Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4834 articles
Browse latest View live

جنرل عبدالفتاح السیسی، سپہ سالار سے صدر بننے تک کا سفر

$
0
0

کچھ عرصے قبل مصر کی کشیدہ صورت حال کو قابو میں کرنے اور عوام کو خانہ جنگی کی کیفیت سے نکالنے کے لیے فوجی وردی میں ملبوس سرگرم ہونے والے آرمی چیف عبدالفتاح السیسی بالآخر مصر کے صدر بن گئے۔ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مصر کی سیاسی جماعتوں نے اپنے اندر موجود اختلافات کو اتنا بڑھایا کہ اب سیاسی جماعتوں ہی کو ایوان اقتدار سے باہر ہونا پڑگیا ہے۔ ایک فوجی جنرل نے حالات کی نبض پر ہاتھ رکھ کر خود ہی فیصلہ کرلیا کہ مصری عوام کو درپیش مسائل کا علاج کیا ہے۔

گذشتہ ماہ کے اواخر میں منعقدہ صدارتی الیکشن میں عبدالفتاح السیسی کے مقابل صرف ایک امیدوار تھا، حمدین صباحی، جن کو عوام میں کافی مقبولیت حاصل تھی، لیکن انتخابی نتائج کے مطابق السیسی کے مقابلے میں ووٹروں نے انھیں یکسر نظر انداز کردیا۔ صدارتی انتخاب کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق 25,578,233 ووٹروں نے نئے صدر کے انتخاب کے لیے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا اور ملک بھر میں مجموعی طور پر ٹرن آئوٹ  47.5 فی صد رہا۔ السیسی نے 96.91 فی صد ووٹ حاصل کرکے کام یابی حاصل کی۔

ان کے حاصل کردہ ووٹ 2012 میں سابق صدر مرسی کے حاصل کیے گئے ووٹوں سے تقریباً ایک کروڑ زیادہ ہیں۔عبدالفتاح السیسی اب مصر کے صدر بن چکے ہیں اور آئینی طور پر مصری عوام کے مستقبل کے فیصلے انھیں کرنے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ بطور صدر کس طرح ملک میں جاری کشیدگی کو ختم کرنے میں کام یاب ہوتے ہیں۔ ان کے اقدامات مخالفین کو مطمئن کر بھی سکیں گے یا نہیں؟ یہ اور ایسے ہی بہت سے سوالات اس وقت عالمی تجزیہ کاروں، مصر کے حالات سے تعلق رکھنے والے ماہرین اور خود مصری عوام کے ذہنوں میں ہیں۔

السیسی کے حالات زندگی پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ انھوں نے صدارتی محل تک کا سفر کس طرح طے کیا؟19نومبر 1954 کو قاہرہ میں جنم لینے والے عبدالفتاح السیسی کا مکمل نام عبدالفتاح سعید حسین خلیل السیسی ہے۔ السیسی کا بچپن ایسے علاقے میں گزرا جہاں مسلمان، یہودی اور عیسائی آبادی تھی ، یہی وجہ ہے کہ انھیں مختلف مذاہب کے لوگوں سے ملنے، ان کے حالات و رسومات کو سمجھنے کا موقع ملا۔8 بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر ہونے کی وجہ سے السیسی کو شروع سے ہی حاکمانہ انداز اچھا لگتا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی رعب میں رکھنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔

السیسی کے والد کی مختلف نوادرات اور پرانی اشیا کی دکان تھی جو سیاحوں کے لیے بہت پرکشش تھی۔ السیسی نے دوسرے بچوں کی نسبت شروع ہی سے کھیلوں کے بجائے اپنی پڑھائی پر توجہ مرکوز رکھی۔ ان کا ایک بھائی سول سرونٹ اور دوسرا جج تھا لیکن السیسی نے فوج کو چنا۔ 1977 میں جب وہ مصری ملٹری اکیڈمی سے پاس آئوٹ ہوئے تو اسی سال السیسی اور انتصار امر کی شادی ہوگئی۔

وہ مصری فوج کی سپریم کونسل کے سب سے کم عمر رکن کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں۔ السیسی نے کمانڈر میکنائزڈ انفینٹری بٹالین، چیف آف اسٹاف میکنائزڈ انفینٹری بریگیڈ، کمانڈرمیکنائزڈ انفینٹری بریگیڈ، چیف آف اسٹاف سیکنڈ میکنائزڈ انفینٹری ڈویژن، چیف آف اسٹاف ناردرن ملٹری زون، ڈپٹی ڈائریکٹر ملٹری انٹیلیجنس اور دیگر عہدوں پر خدمات انجام دیں۔ ملٹری اکیڈمی میں عسکری تربیت کے ساتھ ساتھ السیسی نے دنیا کے مختلف اداروں سے فوج سے متعلق مختلف کورسز بھی کیے، جن کی بدولت انھیں عسکری میدان میں آگے آنے میں بہت مدد ملی۔ 12 اگست 2012 کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر آرمی چیف بنادیا گیا۔

وہ مسلح افواج کے سپہ سالار کی ذمے داریاں سنبھالنے سے قبل وزیردفاع کی حیثیت سے بھی کام کرچکے ہیں۔ السیسی نے سابق صدر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا۔ انھیں اول نائب وزیراعظم کی ذمے داریاں بھی دی گئیں۔ 26 مارچ 2014 کو انھوں نے آرمی کمان سے استعفیٰ دینے کا فیصلہ اور صدارتی الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔

گذشتہ سال 28 اپریل کو جنرل سیسی کے اس بیان نے ’’ کسی بھی مصری شہری کو نقصان پہنچانے والا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا‘‘ نئی بحث چھیڑدی۔ صدر محمد مرسی کے مخالفین نے اس بیان سے سمجھ لیا کہ مصری فوج عوام کے ساتھ ہے، جب کہ مرسی کے حامیوں نے اسے اس طرح لیا کہ فوج حکومت کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہونے دے گی۔

صدر محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے اور نئی حکومت کے قیام نے مصر میں ہنگامے برپا کردیے۔ مرسی کے حامیوں اور مخالفین کی لڑائی میں درجنوں افراد ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوگئے۔ حالات اتنے کشیدہ ہوگئے تھے کہ مصر کی خبریں دنیا بھر کی توجہ کا مرکز تھیں۔

جولائی 2013 میں حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے بالآخر مصری فوج کے سربراہ جنرل السیسی نے اعلان کردیا کہ سیاسی جماعتیں حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہوگئی ہیں، صدر مرسی ناکام ہوگئے ہیں لہٰذا ان کی حکومت کا خاتمہ ناگزیر ہے۔ مرسی کو معزول کرنے کے بعد السیسی کی قیادت میں مصری فوج نے عدلی منصور کو عبوری حکومت کا سربراہ مقرر کیا اور اس کے ساتھ ہی اخوان المسلمین کے حامیوں، راہ نمائوں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ صدر مرسی کے حامیوں کے علاوہ دیگر اسلامی جماعتوں نے بھی ملک میں فوجی حکم رانی کو غیرآئینی کہتے ہوئے مسترد کردیا لیکن فوج برسراقتدار رہی۔

پھر دنیا نے دیکھا کہ مصر میں فوج کی حمایت میں بھی بڑی بڑی ریلیاں نکالی گئیں ، ان ریلیوں کے شرکا نے فوج کی حمایت کا کھل کر اظہار کیا۔

اگست 2013 میں جنرل السیسی نے محمد مرسی کی معزولی کے بعد پہلا انٹرویو دیا، امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ ست گفتگو میں السیسی نے کہا کہ ہم خدا، مصری اور عرب عوام سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اپنے ملک کی، اپنے عوام کی اور ان کی خواہشات کی حفاظت کریں گے۔

قومی عسکری تقاریب کے دوران جنرل السیسی نے متحدہ عرب امارات، عراق، بحرین، مراکش اور اردن کے وزرائے دفاع کو بھی مدعو کیا۔ ایسی ہی ایک تقریب میں خطاب کے دوران عبدالفتاح السیسی نے اپنے مخالفین کو وارننگ دینے کے انداز میں کہا کہ مصری عوام نہیں بھولے کہ مشکل وقت میں کون ان کے ساتھ رہا اور کون اُن کا مخالف رہا۔ اس موقع پر جنرل سیسی نے تمام عوام کو مبارکباد پیش کی اور ان کا شکریہ ادا کیا کہ عوام نے مشکل صورت حال میں فوج کا ساتھ دیا۔ انھوں نے واشگاف الفاظ میں مصری عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فوج آپ کے لیے ہے اور آپ کے لیے ہم اپنی جانیں بھی قربان کردیں گے۔

مرسی کے مخالفین نے بھی جنرل سیسی کے بیانات اور خطاب کا بھرپور انداز میں خیر مقدم کیا۔ قاہرہ اور دیگر شہروں میں فوج کے حق میں کیے گئے مظاہروں میں لوگوں نے ’’عوام اور فوج ایک ساتھ ہیں‘‘ کے زوردار نعرے بھی لگائے۔ سوشل میڈیا پر بھی ہزاروں مصریوں نے اپنے پروفائل میں جنرل سیسی کی تصاویر لگاکر مصری فوج اور عبدالفتاح السیسی سے اپنی گہری وابستگی کا اظہار کیا۔ چائے کے مگ، دیگر برتن، نمائشی اشیا بھی سیسی کے نام سے تیار کی جانے لگیں، جس سے اندازہ ہورہا تھا کہ لوگ جنرل سیسی کی قیادت کے ساتھ ہیں۔ مختلف ٹی وی انٹرویوز، اخبارات اور جرائد کے ایڈیشنوں میں بھی جنرل السیسی کو بھرپور کوریج دی گئی اور انھیں ’’وادی نیل کی ایک اور اہم شخصیت‘‘ قرار دیا گیا۔

دسمبر2013 میں ٹائم میگزین نے جنرل السیسی کو اپنے سرورق پر جگہ دی اور یہ بھی کہا گیا کہ جنرل السیسی کو عوام کی اکثریت کی حمایت حاصل ہے اور لوگ انھیں پسند کرتے ہیں۔ملک کی مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی ملک کے آئندہ صدر کے لیے السیسی کی حمایت کا اعلان کیا، جس سے اندازہ ہوگیا کہ آئندہ مصر کی صدارت کون سنبھالے گا؟

سیسی کی حمایت کرنے والی جماعتوں میں نیشنل سالویشن فرنٹ، ریولوشنری فورسز بلاک Revolutionary Forces Bloc، فری ایجپشین پارٹی Free Egyptians Party بھی شامل تھیں جب کہ جن نمایاں شخصیات نے سیسی کے قدم سے قدم ملانے کا اعادہ کیا ان میں سابق صدارتی امیدوار امر موسیٰ، مصر کے سابق صدر جمال عبدالناصر کے صاحبزادے عبدالحکیم عبدالناصر، وزیراعظم حظیم الببلاوی پیش پیش رہے۔مصری عوام کی جانب سے جنرل عبدالفتاح الیسی کو ملک کا صدر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر مہم بھی چلائی گئی۔ لاکھوں افراد نے السیسی کے حق میں دستخطی مہم میں حصہ لیا۔ مہم کے منتظمین کا کہنا تھا کہ انھوں نے سیسی کے صدر بننے کی حمایت میں تقریباً 26 ملین (2کروڑ 60 لاکھ) افراد کے دستخط حاصل کیے ہیں۔

رواں سال فروری میں مصری اور غیرملکی میڈیا میں یہ خبریں آنا شروع ہوگئیں کہ جنرل عبدالفتاح السیسی عوام کی خواہشات کی وجہ سے صدارتی الیکشن لڑنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ گوکہ ابتدا میں مصری فوج کی جانب سے اس بات کی تردید کی گئی لیکن آہستہ آہستہ یہ بات سب پر عیاں ہوگی جنرل السیسی بھرپور عوامی حمایت کے ساتھ صدر بننے جارہے ہیں۔مصری صدر بننے والے سابق جنرل السیسی 3 بیٹوں اور ایک بیٹی کے والد ہیں۔ مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے وہ اپنی مختلف تقاریر میں قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ ان کی اہلیہ حجاب میں نظر آتی ہیں۔

عبدالفتاح السیسی کو خاموش طبع جنرل سمجھا اور کہا جاتا ہے اور ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ سیسی کو تاریخ اور قانون کے مطالعے کا شوق ہے۔عبدالفتاح السیسی کیسے ہیں اور ان کو کن چیزوں کا شوق ہے؟، یہ سوال اب اس لیے بھی مصری عوام کی دل چسپی کا باعث رہے ہیں کیوںکہ اب وہ فوج کی کمان کے بجائے ملک کی باگ ڈور سنبھال چکے ہیں۔سیسی نے صدر کا حلف اٹھانے کے فوری بعد واضح کیا ہے کہ آنے والا دور مفاہمت اور برداشت کی بنیاد پر ہوگا۔ تاہم جو لوگ تشدد میں ملوث رہے ہیں، ان سے کوئی نرمی یا رعایت نہیں ہوگی۔

نومنتخب صدر کے اس اعلان نے ان کے حامیوں میں جوش و خروش پیدا کیا ہے، تو سیسی کے مخالفین کو خدشات و تحفظات کے ساتھ ساتھ نئے صدر پر تنقید کا موقع بھی مل گیا ہے۔ سیسی نے کابینہ میں تبدیلیوں کا بھی سلسلہ شروع کردیا ہے، جب کہ سابق صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمین کے کارکنوں اور راہ نمائوں کے خلاف مختلف انداز میں کریک ڈائون بھی شروع ہے جس سے مصر کی سیاسی صورتحال کافی کشیدہ ہوگئی ہے۔ اخوان المسلمین اور محمد مرسی کے حامی حکومت کے ہر اقدام کو اپنے خلاف کارروائی قرار دے رہے ہیں۔

السیسی کے صدر بننے کے بعد سے لے کر اب تک مرسی کے حامیوں کے خلاف سرکاری سطح پر کارروائیاں جاری ہیں اور عدالتوں سے انھیں سزائیں دی جارہی ہیں۔ بہت سے لوگوں کو سزائے موت دی گئی ہے، جب کہ سیکڑوں لوگوں کو طویل عرصے کے لیے پابند سلاسل رکھنے کے احکام جاری ہوئے ہیں۔ سزائیں پانے والوں میں ملک پر کئی دہائیوں تک حکومت کرنے والے سابق صدر حسنی مبارک کے خلاف تحریک چلانے والے کارکن اعلیٰ عبدالفتاح بھی شامل ہیں، جنھیں دیگر 25 افراد کے ساتھ 15برس قید کی سزا دی گئی ہے۔

غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عبدالفتاح کے وکیل کے کا کہنا ہے کہ یہ سزا انھیں احتجاج کے حوالے سے ملکی قانون کی خلاف ورزی اور دیگر الزامات پر سنائی گئی ہے۔ عبدالفتاح 2011 میں حسنی مبارک کے خلاف چلنے والی تحریک کے نمایاں ترین کارکن تھے۔ یہ فیصلہ سابق فوجی سربراہ عبدالفتاح السیسی کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے3 روز بعد سنایا گیا ہے۔ دریں اثناء عبدالفتاح کی والدہ لیلیٰ صوئف نے کہا ہے کہ عبدالفتاح کو عدالت میں اپنا موقف پیش کرنے کی اجازت نہیں دی گئی، جب کہ عبدالفتاح اور ان کے وکلاء عدالت کے باہر تھے مگر انھیں اندر جانے نہیں دیا گیا۔ سیسی کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کے خلاف کارروائیاں نومنتخب صدر کی ایما پر کی جارہی ہیں۔

دوسری جانب سیسی کے حامی تاحال نئے صدر کی کام یابی کا جشن منانے میں مصروف ہیں۔ ان کی رائے ہے کہ عبدالفتاح السیسی ہی ملک کو مشکلات سے نکالنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ السیسی مصر اور مصری عوام کو درپیش چیلینجوں کا کس طرح مقابلہ کرتے ہیں۔ بہت سارے چیلینج، بہت سی مشکلات سیسی کے ساتھ ہی ایوان صدر پہنچ گئی ہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ صدر سیسی ان کے مطالبات پورے کرنے اور حالات زندگی کی بہتری کے لیے فوری اور موثر اقدامات کریں، ان مطالبات کو پورا کیا جائے جن کی خاطر وہ تین سال قبل تحریراسکوائر میں جمع ہوئے تھے۔

صدر سیسی کے لیے سب سے بڑا چیلینج مصری معیشت کو درست سمت میں لے جانا ہے۔ عرب دنیا میں مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے بعد معاشی لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ نومنتخب صدر سیسی ملک بھر میں بڑھتی بیروزگاری کے خاتمے اور نوجوانوں میں اس حوالے سے پیداشدہ بے چینی کے ازالے کے لیے کیا اقدامات کرتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق اگر مصری معیشت بہتر خطوط پر رواں ہوگئی تو یقینی طور پر اس کا کریڈٹ صدر سیسی کو جائے گا۔ بیروزگاری ختم کرنے اور لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے سے بھی صدر سیسی کے حامیوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، لیکن اس کے لیے انھیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔

معیشت اور بیروزگاری کے بعد ایک اہم معاملہ مخالفین کو اپنے ساتھ لے کر چلنا ہے، اگر صدر سیسی نے کچھ ایسے اقدامات کیے جن سے اپوزیشن کو انتقام کی بو نہ آئے اور مفاہمت کی فضا پیدا ہوسکے تو یہ سابق مصری جنرل کی بڑی کام یابی ہوگی۔ اب یہ آنے والا وقت بتائے گا کہ مصر کی حکومت اور عوام ساتھ ساتھ ہیں یا لوگوں میں ایک بار پھر بے چینی پیدا ہورہی ہے۔ اب امتحان صدر سیسی کی دوراندیشی، فیصلہ سازی اور جرأت مندانہ اقدامات کا ہے، اب انھیں صرف عسکری میدان ہی میں نہیں بل کہ سیاسی، سفارتی، سماجی اور معاشی میدان میں خود کو منوانا ہوگا۔


سردار خیر بخش مری، ایک عہد تمام ہوا!

$
0
0

’’خیر بخش دوم کی زندگی اپنے بزرگوں کی تقلید ہے، جن میں اس کا دادا خیر بخش اعظم جس نے انیسویں صدی میں برطانوی حکومت کے خلاف بلوچ مزاحمت کی راہ نمائی کی اور اس کا باپ مہراﷲ خان مری جس نے 1947ء کے انتقالِ اقتدار سے قبل کے عشرے میں برطانیہ کے خلاف زیرِزمین سیاسی تحریک کی قیادت کی، شامل ہیں۔……پچاس کے پیٹے میں، دبلا پتلا، دراز قد، خوش فہم، فہم و فراست کا مالک اور گم راہ کن حد تک حلیم الطبع مری ایک خوش بیان مقرر اور قوم پرست تحریک کا مؤثر نقیب ہے۔

تاہم اسے روز مرہ کی سیاسی سرگرمیوں اور مشکلات میں اکثر اوقات متذبذب اور بعض مقام پر سادہ لوح پایا گیا ہے۔ وہ بین الاقوامی دانش ورانہ ذوق کا مالک ہے (ٹائم، نیوز ویک، لندن اکنامسٹ اور ان کے ساتھ ساتھ مارکسسٹ جریدوں کا بھی مطالعہ کرتا ہے ۔) 1972ء کی سیاسی جلاوطنی سے قبل دوبار امریکا اور برطانیہ کا دورہ کر چکا ہے۔ تاہم اس کا طرزِ زندگی ہر لحاظ سے بلوچ ہے۔ وہ روایتی لباس پہنتا ہے، حتیٰ کہ بیرونِ ملک مغربی ممالک میں بھی۔ وہ مرغوں کی لڑائی کا اَزحد شوقین ہے ، جو بلوچوں کا وقت گزارنے کا روایتی مشغلہ ہے۔

تیسری دنیا کے دوسرے قوم پرستوں کے بر عکس، جن کی نظریاتی راہ عام طور پر کالج کی تعلیم کے دوران ہی متعین ہوجاتی ہے، مری نے سیاسی میدان میں تاخیر سے قدم رکھا۔ اس کے سابق ہم جماعت جو اُسے ایچی سن کے زمانے سے جانتے ہیں، مری کو آزادی سے قبل ہندوستان کے مخصوص حکم راں طبقے کے خوش مزاج، خوش قسمت اور کھلندڑرے جوان کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ پاکستان میں ہندوستان کا سفیر شنکر باجپائی اُسے 1977ء کے سفارتی استقبالیے میں بمشکل پہچاننے میں کام یاب ہوا۔ باجپائی یہ دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ جس زندہ دل نوجوان کو وہ جانتا تھا، اب حساس سیاسی مجتہد میں تبدیل ہوچکا ہے جو پانچ سالہ قید، تین سال ایوب انتظامیہ کے ہاتھوں اور دو سال بھٹو کے تحت، کے گہرے نفسیاتی اور جسمانی نشان لیے ہو ئے ہے۔‘‘

یہ وہ اولین تعارف ہے جو ہمیں بلوچستان کے اس اہم ترین راہ نما سے متعلق پڑھنے اور جاننے کو ملتا ہے۔ اور یہ تعارف سن اَسی کی دَہائی میں ’بلوچ نیشنل ازم اِن افغانستانز شیڈو‘ نامی کتاب لکھنے والے معروف امریکی صحافی اور تجزیہ نگار سیلگ ہیریسن نے کروایا۔ اس کتاب میں خیر بخش مری سے متعلق شامل باب ان کی شخصیت، حالات اور افکار کا نہ صرف اولین بلکہ بہترین تعارف ہے۔ سیلگ ہیریسن کے بقول متذبذب، سادہ لوح، گم راہ کن حد تک حلیم الطبع اور اور شاہ محمد مری کے بقول ’فلاسفر‘ کنفیوز اور جان بوجھ کر کنفیوز‘ کے القابات پانے والا بلوچ سیاست کا یہ سحر آفریں کردار، اپنی شخصیت کے گرد پُراسراریت کا ایک ہالہ اوڑھے، دس جون کی رات مستقل خاموشی اختیار کرتے ہوئے منوں مٹی تلے جا سویا۔جس قدر اس شخصیت نے خود اپنے متعلق ابہام پیدا کیے رکھا۔

پاکستان اور بلوچستان کی سیاست میں اس کا تذکرہ اسی ابہام لیکن احترام کے ساتھ ہمیشہ ہوتا رہے گا۔ یہ دل چسپ تضاد ہے کہ نہ صرف پورے پاکستان بلکہ بلوچستان میں بھی ان کی سیاست، نظریات اور حکمت عملی سے کلی طور پر اتفاق نہ کرنے کے باوجود ان کے مخالفین بھی ان کے کردار اور کمٹ منٹ کی تحسین کیے بنا نہیں رہ سکتے۔ سخت گیر مؤقف رکھنے والا یہ آدمی اپنے مزاج میں اس قدر حلیم الطبع اور منکسرالمزاج واقع ہوا تھا کہ اس سے ملنے والا کوئی بھی شخص بہ آسانی یہ ماننے پہ تیار نہ ہوتا کہ یہ بلوچستان کے سب سے بڑے اور جنگ جو قبیلے کا سربراہ ہے۔

خود اُنھوں نے ایک بار ایک ٹی وی انٹرویو میں، میزبان کے اس سوال پر کہ ’اگر آپ سیاست داں نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟‘ کہا تھا،’میری خواہش تھی کہ میں کسی اسکول میں ماسٹر ہوتا اور بچوں کو پڑھاتا۔‘ اور پھر اپنی اس خواہش کی تکمیل انھوں نے یوں کی کہ نوے کی دَہائی میں افغانستان سے جلاوطنی کے خاتمے کے بعد کوئٹہ میں واقع اپنی رہائش گاہ پر ’حق توار‘ (صدائے حق) کے نام سے ایک اسٹڈی سرکل چلانا شروع کردیا۔

یہ سن دوہزار کے ابتدائی برسوں میں تب تک جاری رہا، جب تک کہ پرویزمشرف نامی طالع آزما نے ایک قتل کے مقدمے میں ملوث کر کے انہیں جیل میں نہ ڈال دیا، جہاں سے رہائی کے بعد وہ کراچی میں واقع اپنی بیٹی اور داماد کے گھر میں منتقل ہوگئے اور یہیں عمر تمام کی۔معروف ترقی پسند ادیب اور سیاسی کارکن احمد سلیم حال ہی میں شایع ہونے والی اپنی کتاب ’بلوچستان، صوبائی خودمختاری سے بے اختیاری تک‘ میں اس اسٹڈی سرکل سے متعلق لکھتے ہیں کہ اُس زمانے میں کوئٹہ جانا ہوا تو ’حق توار‘ کے اسٹڈی سرکل میں شرکت کی خواہش ظاہر کی، لیکن انھیں مرکزی دروازے سے ہی یہ کہہ کر واپس کردیا گیا کہ مری صاحب کسی پنجابی سے ملنا پسند نہیں کرتے۔

اس سخت سلوک کے باوجود احمد سلیم نے لکھا کہ ’اس سلوک پر جذباتی ہونے کی بجائے میں احتراماً وہاں سے لوٹ آیا کیوںکہ میرے ساتھ اس سلوک کی ان کے پاس ٹھوس وجوہات تھیں، میں ان کے اس رویے کے پس منظر سے آگاہ تھا اور ان کی خفگی کو جائز سمجھتا تھا۔‘یہ درست ہے کہ سردار خیر بخش مری کا یہ رویہ جبلی نہیں بلکہ معروضی تھا۔ یہی مری کسی زمانے میں پنجابی کامریڈوں کے ساتھ ایک ہی پارٹی میں کام کرتے رہے۔ ملک گیر جماعت نیشنل عوامی پارٹی کے صوبائی صدر رہے اور اسی کے پلیٹ فارم سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر بھی منتخب ہوئے۔ یہ قصہ سیلگ ہیریسن نے کچھ یوں بیان کیا ہے؛

’’مری، انتخابات میں قومی اسمبلی کی ایک بلوچ نشست پر منتخب ہوا اور بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی کے مختصر دورحکومت میں اس کا صدر منتخب ہوا۔ تاہم اسلام آباد سے متعلق اس کے نقطۂ نظر میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ 1973ء میں جب بزنجو نے بھٹو کے آئین پر دست خط کردیے تو مری نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس کی خودمختاری کی شقیں ناکافی اور بے معنی ہیں۔ مری کے انکار کو بعدازاں بلوچ اکثریت کی تائید حاصل ہوئی ۔جب بھٹو نے بیک جنبشِ قلم صوبائی حکومت توڑ ی اور مرکزی قیادت کو گرفتار کر لیا۔

جب جنرل ضیا نے بلوچ قیادت کو رہا کیا تو مری بصد ردو کد مینگل اور بزنجو کے ساتھ اسلام آباد سے مذاکرات پر تیار ہوا اور کسی بھی سمجھوتے کی بنیاد کے طور پر چند بڑی پاکستانی مراعات پر اصرار کرتا رہا۔ اس کا اصرار تھا کہ بلوچوں کو نئی فوجی انتظامیہ کی اُس وقت تک حمایت نہیں کرنی چاہیے جب تک ضیا بلوچستان سے فوج کے مکمل انخلا اور فوجی معرکوں میں نقصان اٹھانے والوں کے لیے معاوضے کی ادائیگی کے لیے تیار نہیں ہوجاتا۔ جب ضیا نے یہ تجاویز ماننے سے انکار کردیا تو مری کا مؤقف ایک بار پھر درست ثابت ہوا، اور ایک طرح سے وہ بلوچ مفادات کے مضبوط نگہبان کی صورت اختیار کر گیا۔‘‘

بلوچ مفادات کا یہ نگہبان سن ستر کے پارلیمانی تجربے کے بعد پھر کبھی لوٹ کر اس کوچے کی جانب نہ گیا۔ حیدرآباد سازش کیس میں دورانِ اسیری ہی ان کے اپنے ساتھیوں سے فکری اختلافات ہوگئے۔ یہ اختلاف اس قدر بڑھ گئے کہ نیپ کی قیادت جب حیدرآباد سازش کیس سے رہا ہو کر نکلی تو ان کی راہیں الگ الگ ہوچکی تھیں۔ ’بابائے بلوچستان‘ کہلائے جانے والے غوث بخش بزنجو سے اختلاف رکھنے والے نواب خری بخش مری آخر تک انھیں سیاسی استاد مانتے رہے۔

سن دو ہزار آٹھ میں ایک نجی ٹی وی کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے اعتراف کیا کہ وہ بزنجو صاحب کو ’ماسٹر‘ کہا کرتے تھے، اور آج بھی سیاسی میدان میں انھیں اپنا استاد سمجھتے ہیں…ایسا استاد جس کی وہ تادیر فکری پیروی نہ کر سکے۔پاکستان میں بائیں بازو کی عوامی سیاسی تنظیم کی بنیاد رکھنے والے میرغوث بخش بزنجو سے اختلاف کے باوجود نواب مری خود کو بائیں بازو کے نظریات سے الگ نہ کر پائے۔ ابتدائی عہد سے لے کر آخری عمر تک وہ خود کو ایک مارکسسٹ کہلوانے سے کبھی نہ کترائے۔ امریکی صحافی نے ان سے ہونے والی اولین ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا؛

’’ہماری کوئٹہ میں ملاقات کے دوران اگرچہ مری نے لینن کا روایتی بیج تو نہیں لگایا ہوا تھا، لیکن اس نے بڑی شدومد سے لینن کی تصانیف میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا اور وضاحت کی کہ ان پر جوں کا توں عمل کرنا اس کے نزدیک ضروری نہیں۔ اس نے کہا؛’میں ان کے علاوہ کسی بھی اور کے، جن کی میں عزت کرتا ہوں، بیج لگا سکتا ہوں، مثلاََ گوتم بدھ۔ جو کچھ میں نے لینن میں دیکھا مجھے اور کہیں نظر نہیں آیا۔ لیکن اس کا قطعی یہ مطلب نہیں کہ مجھے اس پر یا اس کی تصانیف پر اندھا اعتماد ہے۔ مارکسزم، لینن ازم نے مجھے سیاست کو سمجھنے میں مدد دی ہے، لیکن ’اشتراکی‘ (سوشلسٹ) ہونا آسان نہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ میں اس پر پورا اُترتا ہوں۔‘

مری، مارکس اور لینن کے نظریات کو بلوچ معاشرے میں ’قومی اشتراکیت‘ کے طور پر اپنانے کی بات کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ کوئی بھی اگر یہ سمجھتا ہے کہ بلوچستان کی مشکلات مغربی طرز کی یہودی ریاست کے قیام کے ذریعے حل ہو سکتی ہیں، تو وہ غلطی پر ہے۔ اگر کسی کا خیال ہے کہ پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے کوئی بلوچوں کو ’بلوچستان‘ پلیٹ میں سجا کر پیش کر دے گا تو مجھے اس پر شک ہے۔ قانون کے ذریعے یہ سب کچھ ہو، تو مجھے اس پر بھی یقین نہیں۔ اگر ہمیں اپنے حقوق چاہئیں تو یہ معمول کے مغربی طریقوں سے حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ میرے خیال میں سرمایہ دارانہ قوم پرستی متروک ہوچکی ہے۔ آج غریب اپنی آزادی کے لیے اپنے زمیندار یا جاگیردار کی راہ نمائی تسلیم نہیں کرے گا۔ اسے یقین دلانا ہو گا کہ نئی ریاست میں اسے اقتصادی حقوق ملیں گے، جس کا مطلب یہ ہے کہ لینن یا مارکس کی تعلیمات میں سے کچھ کو اپنانا ہو گا۔‘‘

دو ہزار بارہ اور پھر تیرہ میں دیے گئے اپنے آخری انٹرویو میں انھوں نے بالترتیب واضح انداز میں کہا،’بلوچستان کا مستقبل سوشل ازم ہو گا‘ نیز یہ کہ،’بلوچوں کو سوشلسٹ تعلیم کی ضرورت ہے۔‘ یہ باتیں ہم نے ان سے ہونے والی طویل گفت گو میں خود بھی سنیں۔ گفت گو کے معاملے میں کم گوئی کے لیے معروف خیر بخش مری مطالعے کے معاملے میں ’’بسیار خور‘‘ تھے۔ مقامی اور ملکی سطح کے علاوہ عالمی سطح کے اہم ذرائع ابلاغ کا باقاعدگی سے مطالعہ کرنے کے ساتھ بالخصوص بلوچستان سے متعلق کتابیں نہایت ذوق و شوق سے پڑھتے تھے۔ ان کا یہ معمول صاحبِ فراش ہونے تک جاری رہا۔

ان کی وفات سے چار سال قبل ہم چند دوست جب ان سے ملنے کے لیے گئے تو تازہ ترین کتابوں پر ان کی گفت گو ہمارے لیے حیران کن تھی۔ اور حیران کرنے دینے کی صلاحیت ان میں بدرجہ اتم موجود تھی ۔ مثلاً یہ بات کتنے ہی قارئین کے لیے حیران کن ہو گی کہ سن ستر کی دَہائی میں بلوچستان میں قایم ہونے والی نیپ کی پہلی جمہوری حکومت کے پہلے پارلیمانی اجلاس میں بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کے لیے ایک قرارداد پیش کی گئی، اور یہ قرارداد نواب خیر بخش مری نے پیش کی، جس کی وزیر اعلیٰ سردارعطا اللہ مینگل نے تائید کی، لیکن پیپلزپارٹی کے اراکین نے اسے مسترد کر دیا۔

(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو، بی ایم کٹی کی مرتب کردہ غوث بخش بزنجو کی سوانح حیات’اِن سرچ آف سلوشن‘، جس کا اردو ترجمہ ہما انور نے ’مقصد سیاست‘ کے نام سے کیا ہے )آخری ایام میں گو کہ وہ اپنے مؤقف میں مزید سخت گیر ہوتے چلے گئے، لیکن یہاں تک پہنچنے کے لیے انھوں نے طویل وقت لیا، اور اس دوران انھیں اس راستے پر جانے سے روکنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔

اَسی کی دَہائی میں ان سے ملنے والے ہیرسن نے لکھا،’’جب میں نے تجویز پیش کی کہ سپر پاورز کے جوئے تلے آزادی حاصل کرنے کے مقابلے میں پاکستان سے تصفیہ قابلِ ترجیح ہے، تو مختصر وقفے کے بعد اُس نے جواب دیا ؛ ’’ اگر پنجابی یا پاکستانی حکومت بلوغت اور پختگی کے انداز میں حقیقت پسندی اور اس تفہیم کے ساتھ کہ بات چیت کے لیے تیار ہے تو پھر ہم بھی تصفیے کے لیے ہمیشہ کی طرح تیارہیں۔‘‘افسوس کہ ریاستی سطح پرنہ صرف مستقل تصفیے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ نواب مری کی زندگی تمام ہونے کی صورت میں تصفیے کی یہ صورت ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکی۔

نواب مری کی رحلت بلوچستان کے سیاسی ایوان میں کسی زلزلے سے کم نہیں، جس کے آفٹر شاکس تادیر محسوس کیے جاتے رہیں گے، اور ظاہر ہے کہ اس سے ملکی سیاست کے ایوان بھی متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکیں گے۔

اصلاحات کی کبھی مخالفت نہیں کی: خیر بخش مری (از، سیلگ ہیریسن)

’’مری اپنے دفاع میں کہتا ہے کہ اس نے مری علاقے میں اصلاحات کی کبھی مخالفت نہیں کی، بلکہ اُس نے اِس کے پسِ پشت مرکزی حکومت کے استحصالی اور سیاسی مقاصد کو مد نظر رکھا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے اَموکو (Amoco) اور دوسرے غیرملکی اداروں کی طرف سے مری علاقے میں تیل کی تلاش کی مہم کا ذکر کیا اور اطمینان کا اظہار کیا کہ مری مزاحمت تاحال تیل کی تلاش اور منسلکہ سڑک کی تعمیر روکنے میں کام یاب رہی ہے۔ مری نے کہا؛’’بگٹی علاقے میں جو کچھ ہوا، ہمارے سامنے ہے۔ وہاں گیس دریافت ہوئی جس کا 80 فی صد دوسروں کو دولت مند بنانے کے لیے بلوچستان سے باہر چلا جاتا ہے۔

ہم یقیناً اپنے علاقے میں ترقی چاہتے ہیں، لیکن یہاں اصلاحات اور ترقی مخصوص انداز اور رفتار سے درکار ہے جو ہمارے علاقے کے حالات کی مناسبت سے ہو۔ ہم جب حکومت میں تھے تو ان سب کاموں کا آغاز کیا گیا تھا، لیکن وہ نہیں چاہتے کہ ترقی کا کام ہماری گرفت میں ہو۔ وہ ہمارے نقطۂ نظر کو سمجھے بغیر یہ سب کچھ اپنے طریقۂ کار کے مطابق کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ اس نے وضاحت کی کہ مسئلہ یہ نہیں کہ آیا ترقیاتی کام کیے جائیں یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ترقی، خودمختاری کے ساتھ کی جائے یا اس کی عدم موجودگی میں استحصال کا نیا نام اب ترقی رکھا گیا ہے۔

(مصنف کی کتاب ’بلوچ نیشنل ازم ان افغانستانز شیڈو‘ سے اقتباس)

زندگی نامہ (از، شاہ محمد مری)

نواب مری (پیدائش کاہان ، 28 فروری 1929ء ) ابھی دودھ پیتے بچے تھے کہ والدہ کا انتقال ہوگیا۔ کنیزوں اور سوتیلی ماؤں کے دودھ اور دیکھ بحال کی بدولت مرنے سے بچے رہے۔ اُن کا نام ان کے دادا کے نام پر رکھا گیا جو ایک زبردست سام راج دشمن سردار تھے۔ 1933 ء میں ابھی محض چار سال کے تھے کہ والد (سردارمہر اﷲ خان) کا انتقال ہوگیا۔ قبیلہ دودا خان کی قائم مقام سرداری میں چلا گیا اور کم سن خیر بخش دوہری یتیمی کی گود میں۔ انگریز نے اس توقع پر (چیفس کالج لاہور میں) تعلیم و تربیت کی کہ دادا (خیر بخش اول) کے برعکس ایک ’سدھرا نواب‘ میسر ہوگا، مگر یہ نوجوان (1950 ء میں سردار بنا۔ سردار جو قبیلے کا سماجی، معاشی، آئینی اور سیاسی سربراہ ہوتا ہے) انگریز کے کام بھی نہ آیا اور انگریز کے بعد کے جاں نشینوں کو تو یہ شخص بہت منہگا پڑا۔

نواب خیر بخش مری اپنے بلوچ سیاسی رفیقوں اور غیربلوچ آٹھ سیاسی پارٹیوں کے متحدہ محاذ میں پاکستانی سیاست کے نشیب و فراز سے گزرے۔ اس کے ہر ذائقہ اور رنگ سے تجربہ لیتے رہے۔ پارلیمنٹ کے ممبر رہے اور ایسے نتائج حاصل کرتے رہے جو خالصتاً اُن کے اپنے تھے۔ بالخصوص1960 ء کی دہائی کے آخری نصف اور 1970ء کی دہائی کے پہلے نصف پر مشتمل اُن کی زندگی کے دس سال بہت تیزرفتار اور بنیادی فیصلوں کے سال رہے۔ فوجی کارروائیوں، مارشلاؤں، جیلوں، مذاکرات، بحثوں اور مطالعے نے نواب مری کی معلمی کی۔ گو کہ انہوں نے ووٹ اور پارلیمنٹ کی سیاست کبھی ترک نہ کی مگر اُسے واحد حل جاننے سے وہ دُور ہی ہٹتے گئے۔

حتیٰ کہ مشرف کے آخری الیکشن میں انہوں نے پارلیمانی سیاست کو حتمی طور پر بے کار قرار دیتے ہوئے اس میں اپنی طرف سے کوئی امیدوار کھڑا نہ کیا۔ چناںچہ ’’ ون یونٹ توڑ دو‘‘ سے سیاست شروع کی، (آج پشیمانی سے اُس کا تذکرہ کرنے کے باوجود) نیپ میں سیاست کرتے رہے۔ حیدرآباد سازش کیس بھگتا۔ فرانس، برطانیہ اور افغانستان میں جلاوطن رہے۔ سرخ و سفید چہرہ اور مثالی صحت پر داڑھی سفید ہوگئی، پیر نے لاٹھی کے سہارے کا بنادیا۔ عمر 90 سال کی حد میں داخل ہوگئی…… تب ہوتے ہوتے وہ حتمی طور پر ایک نکتے تک پہنچے۔

نواب خیر بخش مری کے انٹرویوز

طبعاً کم گو خیر بخش مری کے خیالات و افکار سے واقفیت کا واحد مؤثر و مستند ذریعہ ان کے وہ انٹرویوز ہیں جنھیں ایک نوجوان سیاسی کارکن نے مرتب کر کے سن دو ہزار گیارہ میں کوئٹہ سے کتابی صورت میں شایع کیا۔ اس کتاب کا پیش لفظ نواب مری ہی کے قبیلے کے ایک سپوت، بلوچستان کے نام ور ترقی پسند دانش ور ڈاکٹر شاہ محمد مری نے لکھا۔ جس قدر اہم یہ کتاب ہے، اسی قدر اہم اور خوب صورت ڈاکٹر مری کا لکھا ہوا پیش لفظ ہے، جس آغاز ہی نہایت دل چسپ ہے۔ نواب مری کی شخصیت اور اس کتاب کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے مذکورہ پیش لفظ کے اولین پیراگراف سے ایک اقتباس پیش ہے؛

’’ بے شک اختلاف رکھ کر پڑھیے مگر یہ سوچ کر پڑھیے کہ یہ ایک عام فرد اور ایک عام لیڈر کے انٹرویو نہیں ہیں۔ یہ بلوچستان سے انٹرویو ہیں، بلوچستان کی حالیہ تاریخ سے انٹرویو ہیں۔ اس لیے کہ یہ بندرعباس سے لے کر تونسہ تک کے بلوچوں کے مقبول ترین اور معتبرترین شخص سے انٹرویو ہیں۔ بلوچوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کی سیاست، اہداف اور حکمت عملی کی بہت ساری جزئیات سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی انہی کی طرح سوچتی ہے۔

یہ ایسے شخص کے انٹرویوز ہیں جس کی قیادت پر اُن تمام لوگوں کو اعتماد ہے جنہیں ایک چیلینج درپیش ہے؛ انقلابی پراسیسوں اور آزادی پہ یقین رکھنے والا چیلینج۔ اور اس شخص نے اُن لاکھوں انسانوں کے اعتماد کو ابھی تک صحیح سالم رکھا ہوا ہے۔ وہ بھی بلوچستان میں، جہاں ایلیٹ طبقہ اور سردار حب الوطنی کے کسی بھی احساس سے محروم ہیں اور جو خود ہی اپنی مادرِوطن کے خلاف عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ اُس طبقے سے خود کو جدا رکھنا اور ایک دو نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کے اعتماد کو برسوں تک قائم رکھنا غیرمعمولی کام ہوتے ہیں۔ خیر بخش ایک غیرمعمولی انسان ہے۔ اس کے انٹرویوز اس لیے غور سے پڑھنے چاہییں۔‘‘

نیند کی پُراسرار بیماری

$
0
0

آج کل روس کے ماہر سائنس داں نیند کی ایک ایسی پراسرار بیماری کے اسباب معلوم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں

جس سے متاثر ہونے والے افراد ایک آدھ گھنٹے یا ایک آدھ دن نہیں بلکہ پورے پورے ہفتے مسلسل سوتے رہتے ہیں۔ یہ واقعات سوویت یونین دور کے ایک بھوتوں والے قصبے میں مقیم افراد کے ساتھ پیش آرہے ہیں۔ یہ قصبہ پہلے ہی غیرآباد ہوچکا ہے، یہاں گنتی کے افراد ہی رہائش پذیر ہیں جنہیں اپنی زندگی کی بقا کے لیے بڑی محنت اور جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ یہ لوگ اس پراسرار نیند میں مبتلا ہوکر ہر وقت سوتے رہتے ہیں تو روزی روٹی کب اور کیسے کمائیں گے؟

بالکل یہی کیفیت قزاقستان کے قریب واقع ایک گائوں کی بھی جہاں اب گنتی کے لوگ ہی رہتے ہیں۔ روس کے علاقےKrasnogorsk اور قزاقستان کے علاقے کالاچی کے درجنوں لوگ بھی اس پراسرار نیند کی بیماری میں مبتلا ہوگئے ہیں جو انہیں پورا ہفتہ ہی سلائے رکھتی ہے۔ اگر یہ لوگ جاگتے بھی ہیں تو ہر وقت اونگھتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی نیند کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ اس بیماری میں مبتلا ایک مقامی بوڑھے کو تو مُردہ سمجھ کر زندہ دفن کردیا گیا تھا، مگر جب وہ زندہ نکلا تو پھر یہاں بے چینی پھیل گئی اور ماہرین نے اس وبائی مرض کے بارے میں تحقیق شروع کی تب یہ انکشاف ہوا کہ یہاں کے لوگ مسلسل سوتے رہتے ہیں۔ دوران تحقیق ماہرین نے یہ بھی پتا چلایا کہ یہ بیماری یورینیم کی ایک ایسی سرنگ کے قریب واقع علاقوں میں پھیل رہی ہے جو اب استعمال میں نہیں رہی ہے۔

پراسرار نیند کی یہ بیماری پہلے  اچانک مئی 2013میں منظر عام پر آئی جس کے بعد اس نے 2014کے نئے سال میں اپنا جلوہ دکھایا اور پھر مئی 2014 میں اس حوالے سے کئی کیسز سامنے آئے۔ یہاں کے بعض افراد خاص طور سے بوڑھے افراد تو ہر وقت اپنا بیگ تیار رکھتے ہیں کہ کہیں انہیں فوری طور پر اسپتال نہ لے جانا پڑے۔ عام لوگوں کا یہ خیال ہے کہ نیند کی اس پراسرار بیماری کا سبب قریب ہی واقع یورینیم کی وہ کان ہے جو اب استعمال میں نہیں رہی ہے۔ لیکن جب ماہرین نے اس حوالے سے تحقیق کی تو انہیں ایسا کوئی ثبوت نہیں مل سکا جو یورینیم کی کان اور نیند کی بیماری کے درمیان کوئی تعلق قائم کرسکے۔

پراسرار نیند کے مریضوں پر لگ بھگ 7,000تجربات کیے جاچکے ہیں۔ اس دوران ہر طرح کے ٹیسٹ کیے گئے جن میں مقامی وڈکا شراب کا تجزیہ اور تاب کاری کا ٹیسٹ بھی شامل ہے۔ ساتھ ہی علاقے کی مٹی، پانی اور ہوا کو بھی چیک کیا گیا اور متاثرہ افراد کا خون، بال اور ناخن بھی ٹیسٹ ہوئے۔ لیکن ابھی تک کوئی ایسا نتیجہ سامنے نہیں آیا جو اس بیماری کی وجوہ پر روشنی ڈال سکے۔

بچے اس بیماری سے زیادہ متاثر ہوئے۔ انہیں خوف ناک خواب دکھائی دیتے ہیں، وہ واہموں اور فریب نظر کا شکار بھی رہتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں کمزوری بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ ہر وقت غنودگی کی کیفیت میں دکھائی دیتے ہیں، یہاں تک کہ اس مرض میں مبتلا بچوں کی یادداشت بھی متاثر ہوگئی ہے۔ دوسری جانب بالغوں کی کیفیت اتنی خراب ہوگئی ہے کہ ان کے سامنے مکمل اندھیرا چھاجاتا ہے۔

کالاچی سے تعلق رکھنے والی پچاس سالہ خاتون Marina Felk نے اخباری نمائندوں کو بتایا:’’میں حسب معمول علی الصبح گایوں کا دودھ دوہ رہی تھی کہ یکایک میرے سامنے اندھیرا چھا گیا اور سب کچھ غائب ہوگیا، ہوش آیا تو میں اسپتال کے ایک وارڈ میں تھی، مجھے دیکھ کر نرسوں نے مسکراتے ہوئے کہا:’’خوش آمدید سلیپنگ پرنسز، آخرکار تم بیدار ہوگئیں!‘‘

مجھے کچھ بھی یاد نہیں تھا، جب کہ مجھے بتایا گیا کہ میں پورے دو دن اور دو راتیں سوتی رہی تھی۔ میرے وارڈ میں موجود ایک نرس نے مجھے بتایا کہ جب کبھی اس نے مجھے جگانے کی کوشش کی تو میں مسلسل یہی کہتی رہی:’’مجھے اپنی گایوں کا دودھ دوہنا ہے۔‘‘

تیس سالہ Alexey Gom نیند کی اس پراسرار بیماری کا اس وقت شکار ہوا جب وہ اپنے رشتے داروں سے ملنے کالاچی گیا تھا۔

اس نے کہا:’’میں اپنی بیوی کے ساتھ اپنی ساس کو دیکھنے اور ان کی مزاج پرسی کرنے گیا تھا۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور اس کے صفحات کھولنے شروع کیے، کیوں کہ مجھے اپنا کام جلدی نمٹانا تھا۔ بس اسی وقت مجھ پر اس بیماری کا حملہ ہوگیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے کسی نے میرے اندر کا بٹن بند کردیا ہے۔ میری آنکھ اسپتال میں کھلی۔ میری بیوی اور میری ساس میرے بستر کے پاس کھڑی تھیں۔ ڈاکٹروں نے میرے کئی ٹیسٹ لیے اور بتایا کہ میرے ساتھ کوئی گڑبڑ نہیں ہے، میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں تیس گھنٹے سے زیادہ عرصے تک سوتا رہا تھا۔ مگر اس کا سبب کوئی ڈاکٹر معلوم نہ کرسکا۔‘‘

سوویت دور میں Krasnogorsk یورینیم کی خفیہ سرنگ والا قصبہ تھا، مگر یہ سرنگ عرصہ ہوا بند ہوچکی ہے۔ اس سرنگ کو اور اس میں ہونے والے کام کو براہ راست ماسکو سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ یہ قصبہ کسی زمانے میں 6,500  افراد کا گھر تھا، اب وہاں بہ مشکل 130 افراد بستے ہیں جنہیں اپنا پیٹ بھرنے کے لیے بڑی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔

لوکل کمیونٹی کونسل کے سربراہ الیگزینڈر ریٹس نے بتایا:’’ہماری دکانوں پر آپ کو سب کچھ مل جائے گا: گوشت، کنڈینسڈ ملک، یوگوسلاویہ کے بنے ہوئے جوتے، ایک کان کن یہاں ہر سال تین نئی کاریں خرید سکتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کی دو نرسریاں بھی ہیں اور دونوں میں سوئمنگ پول ہیں۔‘‘

کچھ مقامی افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا کے درجۂ حرارت کے اچانک بڑھنے کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے، لیکن اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں مل سکا۔

کچھ سائنس دانوں کا یہ خیال ہے کہ یہاں کی کان سے یورینیم گیس بھاپ بن کر اڑتی ہے، جب کہ دوسروں کا دعویٰ ہے کہ یہ گیس مذکورہ بالا یورینیم کی کان سے رس رس کر مقامی دریائوں کے پانی میں شامل ہوچکی ہے جس کی وجہ سے نیند کی یہ پراسرار بیماری پیدا ہوئی ہے۔

یہ بیماری امریکا میں پھیلی ‘Bin Laden itch’ نامی بیماری سے ملتی جلتی ہے جس میں متاثرہ افراد کی جلد پر سرخ دھبے پڑگئے تھے۔ مقامی افراد اس اندیشے کا اظہار کررہے ہیں کہ کہیں یہ بیماری بھی اسی طرح کی بیماری نہ ہو۔ اگر ایسا ہوا تو بڑا مسئلہ پیدا ہوسکتا ہے۔

اس خطے کے ایک ماہر ڈاکٹر کا یہ بھی کہنا ہے:’’جب مریض نیند سے جاگتا ہے تو اسے کچھ یاد نہیں ہوتا۔ یہ کہانی ہر بار ایک ہی ہوتی ہے۔ اس میں متاثرہ فرد کمزور ہوجاتا ہے، وہ سست روی کے ساتھ ری ایکشن ظاہر کرتا ہے اور پھر گہری نیند سوجاتا ہے۔ افسوس کہ ابھی تک ہم نہ تو اس بیماری کی نوعیت جان سکے اور نہ اس کے اسباب کا پتا چلاسکے ہیں۔ ہم نے انفیکشنز کو نظر انداز کرتے ہوئے خون کو بھی چیک کیا اور ریڑھ کی ہڈی کے پانی کو بھی، مگر یہ سب ٹھیک نکلے۔ دوسرے پہلوئوں پر بھی غور کیا گیا، مگر سب کچھ ٹھیک ہے البتہ اس بیماری کے اسباب معلوم نہ ہوسکے۔ یہ لوگ پورے ہفتے سوتے ہیں، کیوں؟ جیسے ہی اس کا سبب معلوم ہوگا، ہم اس سے بچائو کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کریں گے۔‘‘

دہکتے موسم میں ٹھنڈی ہوا سے “پہناوے”

$
0
0

دھوپ کی تمازت بڑھتے ہی تو پہناووں میں بھی تبدیلی ضروری ہوجاتی ہے۔ گرما میں خواتین کا مطمع نظر ایسے لباس ہوتے ہیں، جو پہننے میں ہلکے پھلکے اور دیکھنے میں بھلے معلوم ہوں۔

یہی وجہ ہے کہ خواتین کے من پسند ملبوسات میں لان کے کپڑے سرفہرست ہیں۔ خاص طور پر شادی بیاہ کی تقریبات میں خواتین کی بڑی تعداد ہلکے رنگوں میں تیارکردہ خوب صورت پہناوے زیب تن کر کے اپنی شخصیت کو پرکشش بناتی ہے۔

ایک طرف تو خوب صورت پہناوے ہوتے ہیں، دوسری طرف ملبوسات کی مناسبت سے جیولری، میک اپ اور پھر ہیئرسٹائل پر بھی خاص توجہ دی جاتی ہے۔

ایک عورت کو جس اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے لباس کی تراش خراش کے ذریعے ہی حاصل ہوتی ہے۔

جدید طرز کے یہ لباس اعتماد کے ساتھ شخصیت کو دل کشی اور وقار بھی عطا کرتے ہیں۔ زیرنظر ملبوسات بہ خوبی اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔

پاک، روس تعلقات کے نئے باب کا آغاز!

$
0
0

قیام پاکستان کے بعد سابق سوویت یونین اور نوزائیدہ مملکت (پاکستان) کے درمیان پہلا رخنہ سنہ 1948ء میں اس وقت پڑا جب اس وقت کی سوویت قیادت نے مسئلہ کشمیر پر بھارت کے موقف کی تائید کی۔

شاید یہی وہ بنیادی وجہ تھی جس کے نتیجے میں پاکستان کا روز اول سے جھکاؤ پڑوسی سپر پاور ’’سوویت یونین‘‘ کے بجائے امریکا کی جانب ہوا۔ گوکہ دونوں ملکوں کے درمیان اختلافات کو دشمنی میں تبدیل کرنے کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں تھی لیکن سوویت یونین کی سرد مہری او ر بھارت نواز پالیسی نے اسلام آباد اور ماسکو کے درمیان قربت پیدا نہ ہونے دی۔ پاکستان کے امریکی کیمپ میں شامل ہونے کے بعد اسلام آباد کی مجبوری تھی کہ وہ امریکیوں کے بعض’’ غیرضروری‘‘ مطالبات بھی تسلیم کرتا چلا جائے۔

داخلی اور خارجہ مسائل کے انبار میں پاکستان کے لیے مصلحت اسی میں تھی کہ وہ واشنگٹن کی’’گاجر اور چھڑی‘‘ کی پالیسی کو اپنی قسمت سمجھ کرقبول کرلے اور بدقسمتی سے ایسا ہی  ہوا۔  وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے 1957ء میں امریکا کے مطالبے پر اسے  پشاور کے قریب بُڈ بیر کے مقام پر ایک خفیہ اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی۔ امریکیوں نے اس خفیہ اڈے کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ۔ پاک سرزمین کو کسی تیسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی یہ اولین مثال ہے۔ امریکا اس فوجی اڈے سے  U.2 نامی جاسوس طیارے اڑاتا اور ماسکو کی جاسوسی کرتا۔

روس نے متعدد مرتبہ اس کی شکایت بھی کی لیکن امریکا نے جاسوسی سے متعلق سوویت الزامات مسترد کردیے۔ یکم مئی 1960ء کو روس نے U-2 نامی ایک امریکی جاسوس طیارے کو اتار لیا ۔ طیارے کے پائلٹ کو ایک نیوز کانفرنس میں پیش کیا گیا جس نے مبینہ طور پر پاکستان کی سرزمین کو جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔ اس واقعے کے بعد سوویت یونین اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کا مزید بڑھنا فطری بات تھی۔ سنہ 1965 اور 1970ء کی پاک، بھارت جنگوں میں روس نے دامے، درہمے ، سخنے نئی دہلی کا ساتھ دیا  اور’ ہم ’ جن کے لیے ہم مرے تھے وہ رہے وضو کرتے ‘‘ کے مصداق امریکی بحری بیڑے کی طفل تسلیوں اور بھول بھلیوں میں بھٹک کر رہ گئے اور آج تک بھٹک رہے ہیں۔

پاکستان اور روس کے درمیان کشیدگی کی تاریخ لکھتے ہوئے مورخ یہ بات ہمیشہ یاد رکھے گا کہ جب بھی پاکستان میں آمریت آئی تو اس نے دونوں ملکوں کے مابین سرد جنگ میں اضافہ ہی کیا۔ مثلاً سکندر مرزا کے دور میں دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ جنرل ایوب خان نے اسے آگے بڑھایا۔ جنرل یحیٰ خان نے تلخی کو مزید مہمیز دی اور روس، افغان جنگ کے دوران ضیاء الحق مرحوم نے سرد جنگ کو گرم جنگ کے دہانے پر پہنچا دیا۔ تاہم اس کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی بتدریج کم ہوئی اور آج دونوں پڑوسی ملک تعلقات کے ایک نئے دورمیں داخل ہو رہے ہیں۔

سنہ 1989ء میں سوویت یونین کی شکست وریخت اور’’ فیڈریشن آف رشیا‘‘ کے قیام کے بعد پاکستان اور ماسکو کے درمیان دو طرفہ تعاون کی نئی راہیں کھلنا شروع ہوئیں۔ سابق فوجی صدور پرویز مشرف اور آصف علی زرداری نے دو طرفہ تلخیوں کی زہر بجھانے کے لیے کسی حد تک قابل ذکر کوششیں کی۔ 2012ء میں روسی صدر ولادی میر پوتن نے پاکستان کے دورے کا اعلان کیا مگر یہاں پرامن وامان کی خراب صورت حال اور بعض دیگر وجوہات کی بناء پر یہ دورہ منسوخ کردیا گیا تھا۔ پاکستان اور روس کے سفارتی حلقوں میں صدر پوتن کے دورہ اسلام آباد کے لیے ایک مرتبہ پھر کوششیں شروع ہوئی ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ روسی صدرجلد پاکستان کے دورے کا اعلان کریں گے۔

جہاں  تک پاکستان  اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں تعاون کا  سوال ہے تو اب یہ حقیقت کا روپ دھا ر چکا ہے۔ گوکہ ماضی میں روس نے بھارت نوازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان سے دفاعی تعاون کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی بلکہ بادی النظر میں یہ مشہور کیے رکھا کہ ماسکو نے اسلام آباد سے فوجی تعاون  پرپابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ گوکہ روس نے تحریری طور پر بھارت سے ایسا کوئی معاہدہ تو نہیں کیا لیکن روسی سرد مہری سے یہ ثابت ہو رہا تھا کہ وہ پاکستان سے ساتھ دفاعی میدان میں تعاون میں قطعی غیرسنجیدہ ہے۔

نوے کی دہائی کے آغاز میں دونوں ملکوں میں تجارتی اور اقتصادی تعاون کا ایک باضابطہ چینل قائم ہوا تو دونوں ملک دفاعی میدان میں بھی ایک دوسرے کے قریب آئے۔ چنانچہ1996ء سے 2010ء  تک روس نے پاکستان کو سول مقاصد کے لیے76 ایم آئی 26 ہیلی کاپٹر فروخت کیے۔ درجنوں کی تعداد میںایم آئی6 کی فراہمی یقینی بنائی گئی اور پاکستانی ساختہ جنگی طیاروںJF 17 تھنڈر میں روسی ساختہ انجن لگوائے گئے۔ یہ تعاون دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی میدان میں معاونت کا نقطہ آغاز بنا۔ آج روس جنگی مقاصد کے لیے پاکستان کو ایم آئی35 جنگی ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کی منظوری دینے کے لیے تیار ہے۔

تادم تحریر دونوں ملکوں میں معاہدہ طے نہیں پایا تاہم ان سطور کی اشاعت تک اس کا  امکان بھی موجود ہے۔ ذرائع کے مطابق ابتدائی طورپر روس پاکستان کو ایک درجن ’’ ایم آئی پینتیس‘‘ جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کرے گا تاہم اگلے مرحلے میں اسلام آباد روس سے مزید اسلحہ اور سامان حرب وضرب بھی منگوائے گا۔ روسی ذرائع ابلاغ کے ذرائع کے مطابق  اسلحہ سازی  میں کمالات کے باوجود روس پاکستان کے ’’الخالد‘‘ ٹینکوں پر بھی نظر رکھے ہوئے ہے۔ عین ممکن ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان مستقبل قریب میں ان ٹینکوں کی کوئی ڈیل طے پاجائے۔

رواں سال فروری میں روس کے قومی دن کے موقع پر پاکستان میں متعین روسی سفیرالیکسی دیدوف نے اہم شخصیات کو استقبالیہ دیا، جس میں  وائس چیف آف ائیر اسٹاف ایئر مارشل  اظہر علی بخاری بطورمہمان خصوصی شریک ہوئے۔ استقبالیہ کے موقع پر روسی اسلحہ کی صنعت کے بارے میں ایک ڈاکو منٹری فلم بھی دکھائی گئی جس میں روسی ساختہ ٹینکوں کو خاص طورپر دکھایا گیا۔

تقریب میں گفتگو کرتے ہوئے روسی کمرشل اتاشی یورپی کوزو لوف نے کہا کہ دونوں ملک ایک دوسرے کی مصنوعات کی بڑی منڈیاں ہیں۔ براہ راست تجارت نہ ہونے کے باعث پاکستان کی کئی اہم اشیاء روس کو دوسری مارکیٹوں سے مہنگے داموں خرید کرنا پڑتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوطرفہ تجارتی روابط بڑھنے سے روس پاکستان سے آلو، کینو، آم، کپڑا ، چاول اور سرجیکل آلات براہ راست خریدنے کے لیے تیار ہے۔ ان کے بدلے میں ماسکو پاکستان کو زرعی شعبے میں استعمال ہونے والی جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے مدد کرسکتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان فوجی مقاصد کے لیے امریکی ساختہ کوبرا گن شپ ہیلی کاپٹر بھی استعمال کر رہا ہے تو کیا ’’ایم آئی35‘‘ ہیلی کاپٹروں کی صلاحیت ان سے زیادہ ہے؟ تو اس کا جواب اثبات میں ہے، کیونکہ ایم آئی 35 جنگی ہیلی کاپٹر دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں دشمنوں کے خلاف کارروائی میں نہایت مؤثر ہتھیار سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ بالخصوص طالبان عسکریت پسندوں کے زیراثرپہاڑی علاقوں میں کارروائی کے لیے ’’ایم آئی35‘‘ کی اشد ضرورت محسوس کرتا ہے۔ روس یہی ہیلی کاپٹر اس سے قبل عراق کو بھی فروخت کر چکا ہے جنہیں عراقی حکومت مقامی عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور طریقے سے استعمال کر رہی ہے اور اس کے نہایت مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان عسکری میدان میں تعاون ہی اصلًا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ اس مرحلے کے طے ہوجانے کے بعد معاشی اور تجارتی میدانوں میںمعاہدوں کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی۔ پاکستان میں تیار ہونے والے سرجیکل آلات روس کی اہم ترین ضرورت رہے ہیں۔ اب تک روسی کمپنیاں پاکستان کے سرجیکل آلات جرمنی کی مارکیٹ سے اٹھاتی رہی ہیں۔ حالیہ مذاکراتی عمل کے دوران اس معاملے پر بھی بات چیت ہوئی  ہے۔ اگر روس براہ راست پاکستان سے سرجیکل آلات خرید کرتا ہے تو اس سے خوش کن بات اور کیا ہو سکتی ہے کہ اسلا م آباد صرف سرجیکل آپریٹس کی فروخت سے کروڑوں ڈالر کا زر مبادلہ کما سکتا ہے۔

بھارت پرحصول اسلحہ کا بھوت سوار

روس اور پاکستان کے درمیان تجارتی، اقتصادی اور دفاعی میدانوں میں تعاون کے نئے باب کھلتے ہی بھارت پر حسب روایت اسلحہ کے حصول کا بھوت غیرضروری طورپر سوا ر ہوگیا ہے۔ نئی دہلی کو اعتراض روس پاکستان قربت پرنہیں بلکہ اصل تکلیف دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی میدان میں اشتراک عمل ہے۔ ماسکو کی جانب سے اسلام آباد کو ایم آئی35 لڑاکا ہیلی کاپٹروں کی فراہمی کی خبروں کے بعد نئی دہلی میں مودی سرکار سخت بے چین ہے۔ حالیہ کچھ دنوں سے بھارتی میڈیا نے بھی پاکستان سے قربت کی پاداش میں روس کے خوب لتے لیے ہیں اور ماضی کی تلخ یادوں کو دہرانے کی ’’بے مقصد‘‘ مشق خوب کی گئی۔

اس کے باجود ماسکو نے بھارتی پروپیگنڈے کا کوئی جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ بھارتی اخبار ’’دی ہندو‘‘ کے مطابق روس کی جانب سے پاکستان کو سامان حرب وضرب کی فروخت کے بعد نئی دہلی کے پاس دوسرے ممالک سے دفاعی تعاون بڑھانے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔ بھارت میں نریندر مودی کی قیادت میں نئی حکومت نے امریکا اور یورپی ملکوں کے ساتھ دفاعی تعاون کے بڑے سمجھوتوں میں دلچسپی لینا شروع کردی ہے۔ اس دلچسپی کا پس منظردراصل پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں تعاون بتایا جا رہا ہے۔

روس میں اردو میں نشریات پیش کرنے والے ’’صدائے روس‘‘ ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق ماسکو کی پاکستان کو جنگی ہیلی کاپٹروں کی فروخت میں دلچسپی پر بھارت نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ روس میں متعین بھارتی سفیر  نے دونوں ملکوں کے درمیان کسی بھی دفاعی سودے بازی کو روکنے کے لیے اپنی سرگرمیاں بھی تیز کردی ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارتی سفیر ماسکو حکام کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ اس کا فراہم کردہ اسلحہ پاکستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے بجائے بھارت کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ اس لیے ماسکو ایسی کسی بھی سودے بازی سے باز رہے۔

روس پردباؤ ڈالنے کے لیے بھارتی سفیرکا مزید کہنا ہے کہ اگر ماسکو نے پاکستان کو جنگی ہیلی کاپٹر فراہم کردیے تو اس سے خطے میں اسلحہ کے حصول کی ایک نئی دوڑ شروع ہوجائے گی۔ ریڈیو کے ذرائع کا کہنا ہے کہ روس نے ابھی تک بھارتی دباؤ قبول نہیں کیا اور بھارت کو صاف جواب دے دیا ہے۔ ماسکو نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ وہ پاکستان کو توانائی، دفاع اور معاشی شعبے میں مدد فراہم کرنے کا پہلے ہی منصوبہ بنا چکا ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری کے دور میں  روس نے پاکستان کو گڈو بیراج سمیت پن بجلی کے کئی منصوبوں میں تکنیکی اور مالی معاونت کی پیش کش کی تھی تاہم سابقہ حکومت کی نااہلی کے نتیجے میں روس کی پیش کش سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس ضمن میں اہم قدم اٹھایا ہے۔ پاکستانی وزیردفاع اور وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی خواجہ آصف نے اپنے حالیہ دورہ  ماسکو کے دوران پاکستان کو توانائی کے شعبے میں ماسکو کے تعاون کی درخواست کی ہے اور روس نے یہ درخواست قبول کرتے ہوئے ہرممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔

بھارت پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے ہردور میں اپنی بساط سے بڑھ کر اپنا دفاعی محاذ مضبوط کرنے کی سعی میں مگن رہا ہے۔ پاکستان سے روایتی مخاصمت بھارت کو کبھی بھی چین سے نہیں بیٹھنے دے گی۔ کیونکہ نئی دہلی کا ماضی خود اس کا گواہ ہے۔ اب توحالات بھی مختلف ہیں اور بھارت میں مودی جیسے انتہا پسندوں کی حکومت ہے۔ پاکستان مخالفت کی بنیاد پر انتخابات جیتنے والے نریندر مودی سے آخر کس خیر کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایسے میں پاکستان اور روس کے درمیان دفاعی میدان میں قربت نہایت خوش آئند اقدام ہے۔

اگر پاکستان چین کی طرح روس کو بھی اپنا ہمنوا بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے تو خطے میں بھارت کی بالادستی پر کاری ضرب لگائی جا سکتی ہے۔ اس وقت بھارت خطے میں اپنی تھانیداری کی بقاء کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس جنگ میں بھارت کے لیے چین اور روس کو ساتھ لے کرچلنا مجبوری ہے لیکن موجودہ عالمی حالات میں روس کے لیے پاکستان کو نظرانداز کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔

ارب پتیوں کے عالی شان محلات

$
0
0

اکیسویں صدی کو دنیا کے ارب اور کھرب پتیوں کی صدی کہا جاتا ہے۔ پچھلے ایک سو سال میں سامنے آنے والے امراء اور دولت مندوں کے بارے میں ماضی میں بھی ذرائع ابلاغ میں تذکرے ہوتے رہے ہیں لیکن وقت گزرنے کے ساتھ چونکہ کھرب پتیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔

اسی لیے عالمی میڈیا کی توجہ بھی ان کے نت نئے زندگی کے ڈھنگ اور مسلسل بدلتے لائف سٹائل پر مرکوز رہنے لگی ہے۔ امراء زمانہ قدیم سے عامۃ الناس سے منفرد طرز زندگی اپناتے رہے ہیں، لیکن قدیم دور میں دولت کے ارتکاز میں عوام الناس نہیں بلکہ صرف ملکوں کے بادشاہ یا ان کے نورتن ہو ا کرتے تھے۔ بادشاہوں کے ٹھاٹھ باٹھ کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہیں۔ مثلاً ایران کی قدیم سلطنت کو دنیا کی امیر ترین اور کیسرائے ایران کو امراء میں اولین مقام حاصل رہا ہے۔ بادشاہوں کے محلات کی تیاری میں سونے،چاندی اور گراں قیمت ہیرے اور جواہرات جڑے جاتے اور محل کی ایک ایک اینٹ کی قیمت باقی ماندہ آبادی کے کل وسائل سے زیادہ قیمتی ہوتی تھی۔

دُنیا میں جیسے جیسے بادشاہی نظام اور انسانوں کی انسانوں پرحکمرانی ختم ہوئی تو دولت عام لوگوں تک بھی پہنچنے لگی۔ ایک رپورٹ کے مطابق عوام میں ارب پتی تو اب پیدا ہونے لگے ہیں لیکن کروڑ پتی ہر دور میں رہے ہیں۔ یہ وہ طبقہ امراء ہوتا تھا جو بادشاہ تو نہیں لیکن ان کے خواص پر مشتمل ہوتا تھا۔

بادشاہ انہیں اپنی خصوصی نوازشات سے نوازتے، جنگوں میں حاصل کردہ مال غنیمت ، غلام اور لونڈیاں انہیں تحفے میں پیش کی جاتیں۔ صنعتی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایجادات نے جدی پشتی امراء کے بجائے’’سیلف میڈ‘‘ امراء کو آگے آنے کا موقع دیا۔ چنانچہ دور جدید کے امراء میں سلطنتوں کے حکمراں تو کم دولت مند ہیں لیکن ’’سیلف میڈ‘‘ امراء زیادہ تعداد میں ہیں۔حقیقی معنوں میں امیر وہی ہے جو اپنی محنت کے بل بوتے پر کوئی بلند مقام حاصل کرے، سیاست دانوں اور حکمرانوں کے پاس دولت ہوسکتی ہے مگر اس میں ان کی ہاتھ کی کمائی کا نہیں بلکہ ہاتھ کی صفائی کا زیادہ دخل ہوتا ہے۔

امریکی جریدہ’’فوربز‘‘ ہرسال دنیا کے 10 اور 100 امراء کی فہرست جاری کرتا ہے، ہر بار ان کی دولت کے اعدادو شمار بیان کیے جاتے ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ دنیا کے کون سے ارب پتی نے ایک سال میں کتنی دولت کمائی اور کتنی خرچ کی؟۔ سنہ2014ء کی رپورٹ میں جریدے نے ارب پتیوں کی کل تعداد 1645ء بتائی ہے۔ ان ڈیڑھ ہزار ارب پتیوں میں دو تہائی امراء ایسے ہیں جو اپنی محنت شاقہ سئے دولت کے اس مقام تک پہنچے ہیں۔

ان میں سے بیشتر کی ابتدائی زندگیوں پر نظر ڈالی جائے تو وہ دنیا بھر کے فقیر ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قسمت کی دیوی ان پر کچھ ایسی مہربان ہوئی کہ اب لوگ ان سے چند سیکنڈز کی ملاقات کی خواہش بھی پوری نہیں کر پاتے ہیں۔حیران کن بات یہ ہے کہ ان دو تہائی خود ساختہ ارب پتی لوگوں میں 172 خواتین بھی شامل ہیں۔ایسے امراء جنہیں دولت وراثت میں ملی ان کی تعداد انگلیوں پرگنی جاسکتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ موروثی دولت مند وقت کے ساتھ کم ہوتے جبکہ اپنی مدد آپ کے تحت دو لت و امارت کا مقام بنانے والوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اگلے پچاس سال میں مورثی امراء قصہ پارینہ ہوجائیں اور ان کی جگہ ’’سیلف میڈ‘‘ امراء لے لیں۔

جریدہ فوربز کی ایک تازہ رپورٹ میں دنیا کے امراء کے نشہ دولت کے بارے میں تھوڑا مختلف زاویے سے ایک رپورٹ بھی شائع کی ہے۔ اس رپورٹ میں دنیا کے درجہ اول کے 10 امراء کی جنت نظیر رہائش گاہوں کی تفصیلات دی گئی ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ نے فوربز کی رپورٹ پر روشنی ڈالی ہے اور بتایا ہے کہ ہر ارب اور کھرب پتی کے پاس ویسے تودنیا کے مختلف ملکوں میں جا بہ بجا جائیدادیں پھیلی ہوئی ہیں لیکن بات صرف کاروباری وسعت تک محدود نہیں بلکہ ان کی جنت نظیر قیام گاہوں کی ہے جن پر خرچ ہونے والی دولت سے لاکھوں خاندانوں کے لیے پوش علاقوں میں متوسط درجے کے مکانات تعمیر کیے جاسکتے ہیں، ہزاروں اسکول، اسپتال او لاکھوں فلاحی ادارے قائم کیے جاسکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق چند درجن امراء کے پاس دنیا کے مختلف ملکوں میں کم سے کم 25 ہزار رہائش گاہیں موجود ہیں، جنہیں وہ تعیش کے لیے وقتا فوقتا استعمال کرتے ہیں۔

ان میں سے درجہ اول کے دس امراء کی صرف 10 لکژری کوٹھیوں کی قیمت جمع کی جائے تو اس سے 23 ہزار بہترین اور جدید سہولیات سے آراستہ فرنشڈ مکان تعمیر کیے جاسکتے ہیں۔ان میں ہر مکان معمولی نہیں بککہ اس میں دو ڈائنگ ہال اور تین بیڈ روم، واش روم ، کھلا ڈلا کچن اور صحن شامل ہوں۔ ان تئیس ہزار مکانات میں اگر فی کس پانچ افراد کا کنبہ رکھا جائے تو دس امراء کی کوٹھیوں سے 01 لاکھ 15 ہزار افراد کا ایک شہر آباد کیا جا سکتا ہے۔ اتنا سا مکان دنیا کے مہنگے ترین شہروں میں بھی ایک لاکھ 40 ہزار ڈالر تک بہ آسانی دستیاب ہوسکتا ہے۔

ارب پتیوں کے عالی شان محلات کی قیمت کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارت کے ارب پتی موکیش انبانی کابمبئی میں محل ایک ارب ڈالر سے زیادہ قیمتی بتایا جاتا ہے۔ یہ موکیش کا واحد محل نہیں بلکہ بھارت کے بارہ بڑے شہروں میں اس کی پر تعیش رہائش گاہیں موجود ہیں جن کی مجموعی مالیت کروڑوں ڈالر سے زیادہ ہے۔ فوربز جریدے نے موکیش امبانی کو 2014ء کا بھارت کا امیر ترین شخص قرار دیا ہے، جس پر بہت سے دوسرے امراء کو اعتراض بھی ہوا۔ تاہم ہمارے نزدیک فی الوقت یہ موضوع محل نظر نہیں۔ موکیش کی موجود دولت 23 ارب 900 ملین ڈلر سے زیادہ ہے۔

بمبئی میں اس کا عالی شان محل ایک لاکھ 20 ہزار مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہ دنیا کے کسی بھی دولت مند کے محل سے قیمت اور حجم میں بڑا ہے۔ اس محل نما پلازے کی 27 منزلیں ہیں، جس میں دنیا کی تمام پرتعیش سہولتیں دستیاب ہیں۔ اگر محل کی قیمت سے اوسطا پانچ افراد کے لیے ایک مکان بنایا جائے تو صرف اس ایک کوٹھی سے 5000 مکانات بنائے جاسکتے ہیں، جن سے پچیس ہزار افراد کو مکان کی چھت مل سکتی ہے۔یوں موکیش اپنی ایک کوٹھی کی قربانی دے کر نئی دہلی کی سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر شب بسر کرنے والے پچیس ہزار افراد کو مکان کی چھت فراہم کرسکتے ہیں۔اسی رقم کو اگراسپتالوں کے قیام پر صرف کیا جائے تو500 بڑے اسپتال بنائے جاسکتے ہیں۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کی رپورٹ کے مطابق دوسرے نمبر پر امراء میں گراں قیمت محل کی مالکہ برازیلی لیلیٰ صفریٰ ہیں۔ ان کا فرانس کے شہر موناکو میں ایک عالی شان محل موجود ہے۔ لیلیٰ لبنانی نژاد ادمون صفریٰ کی بیوہ ہے۔ ادمون چند سال قبل پراسرار طورپر انتقال کرگیا تھا۔ لیلیٰ کی موجودہ دولت ایک ارب 500 ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔ فرانس میں اس کا محل’’لیو بولڈا‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس نے دنیا کی جدید ترین سہولتوں سے مرصع اس محل کو چار سال قبل 780 ملین ڈالر میں خرید کیا۔ اس محل کی مساوی قیمت سے پسماندہ ملکوں میں50بڑے اسپتال قائم کیے جاسکتے ہیں، جن میں ایک اسپتال میں روزانہ پانچ سو مریضوں کا جدیدسہولیات کے مطابق علاج ممکن ہے۔ فرانس کے علاوہ لیلیٰ کی لبنان، اٹلی، سویڈن اور لندن میں بھی لگژری رہائش گاہیں موجود ہیں۔

ارب پتی امریکی آئیرا لیون نیرٹ کا نیویارک میں قائم محل تیسری مہنگی ترین عمارت ہے جس کی مالیت دو کروڑ48لاکھ 5000 ڈالر سے زیادہ بیان کی جاتی ہے۔ آئیرا لیون کی اپنی دولت چھ ارب ڈالر ہے اور وہ دنیا میں دوسرے امیر ترین شخص مانے جاتے ہیں۔ کوئی دو ہفتے پیشتر لندن میں ’’نائیسٹ بریج‘‘ کے مقام پر ایک نامعلوم ارب پتی نے 237 ملین ڈالر کی رقم سے ایک عالی شان محل خرید ا ہے۔ تاہم ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ آیا اس کا نیا مالک کو ن بنا ہے۔یوں یہ کسی بھی ارب پتی کی چوتھی مہنگی ترین عمارت سمجھی جاتی ہے۔ نائیسٹ بریج برطانیہ میں امراء کی رہائش گاہوں کے حوالے سے مشہور ہے، جہاں کئی ارب پتیوں کے محلات بھی موجود ہیں۔

بھارتی ارب پتیوں میں لکشمی متل کا نام بھی دنیا کے بڑے دولت مندوں میں شامل ہے۔ لکشمی متل کی کل دولت 16 ارب 600 ملین ڈالر ہے۔ بھارت کے شہر دہلی، بنارس، بمبئی، کلکتہ اور مہاراشٹر سمیت کئی دوسرے شہروں میں اس کے درجنوں گراں قیمت محلات ہیں لیکن جس محل کا یہاں تذکرہ کیا جا رہا ہے وہ بھارت کے کسی شہر میں نہیں بلکہ برطانیہ کے شہرلندن میں واقع ہے۔’’نائیسٹ بریج‘‘ میں موجود لکشمی متل کی رہائش گاہ کی مالیت 222 ملین ڈالر ہے۔ اسی مقام پرکچھ عرصہ قبل ایک یوکرائنی خاتون ارب پتی رینا اخمیتوف نے 221 ملین ڈالر کی لاگت سے ایک بلند وبالا عمارت خریدی۔ ارب پتیوں کی مہنگی رہائش گاہوں میں بھارت کے لکشمی متل کو پانچواں اور رینا اخمیتوف کا چھٹا نمبر ہے۔ رینا کی اپنی کل دولت 11 ارب 800 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔

امریکی ارب پتی’’ لاری السن‘‘ کی کل دولت51ارب 400 ملین ڈالر ہے۔امریکی ہونے کے باوجود اس نے برطانیہ، فرانس، اٹلی، برازیل،سویڈن اور کئی دوسرے ملکوں میں سیکڑوں رہائش گاہیں بنا رکھی ہیں۔ ان میں مہنگی ترین رہائش گاہ لندن کے پوش علاقے ’’کنگسٹن‘‘ میں ہے۔ اس محل کی قیمت 200 ملین ڈالر بتائی جاتی ہے۔اس کے بعد روسی ارب پتی’’رومان ابراموفوٹیچ‘‘ کے پاس اپنی کمائی کے 09 ارب 400 ملین ڈالر ہیں۔ رومان نے بھی تین سال قبل لندن میں کنگسٹن کے مقام پر140 ملین ڈالر مالیت سے ایک گراں قیمت کوٹھی خرید کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ رومان نے کوٹھی خریدنے کے بعد تین برسوں کے دوران اس میں صرف چند ہفتے ہی گزارے ہیں۔ اس کے روس ، یورپی اور کئی عرب ملکوں میں بھی گراں قیمت محلات موجود ہیں۔

عالمی ارب پتیوں کی مہنگی رہائش گاہوں میں ہنس مکھ امریکی ارب پتی کین گریفین کے ریاست فلوریڈا میں’’بالم بیٹچ‘‘ کے مقام پر محل کا نواں نمبر ہے۔گریفین کی کل دولت پانچ ارب 200 ملین ڈالر ہے، جس میں اس کے محل کی 130 ملین ڈالر کی قیمت بھی شامل ہے۔

بل گیٹس کی شان امارت میں درویشی

دنیا کے امیر ترین شخص بل گیٹس کا الگ سے تذکرہ اس لیے ضروری ہے کہ وہ دنیا کے دیگر امراء کے برعکس رہائش اور اپنی ذات پر بہت کم خرچ کرنے والا ارب پتی واقع ہوا ہے۔ فوربز میگزین کے مطابق2014ء میں مائیکروسوفٹ کے بانی بل گیٹس کی کل دولت 77 ارب50 کروڑ ڈالر ہے، لیکن اس نے اپنی رہائش گاہ پر کل دولت کا صرف ایک فی صد خرچ کیا ہے، اس کے باوجود بل گیٹس کے امریکا میں ایک محل کی قیمت 77 ملین 500 ڈالر ہے۔

مضمون کے شروع میں موروثی اور سیلف میڈ امراء کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ بھارتی اخبار’’دی ہندو‘‘ میں سیلف میڈ اور موروثی صاحب ثروت لوگوں کے مزاج ، رویوں اور دولت کے صرف کیے جانے سے متعلق ایک تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق موروثی مالدار لوگ سیلف میڈ امراء سے زیادہ کنجوس واقع ہوتے ہیں۔ اس امرکا اندازہ اس رپورٹ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ بھارت کے مکیش امبانی، لکشمی متل اور لبنانی نژاد بیوہ لیلیٰ صفریٰ موروثی دولت مند ہیں۔ انہوں نے اپنی کوٹھیوں اور محلات پر کروڑوں ڈالر خرچ کر رکھے ہیں، ان کے مقابلے میں دنیا کے امیر ترین بل گیٹس جیسے سیلف میڈ امراء ہیں، جو اپنی کل آمدنی کا محض ایک فی صد اپنی رہائشی ضروریات پر صرف کرتے ہیں۔ موروثی امراء میں خیرات کا جذبہ نہ ہونے کے برابر جبکہ سیلف میڈ خدمت خلق کے جذبے سے سرشار ہوتے ہیں۔

نرگس فخری کی کہانی

$
0
0

حالیہ چند سالوں میں مغرب سے آئی ہوئی ایک خوب رو دراز قد حسینہ نے ممبئی کی فلمی صنعت اور ہندوستانی شائقین فلم کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ 

یہ 34 سالہ پاکستانی نژاد امریکی ماڈل اور اداکارہ نرگس فخری ہے۔ مغرب میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے والی ویسٹرن انداز کی اس لڑکی میں مشرقی حسن بھی نمایاں نظر آتا ہے۔ نرگس کے والد پاکستانی ہیں، جب کہ اس کی ماں کا تعلق سابق ریاست چیکوسلواکیہ سے ہے۔ اس طرح یقینی طور پر نرگس کو خوب صورتی اپنی ماں کی طرف سے بھی ورثے میں ملی ہے۔ تراشے ہوئے ہونٹ، گھنے دراز گیسوں، سیاہی مائل بڑی آنکھیں اور5 فٹ 9انچ قد رکھنے والی گلیمر گرل نرگس جسمانی فٹنس میں بھی سب سے آگے نظر آتی ہے۔

2004ء سے امریکا میں اپنے فنّی سفر کا آغاز کرنے والی نرگس فخری کی قسمت کا ستارہ ہندوستان میں آکر چمکا، جب وہاں اس کی پہلی ہی فلم کام یابی سے ہم کنا ر ہوئی۔ نرگس کی حال ہی میں نئی فلم ’’میں تیرا ہیرو‘‘ ریلیز ہوئی ہے۔ وہ 20 اکتوبر 1979 ء کو نیویارک کے علاقے ’’کوئنز‘‘ میں پیدا ہوئی تھی۔ نرگس او ر اس کی بہن علییہ نے اپنی زندگی کے ابتدائی سالوں میں برے حالات کا سامنا کیا اور بچپن ہی سے کئی بدقسمتیوں کو جھیلا ہے۔ نرگس ابھی چھے یا سات سا ل کی ہی ہوئی تھی کہ اس کے دو مختلف تہذیب و ثقافت رکھنے والے والدین محمد فخری اور میری فخری کے درمیان اختلافات کے باعث علیحدگی ہوگئی، جس نے اس کے ننھے ذہن پر گہرے اور دُوررس اثرات چھوڑے۔ جب نرگس نے باہر کی دنیا میں قدم رکھا تو وہ الگ تھلگ رہتی اور لوگوں سے بہت کم گھلتی ملتی۔

اس نے 15 سال کی عمر میں اپنی عملی زندگی کی شروعات ایک آرٹس، کرافٹس اور سرامکس کی ٹیچر کے طور پر کی۔ یہ اسکولوں کی گرمیوں کی چھٹیوں کے ’’سمر کیمپ‘‘ کا موقع تھا جب اس نے چھوٹے بچوں کو تعلیم دینا شروع کی اور ان کے ساتھ وقت گزارا۔ یہ سلسلہ چار سال تک جاری رہا۔ نرگس نے اپنے کالج کے آخری سال کی پڑھائی کے دوران ایک انٹرن شپ حاصل کرلی جوکہ ٹیچنگ سے متعلق تھی۔ اس نے سائیکالوجی اور فائن آرٹس میں ڈگری حاصل کی۔ اسی دوران نرگس نے جانا کہ وہ تو ٹیچنگ کے لیے بالکل تیار نہ تھی۔

چناں چہ اس تجربے نے اسے سوچنے پر مجبور کردیا کہ وہ بچوں کو کیسے تعلیم دے؟ اس مقام پر نرگس نے فیصلہ کرلیا کہ وہ تمام تعلیمی مواد اپنے طور پر تیار کرے گی۔ وہ تمام سامان اپنے بیگوں میں پیک کرتی اور اپنے فریضے کی انجام دہی کے لیے نکل جاتی۔ بعدازاں جب نرگس نے ماڈلنگ شروع کی تو فیشن کی دنیا نے اسے خوش آمدید کہا، تب اس نے محسوس کیا کہ وہ اب آزاد ہوگئی ہے۔ ماڈلنگ کے شعبے میں آتے ہی اسے دنیا گھومنے کے مواقع بھی میسر آگئے اور مہینوں کے اندر ہی اسے کئی شہروں میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ اپنے اس سفر میں نرگس کو مختلف ثقافتوں کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ وہ نئی زبانوں سے روشناس ہوئی اور اس نے دریافت کرلیا کہ کیسے اپنی زندگی کو بنایا جاسکتا ہے۔

نرگس نے باقاعدہ ماڈلنگ 2005 ء میں شروع کی تھی۔ اس سے پہلے 2004ء میں اسے امریکا کے مشہور ومعروف فیشن شو” “America’s Next Top Model میں متعارف کروایا گیا تھا۔ یہ سائیکلز 2 اور سائیکلز 3 سلسلے کے لیے تھا۔ 2009 ء میں نرگس کو ’’کنگ فشر‘‘ کے تیراکی والے لباس کے کلینڈر کی زینت بنایا گیا ہے۔ اس نے اپنی 10 سالہ ماڈلنگ کیریر میں ڈیزائن و ڈیزائنرز، صحت اور فٹنس کو فروغ دینے میں اپنا کردار ادا کیا ہے جب کہ پچھلے سال اس کی ماڈلنگ پر مشہور برانڈ کی جیولری اور ملبوسات تیار کرنے والی کمپنیوں کو متعدد ایوارڈز ملے ہیں۔

فلم کے پردے تک رسائی کے لیے نرگس ڈائریکٹر امتیاز علی کو کریڈٹ دیتی ہے، جنہوں نے اسے دریافت کیا۔ ان کی فلم کے لیے پہلی آفر اس کے لیے بالکل غیر متوقع اور حیرت انگیز تھی۔ اس نے فوراً ہامی بھرلی۔ اس کی پہلی فلم 11 نومبر 2011 ء میں ریلیز ہوئی اور بہت ہی مختصر عرصے میں نرگس نے ممبئی کی فلمی نگری میں قدم جمالیے ہیں۔ ابھی اس کے فلمی کیریر کا آغاز ہی تھا جب وہ فلم ’’راک اسٹار‘‘ میں جلوہ گر ہوئی۔ یہ رومانوی میوزیکل ڈراما اپنے سیزن کی ہٹ فلم ثابت ہوئی، جس نے راتوں رات نرگس کو بھی سپراسٹار بنادیا۔ ہدایت کار امتیاز علی کی اس فلم میں نرگس نے ’’ہیر کول‘‘ کا مرکزی رول ادا کیا ہے۔

وہ جارڈن (رنبیر کپور) کی محبت کے سحر میں گرفتار ہوتی ہے۔ رنبیر کپور اور نرگس کے تعلقات فلم کے پردے کے پیچھے حقیقی زندگی میں بھی پروان چڑھے، مگر شادی تک نہ پہنچ پائے۔ نرگس ’’راک اسٹار‘‘ کی ریلیز کے ساتھ ہی بین الاقوامی فن کارہ بن چکی ہے۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی متاثرکن پرفارمینس پر کئی ایوارڈز کے لیے نام زدگیاں حاصل کیں، جن میں ’’فلم فئیر‘‘ ایوارڈ بھی شامل ہے، جب کہ اسے تیرہویں آئیفا (IIFA) ایوارڈ کی کٹیگری میں رنبیر کے ساتھ ’’ بہترین جوڑی ‘‘ کے ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔

نرگس نے حال ہی میں ہاری اُوم پروڈکشنز کی تین فلمیں سائن کی تھیں، جن میں 2012 ء کی فلم ’’کھلاڑی 786 ‘‘ بھی شامل ہے، جس میں اسے اکشے کمار کے مقابل کاسٹ کیا گیا تھا، لیکن بعد میں ڈراپ کرکے اِیسن کو فلم میں جگہ دی گئی۔ پچھلے سال اس کی فلم ’’مدراس کیفے‘‘ ریلیز ہوچکی ہے، جس میں نرگس نے ایک جنگی نامہ نگار خاتون صحافی جیا سہنی کا کردار اداکیا ہے۔ یہ فلم سیاسی اور کسی حد تک جاسوسی تھرلر ہے۔ اس کی اگلی فلم ’’شوقین‘‘ ہے، جو ایک کامیڈی فیچر ہے جس کے لیے نرگس کو بڑا تجّسس ہے کہ ناظرین اسے نئی ورائٹی والے رول میں کیسا پائیں گے اور شائقین اسے کس طرح دیکھتے اور پسند کرتے ہیں؟ اس کی ایک اور فلم ’’پھٹا پوسٹر نکلا ہیرو‘‘ ریلیز ہوچکی ہے، جس میں وہ ایک آئٹم نمبر گیت ’’ ڈھاٹنگ ناچ ‘‘ میں جلوہ افروز ہوئی اور شائقین سے داد وصول کی۔

نرگس کی حال ہی میں ڈیوڈ دھون کی فلم ’’میں تیرا ہیرو‘‘ 4 اپریل 2014 ء میں ریلیز کی گئی ہے۔ اس رومانوی ایکشن کامیڈی فلم میں نرگس نے ’’عائشہ‘‘ نامی لڑکی کا رول کیا ہے، جو کہ سیِنو (وارن دھون) کے عشق میں مبتلا ہوجاتی ہے۔نرگس کی پہلی ہالی وڈ فلم ’’اسپائی‘‘ کے نام سے زیرتکمیل ہے، جس کی ریلیز 2015 ء میں متوقع ہے۔متوازن نشیب و فراز رکھنے والے سراپے کی مالک نرگس کی جسمانی خوب صورتی کا راز اس کی صحت اور فٹنس میں بھر پور دل چسپی ہے۔ وہ جسمانی صحت کی فٹنس ٹرینر بھی ہے۔

اسے اگست 2013 ء میں گلوبل پریمیم کے فٹنس برانڈ رِی بَک (Reebok) نے خواتین کے لیے اپنا فٹنس کا سفیر مقرر کیا ہے۔ یہ اعزاز اس کی انڈیا میں خواتین کے لیے جسمانی صحت اور فٹنس میں نمایاں دل چسپی لینے اور فرائض کی ادائیگی کے صلے میں دیا گیا ہے۔ خواتین کی اس کٹیگری میں ڈانس، اِیروبکس اور یوگا پر فوکس کیا جاتاہے، جوکہ خواتین کنزیومرز کے لیے رکھا گیا ہے۔

نرگس نے 2012 ء میں ممبئی میں اپنا گھر بنایا۔ اس کا خیال ہے کہ گھر وہاں ہونا چاہیے جہاں آپ کا دل لگے۔ وہ اپنے کام کے سلسلے میں کوپن ہیگن اور ممبئی کے درمیان متواتر سفر کرتی رہتی ہے۔ اس طرح اس کے دو گھر ہیں۔ نرگس ممبئی کی بے ہنگم ٹریفک سے بہت نالاں رہتی ہے۔ وہ جب یہاں پہلی بار آئی تھی تو اسے ایک بالکل نئی زبان اور کلچرکا سامنا کرنا پڑا اور اسے بنیادی باتیں سمجھنے میں ایک ماہ کا عرصہ لگا۔

’’راک اسٹار‘‘ کے بعد اس نے باقاعدگی سے ہندی کی کلاسیں لیں، تاکہ اپنی کمی کو کسی حد تک پورا کیا جاسکے اور خود کو مقامی فلمی صنعت سے آگاہی اور انڈین معاشرے سے ہم آہنگ ہونے کے لئے تیار کیا۔ وہ مثبت تنقید پر یقین رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ تنقید آپ کو زک پہنچاتی ہے مگر میں بہت کھلے دل و دماغ کی ہوں۔ لوگوں کی اکثریت اس بات کو نہیں جانتی کہ میں ہندی سنیما کے بارے میں بالکل نہیں جانتی تھی، کیوںکہ میں اس وقت ایک نابینا کی طرح تھی اور یہ سفر میرے لیے نہایت دل چسپی کا حامل تھا، لیکن اب میں پہلے سے بہت بہتر ہوں۔

نرگس ایک خوش رہنے والی لڑکی ہے جوکہ اپنے کام اور پیشے سے لطف اندوز ہوتی ہے۔ اس کے باوجود وہ کہتی ہے کہ میں بورنگ زندگی گزار رہی ہوں جس کا مطلب یہی ہے کہ وہ بہت کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور کچھ نیا کرنے کی فکر میں ہے۔ پچھلے سال نرگس نے دیپالی دھنگرا کو ایک غیر رسمی ٹیلی فونک انٹرویو دیا تھا، جس میں اس نے اس بات کا انکشاف کیا،’’لوگ ابھی تک نہیں جانتے کہ میں بہت فنی قسم کی لڑکی ہوں۔‘‘

جسمانی فٹنس کی یہ آئی کون گلیمر گرل روایتی پاکستانی یا انڈین لڑکیوں کی طرح لال بیگوں سے خوف زدہ ہوجاتی ہے۔ اسے کھانوں سے محبت ہے اور جب وہ گھر پر ہوتی ہے تو خود کھا نا پکاتی ہے۔ نرگس کو انڈین کھانوں کے علاوہ جاپانی کھانے پسند ہیں۔ جب اس سے پوچھا گیا کہ اس کا ہم سفر کیسا ہونا چاہیے؟ تو جواب میں اس نے کہا کہ اسے اچھی حس ِمزاح رکھنے والا، ذہانت کا حامل اور سیاحت کا جنونی ہونا چاہیے۔

ابو نے ہمیں بیٹے بنا کر رکھا، موٹر سائیکل بھی چلانا سکھائی

$
0
0

بانسوں پر استوار ایک چھوٹا سا سائبان بطور جائے پناہ۔۔۔ اور اس سے ملحقہ نیم کھلی اراضی میں کچھ مویشی۔۔۔ چھے، سات بھینسوں اور گایوں کے علاوہ کچھ بکریاں اور بھیڑ بھی اس چھوٹے سے ریوڑ میں شامل۔۔۔ ماحول کا گہرا سکون اس بات کا غماز کہ یہ علاقہ شہر سے پرے۔۔۔ کسی بکری کی منمناہٹ اور کبھی کسی مرغے کی بانگ اس خاموشی کو راہ فرار دکھاتی۔۔۔۔ کچھ ٹہلتی ہوئی بطخیں بھی اپنی بولیوں سے اس سکوت کو فنا کرتیں۔۔۔ کبھی کسی کتے کی آواز بھی اس سہفتے میں گونج کے رہ جاتی۔۔۔

یہ منظر ابراہیم حیدری اور کورنگی کے درمیانی علاقے میں موجود اس جگہ کا ہے، جس کی رکھوالی تین بہنیں شمع، ثمرین اور شہزادی کرتی ہیں۔ تینوں اپنے ماں، باپ کی سب سے بڑی اولاد۔ والدین نے انہیں شروع سے بیٹوں کی طرح رکھا، تو انہوں نے بھی حقیقتاً بیٹے بن کے دکھایا۔ سات بہن بھائیوں میں، ان تین بہنوں کے بعد ایک بھائی شہزادہ ہے، جس کے بعد دو بہنیں اور ایک بھائی ہے۔

شہزادہ ابھی بہت چھوٹا تھا، اس لیے تینوں بہنیں اپنے آبائی پیشے میں والد کا ہاتھ بٹانے لگیں۔۔۔ ان کا تعلق راجھستان (ہندوستان) کی راجپوت چوہان برادری سے ہے، جو کافی بڑی تعداد میں اس شعبے سے منسلک ہے۔ شمع، ثمرین اور شہزادی کے بچپن میں ان کے ہاں تیس، چالیس بھینسیں تھیں۔ باڑہ بھی ان کے گھر کے قریب محمود آباد میں ہی تھا۔ روزانہ لگ بھگ  ڈھائی من کے قریب دودھ نکلتا۔ قرب وجوار کے گھروں میں دودھ پہنچانے کے لیے  بھی تینوں بہنیں اپنے باپ کا بازو بنتیں۔ اسی لیے ان کے والد نے ثمرین اور شہزادی کو موٹر سائیکل چلانا بھی سکھائی۔ دودھ فروخت کرنے کے لیے اپنے ٹھیے پر بھی یہ والد کے ساتھ ہوتیں۔

ان کی آزمائش آٹھ سال قبل جب شروع ہوئی، جب ضلعی حکومت نے آبادیوں میں باڑوں کی ممانعت کی، جس کی بنا پر انہیں محمود آباد سے نکل کر ابراہیم حیدری کے نزدیکی بے آب وگیاہ ویرانے میں آنا پڑا۔ شہر کی آبادی سے پرے یہ علاقہ شمع اور ان کی بہنوں کے لیے کسی کڑے امتحان سے کم نہ تھا۔ اپنے محلے میں اور کسی اجنبی علاقے میں جا کر کام کرنے میں زمین، آسمان کا فرق تھا۔ ایک طرف آبادی سے دور کا علاقہ، اور پھر یہاں مویشیوں کی دیکھ بھال کے لیے ہمہ وقت کسی نہ کسی کی موجودگی بھی ناگزیر۔۔۔! لیکن تینوں بہنوں نے جواں مردی کا مظاہرہ کیا، اور یہاں بھی پہلے کی طرح اپنی تمام ذمے داریوں کو بہ خوبی نبھایا۔

یہ کام محدود اوقات کار اور چھٹی کی قید سے آزاد ہے۔ تینوں میں سے کسی نہ کسی بہن کا باڑے میں ہونا لازم ہے۔ اگر کسی خوشی، غمی میں شریک ہونا پڑے، تب بھی ایک یہاں ٹھہرتی ہے اور باقی لوگ چلے جاتے ہیں۔ 24 گھنٹوں میں تینوں نے اپنے اپنے اوقات کار تقسیم کر رکھے ہیں۔ پرامن اور بے امن حالات سے بے نیاز انہیں ہر صورت میں یہاں آنا ہوتا ہے۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد جب حالات خراب ہوئے، تو انہیں گھر سے باڑے تک پیدل آنا، جانا پڑا۔

باڑے کی گھر سے دور منتقلی کے بعد والد کی بیماری ایک اور آزمائش بن کر آئی۔ اب ایک طرف کام کی مکمل ذمہ داری ان پر آن پڑی تو دوسری طرف معاشی تنگی نے بھی مسائل کھڑے کیے۔۔۔ بیمار والد کے علاج معالجے کے لیے انہیں 30 کے قریب بھینسیں فروخت کرنا پڑیں، فقط سات بھینسیں رہ گئیں، جس کی بنا پر ان کا کام بھی سکڑتا چلا گیا اور ان کو اپنے روزانہ کے 35 کے قریب گاہک چھوڑنا پڑے۔ دو سال پہلے طویل علالت کے بعد ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ اب کاروبار کی مکمل ذمہ داریاں تینوں بہنوں کے کندھوں پر آگئی، تاہم اب ان کا چھوٹا بھائی شہزادہ بھی ان کا مددگار ہے، بہنوں کو روزانہ لانا لے جانا اسی کی ذمہ داری ہے، جس کے بارے میں بہنیں کہتی ہیں کہ ’’یہ ہمارا ہر حکم بجا لاتا ہے، ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ پر بھی اف نہیں کرتا۔‘‘

روزانہ 30 کلو کے لگ بھگ دودھ نکلتا ہے، جو محمود آباد میں موجود مستقل گاہکوں کے گھروں میں پہنچاتے ہیں۔ دودھ کی ترسیل کے لیے ان تینوں بہنوں میں سے کوئی ایک بہن شہزادہ کے ساتھ موٹر سائیکل پر گھروں پر دودھ دینے جاتی ہے۔ خالص دودھ بھی  وہ بازار کے بھائو پر ہی فروخت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دودھ کے کام میں دکان داروں کو زیادہ منافع ملتا ہے، کیوں کہ ہمیں بھینسوں کی بیماری اور مر جانے کی صورت میں نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ 15 برسوں میں بھینسیں پانچ سے چھے گنا منہگی ہو چکی ہیں۔

خالص دودھ کی عام دست یابی کے سوال پر انہوں نے بتایا کہ بہت سے دکان دار خالص دودھ فروخت کرتے ہیں اور بہت سے ملاوٹ بھی کرتے ہیں۔ اکثر دکان داروں نے اب مشینیں لگا رکھی ہیں۔ اسٹیل کی گول دیو ہیکل یہ مشینیں 24 گھنٹے چلتی رہتی ہیں، جس سے دودھ کی کریم نکال لی جاتی ہے۔ دوسری طرف لوگوں کو بھی اب خالص دودھ کی پہچان نہیں۔۔۔ دودھ کو جوش دیتے وقت جب وہ پتیلی یا دیگچی کے پیندے میں ’’لگتا‘‘ ہے، تو وہ شکایت کرتے ہیں کہ یہ دودھ تو جل رہا ہے! جب کہ انہیں نہیں پتا کہ یہ خالص دودھ کی نشانی ہے۔

کام کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’’تنگی ضرور ہے، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ ضروریات پوری ہو رہی ہیں، کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلانے پڑ رہے۔‘‘

ایک عورت ہونے کے باوجود انہوں نے اس سمت آنے والی ہر مشکل اور پریشانی کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ والد انہیں پڑھانا چاہتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے شوق اورذمہ داری کے باعث اسی کام کا حصہ بننا قبول کیا۔ خاندان میں کبھی کسی عورت نے اس طرح کام نہیں کیا، اس لیے شروع میں لوگوں نے کافی باتیں بھی بنائیں۔ اب بھی یہ کہتے ہیں کہ ان لڑکیوں نے جانوروں میں اپنی زندگی خراب کی ہوئی ہے، مگر ان کی نظر میں یہ زندگی بہت اچھی ہے کہ وہ اپنے گھر کی کفالت کر رہے ہیں۔۔۔ کسی کے محتاج تو نہیں، بس، ان کے لیے یہی سب سے بڑا اطمینان ہے۔ لوگوں کی لب کشائی کو تو نہیں روکا جا سکتا۔ ہم نے کبھی لوگوں کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ بقول ثمرین کے بغیر کسی چھٹی اور وقفے کے 24 گھنٹے کی ذمہ داری پر محیط یہ شعبہ پہلے ہمارا شوق تھا اور اب مجبوری بن گیا ہے۔

تیسرے نمبر کی بہن شہزادی کہتی ہیں کہ ’’یہ جیسا بھی ہے، ہمارا اپنا کام ہے۔ اگر کہیں ملازمت کر رہے ہوتے، تو ہم دوسروں کے تابع ہوتے، ہماری تو گُھٹّی میں ہی یہ کام پڑا ہوا ہے، اس لیے بہت آسانی سے تمام کام کر لیتے ہیں۔‘‘ دوسری طرف منجھلی بہن ثمرین کا موقف ہے کہ کبھی بہت تھک جائیں یا بیمار ہوں، تو بے زار ہو کر سوچتے ہیں کہ کاش پڑھ لکھ لیتے اور کوئی ملازمت کر رہے ہوتے، تو آج کم سے کم ہمیں کوئی چھٹی تو مل جاتی۔ شمع اور شہزادی پانچویں، جب کہ ثمرین تیسری کلاس تک تعلیم حاصل کر سکیں۔۔۔ بھائی نے آٹھویں جماعت تک تعلیمی مدارج طے کیے۔ معاشی ذمہ داریوں مزید تعلیم کی راہ میں حائل ہوئیں، البتہ اب یہ اپنی دو چھوٹی بہنوں اور بھائی کو پڑھا رہے ہیں۔

زندگی کے کٹھن ترین لمحے کے بارے میں جاننا چاہا، تو انہوں نے بتایا کہ ’’والد کی وفات سے بڑا دکھ اور مشکل اور بھلا کون سی ہو سکتی ہے۔‘‘ تینوں بہنیں اپنے والد سے بہت زیادہ قریب تھیںاور ہر مشکل اور پریشانی بلا جھجھک ان سے کہہ دیتی تھیں۔ پیشے کی کٹھنائیوں کے ذکر پر انہوں نے بتایا کہ خدانخواستہ جب کوئی بھینس مر جاتی ہے، تو انہیں بہت زیادہ دکھ ہوتا ہے۔

ایک بھینس کی قیمت ایک سے ڈیڑھ لاکھ تک ہے، اس لیے یہ قلبی تکلیف کے ساتھ ہمارا ایک بڑا معاشی نقصان بھی ہوتا ہے۔ یہ دکھ کوئی اور نہیں سمجھ سکتا۔ اسی لیے ہم کسی کو کچھ نہیں بتاتے۔۔۔ بس اکیلے ہی بیٹھ کر رو لیتے ہیں! گھر کے معاملات میں بھی والد کے بعد والدہ نے ان تینوں بیٹیوں کو ہی فیصلہ ساز بنایا ہے۔ والدہ گھر پر ہی رہتی ہیں، باہر کے کام بھی بیٹیوںکے ذمے ہیں۔ کاروبار سے لے کر کنبے کے مسائل اور دیگر معاملات میں بھی وہی کوئی قدم اٹھاتی ہیں۔

اپنی امی کو حج کرانا اور چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم مکمل کرانا ان کی بڑی خواہش ہے۔ اس کے علاوہ اگر حالات اچھے ہو جائیں، تو گھر کی ازسرنو تعمیر اور اپنی دودھ کی دکان کرنے کا خواب بھی پورا کریں گی۔

’’کبھی زنانہ کپڑے بھی نہیں پہنے!‘‘

معاشی میدان میں مردوں کی طرح کھڑی ہونے والی تینوں بہنوں نے کبھی زنانہ کپڑے نہیں پہنے۔ شمع، ثمرین اور شہزادی کو شروع سے ہی مردانہ کپڑے پہننے کی عادت ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی وہ مردانہ شلوار قمیص ہی زیب تن کرتی ہیں۔

جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ لڑکیوں اور خواتین کو نت نئے اور انواع اقسام کے کپڑے پہننے کا شوق ہوتا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ انہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ عورتیں ایسے کپڑے کیسے پہن لیتی ہیں، ہم سے تو نہیں پہنے جاتے۔ البتہ ان کی چھوٹی بہنیں زنانہ کپڑے ہی پہنتی ہیں۔

یہ ہمارے بچے ہیں۔۔۔!

’’رانو بالکل اپنی ماں پر گئی ہے۔۔۔ اس کی پیدایش کے ایک دن بعد ہی اس کی ماں مر گئی تھی، اس لیے یہ ہمارے ہاتھوں کی پلی ہے۔۔۔ اس کے ساتھ لیلیٰ بھی بڑی نازوں سے پلی ہے۔ گلابو ہمارے ہاں سب سے پرانی ہے۔ چاندنی صرف ہم سے ہی مانوس ہے اور کسی اور کو قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتی!‘‘

’’رانو‘‘ ایک بکری اور ’’لیلیٰ‘‘ ایک بھیڑ کا نام ہے، جب کہ ’’گلابو‘‘ اور ’’چاندنی‘‘ بھینسیں ہیں۔ یہاں ریوڑ میں موجود ہر جانور کا ہی کچھ نہ کچھ نام رکھا ہوا ہے۔ ثمرین کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے بچوں کی طرح ہیں۔ یہ ان کی آوازیں بھی سمجھتے ہیں اور اشارے بھی۔  ان کی بکری رانو تو ان کی چارپائی پر آکر سو جاتی ہے اور یہاں صفائی ستھرائی کا بھی بہت خیال رکھتی ہے۔

ڈاکٹر عامر لیاقت سے ملنا ہے!

تینوں بہنیں معروف ٹی وی میزبان ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی بہت بڑی پرستار ہیں۔ انہیں ڈاکٹر عامر لیاقت کی نعتیں بہت پسند ہیں۔ ان کے سوال وجواب کے پروگرام بھی بڑے اہتمام سے دیکھتی ہیں۔ اب ان سے ملنے کی اشد خواہش ہے۔ اس کے علاوہ مایا خان بھی ان تینوں بہنوں کی متفقہ پسند ہیں۔

’’سب ہمارے چچا اور ماموں۔۔۔‘‘

شمع کہتی ہیں کہ یہاں مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہیں۔ قریب کوئی گھر ہے اور نہ ہی کوئی خاندان بستا ہے۔ سب ہی باڑے ہیں، لیکن ہم سب کو ماموں اور چچا کہہ کر پکارتے ہیں۔ ہمیں بھی سب بہت عزت واحترام دیتے ہیں۔ آٹھ برسوں سے الحمدللہ بہت سکون سے رہ رہے ہیں، کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ البتہ اب یہاں ارد گرد کی زمینوں پر تعمیرات کا کام شروع ہو چکا ہے، جس کی وجہ سے انہیں تشویش ہے کہ شاید اب انہیں یہ جگہ بھی چھوڑنا پڑے۔


دیس بدیس کے کھانے

$
0
0

ڈیٹس اسموتھی
اجزا:
کھجور (دس عدد)
کافی (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)
چاکلیٹ (سوس دو چائے کے چمچا)
دہی (آدھی پیالی)
دودھ(آدھی پیالی)

ترکیب:بلینڈر میں کھجوریں، کافی، چاکلیٹ سوس اور دہی ڈال کر اچھی طرح بلینڈ کر لیں۔ اب اس میں دودھ شامل کر کے دوبارہ بلینڈ کریں۔ ٹھنڈا کرکے سرو کریں۔

ریفریشنگ جوس
اجزا:
آم (دوعدد)
کیلے (دو عدد)
سیب (دو عدد) یا سیب کا جوس (ایک پیالی)
دودھ (ایک پیالی)
چینی (حسب ذائقہ)

ترکیب:آم چھیل کر اس کے قتلے کر کے آدھی پیالی دودھ میں بلینڈ کرلیں، بقیہ آدھی پیالی میں کیلے ڈال کر شیک بنا لیں۔ سیب کے دو تین قتلے گارنیشنگ کے لیے علیحدہ کر کے بقیہ کا جوس نکال لیں یا ایپل جوس کا پیکٹ اور ٹن استعمال کریں۔ چینی بھی پیس لیں، اگر مٹھاس کم لگے، تو استعمال کریں ورنہ نہیں۔ آم کے جوس میں دو تین کھانے کے چمچے ایپل جوس بھی شامل کردیں، جب کہ بقیہ جوس شیک میں شامل کردیں اور چورا کی ہوئی برف ڈال کر ٹھنڈا تازہ پیش کریں۔ اسٹرا ڈال دیں اور سیب کی بچی ہوئی قاشوں سے گلاس کو گارنش کریں۔

واٹر ملن ڈرنک
اجزا:
باریک کٹا ہوا تربوز (تین پیالی)
اسٹرا بریز (آٹھ عدد)
کریم (دو کھانے کے چمچے)
لال شربت (چار کھانے کے چمچے)
کْٹی ہوئی برف (ایک پیالی)

ترکیب: بلینڈر میں کٹا ہوا تربوز، کْٹی ہوئی برف، اسٹرابریز، کریم اور لال شربت ڈال کر اچھی طرح بلینڈ کر لیں۔ اب اسے پودینے کے پتیوں سے گارنش کر کے فوراً سرو کریں ورنہ اس کی غذائیت ختم ہو جاتی ہے۔

بنانااینڈ یوگرٹ شیک
اجزا:
کیلے (چھے سے آٹھ عدد)
دہی (ایک سے آدھی پیالی)
دودھ (دوپیالی)
براؤن شوگر (چارسے چھ عدد)
الائچی پاؤڈر (آدھا چائے کا چمچا)
پودینے کی پتیاں (سجانے کے لیے)

ترکیب:کیلے، دودھ، دہی، الائچی پاؤڈر اور براؤن شوگر کو اچھی طرح ملا کر بلینڈ کر لیں۔ اس کے بعد اسے گلاس میں ڈال کر پودینے کی پتیوں سے سجائیں اور پیش کریں۔ دہی جمانے کے لیے نیم گرم دودھ استعمال کریں۔ اس سے دہی میٹھا جمے گا۔

مینگو ٹینگو
اجزا:
آم ایک عدد (کٹا ہوا)
سمر ڈرنک (دو کھانے کے چمچے)
برف (ایک پیالی)
وائٹ ڈرنک (ایک پیالی)
پودینے کی پتیاں (دو کھانے کے چمچے)
چینی (دوکھانے کے چمچے)

ترکیب: بلینڈر میں برف، آم، سمر ڈرنک، وائٹ ڈرنک، پودینے کی پتیاں اور چینی ڈال کر اچھی طرح بلینڈ کر لیں۔ مزے دار مینگو ٹینگو تیار ہے۔ افطار سے آدھے گھنٹے قبل تیار کر کے رکھ لیں۔ روزہ کھلنے سے چند منٹ قبل دسترخوان پر رکھیں۔

چیری کا شربت
اجزا:
لال شربت (آدھی پیالی)
سرخ چیری کا جوس (دو کھانے کے چمچے)
سرخ چیری (دس سے بارہ عدد)
پودینہ (چند پتیاں)
آئس کیوب (دس سے بارہ)
لیموں کا رس (ایک کھانے کا چمچا)

ترکیب:دو کھانے کے چمچے لال شربت ایک گلاس پانی میں حل کریں یا پھر بلینڈر میں دو گلاس پانی میں چارچمچے جام شیریں یا شکر یا شہد ڈالیں سرخ چیریز یا بیریز کو میش کریں اور ایک کپڑے میں ڈال کر اس کا رس نچوڑ لیں یا پھر بلینڈر میں ڈال کر لیموں کے رس کے ساتھ خوب بلینڈ کریں اور چھان لیں۔ برف کے ساتھ ٹھنڈا کر کے پیش کریں۔ مٹھاس کم لگے، تو چینی کا استعمال کریں۔ بیریز چیریز اور پودینے کے پتوں کے ساتھ گارنش کریں۔

پائن ایپل لسی
اجزا:
پائن ایپل (ایک ٹن)
دودھ (دو گلاس)
دہی (آدھا کلو)
چینی (چار سے پانچ کھانے کے چمچے)

ترکیب:پائن ایپل دودھ دہی اور چینی کو بلینڈر میں اچھی طرح ملالیں۔ اس کے بعد فریج میں رکھ دیں اور افطار کے وقت دسترخوان کی زینت بنائیں۔ یقیناً صائمین کے لیے یہ قوت اور فرحت کا باعث ہوگا۔

اسپائسی لمکا ڈرنک
اجزا:
لیموں (چھ عدد)
آئسنگ شوگر (آٹھ کھانے کے چمچے)
کالی مرچ پاؤڈر(آدھا چائے کا چمچا)
پسا ہوا کالا نمک (آدھا چائے کا چمچا)
چینی (آدھی پیالی)
برف کے ٹکڑے (دس عدد)

ترکیب:کالی مرچ پاؤڈر اور کالا نمک ملا کے چھان لیں اور چینی ملا دیں۔ اب شیشے کے گلاس کو پانی میں ڈبوئیں اور اضافی پانی جھٹک کر گلاسوں کو الٹا کر کے شکر اور کالی مرچ کی پیالی میں ڈالیں، پھر ہٹالیں۔ اس طرح گلاسوں کے کناروں پر موٹی شکر اور کالی مرچ سیاہ نمک کا مکسچر چپک جائے گا، جو گلاسوں کو گارنش کر دے گا۔ اب ایک بلینڈر جگ میں دو گلاس پانی، کالی مرچ، نمک، موٹی شکر والا مکسچر، لیموں کا رس اور برف کے پانچ ٹکڑے ڈال کر پانچ منٹ بلینڈ کریں، چکھ کر دیکھیں اگر مٹھاس کم لگے، تو آئسنگ شوگر شامل کر کے مزید ایک بار بلینڈ کریں اور احتیاط سے برف کے ٹکڑے اور شربت گلاسوں میں انڈیلیں کہ ان کی گارنیشنگ متاثر نہ ہو۔ گارنیشنگ کے لیے سیاہ نمک اور سیاہ مرچ کا استعمال کریں۔

انگور کا جوس
اجزا:
انگور (آدھا کلو)
پانی (دو پیالی)
کاسٹر شوگر (دو کھانے کے چمچے)
لیموں کا رس (ایک چائے کا چمچے)
نمک (ایک چٹکی)
بھنا ہوا کٹا زیرہ (آدھا چائے کا چمچا)
برف (حسب ضرورت)

ترکیب:انگور کو دھو کر پوٹیٹو میشر سے اچھی طرح میش کر لیں۔ اب اس میں پانی ڈال کر اچھی طرح سے ملا لیں۔ پھر چھلنی کی مدد سے چھان لیں۔ اب بلینڈر میں برف، کاسٹر شوگر، نمک، لیموں کا رس اور انگور کا رس شامل کر کے بلینڈ کر لیں۔ آخر میں کٹا ہوا زیرہ اور تھوڑی سی کُٹی کالی مرچ چھڑکیں اور ٹھنڈا کرکے سرو کریں۔

دوپٹہ: حیا کی علامت، پاکیزہ روایت

$
0
0

دوپٹہ وقار، پاکیزگی اور تقدس کی علامت بھی ہے اور ہماری سماجی اور مذہبی اقدار کا ایک جزو بھی۔

اسے ہمارے ہاں ہر عمر کی خواتین کے لباس کا بنیادی حصّہ سمجھا ہے۔ لڑکیاں ہر نیا فیشن اپناتی ہیں، لیکن دوپٹے کو فقط فیشن کے طور پر نہیں بلکہ تہذیبی شناخت اور اقدار کا مضبوط حوالہ بھی مانتی ہیں۔ یہ ان کے نزدیک پاکیزگی اور تقدس کا نشان ہے۔ خواتین کا سر ڈھکنا ہماری تہذیب کی ایک روشن روایت ہے، جسے ملک کے چاروں صوبوں میں بسنے والی خواتین اپناتے ہوئے فخر محسوس کرتی ہے۔ تقریبات میں خصوصاً شادی بیاہ کے موقعوں پر دوپٹے کے رنگ اور بناوٹ پر بہت توجہ دی جاتی ہے۔

ہمارے ہاں اکثر دوپٹے گوٹے کناری اور شیشوں سے سجے ہوتے ہیں۔ کبھی انہیں رنگا جاتا ہے تو کہیں یہ دوپٹے ستاروں اور موتیوں کے کام سے بھرے ہوتے ہیں۔ شرم وحیا اور مشرقیت کی یہ علامت مختلف رنگوں اور طریقوں میں ڈھل کر چہرے کو معصومیت اور تقدس ہی عطا نہیں کرتی بلکہ شخصیت کو نکھار بھی دیتی ہے۔

مصنوعی رنگ و روپ ؛ پلاسٹ سرجری کرانے والے بولی وڈ اسٹارز

$
0
0

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ، اور خواتین اپنی تصویر میں مزید رنگ بھرنے کے لیے سولہ سنگھار تو کیا سو سو سنگھار کا سہارا لیتی ہیں۔اس ضمن میں میک اپ ہر عورت کی اولین ترجیح ہوتا ہے۔ خواہ وہ عام سی لڑکی ہو یا فلم انڈسٹری کی کوئی اداکارہ، وہ خود کو میک اپ کے بغیر ادھورا تصور کرتی ہے۔ اسی لیے میک اپ انڈسٹری میں ہونے والی نت نئی تبدیلیوں سے استفادہ کرتی رہتی ہے۔

بات اگر فلمی دنیا کی ہو تو بولی وڈ کی ہر اداکارہ خوب صورت، دل کش، اسمارٹ اور جاذب نظر دکھائی دینے کے لیے نہ صرف ہر طرح کے جتن کرتی ہے، بلکہ اپنی ہم عصر ہیروئنز کو ہر طرح سے پیچھے چھوڑنے کے درپے بھی رہتی ہے۔ فلمی اداکارائیں بدلتی دنیا اور جدت پسندی کا بھرپور ساتھ دے رہی ہیں اور منہگی سے منہگی کاسمیٹکس کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو جوان اور خوب صورت رکھنے کے لیے پلاسٹک سرجری کرواکے خود کو ہر طرح سے پرفیکٹ ثابت کرنے کے لے کوشاں ہیں۔ اس ہجوم میں صرف ہیروئنز ہی نہیں بلکہ ہیروز بھی شامل ہیں۔ وہ بھی فلمی ہیروئنز کے شانہ بشانہ پلاسٹک سرجری کرواکے خود کو نوعمر ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس مضمون میں بولی وڈ کے چند ایسے اسٹارز کا ذکر ہے جنہوں نے خوب صورت نظر آنے یا اپنے حسن میں مزید اضافے کے لیے پلاسٹک سرجری کا سہارا لیا۔

ایشوریا رائے بچن:

مس ورلڈ کا ٹائیٹل حاصل کرنے والی ماڈل اور اداکارہ ایشوریا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مکمل اور مجسم خوب صورتی ہیں۔ لڑکیاں انہیں اپنا آئیڈیل تصور کرتی ہیں اور ان کے ہر ہر انداز کو کاپی کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں، لیکن کیمرے اور میک اپ کی جدید تیکنیک نے واضح کر دیا ہے کہ ایشوریا کی خوب صورتی میں ساٹھ فی صد کمال میک اپ، کیمرے اور سرجری کا ہے۔ حالاں کہ وہ اس بات سے ہمیشہ انکار کرتی رہی ہیں کہ انہوں نے اپنے چہرے پر کسی قسم کی سرجری کرائی ہے، لیکن شوبز میں ایشوریا کے ابتدائی دور کی تصاویر یا فلموں کو دیکھا جائے اور ان کی پہلی بلاک بسٹر فلم ’’ہم دل دے چکے صنم‘‘ میں ان کو دیکھا جائے تو فرق بہت واضح نظر آئے گا کہ ایش نے نہ صرف اپنی ناک بلکہ جبڑے یا دہانے کی سرجری بھی کرائی۔ تھوڑی کی ساخت کو بھی پلاسٹک سرجری کے ذریعے تبدیلی دی اور سب سے اہم بات تو یہ ہے کہ ایش کی آنکھوں کا قدرتی رنگ ہلکا براؤن ہے، لیکن وہ بڑی مستقل مزاجی سے نیلے رنگ کے لینسز استعمال کرتی ہیں۔ اس لیے لوگوں کی اکثریت ان کی آنکھوں کے اصل رنگ سے واقف نہیں۔

کترینہ کیف:

فلمی دنیا میں کیٹو کے نام سے جانے والی اداکارہ کترینہ نے بہت جلد نمبر ون ہیروئن کا درجہ حاصل کیا اور اپنی دل کشی، معصومیت اور خوب صورتی سے سب ہی کے دل موہ لیے۔ اسی لیے فلمی ناقدین اس بات کا برملا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اگر کترینہ فلموں میں ہٹ ہے یا اس کا اچھا وقت چل رہا ہے تو اس میں اس کی قسمت کے ساتھ ساتھ خوب صورتی کا پلس پوائنٹ بھی ہے، کیوں کہ ابھی تک اس کی ایکٹنگ میں پختگی نہیں آئی۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ شوبز میں وہ صرف قسمت اور خوب صورتی کے سہارے راج کررہی ہے۔ وہ خوب صورت تو ہے لیکن اپنی خوب صورتی کو مزید بڑھانے کے لیے کترینہ نے بھی پلاسٹک سرجری کا سہارا لیا اور ناک ستواں کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہونٹوں کو جو کہ پہلے بہت باریک اور پتلے تھے، سرجری کے ذریعے موٹا کرایا، تاکہ وہ بھرے بھرے اور دل کش نظر آئیں۔

پریانکا چوپڑہ:

پریانکا شمار ان اداکاراؤں میں کیا جاتا ہے جنہیں اپنے فن سے جنون کی حد تک لگاؤ ہوتا ہے۔ فلم ’’سات خون معاف‘‘ میں بہترین اداکاری پر نیشنل ایوارڈ پانے والی پریانکا کو ایک کہنہ مشق اداکارہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ دیگر ہیروئنز کی طرح پریانکا نے بھی اپنی خوب صورتی کو قائم رکھنے کے لیے پلاسٹک سرجری کا سہارا لیا اور اپنی ناک کی کرائی ہونٹوں کو موٹا کرایا اور اسکن فئیرنس کے لیے اسکن لائیٹننگ ٹریٹمینٹ بھی کرائی، تاکہ اس طرح وہ قدرتی طور پر گوری لگے کیوںکہ پریا نکا کا قدرتی اسکن کلر گہرا سانولا ہے۔

شلپا شیٹھی:

فلم انڈسٹری میں کوئن آف پلاسٹک سرجری کہلوانے والی اداکارہ شلپا شیٹھی کئی بار پلاسٹک سرجری کے عمل سے گزر چکی ہیں اور اس بات کا وہ خود کئی بار برملا اظہار بھی کر چکی ہیں۔ شلپا کا کہنا ہے کہ میڈیا کے تیز رفتار دور میں آپ کسی سے کچھ نہیں چھپا سکتے تو پھر چھپانے کا فائدہ؟ انہوں نے ابتدائی دور میں اپنے کیریر کا آغاز بی کلاس اداکارہ کے طور پر کیا تھا۔ اس دور کی ان کی وا حد ہٹ فلم ’’بازی گر‘‘ تھی جس میں انہوں نے معاون اداکارہ کے طور پر کام کیا تھا۔ جب اسے خاطر خواہ یا حسب خواہش فلموں کی آفر نہ ہو ئی تب انہوں نے خود کو ظاہری طور پر بدلنے کا فیصلہ کیا اور سب سے پہلے توجہ اپنے چہرے پر دی، جہاں قدرے پھیلی ہوئی بھدی ناک، چھوٹا دہانہ اور تنگ پیشانی انہیں کہیں سے بھی خوب صورت ثابت نہیں کرتی تھی۔ سو انہوں نے کئی بار سرجری کے تکلیف دہ عمل سے خود کو گزارا۔ دہانہ او ر پیشانی کی ساخت میں تبدیل کرائی اور پھر ایک الگ شلپا سب کے سامنے تھی۔ نہ صرف یہ بلکہ شلپا نے یوگا انسٹرکٹر کے طور پر خود کو منوایا اور یوگا کے ذریعے اپنی فٹنس کو قائم رکھا۔

کرینہ کپور:

خوب صورتی کپور گھرانے کی میراث ہے، سو کرینہ بھی اپنے فیملی کے دیگر لوگوں کی طرح خوب صورت ہے، لیکن اس خوب صورتی کو قائم رکھنے کے لیے وہ بھی سرجری کا سہارا لیتی ہے۔ کرینہ نے سرجری کے ذریعے اپنے چہرے کی ساخت کو پتلا کرایا اور فلم انڈسٹری کی پہلی زیرو فگر ہیروئن کا درجہ حاصل کرنے لیے اس نے سرجری کے ذریعے اپنے جسم سے کئی گنا چربی ختم کرادی۔ آج شادی کے بعد بھی وہ اپنے آپ کو فٹ اور اسمارٹ رکھنے کے وقتاً فوقتاً سرجری کا سہارا لیتی ہے۔

پریتی زینٹا:

 

فلم ’’کیا کہنا‘‘ سے جب پریتی نے اپنے فلمی کیریر کا آغاز کیا تھا تب وہ ایک موٹی اور ببلی ٹائپ کی لڑکی تھی۔ اسی لیے اسے موٹی ہیروئن بھی کہا جاتا تھا۔ اپنے بے بی فیس اور موٹاپے کے باعث وہ اسمارٹ اور پرکشش ہیروئنز میں جگہ نہ بناسکی اور نہ ہی کسی قابل ذکر فلم میں کاسٹ کی گئی، حالاںکہ اداکاری میں وہ اتنی منجھی ہوئی ہے ہر ایک نے اس کے کام کی تعریف ہی کی۔ اس کے باوجود پریتی کسی قابل ذکر فلم میں کام نہ کرسکی۔ اپنے اردگرد اسمارٹ اورپرکشش ہیروئنز کو دیکھ کر پریتی نے صرف میک اپ پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنے چہرے کی پلاسٹک سرجری کروانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے اس نے سب سے پہلے چہرے کو پتلا کرایا اور آنکھوں کو نمایاں کرنے کے لیے سرجری کا سہارا لیا ساتھ ہی ایکسرسائز اور واک کے ذریعے اپنا بڑھا ہوا وزن بھی کم کیا اور تھوڑی تبدیلی کے لیے اس نے اپنی ناک کی سرجری بھی کرائی۔

کوئنا مترا: بولی وڈ میں صرف خوب صورت ہی نہیں بلکہ معمولی شکل وصورت والی اداکارائیں بھی پلاسٹک سرجری کا سہارا لے رہی ہیں۔ ان میں کوئنا مترا بھی شامل ہے، جو اداکاری میں کچھ خاص جوہر نہ دکھاسکی اس لیے اس نے خود کو آئٹم سونگ تک محدود کرلیا۔ کوئنا اپنے چہرے خاص طور سے ناک کے حوالے سے ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہی ہے۔ سو اس نے ناک کی مناسب شیپ کے لیے سرجری کرائی اور ہونٹوں کو نمایاں کرنے کے لیے جبڑے کی سرجری کرائی، لیکن پہلی بار کی جانے والی یہ سرجری ناکام ہو گئی اور کوئنا کا پیسہ بھی برباد ہوا۔

سری دیوی:

بولی وڈ کی اپنے دور کی نمبر ون اداکارہ سری دیوی نے اپنی پہلی فلم ’’ہمت والا‘‘ سے آخری فلم ’’انگلش ونگلش‘‘ تک کے لمبے سفر میں پلاسٹک سر جری کے کئی مراحل طے کیے۔ ابتدائی دور میں موٹی ناک اور گول چہرے کے باعث وہ بہت پریشان رہتی تھی، لیکن بھلا ہو سائنس کا جس نے پلاسٹک یا کاسمیٹکس سرجری ایجاد کرکے فلمی ہیروئنز کوہمیشہ خوب صورت رہنے کا طریقہ بتادیا۔ سری دیوی نے اپنے پورے چہرے کی سرجری کرائی اور یوں حقیقتاً اس کی خوب صورتی کو چار چاند لگ گئے۔ وہ آج بھی اپنے پرکشش سراپے کے باعث نئی ہیروئنز کو مات دیتی نظر آتی ہے۔

ہیما مالنی:

ساٹھ سال کی ہوجانے کے باوجود ڈریم گرل یعنی ہیمامالنی کا جھریوں سے پاک چہرہ انہیں تمام ادوار کی ہیروئنز سے ممتاز کرتا ہے۔ ہیما کے چہرے کو بہ غور دیکھنے کے باوجود ایک شکن تک نظر نہیں آتی، کیوںکہ وہ اپنے چہرے کا بہت خیال رکھتی ہیں اور اس معاملے میں ہیما نے اپنے ہم عصر اداکارہ ریکھا اور زینت امان کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہیما کی خوب صورتی کا راز ان کی مخصوص ڈائیٹ اور چہرے پر خاص طور سے ہونٹوں، آنکھوں اور پیشانی پر پڑجانے والی جھریوں کی مستقل کرائے جانے والی سرجری ہے۔

راکھی ساونت:

بولی وڈ کی متنازعہ شخصیت راکھی ساونت اپنے کام سے کم اور لڑائی جھگڑوں سے زیادہ جانی جاتی ہے۔ بطور ویڈیو ماڈل کے طور پر جب راکھی نے اپنے کیریر کا آغاز کیا تب سب اسے کیٹ فیس گرل پکارا کرتے تھے۔ وہ اپنے بڑھتے ہوئے وزن اور چہرے کے بلی جیسے نقوش کی وجہ سے خاصی پریشان رہا کرتی تھی، لیکن جیسے جیسے راکھی کو کام ملتا گیا اس نے خود کو بدلنے کا فیصلہ کیا اور اس کے لیے اس نے سرجری کا سہارا لیا۔ راکھی نے اپنی ناک، ہونٹوں اور آنکھوں کی سرجری کرائی اور ایسا کرنے کے بعد وہ اچھی خاصی خوب صورت نظر آنے لگی ہے ۔

شاہ رخ خان:

سلمان خان، عامر خان اور سیف علی خان: بولی وڈ کے یہ چاروں خان لگ بھگ اپنی عمر کا پچاس کا ہندسہ عبور کرنے والے ہیں۔ یہ چاروں اپنے چہرے پر مستقل پڑنے والی جھریوں یا لائنوں سے خاصے پریشان ہیں۔ ان جھریوں کو ختم کرنے کے لیے وہ گاہے بگاہے پلاسٹک سر جری کراتے رہتے ہیں۔ ان سب کے تیزی سے ختم ہوتے بالوں کے لیے ان سب ہی نے انتہائی منہگی وگز تیار کرائیں اور سرجری کے ذریعے انہیں اپنے سر پر لگوایا۔

انڈسٹری میں اکثریت ایسی ہیروئنز کی ہے جنہوں نے صرف اپنی ناک کی سرجری کرائی، جیسے رانی مکھرجی، جوہی چاولہ، کنگنا رناوت، سشمیتا سین، بپاشاباسو اور آئشہ ٹاکیا۔

شمالی کوریا ؛ جہاں فوجی افسران اور عوام ایک ساتھ بیٹھے تھے

$
0
0

 15اپریل کو کوریا کے عظیم لیڈر کامریڈ کم ال سونگ کی سال گرہ پورے کوریا میں بڑے جوش ولولے سے منائی جاتی ہے۔ اس بار کوریا کے کراچی میں متعین قونصل جنرل نے مجھے بھی اس میں شرکت کی دعوت دی۔

کراچی ایرپورٹ سے ایرچائنا کی فلائیٹ 10اپریل کی رات 11بجے بیجنگ (چائنا) کے لیے روانہ ہونا تھی۔ ہم تقریباً 8بجے گاڑی میں ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ میری اہلیہ اور دونوں بیٹیاں کنزا اور تسیبح مجھے بار بار یا دہانی کروارہی تھیں کہ آپ وہاں پہنچتے ہی ہمیں اپنا وہاں کا نمبر دیجیے گا، تاکہ ہم آپ سے رابطہ کرسکیں اور میں اپنی بیٹیوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا تھا،’’بیٹا! انشاء اﷲ میں پہنچتے ہی پہلا کام یہی کروں گا۔‘‘ 18روز کا دورہ اور ایک طویل سفر دِل مچلا جارہا تھا کہ اﷲ نے آج وہ خواہش پوری کردی ۔

جس کا ایک طویل عرصے سے انتظار تھا۔ کراچی انٹرنیشنل ایرپورٹ کے باہر ہی عوامی نیشنل پارٹی کے راہ نما بشیرجان اور ریاض گل دکھائی دیے۔ ابھی ہم ملاقات کر ہی رہے تھے کہ دور سے جاوید انصاری اپنے بریف کیس کو ٹرالی بناتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے فون سنتے ہوئے دکھائی دیے۔

اب ہمارا چار افراد پر مشتمل وفد مکمل تھا۔ ہم ایرپورٹ کے اندر داخل ہوئے۔ ایر چائنا کی فلائٹ نمبر 946، 11بج کر 20منٹ پر کراچی ایرپورٹ سے روانہ ہونا تھی۔ ہمیں 11بجے سے آدھا گھنٹہ قبل بورڈنگ کارڈ دکھا کر جہاز میں سوار کیا گیا۔ ایرچائنا کی فلائٹ میں چینی ایرہوسٹسز مسکراتے اور گردن جھکاتے ہوئے مسافروں کا استقبال کر رہی تھیں۔ ہم نے اپنی نشست سنبھالی۔ کراچی ایرپورٹ پر کوریا کے قونصل جنرل بھی ہمیں چھوڑنے آئے تھے اور دوستوں نے بتایا کہ یہ پہلی بار ہے کہ قونصل جنرل خود ہمارے سامان اور ٹکٹ کے معاملات دیکھ رہے تھے۔

ایر چائنا کا طیارہ ٹیک آف کرکے بیجنگ کی جانب رواں دواں تھا۔ سات گھنٹے کے طویل سفر کے بعد چین کے شہر چھنگتو میں طیارے کو اترنا تھا۔ وہاں سے 2گھنٹے 30منٹ کی فلائٹ سے بیجنگ پہنچنا تھا۔ کراچی اور بیجنگ کے درمیان ٹائم کا 3گھنٹے کا فرق ہے۔ بیجنگ کراچی سے 3گھنٹہ آگے ہے۔ کوریا اور بیجنگ کے درمیان ٹائم میں مزید ایک گھنٹے کا فرق ہے۔ اس طرح کوریا ہم سے چار گھنٹے آگے ہے۔ پاکستانی وقت کے مطابق ہم چین کے شہر چھنگتو رات 4بجے پہنچے، وہاں صبح کے 7بج رہے تھے۔

ایرہوسٹس نے پہلے چینی پھر انگریزی میں طیارے کے ایرپورٹ پر اترنے کی نوید سنائی اور کچھ ہی لمحوں میں ہم چین کے شہر چھنگتو میں اتر رہے تھے۔ ہمیں دستی سامان اتارنے کی ہدایت کی گئی، جب کہ دیگر سامان فوری طور پر دوسرے طیارے میں منتقل کردیا گیا۔ اب ہم انٹرنیشنل فلائٹ سے ڈومیسٹک فلائٹ میں سوار ہوئے جو ڈھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد بیجنگ انٹرنیشنل ائیر پورٹ پہنچ گئی۔

بیجنگ میں ایک روز قیام کے بعد 12اپریل کو پیانگ یانگ (کوریا کا دارالحکومت) کی فلائٹ تھی، جو اپنے مقررہ وقت پر 11بجے روانہ ہوئی اور دو گھنٹے کی مسافت کے بعد پیانگ یانگ ایرپورٹ پہنچی۔ ایرچائنا کا طیارہ رن وے پر آہستہ آہستہ ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ درمیان میں ایک پُل آیا جس کے نیچے ٹریفک رواں دواں تھا۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ آگیا، کیوںکہ ہم اپنے ملک میں دہشت گردی کے اس ماحول میں اس قسم کے رن وے کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

ایک طرف نیچے سے عام ٹریفک کا گزر تھا اور دوسری طرف اوپر پل سے طیارہ ایرپورٹ کی عمارت کی جانب رواں دواں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ طیارہ بھی اُسی ٹریفک کا حصہ ہے۔ طیارے کو ایرپورٹ کی عمارت سے دور کھڑا کرکے مسافروں کو ایک بس میں سوار کیا گیا۔ ایرپورٹ پر بڑی تعداد میں ایرکوریا اور ایرچائنا کے طیارے موجود تھے اس کے علاوہ کوئی اور طیارہ موجود نہیں تھا، بل کہ ہماری پرواز کے علاوہ کسی اور طیارے نے وہاں لینڈ نہیں کیا، کیوں کہ 1950 سے 1953 تک امریکا اور کوریا کی جنگ کے فوری بعد امریکا کی جانب سے شمالی کوریا پر پابندیاں لگادی گئی ہیں، جس کے بعد شمالی کوریا دنیا کے کسی بھی ملک سے تجارت نہیں کرسکتا۔ تاہم وہ اپنے ہمسایہ ملک چین سے تیل سمیت دیگر اشیاء کی تجارت کرتا ہے۔

شمالی کوریا کے عوام اتنی طویل پابندیوں کے باوجود اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے زندہ ہیں۔ وہ کسی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے محتاج نہیں۔ ان کی معیشت کا دارومدار اپنے اندرونی وسائل پر ہے۔ وہ چاول اور گندم کاشت کرتے ہیں۔ پن بجلی کے ان کے اپنے منصوبے ہیں۔ پانی کو وہ کسی صورت ضائع نہیں کرتے۔ اسے وہ پاور پروجیکٹس کے استعمال میں لاتے ہیں۔ بڑے بڑے پاور پروجیکٹس کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ پورے ملک میں ایک سیکنڈ کے لیے بھی لائٹ جانے کا تصور نہیں۔ شمالی کورین صبح پانچ بجے اٹھ جاتے ہیں اور 6 بجے اپنے دفاتر اور کاروبار پر پہنچ جاتے ہیں۔

ہر شخص اپنے ملک سے مخلص ہے۔ وہ اپنی کاروبار کی جگہ اور رہائش گاہ کے سامنے والے حصے کو وہ خود صاف کرتے ہیں۔ گھروں کے سامنے لگے درختوں کو پانی دیتے ہیں۔ اس طرح پورا پیانگ یانگ خوب صورت پھولوں کا شہر دکھائی دیتا ہے۔ ان کا قومی پھول ہمارے گلاب سے بھی بڑا ہے، جس کا رنگ لال ہے۔ اس پھول کا پودا کوریا کے عظیم لیڈر کامریڈ کم ال سونگ کو انڈونیشیا کے سربراہ ڈاکٹر سوئکارنو نے بہ طور تحفہ دیا تھا، جس کا نام KIMILSUNGIA ہے۔

قومی پھول سے کوریا کی پوری قوم عقیدت رکھتی ہے۔ 15 اپریل، جس روز کامریڈ کم ال سونگ کی 103 ویں سال گرہ کا دن تھا، ہر گھر کی گیلری اور مرکزی دروازے پر یہ پھول نمایاں طور پر دکھائی دیا۔ کوریائی قوم جس طرح ترقی کی منازل طے کر رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آئندہ دس سال میں وہ دنیا کی مضبوط و منظم قوم کی صورت میں سامنے آئے گی۔ کورین تمام پرانی عمارتوں کی جگہ جدید عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں۔ ان عمارتوں میں تاریخی اور یادگار عمارتیں شامل نہیں، بل کہ تاریخی اور یادگار عمارتوں کو وہ جدید طرز پر وسیع کرتے ہوئے ان کی خوب صورتی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

ہم پیانگ یانگ کوریو ہوٹل میں مقیم تھے، جو فائیو اسٹار ہوٹل ہے۔ اس 45 منزلہ عمارت کی آخری منزل پر ایک جدید طرز کا ریولونگ ہوٹل ہے، جہاں سے پورے شہر کو دیکھا جاسکتا ہے۔ صبح سویرے ہم 27 ویں منزل پر اپنے روم نمبر 27 کی سامنے والی بڑی کھڑکی کے پردے ہٹاتے تو سیکڑوں کی تعداد میںبوڑھے، بچے، جوان، لڑکے اور لڑکیاں پیدل، ٹرام پر اور بسوں میں اپنی اپنی منزل کی جانب رواں دکھائی دیتے۔ تمام ٹرامز بجلی سے چلتی ہیں۔ حالانکہ وہ ٹرامز اب بہت پرانی ہوچکی ہیں، لیکن ان کی ساخت اور رفتار میں کوئی فرق نہیں آیا۔

پیانگ یانگ ایرپورٹ کو جدید بنانے کے لیے اس کی تعمیرنو کا کام تیزرفتاری سے کام ہورہا ہے۔ ہمیں عارضی ایرپورٹ کی غیرتعمیر شدہ عمارت کے اس حصے میں لے جایا گیا، جہاں تمام مسافروں کا امیگریشن ہونا تھا۔ ایرپورٹ کی عمارت میں داخل ہوتے ہوئے اس بات کا علم ہوا کہ طیارے کے تقریباً تمام مسافر وہ غیر ملکی وفود ہیں جنہیں 15 اپریل کی سال گرہ کی تقریب میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا ہے۔

ہم سمجھ رہے تھے کہ ایرپورٹ پر اترنے کے ساتھ ہی ہمارا وی وی آئی پی پروٹوکول شروع ہوجائے گا، لیکن ایسا کچھ دکھائی نہیں دیا۔ ہم تمام مسافر مختلف کاؤنٹرز پر لائینوں میں لگے اپنی باری کا انتظار کرتے اور آگے بڑھتے۔ سامنے بڑی تعداد میں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں کھڑی تھیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ کسی کا انتظار کررہے ہیں۔ بعد میں پتا چلا کہ یہ تمام افراد ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا کی حکومت کے وہ مترجم ہیں، جنہیں پورے دورے میں وفود کے ساتھ رہنا ہے۔ امیگریشن اور تلاشی کے تمام مراحل کے بعد ہم ایرپورٹ سے باہر آئے۔ اسی دوران ہمارے مترجم مسٹر لی ہمارے قریب آئے اور ہم سے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ ہمارے تمام معاملات وہ دیکھیں گے۔

پیانگ یانگ کوریو ہوٹل کی لابی میں پہنچ کر تمام وفود غیررسمی تبادلۂ خیال میں مصروف ہوگئے، جب کہ بعض وفود اپنے اپنے روم کی چابی ملنے کا انتظار کررہے تھے۔ ہوٹل کی مین لابی کے بالکل درمیان کوریا کے قومی پھول بڑی خوب صورتی سے سجائے گئے تھے۔ جاپان، جرمنی، اٹلی، روس، بیلا روس، منگولیا، نائجریا، ساؤتھ افریقا، کینیا، فن لینڈ، پاکستان ، بنگلادیش، نیپال، یوکرین، میکسیکو، لاطینی امریکا اور یوگنڈا کے وفود ہمارے ساتھ طیارے میں پیانگ یانگ پہنچے تھے۔

پاکستان کے وفد کو ہوٹل کی 27 ویں منزل پر کمرے دیے گئے۔ تمام وفود کے کھانے کا انتظام تیسری منزل کے ڈائننگ ہال میں تھا۔ ظہرانے کے فوری بعد ہمیں سب سے پہلے پیپلز اوپن ایر آئس اسکیٹنگ لے جایا گیا، جہاں برف پر بچوں کو آئس اسکیٹنگ کرتے دیکھا۔ اس کے بعد کورین ہینڈی کرافٹس کی نمائش دکھانے لے جایا گیا۔ پھر گُھڑدوڑ کا کلب دکھا یا گیا، جہاں وفود میں شامل غیرملکی خواتین نے بھی گُھڑسواری کی اور تصاویر بنوائیں۔ اس طرح پہلے دن کا شیڈول مکمل ہوا اور ہمیں واپس ہوٹل پہنچادیا گیا۔ لابی میں آتے ہی تمام ممالک کے وفود کو ان کے ٹرانسلیٹرز نے دوسرے روز کا پروگرام بتایا اور ان سے کہا کہ وہ صبح اپنے مقررہ وقت پر تیار ہو کر ہوٹل کی لابی پہنچ جائیں۔

کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم سات بجے شام ڈنر کے لیے ڈائننگ ہال پہنچے، جہاں بنگلادیش، نیپال اور بھارت کے وفود سے ملاقات ہوئی۔ اب ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ کھانے کا تھا کہ کورین عوام حلال گوشت کا تصور نہیں رکھتے، بل کہ وہ بعض کھانوں میں خنزیر کے گوشت کا استعمال بھی کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے ٹرانسلیٹر کو خصوصی ہدایت دی تھی کہ اس بات کو ہر قیمت پر یقینی بنائے کہ پاکستانی وفد کے کھانے میں حلال کے علاوہ اور کوئی چیز شامل نہ ہو، اس کے باوجود ہم خود بھی اس بات کا خیال رکھتے تھے۔ اگر ڈائننگ میں بوفے سسٹم ہے تو اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے اور کسی چیز میں تھوڑی بھیSMELL محسوس ہوتی توہم ویٹر کو بلا کر پوچھتے کہ اس میں کیا شامل ہے۔

کورین کھانے بغیر مسالوں کے سادہ ہوتے ہیں، لیکن ہمارے لیے وہ چکن اور فش کا خصوصی اہتمام کرتے تھے۔ کولڈ ڈرنک اور دودھ کی چائے کا وہاں تصور بھی نہیں۔ اس لیے میں نے جاتے ہوئے چائے کا انتظام کرلیا تھا۔ ٹی بیگ، خشک دودھ اور چینی کے ساشے اپنے بیگ میں رکھ لیے تھے، جس سے صبح اور شام کی چائے کا مسئلہ حل ہوگیا۔ شام کی چائے ہم وفد کے تمام ارکان بشیر جان کے روم میں پیتے، جہاں27 ویں منزل کی گیلری سے شہر کے مناظر دیکھتے۔ دوسرے روز چودہ اپریل کو پورے پیانگ یانگ سٹی میں کوریا کے عظیم لیڈر کم ال سونگ کی سال گرہ کی تقریبات کا آغاز ہوچکا تھا۔ پورے شہر میں بڑے بڑے سائین بورڈ لگے ہوئے تھے، جن پر مزدور، کسان اور دانش ور طبقات کے نشانات، ہتھوڑا، درانتی اور قلم کے ذریعے، جو کوریا کی ورکرز پارٹی کا نشان ہے، اس بات کی نشان دہی کی گئی تھی کہ انقلاب اور تبدیلی ان تینوں طبقوں کے اتحاد سے آتی ہے۔

پورے شہر میں قومی پرچم دکھائی دے رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک مقررہ وقت تک یہ قومی پرچم لگائے جاتے ہیں اس کے بعد انہیں احترام کے ساتھ اتار دیا جاتا ہے کہ قومی پرچم کی بے حرمتی نہ ہو۔ صبح 9 بجے سے قبل تمام وفود ناشتے کے بعد تیار ہوکر ہوٹل کی لابی پہنچ چکے تھے۔ اچانک تمام وفود کو گاڑیوں میں بیٹھنے کا کہا گیا اور ہمیں پیپلزپیلس آف کلچر بلڈنگ لایا گیا، جہاں Juche Idea Seminar منعقد ہونا تھا، جس کا موضوع تھا:

THE COUSE OF GLOBAL INDEPENDENCE KAMIL SUNGISM -KIM JONG ILL ۔ پہلے سیشن سے بنگلادیش، وینزویلا، یوگنڈا اور منگولیا کے نمائندوں نے خطاب کیا، جس کا کورین زبان میں ترجمہ بھی ساتھ ساتھ ہورہا تھا۔ یہ سیمینار ایک بہت بڑے ہال میں منعقد ہوا، جہاں کوریا کے دونوں عظیم راہ نماؤں کامریڈ کم ال سونگ اور کم جونگ ال کی بڑی تصاویر لگی ہوئی تھیں۔ چائے اور کافی کا وقفہ ہوا تو ہمیں ایک بڑے سے ہال میں لے جایا گیا، جہاں کافی اور چائے کے بڑے مگ رکھے تھے۔ تمام مہمان سیلف سروس کے ذریعہ ایک ڈسپوزایبل گلاس اٹھاتے، چائے لیتے اور سامنے لگی ہوئی کرسیوں پر بیٹھ کر پیتے۔ یہ سب کچھ سادہ اور پروقار انداز لیے ہوئے تھا، جس سے اس قوم کی سادگی کا اندازہ ہوتا ہے ۔

چائے اور کافی کے پندرہ منٹ کے وقفے کے بعد دوسرے سیشن سے جاپان، روس، کانگو، بیلا روس اور روس کے نمائندوں نے خطاب کیا۔ اس کے بعد IIJI کے سیکریٹری جنرل، جن کا تعلق جاپان سے، ان کی تقریر ہوئی۔ اس طرح اس سیمینار کا اختتام بڑے پُروقار انداز میں ہوا۔

اس کے فوری بعد ہمیں ہوٹل لے جایا گیا، جہاں 12 بجے ظہرانہ شروع ہوجاتا تھا۔ ظہرانے کے فوری بعد تقریباً ڈھائی بجے ہمیں فلاور شو دکھانے لے جایا گیا۔ اس نمائش میں نمایاں ترین کوریا کا قومی پھول تھا۔ چار بجے کے قریب ہمیں پیانگ ہانگ چلڈرن ہاسپٹل لے جایا گیا، جس کی جدید عمارت میں جدید طرز کے آلات، بچوں کی نگہداشت اور خصوصی علاج کے شعبے دیکھے۔ اسپتال میں بچوں کے کھیلنے کے مخصوص حصوں کے ان کی تعلیم کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ سات ماہ کے قلیل عرصے میں قائم ہونے والی اس جدید بچوں کے اسپتال کو دیکھ کر آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔

کوریا میں متعین پاکستانی سفیر نے وفد کے اعزاز میں دینے والے عشائیے میں اس اسپتال کے حوالے سے ذکر پر بتایا کہ سات ماہ قبل یہ علاقہ درختوں سے اٹا ہوا تھا۔ اچانک ہم نے دیکھا کہ کورین آئے اور انہوں نے تمام درختوں کو اس جگہ سے اس طرح نکالا کہ نہ ان کی ساخت خراب ہو اور نہ ہی وہ مردہ ہوجائیں، بل کہ انہیں جدید طرز کی مشینری کے ذریعے وہاں سے نکال کر کہیں اور لگادیا گیا۔ اس سے قبل ان تمام درختوں کو پلاسٹک سے لپیٹا گیا اور ان پر نمبر ڈالے گئے۔ درختوں کی کٹائی کے دوران تیز بارش میں بھی ان کے لیڈر کم جونگ مزدوروں کے ساتھ کھڑے ہوتے، تاکہ ان کا جوش اور بھی بڑھ جائے۔ کورینز کی اپنی قیادت سے والہانہ عقیدت کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ ان کے لیڈر نے اگر کسی مشین کو بھی ایک بار ہاتھ لگالیا، تو انہوں نے اس مشین یا اس کے چھوٹے سے پرزے کو بھی محفوظ کرلیا۔

شام 7بجے پیانگ یانگ ہوٹل میں کورین حکومت کی جانب سے تمام غیرملکی وفود کے اعزاز میں Dinner Benquet تھا۔ سامنے کی ٹیبل خالی تھی باقی کی تمام راؤنڈ ٹیبلز پر وفود کے ارکان کو گلابی اور سرخ لباس پہنی ہوئی ویٹر لڑکیاں سر جھکا کر مسکراتے ہوئے خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ ہر ملک کے وفد کی الگ ٹیبل تھی۔ KASSکے صدر KIN KI NAM جو کہ حکم راں جماعت ورکرز پارٹی کے سیکریٹری اور اس وقت پارٹی میں نمبر دو پوزیشن پر ہیں اور نائب صدر ای کل سانگ اپنے دیگر سینئر ساتھیوں کے ساتھ پہنچے۔ یہ تمام بڑی شخصیات بڑے نا رمل انداز میں آئیں کوئی ’’ہٹو بچو‘‘ کی آوازیں نہ گارڈوں کی قطاریں۔ ان کی آمد کے ساتھ ہی تقاریر کا سلسلہ شروع ہو ا۔

KASS کے صدر اور نائب صدر کی تقریر بہت ہی مختصر اور جامع تھی، جس کے انگریزی ترجمے کی کاپی تمام مہمانوں کی ٹیبل تک پہنچا دی گئی تھی۔ اختتامی تقریر کے فوری بعد مخصوص قسم کے چھوٹے گلاس کو اُٹھاکر خوش حالی اور آبادی کا جام پیا گیا، جسے پاکستان وفد نے پانی کے گلاس ٹکراتے ہوئے نوش کیا۔ اس طرح تقریب کا اختتام ہوا۔ اس دوران ہم نے اپنے مترجم سے بات کرلی تھی کہ ہم مہمان ِ خصوصی کو پاکستان کے صوبہ سندھ کی روایتی اجرک اور ٹوپی پہنانا چاہتے ہیں۔ اس نے اعلیٰ عہدے داروں سے بات کرنے کے بعد ہمیں اس کی اجازت دی اور باقاعدہ اس کا اہتمام بھی کیا۔ دو خوب صورت کورین لڑکیاں اجرک اور ٹوپی کے ساتھ میرے ساتھ تھیں اور میں نے جب KASSکے چیئرمین کو اجرک اور ٹوپی پہنائی تو وہ اتنے خوش ہوئے کہ ہمارے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر سامعین کے سامنے کھڑے ہوگئے اور پورا حال تالیوں سے گونج اٹھا۔ سندھی اجرک اور ٹوپی کو وہ اپنے لیے بڑے اعزاز کی بات سمجھ رہے تھے۔ بڑی دیر تک وہ مجھ سے پاکستان کے متعلق معلومات حاصل کرتے رہے، جسے ہمارے مترجم کورین زبان میں ترجمہ کرکے ان کے گوش گزار کر رہے تھے۔ کورینز کے نزدیک یہ بالکل ایک نئی روایت تھی، جسے انہوں نے بہت پسند کیا۔ میرے ٹیبل تک پہنچے تک کورین میرے قریب آکر مجھے مبارک باد دیتے رہے اور میری خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا کہ میں نے کورین قیادت کو پاکستانی عوام سے محبت کا پیغام بڑے خوب صورت انداز میں پیش کردیا۔

ڈنر کے خاتمے کے بعد بعد مہمان خصوصی خود مرکزی دروازے پر تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کرنے کے لیے موجود تھے۔ انہوں نے مجھے پہچانتے ہی بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا۔ ابھی ہم لابی تک بھی نہیں پہنچے تھے کہ ایک خوب صورت لڑکی نے میرے نزدیک آکر کورین زبان میں مہمان ِخصوصی کو پیش کیے گئے گفٹ پر شکریہ کے ساتھ کورین حکومت کی جانب سے تحفہ دیا۔ اتنی جلدی اس قسم کا تبادلہ ہمارے لیے حیرت انگیز تھا۔

15اپریل کوریا کے عظیم لیڈر کامریڈ ال سونگ کی 103ویں سال گرہ کی تقریب کا دن تھا۔ ہمیں صبح بہت جلدی تیاری کے لیے کہا گیا تھا۔ ناشتے کے بعد ہم جیسے ہی ہوٹل کی لابی میں پہنچے تو تمام مہمان لابی میں پہنچ چکے تھے۔ کورین عوام کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے۔ پورے پیانگ یانگ کو پھولوں سے سجادیا گیا تھا۔ ہوٹل کی لابی سے تمام شاہراہوں اور خصوصی طور پرSUN HOUSEجہاں کامریڈ کم ال سونگ اور کم جانگ ال کے جسد خاکی محفوظ کیے گئے ہیں، پر اسکولوں کے طلبہ سمیت سیکڑوں لوگ گلے میں لال رومال باندھے اپنے قائد کو خراج عقیدت پیش کرنے آرہے تھے۔ چاروں طرف مختلف پھولوں سے سجا ہوا Sun Houseایک بہت بڑی عمارت ہے، جس کے ایک کمرے میں کامریڈ کم ال سونگ کا جسدِخاکی رکھا ہے اور برابر کے بہت بڑے ہال میں انہیں دیے گئے مختلف ممالک کے تحائف رکھے ہیں۔

اسی طرح کم جانگ ال کا کمرہ جس میں ان کا جسد خاکی رکھا ہے۔ برابر کے ہال میں ان کے استعمال میں آنے والی تمام اشیاء حتیٰ کہ وہ ٹرین جس میں ان کا انتقال ہوا، بالکل اسی طرح محفوظ ہے، جس حالت میں وہ اُس وقت تھی۔ ٹرین کا وہ مخصوص کمرہ جس میں کم جانگ ال فائلیں دیکھتے تھے، اُن کا چشمہ، سگریٹ اور لائٹر، دیگر اشیاء جو وہ استعمال کرتے تھے بالکل ویسی ہی اپنی جگہ موجود تھیں۔ ایک قلم سے لے کر قیمتی اشیاء تک جو انہیں تحفے میں ملیں انہوں نے وہ قومی خرانے میں جمع کروادیں۔ ایک جگہ دو موبائل فون خوب صورت ڈبے میں رکھے تھے۔ ساتھ ہی ایک مشہور کمپنی کے مالک کا نام بھی لکھا ہوا تھا۔ ہمارے مترجم نے بتایا کہ اس مشہور کمپنی کے مالک نے دو فون اس لیے دیے کہ ایک فون وہ قومی خرانے میں جمع کروادیں اور دوسرا خود استعمال کریں۔ کمپنی کے مالک نے کامریڈ کم ال سونگ سے یہ گزارش بھی کی تھی، لیکن انہوں نے دونوں موبائل فون قومی خزانے میں جمع کروادیے۔

شمالی کورینز کی قیادت مارشل کم جانگ کررہے ہیں جو کم جانگ ال کے فرزند ہیں، جب کہ کورینز اس بات پر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے جب تک دنیا قائم ہے کورین قوم کی قیادت کامریڈ کم ال سونگ ہی کرتے رہیں گے۔ انہوں نے ہمارے لیے جو گائیڈ لائن متعین کی ہے، وہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے، جب کہ موجودہ حکم راں مارشل کم جانگ ان خود کو ورکرز پارٹی کا سیکریٹری کہلاتے ہیں۔ وہ بھی ایک عام کارکن کی طرح اپنے سینے پر دونوں آنجہانی راہ نماؤں کی تصویر والا مخصوص بیج لگاتے ہیں، جو ہم تمام تر کوشش کے باجود حاصل نہیں کرسکے۔ کورینز کا کہنا تھا کہ یہ بیج ہمارے کارکن کے علاوہ کسی اور کے لیے نہیں۔ مختلف ممالک سے آئے ہوئے وفود کو انہوں نے جو بیج لگائے جو وہ صرف کامریڈ کم ال سونگ کی تصویر پر مبنی تھے، جس سے پتا چلتا تھا کہ ہم غیرممالک سے آئے مہمان ہیں۔

وہاں ایک ایسا واقعہ ہوا جسے میں کبھی نہیں بھلا پاؤں گا۔ ہمیں اس میوزیم میں لے جایا گیا جہاں ڈیموکریٹک پیپلز ریپبلک آف کوریا اور امریکا کے درمیان 1950ء سے 1953تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران امریکا کے جو ہیلی کاپٹر کورین فوج نے گرائے، وہ ہتھیار، گولا بارود اور وردیاں جو امریکی چھوڑکر بھاگ گئے، انہیں محفوظ کرلیا گیا ہے۔ اس میوزیم میں ایک گول ہال کے درمیان نشستیں رکھی گئی ہیں۔ وہاں سے بیٹھ کر آپ اس پوری جنگ کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ ریوالونگ میوزیم میں اندھیرا کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسکرین پر نہیں بلکہPANORAMAکے جدید انداز میں جنگ سے ہونے والی تباہی کے مناظر سمیت ایک مکمل جنگ دکھائی جاتی ہے۔

بم باری، عمارتوں میں بے گناہ افراد کے مارے جانے کے مناظر کے علاوہ ریل کے پلوں اور کھیتوں میں کام کرنے والوں کو بم باری سے جس طرح مارا گیا وہ مناظر دیکھ کر روح کانپ اُٹھتی ہے۔ ایک ایسی جگہ جہاں امریکن فوج کی وردیاں دکھائی جارہی تھیں اچانک بنگلادیشی وفد کے ایک رکن نے پاکستانی افواج کے متعلق غلط زبان استعمال کی۔ میں سمجھ رہا تھا کہ وہ اپنی بات کر کے خاموش ہوجائے گا لیکن اس نے بات کو بڑھانے کوشش کی، جس پر میں نے اُسے shut upکہا، جس پر کورینز سمیت تمام ممالک کے وفود حیرت زدہ رہ گئے۔ میں نے اس بنگلادیشی سے اُردو میں کہا کہ ہم کسی اور ملک میں ہیں اور آپ کو یہ بات زیب نہیں دیتی۔

اگر آپ کو بحث کرنی ہے تو آپ میرے روم میں آئیں یا ہم بنگلادیش آکر آپ سے بات کرنے کو تیار ہیں۔ ماحول بڑا تلخ ہوگیا تھا۔ سب خاموش ہوگئے، لیکن کسی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ بعد میں ہوٹل کی لابی میں ہمارے مترجم نے پاکستانی وفد کے سینئر ممبر جاوید انصاری سے پوچھا کہ مسٹر غازی اتنے غصے میں کیوں تھے؟ جاوید انصاری نے بتایا کہ پاکستان اور بنگلادیش کا مسئلہ بالکل نارتھ اور ساؤتھ کوریا کی طرح کا ہے۔ اس لیے بنگلادیشی وفد کے رکن نے پاکستانی فوج کے متعلق جب نازیبا الفاظ استعمال کیے تو مسٹر غازی نے فوری Shut upکال دی ورنہ بات بہت خراب ہوجاتی۔ اس واقعے کے بعد بنگلادیش کو ہمارے پول سے نکال کر کسی اور پول میں ڈال دیا گیا، جس سے بڑی حد تک تلخی ختم ہوگئی، لیکن ڈائننگ ہال میں ہم ایک دوسرے کو غصے سے ضرور دیکھتے تھے۔

نارتھ کوریا کے بارے میں پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہاں اظہار رائے کی آزادی نہیں، لیکن ایک بڑی اہم چیز جو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی کہ نارتھ کوریا میں BBCاور CNN کے علاوہ، الجزیرہ ٹی وی، جاپانی اور روسی نشریات پر کوئی پابندی نہیں، جب کہ چین میںBBCاور CNNکی نشریات پر پابندی عاید ہے۔ کراچی میں سنیئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر پر حملے اور جیو پر پابندی کی خبر ہم نے BBC پر کوریا کے ہوٹل میں دیکھی، جب کہ بیجنگ میں ان کا اپنا کنٹرول ٹی وی CCTVکے علاوہ اور کوئی چینلز نہیں آتا CCTV ONE,CCTV TWO,CCT NEWS, کے علاوہ آپ کوئی اور غیرملکی نشریات دیکھ نہیں سکتے۔ کورین معاشرہ مکمل طور پر ایک سوشلسٹ معاشرہ ہے۔

اجتماعی قیادت، اجتماعی آزادی اور اجتماعی فوائد، یعنی ہر شخص کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو کہ ہمارے ہاں صرف حکم رانوں کے لیے مخصوص ہیں۔ کامریڈ کم ال سونگ کی JUCHE IDEA پالیسی کا بنیادی نکتہ بھی یہ ہے کہ حکومت، فوج اور عوام مل کر ہی قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ اس پالیسی کے تحت فوج حکومت اور عوام کا حصہ ہے۔ فوج اور عوام کے درمیان ایک گہرا تعلق ہے جس کا مظاہرہ ہم نے ایک سرکس شو کے ہال میں دیکھا، جہاں فوجی افسران اور عوام ایک ساتھ بیٹھے تھے۔ ان کے درمیان کہیں کوئی دوری نہیں تھی۔

1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کے انہدام نے پوری دنیا میں اس بحث کو عام کردیا کہ دنیا میں کمیونسٹ اور سوشلسٹ نظام قطعی طور پر ناکام ہوچکا ہے۔ نارتھ کوریا پر پابندیوں کے باوجود ملک کی بڑھتی ہوئی ترقی دیکھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ نظام کبھی ناکام نہیں ہوتے، بل کہ نظام کو چلانے والے ناکام ہوتے ہیں۔ بالکل اس طرح اگر کوئی یہ کہے کہ پاکستان میں جمہوریت ناکام ہوچکی ہے تو ایسا بالکل نہیں، جمہوریت ناکام نہیں بلکہ جمہوریت کے نام پر آمریت مسلط کرنے والے ناکام ہوچکے ہیں۔

جمہوریت اگر ناکام ہے تو دنیا کے ایک بہت بڑے حصے پر جمہوری نظام کے علاوہ اور کوئی نظام کیوں رائج نہیں؟ ہمیں اپنے رویوں اور سوچ کو بدلنا ہوگا۔ اگر ہم سرداری اور جاگیرداری نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں تو اپنے اندر سے قیادت پیدا کرنا ہوگی، جس طرح کامریڈ کم ال سونگ کی قیادت، جنہوں نے ایک چھوٹے سے گاؤں میں جنم لیا۔ ان کے آباء واجداد نے جاپان سے لڑتے ہوئے کوریا کو آزاد کروایا، جب کہ کامریڈ کم ال سونگ نے امریکا جیسی سپرپاور کے سامنے اپنی قوم کو سرخ رو کیا۔ اس لیے یہ کہنا کہ قیادت کا کوئی رول نہیں ہوتا غلط ہے۔ قیادت گائیڈ لائن اور اہداف کا تعین کرتی ہے۔ قوم میں تنظیم پیدا کرتی ہے، جس سے وہ اپنی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے خود کو زندہ قوم کی حیثیت سے سامنے لاتی ہے اور نارتھ کوریا کی ترقی اس کی زندہ مثال ہے۔

بُک شیلف

$
0
0

تنقیدی افق
مصنف: پروفیسر سحر انصاری
قیمت : 400 روپے،ناشر: ڈاکٹر سید جعفر احمد ڈائریکٹر پاکستان اسٹڈی سینٹر جامعہ کراچی 75270

دو عدد شعری مجموعے ’’نمود‘‘ اور ’’خدا سے بات کرتے ہیں‘‘ کے بعد ممتاز شاعر، نقاد، ماہر تعلیم، ہر جا یکساں مقبولیت و شہرت رکھنے والے پروفیسر سحر انصاری کے تنقیدی مضامین پر مشتمل کتاب ’’تنقیدی افق‘‘ کی اشاعت یقیناً ایک خوش آئند بات ہے۔ ادبی حلقے ایک عرصے سے ان کی تنقیدی کتابوں کے منتظر تھے۔

اس کتاب کے مرتب و ناشر ڈاکٹر سید جعفر احمد قابل داد ہیں کہ انھوں نے پروفیسر سحر انصاری کے مضامین (جو دست یاب ہوئے) کو اکٹھا کرکے کتابی شکل میں یک جا کیا، اس بارے میں ڈاکٹر سید جعفر احمد لکھتے ہیں، ’’اس کتاب میں جو مضامین شامل کیے گئے ہیں ان کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، پہلے حصے میں نظری نوعیت کے مضامین ہیں ان میں ادب کے منصب، ادبی مسائل، ادب کے بدلتے ہوئے رجحانات، سائنسی عہد میں ادب کی نوعیت اور کردار، آزادی کی تحریک کے دوران اور آزادی کے بعد کے ماہ و سال میں ادب کے کردار پر بحث کی گئی ہے۔ دوسرے حصے میں کلاسیکی دور سے لے کر عصر حاضر تک کے ادیبوں اور شاعروں میں سے چند ایک ایسے تخلیق کاروں پر لکھے گئے مضامین شامل ہیں جن سے ہمارے ادب کا اعتبار قائم ہوا۔‘‘

پروفیسر سحر انصاری کا مطالعہ کتب وسیع ہے، اردو، انگریزی، فارسی اور ہندی کے کلاسیکی اور جدید ادب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم پر بھی گہری نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے طرز تحریر میں تمام تر لوازمات مکمل حوالوں کے ساتھ ملتے ہیں اور ان کی تحریریں پڑھنے والے کو بھی صاحب علم بنانے میں معاونت کرتی ہیں، میں خود گذشتہ 29 سال سے پروفیسر سحر انصاری کو ادب کی تعلیم کی اور ادب سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی مخلصانہ راہ نمائی، مدد کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میرے جیسے لاکھوں ان کے مداح ہیں، حقیقی طور پر سحر انصاری ان معدودے چند لوگوں کی فہرست میں شامل ہیں۔

جن کے ساتھ رہ کر آپ کا وقت ضائع نہیں ہوتا آپ بہت کچھ سیکھتے ہیں، پروفیسر سحر انصاری نے بہت ہی اہم ادبی موضوعات اور شخصیات پر لکھا ہے۔ ان میں سے بیشتر مواد اس کتاب میں شامل نہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سحر انصاری کی وسیع و عریض لائبریری کی تلاشی لے کر اور پرانے ادبی جریدوں کو کھنگال کر مضامین یک جا کیے جائیں اور انھیں بھی کتابی شکل دی جائے۔ سحر انصاری نے تو ’’تنقیدی افق) میں بے ترتیب زندگی بسر کرنے کا اعتراف کرلیا ہے۔تاہم یہ نہیں بتایا کہ انھوں نے اپنے آپ کو کتنے حصوں میں تقسیم کررکھا ہے تعلیم، ادب، ادبی و سماجی تقریبات، نوجوان ادیبوں کی راہ نمائی، مشورے، اصلاح، آرٹس کونسل کراچی (جس میں وہ مسلسل کئی سالوں سے کثیر تعداد میں ووٹ لے کر منتخب ہوتے آرہے ہیں) گھریلو مصروفیات اپنے بچوں کی راہ نمائی، ان تمام حصوں میں تقسیم سحر انصاری شان دار ادب تخلیق کر رہے ہیں، ایسا ادب جس کے پڑھنے سے ایم اے اردو کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ ادب سے تعلق رکھنے والے شاعر و ادیب یکساں مستفیض ہوسکتے ہیں، اس کتاب کی اہمیت و افادیت سے انکار ممکن نہیں۔

نواز شریف کا سیاسی سفر
مصنف: راشد لطیف
قیمت: 500 روپے، ناشر: JF ایسوسی ایٹس SB-4 سیکٹر X-V، گلشن معمار، کراچی

144 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ’’نوازشریف کا سیاسی سفر‘‘ جیسا کہ نام ہی سے ظاہر ہورہا ہے، نواز شریف پر تحریر کی گئی ہے۔ نوازشریف وہ خوش قسمت کاروباری شخصیت ہیں جو سابق آمر جنرل محمد ضیاء الحق کی مہربانی سے کوچۂ سیاست میں داخل ہوئے اور پھر چھاگئے۔

اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ میں وہ پہلی شخصیت ہیں جو تیسری بار وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حیثیت سے حکم رانی کررہے ہیں۔ زیرنظر کتاب میں مصنف نے نوازشریف کے ابتدائی دور سے لے کر ان کے تین بار وزیراعظم مقرر ہونے، جلاوطنی، وطن آمد اور ان کی رفاعی اسکیموں کے حوالے سے مثبت انداز میں تفصیلات بیان کی ہیں۔ نوازشریف کے کچھ مضبوط فیصلوں جن میں غلام اسحاق خان (سابق صدر پاکستان) کے خلاف اسٹینڈ لینا، قومی مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے کا ذکر بھی کیا ہے۔

نوازشریف کی شخصیت اور سیاست اور تیسری بار وزیراعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان منتخب ہونے پر اراکین اسمبلی و اہم ملکی شخصیات جن میں محمد برجیس طاہر، عابد شیر علی، رانا تنویر حسین، سینیٹر مشاہد اﷲ خان، سینیٹر عبدالرحمٰن ملک، شیخ روحیل اصغر، محمد امین فہیم، ایس ایم منیر (ممتاز کاروباری شخصیت) ہمایوں خان مندوخیل، اعجاز الحق، ذوالفقار کھوسہ، سلیم ضیا اور دیگر کی آراء بھی شامل کی گئی ہیں۔ مجموعی طور پر سب کی رائے میں نواز شریف سیاست میں نفاست پسند طبیعت، صاف (صاف گو شخصیت، شریف النفس، محب وطن راہ نما ہیں۔ راشد لطیف نے ذاتی محبت کو زمینی حقائق پر ترجیح دیتے ہوئے بہت سے اختلافی مسائل کو پرکھنے سے گریز کیا ہے۔

وہ خود بھی لکھتے ہیں کہ میں ایک پیدائشی مسلم لیگی ہوں، میں یہ کتاب اس لیے شائع کر رہا ہوں کہ ’’عوامی سطح پر نوازشریف سے ناراض لوگوں کو بتاسکوں، سمجھاسکوں کہ شیر اس وقت مسائل کے آہنی پنجرے میں بند ہے۔‘‘ راشدلطیف نے لکھتے ہوئے کئی بار تسلسل کو توڑا ہے۔ بعض جگہ صفحات نامعلوم وجوہ سے خالی بھی نظر آتے ہیں تو ادھورے بھی، مثلاً صفحہ 20 پر سابق آرمی چیف جہانگیر کرامت کے حوالے سے راشد لطیف نے لکھا ہے،’’نوازشریف کو جنرل جہانگیر کرامت کی یہ بات ناگوار گزری انھوں نے فوجی جنرل سے پوچھا کہ آپ نے یہ بات اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے کی ہے؟ اس کے بعد صفحہ خالی ہے اور یہ بات بھی ادھوری رہ جاتی ہے۔

ایسا لگا کہ جیسے اس کے بعد سنسر لگ گیا ہو موجودہ صورت حال میں یہ بات عمومی طور پر کہی جارہی ہے کہ نواز شریف اپنے انہی ساتھیوں کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں جن کے مشوروں پر چل کر انہوں نے اپنی پچھلی حکومت گنوائی تھی، دوسری طرف یہ خیال اب بھی کیا جارہا ہے کہ شہباز شریف نواز شریف کی نسبت زیادہ بہتر فیصلہ کرنے اور یک جہتی کے ساتھ چلنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان تمام امور پر اور نواز شریف پر کرپشن کے الزامات، جائیداد میں بے تحاشا اضافے سعودیہ میں شریف محل کے حوالے سے اٹھنے والے سوالات، کسی پر راشد لطیف نے بحث یا حقائق سمیٹنے کی شعوری کوشش نہیں کی ہے۔ کتاب کی قیمت بہت زیادہ ہے۔ نواز شریف سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ اہم دستاویزی کتاب ہے۔

ذرے میں کواڑ
شاعر: امتیاز الحق امتیاز،قیمت: 200 روپے
ناشر: مثال پبلی کیشنز، رحیم سینٹر، پریس مارکیٹ، فیصل آباد

معیاری شاعری کبھی بھی کسی فرقے، گروپ، یا مخصوص افراد تک محدود نہ رہی ہے نہ رہے گی یہ تو جس پر مہربان ہوتی ہے اس سے شعر کہنے کی ریاضت شروع کرادیتی ہے، خواہ وہ اعلیٰ عہدے پر فائز آفیسر ہو یا رکشہ چلانے والا یا پھر اینٹیں چُن کر دیوار بنانے والا مزدور۔ اسی لیے آج ہمارے ہاں ادبی خزانے میں شاعری کے بے پناہ عمدہ نمونے مختلف ذرائع سے اکٹھے ہوئے ہیں۔ ایبٹ آباد گو بڑے شہروں کی بہ نسبت ایک چھوٹا سا مگر پُرامن خوب صورت شہر ہے جس میں معیاری اشعار کہنے والوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے بس ضرورت انھیں موقع ملنے کی ہے۔ کچھ جوان شعرا نسیم عباسی، رستم نامی، پرویز ساحر، جان عالم، ڈاکٹر ضیاء الرشید، واحد سراج، احمد حسین مجاہد کی صف میں ایک نمایاں نام امتیاز الحق امتیاز کا بھی ہے۔

’’ذرے میں کواڑ‘‘ ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے، جو اچھی طباعت اور معیار کے ساتھ مناسب قیمت پر شائع ہوا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد صفیان صفی نے امتیاز کی شاعری پر رائے دیتے ہوئے لکھا ہے،’’امتیاز کی شاعری کی بنیادی خصوصیت اس کا موضوعاتی تنوع اور اسلوبیاتی پُرکاری ہے۔‘‘ امتیاز الحق امتیاز کے ہاں اسلوبیاتی پُرکاری ہے یا نہیں، تاہم موضوعاتی تنوع کے مختلف نمونے ضرور ملتے ہیں۔ مجھے امتیازالحق امتیاز کی شاعری کی جو نمایاں خوبی محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری کو کسی مخصوص دائرے میں قید نہیں رکھا، بلکہ محسوسات، مشاہدات، آپ بیتی اور جگ بیتی کے تمام لوازمات کو سمیٹ کر ’’ذرے میں کواڑ‘‘ کی شکل دی ہے۔
اب صدائے حق نہیں کافی عروج دار پر
مختلف ہے دُکھ ہمارے عہد کے منصور کا
۔۔۔۔۔۔
مکیں ہوتے تو آوازیں بھی ہوتیں
یہ گاؤں بس دکانوں سے بھرا ہے
۔۔۔۔۔
امتیاز اور تو کچھ بھی نہیں ہوتا ان سے
مری بے چینی بڑھادیتے ہیں خدشات مرے
امتیاز الحق امتیاز، مزدور طبیعت رکھتا ہے۔ سو محنت مزدوری، بھوک افلاس، اس کی حسیات کا اہم ترین جزو بن کر شاعری میں پروئے ہوئے ملتے ہیں اور یہ بہت خوب صورت جذبہ ہے، جو مکمل طاقت کے ساتھ قاری کو متوجہ کرتے ہیں، بھرپور طنز کے ساتھ:
گھروں میں پیٹیاں گندم سے خالی
مگر قصبہ کسانوں سے بھرا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔
آج بھی یہ برف باری سارا دن جاری رہی
آج بھی بھوکا رہا بچہ کسی مزدور کا
امتیاز الحق امتیاز نے نظمیں بھی اس مجموعے میں شامل کی ہیں، ان میں ’’بے خوابی‘‘ ترجیح، فرسٹریشن، کسک، اعزاز، المیہ، لے پالک اور تو نمایاں ہیں۔ ان میں ’’تو‘‘ بہت متاثر کن ہے اور اپنے موضوع کے لحاظ سے کئی زاویوں کو مکمل کرتی ہے، ملاحظہ ہو:’’مرے سگ، اے مرے گھر کے محافظ سگ، وفاداری پہ تیری، کوئی شک مجھ کو نہیں، لیکن، ترے خلیوں میں، تبدیلی کی صورت میں، تری پہچان کی حس، مرگئی تو؟‘‘امتیاز الحق امتیاز، محنتی باحوصلہ، توانا، لب و لہجے کا شاعر ہے، ادب اس سے اہم توقعات برائے مستقبل وابستہ کیے ہوئے ہے۔

مرے کشکول میں ہیں چاند سورج
شاعر … عارف شفیق
قیمت … 150 روپے،ناشر … ادبی دنیاSP/1 بلاک i فیز نائن فلور الکرم اسکوائر ایف سی ایریا، کراچی

عارف شفیق کا شمار ان شعرا میں کیا جاتا ہے جنھوں نے اپنی ادبی شناخت کا حوالہ اپنے اشعار کو بنایا اور اندرون ملک اور بیرون ملک ان کے کئی اشعار سفر کرتے کرتے ضرب المثل کی حیثیت بھی اختیار کرگئے مثلاً:

غریب شہر تو فاقے سے مرگیا عارف
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی

عارف شفیق، حبیب جالب کی طرح تو قدآور نہیں ہوسکے، تاہم ان کا ایک حوالہ انقلابی شاعر کا بھی ہے۔ ان کا وژن اس لحاظ سے محدود ہے کہ وہ اسے صرف کراچی شہر تک محدود کیے ہوئے ہیں، کراچی سے محبت اور اس شہر پر ٹوٹنے والے ظلم اے شعر کہنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور کوئی شک نہیں کہ انہوں نے متوازن لہجے کے ساتھ خوب صورت اور آواز رکھنے والی شاعری کی ہے۔ لیکن زیرِتبصرہ کتاب ’’مرے کشکول میں ہیں چاند سورج‘‘ مجھے عارف کے پچھلے سارے شعری مجموعوں سے مختلف محسوس ہوئی وہ عشق مجاز سے عشق حقیقی کی طرف پلٹے ہیں اور اپنے نام کی طرح عرفان و معرفت کے دروازے چھونے کی شعوری کوشش کی ہے:

اگر دل میں نہ ہو عشق محمدؐ تو یقیں کرلو
کوئی انسان بھی عارف خدا کو پا نہیں سکتا
۔۔۔۔۔۔
اس لیے وقت سحر جاگ رہا ہوتا ہوں
میں پرندوں سے ترا ذکر سنا کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔
وہ ایک بیج کو پہلے شجر بنائے گا
پھر اس شجر کو پرندوں کا گھر بنائے گا

اسی طرح سے اولیاء اﷲ اور قلندروں کی طرف بھی عارف نے رجوع کیا ہے اور یہ اثر بھی بہت گہرا اثر ہے جو مضبوطی سے انہیں جکڑے ہوئے ہے۔ کتاب کے پہلے صفحے پر درج شعر:

میں نہ درویش نہ صوفی نہ قلندر عارف
اور ہی کچھ مجھے وجدان بنادیتا ہے

کے ساتھ ساتھ اس کتاب کا انتساب معروف روحانی شخصیت حضرت عبداﷲ شاہ غازیؒ کے نام سے منسوب ہے اور ان پر کیے گئے وارفتگی شوق اور عقیدت سے گندھے ہوئے اشعار بھی اس کتاب میں شامل ہیں، کچھ دیگر اولیاء اﷲ کا بھی ذکر ان کے ہاں ملتا ہے، کچھ مصرعے اور کچھ اشعار اسی تناظر میں:

سخی شہباز سا کوئی قلندر آنہیں سکتا
۔۔۔۔
میں پھر کشکول لے کر آگیا عبداﷲ شاہ غازی
۔۔۔۔۔
جاری ہے داتا کا لنگر اور فقیری کیا ہوتی ہے
۔۔۔۔۔
ہیں اس میں کتنے صوفی قلندر بسے ہوئے
لگتا ہے اپنا دل مجھے ملتان کی طرح

عارف شفیق نے مجذوبیت کی کیفیت میں ڈوب کر شاعری کی ہے اور ان کا اپنا رنگ بھی اس شعری مجموعے کی کئی غزلوں میں شامل ہے۔ اس میں کراچی شہر، گولیاں، قتل، بھاری بوٹوں کی آہٹ، سب شامل ہیں۔ انھوں نے اپنے والد محترم معروف شاعر شفیق بریلوی کے لیے جو اشعار کہے اس میں سے ایک شعر ملاحظہ ہو:

گھر سے چیخیں اٹھ رہی ہیں اور میں جاگا نہ تھا
اتنی گہری نیند تو پہلے کبھی سویا نہ تھا

عارف شفیق کا یہ شعر بھی اس کی والدین سے محبت کا واضح ثبوت ہے

دنیا کے ہر غم سے ہوکر بے گانہ
ماں کی گود میں سر رکھ کر سوجاتا ہوں

عارف شفیق نے ’’درویشی کی راہ چلادے پیارے اﷲ سائیں‘‘ دعا مانگی ہے، سو انھیں ان کی منزل مبارک ہو۔ کتاب کی قیمت بہت مناسب ہے اور یقیناً یہ ایک متوازن لب و لہجے کا شعری مجموعہ ہے جو قاری کو گرفت میں لیے رکھتا ہے۔

امید بہار رکھ
مصنفہ: کلثوم واحد
قیمت:750 روپے،ناشر: اسد واحد پبلی کیشنز، B-239 بلاک 2، پی ای سی ایچ ایس، کراچی 29 ،تقسیم کار: توکل اکیڈمی 31 نیو اردو بازار کراچی

576 صفحات پر مشتمل اس نثری مجموعے میں مصنفہ کلثوم واحد کی 17 کہانیاں، 2سفر نامے اور ایک مختصر ناول آسماں کا اشارہ شامل ہے۔ یقینی طور پر یہ ایک ضخیم تخلیقی مجموعہ ہے، جسے پڑھنے کے لیے وقت درکار ہوتا ہے۔ مصنفہ نے اپنی تحریروں کے حوالے سے خود لکھا ہے،’’میں نے اپنا پہلا افسانہ لکھا اور ماہنامہ ’’دوشیزہ‘‘ کو ارسال کردیا۔ بہت خوشی اور اعتماد حاصل ہوا جب اسے پذیرائی ملی، رعنا فاوقی جیسی مستند مصنفہ سے داد اور ہمت افزائی نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا۔

کئی دیگر رسائل میں بھی لکھا لیکن زیادہ تعلق ’’دوشیزہ‘‘ ہی سے رہا تقریباً میرا ہر دوسرا افسانہ ایوارڈ کا مستحق ٹھہرا۔‘‘ اس تحریر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اس کتاب میں جتنی بھی تخلیقات کو جمع کیا گیا ہے سب کے سب ڈائجسٹوں کے لیے لکھی گئی ہیں اور ڈائجسٹوں کے لیے تحریر کردہ کہانیاں ایک خاص مزاج کی حامل ہوتی ہیں اور انھیں کسی طور بھی ادبی تحریر نہیں سمجھا گیا۔

مصنفہ نے اپنی تحریر میں لفظ ’’افسانہ‘‘ استعمال کیا ہے، جب کہ اس کتاب میں جتنی تحریریں شامل ہیں وہ ’’کہانیاں‘‘ ہیں۔ سفر نامے متوازن ہیں، جو معلومات کے ساتھ ساتھ مصنفہ کی تحریر پر مضبوط گرفت کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ مصنفہ نے اپنی کہانیوں میں معاشرے کے مختلف کرداروں پر بات کی ہے ’’آئینہ روبرو‘‘ میں خواتین کی منافقت اور مفاد پرستی پر تلخی سے لکھا ہے۔ ’’بے مہر آسماں‘‘ کاری کے موضوع پر لکھی گئی روایتی تحریر ہ، اسی طرح سے دیگر کہانیاں بھی مختلف موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہیں۔

کچھ کہانیاں معیاری ہیں کچھ کم زور، کچھ کا اختتام مصنفہ سنبھال نہیں سکیں، جیسے ’’چیلینج‘‘ ایک ایسے موضوع پر لکھی گئی کہانی ہے جس میں بہت سے تلخ سوالات ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ میرے خیال میں مصنفہ اسے مزید بہتر لکھ سکتی تھیں۔ بہرحال ساری کہانیوں، سفر نامے اور ناول کو پڑھنے کے بعد ایک بات تو یقینی اور حتمی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ کلثوم واحد نثر لکھنے کا ہنر رکھتی ہیں اور یہ بات ہی کافی ہے۔ یہ کہانیوں کا مجموعہ گھریلو خواتین کے لیے وقت گزاری کا ایک اہم وسیلہ ہے۔

رہیے اب ایسی جگہ چل کے جہاں کوئی نہ ہو

$
0
0

سائبیریا میں موسم گرما طویل نہیں ہوتا، اس خطے میں مئی میں بھی جگہ جگہ برف دکھائی دیتی ہے، جب کہ مئی کے مہینے میں دنیا کے مختلف خطے بہت گرم ہوتے ہیں۔

اس خطے میں ستمبر آتے ہی ایک بار پھر شدید سردی لوٹ آتی ہے جو پورے خطے کو منجمد کریتی ہے۔ دور دور تک بکھرے ہوئے بے ترتیب بلند و بالا جنگلی درختوں اور ان میں سوتے ہوئے ریچھوں اور بھیڑیوں کے سوا یہاں اور کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ کہیں کہیں وادیوں میں سفید دودھیا پانی کے جھاگ اڑاتے دریا اس علاقے کی وحشت میں اور بھی اضافہ کرتے ہیں۔

یہ سائبیریا کے ابا کان نامی ڈسٹرکٹ کا علاقہ ہے جو بلند درختوں کے جنگل پر مشتمل ہے۔ سائبیریا روس کے تیل اور معدنیات کے اکثر وسائل کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ یہ جنوب کا سب سے ویران اور غیرآباد جنگل تھا اور یہ کہانی 1978کے موسم گرما کی ہے۔ ماہرین ارضیات کی ایک پارٹی ایک ہیلی کاپٹر میں سوار اس خطے کا سروے کررہی تھی، یہ لوگ خام لوہے کی تلاش میں یہاں آئے تھے۔

انہیں ہیلی کاپٹر اتارنے کے لیے کسی صاف جگہ کی تلاش تھی، مگر دور دور تک سوائے گھنے جنگلوں کے اور کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پھر انہیں بلند درختوں کے بیچ میں دریا کی پتلی سی لکیر دکھائی دی، جس کا پانی بڑے طوفانی انداز سے بہہ رہا تھا۔ مگر یہاں وادی کی دیواریں بالکل عمودی تھیں، پھر گھنے درختوں کی چھتریوں نے بھی نیچے کا منظر ڈھانپ لیا تھا۔

ان میں اترنے کے لیے کوئی جگہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ مگر پائلٹ کی نظریں مسلسل ایسی جگہ تلاش کررہی تھیں، جہاں وہ ہیلی کاپٹر کو اتار سکے۔ یکایک اسے درختوں کے درمیان ایک پہاڑی پر نسبتاً صاف جگہ دکھائی دی جو اس سے پہلے وہاں کبھی نظر نہیں آئی تھی۔ اس صاف جگہ پر پگ ڈنڈی جیسی لکیریں دکھائی دیں۔ پائلٹ نے ہیلی کاپٹر میں موجود ماہرین ارضیات کو اس طرف متوجہ کیا تو ان سبھی نے اس منظر کو غور سے دیکھا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ یہاں ضرور انسانی آبادی ہے۔

نیچے ایک باغ بھی دکھائی دے رہا تھا جو یقینی طور پر انسان کی موجودگی کی گواہی دے رہا تھا۔یہ ایک غیرمعمولی انکشاف اور اہم ترین کھوج تھی۔ یہ پہاڑ قریب ترین انسانی آبادی سے لگ بھگ 150میل دور تھا۔ سوویت عہدے داروں کے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں تھا جو یہ بتاسکے کہ اس ڈسٹرکٹ میں کبھی کوئی انسان رہا ہے۔ یہاں تو دور دور تک انسان کا وجود بھی نہیں تھا۔ ماہرین ارضیات اس انکشاف پر خوش ہونے کے بجائے پریشان ہوگئے۔ لیکن انہوں نے اس کا کھوج نکالنے کا فیصلہ کیا۔ چناں چہ روسی ماہرارضیات گیلینا پسمین کایا کی قیادت میں ایک پارٹی روانہ ہوگئی، جو اس انکشاف کی تصدیق کرنے گئی تھی کہ یہاں بھی انسان رہتے ہیں یا نہیں۔ ان لوگوں نے اپنے ان نادیدہ دوستوں کے لیے کچھ تحفے بھی ساتھ رکھ لیے تھے جن سے وہ ملنے جارہے تھے۔

کافی طویل اور مشقت بھرا پہاڑی سفر طے کرنے کے بعد جیسے ہی یہ لوگ پائلٹ کی بتائی ہوئی جگہ کے قریب پہنچے تو انہیں انسانی آبادی کے آثار دکھائی دینے لگے۔ انہوں نے نسبتاً ایک پتھریلا اور ہموار راستہ دیکھا، پھر ان کی نظر پانی کے چشمے پر رکھے درخت کے تنے پر پڑی جو یقیناً اسے عبور کرنے کے لیے رکھا گیا تھا۔ پھر انہیں ایک چھوٹا سا شیڈ دکھائی دیا، جس میں کٹے ہوئے خشک آلوؤں کا ڈھیر رکھا تھا۔ بہتے چشمے کے برابر میں درختوں کے تنوں سے بنایا ہوا ایک جھونپڑی نما گھر تھا، جسے گزرتے وقت کی سختی اور شدید موسم نے بالکل سیاہ کردیا تھا۔

اس جھونپڑی کے اطراف میں کوڑے کرکٹ کے ساتھ درختوں کے تنوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔ یہ کسی بھی طرح خوشگوار منظر نہیں تھا۔ٹیم کی قائد گیلینا کا کہنا ہے:’’ہم سوچ رہے تھے کہ اس ویران گھر میں کوئی رہتا بھی ہے یا نہیں، مگر پھر ہمیں وہاں انسان کے رہنے کا ثبوت مل گیا۔ جھونپڑی کا پرانا اور بوسیدہ دروازہ چرچراتا ہوا کھلا اور دن کی روشنی میں ایک بہت بوڑھا انسان باہر نکلا۔ وہ پریوں کی کہانیوں کا کردار لگ رہا تھا۔ وہ ننگے پیر تھا، اس کے جسم پر درختوں کی نرم چھال کا لباس تھا جس میں جگہ جگہ پیوند لگے ہوئے تھے۔ اپنی بے ترتیب لمبی داڑھی اور سر کے الجھے ہوئے بالوں کی وجہ سے وہ کوئی بھوت لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوف بھی تھا اور شک بھی۔

میں نے اسے سلام کیا اور کہا:’دادا! ہم آپ سے ملنے آئے ہیں۔‘
پہلے تو بوڑھا کچھ نہ بولا، مگر پھر اس نے جواب دیا:’تم لوگ اتنی دور سے یہاں آئے ہو تو چلو اندر آجاؤ۔‘ہم لوگ جھونپڑی کے اندر داخل ہوئے تو حیران رہ گئے۔ وہ جانوروں کے رہنے کا کوئی بل یا بھٹ لگ رہا تھا جسے بنانے میں جو چیز ہاتھ لگی، استعمال کرلی گئی تھی۔ اس کا فرش بہت سرد اور سخت تھا، اس پر آلو کے چھلکے اور صنوبر کے درختوں میں لگنے والے گری دار پھل کے خول ڈھیر کی صورت میں پڑے ہوئے تھے۔ اندر ایک ہی کمرہ تھا جو جگہ جگہ سے شکستہ ہورہا تھا۔ درختوں کے لٹھوں سے اس کی دیواریں، فرش اور چھت بنائی گئی تھی۔ یہاں پانچ افراد رہتے تھے۔ اچانک ہم نے کسی کے رونے کی آواز سنی تو دو عورتوں کے سائے دکھائی دیے۔

ایک عورت روتے ہوئے کہہ رہی تھی:’’اے خدا! ہمیں معاف کردے، یہ سب ہمارے گناہوں کی سزا ہے جو ہمیں مل رہی ہے۔‘‘
دوسری عورت اسے دیکھتے دیکھتے فرش پر ڈھیر ہوگئی۔ ہم نے صورت حال کی نزاکت محسوس کرلی تھی، وہ عورتیں ہمیں کوئی ناگہانی مصیبت سمجھ رہی تھیں، ہمارا وہاں سے جلدازجلد باہر نکل جانا ہی مناسب تھا۔‘‘
چناں چہ اپنی قائد گیلینا کی قیادت میں تمام سائنس داں وہاں سے تیزی سے باہر نکلے اور چند گز دور جاکر رک گئے، جہاں انہوں نے تھوڑا بہت کھایا پیا اور مسلسل جھونپڑی کی طرف دیکھتے رہے۔ کچھ دیر بعد جھونپڑی کا دروازہ کھلا اور بوڑھا اپنی دونوں بیٹیوں کے ساتھ باہر نکلا۔ وہ دونوں پُرسکون تو تھیں، مگر ابھی تک خوف زدہ تھیں۔ کچھ ہچکچاہٹ کے ساتھ وہ اپنے مہمانوں کے پاس آکر بیٹھ گئیں۔

سائنس دانوں کی ٹیم نے آنے والوں کو جام، جیلی، چائے اور ڈبل روٹی پیش کی، مگر انہوں نے کچھ نہ لیا بلکہ سرگوشی کے انداز میں کہا:’’ہمیں یہ سب کھانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘گیلینا نے خواتین سے پوچھا:’’کیا تم نے کبھی ڈبل روٹی کھائی ہے؟‘‘ خواتین تو کچھ نہ بولیں، لیکن بوڑھے نے جواب دیا:’’میں نے تو کھائی ہے، لیکن ان میں سے کسی نے نہیں کھائی۔ یہ لوگ تو پہلی بار اسے دیکھ رہی ہیں۔‘‘

دونوں بہنوں نے آپس میں بات چیت کی، مگر ان کا لہجہ کچھ ٹوٹا ٹوٹا سا تھا، جو غالباً طویل عرصے تک مہذب دنیا سے دور رہنے کا نتیجہ تھا۔
اس فیملی سے سائنس دانوں کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ اس کے بعد وہ کئی بار وہاں گئے تب کہیں جاکر انہیں اس گھرانے کے حالات معلوم ہوئے۔ اس بوڑھے کا نام کارپ لیکوف تھا۔ وہ مذہبی طور پر روسی آرتھوڈوکس فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ لوگ بہت مذہب پرست بھی ہوتے ہیں اور قدامت پرست بھی۔ ان کی قدامت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کارپ لیکوف سترھویں صدی کے انداز میں عبادت کرتا تھا جس میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ وہ مذہبی اعتبار سے اولڈ بیلیورز میں شامل تھا۔

پھر کارپ لیکوف نے اس حوالے سے بات چیت شروع کی۔ وہ اس طرح بول رہا تھا جیسے یہ سب کل ہی ہوا ہو۔ اس کے نزدیک پیٹر اعظم اس کا ذاتی دشمن تھا اور انسانی شکل میں مسیح کا باغی تھا۔ روس کے زار نے جب روس کا جدید بنانے کی مہم شروع کی تھی تو اس نے مسیحیوں کی داڑھیاں صاف کروادی تھیں۔ کارپ نے ایک تاجر کی شکایت بھی کی جس نے بوقت ضرورت کٹر مسیحیوں کو آلو دینے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اس بات نے کارپ کو بہت دکھی کیا تھا۔ بعد میں جب روسی اشتراکیت کے لوگ اقتدار میں آئے تو لیکوف فیملی کے لیے اور بھی مشکلات پیدا ہوگئیں۔ سوویت دور میں یہ کٹر مذہب پرست پہلے ہی سائبیریا کے طرف بھاگ گئے تھے، بعد میں مزید دور چلے گئے، تاکہ وہ جدیدیت کے عذاب سے بچ سکیں۔

1930کے عشرے میں جب خود مسیحیوں کے لیے بھی مشکلات بڑھیں تو لیکوف کے بھائی کو گاؤں کے مضافات میں کمیونسٹ اہل کاروں نے اس وقت گولی ماردی جب وہ اپنے بھائی کے ساتھ کام کررہا تھا۔ یہ دیکھ کر لیکوف اپنے فیملی کو لے کر گھنے جنگل کے اندر چلا گیا اور وہاں چھپ گیا۔ بعد میں پیٹراعظم نے داڑھی والوں کے خلاف ٹیکس لگادیا، جو لوگ ٹیکس نہیں دیتے تھے، ان کی داڑھیاں زبردستی منڈوادی جاتی تھیں۔یہ 1936کا زمانہ تھا۔ اس وقت لیکوف فیملی میں صرف چار افراد باقی بچے تھے:

کارپ لیکوف، اس کی بیوی اکولینا، ایک بیٹا سیوین جس کی عمر اس وقت نو سال تھی اور بیٹی نٹالیا جو اس وقت صرف دو سال کی تھی۔ اپنا تھوڑا بہت سامان اور کچھ بیج لے کر یہ لوگ جنگل میں مزید اندر چلے گئے، جہاں انہوں نے اپنے رہنے کے لیے جھونپڑیاں بنائیں، مگر وہ وہاں بھی نہیں رکے اور زیادہ اندر کی طرف بڑھتے چلے گئے، یہاں تک کہ وہ موجودہ ویرانے میں پہنچے جہاں انہیں اطمینان تھا کہ وہاں کوئی نہیں پہنچ سکے گا۔ اس فیملی میں وہاں دو بچے اور بھی پیدا ہوئے۔ 1940میں دمتری پیدا ہوا اور 1943 میں اگافیا کی پیدائش ہوئی۔ ان دونوں بچوں میں سے کسی نے بھی اپنی فیملی ممبرز کے علاوہ کسی اور انسان کو نہیں دیکھا تھا۔ بیرونی دنیا کے بارے میں دمتری اور اگافیا جو کچھ جانتے تھے، وہ انہیں اپنے ماں باپ کی سنائی ہوئی کہانیوں سے پتا چلا تھا۔

لیکوف خاندان کے بچوں کو یہ معلوم تھا کہ ایسی جگہیں بھی ہیں جنہیں شہر کہتے ہیں اور جہاں انسان اونچی اونچی عمارتوں میں ٹھنسے ہوئے رہتے ہیں۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ دنیا میں روس کے علاوہ بھی ملک ہیں۔ پڑھنے کے لیے ان کے پاس صرف یا تو دعائیہ کتابیں تھیں یا پھر ایک قدیم ترین فیملی بائبل۔ اکولینا نے اپنے بچوں کو انہی کتابوں کی مدد سے لکھنا پڑھنا سکھایا تھا، جس کے لیے درختوں کی لکڑی سے قلم بنائے گئے تھے اور شہد کو بطور سیاہی استعمال کیا گیا تھا۔ جب اگافیا کو بائبل کی کہانیوں میں ایک گھوڑے کی تصویر دکھائی گئی تو اس نے جلدی سے کہا :’’پاپا! جنگی گھوڑا!‘‘

اس فیملی کے لیے لباس درخت کے ریشے سے تیار کردہ کپڑے سے بنایا جاتا تھا۔ لیکوف فیملی اپنے ساتھ اس جنگل میں کپڑا تیار کرنے کی ایک لوم اور دوسرے اوزار لے گئے تھے، جنہیں اٹھاکر وہ اس ویران اور گھنے جنگل میں گھومتے تھے جہاں زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ وہاں ایک بڑا مسئلہ دھات کا تھا۔ ان کے پاس دو تین کیتلیاں تھیں، جنہوں نے چند سال کام چلایا، مگر جب ان پر زنگ لگ گیا تو انہیں چھوڑنا پڑا۔ اس جنگل میں دھات کا نعم البدل صرف درختوں کی لکڑی یا چھال تھی، لیکن اگر لکڑی یا چھال سے برتن تیار کیے جاتے تو ان میں آگ پر کھانا پکانا ممکن نہیں تھا۔ اس وقت تک لیکوف فیملی یہ تو جان چکی تھی کہ ان کی بنیادی خوراک آلو تھا جس میں رائی اور سن کے بیج ملاکر پکایا جاتا تھا۔ یہ ڈش بہت مزے دار تو نہیں ہوتی تھی، لیکن بہرحال پیٹ بھردیتی تھی۔

بعد میں جب یہ کہانی سائبیریا اور روس کے دیگر اخبارات تک پہنچی تو ان کے نمائندے بھی لیکوف فیملی سے ملنے گئے اور انہوں نے ان کے حالات لکھے۔ ان میں پیسکوف نامی صحافی بھی تھا۔ اس نے اس ویران جگہ کو پرفضا قرار دیتے ہوئے لکھا تھا:’’ان کے گھر کے برابر میں صاف پانی کا چشمہ بہتا تھا، صنوبر، دیودار اور شاہ بلوط کے بلند و بالا درخت تھے اور بالکل قریب ہی رس بھری اور بلیو بیری سے لدے درخت تھے۔ صنوبر کے درختوں سے میوے خود بہ خود ان کے گھر کی چھت پر گرتے رہتے تھے، گویا قدرت نے ان کے کھانے پینے کا انتظام کررکھا تھا۔ انہیں جلانے کے لیے ڈھیروں لکڑی میسر تھی۔ عام زندگی میں یہ ایک طلسماتی اور خواب ناک قسم کا ماحول تھا جہاں آلودگی نام کو بھی نہیں تھی۔ ایسے ماحول میں رہنے کا تصور کون نہیں کرے گا۔‘‘

اس کے باوجود لیکوف خاندان ہمیشہ فاقہ کشی کا شکار رہتا تھا۔ اس فیملی کو گوشت اور کھال کی ضرورت تھی۔ پھر 1950کے عشرے میں دمتری بڑا ہوگیا تو اس نے پہلی بار جانوروں کو شکار کیا۔ ان کے پاس نہ بندوقیں تھیں اور نہ تیر کمان، اس کے لیے دمتری نے یہ طریقہ نکالا کہ وہ جانوروں کے پیچھے لگ جاتا اور انہیں خوف زدہ کرکے پہاڑوں میں اس قدر دوڑاتا کہ وہ تھک ہار کر خود ہی ڈھیر ہوجاتے۔ دمتری بہت سخت جان تھا، وہ اس شدید موسم میں ننگے پیر پھرتا تھا، پہاڑوں میں دوڑنے میں اس کا جواب نہیں تھا۔ بعض اوقات تو وہ کئی کئی دن بعد گھر لوٹتا تھا اور اکثر منفی چالیس درجے سینٹی گریڈ میں جب ہر طرف برفانی دھند چھائی ہوتی تھی، وہ کھلے میدان میں اطمینان سے سوجاتا تھا، جب کہ اس کے کندھے پر شکار کیا ہوا ہرن بھی لدا ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے اپنے گھر کے قریب فصلیں بھی اگانی شروع کردی تھیں، مگر جنگلی جانور اکثر ان کی گاجر کی فصل کو تباہ کردیتے تھے۔ اگافیا نے 1950کے اواخر کو ’’بھوک کے سال‘‘ قرار دیا ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں ہم نےrowanberry یا سماک کوہی کے پتے کھاکر گزارہ کیا تھا۔’’ہم جڑیں، گھاس پھوس، مشروم، آلو کی کونپلیں اور درختوں کی چھال تک کھالیتے تھے پھر ہماری بھوک ختم نہیں ہوتی تھی۔ ہر سال ہمیں فکر ہوتی تھی کہ کیا کھائیں اور کیا مستقبل کے لیے بچائیں۔‘‘1961میں جون کے مہینے میں برف باری ہوئی جس نے باغ میں اگنے والی ہر چیز تباہ کردی، موسم بہار تک یہ حال ہوا کہ اس فیملی کو اپنے جوتے اور چھال کھانی پڑی۔ اکولینا کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح اس کے بچوں کا پیٹ بھرجائے، اسی لیے وہ اکثر خود بھوکی رہتی تھی۔ چناں چہ اس سال وہ فاقہ کشی سے مرگئی۔ لیکن باقی لیکوف فیملی کے ساتھ ایک ناقابل یقین کرشمہ ہوگیا، ان کے باغ میں رائی کی ایک کونپل پھوٹی، پورے گھر نے اس کونپل کی دن رات حفاظت کی، اسے برف، ہوا اور گلہریوں و چوہوں سے بچایا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رائی کی فصل ایک بار پھر جی اٹھی۔

یہ ساری کہانی سننے کے بعد سوویت ماہرین ارضیات کو یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ لیکوف فیملی بہت باہمت اور ذہین ہے۔ بوڑھا کارپ ان جدید ترین ایجادات کو دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا جو ماہرین وہاں ساتھ لائے تھے۔ لیکن وہ یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ انسان چاند پر پہنچ چکا ہے۔ وہ ٹرانسپیرنٹ سیل فون دیکھ کر حیران رہ گیا۔ کارپ کا سب سے چھوٹا بیٹا سیوین سخت مزاج انسان تھا۔ کارپ اکثر یہ سوچ کر پریشان ہوتا تھا کہ اس کی موت کے بعد سیوین اس کی فیملی کے ساتھ کیا سلوک کرے گا۔ نٹالیا نے اپنی ماں کی موت کے بعد اس کی جگہ سنبھالی تھی، وہ کھانا بھی پکاتی تھی اور گھر کی دیکھ بھال بھی کرتی تھی، مگر سب سے بڑے بیٹے کی جانب سے اسے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔

لیکوف فیملی میں ماہرین کا پسندیدہ فرد دمتری تھا۔ وہ ایک جفاکش اور سخت جان انسان تھا اور اس سرد و بے رحم خطے کے مزاج کو خوب سمجھ چکا تھا۔ اسی نے سب سے پہلے اپنے گھر میں چولہا بنایا تھا اور درخت کی لکڑی سے بالٹیاں اور ٹوکریاں تیار کی تھیں۔ وہی لکڑی کے بڑے لٹھوں کے چھوٹے ٹکڑے کرتا تھا تاکہ چولہے میں آسانی سے جلایا جاسکے۔ سائنس داں دمتری کو ایک بار سوویت کیمپ لے گئے جہاں وہ آراء مل دیکھ کر حیران رہ گیا، وہاں لکڑے کے بڑے بڑے ٹکڑے نہایت آرام سے کاٹے جارہے تھے، جب کہ دمتری کو یہی کام کرنے میں کئی کئی دن لگ جاتے تھے۔مگر کارپ لیکوف اس سائنسی ترقی سے متاثر نہیں ہوا، بلکہ اس نے خود کو ان جدید ایجادات سے اس لیے دور رکھا، کیوں کہ اس کی نظر میں یہ سب گناہ تھا، خدا سے بغاوت تھی۔

وہ جدید ترقی کو خدا کی نافرمانی قرار دیتا تھا۔ ماہرین نے ان لوگوں کو تحفے تحائف دینے کی کوشش کی، مگر انہوں نے نمک کے سوا اور کچھ قبول نہ کیا۔ البتہ بعد میں انہوں نے اور چیزیں بھی لے لیں۔ سوویت ماہرین کے ساتھ یورفی سیڈوف نامی ایک ڈرلر بھی تھا جس نے لیکوف فیملی کو کاشت کاری کے جدید طریقے سکھائے۔اپنے جدید دوستوں سے اس فیملی نے چاقو، چھری، کانٹے، ہینڈل اور اناج کے تحفے بھی لے لیے تھے، یہاں تک کہ قلم، کاغذ اور ایک الیکٹرک ٹارچ کا تحفہ بھی قبول کرلیا تھا۔ انہوں نے اور بھی کئی چیزیں لیں، لیکن ٹیلی ویژن ان کی نظر میں بہت بڑا گناہ تھا، اس لیے انہوں نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارہ نہ کیا۔ مگر سائنس دانوں کے اصرار پر وہ اسے سمجھنے کی کوشش کرنے لگے۔ کارپ تو ٹی وی اسکرین کے سامنے ہی بیٹھ گیا، مگر اگافیا دوسرے کمرے میں پردے کی اوٹ سے اس طرح دیکھتی رہی جیسے وہ بہت بری چیز ہے، کیوں کہ اس دوران وہ مسلسل مختلف دعائیں پڑھتی رہی، البتہ کارپ نے ٹی وی دیکھنے کے بعد خدا سے خوب توبہ کی۔

لیکوف فیملی کی قسمت کا افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ جیسے ہی اس فیملی کے روابط بیرونی دنیا سے قائم ہوئے تو اس کا زوال شروع ہوگیا۔ 1981میں چار میں سے تین بچے چند روز کے فرق سے مرگئے۔ ماہرین نے یہ خیال ظاہر کیا کہ چوں کہ وہ آلودگی سے بچے ہوئے تھے، اس لیے محفوظ تھے، مگر جیسے ہی ان کا رابطہ مہذب دنیا سے ہوا تو ان پر مختلف بیماریوں اور وائرسز نے حملہ کردیا جس کی وجہ سے وہ اپنی جانوں سے گئے۔ سیوین اور نٹالیا کے گردے فیل ہوگئے، جب کہ دمتری نمونیہ کی وجہ سے مرگیا۔ یقینی طور پر اسے انفیکشن کا تحفہ اس کے نئے دوستوں سے ملا ہوگا۔دمتری کی موت نے سائنس دانوں کو ہلاکر رکھ دیا، کیوں کہ انہوں نے دمتری کی جان بچانے کی سرتوڑ کوشش کی تھی۔

انہوں نے اسے وہاں سے لے جانے کے لیے ہیلی کاپٹر بھی منگوانے کی پیش کش کی تھی، مگر دمتری نے انکار کردیا اور مرنے سے پہلے سرگوشیوں میں صرف اتنا کہا:’’میں اپنے گھر سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ میرے مذہب نے مجھے یہ سب کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ مرگیا۔لیکوف خاندان کے تین افراد کی موت کے بعد ماہرین ارضیات نے کارپ اور اگافیا کو اپنے ساتھ چلنے کو کہا تاکہ وہ انہیں ان کے رشتے داروں کے پاس پہنچادیں جو اس وقت تک بھی قدیم گاؤں میں رہتے تھے، مگر دونوں نے منع کردیا اور اپنے گھر میں رہنا پسند کیا۔ 16فروری1988کو کارپ لیکوف نیند کی حالت میں مرگیا۔اگافیا نے اسے سائنس دانوں کی مدد سے پہاڑی ڈھلوان پر دفن کرایا اور واپس اپنے گھر چلی گئی۔ اس نے کہا:’’میرا خدا میری حفاظت بھی کرے گا اور مجھے کھانے کو بھی دے گا۔‘‘

آج لیکوف فیملی میں صرف اگافیا زندہ ہے۔ باقی پانچ افراد دنیا سے جاچکے ہیں۔ اگافیا آج بھی اپنے گھر میں اکیلی رہتی ہے۔ لیکن بعد میں اس نے اپنا ارادہ بدلا اور کسی کو اپنے پاس بلانے کا فیصلہ کیا۔ چوں کہ اب اس کا رابطہ سائبیریا کے اخبارات سے ہوچکا ہے، اس لیے اس نے سائبیریا کے ایک اخبار میں یہ اپیل شائع کرائی ہے کہ مسیحی مذہب کو ماننے والا کوئی فرد اس کے پاس آجائے تاکہ اسے بھی کسی کا ساتھ مل جائے، کیوں کہ وہ اس حقیقت کو جان چکی ہے کہ زندگی لوگوں کے ساتھ رہنے میں ہے، ان سے الگ رہنے میں نہیں ہے۔ وہ جب تک زندہ ہے، لوگوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔

صحت

$
0
0

گرمی سے بچاؤ کے لیے قدرتی خوراک
ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث دور حاضر میں جہاں موسم گرم طویل تر ہوتا جا رہا ہے، اسی طرح سخت موسم کے اثرات سے خود کو بچانا بھی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ہر ذی روح گرمی کے اثرات بد سے بچنے کی فکر اور کوشش میں ہے۔ گرمی کے موسم میں پیاس، پسینہ اور گھبراہٹ کے تاثرات عام طور پر پائے جاتے ہیں۔

پسینہ گوکہ انسانی بدن کے لئے صحت مندی کی علامت ہے، کیوں کہ یہ انسانی جسم سے مضر اور فاضل مادوں کو خارج کرنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے لیکن بعض اوقات بداحتیاطی سے مفید اجزاء بھی بدن انسانی سے خارج ہو جاتے ہیں، جو پھر جسمانی کمزوری کا باعث بنتا ہے۔ ایسے میں جسمانی توانائی کو برقرار رکھنا نہایت ضروری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے غذا پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے پھلوں کا استعمال زیادہ کریں، جن میں پانی کی مقدار زیادہ اور ان کی تاثیر ٹھنڈی ہو۔ یہاں ہم آپ کو ایسی غذاؤں کے متعلق آگاہ کریں گے جن کے استعمال سے گرمی کو مات دی جا سکتی ہے۔

تربوز:عرصہ دراز سے بچوں اور بڑوں کے پسندیدہ پھل تربوز سے زیادہ کوئی چیز انسانی جسم کو گرمی کی حدت کے مضر اثرات سے بچاؤ میں فوقیت نہیں رکھتی۔ تربوز میں 90 فیصد پانی ہوتا ہے اور یہ انسانی جسم کو پانی کی کمی کا شکار نہیں ہونے دیتا۔ تربوز میں وٹامن اے اور سی شامل ہونے کے علاوہ یہ کینسر اور دل کی بیماریوں کے بچاؤ میں بھی نہایت مفید ہے۔

خربوزہ:پانی کی بھرپور مقدار رکھنے والا خربوزہ انسانی جسم کو ڈی ہائیڈریشن سے بچاتا ہے۔ خربوزے میں کیلوریز اور پوٹاشیم کم مقدار ہونے کی وجہ سے یہ وزن میں کمی کا بھی باعث بنتا ہے۔

ترش پھل:مالٹا، انگور اور لیموں جیسے ترش پھل بہت زیادہ ٹھنڈی تاثیر رکھتے ہیں۔ مزیدار ذائقوں کے علاوہ یہ پھل آپ کو صحت مند اور جوان بنائے رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ترش پھل نظام انہضام کو بہتر بنا کر عمومی صحت کو برقرار رکھتے ہیں۔

کھیرا، گاجر، سلاد اور پودینہ:پھلوں کے علاوہ ٹھنڈی تاثیر رکھنے والی سبزیاں بھی موسم گرما میں انسانی جسم کے لئے نہایت مفید ہیں۔ ہمارے ہاں بہت ساری ایسی سبزیاں پائی جاتی ہیں، جو جسمانی درجہ حرارت کو کم ہونے روکے رکھتی ہیں۔ایسی سبزیوں میںکھیرا، گاجر، سلاد اور پودینہ شامل ہیں جن میں پانی کی ایک خاص مقدار شامل ہوتی ہے جو خون کو پتلا اور جسمانی درجہ حرارت میں کمی لاتی ہیں۔

مشروبات:سبزیوں اور پھلوں کے علاوہ مشروبات کا چناؤ بھی عقلمندی سے کیا جائے۔ ایسے مشروبات استعمال کئے جائیں، جو صرف ذائقے کے لئے نہ ہوں بلکہ جسم میں نمکیات کی کمی کو بھی پورا کریں۔

لہسن: دماغ کے کینسر کے لیے اکسیر
واشنگٹن میں کی گئی تازہ ترین تحقیق کے مطابق لہسن کسی بھی طرح کے مضر اثرات کے بغیر دماغی کینسر کے خاتمہ کیلئے نہایت مفید ہے۔ کینسر جرنل میں شائع ہونے والی نئی تحقیق میں محققین کا کہنا ہے کہ لہسن نہ صرف دماغ میں کینسر کی پیدائش بلکہ اسے پھیلنے سے روکنے کیلئے بھی مدافعتی آکسیجن پیدا کرتا ہے۔

دماغ کے کینسر کے علاج کیلئے عمومی طور پر کیموتھراپی یا ریڈی ایشن کا سہارا لیا جاتا ہے جو بدقسمتی سے دماغ کے خلیوں کو بھی مار دیتی ہے، پھر یہ علاج بھی تقریباً 15ماہ تک چلتا ہے۔ مزید برآں کیموتھراپی کا سہارا لینے والے کینسر کے 90فیصد مریض علاج کے 10سے 15سال بعد فوت ہو جاتے ہیں۔ نئی تحقیق اس حوالے سے شاندار ہے کہ لہسن کے ذریعے کینسر کے علاج میں دماغی خلیے محفوظ رہتے ہیں۔ امریکہ میں کی جانے والی ایک اور تحقیق میں کہا گیا ہے کہ لہسن میں پائے جانے والے اجزاء اینٹی بائیوٹک ادویات سے سو فیصد زیادہ موثر ثابت ہو سکتے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ لہسن کے باقاعدہ استعمال سے قوت مدافعت بڑھتی ہے جو کینسر سے بچاؤ میں بے حد معاون ثابت ہوتی ہے۔ لہسن میں موجود سلفر کے اجزا جسم کی قوت مدافعت کو بڑھاتے ہیں جبکہ متعدد وبائی امراض کو روکنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ سبزیوں میں لہسن کو (فوائد کے حوالے سے) نمایاں مقام حاصل ہونے کی وجہ سے گزشتہ 20 برسوں کے دوران اس پر کم و بیش 3 ہزارتحقیقات کی جاچکی ہیں۔غذائی اجناس پر ہونے والی نئی تحقیق کے مطابق بلڈپریشر کی بیماری کے علاج میں لہسن کا استعمال کسی بھی دوائی سے کئی درجے بہتر ہے۔

یہ حیران کن تحقیق گزشتہ روز پاکستان جرنل آف فارماسیوٹیکل سائنسز میں شائع ہوئی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ لہسن کا استعمال بلڈپریشر کے ایسے مریضوں کے لئے بھی نہایت مفید ہے، جنہیں ہائپر ٹینشن (خون کا غیرمعمولی دباؤ) کا مرض بھی لاحق ہو۔ ہائپر ٹینشن ایک ایسا مرض ہے جس کی وجہ سے ترقی پذیر ممالک میں موت کی شرح ایک فیصد ہے۔ ہائپر ٹینشن کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے جو ہارٹ اٹیک کا باعث بھی بنتا ہے۔ لہسن دراصل قدیم و روایتی طریقہ علاج میں بھی امراض قلب کے مریضوں کے لئے اکسیر سمجھا جاتا تھا۔

طبی ماہرین نے لہسن کی افادیت جس میں کولیسٹرول یا خون کو گاڑھا کر دینے والے چکنے مادے کو کم کرنے اور بلند فشار خون کے علاج کے طور پر قدرت کے اس تحفے کو کبھی بھی بے اثر نہیں سمجھا۔ طبی ماہرین کے مطابق درحقیقت 12سوایم جی پر مشتمل لہسن کی خوراک بلڈپریشر کم کرنے کے لئے مارکیٹ میں دستیاب معروف دوائی سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔ آج جہاں ہائی بلڈ پریشر یا بلند فشار خون کے لئے مختلف ادویات کا استعمال عام ہو گیا ہے، وہاں طبی سائنس کے شعبے میں ریسرچ کرنے والے ترقی یافتہ ممالک میں بھی محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس ضمن میں لہسن کا استعمال نہایت مفید ہے۔

ہلدی نفسیاتی امراض کے لیے مفید اور زود اثر
لندن میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق گوکہ مسائل زندگی کو بامقصد ، دلچسپ اور سرگرم رکھتے ہیں لیکن اگر یہ مسائل ذہنی صحت سے متعلق ہوں تو جینا مشکل بھی کر دیتے ہیں اور انسان جب اپنے مسائل کے سامنے ہار مان لیتا ہے تو اس کا ذہن بیمار ہونے لگتاہے جس کی وجہ سے اس میں کئی قسم کی ذہنی و نفسیاتی بیماریاں پیدا ہونے لگتی ہیں۔

نفسیاتی و ذہنی بیماریوں کے علاج کے لئے مارکیٹ میں بے شمار ادویات موجود ہیں لیکن حال ہی میں ہونے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق ڈپریشن کے علاج میں ہلدی روایتی ادویات سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہے۔ درد اور زخموں کے علاج وغیرہ کے لئے ہلدی کا استعمال تو قدیم زمانوں سے کیا جا رہا ہے، جس کا ذکر قدیم مذہبی کتب میں بھی ملتا ہے لیکن نئی سائنسی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہلدی الزائمر(دما غی بیماری) اور ڈپریشن کے علاج میں بھی نہایت معاون ثابت ہوتی ہے۔ محققین کی تحقیق کے دوران ہلدی کے جادوئی مرکبات سامنے آئے ہیں۔

محققین نے ڈپریشن کے علاج میں ہلدی اور پروزک (نفسیاتی بیماری کے علاج کی دوائی کا نام) کے اثرات جاننے کے لئے 60 مریضوں پر ایک تحقیق کی، جنہیں تین گروپوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 6ہفتوں کے کورس میں ایک گروپ کو صرف پروزک (20ایم جی)، دوسرے کو صرف ہلدی کا مرکب اور تیسرے کو پروزک اور ہلدی کا مرکب دونوں دیئے گئے۔

تحقیق کے نتائج میں یہ بات سامنے آئی کہ پروزک اور ہلدی کا مرکب اکٹھا لینے والوں میں 77.8فیصد، صرف پروزک لینے والوں میں 64.7فیصد جبکہ صرف ہلدی کا مرکب استعمال کرنے والوں میں 62.5 فیصد بہتری آئی لیکن ان نتائج کے باوجود محققین ہلدی کو سب سے زیادہ فائدہ مند قرار دیا ہے ۔

کیوں ہلدی کے حوالے سے مثبت چیز یہ ہے کہ اس کے استعمال سے پروزک کے برعکس کوئی ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹ) رونما نہیں ہوئے۔ ان نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے محققین نے ہلدی کو پروزک سے کہیں زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔ انڈہ، سبزی، مچھلی کے ساتھ ہلدی کا استعمال انسانی صحت کے لئے بہت مفید ہے کیوں کہ یہ نہ صرف متعدد بیماریوں سے بچاتا ہے بلکہ پہلے سے موجود بیماری کے علاج میں بھی معاونت کرتا ہے، لہذا ہلدی کو روزمرہ کی غذاؤں کا ضرور حصہ بنایا جائے۔

نیم اور چقندر… حسن وصحت کے خزانے
سائنسی تحقیق جڑی بوٹیوں کے حوالے سے آئے روز نت نئے انکشافات کر رہی ہے، حال ہی میں نیم کے درخت پر ہونے والی نئی ریسرچ نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ جلد، بالوں اور عمومی صحت پر حیران کن مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ نیم اور تلسی کے پتوں کو پیس کر یا ان دونوں کے پاؤڈر کو عرق گلاب میں ملا کر چہرے پر لگانے سے کیل مہاسوں کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

نیم کے پتوں میں شامل مرکبات جلد سے جھریوں کے خاتمے اور اسے نرم و ملائم بنانے میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ نیم کے پتوں کے تیل کا استعمال جلد کو نہ صرف ملائم بناتا ہے بلکہ بڑھتی عمر سے جلد میں پڑنے والی جھریوں کے خاتمے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔ آنکھوں کے گرد پڑنے والے سیاہ حلقے انتہائی بھدے دکھائی دیتے ہیں، جن سے خصوصاً خواتین کو شدید پریشانی کا سامنا ہوتا ہے تو اس مشکل کا آسان اور مکمل حل بھی نیم کے پتوں میں مضمر ہے۔ چہرے کو تازہ پانی سے دھونے کے بعد نیم کا پاؤڈر آنکھوں کے گرد پڑنے والے سیاہ حلقوں پر لگائیں اور 15منٹ بعد دوبارہ چہرہ دھو لیں۔

روزانہ اس مشق سے آپ سیاہ حلقوں کے خاتمہ میں واضح فرق محسوس کریں گے۔ روشن اور دمکتی جلد کے لئے نیم، (پھول کی) پتی کے پاؤڈر ، دہی اور دودھ کو ملا کر لگائیں اور 15منٹ بعد دھو لیں تو آپ دیکھیں گے کہ کیسے آپ کی جلد نکھرتی چلی جائے گی۔ شلجم کی مانند معروف ترکاری چقندر کے بارے میں ایک نئی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ اس میں اینٹی ٹاکسڈ پوٹینشل (عمل تکسید کو روکنے کی صلاحیت) بہت زیادہ ہے، جو نہ صرف علاج بلکہ بیماریوں سے بچاؤ کا بھی بہت بڑا ذریعہ ہے۔ اس ترکاری کے حیرت انگیز فوائد نے دنیا کی بڑی بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کو اپنی طرف راغب کر لیا ہے۔

چقندر میں موجود اجزاء (اینٹی ٹاکسڈ) آنکھوں سمیت جسم کے تمام حصوں کی صحت کے لئے نہایت مفید ہے۔ یہ تحقیق کرنے والے ایریزونا ہومیوپیتھک کے صدر اورامریکن ہومیو پیتھی میڈیکل کالج کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ایڈورڈ کونڈروٹ کا کہنا ہے کہ ’’چقندر کے ذریعے ہمیں آنکھوں کی بیماریوں کے قدرتی علاج میں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے، رنگوں سے بھرپور خوراک رنگین بصارت دے گی‘‘۔ منہ کی کسی بھی بیماری کے لئے چقندرکے رس کا ایک کپ (جو5سو ایم جی نائٹریٹ پر مشتمل ہوتا ہے) نہایت فائدہ مند ہے۔

مزید برآں چقندر کے جوس کا ایک کپ پینے سے بلڈ پریشر کو 10درجے تک کم کیا جا سکتا ہے جبکہ بعض افراد میں یہ جوس کا کپ بلڈپریشر کو نارمل سطح پر بھی لے آتا ہے۔ ماہرین کے مطا بق چقندر میں موجود نائٹریٹ خون کی نالیوں کو کھلا کرتا ہے اور بہاؤ کو بڑھاتا ہے جبکہ انجائنا میں مبتلا بہت سے مریضوں کو نائٹریٹ والی ادویا ت کی ہی ضرورت پڑتی ہے۔ واضح رہے کہ بلڈ پر یشر ایک ایسی بیماری ہے، جس پر کنٹرول نہ کیا جائے تو یہ ہارٹ اٹیک اور فالج کا باعث بن سکتی ہے۔

موبائل فون میں بیکٹیریا، ٹوائلٹ میں لے جانے سے گریز کریں
باتھ روم میں فون ساتھ لے کر مت جائیں کیوں کہ ایسا کرنے سے آپ صحت کے مسائل سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ حفظان صحت کے عالمی دن کے حوالے سے سینٹ جوزف ہیلتھ کیئر انفیکشن کنٹرول سینٹر میں ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں سینٹر کی منیجر اینی بیالاچوسکی نے سمارٹ فون اور ٹیبلیٹس پر اپنی تحقیق کے بارے میں شرکاء کو آگاہ کیا۔

بیالاچوسکی کا کہنا ہے کہ الیکٹرانکس کی اشیاء کا مختلف کیمیکلز اور سپرے کے پاس ہونا انسانی صحت کے لئے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

قریب ہی موجود کیمیکلز کے باعث موبائل کی شعاعوں سے ایک خاص قسم کا بیکٹیریا (E.coli) جنم لیتا ہے جو انسان کو فلو میں مبتلا کردیتا ہے، یہ مختلف امراض کی پرورش کا باعث بھی بن سکتا ہے، لہٰذا ہمیں اس بارے میں فکر مند ہونا چاہیے۔

بدقسمتی سے اس بارے میں تحقیقات کا دائرہ کار محدود ہے کہ ہمارے ہاتھ میں موجود آلات سے نکلنے والی شعاعیں ہمیں کتنا اور کس طرح نقصان پہنچا رہی ہیں۔ اینی مزید کہتی ہیں کہ برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق یہاں ہر 6 میں سے ایک موبائل میں یہ بیکٹیریا (E.coli) موجود ہے۔


انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی۔۔۔ انسانیت کے ماتھے پر ایک اور دھبّا

$
0
0

اسلام آباد:  قدیم سے جدید عہد تک فحاشی اور عریانی کی حدود و قیود ہر معاشرے میں گو مختلف رہی ہیں مگر اس کے باوجود تمام الہامی اور غیر الہامی مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ حد سے بڑھا ہوا یہ جذبہ کسی بھی سماج اور معاشرت کی فلاح وبہبود کے لیے زہر قاتل ثابت ہو تاہے لیکن کیا کیا جائے۔

اس خوف ناک تنبیہ کے باوجود فحش اور عریاں مواد اور مواقع سے لطف اندوز ہونے کا چسکا انسان کے اندر سے گیا نہیں۔ شاید اسی لیے یہ جذبہ فحاشی اور عریانی سے لطف اندوز ہونے کے لیے کبھی ڈھکے چھپے، کبھی اشاروں کنایوں اور کبھی کھلم کھلا انداز میں سامنے آہی جاتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس جذبے کی بنیاد جنسی تسکین ہے جو قریباً تمام جان داروں میں ہوتی ہے مگر جب یہ جذبہ فحاشی اور عریانی کی حد میں داخل ہو جاتا ہے تو مخالف جنس کو اپنی جانب متوجہ کرنے سے لے کر جنسی اعضا کی سر عام نمائش (Exhibitionism)سے بھی کہیں آگے نکل جاتا ہے، جس سے سماج اور اخلاقیات کے طے کردہ متفقہ اصول وضوابط ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم اس بات کی تصدیق کرنا چاہیں توہمیں آج بھی انٹرنیٹ کی معلومات سے بھری جدید دنیا میں کچھ تاریک گوشے ایسے بھی نظرآئیں گے، جہاں عریانی اور فحاشی کے ذریعے اخلاقی اقدار کو تباہ وبرباد کرنے کا سارا اہتمام موجود ہے اور اب یہ ہی گوشے پوری دنیا کے لیے ایک گھمبیر مسلہ بن چکے ہیں۔ انٹرنیٹ کی دنیا کا ایک تاریک پہلو آن لائن پورنوگرافی یا فحش ویب سائٹس بھی ہیں جن کے ذریعے بے ہودہ مواد اور فحاشی کا زہر بچوں اور نوجوان نسل کے اندراتارا جارہا ہے۔

آن لائن فحاشی کوآج مغرب کا مسئلہ سمجھ کرآنکھیں بند نہیں کی جا سکتیں کیوں کہ ٹیکنالوجی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی ، میڈیا کے ذریعے ہر روز معصوم بچیوں کے ساتھ جنسی تشدد اور زیادتی کے واقعات منظر ِعام پرآرہے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ بے دار قومیں جدید دنیا کے اس خطرے کو بھانپ چکی ہیں۔ اسی تناظر میں چند دن پہلے جب برطانوی حکومت نے ایک نئے قانون کا اعلان کیا تو یوں محسوس ہوا کہ تمام تر مادر پدرآزادی کے باوجود سماجی ضابطے ابھی اتنے کم زور نہیں ہوئے۔

اس حساس معاملے نے بہت سی فلاحی تنظیموں کو اس وقت چونکا دیا تھا جب لندن میں ایک دس سال کے بچے کو ریپ کیس میں گرفتار کیا گیا۔ اس واقعہ کے بعد بچوں کے تحفظ کی ایک تنظیم کی جانب سے ایک باقاعدہ مہم کا آغاز کیا گیا تھا اورحکومت سے آن لائن فحاشی پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ پیش کیا تھا۔ یوں برطانیہ میں فروخت کیے جانے والے کمپیوٹرز میں کمپیوٹر پہلی مرتبہ لاگ آن ہونے پر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا آپ کے گھر میں بچے ہیں؟ جواب اگر ہاں ہو تو انٹرنیٹ سروس پروائیڈر والدین کو فلٹر انسٹال کر نے کی ہدایت کرتا ہے۔

اس فلٹر کی مدد سے نہ صرف ایسی ویب سائٹس کو بلاک کیا جا سکتا ہے بلکہ والدین خود اپنے بچوں کی سوشل ویب سائٹس پر بیٹھنے کے اوقا ت بھی مقرر کرسکتے ہیں۔ اس فلٹر کو نصب کرنے والے کی عمر 18 سال سے زائد ہونی چاہیے جس کی پڑتال انٹرنیٹ سروس پہنچانے والی کمپنی کرتی ہے ۔اب والدین کو یہ بات یقینی بنانی چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے انٹرنیٹ کے استعمال پر نظر رکھیں۔برطانیہ میں اس قانون کا اطلاق رواں سال کے آخر تک ہوجائے گا۔

نومبر 2013 میں برطانوی اخبار ڈیلی میل میں گوگل کے چیف ایگزیکٹو ایرک شمٹ اپنے ایک مضمون میں لکھا تھاکہ گوگل اور مائیکروسافٹ نے ایسے نئے پروگرام متعارف کروائے ہیں جن کی مدد سے فحش تصاویر کی تلاش کا عمل روکا جا سکے گا۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق ایک لاکھ سے زیادہ سوالات کے نتائج حذف کر دیے گئے ہیں۔

ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جلد ہی 150 سے زیادہ زبانوں میں ان تبدیلیوں کو لاگو کر دیا جائے گا چناںچہ اس کا اثر ساری دنیا پر پڑے گا۔ بچوں کے جنسی استحصال سے متعلق مواد کے بارے میں کمپنی پہلے ہی زیرو ٹالرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اب وہ رسائی روکنے کے لیے مزید سخت انتظامات کر رہی ہے۔

گوگل اور مائیکروسافٹ نے ایسے مواد فراہم کرنے والے نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور انٹرنیٹ واچ فاؤنڈیشن کی مدد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون نے بھی اس اعلان کا خیرمقدم کیا تاہم ان کا یہ بھی کہناتھا کہ اس پر عمل ہونا چاہیے ورنہ وہ اس سلسلے میں نیا قانون لا سکتے ہیں۔کیے جانے والے اقدامات سے شاید برطانوی حکومت کی تسلی نہیں ہوئی تھی اس لیے نئے قانون کی ضرورت محسوس کی گئی، اب اس قانون کے تحت بالغ فحش مواد رکھنے والی انٹر نیٹ ویب سائٹس کو اس بات کا پابند بنایا جائے گا کہ وہ اپنے’’وزیٹرز‘‘ سے ان کی عمر کا ثبوت ہر حال میں حاصل کریں۔ اس قانون کی ضرورت اس لیے پیش آئی کی جب سوچنے والے ذہن پوچھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پربالغان کے حوالے سے موجود فحش مواد تک بچے کس طرح رسائی حاصل کر رہے ہیں؟ فحاشی کا بچوں پرکیا اثر پڑتا ہے یا پھر بچے جنسیات سے متعلق وہ کیا سیکھ رہے ہیں؟ تو ان سوالات کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوتا۔آج ان سوالات نے ترقی یافتہ قوموں کو پریشان کر رکھا ہے۔

انٹرنیٹ سے متعلق ’’اوپٹی نیٹ‘‘ کی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ انٹرنیٹ کا تقریباً 37 فی صد حصہ فحش اور عریاں مواد پر مشتمل ہوتاہے اور حالیہ برسوں میں تو ایسی ویب سائٹس کی تعداد میں بے پناہ اضافہ بھی ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا کے ذریعے ان سائٹس تک رسائی بہت آسان ہو چکی ہے۔

ایک معروف نشریاتی ادارے کی جائزہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک ماہ کے دوران صرف ایک فحش ویب سائٹ کو 112,000 نوجوانوں نے دیکھا جن کی عمریں 12 سے 18 برس کے درمیان تھیں۔ شاید اسی لیے برطانوی حکومت نے فحش ویب سائٹس تک بچوں کی رسائی ناممکن بنانے کے لیے کئی ایک اقدامات شروع کردیے ہیں ۔اب وزیٹرز کو ادارہ برائے ثقافت، میڈیا اور کھیل کی تجاویز کے تحت فحش ویب سائٹس تک رسائی کے لیے کریڈٹ کارڈ یا دیگر دستاویزات سے 18 برس کی عمر کا ثبوت فراہم کرنا ہو گا۔

برطانوی اعدادوشمار کے مطابق ہر 4 میں سے ایک برطانوی بچہ 12 برس یا اس سے بھی پہلے کسی نہ کسی طرح فحش ویب سائٹس سے متعارف ہوجاتا ہے۔ 1000 نوجوانوں میں سے 7.3 فی صد نے پہلی بار 10 برس سے بھی کم عمر میں، 60 فی صد نے 14 برس یا اس سے کم عمری میں فحش مواد تک رسائی حاصل کر لی تھی۔ 62 فی صد کے مطابق غیر متوقع طور پر یا کسی کے اصرار پر ایسی ویب سائٹس دیکھی تھیں۔ 22 فی کا کہنا تھا کہ انھوں نے کی سرچ انجن پر جا کر ایسی ویب سائٹس کو خود تلاش کیا ۔

انٹرنیٹ کے اثرات کے حوالے سے اسکول اساتذہ کی یونین (اے ٹی ایل) کے ایک سروے میں شامل 40 فی صد اساتذہ نے بتایا کہ گذشتہ پانچ برسوں کے دوران طلبا میں جنس کے حوالے سے بات چیت کرنے کے رجحان میں بہت نمایاں اضافہ ہوا ہے مگر اتنی ہی تعداد میں نوجوانوں میں موبائل فون کے ذریعے نازیبا تصاویر اور پیغامات بھیجنے کا رجحان بھی بڑھا۔ اساتذہ کی جانب سے یہ سروے فروری 2014 میں پیش کیا گیا تھا مگرتب برطانوی ہاوس آف لارڈ نے جنس اور تعلقات کی تعلیم کو لازمی بنانے کے ترمیمی قانون کی مخالفت میں ووٹ دیا تھا۔

اگرچہ آن لائن سیفٹی بیش تر ملکوں کے تعلیمی نظام کا حصہ نہیں ہے لیکن ایک نجی تنظیم ’’ لنڈن گرِڈ فار لرننگ‘‘ کی جانب سے انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال سے متعلق آگاہی کے ایک پروگرام کے تحت پرائمری اور سکینڈری اسکولز کا دورہ کیا گیا۔ ’’گلوبل سیفر‘‘ انٹرنیٹ ڈے کے موقع پر تنظیم کی طرف سے جاری کردہ سروے میں لندن کے اسکولوں کے 17,000 بچوں سے ان کے آن لائن مشاغل اوردل چسپوں کے بارے میں معلومات لی گئیں، جن میں19 فی صد بچوں نے بتایا کہ انھیں اکثر ایسی ویب سائٹس نظر آتی ہیں جن کو دیکھ کر وہ ہر گز اچھا محسوس نہیں کرتے، 10 فی صد بچوں نے بتایا کہ انھیں اجنبی افراد کی جانب سے نازیبا پیغامات اور تصاویر موصول ہوتی ہیں۔

جائزہ رپورٹ کے مصنف اور تنظیم سے وابستہ کرسٹین اسمتھ نے آن لائن سیفٹی مہم کے حوالے سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ لندن کے بیش تر اسکولوں میں بچوں کو سائبر جرائم اور آن لائن فحاشی اور اسمارٹ فون پرنازیبا تصاویر کے تبادلے جیسے حساس مسائل کا بھی سامنا ہے اور ان کواس امر سے آگاہی فراہم کرنے کے لیے خصوصی کلاسوں کا اہتمام کیا گیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ کمرۂ جماعت اس حوالے سے بہترین جگہ ہو سکتی ہے جہاں بچے سیکھنے کے لیے جمع ہوتے ہیں اور ان کے اندر سنجیدگی پائی جاتی ہے مگر والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں کی تربیت پر توجہ دیں اور انھیں وقت کے دھارے پر ہی نہ چھوڑیں۔ پاکستان میں گذشتہ پانچ برس کے اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی میں اضافہ ہوا ہے۔

چائلڈ پورنو گرافی کے خلاف، فیس بک اور مائیکرو سافٹ کی مشترکہ مہم
انٹرنیٹ پر چائلڈ پورنوگرافی کے خلاف دنیا کے مختلف ممالک میں کارروائیاں جاری ہیں گو کہ اب مائیکرو سوفٹ اور فیس بک نے مشترکہ طور پر اس گھناؤنے کاروبار کے خلاف منصوبہ بندی کا فیصلہ کیا ہے لیکن اس کے علاوہ بھی دنیا بھر میں انٹرنیٹ پر بچوں کی عریاں فلموں کی ترسیل اور فراہمی روکنے کے حوالے سے کوششیں جاری ہیں جو تا حال وہ کام یابیاں حاصل نہیں ہو کر سکیں جس کی توقع کی جا رہی تھی۔

دونوں کمپنیوں کی جانب سے جاری کیے جانے والے ایک بیان میں بتایا گیا کہ فیس بک اب مائیکرو سافٹ کا تیار کردہ ایک سافٹ ویئر استعمال کرے گا۔اس کی مدد سے فیس بک پر شائع کی جانے والی تصاویر میں بچوں کی عریاں یا کسی بھی حوالے سے غیر اخلاقی تصاویر کا فوری طور پر پتا چل جایا کرے گا۔ اس سافٹ ویئرکوPhoto DNA کا نام دیا گیا ہے۔ اس سافٹ ویئرکا تعلق بچوں کے اغوا اور زیادتی کے روکنے کے حوالے سے قائم کیے گئے اداروں کے ڈیٹا بیس سے ہو گا۔ اس صورت میں تصویر کو فوری طور پر فیس بک سے ہٹا دیا جائے گا اور مجرموں کے بارے میں حاصل کی گئی معلومات اس ملک کے انویسٹی گیشن اداروں کو پہنچا دی جائے گی۔

مائیکرو سافٹ کے مطابق اب تک اس ٹیکنالوجی کی مدد سے دو ارب سے زیادہ تصاویر کی چھان بین کی جا چکی ہے۔ ان میں سے 2500 تصاویر ان بچوں کی تھیں، جن کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ مائیکرو سافٹ کے مطابق Photo DNA سے اس دوران کوئی بھی غلطی سرزد نہیں ہوئی اور تمام معلومات بالکل صحیح تھیں۔ اس دوران یہ بھی یقین دہانی کرائی گئی کہ اس سافٹ ویئر کا فیس بک کی اسپیڈ پرکوئی اثر نہیں پڑے گا اور فیس بک ایسا کر کے انٹرنیٹ انڈسٹری میں ایک مثال قائم کر رہا ہے۔

سیاست دان اور باپ کی حیثیت سے کام کرنے کا وقت آگیا،چائلڈ پورنو گرائی تک رسائی ناممکن بنانا ہوگی۔ ڈیوڈکیمرون
انٹرنیٹ فحاشی سے متعلق صورت حال میں سنگینی اس وقت پیدا ہوئی جب برطانیہ میں پانچ سالہ اپریل جونز اور بارہ سالہ ٹیا شارپ کے قاتلوں نے بچیوں کواغوا کرنے اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے سے پہلے انٹرنیٹ پر موجودغیر قانونی مواد تک رسائی حاصل کی تھی۔

اب آن لائن فحاشی کے خلاف نئے قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرنے کے لیے حکومت نے تمام انٹرنیٹ کمپنیوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ ایسی تمام ویب سائٹس کی سرچ کے نتائج کو بلاک کریں جن میں غیرقانونی فحش مواد موجود ہے جب کہ انھیں ایسا کرنے کے لیے اکتوبر 2014 تک کا وقت دیا گیا ہے اور ساتھ ہی متنبہ کیا ہے کہ اگر انٹرنیٹ کمپنیاں غیر قانونی مواد ہٹانے کیلیے موثر اقدامات کرنے میں ناکام رہتی ہیں تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے۔

نئے منصوبے کے تحت برطانیہ بھر میں انٹرنیٹ سروس پروائیڈر Isp کی جانب سے صارفین کے لیے ایک آٹومیٹک فلٹرمتعارف کرایا جارہا ہے جس کا مقصد انٹرنیٹ کی تاریک دنیا کے زہر سے بچوں کو بچانا ہے۔ یہ آٹومیٹک فلٹر اسی برس کے اختتام پر تمام گھریلو انٹرنیٹ صارفین کو فراہم کیا جائے گا جب کہ موجودہ صارفین کو اگلے برس تک یہ ہی سروس فراہم کی جائے گی۔ انٹرنیٹ کے ذریعے پھیلنے والی فحاشی کے سد ِباب کے لیے نئے منصوبے سے متعلق بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کمپنیوں کی جانب سے فحش مواد کو ہٹانے کے لیے خاطر خواہ کوششیں نہیں کی جارہی ہیں جو کہ ان کا اخلاقی فرض ہے۔

انٹر نیٹ کی تاریک دنیا میں ایسی بہت سی چیزیں موجود ہیں جن سے بچوں کو براہِ راست خطرہ لاحق ہے جسے ہر حال میں روکنا ہو گا اور ایک سیاست دان اور باپ کی حیثیت سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب اس معاملے پر کام کرنے کا وقت آگیا ہے۔ ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ انٹر نیٹ پر بچوں کی پورنو گرائی تک رسائی روکنے کے لئے والدین کو زیادہ آگاہی حاصل کرنی چاہیے، پرائم منسٹر کیمرون نے اعتراف کیا کہ وہ خود ابھی تک اس کش مہ کش میں مبتلا ہیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ انٹرنیٹ پورن کے خطرات کے بارے میں کس طرح بات کریں، اسکولوں میں سیکس اینڈ ریلیشن شپ ایجوکیشن میں انٹرنیٹ پورن کے ایشو کو حل کرنا چاہیے ۔

تاہم انہوں نے ایجوکیشن سیکرٹری مائیکل گوو سے اتفاق کیا کہ نصاب میں ہول سیل ریفارمر کی کوئی ضرورت نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم انٹرنیٹ کے پرابلمز کے بارے میں اپ ٹو ڈیٹ ہیں، میں ایجوکیشن سیکرٹری سے اتفاق کرتا ہوں کہ میں سیکس ایجوکیشن پر نصاب میں ہول سیل ریفارمز نہیں چاہتا، ہمیں ان پوائنٹس کے بارے میں الرٹ ہونا چاہیے اور تبدیلیاں کرنی چاہئیں مگر میرے خیال میں ہول سیل ریفارمز کی ضرورت نہیں۔

ہم سب کو انٹرنیٹ کے متعلق سیکھنا چاہیے، اس کے خطرات کے بارے میں واقفیت حاصل کرنی چاہیے اور بچوں کی رسائی کے ایشو پر معلومات حاصل کرنی چاہییں۔ والدین کو اپنے بچوں کے ساتھ پورن کے بارے میں گفت گو کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور بچوں کی رسائی محدود کرنے کے لیے پیرنٹل کنٹرولز کے استعمال کی آگاہی حاصل کرنی چاہیے۔ وزیر اعظم نے کہا کہ سکول میں سیکس اینڈ ریلیشن شپ ایجوکیشن اس میں مدد کرسکتی ہے لیکن زیادہ تر کمپیوٹر تک رسائی گھروں پر ہوتی ہے، میں اس صورت حال سے خوف زدہ ہوں، اس لیے ہم سب کو آگاہی حاصل کرنے کی ضرورت ہے، میں خود اپنے بچوں سے اس مسئلے پر بات کرنے پر کش مہ کش میں مبتلا ہوں۔

حجاب کی بہار

$
0
0

رمضان المبارک کا آغازہوچکا ہے اوراس کے ساتھ ہی خواتین کے پہناؤں میں بھی خاصی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔

مغربی ملبوسات کی جگہ اب حجاب اورعبایا لے چکے ہیں۔ ایک طرف رمضان میں عبادت کا سلسلہ جاری ہے تودوسری جانب مذہبی روایات کے مطابق حجاب اورعبایا کا استعمال بڑھ گیا ہے۔

خواتین کی بڑی تعداد مارکیٹوں میں خریداری کیلئے نکلتی ہیں تووہ عبایا میں دکھائی دیتی ہیں جبکہ گھراوردفاترمیں کام کرنیوالی خواتین کی اولین ترجیح حجاب ہیں۔

دوسری جانب ’’ایکسپریس‘‘ کیلئے ہونیوالے فوٹوشوٹ کے دوران ماڈلز کا کہنا تھا کہ موسم گرما میں حجاب اور عبایا بہترین لباس ہیں۔

دیس بدیس کے کھانے

$
0
0

کھجور کے لڈو

اجزا:

کھجور (ایک یا ڈیڑھ پیالی) گٹھلی نکال کر کاٹ لیں، مکھن (دو کھانے کے چمچے)، کٹا ہوا بادام، پستہ (تین یا چار پیالی)، کھویا (آدھی پیالی)، کدوکش کیا ہوا ناریل (تین یا چار پیالی)

ترکیب:

ایک پین میں مکھن گرم کر کے کھجور کا گودا تل لیں، اس میں بادام پستہ اور کھویا اچھی طرح ملالیں۔ اس آمیزے کو آدھے گھنٹے کے لیے فریج میں رکھ دیں۔ فریج سے نکالنے کے بعد لڈو بنالیں اور کدوکش کیے ہوئے ناریل میں رول کریں اور پیپر کپ میں سجاکر اپنے افطار کو پر رونق بنائیں۔

اندرسے

اجزا:

پانی (ڈیڑھ پیالی)، چینی (آدھا کلو)، چاول کا آٹا (600 گرام)، کھانے کا سوڈا (آدھا چائے کا چمچا)، تل (ایک پیالی)

ترکیب:

ایک پین میں ڈیڑھ پیالی پانی اور آدھا کلو چینی ڈال کر پکائیں اور چمچا چلاتی رہیں، یہاں تک کہ چینی حل ہو جائے۔ اب اسے چولھے سے اتار کر چاول کا آٹا شامل کریں اور ملاکے دو سے تین گھنٹے کے لیے رکھ دیں۔ سخت ہو جائے، تو اس میں کھانے کا سوڈا شامل کر دیں۔ دوبارہ اچھی طرح ملائیں۔ اس کو رول کی طرح بنالیں، پھر اس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کریں۔ اس کے بعد ہر ٹکڑے کو تل میں گھمائیں کہ اس پر اچھی طرح تل لگ جائیں۔ آخر میں انہیں گرم تیل میں ہلکی آنچ پر تللیں۔ کرارے اور برائون ہوجائیں تو نکال لیں۔ مزے دار اندرسے تیار ہیں۔ افطار کے موقع پر بچے یہ نہایت شوق سے نوش کرتے ہیں۔

کھٹے میٹھے چنے

اجزا:

ابلے ہوئے کالے چنے (250 گرام)، ابلا ہوا آلو (ایک عدد)، تیل (ایک چوتھائی پیالی)، ثابت سفید زیرہ (ایک چائے کا چمچا)، کڑی پتے (20عدد)، ادرک لہسن کا آمیزہ (ایک چائے کا چمچا)، پسی ہوئی لال مرچ (ایک چائے کا چمچا)، نمک (ایک چائے کا چمچا)، املی کا گودا (ایک چوتھائی یا آدھی پیالی)، چینی (ایک چائے کا چمچا)، چاٹ مسالا (ایک چائے کا چمچا)، ہرا دھنیا (گارنش کے لیے)

ترکیب:

ایک پین میں تیل گرم کر کے ثابت سفید زیرہ، کڑی پتے اور ادرک لہسن کا آمیزہ ڈال کر تل لیں۔ اب اس میں پسی ہوئی لال مرچ، نمک ، کالے چنے، املی کا گودا اور چینی اور چاٹ مسالا ڈال کر ملا لیں۔ اس کے بعد اس میں آلو ڈال کر ایک پیالی میں نکالیں۔ آخر میں اسے ہرے دھنیے سے گارنش کر کے دسترخوان پر رکھیں۔

اسپیشل سینڈوچ

اجزا:

انڈے (تین عدد) میش کرلیں، نمک (آدھا چائے کا چمچا)، کالی مرچ (آدھا چائے کا چمچا)، مسٹرڈ پیسٹ (ایک چائے کا چمچا)، مایونیز (تین کھانے کے چمچے)، چیڈر چیز (تین کھانے کے چمچے) کدوکش کرلیں، مکھن (دو کھانے کے چمچے)، ڈبل روٹی کے توس (حسب ضرورت)

ترکیب:

ایک پیالے میں انڈے، نمک، کالی مرچ، مسٹرڈ پیسٹ، مایونیز، چیڈر چیز اور مکھن ڈال کر ملائیں۔ اس کے بعد لیے گئے توست پر رکھ کر اس کے سینڈوچ بنالیں۔ روزہ کھولنے کے بعد ذائقے دار سینڈوچ یقیناً بہت بھلے معلوم ہوں گے۔

چنے کی دال کے پکوڑے

اجزا:

چنے کی دال (ایک پائو)، پسی سرخ مرچ (ایک چائے کا چمچا)، پسا ہوا زیرہ (دو چائے کے چمچے)، باریک کتری ہوئی پیاز (ایک پائو)، نمک(حسب ذائقہ)، ہلدی (آدھا چائے کا چمچا)، کھانے کا سوڈا (آدھا چائے کا چمچا)، ہری مرچیں (آٹھ عدد) باریک کتر لیں، تیل (تلنے کے لیے)

ترکیب:

چنے کی دال کو رات بھر پانی میں بھگو دیں، جب پکوڑے بنانے ہوں تو دال کا پانی نکالیں اور دال کو اچھی طرح پیس لیں۔ اب اس میں نمک، پسی ہوئی سرخ مرچ، ہلدی، پسا ہوا زیرہ، کھانے کا سوڈا، پیاز، ہرا دھنیا اور ہری مرچیں شامل کر کے اچھی طرح ملالیں۔ اس کے بعد تیل گرم کر کے دال کا آمیزہ تھوڑا تھوڑا کر کے پکوڑے کی شکل میں کڑھائی میں ڈالیں اور اچھی طرح تل کر چٹنی یا کیچپ کے ساتھ افطار میں گرما گرم پیش کریں۔

سموسہ چاٹ

اجزا:

سموسے کے لیے: میدہ (دو پیالی)، اجوائن (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)، نمک (آدھا چائے کا چمچا)، گھی (دو کھانے کے چمچے)، پانی (گوندھنے کے لیے)

فلنگ کے لیے: آلو دو عدد (اْبلے ہوئے)، ہری مرچ (دو عدد) کتر لیں، کٹا ہوا ہرا دھنیا (ایک کھانے کا چمچا)، کُٹی ہوئی لال مرچ (آدھا چائے کا چمچا)، چاٹ مسالا (آدھا چائے کا چمچا)، نمک (ایک چوتھائی چائے کا چمچا)

چاٹ بنانے کے لیے: سموسے (دو عدد)، ابلے ہوئے چنے (آدھی پیالی)، پھینٹی ہوئی دہی (آدھی پیالی)، پسی ہوئی لال مرچ (آدھا چائے کا چمچا)، چاٹ مسالا (آدھا چائے کا چمچا)، باریک کتری ہوئی پیاز (دو کھانے کے چمچے)، ہرے دھنیے کی چٹنی (دو کھانے کے چمچے)، املی کی چٹنی (چار کھانے کے چمچے)، سیو (دو سے تین کھانے کے چمچے)

ترکیب: (سموسے کے لیے:)

ایک پیالے میں میدہ، نمک، اجوائن اور گھی ڈال کر پانی کے ساتھ گوندھ لیں۔ اس کے بعد ڈھک کر 30 منٹ کے لیے چھوڑ دیں، پھر اس کے پیڑے بنائیں۔ اب ہر پیڑے کو لمبائی میں بیل کر درمیان سے دو ٹکڑوں میں کاٹ لیں۔اْبلے ہوئے آلو ، کتری ہوئی ہری مرچ، کٹا ہوا ہرا دھنیا، کُٹی ہوئی لال مرچ، چاٹ مسالا اور نمک کو آپس میں ملا کر فلنگ تیار کر لیں۔اس کے بعد ہر ٹکڑے میں فلنگ بھر کے سموسے کی طرح فولڈ کر لیں۔ اب یہ سموسے گرم تیل میں ہلکی آنچ پر گولڈن فرائی کرلیں۔

چاٹ بنانے کے لیے:

ایک پلیٹ میں دو عدد سموسے ڈالیں۔ ہر سموسے کو آہستہ سے دبائیں کہ یہ ٹوٹ جائیں۔ اس پر اْبلے ہوئے چنے اور تھوڑی سی دہی ڈالیں، پھر اس پر لال مرچ اور چاٹ مسالا بھی چھڑک دیں۔ اس کے بعد ہرے دھنیے کی چٹنی اور املی کی چٹنی پھیلا کر ڈالیں۔ آخر میں کتری ہوئی پیاز ڈالیں اور سیو سے گارنش کر کے اپنے افطار کا مزہ دوبالا کریں۔

مضبوط پاکستان بنانا ہے تو خودمختار بلدیہ دینا ہوگی،رشید گوڈیل

$
0
0

ایکسپریس: سینیٹ میں انسانی حقوق کمیشن اور مختلف سیاسی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود تحفظ پاکستان بل ترمیم کے بعد منظور کرلیا گیا، کیا آپ کی جماعت کو اب بھی اس بل پر اعتراضات ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: اس قانون پر ہمیں اب بھی اعتراضات ہیں، میں یہ بات بھی واضح کردوں کہ یہ دراصل تحفظِ پاکستان بل نہیں بل کہ پاکستانیوں کو قتل کرنے کا آرڈینینس ہے۔ سب سے پہلے تو ہمیں یہ واضح کرنا چاہیے کہ پاکستان کا دشمن کون ہے۔ جو پاکستان کا دشمن ہے آپ اُس سے مذاکرات کر رہے تھے۔ ماضی میں بھی ہم نے یہی دیکھا کہ اس طرح کے آرڈینینس کو دہشت گردوں کے خلاف کم اور سیاسی مخالفین کے خلاف زیادہ استعمال کیا گیا اور ایسا ہی ہمارے ساتھ کراچی میں ہورہا ہے۔ ہمارے کئی ساتھیوں کو اٹھاکر شہید کردیا گیا ہے۔ ہمیں اس بل پر اب بھی تحفظات ہیں اور یہ تحفظات ہر محب وطن پاکستانی کو ہونے چاہییں۔

ایکسپریس: تحفظ پاکستان بل کی رو سے گریڈ15 کا پولیس افسر مشتبہ شخص کو گولی مارنے کا مجاز ہے، بہ حیثیت پارلیمانی لیڈر اس قانون کے درست استعمال کو یقینی بنانے کے آپ نے قومی اسمبلی میں کوئی قرارداد پیش کی؟

عبدالرشید گوڈیل: ہم نے اس قانون کے خلاف پارلیمنٹ میں کئی قراردادیں پیش کیں، لیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ یہ تو ’’شوٹ ٹو کِل‘‘ کا قانون ہے۔ اس قانون کے تحت کو کوئی بھی پولیس والا ناپسندیدگی اور محض شک کی بنیاد پر جسے چاہے گولی مار دے اور آپ اسے کسی عدالت میں چیلینج بھی نہیں کرسکتے۔ اس بات پر تو ہمیں سخت تحفظات ہیں۔ صرف متحدہ قومی موومنٹ ہی نہیں، بل کہ تقریباً سب ہی جماعتوں نے اس بل کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اس کے باوجود اس قانون کو منظور کرلیا گیا۔ یہ تو کالا قانون ہے اور کسی بھی کالے قانون کی حمایت نہ کبھی ہمارے قائد اور متحدہ قومی موومنٹ نے کی ہے اور نہ ہی کبھی کرے گی۔

ایکسپریس: شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن عضب کے حوالے سے آپ کی پارٹی کا موقف بہت واضح ہے۔ کیا آپ کی جماعت سمجھتی ہے کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی دہشت گردوں کے خلاف اسی نوعیت کے آپریشن کی ضرورت ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: بالکل اگر پاکستان کو دہشت گردوں سے پاک کرنا ہے، تو کراچی سے پشاور تک، کوئٹہ سے لے کر لاہور تک جہاں، جہاں دہشت گردوں کے ٹھکانے ہیں، وہاں اُن کے خلاف بھرپور کارروائی ہونی چاہیے۔ ان دہشت گردوں کا کوئی مسلک، مذہب، زبان نہیں ہے۔ یہ دینِ اسلام کے نام پر پاکستان کو توڑنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ یہ اسلام کو بھی بدنام کر رہے ہیں اور پاکستان کو بھی۔ ہمارے ایجنڈے میں تو پاکستان کی سالمیت اور بقا سرفہرست ہونی چاہیے۔ ہمیں ان شدت پسندوں کے خلاف جنگ کرنے والی پاک فوج کی بھرپور حمایت کرنی چاہیے، کیوں کہ جنگیں ہمیشہ عوام کی مدد سے جیتی جاتی ہیں۔

ایکسپریس: ایم کیو ایم کراچی میں انتہاپسندوں اور طالبان کی مختلف علاقوں میں موجودگی کی نشان دہی کرتی رہی ہے، لیکن بعض حلقوں نے اسے لسانی سوچ سے تعبیر کیا۔ کیا اب یہ حلقے آپ کے موقف سے اتفاق کرتے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: دیکھیں لیڈر اور ویژنری لیڈر میں فرق ہوتا ہے۔ یہ جو پاکستان میں خودساختہ، حادثاتی لیڈر بنے ہوئے ہیں، ان کی سوچ بہت محدود ہے، ان کی سوچ ایک دائرے کے گرد ہی گھومتی ہے۔ ہمارے قائد نے آج تک جو بھی کہا ہے اسے تین سال، چار سال بعد حکومتِ پاکستان، سیاسی اور مذہبی حلقوں اور صحافی برادری نے بھی تسلیم کیا اور کہنے پر مجبور ہوئے کہ الطاف بھائی کی بات بالکل درست تھی۔ الطاف بھائی نے2008 میں کہا تھا کہ طالبان کراچی کا رخ کر رہے ہیں، پناہ گاہیں بنا رہے ہیں، تو اُس وقت تمام سیاسی، مذہبی جماعتوں نے اس بات کا مذاق اڑایا تھا۔ باتیں بنائی گئی تھیں کہ ایم کیو ایم پختونوں کے خلاف ہے، اسی لیے اس طرح کی باتیں کی جارہی ہیں، حالاں کہ جتنے پختون ہماری جماعت میں ہیں، اتنے کسی جماعت میں نہیں ہیں۔

ہماری جماعت میں ہر زبان، مسلک کے لوگ شامل ہیں۔ الطاف بھائی نے جب کراچی میں طالبانائزیشن کی بات کی تو سب جماعتوں کی جانب سے یہی تاثر دیا گیا کہ شاید ایم کیو ایم پختونوں خلاف ہے، لیکن پھر بعد میں وقت نے الطاف بھائی کی بات کو ثابت کیا اور تقریباً چار سال بعد کٹی پہاڑی پر ہونے والے ایک واقعے کے بعد اُس وقت کے وزیر داخلہ رحمان ملک نے کراچی میں طالبان کی موجودگی کا اعتراف کیا۔ اُس کے بعد متعدد واقعات نے کراچی میں طالبان کی موجودگی کو ثابت کیا۔

ایکسپریس: کراچی اور شمالی وزیرستان کے حالات اور جغرافیے میں واضح فرق ہے۔ کراچی میں اگر ان عناصر کے خلاف آپریشن ہوا تو اس کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟

عبدالرشید گوڈیل: شمالی وزیرستان پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں کراچی جتنی گنجان آبادی بھی نہیں ہے۔ کراچی میں بھی شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس کا طریقۂ کار بالکل مختلف ہوگا۔ کراچی میں آپ فضائی کارروائی نہیں کرسکتے، کیوں کہ یہ بہت گنجان آباد شہر ہے، یہاں آپ کو انٹیلی جینس بنیادوں پر بھرپور ایکشن کرنا ہوگا۔ ہماری پاک فوج زیادہ بہتر سمجھتی ہے کہ اس شہر کو، صوبے کو پورے ملک کو ان دہشت گردوں سے کس طرح پاک کرنا ہے۔

ایکسپریس: سوات میں آپریشن کے دوران ایم کیو ایم کو پناہ گزینوں کی کراچی میں آباد کاری پر اعتراضات تھے، اب حکومت سندھ کو شمالی وزیرستان کے متاثرین کی کراچی آمد پر تحفظات ہیں؟ آپ کی جماعت کا اس بارے میں کیا نقطۂ نظر ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: دیکھیں جب سوات آپریشن ہوا تو اسمبلی میں نظام عدل بل منظوری کے لیے پیش کیا گیا۔ اُس وقت ہمارے ارکانِ پارلیمنٹ نے اس نظام کی مخالفت کی۔ اُس وقت سارا میڈیا تین دن تک صبح شام ہمیں تنقید کا نشانہ بناتا رہا، ہمیں پختون مخالف کہا گیا، امن مخالف کہا گیا، لیکن تین دن بعد جب مولوی فضل اﷲ نے کہا کہ میں پاکستان کو نہیں مانتا، پاکستان کے آئین کو نہیں مانتا، پارلیمنٹ کو نہیں مانتا تو اس کے بعد سب نے ہماری بات کی تائید کر تے ہوئے اُن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ہم نے ہمیشہ حق اور سچ کی بات کی ہے۔

جب سوات میں مولوی فضل اﷲ کے خلاف کارروائی کی گئی تو الطاف بھائی نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ ان پناہ گزینوں کی آڑ میں دہشت گرد ملک کے دوسرے حصوں تک پھیل سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ سوات سے پناہ گزینوں کی آڑ میں نکلنے والے دہشت گردوں نے مچھر کالونی، کنواری کالونی، مواچھ گوٹھ سمیت کراچی کے مختلف علاقوں میں اپنی پناہ گاہیں بنائیں۔ اگر آج حکومت سندھ کو شمالی وزیرستان کے متاثرین کی کراچی میں آباد کاری پر اعتراضات ہیں تو شکر ہے کہ اُنہیں عقل آ گئی ہے۔

سوات آپریشن کے وقت حکومت ِ پنجاب نے تو ایک بھی پناہ گزین کو صوبے میں داخل نہیں ہونے دیا، لیکن اس بات پر کسی نے شور نہیں مچایا۔ ہمارا کہنا یہ ہے کہ شمالی وزیرستان کے بعد خیبر پختون خوا پڑتا ہے، جہاں لاکھوں ایکٹر زمین بے کار پڑی ہے، اسکولوں کی بھی چھٹیاں ہیں۔ پاک فوج ایک سے دو ماہ میں ہی شمالی وزیرستان میں موجود شدت پسندوں کا خاتمہ کردے گی۔ اس وقت تک پناہ گزینوں کو ان اسکولوں میں ٹھیرائیں، خالی زمینوں پر کیمپ بناکر انہیں آباد کریں، تاکہ ملک کے دوسرے حصوں میں ان کی آڑ میں شدت پسند نہ پھیل سکیں۔

ایکسپریس: شدت پسندوں کے خلاف ہونے والے آپریشن میں سیاسی جماعتوں کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، لیکن اس کے برعکس حکومت مخالف جماعتوں نے قومی سیاست میں ہلچل پیدا کر رکھی ہے، آپ کیا کہیں گے؟

عبدالرشید گوڈیل: سیاسی جماعتوں کو چاہے وہ برسراقتدار ہوں یا حکومت مخالف، اس صورت حال میں متحد ہونا پڑے گا۔ ماضی میں کچھ سیاسی جماعتوں نے جو ان عسکریت پسندوں کے سیاسی ونگ ہیں، ڈھکے چھپے الفاظ میں اور کبھی کُھل کر بھی ان شدت پسندوں کی حمایت کی، لیکن آج ان باتوں کا وقت نہیں ہے۔ آج پاکستان کو بچانے کا وقت ہے۔ اور اگر ہمیں یہ جنگ جیتنی ہے تو پھر ہم سب کو ایک ہوکر پاک فوج کے ساتھ لبیک کہنا پڑے گا، اُن کے حوصلے بلند کرنے ہوں گے۔

ایکسپریس: توانائی کے بحران، بدامنی اور انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں اور حکومت کو متحد ہوکر کیا اقدامات کرنے چاہییں؟

عبدالرشید گوڈیل: معیشت مضبوط ہے تو ملک مضبوط ہے، لیکن بدقسمتی سے ہماری کوئی معاشی پالیسی نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی معاشی زبوں حالی ختم ہوجائے تو پچاس فی صد دہشت گردی ختم ہوجائے گی۔ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کے لیے غریب گھرانوں کے بچوں کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ پیسوں کا لالچ دے کر انہیں بم باندھ کر معصوم انسانی جانوں کو ہلاک کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ چار سال پہلے الطاف بھائی نے ہم پارلیمینٹرین سے کہا کہ آپ پاکستان کی معیشت میں بہتری لانے کے لیے کام کریں، اکنامک روڈ میپ بنائیں۔ آئی ایم ایف جس سے ہم بھیک مانگتے رہتے ہیں، ہم نے اُن کے ساتھ ایک میٹنگ کی تو انہوں نے ہمیں کہا کہ اگر آپ کے اکنامک روڈ میپ پر پاکستان کو چلایا جائے تو اگلے بیس برس کا بجٹ خسارے کے بجٹ کے بجائے سرپلس ہوجائے گا۔

آپ کی حکومت اس روڈ میپ کو کیوں نہیں مانتی۔ ہم نے اُن سے کہا کہ یہ بات تو آپ ہی حکومتِ وقت سے پوچھیں۔ اس کے بعد تین سال سے ہم شیڈو بجٹ دے رہے ہیں۔ جس میں ہم نے ترجیحات کا تعین کیا ہے کہ پیسہ کہاں سے آئے گا اور کہاں خرچ ہوگا۔ حکومت کی ترجیحات اس بجٹ میں نظر ا گئی ہیں کہ انہوں نے بالائی پنجاب کا بجٹ جو زیادہ سے زیادہ بیس لاکھ روپے ہے، لیکن انہوں نے دو ارب روپے مختص کیے ہیں، جب کہ ’’کے فور‘‘ جیسے بڑے منصوبے کے لیے پانچ فی صد رقم بھی نہیں رکھی گئی۔ ہمیں ترجیحات کا تعین کرنے پڑے گا۔

این ایف سی ایوارڈ کی طرح پروونشل فنانشل ایوارڈ ہونا چاہیے۔ اب صوبے بھی ِپک اینڈ چوز کی عادت اپنا رہے ہیں۔ اگر آپ وہیں کام کریں جہاں سے آپ کی پارٹی کو ووٹ ملتے ہیں تو دوسری جگہوں پر احساسِ محرومی بڑھے گا۔ ہماری اولین ترجیح معاشی اور انرجی پالیسی ہونی چاہیے۔ اگر یہ پالیسیاں بن گئیں تو ہمارا دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوجائے گا۔  ہم کہتے ہیں کہ کراچی سمیت پورے ملک میں جہاں ان عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ہیں، اُنہیں ختم کردینا چاہیے، لیکن سیاسی اور مذہبی جماعتیں یہ راگ الاپنا چھوڑ دیں کہ جی یہ ہمارے بچھڑے ہوئے بھائی ہیں۔ یہ کیسے بچھڑے ہوئے ہیں کہ ہمارے پاکستانی بھائیوں کو مارتے ہیں۔

یہ پاکستانیوں کے بھائی نہیں اُن کے دشمن ہیں۔ ہمارا شمار ایک زرعی ملک میں ہوتا ہے، لیکن یہ بتائیں کہ زراعت سے ہمیں کتنا ٹیکس ملتا ہے؟ یہ ہمیں کہتے ہیں کہ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 8.9 فی صد ہے، مطلب 21 فی صد زراعت ہے۔ اگر آپ اسے نکال دیتے ہیں تو ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی 12فی صد بنتا ہے۔ پھر آپ ٹیکس بھی ہم پر لگا رہے ہیں۔ چار بڑی اجناس کی فروخت سے پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے، لیکن آپ پانچ ہزار پانچ سو ارب روپے کمانے والوں سے ایک دھیلا ٹیکس نہیں لیتے۔ صوبے اس لیے نہیں بولتے کہ چاروں صوبوں میں حکومت انہی جاگیر داروں، وڈیروں اور سرداروں کی ہے ۔

ایکسپریس: آپ کی جماعت پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کی بھرپور حمایت کر رہی ہے۔ کیا آپ اس انقلاب کے بھی حامی ہیں جس کی بات طاہر القادری کر رہے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: ہم طاہرالقادری کی آمد پر انہیں روکنے کے لیے کیے گئے حکومتی اقدامات کے خلاف ہیں۔ پاکستان کا آئین ہر سیاسی جماعت کو جلسے کرنے کا جمہوری حق دیتا ہے۔ جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پنجاب میں مسلم لیگ ن تھی تو یہی چیف منسٹر مینار پاکستان پر پنکھا لے کر بیٹھے ہوتے تھے، اُس وقت سب جائز تھا، لیکن جب ایک سیاسی جماعت کا سربراہ پاکستان آتا ہے تو آپ اسے روکنے کے لیے پوری ریاستی قوت لگا دیتے ہیں۔

راتوں رات کنٹینرز رکھ کر راستے بند کردیے گئے، ماڈل ٹائون کا سانحہ ہوا۔ میں آپ کو یہ بھی بتادوں کہ اگر میڈیا نے کیمرے کی آنکھ سے یہ مناظر نہ دکھائے ہوتے تو طاہرالقادری صاحب کے گھر سے ’’قادری پور‘‘ کے نقشے، ٹارچر سیل، پھانسی گھاٹ برآمد ہوسکتے تھے، اور یہ غدارِ وطن بھی کہلاتے، اگر میڈیا نہیں ہوتا تو جس طرح 1992 میں ہمارے ساتھ ہوا تھا بالکل اسی طرح طاہر القادری صاحب کے ساتھ ہوتا، کیوں کہ اُس وقت بھی مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور آج بھی اِن کی حکومت ہے۔

ایکسپریس: پاک بھارت وزرائے اعظم کی ملاقات اور تعلقات میں بہتری میں لانے کے عزم کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: متحدہ قومی موومنٹ کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ پڑوسیوں سے تعلقات بہتر ہونے چاہییں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہم اپنے پڑوسیوں کو تبدیل نہیں کرسکتے، ہمیں انہی کے ساتھ رہنا ہے تو پھر تعلقات میں بہتری لانی ہوگی، لیکن ہمیں پاکستان کی عزت کو مقدم رکھتے ہوئے تعلقات مستحکم کرنے چاہییں۔

ایکسپریس: اگر الطاف حسین منی لانڈرنگ کیس میں بری ہوجاتے ہیں تو وہ برطانیہ میں ہی رہیں گے یا پاکستان لوٹ آئیں گے؟

عبدالرشید گوڈیل: اس بات کا فیصلہ وقت آنے پر کیا جائے گا۔ الطاف بھائی تو شروع سے وطن واپس آنے کے لیے بے چین ہیں۔ جب الطاف بھائی ملک سے باہر جا رہے تھے تو کارکنوں نے ان سے ایک بات منوائی تھی کہ قائد ہم آپ کی ہر بات مانیں گے، لیکن آپ کی وطن واپس کا فیصلہ کارکن کریں گے۔ الطاف بھائی پاکستانی تھے، پاکستانی ہیں اور پاکستانی رہیں گے۔

ایکسپریس: وزیراعظم پاکستان اور وفاقی وزیرداخلہ سے ملاقاتوں میں ایم کیوایم کو کراچی آپریشن اور کارکنوں، ہمدردوں کے ماورائے عدالت قتل کے حوالے سے تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی۔ آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟

عبدالرشید گوڈیل: کراچی میں جاری آپریشن اور کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل پر ہم نے حکومت کو ہر فورم پر اپنے تحفظات سے آگاہ کیا۔ ہم نے وزیراعظم، وزیراعلی سندھ، وزارت داخلہ سب کو کہا کہ آپ جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ضرور آپریشن کریں، لیکن خدارا ہمارے کارکنوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ مت بنائیں۔ اس سے عوام میں بے چینی بڑھے گی۔ حالات دوسرا رخ اختیار کر سکتے ہیں۔ ہم نے بارہا کہا کہ کچھ ادارے جرائم پیشہ افراد کے خلاف کارروائی کے بجائے ہمارے کارکنوں کو اٹھاتے ہیں اور پھر کچھ دن بعد اُن کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہوتی ہیں۔ کالی بھیڑیں تو ہر ادارے میں ہوتی ہیں تو آپ اُن کالی بھیڑوں کے خلاف ایکشن لیں۔ اب بھی ہمارے کارکنوں کو لاپتا کیا جارہا ہے، اُن کی تشدد زدہ لاشیں برآمد ہورہی ہیں۔

اﷲ کرے کہ ارباب ِ اختیار کو عقل آجائے۔ ہم امن پسند سیاسی کارکن ہیں۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ میں پچھلے تین اجلاس سے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کا وقت مانگ رہا ہوں وہ ہر دفعہ اگلے سات دنوں میں ملاقات کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن پتا نہیں کہ اُن کا ایک دن کتنے سالوں پر محیط ہے۔ ہم نے وزیر داخلہ سے ملاقات میں بھی اپنے کارکنوں کے اغوا، تشدد اور قتل کے مسئلے پر بات کی، انہوں نے بھی ہمیں یقین دہانی کرائی تھی۔ ہمیں جو بھی یقین دہانی کرائی گئی اُس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ ہمارے بہت زیادہ احتجاج کے بعد کارکنوں کے قتل اور اغوا میں کچھ کمی آگئی تھی، لیکن کچھ دنوں سے یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔

ایکسپریس: کراچی میں جاری آپریشن پر اعتراضات کے باوجود آپ کی جماعت نے حکومت سندھ میں شمولیت کا فیصلہ کس یقین دہانی پر کیا؟

عبدالرشید گوڈیل: حکومت سندھ میں شمولیت کے فیصلے کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سندھ کی ڈائنامک بقیہ تین صوبوں سے بالکل الگ ہے۔ فیصل آباد ڈویژن کی آبادی اسی لاکھ ہے، آپ ایک کروڑ سمجھ لیں، وہاں قومی اسمبلی کی 17نشستیں ہیں، کراچی کی آبادی سوا دو کروڑ ہے، لیکن قومی اسمبلی میں کراچی کی صرف 20نشستیں ہیں۔ ہم تو کب سے صاف شفاف مردم شماری کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ آبادی کے تناسب سے نشستیں ہونی چاہییں۔ کراچی کی آبادی کے لحاظ سے پروونشل فنانشل ایوارڈ ہونا چاہیے۔ ہم نے صرف سندھ کے بہتر مفاد میں حکومت میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔

ایکسپریس: ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے پچھلے دور حکومت میں اقتدار میں رہی، مگر کراچی میں بدامنی اور انتشار کا سلسلہ رہا۔ اب حالات مزید بگڑ گئے ہیں۔ اس بار قیام امن کے لیے آپ اپنا کردار کس طرح ادا کر رہے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: ایم کیوایم ریسرچ بیسڈ پارٹی ہے۔ ہم سب چیزوں پر تحقیق کرتے ہیں، ڈیٹا کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ہماری جماعت گذشتہ پانچ چھے سال سے کہہ رہی ہے کہ کراچی لینڈ مافیا، جرائم مافیا، ڈرگ مافیا اور طالبان کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔ حکومت کو یہ کہہ کر جان نہیں چھڑانی چاہیے کہ یہ کام صوبائی حکومت کا ہے یا وفاقی حکومت کا ہے۔ ہمارا بھی اس ملک پر اتنا ہی حق ہے جتنا لاہور، لاڑکانہ یا پشاور کے شہری کا ہے۔ اس بات کا کی حالیہ مثال آپ یہ دیکھ لیں کہ جب کراچی ایئر پورٹ پر حملہ ہوا تو صوبائی اور وفاقی حکومت حدوں پر لڑتی رہیں۔ امن قائم کرنا یا شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کا کام ہے، چاہے وہ صوبائی سطح پر ہو یا وفاقی سطح پر۔

ایکسپریس: کچھ حلقوں کی جانب سے 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام عاید کیا جارہا ہے، آپ ان الزامات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: آپ جن حلقوں کی بات کر رہے ہیں، وہ کئی ماہ سے سڑکوں پر مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ خیبر پختون خوا میں ہونے والے الیکشن کو شفاف کہتے ہیں، جہاں ہارے وہاں دھاندلی کا الزام عاید کر رہے ہیں۔ انتخابی اصلاحات کے لیے قومی اسمبلی میں ایک کمیٹی بنی ہے، آئیں ساتھ بیٹھ کر اصلاحات کرتے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ تو2008  سے الیکٹرونک ووٹنگ مشین استعمال کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ انتخابی اصلاحات کمیٹی بن گئی ہے، انشاء اﷲ اگلے انتخابات میں دھاندلی کا ڈھول نہیں پیٹا جائے گا۔ دراصل خیبر پختون خوا حکومت میں وہ ناکام ہوگئے ہیں۔ انہوں نے شہری سوسائٹی (اربن سوسائٹی) کو تبدیلی کے نام پر دھوکا دیا۔

پرویز خٹک صاحب کیا اٹھارہ سال کے نوجوان ہیں؟ آپ ان کی اعلیٰ قیادت کو دیکھ لیں کہ کتنے نوجوان ہیں؟ انہیں تو ووٹ صرف اس وجہ سے مل گئے کہ عوام تبدیلی کے نام پر اُنہیں نجات دہندہ سمجھ بیٹھے۔ اقتدار میں آنے کے بعد ان کی پالیسی سامنے آئی تو پتا چلا کہ جناب یہ تو طالبان کے بھائی بنے ہوئے ہیں، طالبان کا دفتر کھولنے کے حامی ہیں۔ جو دہشت گرد پاک فوج کے جوانوں کو شہید کر رہے ہیں آپ اُن سے مفاہمت کی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے نوجوانوں کو تبدیلی کے نام پر جھانسا دیا، آپ کے کتنے نوجوان اسمبلیوں میں گئے۔ انتخابات میں دھاندلی کا الزام عاید کرنے والے صاحب کی جماعت میں سے ہی جعلی ڈگری والے نکلے۔ ان کے ڈیفینس سے جیتنے والے ایم این اے عارف علوی کے حلقے میں جاکر پوچھیں کہ وہ کتنی بار اپنے حلقے میں گئے ہیں۔

ایکسپریس: آپ بلدیاتی حد بندیوں کے معاملے پر پی پی پی کی حکومت پر من مانی کا الزام لگاتے آئے ہیں۔ لیکن اب اس کے اتحادی ہیں۔ کیا بلدیاتی انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہونے کی صورت میں ایم کیوایم اپنے مطالبات دہرائے گی؟

عبدالرشید گوڈیل: دیکھیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں، آئین کی بھی کچھ حدبندیاں ہیں۔ حلقہ بندیاں مردم شماری کے بعد تبدیل ہوسکتی ہیں، ہم کہتے ہیں کہ پہلے مردم شماری کروائیں پھر نئی حلقہ بندیاں کریں، لیکن یہ نہ ہو کہ جس طرح پیپلزپارٹی کی حکومت نے کیا تھا کہ پانچ ہزار سے لے کر پچاس ہزار آبادی کی بنیاد پر یونین کونسل تشکیل دے دی۔ یعنی اپنی پسند کے دیہی اور شہری علاقوں میں آپ دس ہزار کی آبادی پر مشتمل یوسی بنائیں اور جن علاقوں میں آپ کا ووٹ بینک نہ ہو وہاں آپ پچاس ہزار افراد پر مشتمل یوسی بنائیں۔ بلدیاتی نظام تو جمہوریت کی جڑ ہے اور جب جڑ ہی مضبوط نہیں ہو گی تو پھر جمہوریت کا تناور درخت کیسے کھڑا ہوگا۔

پاکستان کے جتنے بھی سیاسی قائدین ہیں وہ کبھی کونسلر، ناظم یا یوسی ناظم تھے۔ آئین کے آرٹیکل 140 (اے) کے مطابق انتخابات ہونے چاہییں، بلدیاتی نظام ہونا چاہیے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد ہم صوبوں کے اختیارات کے لیے لڑے تھے۔ قائد تحریک الطاف حسین بھائی نے اس بات پر فوکس کیا کہ صوبوں کو اختیارات ملنے چاہییں۔ صوبوں کو گراس روٹ لیول پر اختیارات ملنے چاہییں۔ اب یہ لولا لنگڑا کمشنری سسٹم لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کمشنری سسٹم کو متعارف کروانے والے ملک برطانیہ نے بھی اس نظام کو پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد ترک کردیا تھا۔

پاکستان میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے تو سب سے پہلے گراس روٹ لیول پر مضبوط کریں، عوامی نمائندے جب ایوان میں آئیں تو انہیں پتا ہو کہ خرابی کہاں ہے، قانون سازی کیسے کرنی ہے۔ آج یہ مسئلہ ہے کہ ایک گٹر بھی بند ہو تو علاقے کے ایم این اے، ایم پی اے کو فون آجاتا ہے کہ جی گٹر بند ہوگیا ہے۔ ایک ایم این اے یا ایم پی اے قانون سازی کے ساتھ ساتھ یہ کام بھی کرتا ہے کیوں کہ کوئی سسٹم ہی نہیں ہے۔ یہ2001 والا بلدیاتی نظام کیوں نہیں مان رہے، اس کی بھی کچھ وجوہات ہیں۔ 2001 والے بلدیاتی نظام میں آپ کے چھوٹے موٹے مسائل کونسلر حل کر دیتے تھے۔ آپ کے علاقے میں تیس چالیس لاکھ روپے کا کام یوسی ناظم کروادیتے تھے۔

ایک دو کروڑ کا کام ٹائون ناظم نے کروادیا۔ آٹھ دس کروڑ کی لاگت کے کام کا مسئلہ ہے تو وہ آپ کے سٹی ناظم نے حل کردیا۔ اب جن ایم این اے، ایم پی ایز کی ڈیولپمنٹ اسکیم کے نام پر کروڑوں روپے کی اوپر کی آمدنی ہوتی تھی وہ ختم ہوگئی۔ اپنے علاقے کے کام کروانے کے لیے اُن کے پاس ہاتھ جوڑ کر درخواست کرنے والے عوام نہیں ہوتے۔ اب اپنے بنیادی مسائل حل کروانے کے لیے کوئی اِن کی دعوتیں نہیں کرتا۔ اس وجہ سے کمشنری نظام کے حامیوں کی بے عزتی ہورہی تھی، اوپر کی کمائی نہیں ہو رہی تھی۔ اگر آپ کو مضبوط پاکستان بنانا ہے تو آپ کو خودمختار بلدیہ دینا ہوگی جو آئین کے آرٹیکل 140 (اے) کو پورا کرتی ہو۔

ایکسپریس: آپ کی پارٹی میں پچھلے کچھ عرصے سے اہم راہ نماؤں کے مابین اختلافات اور پارٹی کے اندرونی طور پر انتشار کا شکار ہونے کی خبریں سامنے آرہی ہیں، اِن میں کس حد تک سچائی ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: ہمارے کچھ ناقدین کی، کچھ مہربانوں کی شروع سے خواہش رہی ہے کہ ایم کیو ایم کو کسی طرح توڑ دیا جائے۔ متحدہ قومی موومنٹ کا مطلب ہے الطاف بھائی۔ ہمارے درمیان نہ کبھی اختلاف تھا، نہ ہے اور نہ کبھی ہوگا، کیوں کہ ہمارا مرکز اور محور ہمارا قائد ہے۔ ہر کارکن اپنے قائد سے پیار کرتا ہے، ہر کارکن اپنے قائد کے کہنے کے مطابق کام کرتا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھے لفافوں کی سیاست کرنے والے کچھ لوگ، کسی کے پے رول پر بیٹھے لوگ پتا نہیں کیا کیا تبصرے کرتے رہتے ہیں۔ اُنہیں ان کا کام کرنے دیں، ہمیں ہمارا کام کرنے دیں۔ ایم کیو ایم کے راہ نمائوں میں اختلافات اور اندرونی انتشار کی خبریں محض مخصوص حلقوں کی جانب سے پھیلائی جانے والی افواہوں سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔

ایکسپریس: 2013 کے عام انتخابات کے بعد متحدہ قومی موومنٹ میں تطہیر کا عمل شروع کیا گیا، اگر تنظیم میں کرپٹ عناصر موجود تھے تو کیا انہیں ہٹا دیا گیا ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: ایم کیو ایم میں کرپشن کی گنجائش نہیں ہے۔ میرے قائد کی آئیڈیالوجی سیاست برائے خدمت ہے۔ جہاں تک تطہیری عمل کی بات ہے تو پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی یا کسی بھی قسم کی کرپشن کرنے والے فرد کی ایم کیو ایم میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ایکسپریس: چند سال پہلے ایم کیو ایم نے پنجاب تک تنظیمی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھانے کے لیے پیش قدمی کی تھی۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ آپ کو وہاں پذیرائی نہیں ملی۔ کیا کہیں گے؟ کیا اب بھی ایم کیو ایم پنجاب کے عوام کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے؟

عبدالرشید گوڈیل: الطاف بھائی کا پیغام تو کشمیر اور فاٹا تک پھیلا ہوا ہے لیکن جب ہم پنجاب میں اپنی تنظیمی سرگرمیاں تیز کرتے ہیں تو کراچی میں قتل عام تیزی سے بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ بات میں ایسے ہی نہیں کہہ رہا آپ پچھلے پندرہ سال کے اعداد و شمار دیکھ لیں۔ لیکن ہم نے اپنے قائد سے ایک بات یہ بھی سیکھی ہے کہ ’’تیز ہو تیز ہو جدوجہد تیز ہو‘‘ ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ قائد کا پیغامِ حق پرستی پنجاب کیا ملک کے کونے کونے تک پھیلائیں گے۔ اگر وہاں کے عوام کو پولیس گردی، غنڈہ گردی سے تحفظ فراہم کردیا جائے تو پھر وہ یقیناً متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ دیں گے۔ پنجاب یا سندھ کے عوام کی جہاں تک بات ہے تو بے چارے تو جاگیر داروں، وڈیروں کے خوف میں مبتلا ہیں۔

سندھ میں جب سیلاب آیا تو ہم کیٹی بندر کے اطراف میں امداد باٹنے گئے۔ ہماری ایم این اور شعبہ خواتین کی صدر کشور زہرا باجی نے جب وہاں کی خواتین میں کپڑے اور چپلیں دی تو کپڑے انہوں نے لے لیے اور چپلیں ہاتھ جوڑ کر واپس کردیں اور کہا، ’’وڈیروں نے منع کیا ہے‘‘ حالاںکہ اُن پیر بری طرح پھٹے ہوئے تھے، لیکن وڈیروں کے خوف سے وہ اپنے پیروں میں چپل تک نہیں پہنتے۔ پاکستان کے تقریباً ہر گائوں اور شہر میں ہمارے دفاتر ہیں۔ الطاف بھائی کی ہدایت پر ہمارے ایم این ایز، ایم پی ایز باقاعدگی سے وہاں جاتے ہیں۔ لوگوں کے مسائل سنتے ہیں، انہیں حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایکسپریس: ٹاک شوز اور ان میں ہونے والے مباحث آپ کی نظر میں کسی معاملے پر نتیجے تک پہنچنے میں مدد دیتے ہیں یا یہ محض کسی بھی سیاست داں اور اس کی جماعت کی تشہیر کا ذریعہ ہیں۔ آپ کی رائے کیا ہے۔

عبدالرشید گوڈیل: بہت سے ٹی وی اینکر حقیقی مسائل اور ان کے حل کے لیے بہت اچھا کام کر رہے ہیں، لیکن کچھ اینکر ایسے بھی ہیں جو خود کو بہت بڑا چیمپیئن سمجھتے ہیں۔ بعض اینکر پسند ناپسند پر سیاسی شخصیات کو مدعو کرتے ہیں۔ لفافہ کلچر بھی موجود ہے۔ آپ اُن کی تنخواہ دیکھ لیں اور اُن کے اخراجات دیکھ لیں۔ یہ کسی نہ کسی کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں، انہیں ایم کیو ایم دہشت گرد لگتی ہے، بھتا خور لگتی ہے۔ ہم کئی مرتبہ حکومت میں رہے، کروڑوں روپے کے کام کروائے پھر تو ہم سے بڑا بے وقوف کوئی نہیں ہے کہ جو کروڑوں کے کام میں کرپشن نہیں کی اور پانچ، دس ہزار روپے بھتا لیں۔

ان اینکرز کو متحدہ قومی موومنٹ کے ایم این اے یا ایم پی اے کے کرپشن میں ملوث ہونے کے یا جعلی ڈگری کے ثبوت ہی نہیں ملتے تو بے چارے بھتا لینے کا الزام عاید کر دیتے ہیں۔ اس طرح اُن کے پنجاب میں سیاسی مقاصد پورے ہوتے ہیں۔ یہ ایم کیو ایم کے خلاف پنجاب کے عوام کے لیے ٹی وی پروپیگنڈا ہے۔ کچھ سیاست داں اور جماعتیں ان ٹاک شوز کو اپنی سیاسی دکان چمکانے کے لیے بھی استعمال کرتی ہیں۔

ایکسپریس: سماجی خدمت کے شعبے سے سیاست کے میدان میں آنے اور عملی جدوجہد کرنے کا سفر کیسا رہا؟

عبدالرشید گوڈیل: میرا تعلق میمن کمیونٹی سے ہے۔ میں دھورا جی ایسوسی ایشن کا صدر رہا ہوں۔ آل پاکستان میمن فیڈریشن کا سپریم کونسل ممبر ہوں۔ ورلڈ میمن آرگنائزیشن پیٹرن ہو۔ خدمت کا کام مجھے تسکین دیتا ہے۔ میں نے ٹیوشن پڑھاکر تعلیم حاصل کی۔ میرے لیے سب سے بہتر انتخاب ایم کیو ایم تھی، کیوں کہ سیاست برائے خدمت اسی ایک جماعت میں تو ہے۔ میں 1988سے پارٹی کا ہمدرد رہا ہوں۔ 2005 میں ایم کیوایم کی جانب سے ناظم بنا، لوگوں کی خدمت کا موقع ملا۔ میری بیوی اور بچے میرے دوست ہیں اُن سے ہر بات شیئر کرتا ہوں۔ میری والدہ شروع ہی سے نماز کے بعد الطاف بھائی کے لیے دعا کرتی ہیں۔ گھر والوں نے بھی میرے فیصلے کی تائید کی۔ سیاست برائے خدمت کی عملی جدوجہد کا سفر بہت اچھا رہا۔

ایکسپریس: آپ میمن جماعت کی مختلف آرگنائزیشنز میں کلیدی عہدوں پر رہے، سیاست میں آنے کے بعد بھی میمن کمیونٹی کے لیے وقت نکالتے ہیں؟

عبدالرشید گوڈیل: میں صرف میمن کمیونٹی کے لیے نہیں ہر کسی کے لیے وقت نکالتا ہوں، میں عوام کا نمائندہ ہو میرا کام ہی عوام کے پاس جانا ہے۔ چاہے وہ میمن ہو، اردو بولنے والا ہو، پنجاب کا ہو۔ ہماری جماعت میں برادری ازم نہیں ہے، میرے لیے ہر شخص برابر ہے۔ یہ برابری کا نظریہ میرے قائد الطاف حسین کا ہے جس پر ہم سب عمل پیرا ہیں۔ میں آپ کو اتحاد بین المسلمین کی اہم مثال بتاتا ہوں، جب رضا حیدر بھائی شہید ہوئے تو اُن کی نماز جنازہ میں ہر مسلک اور فرقے کے لوگوں نے ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر نماز پڑھی تھی۔ اُن کا گارڈ جو اہل سنت مسلک کا تھا اُس کے لیے صرف امام تبدیل ہوا صفیں تبدیل نہیں ہوئیں۔

ایکسپریس: کن موضوعات پر کتابیں پڑھنا پسند ہیں۔ پسندیدہ شاعر؟ پسندیدہ ادیب؟

عبدالرشید گوڈیل: ہر اچھی کتاب پڑھتا ہوں۔ سیاسی موضوعات پر کتابیںزیادہ شوق سے پڑھتا ہوں۔ حال ہی میں ڈینیئل مارکی کی کتاب ’’نو ایگزٹ فرام پاکستان‘‘ اور Karima Bennoune کی ’’یور فتویٰ ڈز ناٹ اپلائی ہیئر‘‘ پڑھی ہے۔ شاعری یاد نہیں رہتی لیکن سنتا رہتا ہوں، منظر بھوپالی پسندیدہ شاعر ہیں۔ ادیب تو بہت پسند ہیں لیکن میرے خیال میں ابنِ انشاء سے اچھا ادیب کوئی نہیں ہے۔

ایکسپریس: گلوکار کون سا اچھا لگا؟ اداکار؟ اداکارہ؟ فلم جو پسند آئی؟

عبدالرشید گوڈیل: گانے تو پسند نہیں ہیں لیکن غزلیں بہت شوق سے سنتا ہوں۔ میتالی اور مہدی حسن پسندیدہ غزل گائیک ہیں۔ فلمیں شوق سے نہیں دیکھتا، لیکن ’’باغبان‘‘ اور ’’تھری ایڈیٹ‘‘ جیسی فلمیں اچھی لگتی ہیں، کیوں کہ ان میں نئی نسل کے لیے بہت خوب صورت پیغام دیا گیا ہے۔

قومی اسمبلی میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر عبدالرشید گوڈیل 7ستمبر1960کو کراچی کے ایک متوسط میمن گھرانے میں پیدا ہوئے۔ سماجی خدمت کے جذبے سے سرشار عبدالرشید گوڈیل نے زمانۂ طالب علمی میں ہی غریب بچوں کو فیس لیے بغیر پڑھانا شروع کردیا تھا۔ 1985میں وہ غریب بچوں کو نصابی کتب فراہم کرنے والی غیرسرکاری تنظیم ابابیل آرگنائزیشن کے نائب صدر منتخب ہوئے۔ میمن کمیونٹی کی مختلف آرگنائزیشنز میں اہم عہدوں پر خدمات سر انجام والے عبدالرشید گوڈیل نے سیاسی سفر کا آغاز 2005میں متحدہ قومی موومنٹ کے یونین کونسل ناظم کی حیثیت سے کیا۔ ان سے ایک گفت گو کا اہتمام کیا گیا جو نذرِقارئین ہے۔

’’ذکر فیض‘‘ ، فیض احمد فیض کی سوانح عمری

$
0
0

سیالکوٹ شہر کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہاں اردو ادب کی دو قد آور ادبی شخصیات نے اپنی زندگی کی پہلی سانس لیتے ہوئے دنیا میں عملی طور پر شریک ہونے کا اعلامیہ جاری کیا۔

ان میں سر فہرست اردو اور فارسی کے عہد آفریں شاعر و مفکر، شاعر مشرق حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال (1877ء) اور معروف شاعر فیض احمد فیض کا نام آتا ہے، جو 1911ء میں پیدا ہوئے۔ آج جب کہ فیض کو سو برس گزرچکے ہیں۔ اقبال کے بعد ہر جہت میں فیض ہی فیض نظر آتے ہیں، میر تقی میر، غالب اور اقبال کے بعد فیض شناسی کا دائرہ تیزی سے وسیع ہوا ہے۔ اگر افتخار عارف یہ کہتے ہیں کہ ’’بیسوی صدی میں اردو کی ادبی دنیا میں اقبال کے بعد فیض دوسری شخصیت ہیں، جن کے بارے میں بہت لکھا گیا تو یہ بات سو فی صد درست ہے۔

حقیقت یہی ہے کہ بڑے بڑے ناقدوں نے فیض کی شخصیت و فن کے مختلف گوشوں پر مسلسل لکھا ہے کہ اس انبوہ کا حساب لگانا بھی تحقیق کے ایک نئے مضمون کا سبب بن سکتا ہے۔ خاص کر حکومت پاکستان کی جانب سے 2011ء کو ’’فیض صدی‘‘ کے طور پر منانے کا اعلان کیا گیا تو فیض پر کئی رخ اور زاویوں سے تحقیقی کتابیں، رسالوں کے فیض نمبر گوشوں کا ایک سلسلہ شروع گیا۔ ملکی سطح پر اور بیرون ملک جگہ جگہ فیض کے حوالے سے تقاریب و سیمینار کا انعقاد کیا جاتا رہا۔

فیض صدی کے پس منظر میں کینیڈا کے ڈاکٹر تقی عابدی کی ’’فیض فہمی‘‘ اور ڈاکٹر نثار ترابی (راولپنڈی) کی ترتیب کردہ کتاب ’’فکرفیض‘‘ مجھے فیض پر تحریر کردہ کتابوں میں اہم اور معتبر اضافہ دکھائی دیا۔ تاہم جب زیر تبصرہ کتاب ’’ذکر فیض‘‘ جو بڑے سائز کے 1084 صفحات پر مشتمل ہے اور جسے معروف ترقی پسند مصنف سید مظہر جمیل نے مرتب کیا اور محکمۂ ثقافت ، سیاحت اور نوادرات حکومت سندھ کے تعاون سے شائع کراکر منظر عام پر لائے، نظر سے گزری تو اتنا ضخیم کام دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ کتاب فیض کے حوالے سے ایک مکمل دستاویز ہے، جس میں فیض کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں پر تفصیلی کام کیا گیا ہے۔

مظہر جمیل ’’ذکر فیض‘‘ سے قبل بھی اہم ادبی کتابیں مثلاً گفتگو، آشوب سندھ اور اردو فکشن، جدید سندھی ادب، میلانات رجحانات امکانات، انگارے سے پگھلا نیلم تک (سجاد ظہیر کے حوالے سے) سوبھوگیان چندانی شخصیت و فن، سندھی زبان و ادب کی مختصر تاریخ اور ایک صدی کی آواز محمد ابراہیم جویو، تحریر کرچکے ہیں۔ ان کا نام اردو ادب کا ایک معتبر نام ہے۔ تمغۂ امتیاز حاصل کرنے والے مظہر جمیل نے فیض احمد فیض کی سوانح لکھنے کا کب سوچا اور جب عملی طور پر میدان میں اترے تو کہاں کہاں سے مواد حاصل کیا؟ کتنی صعوبتیں برداشت کیں؟ اس کا اندازہ تو مظہر جمیل ہی کو ہوگا۔ تاہم یہ ایک محنت طلب کام تھا جو مظہر جمیل ہی مکمل کرسکتے تھے۔

’’ذکر فیض‘‘ 33ابواب پر مشتمل ہے اور ان تمام ابواب میں فیض کی ذاتی زندگی کے واقعات، خاندانی پس منظر، فیض کی شاعری کی ابتداء، حصول ملازمت سے لے کر قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے تک کے واقعات شادی کے لیے والدین کی کاوشیں اور فیض کا ایلس کو پسند کرکے شادی کرلینا، ترقی پسند تحریک اور دیگر تحریکوں میں فیض کا کردار، بحیثیت مزدور لیڈر مختلف محکموں میں ٹریڈ یونین سرگرمیوں کی حمایت کرنا انھیں بھرپور حوصلہ دینا، دوسری جنگ عظیم، تقسیم برصغیر پاک و ہند اور سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں فیض کا کردار، فوج اور پھر صحافت میں قدم جمانا، جیل میں گزارے ایام ، ایفروایشیائی ادیبوں کی تحریک اور کانفرنس، فلسطینیوں کے لیے تحریری و عملی حمایت، بین الاقوامی لینین امن ایوارڈ کا ملنا، روس اور دیگر بیرونی ممالک میں فیض کی مقبولیت، مذاکروں میں شرکت، کراچی میں قیام اور ادبی وتعلیمی خدمات، فیض کی شاعری کے مختلف زبانوں میں ترجمے، فیض احمد فیض کی عملی جدوجہد، لوگوں کے منافقانہ رویوں کا اندازہ لگانا، فیض کے آخری ایام، فیض کی تحریر کردہ مختلف موضوعات پر کتابوں کا جائزہ، خاص کر مشہور ہوجانے والی نظموں، غزلوں کا ذکر، فیض کا موسیقی اور فلم بینی کی طرف متوجہ ہونا، خاندان کا مالی بحران، راولپنڈی سازش کیس میں گرفتاری، خطوط فیض بنام ایلس اور دیگر سیکڑوں موضوعات کو مظہر جمیل نے مختلف عنوانات کے تحت جمع کیا ہے۔

انگریزی اور اردو کی 156کتابوں، 43 ادبی جریدوں وغیرہ کے مطالعے کے نچوڑ سے ’’ذکر فیض‘‘ وجود میں آئی ہے، جو اول تا آخر فیض کے حوالے سے مکمل دستاویز ہے، جس میں فیض کی شخصیت کے سارے رنگوں پر تفصیلاً بات کی گئی ہے اور حوالے بھی دیے گئے ہیں۔ ایم اے اردو کا طالب علم ہو یا فیض پر کسی بھی رخ سے مزید تحقیقی کام کرنے والا، اس کتاب سے بہت سی مدد حاصل کرسکتا ہے۔

’’ذکر فیض‘‘ میں بہت سے دل چسپ واقعات بھی شامل کیے گئے ہیں، جن کو پڑھ کر نہ صرف معلومات میں اضافہ ہوتا ہے، بل کہ ذہن و دل پر خوش گوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ آئیے ’’ذکر فیض‘‘ میں شامل مختلف النوع موضوعات سے کشید کردہ اقتباسات اور واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

فیض احمد فیض کے آباء واجداد کا تعلق چوںکہ گائوں سے رہا ہے لہٰذا فیض کو دیہات کی عام فضا ہی نہیں بھاتی تھی بلکہ سرسبز کھیتوں سے اٹھنے والی سوندھی سوندھی خوشبو بھی دل پذیر لگتی تھی۔ گائوں کے ایک واقعے کو یوں ’’ذکر فیض‘‘ میں بیان کیا گیا ہے، ’’ فیض بچپن میں ایبٹ آباد کے کھٹملوں کی پہنچائی ہوئی خوف ناک اذیت رسانی کو بھی کبھی نہ بھول سکے جن کی بدولت انھیں کئی دن بستر علالت میں بسر کرنے پڑے تھے۔ وہ اپنے بڑے بھائی طفیل کے ساتھ گرمیوں کی چھٹی گزارنے کے لیے اپنی کسی رشتے کی بہن کے گھر گئے، جو ایبٹ آباد کے علاقے میں بیاہی گئی تھیں۔

وہاں ان کے شوہر کے پیر صاحب ایک دن انھیں ایبٹ آباد کی سیر کو لے گئے اور وہاں کسی کے مہمان خانے پر رات کو قیام کرنا پڑا لیکن مختصر سا سفر ایبٹ آباد کے کھٹملوں کی وجہ سے یادگار بن گیا، کیوں کہ رات بھر کھٹملوں نے دونوں بھائیوں کو اس بری طرح کاٹا کہ دونوں کے جسم پر ان گنت سرخ دھبے پڑگئے۔ فیض اس سے اتنے متاثر ہوئے کہ کئی دنوں تک انھیں شدید بخار میں بستر پر لیٹنا پڑگیا۔ اس واقعے کے بعد وہ ایبٹ آباد کے کھٹملوں کو کبھی نہ بھول سکے۔‘‘ یقیناً یہ واقعہ دل چسپ اور حقیقی ہے تاہم میں یہاں یہ واضح کردوں کہ ایبٹ آباد میں کھٹمل تقریباً نہ ہونے کے برابر ہوتے ہیں اور اگر ہوں بھی تو اس بے دردی سے نہیں کاٹتے۔

دراصل ایبٹ آباد کے گائوں میں بالخصوص ان علاقوں میں جہاں مویشی رکھے ، پالے جاتے ہیں ایک انتہائی باریک کالے رنگ کا کیڑا جسے ’’پسو‘‘ کہا جاتا ہے اور گائوں والے اسے ’’پیوں‘‘ کہتے ہیں پایا جاتا ہے، جب کوئی سونے کے لیے بستر پر لیٹتا ہے تو پسو اسے کاٹنا شروع کردیتا ہے اسے ہاتھ سے مارنا مشکل ہے۔ چوں کہ یہ خود کو سمیٹ لیتا ہے۔اس وضاحت سے مراد یہ ہے کہ وہ پسو یا پیوں تھے جن کو فیض کھٹملوں سمجھتے رہے۔

فیض بنیادی طور پر رومانوی طبیعت کے مالک تھے۔ صفحہ67 پر یہ واقعہ درج ہے کہ انھیں ایک افغانی دوشیزہ سے سولہ سترہ سال کی عمر میں پہلی نظر میں ہونے والا عشق ہوا وہ اسے پا تو نہ سکے مگر اس عشق نے ان کی شاعری کو ضرور دوام بخشا۔ ’’نقش فریادی‘‘ میں اس محبت سے متاثر ہوکر لکھی جانے والی شاعری ملتی ہے۔ اس کے علاوہ صفحہ 57اور 58کی یہ سطور ملاحظہ ہوں،’’سب ہی ہمیں اپنی محبت اور پیار کا نذرانہ پیش کررہے تھے خاص طورپر عورتیں۔ عجیب تجربہ تھا۔‘‘،’’ایک عورت نے فرط محبت سے اتنے زور سے منہ چوما کہ دور تک اس چومنے کی آواز گونجتی تھی ہم تو اس تجربے سے مدہوش سے ہوگئے تھے۔‘‘

یہی فطری جذبات فیض کو ایلس تک بھی لے گئے۔ فیض احمد فیض ایم اے او کالج امرتسر میں زیرتعلیم تھے، جس کے پرنسپل معروف شخصیت ایم ڈی تاثیر تھے، فیض سے ان کی قربت بن چکی تھی کرسٹا بیل، ایم ڈی تاثیر کی بیوی تھیں، جب کہ ایلس کیتھرین جارج، ایم ڈی تاثیر کی سالی تھیں۔ وہ جب امرتسر اپنی بہن کرسٹا بیل سے ملنے آئیں تو ان کی ملاقات فیض سے ہوگئی۔ یہ دوستی محبت اور پھر شادی میں تبدیل ہوگئی۔ فیض کی والدہ بمشکل اس رشتے پر راضی ہوئیں اور سادگی سے شادی ہوگئی۔ شادی کے موقع پر ساری رسمیں مشرقی طریقے سے ادا ہوئیں، جس کا تذکرہ تفصیل سے اس کتاب میں مصنف نے درج کیا ہے۔

28 اکتوبر1941ء کو یہ شادی منعقد ہوئی دوران رسم دلہن (ایلس) کے ہاتھ پرقرآن رکھا گیا اور فیض کی والدہ نے ایلس کو کلمہ پڑھواکر اس کا اسلامی نام ’’کلثوم‘‘ رکھا۔ یہاں تک پہنچنے کے بعد میں سوچتا رہا کہ جب ایلس نے اسلام قبول کرلیا ان کا نام تبدیل کرکے کلثوم رکھا گیا تو پھر کیا وجہ ہے کہ اب تک ہم ایلس فیض ہی لکھتے ہیں۔ کلثوم کیوں معروف نہ ہوسکا اس کا جواب بھی آگے جاکر مظہر جمیل نے صفحہ 444 پر دیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ ’’اس ضمن میں ’’دست صبا‘‘ کے انتساب کا ذکر بھی دل چسپی سے خالی نہیں کتاب کا انتساب ’’کلثوم کے نام‘‘ تھا دراصل ان دنوں فیض قید کی زندگی گزار رہے تھے، چوں کہ ان کی والدہ نے ایلس کا نام کلثوم رکھا، لہٰذا اس نام کو فیض نے بھی جاری رکھنے کی کوشش کی۔

تاہم اس کو یقیناً ایلس نے پسند نہیں کیا ہوگا، جبھی فیض نے ایک خط میں یوں لکھا،’’رہی انتساب کی بات تو اگر تم اپنے آپ کو ایلس کہنا چاہتی ہو تو تمہیں اختیار ہے اس لیے کہ کتاب بھی تمہاری ہے۔ میں نے’’کلثوم‘‘ اس لیے لکھا کہ اول یہ مشرقی نام ہے دوسرے یہ کہ لوگ اس کے بارے میں تم سے سوال کریں گے جو شاید تمہارے لیے تفریح طبع کا ساماں ہو، بہرحال جو تمہارا جی چاہے کرو۔‘‘ یہ بات بھی اس کتاب میں مکمل وضاحت سے ملتی ہے کہ فیض کے دور اسیری میں ایلس نے ایک مشرقی عورت کی طرح تن تنہا حالات کا سامنا کیا۔ سائیکل چلاکر دفتر آنا جانا کیا، اپنی دونوں معصوم بیٹیوں سلیمہ اور منیزہ کو بھی سنبھالے رکھا اور مسلسل فیض کے کیس کی پیروی کرکے آخر انھیں رہا کرایا۔

اس کتاب سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فیض نے اپنے دوست معروف سائنس داں ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی کی محبت میں اپنی بیٹی کا نام ’’سلیمہ‘‘ رکھا۔ فیض کی شخصیت کے مختلف پہلو ہیں جو اس کتاب کے مطالعے کے بعد کھل کر ہمارے سامنے آتے ہیں، مثلاً فیض کو موسیقی سے دل چسپی تھی۔ خواجہ خورشید انور ان کے دوستوں میں سے تھے۔ وہ کمیونسٹ مینی فیسٹو، سوشلزم کی کتابوں میں دل چسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید علوم پر بھی نگاہ و دسترس رکھتے تھے۔

ترقی پسند تحریک، سمیت نئی تحریکوں سے وابستگی، انڈین آرمی میں کرنل کے عہدے تک پہنچ کر اسے چھوڑ کر صحافت کی دنیا میں قدم رکھنا اور پاکستان ٹائمز، امروز ، لیل و نہار سے لے کر الحمرا آرٹس کونسل لاہور، غالب لائبریری کراچی، آرٹس کونسل کراچی، کراچی کی غریب بستی میں اسکول کا نظام سنبھالنا، ماہی گیروں کی سوسائٹی کا قیام، پاکستان ریلوے اور پاکستان پوسٹل سروسز کے مزدوریونین کی راہ نمائی کرنا، ٹریڈ یونین سرگرمیوں میں دل چسپی لینے کا بھرپور جذبہ، ثقافتی امور میں دل چسپی، کئی بین الاقوامی سطح پر ادبی و سماجی تقاریب میں بھرپور شرکت، فلسطین کے مجاہدین ہوں یا تقسیم، برصغیر کے دوران قتل کیے جانے والے افراد یا پھر سانحۂ مشرقی پاکستان کی زد میں آئے ہوئے مظلوم لوگ سب کے لیے فیض کا دل مچلتا تھا۔

ان کے متعلق درج واقعات اس تحریر میں شامل کرنا ممکن نہیں البتہ ’’ذکر فیض‘‘ میں ان سب کا تفصیلی طور پر ذکر ملتا ہے۔ کچھ دیگر اقتباسات و واقعات بھی قابل توجہ ہیں۔ ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں ان کو پڑھ کر آپ کو کئی قسم کے مشاہدات و تجربات کا اور فیض اور اس کے اہل خانہ پر گزرنے والی کیفیت کا اندازہ لگانے میں آسانی ہوگی۔

’’شادی کے تھوڑے ہی عرصے میں ایلس، فیض کے شاعرانہ مزاج، لاابالی پن، خاموشی اور کم گوئی سے خوب اچھی طرح آگاہ ہوچکی تھی اور فیض بھی ایلس کی تلون مزاجی اور سخت گیری سے واقف تھے، لیکن ایک دوسرے کے عیب و ہنر سے مکمل آگہی کے باوجود وہ ایک دوسرے کی زندگی میں زیادہ سے زیادہ دخیل اور لازم و ملزوم ہوتے چلے گئے تھے۔‘‘ فیض کی اسیری کے دوران نہ صرف ایلس بلکہ ان کی بچیوں کو بھی شدید ذہنی اذیت اٹھانی پڑی۔ سلیمہ اس تناظر میں لکھتی ہیں،’’بخاری صاحب صرف ایک مرتبہ ہمارے ہاں آئے اور ہمیں پانچ سو روپے دیے۔ اس کے بعد وہ کبھی نہ آئے کاش وہ ہمیں پانچ سو روپے کی جگہ ہمارے گھر پانچ سو مرتبہ آتے، کیوں کہ ہم ان سے بہت محبت کرتے تھے۔‘‘

فیض احمد فیض کے جو شعری مجموعے شائع ہوئے ان میں ’’نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہہ سنگ، سر وادی سینا، شام، شہریاراں، مرے دل مرے مسافر، غبار ایام، نسخہ ہائے وفا (کلیات) کے علاوہ میزان (تنقیدی مضامین کا مجموعہ)، مہ و سال آشنائی شامل ہیں، جب کہ لندن سے جو کلیات شائع ہوئی اس کا نام ’’سارے سخن ہمارے‘‘ رکھاگیا۔ فیض کی شاعری کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے۔ روس میں سب سے زیادہ کام ہوا۔ فیض نے پنجابی شاعری بھی کی اور فلم سازی کا تجربہ بھی، بدقسمتی سے وہ فلم سازی کے تجربے میں بری طرح ناکام رہے۔ فیض نے جدید اردو شاعری (185ء سے 1939ء تک) کے موضوع پر پی ایچ ڈی کرنے کے لیے درخواست جمع کرائی تاہم اسے آگے بڑھا نہ سکے اور آرمی میں چلے گئے۔

13فروری1911ء کو پیدا ہونے والے فیض کا دل کی شدید تکلیف کے بعد 20نومبر1984ء کو میواسپتال لاہور میں انتقال ہوگیا اور 21نومبر 1984ء کو ماڈل ٹائون قبرستان لاہور میں سپرد خاک کردیا گیا۔

فیض احمد فیض کی سوانح عمری ’’ذکر فیض‘‘ میں سلیمہ ہاشمی، منیزہ ہاشمی، افتخار عارف، ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی کے مضامین شامل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ ایک انتہائی معلوماتی دستاویز ہے اور اس کی اشاعت صوبائی محکمۂ ثقافت سندھ کے سیکریٹری ثاقب احمد سومرو نے کی ہے، جو یقیناً خوش آئند بات ہے اور اس کے لیے ثاقب سومرو قابل داد ہیں۔ کتاب کی قیمت 1200رکھی گئی ہے جو مناسب ہے۔ اس کتاب میں ایک کمی کا احساس ضرور ہوتا ہے وہ فیض کی شاعری پر مختلف گوشوں سے لکھے جانے والے تنقیدی و توصیفی مضامین ہیں، جن کا خاطر خواہ ذکر نہیں ملتا مگر سوانح کے پس منظر میں مظہر جمیل کی محنت قابل ستائش ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ فیض کے حوالے سے یہ ایک جامع قابل مطالعہ کتاب ہے جس سے بہت کچھ حاصل کرنا ممکن ہے۔

دل چسپ تخلص

دوران اسیری حیدرآباد جیل میں فیض نے پندرہ روزہ مشاعرے کی بنیاد رکھی جس میں وہ اور ان کے اسیر ساتھی شریک ہوئے۔ اس میں جو تخلص مقرر کیے گئے، ان سے ان تمام اسیروں خاص کر فیض کے بلند حوصلہ ہونے کی شہادت ضرور ملتی ہے۔

مصنف مظہر جمیل نے اس بارے میں لکھا ہے، ’’یاران طریقت نے ہر ایک شخصیت کے لیے ایک اچھا سا تخلص بھی رکھ لیا تھا جس سے اس کی شخصیت کا اظہار ہوتا تھا مثلاً جنرل اکبر خان تخلص ’’فتوری‘‘ جنرل نذیر احمد کا ’’سارس‘‘ ایئر کموڈور جنجوعہ کا ’’پٹاخہ‘‘ بریگیڈیر صدیق خان کا ’’مصدق ‘‘ بریگیڈیر لطیف کا ’’خبطی‘‘ لیفٹیننٹ کرنل نیاز محمد ارباب کا ’’خر‘‘ لیفٹیننٹ کرنل ضیاء الدین ’’گڑبڑ‘‘ میجر محمد اسحاق ’’ڈنگا‘‘ میجر حسن خان کا ’’جاہل‘‘ کیپٹن ظفراﷲ پوشنی کا ’’خبیث‘‘ کیپٹن خضر حیات کا ’’پیٹو‘‘ فیض احمد فیض کا ’’کاہل‘‘ سید سجاد ظہیر کا ’’لاغر‘‘ محمد حسین عطا کا ’’گوسفند‘‘ تخلص مخصوص کیے گئے، جنہیں لوگوں نے خوش طبعی کے ساتھ قبول کرلیا، لیکن کسی نے اپنے تخلص کو شاعری میں استعمال نہیں کیا۔‘‘

Viewing all 4834 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>