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ) حضرت معاذ بن جبلؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’جو شخص پانچ راتیں عبادت کرے، اُس کے لیے جنّت واجب ہو جاتی ہے۔وہ راتیں یہ ہیں، ذوالحجہ کی10,9,8ویں رات، شبِ برات اور عید الفطر کی رات۔‘‘ (الترغیب والترہیب) لہٰذا، ہمیں چاہیے کہ اس رات بے مقصد گھومنے پِھرنے اور گناہ کے کاموں میں گزارنے کی بجائے نوافل، نمازِ تہجّد، تلاوتِ قرآن اور دیگر عبادات میں مشغول رہیں تاکہ اس کی برکات حاصل کر سکیں۔

عید کے اس پرمسرت موقع پر ہمارا ایک کام یہ بھی ہونا چاہیے کہ پاس پڑوس اور رشتے داروں پر نظر دوڑائیں کہ کہیں اُن میں سے کوئی ایسا تو نہیں، جو اپنی غربت اور تنگ دستی کے سبب عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم ہے ۔ اگر ایسا ہے، تو یقین جانئے ، ہم خواہ کتنے ہی اچھے کپڑے پہن لیں ، طویل دسترخوان سجا لیں، عیدیاں بانٹتے پِھریں ، ہماری عید پھر بھی پھیکی ہی رہے گی ، بلکہ ایسی عید، عید کہلانے کے قابل ہی نہیں ، جس میں دیگر افراد شامل نہ ہوں ۔کوشش کرنی چاہیے کہ ایسے خوشی کے موقع پر سفید پوش افراد کو ڈھونڈ کر ان کی مدد کی جائے تاکہ وہ اور ان کا خاندان بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکے۔

اس ضمن میں ایک اہم بات یہ بھی ذہن نشین رہے، دعا ہے کہ مولائے کریم ہم سب کو عید الفطر کی خوشیاں نصیب فرمائے اور اس موقع پر غریب ناداروں کو بھی یاد کھنے کی توفیق بخشے، اللہ کریم ہمارے پیارے ملک عزیز پاکستان کو تمام خطرات سے محفوظ رکھے اور صبح قیامت تک قائم و دائم رکھے۔ آمین

The post عیدالفطر… رب کریم کی طرف سے انعام و اکرام اورگناہوں سے معافی کا دن appeared first on ایکسپریس اردو.

دنیا بھر میں عید الفطر کی انوکھی روایات

$
0
0

کرہ ارض پہ بستے دو ارب سے زائد مسلمان عنقریب عیدالفطر منائیں گے۔یہ دو بڑے اسلامی تہواروں میں سے ایک مقدس و عالم اسلام کا محبوب تہوار ہے۔

عربی میں لفظ عید کے معنی ہیں:’’خوشی، فرحت، جشن۔جبکہ فطر کا مطلب ہے:روزہ کھولنا۔ چونکہ عید کے دن رمضان کے روزے اختتام کو پہنچتے ہیں لہذا اس روز اللہ تعالی روزے رکھنے اور عبادت کرنے پر مسلمانوں کو اجر وثواب سے نوازتے ہیں۔یہ خوشی کا مقام ہے، اسی لیے اسے عید کہا گیا۔

اس سال عید کے موقع پہ اہل غزہ کو بھی یاد رکھیے جو نہایت مشکل وقت گذار رہے ہیں۔اسرائیل ان کی نسل کشی پہ تُلا ہے اور دنیا والے اس ظالم کو ظلم وستم کرنے سے روک نہیں پائے۔عید کا یہ موقع مسلمانان ِ دنیا کو دعوت دیتا ہے کہ انھیں اپنی ایسی خصوصی فوج بنانی چاہیے جو اسرائیل جیسے ظالموں کا راستہ روک سکے اور انھیں بے سہارا و بے یارومددگار مسلم بہن بھائیوں اور بچوں پہ ظلم نہ کرنے دے۔

مسلمانان ِ عالم اس پُرمسرت موقع پہ بعض روایات مشترکہ طور پہ اپناتے ہیں۔مثلاً صبح کوئی میٹھا پکانا، پھر نماز پڑھنے جانا، نماز کے بعد عیدی ملنا، بچوں کو رقم کا تحفہ دینا، رشتے داروں سے ملنے جانا اور پارکوں میں جا کر سیر کرنا ۔جبکہ عید الفطر کی ہر ملک سے مخصوص روایات بھی جنم لے چکیں جنھیں وہاں رہنے والے مسلمان ہنسی خوشی انجام دیتے ہیں۔ذیل میں بڑے اسلامی ممالک میں عید الفطر کی روایات کا معلومات افروز اور دلچسپ احوال پیش ہے۔

انڈونیشیا

ایک زمانے میں یہ دیس دنیا میں سب سے بڑا اسلامی مملکت تھا۔مگر اب پاکستان اس سے یہ اعزاز لے کر اپنے نام کروا چکا۔ جدید اعداد وشمار کی رو سے انڈونیشیا میں تئیس کروڑ دس لاکھ مسلمان بستے ہیں۔جبکہ پاکستان میں مسلمانوں کی آبادی تئیس کروڑ تیس لاکھ سے بڑھ چکی۔یوں اب کرہ ارض پہ سب سے زیادہ مسلمان پاکستان میں بستے ہیں۔گو انڈونیشیا کی آبادی اب بھی پاکستان سے چار کروڑ زیادہ ہے۔

انڈونیشیا میں عید کو ہری رایا عید الفطر کہتے ہیں جس کے معنی ہیں: عید کا جشن۔ جشن کا آغاز تکبیرِ اذان سے ہوتا ہے۔عید کی نماز عام طور پر بڑی کھلی جگہوں پرپڑھی جاتی ہے۔ نماز کے بعد لوگ اپنے رشتے داروں اور دوستوں سے ملنے جاتے اور ایک دوسرے سے معافی مانگتے ہیں۔ انڈونیشیا میں’ ’مودک‘‘ کی روایت بھی ہے، جس کا مطلب ہے: تعطیلات کے لیے اپنے آبائی شہر واپس جانا۔ مودک کی روایت اتنی اہم ہے کہ حکومت لوگوں کے لیے سفر میں آسانی پیدا کرنے کے لیے مفت ٹرانسپورٹ مہیا کرتی ہے۔ لاکھوں لوگ جو بڑے شہروں میں کام کرتے ہیں،گھر والوں کے ساتھ عید گزارنے کے لیے واپس اپنے آبائی قصبوں یا دیہات میں جاتے ہیں۔

عید الفطر کے موقع کو مقامی طور پر ’’ لبنان ‘‘کے نام سے بھی جانا جاتا ہے اور یہ انڈونیشیا میں سب سے اہم چھٹی ہے۔ دیگر مسلم اقوام کی طرح انڈونیشیائی بھی دعاؤں، اجتماعات اور خاندانی ملاپ کے ساتھ جشن مناتے ہیں۔

بچوں سے بزرگ جب ملتے ہیں تو انہیں رقم کے رنگین لفافے تحفے میں دیتے ہیں۔ زیادہ تر انڈونیشی مسلمان عید کے دن ثقافتی لباس پہنتے ہیں، جو مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے مختلف ہیں۔ عید کے موقع پر رشتے دار اپنے پیاروں کی قبروں پر حاضری دیتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے مانند انڈونیشیا میں بھی عید کی خوشیوں کا آغاز عید سے ایک رات پہلے ہو جاتا ہے اور لوگ آخری لمحات کی خریداری میں مصروف ہوتے ہیں۔اس دوران لوگ ہجوم ڈھول اور پٹاخوں کی آوازوں سے خوش ہوتے ہیں۔ لوگ مشعلیں بھی جلاتے ہیں اور ملک کے کچھ حصوں میں سڑکوں پر لے آتے ہیں۔

بانس سے پکا ہوا چاول، جسے مقامی طور پر لیمانگ کے نام سے جانا جاتا ہے، اور لاپیس لیگٹ، ایک ہزار پرتوں والا کیک، دو روایتی کھانے ہیں جو دن بھر پکائے جاتے ہیں۔ عید پر تیار کی جانے والی دیگر کھانے پینے کی اشیا میں کیتوپت، اوپور ایام اور مکھن اور انناس کے جام سے بنی کوکیز شامل ہیں۔

صبح عید کی نماز کے بعد انڈونیشی “سلامت عید الفطر” کے الفاظ کے ساتھ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہیں، جس کا مطلب ہے عید مبارک۔ مسلمان عید کے دن ایک دوسرے سے معافی مانگتے ہیں، بشمول خاندان، دوستوں اور پڑوسیوں کے – اس روایت کو انڈونیشیا میں’’ حلال بہلال‘‘ کہا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش

ہمارا سابقہ حصہ مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا میں تیسرا بڑا ملک بن چکا۔گو بنگلہ دیش سے زیادہ مسلمان بھارت میں آباد ہیں۔تاہم بھارتی مسلمانوں کی روایات ِ عید پاکستانیوں سے ملتی جلتی ہیں، اسی لیے ان کا تذکرہ نہیں کیا جا رہا۔مگر بنگلہ دیشی مسلمان بھی پاک وہند کے دیگر مسلمانوں کی طرح ہی عیدالفطر مناتے ہیں۔

عید نزدیک آتے ہی ڈھاکہ، چٹاگانگ، غازی پور، نارائن گنج، کھلنا اور دیگر بڑے شہروں میں مقیم دیہاتی اپنے آبائی گھر جانے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔عید سے چند دن پہلے بسوں اور ریلوں میں خوب ہجوم ہوتا ہے۔سیکڑوں لوگ تو بسوں اور ریلوں کی چھتوں پہ بیٹھ کر سفر کرتے ہیں۔ان کے چلے جانے سے شہر انسانوں سے خالی ہو جاتے ہیں۔اس وقت سے شہری بہت لطف اندوز ہوتے ہیں کیونکہ سڑکوں پہ ٹریفک کا رش نہیں ہوتا۔

’’سیمائی ‘‘(Semai)عید کے دن بننے والا بنگلہ دیشی قوم کا مخصوص پکوان ہے۔ یہ سوجی، ناریل، دودھ اور چینی ملا کر تیار ہوتا ہے۔جیسے پاکستانی عید پڑھ کر گھر آئیں تو سویاں یا شیر خورمہ کھاتے ہیں۔اسی طرح بنگلہ دیشی نماز پڑھ کر گھر پہنچتے ہی سیمائی کھاتے اور عید مناتے ہیں۔

سیمائی کی کئی اقسام ہیں۔ امیر لوگ اس پکوان میں رنگ برنگ میوے ڈال لیتے ہیں۔بنگلہ دیشی عید پہ ’کھچڑی ‘بھی شوق سے کھاتے ہیں۔ یہ غذا چاول اور دال ملا کر پکتی ہے۔ہماری کھچڑی سے ملتا جلتا کھانا ہے۔ان کھاجوں کے علاوہ بنگلہ دیشی عیدالفطر پہ مذید مخصوص کھانے بھی پکاتے ہیں۔

نائیجیریا

یہ براعظم افریقا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مملکت کی پچاس فیصد سے زائد آبادی مسلمان ہے تاہم مغربی میڈیا اس عدد کو دانستہ کم کر کے دکھاتا ہے۔دراصل مغربی نہیں چاہتے کہ نائیجیریا اسلامی ملک قرار پا جائے۔ پھر بھی اس دیس میں تقریباً دس کروڑ مسلمان بستے ہیں۔

نائیجیریا میں عید الفطر کو ’چھوٹی صلاۃ ‘کے نام سے جانا اور دو دن تک منایا جاتا ہے۔ چھوٹی صلاۃ کے دن نائیجیرین عید کی نماز پڑھنے مسجد جاتے اور پھر اپنے خاندان اور دوستوں کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ نماز پڑھ کر ایک دوسرے کو ’’برکت صلاۃ‘‘کہنا معمول ہے۔مقامی ہوسا زبان میں اس لفظ کا مطلب ہے:عید کی برکات آپ کو نصیب ہوں۔

نماز ختم ہو تو مسلمان گھر پہنچ کر خاص طور پہ پکے کھانے کھاتے ہیں۔بچوں کو عیدی ملتی ہے تاکہ وہ خوشی کے اس دن جی بھر کر کھیل سکیں اور من مسند چیزیں بھی خرید لیں۔سبھی نئے کپڑے پہنتے اور سیر کرکے وقت کو سہانا بناتے ہیں۔

مصر

یہ عالم اسلام کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ یہاں بھی عید الفطر تزک واحتشام سے منائی جاتی ہے۔حکومت چار چھٹیوں کا اعلان کرتی ہے۔پورے ملک میں کام بند رہتا ہے۔ سبھی بڑے جوش وجذبے سے عید مناتے ہیں۔نت نئے کھانوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جو عید الفطر سے مخصوص عالمی روایت ہے۔ مصری عید کی نماز پڑھنے جاتے ہوئے تین کھجوریں تناول کرتے ہیں۔

یہ سنت نبوی ﷺ ہے۔البخاری میں حضرت انس ؓ بن مالک کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ عید کی نماز پڑھنے جاتے ہوئے تین کھجوریں تناول فرماتے تھے۔

مصری اس دن خصوصی پکوان تیار کرتے ہیں جیسے کہ فتاجو چاول، گوشت اور روٹی کا مرکب ہے۔ اور کنافہ پنیر اور شربت سے تیار کی جانے والا میٹھاہے۔ مصریوں میں بھی اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے بنانے اور مٹھائیاں خریدنے کی روایت ہے۔کئی مصری دریائے نیل میں کشتیوں کی سیر کرتے ہیں۔

ایران

عالم اسلام کے چھٹے بڑے اس ملک میں بھی عید الفطر خوشیوں بھرا تہوار ہے۔ ایرانی عید کا چاند نظر آتے ہی اس مبارک موقع کو منانے کی تیاریاں کرنے لگتے ہیں۔ کپڑے تیار ہوتے اور کھانے پکتے ہیں۔ صبح نماز ِ عید پڑھی جاتی ہے۔ ایران میں کئی متنوع اقوام آباد ہیں۔وہ سبھی عید الفطر کے اپنی مخصوص رسوم ورواج رکھتی ہیں۔ شولہ زرد (زعفران چاول کا کسٹرڈ)، حلوہ اور بقلاوا روایتی پکوانوں میں شامل ہیں۔

ترکی

اسلامی دنیا کے ساتویں بڑے دیس ،ترکی میں عید الفطر کو رمضان بیرامی (رمضان کا تہوار) یا سیکر بیرامی (مٹھائیوں کا تہوار) کہا جاتا ہے۔ یہ نام ان میٹھی چیزوں کی عکاسی کرتا ہے جو عید کے جشن کا لازمی حصہ ہیں۔ ترک دن کا آغاز نئے کپڑے پہن کر کرتے ہیں۔ اس کے بعد وہ اپنے بزرگوں سے برکت اور بخشش طلب کرتے ہیں۔ بچے اپنے بڑوں سے مٹھائیاں اور پیسے وصول کرتے ہیں۔ ترک بقلاوا اور حلوہ جیسے روایتی پکوان بھی تیار کرتے ہیں۔

ایک روایت جس کا پورے ترکی میں احترام کیا جاتا ہے ،وہ بزرگوں کا احترام ہے۔ خاندان کے کسی بزرگ یا دوست کے داہنے ہاتھ کو چومنا اور بیرم سلام کہتے ہوئے اسے ماتھے پر رکھنا احترام کی سب سے اہم شکل ہے۔

ترک نماز ِعید پڑھ کرایک دوسرے کو Bayraminiz Mubarek Olsun کہتے ہیں جس کا ترجمہ ہے ’’آپ کی بیرم (عید) مبارک ہو‘‘۔ اس دن عام تعطیل ہوتی ہے۔ سرکاری دفاتر اور اسکول عام طور پر تہوار کے پورے تین دن بند رہتے ہیں۔

بیرم کی مبارکباد دیتے وقت بزرگ شہریوں کے داہنے ہاتھ کو چومنے اور پیشانی پر رکھ کر ان کی تعظیم کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ چھوٹے بچوں کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ گھر گھر جا کر اپنے پڑوس میں ہر ایک کو “مبارک بیرم” کی مبارکباد دیں۔جواب میں مغرب میں رائج ہالووین کے رواج کے مطابق انہیں کینڈی، روایتی مٹھائیاں جیسے بقلاوا اور ترک ڈیلائٹ، چاکلیٹ یا تھوڑی سی رقم سے نوازا جاتا ہے۔

ترکی میں عید کا ایک انوکھا رواج یہ ہے کہ جب کسی کے گھر مہمان آئیں تو ان پہ خوشبو یا عطر چھڑک کر ان کا استقبال کیا جاتا ہے۔اس طرح مہمانوں کو تعظیم دی جاتی ہے۔ پاکستان کی طرح ترک بھی عید کے دن ہلکی پھلکی غذائیں زیادہ بناتے ہیں کیونکہ کوئی بھی مہمان کھانے نہیں ملنے ملانے آتا ہے۔لہذا اس کی خاطر تواضع کے لیے سویاں، دہی بھلے، نمکو، چنے وغیرہ قسم کے کھانے تیار کیے جاتے ہیں۔

مورخین کہتے ہیں کہ ترکی میں عثمانی سلاطین نے یہ طرح ڈالی کہ عیدیں کو شان وشوکت سے منایا جائے۔ ہندوستان میں یہی عمل مغل بادشاہ، اورنگ زیب عالمگیر نے انجام دیا۔ان حکمرانوں کی سعی سے دونوں عیدیں اسلامی دنیا کے سب سے بڑے تہوار بن گئے۔

الجزائر

براعظم افریقا کے اس دوسرے بڑے اسلامی دیس میں بھی عید الفطر پورے مذہبی جوش سے منائی جاتی ہے۔ پورے ملک میں کام بند ہوتا ہے اور سبھی الجزائری عید کی چھٹیوں کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرتے ہیں۔

پاکستان کی طرح الجزائر میں بھی رواج ہے کہ کھانے کی دعوت پر کھانا کھا کر مہمان کو پھل پیش کیے جاتے ہیں۔اس موقع پہ روایت ہے کہ مہمان خود پھل چھیلتا ہے۔الجزائر میں مگر عید الفطر کی یہ خوبصورت رسم ہے کہ میزبان تمام پھل چھیل کر مہمانوں کو پیش کرتا ہے۔

عیدیں جیسے اسلامی تہوار دراصل مسلمانوں کو قریب لاتے ہیں ، چاہے وہ امیر ہوں یا غریب۔یوں ان کے درمیان پیار ومحبت اور اتحاد جنم لیتا ہے۔تب مسلمان تکلیف و دکھ کے وقت ایک دوسرے کی مدد کرتے اور سہارا بنتے ہیں۔

 افغانستان

ہمارے پڑوسی اس اسلامی دیس میں عیدالفطر مسلمانوں کے لیے خصوصی اہمیت کا حامل دن ہے جسے تین دن تک پورے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ پشتو بولنے والی برادری عید کو ’کوچنائی اختر‘ کہہ کر پکارتی ہے۔ عید کی تیاری دس روز پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے ۔گھروں کی صفائی ہوتی ہے اور عید سے چند روز قبل بازاروں کا رخ کیا جاتا ہے تاکہ مٹھائیاں اور نئے کپڑے خریدے جا سکیں۔ عید کے پرُمسرت موقع پر مہمانوں کی تواضع کرنے کے لیے جلیبیاں اور کیک بانٹا جاتا ہے جسے ‘واکلچہ’ کہا جاتاہے۔ افغانی عید کے پہلے دن اپنے گھروں پر خاندان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔

نیوزی لینڈ

یہ دنیا کے ایک کونے میں واقع مملکت ہے جہاں مسلمان بڑی تعداد میں بستے ہیں۔نیوزی لینڈ میں عید مساجد یا آؤٹ ڈور مقامات میں صبح کی نماز کے ساتھ منائی جاتی ہے۔ اس کے بعد کمیونٹی کے اجتماعات اور دعوتیں ہوتی ہیں جہاں خاندان تحائف کا تبادلہ اور روایتی کھانوں کا اشتراک کرتے ہیں۔

حال ہی میں بڑے شہروں جیسے آکلینڈ، ویلنگٹن اور کرائسٹ چرچ میں عوامی عید کے تہوار زیادہ مقبول ہو گئے ہیں۔ ان تہواروں میں ثقافتی پرفارمنس، کھانے کے اسٹالز اور بچوں کے لیے سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں۔ آکلینڈ میں تہواروں کا آغاز صبح کی نماز اور صفائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کے بعد ایڈن پارک میں تفریحی تقریب منعقد ہوتی ہے جس میں کارنیول کی سرگرمیاں جیسے مکینیکل بیل، ہیومن فوز بال اور کھانا فروش علاقے کے آس پاس لذیذ کھانے فروخت کرتے ہیں۔ یہ تقریبات مسلم ثقافتی روایات اور نیوزی لینڈ کی وسیع تر کمیونٹی کے امتزاج کی عکاس اورملک کے تنوع اور جامعیت کو ظاہر کرتی ہیں۔

متحدہ عرب امارات

پاکستان کے قریب واقع اس اسلامی مملکت میں کثیر تعداد میں پاکستانی اور بھارتی مسلمان آباد ہیں۔عید کے موقع پرزیادہ تر مقامی اماراتی کھانا کھا کر اور خاندان کے ساتھ وقت گزار کر عید مناتے ہیں۔اس کے علاوہ دیگر روایات بھی ہیں جو متحدہ عرب امارات کے لیے خاص ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے خاندان اپنے گھروں کے باہر قوس قزح کے رنگوں والے قالین اور بینر لٹکاتے ہیں۔ یہ روایت نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ پارکوں اور میدانوں کو بھی ان لوگوں کے لیے تہوار کے جھنڈوں سے مزین کیا جاتا ہے جن کے پاس کنبہ نہیں لیکن پھر بھی وہ اس خوشی کے تہوار کو بطور کمیونٹی منانا چاہتے ہیں۔

٭٭٭

عید کے مخصوص پکوان
عید الفطر کے موقع پر نت نئے پکوان بنانے اور مٹھائی کھانے کی روایت ممکنہ طور پر مدینہ منورہ کے ابتدائی مسلمانوں سے شروع ہوئی تھی۔وہ اپنے تہواروں کے لیے کھجور اور شہد کی مدد سے کھانے پکاتے تھے۔ جیسے جیسے اسلام زیادہ جغرافیائی خطوں میں پھیلا، ہر ثقافت نے اپنے دستیاب غذائی اجزا اور کھانا پکانے کا طریقہ عید الفطر کی اپنی تقریبات کے لیے استعمال کیا ۔ نتیجے میں آج ہمارے پاس بے شمار پکوان موجود ہیں جو عید الفطر کے مبارک موقع پر خاص طور پہ پکتے ہیں۔
بقلاوا

یہ ایک میٹھی پیسٹری ہے جو مشرق وسطیٰ میں بننا شروع ہوئی لیکن اب پوری مسلم دنیا میں مقبول ہے۔ اسے کٹے ہوئے گری دار میوے (عام طور پر پستے یا اخروٹ) اور میٹھے شربت یا شہدکے ساتھ فائیلو آٹا کی تہہ لگا کر بنایا جاتا ہے۔ بقلاوا ایک میٹھا اور دلکش میٹھا ہے ۔

کوئی لاپس(Kue lapis)
یہ عید الفطر پر انڈونیشیا میں بننے والی خاص ڈش ہے۔انڈونیشی زبان میں لاپس کا مطلب ہے :تہیں۔یہ چاول کے آٹے، نشاستے، ناریل کے دودھ،چینی،نمک اور رنگوں سے بنا کیک ہے جس میں کئی تہیں بنائی جاتی ہیں۔اسی لیے یہ لاپس کہلایا۔ہر تہہ مختلف رنگ کی ہوتی ہے۔یہ جیلی سے ملتی جلتی غذا ہے۔ملائشیا اور سنگاپور میں بھی لوگ اسے شوق سے کھاتے ہیں۔

بولانی
یہ افغانستان کی روٹی ہے جس کے اندر مختلف اشیا ڈال کر اسے پکایا جاتا ہے، جیسے آلو،قیمہ، دالیں ، مسالے اور دیگر سبزیاں۔ یہ پکوان عیدین کے علاوہ سالگرہ اور شادی پر بھی تیار کیا جاتا ہے۔بولانی دہی یا رائتے کے ساتھ تناول ہوتا ہے۔کابل، قندھار اور جلال آباد کے باسیوں کا من پسند کھاجا ہے۔

ترکش ڈیلائٹ
ترکی میں ماہ رمضان اور عیدین پہ یہ خصوصی مٹھائی وسیع پیمانے پر تیار ہوتی ہے۔ یہ مٹھائی نشاستے اور چینی سے بنتی ہے۔تیاری کے دوران اس میں کھجوریں، پستے ، اخروٹ اور دیگر مغزیات شامل کی جاتی ہیں۔یوں یہ کافی مقوی غذا بن جاتی ہے۔اس مٹھائی میں گلاب یا لیموں کے پانی بھی شامل کیا جاتا ہے۔جبکہ تیار مٹھائی پہ کھوپرا چھڑک کر اسے مزید مزے دار بنایا جاتا ہے۔

معمول(Ma’amoul)
یہ سوجی سے بنے بسکٹ ہیں جن کے اندر مکھن بھرا جاتا ہے۔عیدالفطر کے موقع پر عرب ممالک میں اس کو تیار کرنا عام رواج ہے۔مکھن کے اندر بادام، اخروٹ، پستے، کشمکش اور دیگر میوے بھی ڈالے جاتے ہیں تاکہ معمول کو زیادہ سے زیادہ مزے دار بنایا جا سکے۔مہمان آئیں تو کافی یا قہوے کے ساتھ معمول پیش کیا جاتا ہے۔

طاجین(Tagine)
یہ مغربی افریقا کی مقبول ڈش ہے جسے عموماً عیدین کے وقت پکایا جاتا ہے۔اسے تیار کرتے ہوئے بڑا گوشت، چکن اور مچھلی ایک ساتھ شورے میں پکاتے ہیں۔اس شوربے میں مختلف سبزیاں اور پھل ڈالے جاتے ہیں۔مسالہ جات اور میوں کا بھی استمال ہوتا ہے۔یوں یہ کھانا بہت مزے دار ہونے کے ساتھ ساتھ مقوی و پُرغذائیت بھی ہوتا ہے۔

The post دنیا بھر میں عید الفطر کی انوکھی روایات appeared first on ایکسپریس اردو.

عیدالفطر کی روایتی خوشیاں کیوں دم توڑ رہی ہیں؟

$
0
0

عید وہ مذہبی تہوار ہے، جس کی آمد پر پورا عالم اسلام خوشیوں، مسکراہٹوں اور مسرتوں سے جگمگا اُٹھتا ہے۔ عید عربی زبان کا لفظ ہے، جو عود سے مُشتق ہے۔

عید کا لغوی معنی تو کسی چیز کا بار بار آنا لیکن اصطلاحی معنی نہایت خوشی ہے۔ یعنی رمضان المبارک کے روزوں، نزول قرآن، لیلۃ القدر، اللہ تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کے لئے رحمت و بخشش اور عذاب جہنم سے آزادی کی منادیوں کے باعث عید کو مومنین کے لئے ’’خوشی کا دن قرار‘‘ دیا گیا ہے۔

عید شادمانی اور خوشیاں منانے کا دن ہے، جس کے انتظار میں بھی ایک لطف ہوتا ہے اور اس لطف کو تہنیتی پیغامات کے ذریعے دوسروں کے ساتھ شیئر بھی کیا جاتا ہے۔ اس دن بچے، جوان اور ضعیف العمر مرد وخواتین نئے ملبوسات زیب تن کرتے ہیں اور مرد حضرات عیدگاہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں، جہاں وہ شکرانہ کے طور پر دو رکعت باجماعت نماز ادا کرتے ہیں۔ نماز عید کے بعد عید ملنے اور مبارکبادیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔

لوگ ایک دوسرے سے اپنی کوتاہیوں، زیادتیوں اور غلطیوں کی معافی طلب کرتے ہیں، پھر کھاؤ اور کھلاؤ کا دور شروع ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص مالی اعتبار سے کمزور ہے، تب بھی وہ اپنی طاقت کے بقدر عمدہ سے عمدہ اور بہترین کھانے بنا کر مہمانوں اوردیگر احباب واقارب کی ضیافت کرتا ہے۔ وطن عزیز میں بھی عید روایتی اور مذہبی جوش و خروش سے منائی جاتی ہے، یہاں ہر طبقہ عید کی خوشیوں میں اپنے تئیں شریک ہونے کی کوشش کرتا ہے…… لیکن وقت گزرنے کے ساتھ عید سے منسلک کچھ روایات، رجحانات اور چیزیں تبدیل ہوئیں تو کچھ مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزر کر ترقی کرتی چلی آ رہی ہیں۔

عید یوں تو مجموعی طور پر ہر عمر اور صنف کے افراد کے لئے خوشیوں سے بھرا تہوار ہے، لیکن بچوں اور خواتین کی خوشی تو خصوصاً دیدنی ہوتی ہے۔ اس پُرمسرت موقع پر کوئی خاتون مہندی نہ لگائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ شائد اسے عید کی خوشی ہی نہیں ہوئی۔ یوں مہندی عید کے موقع پر خوشی کا خاص استعارہ بن چکی ہے۔ مہندی کا پودا اپنے سرخ رنگ اورطبی خوبیوں کی وجہ سے قدیم زمانے سے برصغیر میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

مہندی کی تاریخ 5000 سال قبل مصر سے شروع ہوتی ہے۔ قدیم مصری اس عقیدے کے ساتھ فرعون کی ممی بناتے وقت نعش کے ہاتھوں اور ناخن پر مہندی لگاتے تھے کہ موت کے بعد ان کی شناخت بطور فرعون ہوسکے۔ جبکہ قدیم زمانے میں عرب کے علاقوں میں مہندی کی پتیوں سے کپڑے کو خوشبودار بنانے کے لئے رنگا جاتا ہے۔ مہندی کی بے پناہ خصوصیات کی بناء پر عرب میں اسے ’’سید الریحان‘‘ یعنی خوشبودار پودوں کا سردار کہا گیا ہے۔

خاص طور پر دمشق کے باریک کپڑے مہندی سے رنگے جاتے تھے۔ مغل بادشاہوں نے پہلی بار برصغیر میں مہندی کو بارہویں صدی میں متعارف کروایا۔ اس وقت صرف ملکہ، شہزادیاں اور امیر خواتین ہی مہندی لگاتی تھیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں مہندی کا رواج عام ہوگیا۔ ہمارے ہاں پنجاب میں سب سے زیادہ مہندی بھیرہ اور میلسی جبکہ سندھ میں سب سے زیادہ مہندی نواب شاہ میں کاشت ہوتی ہے۔ مہندی سے ہاتھوں اور پیروں پر نہ صرف دیدہ زیب ڈیزائن بنائے جاتے ہیں بلکہ یہ اسلامی نقطہ نگاہ سے خواتین کے لئے کارِ ثواب بھی ہے۔

زمانہ قدیم میں مہندی کے پتوں کو گھروں میں رگڑ کر استعمال کیا جاتا تھا، پھر زمانے نے کروٹ بدلی تو اس کا پاؤڈر استعمال کیا جانے لگا، آج دنیا اس پاؤڈر کو پانی میں مکس کرکے استعمال کرنے کی مشقت سے بھی آزاد ہو چکی ہے کیوں کہ اب بنی بنائی مہندی ’’کون‘‘ اور دیگر اشکال میں موجود ہے، جو خواتین براہ راست ہاتھوں اور بازوؤں پر ڈیزائننگ کے لئے استعمال کرتی ہیں۔

خواتین کے لئے چوڑیوں کے بغیر عید کی تیاری ادھوری تصور کی جاتی ہے، جس کی واضح دلیل چاند رات میں چوڑیوں کے اسٹالز پر خواتین کا بے پناہ رش دکھائی دینا ہے۔ چوڑیوں کی سریلی کھنک کانوں کو مسرت کا احساس دلاتی ہے۔ پہلے زمانے میں عورتیں تانبے کی چوڑیاں استعمال کرتی تھیں، پھر سی شیل ، تانبہ، سونا، سمندری سیپی ، کاشی، سفیہ قیمتی دھات اور موتی کی بھی چوڑیاں بنائی جانے لگیں۔

چوڑیاں بنانا اور پہننا وہ قدیم رواج ہے، جو آج بھی زور و شور سے موجود ہے، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ چوڑیاں بنانے کے میٹریل میں تبدیلیاں ضرور رونما ہوتی رہی ہیں۔ تاریخی اعتبار سے چوڑیوں کا رجحان اور رواج موئن جو دڑو سے (2600-BC) میں شروع ہوا، اس کے بعد انڈیا سے تانبے کی چوڑیاں بننا شروع ہوئیں۔ پاکستان میں چوڑیوں کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ مشہور چوڑیاں حیدرآباد (سندھ) کی ہیں ، حیدرآبادی چوڑیوں کا ڈیزائن اور بنانے میں جو محنت درکار ہوتی ہے وہ قابل دید ہے، حیدرآباد کی چوڑیاں اپنے خوبصورت ڈیزائن کی وجہ سے ملک بھر میں شہرت رکھتی ہیں۔

مسلمانوں کے خاص تہوار کی مناسبت سے مہندی اور چوڑیوں کے رجحانات میں تو وقت گزرنے کے ساتھ تبدیلی اور ترقی کا عمل کارفرما رہا، لیکن عید کے موقع پر کچھ روایات ایسی بھی ہیں، جو معدوم ہوتی جا رہی ہیں، جیسے آج سے لگ بھگ 25 سال قبل تک عید کارڈز کے ذریعے اپنے عزیزواقارب کے ساتھ جس خوشی کا اظہار کیا جاتا تھا، آج وہ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ دوستوں، رشتہ داروں اور اساتذہ وغیرہ کے لئے عیدکارڈز کی خریداری کا باقاعدہ اہتمام کیا جاتا تھا۔

پہلے پہل سادہ، پھر رنگ برنگے اور بعدازاں کاغذ کے عید کارڈز میں الیکٹرانک ڈیوائسز والے عید کارڈز محبت کی شدت کا احساس دلاتے تھے، لیکن آج موبائل فون کے ذریعے ’’فاروڈ‘‘ ایس ایم ایس یا واٹس ایپ پیغام بھیج کر اپنی اخلاقی ذمہ داری پوری کرلی جاتی ہے۔ کبھی زمانہ تھا جب عام دنوں میں کیا عید پر بھی کپڑوں کی سلائی گھروں پر ہوتی تھی، جس میں مردانہ کپڑے بھی شامل ہوتے تھے۔ کپڑوں کی سلائی کے لئے گھر میں موجود ماں، بہن اور بیوی کو ایک خاص مقام حاصل ہوا کرتا تھا لیکن آج پیشہ ور درزیوں کے سلے کپڑوں سے بھی بات آگے نکل چکی ہے، آج کی نوجوان نسل برینڈڈ کپڑوں کو ہی ترجیح دیتی ہے۔ نئے کپڑوں کے ساتھ پورے خاندان کا گروپ فوٹو آج ترجیحات میں شامل نہیں کیونکہ ہر جیب میں موبائل کی صورت ہر وقت کیمرہ موجود ہے۔

روز افزاں ترقی نے راستے سمیٹنے کے بجائے مزید بڑھا دیئے ہیں، اب عید کے روز شہری مصنوعی خوشیوں کی تلاش میں حقیقی عزیز و اقارب سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ آج سے تین، چار دہائی قبل عید کے رنگ ہی نرالے تھے۔ صبح صبح نماز عید کے بعد رشتے داروں کا ایک دوسرے کے گھروں کا چکر لگانا، بچوں کی عیدی کے لئے ضد، تحائف کا تبادلہ بھی اب کہیں کہیں ہی دیکھنے میں آتا ہے، جس کی ایک وجہ مہنگائی کو تو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن مجموعی طور پر سماجی رویوں نے ہمارے اطوار میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔

ہمارا اجتماعی خاندانی نظام زوال پذیر ہونے سے اب عید تہوار پر ہی خاندان اکٹھے ہو پاتے ہیں اوراس دوران بھی خاندان کے بیشتر نوجوان، بچے موبائل اور کمپیوٹر پر وقت گزاری کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ بڑے، بوڑھے پرانے وقتوں کو یاد کرکے کڑھتے نظر آتے ہیں۔ بڑوں کے ذہنوں اور دلوں پر عید کے جو نقوش کندہ ہیں، موجود زمانے میں وہ اسے یاد کر کے صرف آہیں ہی بھر سکتے ہیں۔ رمضان المبارک کے آخری روز چھتوں پر چڑھ کر مشترکہ طور پر چاند دیکھنے کی رسم بھی معدوم ہو چکی ہے، اب تو گھر والے اکٹھے ہو بھی جائیں تو ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر باقاعدہ اعلان ہونے کا انتظار کرتے ہیں۔ چاند رات کو رشتہ داروں، ہمسایوں کے گھر عیدی لے کر جانے کا رواج دم توڑ گیا ہے۔

اس کے برعکس چاند نظر آنے کا اعلان ہوتے ہی سارا خاندان بازاروں کا رخ کرتا ہے تاکہ خریداری میں اگر کوئی کمی رہ گئی ہے تو اسے پورا کرلیا جائے۔ ساری رات بازاروں میں گزارنے کے بعد گھر کے بیشتر افراد صبح سو جاتے ہیں اور محلہ یا شہر کی عید گاہ میں اکٹھے ہو کر نماز عید کی ادائیگی کے لئے جانے کی بجائے گھر میں نیند پوری کی جاتی ہے۔

بچوں کو عید پر ملنے والی عیدی سے جھولے لینا، کھلونے خریدنا، گول گپے، قلفیاں، چورن وغیرہ کھانا، تانگے کی سیر، کرائے پر سائیکل حاصل کرنا اور لاٹری نکالنے جیسے معصومانہ رجحانات ختم ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی ان خوشگوار اور محبت بھری روایات کو پھر سے زندگی بخشنے کی کوشش کی جائے، جس کے لئے سب سے ضروری نکتہ ہمارا خود پر انحصار کرنے کے ساتھ اپنے اندر دوسروں میں خوشیاں بانٹنے کا جذبہ پیدا کرنا ہے، کیوںکہ اسی مشق سے ہم اپنی پھیکی پڑتی زندگی اور عیدوں میں دوبارہ سے رنگ بھر سکتے ہیں۔

The post عیدالفطر کی روایتی خوشیاں کیوں دم توڑ رہی ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


میٹھی عید کی میٹھی خوشیاں

$
0
0

عید الفطر پر اپنی خوشیوں کو شیریں پکوانوں سے کریں مزید میٹھا۔اس عید کو بنائیں مزید یادگار اور پُر لطف مزے دار ڈئیزرٹس  بنائیں۔

آج ہم لائے ہیں آپ کے لئے آسان اور منفرد میٹھے پکوان کی تراکیب جو بنانے میں کم وقت لیتے ہیں اور کھانے میں مزہ دوبالا۔ تو بنائیں آپ بھی اپنی اس عید کو بہت اعلی۔

سٹرابیری ڈیلائٹ

اجزاء:

کرسٹ بنانے کے اجزاء :

میری(کوئی بھی سادہ ) بسکٹ 200 گرام/2 کپ

ان سالٹڈ مکھن (پگھلا ہوا) 80 گرام/1/3 کپ

وہپڈ کریم بنانے کے اجزاء :

وہپنگ کریم 1 پیک، کریم 50 گرام/1/4 کپ

سٹرابیری پیوری بنانے کے اجزاء:

سٹرابیری 300 گرام / 2 ½ کپ، کیسٹر شوگر 50 گرام/ ¼ کپ، پانی 50 گرام / ¼ کپ

سٹرابیری وہپڈ کریم بنانے کے اجزاء:

وہپڈ کریم، سٹرابیری کی پیوری، جیلیٹن 15 گرام / 2 چمچ

اسیمبلنگ کے اجزاء :

تیار بسکٹ کرسٹ

سٹرابیری وہپڈکریم

سٹرابیری سلائس ضرورت کے مطابق

سٹرابیری جیلی (پانی 350 گرام / 1 ¼ کپ + سٹرابیری جیلی پاؤڈر پیک

ترکیب:

کرسٹ کیلئے ایک گراینڈر میں بسکٹ ڈال کر اچھی طرح پیس اس میں مکھن ڈال کر دوبارہ اچھی طرح پیس لیں۔

وہپڈ کریم بنانے کے لئے ایک باؤل میں وہپنگ کریم ڈال کروہپڈ ہونے تک پھینٹے۔ اس میں ڈیری کریم ڈال کر اسے دوبارہ اچھی طرح پھینٹے۔  سٹرابیری کی پیوری بنانے کے لئے ایک بلینڈر میں سٹرابیری، کیسٹر شوگر اور پانی ڈال کر اچھی طرح بلینڈ کریں اور اس کیپیوریبنا لیں۔  سٹرابیری وہپڈ کریم بنانے کے لئے وہپڈ کریم میں سٹرابیری پیوری ڈال کر اسے اچھے سے بیٹ کریں پھراس میں جیلیٹن ڈال کراسے دوبارہ بیٹ کریں۔

اسیمبلنگ کے لئے ایک ڈش میں تیار بسکٹ کرسٹ کی ایک تہہ ڈال کر اسے پانچ سے دس منٹ تک فریج میں رکھیں پھر اس پرسٹرابیری وہپڈ کریم ڈال کرسٹرابیری سلائس رکھیں اوراس کی دو اور لیرز لگائیں اور آدھے گھنٹے کے لیے فریج میں رکھ دیں۔ سٹرابیری جیلی تیار کرنے کے لیے، ایک پین میں پانی گرم کرکے اسے ابال لیں پھرسٹرابیری جیلی پاؤڈر ڈال کر اسے پوری طرح گھلنے تک پکائیں۔

تیار جیلی مکسچر کوسٹرابیری کریم ڈیلائٹ ڈالیں کرکمرے کے درجہ حرارت پر ٹھنڈا ہونے دیں۔ سٹرابیری  ڈیلائٹ تیار ہے!

 چاکلیٹی بسکٹ کیک

اجزاء

چاکلیٹ سیرپ  کے اجزاء:

کوکو پاؤڈر 1/2 کپ، چینی 1 کپ، پانی 2 کپ، ونیلا ایسنس 1 چائے کا چمچ، نمک 1 چائے کا چمچ، سادہ بسکٹ 3 کپ

چاکلیٹ گیناش کے اجزاء :

ڈارک چاکلیٹ 1 کپ،  ملک پیک ڈیری کریم 1 پیک

اسیمبلنگ کے اجزاء:

چاکلیٹ بسکٹ کرسٹ، چاکلیٹ گیناش حسب ضرورت، چاکلیٹ فراسٹنگ حسب ضرورت، چاکلیٹ چپس حسب ضرورت

ترکیب:

چاکلیٹ سیرپ بنانے کے لئے ایک پین میں کوکو پاؤڈر، چینی، پانی، نمک اور ونیلا ایسنس ڈال کر اچھی طرح مکس کریں پھر اسے دو سے تین منٹ تک پکائیں پھر مکھن ڈال کر گاڑھا ہونے تک پکائیں اب اسے کمرے کے درجہ حرارت پر ٹھنڈا ہونے دیں۔

پھربسکٹ کو بڑے ٹکڑوں میں توڑ لیں۔

بسکٹ کو  تیارکئے چاکلیٹ سیرپ کو بسکٹ میں مکس کریں اور کیک مولڈ میں سیٹ کریں پھر اسے تین سے چارگھنٹے کے لیے فریج میں رکھیں۔

چاکلیٹ گیناش بنانے کے لئے ڈارک چاکلیٹ کو ملک پیک ڈیری کریم کے ساتھ پگھلا کر ایک منٹ کے لیے مائکروویو میں رکھیں پھر اسے اچھی طرح مکس کریں جب تک کہ چاکلیٹ کریم میں اچھے سے پگھل نہ جائے۔

اب کیک کو گیناش کے ساتھ لیئر کریں اور اسے ایک سے دوگھنٹے کے لیے فریج میں رکھیں۔

اسیمبلنگ کے لئے اب تیار کیا ہواکیک لیں اورکیک کے اطراف میں چاکلیٹ چپس ڈال دیں۔

پھرکیک کو چاکلیٹ فراسٹنگ سے سجائیں۔  کیک تیار ہے۔

چیز کیک

اجزاء :

بسکٹ حسبِ ضرورت، مکھن 1چوتھائی کپ، براؤن شوگر 1چوتھائی کپ، اپنے پسندیدہ بسکٹ 1چوتھائی کپ، ہیوی کریم 2کپ، کریم چیز 1کپ، پاؤڈرڈ شوگر 2تہائی کپ، ونیلا ایسنز آدھا چائے کا چمچ، جیلیٹن 1کھانے کا چمچ، لیموں کا رس 1کھانے کا چمچ

ترکیب:

ایک چوپر میںبسکٹ، مکھن اور براؤن شوگر ڈال کر اچھی طرح مکس کر لیں۔

اب چھوٹے گول سانچے لیں اورتیار کیا ہوا مکسچر اس میں ڈال دیں۔

ہیوی کریم کو اچھی طرح پھینٹ کر سائیڈ پر رکھ دیں۔

اب ایک دوسرے باؤل میں کریم چیز، چینی، نمک، ونیلا ایسنز اور لیموں کا رس ڈال کر تین سے چار منٹ اچھی طرح پھینٹ لیں۔پھر چیز مکسچر اورجیلیٹن کو ہیوی کریم میں ڈال کر اچھی طرح مکس کرلیں۔

اب پسے ہوئے بسکٹ کو احتیاط سے بنائی ہوئی فلنگ میں مکس کر لیں۔

پھرتیار کئے ہوئے سانچوں میں فلنگ بھر دیں اور چھ گھنٹے کے لئے فریج میں رکھ دیں۔

وہپنگ کریم اور چوکلاٹوسے گارنش کر کے سرو کریں۔

مزیدار چوکلیٹ چیز کیکس تیار ہیں۔

کسٹرڈ فالودہ

اجزاء:

تخم ملنگا 1چائے کا چمچ، پانی 1کپ، کارن فلار آدھا کپ، پانی ڈیڑھ(1.5) کپ، چینی 1کھانے کا چمچ، ٹھنڈا پانی حسبِ ضرورت، دودھ 1لیٹر، ونیلا کسٹرڈ پاؤڈر اوردودھ چار کھانے کے چمچ اور1کپ، آئسنگ شوگر آدھا کپ، سبز الائچی پاؤڈر 1چوتھائی چائے کا چمچ، پانی 2کپ، سٹرابیری جیلی پاؤڈر 1چوتھائی کپ، پانی 2کپ، بنانا جیلی پاؤڈر 1چوتھائی کپ، ٹھنڈا کسٹرڈ، ٹھنڈی سویا ں، ٹھنڈی جیلیاں، بھگوئی ہوئی تخم ملنگا، کٹا ہوا بادام اور پستہ

ترکیب:

ایک باؤل میں تخم ملنگا اور پانی ڈال کر بھگو کر رکھ دیں۔

سویاں بنانے کے لئے ایک پین میں پانی، کارن فلار اور چینی ڈال کر اچھی طرح مکس کر لیں۔اب چولہا چلا کر مسلسل مکس کرتے جائیں اور ہلکی آنچ پرگاڑھا ہونے تک پکائیں۔

اس مکسچر کو سویاں میکر میں ڈال کر سویاں بنا لیں اور ٹھنڈے پانی میں ڈال کر بیس سے تیس منٹ سائیڈ پر رکھ دیں۔

کسٹرڈ بنانے کے لئے ایک برتن میں دودھ اور چینی ڈال کر ابلنے دیں۔اب اس میں کسٹرڈ ڈال کر درمیانی آنچ پر پکائیں۔پھر اس میں الائچی پاؤڈر ڈال کر گاڑھا ہونے تک پکائیں اور ٹھنڈا ہونے دیں۔

سٹرابیری جیلی بنانے کے لئے ایک پین میں دو کپ پانی ڈال کر ابلنے دیں اور پھر اس میں سٹرابیری جیلی پاؤڈر ڈال کر اچھی طرح مکس کر لیں۔اب ایک مولڈ میں ڈال کر ٹھنڈا ہونے دیں۔

بنانا جیلی بنانے کے لئے ایک دوسرے پین میں دو کپ پانی ڈال کر ابلنے دیں اور پھر اس میں بنانا جیلی پاؤڈر ڈال کر اچھی طرح مکس کر لیں۔اب ایک مولڈ میں ڈال کر ٹھنڈا ہونے دیں۔

اب ان دونوں جیلیوں کو چھوٹی کیوبز میں کاٹ لیں۔

پھر ایک گلاس میں دونوں جیلیاں، تخم ملنگا، کسٹرڈ اور فالودہ سویاں ڈال کراس پر بادام، پستہ چھڑ ک دیں اور ٹھنڈا ٹھنڈا سرو کریں۔

چاکلیٹ ایکلئیرز

اجزاء:

ڈو (شو پیسٹری) کے اجزاء:  پانی 1 کپ، ڈیری بٹر سالٹڈ  1/4 کپ، چینی 1 کھانے کا چمچ، نمک آدھی) (1/2چائے کا چمچ، میدہ 1 کپ، انڈے 3

وئپڈ کریم بنانے کے  اجزاء: وہپنگ ملک پیک کریم 1 کپ، چاکلیٹ ایکلیربنانے کے اجزاء، انڈے پھینٹے ہوئے (ایگ واش کے لئے) حسب ضرورت، ڈارک چاکلیٹ (چاکلیٹ گاناشے کے لیے) 1 کپ، کریم 1 کپ، ویپڈ کریم حسب ضرورت

ترکیب:

ڈو تیار کرنے کے لئے ایک برتن میں پانی گرم کرکے اس میں ملک پیک نمکین ڈیری مکھن، چینی اور نمک ڈال کر اس وقت تک پکائیں جب تک پانی ابلنا شروع نہ ہو جائے اور مکھن گھل نہ جائے۔

اب چولہہ بند کر کے دو حصے میں میدہ ڈالیں اور مکس کرکے سمود دڈو تیار کر لیں اور کمرہ کے درجہ حرارت پر ٹھنڈا ہونے دیں۔ پھر اس ڈو میں ایک ایک کرکے انڈے ڈال کر بیٹ کریں۔  وہپڈ کریم تیار کرنے کے لئے ایک پیالے میں ملک پیک وہپنگ کریم ڈال کراچھی طرح وہپڈ ہونے تک بیٹ کریں۔ نوٹ: کریم کو رات بھر فریج میں ٹھنڈا کریں اور اسے الیکٹرک بیٹر سے بیٹ کر لیں۔ (ٹھنڈا کرنے کے لیے فریزر میں نہ رکھیں فریزر میں رکھنے سے کریم وہپڈ نہیں ہوگی۔

چاکلیٹ ایکلیرز بنانے کے لئے تیار ڈو مکسچر کو پائپنگ بیگ میں ڈال کر لمبے سیلنڈر کی شکل میں گریس کی ہوئی بیکنگ ٹرے پر پائپ کریں اور انگلی پر پانی لگا کے اس کو سمود کر لیں۔  اب ان پر انڈے کو برش کریں اور پہلے سے گرم اوون میں ایک سو ساٹھ ڈگری پندرہ سے بیس منٹ تک بیک کریں اورکمرے کے درجہ حرارت پر ٹھنڈا ہونے دیں۔  ان میں نیچے سے سوراخ کریں اور ان میں تیارکریم کو پائپ کریں۔ ایک باؤل میں ڈارک چاکلیٹ،  ملک پیک ڈیری کریم ڈل کرمائیکرو ویو میں ایک منٹ کے لیے گرم کریں اوراسے اچھی طرح مکس کرلیں۔چاکلیٹ گناش تیار ہے۔

اب تیارایکلیرز کے اوپروالے حصے پر چاکلیٹ گناش لگائیں اور اوپر سے ملک پیک ڈیری کریم دال کر سرو کریں۔  چاکلیٹ ایکلیرز تیار ہیں۔

بنگالی رس برا

اجزاء :

گھی 1/4 کپ، سوجی 2 کپ، دودھ 3 کپ، الائچی پاؤڈر 1 چائے کا چمچ، بیکنگ سوڈا 1 چائے کا چمچ، دودھ پاؤڈر 1 کپ، بادام پاؤڈر 1/4 کپ

شوگر سیرپ کے اجزاء: پانی 4 کپ، چینی 3 کپ، سبز الائچی 3-4، روز ایسنس 1کھانے کا چمچ، لیموں کا رس 1چائے کا چمچ

ترکیب:

بنگالی راس برابنانے کے لئے ایک پین میں گھی گرم کرکے اس میں سوجی ڈال کر دو سے تین منٹ، خوشبودار ہونے تک بھونیں۔

اب اس میں دودھ ڈال کر گاڑھا کریںاور دودھ خشک ہونے تک پکائیں۔پھر چولہا بند کرکے ڈھکن سے ڈھک کر کمرے کے درجہ حرارت پربیس منٹ سائیڈ پر رکھ دیں۔ ایک باؤل میں اس سوجی مکسچر، الائچی پاؤڈر، بیکنگ سوڈا اور دودھ پاؤڈر ڈال کر اچھی طرح مکس کریں۔ اب اس مکسچرکو ہاتھوں سے رول کی شکلیں بنا لیں اور گولڈن براؤن ہونے تک ڈیپ فرائی کرلیں۔ شوگر سیرپ بنانے کے لئے ایک پین میں پانی گرم کرکے اس میں اس میں چینی، سبز الائچی، روز ایسنس اور لیموں کا رس ڈال کر چینی اچھی طرح حل ہونے اور مکسچر ہلکا سا گاڑھا ہونے تک پکائیں۔

شوگر سیرپ تیار ہے۔ بنگالی رس برا کو شوگر سیرپ میں ایک گھنٹہ بھگو دیں۔  رس برا تیار ہے۔

The post میٹھی عید کی میٹھی خوشیاں appeared first on ایکسپریس اردو.

الہ دین کے اسٹیشن پر قدم رکھا تو لگا جیسے کسی گلاب کے باغ میں قدم رکھ دیا ہے

$
0
0

(ترکی کا سفرنامہ۔۔۔ بارہواں پڑاؤ)

زر کوب

یہ عجب سی کارگہ تھی

جہاں چمڑے کی بو رچی تھی

انھیں کی سات تہوں میں

رکھی سونے کی ڈلیاں تھیں

جنہیں کچھ کارگر بس کوٹتے تھے

گیت گاتے تھے

اور دائرے میں گھومتے تھے

لہراتے جاتے تھے

وہ لے اور سر میں سب رقصاں

ضربیں لگاتے تھے

یہ منظر اس قدر مسحورکن تھا

کہ رومی ایک لمحے کو سنجیدہ سا ہوگیا

مگر اگلے لمحے رومی بھی رقصاں تھا

ابھی تک رومی رقصاں ہے

(مظہر شہزاد خان)

 

یہ نظم مظہر شہزاد خان کی نظموں کے مجموعے جنم جنم کے بھید سے لی گئی ہے۔ ہم نے رومی ؒ کو سب سے پہلے علامہ اقبال ؒ کے حوالے سے جانا پھر مثنوی مولانا رومی کے چند حصے پڑھے۔ مثنوی کے لیے کہا جاتا ہے یہ وہ کتاب ہے جو سینے میں عشق خداوندی کی آگ لگا دیتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ قرآن در زبان فارسی ہے۔

علامہ اقبال ؒ مولانا رومی ؒ کے بارے میں فرماتے ہیں

نہ اٹھا پھر کوئی رومی ؒ عجم کے لالہ زاروں سے

وہی آب و گل ایراں وہی تبریز ہے ساقی

مولانا رومیؒ کا مزار قونیہ میں ہے اور آپ کے پیرو مرشد حضرت شمس تبریزؒکا مزار بھی قونیہ میں ہے۔ مولانا رومیؒ فارسی کے مشہور شاعر اور عالم و فقیہ تھے مگر شمس تبریزؒ وہ تھے جنہوں نے انہیں مولائے روم بنایا۔

قونیہ جانے کا فیصلہ میرا تھا۔ عزیز کو قونیہ کے متعلق کچھ معلوم نہ تھا۔ ان کے علم میں تو استنبول، انقرہ، اناطولیہ مشہور شہر تھے۔ لیکن عزیز کا دل انقرہ میں زیادہ نہیں لگا حالاںکہ انقرہ خاصا موڈرن اور نیا بنا ہوا شہر ہے اور جو طریقہ بڑے اور موڈرن شہروں کا ہوتا ہے وہی ہے۔ البتہ استنبول اسے بہت اچھا لگا اور استنبول میں اس کا دل بھی لگا اس لیے جب میں نے عزیز سے قونیہ چلنے کا کہا تو وہ بالکل تیار نہ تھا۔ اس کا خیال تھا کہ ہمیں کپاڈوکیا چلنا چاہیے۔ ہمارا ترکی میں یہ دوسرا ہفتہ تھا اور اس ہفتہ کے لیے ہمیں فیصلہ کرنا تھا کہ ہمیں کون سے شہر جانا چاہیے۔ قونیہ کا نام سننے کے بعد وہ کہنے لگا اماں ہم ابھی تو استنبول میں مسجدیں اور مزارات کی زیارت کرکے آرہے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ قونیہ بھی استنبول جیسا ہوگا۔

مگر پھر اسے احساس ہوا کہ اسے میری خوشی کی خاطر قونیہ جانا چاہیے۔ اس نے انقرہ آتے ہی قونیہ میں ہوٹل کی بکنگ کروالی تھی۔ ہمیں اب انقرہ کے میٹرو اسٹیشن سے میٹرو ٹرین کے ذریعے فاسٹ ٹرین کے اسٹیشن تک آنا تھا۔ ہم انقرہ بھی فاسٹ ٹرین سے آئے تھے۔ اسٹیشن تو ہمیں معلوم تھا اور راستے کا بھی اندازہ ہوگیا تھا جس سے ہم کو میٹرو اسٹیشن جانا تھا اور انقرہ کارڈ بھی موجود تھا، اس لیے ہم سمجھ رہے تھے کہ کوئی دقت نہیں ہوگی مگر انقرہ کا میٹرو ٹرین سسٹم بے انتہا جدید ہے اور پورا سسٹم کمپیوٹر سے منسلک ہے۔

انقرہ کے رہنے والے تو عادی ہیں مگر ایک نئے انسان کے لیے اس کو سمجھنے کے لیے کافی وقت درکار ہوتا ہے حالاںکہ عزیز کو کمپیوٹر کی بہت سمجھ ہے اس نے استنبول کے سسٹم کو بہت حد تک سمجھ لیا تھا مگر انقرہ کا سسٹم استنبول سے بھی زیادہ جدید تھا۔ ہم میٹرو اسٹیشن تو آسانی سے پہنچ گئے۔

اور انقرہ کارڈ کے ذریعے اسٹیشن کے اندر بھی پہنچ گئے ہم جب انقرہ آئے تھے تو نیچے کی طرف اترتے تھے مگر یہ اسٹیشن کئی منزلہ تھا اور یہ معلوم نہیں تھا کہ فاسٹ ٹرین اسٹیشن جانے کے لیے ہمیں کون سی منزل پر جانا ہوگا۔ وہاں تو ایک دنیا آباد تھی ہر ایک موبائل ہاتھ میں لیے نقشہ دیکھتا ہوا بھاگم بھاگ اپنے اپنے اسٹیشن کی طرف جارہا تھا۔ مگر عزیز کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔

جو وہاں ورکر موجود تھے ان کو ہماری بات سمجھ نہیں آرہی تھی ایک ورکر نے ہمیں دوسری منزل پر بھیج دیا مگر جب عزیز نے نقشہ دیکھا تو معلوم ہوا کہ یہ میٹرو تو انقرہ کے دوسری طرف جارہی ہے۔

جہاں ہم کھڑے تھے وہاں ایک پندرہ سولہ سال کا لڑکا کھڑا تھا اسے تو اسی ٹرین سے جانا تھا اس نے عزیز سے انگریزی میں پوچھا آپ لوگوں کو کہاں جانا ہے۔

عزیز نے اسے فاسٹ ٹرین اسٹیشن کا بتایا تو اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا تم غلط اسٹیشن پر ہو آؤ میرے ساتھ اس نے میرا ہینڈ کیری لے لیا اور ہم سے آگے تیزی سے چلنا شروع ہوگیا۔ تمہاری تو میٹرو آنے والی ہے تم لیٹ ہو جاؤگے۔

ہم کو اوپر جانا ہوگا وہ بار بار مڑ کر ہمیں جلدی چلنے کا کہہ رہا تھا۔ عزیز نے اس سے کہا تمہاری ٹرین بھی تو آنے والی ہے۔ اس نے کہا میں تو دن میں کئی چکر لگاتا ہوں اسکول جاتا ہوں اپنی دادی کے ہاں جاتا ہوں۔ مجھے وقت کا معلوم ہے تم سیاح ہو تم کو صحیح راستہ دکھانے کا میرا فرض ہے۔ ہم اس کے پیچھے پیچھے صحیح جگہ آگئے وہ ہمیں وہاں ٹرین کا انتظار کرنے کا کہہ کر تیزی سے واپس پلٹ گیا اس نے الیکٹرک سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر ہمیں ہاتھ ہلایا۔ ہم انہی سیڑھیوں سے اوپر آئے تھے وہ اب اپنے اسٹیشن پر واپس جارہا تھا یقیناً اس کے بڑوں نے دعائیں لینے کا طریقہ بتا دیا تھا۔ میری طرف سے بھی اس اجنبی لڑکے کے لیے بہترین دعائیں جو اس اجنبی ملک میں ہمارے لیے خضر راہ بنا۔

انقرہ آتے ہوئے بھی ایک ایڈونچر ہوا تھا اب جاتے ہوئے بھی ایک ایڈونچر ہوا۔ ہم فاسٹ ٹرین کے اسٹیشن پر تو آرام سے پہنچ گئے تھے ابھی ٹرین جانے میں بھی دیر تھی۔

ٹکٹ کاؤنٹر پر ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا۔ عزیز نے جب اس سے قونیہ جانے کے لیے ٹکٹ لینا چاہا تو اس نے نفی میں گردن ہلائی۔ عزیز نے بزنس کلاس کے ٹکٹ کا پوچھا اس نے نفی میں گردن ہلائی پھر اپنی ساتھی کی سیٹ کی طرف گیا اور اس سے سیٹ کا پوچھا اس لڑکی نے کہا کہ ایک نشست موجود ہے۔

ہم نے اس سے کہا کہ ہمیں دو کی ضرورت ہے۔ وہ کہنے لگی ایسا کریں کہ ایک نشست ابھی کی ہے ایک ساڑھے تین بجے کی ہے ورنہ جب پندرہ منٹ رہ جائیں گے تو اگر دونوں ٹائم کی ٹرین میں کوئی ٹکٹ کینسل ہوا تو ہم وہ آپ کو دے دیں گے ابھی آپ انتظار کریں۔ ہم بکنگ کردیتے ہیں۔ اس دوران ایک ٹرکش خاتون آکر میرے پاس بیٹھ گئیں انہوں نے گلے میں کوئی بیج ڈالا ہوا تھا وہ پہلے تو مجھ سے کچھ پوچھتی رہیں پھر ان کی سمجھ میں نہیں آیا تو پھر وہ ٹکٹ کاؤنٹر پر گئیں اس سے کچھ پوچھا اور میرے پاس آکر بیٹھ گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ ہماری مدد کرنا چاہتی تھیں۔ اتنی بات چیت میں جو لفظ میری سمجھ میں آیا وہ ’’بس‘‘ تھا

اتنی دیر میں کاؤنٹر والے لڑکے نے عزیز کو بلایا اور کہا کہ کوئی ٹکٹ کینسل نہیں ہوا ہے ایسا کرو کہ ایک پہلے چلا جائے دوسرا ساڑھے تین بجے والی ٹرین سے چلا جائے اور کوئی حل نہیں ہے۔ عزیز کے لیے یہ حل قابل قبول نہیں تھا کیوںکہ جو ساڑھے تین بجے والی ٹرین تھی وہ رات کو پہنچتی۔ وہ خاتون پھرکاؤنٹر پر اٹھ کر گئیں اور اس سے مسئلہ سمجھا۔ عزیز نے میرے پاس آکر پوچھا اماں اب کیا کرنا ہے۔ میں نے کہا دونوں ٹکٹ کینسل کروا دو ہم بس سے چلتے ہیں۔ جب ہم ٹکٹ کینسل کروا رہے تھے تو وہ ہمارے ساتھ کھڑی ہوگئیں اور کاؤنٹر والے لڑکے سے کہا ان لوگوں کو بولو کہ بس سے چلے جائیں یہ لوگ اتنی دیر سے میری بات نہیں سمجھ رہے ہیں۔ بس بہت آرام دہ ہے تھوڑا وقت زیادہ لے گی۔

عزیز نے انہیں کہا کہ ہم بس سے جائیں گے انہوں نے اپنا موبائل نکال کر عزیز کو دکھایا جس میں نقشہ بنا ہوا تھا۔ عزیز نے ان خاتون کو اردو میں جواب دیا کچھ زبان اشاروں کی تھی جس کا مطلب تھا ہم کو راستہ معلوم ہے اور نقشہ بھی ہے۔ عزیز نے اپنا موبائل نکال کر ان کو نقشہ دکھا دیا۔ انہوں نے اطمینان کی سانس لی اور شکر الحمداﷲ کہا اور میرا ہاتھ پکڑ کر دوست دوست کہتی رہیں اور پھر موبائل پر انہوں نے ترکی میں کچھ کہا۔

جس کا جواب انگریزی میں انہوں نے سنایا۔ میرا وطن قونیہ ہے میری یہاں نوکری ہے مگر میری یادوں میں قونیہ ہے۔ تم لوگوں کو قونیہ کی ٹرین نہیں ملی تو میرا دل اداس ہوگیا۔ اب میں خوش ہوں تم لوگ میرے شہر جاؤگے۔ اب میں گھر جارہی ہوں خداحافظ وہ تیزی سے گیٹ کی جانب بڑھ گئیں۔

اور ہم دونوں ماں بیٹا خاموش کھڑے ان کو جاتا دیکھتے رہے۔ یہ خاتون ہم کو بھی جذباتی کرگئیں تھیں۔ پھر میں نے عزیز سے کہا بیٹا ’’میں ہمیشہ کہتی ہوں کہ شہر زمین پر نہیں دلوں میں بستے ہیں۔‘‘

اور میں یہ سوچ رہی ہوں وہ شہر کتنا خوب صورت ہوگا جس شہر کے رہنے والے دور رہ کر بھی اس سے بے تحاشہ محبت کرتے ہوں گے اور ان کے شہر کو جانے والے مسافروں سے بھی محبت کرتے ہوں گے۔

اب عزیز جو میری خواہش کے مطابق قونیہ جانا چاہ رہا تھا اب ان خاتون سے مل کر اس کی دل چسپی بھی بڑھ گئی تھی۔ ہمیں بہت آسانی سے بس مل گئی جس نے ہمیں قونیہ جانے والی بس کے اسٹاپ پر اتار دیا۔ یہ ایک بہت بڑا ٹرمینل تھا باہر تو بہت ساری بسیں کھڑی تھیں جو مختلف شہروں کو جارہی تھیں۔ ایک ہال نما کمرے میں لائن سے کمپنی کے دفاتر تھے۔ ہم نے پہلے ہی آفس پر جاکر قونیہ کے لیے بس کا پوچھا اس نے ہمارا پاسپورٹ مانگا۔ پاسپورٹ چیک کرکے ٹکٹ بنا دیا اور کہا کہ جو پہلی بس کھڑی ہے وہی قونیہ جارہی ہے۔ ایک یونیفارم پہنے صاحب ہم کو لے کر بس تک آگئے۔ ہمارا سامان رکھ کر ہمارے حوالے ٹوکن کیا شکریہ ادا کرتے ہوئے واپس چلے گئے۔

بس کو روانہ ہونے میں پندرہ منٹ تھے۔ ہمارا مسئلہ ہی وقت کا تھا۔ کوئی بھی نیا شہر ہو وہاں دن کے وقت جانا بہتر ہوتا ہے۔ بے شک وہ اپنے ملک کا ہی کیوں نہ ہو مگر قونیہ جاتے وقت ہمیں کوئی گھبراہٹ نہیں ہورہی تھی۔ بس بھی بہت آرام دہ تھی۔ ہم استنبول سے انقرہ تو فاسٹ ٹرین سے آئے تھے مگر اب انقرہ سے قونیہ بس سے جارہے تھے بس ٹرین سے بھی کم کرایہ لیتی ہے مگر وقت زیادہ لیتی ہے۔ یہ ہمارا ایک شہر سے دوسرے شہر بس سے پہلا سفر تھا اور کرایہ بھی مناسب تھا ایک طرف کا کرایہ صرف 175لیرا تھا۔

بس وقت سے روانہ ہوگئی تھی۔ ترکی میں شہروں کے درمیان بھی سفر بہت آسان ہے۔ سڑکیں بھی بہت بہترین بنی ہوئی ہیں۔ کسی ملک کی ترقی میں اس کے ٹرانسپورٹ سسٹم کا بہت دخل ہوتا ہے۔ بہت سی قوموں نے اس راز کو پاکر ترقی کی ہے۔ ابھی پندرہ بیس منٹ کا ہی سفر کیا تھا کہ ایک چیک پوسٹ آگئی۔ ایک اہل کار نے ہمارے پاسپورٹ جمع کیے معلوم نہیں ترکش اپنی شناخت کے لیے کیا استعمال کرتے ہیں مگر وہ اہل کار ہر ایک سے پاسپورٹ ہی طلب کررہا تھا۔ وہ جمع کرکے اپنے کیبن میں چلاگیا اس کے ساتھ بس کے عملے کا بھی اہل کار تھا۔ کافی دیر ہوگئی تھی مجھے تو گھبراہٹ ہونے لگی نہ جانے کیا مسئلہ ہے۔ ہمارے پاسپورٹ کیوں لے لیے گئے ہیں۔

کافی دیر گزرنے کے بعد ہمارے پاسپورٹ واپس ہوئے، معلوم ہوا کہ تمام مسافروں کا کمپیوٹر میں اندراج ہورہا تھا۔ اس لیے دیر ہوئی۔ پھر کئی چیک پوسٹ آئیں مگر دو منٹ سے زیادہ نہیں لگے۔ انہوں نے بس کو آگے جانے کی اجازت دے دی۔

راستے میں کئی چھوٹے چھوٹے شہر آئے بس ’’ازکے شہر‘‘ سے بھی گزری مگر روکی نہیں ’’از کے شہر‘‘ ترکی کا مشہور شہر ہے۔ یہ شہر بھی بہت خوب صورت ہے اور بہت ترتیب سے بنا ہوا ہے۔

کافی گاؤں بھی راستے میں آئے جن میں کاشت کاری کی گئی تھی۔ زیادہ تر فلیڈ سورج مکھی کی آئیں شاید یہ موسم سورج مکھی کی کاشت کا تھا لیکن جوں جوں ہم قونیہ کی طرف بڑھ رہے تھے پہاڑی سلسلے دور ہوتے جارہے تھے اور سرسبز علاقے بڑھتے جارہے تھے۔ جیسے ہم اپنے شمالی علاقوں سے پنجاب میں داخل ہورہے ہوں۔ ہم نے اب تک جتنا راستہ طے کیا تھا وہ پہاڑی تھا اور تمام پہاڑوں پر ونڈ انرجی کے بڑھے پنکھے لگے ہوئے تھے۔ اب وہ پہاڑوں کے ساتھ دور ہورہے تھے۔ یہ ملک بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ۔ ہوسکتا ہے ان علاقوں میں سولر انرجی سے فائدہ اٹھاتے ہوں۔ کہیں سولر پینل لگے ہوئے نظر تو آرہے تھے۔ ہم ایک چیک پوسٹ پر روکے معلوم ہوا قونیہ آگیا ہے۔ جب ایک بار شناخت ہوگئی تھی تو روکنے کے لیے صرف دو تین منٹ زیادہ لگنے تھے۔ قونیہ میں داخل ہوتے ہی جو پہلی چیز ہمیں نظر آئی وہ باغ تھا جو سڑک کے دونوں جانب ساتھ ساتھ چل رہا تھا اور جو روش تھی وہ گلابوں کی تھی جو فٹ پاتھ کے بعد دور تک چل رہی تھی۔ یہ کوئی پبلک پارک تھا کیوںکہ روش کے بالکل ساتھ واکنگ ٹریک تھا۔ جہاں لوگ واک کررہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنچیں اور جھولے لگے ہوئے تھے اور بچے کھیل رہے تھے۔

کافی بڑا باغ تھا، جس کے ساتھ ہی رہائشی کالونیاں شروع ہوگئی تھیں جس میں سرخ کھپریلوں والے ایک یا دو منزلہ مکانات بنے ہوئے تھے۔ یقیناً یہ شہر سے دور کالونیاں تھیں کیوںکہ کافی سفر ہم نے ایسے راستوں پر کیا جہاں کوئی کنسٹرکشن نہیں ہوئی تھی۔ عام طور پر ایسے بس ٹرمینل شہر شروع ہوتے ہی بنے ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایسا ہی ٹرمینل تھا۔ بس جس جگہ روکی تھی وہ ٹرمینل کے دوسری طرف تھی جہاں کچھ آفس، بس کھڑی کرنے کے شید اور واش روم بنے ہوئے تھے۔ یقیناً یہ اہتمام مسافروں کی سہولت کے لیے کیا گیا تھا۔ باہر بینچیں پڑی تھیں حالاںکہ لیڈیز جنٹس علیحدہ اور کافی تعداد میں تھے مگر پھر بھی اتنے سارے لوگوں کا بوجھ نہیں اٹھاسکتے تھے۔ جو انتظار کرسکتے تھے وہ باہر بیٹھے ہوئے تھے۔ اصل مسئلہ تو بچوں کا تھا اس لیے خواتین والا حصہ زیادہ رش لے رہا تھا۔ وہ بچے جو سارے راستے خاموش بیٹھے رہے تھے اس وقت چیخ و پکار کررہے تھے۔ عزیز تو سامان رکھواکر فریش ہونے چلاگیا میں ایک طرف بینچ پر بیٹھ گئی تو مجھے ایک خوشبو کا احساس ہوا میں نے پیچھے پلٹ کر دیکھا ایک لمبی روش تھی جو گلاب کے پھولوں کی جھاڑیوں سے بھری ہوئی تھی۔ گلابی، سفید، سرخ دو رنگا ہر طرح کا گلاب بہار دکھا رہا تھا۔

فضا میں ہلکی سی خنکی تھی یہ عصر سے مغرب کے درمیان کا وقت تھا اور سورج میں بالکل تپش نہیں تھی۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ایسے میں لگ رہا تھا جیسے میں بس ٹرمینل پر نہیں کسی باغ میں بیٹھی ہوئی ہوں۔ اس وقت تھکن بالکل بھی محسوس نہیں ہورہی تھی کیونکہ اب یہاں بے تحاشہ سکون محسوس ہورہا تھا۔ لوگ اپنے اپنے سامان اٹھائے مختلف راستوں سے باہر جارہے تھے۔ کیونکہ یہاں سے کئی راستے باہر جارہے تھے۔ نہ کوئی چاردیواری تھی نہ گیٹ لگے ہوئے تھے لیکن ہمیں تو ہوٹل جانے کے لیے بس لینی تھی اور قونیہ کارڈ بھی بس ٹرمینل سے ہی ملنا تھا۔

ابھی ہم ٹرمینل میں داخل ہوئے تھے یہ بھی ایک بڑا ہال تھا، جس میں مختلف روٹس کے کاؤنٹر بنے ہوئے تھے۔ عزیز نے ایک کاؤنٹر پر جاکر قونیہ کارڈ کا پوچھا۔ وہاں ایک پولیس والا بھی کھڑا تھا۔ کاؤنٹر والے صاحب نے اس سے عزیز کی مدد کرنے کا کہا۔ وہاں ایک ٹرکش لڑکی بھی کھڑی تھی اور اپنا ٹکٹ بک کروارہی تھی اس نے پولیس والے کو اپنا قونیہ کارڈ پکڑاتے ہوئے کہا۔

میں قونیہ سے جارہی ہوں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے یہ تم اس لڑکے کو دے دو اس کارڈ میں اتنے لیرا ہیں کہ یہ لوگ ہوٹل پہنچ جائیں گے۔ وہ پولیس والے کو کارڈ دیتی ہوئی باہر چلی گئی ہم تو اس کا شکریہ بھی ادا نہیں کرپائے ابھی ہم ٹرمینل سے باہر آئے تھے کہ سامنے ایک بڑا شاپنگ مال تھا باہر ٹیبل لگاکر چائے اور کھانے کا انتظام تھا۔

عزیز کو بہت بھوک لگ رہی تھی میں نے سوچا ہوٹل پہنچتے تو رات ہوجائے گی کھانا کھالینا چاہیے۔ ہم نے کھانے کا آرڈر دیا کھانا بہت مزے کا تھا اور بھوک میں تو اور مزے کا لگ رہا تھا مگر بل پہلے ادا کرنا تھا لیکن ہم نے جیسے ہی کھانا ختم کیا۔ بیرا چائے لے کر آگیا۔ عزیز نے کاؤنٹر پر جاکر بل ادا کرنا چاہا تو اس نے مسکراتے ہوئے تھم کا نشان دکھاتے ہوئے کہا فری فری nomony یہ دوسری مہربانی تھی جو قونیہ والوں کی طرف سے ہوئی تھی۔

مجھے تو فاسٹ ٹرین کے اسٹیشن پر قونیہ کی خاتون سے ملاقات یاد آگئی ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ یہ تو ہے ہی شمش تبریزؒ اور مولانا رومی ؒ کے متوالوں کا شہر ہمارے بس اسٹیشن کا نام الہ دین تھا۔ اصل میں جانا تو شمس تھا مگر جو بس ہمیں ملی تھی وہ الہ دین سے دوسری طرف مڑ گئی تھی۔ اب جو ہم نے الہ دین کے اسٹیشن پر قدم رکھا تو لگا جیسے کسی گلاب کے باغ میں قدم رکھ دیا ہے۔ اسٹاپ سے باہر آتے ہی گلابوں کی روش ساتھ ساتھ تھی۔ یہ الہ دین پارک تھا جو مکمل طور پر پھولوں سے دھکا ہوا تھا اس پارک کی بھی کوئی دیوار نہیں تھی۔ ایک سرسبز پہاڑی تھی جو سبزے اور پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی ہم جہاں اترے تھے وہ پارک کا پچھلا حصہ تھا یہ بہت پرانا پارک تھا، اس میں کئی سو سال پرانے درخت تھے۔ پارک کا سامنے والا حصہ ہم نے بعد میں دیکھا جس میں ایک مسجد بھی موجود تھی۔ ابھی تو ہمیں ہوٹل پہنچنے کی جلدی تھی۔ ہم آرام سے پیدل چلتے ہوئے ہوٹل آگئے کیوںکہ قونیہ میں استنبول اور انقرہ کی طرح چڑھائیاں اتریاں نہیں ہیں بلکہ فٹ پاتھ اور سڑکیں ہموار ہیں۔ ہمارا یہ تیسرا ہوٹل تھا۔ استنبول کا ہوٹل بھی استنبول کی فاتح مسجد سمندر اور بس ٹرمینل کے قریب تھا۔ انقرہ میں بھی سب سے بڑی مسجد کے ساتھ ہوٹل ملا تھا۔ ہم جس وقت الہ دین کے اسٹاپ پر اترے تھے۔ اس وقت مغرب کی اذان ہوچکی تھی اور بلب روشن ہوچکے تھے تو ہمیں شہر کا اندازہ نہیں ہوا ۔

جب ہوٹل میں داخل ہوئے تو کاؤنٹر خالی تھا۔ ایک لڑکا دروازے کے باہر کرسی پر بیٹھا تھا ہم نے اس سے پوچھا تو اس نے ہاتھ سے نماز کا اشارہ کیا۔ عزیز نے کاؤنٹر کے پیچھے دیکھا تو ریسپنشٹ وہاں نماز پڑھ رہا تھا۔ ہم وہیں صوفوں پر بیٹھ گئے۔ وہ نماز سے فارغ ہوا تو ہم حیران رہ گئے وہ کوئی چوبیس پچیس سال کا نوجوان لڑکا تھا۔ کلین شیو، ہم تو سمجھ رہے تھے کوئی بزرگ ہوں گے۔ اس نے مسکراتے ہوئے ہمیں سلام کیا اور بہترین انگریزی میں کہا Well Come میں تو آپ کا انتظار کررہا تھا۔ بہت دیر ہوگئی، میں سمجھا آپ لوگ نہیں آئیں گے۔ آپ کا کمرا تیار ہے۔ اس نے لڑکے کو بلاکر سامان لے جانے کا کہا۔

عزیز نے اسے بتایا کہ ہم فاسٹ ٹرین سے آنا چاہتے تھے مگر بکنگ نہیں ملی تو بس سے آئے ہیں دیر تو ہوگئی ہے مگر آرام سے آئے ہیں۔

وہ کہنے لگا میرا نام Erhan ارحان ہے کوئی ضرورت ہو تو بتانا پہلے اپنا کمرا دیکھ لو۔ فریش ہوکر آجاؤ تو مل کر کھانا کھاتے ہیں۔ عزیز کو حیرت ہوئی۔کیا ہوٹل میں کھانے کی بھی سہولت موجود ہے اس نے حیرت سے پوچھا۔ صرف ناشتے کی سہولت موجود ہے مگر رات کا کھانا میں نے اپنے لیے بنوایا ہے اور آپ آج میرے مہمان ہو اور ہمارا سماوار تو چوبیس گھنٹے گرم رہتا ہے آپ جب چاہو چائے پی سکتے ہو۔

مجھے معلوم تھا بس اسٹاپ پر کھایا ہوا کھانا تو عزیز کا کب کا ہضم ہوچکا۔ ہوگا لیکن مجھے بالکل بھوک نہیں لگ رہی تھی مجھے اب آرام کرنا تھا۔ عزیز نے مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میں نے کہا مجھے بھوک نہیں ہے مگر تم چاہو تو یہ دعوت شیراز قبول کرسکتے ہو۔ ہماری گفتگو میں Erhanکو صرف دعوت شیراز کا لفظ سمجھ میں آگیا۔ یقیناً یہ لفظ ہمارا مشترکہ اثاثہ تھا۔ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا Yes Yes دعوت شیراز مگر مزے کی بات یہ تھی کہ عزیز کو دعوت شیراز کے متعلق کچھ معلوم نہیں تھا۔ اب اسے بھی تفصیل بتانی پڑے گی۔ اماں یہ دعوت شیراز کیا ہوتی ہے عزیز نے مڑکر پوچھا۔ بعد میں سمجھا دوں گی ابھی تو اس کی دعوت قبول کرلو۔ عزیز نے اس سے کہہ دیا اماں تو آرام کریں گی مگر میں تمہارے ساتھ کھانا کھاؤں گا۔

ارحان خوش ہوگیا اتنے میں وہ لڑکا ہمارا سامان اوپر پہنچا چکا تھا ۔ ارحان کہنے لگا میں تم کو کھانا لگتے ہی بلوالوں گا اتنی دیر میں تم فریش ہوجاؤ۔ ہم چابی لے کر اوپر آگئے۔ یہ دوسری منزل کا کمرا تھا۔ پہلی منزل پر کچن، ڈائننگ ہال، ایک آفس نما میٹنگ ہال بنا ہوا تھا باقی سارے رہائشی کمرے اوپر تھے۔ کمرا بہت بڑا نہیں تھا جیسے کمرے ہمیں استنبول اور انقرہ میں ملے تھے مگر صاف ستھرا اور آرام دہ تھا۔ ایک ڈبل بیڈ اور سنگل بیڈ موجود تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ارحان نے عزیز کو کال کرکے کھانے کے لیے بلالیا۔

عزیز تقریباً ایک گھنٹے کے بعد واپس آیا۔ میں نے اتنی دیر میں گھر کال کرکے قونیہ Konea پہنچنے کی اطلاع دی اور سب گھر والوں سے بات بھی کرلی۔ عزیز کے آنے سے تھوڑی دیر پہلے وہی لڑکا مجھے چائے دے کر چلاگیا۔ وہی ترکش چائے تھی پی کر طبیعت فریش ہوگئی۔

عزیز نے آکر بتایا کہ وہاں تو دس لوگوں کا کھانا تھا۔ دالوں کا سوپ، بیگن آلو ٹماٹر مٹر کی مکس سبزی، قورمہ، سادے چاول اور کلچے، بہت مزیدار کھانا تھا۔ کھانے پر میرے علاوہ ارحان کے دو دوست، کام والا لڑکا، ہوٹل میں کام کرنے والا ایک شخص اور باورچی نے بھی ہمارے ساتھ کھانا کھایا اور چائے بھی پی۔ ارحان کہہ رہا تھا کہ آپ کو کمرے میں کھانا بھجوادیتا ہوں، مگر میں نے منع کردیا کہ ہماری اماں سونے سے پہلے کچھ نہیں کھاتی صرف چائے پی لیں گی تو اس نے آپ کو کمرے میں چائے بھجوادی اور اصل بات تو آپ کو بتانا تھی ارحان اس ہوٹل کا مالک ہے۔ پہلے یہ چھوٹا سا چائے کا ہوٹل تھا پھر اس کے ابا نے اپنی محنت سے اتنا بڑا ہوٹل بنایا اور اپنے دونوں بیٹوں کے حوالے کردیا۔ صبح اس کا بڑا بھائی یہاں ہوتا ہے، مغرب تک یہ آجاتا ہے یہ قونیہ کی یونیورسٹی میں پڑھتا ہے اس لیے صبح نہیں آتا ہے۔

صبح کے وقت اس کے ابا اور بھائی آجاتے ہیں۔ ظہر کے وقت اس کے ابا MAVLNA چلے جاتے ہیں وہ کہہ رہا تھا کہ ہمارا ہوٹل ایسی جگہ ہے جہاں دائیں ہاتھ پر شمس ؒ اور بائیں ہاتھ پر MAVLNA ہیں دونوں طرف پیدل کا راستہ ہے وہ سب لوگ تو مولانا رومیؒ کے بہت عقیدت مند ہیں لیکن وہ کہہ رہا تھا MAVLNA جانے سے پہلے شمس تبریزؒ کی زیارت کو جانا اس سے پہلے کہیں مت جانا۔

انشاء اﷲ ہم صبح شمس ؒ کی زیارت کو جائیں گے یہ بھی اتفاق ہے کہ ہم دونوں اہم جگہوں سے اتنے قریب ہیں۔ ہم یہاں اپنے بارہویں پڑاؤ کا اختتام کرتے ہیں۔

The post الہ دین کے اسٹیشن پر قدم رکھا تو لگا جیسے کسی گلاب کے باغ میں قدم رکھ دیا ہے appeared first on ایکسپریس اردو.

لگتا ہے کل کی بات ہو !

$
0
0

ہماری زندگی میں کچھ دن، تاریخیں، لمحات ایسے ہوتے ہیں کہ کتنا بھی وقت گزر جائے جب بھی وہ دن تاریخ آتی ہے اس سے جُڑے واقعات چھم چھم کرتے ہمارے چاروں اُور گھومنے لگتے ہیں۔

جیسے ، یکم اپریل اور اس کے بعد کی تاریخیں———برس، برس کرتے پینتالیس برس بیت گئے پھر بھی لگتا ہے کل کی بات ہو۔

ہم خیبر میل کے ڈبے میں یکم اپریل کے سورج کو طلوع ہوتا دیکھ رہے تھے اور شدت سے کراچی پہنچنے کے منتظر تھے، کراچی پہنچنے کی بے تابی کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک اہم وجہ گھر پیارا گھر۔ سکھر سے اپنے عم زاد کی دلہن رخصت کراکے لا نے کی خوشی، رنگین آنکھوں اور سنہری رنگت والی دلہن سب کے درمیان میں یوں سکڑی سکڑائی بیٹھی تھی جیسے اُڑ جانے کا اندیشہ ہو اور ہمارا عم زاد خاندان کے دیگر چھوٹے بڑے عم زادوں کے بیچ نیند سے بوجھل آنکھیں لیے ریل کے جھٹکوں کے سنگ یوں جھول رہا تھا جیسے سچ مچ کا جھولا جھول رہا ہو۔

کوٹری یا شاید جنگ شاہی کے اسٹیشن پر ہاکر چیخ چیخ کر یہ بتانے کی کوشش کررہا تھا کہ آج یکم اپریل ہے، آج یکم اپریل ہے اور بھٹو کی زندگی کا فیصلہ ہونے والا ہے۔

جس کا جتنا سیاسی شعور تھا یا جتنی دل چسپی تھی۔ اس نے چہرے اور زبان سے اتنا ہی اظہار کیا۔ ہاکر کے ہاتھوں میں دبے اخبارات مختلف قسم کی سرخیوں اور بھٹو کی تصویروں سے بھرے پڑے تھے۔ میں نے آگے بڑھ کر اخبار لینا چاہا لیکن بڑوں نے یہ کہہ کے روک دیا۔ آج یکم اپریل ہے۔ بے قوف بنا رہا ہے۔

اگلے آدھے ایک گھنٹے کے بعد کراچی آگیا۔ دلہن دولہا مع اپنوں کے اپنے گھر کی طرف اور ہم اپنے، اپنوں کے ساتھ گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ ٹرین کے سفر اور نیند کی جگار سے چور گھر پہنچے تو ممتا سے چور ماں کا خیال تھا کہ ہم سب نہا دھو کے سوجائیں لیکن پاگل دل تو ہاکر کی اس صدا سے بندھا تھا کہ بھٹو کی زندگی کا فیصلہ ہونے والا ہے اور اس بات کی تصدیق، تردید تو آفس جانے کی صورت ہی میں ممکن تھی۔

آفس پہنچے تو روز کے معمول میں ہم سے بعد آنے والے ہم سے پہلے موجود تھے۔ اس غیرمعمولیت کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے کولیگ اور دوست مجاہد سے پوچھا،’’خیر ہے یہ شام صاحب اور اشرف اتنے سویرے سویرے کیسے آگئے۔‘‘

میز پر رکھا فون مسلسل بج رہا تھا، جس کا جی چاہتا اٹھاتا اور جو جی چاہتا جواب دے دیتا۔ ان ہی بجتی گھنٹیوں اور جوابات کے درمیاں مجاہد نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا،’’سانس لیں شہناز صاحبہ خیر کا وقت گزر چکا ‘‘ تو کیا اسے مار دیا۔

‘‘ نہیں ابھی نہیں۔‘‘ مجاہد نے مفکرانہ انداز میں جواب دیا۔

میں نے لمبی سانس کھینچی اور خود کو کرسی پر گرانے والے انداز میں بیٹھ گئی۔

یکم اپریل کا وہ سارا دن خبروں اور خبروں کی تردید تصدیق میں گزر گیا۔ سکھر کا نمائندہ کسی جہاز کے اترنے کی خبر دیتا تو لاڑکانہ والا کسی ہیلی کاپٹر کی— شام ڈھلے خود کو یہ یقین دلاتے ہوئے کہ آج یکم اپریل ہے گھروں کی جانب چل دیے۔

اگلی صبح شام صاحب نے مزید دل دہلا دینے والی خبروں کے ساتھ قدم رنجہ فرمایا: ’’وردی والوں نے مقامی پولیس کے ساتھ قبرستان کی جگہ کا معائنہ کیا ہے، خاندانی مسجد کے مولانا سے ملے ہیں، بھٹو خاندان کا منیجر بھی موجود رہا، قبر کی جگہ پوچھی ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔

عمر کے اس دور میں لگتا تھا بھٹو مر نہیں سکتا یا اس کو کوئی مار نہیں سکتا کہ وہ تو بھٹو ہے۔

آفس کا فون ان دنوں کسی سودائی کی طرح بجتا ہی رہتا اور کیسی عجیب بات تھی کہ فون کرنے والے سب بھٹو کی پارٹی کے لوگ، سوکھے پتوں کی طرح اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے، بولائے ہوئے سے تھے۔

یہ سب ہوتے ہوتے اپریل کا دوسرا دن بھی تمام ہو ہی گیا اور ایک نئی صبح کی آس میں ہم سب پھر اپنے اپنے آشیانوں کی جانب چل دیے۔ اُس ماہ کا تیسرا دن بھی سرگوشیوں، چھوٹی چھوٹی خبروں، ہونے نہ ہونے کی الگنی پر لٹکتے گزر ہی گیا تھا۔

اس شام ہمارے اس عم زاد کا ولیمہ بھی تھا جس کی دلہن کو ہم سکھر سے ٹرین میں بٹھا کر لائے تھے۔ سارا دن کیوں کہ بری بری خبروں کی آمد ورفت میں گزرا تھا سو من کسی صورت کہیں بھی جانے کو تیار نہ تھا لیکن فرار کا کوئی راستہ بھی نہ تھا سو جانا ہی پڑا۔ ولیمہ کی تقریب میں جس کسی کو اردگرد کے حالات سے دل چسپی تھی اس نے ضرور پوچھا،’’بھٹو کا کیا ہورہا ہے؟‘‘ رٹو طوطے کی طرح ہم جواب دیتے،’’آج کی رات بھاری ہے کچھ نہ کچھ ہورہے گا۔‘‘

اس جواب میں ہماری اپنی کسی قابلیت یا دوراندیشی کا کوئی کمال نہ تھا۔ دراصل یہ وہ جواب تھا جو سارا دن ہم نے دفتر میں سرگوشیوں میں سنا تھا۔ گھر آکر کئی بار سوچا کہ شام صاحب کو فون کریں پر ہمت نہ ہوئی۔ ٹی وی دیکھا اور لیٹنے سے قبل اپنی کتابوں کی میز کو بستر سے قریب کرتے ہوئے ٹیلیفون کو اسٹینڈ سے اتار کے اس پر جمایا اور جاگتی آنکھوں سونے کی کوشش کرنے لگے۔ کمرے کی کھڑکی سے رات گزرنے کا اندازہ کرتے رہے۔ صبح کی اذان سنی تو دل کو تسلی ہوئی کہ رات گزر گئی۔ چائے میں دودھ کی طرح صبح کی روشنی نے ملاوٹ کی ہی تھی کہ سرہانے رکھا فون بجا یا چیخا یا کراہا جھپٹ کے فون اٹھایا اور میرے ہیلو کہتے ہی شام صاحب کے دو الفاظ صرف دو الفاظ ’’کام ہوگیا‘‘ سنائی دیے اور فون بند ہوگیا۔

سر اوپر اٹھایا تو کمرے کے دروازے پر امی پاپا سوالیہ نشان بنے کھڑے تھے۔ میں نے بھی شام صاحب کی طرح صرف دو الفاظ کہے ’’کام ہوگیا‘‘ اور تکیے میں منہ چھپا لیا۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اپریل کی اس چوتھی صبح کو جس کا آغاز فون پر کہے دو الفاظ سے ہوا تھا اس صبح کی خاموشی میں دوسری گھنٹی ہمارے دروازے کی بجی تھی۔ وہ گھنٹی بجانے والا کوئی اور نہیں بھائیوں اور دوستوں جیسا جماعت اسلامی کے عشق میں گٹوں گوڈوں ڈوبا حسین حقانی تھا۔

ماں تو ماں ہوتی ہے نا اولاد کے سارے مزاجوں سے آشنا سو انھوں نے اسے دروازے ہی سے یہ کہہ کے واپس کردیا۔ اسے خبر مل چکی ہے تم گھر جاؤ۔

سارا گھر جاگ گیا تھا، کوئی بول نہیں رہا تھا۔ سب کے بیچ خاموشی بول رہی تھی اور ریڈیو کی آواز گونج رہی تھی۔

بی بی سی جیل کے اوپر اُڑنے والے ہیلی کاپٹر، جیل سے نکلنے والے ٹرکوں کی باتیں کررہا تھا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ صبح سویرے سڑکوں کی صفائی کرنے والا عملہ کام کرہا ہے۔ ٹریفک چل رہا ہے وغیرہ۔

سورج آہستہ آہستہ اوپر آر ہا تھا۔ سب گو مگوں کا شکار تھے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ آج کیا ہوگا؟دن آگے بڑھے گا یا ٹھہرا رہے گا۔

اخبار آیا، الجھی الجھی خبروں کے ساتھ، باہر سڑک خاموش تھی، وہ جو صبح کے ساتھ آوازوں کا ایک ہنگامہ جاگتا تھا وہ نہ جانے کہاں سویا تھا۔

دن تھوڑا اور بڑھا تو اندر کے صحافی نے للکارا۔ گھر کے باہر سڑک پر خاموشی کا راج تھا، اکا دکا کوئی چلتا پھرتا نظر آر ہا تھا۔ اپنے دفتر تک پہنچنے کے لیے سواری کا بہت انتظار کرنا پڑا۔ وہ دن بہت اداس تھا۔

ہر سو اُداسی بال بکھرائے کھڑی تھی، رو تو نہیں رہے تھے لیکن سڑک، گلی، چوبارے، کھڑکی دروازے، چھت، آسمان، پھول پودے سب سسک رہے تھے۔

دن بھر دفتر میں لوگ آتے رہے، بولیاں بولتے رہے، لاڑکانہ خبریں دیتا رہا، ضمیمے چھپتے اور بکتے رہے، رینگتے رینگتے اپریل کا وہ دن اختتام کو پہنچا۔

ہم بھی گھر کو لوٹے تو ہماری سنگت میں مجاہد، شاہد، خورشید اور بھی شاید ایک دو لوگ تھے۔ شام ڈھلے ہم سب نے دائرے کی شکل میں زمین پر بیٹھ کے بی بی سی سنا، بنا ایک دوسرے کو دیکھے سب نے آنسو بہائے اور کسی انہونی کے انتظار میں اگلے دن ملنے کی آس میں جدا ہوگئے۔

ان پینتالیس سالوں میں پینتالیس ماہ اپریل آئے اور گزر گئے لیکن وہ انہونی نہ ہوئی جس کا انتظار تھا۔ البتہ جس دلہن کو ہم ٹرین میں بٹھاکر سکھر سے لائے تھے وہ آٹھ سال ہوئے برین ٹیومر کا شکار ہوکے چند ماہ میں چٹ پٹ ہوگئی اور ٹرین کے جھٹکوں کے سنگ ادھر ادھر جھٹکے کھاتا اس کا دولہا اور ہمارا عم زاد بھی چھے ماہ گزرے معدے کے ٹیومر کا نوالہ بن کے اپنی دلہن کے پاس چلا گیا۔

اپریل پھر آیا کھڑا ہے!

لگتا ہے کل کی بات ہو!

The post لگتا ہے کل کی بات ہو ! appeared first on ایکسپریس اردو.

قصوں کے میلے سے کچھ سوغاتیں

$
0
0

 (حصہ دوم )

 

’’ایک اور طرح کی کتاب‘‘ کے مصنف قیصر زیدی اپنی  مذکورہ کتاب میں لکھتے ہیں کہ’’ملک الشعراء ابو نواس عربی زبان کا مشہور شاعر تھا۔ اس کا کلام طلباء  کے نصاب میں شامل تھا۔ ایک دن وہ اپنے کسی دوست سے ملنے اس کے گھر گیا۔ ایک گلی سے گزرتے ہوئے راستے میں ایک مدرسہ پڑتا تھا جہاں کوئی استاد طلباء کو شاعری پڑھا رہا تھا۔

اتفاق سے اس وقت ابونواس ہی کی ایک غزل زیرِمطالعہ تھی۔ ابونواس قصداً دروازے کی آڑ میں رک گیا کہ دیکھوں استاد صاحب میرے شعروں کا کیا مطلب بتاتے ہیں۔ اس وقت ابونواس کا ایک شعر زیرِبحث تھا جس میں شاعر ساقی سے کہہ رہا  ہے کہ مجھے شراب دے اور یہ کہہ کے دے کہ ’’لے شراب لے۔‘‘ ظاہراً اس  شعر کا مفہوم تو سادہ، اور واضح ہے مگر استاد نے طلباء سے اس کی تشریح یوں کی کہ’’شاعر جب جامِ شراب دیکھے گا تو قوت ِباصرہ کو لطف آئے گا۔

جب وہ جام ہاتھ میں لے گا تو قوتِ لامسہ کو لطف آئے گا۔ جب جام ناک کے قریب لائے گا  تو قوتِ شامہ کو لطف ملے گا اور جب شراب پیئے گا تو قوتِ ذائقہ کو لطف ملے گا۔ لیکن قوتِ سامعہ کے لطف کی کوئی صورت نہیں پیدا ہو رہی ہے۔ اس لیے شاعر ساقی سے کہتا ہے کہ  تو اپنی زبان سے کہہ کہ ’’لے شراب لے‘‘ تاکہ کانوں کو بھی لطف آئے۔ یہ تشریح سنتے ہی ابونواس بے اختیار مدرسے میں گھس کر استاد سے لپٹ گیا اور بولا: ’’خدا کی قسم یہ پہلو تو خود میں نے بھی نہیں سوچا تھا۔‘‘

ادبی رسالے’’اردوئے معلی‘‘ میں شوکت بلگرامی مرزا غالب پر  تحریرکردہ اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ میرے ایک بزرگ نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ ہم مع چند احباب دہلی میں مرزاغالب ؔکے حضور بہرزیارت پیش ہوئے۔ یہ وہ زمانہ تھا کہ مرزا قوت سماعت سے بے بہرہ ہوچکے تھے، جو حضرات آتے وہ پاس پڑے کاغذقلم کے ذریعے اپنا مدعا لکھ کر پیش کرتے تھے۔ ہم نے بھی لکھ کر مدعا پیش کیا آپ کا کلام بلاغت نظام آپ کی زبان فیض ترجمان سے سننا چاہتے ہیں۔ پڑھ کر فرمایا،’’بہت اچھا ‘‘اور اس کے بعد سمجھائیں کیا، دکھلائیں کیا والی غزل سنائی،جب مقطع پر پہنچے:

؎پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

تو فرمایا، کہو!! کچھ سمجھے بھی؟ ہم نے  تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے عرض کیا،’’ہرگز نہیں‘‘، اس پر مسکرا کے فرمایا،’’سمجھو گے بھی نہیں‘‘، سنو! ’’ایک زمانہ ہوا جب ہم اپنی معشوق کے پاس گئے، جب ہم جیتے تھے، یعنی جوان تھے، تنا ہوا سینہ، بھرے بھرے بازو، چمپئی رنگ، نگاہ اٹھا  کے دیکھتے تھے تو آنکھوں سے شعلے نکلتے تھے، چلتے تھے تو درودیوار دہلتے تھے، مگراب جب گئے، تو نہ آنکھوں میں نور، نہ دل میں سرور، نہ جسم میں دم، کمر خم، سماعت ختم۰۰اب ہماری ہیت کذائی میں دیکھ کر:

؎پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے

کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟؟

رفعت سروش اپنی کتاب ’’یادوںکا دریچہ‘‘ میںلکھتے ہیں کہ ساحرؔ لدھیانوی کے والد چوہدری فضل الٰہی ان پڑھ، عیاش طبع اور سخت گیر زمیندار تھے۔ انہوں نے اپنی بیوی اور ساحرؔ کی والدہ کو ناجائز طلاق دی، مگر بیٹے کو اپنی تحویل میں لینے کے لیے عدالت میں درخواست دائر کر دی، مگر عدالت نے درخواست منظور نہ کی، جس کی وجہ ساحر ؔکے والد کی جانب سے دیا جانے والا ایک عدالتی سوال کا جواب تھا۔

عدالت کے جج نے دورانِ سماعت ساحر کے والد سے پوچھا کہ آپ ساحرؔ کی تعلیم کا کیا انتظام کریں گے؟ ساحر ؔکے والد نے جواب دیتے ہوئے کہا، پڑھائے اولاد کو وہ جس کو نوکری کروانا ہو، اللہ کا دیا بہت کچھ ہے، بیٹھ کر کھائے گا۔ معززجج نے فیصلہ دیا کہ بچے کو ماں کے ساتھ ہی رکھا جائے،کیوںکہ وی تعلیم دلوا رہی ہیں، اگر اسے والد کے ساتھ رکھا گیا تو وہ اَن پڑھ رہ جائے گا۔

ادبی ماہ نامے نقوش کے شخصیات نمبر کی جلد دوم میں اکبرؔ الہ آبادی کی شخصیت پر مضمون تحریر کرتے ہوئے عبدالماجد دریاآبادی لکھتے ہیں کہ  اکبرؔ الہ آبادی کی مذہبی شدت پسندی کا یہ عالم تھا کہ ایک بار جب وہ دہلی میں خواجہ حسن نظامی کے مہمان ہوئے، تو درگاہ کے دروازے کے قریب ہی غالبؔ کا مزار بھی تھا۔ خواجہ صاحب نے بتایا تو ان کے ساتھ فاتحہ پڑھنے چل پڑے، مگر کچھ ہی دور چل کر رک گئے اور بولے، میں نہیں جاؤں گا، یہ تو وہی ہے نا جس نے  جنت کے لیے کہا تھا:

؎ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن!!

دل کے بہلانے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے

میںایسے شخص کی قبر پر فاتحہ نہیں پڑھوں گا۔ اللہ میاں اس کے ساتھ جو چاہے معاملہ کریں۔

ادبی یادداشتوں پر مبنی اپنی کتاب ’’چند یادیں‘‘ میں خواجہ جمیل احمد، جگرؔ مرادآبادی کی صاف گوئی سے متعلق لکھتے ہیں کہ ایک بار جگر ؔصاحب کی محفل میں  ایک بڑے عالی مقام حاکم بھی پہنچ گئے جو شعر و سخن کے معاملے میں انتہائی پھوہڑ تھے۔ ان کی ایک خاصیت یہ بھی تھی کہ ہلکا شعر سن کر کھلکھلاتے اور بے تحاشا داد دیتے، جب کہ  اچھے سے اچھے شعرپر خاموش  ہوجاتے۔ دورانِ محفل جگر ؔصاحب  کے ایک شعر پر انہوں نے بے ساختہ داد دی اور کہنے لگے ،’’پھر پڑھیے!!‘‘ اس پر جگرؔ صاحب نے ان کی جیب میں لگے ہوئے قلم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’ذرا قلم عنایت کیجیے، میںاس شعر کو حذف کردوں، اس میں ضرور کوئی خرابی ہے کہ یہ آپ کو پسند آیا۔‘‘ حاکم اعلٰی دانت نکال کر رہ گئے جب کہ حاضرین اس توہین عدالت پر انگشت بدنداں رہ گئے۔

ڈاکٹر ایس ایم شکیل اپنے مضامین کے مجموعے ’’مضامیںسر بستہ ‘‘میں لکھتے ہیں کہ’’ عرب میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں کابھی کنیت کا نام رکھا جاتا تھا۔شیر کی کنیت ابوالحارث،گھوڑے کی کنیت ابو الصباء۰۰مگر کوے کی کوئی کنیت نہ تھی۔جس کی کمی فارسی کے ایک شاعر نے پوری کر دی جس کا ذکر عرفی کے تذکرے ’’لباب الالباب ‘‘کی جلد دوم میںکیا ہے۔اس شعر میں کوے کی کنیت’’ ابوالکلام‘‘ آئی ہے:۔

؎اے فاختہ ببین و بخود اعتبار گیر

در شست خون ِ لالہ سر ِ زاغ ابوالکلام

ابوالکلام آزادؔ،گرچہ فارسی کے بہت بڑے عالم تھے مگر جانے کیوں یہ تذکرہ ان کی نظروں سے نہ گزرا،ورنہ وہ اپنی اس کنیت پہ ضرور نظر ثانی کرتے۔۔۔جبکہ محمد علی جوہر کہا کرتے تھے کہ ’’یوں تو بڑے’’ ابولکلام‘‘ ہیں ،مگر جب مسلمانوں کے حقوق کی بات آجائے تو’’ ابوالسکوت‘‘ بن جاتے ہیں‘‘۔

اخلاق احمد دہلوی اپنی کتاب ’’یادوں کا سفر ‘‘میں بیان کرتے ہیں کہ’’ حال و قال کی ایک محفل میں ایک صوفی منش بزرگ  اس شعر پر رقتِ قلب میں مبتلا ہو گئے۔

؎یونہی گر، یہ توڑا مروڑی رہے گی

تو کاہے کو انگیا نگوڑی رہے گی

ایک صاحب نے ان سے پوچھا کہ حضرت ! ’’اس میں معرفت کا کونسا پہلو آشکارہوا ہے؟؟‘‘۔ تو بزرگ بولے، ’’انگیا جسم ہے اور جو کچھ انگیا میں ملفوف ہے اسے روح سے تعبیر سمجھو۔یعنی جسم اور روح میں اگر ریاضتِ الہی کے باعث یونہی کشمکش چلتی رہی تو جان یعنی جسم کا زیاں یقینی ہے اور جسم کو کمزور  کیے بغیر نروان حاصل نہیں ہوتا‘‘۔

معروف ناول نگار ،ادیب اور صحافی  قاضی عبدالغفار  جب حیدر آباد کی سکونت ترک کر کے دلی چلے گئے،تو اپنا اخبار وزنامہ پیام،حسرت موہانی کے بھائی اکبر حسن کے صاحبزادے اختر حسن کے حوالے کر گئے جو حیدر آباد کی عثمانیہ یونیورسٹی میں بطور لیکچرار مقررتھے۔قاضی  صاحب کے زمانے میں اخبار کے سرورق پہ اخبار کے نام پیام کی رعائیت سے درج ذیل شعر  لکھا جاتا:۔

؎بہ آںگروہ کہ از ساغر وفا مَستند

زما پیام رسانید ہر کجا  ہستند۔۔

جب اختر حسن صاحب نے اخبار کی ادارت سنبھالی تو اخبار کی پیشانی  پہ درج شعر کو بدل کر یہ شعر لکھوا دیا:۔

؎عقل کے دردمند کا طرزِ کلام اور ہے

ان کا پیام اور تھا میرا پیام اور ہے

ہندوستان میں  ایک جگہ مشاعرہ تھا ۔ردیف دیا گیا ’’دل بنا دیا‘‘۔ سب سے پہلے حیدر ؔدہلوی نے اس ردیف  کو یوں استعمال کیا:

؎اک دل پہ ختم قدرت ِ تخلیق ہو گئی

سب کچھ بنا دیا جو میرا دل بنا دیا

اس شعر پہ ایسا شور مچا کہ بس ہو گئی۔۔لوگوں نے سوچا کہ اس  سے بہتر کون گرہ لگا سکتا ہے؟ ایسے میں جگرؔ مراد آبادی آئے اور کہا:

؎بے تابیاں سمیٹ کے  سارے جہان کی

جب کچھ نہ بن سکا تو میرا دل بنا دیا

حیدر دہلوی جو کہ اپنے وقت کے استاد تھے اور خیام الہند کہلاتے تھے، جگر کا کلام سنتے ہی سکتے میں آ گئے۔جگر کو گلے سے لگایا، ان کے ہاتھ چومے  اور وہ صفحات  جن پر  ان کی شاعری درج تھی جگر کے پاؤں میں ڈال دیے۔۔

مناظر عاشق ہر گانوی اپنی کتاب ’’ یادیں باتیں‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’  پٹنہ کی ایک ادبی نشست میں دیگر شعراء ادباء کی موجودگی میں ،میں  نے فراق ؔصاحب سے پوچھا،ادب کی افادیت کیا ہے؟؟،فراق ؔصاحب نے جواب دیا،’’ایک بچہ گولی کھیل رہا تھا،اس کے باپ نے اسے سمجھایا کہ گولی کھیلنا مناسب نہیں ہے،اس کا کوئی فائدہ نہیں ،اس لیے مت کھیلو۔بچہ گولی کھیلنے کی بجائے لٹو گھمانے لگا،باپ نے اس کھیل سے بھی منع کیا کہ لٹو نچانے سے کوئی فائدہ نہیں۔تب وہ بٹیر لڑانے لگا،لیکن باپ نے اس حرکت سے بھی منع کیا کہ اس سے بھی کوئی فائدہ نہیں،بچے نے جھنجھلا کر باپ سے پوچھا ،آپ یہ تو بتائیں کہ آخر اس فائدے کا فائدہ کیا ہے؟؟۔۔یہی حال ادب کی افادیت کا ہے‘‘۔

سید مقصود زاہدی اپنی کتاب’’ یادو ںکے سائے میں‘‘لکھتے ہیں کہ ’’لکھنو میں منعقدہ آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسے کے بعد ایک نجی نشست میں، میں  نے اپنی آٹو گراف بک حسرتؔ موہانی کی طرف بڑھائی تو انہوں درج ذیل شعر تحریر فرمایا:۔

واں تک پہنچ پہنچ کے پھر آیا میں نا مراد

ایسا تو اس گلی میں کئی بار ہو چکا

میں شعر کو بغور پڑھ ہی رہا تھا کہ حسرتؔ میرے چہرے کی طرف دیکھ کر کہنے لگے،’’بھئی !!یہ کُوئے دلدار کا ذکر نہین،اس شعر کے پس منظر کا تعلق دراصل ہندوستان میں مسلمانوں کی سماجی اور سیاسی زندگی کی روداد سے ہے۔مسلمانوں نے بارہا اس  ملک میںہند و اکثریت کے ساتھ ملکر  باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کی،لیکن ہر کوشش کا انجام نامرادی کی شکل میں نکلا ہے۔۔اسی کرب کو محسوس کرتے ہوئے میں نے درج ذیل شعر لکھا ہے۔۔

خداداد خان مونسؔ اپنی ادبی یادوں پہ مبنی کتاب’’ بکھرے ہوئے اوراق‘‘ میںتہذیب مشاعرہ کی تاریخ  بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’دہلی میں بہادر شاہ ظفرؔ کے دور تک طرحی مشاعروں کی مضبوط روایت تھی ۔ایک بار بادشاہ وقت مصاحبین کے ساتھ مشورہ فرما رہے تھے کہ آئندہ  ہونیوالے مشاعرے کے لیے کیا طرح دی جائے۔یکایک زنان خانے سے ملکہ کی آواز کانوں سے ٹکرائی،’’ یا اللہ!!آیا نے بچے کو کیا بے طرح لٹایا ہے‘‘۔ظلِ سبحانی نے بات سے بات پیدا کر لی اور فرمایا ،لیجیے!! مسئلہ حل ہو گیا،اب مشاعرہ بے طرح ہو گا۔۔۔اور پھر اسطرح قلعہ معلی سے شروع  ہونیوالی بے طرح مشاعروں کی یہ رسم آہستہ آہستہ پوری دہلی میں پھیل گئی۔

’’بکھرتی یادیں  ‘‘نامی کتاب میں ڈاکٹر افضال  احمد لکھتے ہیں کہ’’ آرز وؔلکھنوی اپنے عہد کے اساتذہ فن مین شمار کیے جاتے تھے۔انہیں عروض میں مہارت اور اصلاح سخن میں خاص ملکہ حاصل تھا ۔کیونکہ ان کا نظریہ تھا کہ’’ بہتر سے بہترین کی گنجائش ہمہ وقت موجود رہتی ہے‘‘۔شعر و سخن کی ایک محفل میں ،جہاں آرزو ؔلکھنوی بھی موجود تھے ،بیخود ؔموہانی نے اپنی مشاعرہ لوٹ شاہکار شعر سنایا:۔

؎ نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے

کبھی روئے کبھی سجدے کیے خاک نشیمن پر

محفل میںبڑی واہ واہ ہوئی۔۔ بیخودؔ موہانی نے آرزو کو مخاطب کرتے ہوئے فخریہ پوچھا،’’حضرت!!کیا اس میں بھی اصلاح کی گنجا ئش موجود ہے؟؟۔‘‘آرزو  ؔچند ثانئے کے توقف کے بعد بولے،’’کیوں نہیں؟؟ ‘‘۔بیخود ؔنے استعجابیہ لہجے میں کہا ’’ارشاد!!  ‘‘اس پہ آرزو ؔکہنے لگے  ’’بات چونکہ نشیمن کی ہو رہی ہے تو اس کی نسبت سے عرض ہے کہ پرندوں میں سجدے کا شعور نہیں ہوتا،یہ بشریت کا خاصا ہے۔۔لہذا اگر مصرعہ ثانی کو یوں کر دیا جائے تو شعر کی معنویت دو بالا ہو جائے گی‘‘:۔

؎ نشیمن پھونکنے والے ہماری زندگی یہ ہے

کبھی روئے کبھی ’’سر رکھ دیا‘‘ خاک نشیمن پر

رفعت سروش کی کتاب’’  یادوں کا دریچہ ‘‘میں تحریر ہے کہ’’ ایک زمانے  میں کیفیؔ اعظمی اور ساحرؔ لدھیانوی میں رقابت ہو گئی۔۔نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ علی سردار ؔجعفری کی صدارت میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے ایک ایسے جلسے میں جس میں کیفی ؔاعظمی اپنی بیگم کے ساتھ شریک تھے،ساحرؔ نے کیفی ؔکے خلاف مضمون پڑھا جس میں کہا گیا کہ کیفیؔ تو سرے سے شاعر  ہی نہیں۔۔۔اس کی شاعری صرف ایک پروپیگینڈا ہے۔

جلسے کی اگلی نشست میں علی سردارؔ جعفری نے کیفی ؔسے اپنی دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ساحرؔ کی موجودگی میں ایک مضمون ،ساحرؔ کی شاعری کی مذمت میںپڑھا،جس میں بلخصوص اس ی مقبول نظم،’’تاج محل‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور اسے  ہندوستان کے تاریخی و تہذیبی ورثے کی توہین قرار دیتے ہوئے ساحر کو ؔرجعت پسند شاعر قرار دیا گیا۔مضمون کے اختتام پہ ساحر ساؔمعین کی صفوں سے اٹھے  اور با اعتماد و پر سکون لہجے میں بآواز بلند کہنے لگے،جعفری صاحب!!آپ اس مضمون سے یہ تو ثابت کر سکتے ہیں کہ ساحرؔ ایک گھٹیا شاعر ہے،لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ کیفی ؔاعظمی اچھا شاعر ہے؟؟

The post قصوں کے میلے سے کچھ سوغاتیں appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
بچپن دکھائی دیتا ہے عہدِ شباب میں
ہر رات دیکھتا ہوں کھلونے میں خواب میں
دھرتی کے سب حسیں ہیں اِسی پر فریفتہ
جانے خدا نے رکھا ہے کیا کیا گلاب میں
یہ بھی تو بے بسی ہے کسی لکھنے والے کی
غم کھلکھلا رہے ہیں غزل کی کتاب میں
سارے حسین لمحے فقط آپ کے لیے
میں نے بچا کے رکھ دیے فرصت کے باب میں
اچھا تو پھر سنو جو ہوا ہے تمہارے بعد
آنسو ملا کے میں نے پیے ہیں شراب میں
(اسد رضا سحر۔ جھنگ)

غزل
آئینے نے یہ کیا دکھایا مجھے
اپنا چہرہ لگا پرایا مجھے
تیرے ابرو کی ایک جنبش نے
تین سو ساٹھ پر گھمایا مجھے
ساری دنیا سے ہائے روٹھا رہا
تُو نے جب تک نہیں منایا مجھے
میرے ہمدرد تیرے جانے کے بعد
زندگی نے بڑا ستایا مجھے
روح تک دل فریب اتری مٹھاس
کس کے ہونٹوں نے گنگنایا مجھے
اے خوشی کے سفیر یہ مت پوچھ
غم کدہ کیسے راس آیا مجھے
ضبط ٹوٹا رواں ہوئے مرے اشک
جب کسی نے گلے لگایا مجھے
میں تو مدّت سے سو رہا تھا مگر
آپ نے کس لیے جگایا مجھے
زندگی کے عروج پر طاہرؔ
خلق کا احترام لایا مجھے
(طاہر ہاشمی۔ لاہور)

غزل
رہ گیا دنیا میں وہ بن کر تماشا عمر بھر
جس نے اپنی زندگی کو کھیل سمجھا عمر بھر
تم امیرِ شہر کے گھر کو جلا کر دیکھنا
گھر میں ہو جائے گا مفلس کے اجالا عمر بھر
ایسا لگتا ہے کہ اب وہ قبر تک جائے گی ساتھ
دل کے خانوں میں نہاں تھی جو تمنا عمر بھر
قرض میری قوم وہ کیسے چکائے گی بھلا
سود خود کو بیچ کر جس کا اتار عمر بھر
جانتا ہوں مجھ کو ڈس لے گا وہ مار آستیں
جس کو اپنا خوں پلا کر میں نے پالا عمر بھر
زندگی نعمت تھی جس کو پا کے تم خوش تھے صبیحؔ
اب کہو کیا زندگی سے تم نے پایا عمر بھر
(صبیح الدین شعیبی۔ کراچی)

غزل
دستک کی چاہ لے کے یہاں سے گزر نہیں
میں وہ مکاں ہوں جس کے کوئی بام و در نہیں
اُس کی تلاش میں ہے تُو پھرتا یہاں وہاں؟
جا ڈھونڈ اس کو دل میں، یہاں پر ثمرؔ نہیں
پہلو میں اس کے میں نہیں، مطلب مقیم تھا
میں آیا، میں گیا، اسے کوئی خبر نہیں
باغوں کو چھوڑ کر ہوں میں صحرا کو چل پڑا
صحرا کے اس سفر میں کوئی ہم سفر نہیں
محسوس ہو رہی ہے اسی شخص کی کمی
جو تھا تو میرے ساتھ مگر اب اِدھر نہیں
یہ وقت بھی درست ہے موقع درست ہے
اظہار کر بھی دے، ارے اب تو مُکر نہیں
جس شخص کی توجہ کا مرکز میں تھا کبھی
وہ شخص میرے حال سے اب باخبر نہیں
باتوں میں اس کی آ ہی گئے ہو ثمرؔ جمال
وہ ظاہراً تو اچھا ہے، دل کا مگر نہیں
(ثمرؔ جمال۔ جھنگ)

غزل
ہم جو دستِ طلب کے مارے ہیں
ساری دنیا کے غم ہمارے ہیں
ہم طلب گار تھے کبھی ان کے
یہ جو روشن فلک پہ تارے ہیں
بھری دنیا میں کس طرح تنہا
پوچھ مت میں نے دن گزارے ہیں
سانس لیتے ہیں اب فقط یہ لوگ
عشق میں زندگی جو ہارے ہیں
اک طرف ہے بلاؔل قاسم زیست
زیست کے اک طرف خسارے ہیں
(بلال قاسم ۔مانسہرہ)

غزل
رنگ اڑاتا ہے بہت قصۂ شب آگ کے پاس
ناچتے رہتے ہیں کردار بھی سب آگ کے پاس
سرخیٔ جاں کو بہت زرد کیے دیتا ہے
جو ہے اک شعلۂ امکانِ طلب آگ کے پاس
چار عناصر کو یہ تخمیس کیے دیتی ہے
اک کہانی کہ بنی جاتی ہے جب آگ کے پاس
تم پگھل جاؤ گے اے موم کے محسن شہزادؔ
کیوں لیے جاتا ہے یہ خوابِ طرب آگ کے پاس
(محسن شہزاد۔لالہ موسیٰ)

غزل
ضروری کام تھا،کرنا بہت ضروری تھا
کسی کے دل میں اترنا بہت ضروری تھا
لُبِ لباب کہانی کا تھا مرا کردار
پر اس کہانی میں مرنا بہت ضروری تھا
وگرنہ سیلِ رواں کاٹ کھاتا اندر سے
بدن میں آنکھ کا جھرنا بہت ضروری تھا
جمود ہوتا مقدر وگرنہ پانی کا
ترا ندی سے گزرنا بہت ضروری تھا
بچھڑ کے میں نے بہت دیر بعد سوچا تو
مجھے لگا کہ بچھڑنا بہت ضروری تھا
حصارِ ذات سے باہر نکلنے والے کا
حصارِ ذات میں مرنا بہت ضروری تھا
منافقت کا یہ چہرہ نظر نہ آتا سو
کسی کا حق سے مکرنا بہت ضروری تھا
(سفیر نوتکی ۔نوتک، بھکر)

غزل
کسی کی یاد میں دن بھر تڑپتا عشق رہتا ہے
میرے دل کے جزیروں پر مچلتا عشق رہتا ہے
کوئی تجویز دیں مرشد مجھے باہر نکلنا ہے
میرے اندر کی دنیا میں بھٹکتا عشق رہتا ہے
میری فریاد لے جائے کوئی آقاﷺ کی چوکھٹ تک
مدینے کی فضاؤں کو ترستا عشق رہتا ہے
عجب بے کیف موسم کی فراوانی ہے سینے میں
دھواں دیتی نہیں لکڑی، سلگتا عشق رہتا ہے
جسے معروف دنیا سے غلامی ختم کرنی تھی
وہ خود اب قیدخانے میں چلاتا عشق رہتا ہے
( معروف شاہ۔ا سکردو)

غزل
تمہارے ہجر کے ماتم کے واسطے نکلے
جگر کو چیر کے اشکوں کے قافلے نکلے
کِیا ہے بے رخی نے اس قدر نڈھال ہمیں
کہ تیری بزم سے ہم دل کو تھامتے نکلے
مرے جنازے کو کاندھا تو آکے دے جانا
میں چاہتا ہوں جنازہ تو شان سے نکلے
دل ان کے پاؤں میں رکھا کہ وہ نہ جائیں، پر
ستم شعار مرے دل کو روندتے نکلے
وہ مجھ سے ملنے تھے آئے، بنا ملے ہی گئے
یہی گماں ہے مجھے کیا وہ سوچتے نکلے؟
(احمد ابصار۔ لاڑکانہ)

غزل
قتل ہونے کو سزا وار گرے تو کیا ہو
اور ترے ہاتھ سے تلوار گرے تو کیا ہو
ہم زمیں زادے مرے ہیں تو فقط غیرت پر
حق پرستوں کی جو دستار گرے تو کیا ہو
وہ جو پی کر بھی کبھی بہکا نہ ہو، ایسا رند
تیری آنکھوں سے مرے یار گرے تو کیا ہو
وہ مرے پاؤں پڑا ہے کہ منا لے گا مجھے
لیک دیوار پہ دیوار گرے تو کیا ہو
عشق کی ناؤ پہ بیٹھا ہے ترا دیوانہ
ناگہاں اس کی جو پتوار گرے تو کیا ہو
(علی مان اذفر۔ مریدکے، شیخوپورہ)

’’انجماد‘‘
ہمارے درمیاں رسمی تعلق بھی
ہماری سرد مہری کی وجہ سے
دسمبر میں جمے کہرے کے مانند منجمد ہے
ہمارے درمیاں برفانی لہجوں کی تہیں جم کر چٹانیں بن گئی ہیں
کہ جن کی آتشیں جذبوں کی حدت سے بھی پگھلاہٹ نہیں ممکن
(شاہد شوق۔ اسلام آباد)

غزل
نقاب جونہی ہٹایا تو نور جلنے لگا
ہر اک پتنگا بھی پھر بے قصور جلنے لگا
کہا بھی تھا نہ کرو ضد حجاب رہنے دو
تجلّی ایک پڑی کوہِ طور جلنے لگا
گلاب لب، سے جو مے خانے میں اٹھا پردہ
پھر آگ مے کو لگی اور سرور جلنے لگا
بہار سا گلِ تازہ، وہ شبنمی چہرا
کہ اس کو دیکھ کے بیری کا بور جلنے لگا
بڑا غرور تھا ناصح کو حوروں، پریوں کا
جو دیکھا یار مرا، سب غرور جلنے لگا
میں اس کی آنکھوں تلک ٹھیک چل رہا تھا مگر
کیا ہے میں نے جب ان کو عبور، جلنے لگا
جو دیکھا طفل نما کو بلندیوں پہ فریدؔ
تو کج روش کا دماغِ فتور جلنے لگا
(فرید عشق زادہ۔بنگلہ گوگیرہ، اوکاڑہ)

غزل
بکے ہیں جب سے عدالت کے قائدین سبھی
قسم خدا کی پریشاں ہیں شاہدین سبھی
ابھی بھی وقت ہے توبہ کرو سنبھل جاؤ
جلیں گے دیکھنا دوزخ میں مشرکین سبھی
وہ جن کے پاس میں اپنی لکھی غزل بھی نہیں
نشستیں پُر ہیں انہی سے تو اولین سبھی
ہمیں پتا ہے مگر پھر بھی ہم نہ جھٹکیں گے
بھری پڑی ہے سپولوں سے آستین سبھی
وہ جن کو نام سے شہرت سے بیر ہے میری
اکھٹے ہوگئے میرے مخالفین سبھی
لبادہ اوڑھ کے اپنائیت کا سب میری
مخالفت پہ اڑے ہیں منافقین سبھی
میں اپنا سچ یہاں ثانی ؔسناؤں اب کس کو
منافقین کا کرنے لگے یقین سبھی
(عمران ثانی بلڈانوی۔ مہاراشٹر، بھارت)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4690 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>