Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4759 articles
Browse latest View live

2022 بیتے برس کا البم / جولائی، اگست

$
0
0

جولائی … اگست

 یکم جولائی

مہنگائی میں اضافہ

ادارہ شماریات پاکستان کے مطابق جون میں مہنگائی کی شرح 30.31  تک پہنچ گئی۔ یہ پاکستان میں پچھلے تیرہ سال کے دوران مہنگائی کی بلند ترین شرح تھی۔ ماہرین معاشیات کے مطابق خوراک اور ایندھن کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی نے جنم لیا۔

وزیراعلیٰ پنجاب کا انتخاب

سپریم کورٹ پاکستان نے حکم دیا کہ 22 جولائی کو پنجاب صوبائی اسمبلی میں وزیراعلٰی منتخب کرنے کا الیکشن کرایا جائے۔ یہ حکم سبھی جماعتوں نے تسلیم کرلیا۔ 22 جولائی کو الیکشن ہوا۔ تحریک انصاف ومسلم لیگ ق کے مشترکہ امیدوار، چوہدری پرویز الہی نے 186ووٹ حاصل کیے، جب کہ مسلم لیگ ن اور ہم خیال پارٹیوں کے امیدوار، میاں حمزہ شریف نے 179 ووٹ پاسکے۔ یوں چوہدری پرویزالٰہی بہ ظاہر فاتح قرار پائے۔

تاہم صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر، دوست محمد مزاری نے قرار دیا کہ ق لیگ کے صدر، چوہدری شجاعت حسین نے ایک خط کے ذریعے اپنے پارٹی ارکان اسمبلی کو حکم دیا تھا کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں۔ چوںکہ ق لیگ کے دس ارکان نے حکم کی خلاف ورزی کی لہٰذا ان کے ووٹ مسترد کیے جاتے ہیں۔ اس طرح میاں حمزہ الیکشن جیت کر وزیراعلٰی پنجاب بن گئے۔

تحریک انصاف و مسلم لیگ ق کا کہنا تھا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غیرآئینی و غیرقانونی تھی۔ لہٰذا انھوں نے انصاف کی خاطر سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ عدالت عالیہ میں مقدمے کی سماعت ہوئی۔ 26 جولائی کو سپریم کورٹ نے دوست محمد مزاری کی رولنگ غیرآئینی قرار دے دی۔ یوں ق لیگ کے دس ووٹ پھر چوہدری پرویز الہی کو مل گئے اور وہ وزیراعلٰی بننے میں کام یاب رہے۔

3جولائی

افغان طالبان نے موقع گنوا دیا

پاکستانی حکومت کے ایک سنیئر اہل کار نے ایکسپریس ٹریبون کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ مارچ 22ء میں پاکستان سمیت درجن بھر یورپی ممالک افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کے قریب تھے، مگر طالبان کی عہدشکنی کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔

یاد رہے کہ طالبان نے اگست 21ء میں افغان حکومت سنبھال کر وعدہ کیا تھا کہ خواتین کے حقوق غضب نہیں ہوں گے اور لڑکیوں کے اسکول موسم سرما کے بعد کھول دیے جائیں گے، لیکن انھوں نے ایسا نہیں کیا۔

4 جولائی

نیلم جہلم پروجیکٹ کی بندش

آزادکشمیر میں صدرمقام، مظفرآباد سے اکتالیس کلومیٹر دور دریائے نیلم پر تعمیرشدہ 969 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والا نیلم جہلم ہائیڈرو پروجیکٹ میں اچانک پانی بڑھنے لگا۔ یہ پانی ڈرینج پائپوں کے ذریعے نکال کر بجلی گھر کو ڈوبنے سے بچالیا گیا۔ بعدازآں اسے بند کردیا گیا۔

5 جولائی

طوفانی بارشوں کا آغاز

خیبر پختون خواہ، بلوچستان اور سندھ میں مون سون کی طوفانی بارشوں کا آغاز ہوگیا۔ ان زوردار بارشوں نے مملکت کا کثیر حصہ سیلاب میں ڈبو دیا۔ سیلاب نے دو ہزار ہم وطنوں کی زندگیوں کا چراغ گل کر ڈالا۔ لاکھوں ایکڑ رقبے پر پھیلی فصلیں و باغات تباہ کردیے۔ یوں قومی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا زبردست نقصان پہنچایا۔

امریکا ایران مذاکرات

دوحہ، قطر میں امریکا اور ایران کی حکومتوں کے خصوصی نمائندوں کے مابین جوہری معاہدہ کرنے کے سلسلے میں مذاکرات ہوئے۔ واضح رہے، ایران ایٹم بم بنانے کی سعی میں ہے تاکہ ملکی دفاع مضبوط ہو سکے، مگر امریکا، اسرائیل اور بعض عرب ممالک بھی ایرانی ایٹم بم سے خائف ہیں۔

8 جولائی

سابق جاپانی وزیراعظم کا قتل

ایک شخص نے سابق جاپانی وزیراعظم، شنزو آبے کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ قاتل کا کہنا تھا کہ مقتول مذہبی فرقے یونیفیکشن راہ نما تھا جس نے اس کی ماں کو دیوالیہ بنا دیا تھا۔

9 جولائی

سری لنکن صدر فرار

سری لنکن صدر، گوٹابایا راجاپکشا عوامی غصّے سے خوف زدہ ہو کر ملک سے فرار ہوگئے۔ مملکت میں مظاہرین بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے ماہ مارچ سے احتجاج کر کے ان کی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے تھے۔

13 جولائی

بھارت سلامتی کونسل کا رکن نہیں بنا

اقوام متحدہ میں جرمنی، جاپان، برازیل اور بھارتی پر مشتمل ’’جی فور نیشنز گروپ‘‘ نے کوشش کی کہ بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن جائے، مگر ’’کافی گروپ‘‘ (Coffee Club) نے اس وار کو ناکام بنا دیا۔کافی گروپ کینیڈا، اٹلی، اسپین، جنوبی کوریا، ارجنٹائن ، ترکی اور پاکستان پر مشتمل ہے۔

نیب کے نئے سربراہ

حکومت نے آفتاب سلطان کو نیب کا نیا چئیرمین مقرر کردیا، جو تین سال تک اس عہدے پر تعینات رہیں گے۔

14 جولائی

یورپ میں گرمی کی شدید لہر

پرتگال کے علاقے، پنہاؤ (Pinhão) میں درجۂ حرارت 47 درجے سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ براعظم یورپ کی تاریخ میں چوتھا بلند ترین درجۂ حرارت ہے۔ اسی طرح 19 جولائی کو برطانیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کونینگسبے) Coningsby (کے علاقے میں درجۂ حرارت 40 درجے سینٹی گریڈ سے بلند ریکارڈ ہوا۔ گذشتہ سال جون تا اگست براعظم یورپ گرمی کی شدید لہروں کی زد میں رہا۔

17 جولائی

تحریک انصاف فتح یاب

پنجاب اسمبلی کی بیس نشستوں پر ضمنی الیکشن منعقد ہوئے۔ تحریک انصاف پندرہ نشستیں جیت کر فتح یاب قرار پائی۔

26 جولائی

گیس کی جنگ

حکومتِ روس نے اعلان کیا کہ وہ یورپی ممالک کو روسی گیس کم فراہم کرے گا۔ فروری 22 ء میں یوکرین پر روسی حملے سے قبل یورپ اپنی ’’45 فی صد‘‘ گیس روس سے خریدتا تھا، مگر حملے کے بعد امریکا کے دباؤ پر کئی یورپی ملکوں نے روس سے گیس کی خریداری کم کردی، جس سے خفا ہوکر روسی حکومت نے بھی اعلان کر دیا کہ وہ انھیں اپنی گیس فروخت نہیں کرنا چاہتی۔

یورپی ممالک پھر خلیجی ملکوں سے ایل این جی خریدنے لگے۔ طلب میں بے پناہ اضافے نے ایل پی جی کی قیمت بھی بڑھادی۔ اس سے غریب اور ترقی پذیر ممالک مشکل میں پڑگئے، کیوںکہ انھیں مہنگی ایل پی جی خریدنا پڑی۔

29 جولائی

کینیڈا میں ریفرنڈم برائے خالصتان

امریکا وکینیڈا میں سرگرم سکھوں کی تنظیم، سکھز فار جسٹس نے اپنی آزاد وخودمختار ریاست، خالصتان کا باقاعدہ نقشہ جاری کردیا۔ اس نے کینیڈا میں ریفرنڈم برائے خالصتان کرانے کا بھی اعلان کیا۔ یہ تنظیم اکتوبر 2007ء میں قائم ہوئی اور دنیا بھر کے سکھوں میں مقبول ہے۔

اس کی سعی ہے کہ بھارتی پنجاب، ہریانہ اور اترپردیش کے مخصوص علاقوں پر مشتمل سکھوں کی آزاد ریاست قائم ہوجائے۔ حکومتی رکاوٹوں کے باوجود سکھوں کی بڑی تعداد نے ریفرنڈم میں شریک ہو کر خالصتان کے حق میں ووٹ دیا۔ کینیڈا میں سکھوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے، وہاں 18 ستمبر اور پھر 9 نومبر کو دو مرحلوں میں ریفرنڈم منعقد ہوا۔ دونوں مرحلوں میں سکھوں نے تقریباً دو لاکھ ووٹ خالصتان کے حق میں ڈالے۔

30 جولائی

شہزادہ چارلس اور چندہ

برطانیہ کے اخبار، سنڈے ٹائمز نے یہ سنسنی خیز خبر شائع کی کہ 2013ء میں برطانوی ولی عہد اور موجودہ شاہ چارلس نے اسامہ بن لادن کے سوتیلے بھائیوں، شفیق اور بکر بن لادن سے دس لاکھ پونڈ کی خطیر رقم بطور چندہ لی تھی۔ شاہ کا دعویٰ ہے کہ یہ رقم ان کی فلاحی تنظیم کو عطیہ کی گئی۔

2اگست

پاک فوج کے افسر شہید

بلوچستان میں سیلاب کے دوران امدادی کارروائیوں میں مصروف آرمی ایوی ایشن کا ہیلی کاپٹر فنی خرابی کے سبب گر کر تباہ ہوگیا۔ اس میں 12 کور کے کمانڈر، لیفٹیننٹ جنرل سرفراز علی، ڈی جی کوسٹ گارڈ، میجر جنرل امجد حنیف، بریگیڈیئر محمد خالد اور دو میجر سوار تھے۔ سبھی نے جام شہادت نوش کیا۔

2 اگست

مولانا مودودی ؒ کی کتب پہ پابندی

بھارت کی قوم پرست ہندو جماعت، بی جے پی کے دباؤ پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی انتظامیہ نے شعبہ اسلامیات میں مولانا مودودی ؒ اور ممتاز مصری عالم، سید قطب ؒ کی کتب پڑھانا بند کر دیں۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ دونوں علما کی کتب انتہاپسندی کو فروغ دیتی ہیں۔ اس خبر پر بھارتی سیکولر دانشوروں نے احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی اعلٰی تعلیم کا مرکز ہے، لہٰذا وہاں فکر ودانش کی آزادی ہونی چاہیے۔

2اگست

آڈیو لیک اسکینڈل کا آغاز

پی ٹی آئی دور کے وزیرخزانہ شوکت ترین اور خیبر پختون خواہ کے وزیرخزانہ، تیمور جھگڑا کی فون پر ہوئی گفتگو کی ریکارڈنگ سامنے آ گئی۔

اس میں مبینہ طور پر دونوں راہ نما اتحادی حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین معاہدہ ناکام بنانے کے لیے گفتگو کر رہے ہیں۔ اس آڈیولیک پر بہت لے دے ہوئی اور اتحادی حکومت نے پی ٹی آئی کے راہ نماؤں پر ریاست دشمن ہونے کا الزام لگایا۔ اس آڈیولیک کے بعد آنے والے دنوں میں عمران خان، شہبازشریف، مریم نواز، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور دیگر سیاست دانوں کی باتوں کی ریکارڈنگ سامنے آئیں۔ ان آڈیولیکس کی وجہ سے کئی تنازعات نے جنم لیا۔

5 اگست

فلسطینیوں پر ظلم ستم

اسرائیلی طیاروں نے غزہ میں بم باری کرکے دس فلسطینی شہید کردیے۔ 22ء میں بھی اسرائیلی حکومت نے نہتے وبے بس فلسطینیوں پر ظلم وستم جاری رکھا۔

اسرائیلی طیارے آئے دن انھیں ٹارگٹ کر کے نشانہ بناتے رہے۔ ماہرین کی رو سے گذشتہ سال اہل فلسطین پر بہت بھاری گزرا اور کئی سو فلسطینی اسرائیلی بمباری کے سبب شہید ہوگئے۔

پاکستانی سویلین حکومت کی ناکامی

اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی کہ آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ نے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حکم رانوں سے رابطہ کیا ہے تاکہ ان کی مدد سے آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج منظور کرایا جا سکے۔

اس پیکیج کی منظوری سے پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی پہلی قسط ملنی تھی، مگر آئی ایم ایف نے یہ شرط لگا دی کہ پاکستان پہلے دوست ممالک سے چار ارب ڈالر حاصل کر لے۔ چناں چہ اس مقصد کے لیے پاکستانی حکم رانوں کو سعودیہ اور امارات سے رابطہ کرنا پڑا۔ اپریل میں وزیراعظم شہباز شریف نے سعودیہ کا دورہ کیا مگر وہ مطلوبہ رقم حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ چین اور امارات سے بھی انھیں مثبت جواب موصول نہیں ہوا۔

اس صورت حال میں آرمی چیف کو میدان عمل میں اترنا پڑا۔ انھوں نے تینوں ممالک سے رابطے کیے تاکہ وہ چار ارب ڈالر محدود مدت کے لیے فراہم کرسکیں۔ یہ کوشش کام یاب رہی اور پاکستان کو آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط مل گئی۔ عمران خان کے دور میں بھی سیاسی حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے اور دوست ملکوں سے امداد لینے میں ناکام رہی تھی۔ لہٰذا تب بھی آرمی چیف کو متحرک ہونا پڑا تھا۔

8 اگست

کامن ویلتھ گیمز کا اختتام

اٹھائیس جولائی سے برطانوی شہر برمنگھم میں جاری کامن ویلتھ گیمز ختم ہو گئے۔ ان کھیلوں میں پاکستان کا 67 رکنی دستہ بھی شامل تھا۔

اس دستے میں 42 مرد اور 25خواتین شامل تھیں جنھوں نے بارہ کھیلوں میں حصہ لیا۔ پاکستانی دستہ دو طلائی، تین نقرئی اور کانسی کے دو تمغے جیتنے میں کام یاب رہا۔ پاکستانی کھلاڑی، ارشد ندیم نے جاولین تھرو کے کھیل میں ایشیائی ریکارڈ بنایا۔

11 اگست

پاک ترک تجارتی معاہدہ

پاکستان اور ترکی کے مابین تجارتی معاہدہ انجام پا گیا۔ اس کے تحت دونوں ملکوں کے مابین باہمی تجارت کی مالیت پانچ ارب ڈالر تک بڑھائی جائے گی۔ نیز ترک کمپنیاں پاکستان میں پانی، سورج اور ہوا سے بجلی بنانے کے منصوبے شروع کریں گی۔

13 اگست

آسان موبائل اکاؤنٹ

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے عوام کو آسان موبائل اکاؤنٹ کھولنے کی اجازت دے دی۔ اب ہر پاکستانی اپنے فون سے 2262 پر ایس ایم ایس کر کے اپنا موبائل اکاؤنٹ کھول سکتا ہے۔ صارف اس اکاؤنٹ کے ذریعے بجلی، گیس وغیرہ کے بلوں کی ادائی کر سکے گا۔

15 اگست

سعودی ڈالر پاکستان میں

سعودی عرب نے کچھ عرصہ قبل پاکستان کو بطور سیف ڈپازٹ تین ارب ڈالر فراہم کیے تھے۔ مدعا یہ تھا کہ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں۔ اب خبر ملی کہ سعودیہ نے تین ارب ڈالر دسمبر تک پاکستان رکھنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ سعودی عرب ماہانہ دس کروڑ ڈالر کا تیل بھی موخر ادائی پر پاکستان کو دے رہا ہے۔

17 اگست

اہل کشمیر پر ایک اور ظلم

مسلم دشمن بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں غیرمقامی لوگوں کو بھی ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی۔ اب تعلیم، ملازمت یا سیکیوریٹی کے تحت مقبوضہ کشمیر آیا کوئی بھی بھارتی ووٹر ریاستی اسمبلی کے الیکشن میں ووٹ ڈال سکے گا۔ اس نئی پالیسی کا واضح مقصد یہ ہے کہ بی جے پی کو ریاستی الیکشن میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل ہو سکیں۔

19 اگست

خشک سالی کا شکار چین

حکومت چین نے یہ خبر جاری کی کہ کئی چینی صوبوں میں قحط اپنے عروج پر ہے۔ وجہ یہ کہ صوبے شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں اور وہاں معمول سے ساٹھ فی صد کم بارشیں ہوئیں۔ اس باعث کئی دریا اور جھیلیں سوکھ گئیں۔ خشک سالی کی وجہ سے فصلیں کاشت نہ ہو سکیں اور یوں چینی معیشت کو چالیس کروڑ ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔ قحط سے ساٹھ لاکھ چینی باشندے متاثر ہوئے۔

26 اگست

مہنگائی کی بلند ترین شرح

وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ نے افشا کیا کہ اس سال ماہ اگست تک مہنگائی کی سالانہ شرح 44.58 فی صد ہو چکی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں مہنگائی کی بلند ترین شرح ہے۔

29 اگست

آئی ایم ایف سے قرض مل گیا

عالمی مالیاتی ادارے، آئی ایم ایف نے پاکستان کو ساڑھے چھے ارب ڈالر کا قرض دینے کی منظوری دے دی۔ ایک ارب دس کروڑ ڈالر کی پہلی قسط بھی جاری کر دی گئی۔ پاکستان کو بقیہ رقم جون 23ء تک اقساط کی صورت ملے گی۔

The post 2022 بیتے برس کا البم / جولائی، اگست appeared first on ایکسپریس اردو.


2022 بیتے برس کا البم / ستمبر، اکتوبر

$
0
0

ستمبر … اکتوبر

یکم ستمبر

بجلی کا بم اور ہم

یوں تو حکومت گاہے بگاہے عوام کو جھٹکے دیتی ہی رہتی ہے لیکن اس ماہ کے شروع میں ہی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں بجلی 4.34روپے فی یونٹ کرتے ہوئے عوام پر بم گرا دیا گیا۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی نے پہلے ہی عوام کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔

اس پر بلوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں ڈالے جانے والے اس اضافی بوچھ نے عوام کی کم توڑ دی ہے۔ ماہرین کے مطابق بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صارفین پر 35ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔

بیرونی مدد

ایشیائی ترقیاتی بنک نے پاکستان میں آنے والے بدترین سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے 30 لاکھ ڈالر کی منظوری دے دی۔ اس گرانٹ میں سیلاب زدگان کے لیے خوراک کے سامان، خیموں اور دیگر امدادی سامان کی خریداری کے لیے رقم فراہم کی جائے گی۔ اس کے علاوہ عالمی ادارہ صحت نے بھی سیلاب متاثرین کے لیے ایک کروڑ ڈالر کی ہنگامی امداد جاری کی۔

2 ستمبر

امن کی داعی مجرم!

میانمار کی سابقہ وزیرخارجہ آنگ سان سوچی کو الیکشن میں فراڈ کرنے کے جرم میں ملوث ہونے پر تین سال کی سزا سنائی گئی۔ مختلف مقدمات میں انہیں مجموعی طور پر بیس برس کی سزا ہوئی ہے۔ یاد رہے سوچی کو امن کا داعی گردانتے ہوئے نوبیل انعام بھی مل چکا ہے۔ ان پر 2017ء میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کا الزام بھی لگایا گیا۔

مسجد پر حملہ

افغانستان کے مغربی شہر ہرات کی ایک مسجد میں خودکش حملے نتیجے میں 18 افراد شہید اور 23 زخمی ہوگئے۔ دھماکے میں افغان طالبان کے حمایت یافتہ امام بھی مارے گئے۔

خاتون اول مجرم قرار!

ملائیشیا کی سابق خاتون اول روسما منصور کو رشوت ستانی کے جرم میں 10سال قید کی سزا سنائی گئی۔ سابق خاتون اول پہ شمشی توانائی کے ایک منصوبے میں 4کروڑ30لاکھ ڈالر رشوت لینے کے تین الزامات تھے۔

کوالالمپور ہائی کورٹ نے روسما منصور کو ان الزامات میں مجرم قرار دیتے ہوئے 10سال قید اور 21کروڑ 60لاکھ ڈالر جرمانے کی سزا سنائی۔ یاد رہے کہ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ان کے شوہر نجیب رزاق کو کرپشن مقدمات میں 12سال قید کی سزا سنائی گئی۔

5 ستمبر

روسی سفارت خانے میں دھماکا

کابل میں واقع روسی سفارت خانے میں خود کش بم دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے جن میں روسی سفارت خانے کے دواہلکار بھی شامل تھے۔ خودکش حملہ آور کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے تھا۔

روس کی دھمکی

روس نے دھمکی دیتے ہوئے اعلان کیا کہ جب تک روس سے پابندیاں نہیں اٹھائی جاتیں تب تک وہ یورپ کو قدرتی گیس کی بحالی کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرے گا۔

یاد رہے کہ روس کے یوکرائن پہ حملے کے بعد سے بہت سے ممالک جن میں امریکا، کینیڈا اور یورپی یونین کے کئی ملک شامل ہیں، نے روس پر معاشی پابندیاں عاید کر رکھی ہیں اور غذائی اجناس اور کاروبار مکمل بند کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں روس کو بڑے پیمانے پر نقصان اٹھانا پڑا۔

زلزلے یہاں بھی وہاں بھی

جنوب مغربی چین میں واقع سیچوان میں 6.8شدت کے زلزلے سے بڑے پیمانے پر تباہی مچی جس کے نتیجے میں 66 افراد ہلاک اور 250 زخمی ہوگئے۔ دوسری طرف افغانستان میں زلزلے کے نتیجے میں 9 افراد ہلاک ہوگئے ۔ زلزلہ افغانستان کے مشرقی حصہ میں آیا۔

منکی پاکس کا پہلا کیس

سن 2019 میں کووڈ 19کے بعد دنیا میں وباؤں کا جو پراسرار سلسلہ چل نکلا ہے اس میں 2022 میں منکی پاکس کے نام سے ایک وبا کی تشخیص ہوئی۔ ایشیا میں اس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ ہانگ کانگ میں اس وبا کا پہلا کیس رپورٹ ہوا۔

8ستمبر

ملکہ برطانیہ راہ عدم سدھار گئیں

برطانیہ کی ملکہ، الزبتھ دوئم 96 برس کی عمر میں بالمورل کیسل اسکاٹ لینڈ میں انتقال کرگئیں۔ وہ برطانیہ پر 70برس تک تحت نشین رہنے والی پہلی ملکہ تھیں۔ ان کے ولی عہد ان کے صاحب زادے 73 سالہ شہزاہ چارلس برطانیہ کے نئے بادشاہ بن گئے۔

9ستمبر

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان میں!

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیوگوتیرس پاکستان سے یک جہتی اور حمایت کے اظہار کے لئے دوروزہ دورے پر پاکستان پہنچ گئے۔

ان کا استقبال وزیرمملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے کیا۔ اس دوروزہ دورے میں انہوں نے وزیراعظم شہبازشریف سے ملاقات، نیشنل فلڈ رسپانس اینڈ کو آرڈینیشن سینٹر اور سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ ان کے اس دورے سے دنیا کو پاکستان میں سیلاب سے ہونے والی تباہی سےآگاہی حاصل ہوئی اور امداد کے بہتر امکانات پیدا ہوئے۔

خطے کی نئی جوہری طاقت

یوں تو ہر ملک اپنے دفاع اور سلامتی کے لیے امن کا خواہاں ہے لیکن کچھ ممالک اس ضمن میں جوہری توانائی کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔

9 ستمبر کو شمالی کوریا نے خود کوایک قانون پاس کرتے ہوئے جوہری ریاست کا درجہ دیا۔ اس قانون کے ذریعے شمالی کوریا کا دفاع کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حق کا اظہار ہوتا ہے۔ ملک کے سربراہ کم جونگ اِن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ ایٹمی ہتھیار کبھی ترک نہیں کئے جائیں گے۔

12ستمبر

گندم، سونے کے بھاؤ!

پنجاب میں گندم ایک مرتبہ پھر مہنگی ہوگئی۔ سرکاری نرخ پر گندم کی فی من فروخت میں 535 روپے میں اضافے کا فیصلہ کیا گیا، جس کے بعد آٹے کے سرکاری تھیلے کی قیمت میں 380روپے کے لگ بھگ اضافہ ہوا۔

13 ستمبر

دھماکے نے آٹھ جانیں لے لیں

پاکستان کے ضلع سوات میں سڑک کنارے ایک دھماکے کے نتیجے میں آٹھ افراد ہلاک ہوگئے، جس میں پاکستان مخالف گروہ کا سرغنہ بھی شامل تھا۔ دھماکے کی ذمہ داری کسی نے بھی قبول نہیں کی۔

14ستمبر

سابق کرکٹر اسدرؤف انتقال کرگئے!

سابق پاکستانی فرسٹ کلاس کرکٹر اور آئی سی سی ایلیٹ ایمپائر پینل میں شامل ایمپائر اسد رؤف لاہور میں انتقال کرگئے ان کی عمر 66 برس تھی۔

میچ فکسنگ اور سپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کی بنا پر ان پر 5 سال کی پابندی عائد کردی گئی تھی۔ انہوں نے 49 ٹیسٹ میچوں ، 98ون ڈیز اور 23 ٹی ٹونٹی میچوں میں ایمپائرنگ کے فرائض انجام دیئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے لاہور میں جوتوں کی دکان کھول لی تھی۔

15ستمبر

عمران خان مشکل میں

سابق وزیر اعظم عمران خان کا ستارہ اس وقت گردش میں معلوم ہوتا ہے۔ اپنے ایک بیان میں خاتون جج کو دھمکانے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت مقدمے میں بطور ملزم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے ۔

اس دوران 15 منٹ میں ان سے 21سوالات پوچھے گئے۔ ادھر اسلام آباد پولیس کا خیال ہے کہ اگر اس مقدمے کی دفعات کی رو سے دیکھا جائے تو اس سنگین نوعیت کے مقدمے میں عمران خان کو کم سے کم پانچ برس سے زیادہ کی سزا، عمر قید یا جرمانہ ہوسکتے ہیں۔

 بجلی مفت

سیلاب سے تباہ حال علاقوں میں اس وقت صورت حال مخدوش ہے۔ اس سلسلے میں وزیراعظم شہبازشریف نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے22  لاکھ گھریلو اور ساڑھے تین لاکھ کمرشل صارفین کے بجلی کے ماہ اگست اور ستمبر کے بل معاف کرنے کا اعلان کیا ہے۔

علاوہ ازیں300 یونٹ تک بجلی کے دو کروڑ 10لاکھ صارفین کو ستمبر میں فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی چھوٹ دینے کی نوید بھی سنادی، جب کہ دوسری جانب وفاقی وزیر برائے توانائی خرم دستگیر نے کہا کہ فیول ایڈجسٹمنٹ کو معاف نہیں، موخر کیا ہے۔

16ستمبر

ہنگامے پھوٹ پڑے

ایران میں جواں سال خاتون مہسا امینی کی پولیس کی حراست کے دوران ہلاکت سے ایران بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ خواتین کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی اور حکومت مخالف نعرے لگانے لگی۔

مہسا امینی کو پولیس نے ملک میں لاگو حجاب کے متعلق قوانین کی خلاف ورزی پر حراست میں لیا تھا اور رپورٹس کے مطابق وہ پولیس کی تشدد سے کومہ میں چلی گئیں، اسی دوران ان کی موت واقع ہوگئی، جس پر تمام ملک میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی۔

اب روس گیس فراہم کرے گا!

وزیراعظم شہبازشریف سے روس کے صدر پیوٹن نے ملاقات کے دوران پاکستان کو پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی کی نوید سنا دی۔ یہ ملاقات دونوں راہ نماؤں کے درمیان شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دوران سمرقند میں ہوئی۔

ملاقات میں دوطرفہ تعلقات اور باہمی دل چسپی کے امور پر تبادلۂ خیال کیا گیا اور پاکستان میں سیلاب متاثرین سے اظہار یک جہتی کیا گیا۔ اس کے علاوہ صدرپیوٹن نے توانائی کے دیگر منصوبوں میں بھی دل چسپی کا اظہار کیا۔ یاد رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم دنیا کی40 فی صد آبادی اور اس کی امنگوں اور ویژن کی عکاسی کرتی ہے۔

 17ستمبر

پنجاب کے کاشت کاروں کے لیے خوش خبری

وزیراعلٰی پنجاب پرویزالہی نے اعلان کیا کہ چولستان میں 20 ہزار مقامی کاشت کاروں کو معاشی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے ضمن میں سرکاری اراضی دی جائے گی۔ کاشت کے لیے 20 ہزار کاشت کاروں کو شفاف قرعہ اندازی کے ذریعے زمینیں الاٹ کی جائیں گی۔

اسپین پنجاب میں زیتون ، سنگترہ اور دیگر ترشاوا پھلوں کی کاشت بڑھانے میں تیکنیکی معاونت فراہم کرے گا۔ اس کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں میں ماس ٹرانزٹ سسٹم کے تحت جدید بسیں لانے پر بھی غور کیا جارہا ہے۔

گندم اور آٹا مہنگا

ملک بھر میں آٹے کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں 20 کلو کا تھیلا 2600  تک جاپہنچا۔ گندم 3450  روپے سے لے کر 3750 روپے من تک فروخت ہونے لگی۔ آٹا فی کلو کے حساب سے 116کے بجائے 135 روپے کا ملنے لگا، جب کہ کراچی میںفی کلو آٹے کی قیمت 200 تک جانے کا خدشہ سر اٹھانے لگا۔

کے پی اور بلوچستان میں حالات تاحال خراب ہیں اور اس ساری صورت حال کے پیش نظر عوام اب یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ان سے روٹی کیوں چھینی جا رہی ہے۔ دوسری طرف فلورز ملز ایسوسی ایشن نے وفاقی حکومت کو خط لکھ کر خبر دار کیا کہ کراچی سمیت ملک بھر میں گندم کا بحران جنم لے چکا ہے جب کہ آئندہ فصل کی کاشت میں سیلاب کے سبب 60 فی صد کمی کا خطرہ ہے۔

18 ستمبر

ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے!

ترکیہ میں LGBTQ کے خلاف ہزاروں افراد استنبول کی سڑکوں پر مارچ کرتے نکل آئے اور حکومت سے اس ہم جنس پرستوں کی تنظیم اور اس کی کارروائیوں کے خلاف قانون سازی کرنے کا مطالبہ کیا۔

ملکہ سپردِخاک

برطانیہ کی ملکہ الزبتھ دوم کو شاہی اعزازات کے ساتھ دفن کردیا گیا۔ ان کی آخری رسومات میں 500 عالمی راہ نما شریک ہوئے۔ رسومات کو 125سنیما گھروں میں دکھایا گیا اور جلوسوں کو براہ راست ٹی وی اسکرینوں پر نشر کیا گیا۔ پوتے پوتیوں نے ملکہ کو خراج عقیدت پیش کیا۔

قرضہ موخر کردیا

سعودی عرب نے پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے دیے گئے3ارب ڈالر کے قرضے کو ایک سال کی لیے موخر کردیا۔ سعودی عرب نے یہ قرض فنڈز برائے ترقی کی مد میں پاکستان کو دیا تھا جس کی ادائیگی رواں برس دسمبر میں ہونا تھی مگر سعودی حکومت اور پاکستان کے درمیان طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت اس قرض کی ادائی میں ایک برس کی توسیع کردی گئی جس کا مقصد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کو کو مستحکم کرنا اور معاشی مدد فراہم کرنا تھا۔

پینا ڈول غائب

بخار ہو، سردرد یا کسی بھی درد کو رفع کرنے کے لیے پیناڈول کو پاکستانی آفاقی دوا تصور کرتے ہیں، اور یہ تو دستورِزمانہ ہے کہ جو نایاب ہے وہ کم یاب ہے۔ تو پیناڈول کو بھی اپنی قدروقیمت کا اندازہ ہوا اور اندازہ ہونے کی دیر تھی کہ وہ مارکیٹ سے غائب ہوگئی۔

پیناڈول کی اس قلت نے محکمۂ صحت کو بھی کان کھڑے کرنے پہ مجبور کردیا اور اس قلت سے نمٹنے کے لیے محکمۂ صحت پنجاب نے وفاق کو قیمتیں بڑھانےکی تجویز دے دی۔ وزیرصحت یاسمین راشد نے کہا کہ پیناڈول کی فی گولی 90 پیسے قیمت بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اور اس قلت کے پیچھے بھی ڈالر کا ہاتھ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ امکان ہے کہ جلد وفاق کمپنیوں کے ساتھ معاملات طے کر لے گا۔

کرپشن ریفرینسز واپس

نیب قوانین میں ترمیم کی آوازیں مقتدر حلقوں سے آتی سنائی دے رہی تھیں، بالآخر شنوائی ہوگئی اور اس کے پہلے حتمی و یقینی نتائج کی صورت میں نیب ریفرینسز کے ملزمان کو بڑا ریلیف ملا۔ وزیراعظم شہبازشریف، حمزہ شہباز، راجا پرویزاشرف اور یوسف رضا گیلانی سمیت 150افراد کے کرپشن ریفرنسز واپس کر دیے گئے۔

ان ریفرینسز میں شہبازشریف اور حمزہ شہباز کے خلاف رمضان شوگر ملز، اسپیکر قومی اسمبلی راجاپرویزاشرف کے خلاف رینٹل پاور کے 6 ریفرینس اور سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کے خلاف یو ایس ایف فنڈریفرنس جیسے مشہور زمانہ ریفرینسز شامل تھے۔ اس پر اپوزیشن کی جماعتوں نے کھل کر تنقید کی اور ملک میں احتساب کے نظام پر سوالات اٹھا دیے۔

19ستمبر

سابق پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز انتقال کر گئے

سابق صدر پرویزمشرف کے پرنسپل سیکرٹری طارق عزیز انتقال کرگئے۔ انہیں اسلام آباد میں سپرد خاک کردیا گیا۔ وہ دو سال سے علیل تھے۔

وہ قومی سلامتی کونسل کے سیکریٹری سمیت کئی اہم عہدوں پر فائز رہے۔ وہ پرویز مشرف کے ہم جماعت تھے اور چودھردی شجاعت حسین سے دیرینہ وابستگی تھی۔ مرحوم اپنے سوگواروں میں ایک بیٹا، دو بیٹیاں اور ایک بیوہ شامل ہیں۔ ان کا تعلق بھلوال کے چک 9 شمالی سے تھا۔

20ستمبر

وبائیں پھوٹ پڑیں

پاکستان کے صوبہ سندھ میں ہیضہ، ملیریا اور گیسٹرو کی وبا سے چوبیس گھنٹے کے دوران نو افراد جان کی بازی ہارگئے۔ سندھ میں آنے والے سیلا ب کے بعد سے اب تک ایک ہزار چھ سو افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ سیلاب سے متاثر علاقوں میں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے مختلف وبائی امراض جنم لے رہے ہیں۔

21ستمبر

سیلاب کے متاثرین کی بحالی

گذشتہ سال بارشوں سے آنے والے سیلاب سے ملک بھر میں بے پناہ تباہی آئی۔ اس ضمن میں عالمی سطح پر بھی پاکستان کو آفت زدہ ملک قرار دیا گیا اور بہت سے ممالک نے پاکستان کی مدد کرنے کا عندیہ بھی دیا۔ فرانس نے پاکستان کے ساتھ مل کر متاثرہ علاقوں کی بحالی اور تعمیرنو میں حصہ ڈالنے کا اعلان کیا۔

یہ تفصیلات اس وقت سامنے آئیں جب وزیر اعظم شہبازشریف اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شریک ہوئے۔ فرانس اس ضمن میں بین الاقوامی کانفرنس کی میزبانی کرے گا جس کا مقصد متاثرہ علاقوں میں تعمیرنو، قابل تجدید توانائی کی منتقلی کو تیز کرنا اور موسمیاتی مسائل سے نبردآزما ہونا ہے۔

22 ستمبر

انجلینا جولی کی پاکستان آمد

سیلاب کے متاثرین سے اظہارِیک جہتی کے لیے ہالی وڈ کی مشہور اداکارہ انجلینا جولی اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کی نمائندہ خصوصی ہونے کی حیثیت سے پاکستان پہنچیں۔ انھوں نے نیشنل فلڈ رسپانس کوآرڈینیشن سینٹر کا دورہ کیا اور پاک فوج کی اس ضمن میں خدمات کا اعتراف کیا۔

انجلینا جولی کا کہنا تھا کہ وہ سیلاب کی صورت حال اور موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی اور امدادی سرگرمیوں کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کرائیں گی۔ انھوں نے دنیا سے مدد کے لیے ڈو مور کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس ضمن میں متاثرین کی مدد کے لیے بار بار پاکستان آنے کو تیار ہیں۔

امریکی صدر کی وڈیو وائرل

آج کل وائرل وڈیوز کا دور دورہ ہے۔ آپ کی چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی کیمرے کی آنکھ سے محفوظ نہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نیویارک میں ہونے والے ایک ایونٹ میں تقریر ختم کرنے کے بعد پریشان دکھائی دیے، نیویارک میں ایڈز، ٹی بی اور ملیریا کے خلاف فنڈز اکھٹے کرنے کی تقریب میں خصوصی شرکت کی اور تقریر ختم کرتے ہی وہ اسٹیج سے دو قدم چلے اور پریشانی کی حالت میں کھڑے ہوگئے۔

وہ کافی دیر خود کو سنبھالتے ہوئے دکھائی دیے۔ لوگوں نے انٹرنیٹ اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پہ یہ ویڈیو شیئر کی جو وائرل ہوئی ۔

عمران خان کی معافی

عمران خان یوٹرن کے ماہر کہلاتے ہیں۔ ان پر ایک خاتون جج سے متعلق توہین آمیز زبان استعمال کرنے پر توہین عدالت کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں درج کیا گیا۔ اس پر عمران خان نے معافی مانگ لی، جس کے بعد عدالت نے عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی موخر کر دی۔ یاد رہے کہ اس کیس میں فرد جرم عائد ہونے کی صورت میں عمران خان کو سزا اور جرمانہ ہوسکتا تھا۔

سابق سفارت کار ہمایوں خان انتقال کر گئے

پاکستان کے سابق سفارت کار ہمایوں خان انتقال کرگئے۔ وہ بھارت اور برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

24 ستمبر

جاپان اندھیروں میں ڈوب گیا

پاکستان میں جہاں دوسرے توانائی کے بحران ہیں وہاں بجلی کا بھی بحران ہے، جس کی وجہ سے لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہے اور لوگ بجلی کے نہ ہونے پر بھی اس قدر پریشان نہیں ہوتے جس قدر ان ممالک کے باسی پریشان ہوجاتے ہیں جہاں بجلی چوبیسوں گھنٹے میسر ہوتی ہے۔

وسطی جاپان میں ایک طوفان کے آنے کی وجہ سے دو لوگ ہلاک ہوگئے جب کہ بجلی کا بریک ڈون ہوگیا اور سوا لاکھ سے زائد آبادی اندھیرے میں ڈوب گئی۔ جاپان کا یہ حصہ جزیرہ نما ہے۔

صحافی کا بیٹا قاتل

صحافی یوں تو جرائم کو بے نقاب کرنے اور مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے جانے جاتے ہیں، مگر اسلام آباد میں معروف صحافی ایازامیر کے بیٹے نے اپنی کینیڈین بیوی کو سر میں ڈمبل مار کر قتل کر دیا۔

صحافی کے بیٹے شاہنواز امیر نے سارہ سے تیسری شادی کی تھی۔ سارہ قتل سے ایک روز قبل دبئی سے واپس آئی تھی۔ دونوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس پر ملزم نے بیوی کے سر پر لوہے کا ڈمبل مار کر قتل کردیا۔ اورلاش کو باتھ ٹب میں ڈال دیا۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر ملزم کو گرفتار کرلیا۔ پوسٹ مارٹم کے دوران مقتولہ کے جسم پر تشدد کے نشانات پائے گئے۔ ذرائع کے مطابق سنیئر صحافی ایازامیر نے نے اسلام آباد کے پولیس افسر کو واقعے کی اطلاع فون کر کے دی تھی۔

25 ستمبر

مبینہ آڈیو لیکس

وزیراعظم کی تین مبینہ آڈیو لیکس ملکی سیاست میں بھونچال لے آئیں، اور خدشات ظاہر کیے جاتے رہے کہ وزیراعظم کے دفتر سے ڈیٹا ہیک کیا گیا ہے۔

ان مبینہ آڈیو کلپس میں مریم نواز اور شہبازشریف کے درمیان مفتاح اسمعٰیل کے بارے میں ہونے والی گفتگو، وزیراعظم وزیردفاع خواجہ آصف اور دیگر کے درمیان پی ٹی آئی کے استعفوں سے متعلق کلپ شامل ہیں، تیسرے کلپ میں شہبازشریف اور مریم نواز کے درمیان جنرل مشرف کی واپسی کے بارے میں گفتگو شامل ہے۔

27ستمبر

قائداعظم ٹرافی

2022-23 قائداعظم ٹرافی فرسٹ کلاس ڈومیسٹک کرکٹ مقابلے 27 ستمبر سے 30نومبر تک منعقد ہوئے ۔ خیبر پختوانخوا کی ٹیم دفاعی چیمپئن تھی لیکن فائنل کے لیے کولیفائی نہ کر سکی۔

28 ستمبر

اسلامی نظریاتی کونسل نے سوالات اٹھا دیے!

سینیٹ کے اجلاس میں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے تحفظ کے متعلق ترمیمی بل پیش کیا گیا۔ مجوزہ بل میں مرد یا عورت دونوں خصوصیات رکھنے والے خواجہ سرا کو وراثت میں آدھا حصہ دینے، مرضی کی جنس بتانے کی شق حذف کرنے کی تجویز دی گئی، جس پر اعتراضات آئے اور سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ ٹرانس جینڈر خواجہ سرا نہیں بلکہ ہم جنس پرست ہیں، اس لیے اس کا تحفظ ممکن نہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اس بل پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ اس کی متعدد دفعات خلافِ شریعت ہیں اور نت نئے مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس ضمن میں جامع قانون سازی کے لیے علماء اور ماہرین طب پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی۔

29 ستمبر

گیس کے بحران کی گھنٹیاں

موسم سرما میں ایل این جی اور ایل پی جی کی عدم دست یابی کی وجہ سے عوام کو پریشانی کا سامنا رہا۔ ایسے میں سابق حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی اس ضمن میں کوئی مثبت اقدامات نہیں کرسکی۔

 

اسقاط حمل کا نیا قانون

سپریم کورٹ آف انڈیا نے میڈیکل ٹرمینشن آف پریگنیسی ایکٹ کے ایک حصے کو ختم کردیا، جس میں غیرشادی شدہ خواتین کے اسقاط حمل پر پابندی تھی۔

اسی طرح حمل کے 24 ویں ہفتے تک تمام خواتین کے لیے اس طریقۂ کار کو قانونی قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کی رو سے عورت کو بچہ پیدا کرنے پر مجبور کرنا میریٹل ریپ کے زمرے میں آتا ہے، جس کو بھارت میں جرم شمار نہیں کیا جاتا۔

یکم اکتوبر

ایک اور فلسطینی شہید

مشرقی یروشلم میں اسرائیلی سپاہیوں کی فائرنگ سے 18برس کا فلسطینی نوجوان شہید ہوگیا۔ یہ مشرقی حصے میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں مارا جانے والا 100واں شخص تھا۔ یہ سن 2015کے بعد اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔

پابندیاں ختم

کینیڈا نے باضابطہ طور COVID-19کے حوالے سے تمام سرحدی پابندیاں بشمول ویکسینیشن ، ٹیسٹنگ، قرنطینہ ختم کردیں، اور سرکاری موبائل ایپ ArriveCAN کے ذریعے ساری معلومات جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔

احتجاج برقرار

مہسا امینی کی ہلاکت کے پندرہ روز بعد ایران کی یونیورسٹیوں میں بڑے بڑے احتجاجی اجتماعات اور ہڑتالیں دیکھنے کو ملیں اور دنیا بھر کے ایرانیوں نے اس احتجاج سے یک جتی کے لیے ریلیاں نکالیں، جن کی تعداد 160ہے۔

بڑا ریلیف

اکتوبر کے شروع ہوتے ہی وفاقی حکومت کی جانب سے عوام کے لیے ریلیف کا اعلان ہوا، جس میں پیٹرول 12.63، ڈیزل12.13، مٹی کا تیل10.19اور لائٹ ڈیزل 10.78روپے سستا کرنے کی نوید سنائی گئی۔ اسی طرح اوگرا نے ایل پی جی 10روپے کلو سستی کرنے کا اعلان کردیا، مگر مہنگائی کی شرح برقرار رہی۔

سائفر چوری ہوگیا!

سائفر کو بنیاد بنا کر سیاسی وصحافتی حلقوں میں چہ مگوئیاں جاری رہیں، مگر ایک دم جب یہ خبر منظرعام پر آئی کہ سائفر کی کاپی وزیر اعظم ہاؤس سے چوری ہوگئی تو بھونچال آگیا۔

2 اکتوبر

عالمی شہرت یافتہ پہلوان انوکی انتقال کر گئے

جاپان کے عالمی شہرت یافتہ پہلوان انوکی 79برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ وہ خرابیٔ صحت کے باعث اسپتال میں داخل تھے۔ پاکستان کے جھارا پہلوان سے1976میں ہونے والے مقابلے کے بعد سے وہ پاکستان میں مقبول ہوئے۔

3 اکتوبر

احساس راشن پروگرام

وزیراعلٰی پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے 100ارب روپے کے پنجاب احساس راشن پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے 80 لاکھ خاندانوں کو سستا آٹا، دالیں، کوکنگ آئل اور گھی ملنے کی نوید سنا دی۔

نوبیل انعام

سویڈش ماہرجینیات Svante Paaboکو ’’معدوم ہیومینز اور انسانی ارتقاء کے جینوم سے متعلق ان کی دریافتوں‘‘ کے لیے طب کے شعبے میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔

اعلان

گزرے برس کے دوران عالمی اور ملکی سطح پر رونما ہونے والے اہم واقعات اور حادثات کا ایک جائزہ سال نو کے خصوصی شمارے میں دیا جارہا ہے۔ حالیہ شمارے میں 3 اکتوبر 2022 تک کے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے۔ 4  اکتوبر سے لے کر 31 دسمبر 2022 تک جائزہ اگلے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں۔

The post 2022 بیتے برس کا البم / ستمبر، اکتوبر appeared first on ایکسپریس اردو.

2023؛ نواز شریف کی واپسی کا امکان کم، عمران کی مقبولیت بڑھے گی، ماہرین نجوم

$
0
0

لاہور: 2023 کا مفرد عدد 7 ہے، یہ روحانی گنتی میں معراج کا سال ہے، اللہ سے رجوع کرنے والے خوشحال ہو جائیں گے، یہ سال 2022 کا ہی تسلسل ہے، ابتدائی مہینے مشکل ہونگے،سیاسی ہنگامہ خیزی جاری رہے گی، نئی قیادت ابھرے گی، عمرا ن خان کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا، آصف زرداری اور شہباز شریف مفاہمت کی سیاست کو فروغ دیں گے، نوازشریف کی واپسی کے امکانات کم ہیں،عام انتخابات کا کوئی امکان نہیں۔

الیکشن صرف معجزاتی طور پرہی ہوسکتے ہیں، فوج نیوٹرل رہے گی، توجہ دہشت گردی پر قابو پانے میں رہے گی، معاشی حوالے سے یہ سال مشکل رہے گا، اپریل سے جولائی میں عوام کو ریلیف ملنے کے امکانات ہیں، سال کے آخرمیں معیشت اور کاروبار بہتر ہونگے،لوگ آپس میںجڑیں گے اور ان کی زندگیوں میں آسانیاں پیدا ہوسکتی ہے، یہ سال میڈیا، فائن آرٹس ، میوزک اور فلم انڈسٹری کیلئے اچھا ثابت ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین علم نجوم و علم الاعداد نے ’’نئے سال کی پشین گوئیوں‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔

شاہ زنجانی انتظار حسین زنجانی نے کہا کہ2023ء میں الیکشن کا کوئی امکان نہیں تاہم معجزاتی طور پر الیکشن ہوسکتے ہیں، عجیب و غریب سیاسی صورتحال ہوگی، ایمرجنسی یا مارشل لا کے امکانات موجود ہیں، اگر الیکشن ہوئے تو نتائج غیر معمولی ہونگے، خون خرابے کا خدشہ ہے، الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں، نئے سال میں ملک میں فنانشل ایمرجنسی لگ سکتی ہے، سیاسی قیادت لڑتی رہے گی، عوام مزید مشکلات کا شکار ہونگے، دشمن عناصرکی سازشیں تیز ہوںگی، ملک میں ہیجانی کیفیت ہوگی۔

ڈاکٹر آمنہ طیبہ نے کہا جنوری سے مارچ تک حکومت کی مشکلات زیادہ ہونگی، شہباز شریف، آصف زرداری سب کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کریںگے، نواز شریف مزید کھل کر سچ بولیں گے اور پارٹی معاملات چلائیں گے، پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب برقرار رہیں گے، پی ڈی ایم کو جولائی سے دسمبر تک بڑی مشکلات کا سامنا ہوگا، جولائی، اگست اور ستمبر میں عمران خان ملک بھر میں ہنگامی دورے، جلسے اور ریلیاں منعقد کریں گے، فوج مزید نیوٹرل ہوگی، سیاسی مداخلت سے صاف انکار کرے گی، دہشت گردی میں اضافے کے امکانات ہیں، معاشی لحاظ سے سال 2023ء میں کوئی اچھی صورتحال نظر نہیں آرہی، نئے ٹیکس لگ سکتے ہیں، فروری قدرے بہتر ہوگا، اپریل اور مئی میں عوام کو سکون دینے کیلئے بڑے اعلانات کرے گی، جون اور جولائی میں عوام کو ریلیف دیا جائے گا، فروری، مارچ اور اپریل کے مہینوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت اقدامات کرنے کی کوشش کریں گے۔

شہزادہ مصور علی زنجانی نے کہا کہ 2023ء کا مفرد عدد 7 ہے جس کا تعلق روحانیت سے ہے ، روحانیت کے اعتبار سے یہ کامل سال ہے، پاکستا ن کے حوالے سے یہ گزشتہ برس کا ہی تسلسل ہے،نئے سال میں نئی لیڈرشپ ابھرتی ہوئی نظر آرہی ہے، اصل تبدیلی 2024ء سے شروع ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ 2023ء میں سیاسی طور پر ہنگامہ خیزی نظر آئے گی، زحل اور مریخ کی چال کے حساب سے سیاسی اور ملکی سلامتی کیلئے جولائی کا مہینہ اہم ہے، سیاسی ہنگامہ خیزی، دہشت گردی اور ملک دشمن عناصر سر اٹھاسکتے ہیں، اگر جمہوری عمل جاری رہا تو اکتوبر کے قریب الیکشن کا امکان ہے، سیاسی طور پر تبدیلیاں قانون کے ذریعے آئیں گی۔ انہوں نے کہا کہ 2023ء اسلامی اتحاد کے لیے خطرے کا اشارہ دے رہا ہے، عالمی سازشیں عروج پر ہونگی۔

 

The post 2023؛ نواز شریف کی واپسی کا امکان کم، عمران کی مقبولیت بڑھے گی، ماہرین نجوم appeared first on ایکسپریس اردو.

نئے سال میں بہت کچھ نیا پن بھر دیجیے

$
0
0

خوشیوں میں بسا ایک اور سال آپ کی زندگی میں روشنیاں بھرنے آن پہنچا ہے۔گزرے سال کے دکھ درد تکالیف بالکل بھلائے تو نہیں جا سکتے، لیکن انھیں وقت کی دوڑ میں بھولنے کی کوشش کی ضرور کی جا سکتی ہے۔

آپ زندگی کے رنگ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں تلاش کرنا سیکھیں اور اس نئے سال میں وہ سب کچھ بھلانے کی پوری کوشش کریں، جو آپ کے لیے باعث تکلیف بنا۔زندگی کے جو رنگ ہیں نا یہ بہت خوب صورت ہیں۔

ان رنگوں میں خود کو چھپا کر خوش ہوں اور اپنے خاندان کو بھی اسی خوشی کی لپیٹ میں لے آئیے۔کچھ نیا سوچیں،کچھ نیا دیکھیں اور کچھ نیا پہنیں۔ بھول جائیں وہ لمحات جنھوں نے آپ کو درد دیا، افسردہ کیا یا کسی بھی تکلیف کی وجہ بنے۔

آپ سوچیں اپنے اردگرد کے افراد کے متعلق جو آپ کی آنکھوں میں تیرنے والے آنسوؤں سے پریشان ہو جاتے ہیں اور آپ کے خوشی سے تمتاتے چہرے میں انھیں سکون ملتا ہے۔ نئے سال کے نئے سورج کی کرنوں سے کوئی شکوہ نہ کریں، بلکہ نئی امنگوں کے ساتھ جینے کا آغاز کریں۔ آج ہم کچھ لفظوں کے ذریعے آپ کو زندگی کا نیا رنگ دکھائیں گے، ایک ایسا راستہ، جو صرف خوشیاں بانٹنے کا ہے۔

اگر آپ خاتون خانہ ہیں، اور اپنے خاندان کے لیے کچھ ایسا کرنا چاہتی ہیں، جس کے ذریعے سب یک جان دو قلب ہو جائیں، تو نئے سال کی شروعات ایک ٹی پارٹی سے کریں۔ سب کو اکھٹا کریں۔ خوشی سے بلائیں اور اچھا سا استقبال کریں۔ کچھ دیر سب کو ایک ساتھ وقت گزارنے کا موقع دیں۔ گلے شکوے ختم کرائیں اور دیکھیں کتنا اچھا منظر سامنے آتا ہے اور پارٹی کا اختتام قہقہوں پر ہوگا۔

آپ ایک بہترین ماں کے روپ میں نئے سال کا آغاز کرنا چاہتی ہیں، تو اپنے بچوں کے ساتھ مل کر گھر میں کوئی اچھی سی ڈش بنائیں اور انھیں آپس میں لطف اندوز ہونے کا بھرپور موقع دیں۔ ایک پروفیشنل ورکر ہیں، تو کھانے کے وقفے میں کچھ اہتمام کر لیں۔ اپنے احباب کو نئے سال کی خوشی میں ایک سرپرائز دیں۔ انھیں بتائیں کہ وہ آپ کے لیے اہم ہیں۔

اس طرح آپ کا اپنے دوستوں کے ساتھ تعلق مزید پائیدار اور غلط فہمیوں سے پاک ہوگا۔ اگر آپ ایک ڈیزائنر ہیں، تو اپنے نئے سال کے مقاصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے کچھ ایسا نیا ڈیزائن مارکیٹ میں لانے کی کوشش کریں، جو پہلے موجود نہ ہو۔ ڈیزائن پر رنگ تبدیل کر دینا ہی کافی نہیں بلکہ اس ڈیزائن کو ہی بدل دیں جو اہل ذوق خواتین کو پسند نہیں ہے۔

اس میں کچھ نیا پن، کچھ نئی چیز لائیں جو دوسروں کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ اگر آپ ایک لکھاری ہیں، تو اپنے لفظوں کی پٹاری سے ایسا کچھ نیا نکالیں، جو قارئین کو اپنی طرف متوجہ کر لے، جس کے سحر سے وہ مشکل سے ہی نکلیں۔ اپنی طرف سے کوشش کریں کہ خوشی ہی بکھیریں، آنسوؤں کی مالا کو کچھ لمحوں کے لیے کہیں چھپا دیجیے۔ پتھر ہوئی آنکھوں کو ہنسنا سیکھا دیں۔ بہتے جھرنوں کو رکنا اور کہکشاؤں کو ٹھیرنا سیکھا دیں۔

یہ سوچیں کہ ہوسکتا ہے کوئی آپ کے لفظوں سے سنور جائے۔ کسی کے بہتے ہوئے آنسو ایک ہنسی میں بدل جائیں۔ اگر آپ ایک معالج ہیں، تو بدل دیں مایوسی میں ڈوبے چہروں کو۔ انھیں موت کے خوف سے نکال لائیں۔ زندگی کی تمنا ان کے دلوں میں بھریں۔ انھیں سمجھائیں کہ وہ اپنے آپ کو زندگی کی طرف لانے کی کوشش کریں۔

سب کچھ بدل جاتا ہے، اگر یقین اور دعا کی تسبیح ہاتھ میں ہو۔ آپ کی تھوڑی سی کوشش سے اگر کوئی جینا شروع کر دے، تو اس سے بڑھ کر کیا ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ مثبت سوچیں اور اسی پر عمل کریں، جو آپ کو بہترین بنا دے۔ ایسے لوگوں کی شر پسندی کا نشانہ نہ بنیں جو نہ صرف آپ کو بل کہ آپ سے منسلک ہر رشتے کو نقصان پہنچائیں۔

یہ یاد رکھیں آپ کی اولین ترجیح آپ کے اپنے ہو، چاہے ماں ہو باپ  ہوں بہن بھائی ہوں بچے ہوں یا شوہر۔ اگر آپ کو محسوس ہو کہ وہ سب آپ سے خوش اور مطمئن ہیں، تب اپنے احباب پر نظر دوڑائیں اور انھیں زندگی کی خوشیوں کی طرف لانے کی تگ و دو کریں۔

آپ کی فیملی ماں باپ بیوی بچے آپ کے لیے سب سے اہم ہیں انھیں توجہ اور وقت دیں۔ نئے سال کی شروعات میں آپ کی پہلی ترجیح آپ کے وہ رشتے ہونے چاہیں، جو آپ سے دور ہیں اور وہ آپ کی ایک دستک کے منتظر ہیں۔

The post نئے سال میں بہت کچھ نیا پن بھر دیجیے appeared first on ایکسپریس اردو.

حریم سلمان صدیقی

$
0
0

گذشتہ دنوں جامعہ کراچی کے شعبہ ویژول اسٹڈیز کے چار سالہ بیچلرز ڈگری کے آخری سال کے طلبا کے تیار کردہ تخلیقی فن پارے، نمائش کے بعد اختتام پذیر ہوئے۔ انھی میں ایک طالبہ حریم سلمان نے جامعہ کراچی سے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کے تھیسز میں اول پوزیشن حاصل کی ہے۔

شعبہِ ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی طالبہ حریم سلمان صدیقی نے اس تھیسز میں سب سے زیادہ نمبر لے کر اول پوزیشن حاصل کی۔ اس شعبے کے ماہرین پر مشتمل بیرونی جیوری کے ارکان نے مجموعی طور  پر حریم کے تخلیق کردہ ڈیزائنر کو اس مقابلے میں بہترین قرار دیا۔

حریم نے اپنے ڈیزائنر ان لوگوں کی سہولت کے لیے بنائے جنہیں قدرت نے بصارت کی نعمت سے نہیں نوازا ہے۔ نابینا افراد کے ساتھ کی گئی تحقیق نے حریم کو ایسے خصوصی ڈیزائن کو بنانے میں بھرپور مدد کی جنھیں ہاتھ کے چھونے سے محسوس کیا جاسکتا ہے۔

چار سالہ بیچلرز ڈگری کے تھیسز کے آخری سال کی اس نمائش میں جامعہ کراچی کے ویژول اسٹڈیز کے مختلف  شعبوں کے طلبہ کی شان دار تخلیقی صلاحیتیں شامل تھیں، جن میں گرافک ڈیزائننگ، فلم اور ٹیلی ویژن، فائن آرٹس، اینیمیشن، اسلامک آرٹس اور گلاس، انڈسٹریل ڈیزائن آرکیٹیکچر اور ٹیکسٹائل ڈیزائننگ شامل تھے۔

ان طلبا نے اس نمائش میں اپنے اپنے اسٹالوں پر اپنے متعلقہ فن پاروں کی نمائش کی۔ آرٹ کے قدردانوں کی ایک کثیر تعداد نے تھیسز کی اس نمائش کو دیکھا اور شان دار عزم اور کمال کے ساتھ تخلیق کیے گئے بہترین تصورات کا قریب سے مشاہدہ کیا۔ انھوں نے غیر معمولی تخلیقی شاہ کار تیار کرنے پر ان نوجوانوں کو خوب سراہا۔

یہ غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں سے مالامال بچے جو آنے والے وقت میں اپنی متعلقہ صنعتوں کی باگ ڈور سنبھالیں گے، انھیں تمام حلقوں کی جانب سے تعریف اور حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے۔

The post حریم سلمان صدیقی appeared first on ایکسپریس اردو.

ہیں دْکھ درد ہزار!

$
0
0

بحیثیت استاد روزانہ کی بنیاد پرسیکنڈری سے ہائی سیکنڈری اور پھر ماسٹرزلیول تک کم ازکم دو سو سے زائد بچوں کے ساتھ رابطہ، تدریس اور بات چیت کرنا انتہائی منفرد تجربہ ہوتا ہے، لیکن ان ہی بچوں کو اگر ایک ماں کی حیثیت سے سنا سمجھا اور پرکھا جائے تو یقیناً اس بات کا احساس ہوگا کہ کون سا بچہ کس مشکل سے گزر رہاہے؟

کس بچے کو ماں کی توجہ کی کتنی ضرورت ہے اور کس بچے کو کہاں اور کس مقام پر ٹیچراور ماں، دونوں کرداروں میں ہم آہنگی اور مربوط رابطے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بچے کی پہلی درس گاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے، لیکن پِری اسکول اور پھر پرائمری سے سیکنڈری لیول تک بھی بچے کا زیادہ واسطہ خواتین اساتذہ سے ہی رہتا ہے۔

کیوں کہ بچہ زیادہ وقت ماں اور اپنے اساتذہ کے ساتھ گزارتا ہے لہٰذا گھر کی چار دیواری سے لے کر محلے کی گلیوں تک ماں بچے کی تربیت اور پرورش میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جب کہ تعلیمی اداروں اور درسگاہوں میں زیادہ تر بچہ خواتین اساتذہ کی زیر نگرانی اورزیر سایہ راہ نمائی حاصل کرتا ہے۔

بچے کی تربیت میں ماں کا حلقہ عمل سب سے زیادہ ہوتا ہے لیکن بچے کی عمر، ذہنی اور نفسیاتی تقاضے بڑھنے کے ساتھ ماں کا عمل دخل بھی محدود ہوجاتا ہے اور یہاں سے استاد کا کردار صحیح معنوں میں شروع ہوتا ہے جب بچہ گھر اور محلے سے نکل کر اس سے آگے کی دنیا کو کھوجنے کی کوشش کرتا ہے۔

ماں اگر بچے کی جسمانی اور جذباتی نشو نما میں اہم کردار ادا کرتی ہے توبچے کی ٹیچر اس کی ذہنی اور شخصی نشونما کا ضامن ہوتی ہے۔

کیوں کہ بچے دن کے کئی گھنٹے اپنے اساتذہ کے ساتھ گزارتے ہیں، اس لیے ان کی شخصیت اور کردار بچوں کی ذہنی نشوونما اور شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

اس ہی لیے اساتذہ کو چاہیے کہ بچوں کی دل چسپیوں کو جانیں اور ان سے جڑنے کے نہ صرف طریقے تلاش کریں، بلکہ ان کے سیکھنے کے انداز کو بھی جانیں کیوں کہ ہر بچہ فطرتاً منفرد اور مختلف ہوتا ہے۔

دوسری جانب بچے اسکول کے اوقات کے علاوہ دن کا زیادہ تر وقت ماں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ اس ہی لیے بچے کی تربیت کی زیادہ تر ذمہ داری بھی ماں پر ہی عائد ہوتی ہے، لہٰذا خواتین کوچاہیے کہ ایسا ماحول اور تربیت فراہم کریں، جو کہ بچے کی ذہنی، جسمانی اور ذہنی صلاحیتوں سے ہم آہنگ ہو۔

کیوں کہ  جس ماحول میں جیسے لوگوں کے درمیان بچہ رہے گا جو انھیں کرتا دیکھے گا وہی عکس اس کے ذہن کے خالی ’کینوس‘ پر نقش ہو جائے گا۔ لیکن بچے کی تعلیم و تربیت، ذہنی نشوونما اور شخصیت سازی ماں اور ٹیچر کی مشترکہ کاوش ہوتی ہے۔

عموماً  یہ ہی سمجھا جاتا ہے کہ تربیت ماں کی اور تعلیم اساتذہ کی ذمہ داری ہے۔ جب کہ عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو ماں اور اساتذہ  دونوں اس ذمہ داری سے خود کو علاحدہ نہیں کرسکتے اور نہ ہی اسکول میں داخلے کے بعد خواتین خود کو بچے کی تعلیمی سرگرمیوں سے مبرا قرار دے سکتی ہیں۔

ایک ماں اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ  ایک اچھی نسل تیار کرتی ہے، لیکن اولاد کی کردار سازی، شخصیت سازی، تعلیم اور تربیت گھریلو سطح پر فقط ماں کی نہیں، بلکہ ماں اور باپ دونوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔

بچے کی زندگی میں سب سے پہلا رول ماڈل اس کے ماں اور باپ ہیں، لیکن بچے کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کیوں کہ ماں کا زیادہ وقت بچے کے ساتھ گزرتا ہے، اس ہی لیے ماں کی تربیت بچے کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔

ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ مائیں بیٹیوں کو زندگی کے مختلف مراحل پر اچھی بیوی بننے کے فارمولوں سے تو آگاہی دیتی رہتی ہیں، لیکن بچیوں کو شادی سے پہلے اچھی ماں بننے اور پرینٹنگ کے بنیادی اصولوں، ماں کے فرائض اور خصوصیات سے سے آگاہی شاذ و نادر ہی دی جاتی ہے۔

اصولاً ہونا تو یہ چاہیے کہ پیرنٹنگ کے اصول اور فرائض کے حوالے سے ماں اور باپ دونوں مشترکہ طور پر نہ صرف بیٹی بلکہ بیٹے کو بھی آگاہی اور شعور دیں کہ والدین کے فرائض اور ذمہ داریاں کہاں کہاں کیا کیا ہوتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے جانے کیوں از خود معاشرتی بندش کے ذریعے بیٹی کے تمام تر معاملات کی ذمہ داری صرف ماں پر ڈالنے کے ساتھ باپ کو بری الذمہ کر دیا گیا۔ دوسری طرف ایسی ہی صورت حال بیٹوں کے پرورش کے معاملے میں بھی ہوتی ہے۔

بیٹے کی تعلیم و تربیت اچھی ہو تو پورا کنبہ اس کا کریڈٹ حاصل کرتا ہے اور بد قسمتی سے کسی قسم کے بگاڑ کی صورت میں تمام تر ذمہ داری ماں پر عائد کر دی جاتی ہے۔

جب کہ یہ وہ کلیدی ذمہ داری ہے، جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کے سلسلے میں گھریلو سطح پر والدین کو یک جا ہونے  کی ضرورت ہے نہ کہ اس ذمہ داری نے ماں اور باپ کو الگ الگ کر دیا ہے۔ اس سے بھی زیادہ توجہ طلب نکتہ یہ ہے کہ عام فہم کے مطابق زیادہ تر والدین تعلیمی ذمہ داری استاد اور تعلیمی ادارے پر ڈال دیتے ہیں، لیکن والدین یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ تعلیمی ادارے میں بچے کا داخلہ مخصوص عمر میں ہوتا ہے۔

اس سے قبل بچے کی ابتدائی نشوونما، تربیت اور تعلیمی سرگرمیاں گھر پر جاری ہوتی ہیں اور گھر سے حاصل کردہ یہ ہی تعلیم و تربیت لے کر بچے اسکول جاتے ہیں، جہاں پر اساتذہ بچے کی ذہنی صلاحیتوں کو نکھارنے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ قابل غور بات یہ بھی ہے کہ اساتذہ اور والدین کا شعبہ کوئی الگ الگ نہیں، حقیقت میں یہ دونوں ایک دوسرے کی تربیت کو آگے بڑھاتے ہیں۔

دوسری جانب بچوں کا گھر میں اپنے بہن بھائیوں سے رویہ، تعلیمی ادارے میں کلاس فیلوز، دوستوں کے ساتھ سلوک اور اساتذہ کے بارے رائے پر بھی ماں باپ کو نگرانی کی ضرورت ہے۔ استاد کی عزت شاگرد کا اولین فرض ہے، لیکن موجودہ دور میں خود اعتمادی اورجدت پسندی کے نام پر بچوں میں پروان چڑھنے والی یہ سوچ کہ استاد ایک ایسا ملازم ہے جسے وہ ایک یا دو گھنٹے پڑھائی کا معاوضہ دیتے ہیں معاشرے کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے۔

جہاں نہ شاگرد اساتذہ کے احترام اور آداب سے آشنا ہے اور نہ اساتذہ اپنی ذمہ داریاں اور فرائض پورے کرنے کے لیے کوشاں۔ کسی بھی معاشرے کے علمی اور تربیتی نظام میں اگر یہ بنیادی چیزیں نہیں ہوںگی، تو بچوں کی بے راہ روی کا تناسب بڑھتا جائے گا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ بچے کو بہ حیثیت اولاد اور طالب علم  والدین اور اساتذہ کا احترام گھر سے لازمی طور پر سکھایا جائے۔

ساتھ ہی ماں باپ  کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسکول کو گھر کی تعلیم و تربیت کا تسلسل سمجھیں۔ یہ سارا عمل یک طرفہ نہیں ہے کہ اس کا سارا بوجھ بچے ہی پر ڈال دیا جائے، اس عمل میں والدین خصوصاً ماں کا کردار اہمیت کا حامل ہے۔

The post ہیں دْکھ درد ہزار! appeared first on ایکسپریس اردو.

’’ایک احساس، حقیقت کے آئینے میں‘‘ سمے کا راگ

$
0
0

 لاہور: ماہ و سال کا آنا جانا، سانسوں کا ہے تانا بانا، سالوں کی یہ آنکھ مچولی، موسموں کی یہ پت جھڑ سالوں سے جاری ہے اور جاری رہے گی۔

اسی کا نام زندگی ہے، وقت کی رفتار کس قدر مسلسل ہے ،کبھی نہ ختم ہونے والی اور اس میں بندھے ہوئے ہمارے پاؤں اور اس کے دھارے پر بہتے ہوئے کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں کہ اپنی ہی شبیہہ و پرچھائیں دھندلاجاتی ہیں۔

سال کے الوداعی مہینے دسمبر نے دستک دی تو موسم سرما کا سارا حسن اس میں یوں سمٹا نظر آیا ’’ٹھٹھرتی صبحوں کو لے کر دسمبر گزر گیا ہے۔

جہاں برف کی چادر اوڑھے ہوئے فطری مناظر نے ساکت و جامد کیا، پیڑوں و گھروں کی چھتوں پر جمی برف اور گرتے ہوئے روئی کے گالوں نے سردی کی شدت بڑھائی وہیں سرد ہواؤں نے ہماری یوں بلائیں لیں۔

کہاں خنک ہواؤں کے تھپڑوں سے بچنے کے لیے گرم لحافوں میں دبک کر کافی کی خوش بو سے موسم کا لطف و سرور اٹھایا ، پستے بادام، کشمش، چلغوزے کھاتے ہوئے چائے کی حرارت لیے، جانے کتنے قصوں سے سر اٹھاکر کیا کچھ یاد کرایا، کیا کچھ بھول گئے یک دم ہی کہر و دھند میں ڈوبی ہوئی صبحوں و شاموں نے اپنے وائلن پر الوداعی نغموں کی دھنیں سنائیں تو اس کے سحر سے نکل کر احساس ہوا کہ سال کی آخری لہر ہاتھ سے نکلنے کو ہے۔

دھند میں گم ہوئے راستوں سے گم گشتہ ، منزلوں کا نشان پوچھا اور انہیں چپ چاپ خاموش راستوں پر اڑتے ہوئے سوکھے پتوں نے موسموں کے پت جھڑ کی کہانی سنائی کہ سال رخصت ہونے کو ہے، آخری پل، آخری گھڑیاں، سب عنقریب ماضی کا حصہ بن جائیں گی۔

جانے والا سال زندگی کی وہ شام جو اپنے الوادعی غموں میں سب کو اداس کردیتی ہے خاص کر سال کا یہ اختتامی مہینہ دسمبر، سال کی آخری دھرکنیں سناتا ہوا، اپنے حسین جلوے میں، یادوں کی بارات لیے سوچوں کے درپن سے جھانکتا ہے تو اداسی پنکھ پھیلا کر سال کی پونجی کو یوں اپنے پروں میں سمیٹتی ہے کہ شاعروں اور ادیبوں کے حساس دل کے تار جھنجھنا اٹھتے ہیں۔

شاعری و نغمگی کا لطیف حصار دائرے و حاشیئے بناکر یوں دل و دماغ پر حاوی ہوتا ہے کہ بقول ندیم قاسمی ’’ کتنی حساس خاموشی ہے، سوچوں بھی تو رات گونجتی ہے‘‘ شاعری کا جل ترنگ بجنے سے زندگی کا وہ ساز بج اٹھتا ہے جو عمر رفتہ کی حسین یادوں و تصویروں سے سجا ہوتا ہے۔

بھولے بسرے نغمات سماعت سے ٹکراتے ہیں تو رات کی گہری خاموشی کتنے ہی سر بکھیر کر ان سازوں کی دھن سناتی ہے جو بیتے سالوں کی بازگشت سن کر ہواؤں میں نغمہ سرا ہوتے ہیں، چائے کی پیالی میں وہ کیف و سرور کہ اس کی اڑتی ہوئی بھاپ کے مرغولوں میں کتنی ہی شبیہی بنتی و مٹ جاتی ہیں۔

کتنے ہی نقوش اجاگر ہوکر اپنے سحر کی گرفت میں ایسا لیتے ہیں کہ یادوں کے رم جھم برستے ساون میں گزرے لمحوں کا عکس یوں سامنے آن کھڑا ہوتا ہے جو دنیا مافیہا سے بے خبر کردیتا ہے؎

’’گویا ان یادوں کا اک چراغ کیا جلا، سو چراغ چل اٹھے‘‘

بڑھتی ہوئی دھند و کہر نے جمایا، شدید ٹھنڈ نے کپکپایا تو انگیٹھی کے قریب تر ہوگئے، کوئلوں کو دھکایا تو اس کی گرمائش نے سانسوں کی گرمی و لہو کی روانی کا احساس دلایا اور انہیں شعلوں میں سالوں کا وہ رقصاں نظر آیا جس میں ہماری زندگی کے تاریخ سال 2020ء اور اس سے پیوستہ 2021ء اپنی کہانی سناتے ہوئے اور 2022ء ان اصولوں کو دُہراتا نظر آیا جو ہم نے ان دو سالوں میں یاد کئے۔

2020ء کی کہانی تو کبھی ذہنوں سے محو ہو نہیں سکتی کیوں کہ وہ انسان کے سر سے پاؤں تلک بدلنے کی وہ کہانی ہے جو ہم کبھی بھلا ہی نہیں سکتے، نقش ایسے جو مٹ ہی نہیں سکتے، درد کرب و اذیت کے لمحے ایسے جس کی ہولناکیاں اور اپنے کتنے اپنوں کے بچھڑنے کا غم آج بھی تڑپا دیتا ہے۔

کاہے کو سوچا تھا کہ 2020ء میں ہنستی، کھیلتی، بھاگتی دوڑتی زندگی کورونا کے طوفان میں یوں پھنسے گی کہ نکلنے کا رستہ ہی کھوجائے گا اور ہم بیچ منجدھار پھنسے ساحل کو آوازیں دیتے رہ جائیں گے اور کنارہ یوں سرکتا جائے گا

کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ دنیا  چلتی پھرتی یوں آف ہوجائے گی اور خالی خاموش اسکرین یعنی زیست خاموشیوں و سناٹوں کی کہانی ہوگی، دنیا کی گردش یوں ساکن ہوجائے گی کہ سانس لینا ہی بھول جائے گی۔ نہ ہی سفر جاری رہے گا اور نہ ہی زندگی کی دوڑ دھوپ ہلچل مچائے گی۔

رشتوں کی ڈور اجنبت میں ڈھل کر ساتھ چھوڑ دے گی اور ہم منہ ماسک میں چھپائے اپنے ہی لیے اجنبی بنے، قید تنہائی کا شکار ہوں گے’’کیا موسم تھا 2020ء میں بے یقینی کا فاصلے ان دنوں شفا ٹھہرے۔‘‘

سفر جاری نہ رہنے سے زندگی کی بھاگ دوڑ اس سال دم توڑ گئی، وقت کا پانی پاؤں کے نیچے سے گزرتا سرکتا رہا اور ہم وہیں کے وہیں کھڑے رہ گئے۔

لمبی مسافت نے بری طرح تھکا ڈالا، ایک دوسرے کے ساتھ ہونے کے باوجود خوشی وغمی کے تمام لمحے اکیلے ہی کاٹے، اپنے ہمدرد و غمگسار خود ہی رہے خود ہی بنے کیوں کہ کسی کے کاندھے پر سر رکھنے سے قاصر تھے اور دنیا کے لیے کیا اپنے ہاتھوں سے اپنے ناک منہ کو ہاتھ لگانے کے گریز نے تو ہمیں اپنے ہی لیے اجنبی بنادیا۔ الغرض 2020ء میں ’’اک اندیشہ جاں کی وجہ سے سارا سال اداسی تھی خزاں کی موسم بہار میں‘‘

کورونا کی عفریت نے ہول ناک رخ اختیار کیا۔ 2020ء میں طبی دنیا میں اک چراغ تو کیا اک لو بھی نہ جل سکی کیوں کہ ہمارے گناہوں کے بوجھ نے اسے جلنے ہی نہ دیا، ترکش میں جتنے تیر تھے سب آزما ڈالے، کوئی بھی تیر نشانے پر نہ بیٹھا۔ ’’جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا وہ کورونا کی شب تاریک کی سحر نہ کرسکا ، دوا کا ساتھ نہ تھا دعاؤں کو لیے 2020ء کا پل صراط طے کیا۔‘‘

سال 2021ء میں ویکسین کا بننا احساس دلاگیا کہ دعا کی کوئی بوند اس کی رحمت کی بدلی سے ٹکراکر شرف قبولیت کا درجہ پاگئی، دنیا کی رکی ہوئی ٹریفک رک رک کر چلنے گی، یہ سال بھی عجیب تھا، کبھی اٹھ کھڑے ہوئے، کبھی گرگئے، کبھی ہنس پڑے، کبھی رو پڑے، کبھی یونہی گرتے پڑتے سال 2022ء میں قدم رکھا تو کورونا کی شدت میں کمی نے دنیا کی رکی ہوئی ٹریفک کو گرین سگنل دے کر پوری طرح چلنے کا اشارہ کیا، دنیا پورے شد مد سے شروع ہوئی۔

کتنے ہی ادھورے کام و منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچے لیکن سال کے آخر اکتوبر میں سیلاب کی لشکر کشی نے ایک دفعہ پھر دہلادیا، دوڑو بھاگو سیلاب آگیا ہے، اس ایک جملے نے قیامت صغریٰ کا نقشہ کھینچ دیا، پانی کی بپھری ہوئی لہروں نے آن واحد میں بستیوں کی بستیاں ویران کردیں اور یہ سال 2020ء میں کی ہوئی ساری دعائیں دوہراگیا اور اپنے صوبوں کو پھر سے ہرا بھرا اور اپنے ہم وطنوں کے لیے دعا گو ہوا خلق خدا کی مدد کے لیے ہر کوئی اپنے تئیں کچھ نہ کچھ کرتا نظر آگیا۔

2020ء میں دعاؤں سے شروع ہوا سفر 2022ء میں دعاؤں پر ہی اختتام پذیر ہوا۔ سوچوں کا اژدہام تھا دسمبر کی لمبی ٹھٹھرتی رت میں کیا کچھ یاد آیا خیالات کی یورشی تھی جو بہے چلی جارہی تھی کہ یک دم انگیٹھی کے کوئلوں نے چیخ چیخ کر 2022ء کی رخصتی کا اعلان کیا ہم نے سال کا آخری دیدار کیا۔

جاتا ہوا سال اپنی پھیلی ہوئی چادر سمیٹ چکا تھا اور اپنے دامن میں سیلاب کی لشکر کشی سے برباد ہونے والے خاندانوں و کروڑوں شہریوں کے آنسو و غم لیے پلکیں جھپکاتا ہوا ، سمے کی گھنٹی بجاتا ہوا کہہ رہا تھا  ’’ سوچو اس سال تم نے کیا کھویا، کیا پایا‘‘

اب بھی کچھ سپنے ادھورے ہیں، کچھ خوابوں میں رنگ بھرنا باقی ہے تو اداس مت ہونا، میں تمھاری امانت 2023ء کو سونپ کر رخصت ہوا چاہتا ہوں۔ 2022ء کی پٹ بند کرو سال 2023ء کا سواگت کرو وہ تمھارے سامنے ایک نئی مشعل اور نئی امید بنا وارد ہو چکا ہے۔

نظر اٹھائی تو منٹوں سیکنڈوں کا سفر کرتی ہوئی دونوں سوئیاں ’’بارہ‘‘ کے ہندسے پر تھیں۔ 2022ء اپنی کمان کی چھڑی 2023ء کو سونپ چکا تھا لوگ پرانے سال کو خدا حافظ اور نئے سال کو خوش آمدید کہہ رہے تھے اور نیا سال ہمیں اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ اور جہاں تمام وہموں سے بے نیاز لوگوں کی صدا ’’نیا سال مبارک‘‘ ہو سنائی دے رہی ہے وہیں ہم بھی ان کے ساتھ شامل آپ کو نئے سال کے لیے یہی تمنا اور خواہش لیے کہہ رہے ہیں۔

2023ء کے آغاز کے لیے ایک خاص پیغام، خود کو سنیے

آخری دسمبر کی ٹھٹھرتی رات میں، چیزوں کو جھاڑتے ہوئے اور نئے سال کے لیے چیزوں کو چمکاتے ہوئے، اچانک یہ احساس ہوا کہ ان سب چیزوں کو تو دوام حاصل ہے، یہ سب تو یہیں کی یہیں رہ جانی ہے۔

ان کو تو کچھ نہ ہوگا، نہ ان کی عمر گھٹے گی نہ ان کو عمر کی نقدی ادھار مانگنے کی نوبت آئے گی، نہ ہی ماہ و سال کی گردش ان کے عکس کو دھندلائے گی نہ ہی انہیں زوال آئے گا بلکہ وقت و زمانہ گزرنے کے ساتھ ان کی قیمتی ہونے کا احساس اپنے بزرگوں کی وراثتیں سنبھالنے کا احساس انہیں اور زیادہ چمکائے گا، قدر کرائے گا۔

اور انھیں سینت کران کے قیمتی ہونے کے خیال سے سنبھال کر رکھتے ہوئے کہ کہیں  یہ ٹوٹ نہ جائیں، گم نہ ہوجائیں، ان کی حفاظت میں ہم اپنی قیمتی و کروڑوں سی جان کو ہی داؤ پر لگا بیٹھے۔ اسے ہی سنوارنا بھول گئے، اپنا خیال رکھنا ہی بھول گئے، وہ جو نقش فانی ہے مٹ جانے والا ہے منوں مٹی تلے چھپ کر نظر نہ آنے والا ہے، جسے کل سب سے جدا ہو کر یہ کہنا ہے ’’کل تم سے جدا ہوجاؤں گا، گو آج تمھارا حصہ ہوں، جو ہر لمحے ہر آن ہمیں سمے کی یہ آواز سنا رہا ہے اک دن پڑے گا جانا کیا وقت کیا زمانہ، کوئی نہ ساتھ دے گا، سب کچھ یہیں رہے گا‘‘

اس صدا و سوال نے ایسا بے چین و بے قرار کیا کہ سب کچھ بھول، چھوڑ چھاڑ آئینے کے سامنے جاکھڑا ہوئے اور آئینے کے اس سوال نے ’’آپ مجھے پہچانے بھی‘‘ نے مزید پریشان کیا ’’تو سالوں کی دھول جو چہرے پر تھی، اسے صاف کرنے کے لیے بار بار آئینہ صاف کرتے اور چمکاتے رہے۔ غور سے پھر دیکھا تو ’’بالوں میں چاندی کا رنگ چڑھا تھا۔ تھا تو کوئی مجھ جیسا جانے کون کھڑا تھا۔‘‘

اپنا خیال نہ رکھنے نے بلڈپریشر ہائی کیا، خواہشوں کی دلدل میں دھنسے نہ رات چین سے سوسکے نہ دن کو آرام کرسکے۔ سانسوں میں اترتی تھکن سے ماتھے پر شکنیں کمر میں بل پڑنے پر عمر کی چھاپ یوں لگی کہ وقت سے پہلے اپنی عمر سے دس گنا بڑے و بوڑھے، ایسے نظر آئے کہ آج آئینے میں اپنے آپ کو ہی پہچاننے سے قاصر تھے۔

بس اپنا خیال آتے ہی سب چیزیں ہاتھ سے چھٹ گئیں۔ کیا کچھ رکھنا ہے، کہاں رکھنا ہے سب کچھ بھول گیا، یاد رہا تو صرف اتنا کہ بس اپنا خیال رکھنا ہے اور نئے سال 2023ء کے لیے یوں دل میں عہد کیا کہ اب چیزوں کی نہیں اپنی دھول صاف کر کے اپنا چہرہ دنیا کو دکھانا ہے، اپنا آپ نہ بھولیں گے خود کو سنواریں گے، سجائیں گے، نکھاریں گے، کچھ بنائیں گے کیوں کہ ان چیزوں کی شبیہہ نہیں بلکہ ہماری ہی شبیہہ،  وہ شبیہہ ہے جو دنیا کو کچھ یاد دلائے گی بتلائے گی اور وقت کے ماتھے پر وہ نقش ثبت کرائے گی جو کبھی نہ بھولنے والا ہوگا۔

سو سب کچھ بھلاکر نئے سال میں اپنے آپ کو سنوارئیے نکھارئیے اس فانی دنیا میں انھی نقشوں کو دوام حاصل ہے، انہیں پھولوں کی مہکار اس دنیا میں باقی ہے، جو کچھ کرگئے، کچھ سن گئے اور دنیا کو اپنا وہ ہنر دکھاتے ہوئے یہ کہہ گئے کہ ’سنگ وحشت سے ہوتے نہیں جہاں پیدا‘ اور ان کی جھلک میں ان کی شخصیت کے تمام سمٹ کر ان کی شخصیت کو وہ گوہر نایاب بنا گئے، جو چمک دمک اپنے تمام رنگوں کے ساتھ لوگوں کے دلوں پر آج بھی نقش اور راج کر رہے ہیں۔

ہم نے نئے سال 2023ء کے لیے آپ کو جو پیغام دینا تھا دے دیا، جو کہنا تھا کہہ دیا جو سنانا تھا سنا دیا۔ اب آپ بھی کچھ ان پر عمل کر دکھائیے، خدا کا شکر ادا کریں کہ نیا سال 2023ء نئی امید بنا آپ کا ہاتھ تھامنے کو تیار ہے، بے قرار ہے اسی سال کچھ کرنا ہے تو کر دکھائیے،کچھ بننا ہے بن دکھائیے، جتنے ادھورے خوابوں میں رنگ بھرنا ہے بھرلیجیے اور اپنے نقش فانی کو لافانی بناکر لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پر رہتی دنیا تک نقش کر دیں‘‘ نہ جانے کتنے لمحے باقی ہیں، کتنی سانسیں باقی ہیں، کہیں کل آپ کچھ ادھورے خوابوں کو لیے یہ کہتے ہوئے نظر نہ آئیں ’’اب عمر کی نقدی ختم ہوئی اب ہم کو ادھار کی حاجت ہے‘‘ کیوں کہ سمے کا تیزی سے اڑتا ہوا پنچھی آج بھی صدیوں پرانا راگ دہراتا ہوا اور گاتا ہوا ہمیں اپنی بے ثبات زندگی کی یاد دہانی کرارہا ہے۔

’’یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے۔۔۔ افسوس ہم نہ ہوں گے‘‘

The post ’’ایک احساس، حقیقت کے آئینے میں‘‘ سمے کا راگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کرونز نامی بیماری کیا ہے ؟

$
0
0

یہ سنہ 2020 کی بات ہے جب کرسمس کے روز لوسی ہرمن کی طبیت بگڑ گئی۔ اس سے قبل کئی ماہ پہلے سے ہی ان کے پاخانے میں خون اور تیزی سے وزن میں کمی جیسی علامات ظاہرہو رہی تھیں، لیکن اس دن کھانے کی میز پر وہ بے ہوش ہی ہو گئیں اور انھیں ہسپتال لے جانا پڑا۔ اڑتالیس گھنٹے بعد پتا چلا کہ انھیں کرونز(crohn’s ) نامی بیماری ہے۔

اس واقعے کے دو برس بعد آج 20 برس کی لوسی ہرمن انٹرنیٹ پر بڑی تعداد میں لوگوں کو کرونز بیماری، اس کی علامات اور تشحیص کے بارے میں بتاتی ہیں۔ اس نے بتایا کہ ’مجھے لگتا ہے لوگ اکثر سمجھتے ہیں کہ آنتوں کے امراض صرف زیادہ عمر کے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں، وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ امراض کسی بھی عمر میں کسی کو بھی متاثر کر سکتے ہیں۔

میری مختلف قسم کے لوگوں سے آن لائن بات ہوئی۔ چند ایسے لوگ جو مستقل طور پر ہسپتال میں پڑے ہوئے ہیں اور چند وہ جو اب ہسپتال سے واپس گھر آ چکے ہیں اور اس مرض کو قابو میں رکھتے ہوئے زندگی گزار رہے ہیں۔‘

ماہرین کے مطابق یہ مرض اگر ہو جائے تو تا عمر مریض کو اس کے ساتھ ہی جینا پڑتا ہے۔ جسم میں نظام انہضام سے منسلک حصوں میں سوجن ہو جانا اس مرض میں عام ہے۔ اس کا کوئی مکمل علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا ہے، لیکن ادویات، چند ٹیکوں اور آپریشن کی مدد سے اس کے اثرات کو کسی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

ایک دوسری مریضہ کلوئی نکسن کو سنہ 2019 میں پتا چلا کہ وہ اس مرض میں مبتلا ہیں۔ وہ بھی لوسی کی طرح اپنے تجربات آن لائن دیگر متاثرین کے ساتھ شیئر کرتی ہیں۔ خیال رہے کہ یہ مرض عام طور پر آنتوں کو متاثر کرتا ہے لیکن اس کے علاوہ یہ ہمارے ہاضمے کے نظام کے کسی دیگر حصے کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔

21 برس کی کلوئی کی غذائی نالی اس مرض کے سبب متاثر ہو گئی اور اب انھیں غذا کے لیے ’فیڈنگ ٹیوب‘ کی مدد لینی پڑتی ہے۔

اس پلاسٹک کی نالی کی مدد سے ان کے جسم میں غذا پہنچتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں ’ میرا عین مقصد کرونز کے بارے میں آگہی پھیلانا ہے کیوںکہ اس مرض میں مبتلا ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو یقینی طور پر کمزور آنتوں سے وابستہ مشکلات سے ہی گزرنا پڑے گا۔ ایسا ضروری نہیں، کرونز کے سبب نظام انہضام کا کوئی بھی حصہ متاثر ہو سکتا ہے۔‘

کلوئی کے مطابق اس مرض کے بارے میں ان کی معلومات میں سوشل میڈیا کی مدد سے مزید اضافہ ہوا ہے۔ انھوں نے بتایا ’ مجھے فیڈنگ ٹیوب کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں تھیں۔ دوسرے لوگوں کے مشوروں سے بہت مدد حاصل ہوئی اور میں دوسروں تک بھی یہ معلومات پہنچانا چاہتی ہوں۔‘

32 برس کے ڈاکٹر زیاد ال دبونی برطانیہ میں ریڈیوگرافر ہیں۔ وہ بھی انسٹاگرام اور ٹک ٹاک کی مدد سے اس مرض کے بارے میں آگہی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ محض 17 برس کے تھے جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ کرونز کے مرض میں مبتلا ہیں۔

ابتدائی دنوں میں ڈاکٹروں نے ان میں علامات دیکھ کر کہا کہ وہ ممکنہ طور پر امتحانات کی تیاری کے دوران ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’ کسی میں ایسا مرض جس کی علامات دنیا کو واضح طور پر نظر نہیں آ تیں، اس کے بارے میں جب آپ مریض سے بات کرتے ہیں، تو پتا چلتا ہے کہ کس طرح وہ ہر روز اس مرض سے وابستہ کسی نہ کسی مشکل کا سامنا ضرور کر رہا ہوتا ہے۔‘ زیاد نے کہا ’ ہم ان علامات کے ساتھ جینا سیکھ جاتے ہیں اور جب لوگوں کو پتا بھی چلتا ہے تو وہ اکثر کہتے ہیں کہ تمھیں دیکھ کر لگتا نہیں کہ تم بیمار ہو۔‘ کرونز اور کولائیٹس کو پوشیدہ امراض کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

آنتوں کا مرض ’کرونز‘ کیا ہے؟

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی ویب سائٹ کے مطابق کرونز نامی مرض کسی بھی عمر کے افراد کو متاثر کر سکتا ہے۔ اس کی علامات عام طور پر بچپن یا نوجوانی میں واضح ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ یہ تاعمر پیچھا نہ چھوڑنے والا مرض ہے جس میں آنتوں کے علاوہ نظام انہضام کے مختلف حصوں میں سوجن ممکن ہے۔

اس کی سب سے عام علامات میں پیچش، پیٹ میں درد، پاخانے میں خون آنا، تھکن اور وزن میں کمی شامل ہیں۔ برطانیہ میں طبی ماہرین مشورہ دیتے ہیں کہ اگر آپ سات سے زیادہ دن تک ان میں سے کسی بھی علامت کو محسوس کرتے ہیں تو فوری طور پر اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

سارہ سلیٹ برطانیہ میں کرونز اینڈ کولائٹس نامی ادارے کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہیں۔ انھیں یہ بات بہت متاثر کرتی ہے کہ نوجوان نسل سوشل میڈیا کی مدد سے اس موضوع پر آگہی پیدا کر رہی ہے لیکن وہ زور دیتی ہیں کہ انٹرنیٹ پر ملنے والی ہر بات درست نہیں ہوتی، اس لیے اگر کسی کو لگتا ہے کہ ان میں اس مرض جیسی علامات واضح ہیں تو اپنے ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔

خود سے مرض کی تشخیص اور علاج کی کوشش کرنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا ’ بعض اوقات لوگ خوراک سے متعلق ایسے مشوروں پر عمل کرنے لگتے ہیں جو انتہائی غلط ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ مشورے سپلیمنٹس یا طرز زندگی میں تبدیلی سے متعلق بھی ہو سکتے ہیں۔‘ وہ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ اس طرح کے مشورے مکمل جانچ پڑتال کے بعد ماہرین سے ہی لینے چاہئیں۔ اس کے علاوہ بعض معاملوں میں یہ بھی ممکن ہے کہ علامات واقعی ذہنی دباؤ کے سبب ہوں اور انھیں محض انٹرنیٹ پر موصول معلومات کی بنیاد پر کرونز سمجھ لیا جائے۔

سارہ، زیاد، کلوئی اور لوسی سبھی زور دیتے ہیں کہ ڈاکٹر سے رابطہ کرنا سب سے ضروری عمل ہے۔ اس میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔

زیاد نے کہا ’میرا خیال ہے کہ اس مرض کے ساتھ اکثر شرمندگی کا احساس اتنا جڑ جاتا ہے کہ لوگ اس بارے میں بات کرنے سے کتراتے ہیں، اور ایسا صرف آنتوں میں سوجن کے امراض کے ساتھ ہی نہیں، بلکہ اس جیسی کسی بھی علامات کے ساتھ ہوتا ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’ اس شرمندگی کی بڑی وجہ اس بارے میں معلومات کی کمی اور غلط فہمیاں بھی ہیں۔‘ لوسی کہتی ہیں : ’ یہ بہت ضروری ہے کہ آپ مرض کی تشخیص کو مثبت انداز میں دیکھیں، بہت سے لوگ اسے سب سے بری صورت حال سمجھنے لگتے ہیں۔

تشخیص ہونے پر ہی آپ اس کا علاج کرا سکتے ہیں اور مزید زندہ رہ سکتے ہیں۔‘ لوسی کا خیال ہے ’یہ بھی ضروری ہے کہ لوگ اپنے ڈاکٹر سے اس بارے میں پر اعتمادی کے ساتھ تفصیل سے بات کریں۔ اس میں شرمندگی والی کوئی بات نہیں۔‘ ( بشکریہ بی بی سی )

The post کرونز نامی بیماری کیا ہے ؟ appeared first on ایکسپریس اردو.


جسمانی سرگرمی ، حاملہ خواتین کیلئے ضروری کیوں؟

$
0
0

حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک نئی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستان میں 86 فی صد خواتین دوران حمل اپنا زیادہ تر وقت چہل قدمی یا ورزش کی بجائے ٹی وی دیکھنے میں صرف کرتی ہیں۔

اس تحقیق کے450 خواتین کے طرزِ زندگی کا مشاہدہ کیا گیا جس کی روشنی میں جو اعداد و شمار سامنے آئے، ان کے مطابق پاکستان میں ہر تین حاملہ خواتین میں سے ایک سے زائد عورت دورانِ حمل جسمانی طور پر متحرک رہی جب کہ ان میں سے صرف تین فی صد خواتین ایسی تھیں جنھوں نے دورانِ حمل ورزش کی یا دن بھر میں کم از کم آدھا گھنٹہ مختلف کھیلوں کے لیے مختص کیا۔

مجموعی طور پر ان خواتین کی تعداد36 فی صد بنتی ہے86 فی صد خواتین نے بتایا کہ ان کا زیادہ وقت یا تو ٹی وی دیکھنے میں گزرتا ہے یا مستقل آرام کرتی رہتی ہیں۔

اس جائزے کے دوران میں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی یہ خواتین بے تحاشا ادویات استعمال کرتی ہیں ، اس کے نتیجے میں پریشان رہتی ہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خواتین کی بہت بڑی تعداد دورانِ حمل ورزش سے ملنے والے فوائد سے بالکل نا واقف ہے۔ ان کے ذہنوں میں ورزش کے بارے میں یہ انتہائی غلط تصور بیٹھا ہوا ہے کہ ورزش کرنے سے حمل کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

مطالعے کے جو نتائج سامنے آئے ہیں ، ان کے مطابق حاملہ خواتین کی بہت کم تعداد اس بات سے واقف ہے کہ کس طرح جسمانی سرگرمی ماں اور بچے دونوں کی صحت اور بہتری میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے۔

تحقیق کرنے والوںکے مطابق عمومی طور پر حاملہ خواتین کی اہم جسمانی سرگرمیوں میں گھر کے کام کاج اور گھر میں موجود معمر افراد کی دیکھ بھال شامل ہے۔ یہ تمام جسمانی سرگرمیاں اہم ہوتی ہیں تاہم حاملہ خواتین کو ورزش کی اہمیت سے آگاہ ہونا چاہیے اور انہیں ورزش کے لیے علیحدہ سے وقت نکالنا چاہیے۔ بعض خواتین کو گیس کا شدید مسئلہ ہو جاتا ہے۔

اکڑا ہوا جسم سانس لینے میں بھی دقت محسوس کرتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ وہ ناشتے کے بعد کچھ دیر کی چہل قدمی بھی نہیں کرتیں اور فوراً بستر پر لیٹ جاتی ہیں۔ حالانکہ انھیںکوشش کرنی چاہیے کہ وہ ناشتے اور کھانے کے بعد دو گھنٹے تک کچھ نہ کچھ کرتی رہیں چاہے وہ بستر درست کرنا ہی کیوں نہ ہو۔

حاملہ خواتین کو چاہیے کہ ناشتے کے بعد صفائی ستھرائی کا کام ضرور کریں تاکہ جسمانی اعضاء حرکت میں رہیں اور ان کا جسم چاق و چوبند رہے۔

عالمی اداروں کی تحقیقاتی رپورٹس میں بھی حاملہ خواتین کو تاکید کی جاتی ہے کہ وہ روزانہ تیس منٹ کی ورزش ضرور کریں۔ اب بعض خواتین یہ سوچ رہی ہوں گی کہ ورزش کس قسم کی ہونی چاہیے جو ان کے لیے اور بچے کے لیے فائدہ مند ہو۔ اس ضمن میں زیادہ تر چہل قدمی ہدایت کی جاتی ہے۔

ماہرین طب کے مطابق چہل قدمی خواتین کے لیے بہترین ورزش ہے۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ قریبی پارک میں چہل قدمی کے لیے ضرور جائیں ، تازہ ہوا میں سانس لیں۔ یہ عمل نہ صرف انھیں ہشاش بشاش رکھے گا بل کہ بچے کی صحت کیلئے بھی بہت مفید ثابت ہوگا۔

ریس یا کسی یوگا جیسے ورزشی سرگرمی سے پہلے اپنے معالج سے مشورہ کر لیں کیوں کہ حمل کے سہ ماہی مرحلے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔

سہ ماہی میں بھاری وزن اٹھانا خطرناک ہو سکتا ہے، خاص طور پر اگر آپ وزن اٹھانے کی عادی نہیں ہیں۔ اس لحاظ سے اسکواٹس، تبدیل شدہ تختے، وال پش اپس بہترین ورزشیں ہیں۔ کرنچیز اور ’ ایب ورک ‘ سے پرہیز کریں جس میں آپ پیٹھ کے بل لیٹتے ہیں۔

اوسلو یونیورسٹی کی تحقیق میں 814 بچوں کو شامل کیا گیا ۔ تحقیق میں حمل کے دوران ماؤں کی جسمانی سرگرمیوں اور بچوں کے پھیپھڑوں کے افعال میں تعلق کو دریافت کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ تحقیق میں دریافت کیا گیا ، جسمانی طور پر غیر متحرک ماؤں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں پھیپھڑوں کے افعال کی شرح کم ہونے کا امکان جسمانی طور پر سرگرم ماؤں کے بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔

حمل کے دوران میں وزن میں اضافہ ناگزیر ہوتا ہے ، لیکن زیادہ وزن بڑھنا آپ کی صحت اور آپ کی شکم میں موجود بچے کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

حمل کے دوران میں ضرورت سے زیادہ وزن کی صورت میں ذیابیطس ، ہائی بلڈ پریشر اور سی سیکشن کی ضرورت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ روزانہ ورزش حمل کے دوران میں آپ کو متحرک محسوس کرنے اور تھکاوٹ سے لڑنے میں مدد فراہم کرے گی۔ چونکہ ورزش قلبی نظام کو تقویت بخشتی ہے ، لہٰذا آپ کو جلد تھکاوٹ نہیں ہوگی۔

حمل کے دوران تھکاوٹ کا ایک سبب بے چینی اور رات کو کم نیند ہونا ہے۔ تاہم ، باقاعدگی سے ورزش کرنے سے گہری نیند اور زیادہ آرام ملے گا۔

The post جسمانی سرگرمی ، حاملہ خواتین کیلئے ضروری کیوں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

سفری سرگرمیاں قدرتی ماحول کیلئے کتنی نقصان دہ ہیں؟

$
0
0

سفر ہمیں دوسرے ملکوں اور جگہوں کے بارے میں جاننے کا موقع فراہم کرتا ہے لیکن یہ ماحول کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔ کیا آپ اپنی سواری کا ذریعہ تبدیل کر کے سفر کو ماحول دوست بنا سکتے ہیں؟

اس موسم سرما میں بظاہر زیادہ شدید موسمی واقعات دیکھنے میں آئے۔ اسی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کے بارے میں ہر نئی رپورٹ کے نتیجے میں بار بار خبردار کیے جانے کے ساتھ ساتھ حالات کی بہتری کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انسانیت ایک پاتال کی طرف بڑھ رہی ہے اور پھر بھی ہم اس بربادی میں معاون بننے والے سفر کو نہیں روک سکتے۔ بدقسمتی سے ہر چھٹی کاماحول پر براہ راست اثر پڑتا ہے۔

ورلڈ ٹریول اینڈ ٹورازم کونسل کے مطابق قدرتی ماحول کے لیے مضر گیس کاربن ڈائی آکسائیڈ (سی او ٹو) کا آٹھ سے دس فیصد سفر اور سیاحت کے شعبے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ راستہ جتنا لمبا ہوگا، اتنا ہی سی او ٹو کا اخراج زیادہ ہوگا۔

گلوبل کاربن بجٹ رپورٹ کے مطابق بنی نوع انسان اس سال 36.6 بلین ٹن سی او ٹو کے اخراج کا سبب بنا۔ 1950ء میں اخراج کی یہ سطح صرف 6 بلین میٹرک ٹن جبکہ 1990ء میں 22 بلین میٹرک ٹن تک پہنچ چکی تھی۔

سفر کے دوران نقل و حمل کے ذرائع کے انتخاب سے فرق پڑ سکتا ہے۔ جرمن وفاقی ماحولیاتی ایجنسی کی طرف سے جاری کردہ ایک مطالعے کے مطابق ایسے عمومی بیانات جن کے مطابق، ’’ ٹرین کا سفر کار کے مقابلے میں زیادہ ماحول دوست ہوتا ہے،‘‘ ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔

کاربن کا ایک بڑا نقش

سفر کے تمام ذرائع بس، ٹرین، ہوائی جہاز، بحری جہاز یا کار کو چلنے کے لیے توانائی کی ضرورت ہوتی ہے، جو عام طور پر تیل اور گیس جیسے فوسل ذرائع سے پیدا ہوتی ہے۔ جب یہ ایندھن جلتا ہے تو آب و ہوا کو نقصان پہنچانے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے۔ یہ ماحول کو گرم کر دیتی ہے۔ نقل و حمل کا شعبہ انسانی ساختہ موسمیاتی تبدیلیوں میں اہم کردار ادا کرنے والے مسائل میں سے ایک ہے۔

شمالی یورپ میں سیاحتی تحقیق کے انسٹی ٹیوٹ (این آئی ٹی) میں ٹورسٹ موبیلٹی ریسرچ کے سربراہ بینیٹ گریم کہتے ہیں کہ اب جبکہ زیادہ لوگ سفر کے آب و ہوا کو نقصان پہنچانے والے پہلوؤں سے آگاہ ہو چکے ہیں، کیا اس سے پائیدار سفر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے؟ یقیناً نہیں! گریم کہتے ہیں کہ دنیا کو دیکھنے کی خواہش اور آب و ہوا کے موافق سلوک کرنے میں دلچسپی پر اکثر سفر کرنے کی خواہش غالب رہتی ہے۔

جرمنی کی ہالیڈے اینڈ ٹریول ریسرچ ایسوسی ایشن کے 2022ء کے سفر سے متعلق ایک تجزیے کے مطابق جہاں تک پانچ یا اس سے زیادہ دنوں کی بات ہے تو2021ء میں ایسے 55.1 ملین سفر کیے گئے اور مختصر دورانیے کے سفر کے تعداد 44.8 ملین رہی۔ طویل دوروں کے لیے 34 فیصد سیاحوں نے ہوائی جہاز سے سفر کرنے کا انتخاب کیا۔

جرمنی میں بہت سے لوگ پہلے ہی جانتے ہیں کہ ہوائی سفر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے سب سے زیادہ اخراج کا سبب بنتا ہے پھر بھی وہ اپنے سفر کے طریقے میں تبدیلی کم ہی کرتے ہیں۔

کیا آگاہی نے سفر بدل دیا ہے؟

فرانس سے تعلق رکھنے والی سیورین لینگلیٹ نے اعتراف کیا کہ وہ ماحولیات کے حوالے سے زیادہ باشعور مسافر نہیں ہیں کیونکہ وہ اکثر ہوائی جہاز کے ذریعے برلن اور پیرس کے درمیان سفر کرتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ 2023 ء کا انتظار کر رہی ہیں جب ایک نئی ٹرین لائن پیرس اور برلن کو آپس میں جوڑے گی اور وہ فضائی کے بجائے اس کا انتخاب کریں گے۔

بچوں والے خاندانوں کو چھٹی کے دوران سفر کرنے کا طریقہ منتخب کرتے وقت اضافی تحفظات بھی ہوتے ہیں۔

برلن سے تعلق رکھنے والی این کولیرس کہتی ہیں، ’’ ہم عام طور پر کرائے کی کار میں چھٹیوں پر جاتے ہیں۔ گاڑی کا انتخاب کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے ساتھ سامان کی بڑی مقدار لے جاتے ہیں۔‘‘

اسی طرح فرینکفرٹ سے تعلق رکھنے والے جولین شروگل اور ان کے اہل خانہ کے لیے ہوائی جہاز کے ذریعے گرمیوں کی چھٹیوں پر جانا کوئی آپشن نہیں۔ شروگل کا کہنا ہے کہ اگر وہ ہوائی جہاز سے سفر کرتے ہیں تو یہ صرف ایک ماہ سے زیادہ کے سفر کے لیے ہوتا ہے۔

ماحول دوست سفر کا مستقبل

سفر یقیناً ان لوگوں کے لیے بھی آمدنی پیدا کرتا ہے جو سیاحت کی صنعت سے وابستہ ہیں۔ تاہم سیاح سفر سے پیدا ہونے والی مضر گیسوں کے اخراج کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے سفری طریقوں پر نظر ثانی کر سکتے ہیں۔ اس دوران وہ کئی چھوٹے دوروں پر جانے کے بجائے ایک ہی جگہ زیادہ دیر ٹھہر سکتے ہیں۔

بینیٹ گریم کا کہنا ہے کہ سفر کو ایک تجربے کے حصے کے طور پر دیکھنا اور چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے آس پاس کے مقامات پر بھی جانا ایک خوشگورا تجربہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ان کے بقول ہر مقام کسی بھی صورت میں کوئی منفرد چیز پیش کرتا ہے۔

تاہم سفر کو آب و ہوا کے موافق بنانا صرف افراد پر نہیں چھوڑا جانا چاہیے۔ برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی کے فیلکس کریوٹزگ کہتے ہیں، ”ٹرانسپورٹیشن کے بنیادی ڈھانچے کے بارے میں بات کرنا ضروری ہے اور اس کے لیے نہ کہ صرف افراد کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔

ماحول دوست سفر کے لیے آب و ہوا سے متعلق غیر جانبدار، قابل بھروسہ پیشکش ہونی چاہیے۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ حکومتوں اور شہروں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ سفر کو ماحول دوست بنانے کی سمت میں اقدامات کریں۔

The post سفری سرگرمیاں قدرتی ماحول کیلئے کتنی نقصان دہ ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

صائم المصطفے صائم

واٹس اپ (0333-8818706)

فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علم الاعداد کی روشنی میں 2023

اس سال کا حاکم عدد 7 ہے!

7 کا عدد نیپچون اور کیتو کا عدد ہے دونوں کہ فطرت ناقابلِ فہم سمجھی جاتی ہے عجیب وغریب امور کے نمائندہ عدد، لیکن اسی عدد کو خوش بختی کا علم بردار بھی کہا جاتا ہے۔ یہی عدد کچھ لوگوں کے لیے بڑی نوعیت کے منفی اثرات بھی لاتا ہے حکم راں، بادشاہوں اور سربراہان کے لیے یہ عدد مشکلات لاتا ہے۔

7 کا عدد 6 اور 8 کے درمیان ایک دیوار ہے ایک پل ہے۔ 6 سُکھ اور آسانی ہے جب کہ 8 مشکل اور تنگی کا عدد ہے۔ 7جب 6 سے ملتا ہے تو انقلاب برپا کرتا ہے لیکن جب 8 سے ملتا ہے تو خوشی اور راحت لاتا ہے۔

2023 اور پاکستان!

پاکستان کا عدد 8 ہے۔ یہ عدد 15اگست 1947 کے حساب سے ہے جب کہ نام ’’پاکستان‘‘ 3 ہے۔ 8 کا عدد مسلسل مسائل اور خرابی لاتا ہے یا مسلسل کامیابیاں جبکہ 3 کا عدد ترقی اور مسائل کا حل لاتا ہے 3 کا عدد روحانی اور مذہبی لگاؤ اور ماحول کو پیدا کرتا ہے، کیوںکہ تین کا عدد مشتری سے تعلق رکھتا ہے۔

اس سال کا عدد 7 ہے۔ 8 کے ساتھ اس عدد کا ملاپ خوشی، سکھ، سکون اور راحت کے اسباب کی خبر دلاتا ہے جب کہ نام کا عدد 3 اس سات کے ساتھ مل کر کچھ نیا ہونے کی خبر سناتا ہے۔ امید ہے گذشتہ سال کے گھاؤ بھرنے میں مدد دے گا اور ایک نیا باب کھلے گا جو کہ بہتری کی صبح لاسکتا ہے۔

فروری میں سیاسی اور انتظامی لحاظ سے کچھ جوڑ توڑ ہوسکتی ہے۔ کچھ علاقوں میں سُرخ دھبے بھی نظر آرہے ہیں۔ مارچ کا مہینہ کا بھی اسی کا تسلسل ہوسکتا ہے۔ مئی کے مہینے میں کچھ اپ ڈاؤن اور کچھ اچھے اعلان ہوسکتے ہیں جو عوام کے لیے سکھ کا سانس لاسکتے ہیں۔ جون میں روپے کی قدر کچھ بہتر ہونے کی امید ہے لیکن جولائی پھر کچھ خرابیاں سر اٹھاسکتی ہیں۔ یہاں کچھ جانی نقصان کا بھی اندیشہ ہے۔

ستمبر کا مہینہ نیا سیٹ اپ کی راہ ہموار کرسکتا ہے۔ انتظامی لحاظ سے بھی اور مالی امور کے حوالے سے بھی کوئی نئی کہانی سامنے آسکتی ہے۔ نیا باب کھل سکتا ہے۔ اسی کے باعث کچھ خرابیاں اور خوبیاں نومبر میں سامنے آسکتی ہیں، جس کا منطقی انجام دسمبر میں ہوسکتا ہے۔

……

اگر آپ کی تاریخ پیدائش کا نمبر ایک ہے یا نام کا پہلا حرف الف، ی یا غ ہے توآپ کے لیے یہ سال مالی حوالے سے زیادہ بہتر نہیں ہوگا، لیکن کچھ تاریخوں میں آپ کا مقدر ضرور آپ کا ساتھ دے گا اور آپ اپنی مشکلات پر قابو پانے کے لیے اہل ہوپائیں گے۔ دراصل آپ کی ترجیحات اور تفکرات کا مرکز کچھ اور ہی ہوگا۔ اس سال آپ کو بہت مستقل مزاجی اور صبر سے کام لینے کی ضرورت پڑے گی۔

اس سال جس شخص کا شہر یا شے کا نام 7 عدد یا نام کا پہلا حرف ز یا ع ہے تو ان سے کچھ راحت مل سکتی ہے جب کہ جس شخص، شے یا شہر کا نام ط، ص یا عدد 9 ہے تو ان سے آپ کو مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

آپ کے لیے جنوری اور اکتوبر مشکل ہوسکتا ہے۔ خصوصاً اس کی 4، 8، 13، 17، 22 اور26 جب کہ 6,15 اور 24 تاریخیں بہتری کا امکان پیدا کرسکتی ہیں۔

فروری اور نومبر کا مہینہ کچھ نیا کرنے والا ہے۔ ایک نئی توانائی مل سکتی ہے۔

اس ماہ کی سعد ترین تاریخیں 5,14اور 23 جب کہ مشکلات لانے والی 3,12، 21 اور 30 ہوسکتی ہیں۔

مارچ اور دسمبر کی سعد تاریخیں 2،11،20 اور 29 جب کہ کچھ مشکل 6،15، 24 ہوسکتی ہیں۔ اپریل کے مہینے میں کسی کا مشورہ اور تعاون راستے کھول سکتا ہے اس ماہ کی سعد تاریخیں 9,18 ،27 ،3،12،21 اور 30 ہیں جب کہ1،10، 19 اور 28 کچھ مشکل دن ہوسکتے ہیں۔

مئی کا مہینہ اہم تبدیلیوں اور اتارچڑھاؤ کا ہوسکتا ہے۔ سارا مہینہ محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔ خصوصاً 9،18اور 27 تاریخوں میں جب کہ 2،11،20 اور 29 کو کوئی راحت بھی مل سکتی ہے۔

جون کا مہینہ کوئی اچھا راستہ ملے گا۔ ممکن ہے کسی کا مشورہ یا سفر آپ کے لیے بہتری کا دروازہ کھول دے۔ 1،10،19 اور 28 اہم دن ہوسکتے ہیں۔

جولائی کا مہینہ خوش بختی لاسکتا ہے۔ کوئی بڑی خوشی مل سکتی ہے۔ 9،18 ، 27 تاریخیں اہم ہوسکتی ہیں۔

اگست کا مہینہ سیروسفر کا ہوسکتا ہے۔ اچھے دوستوں سے میل ملاقات ہوسکتی ہے جب کہ ستمبر میں کچھ معاملات آپ کی مرضی سے الٹ ہوسکتے ہیں ۔

اگر آپ کا نمبر 2 ہے یا آپ کے نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو اس سال آپ کا مزاج جارحانہ رہے گا۔ آپ آگے بڑھنے کے لیے ایک توانائی حاصل ہوگی لیکن آپ کے لب و لہجہ میں گرمی ممکن ہے آپ کے لیے کچھ مسائل پیدا کردے، اس لیے کوشش کیجیے کہ اس توانائی کا مثبت استعمال کریں، اس سال آپ کئی امور میں کام یابیاں حاصل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جنوری خاصا انقلابی ہوسکتا ہے ، بزنس میں کوئی اہم قدم اٹھاسکتے ہیں۔ آپ کا معاشرتی وقار بلند ہوگا۔

فروری اور نومبر (مالی فائدہ)

خصوصاً 4، 9، 13،18، 22 اور27 تاریخیں

مارچ اور دسمبر (آگے بڑھنے کے مواقع)

خصوصاً 3، 8، 9، 12،17، 18،21، 26 اور27 تاریخیں۔

جون (شادی یا اولاد کی خوشی ) خصوصاً 5، 9، 14، 15، 23 اور24 تاریخیں۔

مذکورہ بالا مہینے اور تاریخیں سعد ہوسکتی ہیں۔

اپریل (غیرمتوقع،اچانک) خصوصاً 4،8،9،13،17، 18، 22، 26 اور27 تاریخیں

اگست (رکاوٹ، مسائل، حادثہ) خصوصاً 1،5،9،10،14،18 ،19 ،23 ،26 اور27 تاریخیں۔

ستمبر (کسی سے تلخی، حالات میں خرابی) خصوصاً 4،8،13،17،22اور26 تاریخیں۔

اگر آپ عدد 3 ہے یا نام کا پہلا حرف ج، ش یا ل ہے تو ایک نیا باب کھلا چاہتا ہے۔ آپ کی فطرت میں ترقی دیکھنا ہے اپنی ہو یا آپ سے وابستہ لوگوں کی۔ اس سال آپ کے لیے عزت، شہرت اور کام یابیاں مل سکتی ہیں۔

جنوری اور اکتوبر کی یہ تاریخیں سعد ہوسکتی ہیں۔

5، 14_23 جب کہ 7,16_اور 25 مشکل دن ہوسکتے ہیں۔

فروری اور نومبر کی سعد تاریخیں 3،12،21اور 30 جب کہ مشکل 5,14, اور 23 ہوسکتی ہیں۔

مارچ اور دسمبر کا مہینہ کچھ مشکل ہوسکتا ہے۔ اس کی سعد تاریخیں 2، 11، 20 اور 29 جب کہ 4,13 اور 22 مشکل ہوسکتے ہیں۔

اپریل کی تاریخیں 1،10،19 اور 19 سعد جب کہ 8,17اور 26 مشکل ہوسکتی ہیں۔ مئی کا مہینہ بڑی خوشی لاسکتا ہے اس کا تعلق سفر، عزت اور ترقی سے ہوسکتا ہے۔

سعد تاریخیں 9،18 اور 27 جب کہ 7،16اور 25 مشکل ہوسکتی ہیں۔

جون کا مہینہ میل ملاقات، مطالعے اور سفر کے لیے اچھا، سعد ایام 8,17,26 جب کہ مشکل 6,15,اور 24 ہیں۔

جولائی یہ محتاط رہنے کا مہینہ ہے اس ماہ کی سعد تاریخیں 7،16اور 25 جب کہ 5,8 اور 26 مشکل ہوسکتی ہیں۔

اگست کے مہینے میں آپ کا مزاج کچھ تندوتیز ہوسکتا ہے۔ پرسکون رہنے کی کوشش کریں۔ اس ماہ کی 6,15 اور 24 تاریخیں سعد جب کہ 4، 13 اور 22 مشکل ہوسکتی ہیں۔

ستمبر کی سعد تاریخیں 5، 14اور 23 جب کہ 8،17 اور 26 مشکل ہوسکتی ہیں،اگر آپ کا عدد 4 ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4 ہے، نام کا پہلا حرف ت، د یا م ہے یا پیدائش شبِ اتوار ہے تو آپ کا ذہن بڑا تیکنیکی اور تخلیقی ہوگا جوڑتوڑ اور ایجاد کی صلاحیت کسی نہ کسی درجے پر موجود ہوگی۔ آپ کا طرزِزندگی اور رویے دوسروں کے لیے قابلِ قبول نہیں ہوں گے۔ آپ کے بارے میں عجیب سوچا اور سمجھا جائے گا، کیوںکہ آپ عام نہیں ہیں۔

اس سال کا عدد سات آپ کے عدد کے لیے اتارچڑھاؤ کے دروازے کھول رہا ہے۔ مادی ترقی کا امکان واضح ہے ۔ جنوری اور اکتوبر کا مہینہ ترقی، محبت، خدا پرستی اور زندگی کی آسائشوں کی نوید سنا رہا ہے۔ آگے بڑھے کی راہیں ہموار ہوں گی، بزرگوں کا تعاون حاصل ہوگا۔

اہم تاریخیں 3،12،21 اور30!

فروری اور نومبر کے ماہ اچانک حالات کو بدل سکتے ہیں۔ آپ کو دوسروں کو حیرت میں ڈالنے کا ہنر رکھتے ہیں لیکن یہ ماہ آپ کو بھی حیرت میں ڈال سکتے ہیں کچھ واقعات آپ کی سوچ کے برعکس بھی ہوسکتے ہیں۔

اہم تاریخیں 2،11،20،اور 29 !

مارچ اور دسمبر کے ماہ سفر ہوسکتا ہے، نئے تخیل کی روشنی وارد ہوسکتی ہے۔ مطالعہ نیا دروازہ کھول سکتا ہے تبادلہ خیال بھی یہی روشنی دے گا، آپ کے رابطے بڑھ سکتے ہیں۔ شہرت مل سکتی ہے۔

اہم تاریخیں 1،10،19 اور 28!

اپریل کا مہینہ آپ کی گذشتہ کی گئی کاوشوں کا اچھا نتیجہ لائے گا، صحت، آمدن، تعلیم اور تعلق سے متعلق کوئی خوشی مل سکتی ہے۔ کوئی خبر نہ بھی آئے تب بھی آپ اچھا محسوس کریں گے۔

اہم تاریخیں 9،18اور27!

مئی کا مہینہ سکون، سفر، مراقبے اور اپنی روحانی خوشی کے لیے اہم ہوسکتا ہے۔

اہم تاریخیں  8،17اور28!

جون اور جولائی کے مہینے کچھ خرابی لاسکتے ہیں۔ اپنے امور میں انتہائی محتاط رہیں۔ ڈپریشن اور غصہ بلاوجہ بھی پیدا ہوسکتا ہے۔ پھلوں اور دودھ کا استعمال کریں

اہم تاریخیں 5،14، 23، 4، 13، 22، 8،17اور26 ہیں

اگست کا مہینہ پھر سے نئی راہیں کھولے گا یا بگڑے امور میں سدھار آنا شروع ہوگا۔

اہم تاریخیں 5،14،23،9،18،27 اور اتوار کے ایام بہتر ہیں

ستمبر کے مہینے میں ایک سے دو ہونے کی امید ہے۔ یعنی مالی فائدہ ہوسکتا ہے شادی یا منگنی جیسا رشتہ بن سکتا ہے۔

اہم تاریخیں 4،13،اور22 !

اگر آپ کا عدد 5 ہے۔

تاریخ پیدائش میں 5 ، پیدائش کا دن بدھ یا نام کا پہلا حرف ہ، ث یا ن ہے تو

آپ کا عطارد کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ یہ پارے کی سی خوبیاں لاتا ہے۔ باتوں کا ماہر، ہر موضوع پر بلاتکان تقریر کرسکتا ہے، سال کا عدد 7 ہے۔ یہ سال آپ کے لیے ترقی اور عنایات کا سال ہے۔ کسی ولی سے ملاقات طے ہے، روح و جسم کے لوازمات حاصل ہوںگے۔

جنوری اور اکتوبر کے مہینے بڑی اور اچانک تبدیلیاں لاسکتے ہیں، حالات میں مثبت تبدیلیاں متوقع ہیں بہتری کے راستے کھلنے کی امید ہے

اہم تاریخیں 2،11،20اور29!

فروری اور نومبر کے مہینے کچھ نئے راز آپ پر کھلیں گے جو اس سے قبل اندھیرے میں تھے۔

آپ کا دماغ نئی نئی راہوں پر چراغ روشن کرے گا سفر اور رابطوں کے لیے بہتر وقت ہوسکتا ہے۔

اہم تاریخیں  1،10،19اور 28!

مارچ اور دسمبر کے مہینے شاندار ہوسکتے ہیں آسائشوں کا حصول ہوسکتا ہے نیا لباس، نئی سواری، نیا سیل یا کچھ ایسا جو آپکی راحت کا سبب بنے مل سکتا ہے

اہم تاریخیں 9،18اور27!

اپریل کا مہینہ سکون اور آرام کا ہوسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے دنیا کی افراتفری سے آپ اکتا جائیں اور کنجِ تنہائی کے تمنائی ہوجائیں، خود سے ملاقات کی خواہش ہوسکتی ہے۔ سفر ہوسکتا ہے مطالعہ بہتر ہوسکتا ہے۔

اہم تاریخیں 8،17اور26!

مئی اور جون کے مہینے کچھ مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ مستقل مزاجی اور صبر سے میدان میں ڈٹے رہے تو فتح آپ کی ہے۔ زمین سے جڑا کام فائدہ دے سکتا ہے۔

اہم تاریخیں 5،14،23،9،18اور27!

جولائی کا مہینہ نئی صبح کا دروازہ کھول سکتا ہے۔ کچھ نیا ہوسکتا ہے، عزت اور شہرت مل سکتی ہے ۔

اہم تاریخیں 7،16اور25!

اگست کا مہینہ آپ کے لیے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ تبدیلیاں چھوٹی بڑی اس سے ضرور ارتعاش کرتی ہیں۔ یہ مہینہ بھی اتارچڑھاؤ لاسکتا ہے جو کہ مثبت ہونے کی امید ہے۔

اہم تاریخیں 4،13اور22!

ستمبر کا مہینہ ایک اور شان دار مہینہ ہوسکتا ہے جوکہ آپ کو بڑی خوشیاں اور کامیابیاں دسے سکتا ہے۔

اہم تاریخیں 3،12،21اور30!

اگر آپ کا نمبر 6 ہے۔

آپ کی تاریخ پیدائش میں 6 ہے، پیدائش کا دن جمعہ ہے۔

یا نام کا پہلا حرف و، خ یا س ہے تو یہ سال آپ کے لیے حالات کو بالکل الٹ پلٹ کرنے والا ہوسکتا ہے۔ اگر آپ کے حالات خراب ہیں اور آپ اس کے لیے مؤثر کوشش کررہے ہیں تو اعداد بتاتے ہیں کہ حالات آپ کی توقع سے زیادہ بہتر ہونے کی امید ہے۔ اس سال کام امیدوں کے برعکس بھی ہوسکتا ہے، ڈوبا ہوا پیسہ مل سکتا ہے، اور اگر آپ نے حالات پر سے نظر اور گرفت ڈھیلی کی تو پلک جھپکنے سے پہلے تخت سے تختہ ہوسکتا ہے۔

یہ ماہ سعد ہوسکتے ہیں اور حالات میں بہتری کی امید ہے۔

فروری اور نومبر۔ اتارچڑھاؤ کا امکان ہے، مالی فائدے ہوسکتے ہیں۔ کوئی راحت کی خبر ضرور مل سکتی ہے۔

خصوصاً 5،9،14،18،23،اور27 تاریخیں۔

جولائی، مالی فائدے ہوسکتے ہیں، لین دین میں آسانی کی امید ہے، اگرچہ کچھ پریشر رہ سکتا ہے، خصوصاً 4،9،13،18،22اور27 تاریخیں اس حوالے سے اہم ہیں۔

اگست، ترقی، نئی منصوبہ بندی، نئی راہیں اور دوستوں کا تعاون، خصوصاً 3،9،12،18،21،27 اور 30 تاریخیں اہم۔

حالات میں کچھ مشکل کا اندیشہ ان مہینوں اور تاریخوں میں ہوسکتا ہے۔

جنوری اور اکتوبر میں حالات تیزی سے کروٹ بدل سکتے ہیں۔ تمام امور سے آگاہ رہیں اور فیصل کرتے ہوئے جرأت مندانہ قدم اٹھائیں۔ خصوصاً 4، 8، 13،17، 22 اور 26 تاریخیں اہم ہیں۔

اپریل، مشکل ہوسکتی ہے، رکاوٹ اور راستے بند ہوتے دکھائی دے سکتے ہیں۔ صبر اور ہمت سے سامنا کریں۔ خصوصاً 1، 5، 9، 14،18، 23 اور27 تاریخیں اہم ہیں۔

مئی، کسی سے تلخی سے بچیں، تیزرفتاری اور گفتاری سے بچیں، خصوصاً 4، 8، 13،17، 22 اور26 تاریخیں اہم ہیں۔

اگر آپ کا نمبر 7 ہے۔

تاریخ پیدائش میں 7 ہے یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز یا ع ہے تو

یہ سال آپ کے علم میں اضافہ لائے گا۔ سفر ہوسکتا ہے رابطے بڑھیں گے۔

حالات میں مثبت تبدیلی کا امکان ہے۔ اگرچہ بہت بڑی کام یابیاں تو شاید نہ مل سکیں لیکن یہ سال بڑی خوشیوں کی بنیاد ضرور رکھ دے گا، اور آپ حالات کی اس سال ہونے والی تبدیلیوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لیں گے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق قدم اٹھائیں گے، یہ آپ کی قبل از وقت حالات کی نزاکت کو بھانپنے کی صلاحیت کا نتیجہ ہے۔ اس سال کچھ اہم مواقع ملیں گے جو آپ کے لیے کئی سعادتیں لاسکتے ہیں۔

جن میں سے چند یہ ہیں جنوری اور اکتوبر، خوشیاں کسی نہ کسی روپ میں ضرور آئیں گی، خصوصاً 6،9،15،18،24اور27 تاریخیں اہم ہیں۔

جون، مالی وسائل کا حصول ممکن ہوسکتا ہے، رشتوں سے راحت مل سکتی ہے۔ خصوصاً 4،9،13،18،22 اور27 تاریخیں اہم ہیں۔

جولائی، گذشتہ مالی فائدے اس ماہ نئی انویسٹمنٹ کے مواقع فراہم کرسکتے ہیں۔ آپ کی ٹیم آپ کو زندگی میں آگے بڑھنے کی توانائی دے گی۔ خصوصاً 3،9،12،18،21،27اور 30 تاریخیں اہم ہیں۔

اس سال کچھ ماہ اور تاریخیں ممکن ہے کچھ مشکل بھی ہوں۔

مارچ اور دسمبر، کاموں میں کچھ تعطل اور خواہ مخواہ کی تاخیر، یہ صبر سے گزارنے والا وقت ہوسکتا ہے۔ مستقل مزاج رہیں۔ خصوصاً 1،5،9،14،18،19،23اور 27 تاریخیں اہم ہیں۔

اپریل، گرم مزاجی سے آگے ضرور بڑھیں لیکن اپنے اعصاب پر قابو رکھیں، اپنی گفتار اور رفتار کو حد میں رکھیں) خصوصاً 4،8،9،13،17،18،22،26اور27 تاریخیں اہم ہیں۔

اگست، کام رک جائیں تو گھبرائیں نہیں، بس مستقل مزاجی اور صبر سے کام لیں،

خصوصاً 4،9،13،18،22اور 27 تاریخیں اہم ہیں۔

اگر آپ کا نمبر 8 ہے۔ آپ کی تاریخ پیدائش میں 8 ہے یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ح، ف یا ض ہے تو یہ سال آپ کے لیے کئی نوع کی راحتیں اور خوشیاں لانے والا ہوسکتا ہے۔ پہلے تین ماہ ممکن ہے زیادہ معاون نہ ہوں لیکن پھر بھی ایک نئی اچھی ابتدا اور خوشیاں ممکن ہیں۔ شادی کا امکان ہے، نیا رشتہ مل سکتا ہے، اور کم زور مالی پوزیشن میں ایک اچھی اور سعد تبدیلی کی امید ہے۔ خصوصاً اس ماہ کئی کام یابیوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔

مئی، مالی فوائد کئی گنا بڑھنے کی امید ہے، خصوصاً 4،9،13،18،22اور 27 تاریخیں اہم ہیں۔

جون، کسی نئے ادارے میں انویسٹمنٹ ہوسکتی ہے۔ نئے راستے کھل سکتے ہیں اور آپ کو اپنے ساتھ کام کرنے والے دوستوں کا بھرپور تعاون حاصل رہے گا،

خصوصاً 3،8،9،12،17،18،21،26،27اور 30 تاریخیں اہم ہیں۔

ستمبر، امید ہے کہ یہ مہینہ اس سال کا بہترین مہینہ ہوگا، خوشیاں اور کام یابیاں تیزی سے آپ کی سمت آئیں گی، خصوصاً 5،9،14،18،23،اور27 تاریخیں

ان تاریخوں اور مہینوں میں اپنے امور میں محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔

فروری اور نومبر، بڑی کام یابیاں ملیں گی، لیکن اس سلسلے میں کچھ ایام محتاط رہنے کے بھی ہیں اور صبر کے بھی، خصوصاً 5،9،14،18،23،اور27 تاریخیں اہم ہیں۔

مارچ اور دسمبر، خوداعتمادی کا اپنی حدود سے تجاوز کرجانا اور مزاج میں جارحانہ انداز مسائل کھڑے کرسکتا ہے، خصوصاً 4،8،13،17، 22 اور 26 تاریخیں اہم ہیں۔

جولائی، حالات کوئی بھی کروٹ لے سکتے ہیں۔ آخری لمحوں تک کچھ کہنا مشکل ہوگا) خصوصا 4،5،913،14 18،22،23 اور 27 تاریخیں اہم ہیں۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش کا عدد 9 ہے، آپ کی تاریخ پیدائش میں 9 ہے، پیدائش کا دن منگل ہے یا نام کا پہلا حرف ط، ص یا ظ ہے تو اس سال آپ اپنے مزاج سے ہٹ کے کام کریں گے۔ مافوق الفطرت امور میں دل چسپی بڑھ سکتی ہے۔ مراقبے اور روحانیت سے رغبت بڑھے گی۔

جنوری، اکتوبر، فروری اور نومبر، یہ چار ماہ آپ کے پاؤں میں کچھ بیڑیاں پڑ اور رکاوٹیں حائل ہوسکتی ہیں، محتاط رہیں، حادثہ بھی ہوسکتا ہے، کیوںکہ سات جذبات اور 9 جارحانہ انداز کا حامل ہے۔ یہ امتزاج کچھ توازن بگاڑ سکتا ہے۔

مارچ اور دسمبر، ایک نئی صبح کا آفتاب طلوع ہوسکتا ہے۔ آپ کے کام کو سراہا جانا لازمی ہے۔ عزت ملنے کی امید ہے۔

اپریل میں مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔ شادی یا منگنی بھی ہوسکتی ہے۔

مئی کا مہینہ آپ کی ملازمت یا بزنس میں ترقی کے لیے معاون ہوسکتا ہے۔

جون کے مہینے میں بڑی تبدیلی آسکتی ہے۔ ترقی مل سکتی ہے، کوئی مالی فائدہ بھی ہوسکتا ہے، لیکن یہاں 4 کا عدد متحرک ہورہا ہے۔ بازی الٹ بھی سکتی ہے۔

جولائی میں سفر ہوسکتا ہے۔ دوستوں سے رابطے اور کچھ نئے دوست بھی آپ کے حلقے میں داخل ہوسکتے ہیں۔

اگست کا مہینہ سب سے اہم ہوسکتا ہے۔ امیدِکامل ہے کہ اس مہینے آپ کو زندگی کے اسباب مہیا ہوں گے، سواری، مکان یا نیا لباس مل سکتا ہے۔

ستمبر کا مہینہ آپ کو سکون اور راحت کے ایام مہیا کرے گا۔ پُرسکون اور تنہائی کا ماحول مل سکتا ہے جو آپ کے اندر موجود آپ سے آپ کو ملاسکتا ہے۔

……

مؤثر صدقات اور وظائف

جیسے دوا مخصوص مرض کے علاج کے لیے مخصوص انداز میں کام کرتی ہے اور وہ دوا معالج کے مشورے کے مطابق ایک خاص وزن اور ترتیب میں کھانے سے متعلقہ مرض سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ایسے ہی مخصوص صدقہ دینے سے متعلقہ مشکل میں آسانی ہوجاتی ہے۔ ذیل میں ہر دن کا صدقہ اور ورد دیا جارہا ہے۔

پیر

صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔

وظیفۂ خاص ’’یارحیم، یارحمٰن، یااللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل

صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔

وظیفۂ خاص”یاغفار، یا ستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ

صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص ’’یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ‘‘ 41 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات

صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔ مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص ’’سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ‘‘ 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ

صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا 6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص ’’سورۂ کہف یا یاودود یا معید یا اللہ‘‘ 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ

صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص ’’یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ‘‘ 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار

صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہرے رنگ کی چیزیں گندم، پھل،کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔

وظیفۂ خاص ’’ یاحی، یاقیوم، یااللہ‘‘ 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔ گندم، پھل،کپڑے، کتابیں دینا یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔

The post علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.

2022 بیتے برس کا البم / نومبر ، دسمبر

$
0
0

4اکتوبر

ہم جنس پرستوں کی شادی کا بل

سلووینیا کی قومی اسمبلی میں ہم جنسوں سے شادی کو قانونی حیثیت دے دی گئی اور ہم جنس پرست جوڑوں کو بچے گود لینے کی اجازت مل گئی۔

ادھر پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ منظور ہونے پر عدالت نے سوال اٹھا دیا کہ پانچ سال قبل پاس ہونے والے بل پر اب اعتراض کیوں اٹھایا جا رہا ہے۔ دو روز قبل جماعت اسلامی نے اس بل کے خلاف ملک گیر احتجاج کرنے کی دھمکی دی تھی، جس کے بعد اس کی شنوائی ہوئی۔ وکیل نے یہ تسلیم کیا کہ غلطی تھی کہ بنا باریکیوں کو سمجھے قانون منظور ہوا۔

گدھے درآمد ہونے لگے

سینیٹ کے اجلاسوں میں وزارت تجارت نے بتایا کہ چین پاکستان سے گدھے درآمد کرنے کا خواہاں ہے۔ اس کے علاوہ انفارمیشن ٹیکنالوجی، ای کامرس اور دیگر شعبوں میں تعاون کا عندیہ دیا۔

5 اکتوبر

بنگلادیش تاریکی میں ڈوب گیا!

بنگلادیش کے نیشنل پاور گرڈ میں خرابی کے باعث ملک کا بیشتر حصہ بجلی سے محروم ہوگیا۔ یہ بریک ڈاؤن ٹرانسمیشن لائن میں خرابی کی وجہ سے ہوا جس سے پاور پلانٹس ٹرپ کرگئے۔ یاد رہے کہ بنگلادیش نے درآمدات کی لاگت میں کمی کے لیے ڈیزل پر چلنے والے تمام پاور پلانٹس بند کر دیے تھے، جس کی وجہ سے بجلی کی قلت ہوگئی تھی۔

خودکش بم دھماکا

کابل میں حکومتی وزارت کی مسجد میں خودکش بم حملے میں 4 افراد ہلاک اور 25 زخمی ہوگئے۔

6 اکتوبر

زلزے اور طوفان

خووی، مغربی آذربائیجان، ایران میں 5.6 شدت کا زلزلہ آیا، جس میں 1000سے زائد افراد زخمی ہوگئے، جب کہ پیرو کے شہر پیورا میں 5.8 شدت کے زلزلے میں ایک شخص ہلاک اور دوخمی ہوگئے۔ دوسری طرف سمندری طوفان ایان سے ہلاکتوں کی تعداد بڑھ کر 130ہوگئی، امریکا میں 125 اور کیوبا میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔ اسے امریکی تاریخ کا 24واں سب سے خطرناک سمندری طوفان قرارداد دیا گیا ہے۔

پاکستان جونیئرلیگ

2022 پاکستان جونیئرلیگ کا افتتاحی سیزن شروع ہوا جس میں انڈر 19ٹوئنٹی 20 کرکٹ لیگ کے مقابلے ہوئے۔ یہ ٹورنامنٹ 6سے 21اکتوبر تک قذافی اسٹیڈیم لاہور میں منعقد ہوا۔ اس میں چھے ٹیموں نے راؤنڈ رابن لیگ فارمیٹ میں حصہ لیا۔ بہاولپور رائلز نے 21 اکتوبر کو فائنل میں گوادر شارک کو شکست دی اور PJL2022 کا افتتاحی چیمپئین بن گیا۔

9 اکتوبر

احتجاج اور پابندیاں

ایران میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے ایران پر عالمی برادری کا دباؤ بڑھ گیا۔ کینیڈا کی حکومت نے ایرانی انقلاب کے حمایتی 10,000افراد کو مکمل طور پر بین کردیا، جب کہ نیدرلینڈ اور فرانس نے اپنے شہریوں کو ایران چھوڑنے کی ہدایت کردی۔

کف سیرپ موت بانٹنے لگا

مغربی افریقہ کے ملک گمبیا میں کھانسی کا شربت استعمال کرنے والے 66 بچوں کی ہلاکت کے بعد دوا ساز کمپنیوں کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا۔  بچوں کی ہلاکت کے پیچھے چار بڑے برانڈز کے کف سیرپ کا نام سامنے آیا۔ یہ سیرپ بچوں کی کھانسی دور کرنے کے لیے دیے جاتے ہیں۔

اسلام آباد میں آتشزدگی

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں واقع سینٹورس مال میں آتشزدگی سے بھگدڑ مچ گئی۔ ساری عمارت دھوئیں اور آگ کے شعلوں کی نذر ہوگئی۔ آگ فورڈ کورٹ میں لگے گیس کے سیلینڈر کے پھٹنے سے لگی۔ دو گھنٹے میں آگ پر قابو پا لیا گیا۔ تاہم حکام کے مطابق آگ سے جانی نقصان نہیں ہوا۔

10اکتوبر

نوبیل انعام امریکیوں کے نام

گذشتہ برس تین امریکی ماہرین معاشیات بین برنا کے، ڈوگلاس ڈائیمنڈ اور فیلپ ایچ نے نوبل میموریل پرائز کو اپنی تحقیق ’’بینکوں اور مالیاتی بحرانوں ‘‘ کے عوض اپنے نام کر لیا۔

11اکتوبر

کشمیری راہ نما الطاف احمد شاہ کی وفات

کشمیری حریت راہ نما اور آل پارٹیزحریت کانفرنس کے لیڈر الطاف احمد شاہ بھارتی حراست میں کینسر کے باعث انتقال کرگئے۔ وہ 2017 سے بھارت کی بدنام زمانہ تہاڑجیل میں بھارتی افواج کی درندگی کا شکار تھے۔ وہ کشمیری حریت راہ نما سید علی گیلانی کے داماد تھے۔

ناسا کا دعویٰ

ناسا کا کہنا ہے کہ اس کے ڈارٹ خلائی جہاز نے منفی اثرات سے بچنے کے لیے 520 فٹ سیارچے Dimorophos کے مداد کو تقریباً 32 منٹ تک کام یابی سے تبدل کردیا۔

12اکتوبر

امداد کا اعلان

کینیڈا نے اعلان کیا کہ وہ روس کے خلاف یوکرین کو نئی فوجی امداد فراہم کرنے کی مد میں 47 ملین ڈالر کے ساتھ آرٹلری راؤنڈ، موسم سرما کے لباس، ڈرون کیمرے اور سیٹلائٹ کمیونیکیشن نظام فراہم کرے گا۔

14اکتوبر

بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن

یوں تو پاکستان میں لوڈشیڈنگ معمول کی بات ہے لیکن نیشنل گریڈ اسٹیشن میں خرابی کے باعث لاہور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہوا۔ 8 ہزار میگاواٹ بجلی سسٹم سے نکلنے پر پنجاب ، سندھ، بلوچستان میں دن بھر سپلائی معطل رہی جس سے کاروبار زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا۔ صبح کو جانے والی بجلی شام 6بجے کے بعد بحال ہونا شروع ہوئی۔

مذاکرات کی دعوت

ملکی ترقی، خوش حالی اور خطے میں امن کے ضمن میں وزیراعظم شہبازشریف نے قازقستان میں سربراہی کانفرنس سے خطاب کے دوران مسئلہ کشمیر پر بھارت سے مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا، جسے سفارتی سطح پر مثبت پیرائے میں دیکھا جا گیا۔

15اکتوبر

نشتر اسپتال میں لاوارث لاشیں

ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت پر بنے کمرے اور چھت سے درجنوں لاوارث گلی سڑی لاشیں ملنے کا ہول ناک انکشاف اس وقت ہوا جب وزیراعلیٰ پنجاب کے مشیر طارق زمان نے نشتر اسپتال کے دورے میں زبردستی سردخانہ اور چھت کھلوائی۔ سرد خانے میں 200 لاشیں تھیں جب کہ چھت پر تین تازہ لاشیں اور 35 پرانی لاشیں تھیں۔ لاشوں کو گدھ اور کیڑے کھا رہے تھے۔ اس کی ویڈیووائرل ہونے پر واقعے کا نوٹس لیا گیا۔

16اکتوبر

پاکستان مخالف بیان پر ماحول گرم

امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا کہ پاکستان جوہری ملک ہونے کی وجہ سے دنیا کے لیے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک ہے، جس کا ایٹمی پروگرام بے قاعدہ ہے۔

اس بیان کو پاکستان کی سالمیت اور ساکھ متاثر کرنے سے مترادف قرار دیتے ہوئے امریکی سفیر کو طلب کرکے شدید احتجاج کیا گیا۔ وزیراعظم نے بھی اس بیان کو گم راہ کن قرار دیا، جب کہ دیگر پاکستانی سیاست دانوں نے بھی اس بیان پر غم و غصہ کا اظہار کیا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ

ماہ اکتوبر کی 16 تاریخ کو ٹی ٹونٹی عالمی مقابلوں کا آغاز آسٹریلیا میں ہوا جو 13 نومبر 2022 تک جاری رہے۔

پاکستان کو آغاز میں ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا اور دونوں ابتدائی میچ ہارگیا لیکن بعد کے میچوں میں مسلسل کامیابیوں کے نتیجے میں فائنل تک پہنچنے میں کامیاب رہا۔ عمومی رائے یہی تھی کہ پاکستان فائنل جیت جائے گا لیکن اس کے برعکس یہ اہم میچ برطانیہ نے باآسانی جیت لیا۔

17اکتوبر

ضمنی انتخابات میں کام یابی

16 اکتوبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آٓئی نے6 جب کہ پیپلزپارٹی نے 2 قومی نشستوں پر کام یابی حاصل کی۔ ان چھے قومی نشستوں پر عمران خان کو کام یابی ہوئی۔

18اکتوبر

جان لیوا وبا

پچھلے دو برس وباؤں کے حوالے سے خطرناک ثابت ہوئے جو بالواسطہ طور پر انسانوں کے لیے نقصان کا باعث تھیں۔ اس برس امریکا کے زرعی شعبے نے انسانوں کو بلاواسطہ نقصان پہنچانے والی ایک وبا کے خطرناک اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ 47 ملین سے زیادہ مرغیاں اور چوزے برڈفلو کی وجہ سے ہلاک ہوگئے۔ یاد رہے کہ یہ جان لیوا وبا کا 2015کے بعد سے اب تک انتہائی خطرناک پھیلاؤ رہا ہے۔

19اکتوبر

انصاف ہار گیا

بارہ برس پہلے درج ہونے والے کیس کا فیصلہ عوام کی امیدوں پر پانی پھیر گیا۔ سن 2012 میں کراچی کے علاقے کلفٹن میں ایک نوجوان شاہ رخ جتوئی نے 20 سالہ نوجوان شاہ زیب کو قتل کردیا تھا۔ اس کیس کو میڈیا میں اٹھایا گیا اور اس کا شمار ہائی پروفائل کیسز میں ہونے لگا۔

بارہ برس بعد ملزم شاہ رخ جتوئی کو چار ملزمان سمیت سپریم کورٹ سے بری کردیا گیا۔ ملزمان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ 302 کی دفعہ فریقین میں صلح کی وجہ سے ختم ہوچکی تھی۔ اس خبر کے آنے کے بعد عوام میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی اور سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر لوگوں نے اسے انصاف کی ہار قرار دیا۔

21 اکتوبر

مہنگائی برطانوی وزیراعظم کو لے ڈوبی

مہنگائی سے نمٹنے مین ناکامی پر برطانیہ کی نومنتخب وزیراعظم لز ٹرس اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئیں۔ انھوں نے اپنے 45  روزہ دور حکومت میں وعدے پورے نہ کرسکنے کا اعتراف کیا اور اس کے ساتھ کنزرویٹیو پارٹی کی سربراہی چھوڑنے کا بھی اعلان کردیا۔ مستعفی ہونے کے بعد وہ 1827کے بعد سے اب تک مختصر ترین مدت کے لیے وزیراعظم بننے والی شخصیت بن گئیں۔

22اکتوبر

عمران خان نااہل قرار

عمران خان کے خلاف قائم کیے جانے والے توشہ خانہ ریفرینس کا فیصلہ آگیا۔ الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم عمران خان کو 53 ون پی کے تحت نااہل قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ عمران خان کو مس ڈیکلئریشن کا مرتکب قرار دیتے ہوئے سنایا گیا۔ یوں عمران خان اسمبلی رکنیت سے نااہل قرار دے دے گئے۔ یاد رہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ کو 13 کروڑ ساڑھے 89 لاکھ کے تحائف ملے۔

آخر کار پاکستان گرے لسٹ سے نکل گیا

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس نے چار سال بعد پاکستان کا نام گرے لسٹ سے نکال دیا۔ یہ فیصلہ 34 نکاتی ایکشن پلان کی کام یاب تکمیل اور جائزہ رپورٹ تسلی بخش ہونے پر کیا گیا۔ چار برس کی تگ و دو کے بعد بالآخر پاکستان وائٹ لسٹ میں شامل کردیا گیا۔

24اکتوبر

ملک گیر ریفرنڈم

ترک صدر نے حجاب پہننے کے حق پر ملک گیر ریفرنڈم کرانے کی تجویز دے دی۔ ترکی میں 2023 میں عام انتخابات سے قبل گذشتہ سال حجاب کا مسئلہ سیاسی مباحث میں حاوی رہا۔ یاد رہے کہ ترکی پر حکم رانی کرنے والی سیکولر جماعتیں حجاب پہننے کے حق کی مخالف رہی ہیں۔

28اکتوبر

صحافی خون میں نہا گیا!

سنیئر صحافی اور اینکر پرسن ارشدشریف کو کینیا میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ وہ سر میں گولی لگنے سے جان بحق ہوئے۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے کینیا کی حکومت کو خط لکھ کر تحقیقات کر نے کا کہا۔ ان کی میت کو جلد از جلد پاکستان لانے کی درخواست کی گئی۔ یاد رہے کہ صحافی ارشدشریف کی جان کو خطرہ تھا جس کے پیش نظر وہ کینیا چلے گئے تھے۔ ان کی نمازِجنازہ فیصل مسجد میں ادا کی گئی جس میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

30اکتوبر

آزادی مارچ

عمران خان نے آزادی مارچ کا آغاز کردیا۔ گذشتہ کچھ عرصے سے وہ اس مارچ کا تذکرہ کرتے نظر آتے تھے۔

عمران خان نے اس مارچ کا آغاز لبرٹی چوک سے کیا اور اس کا آخری پڑاؤ اسلام آباد طے پایا۔ اس مارچ کا مقصد شہبازشریف کی حکومت کی جانب سے قبل از وقت عام انتخابات نہ کرانے پر احتجاج تھا، لیکن دوسرے ہی دن ایک نجی ٹی وی چینل کی صحافی صدف نعیم آزادی مارچ کے کنٹینر تلے آکر جان بحق ہوگئیں، جس کی وجہ سے مارچ کو دوسرے روز مقررہ مقام پہ پہنچنے سے پہلے ختم کرنا پڑا۔

3 نومبر

 عمران خان پر قاتلانہ حملہ

وزیرآباد میں پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران عمران خان اور پارٹی کے راہ نماؤں کے کنٹینر کو فائرنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ چیئرمین تحریک انصاف گولیاں لگنے سے زخمی ہوگئے۔ اس حملے میں 13 افراد زخمی جب کہ ایک پی ٹی آئی کارکن معظم جاں بحق ہوگیا۔

ایک اور کارکن ابتسام نے ملزم کو پکڑ لیا، تاہم وہ خود کو چھڑا کر بھاگا تو پولیس نے گرفتار کرلیا۔ حملے کے بعد تحریک انصاف کے حامیوں نے ملک کے بڑے شہروں میں احتجاج شروع کردیا۔ عمران خان پر حملے کی ملکی اور غیرملکی راہ نماؤں نے مذمت کی۔

اسی رات ملزم نوید کا اعترافی بیان بھی ٹی وی پر چلا جس میں اس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین لوگوں کو گم راہ کر رہے ہیں اور اس کے پیچھے کوئی نہیں۔ عمران خان نے اپنے اوپر حملے میں تین افراد وزیراعظم شہباز شریف، وزیرداخلہ رانا ثنا اللہ اور آئی ایس آئی کے ایک اہم عہدے دار کو ذمے دار ٹھہرایا اور ایف آئی آر میں ان کا نام شامل کرانے کی کوشش کی۔

جس کی وجہ سے ایف آئی آر کے اندراج کا معاملہ کئی دن لٹکا رہا۔ ابتدائی تفتیشی رپورٹ بالآخر سپریم کورٹ کے حکم پر پولیس کی مدعیت میں سات نومبر کو درج ہوئی۔ تاہم اس میں پی ٹی آئی کی طرف سے نام زد تینوں عہدے داروں کا نام شامل نہیں کیا گیا۔

4 نومبر

میر بلخ شیرمزاری وفات پا گئے

سابق نگراں وزیراعظم اور مزاری قبیلے کے سردار میربلخ شیرمزاری طویل علالت کے بعد 95 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔

وہ 1928ء میں کوٹ کرم خان میں مزاری قبیلے کے چھٹے میر، مراد بخش خان مزاری کے ہاں پیدا ہوئے۔ 1945ء میں ایچی سن کالج سے تعلیم مکمل کی۔ انہیں 1993ء میں نگران وزیراعظم تعینات کیا گیا، جب کہ وہ کئی مواقع پر قومی اور صوبائی اسمبلی کے صدر منتخب ہوتے رہے۔

5 نومبر

 نازیبا ویڈیو بنانے کا الزام

اعظم سواتی نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ان کی اپنی اہلیہ کے ساتھ ویڈیو، ان کی فیملی کو بھیجی گئی۔ اعظم سواتی آبدیدہ ہو گئے اور کہا کہ نازیبا ویڈیو پر اتنا شرمسار ہوں کہ اپنے بچوں کا سامنا نہیں کر سکتا۔

اس واقعے کی تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں سے وابستہ سیاست دانوں نے بھی شدید مذمت کی۔ ایف آئی اے حکام نے کہا کہ اعظم سواتی کی پھیلائی جانے والی مبینہ ویڈیو جعلی ہے۔

8 نومبر

 سینیٹر مصطفٰی نواز مستعفی

سینیٹر مصطفٰی نواز کھوکھر نے اعظم سواتی کی مبینہ ویڈیو کے معاملے پر اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہیں پیغام دیا گیا کہ پارٹی قیادت ان کے موقف سے خوش نہیں اور ان کا استعفٰی چاہتی ہے، جس پر ان کا کہنا تھا کہ بطور سیاسی کارکن عوامی مفاد کے معاملے میں انہیں اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔ انہوں نے بخوشی مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔

8 نومبر

 گلوکار ظفر رامے کا انتقال

معروف گلوکار ظفر رامے دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان، ٹی وی اور فلم کے لیے کئی گیت ریکارڈ کرائے۔ 2016ء میں انہیں بہترین گلوکار کے اعزاز سے بھی نوازا گیا۔

9 نومبر

 اذلان شاہ کپ میں تیسری پوزیشن

سلطان اذلان شاہ ہاکی کپ میں پاکستان نے ایشین چمیپئن جاپان کو 5-3 سے شکست دے کر برانز میڈل حاصل کیا۔ ملائیشیا کے شہر ایپوہ میں منعقدہ ایونٹ میں پاکستان نے گیارہ سال بعد وکٹری اسٹینڈ پر جگہ پائی۔ اذلان شاہ کپ میں چھے ٹیموں ملائیشیا، جاپان، پاکستان، کوریا، جنوبی افریقہ اور مصر نے شرکت کی۔

18 نومبر

 مفتی رفیع عثمانی کا انتقال

ممتاز عالم دین محمد رفیع عثمانی طویل علالت کے بعد انتقال کرگئے۔ وہ دارالعلوم کراچی کے رئیس مفتی تھے۔ آپ 21 جولائی 1936ء کو متحدہ ہندوستان میں واقع شہر دیوبند میں پیدا ہوئے۔ آپ مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع عثمانی کے بڑے صاحب زادے تھے۔ آپ 30 سے زائد کتابوں کے مصنف، مفسر قرآن اور فقیہہ تھے۔

19 نومبر

 کامیڈین طارق ٹیڈی دنیا سے رخصت

تھیٹر کی دنیا میں لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے والے نام ور کامیڈین طارق ٹیڈی جگر اور سانس کے عارضے میں مبتلا رہنے کے بعد 46 سال کی عمر میں خالق حقیقی سے جاملے۔ طارق ٹیڈی 1976ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور 1990ء سے فنی کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کے بہترین ڈراموں میں ماما پاکستانی، سب سے بڑا روپیہ، جی کردا، دوستی شامل ہیں۔

20 نومبر

 فٹ بال ورلڈکپ 2022ء

20 نومبر سے 18دسمبر تک فٹ بال ورلڈکپ 2022ء کا انعقاد ہوا۔ قطر نے اس بین الاقوامی مقابلے کی تیاری ایک دہائی سے شروع کر رکھی تھی۔

اس طرح فٹ بال ورلڈکپ کے میزبان کے طور پر قطر کو مسلم اور عرب دنیا کا پہلا ملک بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس عالمی ٹورنامنٹ میں 32 ممالک کی ٹیموں نے حصہ لیا۔ 29 دنوں کے دورانیے میں 64 میچ ہوئے، پانچ شہروں کے آٹھ اسٹیڈیمز میں یہ مقابلے کرائے گئے۔

ٹورنامنٹ کے شان دار انعقاد سے قطر دنیا بھر کی توجہ اور اپنی نیک نامی حاصل کرنے میں کام یاب ہوا۔ قطر اور ایکواڈور کے پہلے میچ سے قبل شاندار افتتاحی تقریب منعقد کی گئی۔ اس عالمی ٹورنامنٹ میں کئی دل چسپ، سنسنی خیز میچ اور کچھ اپ سیٹ دیکھنے کو ملے۔

22 نومبر کو سعودی عرب نے حیران کن طور پر ارجنٹائن جیسی فیورٹ ٹیم کو 2-1 سے شکست دی۔ تاریخی کامیابی پر سعودی عرب میں جشن کا سماں تھا اور اس خوشی میں ولی عہد محمد بن سلمان نے اگلے دن عام تعطیل کا اعلان کیا۔

30 نومبر کو ایک اور اپ سیٹ تیونس نے کیا، جب اس نے دفاعی چمپئین فرانس کو 1-0 سے شکست دی۔ جاپان نے جرمنی کو 2-1 سے مات دی اور پھر اسپین سے بھی جیت کر راؤنڈ 16 میں رسائی پائی۔ ورلڈکپ میں مراکش نے خوب دھوم مچائی اور بڑی ٹیموں کو شکست دیتے ہوئے سیمی فائنل تک پہنچی۔

پہلے سیمی فائنل میں ارجنٹائن نے کروشیا کو 3-0 سے زیر کیا، دوسرے سیمی فائنل میں فرانس نے مراکش کے افسانوی سفر کا 2-0 سے اختتام کیا۔ فائنل کے اعصاب شکن مقابلے میں اضافی وقت تک سکور تین، تین گولز سے برابر رہا، پنالٹی شوٹ آؤٹ پر ارجنٹینا نے فرانس کو 4-2 سے شکست دے کر ورلڈکپ اپنے نام کیا۔

24 نومبر

 نئے آرمی چیف کا تقرر

حکومت نے نئے آرمی چیف کے لیے فوج کے سنیئر ترین جنرل، عاصم منیر کا تقرر کر دیا، جس سے کئی ہفتوں سے جاری قیاس آرائیاں دم توڑ گئیں۔ انہوں نے جنرل باجوہ کی مدت ملازمت ختم ہونے پر 29 نومبر کو چارج سنبھالا۔ جنرل ساحر شمشاد مرزا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کیے گئے۔ وزیراعظم کی سمری پر صدر عارف علوی نے نئی تقرریوں کی منظوری دے دی۔

24 نومبر

 اسماعیل تارا انتقال کر گئے

ٹی وی، اسٹیج اور فلم کے معروف مزاحیہ اداکار اسماعیل تارا کراچی کے ایک نجی اسپتال میں انتقال کرگئے۔ وہ گردوں کے عارضے میں مبتلا تھے۔ انہوں نے پی ٹی وی کے مشہور مزاحیہ پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ سے شہرت حاصل کی۔

27 نومبر

آزاد کشمیر میں 31 سال بعد بلدیاتی انتخابات

31 برس کے بعد آزاد کشمیر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں تین اضلاع نیلم، جہلم ویلی اور دارالحکومت مظفرآباد میں الیکشن ہوئے۔ تین مراحل میں یہ انتخابات مکمل ہوئے۔

2 دسمبر

کابل، پاکستانی سفارتخانے پر حملہ

کابل میں پاکستانی سفارت خانے میں سفارتی عملے پر فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے وقت ناظم الامور عبیدالرحمان نظامانی چہل قدمی کر رہے تھے، وہ حملے میں محفوظ رہے، لیکن ایک پاکستانی سیکیوریٹی گارڈ سپاہی اسرار محمد کو گولیاں لگیں جنہیں علاج کے لیے پشاور منتقل کردیا گیا۔ پاکستان نے واقعے پر شدید احتجاج ریکارڈ کرانے کے ساتھ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔

 صحافی عمران اسلم، اداکار افضال احمد چل بسے

سنیئر صحافی عمران اسلم 70 برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔ انہوں نے 1980ء کی دہائی میں صحافت کا باقاعدہ آغاز کیا اور کئی موقر جریدوں میں اہم عہدوں پر فرائض انجام دیے۔ 2015ء سے جنگ گروپ اور جیو ٹی وی نیٹ ورک کے گروپ صدر تھے۔ انہوں نے 60 سے زائد ڈرامے لکھے جو ٹی وی اور اسٹیج کی زینت بنے۔

دو دسمبر کو ہی نام ور اداکار افضال احمد طویل علالت کے بعد لاہور کے ایک اسپتال میں خالق حقیقی سے جاملے۔ 20 برس پہلے فالج کے حملے کی وجہ سے ان کی نقل و حرکت محدود ہوچکی تھی۔ انہوں نے اپنے طویل فنی سفر کے دوران تھیٹر، ٹی وی اور فلم میں اپنی بے مثال اداکاری کی وجہ سے نام کمایا۔

6 دسمبر

 ارشد شریف قتل کا پاکستان میں مقدمہ درج

سپریم کورٹ کے حکم پر وفاقی پولیس نے معروف صحافی ارشدشریف کے قتل کا مقدمہ درج کیا۔ ایف آئی ار اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں ایس ایچ او سب انسپکٹر رشید احمد کی مدعیت میں درج کی گئی، جس میں تین افراد خرم، وقار احمد، طارق احمد کو نام زد جب کہ کچھ افراد کو نامعلوم ظاہر کیا گیا۔ اس سے اگلے دن 7 دسمبر کو سپریم کورٹ نے پولیس کی جے آئی ٹی مسترد کرتے ہوئے نئی اسپیشل جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دینے کا حکم دیا۔

8 دسمبر

 ڈیلی میل کی معذرت

برطانوی اخبار ’ڈیلی میل‘ نے وزیراعظم شہبازشریف سے متعلق اپنی تین سالہ پرانی خبر پر معذرت کرلی۔ 14 جولائی 2019ء کی خبر میں قومی احتساب بیورو (نیب) کا حوالہ دیتے ہوئے شہبازشریف پر 2005ء کے زلزلہ متاثرین کی امداد چوری کرنے کا الزام لگایا تھا۔ اخبار نے تسلیم کیا کہ اس معاملے میں نیب نے شہبازشریف پر خوردبرد کا الزام کبھی عائد نہیں کیا۔ اخبار نے اپنی ویب سائٹ سے یہ پرانی خبر بھی ہٹا دی۔

9 دسمبر

 ریکوڈک معاہدہ قانونی قرار

سپریم کورٹ نے ریکوڈک منصوبہ کے نئے معاہدے کو قانونی اور ماحولیاتی اعتبار سے درست قرار دیتے ہوئے اس کی توثیق کردی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ معاہدے میں کوئی غیرقانونی شق شامل نہیں ہے اور معاہدہ کرنے سے قبل بلوچستان اسمبلی کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان10 ارب ڈالر جرمانے سے بچ گیا۔

11 دسمبر

 چمن بارڈر پر افغان فورسز کی فائرنگ

افغان بارڈر فورسز نے چمن بارڈر پر پاکستان کی شہری آبادی پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی، جس میں پاکستان کے چھے شہری شہید اور 17 زخمی ہوئے۔ چار زخمیوں کی حالت نازک بتائی گئی۔ پاکستانی فورسز نے جارحیت کا موثر جواب دیا تاہم علاقے میں معصوم شہریوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا۔

ذرائع کے مطابق افغان فورسز کی جانب سے سرحد پر لگی خاردار باڑ کو کاٹنے کی کوشش کی گئی، جس کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا۔ پاکستان نے کابل میں افغان طالبان سے رابطہ کرکے مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت اقدامات کا مطالبہ کیا۔

12 دسمبر

 پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے رہنما کا قتل

نامعلوم حملہ آوروں نے پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سنیئر راہ نما سردار محمد اشرف کاکڑ کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ جب وہ لورالائی شہر جانے کے لیے اپنی گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ گھر سے باہر نکلے تو گھات لگائے بیٹھے دہشت گردوں نے ان پر فائر کھول دیا، وہ اس جان لیوا حملے میں جانبر نہ ہوسکے۔ ذرائع کے مطابق پولیس نے اسے ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی ار درج کرلی۔اسے ٹارگٹ کلنگ کا واقعہ قرار دیتے ہوئے ایف آئی ار درج کرلی۔

15 دسمبر

بلاول بھٹو کے بیان پر بھارت سیخ پا

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارتی وزیرخارجہ نے پاکستان پر اسامہ بن لادن کی میزبانی اور دہشت گردی پھیلانے کا الزام عائد کیا تھا، جس کے جواب میں نیویارک میں موجود پاکستانی وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس میں کہا،’’میں بھارتی وزیرخارجہ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اسامہ بن لادن مر چکا ہے، جب کہ ’گجرات کا قصائی‘ نہ صرف زندہ بلکہ بھارت کا وزیراعظم ہے، جس پر وزیراعظم بننے سے پہلے امریکا میں داخلے پر پابندی تھی۔‘‘ اس بیان کو جہاں پاکستانیوں نے سراہا، وہاں بھارت میں حکم راں جماعت اور اس کے کارکنوں نے احتجاج اور اپنے غصے کا اظہار کیا۔

16 دسمبر

 اظہر علی نے ریٹائرمنٹ لے لی

پاکستان کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بلے باز اظہر علی نے ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ انہوں نے انگلینڈ کے خلاف کراچی ٹیسٹ سے پہلے ایک پریس کانفرنس میں اپنے فیصلے کا اعلان کیا۔ وہ ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی طرف سے زیادہ رنز سکور کرنے والے بلے بازوں کی فہرست میں پانچویں نمبر پر ہیں۔ انہوں نے 2010ء میں آسٹریلیا کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میں ڈیبیو کیا۔ 2018ء میں ون ڈے کرکٹ سے ریٹائر ہوئے، انہوں نے نو ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی قیادت کی۔ گزشتہ دہائی میں ٹرپل سنچری اسکور کرنے والے وہ واحد پاکستانی کھلاڑی ہیں۔

17 دسمبر

 پنجاب، پختونخوا اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ کا اعلان

عمران خان نے لبرٹی چوک، لاہور میں تحریک انصاف کے حامیوں سے ویڈیو لنک خطاب کیا، ان کے ساتھ وزیراعلیٰ پنجاب پرویزالہی اور وزیراعلیٰ خیبرپختنونخوا محمود خان بھی موجود تھے۔ انہوں نے 23 دسمبر کو دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا اعلان کیا، تاکہ وفاقی حکومت پر ملک بھر میں عام انتخابات کے لیے دباؤ ڈالا جا سکے۔

20 دسمبر

بنوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن

18 دسمبر کو بنوں کینٹ کے اندر واقع سی ٹی ڈی کمپلیکس میں ایک زیرحراست دہشت گرد نے ڈیوٹی کانسٹیبل کو قابو کرکے اس کا اسلحہ چھیننے کے بعد دیگر زیرحراست 34 ساتھیوں کو آزاد کرا لیا۔ حوالات سے نکلتے ہی دہشت گردوں نے مال خانہ سے مزید اسلحہ حاصل کیا اور فائرنگ شروع کردی۔

انہوں نے ایک سی ٹی ڈی کانسٹیبل کو شہید، دوسرے کو زخمی کیا جس نے بعدازاں اسپتال میں جام شہادت نوش کیا۔ دہشت گردوں نے وہاں موجود جونیئر کمیشنڈ افسر کو یرغمال بنا لیا۔ فائرنگ کی آوازیں آتے ہی سیکیوریٹی فورسز نے کمپاؤنڈ کا گھیرا کر لیا۔ اگلے دو دن دہشت گردوں کے غیرمشروط سرنڈر کے لیے کاوشیں کی گئیں۔

آئی ایس پی آر کے مطابق سرنڈر نہ کرنے پر 20 دسمبر کو فورسز نے طوفانی ایکشن کیا، فائرنگ کے شدید تبادلے میں 25 دہشت گرد مارے گئے، تین گرفتار ہوئے، سات نے سرنڈر کیا۔ تمام یرغمالیوں کو آزاد کرا لیا گیا، آپریشن کے دوران فوج کے تین سپوت شہید ہوئے۔

21 دسمبر

 معروف گلوکارہ بلقیس خانم کا انتقال

اپنے عہد کی منفرد گلوکارہ بلقیس خانم طویل علالت کے بعد انتقال کر گئیں۔ انہوں نے ریڈیو، ٹی وی اور فلموں کے اکثر مقبول گیت گئے ۔

انہوں نے گائیکی کا آغاز بہت کم عمری میں کیا تھا ۔ ان کے مشہور گانوں میں ’انوکھا لاڈلا‘ ، ’ کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں ‘ جیسے مقبول گیت شامل ہیں ۔

بلقیس خانم کے شوہر معروف ستار نواز استاد رئیس خان کا بھی کلاسیکی موسیقی میں بڑا نام تھا۔ لواحقین میں ان کے صاحبزادے استاد فرحان رئیس، بلقیس خانم کے ساتھ رہتے تھے اور اپنے والد کے جانشین کی حیثیت سے سرگرم تھے۔ بلقیس خانم کے ایک بھائی محسن رضا بھی موسیقار کی حیثیت سے اپنا ایک الگ مقام رکھتے ہیں۔

22 دسمبر

 پنجاب کابینہ تحلیل، پھر بحال

تحریک انصاف کے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں تحلیل کرنے کے اعلان کے بعد، حکمران اتحاد پی ڈی ایم نے اس عمل کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔

چنانچہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان کی جانب سے ایک مراسلہ جاری کیا گیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی پارٹی اور اراکین اسمبلی کا اعتماد کھو چکے اور انہیں 21 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی۔ اس سلسلے میں گورنر نے اگلے دن شام چار بجے پنجاب اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کیا۔

اگلے دن یعنی 21 دسمبر کو سپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان نے گورنر کے طلب کردہ اجلاس کو غیرقانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایک اجلاس جاری ہو تو نیا نہیں بلایا جا سکتا۔ موجودہ اجلاس سپیکر کا طلب کردہ ہے، جسے گورنر ختم نہیںکر سکتا۔

اگلے روز 22 دسمبر کو گورنر نے سپیکر کی رولنگ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلیٰ نے مقررہ دن اور وقت پر اعتماد کا ووٹ لینے سے گریز کیا۔

چنانچہ گورنر پنجاب نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے پرویز الہی کو وزارت اعلیٰ کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے پنجاب کابینہ بھی تحلیل کر دی۔ چیف سیکرٹری پنجاب نے کابینہ تحلیل ہونے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کیا۔ گورنر کے اس اقدام پر پی ٹی آئی نے قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا۔

لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ نے پی ٹی آئی کی درخواست منظور کرتے ہوئے پرویز الہی اور ان کی کابینہ کو بحال کر دیا۔ تاہم عدالت نے وزیراعلیٰ پرویزالہی سے تحریری بیان حلفی لیا کہ وہ اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے۔

کرکٹ بورڈ میں تبدیلی

وزیراعظم شہباز شریف نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رمیز راجہ کو ان کے عہدے سے ہٹاتے ہوئے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ اور کرکٹ بورڈ کے 2014ء کے آئین کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔

وزیراعظم نے نجم سیٹھی کو پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کاچیئرمین مقرر کیا، یہ کمیٹی 2014ء کے آئین کے مطابق گورننگ بورڈ کی بحالی اور اس کے مطابق چیئرمین کے انتخاب تک اپنا کام کرے گی۔ اس طرح پی سی بی کے معاملات نجم سیٹھی کے کنٹرول میں آ گئے ہیں۔

سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں اگست 2019ء میں پی سی بی کا نیا آئین منظور ہونے سے ڈیپارٹمنٹل کرکٹ ختم کر دی گئی، جس کے باعث سیکڑوں کرکٹرز بے روزگار ہوئے۔ عمران خان نے بحالی کے لیے کرکٹرز کی اپیل کو بھی مسترد کر دیا تھا۔

نجم سیٹھی کی سربراہی میں منیجمٹ کمیٹی نے سابق چیف سلیکٹر محمد وسیم کو ان کے عہدے سے ہٹا کر عبوری سلیکشن کمیٹی قائم کی، جس میں شاہد آفریدی کو چیف سلیکٹر مقرر کیا گیا ۔ عبدالرزاق اور راؤ افتخار انجم کو بھی عبوری سلیکشن کمیٹی کا حصہ بنایا گیا۔

25 دسمبر

 بلوچستان میں پانچ فوجیوں کی شہادت

بلوچستان کے ضلع کوہلو کے علاقے کاہان میں کلیئرنس آپریشن کے دوران بارودی سرنگ کے دھماکے میں ایک کیپٹن سمیت پانچ فوجی جوان جام شہادت نوش کر گئے۔

آئی ایس پی آر کے مطابق مصدقہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر 24 دسمبر 2022ء سے بلوچستان کے علاقے کاہان میں ایک کلیئرنس آپریشن جاری تھا۔ 25 دسمبر کو آپریشن کے دوران لیڈنگ ٹیم کے قریب بارودی مواد کا دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں کیپٹن فہد خان سمیت فوج کے چار دیگر سپوتوں لانس نائیک امتیاز، سپاہی اصغر، سپاہی مہران، اور سپاہی شمعون نے مادر وطن کے دفاع میں اپنی جانیں نچھاور کر دیں۔

اس دھماکے میں شہید ہونے والے کیپٹن فہد خان کی نماز جنازہ اگلے دن آرمی قبرستان راولپنڈی میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، شہید کے لواحقین، فوجی جوانوں اور شہریوں نے شرکت کی۔

29 دسمبر

عظیم فٹ بالر پیلے انتقال کر گئے

دنیائے فٹ بال کے بہترین اور مقبول ترین کھلاڑیوں میں سے ایک، برازیلین اسٹار فٹ بالر ایڈسن آرانٹے ڈونیسیمنٹو عرف پیلے طویل علالت کے بعد 82 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ 2000ء میں فیفا نے انہیں صدی کا بہترین کھلاڑی قرار دیا تھا۔

انہوں نے اپنے 21 برس کے کیریئر میں 1363 میچوں میں 1281گول کیے۔ وہ 1958ء ، 1962ء اور 1970ء میں تین بار ورلڈکپ جیتنے والی برازیل کی ٹیم کا حصہ تھے۔ انہیں برازیل کا وزیرکھیل بھی بنایا گیا۔ حالیہ کچھ برسوں میں وہ مختلف امراض کی وجہ سے زیرعلاج تھے۔

The post 2022 بیتے برس کا البم / نومبر ، دسمبر appeared first on ایکسپریس اردو.

جب میں نے لکھنا سیکھا تھا

$
0
0

 (حصہ دوم)

’’جب میں نے لکھنا سیکھا تھا‘‘ کے زیرعنوان اس مضمون کا پہلا حصہ روزنامہ ایکسپریس کے سنڈے میگزین میں شایع ہوچکا ہے، جس میں اردو کے کئی معروف اور ممتاز شعرا کا پہلا شعر دیا گیا تھا۔ ایکسپریس کے با ذوق قارئین کی زبردست پزیرائی اور حوصلہ افزائی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اسی سلسلے کا دوسرا اور آخری حصہ ان کی ضیافت طبع کے پیش ہے۔

حفیظؔ جالندھری: کراچی سے شائع ہونے والے ادبی جریدے افکار کے حفیظ ؔجالندھری نمبر میںپاکستان کے قومی ترانے کے خالق اور ’’شاہنامہ اسلام‘‘ کے شاعر ابوالاثر حفیظ جاؔلندھری کی شعر گوئی کی ابتدا کے حوالے سے تحریر ہے کہ انہوں نے اپنا پہلا شعر اس وقت کہا جب وہ پرائمری اسکول میں زیرتعلیم تھے جو درج ذیل تھا

؎محمدؐ کی کشتی میں ہوں گا سوار

تو لگ جائے گا میرا بیڑا بھی پار

یہی شعر آگے چل کر ’’شاہنامہ اسلام‘‘ جیسی منظومات کا پیش خیمہ ثابت ہوا جبکہ ۱۹۱۱ میں چھٹی جماعت میں پہلی غزل لکھی جس کا مطلع تھا:

؎خواب میں دل دار کی تصویر ہم نے دیکھ لی

رات کو جاگی ہوئی تقدیر ہم نے دیکھ لی

جگن ناتھ آزادؔ:  اردو کے نام ور شاعر تلوک چند محروم ؔکے صاحب زادے اپنے دور کے مقبول عام سخن ور جگن ناتھ آزاد ؔ کو شعرگوئی کی صلاحیت بطور ورثہ منتقل ہوئی۔ مشاہیر ادب سے انٹرویوز پر مبنی ڈاکٹر حمیرا جلیلی کی کتاب ’’گفتگو‘‘ میں جگن ناتھ آزادؔ نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا، ’’پانچ سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ ایک پہاڑی علاقے کی سیر کو گیا، جہاں پہاڑیوں پر بنے ہوئے چھوٹے چھوٹے مکا ں دھند میں لپٹے ہوئے عجب سماں پیش کر رہے تھے اور اس کیفیت سے متاثر ہو کر والد صاحب نے ایک مصرعہ موزوں کیا:

؎ پہاڑوں کے اوپر بنے ہیں مکاں

اور مجھ سے خواہش کی کہ میں اس پر گرہ لگاؤں

میں نے کہا:

؎عجب ان کی صورت عجب ان کی شاں

اس پر والد نے ٹوکتے ہوئے کہا کہا، ’’صورت‘‘ کی جگہ ’’شوکت‘‘ کہو ، اور یوں یہ شعر مزید باکمال ہوگیا اور یہی میری شاعری کی ابتدا بھی ٹھہرا۔

کیفیؔ اعظمی:  اردو شاعری کی ترقی پسند تحریک میں فیضؔ اور مخدومؔ محی الدین کے بعد تیسرا نمایاں اور اہم ترین نام سید اطہر حسین رضوی المعروف کیفیؔ اعظمی کا شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا ایک اور بڑا حوالہ ہندوستان کی فلمی صنعت کا کام یاب گیت نگار ہونا بھی ہے۔ وہ اپنی کتاب ’’محرر‘‘ کے دیباچے ’’میں اور میرا شعری سرمایہ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں،’’اپنی زندگی کی پہلی غزل میں نے گیارہ برس کی عمر لکھی تھی، جس نے میری مستقبل کی راہوں کو متعین کیا۔‘‘ مذکورہ غزل کے اشعار پیش خدمت ہیں:

؎اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے

ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے

جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک

یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے

اک تم کہ تم کو فکرِنشیب و فراز ہے

اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے

مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ

جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے

احمد فرازؔ :حقیقی نام سید احمد شاہ، پہلے پہل قلمی نام احمدؔ شاہ کوہاٹی، پھر اپنے والد سید محمد شاہ برق ؔ کی نسبت سے ’’ شرر ؔبرقی اور بعد ازآں فیض احمد فیض کے مشورے سے احمد فرازؔ کے تخلص سے اردو شاعری کی دنیا میں دہائیوں تک راج کرنے والے فراز صاحب سے کون صاحب ذوق آشنا نہ ہو گا! جن کے قلم سے نکلنے والا ہر شعر آج بھی ادبی افق پر پوری رعنائیوں کے ساتھ ان کے نام کو جگمگا رہا ہے ۔ ان کے فن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کے یادوں سے بھرپور روزنامہ ایکسپریس کے ادارتی صفحے پر شایع ہونیوالے ایک کالم میں ایم اسلم کھوکھر نے لکھا کہ فراز ؔصاحب نے اپنی شاعری کی شروعات اس خوب صورت مطلع سے کی:

؎رک جائیے کہ رات بڑی مختصر سی ہے

سن جائیے کہ بات بڑی مختصر سی ہے

حبیب جالبؔ:انقلاب پسند عوامی شاعر حبیب جالبؔ اپنی آپ بیتی ’’جالب بیتی‘‘ میں لکھتے ہیں،’’میں ساتویں جماعت میں دِلّی کے ایک اسکول میں زیرتعلیم تھا۔ جب ساتویں جماعت کے سالانہ امتحانات آئے تو اردو کے پرچے میں الفاظ کے جملے بنانے والے سوال میں ایک لفظ دیا گیا ’’وقتِ سحر‘‘ اور اسے جملے میں استعمال کرنے کا کہا گیا۔ جملہ تو مجھ سے نہ بن سکا مگر ایک شعر ہوگیا:

؎وعدہ کیا تھا آئیں گے امشب ضرور وہ

وعدہ شکن کو دیکھتے ’وقت سحر‘ ہوا

اسی شعر نے مجھے سخن ور ہونے کا احساس دلایا اور پھر شعروشاعری کا یہ سلسلہ باقاعدہ چل نکلا۔‘‘

جونؔ ایلیا: سادہ مگر تراشی اور چمکائی ہوئی زبان میں زندگی کے گنجلک فلسفوں کو نہایت آسانی سے باتوں ہی باتوں میں بیان کرنے والے منفرد لب و لہجے کے حامل، چھوٹی بحر کے بڑے شاعر سید حسین اصغر المعروف جونؔ ایلیا سے کون واقف نہیں! عصرحاضر کے نوجوان شعراء شعوری یا لاشعوری طور پر جون ؔایلیا کے طرزسخن سے کہیں جزوی اور کہیں مکمل متاثر نطر آتے ہیں اور یہی ایک باکمال شاعر کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ اپنے عہد کے بعد آنے والے دور میں بھی زندہ و جاوید رہتا ہے۔ جون ؔصاحب کے چاہنے والوں کے لیے یہ بات دل چسپی کی حامل ہوگی کہ ا پنی شعر گوئی کی ابتدا سے متعلق جون صاحب اپنے شعری مجموعہ ’’شاید‘‘ کے دیباچے بعنوان ’’نیازمندانہ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’میں نے آٹھ سال کی عمر میں ہی اپنی زندگی کا یہ پہلا شعر کہا:

؎چاہ میں اسکی طمانچے کھائے ہیں

دیکھ لو سرخی میرے رخسار کی

شکیلؔ بدایونی:ہندوستان کی فلمی صنعت میں سو سے زائد اردو فلموں کے کام یاب اور معروف گیت نگار اور مقبول عام شاعر شکیلؔ بدایونی اپنی آپ بیتی ’’میری زندگی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں جب سن شعور کو پہنچا اور پہلے پہل غزل گوئی شروع کی تو باقاعدہ کوئی ایک مکمل غزل ترتیب تو نہ دے سکا پھر بھی دو اشعار موزوں کرنے میں کام یابی حاصل ہوئی:

؎کہاں سے لاؤں زباں عرض مدعا کے لیے

ذرا تو مان لو کہنا مرا خدا کے لیے

؎بُھلا دو دل سے شکیلؔ اب جوابِ خط کا خیال

امید ِ واپسیٔ نامہ بر نہیں ہوتی

حفیظ ؔہوشیار پوری:

؎محبت کرنی والے کم نہ ہوں گے

تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

اس زبان زدعام شعر کے خالق اور اردو ادب میں اپنی تاریخ گوئی کے حوالے سے ناسخ ؔثانی کہلائے جانے والے، ترقی پسند اردو غزل کے خوب صورت شاعر حفیظؔ ہوشیار پوری کی شخصیت و فن پر تحریر شدہ کتاب میں ان کی شاعرانہ ا زندگی کی ابتدا سے متعلق ڈاکٹر قرۃ العین طاہرہ لکھتی ہیں،’’حفیظ ہوشیارپوری نے ۱۰ یا ۱۱ برس سے ہی فارسی کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی شعر کہنا شروع کیا۔ وہ اسلامیہ ہائی اسکول ہوشیارپور میں جماعت دہم کے طالب علم تھے جب انہوں نے اپنا پہلا اردو شعر کہا:

؎پھر نہ دینا مجھے الزامِ محبت دیکھو

تم چلے جاؤ تمھیں دیکھ کے پیار آتا ہے

ناصرؔ کاظمی:جدید اردو غزل کی توانا آواز اور میرؔ ثانی کہلائے جانے والے ناصرؔ کاظمی کی داستان حیات اور ان کے کلام کے فنی و فکری تجزیات پر مشتمل ناہید قاسمی کی کتاب میں ناصر کاظمی اپنے تخلیقی عمل کی ابتدا کے بارے بتاتے ہیں،’’ہمارے گھر کی فضا شعر و ادب سے معمور تھی۔ گھر میں میرانیسؔ، سعدی ؔاور فردوسی ؔپڑھے اور پڑھائے جاتے تھے، سو خودبخود طبیعت شاعری کے لیے موزوں ہونے لگی تھی۔ اور میری یادداشت اگر میرا ساتھ دے تو درج ذیل شعر میرا پہلا شعری تجربہ تھا:

؎قبول ہے جنہیں غم بھی تری خوشی کے لیے

وہ جی رہے ہیں حقیقت میں زندگی کے لیے

شوکت ؔ تھانوی:مشہور مزاح نگار اور شاعر شوکت ؔ تھانوی اپنی آپ بیتی یادوں کا ’’شیش محل‘‘ میں رقم طراز ہیں،’’میرے اسکول کے دنوں میں میرے استاد ماسٹر بخشش احمد کو جب میرے شعر گوئی کے ذوق کی خبر ملی تو انہوں نے میری شعری صلاحیتوں کا امتحان لینے کے لیے مجھے ایک مصرعہ دیا اور اس پر گرہ لگانے کا کہا:

؎سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور ظہور ہوا

شوکت ؔنے اس پر دوسرا مصرع لگا کر مطلع مکمل کیا:

؎سب چاند ستارے ماند ہوئے خورشید کا نور ظہور ہوا

غم ناک سیاہی رات کی تھی اب اس کا اندھیرا دور ہوا

راحتؔ اندوری:اپنے منفرد کلام اور طرزادائی سے مشہور ہونے والے شیخ راحت اللہ قریشی المعروف راحت اندوری کی حیات اور شاعری پہ ہری پرکاش سریواستو کی جانب سے پی ایچ ڈی سطح پہ تحریر کیے جانے والے ایک مقالے میں راحت ؔاندوری اپنے ابتدائی کلام کے حوالے سے مقالہ نگار کو بتاتے ہیں کہ ’’میں تیرہ یا چودہ برس کی عمر میں اپنے شہر کی بزم ادب لائبریری  میں منعقدہ ایک شعری نشست میں بطور سامع شریک تھا۔ دوران مشاعرہ ایک صاحب جو میرے آشنا تھے اور جانتے تھے کہ میں شعر کہتا ہوں، انہوں نے مجھے بھی شعرگوئی کی دعوت دی، وہاں میں نے اپنی کہی گئی پہلی غزل پڑھی جس کا مطلع میری شعری زندگی کا پہلا شعر بھی ہے، جو کچھ اس طرح ہے:

؎مقابل آئینہ اور تیری گلکاریاں جیسے

سپاہی کر رہا ہو جنگ کی تیاریاں جیسے

جمیل الدین عالیؔ:اکادمی ادبیات کی سرپرستی میں پاکستانی ادب کے معمار سیریز کے تحت جمیل الدین عالی کی شخصیت و فن پر بیگم رعنا اقبال کی تحریر شدہ کتاب میں اپنی شاعری کی ابتدا سے متعلق عالیؔ صاحب بتاتے ہیں،’’میں نے تقریباً چودہ برس کی عمر میں کوچۂ سخنوری میں قدم رکھا، جس کے بار ے میں جب میرے بڑے بھائی کو پتہ چلا تو یہ طے ہوا کہ اگر شاعر بننا ہی ہے تو کیوں نہ باقاعدہ کسی استاد کی شاگردی اختیار کی جائے جس کے لیے داغ ؔکے داماد اور شاگرد نواب سائل ؔدہلوی کا نام منتخب کیا گیا۔ جب نواب سائلؔ کے روبرو حاضر ہوئے اور عرض مدعا کیا تو نواب صاحب آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے عالی کے طرف متوجہ ہوئے اور کہا ’’ہاں صاحبزادے کچھ ارشاد ہو؟؟‘‘ جس پر عالی جی نے اپنا پہلا شعر بصورت مطلع پیش کیا:

؎تری دوری کے سبب دل بھی خفا ہوتا ہے

مدتوں کا میرا ساتھی یہ جدا ہوتا ہے

اس پر نواب صاحب نے اصلاحی انداز میں فرمایا،’’عزیزم !! میں زبان پہلے دیکھتا ہوں خیال بعد میں، تم اسے یوں کردو:

؎تری دوری کے سبب دل بھی خفا ہوتا ہے

جو کلیجے کا تھا ساتھی وہ جدا ہوتا ہے‘‘

رفعتؔ سروش:آل انڈیا ریڈیو کی نشریات میں پہلی مرتبہ منظوم اردو ڈرامے متعارف کروانے والے شاعر، محقق، تنقید نگار اور نثرنگار رفعتؔ سروش جو کہ پڑوسی ملک ہندوستان کے جانے پہچانے قلم کار گزرے ہیں، انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے بچپن کا عرصہ زیادہ تر میرٹھ میں گزرا، جہاں بارہ سال کی عمر میں وہ پہلی دفعہ شعرگوئی کے لطیف تجربے سے آشنا ہوئے اور درج ذیل پہلا شعر کہا:

؎اگر گُل دکھاتا ہے آثار نکہت

تو کرتا ہے گل چیں تشدد نمائی

جب کہ اپنی یادداشتوں پر مبنی کتاب ’’نقوش رفتہ‘‘ میں لکھتے ہیں،’’میں ایم بی انگلش اسکول دہلی میں زیرتعلیم تھا کہ پتا چلا کہ ظہیرعالم کے دیوان خانے میں میں مشاعرہ ہونے والا ہے، مصرع طرح تھا:

؎تہہ و بالا کیے کیا کیا زمین و آسماں میں نے

میں نے بھی اس طرح پر اپنی پہلی غزل لکھی جس کا مطلع تھا:

؎نہ دیکھا آج تک دنیا میںکوئی شادماں میں نے

جہاں پہنچا وہیں پایا نیا اک آسماں میں نے

زبان حال سے یہ کہہ رہا ہے برگ افتادہ   بڑھائی تھی کسی دن زیب صحن گلستاں میں نے

ضیاء ؔالحق قاسمی: معروف اردو مزاح نگار عطا الحق قاسمی کے بڑے بھائی اور مشہور مزاح گو شاعر ضیاء ؔالحق قاسمی اپنی پہلی شعری واردات کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اپنے نثری مجموعے بعنوان ’’مجھے یاد آیا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ساون کے موسم میں پوری رات زورشور سے موسلا دھار بارش جاری رہی جو صبح جا کر تھمی۔ برسات کی اس رات میں میں نے اپنی زندگی کا پہلا قطعہ کہا جو شعری تخلیق کا میرا پہلا تجربہ تھا:

؎جس دن سے میری ان سے ملاقات ہوئی ہے

اس یاد کی پہلی ہی یہ برسات ہوئی ہے

تاصبح شب وصل رہے گی یہی رم جھم

موسم کے فرشتوں سے میری بات ہوئی ہے

زبیرؔ رضوی:ہندوستان سے تعلق رکھنے والے آل انڈیا ریڈیو کے معروف براڈکاسٹر، نثرنگار، نظم گو شاعر اور ادیب زبیرؔ رضوی اپنی آپ بیتی ’’گردش پا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں نے پہلی بار جب شاعری شروع کی تو میرا رجحان آزاد نظم کی بجائے پابند شاعری کی جانب زیادہ تھا۔ اسی دور کی ابتدائی شاعری میں میں نے پہلے دو اشعار لکھے:

؎شب وصال کے جب ان سے تذکرے آئے

تو دور جا کے نگاہوں سے میری شرمائے

گلوں کو چومنا چاہوں تو ٹوک دیتے ہیں

بہت عزیز ہیں کانٹوں کو اپنے ہمسائے

عمران احسنؔ: ادبی خانوادے سے تعلق ہونے کی حیثیت سے راقم الحروف بھی عمران احسن ؔکے تخلص سے شعروشاعری سے شغل رکھتا ہے۔ ہماری شعر گوئی کی ابتدا بھی دل چسپی سے خالی نہیں۔ ان دنوں ہم کالج میں زیرتعلیم تھے اور خوشونت سنگھ کے ناول ’’دِلّی‘‘ پڑھنے کے بعد خواجہ حسن نظامی کی کتاب ’’بیگمات کے آنسو ‘‘ زیرمطالعہ تھی۔ دِلّی کے بار بار اجڑنے اور پھر بسنے کے حالات نے طبیعت پر ایسا اثر کیا کہ بے ساختہ دو مصرعے ترتیب دیے جو کہ ہماری سخن وری کا پیش خیمہ ثابت ہوئے:

؎ دلی نہیں کہ پھر سے یہ بس جائے گی حضور

دل کو اجاڑئیے گا ذرا دیکھ بھال کے

The post جب میں نے لکھنا سیکھا تھا appeared first on ایکسپریس اردو.

ہیریسن فورڈ…جہد ِ مسلسل کی علامت

$
0
0

شوبز ایک سمندر ہے، جہاں بسنے والی ’مخلوق ‘کو موجوں سے لطف اندوز ہونے کے لئے جہدِ مسلسل اور محنت شائقہ کا سامنا رہتا ہے۔

اس دنیا کی رعنائیوں کو دیکھتے ہوئے اس کا اندازہ کرنا اگرچہ بہت مشکل ہے، لیکن چند نامور اداکاروں کی زندگی کا جائزہ لینے سے ہم کسی حد تک اس حقیقت سے روشناس ہو سکتے ہیں کہ اپنی بقاء کے لئے انہوں نے کتنی بھاری قیمت چکائی۔ کسی نے ہوٹلوں کے گندے برتن صاف کئے، چوکیداری کی تو کبھی چپڑاسی تک بننا گوارا کیا، لیکن ان کے عزمِ مصمم کو یہ رکاوٹیں توڑ نہ سکیں۔

ایسے ہی اداکاروں میں ہالی وڈ سٹار ہیریسن فورڈ ہیں، جن پر ایک بار وہ وقت بھی آیا، جب مسلسل ناکامیوں کے باعث انہیں اور ان کے اہل خانہ کو پیٹ پالنے کے لالے پڑ گئے، جس کے سبب انہیں بڑھئی تک بننا پڑا لیکن اداکاری کے لئے ان کا جنون کم نہ ہوا اور پھر ان کی زندگی میں یہ گھڑی بھی آئی کہ جب ان کی فلموں کی کمائی 9 ارب ڈالر کی حد عبور کر گئی۔

ہیریسن فورڈ 13 جولائی 1942ء کو امریکی ریاست الینوائے کے شہر شکاگو میں پیدا ہوئے۔ ان کی والدہ ڈوروتھی اور والد جان ویلیئم کرسٹوفر فورڈ اداکار تھے۔

جان ویلیئم کرسٹوفر فورڈ کے آباؤ اجداد کا تعلق کیتھولک جرمن سے تھا جبکہ ڈوروتھی مذہبی اعتبار سے یہودی اور تعلق منسک (بیلاروس) سے تھا۔ ایک انٹرویو کے دوران جب ہیریسن فورڈ سے پوچھا گیا کہ ان کی پرورش کس مذہب کی تعلیمات کے مطابق ہوئی تو وہ مسکراتے ہوئے جواب دیتے کہ ’’ڈیموکریٹ‘‘، تاہم سنجیدگی میں ان کا کہنا تھا کہ ان کی پرورش لبرل خطوط پر ہوئی ہے۔

یہودی اور کیتھولک نسب کے اثرات کے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ایک انسان کے طور پر کیتھولک جبکہ اداکار کے طور پر خود کو یہودی محسوس کرتا ہوں۔ فورڈ ایک بوائے اسکاؤٹ تھے۔

جنہوں نے نوعمری کے دنوں میں لائف اسکاؤٹ کا دوسرا اعلیٰ ترین اعزاز حاصل کیا۔ انہوں نے نیپووان ایڈونچر بیس اسکاؤٹ کیمپ میں رینگنے والے جانوروں کے مشیر کے طور پرکام کیا۔ اور یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اور ہدایت کار اسٹیون اسپیلبرگ نے بعدازاں نوجوان انڈیانا جونز کو انڈیانا جونز اینڈ دی لاسٹ کروسیڈ (1989ئ) میں لائف اسکاؤٹ کے طور پر پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔ فورڈ نے 1960ء میں پارک رج، الینوائے کے مین ایسٹ ہائی اسکول سے گریجویشن کیا۔

ان کی آواز ہائی اسکول کے نئے ریڈیو اسٹیشن پر نشر ہونے والی پہلی طالب علم کی آواز تھی اور یہیں پر انہیں پہلے اسپورٹس کاسٹر بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ مستقبل کے فلمی ستارے نے بعدازاں وسکونسن کے رپن کالج میں تعلیم حاصل کی۔

فورڈ بچپن میں بہت شرمیلے تھے، جس کی وجہ سے انہیں متعدد مقامات پر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا، لہذا اس خامی پر قابو پانے کے لئے انہوں نے رپن کالج کے دوسرے سال ڈرامہ کلاسز لینا شروع کر دیں، جس سے نہ صرف انہیں اپنی خامی پر قابو پانے کا موقع ملا بلکہ ان کا اداکاری کی طرف رجحان بھی بڑھ گیا۔

1964ء میں ہالی وڈ سٹار ملازمت کی تلاش میں لاس اینجلس پہنچ گئے، جہاں انہوں نے ریڈیو میں وائس اوور کے لئے آڈیشن دیا لیکن انہیں ملازمت نہ مل سکی تاہم انہوں نے کیلی فورنیا میں قیام کرنے کا فیصلہ کیا اور آخرکار پروڈکشن کمپنی کولمبیا پکچرز کے نئے ٹیلنت ہنٹ پروگرام کا حصہ بن گئے، جہاں انہیں ایک ہفتے کے 150 ڈالر دیئے جاتے اور وہ کولمبیا پکچرز کے بینر تلے بننے والی مختلف فلموں میں چھوٹے موٹے کردار ادا کرنے لگے۔

ان کی پہلی فلم، جس میں انہیں ایک بے نامی کردار ملا وہ Dead Heat on a Merry-Go-Round (1966) تھی، جو 1966ء میں ریلیز ہوئی، 104 منٹس پر طویل اس فلم کا بجٹ 1.7 ملین ڈالر تھا تاہم اسے کسی حد تک اچھی پذیرائی حاصل ہوئی۔

ان کی دوسری فلم Luv تھی، جو 1967ء میں ریلیز ہوئی، اس فلم میں بھی ان کا کردار اگرچہ بے نامی ہی تھا تاہم انہیں بولنے کے لئے سکرپٹ بھی دیا گیا، جس سے ان کا حوصلہ بڑھا، یوں عامیانہ سے کرداروں کے ساتھ فورڈ کی زندگی چلتی رہی۔ 60ء کی دہائی کے اواخر میں ہیریسن نے یونیورسل اسٹوڈیوز کے لئے کام کرنا شروع کر دیا، جن کے ساتھ انہوں نے متعدد ٹیلی ویژن ڈراموں میں کام کیا۔

ایک بار 1969ء میں فرانسیسی فلم ساز جیک ڈیمی نے فلم Model Shop کے مرکزی کردار کے لئے فورڈ کو منتخب کیا لیکن کولمبیا پیکچرز نے یہ کہتے ہوئے اس خیال کا مسترد کر دیا کہ ’’فورڈ کا فلمی دنیا میں کوئی مستقبل نہیں‘‘ یوں وہ اپنے پہلے مرکزی کردار سے محروم رہ گئے۔

شوبز کی دنیا سے مایوسی کا شکار ہونے کے بعد ایک بار تو فورڈ نے اپنی بیوی اور دو بچوں کی کفالت کے لئے بڑھئی کا پیشہ بھی اختیار کر لیا، اس دوران ان کی ملاقات معروف مصنف جون ڈیڈن اور جان گیریگوری سے ہوئی اور انہیں کی مدد سے وہ ایک ڈاکیومنٹری میں شامل ہو گئے۔

ڈائریکٹر فرانسس نے فورڈ کو اپنی اگلی دو فلموں The Conversation اور Apocalypse Now میں کاسٹ کر لیا۔ پھر 70ء کی دہائی کے آخر میں اداکار کی لگن، عزم اور محنت پر قدرت کو شائد ترس آ گیا اور انہیں Heroes، Force 10 from Navarone اور Hanover Streetجیسی فلموں میں بڑے کردار ملنے لگے۔

تاہم ان کی قسمت کا ستارہ چمکنے کی امید اس وقت پیدا ہوئی جب ان کے کام کو دیکھ کر معروف ڈائریکٹر گریفٹی نے انہیں مشہور زمانہ فلم Star Wars کے آڈیشن کے لئے بلایا اور وہ کامیاب ٹھہرے۔ اس فلم کا بجٹ صرف 11 ملین ڈالر تھا تاہم باکس آفس پر کمائی 776 ملین ڈالر رہی، جو ایک اعتبار سے کامیابی کی بڑی دلیل ہے۔

پھر 1981ء میں رائزینگ سٹار کی قسمت کا ستارہ اس وقت اپنی پوری آب و تاب سے چمکنے لگا جب انہیں Raiders of the Lost Ark کے نام سے ریلیز ہونے والی فلم میں ہیرو کا کردار ملا۔ اس فلم میں فورڈ کو انڈیانا جونز کا مشہور زمانہ کردار ادا کرنا تھا، جو انہوں نے بخوبی نبھایا۔ اس فلم کا بجٹ بھی صرف 20ملین ڈالر تھا لیکن کمائی تقریباً 400 ملین ڈالر رہی۔

اس کے بعد ہالی وڈ سٹار نے کامیابیوں کی سیڑھی پر ایسا قدم رکھا کہ پھر مڑ کر نہیں دیکھا۔ اداکار نے Blade Runner، Indiana Jones and the Temple of Doom، Witness، Indiana Jones and the Last Crusade، Air Force One، Indiana Jones and the Kingdom of the Crystal Skull، The Expendables 3 اور Star Wars: The Rise of Skywalker جیسی مقبول فلموں میں کام کرکے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا اور یہ سلسلہ 80 برس کی عمر کو پہنچتے ہوئے تاحال جاری ہے۔

ہالی وڈ کے روشن ستارے کی مزید تین فلمیں رواں اور اگلے برس آنے کے لئے تیاری کے آخری مراحل میں ہیں۔ شوبز کے طویل کیرئیر کے دوران انہوں نے ٹیلی ویژن پر بھی اپنی اداکاری کا جادو جگایا۔

ہیریسن فورڈ کے پانچ بچے ہیں، جن میں چار ان کے اپنے جبکہ ایک لے پالک ہے، ان کی پہلی شادی رپن کالج کی فیلو میری سے 1964ء میں ہوئی، جس میں سے ان کے دوبچے ہیں تاہم 1979ء میں اس جوڑے میں طلاق ہو گئی۔ فورڈ نے دوسری شادی فلم نویس میلیسا سے 1983ء میں کی اور اس میں سے بھی دو بچے پیدا ہوئے تاہم 2004ء میں یہ تعلق بھی ٹوٹ گیا۔ انہوں نے آخری شادی 2010ء میں اداکارہ کیلسٹا فلوک سے کی، جو تاحال قائم ہے۔

امریکی اداکار ایک سوشل ورکر بھی ہیں، جنہوں نے ماحولیات کے حوالے سے کافی کام کیا اور اسی نسبت سے انہوں نے موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن کی حمایت بھی کی کہ وہ ماحولیات کے حوالے سے کام کرتے ہیں جبکہ ٹرمپ نے بقول ان کے امریکی ساخت کو دنیا بھر میں نقصان پہنچایا۔ وہ ایک لائسنس یافتہ پائلٹ بھی ہیں، جنہیں کئی بار ہنگامی بنیادوں پر اپنی خدمات پیش کرنے کے مواقع ملے۔

6 دہائیوں پر مشتمل طویل کیرئیر اور اعزازات
امریکی اداکار ہیریسن فورڈ تقریباً 6 دہائیوں سے شوبز کی دنیا سے وابستہ ہیں، جہاں انہوں نے متنوع کرداروں کے ذریعے اپنے کیرئیر کو شاندار بنایا۔ ہالی وڈ سٹار نے 1966ء میں فلم Dead Heat ona Merry-Go-Round سے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز کیا۔

جس میں انہیں ایک بے نامی کردار ملا، پھر آئندہ 10برس تک ان کو کسی بھی فلم یا ڈرامہ میں کوئی بڑا کردار نہ مل سکا، لیکن پھر 1977ء میں جارج لوکاس کی ہدایت کاری میں معروف زمانہ فلم Star Wars ریلیز ہوئی، جس نے ہر جگہ دھوم مچا دی، اس فلم میں مرکزی کردار ہیریسن فورڈ کو دیا گیا۔

جنہوں نے اسے چار چاند لگا دیئے، یوں کامیابیوں کا ایک ناختم ہونے والاسلسہ شروع ہوا۔ فورڈ نے AIR FORCE ONE، REGARDING HENRY، WHAT LIES BENEATH، THE JACK RYAN series، 42، THE FUGITIVE، WITNESS، THE EXPANDABLES 3، PARANOIA اور THE CALL of the WILD سمیت 57 فلموں میں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھلائے۔ امریکی اداکار نے 12 ڈاکیومنٹریز اور 18 ڈراموں میں بھی شائقین کے دلوں کو لبھایا۔

طویل کیرئیر کے دوران جہاں ہیریسن کو خوب محنت کرنا پڑی، وہاں وقت کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف اعزازات کی صورت میں اس کا پھل بھی ملتا رہا۔ 2001ء میں ہیریسن کا نام ایک متمول حیات اداکار کے طور پر گنیز بک آف ریکارڈز میں درج کیا گیا۔

1988ء میں انہیں پیپلز میگزین نے دنیا کا پرکشش ترین انسان قرار دیا، 1997ء میں انہیں “The Top 100 Movie Stars of All Time” کی فہرست میں اول نمبر پر براجمان کیا گیا۔ 1986ء میں انہیں فلم Witness میں بہترین اداکاری پر آسکر کے لئے نامزد کیا گیا اور بعدازاں اسی فلم کے لئے انہیں بافٹا اور گولڈن گلوب کا حق دار سمجھا گیا۔

2000ء میں انہیں امریکی فلم انسٹی ٹیوٹ سے لائف اچیومنٹ ایوارڈ حاصل ہوا، 2002ء میں، انہیں 59ویں گولڈن گلوب ایوارڈز کی تقریب میں ہالی وڈ فارن پریس ایسوسی ایشن کی جانب سے کیریئر کا ایک اور اعزاز ملا، 30 مئی 2003ء کو، فورڈ کو ہالی وڈ واک آف فیم میں شامل کیا گیا۔ 2007ء کے اسکریم ایوارڈز میں اداکار کو متعدد مشہور کرداروں کے لیے پہلا ہیرو ایوارڈ پیش کیا گیا، جن میں انڈیانا جونز اور ہان سولو شامل ہیں۔

ہیریسن کو2013ء میں زیورخ فلم فیسٹیول میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کے علاوہ فورڈ کو شوبز کی دنیا کے دیگر مختلف اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے، ہالی وڈ کے سپر سٹار کو مختلف اداروںکی طرف سے لیجنڈ بھی قرار دیا جاتا ہے۔

The post ہیریسن فورڈ…جہد ِ مسلسل کی علامت appeared first on ایکسپریس اردو.

حُسن اور حیرت کا میلہ

$
0
0

واہ کینٹ:  قطر میں ہونے والے فیفا عالمی کپ نے دنیا بھر میں قطر اور بالخصوص مسلم اور عرب ملک میں فٹبال کے چاہنے والوں کی خوشیوں کو دوبالا کر دیا۔

اندازوں اور امیدوں سے بھرپور اس عالمی کھیلوں کے میلے میں بھی کئی یادگار لمحات تاریخ کا حصہ بنے جو برسوں یاد رکھے جائیں گے۔ قارئین کے لیے اس ایونٹ کے کچھ دل چسپ واقعات، حقائق اور یادوں کا ذکر پیش ہے۔

الرحیلہ فٹ بال

فیفا ورلڈکپ کے آخری مرحلے کے میچز میں الحلم نامی فٹ بال استعمال کیا گیا جس کا مطلب ’خواب‘ ہے۔ سیمی فائنل سے پہلے کے میچز میں الرحیلہ نامی فٹ بال استعمال کیا تھا جس کا مطلب ’سفر‘ تھا۔ الحلم فٹ بال سے سیمی فائنلز، تیسری اور چوتھی پوزیشن کے میچز کے ساتھ ساتھ فائنل میچز تک پہنچنے کے لیے کھیلا گیا۔

یہ نئی گیند بھی الرحیلہ کی طرح ماحول دوست اور جدید ٹیکنالوجی اور سینسرز سے لیس تھی، جس سے ویڈیو ریفریز کو آف سائیڈز کے تعین، ٹریکنگ اور تیزی سے فیصلہ کرنے میں مدد ملی۔ اس سنہرے رنگ کے فٹ بال سے میزبان ملک قطر کے صحرائی حصے اور فیفا ورلڈ کپ ٹرافی کی نمائندگی کا کام لیا گیا۔

TRT براڈ کاسٹنگ سروس کا اہم کردار

جمہوریہ ترکیہ کی قومی براڈ کاسٹنگ سروس TRT ورلڈ نے قطر میں فیفا ورلڈ کپ میں مراکش کی سیمی فائنل تک رسائی میں اہم کردار ادا کرنے والے کھلاڑیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تصویر در تصویر پر مشتمل ویڈیو جاری کی۔

ان تصاویر میں مراکشی کھلاڑیوں کے جشن کے انداز اور بالخصوص مذہبی شعار کے اظہار اور اپنی ماؤں کے ساتھ محبت کے مظاہرے کو نمایاں کر کے دکھایا۔

 BBC ورلڈ پر شائقین کی جانب سے تنقید

فیفا عالمی کپ 2022 کی ابتدائی تقریب کو براہ راست نشر نہ کرنے پر شائقین کی جانب سے برطانوی نشریاتی ادارے BBC کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

غیرملکی خبر رساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق برطانوی نشریاتی ادارے BBC نے تقریب کو  “ریڈ بٹن” سروس اور آن لائن پر بھیج دیا۔ تاہم ٹی وی پر براہ راست نشر نہ کرنے پر قطر پر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔

خوشی کے آنسو

مراکش کی فٹ بال ٹیم نے قطر میں فیفا ورلڈ کپ میں تاریخ رقم کی ہے۔ ماضی میں تین بار افریقی ٹیمیں ٹورنامنٹ کے کوارٹر فائنل تک پہنچیں مگر آگے نہ جا سکیں۔ لیکن اس بار کچھ مختلف تھا۔

مراکش کی ٹیم نے یقیناً اس ورلڈ کپ کو دل چسپ سے دل چسپ ترین بنا دیا اور سیمی فائنل پر پہنچ کر پورے براعظم کے شائقین کو اچھے کھیل کا تحفہ دیا۔ یوسف النصیری کی حیرت انگیز چھلانگ اور غیرمعمولی بیڈر نے پہلے ہاف میںہی اسکور ایک صفر کردیا تھا، جس کے بعد مراکش کی ٹیم کو صرف دفاعی کھیل پیش کرنا تھا۔ انہوں نے ایسا ہی کرتے ہوئے کرسٹیانو رونالڈو اور پرتگال کی ٹیم کو گھر بھیج دیا۔

کھلاڑیوں کا سجدہ کرنا اور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا

کیمرون نے 1990، سینیگال نے 2002 اور گھانا نے 2010 میں کوارٹر فائنلز میں مواقع گنوا دیے تھے مگر مراکش نے قطر میں حالیہ عالمی کپ میں اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا۔ میچ کے آغاز سے وہ پرتگالی کھلاڑیوں سے ٹکر کا مقابلہ کرتے نظر آئے۔

اسٹیڈیم میں بیٹھے شائقین نے ان کا بہت ساتھ دیا۔ شائقین کی طرف سے سیر سیر (چلو، چلو) اور دیما مغرب (مراکش کو دوام) کے نعرے لگا رہے تھے۔ مراکش کے کوچ رکراکی جنہیں شائقین کی جانب سے بہت سراہا گیا، کھلاڑیوں نے فتح کے بعد انہیں فضاء میں اچھالا اور شائقین کی طرف رخ اورہاتھ بلند کر کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا۔

 غیرمسلم خواتین اسلامی رنگ میں

فٹبال ورلڈکپ کے دوران سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ خواتین شائقین نے اپنی زندگی میںپہلی بار حجاب پہننے کی کوشش کی۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق فیفا ورلڈ کپ 2022 کے دوران بعض مسلم خواتین نے غیرمسلم خواتین کو حجاب متعارف کروانے کی مہم شروع کی جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔

مسلم خواتین نے پہلے غیرمسلم خواتین کو حجاب پہنایا پھر آئینہ دکھایا جس کے بعد غیرمسلم خواتین نے بتایا کہ انہوں نے حجاب پہن کر اچھا محسوس کیا۔

رونالڈو کا سوشل میڈیا پر جذباتی پیغام

اس ورلڈکپ میں اپنی بہترین کارکردگی پر ایک طرف مراکش کے کھلاڑی اور کوچ خوشی کے آنسو بہا رہے تھے تو رونالڈو اپنا ورلڈ کپ کا خواب ٹوٹنے پر سیٹی بجتے ہی میدان سے باہر جاتے ہوئے واضح طور پر غم سے نڈھال اور آبدیدہ نظر آئے۔ ’’بدقسمتی سے میرا خواب ختم ہوگیا۔‘‘ رونالڈو نے یہ سوشل میڈیا پر اپنا یہ جذباتی پیغام نشر کیا۔

فلسطین کے شائقین کا اظہارخیال

فلسطینی شائقین نے فٹبال ورلڈ کپ کے دوران فلسطین کا مسئلہ اجاگر کرنے کے حوالے سے کہا کہ فیفا ورلڈکپ نے ظاہر کر دیا کہ ہماری جدوجہد ختم نہیں ہوئی۔

فیفا عالمی کپ 2022 کا سرکاری گیت

فیفا ورلڈ کپ 2022 کا ساؤنڈ ٹریک ـ’’Light The Sky‘‘ ریلیز ہوا۔ اس ٹریک خاص بات یہ ہے کہ اسے چار خواتین نے مل کر گایا ہے۔ گانے کی ویڈیو میں نورا فتیحی سمیت چار خواتین شامل ہیں۔

مغربی ممالک ’’منافق‘‘

فیفا کے صدر گیانی انفیٹینو کے خلیجی ممالک کے عالمی کپ 2022 کی میزبانی پر تنقید کر نے والے مغربی ممالک کو ’’منافق ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یورپ کو تنقید بند کر کے اپنے تارکین وطن کے حالات بہتر بنانے کی طرف توجہ دینی چاہئے۔

ہم یورپی جو پچھلے تین ہزار سالوں سے کر رہے ہیں، ہمیں اخلاقی سبق دینے سے پہلے اپنے کیے کی معافی مانگنی چاہیے۔

 ’Gio Cinema ‘ پر 110ملین سے زیادہ فٹبال شائقین کا عالمی ریکارڈ

بھارت سے تعلق رکھنے والے Gio Cinema پر 110 ملین سے زیادہ فٹبال شائقین نے فیفا کے میچز دیکھے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ فیفا ورلڈ کپ 2022 کو Gio Cinema ویاکم 18 ایپ پر مفت براہ راست نشر کیا گیا۔

فیفا عالمی کپ اسرائیل سے قطر کے لیے پروازیں

قطر اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں مگر فٹبال عالمی کپ کے لیے دونوں ممالک نے خصوصی معاہدہ کیا جس کا اعلان عالمی کپ سے پہلے فیفا نے کیا تھا۔ اور اس کے تحت اسرائیل سے قطر کے لیے براہ راست پروازوں کا آغاز کیا گیا تھا۔

خبر کے مطابق اسرائیل اور قطر معاہدے کے تحت فلسطینی شہریوں کو بھی تل ابیب سے دوحہ سفر کرنے کی اجازت تھی۔ اگرچہ قطر اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں۔ سیاسی طور پر ایران کے قریب سمجھا جانے والا قطر فلسطینی تنظیم ’حماس ‘ کی قیادت کا بھی حامی ہے۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے اسرائیلی وفد بھی بھیجا گیا اور شہریوں کو ہنگامی صورت حال میں مدد کے لیے رابطہ کارڈ بھی جاری کیے گئے تھے۔

حکام کا کہنا تھا کہ فیفا عالمی کپ کے دوران تقریباً 10,000 اسرائیلی شہریوں کی قطر میں آمد ہوئی جن میں زیادہ تر شائقین کسی تیسرے ملک سے ہوتے ہوئے قطر پہنچے۔ قطری حکومت نے واضح کیا ہے کہ فلسطین کے حوالے سے اس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

 فٹبال کا اصل مالک مصر یا پاکستان؟

عالمی کپ کی گہماگہمی کے دوران جہاں لاکھوں افراد اس کھیل کے میلے سے لطف اندوز ہو رہے تھے وہیں کھیل کے مقابلوں میں استعمال ہونے والی گیند کے بارے میں ایک نیا تنازعہ سامنے آیا۔ یہ تنازعہ فٹبال کی ملکیت کے بارے میں ہے۔

چوںکہ پاکستان اور مصر فٹبال تیار کرنے والے دنیا میں دو بڑے ممالک ہیں، اس لیے قطر کے کپ کے لیے استعمال ہونے والے فٹ بال کے بارے میں بھی متضاد دعوے کیے جا تے رہے۔ سوشل میڈیا پر جاری اس بحث میں ایک مصری اہل کار نے کہا کہ قطر میں کھیلوں میں استعمال ہونے والا فٹ بال سو فی صد مصری ساختہ ہے۔

علاوہ ازیں مصری پریزنٹیشن کمپنی کے سربراہ سیف الوزیری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر اپنے ذاتی اکاؤنٹ کے ذریعے لکھا تھا کہ ’’قطر عالمی کپ کی گیند مصر کی تیار کردہ اور سو فی صد مصری دست و ہنر کا کمال ہے۔

مجھے اس عظیم کام یابی کا ایک چھوٹا سا حصہ ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ مصر 2022 کے قطر عالمی کپ سے شروع ہونے والی ایڈیڈاز (ADIDAS) گیندوں کو پوری دنیا میں برآمد کرنے کے لیے ایک اہم منزل ہوگا۔‘‘ اس کام یابی پر فخر کا اظہار کرنے والوں اور اس پر سوال اٹھانے والوں کے درمیان سخت تنازعہ دیکھنے کو ملا۔ انٹر نٹ پر بعض صارف کو یہ دعویٰ کرتے دیکھا جا سکتا ہے 2022 کے عالمی کپ میں فٹ بال مکمل پاکستانی صنعت کی پیداوار ہے۔

پاکستان کی کئی سالوں سے فٹ بال سازی میں اجارہ داری رہی ہے۔ اس سلسلے میں مصر کی کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکڑز کے چیئرمین جاسر السیّد نے وضاحت کی کہ یہ فیکٹری قاہرہ کے مشرق الروبیکی شہر میں واقع ہے اور یہ نیشنل سروس پروجیکٹس کے ساتھ شراکت داری کے معاہدے کے تحت کام کرتی ہے۔

کمپنی ایڈیڈاس کے ساتھ مل کر فٹ بال کی تیاری کے لیے پاکستان سے ٹیکنالوجی اور مشینری اور مہارت بھی منگوائی گئی کیوںکہ پاکستان فٹ بال بنانے کے شعبے میں ایک سرخیل ملک ہے۔

 بڑے اپ سیٹس

دل چسپ مقابلوں، حیرت انگیز اور بڑے اپ سیٹس کے ساتھ فیفا عالمی کپ کا 22 واں ایڈیشن اختتام پذیر ہوا۔ عالمی کپ سے قبل ماہرین کی جانب سے مختلف ٹیموں اور نتائج سے متعلق کیے جانے والے بہت سے اندازے، پیش گوئیاں اور خیالات غلط ثابت ہوئے۔

کم زور سمجھی جانے والی ٹیموں نے بڑی ٹیموں کو آؤٹ کلاس کیا۔ ہر عالمی کپ میں کوئی ایک آدھ ہی اپ سیٹ ہوتا ہے تاہم اس ورلڈ کپ کو اپ سیٹس کا ورلڈ کپ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔

تاریخی کردار ادا کرنے والی خواتین ریفریز

جرمنی اور کوسٹاریکا کا میچ ایک تاریخی میچ تھا جس میں پہلی بار کسی میچ کو گراؤند سے خاتون ریفریز نے سپر وائز کیا۔ فرانس کی اسٹفانی فریپارٹ کو مردوں کے عالمی کپ میں پہلی خاتون ریفری بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میچ میں ان کے ساتھ لائن ویمن برازیل کی نوزا بیک اور میکسیکو کی کیرن ڈیاز میڈینا تھیں۔

فریپارٹ نے میکسیکو اور پولینڈ کے میچ میں چوتھے ریفری مقرر ہونے پر اپنا یہ ان ہونا کارنامہ انجام دیا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا’’ہم جانتی ہیں کہ ہم پر کتنا دباؤ ہے لیکن ہمیں بڑے تحمل سے کام کرنا ہے اور نظر کھیل پر ہی مرکوز رکھنی ہے اور یہ نہیں سوچنا کہ میڈیا کیا کہہ رہا ہے۔ ہمیں بس اس پر نظر رکھنی ہے کہ کھیل کے میدان میں کیا ہو رہا ہے۔‘‘

 عالمی کپ میں دنیا بھر کے لوگوں کے دل جیتنے والا میڑو مین

عالمی کپ میں ہونے والے میچز کے اختتام پر ’میڑو دس وے، میٹرو دس وے‘ کے جملے سے راہ نمائی کرنے والے میٹرومین نے قطر میں آئے شائقین سمیت سوشل میڈیا پر بھی توجہ سمیٹ لی۔ 23 سالہ میٹرو مین کا نام ابوبکر عباس ہے جس کا آبائی وطن کینیا ہے۔

اس کا کام قطر میں آئے شائقین کی سہولت کے لیے میٹرو سٹیشن کے حوالے سے راہ نمائی کرنا ہے جو اپنا فرض دل جمعی سے نبھاتے ہوئے لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا۔ اس کا ثبوت میٹرومین کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیو ہے۔

ٹینس ایمپائر کی کرسی پر بیٹھا یہ نوجوان میگافون کے ذریعے میٹرومین کے لقب سے نوازا گیا۔ لوگ میٹرو مین کے اس جملے سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ڈانس کر رہے تھے اور اسی حوالے سے مختلف ویڈیوز بھی بناتے رہے۔ دوسری جانب قطر کی انتظامیہ بھی ابوبکرعباس میٹرو مین کے کام سے متاثر ہوئی اور اسے اعزازی اسناد سے نوازا گیا۔

 شائقینِ فٹبال کی اسٹیڈیم میں آمد کا عالمی ریکارڈ

قطر میں ہونے والے عالمی کپ میں فٹبال ٹورنامنٹ کی تاریخ میں اب تک کی سب سے زیادہ حاضری ریکارڈ کی گئی۔

مجموعی طور پر ساڑھے چوبیس لاکھ تماشائی میچز دیکھنے کے لیے آئے۔ اس عالمی کپ میں اوسطاً 96 فی صد شائقین اسٹیڈیم کی کرسیوں پر موجود پائے گئے، جب کہ روس میں 2018 کے عالمی کپ کے دوران تماشائیوں کی کُل تعداد دو لاکھ ستر ہزار ریکارڈ کی گئی۔

ایک اور ریکارڈ

عالمی کپ کے اس ایڈیشن میں ایک اور دل چسپ عنصر یہ ہے کہ تمام براعظموں کی ٹیموں نے پہلی مرتبہ عالمی ٹورنامنٹ کے دوسرے مرحلے یعنی ناک آؤٹ 16 تک رسائی حاصل کی۔ ایشیا بحرالکاہل کے خطے سے تعلق رکھنے والی تین ٹیمیں آسٹریلیا، جاپان اور جنوبی کوریا پہلی مرتبہ ناک آؤٹ مرحلے میں پہنچی یہ خود ایک ریکارڈ ہے۔

جدید ٹیکنالوجی کا استعمال

عالمی کپ 2022 میں ٹیکنالوجی سے بھر پور فائدہ اٹھایا گیا۔ اسٹیڈیم میں بال ٹریک کرنے کے لیے بارہ کیمروں کے ساتھ بال میں بھی سینسر لگائے گئے۔ VAR سے کئی گول آف سائٹ قرار دے کر مسترد ہوئے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ٹیموں کو پینالٹی ککس بھی دی گئیں اور واپس بھی لی گئیں۔

 فیفا ورلڈکپ کے گیت میں اردو بول

قطر میں ہونے والے فٹبال ورلڈ کپ کے حوالے سے ہمارے لیے ایک دل چسپ امر یہ بھی ہے کہ اس کے سرکاری گیت میں انگریزی، عربی اور کے ساتھ اردو بھی شریک تھی۔ تین گلوکاراؤں کے گائے ہوئے اس نغمے میں یہ اردو بول شامل تھے:

ہمیں کرنا ہے جوہم کریں گے وہی

ہم جیسا یہاں پر کوئی بھی نہیں

چاہے ایسٹ اور ویسٹ ہم ملیں گے یہیں

The post حُسن اور حیرت کا میلہ appeared first on ایکسپریس اردو.


ڈیجیٹل جرنلزم

$
0
0

ہماری دُنیا مسلسل بدلنے والی دُنیا ہے، اس میں صرف تبدیلی ہی مستقل عمل ہے۔ بدلتے وقت اور ٹیکنالوجی کی وجہ سے زندگی کے ہر شعبے میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ صحافت بھی اس جدت اور تبدیلی سے متاثر ہوئی ہے۔

صحافت میں یہ جدت اور برق رفتاری سب سے زیادہ صحافیوں کے لیے خوش آئندہ اور چیلینج ہے کہ وہ کس طرح اپنے آپ کو اس تبدیلی سے ہم آہنگ کرواتے ہیں اور جدید میڈیم کو سیکھ کر اپنی پیشہ ورانہ مہارت میں اضافہ کرکے اپنے فرائض مزید بہتر انداز میں سرانجام دے سکتے ہیں۔

آج کے اس مضمون میںہم صحافت کے جدید ورژن یعنی ڈیجیٹل جرنلزم کی افادیت اور مستقبل پر گفتگو کریں گے۔ اس ضمن میں میں نے پاکستان کے چند نام ور صحافیوں اور ڈیجیٹل جرنلزم سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کے خیالات کو بھی شامل کیا ہے۔

میں نے ہر حال ہی میں میٹا اور Reuters کا ڈیجیٹل جرنلزم کا ایک آئن لائن کورس

Introduction to Digital Journalismمکمل کیا جو میرے خیال میں ایک شان دار کورس ہے، جس میں بے شمار ایسی معلومات اور ریسرچز شامل ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ مستقبل میں ڈیجیٹل جرنلزم اور موبائل جرنلزم کا راج ہوگا۔

اسی کورس میں ایک ریسرچ کے مطابق 2025 تک تقریباً 73% صارفین صرف موبائل فون کے ذریعے انٹرنیٹ کا استعمال کریں گے ۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 2014 سے لے کر اب تک تقریباً دو سے تین تہائی لوگوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے خبروں تک رسائی حاصل کی ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل جرنلزم بڑی تیزی رفتاری سے اپنی جگہ بنا رہا ہے۔ بڑے بڑے میڈیا ہاؤس بھرپور انداز میں ڈیجیٹل میڈیم کا استعمال کررہے ہیں۔

سنیئر صحافی مظہرعباس کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل جرنلزم یعنی سٹیزن جرنلزم کو صحافت کہنا بھی مناسب ہے یا نہیں، یہ ایک الگ بحث ہے، تاہم پاکستان میں اس کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا۔ اس ضمن میں قانون سازی کا عمل ہونا چاہیے، کیوںکہ سوشل میڈیا کی فالوونگ بہت زیادہ ہے، لیکن اس کا اعتبار بہت کم ہے۔

سنیئر صحافی قاضی خضر کا کہنا ہے کہ صحافی اور عام سوشل میڈیا صارف میں فرق ہوتا ہے کیوںکہ صحافی باقاعدہ تعلیم وتربیت حاصل کرتا ہے۔ خبر کو حقائق کے مطابق ثابت کرنا اصل مہارت ہے۔ پیشہ ورانہ صحافی عام شہری کے بجائے معلومات جمع کرے اور اُس کی باقاعدہ کسی مستند پلیٹ فارم سے تشہیر کرے۔ اسے صحافت سمجھا جاتا ہے۔

پاکستان میں ڈیجیٹل جرنلزم کی صورت حال بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ آج سوشل میڈیا پر خبر وائرل ہونے کے بعد مین اسٹریم میڈیا کا حصہ بنتی ہے۔ اکثر انٹرنیشنل میڈیا پاکستان کے متعلق خبریں سوشل میڈیا سے حاصل کرتا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا بڑی عمدگی سے سافٹ نیوز اور عوامی مسائل کو اُجاگر کررہا ہے۔ ہاں اس سلسلے میں روایتی میڈیا میں کام کرنے والی صحافیوں کی تعلیم وتربیت انتہائی ضروری ہے۔ ڈیجیٹل جرنلزم کے رولز، چیک اینڈ بیلنس کا طریقہ کار واضح کرنے پڑیں گے۔

سنیئر صحافی اور میڈیا ٹرینر عون ساہی نے کہا کہ بات دراصل بدلتے وقت اور ٹیکنالوجی کی نہیں بلکہ اس تبدیلی کو تسلیم کرنے اور اپنانے کی ہے۔

یہ ہر دور میں ہوتا رہا ہے۔ جب بھی کوئی نیا میڈیم آتا ہے، صحافی اُس سے خوف زدہ ہوتے ہیں لیکن جن لوگوں نے وقت کے ساتھ اُس تبدیلی کو قبول کیا، نئی مہارتوں اور چیزوں کو سیکھنے میں دل چسپی لی ہے وہ اس تبدیلی میں کام یاب رہے ہیں۔

عون ساہی نے مزید کہا کہ میڈیم چاہے کوئی بھی ہو صحافت کی بنیادی اقدار اور اُصول ہمیشہ وہ ہی رہے ہیں۔ اچھی اور مستند صحافت کے لیے جدید میڈیم کا استعمال ضروری ہے جس کے لیے اپنے مائنڈ سیٹ کو بدلنے کے لیے ہمیشہ تیار رکھنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوان صحافی ڈیجیٹل اور سوشل میڈیم پر زیادہ متحرک ہیں اور عوام تک جلدی پہنچ رہے ہیں۔

ریحان حیدر ایک جرنلسٹ اور میڈیا ٹرینر ہونے کے ساتھ آئی ٹی اور ٹیکنالوجی میں مہارت رکھتے ہیں اور ایک انگریزی روزنامے کے ساتھ منسلک ہیں۔ ریحان حیدر گذشتہ کئی سال سے صحافیوں اور طلبا کے لیے بلامعاوضہ ٹریننگ ورکشاپس منعقد کررہے ہیں، جن میں صحافیوں کو جدیدٹیکنالوجی سیکھنے اور صحافت میں اس کے استعمال پر زور دیا جاتا ہے۔

راقم الحروف نے ریحان حیدر کے ساتھ مل کر کئی ٹریننگز منعقد کی ہیں۔ ریحان حیدر کا کہنا ہے کہ نئی چیزوں کو سیکھنے اور تبدیلی کو تسلیم کرنے اور اپنانے کے معاملے میں صحافیوں کا ردعمل مایوس کن ہے۔

اکثر صحافی مواقع کم ہونے اور میڈیا انڈسٹری کی تنزلی کی شکایات تو کرتے ہیں مگر خود اپنے آپ کو تبدیل کرنے اور جدید علوم حاصل کرنے میں دل چسپی ظاہر نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ دُنیا بھر میں نیوزروم تبدیل ہورہے ہیں، لوگ آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ورچوئل ریئلیٹی اور مشین لرننگ کو اپنا چکے ہیں اور نیوز روبوٹکس کی طرف جارہے ہیں جب کہ ہمارے صحافی اور ادارے ان تمام چیزوں سے خوف زدہ نظر آتے ہیں اور ان کو اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔

معروف انگریزی اخبار سے وابستہ صحافی اور میڈیا ٹرینر نعیم سہوترا نے کہا کہ ڈیجیٹل میڈیا پوری دُنیا کی طرح پاکستان میں بھی روایتی میڈیا پر سبقت حاصل کر رہا ہے۔ لہٰذا، صحافیوں کے لیے موبائل فون جیسے جدید آلات سے اپنی صلاحیتوں کو نکھارنا ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔ موبائل فون آج آپ کی جیب میں دفتر کی طرح بن گیا ہے۔

اگرچہ یہ بات پریشان کن ہے کہ بی بی سی اور نیویارک ٹائمز جیسے بین الاقوامی میڈیا اداروں نے پچھلے کچھ سالوں سے اپنے عملے کی تعداد کم کی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مستقبل ڈیجیٹل جرنلزم ہی کا ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں خاص طور پر صحافت میں ٹیکنالوجی نے بہت کچھ بدل دیا ہے۔ ڈیجیٹل جرنلزم صحافیوں کا مستقبل ہے، چاہے ہم اسے قبول کریں یا نہ کریں۔

سنیئر صحافی اور میڈیا ٹرینر شیراز حسنات کا کہنا ہے۔ ڈیجیٹل جرنلزم ہی صحافت کا مستقبل ہے۔ اب ہمیں اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ہم اس مستقبل کو کیسے اور کتنے وقت میں اپنے لیے فائدہ مند بنا سکتے ہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہی ایک روایت رہی کہ جب بھی کوئی نئی چیز اور ٹیکنالوجی متعارف ہوتی ہے تو معاشرہ ابتدائی طور پر اُس پر اپنے خدشات کا اظہار کرتا ہے۔

معاشرے کا وہ حصہ بھرپور مذمت کرتا ہے جو پہلے سے موجودہ ٹیکنالوجی اور چیزوں کو استعمال کررہا ہوتا ہے۔ میڈیا میں بھی اسی طرح الیکٹرونک میڈیا کی آمد سے پرنٹ میڈیا متاثر ہوا اور اب الیکٹرونک میڈیا کی جگہ ڈیجیٹل میڈیا نے لے لی ہے۔ اس پر ابھی تک روایتی صحافی سست روی کا مظاہرہ کررہے ہیں جب کہ نوجوان نسل، کیوںکہ وہ ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال بخوبی کررہی ہے۔ اس لیے زیادہ موثر ثابت ہوتی ہے۔

اصل چیز آپ کا مواد ہے کیوںکہ Content is the king ہے اور اس کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے آپ کون سے میڈیم استعمال کررہے ہیں۔ آپ نئی اسکلز کو سیکھنے اور نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کیسا محسوس کرتے ہیں کیوںکہ ڈیجیٹل میڈیا ایک ایک ہنر ہے، جو اس نئے ہنر کو وقت پر سیکھ لیں گے وہ اپنے مستقبل کو محفوظ بنالیں گے۔

سوشل میڈیا ایکٹیوسٹ یاسر حمید کا کہنا ہے۔ خبر تو ریڈیو ٹی وی اور اخبار پر بھی مل ہی رہی تھی، مگر ڈیجیٹل جرنلزم ایک بہت بڑی تبدیلی لے کر آیا ہے، جہاں اس نے ناصرف خبر پڑھنے والے صارف کی اہمیت کو سمجھا ہے بلکہ ایک صحافی کی اہمیت کو بھی بڑھایا ہے۔

پہلے خبر اخبار، ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے کسی ایک نیوز ایجنسی سے نشر کی جاتی تھی۔ اور خبر کو پہنچانے تک ناصرف خبر کی نوعیت تبدیل ہوچکی ہوتی تھی بلکہ کئی معلومات بھی عام شہری تک پہنچ نہیں پاتی تھیں۔

صحافیوں کے لیے سب سے بڑی آسانی یہ ہو گئی ہے کہ ڈیجیٹل جرنلزم کے ذریعے وہ خود ایک ادارہ بن چکے ہیں۔ ہر عام شہری کو ڈیجیٹل پلیٹ فارم سے خبر کو دینے والے صحافی کی خبر اور اس درست معلومات کی جانچ کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے اور صحافی کسی بھی جگہ سے درست معلومات کے ساتھ خبر سوشل میڈیا صارفین تک پہنچا سکتا ہے۔

ڈیجیٹل جرنلزم میں کام یابی اسی کی ہے جو خبر کو وقت پر اور زیادہ سے زیادہ معلومات کے ساتھ شیئر کر رہا ہے۔ ڈیجیٹل جرنلزم کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ دُنیا بھر کی طرح ترقی پذیر ممالک میں حکومتی اداروں سمیت تمام نجی ادارے بھی ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر منتقل ہو رہے ہیں۔

اس پر دُنیا بھر میں ریسرچ آرٹیکلز بھی شائع کیے جا رہے ہیں، کیوںکہ سب کو یہ معلوم ہوچکا ہے کہ مستقبل پورے انداز میں دراصل ڈیجیٹل میڈیا کا ہی ہوگا۔ اخبار ٹی وی کی اپنی ایک افادیت ہے، مگر ڈیجیٹل میڈیا نے دُنیا بھر کی خبر کو ایک ہی پلیٹ فارم پر اکٹھا کردیا ہے۔

ڈیجیٹل میڈیا سے وابستہ صحافی بلال ظفر سولنگی کا کہنا ہے۔ ڈیجیٹل میڈیا کی پر کشش مارکیٹ اور زیادہ پہنچ کے سبب الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کے بڑے اور چھوٹے تمام ادارے ڈیجیٹل میڈیا کی جانب رخ کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا آجکل ویب سائٹ، یو ٹیوب، ٹوئٹر بشمول دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔ اس کی ایک وجہ عوام کی بہ آسانی پہنچ بھی ہے کیوںکہ آج کے دور میں اکثریتی عوام کے پاس اسمارٹ فون موجود ہے جس میں ہر اسمارٹ فون استعمال کرنے والا شخص سب سے پہلے یو ٹیوب، فیس بک، ٹوئٹر و دیگر سوشل میڈیا ایپس ڈاؤنلوڈ کرتا ہے تاکہ وہ مختلف دوستوں، رشتہ داروں سے رابطہ کے ساتھ ساتھ مختلف اہم سیاسی و سرکاری شخصیات، میڈیا کے اداروں کو فالو کرکے حالات حاضرہ پر نظر رکھ سکیں۔

شہر کی مصروف زندگی میں اخبارات اور ٹی وی دیکھنے کا رجحان کم ہوتا جا رہا ہے جس کا احساس اب حکومت کو بھی ہوچکا ہے یہی وجہ ہے کہ وزارت اطلاعات میں سوشل میڈیا ونگ بھی قائم کیا جارہا ہے جس کے سبب مستقبل قریب میں ڈیجیٹل میڈیا پر سرکاری اشتہارات بھی نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔

ڈیجیٹل میڈیا کے دُور میں یہ بات بڑی عام فہم ہے کہ وقت کے ساتھ خود کو بدلنے والے معاشرے، ادارے اور زندگی کے مختلف شعبے سے وابستہ افراد ہی وقت کے ساتھ ترقی کرتے ہیں۔ آپ کوئی ادارہ ہیں یا فرد واحد، آج کے دُور میں خبر اور نظر میں رہنا بہت ضروری ہے۔ اس وقت اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں کہ یہ ڈیجیٹل میڈیا یا جرنلزم کا مستقبل ہے یا نہیں بلکہ اس فیصلہ اس چیز کا ہے کہ آپ کس سمت میں کب اپنے نئی سفر کا آغاز کررہے ہیں۔

مجھے اس بات کا اندازہ ہے کہ انسان ایک لمبے عرصے ایک کام کو مسلسل ایک ہی طریقے سے کرنا عادی ہوجائے تو اُس کے لیے اپنے آپ کو اور اپنے کام کے طریقہ کار کو بدلنا قدرے مشکل ہو تا ہے لیکن جب انسان معصم ادارہ کر لے اور خود کو ذہنی طور پر تیار کرلے تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہے۔

زندگی میں کبھی دیر نہیں ہو تی جب تک آپ نے اپنے سفر کا آغاز نہیں کیا ہوتا ہے۔ آئیں آج سے نئے اسکلز سیکھنے کے لیے شروعات کریں، بس آغاز کی ضرورت ہے، انتظار کی نہیں، ابھی وقت ہے ،اگر کوئی چیز آپ کو بدلنے سے روک رہی ہے تو وہ آپ خود ہیں، آپ کو خود کو تیار کرنا ہے۔ چیزیں آپ کے اردگرد بلکہ کچھ تو پاس ہی موجود ہیں۔ اس نئی دُنیا کے لیے خود کو تیار کرلیں ورنہ آپ دُنیا سے بہت پیچھے رہ جائیں گے۔

ڈیجیٹل میڈیا عمر، تعلیم، مہارت اور تجربے کی قید سے آزاد ہے اگر آپ اس کو مناسب وقت دیکھ چند بنیادی اور اہم چیزیں سیکھ لیتے ہیں تو بہت جلد آپ اس میں دل چسپی اور مہارت حاصل کر سکیں گے۔

یاد رکھیں، وقت کی رفتار کے ساتھ نئی ٹیکنالوجی سے ہمکنار ہو کر صحافت اور صحافی اپنا مستقبل محفوظ بناسکتے ہیں۔ ڈیجیٹل میڈیا کے اندر اتنا اسکوپ ہے کہ یہ آپ کے مستقبل کو مضبوط اور محفوظ بناسکتا ہے۔ آج ہی نئی اسکلز اور ٹریننگ کو حاصل کریں، ماہرین سے رابطہ کریں اور ڈیجیٹل جرنلزم کے ساتھ مستقبل اپنے ہاتھ میں رکھیں۔

The post ڈیجیٹل جرنلزم appeared first on ایکسپریس اردو.

جب ریاست دیوالیہ ہوجائے!

$
0
0

دسمبر22 ء کے دوسرے ہفتے خبر آئی کہ کراچی کی بندرگاہ پر پیاز سے بھرے ڈھائی سو کنٹینر پھنسے پڑے ہیں…کیونکہ حکومت کے پاس اتنے ڈالر ہی نہیں کہ انھیں امپورٹروں کو دے سکے اور وہ اپنا مال چھڑوا سکیں۔۔نتیجہ یہ کہ پاکستانی منڈیوں میں پیاز کم ہونے کے سبب اس عام سبزی کی قیمت پونے دو سو روپے سے بڑھ کر سوا دو سو روپے ہو گئی۔

یاد رہے، شدید سیلاب نے پیاز کی بیشتر پاکستانی فصلیں تباہ کر دی تھیں۔اس خبر سے واضح ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کی افواہ میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہے۔

ڈالر کے ذخائر

پچھلے چند ماہ کے دوران سابق وزیراعظم پاکستان، عمران خان نے بارہا دفعہ دعوی کیا کہ پی ڈی ایم حکومت نے اقتدار سنبھال کر قومی معشیت تباہ کر دی اور اب وطن عزیز خدانخواستہ دیوالیہ ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف یہ دعوی جھٹلاتے ہوئے کہتے رہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں معیشت کا بیڑا غرق ہوا جسے نئی گورنمنٹ درست کررہی ہے اور یہ کہ پاکستان کبھی دیوالیہ نہیں ہو سکتا۔یاد رہے، ایک ملک اس وقت دیوالیہ ہوتا ہے جب اس کے پاس ڈالر کے ذخائر نہ رہیں اور وہ اپنے امپورٹروں اور قرض خواہوں کو ڈالر نہ دے سکے۔یہ امریکی کرنسی سب سے اہم تجارتی کرنسی ہے لہذا عالمی تجارت میں اسی کا سّکہ چلتا ہے۔

یہ بہرحال حقیقت ہے کہ یہ سطور قلمبند ہونے تک سٹیٹ بینک پاکستان کے پاس5.8 ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔خاص بات یہ کہ اس ذخیرے میں دوارب ڈالر امارات کے ہیں۔

یہ ڈالر پاکستانی حکومت اپنے ذخیرے میں رکھ تو سکتی ہے، انھیں استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتی۔دوست ملکوں نے اسے یہ ڈالر اس لیے فراہم کیے کہ پاکستان کے ذخائر ڈالر توانا نظر آئیں۔گویا حقیقتاً سٹیٹ بینک پاکستان محض 3.8 ارب ڈالر رکھتا ہے۔

یہ کافی تشویش ناک بات ہے۔ڈالروں کی کمی کے باعث بینک نے امپورٹروں کو ڈالر فراہم نہیں کیے۔چناں چہ بیرون ممالک سے خام مال کی آمد بھی کم ہو گئی ۔اس لیے صنعتی وتجارتی سرگرمیاں ماند پڑ گئیں۔جبکہ جنوری تا مارچ 23ء پاکستان کو کم ازکم ساڑھے پانچ ڈالر کے قرضے واپس کرنے ہیں۔

تسّلی بخش صورت حال نہیں

پاکستان کے کمرشل بینک6.116 ارب ڈالر کا ذخیرہ رکھتے ہیں۔مگر یہ تسّلی بخش صورت حال نہیں کیونکہ ان کے ذریعے صرف ڈیرھ دو ماہ تک ہی امپورٹ ہو سکتی ہے۔

عالمی اصول یہ ہے کہ ایک ملک کے پاس اتنے ڈالر ضرور ہونے چاہیں کہ وہ چھ ماہ تک امپورٹ کا خرچ برداشت کر سکیں۔اس لحاظ سے پاکستان کے پاس کم از کم 100 ارب ڈالر تو ہونے چاہیں۔سری لنکا مارچ 22ء میں اسی لیے دیوالیہ ہوا کہ اس کے پاس بیرون ممالک سے مال منگوانے کو ڈالر نہیں رہے تھے۔

جب اپریل 22ء کے دوسرے ہفتے موجودہ پی ڈی ایم حکومت اقتدار میں آئی تو سٹیٹ بینک کے پاس 17.5 ارب ڈالر موجود تھے۔کمرشل بینک بھی دس ارب ڈالر سے زائد رقم رکھتے تھے۔یہ قابل اطمینان ذخیرہ نہ تھا مگر خطرے کی بھی بات نہیں تھی۔

یہ ذخائر کم کرنے میں پی ڈی ایم حکومت کی پالیسیوں نہیں بیرونی عوامل نے بنیادی کردار ادا کیا۔اول روس و یوکرین جنگ شروع ہو چکی تھی۔اس نے ایندھن و خوراک کی قیمتوں میں دگنا تگنا اضافہ کر دیا۔ لہذا زیادہ ڈالر دے کر یہ دونوں اشیا خریدی جانے لگیں۔ پھر شدید سیلابوں نے پاکستانی زراعت کو بہت نقصان پہنچایا۔ چناں چہ بیرون ممالک سے زیادہ خوراک درآمد کرنا پڑی جس پہ مذید ڈالر خرچ ہوئے۔

کمی کی وجوہ

دوم امریکی حکومت نے اپنی کرنسی کی شرح سود تقریباً صفر سے بڑھا کر چار فیصد کے قریب پہنچا دی۔چناں چہ بیشتر پاکستانی اپنے ڈالر پاکستان بھجوانے کے بجائے بیرونی بینکوں میں رکھنے لگے کیونکہ اب وہ بہتر منافع دے رہے تھے۔

سوم روس یوکرین جنگ نے مغربی ممالک کو معاشی زوال میں گرفتار کرا دیا۔پاکستان کا اہم تجارتی ساتھی، چین کوویڈ وبا سے نبردآزما رہا۔ اس بنا پر پاکستان کی ایکسپورٹ گھٹ گئی اور پاکستان میں کم ڈالر آ ئے۔چہارم پاکستان قرض اتارنے اور سود دینے کے سلسلے میں ڈالر میں ادائیگیاں کرتا رہا۔اس عمل نے بھی پاکستانی ذخائر ڈالر گھٹا دئیے۔

پنجم وطن عزیز میں سیاسی انتشار بھی ڈالر کا ذخیرہ کم کرنے کا سبب بنا۔اپریل 22ء سے پی ڈی ایم حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اقتدار کی خاطر رسہ کشی شروع ہو گئی۔اس سیاسی دنگل نے قومی معیشت پر کافی منفی اثرات مرتب کیے۔معاشی سرگرمیاں سست پڑ گئیں اور غیرملکی سرمایہ کاری بھی آدھی رہ گئی۔اس وجہ سے بھی ڈالر پاکستان کا رخ نہیں کر سکے۔

افسوس ناک اور صدمہ انگیز دن

پی ڈی ایم حکومت کوشش کررہی ہے کہ آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوست ممالک سے ڈالر کے نئے قرض لے کر دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹال دے۔

وہ اپنی کوششوں میں کامیاب ہوتی ہے یا ناکام، یہ تو وقت ہی بتائے گا۔خاکم بدہن ، وطن عزیزاگر دیوالیہ ہوا تو اس کا ذمے دار حکمران طبقہ ہی ہو گا۔اس کی لا پروائی، خودغرضی اور قومی کے بجائے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کی لت سے ہی پاکستان اور قوم کو یہ افسوس ناک اور صدمہ انگیز دن دیکھنا پڑے گا۔

قابل ذکر بات یہ کہ دیوالیہ ہونے سے پاکستانی عوام ہی سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ وجہ یہ کہ ڈالر نہ ہونے سے حکومت کم ایندھن خریدے گی۔

یوں نایاب ہونے سے ایندھن کے دام مذید بڑھ جائیں گے۔ اسی طرح بیرون ممالک سے جو خوراک آتی ہے، گندم، دالیں، سبزیاں، مسالے وغیرہ ، وہ بھی کمیابی کی وجہ سے مزید مہنگی ہوں گی۔یہ دو عمل پاکستان میں مہنگائی بڑھا دیں گے جو پہلے ہی کافی زیادہ ہے۔

پاکستان کے دس تا پندرہ فیصد کھاتے پیتے لوگ تو یہ مہنگائی برداشت کر لیں گے، بقیہ نوے تا پچاسی فیصد باشندوں کی زندگیاں مہنگائی بڑھنے سے مذید کٹھن و دشوار گذار ہو جائیں گی۔تیل مہنگا ہونے سے بجلی کی قیمت بھی بڑھے گی کیونکہ پاکستان میں بیشتر بجلی درآمدی ایندھن سے بنتی ہے۔ غرض دیوالیہ ہونا عوام پہ نیا بم پھوڑ کر انھیں ادھ موا کر دے گا۔

پالیسیاں نہیں بنائیں

پچاس سال قبل پاکستان خوراک میں خودکفیل تھا کیونکہ آبادی صرف چھ کروڑ تھی۔بجلی کی ضرورت بھی ڈیم بخوبی کر دیتے۔تیل بھی سستا تھا ، صرف تین ڈالر فی بیرل جو اب اسّی تا سو ڈالر کے مابین رہتا ہے۔ایکسپورٹ اور امپورٹ کے حجم میں بھی کافی کم فرق تھا۔

اسی طرح قرض ملک وقوم پر بوجھ نہیں بنا تھا۔اس وقت ہمارے حکمران طبقے کو چاہیے تھا کہ دوراندیشی سے کام لیتے ہوئے ایسی جامع پالیسیاں تشکیل دیتا کہ وہ بُرے دنوں کو اچھے طریقے سے نکال سکیں۔مگر اس کی توجہ مستقبل کے چیلنجوں نہیں حال کے اپنے ذاتی مفادات پورے کرنے پر مرکوز رہی۔اس نے مملکت کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔

کئی ممالک مثلاً چین، ملائشیا، جنوبی کوریا، سنگاپور، تائیوان، انڈونیشیا وغیرہ پاکستان کے ساتھ ہی معرض وجود میں آئے۔ان کی حکومتوں نے جامع وبہترین معاشی پالیسیاں ترتیب دیں جن کی وجہ وہ یہ ممالک ہم سے آگے نکل گئے۔حتی کہ ہماری آزادی کے کئی عشروں بعد جنم لینے والے ویت نام اور بنگلہ دیش بھی معاشی طور پہ ہم سے طاقتور ہو چکے۔

ہم ایٹمی قوت ضرور بن گئے مگر اپنی معیشت مضبوط نہیں بنا سکے۔لہذا آج دیوالیہ ہونے کا خطرہ ہمارے سروں پہ منڈلا رہاہے۔ہر مملکت کی بقا کا دارومدار قوی دفاع کے ساتھ ساتھ مضبوط و مستحکم معیشت پر بھی ہوتا ہے۔ہمارا دفاع تو اللہ تعالی کے کرم سے عمدہ ہے مگر معیشت کا بُرا حال ہو چکا۔اور ہمیں بُرے حالوں میں حکمران طبقے ہی نے پہنچایا۔

 ٹرانسپورٹ کا نظام ناقص

مثال کے طور پہ فی الوقت پاکستان 28ارب ڈالر کا ایندھن امپورٹ کر رہا ہے۔اس کی سالانہ ایکسپورٹ چوبیس تا ستائیس ارب ڈالر کے مابین رہتی ہے۔

گویا ہمارے صرف درآمدی ایندھن کا بل ہی ہماری برآمدات سے بڑھ چکا۔وجہ یہی کہ ایک تو آبادی تئیس کروڑ سے زائد ہو چکی۔دوم ہم ایندھن بے دردی سے ضائع کر رہے ہیں۔مثلاً کسی بھی سڑک پہ نکل جائیے۔وہاں آپ کو نوے فیصد گاڑیاں ایسی نظر آئیں گی جن میں صرف ایک دو افراد سوار ہوں گے۔بیشتر لوگوں کو اس لیے کار استعمال کرنا پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں ٹرانسپورٹ کا نظام بہت ناقص ہے۔

ترقی یافتہ ممالک میں عوامی ٹرانسپورٹ کا نظام بسوں اور ریلوں پر مشتمل ہے۔ وہاں ریل وبس اسٹیشنوں کے باہر وسیع وعریض کارپارکنگ بنے ہیں۔قرب وجوار کے باشندے وہاں آتے اور اپنی کاریں کارپارکنگ میں کھڑی کرتے ہیں۔

بقیہ سفر پھر وہ بس یا ریل سے کرتے ہیں۔یوں بسیں اور ریلیں ہزارہا مسافروں کو بیک وقت منزل تک پہنچا دیتی ہیں۔

اس طرح سالانہ لاکھوں گیلن ایندھن کی بچت ہوتی ہے۔ کوئی بھی شہری بس یا ریل میں سفر کرنے کو اپنی توہین یا ذلت نہیں گردانتا۔ پاکستانی حکومت کو خصوصاً بڑے شہروں میں ٹرانسپورٹ کا ایسا نظام متعارف کرانا چاہیے تاکہ ایندھن کی بچت ہو سکے اور ہمارا امپورٹ بل کم ہو۔مگر ہمارے حکمران طبقے یہ نظام متعارف کرانے پر کبھی توجہ ہی نہیں دی۔

کوئلہ بیکار پڑا رہا

پاکستان میں درآمدی ایندھن بجلی بنانے یا ٹرانسپورٹ میں استعما ل ہوتا ہے۔وطن عزیز میں چالیس سال قبل کوئلے کے بھاری ذخائر دریافت ہوئے تھے مگر حکمران طبقے نے کبھی ان سے فائدہ اٹھانے کا نہیں سوچا۔اس کے سبھی ارکان کرسیاں بچانے، اعلی عہدے پانے، تجوریاں بھرنے اور اپنے مفادات پورے کرنے کے کھیل میں لگے رہے۔

جب بجلی کی کمی ہوئی تو کوئلے سے چلنے والے نہیں کرائے کے بجلی گھر لگا دئیے گئے۔ملکی وٖغیرملکی دانشور دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح حکمران طبقے نے کمیشن کھایا اور اپنا ضمیر چند ٹکوں کی خاطر بیچ ڈالا۔

اس وقت پوری دنیا میں قدرتی متبادل ذرائع ایندھن یعنی سورج، ہوا ، پانی وغیرہ کے ذریعے ایندھن بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔سبھی حکومتیں ٹرانسپورٹ بھی پٹرول و ڈیزل نہیں بجلی سے چلانا چاہتی ہیں۔

پاکستان کا حکمران طبقہ مگر نرالا ہے۔لاہور تا خانیوال ریلیں بجلی سے چلتی تھیں۔ہماری برزجمہر بیوروکریسی نے یہ عمل وسیع کرنے کے بجائے اسے ختم ہی کر دیا۔چناں چہ اب ساری ریلیں درآمدی ایندھن پر چلتی ہیں جو مہنگے سے مہنگا تر ہو رہا ہے۔شہباز شریف حکومت نے ’’گرین انرجی ‘‘منصوبے شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جو مستحسن قدم ہے۔مگر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہ منصوبے عملی جامہ پہن پائیں گے؟

غذاؤں کی پاکستان میں قلت

نوبت یہاں تک پہنچ چکی کہ پاکستانی حکومت ڈالر پانے کے لیے خوراک ایکسپورٹ کرنے کے رجحان کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔

اگر پاکستان میں وافر غذائیں پیدا ہوتیں تو یہ اقدام درست کہلاتا۔لیکن ہمیں معلوم ہے کہ وطن میں بنیادی خوراک مثلاً گندم، چاول، دالوں، مسالوں، پھلوں اور بیشتر سبزیوں کی قلت بڑھ رہی ہے۔اسی سبب وہ مہنگی ہو رہی رہی ہیں۔

لہذا خوراک کی مہنگائی روکنے کے لیے ضروری ہے کہ غذاؤں کی ایکسپورٹ پر پابندی لگائی جائے۔دنیا کے سبھی ممالک ایسا کرتے ہیں۔مگر یہاں بقول شخصے باوا آدم نرالا ہے کہ خوراک کی قلت کے باوجود اس کی برآمد جاری ہے۔یہ غریبوں پہ ظلم ہے جو مہنگی خوراک خریدنے پر مجبور ہو چکے۔

ہر حکمران طبقے کو احساس ہونا چاہیے کہ عوام میں بھوک کا پھیلنا بہت خطرناک بات ہے کیونکہ اس کیفیت میں انسان تمام اخلاقیات بھلا بیٹھتا ہے۔دنیا میں جتنے بھی عوامی انقلاب آئے ہیں، انھیں جنم دینے میں بھوک نے اہم کردار ادا کیا۔لہذا پاکستان میں بھوک بڑھتی گئی تو حکمران طبقے کے لیے اپنی کرسیاں، تخت و تاج اور محل بچانا مشکل ہو جائے گا۔

بھوکے عوام غم وغصّے کی حالت میں کچھ بھی کر سکتے ہیں۔انقلابوں کی ماں، فرانسیسی انقلاب کو جنم دینے میں بھوک کا بنیادی حصہ تھا۔تب فرانس پر بھی بے حس و عوامی مسائل سے ناآشنا حکمران طبقہ موجود تھا۔حتی کہ ایک شہزادی یہ کہتی پائی گئی کہ لوگ روٹی نہیں کھا سکتے تو کیک کھا لیں۔بقول عارف شفیق

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف

امیر ِشہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

’ٹریڈ انوائسنگ لی لعنت

بدقسمتی سے کرپٹ پاکستانی ایکسپورٹر اور امپورٹر ایک غیر اخلاقی و قانونی عمل’’ٹریڈ انوائسنگ‘‘(Trade Invoicing)کے ذریعے اپنے ہی وطن کو ڈالروں سے محروم کر دیتے ہیں۔اس فراڈ کا قصّہ یہ ہے کہ بالفرض ایک پاکستانی ایکسپورٹر نے دس لاکھ ڈالر کا مال امریکا بھجوایا۔اگر وہ بے ایمان ہے تو امریکا میں بیٹھے اپنے دلال کی مدد سے حکومت پاکستان کو پانچ لاکھ ڈالر کا انوائس دے گا۔

بیرونی دلال امریکی پارٹی سے دس لاکھ ڈالر ہی وصول کرے گا۔مگر وہ پانچ لاکھ ڈالر پاکستان بھجواتا اور بقیہ پانچ لاکھ ڈالر غیرملکی اکاؤنٹ میں جمع کرا دیتا ہے۔یوں پاکستان کو پانچ لاکھ ڈالر کا زرمبادلہ نہیں مل پاتا۔

شعبہ امپورٹ میں بھی لالچی ودھوکے باز پاکستانی یہی عمل اپناتے اور چند ٹکوں کے لیے اپنا دین وآخرت برباد کرتے ہیں۔بالفرض ایک پاکستانی امپورٹر نے دس لاکھ ڈالر کا سامان بیرون ملک سے منگوایا۔مگر وہ باہر بیٹھے اپنے دلال کی مدد سے انوائس میں پندرہ لاکھ ڈالر لکھ کر اپنی حکومت کو دیتا ہے۔یوں پاکستانی امپورٹر نے جو پانچ لاکھ ڈالر غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھجوائے، وہ اس کے غیرملکی اکاوئنٹ میں جمع ہو جاتے ہیں۔

اس طرح پاکستان مذید پانچ لاکھ ڈالر سے محروم ہو گیا۔یہی نہیں، انڈر و اوور انوائسنگ کے ذریعے جو رقم ہڑپ کی جاتی ہے، اس پر لگنے والے ٹیکس بھی پاکستانی ریاست کو حاصل نہیں ہو پاتے، گویا دہرا نقصان!

اقوام متحدہ اور ترقی یافتہ ممالک کے مختلف سرکاری ونجی ادارے عالمی سطح پر جاری ’’ٹریڈ انوائسنگ ‘‘کے عمل پر نظر رکھتے اور تحقیق کرتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ترقی پذیر ملک ’’سب سے زیادہ ‘‘اسی غیر قانونی عمل کے باعث اپنے قیمتی زرمبادلہ سے محروم ہوتے ہیں۔

مثلاً پاکستان کو لیجیے۔اگر ٹریڈ انوائسنگ سے پاکستان سالانہ دس تا پندرہ ارب ڈالر سے محروم ہو جاتا ہے تو یہ اسے پہنچنے والا بڑا مالی نقصان ہے۔یہ رقم زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔بنگلہ دیش ہر سال 52 ارب ڈالر کی ایکسپورٹ کرتا ہے۔کیا ہم پاکستانی اس سے بھی گئے گذرے ہو چکے؟

اقوام متحدہ کے ماہرین کی رو سے ٹریڈ انوائسنگ حکمران طبقے میں شامل لالچی جونکوں کی مدد سے انجام پاتی ہے جنھیں اس دھندے میں اپنا ’’حصّہ ‘‘ملتا ہے۔ترقی پذیر ممالک میں کرپٹ سیاست داں، سرکاری افسر، جرنیل، جج ،صنعت کار اور تاجر عموماً ٹریڈ انوائسنگ کی مدد ہی سے کرپشن سے حاصل کردہ رقم باہر بھجوا کر اپنے غیر ملکی اکاؤنٹس میں جمع کراتے ہیں۔

آخر کیا وجہ ہے کہ پچھلے تیس برس کے دوران ریاست پاکستان پر چڑھے قرضوں کی مجموعی رقم تقریباً ساڑھے باسٹھ ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی؟

عوام کے لیے رقم نہیں

جب پاکستانی حکومت کے پاس کم ڈالر رہ جائیں تو وہ آئی ایم ایف، دیگر مالیاتی اداروں اور دوست ممالک سے ڈالر بطور قرض لیتی ہے۔بارہا قرضے لینے سے پاکستان اپنے سٹیٹ بینک کی رو سے 98ارب ڈالر کا مقروض و ہو چکا۔جبکہ ساڑھے اکتیس ہزار روپے مقامی بینکوں اور مالیاتی اداروں کا ہے۔اب ان قرضوں کا سود دینے اور انھیں اتارنے پر پاکستانی حکومت کی بیشتر آمدن صرف ہو جاتی ہے۔چناں چہ عوام کی فلاح وبہبود کے لیے بہت کم رقم بچتی ہے۔

حال یہ ہے کہ ملک بھر کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ چکیں مگر حکومتوں کے پاس اتنی رقم ہی نہیں کہ ان کی مرمت کر سکے۔عوامی خدمات فراہم کرنے والے دیگر سرکاری اداروں کا بھی بُرا حال ہے۔

درآمدی اشیا کی لت

معیشت ِپاکستان خراب ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم درآمدی یا امپورٹیڈ اشیا بہت زیادہ استعمال کرتی ہے۔جبکہ حکومت انہی درآمدی اشیا پر متفرق ڈیوٹیاں و ٹیکس لگا کر اپنی بیشتر آمدن پاتی ہے۔

گویا بالخصوص خواص اور حکومت، دونوں درآمدات پر انحصار کرنے کے عادی ہو چکے۔یہی وجہ ہے، پاکستان کی امپورٹ تقریباً اسّی ارب ڈالر تک پہنچ چکیں۔جبکہ برآمدات پچیس چھبیس ارب ڈالر کے مابین رہتی ہیں۔اس انتہائی غیر متوازن تجارت سے پاکستان وافر ڈالر کیسے پا سکتا ہے؟اگر بیرون ملک مقیم پاکستانی ڈالر نہ بھجوائیں تو پاکستان جلد دیوالیہ ہو جائے۔

جامع منصوبے بننے چاہیں

معیشت پاکستان مضبوط بنانے اور دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے ہماری حکومت کو فوری طور پہ جامع منصوبہ بنانا چاہیے۔اول وہ ایسے بجلی گھر تعمیر کرے جن میں مقامی کوئلہ استعمال ہو سکے۔نیز متبادل ذرائع توانائی کے منصوبے شروع کرے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان دھوپ اور ہوا کی قدرتی نعمتوں سے فائدہ اٹھا کر پچاس ساٹھ ہزارمیگاواٹ بجلی باآسانی بنا سکتا ہے۔اس طرح نہ صرف درآمدی تیل و گیس پر انحصار کم ہو گا بلکہ مہنگے ایندھن سے بھی نجات مل جائے گی۔

دوم ٹرانسپورٹ کو بھی بتدریج بجلی پر منتقل کیا جائے۔ترقی یافتہ ممالک میں تو اب مائع ہائیڈروجن سے بسیں وٹرک چلنے لگے ہیں۔امریکا اور یورپی ملکوں میں الیکٹرک گاڑیاں تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔وجہ یہی کہ رکازی ایندھن(تیل، گیس، کوئلے)نے ایک دن ختم ہو جانا ہے۔تب متبادل ذرائع توانائی سے پیدا شدہ بجلی ہی عالمی صنعت وتجارت کو رواں دواں رکھے گی۔

لہذا پاکستانی حکمران طبقے کو چاہیے، وہ مستقبل کو ذہن میں رکھ کر تیل نہیں بجلی بنانے کی بنیاد پر شعبہ توانائی کی پالیسیاں تشکیل دے۔مقصد یہ ہے کہ ہماری آنے والی نسلیں خوشگوار و مطمئن زندگی گذار سکیں۔

سوم کسانوں کو ترغیب دی جائے کہ وہ پکانے کا تیل بنانے والے بیجوں کی فصلیں وسیع پیمانے پر اگائیں۔یہ تیل امپورٹ کرنے پر بھی پاکستان کے پانچ چھ ارب ڈالر خرچ ہو جاتے ہیں۔جبکہ ہماری مٹی میں کنولہ، پام، تل، سورج مکھی اور سرسوں کی فصلیں زیادہ تعداد میں اگ سکتی ہیں۔یہ فصلیں اگانے سے نہ صرف کسانوں کو مالی فائدہ ہو گا بلکہ وطن عزیز پکانے کے تیل میں خودکفیل ہو سکے گا۔

پاکستان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔لہذا فوڈ سیکورٹی بھی ایک اہم مسئلہ بن چکا۔یہ اشد ضروری ہے کہ کھیتوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیاں بننے سے روکا جائے۔اگر یہ چلن جاری رہا تو ایک دن ایسا آ سکتا ہے کہ پاکستان کو بیشتر غذائیں امپورٹ کرنا پڑیں گی۔

یوں عوام کے لیے مہنگی خوراک خریدنا کٹھن مسئلہ بن جائے گا جس سے معاشرے میں انتشار وبے چینی جنم لے گی۔آج کے ہمارے غلط فیصلوں اور پالیسیوں کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔

چہارم حکومت پاکستان کو چاہیے کہ وہ مقامی وعالمی سطح پر خدمات (سروسز) فراہم کرنے والی نجی کمپنیوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات فراہم کرے تاکہ وہ پھل پھول سکیں اور وطن عزیز میں قیمتی زرمبادلہ لائیں۔بھارت عالمی طور پہ صرف آئی ٹی کی سروسز فراہم کر کے تقریباً نوے ارب ڈالر کا سالانہ زرمبادلہ حاصل کرتا ہے۔

پاکستان میں آئی ٹی انڈسٹری نمو پذیر ہے۔اس ضمن میں سرکاری ونجی اداروں میں اشتراک ضروری ہے۔مقصد یہ کہ پاکستانی آئی ٹی انڈسٹری کی بڑھوتری ہو اور وہ بھی عالمی سطح پر اپنی خدمات فراہم کر کے بیس پچیس ارب ڈالر کا زرمبادلہ کما کر سکے۔وطن عزیز میں افرادی قوت وافر دستیاب ہے۔لہذا یہ خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔یوں لاکھوں پاکستانیوں کو روزگار میسر آئے گا۔

معیشت پاکستان درست کرنے کی خاطر حکومت کو یہ اہم قدم بھی اٹھانا چاہیے کہ وہ درآمدی خام مال پر لگی ڈیوٹیاں اور ٹیکس کم کر ے۔وجہ یہ کہ اسی درآمدی خام مال کو درست طریقے سے استعمال کرنے پر برآمدات میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارے سامنے چین، ملائشیا، تائیوان، ویت نام اور بنگلہ دیش کی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے درآمدی خام مال سے نت نئی اشیا بنائیں ، انھیں برآمد کیا اور معاشی قوت بن گئے۔

آج درج بالا ممالک دنیا کے بڑے ایکسپورٹر بن چکے۔خاص بات یہ کہ انھوں نے درآمدی خام مال پر ڈیوٹیاں اور ٹیکس کم سے کم رکھے تاکہ ان سے مقامی طور پہ سستی اشیا تیار ہوں اور بیرون ملک ان کی مانگ بڑھ جائے۔لہذا ان ممالک کو مسلسل ڈالر ملتے رہتے ہیں اور دیوالیہ ہونے کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔انھیں ترقی کرنے اور خوشحال بننے کا عمدہ طریقہ مل گیا ہے جس پہ وہ کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔

ٹیکس کم کیے جائیں

پاکستان میں تو خصوصاً پی ٹی آئی حکومت دور سے ہر قسم کے ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ جاری ہے اور نئے ٹیکس بھی لگا دئیے گئے۔آئی ایم ایف مسلسل پاکستانی حکمران طبقے پہ دباؤ ڈالتا ہے کہ نئے ٹیکس لگاؤ۔چناں چہ یہ طبقہ ہمہ وقت ایسی ’’جگاڑ‘‘تلاش کرتا ہے جو اس کی آمدن میں اضافہ کر سکے۔مگر یہ چلن قومی معشیت کو بہت نقصان پہنچا رہا ہے کیونکہ بے پناہ ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی معیشت کبھی نہیں پنپ پاتی۔نیز لوگ بھی اس ظالمانہ ٹیکس نظام سے بچنے کی جگاڑ نکال لیتے ہیں۔

اسی لیے پاکستانی حکومت اب ان ڈائرکٹ ٹیکسوں پر انحصار کرنے لگی ہے ، مثلاً درآمدی خام مال پہ لگے ٹیکس۔اس قسم کا ٹیکس نظام عوام دشمن ہوتا ہے کہ وہ مہنگائی میں اضافہ کرتا ہے۔اس باعث پاکستان کا شمار دنیا کے ان بیس ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں مہنگائی سب سے زیادہ ہے۔

ٹیکسوں کا وہ نظام بہترین ہے جس میں زیادہ کمائی کرنے والا ہی زیادہ ٹیکس دے۔ترقی یافتہ ملکوں میں یہی عوام دوست ٹیکس سسٹم رائج ہے۔یہ نظام مملکت کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے میں ممد ومعاون بنتا ہے۔جبکہ ان ڈائرکٹ ٹیکسوں پہ مبنی نظام ریاست میں غربت، ناانصافی اور بھوک پروان چڑھاتا ہے۔

معشیت پاکستان اور ریاست کی استحکام ک خاطر ضروری ہے کہ قومی ٹیکس نظام میں اصلاحات لائی جائیں تاکہ اسے عوام دوست اور منصفانہ بنایا جا سکے۔دنیا بھر کے ماہرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ جس ملک میں ان ڈائرکٹ ٹیکس زیادہ ہوں، وہ کبھی ترقی یافتہ اور خوشحال نہیں بن سکتا۔

پاکستانی ٹیکس نظام اس لیے بھی غیر منصفانہ ہے کہ اس کے ذریعے کاروباری وتجارتی کمپنیوں اور بعض اداروں مثلاً سٹاک مارکیٹ پر تو بھاری ٹیکس لگا دئیے گئے مگر کچھ شعبوں پہ کم ٹیکس عائد ہیں جیسے رئیل اسٹیٹ، سونے کی خریدوفروخت، زراعت، ریٹیل اور ہول سیل تجارت۔اس تقاوت کی وجہ سے بھی ان شعبوں کے افراد ٹیکس چوری کی طرف مائل ہوتے ہیں جن پہ بھاری ٹیکس لگے ہوں۔

معیشت ِپاکستان دولت مند یا ایلیٹ طبقے کو دی جانے والی مراعات کے بوجھ تلے بھی دبی ہے۔ اپریل 21ء میں اقوام متحدہ کے ادارے، یو این ڈویلپمنٹ پروگرام نے ’’نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ رپورٹ برائے پاکستان‘‘ جاری کی تھی۔

اس میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستانی ایلیٹ طبقے میں شامل جاگیرداروں، سیاست دانوں، کارپوریٹ سیکٹر اور ملٹری کو سالانہ17.4 ارب ڈالر کی مراعات دی جاتی ہیں۔ ان مراعات کی وجہ سے پاکستان میں امیر اور غریب کے مابین فرق بڑھ رہا ہے۔امیر ، امیر تر ہونے لگا ہے۔یواین ڈویلپمنٹ پروگرام کی صدر، کانی وگارجا نے تب کی پی ٹی آئی حکومت پر زور دیا تھا کہ ایلیٹ طبقے کو دی جانے والی مراعات کم سے کم کی جائیں۔اس طرح معیشت پاکستان منصفانہ بنیادوں پر استوار ہو سکے گی۔

The post جب ریاست دیوالیہ ہوجائے! appeared first on ایکسپریس اردو.

چنیوٹ

$
0
0

اگرچہ محکمۂ موسمیات بار بار یہ خبر دے رہا تھا کہ پنجاب کے میدانی علاقے آج کل دھند کی لپیٹ میں ہیں مگر پھر بھی مجھ پر چنیوٹ جانے کا بھوت سوار تھا۔

کم از کم ڈیڑھ ماہ سے چنیوٹ جانے کا ارادہ تھا مگر چوںکہ میرا رفیق اپنے کچھ کاموں میں مصروف تھا تو دیر ہوتی چلی گئی اور جب ہمارا چنیوٹ جانے کا وقت آیا، اس وقت پنجاب کے میدانی علاقے دھند کی لپیٹ میں آچکے تھے، گوگل میپ سیالکوٹ سے چنیوٹ تک کا کم ازکم وقت ساڑھے چار گھنٹے بتا رہا تھا۔ یہ تو وہ وقت تھا کہ آپ مسلسل سفر کرتے جائیں۔

ہمیں چوںکہ راستے میں دو تین بار رکنا بھی تھا کہ بائیک پر لمبا سفر کرتے ہوئے آپ کو اپنا اور بائیک دونوں کی صحت کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔

اس لیے ہمیں چنیوٹ پہنچتے پہنچتے ساڑھے پانچ سے چھے گھنٹے لگ ہی جانے تھے۔ میں تو پہلے ہی گرم دنوں میں سفر کرنے کا قائل ہوں، چنیوٹ کے سفر سے یہ ایمان اور بھی پختہ ہوگیا کہ سرد دنوں میں سفر سے ہر ممکن پرہیز ہی کرنا چاہیے۔

گرم دن ہوتے تو میں زیادہ سے زیادہ چار بجے تک گھر سے ہر صورت نکل پڑتا مگر سردی کی وجہ سے ہمیں گھر سے نکلتے نکلتے چھے بج چکے تھے۔

گرم دنوں کا کیا ہے۔ باریک سا پاجامہ اور ٹی شرٹ پہنی اور ہیلمٹ پہن کر بندہ سفر پر نکل پڑتا ہے اور تھوڑی ہی دیر میں سورج بھی نکل آتا ہے، مگر سرد دنوں میں آپ ایسا نہیں کر سکتے آپ کو اپنا آپ اچھی طرح پیک کرنا پڑتا ہے۔ جیکٹ، تھرمل، دستانے، سب ضروری چیزیں ہیں۔ پھر سب سے بڑا مسئلہ پنجاب کے میدانی علاقوں میں دھند کا ہے۔

اگر بادل نہ بھی ہوں تو سورج نکلتے نکلتے آٹھ بجا ہی دیتا ہے، اسی لیے آپ تیزرفتاری سے بھی نہیں چل سکتے۔ اپنے آپ کو اچھی طرح پیک کرنے کے باوجود بھی ٹھنڈی ہوا پتا نہیں کہاں سے آپ کے کپڑوں میں داخل ہوجاتی ہے۔

کچھ یہی حال ہمارا اس دن بھی ہوا۔ دن چوںکہ دسمبر کے تھے، پالے کے تھے۔ چھے بجے جو گھر سے باہر نکلے تو شدید دھند نے ہمیں آن پکڑا۔ بائیک کی رفتار انتہائی سست کرنا مجبوری بھی تھی اور عقل مندی بھی۔ ایسا میں گجروں کے شہر گوجرانوالہ نے جہاں ایک گھنٹے کے بعد آنا تھا، وہاں پہنچتے پہنچتے ہمیں تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگ گیا مگر دھند میں فقط تھوڑی سی کمی آئی تھی۔

گوجرانوالہ سے آگے لاہور جانے کی بجائے ہم حافظ آباد والی سڑک پر مڑ گئے۔ حافظ آباد پہنچتے پہنچتے دھند تقریباً ختم ہو چکی تھی مگر سڑک ایسی خراب تھی کہ سفر کا وہ مزہ نہ آ رہا تھا جو عام طور پر سفر میں آتا ہے۔ سڑک ہمارے ملکی حالات کی طرح کہیں کہیں سے خراب جب کہ بہت سی جگہوں پر شدید خراب تھی۔

ابھی صرف حافظ آباد آیا تھا، یعنی سفر آدھا بھی نہ ہوا تھا مگر سردی اور سڑک کی وجہ سے انرجی لیول کافی کم ہو گیا۔ ایسے میں ایک زبردست ناشتہ تو بنتا ہی تھا۔ ہمارا عام سا ناشتہ نان چنا ہے اور زبردست سے زبردست ناشتہ بھی کیوںکہ یہی وہ بہترین ناشتہ ہے جو آپ کو ہر شہر میں مل جاتا ہے اور اگر نہ بھی ملے تو کسی نہ کسی طریقے سے ڈھونڈ ہی لیتا ہوں۔

ہر شہر کے نان چنوں کا ذائقہ مختلف ہے۔ حافظ آباد میں نان چنوں کا ناشتہ کرنے کے لیے رکے تو یہاں کے نان کو بھی اس کی سڑکوں کی طرح عجب ہی پایا۔ نان کو چنوں میں ڈبویا تو نان لال ہو گیا۔ بالکل خون کی طرح کا لال۔ جسے دیکھ کر میں پہلے تو یقینی طور پر گھبرایا کہ شاید نان کے ساتھ کچھ لگا ہو۔

نان کے اس ٹکڑے کو ایک جانب رکھ کر دوسرا ٹکڑا چنوں میں بھگویا تو وہ بھی لال ہو گیا۔ استفسار کرنے پر معلوم پڑا کہ یہاں کہ لوگ نان میں yeast  یسیٹ ڈالتے ہیں جس کے باعث ناں ٹوٹتا نہیں ورنہ نان ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ بات یہاں زندگی میں پہلی بار دیکھی۔ معلوم نہیں یہ کیسی یسیٹ تھی جو چنوں کے شوربے کے ساتھ ملتے ہی لال ہوجاتی تھی۔

چنے بھی بس ٹھیک ہی تھے ورنہ کھانے کو من نہیں تھا۔ منڈی بہاؤالدین جاتے ہوئے جو نان چنے کھائے تھے، اس جیسے کبھی بھی کہیں نہیں ملے۔ نہ جانے منڈی بہاؤالدین سے پیچھے وہ کونسا شہر تھا، وہ جو بھی تھا مگر اس کے نان چنوں کا ذائقہ آج بھی زبان پر ہے۔

حافظ آباد سے نکلتے نکلتے ہمیں تقریباً ساڑھے دس ہوچکے تھے۔ یہ صرف سرد دنوں کی برکات تھیں جو اتنی دیری ہو رہی تھی، دن اگر گرم ہوتے تو ہم ابھی تک نہ صرف چنیوٹ پہنچ چکے ہوتے بلکہ اس کے ایک دو مقامات کا مطالعاتی جائزہ بھی لے چکے ہوتے۔ میں نے اسی وقت دل ہی دل میں اپنے جنوبی پنجاب کے اس منصوبے کو منسوخ کیا جو میں دسمبر کے آخری ہفتے کے لیے بنائے بیٹھا تھا۔

جون جولائی میں تو جنوبی پنجاب کی جانب سفر کیا جا سکتا ہے مگر دسمبر میں بالکل بھی نہیں کہ سردیوں میں دن بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں۔ سورج کب چڑھا، کب اترا کوئی خبر نہیں ہوتی۔ ہمیں نہ صرف دیر ہو رہی تھی بلکہ بہت دیر ہو رہی تھی۔ اس میں قصور صرف سرد دنوں کا نہیں تھا، بلکہ ٹوٹی پھوٹی سڑک بھی اس میں برابر کی مجرم تھی۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب بارہ سال پہلے میں فیصل آباد میں زیرِتعلیم تھا، تب بھی یہ سڑک بہت خراب تھی۔ فرق صرف یہ آیا تھا کہ اب یہ سڑک خراب سے شدید خراب ہوچکی تھی۔

آگے چل کر کچھ سڑک بہتر ہوئی تو بائیک نے بھی کچھ رفتار پکڑی ورنہ مجھے ڈر تھا کہ ظہر ہمیں کہیں راستے میں ہی نہ ہو جائے. ذرا دیر گزری ہو گی کہ موٹر وے کا پنڈی بھٹیاں انٹر چینج آ گیا۔

موٹر وے پر دوڑتی گاڑیوں کو دیکھ کر سخت حسد محسوس ہوا کہ کیسے فراٹے بھرتی جا رہی تھیں اور یہاں ہم گرد مٹی میں نہاتے ہوئے نہایت سست رفتاری سے جا رہے تھے۔

ہمیں عادت تھی جی ٹی روڈ جیسی دوہری، بہترین اور سیدھی سڑک پر سفر کرنے کی مگر یہاں کچھ نہ کچھ دیر بھی سڑک مختلف سمتوں میں چلی جاتی۔ بھلا ہو ان غیرمسلموں کا جنھوں نے مجھ جیسوں کے واسطے جی پی ایس کی سہولت پیدا کی ہے بصورتِ دیگر ہمارا آدھا دن تو لوگوں سے راستہ پوچھنے میں ہی گزر جاتا۔

موٹر وے کے پنڈی بھٹیاں ٹول پلازہ کو پار کیا تو کچھ آگے جا کر ہمارے جی پی ایس نے ہمیں دائیں جانب مڑنے کا اشارہ دیا۔

ویسے تو ہمیں اس جی پی ایس پر اپنے آپ سے زیادہ یقین تھا مگر عجب بات یہ تھی کہ میں نے ابھی تک کہیں نہیں پڑھا تھا چنیوٹ اتنے کلومیٹر جیسا کہ اکثر شہروں کو جاتے ہوئے ہمیں سڑک پر چھوٹے چھوٹے بورڈ لکھے نظر آتے ہیں شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ ابھی تک ہم چنیوٹ جانے والی سڑک پر چڑھے ہی نہ تھے، مگر یہ سڑک مڑتے ہی ہمیں پہلی بار سڑک پر بائیں جانب ”چنیوٹ 40 کلو میٹر ” لکھا نظر آیا۔

یہ بورڈ پڑھتے ہی میں نے سُکھ کا سانس لیا کہ 40 کلومیٹر تو کچھ بھی نہیں مطلب اب چنیوٹ آیا ہی چاہتا ہے۔

جی پی ایس پر نظر ڈالی تو وہ 40 کلومیٹر کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے کا وقت بتا رہا تھا۔ مجھے پہلی بار جی پی ایس پر کچھ شک ہوا کہ چالیس کلومیٹر کا فاصلہ ڈیڑھ گھنٹے میں کیوںکر طے ہونے لگا مگر اس روڈ پر چڑھتے ہی ہمیں اندازہ ہوگیا کہ جی پی ایس درست کہتا تھا۔

یہ 40 کلومیٹر کا سفر ایک طرف اور ہم جو صبح سے سفر کر رہے تھے وہ ایک طرف۔ سڑک انتہائی واہیات تھی۔ ساری سڑک ٹوٹی ہوئی تھی اور اس کی مرمت کے آثار بھی نہ تھے۔

ویسے تو حافظ آباد سے آگے سارا راستہ ہی خراب تھا مگر یہ 40 کلو میٹر کی سڑک ایسی ظالم تھی کہ ختم ہونے پر بھی نہ آ رہی تھی اور اس نے ہمارے دل، گردوں، پھیپھڑوں سب کو اوپر نیچے دائیں بائیں کردیا تھا۔

گردوغبار ایسا تھا کہ ہمارے سارے کپڑے منوں مٹی تلے گم ہوگئے۔ وقاص جو گاڑی چلا رہا تھا، وہ بھی اس خراب سڑک سے تنگ پڑ چکا تھا۔ غصے میں آ کر اس نے جان بوجھ کر بائیک گڑھوں میں ڈال دی. ہمیں دو تین ایسے جھٹکے لگے کہ گرتے گرتے بچے۔ ہم دونوں نے حسبِ توفیق اگلے پچھلے حکم رانوں کی شان میں زبردست گستاخیاں کیں۔ خدا خدا کر کے یہ چالیس منٹ کٹے اور چنیوٹ پہنچ گئے۔

اس خراب سڑک کو ہم سے اس قدر اُنس ہوگیا تھا کہ اس نے چنیوٹ تک ہمارا ساتھ نہ چھوڑا مبادا ہم راستہ بھول کر کہیں صراطِ مستقیم پر نہ چل پڑیں۔ چنیوٹ پہنچ کر ہم نے ایک ایک تازہ موسمی کا جوس پیا اور چل پڑے اپنی پہلی منزل کی جانب جو کہ عمر حیات محل تھی۔

چنیوٹ شہر کی تنگ و تاریک گلیوں میں عمر حیات محل ہے جسے گلزار محل بھی کہا جاتا ہے، مگر مشہور یہ عمرحیات محل کے نام سے ہی ہے. فقط چودہ مرلے کے اس محل کی تعمیر 1922 میں شروع ہوئی اور یہ 1930 میں جا کر مکمل ہوا۔

چنیوٹ میں ایک محلہ کلکتی تھا جو آج بھی موجود ہیں۔ محلے کے نام کی وجہ تسمیہ یہ تھی کہ یہاں کے لوگ کلکتہ میں کاروبار کرتے تھے۔ وہ یہاں سے لکڑی کا خوب صورت فرنیچر اور مختلف اشیاء تیار کرواتے اور اسے کلکتہ جا کر فروخت کرتے۔ عمر حیات صاحب مال و دولت میں تو خودکفیل تھے اور اولاد اُن کی ایک ہی تھی۔

بیگم فاطمہ حیات سے اُنس اس قدر تھا کہ خاندان والوں کے بے پناہ اسرار کے باوجود دوسری شادی نہ کی۔ یوں عمر حیات کے خاندان میں صرف تین افراد تھے۔ ایک عمر حیات خود، ان کی شریکِ حیات فاطمہ اور ان کا اکلوتا بیٹا گلزار حیات۔

1930 میں جب اس محل کی تعمیر مکمل ہوئی تو محل اپنے آپ میں ایک عجوبہ قرار پایا۔ چنیوٹ شہر کے معروف لکڑی کے کام کے استاد الٰہی بخش نے اس کی تعمیر میں نہ صرف خود حصہ لیا اور سارا کام ان ہی کہ نگرانی میں مکمل ہوا۔ 14 مرلے کا یہ محل پانچ منزلہ تھا جس میں کمرے کے سائز کا ایک تہہ خانہ بھی تھا۔ خوبصورت فرش کے علاوہ، دروازوں اور کھڑکیوں پر ایسے ایسے نقش و نگار ہیں کہ انسانی سوچ دھنگ رہ جاتی ہے۔

لکڑی کا ایسا خوب صورت اور باریک کام ہے کہ باذوق افراد اس لکڑی کی شاعری بھی قرار دیتے ہیں۔ محل ایسی نزاکت سے بنایا گیا تھا کہ سیڑھیوں تک کو خاص چنیوٹی لکڑی سے ہی بنایا گیا۔ محل کی کھڑکیوں اور دروازوں پر رنگ برنگی شیشے لگے ہیں جو خاص اٹلی سے عمرحیات صاحب نے منگوائے تھے، اگر اس محل کو شش محل بھی کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ محل کے درمیان میں ایک صحن ہے۔

تمام کمروں کے دروازے صحن کی طرف ہی کھلتے ہیں۔ محل کا ہر کمرہ دوسرے کمرے سے جدا ہے اور ہر کمرے کی نقش و نگاری دیکھنے لائق ہے۔

کسی کمرے کی چھت پر اجرک بنی ہے تو کسی کمرے کی چھت کو سونے اور چاندی کے رنگوں میں رنگا گیا ہے۔ بنانے والوں کے دماغ میں جنت کے سونے چاندی کے محل تھے۔ الماریوں کے فریم بھی سنہری بنائے گئے ہیں۔

نقش و نگار کے لیے مٹی، چونا، دال ماش، گڑ سمیت نہ جانے کن کن اشیاء کو ملا کر ایسا میٹریل بنایا گیا جو جو بھی محفوظ ہے اور اتنی لکڑی کے استعمال کے باوجود آج تک اسے دیمک نہیں لگی۔ عمر حیات صاحب اپنی شریکِ حیات فاطمہ اور اپنی کُل کائنات، اپنی واحد نرینہ اولاد گلزار کے ساتھ کم و بیش ساڑھے چار سال تک یعنی 1930 تا 1935 اسی محل میں رہے اور پھر ان سب کی خوشیوں کو کسی کی نظر لگ گئی۔

معلوم نہیں کہ عمرحیات محل کو کس کی نظر لگی۔ نظر بھی لگی یا پھر اس محل کی قسمت میں اجڑ جانا ہی تھا۔ ابھی محل کو آباد ہوئے فقط چار ساڑھے چار سال ہی ہوئے تھے کہ موت نے بھری جوانی میں عمر حیات کو آ لیا۔ جوان فاطمہ حیات کے لیے یہ صدمہ برداشت کرنا یقیناً نا ممکن ہوتا اگر ان کے پاس اپنا واحد سہارا گلزار حیات نہ ہوتا۔ فاطمہ حیات نے مشکل سے اپنی عدت کے دن گزارے۔ دونوں ماں بیٹا اب اس محل میں اکیلے تھے۔

فاطمہ حیات نے عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے گلزار حیات کی شادی بڑی دھوم دھام سے کرنے کا اعلان کیا۔ شادی میں قریب کے رشتے داروں کو تو بلایا ہی گیا، ہر خاص و عام کو بھی مدعو کیا گیا۔ گلزارحیات کی شادی کا دعوت نامہ بھی عجب تھا۔ چنیوٹ کی پہاڑیوں پر چڑھ کر گلزار حیات کی شادی کا اعلان کیا گیا۔

ڈھول کی تھاپ پر منادی رقص کرتا جاتا اور ساتھ یہ اعلان کرتا کہ جو بھی گلزار حیات کی شادی کے اعلان کی آواز سنے وہ اپنے آپ کو شادی میں مدعو تصور کرے، جس کسی کے نتھنوں میں شادی کے پکوان کی مہک جائے، وہ بھی اپنے آپ کو شادی میں مدعو سمجھے۔ الغرض فاطمہ حیات کے اس بر وقت احسن اقدام پر محل کی جاتی خوشیاں لوٹ آئیں۔

فاطمہ حیات نے جس دن کو محل کی خوشیوں کی واپسی کا ذریعہ جانا، وہی دن گلزار محل کی مسلسل ویرانی کا باعث بنا۔ شادی کی جس رات کو گلزار حیات نے اپنی زندگی کی سب سے خوب صورت رات جانا، اسی رات کی صبح گلزار محل کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوئی۔

عمرحیات محل ہر لحاظ سے ایک فن پارہ تھا۔ اسے لکڑی کا تاج محل بھی کہا گیا۔ محل کی پانچ منزلوں میں بیت الخلا ایک کے اوپر ایک کھڑے تھے یعنی ہر ایک دوسرے سے منسلک تھا۔ نظام کچھ یوں تھا کہ نیچے ایک کنواں کھودا گیا تھا اور ہر منزل پر ایک ایک چرخی لگی تھی، جو جہاں ہوتا، وہیں سے پانی استعمال کرلیتا۔ محل میں گرم پانی کا بھی خوب انتظام تھا۔ دیواروں کے اندر ہی پرنالے بنے تھے اور ان کے اندر ہی گیزر لگا تھا۔ پانی گرم کرنے کے لیے کوئلوں کا استعمال کیا جاتا تھا۔

جب موت سر پر آن پہنچے تو کئی بہانے بن جاتے ہیں۔ اپنی شادی کی اگلی صبح جب گلزارحیات غسل کے واسطے غسل خانے میں گیا تو وہاں پہلے سے ہی گیس بھری تھی۔

ہوا کچھ یوں ہوگا کہ گیزر کے نیچے رکھے ہوئے کوئلے کچے ہوں گے جن سے کاربن مونو آکسائیڈ گیس غسل خانے میں جمع ہوگئی۔ احباب جانتے ہیں کہ یہ ایک زہریلی گیس ہے، جس کی کوئی بو نہیں ہوتی ہے۔ زہریلی اس قدر ہے کہ انسان کا دم گھونٹ دیتی ہے اور چند ہی لمحوں میں انسان دنیائے فانی سے کوچ کر جاتا ہے۔

شادی والے گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ فاطمہ حیات کے لیے یہی قیامت تھی۔ اس سے بڑھ کر اس کی زندگی میں اور کیا ہوسکتا تھا۔ جس دن کو فاطمہ نے خوشیوں کا دن جانا تھا، وہی دن اس کے لیے بربادی کا پیغام لایا۔ لوگوں نے اس محل کو ہی منحوس قرار دے دیا جو پہلے بھری جوانی میں اپنے مالک حیات کو نگل گیا اور اب ان کے اکلوتے بیٹے گلزار حیات کو۔ عمرحیات جب اس دنیا سے گئے تو انھیں قریبی قبرستان میں دفنایا گیا مگر جب اکلوتے بیٹے کی باری آئی تو فاطمہ حیات نے اپنے جگر گوشے کو محل کے صحن میں ہی دفنانے کا فیصلہ کیا۔

اکیلی فاطمہ شوہر اور بیٹے کے غم میں کب تک زندہ رہتی۔ بیٹے کے انتقال کے بعد فاطمہ حیات بھی ایک سال کے اندر اندر چل بسیں۔ فاطمہ حیات کو ان کی وصیت کے مطابق بیٹے گلزار کے پہلو میں وہی محل کے صحن میں ہی دفن کیا گیا۔ یوں یہ محل اپنے ہی مکینوں کے لئے قبرستان بن گیا۔

بعد میں کچھ عرصہ یہ منحوس محل حالی رہا۔ پھر اسی خاندان کے بڑوں نے محل کو یتیم خانہ بنوا دیا تاکہ مرحومین کے لیے ثواب کا ذریعہ بن سکے۔ جب خاندان کے بڑے بھی نہ رہے تو یتیم خانے پر کوئی توجہ نہ دے سکا۔ موقع کا فائدہ اٹھا کر ماچھی برادری کے کچھ لوگوں نے محل پر قبضہ کرلیا۔ اسی دوران محل کی اوپر والی منزلیں اور چوبارے مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔

ماچھی برادری کیوں اس محل کا خیال کرتی۔ قدرت کو شاید پھر اس فنِ تعمیر پر کچھ رحم آیا اور ڈاکٹر محمد امجد ثاقب چنیوٹ کے ڈپٹی کمشنر تعینات ہوئے۔ یہ وہی امجد ثاقب ہیں جنھوں نے بعد میں یتیم بچوں کے لیے ایک ادارے ”اخوت” کی بنیاد رکھی۔ ڈاکٹر صاحب کے اس جانب توجہ دینے تک پہلی منزل سے اوپر کی تمام منازل تقریباً ختم ہوچکی تھیں۔

ڈاکٹر صاحب نے محل سے ماچھی لوگوں کو باہر نکلوایا اور اس کی بحالی کی جانب توجہ دی مگر یہ توجہ صرف اس ڈاکٹر صاحب کی حد تک ہی رہی۔ آج بھی عمرحیات محل ضلعی انتظامیہ کے پاس ہے مگر اس پر توجہ دینے کے لیے کوئی امجد ثاقب نہیں۔

محل کا بقیہ حصہ مسلسل خراب ہو رہا ہے مگر اس جانب توجہ دینے والا کوئی نہیں۔ عمرحیات محل کے نگراں کے مطابق جب کبھی سال میں ایک دو بار کوئی بیرونِ ملک سے آتا ہے تو محل کی صفائی کروا دی جاتی ہے۔ ورنہ عام دنوں میں محل گرد میں ہی نہایا رہتا ہے۔

عمرحیات محل کے پاس ہی قلعہ رختی ہے۔ مؤرخین کے مطابق قلعہ رختی ہی اصل میں قلعہ چندن یوٹ ہے جسے چندر گپت موریا کی بیوی رانی چندن نے تعمیر کروایا تھا۔ موجودہ قلعہ تقریباً ساڑھے آٹھ سو سال پرانا ہے۔ اسے 1326 میں سلطان محمد تغلق نے تعمیر کروایا تھا۔ قلعہ چونے اور پکی چھوٹی اینٹ سے بنایا گیا تھا۔

قلعے میں خفیہ سرنگیں بھی تھیں جو دریائے چناب کے پاس جاتی تھیں۔ محاصرے کی صورت میں قلعے والے انہی سرنگوں سے خوراک و پانی کی بنیادی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ قلعے میں جانے کے دو راستے تھے۔ ایک ہاتھیوں کے لیے تھا اور دوسرا پیادوں کے لیے۔ سکندر اعظم بھی چندر گپت موریا کے وقت اسی قلعہ چندر اوٹ میں کچھ عرصہ قیام پذیر رہا تھا۔

سلطان میں تغلق سے یہ قلعہ چنگیز خان کے پاس چلا گیا اور تاتاری قبیلے کا ایک سردار اس کا حاکم بنا۔ تاتاریوں سے یہ قلعہ مغلوں کے پاس آیا۔ سکھ شاہی دور میں سردار کرم سنگھ نے اس قلعے کو مغلوں سے حاصل کیا اور یوں یہ قلعہ رنجیت سنگھ کے پاس رہا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی آنے کے بعد قلعہ رختی سمیت ہر قلعہ پر انگریزوں کا ہی راج رہا۔

آئینِ اکبری میں بھی اس قلعے کا ذکر ملتا ہے۔ آئینِ اکبری کے مطابق قلعے میں تقریباً پانچ سو گھڑ اور ہاتھی سوار موجود ہوتے تھے جب کہ تقریباً پانچ ہزار کی پیادہ فوج اس کے علاوہ تھی۔ قلعہ آج نہ صرف کھنڈر بن چکا ہے بلکہ آس پاس کے لوگوں کا کچرا بھی یہی قلعہ اپنے اندر سماتا ہے۔

دن چھوٹا تھا، اس لیے وقت ضائع کیے بنا شاہی مسجد کی جانب روانہ ہوگئے۔ شاہی تواریخ، تذکروں ہم عصر اور بعد کے مورخین کی تصانیف میں اگرچہ اس مسجد کا تذکرہ نہیں ملتا اور نہ ہی مسجد پر کوئی کتبۂ تاریخ موجود ہے لیکن عام اور مسلسل مقامی اور نواحی روایات کے مطابق یہ مسجد نواب سعد اللہ خان نے تعمیر کروائی۔

سعد اللہ خان نے چنیوٹ میں سنگ سرخ سے ایک عظیم مسجد تعمیر کی۔ مسجد ”سنگ سرخ” سے نہیں بلکہ سنگ ابری سے مشابہ فاختائی رنگ کے مقامی چنیوٹی پتھر سے تعمیر شدہ ہے۔ مسجد کی ساخت اور تزئین میں کچھ ایسے تعمیری اجزاء مثلاً دروازوں کا طرز، سہ رخی سنگی سیڑھیاں محرابچوں اور گنبدوں کی آمیزش، سنگی ستون، وغیرہ قلعہ دہلی، جامع مسجد لال قلعہ دہلی سے ملتے جلتے ہیں۔

اسی چنیوٹی سنگ ابری، چھوٹی اینٹ، سنگ مرمر سے مزین چنیوٹ کی دوسری مغلیہ عمارت ”دربار پیر شاہ برہان” کے بیرونی دروازوں پر تاریخ 1063-1065 ہجری کندہ ہے۔

مسجد کے شمال اور جنوب میں بغلی کمرے ہیں۔ مسجد کا مسقفٰی حصہ سنگی ستونوں پر کھڑا ہے۔ ہر قطار میں 8 ستون ہیں۔ درمیانی قطار کے ستونوں اور سہ قوسی ڈاٹوں پر تین گنبد موجود ہیں۔ مسجد کے جنوب مغربی سمت ایک اونٹ یا بیل سے چلنے والے کنوئیں سے پانی برآمدے کی چھت اور دیوار سے ہوتا ہوا تانبے کے ایک پائپ کے ذریعے اس تالاب میں پہنچایا گیا تھا۔

مسجد کے زیریں حصے میں چاروں طرف حجرے اور دکانیں ہیں۔ مسجد کی چھت پر جانے کے لیے جنوب مغربی پہلی حجرے میں سے سیڑھیاں اوپر جاتی ہیں۔ اسی طرح مشرقی دروازے کی ڈیوڑھی کے اوپر بھی ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس پر جانے کے لیے مشرقی دروازے کے جنوبی بغل میں ایک چھوٹا دروازہ میں سے سیڑھیاں اس کمرے تک جاتی ہیں۔

شاہی مسجد میں پہنچے تو لوگ ظہر کی چار سنتیں ادا کر رہے تھے۔ ہم چوںکہ مسافر تھے، اس لیے ہمارے واسطے سنتوں کی رعایت تھی۔ میں نے الگ سے دو فرض ادا کیے اور مسجد کی فوٹو گرافی کرنے لگے۔ مسجد لاہور کی بادشاہی مسجد اور وزیر خان مسجد کا آمیزہ معلوم ہوئی مگر مسجد کے پلیز نے مسجدِ نبوی کی یاد دلوائی۔ مسجدِ سے نکلے تو شہر کے بیچوں بیچ پہاڑی پر جانے کے لیے لوگوں سے راستہ پوچھنے لگے۔

اسی پہاڑی کے نیچے ایک پورا محلہ آباد ہے۔ پہاڑی کو کاٹ کر ہی آس پاس گھر بنائے گئے ہیں جب کہ اوپر پہاڑی پر جانے کے لیے سیڑھیاں بھی موجود ہیں۔ انہی سیڑھیوں کو استعمال کرتے ہوئے ہم پہاڑی پر چڑھنے لگے مگر یہ سیڑھیاں بھی صرف وہی تک تھیں جہاں تک گھر بنے ہوئے تھے۔

آگے اپنی مدد آپ کے تحت نہ صرف چڑھنا تھا بلکہ راستہ بھی خود ہی تلاش کرنا تھا۔ پہاڑی زیادہ بلند نہیں تھی۔ مقامی افراد کے مطابق یہی وہی پہاڑی ہے جہاں چندر گپت موریا کی بیوی رانی چندرن ہر سال میلہ منعقد کرواتی تھی۔ یہ ایک مذہبی قسم کا میلہ ہوتا جہاں اجتماعی طور پر پوجا پاٹ کی جاتی تھی۔

چنیوٹ میں ایک ”بڑا مندر” ہے جسے مہاراجا گلاب سنگھ نے 1848 میں تعمیر کروایا تھا۔ مندر کا اصل نام لکشمی نارائن مندر ہے اور اس سے منسلک روڈ کو مندر روڈ کہا جاتا ہے۔

لکشمی نارائن مندر کے وسط میں ایک بڑا چوکور ہال ہے جہاں مورتی پڑی ہوتی تھی جب کہ عمارت کے چاروں اطراف میں گیلری بنی ہوئی ہے۔ مندر کے کُل پانچ مینار ہیں جن میں سے بڑے والا مخروطی شکل میں ہے جب کہ باقی چار چھوٹے مینار ہیں۔ میناروں پر بنے بتوں کو یا تو مکمل طور پر توڑ دیا گیا ہے یا پھر ان کے سر کاٹ دیے گئے ہیں۔ مندر کے ماتھے پر بنے کنول کے پھول پر کسی بھگوان کی تصویر اس کی خوب صورتی میں اضافہ کرتی ہے مگر اس کا بھی اب سر کاٹ دیا گیا ہے۔

لکشمی نارائن مندر اب ایک سرکاری اسکول ہے۔ اس لیے یہاں عام طور پر داخلہ ناممکن ہوتا ہے۔ اتوار کو ویسے ہی سرکاری چھٹی ہے لہٰذا اگر آپ میری طرح شریف اور بیبے بچے ہیں تو صرف دور دور سے ہی مندر کے درشن کر سکتے ہیں۔

چنیوٹ کی تنگ اور گم نام گلیوں میں ایک روشن شیش محل ہے جو بنیادی پر سائیں سُکھ کا مزار ہے۔ سائیں سُکھ کا اصل نام احمد ماہی تھا جب کہ ان کا یوم پیدائش تیرہ رجب 1914 ہے۔ تقسیم سے پہلے آپ لاہور روڈ والی پہاڑی اور پھر ربوہ میں رہے مگر 1950 میں 500 روپے کے عوض یہ مکمل جگہ حاصل کی۔ سائیں سُکھ کی پیدائش کسی اور علاقے کی ہے مگر والدین نے چنیوٹ ہجرت کی اور ابھی تک یہیں ان کا خاندان قیام پذیر ہے۔

سائیں سُکھ نے اپنی زندگی میں ہی اس جگہ پر تعمیرات کا آغاز کیا۔ سائیں صاحب کے گدی نشین کے مطابق سائیں صاحب کو شیشہ گری بہت پسند تھی۔

اس لیے انھوں نے اپنی زندگی میں ہی چنیوٹ کے بہترین شیشہ سازوں کی خدمات حاصل کیں۔ ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد نے اس پورے احاطے کی تعمیرات کو جاری رکھا۔ یہاں تک کہ سائیں سُکھ کی وفات کے بعد انھیں یہی پر دفن بھی کیا گیا۔ بعد میں مائی صاحبہ کو بھی اس جگہ دفن کیا گیا۔ ہر چاند کی پندرہ تاریخ کو مزار پر محفلِ سماع منعقد کی جاتی ہے۔

مزار میں شیشے کا کام اس قدر خوب صورت ہے کہ یہاں سے باہر نکلنے کو جی نہیں چاہتا۔ جی چاہتا ہے کہ انسان انہی شیشوں کو تکتے ہوئے ان میں ایسا کھو جائے کہ وہ اپنے آپ کو بھی تلاش نہ کر سکے۔ مزار سے ہٹ کر اگر آپ اس جگہ کو ایک شیش محل کے طور پر دیکھیں گے تو ایک الگ ہی حُسن آپ کو اپنی جگہ متوجہ کرے گا۔

چنیوٹ شہر میں دریائے چناب کے اندر حضرت شرف الدین المعروف بُو علی قلندر کی چلہ گاہ ہے۔ بُو علی قلندر 1215ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے جب کہ ابتدائی تعلیم جس میں فقہ کی تعلیم بھی شامل تھی، وہ بھی پانی پت سے ہی حاصل کی۔ والد نے عراق سے ہجرت کی تھی۔ بُو علی قلندر دہلی میں بیس سال تک مفتی اعظم کے دفتر سے بھی منسلک رہے۔

بعد میں مسجدِ اخوت اسلام دہلی میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک ہوگئے۔ آپ دہلی میں ہی قاضی کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ روایت ہے کہ سات سال تک دریائے جمنا میں چلہ کاٹا اور وہیں پہلے حضرت نظام الدین اولیاء اور پھر قطب الدین بختیار کاکی کے مرید بنے۔ دریائے جمنا کے بعد آپ نے دریائے چناب کو اپنی چلہ گاہ بنایا اور دریائے چناب میں ہی موجود ایک پہاڑی پر سات یا بارہ سال تک چلہ کاٹتے رہے۔

1292ء میں آپ کی وفات کرنال کے جنگلوں میں ہوئی۔ تین دنوں کے بعد جب کچھ چرواہوں نے انھیں مردہ حالت میں دیکھا تو کفن دے کر دفن کر دیا۔ بعد میں جب پانی پت میں آپ کے مریدوں کو آپ کی وفات کی خبر ملی تو کرنال سے جسدِخاکی نکال کر پانی پت میں دفن کیا۔ یوں آپ کے دو مزار ہیں۔ ایک کرنال میں اور دوسرا پانی پت میں۔

1980ء تک دریائے چناب کی پہاڑی پر ایک چھوٹے سے کمرے کی صورت میں آپ کی چلہ گاہ قائم رہی۔ موجودہ عمارت کی تعمیر کا آغاز 1980ء میں ہوا۔ موجودہ چلہ گاہ کا کُل رقبہ تین ایکڑ ہے اور اسے دریا سے دس سے پندرہ فٹ بلند بنایا گیا ہے۔

عمارت کا داخلی دروازہ مغلیہ طرز کا ہے۔ چلہ گاہ کے علاوہ اس مقام کی جانب کشش کا باعث یہاں موجود بے پناہ خوب صورت بطخیں بھی ہیں جو سارا دن دریائے چناب کی ریت اور اسی کے پانی میں کھیلتی رہتی ہیں۔

The post چنیوٹ appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

قرآن مجید دا پنجابی ترجمہ
مترجم : پروفیسر روشن خان کاکڑ ، صفحات : 623، ہدیہ : 1750روپے
ناشر : دارالسلام لوئر مال نزد سیکرٹریٹ سٹاپ لاہور


اس وقت دنیا میں بہت سی الہامی کتابیں موجود ہیں جیسا کہ توارات انجیل ، زبوراور بائبل وغیرہ۔ یہ ساری کتابیں تحریف شدہ ہیں اس کے باوجود ان کتابوں کے پیروکار دنیا کی تقریباََ ہر زبان میں ان کے تراجم شائع کرکے ہر خطے میں پہنچا رہے ہیں۔ جبکہ قرآن مجید اللہ کی سچی کتاب ہے ، اپنی اصل شکل وحالت میں موجود ہے۔

یہ تمام بنی نوع انسان کیلئے کتاب ہدایت ہے۔یہ دنیا کی واحد مقدس کتاب ہے جس میں قیامت اور اس کے بعد بھی پیش آمدہ حالات و معاملات کے بارے میں رہنمائی کی گئی ہے۔

جس قوم نے بھی قرآن مجید کو پڑھا سمجھا اور اس پر عمل کیا وہ دنیا میں بھی کامیاب وکامران ٹھہری اور آخرت میں بھی کامیابی ان کا مقدر بنی ہے۔ قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ اللہ نے خود لیا ہوا ہے مگر اللہ نے ہم مسلمانوں کی بھی یہ ذمہ داری لگائی ہے کہ ہم قرآن مجید پڑھیں ، سمجھیں یاد کریں ، اس کی تبلیغ کریں، دنیا کی مختلف زبانوں میں اس کے تراجم شائع کرکے ہر خطے میں پہنچائیں تاکہ اللہ کا پیغام عام ہو اور قرآن مجید کی تعلیمات کو فروغ ملے۔

اس میں شک نہیں کہ اس وقت دنیا میں ہزاروں زبانیں لکھی اور بولی جارہی ہیں جبکہ اربوں کی تعداد میں مسلمان بستے ہیں لیکن یہ کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ اب تک قرآن مجید کے تراجم تقریباََ110زبانوں میں ہی ہوئے ہیں۔

حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی ہر زبان میں قرآن مجید کے تراجم شائع کیے جائیں اور دنیا کے ہر خطے میں پہنچائے جائیں۔ کنگ فہد ہولی قرآن کمپلیکس ( سعودی عرب ) کے بعد سب سے زیادہ تراجم شائع کرنے کااعزاز دارالسلام کو حاصل ہے۔ پنجابی بھی ایک بڑی زبان ہے۔ پاکستان میں ساٹھ فیصد لوگ پنجابی زبان سمجھتے اور بولتے ہیں۔

اس کے علاوہ پنجابی پوری اسلامی دنیا میں تیسری ، برصغیر کے مسلمانوں میں دوسری اور دنیا میں نویں بڑی زبان کا درجہ رکھتی ہے۔ اب اللہ نے دارالسلام کو پنجابی زبان میں بھی قرآن مجید کا ترجمہ شائع کرنے کااعزاز بخشا ہے۔

یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ دارالسلام نے پنجابی زبان میں پہلا پنجابی ترجمہ ہے بلاشبہ اس سے قبل بھی پنجابی زبان میں قرآن مجید کے بہت سے تراجم شائع ہوچکے ہیں۔تاہم تحقیق ،معیار اور عمدہ طباعت دارالسلام کا طرہ امتیاز ہے اسلئے بہر حال یہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ دارالسلام نے پنجابی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کی اشاعت میں تحقیق ،معیار اور عمدہ طباعت کو قائم رکھا ہے۔زیر نظر ’قرآن مجید دا پنجابی ترجمہ‘ پروفیسر روشن خان کاکڑ نے کیا ہے۔

روشن خان کیمسٹری کے پروفیسر رہے ہیں۔ وہ انگلش ، اردو کے علاوہ پنجابی ادب میں بھی اچھی مہارت رکھتے ہیں۔ سونے پر سوہاگہ یہ ہے کہ وہ عربی میں بھی کافی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ان کی ایک کتاب پنجابی کے اقوال زریں پر ’’ سوہتھہ رسہ، سرے تے گنڈھ ‘‘ کے نام شائع ہوکر پنجابی دان طبقہ سے داد تحسین پاچکی ہے۔

دارالسلام نے آج تک جتنے بھی قرآن مجید کے تراجم شائع کیے ہیں ہر ترجمے میں اس بات کا بہت اہتمام کیا گیا ہے کہ مترجم اپنی مادری زبان کے علاوہ عربی زبان میں بھی مہارت رکھتا ہو اس لئے کہ اس کے بغیر قرآن مجید کے ترجمے کاحق ادا نہیں کیا جاسکتا۔

پروفیسر روشن خان کاکڑ ان دونوں خوبیوں سے متصف ہیں۔ پنجابی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ ان کا دیرینہ شوق تھا انھوں نے اس پر طویل عرصہ تک کام کیا ہے۔اس ترجمہ پر نظر ثانی قاری طارق جاوید عارفی نے کی ہے جو کہ دارالسلام کے سینئر ریسرچ سکالر ہیں۔

پروف ریڈنگ دارالسلام سنٹر کے سکالر مختار احمد ضیا نے کی۔ ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد دارالسلام نے نہایت ہی عمدہ پیپر اور مضبوط جلد بندی کے ساتھ اسے شائع کیا۔ دارالسلام کے مینجنگ ڈائریکٹر عبدالمالک مجاہد کہتے ہیں کہ پنجابی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع کرنا ہمارے لئے اعزاز ہے۔

یہ قرآن مجید پنجابی دان طبقہ کیلئے ایک ہدیہ ہے۔ ہماری عرصہ دراز سے پنجابی زبان میں قرآن مجید کا ترجمہ شائع کرنے کی خواہش تھی جوکہ الحمدللہ پوری ہوچکی ہے۔ پنجابی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کی اشاعت کے بعد دارالسلام کو30زبانوں میں قرآن مجید کے تراجم شائع کرنے کااعزاز حاصل ہوچکا ہے جس پر ہم اللہ کے حضور سجدہ شکر بجالاتے ہیں۔

پنجابی بولنے اور سمجھنے والوں کے لئے قرآن کا پنجابی ترجمہ یقینا فروغ پائے گا اور پنجابی سے لگائو رکھنے والے اس سے مستفید ہوں گے۔

ہدیہ 1750روپے ہے۔ یہ قرآن مجید دارالسلام لوئرمال نزد سیکرٹریٹ سٹاپ لاہور دستیاب ہے یا قرآن مجید براہ راست حاصل کرنے کیلئے درج ذیل فون نمبر37324034 042-پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

تبصرہ نگار : بشیر واثق
تجویدی قاعدہ (جماعت اول)
تالیف:استاذ القراء الشیخ القاری محمد ادریس العاصم ؒ
ناشر: دارالسلام ،36، لوئر مال ، لاہور(042.37324034)

قرآن مجید پڑھنا اور سمجھنا بہت بڑی سعادت ہے، اس لئے ہر مسلمان کو قرآن سیکھنے کا ذوق و شوق ہونا چاہیے۔

ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے بہت سے مسلمان بھائی جنھیں غفلت یا کسی اور وجہ سے بچپن میں قرآن مجید سیکھنے کا موقع نہیں ملا تو وہ اپنے دل میں بڑا قلق محسوس کرتے ہیں تو انھیں چاہیے کہ اس کمی کو چھپانے کی بجائے قرآن سیکھنے کی کوشش شروع کریں، کیونکہ قرآن سیکھنے اور سمجھنے کے لئے عمر کی کوئی قید نہیں، اللہ جب ہدایت دے رہا تو ضرور اس طرف توجہ دینی چاہیے ۔

تجویدی قاعدہ قرآن سیکھنے میں بہت رہنمائی کرتا ہے، اس سے بالکل صحیح طریقے سے قرآن کریم کی تلاوت کی جا سکتی ہے ۔ اس کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں :

سبق کے شروع میں حاصلات تعلم کے تحت سبق کا بنیادی مقصد اجاگر کیا گیا ہے ۔ اسباق کے متعلق شروع اور آخر میں اساتذہ کرام و طلبہ کے لیے ضروری ہدایات دی گئی ہیں ۔ اسباق اور مشقوں میں حروف و حرکات کو مختلف رنگوں کے ذریعے سبق کے مطابق نمایاں کیا گیا ہے ۔ اسباق میں صرف قرآنی مثالوں کا اہتمام کیا گیا ہے ۔

ہجے اور جوڑ کرنے کا طریقہ ، وقف کا طریقہ مثالوں کے ساتھ اور اہم قواعد تجوید ایک ہی اسلوب میں لکھے گئے ہیں ۔

جن کلمات کے لکھنے اور پڑھنے کا طریقہ مختلف ہے ، ان میں اہم کلمات کی وضاحت کی گئی ہے ۔اسباق کے باہمی ربط کو ملحوظ رکھ کر انھیں ترتیب دیا گیا ہے ۔ قرآنی رموز اوقاف کے ساتھ اہم قرآنی معلومات کا اضافہ بھی کیا گیا ہے ۔

قران مجید کی آخری چار سورتیں بھی شامل کی گئی ہیں ۔ دارالسلام نے اسے شائع کرکے بہت احسان کیا ہے ۔ اس کتابچے کو ہر گھر میں ہونا چاہیے تاکہ قرآن پڑھنے میں کسی قسم کی مشکل پیش آئے تو اس سے رہنمائی لی جا سکے ۔

پاکستان پر قربان
مصنف: محمود شام، قیمت:1400روپے
صفحات: 332، ملنے کا پتہ: بک ہوم، مزنگ روڈ ، لاہور (03014568820)


پیپلز پارٹی کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے، آمریت کو جس طرح سے اس جماعت نے شکست دی کسی اور جماعت کو ایسا فخر حاصل نہیں ۔

جنرل ایوب خان کا مارشل لاء لگا تو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا تب ذوالفقار علی بھٹو نے ایوب خان کی پالیسیوں سے اختلاف کر کے حکومت سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور مارشل لاء کا خاتمہ کیا ، جنرل ضیاء الحق کا مارشل لاء بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا ، اسے بینظیر بھٹو نے ختم کیا ، تیسرا مارشل لاء جنرل پرویز مشرف کا تھا اسے بھی پیپلز پارٹی نے ختم کیا ، شاید یہی وجہ ہے اس پارٹی کو سیاسی قربانیاں بھی زیادہ دینا پڑیں ۔

محترمہ بینظیر بھٹو نے پاکستان میں جمہوریت کی بقاء کے مسلسل جدوجہد کی ، ان کی سیاسی بصیرت اور قابلیت نے انھیں عالمی سطح کا رہنما بنا دیا ۔ وہ ہر مسئلہ جمہوری اور سیاسی انداز میں حل کرنے پر زور دیتی تھیں ، ان کا یہ کردار غیر جمہوری رویے رکھنے والے عناصر کو شدید ناپسند تھا اسی لئے انھوں نے سازشوں کے جال بچھائے رکھے اور بالآخر انھیں شہید کر دیا ۔

زیر تبصرہ کتاب میں معروف سینئر صحافی ، شاعر و ادیب محمود شام نے بڑی خوبصورتی سے اپنے تاثرات قلم بند کئے ہیں ، وہ گویا قاری کو انگلی سے لگائے پیپلز پارٹی کے گلی کوچوں میں لئے گھومتے ہیں، جو کچھ انھوں نے لکھا، جو کچھ دیکھا اور جو محسوس کیا وہ سب بیان کر دیا ہے ۔ ان کا انداز بڑا تاثر انگیز ہے ، قاری کتاب شروع کرنے کے بعد اس میں گویا ’گم‘ ہوتا چلا جاتا ہے ۔ کتاب کے آخر میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا قوم کے نام پیغام شامل کیا گیا ہے ۔

بینظر بھٹو، نصرت بھٹو کے چند خطوط اور اخباری تراشے بھی شامل ہیں ، کتاب کو رنگین تصاویر سے مزین کیا گیا ہے ۔

بڑی شاندار کتاب ہے پیپلز پارٹی اور بینظیر بھٹو کی زندگی کے حوالے سے تاریخی ماخذ ہے ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔

تبصرہ نگار: عبید اللہ عابد
: عورت کا جنت میں جانا آسان ہے
تحقیق و تالیف : ڈاکٹر اختر احمد، الحاج محمد حسین گوھر، قیمت : 800 روپے
ناشر : گولڈن بکس، PHA فلیٹس نزد UET لاہور، رابطہ: 03335242146


معاشرے کی اصلاح صرف مردوں ہی کی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ عورتوں کی بھی ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ عورتوں کی ذمہ داری زیادہ ہے کیونکہ ان کی تعداد 55 فیصد کے قریب ہے ۔ کہتے ہیں کہ آنگن کے سکون کی قیمت نہیں ہوتی! اگر ہمارے گھر پرسکون اور جنت نما بن جائیں تو پورا معاشرہ جنت نظیر اور پرسکون بن سکتا ہے۔ ایسے ہی معاشرے تعمیر و ترقی کی بلندیاں تیزی سے طے کرتے ہیں۔

ظاہر ہے کہ گھریلو ماحول کو شاندار بنانے میں عورت کا کردار اہم ترین ہے۔ اس کردار کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے مولفین نے یہ کتاب مرتب کی اور وہ اب اسے ایک مشن کی صورت میں لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کتاب آپ کی اور آپ کے پیاروں کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے گی ۔ یہ کتاب خواتین کو سکھاتی ہے کہ عورتیں اپنے گھروں میں محبت کا جادو کیسے جگا سکتی ہیں؟ ایک مثالی ماں کی کون سی خصوصیات ہوتی ہیں اور ایک جنت نما گھر کن خصوصیات کا حامل ہوتا ہے ۔

گھروں میں پیدا ہونے والی مشکلات اور پریشانیوں کی وجوہات کیا ہیں اور پھر ان کے متعدد حل بھی بتائے گئے ہیں ۔ مولفین کا دعویٰ ہے کہ کتاب میں ایسی قیمتی تجاویز دی گئی ہیں جن عمل کرنے سے آپ کی زندگی یکسر تبدیل ہو جائے گی۔

40 علمی نشستیں


تصوف کا عام مفہوم تو صوفیا کا طرز زندگی ہے لیکن درحقیقت یہ زندگی بسر کرنے کا ایسا اسلوب ہے جس کی تاثیر سے روحانی آلائیشوں سے چھٹکارا حاصل ہو، جسے ہم تزکیہ نفس بھی کہتے ہیں۔ تصوف کے حوالے سے تصادم کی کیفیت تب پیدا ہوتی ہے جب اس سے ترک دنیا مراد لے لیا جائے خواہ وہ مکمل ہو یا جزوی۔ دین اسلام کا انسان سے تقاضا یہی ہے کہ دنیاوی امور سے منہ موڑے بغیر تزکیہ نفس کا اہتمام ہو اور احسان کی روش اختیار کی جائے۔

معاشرے کی اصلاح کے لئے دین کی رہنمائی تو اپنی جگہ ایک مسلمہ حقیقت ہے لیکن علماء دو طرح کے نقطہ ہائے نظر کے تحت اس مقصد کے لئے مساعی کرتے چلے آئے ہیں اور اپنے اپنے نقطہ نظر کے اثبات میں دلائل بھی دیتے ہیں۔

ایک طریقہ تو یہ ہے کہ مادی مظاہر اور جسمانی سطح پر رہنمائی کو اولیت حاصل رہے، دوسری جانب دین سے قربت پیدا کرنے کے لئے ذہنی اور روحانی بالیدگی کے حصول کو اہم ترین مقصد قرار دینے والے علماء ہیں۔ یہی دوسرا طریقہ صوفیا کا ہے۔

اس ضمن میں ایک مغربی مذہبی دانشور لوئی ماسینیئون (Louis Massignon) کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا۔ لوئی ماسینیئون (1883-1862) کیتھولک مسیحی اسکالر تھے جنہیں کیتھولک ، مسلم مذہبی ہم آہنگی کے لئے کوششوں کی بنا پر جانا جاتا ہے۔

گوکہ ان کے نظریات کو ان کے اپنے فرقے اور مسلم طبقے، دونوں کی جانب سے مخالفانہ تنقید کا سامنا رہا، لیکن تصوف کو ’داخلیت اسلام‘ قرار دینے کی اُس کی بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے۔ بے شک اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلوں پر پوری جامعیت کے ساتھ رہنمائی فراہم کرتا ہے لیکن تصوف کی تعلیمات میں روحانی پہلوئوں کی آبیاری کے ذریعے باقی پہلوئوں کی اصلاح کا اہتمام ہوتا ہے۔

ممکن ہے کہ کہیں پر نماز کی ادائیگی کو قانوناً لازم قرار دے دیا جائے اور نمازیوں کی حاضری لگنا شروع ہوجائے‘ دیگر عبادات کو یقینی بنانے کا بندوبست کرلیا جائے لیکن صوفیا کے نزدیک باطنی تبدیلی کے ذریعے عبادات کی پابندی سے جو نتیجہ مطلوب ہے اُس پر توجہ مرکوز رہنی چاہیے۔

یہ انسان کو اندر سے بدل دینے کا ایسا عمل ہے جس کے نتیجے میں خیر انسان کے عمومی رویئے کا حصہ بن جائے اور یہی خالق کائنات کا بھی مقصود ہے۔

ہم برصغیر ہی کی مثال لے لیں تو یہاں اسلام کے ساتھ وابستگی کو پُرکشش بنانے میں صوفیا کے طریقہ کار نے کلیدی کردار ادا کیا۔ کیونکہ کہے یا لکھے خیر کے کلمات بجا طور پر اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں لیکن ان پُرکشش الفاظ کی انسانی رویئے میں تجسیم انسان کو اسیر کرلیتی ہے اور یہی اسیری باطنی تبدیلی کے آغاز کی شرط اول ہے۔

رب تعالیٰ نے روز آخرت تک کے لئے انسان کی روحانی رہنمائی کا اہتمام اس دنیا میں کررکھا ہے اور ہمیشہ ان روحانی مناصب پر متمکن ہستیاں یہ کارخیر انجام دینے کے لئے موجود رہیں گی۔ سید سرفراز احمد شاہ بھی انہی ہستیوں میں سے ایک ہیں جو عرصہ دراز سے عوام و خواص کو روحانی رہنمائی کے ذریعے دنیاوی آسانیاں بانٹنے کا اہتمام کررہے ہیں۔

تشلیک کے اندھیرے میں منزل کی جانب لے جانے والی راہیں روشن کررہے ہیں۔ جب کبھی شاہ صاحب کے ہاں حاضری کا موقع نصیب ہوا عافیت کا احساس ہوا، اُمید توانا ہوئی اور رب تعالٰی کی رحمت پر یقین کو توانائی ملی۔ تین دہائیوں سے زائد عرصے سے شاہ صاحب ہر ہفتے دعائیہ نشست کا اہتمام کرتے تھے اور دُعا سے پہلے گفتگو کی نشست بھی ہوا کرتی تھی۔ لاکھوں لوگ اُن کی گفتگو سے فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔

بعد میں انہی نشستوں کو کتابی شکل میں شائع کرنے کے سلسلے کا اہتمام کیا گیا تو یکے بعد دیگرے ’کہے فقیر‘ ’فقیر نگری‘ ، ’لوح فقیر‘ ، ’ارژنگ فقیر‘ ، ’نوائے فقیر‘ ، ’عرض فقیر‘ ، ’فقیر رنگ‘ ، ’جہان فقیر‘ اور ’حرف فقیر‘ کے نام سے نو کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن کے کئی کئی ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔

اب کچھ عرصہ سے معروف موٹیوشنل مقرر اور لکھاری سید قاسم علی شاہ کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے شاہ صاحب نے ہفتہ وار علمی و فکری نشستوں میں گفتگو کا سلسلہ شروع کیا۔ قاسم علی شاہ نے اس بیش قیمت گفتگو پر مبنی نشستوں میں سے چالیس کا انتخاب زیر نظر کتاب ’ 40 علمی نشستیں ‘ کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا ہے،جو بجا طور پر اخلاقی، روحانی اور فکری حوالوں سے اہم معاشرتی خدمت ہے۔

گفتگو کی ان نشستوں کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اس میں شامل موضوعات کے ذریعے اُن سوالات کا جواب فراہم کیا گیا ہے جو عموماً مثبت انسانی رویوں کے اظہار اور ذاتی اطمینان قلب کے حصول میں رکاوٹ بنے رہتے ہیں۔ قصہ مختصر اس کتاب کا مطالعہ انسان کو وہ ذہنی سکون اور یکسوئی عطا کرتا ہے جس کا وہ اس دور ابتلا و انتشار میں متلاشی رہتا ہے۔ کتاب میں شامل صرف چند موضوعات یہاں بیان کئے جا رہے ہیں۔

٭موت کا خوف کیسے دور ہو ٭عبادت کا اصل مقصد ٭اسم اعظم ٭فوت شدگان سے معافی ٭بچوں کی تربیت ٭صبر اور برداشت میں فرق ٭معاشرتی اقدار اور بہو ٭عام اور پروفیشنل زندگی میں فرق ٭مرشد کے بغیر رب تک رسائی ٭حادثہ اور اللہ کی حکمت ٭لومیرج یا ارینجڈ میرج ۔۔۔ کامیاب کون؟ ٭جدید ٹیکنالوجی اور اُمت مسلمہ ٭خوابوں کی حقیقت ٭سرفراز شاہ صاحب کا انداز مطالعہ ٭کالا جادو اور نفسیاتی بیماریاں ٭بابائے قوم محمد علی جناح ٭رشتے طے کرنے میں اہم امور ٭انسانی صحت اور طب نبوی ٭طلاق کا بڑھتا ہوا رجحان ٭رزق کی تنگی کا سبب ٭ بیعت لینا ضروری ہے؟

شاہ صاحب کی پہلے شائع ہونے والی کتابوں کی طرح اس کتاب کی پیشکش کا معیار بھی شاندار ہے جسے نئی سوچ پبلشرز، آفس نمبر 47,46 فرسٹ فلور ہادیہ حلیمہ سنٹر، غزنی اسٹریٹ اُردو بازار لاہور 042-37361416 نے شائع کیا ہے۔ قیمت 1200 روپے ہے۔

(تبصرہ نگار :غلام محی الدین)

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

باچاخان اور قائداعظم

$
0
0

ہم اکثر اوقات یہ جملہ سنتے، بولتے اور پڑھتے ہیں کہ تاریخ سے ہم نے فقط یہ سیکھا کہ کچھ بھی نہیں سیکھا۔ مگر میں بصد احترام یہ کہنے کی جسارت کررہا ہوں کہ ویسے تو یہ بات پختونوں پر سو فی صد صادق آتی ہے کہ یہ دنیا کی واحد قوم ہے کہ آج تک اپنی تاریخ سے نہ کچھ سیکھا اور نہ ہی سیکھنے کی کوشش کی۔ سب سے افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ اس قوم کی اکثریت آج تک اپنی اصل تاریخ سے بے خبر ہے۔

ظاہر ہے کہ جو قوم اپنی اصل تاریخ سے نابلد ہو تو پھر وہ کس سے اور کہاں سے کچھ سیکھے گی؟ خصوصاً عصرحاضر میں پختونوں کی نئی نسل اول تو سوشل میڈیا میں اس قدر مشغول ہوچکی ہے کہ کوئی مضمون یا کتاب پڑھنا اور اس سے کچھ علم اور سبق حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہیں رہا اور جو پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں انہیں بھی ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے رائج نصاب تعلیم میں شامل مطالعہ پاکستان میں تحریک آزادی کے بارے میں وہ اسباق پڑھائے جارہے ہیں۔

جن کا اصل اور سچی تاریخ سے کوئی ٹھوس تعلق ہی نہیں بنتا، کیوںکہ اس تاریخ میں جھوٹ، شخصیت پرستی، مفاد پرستی اور مبالغے سے اس قدر کام لیا گیا ہے کہ اصل تاریخ کے چہرے پر پردہ ڈال دیا گیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے اذہان میں تحریک آزادی کے حوالے سے اصل اور سچی تاریخ کے بالکل برعکس جو واقعات، شخصیات اور حالات بٹھا دیے گئے ہیں اور ان کی آنکھوں کو ایک ’’مخصوص رنگ‘‘ کی عینکیں پہنادی گئی ہیں، جس کی وجہ سے انہیں ہر چیز اسی رنگ میں رنگی نظر آتی ہے۔

کسی چیز کی اصل شکل وصورت اور رنگ آپ کو تب نظر آسکتا ہے جب آپ اپنے مخصوص رنگ کی عینکیں اتار کر کسی کو دیکھیں گے۔

جھوٹ پر مبنی تاریخ کے مقابل جب ہمارے بچے اور جوان اصل اور سچی تاریخ سنتے اور پڑھتے ہیں تو کنفیوز ہوجاتے ہیں کہ ’’یاالہیٰ یہ ماجرا کیا ہے‘‘ اگرچہ اپنی اصل تاریخ سے شناسائی کے لیے جستجو کرنا گویا خود سے شناسائی حاصل کرنے کی طرف اہم قدم ہوتا ہے اور جو قوم اپنی اصل تاریخ سے بے خبر ہوتی یا اپنی تاریخ کو بھول جاتی ہے پھر تاریخ اسے کسی اور حوالے سے یاد رکھتی ہے۔

مشہور کہاوت ہے کہ ’’اگر تم اپنے ماضی کو پستول سے ماروگے تو مستقبل تمہیں توپ کا نشانہ بنائے گا۔‘‘ اس حوالے سے تو پھر پختون قوم کا کوئی ثانی ہی نہیں ہوسکتا۔

جب تک اس قوم کے بارے میں خود تاریخ چیخ چیخ کر نہیں کہہ اٹھتی اسے نہیں پکارتی کہ ’’ اے غافل افغان‘‘ یہ قوم غافل ہی رہتی ہے۔ اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں کہ پختونوں نے اپنے ماضی اور تاریخ کو ان گنت گولیوں سے بارہا چھلنی کیا ہے، جو درجہ بالا کہاوت کے دوسرے حصے کا زندہ ثبوت ہے۔

بہرحال آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف جو خدائی خدمت گار تحریک کے بانی خان عبدالغفار خان المعروف باچاخان اور قائد اعظم محمدعلی جناح کے مابین بہتر تعلق اور بعد میں اس تعلق کی کہانی سناتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ اس دوستی میں کس نے اور کیوںکر رنجشیں اور دوریاں پیدا کیں۔

کس طرح اس وقت کے ایک مخصوص ٹولے نے اپنے مفادات کے حصول کی خاطر دونوں عظیم محب وطن راہ نماؤں کے اچھے باہمی تعلق، رشتے اور راستے میں روڑے اٹکائے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے دور رکھنے کی تدبیر کی ار خصوصاً نوزائیدہ ملک پاکستان کے پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح کے ذہن میں باچاخان، خدائی خدمت گار تحریک اور خدائی خدمت گاروں کے بارے میں بداعتمادی، دوری اور بدگمانی پیدا کرنے کے لیے کن کن ہتھکنڈوں، ریشہ دوانیوں، سیاسی چالوں اور سازشوں سے کام لیا گیا۔

باقاعدہ ریاستی مشینری جس میں اس وقت کے ایک مخصوص پرنٹ میڈیا گروپ نے بھی غیرجانب دار صحافت کے اصولوں کو پامال کرتے ہوئے وہی شائع کیا وہی لکھا جو ایک مخصوص مفاداتی ٹولے کا مقصد اور ایجنڈا پورا کررہا تھا۔

باچاخان اور خدائی خدمت گار تحریک کو عوام کی نظروں میں گرانے، بدنام کرنے اور اسے ملک دشمن ثابت کرنے کے لیے کیا کیا حربے اور طریقے استعمال نہیں کیے گئے۔

لوگوں سے کتنا جھوٹ بولا گیا، کیا کیا پروپیگنڈے نہیں کیے گئے۔ باچاخان اور خدائی خدمت گار تحریک کو دیوار سے لگانے اسے کم زور اور عوام کی نظروں میں گرانے، اسے کچلنے اور مٹانے کے لیے قیوم خان اور ان کے ہم پیالہ اور ہم نوالہ افراد نے اس تحریک کے چاہنے والوں دیوانوں پر ظلم وجبر کے جو پہاڑ توڑے۔ یہ شرم ناک باب ہماری اصل تاریخ کا وہ حصہ ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اور سر شرم سے جھک جاتا ہے، مگر بقول شاعر

لکھ لکھ کے میرا نام مٹائے گا کہاں تک

وہ مجھ کو زمانے سے چھپائے گا کہاں تک؟

گذشتہ دنوں میں نے خان عبدالقیوم خان کی لکھی ہوئی کتاب gold and gun the pathan frontiers ، جس کی اشاعت و تقسیم پر خود قیوم خان نے پابندی عائد کردی تھی، کا اردو ترجمہ جو ملک کے معروف ادیب اور صحافی فاروق قریشی نے کیا ہے، کے بارے میں فیس بک پر ایک پوسٹ لکھی، جسے پڑھنے کے بعد تاریخ سے لگاؤ رکھنے والے بہت سے ساتھیوں نے بذریعہ میسنجر اور واٹس اپ اس خواہش کا اظہار کیا کہ اس موضوع پر تفصیل سے لکھنا چاہیے تاکہ اصل حقائق سے قوم کے سامنے آئیں۔

سو اپنے ان چاہنے والوں کی شدید خواہش کو مدنظر رکھتے ہوئے اس تحریر میں صرف باچاخان اور محمدعلی جناح کے بارے میں پیدا کردہ چیدہ چیدہ غلط فہمیوں اور انھیں ایک دوسرے سے دور رکھنے کی ریشہ دوانیوں تک محدود چند تاریخی واقعات آپ کے سامنے لانے کی ایک سعی ہے۔ اگر کوئی تاریخ کے طالب علم اور شوقین اس بارے میں مزید تفصیل سے جاننا چاہتا ہو تو اسے مذکورہ کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔

ملاحظہ کریں اس کتاب کے ترجمے میں شامل فاروق قریشی کے مقدے سے ایک اقتباس،’’23فروری 1948ء کو باچاخان نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے اجلاس میں پہلی مرتبہ شرکت کی۔ وہ چاہتے تو ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی کے حسب سابق رکن رہ سکتے تھے، لیکن انہوں نے پاکستان کی اسمبلی کا رکن رہنے کو ترجیح دی اور حلف وفاداری اٹھایا۔ اس پر بانی پاکستان قائد اعظم محمدعلی جناح بہت خوش ہوئے۔

انہوں نے باچاخان کو چائے پر مدعو کیا۔ دونوں عظیم راہ نماؤں میں ملکی مفادات کے بارے میں گفتگو ہوئی۔

ماضی کی شکررنجیاں اور چشمک کا دور لد گیا۔ قائد اس حد تک مسرور تھے کہ انہوں نے باچاخان سے بلا تکلف کہا،’آج میرا پاکستان کا خواب پورا ہوگیا۔‘ باچاخان کا کہنا تھا کہ قائد اعظم بڑے تپاک اور گرم جوشی سے ملے اور انہوں نے مصافحہ کیا اور خلاف معمول معانقہ بھی۔ وہ واپسی پر کار تک چھوڑنے آئے۔

اپنے ہاتھ سے دروازہ کھولا اور کار کی روانگی تک کھڑے رہے۔ قائد اعظم کے حسن اخلاق نے باچاخان کو بھی بہت متاثر کیا۔

اس ملاقات کی کام یابی اور اس پر خوشی کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قائد اعظم نے مزید گفت وشنید کے لیے انہیں اگلے روز کھانے پر مدعو کیا۔ کھانے کے بعد قائد اعظم اور باچاخان کو ایک علیحدہ کمرے میں لے گئے جہاں ایک گھنٹے تک دونوں راہ نماؤں کے درمیان پاکستان کے مستقبل کے بارے میں بات چیت ہوئی۔

قائداعظم نے باچاخان سے پوچھا، اب آپ کا کیا پروگرام ہے؟ باچاخان نے کہا کہ اب آزادی حاصل ہوگئی ہے، میں خدائی خدمت گار تحریک کا پرانا اصلاحی پروگرام شروع کرنا چاہتا ہوں۔ باچاخان نے قائد اعظم کو خدائی خدمت گار تحریک کے اغراض ومقاصد بتائے اور واضح کیا کہ انگریزوں نے کس طرح اس سوشل تحریک کا رخ سیاست کی طرف موڑا تھا۔

باچاخان کی باتیں سن کر قائد اعظم اپنی نشست سے بڑے پرجوش انداز میں اٹھ کھڑے ہوئے اور خلاف عادت باچاخان کو گلے سے لگالیا اور کہا کہ ’’ایسے کام کے لیے میں ہر قسم کی مدد کروں گا‘‘ باچاخان نے جواب دیا کہ ’’مجھے صرف آپ کے اعتماد اور اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ اس موقع پر قائد اعظم نے کہا کہ’’میں ملک کا آئینی سربراہ ہوں۔

میری نظر میں سب جماعتیں یکساں حیثیت رکھتی ہیں۔‘‘ باچاخان نے قائداعظم کو صوبہ سرحد کا دورہ کرنے کی دعوت دی۔ قائد نے بتایا کہ سرحد کا دورہ کرنے کا ان کا پروگرام ہے۔

جب وہ سرحد آئیں گے تو خدائی خدمت گاروں کے ہیڈ کوارٹر (سردریاب) کا بھی دورہ کریں گے اور وہاں خدائی خدمت گاروں کے دیگر لیڈروں سے ملاقات کریں گے۔ نیز قائداعظم نے باچاخان سے یہ بھی کہا کہ وہ چالیس ہزار چرخے بنوانے کا بندوبست کریں قائداعظم تعمیری پروگرام کی ابتدا اپنے ہاتھ سے چرخہ چلا کر کرنا چاہتے تھے۔

اس ملاقات کے بعد پھر کیا ہوا ملک کی سیاسی فضاء میں ایک پرامن اور خوش گوار صورت پیدا ہونے کے قوی امکانات صاف نظر آنے لگے۔‘‘ ایسے قوی امکانات جن کے رونما ہونے سے سازشوں، غلط فہمیوں، دوریوں، ریشہ دوانیوں کا خاتمہ اور نوزائیدہ ملک حقیقی معنوں میں آئینی، قانونی اور جمہوری خطوط پر استوار ہوکر آگے بڑھنے کا بہترین موقع میسر آتا۔ اور اسلام کے نام نہاد غم خواروں اور ہوس اقتدار کے بھوکوں کا راستہ روکنے کا بھی قوی امکان پیدا ہوتا۔

دونوں راہ نماؤں کی اس خوش گوار اور دوستانہ ماحول میں ہونے والی ملاقات سے سازشی ٹولے کے پیٹ میں مروڑ پیدا ہوگیا اسے اپنا مستقبل تاریک نظر آنے لگا۔ ایک تو ملاقاتوں سے فضاء خوش گوار ہوگئی تھی دوسرے 5 مارچ1948ء کو پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی میں باچاخان کی تقریر سے ماحول مزید خوش گوار اور بہتر ہوگیا۔

اپنی تقریر میں باچاخان نے واضح الفاظ میں کہا،’’بے شک میری رائے تھی کہ ہندوستان تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ میرے اختلاف کی وجہ وہ نتائج ہیں جو ہندوستان میں آج سامنے آرہے ہیں، ہزاروں نوجوان، بوڑھے، بچے اور عورتیں قتل ہورہی ہیں۔

لیکن اب ملک تقسیم ہوچکا ہے۔ ہمارا تنازعہ ختم ہوگیا ہے۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا اور اس ایوان کے سامنے اعلان کرتا ہوں کہ میں اور میری جماعت ملک کی تعمیر اور ترقی کے لیے آپ کی ہدایت پر عمل کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔‘‘ اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے باچاخان نے نوزائیدہ ملک پاکستان کے بارے میں اپنا تصور بیان کرتے ہوئے،’’پاکستان کے بارے میں میرا تصور یہ ہے کہ یہ آزاد پاکستان ہو، یہ کسی خاص فرقے یا فرد کے زیرتسلط نہ ہو۔

پاکستان پر اس ملک کے باشندوں کا یکساں حق ہونا چاہیے۔ اس کے وسائل سے سب لطف اندوز ہوں اور چند لوگوں کو اس کا استحصال کرنے کا حق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔ اس ملک پر اس کے عوام کی حکم رانی ہونی چاہیے۔‘‘

پھر ہوا یوں کہ روزنامہ ’’پاکستان ٹائمز‘‘ نے قائداعظم کے دورۂ سرحد کے موقع پر باچاخان سے ملاقات اور ان کی طرف سے ضیافت میں شامل ہونے کی خبر شائع کی۔ خبر کی تفصیل میں بتایا گیا تھا کہ قائداعظم باچاخان کی خصوصی دعوت پر بذریعہ موٹر کار سردریاب جائیں گے، مگر بعض اخبارات کو اندرون خانہ اور زیر زمین سازشوں کا علم نہ ہوسکا اور سازشی ٹولے نے اپنا کام کردکھایا اور گورنرجنرل کے دل میں طرح طرح کے وسوسے ڈالنے میں کام یاب ہوگئے۔

قائد کو بتایا گیا کہ اگر وہ خدائی خدمت گاروں کے ہیڈکوارٹر سردریاب چلے گئے تو انہیں جان سے مار دینے کا منصوبہ بنایا گیا ہے، لہٰذا گورنرجنرل اس وقت کے گورنر ڈانڈاس پریمیئر، قیوم خان اور دیگر ابن الوقتوں کے دام میں پھنس گئے اور سردریاب جانے سے انکار کردیا۔ انکار کے لیے عذر یہ تراشا گیا کہ گورنر جنرل نے سرکاری ضیافتوں کے علاوہ کسی بھی دیگر ضیافت میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔

ظاہر ہے یہ فیصلہ فوری اور ہنگامی طور پر کیا گیا تھا۔ اگر اس پر عمل ناگزیر تھا تو بھی خدائی خدمت گاروں کی ضیافت کو اس سے مستثنیٰ اس وجہ سے ہونا چاہیے تھا کہ اس دعوت کو قائداعظم مارچ میں قبل ازیں قبول کرچکے تھے، لیکن باچاخان کو شکایت تھی کہ گورنرجنرل نے قیام صوبہ سرحد کے دوران غیرسرکاری ضیافتوں میں تو شرکت کی مگر خدائی خدمت گاروں کو خدمت کرنے کا موقع نہ دیا۔

اگر چہ اس دورے میں گورنرجنرل نے مسلم لیگ کے جلسے میں بھی شرکت کرکے اپنی غیرجانب داری کو بری طرح مجروح کیا، کیوںکہ مسلم لیگ کے جلسۂ عام میں ان کی شرکت اپنے اس دعوے سے یکسر متصادم تھی، جس کا اظہار انہوں نے باچاخان سے ملاقات میں کیا تھا کہ’’میں اب ملک کا گورنرجنرل ہوں میرے نزدیک سب جماعتیں یکساں ہیں اور میں سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہوں۔‘‘ جلسۂ عام میں گورنر جنرل نے جن خیالات کا اظہار کیا اس سے واضح جانب داری جھلکتی تھی۔

ایسا لگ رہا تھا کہ وہ ملک کے گورنرجنرل نہیں بلکہ مسلم لیگ کے مرکزی صدر ہیں۔ پہلے تو انہوں نے باچاخان کو ملاقات کے دوران مسلم لیگ میں شمولیت کی دعوت دی۔ اصولی طور پر یہ ان کے منصب اور مرتبہ کے سراسر منافی تھا۔

بعد میں جلسۂ عام میں عوام سے اپیل کی کہ وہ ’’مسلم لیگ کے جھنڈے تلے جمع ہوجائیں جیسا کہ وہ قیام پاکستان کے لیے جدوجہد کے وقت تھے۔ یہ مسلم لیگ ہی تھی جس نے صوبہ سرحد کو ہندو راج کے چنگل میں جانے سے روکا۔ آپ کیا سمجھتے ہیں آپ کی صحیح راہ نمائی مسلم لیگ کرسکتی ہے یا وہ لوگ جو ہمارے مخالف تھے۔

کیا انہیں پاکستان کی نگہداشت کرنا چاہیے یا ہمیں (بحوالہ پاکستان ٹائمز21 اپریل 1948ئ) ملک کے پہلے گورنرجنرل، بابائے قوم اور بانی پاکستان کہلوانے والے کے ان خیالات اور عمل پر تبصرہ کرتے ہوئے فاروق قریشی رقم طراز ہیں ’’قائداعظم بے شک بابائے قوم تھے اور اب بھی ہیں، لیکن انہیں مسلم لیگ کے حق میں پروپیگنڈہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ علاوہ ازیں انہوں نے اختلاف رائے کا جمہوری حق استعمال کرنے والوں کے بارے میں جو رائے زنی کی وہ افسوس ناک ہی نہیں بلکہ جمہوری اقدار وروایات کے بھی سراسر منافی تھی۔

اس سے جمہوریت کے مستقبل کو شدید ٹھیس پہنچی۔‘‘ امید ہے پڑھنے والوں پر اب یہ حقیقت کھل گئی ہوگی کہ باچاخان اور محمد علی جناح ایک دوسرے کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے ان کے مابین باہمی تعلق کیسا تھا ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے کتنا احترام اور کتنی عزت تھی۔ کس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور کس نے وعدہ خلافی کی؟ اس بات کا فیصلہ میں آپ ہی پر چھوڑتا ہوں۔

قیام پاکستان کے بعد قائداعظم محمدعلی جناح اور ان کی ہمشیرہ مادرملت فاطمہ جناح کے ساتھ اپنے ہی ارد گرد کے ٹولے نے کیا سلوک کیا دونوں بہن بھائی کی موت کیسے واقع ہوئی؟ اس قسم کے بہت سے سوالات سے اب پردہ اٹھ گیا اور مزید بھی اٹھے گا کہ تاریخ بڑی بے رحم ہوتی ہے یہ کسی کو بھی معاف نہیں کرتی۔

The post باچاخان اور قائداعظم appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4759 articles
Browse latest View live