Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4834 articles
Browse latest View live

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

14 تا 20 نومبر 2022
پیر 14 نومبر 2022

آج کا حاکم عدد6 ہے ، ایک نرم و ملائم دن کی توقع ہے۔ خوشی اور رات لانے والا دن ہوسکتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے لیے مشکل بھی ہوسکتا ہے۔

آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,4,5,6,8اور9 خصوصاً 9کا عدد یا پیدائش کا دن منگل یا نام کا پہلا حرف ص یا ط ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں2,3 اور7 خصوصاً 2 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔

صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِ صدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔

اسمِ اعظم ”یارحیم، یارحمٰن، یااللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 15 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد5 ہے۔ تیزی اور جلدبازی میں اگر آپ اپنا توازن کھو نہیں سکتے تو آج سفر کیجیے اور نیا معاہدہ ہوسکتا ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,2,5,6,7اور9 خصوصاً 1 کا عدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا، ی یا غ ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3,4اور8 خصوصاً 8 یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ح یا ف ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کی فیملی کو دینا بہتر عمل ہوگا۔

وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 16 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد 2 ہے۔ دوستوں سے ملاقات اور مادی امور میں کام میں بہتری کی امید کی جاسکتی ہے۔

1,3,4,5,8اور9 خصوصاً 4کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف د،م اور ت ہے تو آپ کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,6 اور 7 خصوصاً 6 یا پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و یا س ہے تو آپ کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔

صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص”یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 باردرودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 17 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد 1 ہے۔ کچھ مشکلات آپ کی راہ میں پہاڑ ہوسکتی ہیں۔ اپنا حوصلہ ان سے بلند رکھیں اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,2,4,5,6اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ یا ن ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 3,7اور8 خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز اور ع ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: میٹھی چیز 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔

وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درود شریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 18نومبر 2022
آج کا حاکم عدد 5 ہے۔ 5 اور8 کے دونوں اعداد جہاں ایک ساتھ آجائیں ایک سرخ نشان لگادیتے ہیں خیر کی دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں1،2،5،6،7اور9 خصوصاً 1 کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ا، ی یا غ ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش3,4 اور8 خصوصاً 8 کا عدد یا پیدائشی دن ہفتہ یا جن کے نام کا پہلا حرف ح یا ف ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔ صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 19 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد8 ہے۔ اندیشہ ہے کہ کل کی خرابی کے اثرات یا حملے آج کی دن کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں نہایت محتاط ہونے کی ضرورت ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں2,3,4,6,7اور 8 خصوصاً 7 یا پیدائشی دن پیر یا نام کا پہلا حرف ز یا ع ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,5اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائشی دن بدھ یا نام کا پہلا حرف ہ یا ن ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 80 یا 800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص”یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 20 نومبر 2022
آج کا حاکم نمبر 2 ہے۔ دو کا عدد ایک کی تپش کو نرم بناتا ہے۔ امید ہے گذشتہ دو روز کی خرابیاں آج دور ہوجائیں گی۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,3,4,5,8اور9 خصوصاً4 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف د، م یا ت ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,6 اور7 خصوصاً 6 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و یا س ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل،کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔

وظیفۂ خاص”یاحی، یاقیوم، یااللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.


لیری ایلیسن…کمپیوٹر پروگرامنگ کی دنیا کا جادوگر

$
0
0

محنت، جدوجہد اور کچھ کر گزرنے کے عزم پر مبنی یہ کہانی ہے،لیری ایلیسن کی، جن کی بیوی نے انہیں یہ کہہ کر طلاق دے دی تھی کہ ’’تم ایک غیر ذمہ دار شخص ہو، تمہاری زندگی میں کوئی منزل اور مقصد نہیں ہے۔‘‘ لیکن آگے چل کر یہی لیری ایلیسن دنیا کی سب سے بڑی ڈیٹا بیس کمپنی ’اوریکل کارپوریشن ‘ کے بانی بنے اور 2020میں انہیں دنیا کا 7واں امیر ترین انسان قرار دیا گیا۔

آج ان کی پاس اتنی دولت ہے کہ یہ پلک جھپکنے میں دنیا کی سب سے اونچی بلڈنگ برج خلیفہ جس کی مالیت 1.5ارب ڈالر ہے اور دنیا کی سب سے مہنگی رہائش گاہ یعنی بکنگھم پیلس(4.5 بلین ڈالر) بھی خرید سکتے ہیں۔ بلوم برگ بلین ایئر انڈیکس کے مطابق 2022 میں لیری ایلیسن کی دولت 90ارب ڈالر ہے۔

لیری ایلیسن کو ٹیکنالوجی انڈسٹری میں ایلون مسک اور بل گیٹس جیسی شخصیات کی طرح ایک عظیم شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

آپ ان کا لائف سٹائل دیکھیں تو دنگ رہ جائیں گے۔ان کے پاس اپنے ذاتی لگژری ہوائی جہاز ، پُرکشش گاڑیاں، قیمتی یاٹس، کروڑوں ڈالر کی مہنگی رہائش گاہیں، حتی کہ اپنے ذاتی آئی لینڈز بھی ہیں۔ لیکن لیری کی زندگی ہمیشہ سے اتنی شاہانہ نہیں تھی اور نہ ہی انہوں نے کسی ارب پتی گھرانے میں آنکھیں کھولیں، بلکہ یہ تو 1944 میں امریکا کے ایک پسماندہ ترین علاقے کے متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔

لیری کی بدقسمتی یہ رہی کہ ان کی پیدائش کے وقت ان کی ماںپھیپھڑوں کی انتہائی خطرناک عارضے میں مبتلا تھیں۔ ابھی یہ صرف 2برس کے تھے کہ ان کی والدہ نے بیماری کی وجہ سے ان کی پرورش کی ذمہ داری اپنی بہن کو دے دی۔ 15برس کی عمر تک لیری کے رضاعی والدین نے اِن سے یہ بات چھپائے رکھی کہ اِن کے حقیقی والدین تو اب اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔

لیری کے رضاعی والد اگرچہ ایک سرکاری ملازم تھے، لیکن کم تنخواہ اور زیادہ اخراجا ت کی وجہ سے اِن کے خاندان کی زندگی کسمپرسی میں گزری۔ یوں سمجھ لیں کہ لیری نے اس دنیا میں آنکھیں کھولنے کے بعد سے صرف غربت اور پریشانیاں ہی دیکھیں۔ لیکن ان کے لیے کبھی بھی غربت کوئی بڑا مسئلہ نہیں رہا۔

کیونکہ انہیں بچپن میں ہی اپنے اندر موجود ٹیلنٹ کا اندازہ ہو چکا تھا۔ انہوں نے جب سکول میں داخلہ لیا تو ہر جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور جب یہ یونیورسٹی میں آئے تو یہاں پری میڈیکل میں کامیابی کے ایسے جھنڈے گاڑے کہ انہیں یونیورسٹی کی طرف سے ’سائنس سٹوڈنٹ آف دی ایئر‘ کے اعزاز سے نوازا گیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی اس بات کا اندازہ ہو چکا تھا کہ لیری دوسرے طالب علموں سے مختلف ہیں اور ان میں وہ ٹیلنٹ موجود ہے، جو مستقبل میں انہیں ایک کامیاب انسان بنا سکتا ہے۔

یونیورسٹی نے لیری کو اسکالر شپ آفر کردی، لیکن اسی عرصے کے دوران ان کی رضاعی والدہ انتقال کر گئیں۔ والدہ کے انتقال کا انہیں اس قدر صدمہ پہنچا کہ انہوں نے یونیورسٹی ہی چھوڑ دی۔

لیکن لیری کی بیوی اور اِن کے والد چاہتے تھے کہ یہ اپنی میڈیکل کی تعلیم جاری رکھیں ، کیونکہ اس زمانے میں شکاگو کے جنوبی علاقے میں ڈاکٹر کا پیشہ بہت اہم اور پُرکشش خیال کیا جاتا تھا۔ اس علاقے میں جو ڈاکٹر بنتا تھا، اسے عزت، دولت اور شہرت سب ملتا تھا۔

اپنے خاندان کی خواہش پر عمل کرتے ہوئے لیری نے شکاگو یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور کئی سال میڈیکلکی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش بھی کی، لیکن اس پڑھائی میں اچھی کارکردگی نہ دکھا پائے اور حالات اس نہج تک آن پہنچے کہ جہاں ایک یونیورسٹی ،ماضی میں انہیں ان کی بہترین کارکردگی پر وظیفہ دینا چاہتی تھی، وہیں دوسری یونیورسٹی نے ان کی تعلیم میں عدم دلچسپی پر انہیں یونیورسٹی سے ہی نکال دیا۔

یہاں سے مایوس ہو کر اِنہوں نے یہ سوچنا شروع کر دیا کہ ان کی دلچسپی کس چیز میں ہے۔ جلد ہی انہیں احساس ہو گیا کہ اُن کی تمام تر دلچسپیوں کا محور کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور پروگرامنگ ہے۔

اِن کی زندگی میں ٹرننگ پوائنٹ اس وقت آیا، جب 22برس کی عمر میں انہوں نے اپنے خاندان اور گھر سے دور جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے کپڑے، ٹوٹھ برش، کمبل اور گیٹار لے کر شکاگو سے کیلیفورنیا کے شہر برکلے منتقل ہو گئے۔ یہاں آکر انہیں اندازہ ہوا کہ کیلیفورینا کے شہر برکلے میں وہ اس مقام پر کھڑے ہیں جو مستقبل قریب میں سلیکان ویلی بننے والا ہے۔

بس اپنے اسی اندازے کے مدِ نظر رکھتے ہوئے انہوں نے کمپیوٹر اور پروگرامنگ کی سکلز سیکھیں  اور ساتھ ہی مختلف قسم کی عجیب و غریب نوکریاں بھی کرنا شروع کر دیں۔ یہ شام کو اپنی کمپیوٹر پروگرامنگ کی کلاس لیتے اور دن بھر راک کمبنگ اور گائیڈ کے طور پر نوکری کرتے۔ انہیں یہ نوکری کرنا پسند تو تھا، لیکن اس نوکری میں اتنے پیسے نہیں ملتے تھے کہ اِن کے گھر کا خرچا چل سکے۔

آخر جب ان کا پروگرامنگ کا کورس مکمل ہوا تو اِنہیں ایک سیلر sailer کی نوکری ملی گئی، اب انہیں یہاں سے اچھے پیسے بھی مل رہے تھے، اِن کی اپنی زندگی بھی اچھی گزر رہی تھی اور یہ کچھ پیسے اپنی بیوی کو بھی بھیج دیا کرتے تھے۔ لیکن ان کی بیوی ان کے کام سے بالکل بھی خوش نہ تھی۔ بقول لیری ، اُن کی بیوی کو یوں لگتا تھا کہ اُن کا شوہر کالج سے فارغ ہونے والا ایک ایسا نوجوان ہے، جو فضول قسم کی نوکریاں کرتا ہے۔

اور آخر اِن کی بیوی نے تنگ آ کر خود ہی انہیں طلاق دے دی اور انہیں گھر سے باہر نکال دیا۔ لیکن لیری کی بیوی کو کیا معلوم تھا کہ یہ اِن کی زندگی کی ایک بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ جس شخص کو اُنہوں نے اُس کے مالی حالات کی وجہ سے طلاق دی ہے وہ مستقبل کا کھرب پتی بننے والا ہے۔

اپنی طلاق کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے لیری نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ ’’میں اُس وقت بالکل بھی مایوس نہیں ہوا، کیونکہ میری بیوی اور میرے خاندان کے خواب مختلف تھے، جبکہ میں نے کچھ اور ہی خواب دیکھ رکھے تھے اور میں اُن خوابوں کے تعاقب میں مصروف تھا۔ ‘‘

لیری نے جب اپنی کمپیوٹر پروگرامنگ کی سکلز کو استعمال کرنے اور اِس شعبے میں کوئی اچھی نوکری تلاش کرنے کا فیصلہ کیا تو انہیں کئی ماہ تک مختلف بڑی کمپنیوں کی جانب سے یہ کہہ کر مسترد کر دیا گیا کہ وہ اپنے کام میں مہارت نہیں رکھتے۔ آخر مایوس ہو کر انہوں نے اپنے ایک دوست سے بھی رابطہ کیا ، جو ایک سافٹ ویئر کمپنی چلا رہا تھا، لیکن لیری کے دوست نے بھی انہیں ایک مالی بوجھ سمجھ کر نوکری دینے سے انکار کر دیا۔

جب لیری کو ہر طرف سے مایوسی کا چہرہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے اپنی ذاتی کمپنی کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا۔ لیری نے سیلنگ، راک کلمبنگ گائیڈ اور دیگر نوکریاں کر کے جو پیسے اکٹھے کیے تھے، وہ چند ہزار ڈالر بنتے تھے۔ ان پیسوں کو استعمال میں لاتے ہوئے لیری نے اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی کمپنی کی بنیاد رکھی، جس کا نام انہوں نے ’سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ لیبارٹریز‘ رکھا۔

اس کمپنی میں لیری اور اِن کے پارٹنرز ایک طویل عرصے تک کام کرتے رہے، لیکن انہیں کوئی خاص کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ یہاں تک لیری دن میں نوکری کرتے اور رات میں اپنے پارٹنرز کے ساتھ مل کر کمپنی کے معاملات چلاتے ۔ اس دوران اِن کا گزارا  مشکل ہو گیا ، یہاں تک کہ اِن کے گھر کے معمولی اخراجات بھی بمشکل پورے ہوتے۔ جب یہ کئی ہزار ڈالر کے مقروض ہو گئے تو اِن کے تمام قریبی دوستوں اور رشتے داروں نے بھی ان کی مدد سے صاف انکار کر دیا۔

لیکن لیری نے زندگی کے اِن کٹھن ترین لمحات سے مایوس ہونے کے بجائے آگے بڑھنے اور اپنا بوجھ خود اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ آخر امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی جانب سے لیری کی کمپنی ’سافٹ ویئر ڈویلپمنٹ لیبارٹریز‘ کو ایک کمپیوٹر ڈیٹا بیس بنانے کا پروجیکٹ مل گیا۔

لیری معروف ٹیکنالوجی کمپنی آئی بی ایم کے کمپیوٹر سائنٹسٹ ایگر ایف کوڈ کی تھیوریز سے کافی متاثر تھے، جو کہ ری لیشنل ڈیٹا بیس سے متعلق تھیں۔ یہ ڈیٹا بیس ایک ایسا سسٹم تھا، جس کے ذریعے کمپیوٹر میں معلومات کو محفوظ کیا جا سکتا ہے اور اس تک رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ لیری ایلیسن نے اپنے ٹیلنٹ اور محنت کے بل بوتے پر آئی بی این کے سائنٹسٹ کی تھیوری کو حقیقت میں بدل دیا اور سی آئی اے کو ایسا مضبوط اور طاقتور ڈیٹا بیس تیار کر کے دیا کہ بڑی بڑی سافٹ ویئر کمپنیز بھی اِنہیں داد دیے بغیر نہ رہ سکیں۔

اُس زمانے میں لیری کے تیار کردہ ڈیٹا بیس کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک انقلاب کے طور پر دیکھا گیا۔ دنیا بھر سے بڑے بڑے کمپیوٹر سائنٹسٹ لیری ایلی سن کی جانب متوجہ ہوئے کہ کیسے ایک نوجوا ن لڑکے نے صرف اپنی پروگرامنگ کی سکلز کا استعمال کر کے وہ ڈیٹا بیس تیار کر لیا، جو اُس زمانے میں بڑے بڑے سائنسدان بھی نہ بنا سکے تھے۔

آج اِس ڈیٹا بیس کو دنیا بھر کے تمام کمپیوٹر صارفین روزمرہ زندگی میں کمپیوٹر میں معلومات کو محفوظ کرنے اور اس تک رسائی پانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی یہ ٹیکنالوجی آج دنیا کے جدید ترین کمپیوٹرز میں استعمال ہو رہی ہے۔ اس ڈیٹا بیس کو لیری نے اوریکل کا نام دیا ۔

لیری نے اپنے ڈیٹا بیس کی کامیابی ہی کی وجہ سے اپنی نئی کمپنی کا نام ’اوریکل‘Oracle رکھا۔ اوریکل کی بنیاد رکھتے ہوئے لیری نے فیصلہ کیا کہ وہ امریکا کے سب سے بہترین سافٹ ویئر انجینئرز اور پروگرامرز کی ایک ایسی ٹیم بنائیں گے، جنہیں قدرت نے خداداد صلاحیتوں سے نواز رکھا ہو۔

قسمت کا کرنا کیا کہ ہوا کہ لیری کو اپنے مقصد میں غیر معمولی حد تک کامیابی ملی۔ انہوں نے اُس زمانے کے بہترین پروگرامرز کو اوریکل کمپنی کی ایک چھت تلے اکٹھا کر لیا۔ ان پروگرامرز نے اوریکل کمپنی کیلئے ایسے ایسے شاندار اینالیٹکس، ڈیٹا بیس کلاؤڈ سروسز، انٹیلی جنس بوٹس، کمپیوٹر سافٹ ویئرز اور ایپلی کمیشنز تیار کیں کہ کمپنی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرتی چلی گئی۔

آج وہی لیری ایلیسن جنہیں کوئی کمپنی پروگرامنگ کی نوکری دینے کے لیے تیار ہی نہیں تھی، اُن کی اپنی کمپنی میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد پروگرامرز، سافٹ ویئر انجینئر ا ور کمپیوٹر سائنٹسٹ کام کر رہے ہیں۔ اوریکل کمپنی اپنی 178ارب ڈالر مالیت کے ساتھ دنیا کی سب سے زیادہ مارکیٹ کپیٹل رکھنے والی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔  2010 میں لیری نے اپنے کاروبار کو وسعت دیتے ہوئے پیپلز سافٹ کمپنی 10.3بلین ڈالر کی بھاری لاگت میں خرید لی۔ یہی نہیں بلکہ لیری نے دنیا کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی کمپنی، گوگل، ایپل، سیم سنگ ، سپیس ایکس اور ٹیسلا میں بھی حصص خرید رکھے ہیں۔

لیری ایلیسن اپنی بے روزگاری کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ آپ زندگی میں لیے گئے ہر ناکامی سے نقصان اور ہر رسک سے فائدہ ہی حاصل کریں، بعض اوقات ناکامی سے آپ کچھ نیا سیکھتے ہیں ، جو ساری زندگی آپ کے کام آتا ہے، اسی طرح رسک سے پریشانیاں بھی آپ کا مقدر بن سکتی ہیں۔

لیکن یہاں ضروری یہ ہے کہ آپ نے اپنی ناکامی سے کچھ نیا سیکھا یا نہیں۔ اگر آپ نے اپنی ناکامی سے کوئی بھی ایسا سبق سیکھ لیا جو کاروبار کا آغاز کرنے میں آپ کے کام آئے تو سمجھ لیں، آپ کی ناکامی اب کامیابی میں بدل گئی ہے۔

The post لیری ایلیسن…کمپیوٹر پروگرامنگ کی دنیا کا جادوگر appeared first on ایکسپریس اردو.

’’لیاقت علی خان کو گولی پشت سے ماری گئی، قاتل سید اکبر نہیں!‘‘

$
0
0

تحریک آزادی، قیام پاکستان، ’بانیانِ پاکستان‘ اور اُن سے جڑے ہوئے بنیادی نوعیت کے مسائل اور مختلف تنازعات اور واقعات۔۔۔ بنیادی طور پر ہماری ساڑھے تین گھنٹے سے متجاوز یہ علمی ’بیٹھک‘ انھی موضوعات کے درمیان سفر کرتی رہی، پہلو در پہلو اور تہہ در تہہ۔۔۔ بُہتیرے انکشافات سے لے کر کئی دنگ کردینے والی سچائیاں۔۔۔ اور آشکار ہونے والے ان گنت نئے حقائق۔۔۔ وہ بھی ایسے، کہ جو ’جامعہ کراچی‘ کی رہایشی کالونی میں واقع ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کے دولت کدے پر اُس روز مہمان ہونے والے اِس ’طالب علم‘ کے لیے بھی یک سر نئے اور حیران کُن تھے۔۔۔ سو اسے ’سنڈے ایکسپریس‘ کے قارئین کے لیے بہت احتیاط اور پوری صحت کے ساتھ قلم بند کیا گیا ہے۔

ہمیں یقین ہے کہ تاریخ کے پَنّوں پر پڑی ہوئی دَبیز گَرد جھاڑنے کا یہ اَمر آپ کے تاریخی ذوق کی خوب آب یاری کا باعث ہوگا، ہمارے بہت سے نظرانداز پہلو اُبھریں گے اور ان کے ایک مختلف موقف اور عین منطقی استدلال سے کئی ایک مسائل پر تصویر کے دوسرے رخ بھی بہ خوبی واضح ہو سکیں گے۔۔۔

ہمارے باقاعدہ سوال جواب سے پہلے انھوں نے اپنا قابل رشک ’کتب خانہ و مطالعہ گاہ‘ دکھائی، اپنی کتاب مع دستخط ہمارے نام کی، پھر مہمان گاہ میں آتے آتے باقاعدہ سوال جواب سے پہلے ہی گفتگو تاریخی بھول بھلیوں میں چل نکلی تھی۔ الگ ملک ’متحدہ بنگال‘ کے مجوزہ منصوبے کے حوالے سے ڈاکٹر محمد رضا کاظمی بتاتے ہیں:

’’کیبنٹ مشن‘ کے ناکام ہونے کے بعد حسین شہید سہروردی، شنکر رائے، حمیدالحق چوہدری اور سرش چندر بوس وغیرہ نے ’ری پبلک آف بنگال‘ کی تجویز پیش کی۔ یہ اتنا سنجیدہ مسئلہ تھا کہ دو جون 1947ء کو برطانوی وزیراعظم ایٹلی نے امریکی صدر کو لکھا تھا کہ بہت ممکن ہے کہ تقسیم کے بعد دو کے بہ جائے تین مملکتیں ابھریں۔ سہروردی جناح کے پاس آئے اور جناح مان گئے، میرے پاس اس کا چشم دید گواہ بھی ہے، لیکن میں دستاویز پر ہی بات کروں گا، ایچ پی ہاٹسن اور شیخ مجیب نے بھی اپنی خودنوشت میں لکھا ہے۔‘‘

’’اُدھر مکمل بنگال اور اِدھر موجودہ پاکستان؟‘‘

’’جی، خیال یہ تھا کہ اپنے لیے دو الگ ملک مانگیں گے، تو نہیں ملیں گے، تو سوچا کہ اسے پھر بعد میں آپس میں طے کرلیں گے، گاندھی اس کے حق میں تھے، نہرو اور پٹیل نہ مانے۔ نہرو نے ’ٹرانسفر آپ پاور پیپر‘ 10 میں صفحہ 1013 میں لکھا ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہندو ایک مستقل مسلم اقتدار میں رہیں۔

کیوں کہ وہاں ہندو 45  اور مسلمان 55 فی صد تھے، نہرو کا یہ موقف بھی تو دو قومی نظریہ ہی ہے! اسی کے صفحہ نمبر تین پر نہرو نے اس تجویز کی مخالفت کی اور کہا مشرقی بنگال پاکستان کو تنگ کرنے کا ذریعہ ہوگا۔ شیخ مجیب نے لکھا کہ سردار پٹیل نے سبھاش چندر بوس کو ڈانٹا تھا کہ ’ہمیں کلکتہ چاہیے!‘ اگر کلکتہ پاکستان میں آجاتا یا ہندوستان سے الگ رہتا تو تاریخ بہت مختلف ہوتی۔‘‘

’’یعنی بنگال بٹوارے کے وقت ہی پھر پاکستان سے الگ ہوتا؟‘‘

’’بالکل، جب انگریز آئے تھے، تو پہلے ’حکومت بنگال‘ قائم کی تھی، جو سنگاپور تک تھی۔ یہاں مسئلہ زبان کا ہوا، پہلے کبھی اس لیے نہیں ہوا کہ ہندی کا خوف تھا۔ نوین چندر رائے اور بپن چندر بوس بنگلا کے ادیب ہونے کے باوجود ہندی زبان کی حمایت کرتے تھے۔ ہم نے یہ تیاری کی تھی ادھر بنگال اور ادھر پاکستان الگ ہوگا۔ جماعت اسلامی بنگلا دیش کے امیر مطیع الرحمٰن نظامی تین سال میرے ہم جماعت رہے۔

میں کہتا تھا کہ میں ساتھ نماز نہیں پڑھ سکتا، لیکن ووٹ تمھیں ہی دوں گا۔ پیپلزپارٹی مشرقی پاکستان کے صدر مولانا نور الزماں تھے، جو اسلام کو وطن پر فوقیت دیتے تھے، لیکن وہاں اسلام کو اپنی آزادی کی راہ میں رکاوٹ سمجھا گیا، وہاں مسلمان والدین اپنی بچیوں کو رقص سکھواتے تھے، ہمارے ہاں یہ تصور نہیں، تو آپ کیسے ایک ساتھ رہ سکتے تھے۔

نہرو اور پٹیل تیار نہ ہوئے، تو جناح کی رضا مندی کے باوجود الگ ریاست ’متحدہ بنگال‘ کی تجویز ختم ہوگئی۔ ’کیبنٹ مشن‘ سے چار روز پہلے جناح نے بھی صوبوں کے تین گروہوں میں صرف مشترکہ دفاع، مواصلات اور خارجہ امور کی تجویز پیش کی تھی، جس میں ’کیبنٹ مشن‘ میں ’مشترکہ مقننّہ‘ کا اضافہ ہوگیا، اس تجویز کو بھی جناح نے لیاقت کے تحریری اختلاف کے باوجود قبول کرلیا، جب کہ جواہر لعل نہرو کہتا تھا کہ جناح کی انا کی وجہ سے ہندوستان تقسیم ہوا۔

قائداعظم کے مجوزہ صوبوں کے گروپ کے استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ ’’اس میں پورا پنجاب اور پورا بنگال مع آسام تھا، لیکن مسلم اکثریتی ’سلہٹ‘ بنگال سے ملا کر آسام کو الگ کیا گیا۔ بِہار میں آج بھی ایک مسلم اکثریتی ضلع ہے، جسے بنگال میں شامل نہیں کیا گیا۔‘‘

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی کا موقف ہے کہ ’’میں ’اثنا عشری‘ ہونے کے باوجود ہر گز اس بات پر تیار نہیں ہوں کہ ایران کے ’رہبر اعلیٰ‘ کو اپنا رہبر مان لوں، کیوں کہ وہ اپنے ملک کو ہمارے ملک پر مقدم کریں گے، مسلمان الگ قوموں سے ہو سکتے ہیں۔‘‘ ہم نے بے ساختہ استفسار کیا ’’تو پھر دو قومی نظریہ۔۔۔؟‘‘ وہ گویا ہوئے:

آپ کا یہ سوال بالکل برحق ہے۔ یہ ثابت کرنا بہت آسان ہے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قوم ہیں، لیکن یہ ثابت کرنا بہت مشکل ہے کہ سب مسلمان ایک قوم ہیں۔

بنگالی اور ہم ایک قوم نہیں، لیکن ہندو کے مقابلے میں ایک قوم ہیں۔ قوم کی تعریف کی رو سے قوم نہیں۔ جناح نے تو اِس دو قومی نظریے پر بھی سمجھوتا کیا، لیکن نہرو نے اِسے ثابت کیا۔ اب اسے نصاب سے نکالنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ اگر دو قومی نظریہ صرف جناح اور سرسید نے پیش کیا ہوتا تو ہم نصاب سے نکال دیتے۔ ڈاکٹر پرویز ہود بھائی طبیعات پڑھاتے ہیں، یہ بتائیں کہ اگر ہم نصاب سے ’کششِِ ثقل‘ نکال دیں گے، تو کیا زمین پر رکھی ہوئی میز اوپر چلی جائے گی؟‘‘

1970ء میں ذوالفقار بھٹو کے شیخ مجیب کے ووٹوں کو نہ ماننے کے فیصلے کے درست ہونے کے سوال کا جواب انھوں نے کچھ اس طرح دیا:

’’شیخ مجیب نے یکم مئی 1970ء کو تقریر کی کہ یہ انتخابات حکومت نہیں، آئین وضع کرنے کے لیے ہو رہے ہیں، اور وہ چھے نکات کی بنیاد پر دستور چاہتے تھے، جو نیم وفاق (کنفیڈریشن) کی بنیاد پر تھے، جس میں ہر اِکائی کی اپنی اکثریت ہوتی۔ جنرل یحییٰ خان نے حمود الرحمٰن کمیشن کے سامنے کہا کہ میں نے مجیب کو ڈپٹی مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بننے کے لیے کہا تھا، تو اس نے اسے بہت مضحکہ خیز کہہ کر رد کر دیا۔

وہ شیخ مجیب الرحمٰن کے ’پاکستان بچانا چاہتا ہوں‘ کے بیان کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ صرف بنگلا دیش کا نام لیتے تھے، اور انھوں نے نشتر پارک کراچی میں تو کوئی جلسہ ہی نہیں کیا۔

پاکستان بنا تو سب کہتے کہ چھے ماہ میں دیوالیہ ہو جائے گا، پھر یہ بھی تصور تھا کہ مسلمان کاروبار نہیں کر سکتا، جب کہ لیاقت علی خان نے تو یہ ملک ایسا چلایا کہ برطانیہ نے جنگ کے بعد اپنی کرنسی کی قدر کم کی، ہندوستان نے بھی کی، لیکن پاکستان نے انکار کیا، جس پر پاکستان کے سکے کی قیمت ہندوستان سے زیادہ ہوگئی!

مشرقی بنگال میں ’پٹ سن‘ اگتی تھی، لیکن اس کے سارے کارخانے مغربی بنگال میں تھے! دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم ہیں۔ تقسیم کے بعد بحران پیدا ہوا، تو لیاقت علی خان ڈھاکا گئے اور کاشت کاروں سے کہا کہ اگر کوئی آپ سے فصل نہیں خریدتا، تو حکومت پاکستان خرید لے گی، آپ مغربی بنگال ہر گز نہ بھیجیے۔

چناں چہ انھوں نے وہاں اپنی ’پٹ سن‘ بنا کر بیچی، دوسری جانب مغربی بنگال کی پٹ سن کی صنعت تباہ ہوگئی۔ وہاں موجودہ حالت یہ ہے کہ ’پٹ سن‘ کی کاشت کے لیے بھی وافر پانی چاہیے، مگر وہ چاول کی فصل کو ترجیح دینے پر مجبور ہیں، کیوں کہ ہندوستان نے ان کا پانی روکا ہے۔ پہلے مجیب الرحمٰن کہتے تھے کہ پاکستان ہندوستان سے ہمارے تعلقات خراب کرانا چاہتا ہے، اب یہ سب کیا ہے؟‘‘

ڈاکٹر رضا کاظمی اپنے والد کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں ہمارے والد موسِی کاظمی ’جوٹ کمیشن‘ کے رکن تھے۔ ’پٹ سن‘ کے حوالے سے ان کی خدمات کے لیے انھیں 1955ء میں کلکتے بھیجا گیا، اور پھر 1957ء میں انھیں یہاں ’پاکستان جوٹ مل ایسوسی ایشن‘ کے لیے بلا لیا گیا۔

اس زمانے میں ’کے ویزا‘ ہوتا تھا، جو کچھ وقت کام کرنے جانے کے لیے کارآمد ہوتا تھا۔ والد یہاں کما رہے تھے، اُدھر ہمارے معاشی حالات بہت خراب تھے، مگر پیسہ گھر کیسے بھیجیں، وہ اس اس سے ناواقف تھے، والدہ نواب خاندان سے تھیں، والد انھیں اپنی زمیں داری کا پیسہ نہیں دیتے تھے، وہ اسے جائز ہی نہیں سمجھتے تھے، کسی طرح وہاں پیسے بھجوائے، تو ہم نے اپنا کچھ بندوبست کیا اور پھر ہم یکم نومبر 1958ء کو ڈھاکا پہنچے۔

ہندوستان میں تعلیم کے حوالے سے وہ بتاتے ہیں کہ والد کے کلکتے جانے سے تعلیم کا حرج ہوا تھا، مگر ڈھاکا میں ٹیٹوریل ہوم تھا، جہاں اسکول سے دُگنی تعلیم دی جاتی تھی، وہاں سے میٹرک کیا۔ پھر ڈھاکا کالج اور ڈھاکا یونیورسٹی میں زیرتعلیم رہا۔

ڈاکٹر رضا کاظمی بتاتے ہیں کہ 1968ء کی بات ہے، جب ڈھاکا میں ایک اسماعیلی لڑکی نے اپنے بنگالی ڈرائیور سے شادی کرنا چاہی، اسے راتوں رات کراچی پہنچا دیا گیا، بنگالیوں نے اُس خاتون کے غیربنگالی ہونے کا غصہ بہاریوں پر نکالا اور چٹاگانگ میں 30 ہزار بہاری مار دیے! یہاں تک کہ پھر غیربنگالی گھرانوں کو یہ دھمکی دی جاتی تھی کہ نکل جاؤ، ورنہ تمھارا وہی حشر کریں گے، جو چٹاگانگ میں کیا۔

پھر آغا خان نے ان کا سمجھوتا کرایا اور بعد میں جب بہاری مارے جا رہے تھے، تو اسماعیلی اپنی شناخت دکھا کر امان پاتے تھے۔ مصنف شرمیلا بوس، سبھاش چندر بوس کے رشتے کی پوتی ہیں، انھوں نے یہ حقیقت لکھی ہے کہ بنگالی مظلوم نہیں، بلکہ پہلے انھوں نے بہاریوں کا خون کیا۔

ڈاکٹر محمد رضا کاظمی نے 1996ء میں لیاقت علی خان کے تحریک آزادی کے کردار پر ڈاکٹر ایس ایچ ایم جعفری (1938ء تا 2019ئ) کی زیرنگرانی ’ڈاکٹریٹ‘ کیا، جو انگریزی میں ’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘ (جامعہ کراچی) اور پھر ’اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس‘ (کراچی) سے شایع ہوا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ’’لیاقت علی خان بطور وزیراعظم پاکستان‘‘ کا موضوع دستاویز نہ ملنے کے سبب چھوڑا۔ پھر جناح بطور گورنر جنرل پر کرنا چاہا، تو پتا چلا کہ اس پر حسن عسکری رضوی کا ’ایم فل‘ کا مقالہ موجود ہے، سکندرحیات اور فاروق ڈار نے بھی جناح پر کام کیا، جب کہ یہاں کے دانش وَر بتاتے ہیں کہ قائداعظم پر ’پی ایچ ڈی‘ کرنا منع ہے!‘‘

وہ لیاقت علی خان سے ہماری ’دانش وروں‘ کے عمومی سلوک پر شدید نالاں ہیں۔۔۔ کہتے ہیں کہ ’’لیاقت علی کے ساتھ بہت ظلم ہوا۔ ’قرارداد مقاصد‘ پر سرش چندر اوپادھیا کے اعتراض کے جواب میں یہ واضح کیا گیا تھا کہ عوام ہی کو اصل اختیار حاصل ہے، ڈاکٹر جعفر احمد کہتے ہیں کہ انھوں نے ’تھیوکریسی‘ قائم کر دی اور جیل میں علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملے، اور ان کے کہنے سے یہ سب کیا۔ بھئی اگر سید مودودی کی بات مانتے تو، انھیں جیل میں کیوں رکھتے۔ ’قراردادمقاصد‘ میں اقلیتوں کو بھی اپنی عبادات اور سرگرمیوں کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے۔

’شہید ملت‘ کے دورۂ امریکا کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ ’’راجا غضنفر ایران میں پاکستان کے سفیر تھے، لندن میں پرائم منسٹرز کانفرنس سے لوٹتے ہوئے جب لیاقت علی کا طیارہ تہران میں رکا، تو ایران میں روسی سفیر کے ذریعے انھیں دورے کی دعوت دی گئی۔

لیاقت علی نے کہا ہم تمام دنیا سے خیرسگالی چاہتے ہیں، انھیں پروگرام کے مطابق 18 اگست 1949ء کو روانہ ہونا تھا، لیکن روس نے تاریخ قبل ازوقت15 اگست کو کردی، یعنی بہ جائے آگے کی تاریخ دینے کے تین روز جلدی بلایا، دوسری بات یہ تھی کہ یہ قائداعظم کے بعد ہمارا پہلا یوم آزادی تھا، اس لیے بھی ’قائد ملت‘ کی ملک میں موجودگی ضروری تھی۔‘‘

15 اگست کو یومِ آزادی کا تذکرہ ہوا، تو ہم نے بھی یوم آزادی 14 یا 15 اگست کا جھگڑا پوچھ لیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں، آزادی ہند کا ایکٹ 15 اگست کو نافذ ہوا، لیکن ماؤنٹ بیٹن یہاں 14 اگست کو آئے، تو اس لیے یہاں 14 اگست ’یوم آزادی‘ ہوگئی، اب یہ اتنا اہم نہیں ہے کہ اسی تاریخ کو لے کر بیٹھ جائیں!‘‘ انھوں نے پھر دوبارہ اپنے موضوع کی طرف رجوع کیا:

’’اس دوران امریکا سے دعوت نامہ آگیا، اور وہاں جاتے ہوئے بھی لیاقت علی نے صحافیوں کو جواب دیا کہ جب وہ (روس) تاریخ مقرر کریں گے، تو چلا جاؤں گا۔ امریکا پہنچ کر بھی انھوں نے یہی جواب دیا۔ پھر واپسی پر کراچی ایئرپورٹ پر پوچھا گیا کہ کشمیر کے لیے روس کی مدد کیوں نہیں لیتے، تو انھوں نے کہا میں تو تیار ہوں۔

لیاقت علی نے دورے کی نئی تاریخ کے حوالے سے کہا کہ یہ ہمارا یوم آزادی ہے، ہم نے ان سے دوسری تاریخ مانگی ہے، لیکن انھوں نے اس کا جواب نہیں دیا، جیسے ہی تاریخ آئے گی روانہ ہوجاؤں گا۔‘ اب آپ دیکھیے جواہر لعل نہرو تو لیاقت سے بھی پہلے امریکا چلے گئے اور وہ روس، لیاقت علی کے دورۂ امریکا کے بھی بہت بعد گئے، لیکن ہندوستان روس کے تعلقات خراب نہ ہوئے ہمارے ہوگئے!‘‘

انھوں نے سوالیہ انداز میں گفتگو میں توقف کیا، پھر گویا ہوئے کہ ’’وزیراعظم حسین شہید سہروردی نے روسی سفیر کو کہا تھا کہ اگر آپ کشمیر کے مسئلے پر ہماری مدد کریں، تو ہم امریکا سے تمام معاہدے ختم کرنے کے لیے تیار ہیں۔ دوسرے دن سہروردی کی یہ پیش کش جواہرلعل نہرو کی میز پر تھی۔۔۔!‘‘

حسین شہید سہروردی کے تذکرے پر ہمارا دھیان ان کے لیاقت علی خان سے اختلاف کی جانب گیا، ہم نے لیاقت علی کی جانب سے سہروردی کے لیے نازیبا زبان کے استعمال کا سوال کیا تو انھوں نے کہا ’’کی ہوگی، تب قانون بنا کہ دستور ساز اسمبلی کا رکن وہی شخص رہ سکتا ہے، جو پاکستان کا مستقل رہائشی ہو۔

لیاقت علی نے کہا تھا کہ یہ بات غلط ہے کہ یہ قانون سہروردی کو باہر رکھنے کے لیے بنایا جا رہا ہے، وہ چاہیں، تو کل سے یہاں مستقل رہائش اختیار کرلیں۔ جواب میں حسین شہید سہروردی نے ہندوستان میں رہتے ہوئے یہاں کی دستور ساز اسمبلی کی رکنیت پر اصرار کیا۔‘‘

’’سہروردی کیوں نہیں آنا چاہ رہے تھے؟‘‘ اس سوال پر ڈاکٹر رضا نے کہا کہ اگر وہ بنگال میں نہ ہوتے، تو وہاں پنجاب جیسی خوں ریزی کا خدشہ تھا۔ بعد میں کرن شنکر رائے پاکستان آگئے، لیکن سہروردی نہیں آئے۔‘‘

ڈاکٹر رضاکاظمی محترمہ فاطمہ جناح اور لیاقت علی کے اختلافات کی تصدیق کرتے ہوئے بتاتے ہیں:

’’25 دسمبر 1947ء کو قائداعظم کی سال گرہ پر لیاقت علی نے وزیراعظم ہاؤس میں پارٹی رکھی۔ فاطمہ جناح کے برعکس رعنا لیاقت سرعام نہیں ’پیتی‘ تھیں، جس پر ان کی فاطمہ جناح سے تلخی ہوئی، جناح نے رعنا لیاقت علی کو ڈانٹا، جس پر لیاقت علی نے وزارت عظمیٰ سے استعفا دے دیا، لیکن پھر بعد میں جناح صاحب نے لیاقت علی کو کہا کہ خواتین کی لڑائی میں ہم اپنے تعلقات خراب نہ کریں۔‘‘

ڈاکٹر رضا کاظمی کے بقول ’’لیاقت علی کا استعفا سرکاری دستاویز میں موجود ہے، یہ خبر اخبار میں نہیں آئی تھی۔ 2005ء میں، اُسے منظر عام پر لایا۔ انگریز محقق راجر ڈی لانگ (Roger D Long) بھی لیاقت علی خان کے حوالے سے کام کر رہے ہیں، یہاں انھیں تو دستاویزات دے دی گئیں، لیکن وہ دستاویزات جب میں نے مانگی تھیں، تو رسائی نہیں ملی۔ دراصل انگریزوں کے لیے سب ہے یہاں، ہمارے لیے نہیں!‘‘

ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ یہ تاثر غلط ہے کہ لیاقت علی ناتجربے کار تھے۔ وہ تو اتنے ماہر تھے، کہ ’متحد ہندوستان‘ کا بجٹ بغیر سیکریٹری کے پیش کیا۔ غلام محمد، اسکندر مرزا اور چوہدری محمد علی ناپسندیدہ لوگ ہیں۔ ان لوگوں نے پیسے تو نہیں بنائے، لیکن خرابیاں پیدا کیں، دوسری طرف کرپشن روکنے کے لیے آنے والے جنرل ایوب خود بدعنوانی میں ملوث ہوئے۔

ہماری اِس طویل بیٹھک میں لیاقت علی خان کی شہادت پر گفتگو کا نہایت اہم مرحلہ تھی، اس حوالے سے ڈاکٹر رضا کاظمی نے کہا:

’’سید اکبر بے گناہ تھا، وہاں اس کے ساتھ 18 سالہ بیٹا تھا، جو ابھی حیات ہے، ابھی اس کی بیوہ کی موت کی خبر آئی، میری نگرانی میں ایک طالبہ لیاقت علی خان کی وزارت عظمیٰ پر تحقیق کر رہی ہے، میں نے اس سے سید اکبر کے بیٹے کا انٹرویو کرایا۔ اس نے یہی بتایا کہ گولی میرے والد نے نہیں چلائی!

سید محمد ذوالقرنین زیدی نے ’پاکستان اسٹڈی سینٹر‘ کے رسالے میں ایک مضمون لکھا اور مجھے بھی بعد میں ثبوت ملا، کہ لیاقت علی کو گولی سامنے سے نہیں، بلکہ پشت سے لگی اور وہاں نجف خان نے گولی چلنے کے ساتھ ہی سید اکبر کو مار ڈالا۔ کیا کوئی قتل کرنے جائے گا، تو اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر جائے گا!‘‘

’’پیچھے سے کس نے گولی ماری۔۔۔؟ نامعلوم افراد۔۔۔؟‘‘ ہم نے استعجابی انداز میں ٹٹولا۔

’’نامعلوم افراد‘ نے۔۔۔! ڈاکٹر صفدر محمود نے اردو کالج کے رسالے کے ’لیاقت نمبر‘ میں لکھا تھا کہ لیاقت علی خان کو غلام محمد اور مشتاق گورمانی نے مروایا۔‘‘ انھوں نے جواب دیا۔

’’مگر قاتل کون تھا۔۔۔؟‘‘ ہمارے اس استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ نہیں پتا چلا، لیکن قتل کے ذمے دار یہ دونوں تھے۔ سید اکبر کا جائیداد کا کوئی مسئلہ تھا، اسے لیاقت علی سے ملاقات کہہ کر جلسے میں آئے۔‘‘ انھوں نے دیگر تفصیلات ظاہر کیں۔

’’لیاقت علی خان کے حوالے سے دستاویزات کہاں دست یاب ہیں؟‘‘

ہمارے استفسار پر انھوں نے بتایا کہ ’یوپی‘ اسمبلی میں اور یہاں پنجاب اسمبلی میں، کیوں کہ ’ون یونٹ‘ کی وجہ سے یہ دستاویز ’مغربی پاکستان اسمبلی‘ چلی گئیں، پہلے کابینہ کی کارروائیاں بھی ’سربند‘ تھیں، اب کھول دی گئی ہیں۔ لیاقت علی خان پنجابی النسل تھے، مگر مادری زبان اردو تھی، وہ پنجاب اسمبلی کا انتخاب ہار گئے، تاہم ’یوپی‘ میں کم فرق سے جیت گئے۔

جب ہم نے ’قائداعظم اکادمی‘ کی طرح کسی ’لیاقت اکادمی‘ کے قیام کی بات کی تو وہ دُکھی دل کے ساتھ کہنے لگے کہ ’’اکادمی بنے گی، تو یہاں لوگ انھیں اور گالیاں ہی دیں گے!‘‘

’’ہم نے کہا جناب، جب حقائق سامنے آئیں گے تو کیوں کر دیں گے؟‘‘

وہ بولے ’’بھئی جسے پاکستان نہیں پسند، اسے لیاقت علی نہیں پسند۔۔۔!!‘‘

تحریک آزادی اور قومی تاریخ کے بہت سے پہلو آشکار کرتی ہوئی اس گفتگو میں ڈاکٹر محمد رضا کاظمی یہ انکشاف بھی کرتے ہیں کہ قائداعظم اپنی جگہ نواب بھوپال سر حمید اللہ کو گورنر جنرل بنانا چاہتے تھے۔ انعام عزیز نے لکھا ہے کہ جولائی 1947ء کے اجلاس میں جناح نے کہا دیکھیے کوئی سپاہ سالار جب فتح حاصل کرتا ہے، تو وہ اپنا اختیار سول حلقوں کو منتقل کرتا ہے۔۔۔ ابھی وہ اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ وہاں حسرت موہانی کھڑے ہوگئے اور انھوں نے کسی اور کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، پھر لیاقت علی اور دیگر نے بھی جناح کے گورنر جنرل بننے کی تائید کر دی۔ یہ بات لارڈ مانوٹ بیٹن اور سب کو پتا تھی کہ گورنر جنرل نواب بھوپال کو بنانا ہے، لیکن کونسل کے اجلاس میں حسرت موہانی نے قائداعظم کو نام زد کر دیا۔

ہم نے گفتگو کے اس دل چسپ موڑ پر حسرت موہانی کے واپس ہندوستان جانے کا ذکر کیا، تو انھوں نے کہا کہ ’’بھئی طے یہ تھا کہ راجا محمود آباد، محمد علی جناح اور چوہدری خلیق الزماں یہ سب وہیں رہیں گے!‘‘

’’جناح بھی۔۔۔! پھر وہ کیسے آگئے؟‘‘ ہمارے لیے یہ بات نہایت حیرت انگیز تھی، وہ گویا ہوئے کہ ’’حالات لے آئے، ڈاکٹر افضل اقبال نے لکھا ہے کہ راجا محمود آباد کا جہاز کراچی میں رکا، تو اینٹیلی جنس والے انھیں زبردستی جناح کے پاس لائے۔ راجا صاحب پہلے تو انھیں چچا کہتے تھے، مگر آج ساری وضع داری بھول کر جناح پر چیخنا شروع ہوگئے، اور خلاف طبع قائداعظم نے خاموشی سے سنا۔ جب راجا صاحب نے توقف کیا تو بولے ’’امیر، میں یہاں غداروں میں گھِرا ہوا ہوں، میں پاکستان نہیں چھوڑ سکتا!‘‘

’’غدار کن کو کہا تھا؟‘‘ہم نے فوراً منطقی استفسار کیا، تو ڈاکٹر رضا گویا ہوئے ’’لیاقت کو تو نہیں کہا تھا۔۔۔! ’یونینسٹ پارٹی‘ اور غلام محمد اور چوہدری محمد علی کی طرف اشارہ تھا۔‘‘

’’اس سے لیاقت علی کو الگ کیوں کرتے ہیں؟‘‘ ہم نے پوچھا، تو انھوں نے استدلال کیا کہ کوئی غدار کبھی اپنے عہدے سے استعفا نہیں دیتا، وہ چمٹا رہتا ہے اور لیاقت علی نے استعفا دیا تھا۔‘‘

’’اور راجا صاحب کس بات پر برہم تھے؟‘‘

ہمارے اس سوال پر وہ کہتے ہیں کہ ’’وہ پاکستان کو اسلامی ریاست بنانا چاہتے تھے، وہ بنگال اور پنجاب کی تقسیم کے خلاف تھے، لیکن جناح اس سے قیام پاکستان کو خطرے میں نہیں لا سکتے تھے۔ جب 1946ء میں صوبے ’بِہار‘ میں فسادات ہوئے، تو راجا صاحب نے درہ آدم خیل سے اسلحہ خریدا، وہ اقلیتی علاقوں کے ہندوستانی مسلمانوں کو اسلحہ دینا چاہتے تھے۔ جناح نے روک دیا۔ ان معاملات پر اختلافات تھے۔‘‘

ہم نے ڈاکٹر محمد رضا کاظمی سے شہید ملت لیاقت علی خان کی غلطیوں کا سوال بھی پوچھا، جس کے جواب میں انھوں نے صرف پہلی بیوی چھوڑنے ہی کو ان کی واحد غلطی قرار دیا۔

مہاجروں کی ٹرین بھر کر واپس ہندوستان بھیجی گئی!

متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین پر تنقید کرتے ہوئے ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ انھوں نے یہاں 20 سال تحریک پاکستان کو گالیاں دیں، یوم آزادی منانے سے روکا اور پاکستان کو ایک جذباتی فیصلہ کہا۔

وہ بتاتے ہیں 9 جون 1947ء کو مسلم لیگ کونسل کی میٹنگ میں ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کی بات ہوئی کہ ان کا کیا ہوگا؟ غلام حسین ہدایت اللہ نے کہا کہ ہم مسلم اقلیتی علاقوں سے مسلمانوں کو بلائیں گے، صنعت کاری کریں گے۔ البتہ یہ نہیں کہا تھا کہ سب کو بلائیں گے۔

مسئلہ یہ ہوا کہ ہم نے پنجابی کو حقیر نہیں سمجھا، سندھی کو حقیر سمجھا، یہی رویہ ہمارے لیے دوسری طرف سے بھی ہوا، جو سندھ کے چھوٹے شہروں میں رہے، جب کہ مسجد منزل گاہ (سکھر) کا مسئلہ ہوا تو جی ایم سید نے کہا تھا کہ وہاں کے مسلمان یہاں آئیں اور ہم کو نجات دیں۔ بس یہ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔

’ٹرانسفر آف پاور پیپرز‘ میں لکھا ہوا ہے کہ غلام حسین ہدایت اللہ نے کہا کہ سندھ میں سندھی اور دوسروں کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا، مگر وہ بھی قائد کے ایک ماہ بعد ہی گزر گئے۔ پاکستان بننے کے دو مہینے کے اندر ’سندھ مسلم لیگ‘ حزب اختلاف میں بیٹھ گئی کہ کراچی کو دارالحکومت کیسے بنایا؟ اور ایک حکومت جس کے پاس پیسے نہیں ہیں، اس سے ’تلافی‘ مانگ رہی ہے، جس پر قائد بیچ میں پڑے کہ جیسے ہی پیسے آئیں گے، تمھیں پیسے مل جائیں گے۔

’’کون پیسے مانگ رہا تھا؟‘‘ ہم نے پوچھا۔

’’سندھ مسلم لیگ، حکومت سندھ۔۔۔!‘‘ انھوں نے بتایا پھر گویا ہوئے:

’’شروع میں کہا کہ ایک لاکھ سے زیادہ مہاجر نہیں لیں گے، اب کابینہ کی چیزیں ’ڈی کلاسیفائیڈ‘ ہو رہی ہیں، تو سب چیزیں سامنے آرہی ہیں، لوگ کتابیں بھی لکھ رہے ہیں، پھر انھیں دو لاکھ لینے پر راضی کیا گیا۔ لیاقت علی خان نے تو پوری ایک ٹرین مہاجروں کی بھر کر واپس ہندوستان بھیجی!‘‘

ہمیں یاد آیا کہ اس زمانے میں مہاجرین کی ہندوستان واپسی کے منصوبے کا اعلان ہوا تھا، تو انھوں نے اضافہ کیا کہ یہ کہا گیا کہ اب وہاں حالات معمول پر ہیں، جو واپس جانا چاہے، تو چلا جائے! ہم نے پوچھا کہ یہ سب ’سندھ مسلم لیگ‘ کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے کیا گیا؟ تو انھوں نے اثبات میں جواب دیا۔

ہم نے دریافت کیا کہ یہ مسئلہ پنجاب میں نہیں ہوا؟ تو انھوں نے کہا سندھ کے علاوہ کوئی اور صوبہ مہاجروں کو لینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ ہم نے کہا پنجاب میں بھی بہت سارے ہجرت کرنے والے آئے، تو وہ کہنے لگے ’’وہ پنجابی مہاجر تھے‘‘، ہم نے کہا وہاں اردو بولنے والے بھی کافی گئے، تو ان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ بھی زیادتی ہوئی۔ ’’وہاں ’یونینسٹ پارٹی‘ آج بھی مری نہیں ہے، انھی کے دانش وَر آگے ہیں۔‘‘

ہجرت کرنے والوں کی مشکلات کے ذکر پر ڈاکٹر رضا کہتے ہیں کہ ’’پنجاب میں آپ کی ریل رکنے نہیں دی، سرحد میں بھی ٹھیرنے نہیں دیا۔ جب بھٹو دور میں یہاں لسانی مسئلہ ہو رہا تھا، تب قیوم خان نے سرحد اسمبلی کی کینٹین میں ولی خان سے کہا ’’ولی تم مجھے ہر چیز کا ذمہ دار ٹھیراتے ہو، دیکھو اگر میں نے ایک بھی ٹرین یہاں آنے دی ہوتی، تو آج یہاں بھی وہی صورت حال ہوتی جو آج سندھ میں ہے! یہ سب انعام عزیز نے لکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی چَھپی ہوئی ایک کتاب تھی، جس میں یہاں سے وہاں جانے والے سندھی ہندوؤں کے رجواڑوں کے نام لکھے ہوئے تھے۔

یہاں جنرل ایوب خان کے زمانے میں ٹکا خان نے سندھی زبان کی تدریس بند کرا دی۔ گورنر رحمٰن گل نے دیہی اور شہری سندھ کوٹا نافذ کیا، جس بات پر دونوں لڑ رہے ہیں، وہ نہ سندھی نے کیا اور نہ مہاجر نے۔ اپنی دو سالہ پوتی آمنہ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ اب یہ بچی کوٹا سسٹم کی اور اپنے ساتھ ناروا سلوک کی شکایت بھی نہیں کرے گی!‘‘

۔۔۔

ووٹ بھی صرف موجودہ پاکستانی علاقوں سے لیتے!
ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ اکثر یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ لیاقت علی خان کا حلقۂ انتخاب کیا تھا؟ میں اس کا جواب دیتا ہوں کہ ’’تحریک پاکستان۔۔۔!‘‘ کچھ توقف کے بعد وہ کہتے ہیں کہ ’’آپ جانتے ہیں، میں ’ایم کیو ایم‘ کے خلاف ہوں۔

اسلام آباد کے ایک پروگرام میں میں نے بنگالی راہ نما اے کے فضل الحق پر تقریر کی تو ایک دانش ور نے اعتراض کیا کہ پاکستان میں یہاں کے مسلمانوں کے کارنامے بیان نہیں کیے جاتے۔ میں نے کہا کہ اگر یہی جذبات ہیں، تو پھر پاکستان کے لیے بھی صرف یہیں کے علاقوں سے ووٹ لے لیتے، ہندوستانی علاقوں سے نہ لیتے۔ وہ چپ ہوگئے، جب کہ وہاں تلخ حقائق خلاف توقع بنگالی دانش وروں نے بہت پسند کیے۔

والد نے سر سلطان احمد کا خط قائداعظم کو پہنچایا
ڈاکٹر محمد رضا کاظمی بتاتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم میں انگریز حکومت کی حمایت کے لیے جناح اور تلک نے ہندوستانی فوجیوں کے لیے ’رائل کمیشن‘ کا مطالبہ کیا، تب گاندھی نے کہا یہ ایسا وقت نہیں ہے اور انگریزوں سے غیرمشروط تعاون کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں جب گاندھی نے ’’ہندوستان چھوڑ دو‘ تحریک چلائی، تو جناح نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ جناح نے کہا کہ عدم تعاون نہیں کر رہے، لیکن تعاون بھی نہیں کر رہے۔

اِدھر مسلم لیگ میں شمولیت کے باوجود ’یونینسٹ پارٹی‘ تو تھی ہی انگریزوں کی، یہاں سر سکندر حیات نے ’رائلٹی ریزولیشن‘ لانا چاہا، تو لیاقت علی اور راجا صاحب محمود آباد نے ’یونینسٹ پارٹی‘ کو مسلم لیگ پر حاوی ہونے سے روک دیا۔ یہیں سرسلطان احمد، بیگم جہاں آرا شاہ نواز اور اے کے فضل الحق کو جنگ میں تعاون کرنے پر مسلم لیگ سے نکالا گیا۔ میرے والد کانگریسی نہیں تھے، لیکن مسلم لیگی بھی نہیں تھے۔

وہ بمبئی میں رہتے ہوئے کبھی جناح سے نہیں ملے، لیکن والد کے خالو سرسلطان احمد کنبے کے سربراہ تھے، انھیں جناح نے مسلم لیگ سے نکالا، تو میرے والد کے ہاتھ سر سلطان نے جناح کو خط بھجوایا۔ لندن میں یہ وہ واحد ملاقات تھی جو والد نے جناح صاحب سے کی۔

’ایم کیو ایم‘ کے لڑکوں نے مجھ پر فائرنگ کی!
ڈاکٹر محمد رضا کاظمی دسمبر 1943ء میں بمبئی میں پیدا ہوئے، دستاویزات پر پیدائش یکم نومبر 1945ء درج ہے، لیکن انھوں نے حقیقی عمر سے بھی پہلے ریٹائرمنٹ لے لی۔ آبائی تعلق بِہار سے ہے، سب سے بڑی بہن تھیں، جو ادبی رسالہ ’خیابان‘ بھی نکالتی تھیں، چار بھائی تھے، اب دو حیات ہیں۔

والد موسِی رضا کاظمی ’جوٹ ٹیکنالوجسٹ‘ تھے۔ جدید تعلیم سے عیسائی ہوجانے کے خدشے پر انھیں باقاعدہ مذہبی تعلیم دی گئی۔ 1958ء میں ہندوستان سے ڈھاکا اور پھر حالات خراب ہوتے ہوئے دیکھ کر 1969ء میں کراچی آگئے، 1967ء میں جامعہ ڈھاکا سے ’تاریخ اسلام‘ میں ’ایم اے‘ کیا۔ بنگالی بولنا جانتے تھے، لکھنے سے ناواقف رہے۔ کہتے ہیں کہ جب یہاں جناح کے نام کے نیچے ’بابائے قوم‘ پڑھتا تو ہنستا کہ وہ تو گاندھی ہیں۔ پھر آہستہ آہستہ سوچ میں تبدیلی آئی۔

کراچی آنے کے بعد کا احوال یوں بتاتے ہیں کہ چھے مہینے ’امریکن لائف انشورنس‘ میں کام کیا، وہاں موٹر سائیکل سواروں کو پالیسی دینے جانے پر اعتراض ہوا تو مستعفی ہوگئے، پھر 1970ء میں ایک بینک اور عبداللہ کالج سے بہ یک وقت ساڑھے تین سو روپے تنخواہ کے عوض ملازمت کی پیش کش ہوئی، انھوں نے کالج کا انتخاب کیا۔

1973ء میں ’سینٹ پیٹرکس کالج‘ شام کی شفٹ میں آگئے۔ یہاں ظہیر عالم امروہوی کو ’تاریخ اسلام‘ انگریزی میں پڑھانے میں دشواری تھی، ان سے باہمی تبادلہ کرایا۔ یہاں انورمنصور خان اور میر شکیل الرحمٰن وغیرہ ان کے شاگرد رہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ کالج کی راہ داری خالی کرانے پر ’ایم کیو ایم‘ کے لڑکوں نے مجھ پر فائرنگ کی، وہ چاہتے تو جان سے مار سکتے تھے، لیکن بس ڈرانے کے لیے ’مس فائر‘ کیا، تاہم ’راہ داری‘ خالی کر دی۔

اس واقعے کا سن حتمی طور پر یاد نہیں۔ ’اے پی ایم ایس او‘ کے لڑکے بورڈ سے آنے والی مارکس شیٹ لے لیتے تھے، جسے چاہتے دیتے ہیں اور جسے چاہتے نہیں دیتے تھے۔ ان کی ’’معصومیت‘‘ مجھ پر عیاں ہے۔ 1995ء میں نیشنل کالج چلا گیا، اور پھر پانچ سال بعد 2000ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور ’اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس‘ میں بطور ادارتی مشیر شامل ہوا، جہاں فروری 2013ء تک رہا، وہاں دیکھا تو ہمارے دانش وَر اور مورخین مذہبی ہستیوں کے خلاف انتہائی نازیبا کلمات لکھ رہے ہیں، جیسے اسلام کو خطرناک مذہب کہنا، وغیرہ یہ میں وہاں کیسے جانے دیتا، اسی سبب تلخی ہوئی، تو پھر میں نے استعفا دے دیا۔ پھر ’ایریا اسٹڈی سینٹر یورپ‘ (جامعہ کراچی) میں بطور وزیٹنگ پروفیسر فلسفہ پڑھایا، وہاں ہڑتالوں اور سیاست کی وجہ سے تدریس متاثر ہوئی تو چھوڑ دیا۔ انصار زاہد خان (مرحوم) کو امریکا جانا تھا وہ ’’کوارٹرلی جرنل آف پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی‘‘ کی ادارت سونپ گئے۔ یہ ’اعلیٰ تعلیمی کمیشن‘ کی درجہ بندی میں ’وائے‘ زمرے میں شامل ہے، پہلے ’ایکس‘ تھا، بعض انتظامی غلطیوں کی بنا پر تنزل ہوا۔

سفرِ حج کے حوالے سے ڈاکٹر محمد رضا کہتے ہیں کہ وہاں کی زیارتوں سے اسلامی تاریخ کا تصور بہت واضح ہوتا ہے۔ 1973میں شادی ہوئی، اہلیہ ڈاکٹر انجم بانو آج کل ’اقرا یونیورسٹی‘ سے وابستہ ہیں۔ صاحب زادے محب رضا ’اپلائیڈ کیمسٹری‘ جامعہ کراچی میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

 ابو الکلام آزاد بھی ’آل انڈیا مسلم لیگ‘ میں رہے!
ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ ہمیں بتایا گیا کہ ہمارا شہر بمبئی جناح صاحب کا اور کلکتہ ابو الکلام آزاد کا شہر ہے۔ بٹوارے کے بعد ابتدائی 10سال ہندوستانی مسلمانوں پر بہت کڑے تھے، کیوں کہ زمیں داری وغیرہ بھی ختم ہو چکی تھی۔ مولانا عبدالماجد دریا آبادی نے لکھا ہے، 1947ء میں دلی کے فسادات پر مسلمان جناح کو برا بلا کہہ رہے تھے، تو مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا کہ ’’دیکھیے ہمارا اور جناح صاحب کا مقصد ایک تھا، راستے جداگانہ تھے۔

میں سمجھتا تھا کہ پاکستان نہیں بنتا، تو مسلمانوں کے لیے بہتر ہوتا، وہ سمجھتے تھے بنے گا تو بہتر ہوگا۔ مگر اب پاکستان بننے کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ اگر پاکستان پر کوئی آنچ آئی، تو یہاں کے مسلمان 200 سال تک سر نہیں اٹھا سکیں گے!‘‘ ابو الکلام آزاد تو جناح سے بھی 10 دن پہلے مسلم لیگ میں شامل ہوئے تھے! اور وہ ڈھاکا میں بھی تھے، جب مسلم لیگ قائم ہوئی۔

ابوالکلام آزاد اور ’مسلم لیگ‘۔۔۔! ہم اس انکشاف پر بہت زیادہ حیران ہوئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’آزاد 1913ء تا 1928ء ’نہرو رپورٹ‘ آنے تک مسلم لیگ میں رہے، لیکن انھوں نے اس کا ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھا۔‘
لیاقت علی نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی سے انکار کیا
ڈاکٹر محمد رضا کاظمی بتاتے ہیں کہ ’’ڈاکٹر مونس احمر اپنی کتاب ’ماضی کے تعاقب میں‘ رقم طراز ہیں کہ ہندوستان نے مارچ 1948ء میں کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی، اپریل میں یہاں کی کمیونسٹ پارٹی کے لیے یہ تجویز کابینہ میں آئی، تو لیاقت علی نے پابندی لگانے سے انکار کر دیا اور آج یہی لوگ انھیں ہی گالیاں دیتے ہیں!

1948ء میں لاہور میں ’انجمن ترقی پسند مصنفین‘ کی کانفرنس میں سجاد ظہیر نے کشمیریوں کی حق خودارادیت پر قرار داد پیش نہیں ہونے دی اور کہا کہ ہر انصاف پسند انسان یہی چاہے گا کہ کشمیر کا الحاق ہندوستان سے ہو۔ خواجہ احمر عباس نے نہرو کی سوانح عمری لکھی، وہ لکھتے ہیں کہ نہرو نے سجاد ظہیر کے پاکستان جانے کا سن کر کہا ’’وہ سندھیوں، پنجابیوں اور بلوچوں کو کمیونزم پڑھانے گیا ہے۔‘‘ سرحد کا نام یوں نہیں لیا کہ یہاں ڈاکٹر خان کی حکومت تھی۔

جب شوکت علی نے قائداعظم پر ہاتھ اٹھانا چاہا۔۔۔
ڈاکٹر رضا کاظمی نے انکشاف کیا کہ ناگ پور کانفرنس میں علی برادران نے مسز رتی جناح کے لباس کو غیرمناسب کہہ کر اجتماع گاہ سے باہر بھیج دیا تھا، وہیں گاندھی جی کی عدم موالات کی مخالفت کرنے پر مولانا شوکت علی جناح پر ہاتھ اٹھانے آگے بڑھے تھے۔

شیلا ریڈی نے کتاب ’مسٹر اینڈ مسز جناح‘ میں بھی یہ لکھا ہے، جناح کو موتی لعل نہرو ہی نے مخالفت کی تحریک دی، لیکن کانفرنس میں جواہر لعل نے اپنے والد کو گاندھی کی مخالفت نہ کرنے دی، یہی وجہ ہے وہ کانگریس سے الگ ہوگئے، لیکن جواہر لعل نہرو جھوٹ بولتے رہے کہ جناح عوامی سیاست کے قائل نہیں، اس لیے کانگریس چھوڑی۔ اگر ایسا ہوتا تو اس سے دو سال قبل انھوں نے بمبئی میں جلوس نکالا، ہڑتال کی، وہ اور ان کی بیوی نے لاٹھیاں کھائیں، جب گورنر لاڈر ولنگٹن کو بھیجا جا رہا تھا۔

اس واقعے کی یاد میں وہاں ’پیپلز جناح ہال‘ بنا، جو آج بھی ہے، لیکن نام ہٹا دیا۔ جو ہڑتال اور جلوس کر رہا ہو تو وہ عوامی سیاست ہی تو ہے۔ بات یہ ہے کہ جناح مغرور اس لیے دکھائی دیتے تھے کہ وہ بمبئی کے تھے۔ بمبئی والے انگریزی لباس پہنتے اور انگریزی بولتے اور محفل میں مادری زبان بولنا کمتر سمجھتے تھے۔

راجا صاحب محمود آباد نے پاکستان کے اخراجات اٹھائے!
ڈاکٹر محمد رضا کے بقول ’معماران پاکستان‘ میں سے انھوں نے راجا صاحب محمود آباد (امیر احمد خان) کو قریب سے دیکھا۔ آج یہ بتایا نہیں جاتا کہ انھوں نے پاکستان کے اخراجات اٹھائے۔ 1937ء میں جب مسلم لیگ انتخابات ہار گئی تھی اور لکھنئو میں مسلم لیگ کی میٹنگ بلائی گئی، اس وقت راجا صاحب نے مسلم لیگ کے اکتوبر 1937ء کے صرف ایک جلسے پر 30 لاکھ روپے خرچ کیے تھے، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ دیا۔ اب لوگوں کو اجتماعیت کا احساس ہوگیا، ورنہ خواجہ ناظم الدین تک مسلمانوں کے لیے علاقائی جماعتوں کو درست کہتے تھے۔
ڈاکٹر رضا، قائداعظم اور راجا صاحب کے اختلاف کی وجہ ’اسلامی ریاست‘ نہ بنانا بتاتے ہیں، جناح کہتے تھے کہ اس طرح ہر فرقہ سامنے آئے گا اور پاکستان ٹوٹ جائے گا۔ جناح ’لبرل مسلم ریاست‘ چاہتے تھے، تاکہ ہندوسستان میں جو مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ کچھ نہ ہو۔ انگریز نے مسلمانوں کی تعلیم سے ہاتھ روک لیا، بنارس کی ’ہندو یونیورسٹی‘ بنا دی، ہمارے علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی بنا کر نہ دیا۔ کشمیر کے بارے میں تقسیم سے پہلے یہی فیصلہ ہوگیا تھا۔ کرشنا مینن نے خط لکھا کہ اگر پاکستان کو کشمیر دے کر مضبوط کیا تو ہندوستان اور برطانیہ کے تعلقات خراب ہو جائیں گے۔

قائداعظم کی خراب ایمبولینس کو غلط رنگ دیا گیا
ڈاکٹر رضا کاظمی کہتے ہیں کہ قائداعظم کے ’اے ڈی سی‘ نور احمد حسین نے قائداعظم سے منسوب اس جملے کہ ’’پاکستان بنانا میری زندگی کی بہت بڑی غلطی تھی۔‘‘ کی سخت تردید کی اور (نوراحمد حسین نے) کہا جب زیارت میں قائداعظم اور لیاقت علی کی ملاقات ہوئی تو الٰہی بخش اور ہم سب نیچے تھے، بعد میں الٰہی بخش نے یہ سب کیسے جان لیا؟ نور احمد حسین نے ’ڈان‘ میں لکھا تھا کہ الٰہی بخش نے یہ باتیں سستی شہرت کے لیے پھیلائی ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ انھوں نے لیاقت علی کے لیے یہ کہا ہو کہ ’یہ دیکھنے آئے ہیں کہ کب تک بچتا ہوں؟‘ انسان ہیں، بدگمانی ہوجاتی ہے۔

11 ستمبر 1948ء کو ’ماری پور‘ سے آتے ہوئے قائداعظم کی خراب ایمبولینس کے ذکر پر ڈاکٹر رضا کاظمی نے بتایا کہ ’’قائداعظم نے ملٹری سیکریٹری سے کہا تھا کہ آمد کا ذکر نہ کیا جائے۔ ان کے ملٹری سیکریٹری ہی نے ان کے لیے ایمبولینس لی، وہ واپسی پر اتفاقاً خراب ہوگئی، کوئی بھی گاڑی خراب ہو سکتی ہے، لیکن ہمارے ہاں اس واقعے کو بھی غلط رنگ دیا گیا، اور یہ نہیں بتایا کہ دوسری ایمبولینس منگانے پر جب لیاقت علی کو قائد کی آمد کی خبر ہوئی، تو وہ بھی ایمبولینس کے ساتھ ساتھ پہنچے تھے۔

The post ’’لیاقت علی خان کو گولی پشت سے ماری گئی، قاتل سید اکبر نہیں!‘‘ appeared first on ایکسپریس اردو.

کہانی گھرگھر کے گھروالے کی

$
0
0

بالوں میں دو چار سفید بال کیا نکل آئے، مشورے دینے میں ہم خود کو طاق سمجھنے لگے۔

واپڈا اور کے الیکٹرک کی مہربانی اور متواتر پانی و بجلی کی لوڈشیڈنگ سے سے حال حلیہ فلسفیانہ سے درویشانہ کیا بنا کہ جوق در جوق لوگ حلقۂ احباب میں شامل ہونے لگے اور اپنے اپنے مسائل ہمارے گوش گزار کرنے لگے۔ اب یہ قسمت ہی تھی کہ دو چار الٹے مشورے سیدھے ہو گئے تو ہماری درویشی کو جاتی جوانی میں سند مل گئی۔

اب شہرت کا حال بالکل اسی سیاست داں جیسا تھا جو الیکشن میں کھڑا ہو اور اسے پورے دن میں بس دو ووٹ ملے۔ ایک تو خود اس کا اپنا اور دوسرے ووٹر کو وہ ڈھونڈتا ہی رہا کہ ملے تو پاؤں پڑ جائے اور اس کو اپنا مرشد بنا لے جسے اس کی اتنی خوبیاں نظر آئیں کہ ووٹ دے ڈالا۔

اگلا پورا دن ڈھونڈنے کے بعد اس ووٹر کا معلوم ہوا کہ اسی اناسی سال کے بزرگوار ہیں۔ رعشے کے پرانے مریض ہیں اور حالت بیماری میں لیفٹ کو رائٹ کرتے ہیں اور اپ کو ڈاؤن۔ بس ووٹ پر ٹھپا بھی اسی بیماری کے باعث لگا ڈالا کہ کرنا تھا اپ ہو گیا ڈاؤن۔

اپ ڈاؤن اپ، اپ ڈاؤن اپ!

بس کچھ یہی حال ہماری شہرت کا بھی تھا کہ کل ملا کر چار دوستوں سے ہوتی ہوئی شہرت جب ان کے پانچویں دوست تک پہنچی تو آ بیٹھے وہ موصوف ہمارے سامنے اور ہمارا آشیرباد حاصل کرنے کے بعد کچھ یوں شکوہ کناں ہوئے کہ مرشد! میں خود کو بڑا ہی کوئی معاملہ فہم اور زیرک انسان سمجھتا ہوں اور الحمدللہ کافی حد تک ہوں بھی مگر مرشد! یہ ساڑھے پانچ فٹ کی بیگم مجھے اپنی ازدواجی زندگی کے سولہ برس گزار کر بھی سولہ آنے سمجھ نہیں آ سکی۔ کروں تو کروں کیا آخر؟

اب سچ پوچھیں تو لفافے سے ہی خط کا عنوان سمجھ آگیا تھا، مزید کچھ پوچھنا عبث تھا کہ یہ کہانی تو گھر گھر کی ہے۔ یہاں تو لوگ پچاس برس ساتھ گزار کر بھی نہ سمجھ سکے تھے۔ سقراط اسی چکر میں اپنی بقراطی جھاڑتے ہوئے زہر کا پیالہ پی گیا تو پھر یہ کس کھیت کی مولی تھے۔

ہم نے ناک سکیڑی اور پکوڑے کی طرح منہ بنایا۔ اور موصوف پر فلسفے کی مار جھاڑی۔

’’عورت سمجھ میں نہیں آتی خاص کر جب وہ آپ کی اپنی بیوی ہو۔‘‘

یہ کہہ کر ہم نے پھر سے سنجیدہ منہ بنانے کی ناکام کوشش کی اور ناک سے پھسلتے چشمے کو واپس ناک پر دھرا مگر چشمہ بھی ایک نمبر کا ڈھیٹ تھا کھٹ سے پھسل کر اپنی سابق جگہ پر کسی ڈھیٹ سیاست داں کی طرح پورے استحقاق سے واپس آ براجمان ہوگیا۔

تو پھر کیا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہے گا مرشد؟

کوئی تعویذ، کوئی وظیفہ، کوئی چلہ کشی وغیرہ

کوئی تو اُپائے ہو گا مرشد؟

جتنی آس اور امید سے ہمیں دیکھا گیا ہمارا بس چلتا تو موصوف کی بیگم کو ایک ہی جست میں سیدھا کر دیتے بشرطیکہ وہ ٹیڑھا ہو کر بیٹھی ہوتیں مگر وائے افسوس وہ سامنے موجود ہی نہیں تھیں۔ خیر اب اس مرحلے پر ہمارا حد سے زیادہ سنجیدہ ہونا بنتا تھا کیونکہ معاملہ بہت نازک اور حساس نوعیت کا تھا۔

اتنا حساس کہ امریکا بھی اگر پاکستان سے منہ پھلا لے تو چل جاتا ہے کہ دوسرے دوست ممالک سے کچھ نہ کچھ تعاون اور امداد حاصل ہو ہی جاتی ہے مگر بیگم منہ پھلا لے تو اپنے ہی گھر میں ناطقہ بند ہو کر چائے روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں۔

ہم نے کچھ آڑی ترچھی لکیریں کاغذ پر کھینچیں اور ایسے مایوسی سے سر ہلایا جیسے دھوبی کا سارا حساب ہی غلط نکل آیا ہو۔ پھر کچھ سوچنے کی اوور ایکٹنگ کی اور کمال ہوشیاری سے مہینے کے راشن کی لسٹ اپنے دماغ میں مرتب کرلی۔پھر آنکھیں بند کرکے شہادت کی انگلی کو گول گول ہوا میں گھماتے ہوئے گویا ہوئے۔

ایک ہی مالا صبح شام جپتے رہیں۔۔۔”بیگم بیگم بیگم بیگم” ان شا اللہ صدق دل سے کہا جانے والا یہ وظیفہ کارگر ہوگا اور بیگم سے بندہ بے غم ہوگا۔

مگر مرشد آپ نے “چار بار بیگم بیگم بیگم بیگم” کہا ہے۔

اس جملے پر ہم نے آنکھیں پوری طرح کھول کر موصوف کے چہرے کا بغور جائزہ لیا۔ چہرے پر پھیلی ہوئی بے حساب خوشی کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہ تھا۔

ہمیں معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا۔ اب ہم موصوف کو اکلوتی ذاتی بیگم رکھتے ہوئے مزید بیگمات کی درآمد کا کوئی میرج لائسنس تو جاری کر نہیں رہے تھے۔ موصوف کو ہاتھ پکڑ کر باہر نکالنا لازمی تھا جو کہ خوش فہمی کے جنگل میں اس وقت خوشی خوشی تن تنہا بھٹک رہے تھے۔

تعداد طاق رکھیں ورنہ وظیفہ الٹ جانے کا اندیشہ ہے۔ چار تو کیا آئیں گی موجودہ ایک سے بھی کہیں ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ وظیفے پر دھیان دیں اور ہاں وفورِجذبات سے بیگم زیادہ ادا ہوجائے تو فوری گنتی پوری کریں اور طاق پر پہنچا کر ہی دم لیں۔

موصوف کی خوشی کافور کرتے ہوئے اور لہجہ سخت بناتے ہوئے ہم نے فوری کہا۔

مگر مرشد بیگم کو طاق پر کیسے پہنچاؤں۔ اول تو گھروں کے طاق بہت چھوٹے ہوتے ہیں بیگم پوری طرح اس میں ایڈجسٹ نہیں ہوپائیں گی، اور دوم کہ آج کل کے گھروں میں اب طاق ہوتے بھی نہیں ہیں کہ نہ رہے چراغ تو کیسے اب سجیں طاق۔

اب موصوف کو گھورنے کی باری ہماری تھی مگر وہاں تو عالمِ ڈھٹائی بڑی بے فکری سے جاری تھا۔

ویسے ایک نے ہی اس قدر مایوس کیا ہے اب مزید کی ہمت نہیں ہو رہی مرشد

چیلے نے کچھ شرماتے لجاتے ہوئے کہا۔

مایوسی کفر ہے۔ کوشش کریں کہ اسی کنویں سے میٹھا پانی نکل آئے مزید کھدائی کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

مرشد گزشتہ سولہ برس سے استقامت کے ساتھ ڈٹا ہوا ہوں۔ کھدائی پر کھدائی کیے جا رہا ہوں اتنی کھدائی کے بعد تو چولستان کے کنوؤں سے بھی پانی نکل آتا ہے مگر یہاں تو پتھر نکلتے ہیں جو لگتا ہے خود اس کی عقل پر پڑے ہوتے ہیں وہی اٹھا کر مجھ پر کھینچ مارتی ہے۔

بس پھر کیا غم۔۔۔لگے رہو منا بھائی

ہائے غم تو پھر غم ہے

جتنا بھی کروں کم ہے

ارے مگر معلوم تو ہو معاملہ کیا ہے آخر؟

پوری بات بتائیں۔۔۔ بلکہ یہ بتائیں کہ آپ کے ساتھ آپ کی بیگم کا سلوک کیسا ہے؟

ہم نے سنجیدگی کی انتہائی بلندی پر پہنچنے کی اوور ایکٹنگ کی۔

کیا بتاؤں مرشد! میری دکھ بھری داستان سننا آسان نہیں مگر پھر بھی آپ جتنی بھی مشکل سے سنیں، سنیں ضرور اور کوئی حل بھی بتائیں۔

ہم نے سنجیدگی کی اوور ایکٹنگ میں مزید دو اوور مکمل کیے اور سر سے بات جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔

مرشد اب آپ ہی بتائیں کہ بندہ پورے دن کا تھکا ہارا دفتر میں مغزماری کر کے گھر واپس آئے اور بیگم منہ پھلا کر کونا پکڑ کر بیٹھ جائے۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا؟

معاملات واقعی گمبھیر تھے۔ ہم نے افسوس سے اس دکھ بھری داستان کو سن کر سر ہلایا، دماغ میں سانپ سیڑھی کا کھیل چل رہا تھا۔ کاغذ پر دو چار لکیریں اور کھینچ ڈالیں اور موصوف کو اشارہ کیا کہ داستانِ الم جاری رکھی جائے۔ جتنی بھڑاس نکالی جا سکتی ہے نکال دینی ہے ابھی۔

موصوف نے اس حد تک سرد آہ بھری اور گہری سانس کھینچی کہ ہم کو گماں گزرا کہ کہیں کمرے کی آکسیجن میں کمی واقع نہ ہوجائے۔ کہنے لگے، میں خود کو ماہرنفسیات سمجھتا تھا اور کسی حد تک اپنے اس دعوے کو حقیقت بھی سمجھتا ہوں لیکن بیگم کی نفسیات سمجھتے سمجھتے خود نفسیاتی مریض بنتا جا رہا ہوں۔

کبھی یہ سخت قسم کا سونامی بن جاتی ہے تو کبھی خوش نما گل دستہ بن جاتی ہے۔ زیادہ تر معرکوں کا آغاز ناشتے سے ہوتا ہے اس کے بعد دن بھر کے کھانے کی چھٹی ہوجاتی ہے کہ اب ناراض بیوی کھانا پکاتے اچھی نہیں لگتی، وہ تو اپنے جہیز کا دوپٹہ سر پر لپیٹے صوفے پر منہ پھلائے لیٹی زیادہ اچھی لگتی ہے نا۔

ہم نے اظہارِافسوس کرنا چاہا مگر ہنسی چھوٹنے کا خدشہ تھا سو خاموش ہی رہے اور ایک بار پھر سر ہلا کر بات جاری رکھنے کا عندیہ دیا۔

اب مرشد کل صبح کا ہی احوال سنیں۔ کل صبح ناشتے کی میز پر جنگِ عظیم چہارم چھڑگئی۔ چہارم اس لیے کہ جنگ کا مسلسل چوتھا روز تھا اور متواتر شکست مجھ غریب کی ہی ہو رہی تھی۔

دیسی گھی کے پراٹھے مع دو عدد انڈوں کا پھیکا سا آملیٹ، اچار اور بنا چینی کے چائے کا مگ۔ سارے لوازمات میرے سامنے تھے اور میں اپنے مزاج کے خلاف پھیکے سے آملیٹ اور بنا شکر کے چائے پر کوئی ردعمل دیے بغیر اندر ہی اندر دہک رہا تھا، مگر ایک چنگاری اُڑ ہی گئی اور میری شامت آئی تھی کہ بے ساختہ بول اٹھا کہ سنو کبھی آملیٹ میں نمک ڈال کر ٹرائی کرنا ذائقہ کافی بہتر ہو جائے گا۔ بس وہ نمک جسے آملیٹ میں ہونا چاہیے تھا یکایک میرے زخموں پر آن پڑا اور پھر میرے کانوں نے موسیقی کے بے ترتیب راگ تب تک برداشت کیے جب تک موسیقار خود تھک نہیں گیا۔

حالانکہ چائے میں چینی کی عدم موجودگی والی بات کو میں نے کہیں اندر ہی دبا لیا تھا کیونکہ میں نے سوچا کہ ایک حقیر سے مول بکنے والے نمک نے ایسی تباہی مچائی ہے تو اس مہنگائی کے زمانے میں سونے کے بھاؤ بکنے والی چینی بھلا کیا گل کھلائے گی۔ بس اس کے بعد پھر سارا دن ہی سرد جنگ میں گزرا۔

ہم نے اس مایوس کن صورت حال میں افسوس سے سر ہلایا کہ بجز سر ہلانے کے کوئی چارہ بھی تو نہ تھا۔

اچھا آج صبح کی کاروائی سنیں مرشد!

ہم پھر سے ہم تن گوش ہو گئے۔

آج صبح نکڑ کی دکان سے ناشتے کے لیے انڈے ڈبل روٹی شہد لے کر گھر پہنچا تو بچوں کو باآواز بلند کسی بات پر ڈانٹ پلائی جا رہی تھی تو بس میری شامت ہی آئی تھی جو شہد ڈبل روٹی بیگم کو پکڑاتے ہوئے بیچ میں امریکا کی طرح مداخلت کر بیٹھا اور سمجھایا کہ آہستہ بولا کرو۔ آواز باہر تک جاتی ہے۔

محلے کے لوگ سمجھیں گے کہ بچوں کے ابا کو ڈانٹ پڑ رہی ہے۔ تو بس اتنی سی بات پر ہی بیگم کا منہ ایسا سوجا جیسے میں شہد کی بجائے شہد کی مکھیوں سے بھرا ہوا چھتا گھر لے آیا ہوں۔

بس پھر کیا تھا دومنٹ کے اندر ہی گھر کی کئی دنوں سے ساکت پڑی چیزیں اچانک ہی ہوا میں اچھلنے لگیں۔ دو دن سے صوفے پر پڑا بدبو مارتا تولیہ صوفے سے نکلا تو میزائل کی طرح جا کر صحن کی رسی پر اٹکا۔ بچوں کی کاپیاں کتابیں میز سے اٹھا کر بستوں میں یوں پٹخ کر رکھی گئیں جیسے کسی دھوبی گھاٹ پر میلے کچیلے کپڑے پٹخے جاتے ہیں۔

باورچی خانے میں کبھی بند نہ ہونے والا آٹے کا کنستر یوں بند ہوا کہ پھر کھل کر آہ بھی نہ بھر سکا۔ اور تو اور ڈوئی، ہانڈی میں یوں گھمائی جا رہی تھی جیسے میدانِ جنگ میں تلوار۔ چمچوں کی اٹھا پٹخ کا یہ عالم تھا کہ اگر سیاسی چمچے دیکھ لیتے تو سیاست میں چمچہ گیری کرنے سے ہمیشہ کے لیے باز آ جاتے۔ پلیٹیں کھڑکھڑا رہی تھیں اور سالن میں طبیعت سے ڈالی گئی مرچیں لال گلال ہو کر شرما رہی تھیں۔ بس مرشد سارا دن یہی سلسلہ رہا۔ تیز بارش کے ساتھ اولے برستے رہے۔

اتنی داستان سننے کے بعد تاسف کا اظہار ضروری تھا، سو ہم نے موصوف کو ٹشو پیپر تھمایا کہ آنسو پونچھ لیں مگر انہوں نے اس سے فقط ناک ہی پونچھی۔ پونچھا لگا کر موصوف پھر گویا ہوئے۔

مرشد اس وقت گھر میں مزید رکنا خطرناک ہو سکتا تھا، لہٰذا میں سکون کی تلاش میں گھر سے باہر کسی کام کا بہانہ بنا کر نکل پڑا۔ جب نکلا تھا تب تک تو یہ سونامی بن کر قہر ڈھا رہی تھی لیکن جب واپس آیا تو زردے کی پلیٹ ہاتھ میں لیے مسکرا کر میرا استقبال کر رہی تھی۔ ہائے مرشد کوئی گرگٹ بھی اتنی تیزی سے رنگ نہ بدلتا ہوگا جیسے یہ رنگ بدلنے میں مہارت رکھتی ہے۔

میں حیران پریشان تھا کہ خدا خیر کرے ایسا کونسا معجزہ ہو گیا جو یہ مئی کے مہینے سے ڈائریکٹ دسمبر پر پہنچ گئی ہیں۔ جلد ہی عقدہ کھلا کہ اس اتوار کو ساس سسر مع بیٹی اور نئے داماد کے ہمارے ہاں تشریف لا رہے ہیں اور دو تین دن تک پڑاؤ یہیں رہے گا اور اگر ان دو تین دنوں میں ساس صاحبہ کا ادھر بچوں میں دل لگ گیا تو پھر ان کا پڑاؤ مستقل یہیں رہے گا۔ قسم سے مرشد زردہ کھاتے ہوئے بس یہی محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے اپنے ہی سوئم کی بغیر بوٹیوں والی اجڑی بریانی کھارہا ہوں جس کے ساتھ کولڈ ڈرنک بھی نصیب نہیں ہوتی۔

ہم نے جلدی سے ٹشو پیپر کا ڈبا موصوف کے سامنے دھرا تاکہ وہ نہ بہہ سکنے والے آنسوؤں کو خیالی پونچھ ڈالیں کہ یہ وہ آگ تھی جس کے شعلے دکھتے نہیں بس مسلسل دھواں اٹھتا رہتا ہے۔

ہمارے سامنے پڑے کاغذ پر لکیریں مزید گہری ہوگئیں۔ سانپ نیچے آ گیا سیڑھی اوپر چلی گئی مگر دکھڑے کی پٹاری جو کھلی تو بند نہ ہوئی۔

پھر وہ موصوف اپنا سیل فون ہمارے سامنے کر کے کہنے لگے کہ یہ دیکھیں مرشد! یہ ویڈیو ہماری محترمہ نے ہمیں بھیجی تھی ابھی کچھ دیر پہلے۔

ہم نے اشتیاق سے موبائل اسکرین پر چلنے والی بیس سیکنڈ کی وڈیو دیکھی جس میں ایک نازک اندام حسینہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے کہہ رہی تھی روک سکو تو روک لو۔۔۔۔(آگے کے فقرے زبان زدِعام ہیں لکھنے کی کیا ضرورت)

وڈیو دیکھ کر ہم نے موصوف کو تشویش ناک نظروں سے دیکھا اور کہا۔

ارے یہ تو کھلی دھمکی بھیجی ہے آپ کی بیگم نے ڈھکے چھپے انداز میں۔

ہیں دھمکی۔۔۔مگر وہ کیسے؟

آپ نے شاید وڈیو پر غور نہیں کیا اتنی تنگ سیڑھیوں پر ایک وقت میں ایک ہی بندہ چڑھ سکتا ہے اور آپ کی بیگم چڑھ رہی ہیں، البتہ برابر میں ایک اور سیڑھی ہے جس پر بورڈ لگا ہوا ہے۔

” براہ مہربانی نیچے اترنے کے لیے استعمال کریں”

موصوف کی آنکھیں عین اسی طرح پھیل گئیں جیسے بیگمات شاپنگ کرتے ہوئے پھیل جاتی ہیں۔

آپ کی بیگم لگتا ہے اب آپ کو آپ کی اس مسند پر جہاں آپ سر کے تاج کی طرح براجمان ہیں وہاں سے اتار کر ہی دم لیں گی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی اس خواہش کو عملی جامہ پہنائیں بیٹھ کر، سکون سے، تسلی سے مسئلہ پوچھ لیں۔

ہاں بات تو ٹھیک ہے مرشد! لیکن مجھے پتا ہے اس بات پر بیگم کا ردعمل کیا ہوگا۔ کہے گی میں کون سا بلا رہی تھی آپ کو، آپ بھی نہ بلاتے۔ نہ آتے مجھے منانے۔

مگر کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔ ناراضی کو طول دینا مناسب نہیں۔ دال دلیہ گھر سے ہی چلتا رہے تو اچھا ہے۔ ہم نے سنجیدگی سے غیرسنجیدہ الفاظ کہے۔

اچھا مرشد! کرتا ہوں کچھ۔ بس آپ کی آشیرباد رہنی چاہیے۔ ہم نے خلا میں ہاتھ موصوف کے سر پر پھیرا اور ایک تاسف بھری نظر ان کے سر کے گھنے بالوں پر ڈالی جو جلد یا بدیر بیگم کے حسنِ سلوک کی وجہ سے اڑنے والے تھے۔ موصوف اِدھر چلا میں اُدھر چلا جیسی چال کے ساتھ گھر کو روانہ ہوئے۔

رات کو ہمارے موبائل اسکرین پر نئے میسیج کا الرٹ آیا تو ہم نے میسیج دیکھا۔ ان موصوف کا ہی میسیج تھا۔

مرشدً دنیا کا سب سے مشکل سفر یہی لگتا ہے جب ناراض بیوی مسہری کے دوسرے کونے پر منہ پھلائے سونے کی ایکٹنگ کر رہی ہو تب مسہری کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک کی خلیج کا فاصلہ پاٹنا ایسے ہی لگتا ہے جیسے پرانے زمانے کے اسٹیم انجن والے شپ سے خلیج بنگال کا سفر طے کیا جا رہا ہو۔۔۔وقفے وقفے سے کھانس کر اپنی موجودگی کا احساس دلانا پڑتا ہے۔

مگر سفر تو کرنا ہے نا۔ ہم نے مختصر ریپلائی کیا۔

جی مرشد!

بس تو پھر بیگم کو منانے کی کوشش کریں۔ اگر اپنی زندگی کے غم کچھ کم کرنا ہیں تو۔ ہم نے جوابی ریپلائی کیا اور سیل بند کرکے ٹی وی اسکرین آن کر دی جہاں ہمارا پسندیدہ ڈراما اپنے پورے کلائمکس پر تھا۔ پچیسویں قسط میں جا کر تینوں بیویوں کی صلح ہوگئی تھی مگر آپس میں۔ محاذ اب بھی گرم تھا اور ان تینوں کا اکلوتا شوہر اپنے ہی گھر میں گوشۂ عافیت ڈھونڈ رہا تھا۔ ماننا پڑے گا کہ یہ چینل والے بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر کیا کیا کانٹینٹ لاتے ہیں۔

اگلے دن صبح صبح موصوف کا خوشی سے چہکتا ہوا میسیج آیا۔

صلح ہو گئی مرشد!

ہم نے جواباً وکٹری کا ایموجی بھیج کر موبائل بند کیا اور میز پر رکھے سانپ سیڑھی کے کاغذ کا گولا بنا کر اسے ڈسٹ بن کی نذر کیا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ خطرناک سے خطرناک اور شدید سے شدید ناراض میاں بیوی کی صلح اکثر رات کے اوقات میں ہی ہوتی ہے جب کہ بھرپور زبانی حملوں اور گھر والوں کے سامنے ایک دوسرے پر میزائل داغنے اور فائر کرنے کے لیے دن سے بہترین وقت اور کوئی نہیں ہوتا جب کہ پورا خاندان آپ کی ہمت و شجاعت کو داد دیتا ہوا آپ سے مرعوب رہتا ہے کہ شوہر ہو تو ایسا جو بیوی کو قابو میں رکھنے کا گر اچھی طرح جانتا ہے۔

The post کہانی گھرگھر کے گھروالے کی appeared first on ایکسپریس اردو.

دوسروں کی راہ نمائی آپ کی پذیرائی

$
0
0

اپنی قدرتی اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ذریعے دوسرے انسانوں کی مدد کرنا، انسانیت کی بہترین خدمت ہے۔

اس خدمت کے انداز مختلف ہوسکتے ہیں، مثلاً کسی بھوکے انسان کو کھانا کھلانا، کسی مریض کی تیمارداری کرنا، بے روزگار کو روزگار فراہم کرنا اور کسی ضرورت مند کی مشکل میں مدد کرنا لیکن میرے نزدیک سب سے افضل اور عظیم کام کسی انسان کو اُس کی قدرتی صلاحیتوں کو نکھارنے اور بہترین انسان بننے میں راہ نمائی کرنا ہے۔

یہ عمل انسانیت کی خدمت کا سب سے اہم اور ناگریز کام کسی فردواحد اور ادارے کو اُس کی زندگی اور وجود کے مقصد سے آگاہ کرنا اور اس عمل میں عملی معاونت کرنا ہے۔

مذاہب کی بنیاد اسی انسانی اور اجتماعی فلاح کے فلسفے پر ہے، جس میں انسانیت اور جماعتی بہبود کو حقیقی ترقی کا نام دیا جاتا ہے۔ جدید ریسرچ اور نفسیات نے ثابت کیا ہے کہ انسان فرد واحد کی حیثیت سے کبھی دیر پا ترقی نہیں کر سکتا ہے۔

لرننگ اینڈڈویلپمنٹ انڈسٹری میں جسے سیلف ہیلپ اور پرسنل ڈویلپمنٹ کہا جاتا ہے، میں ذاتی طور پر ان اصلاحات کو زیادہ مفید نہیں تصور کرتا جس کہ وجہ یہ ہے کہ انفرادی ترقی ہمیشہ تکبر اور انا کو جنم دیتی ہے۔

اجتماعی ترقی کے لیے ٹریننگ اور ٹیچنگ کو اس لیے خاص اہمیت دی جاتی ہے کیوںکہ یہ معاشرے کی اصلاح اور بہتری کے لیے کردار ادا کرتے ہیں۔

ٹریننگ میں ایک خاص شعبہ کوچنگ کا میدان ہے جو بہت وسیع اور جامع ہے جس کے ذریعے آپ اپنی کلائنٹ کی راہ نمائی کرتے ہیں جو کہ حیران کن انداز میں آپ کی اپنی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

دوسروں کی کوچنگ آپ کی ذاتی ترقی کے لیے کیسے کارگر ثابت ہوتی ہے۔ آج اس دل چسپ موضوع پر گفتگو کریں گے۔ یہ تمام باتیں میں نے اپنی عملی زندگی کے مشاہدات، برائے راست زندگی کے تجربات، ماہرین سے انٹرویوز اور وسیع مطالعہ کی بنیاد پر سیکھی ہیں۔

معروف بزنس میگزین ’’انٹرپرینیور‘‘ میں شائع ہونے والی والی ایک رپورٹ میں بزنس کوچ شھبم سیٹھی نے لکھا ہے کہ حالیہ برسوں میں کوچنگ کی صنعت میں اضافہ ہوا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

یہ اس لیے ہورہا ہے کیوںکہ لوگ  کسی  بیرونی ماہر کے نقطہ نظر سے مدد حاصل کرنے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ یہ راہ نمائی چاہے افراد کے لیے انفرادی طور پر ہو یا تنظیموں کے لیے اجتماعی سطح، حقیقت یہ ہے کہ کوچنگ واقعی ہی کام کرتی ہے۔

گوگل کے سابق سی ای او ایرک شمٹ کا کہنا ہے کہ ایپل اور گوگل جیسی  کمپنیاں اپنی عالمی کام یابی کوٹریلین ڈالر بزنس کوچ، بل کیمبل کی مرہون منت سمجھتی ہیں۔ بل کیمبل نے ان کمپنیوں کے ساتھ کام کیا تاکہ انہیں یہ دکھایا جا سکے کہ کوچنگ اعتماد اور استقامت کے بارے میں ہے۔ ایرک شمٹ نے مزید کہا کہ ایک بار ان کے اور کوچ کے درمیان اعتماد قائم ہو گیا، پھر وہ مسائل کو حل کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے تھے۔

کوچنگ کو اکثر ایک مشق کے طور پر دیکھا جاتا ہے جہاں کوچ کسی کلائنٹ کو ان کے ذاتی یا پیشہ ورانہ اہداف کے حصول میں مدد فراہم کرتا ہے۔ لیکن یہ کوچ کے لیے بھی ایک بے حد اہم اور اپنی ذات کی تکمیل کرنے والی مشق ہے۔ یہ مشق انہیں فرد کے طور پر تیار کرتی ہے اور مارکیٹ میں راہ نما اور ایکسپرٹ کے طور پر مضبوط بننے میں ان کی مدد کرتی ہے۔

اگر آپ بھی اس ضمن میں مہارت حاصل کرنا چاہتے اور اپنا نام بننا چاہتے ہیں تو آپ اس طریقہ کار پر عمل کرنا ہو گا۔

آپ اپنی مہارتوں کو شیئر کرتے ہیں:

کوچنگ اپنی مہارت اور تجربات کو دوسروں کے ساتھ بانٹنے میں آپ کی مدد کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کو کوچنگ کا کئی سال کا تجربہ ہونا چاہیے۔

اس کے بجائے، آپ کے پاس کاروبار، صحت یا زندگی کا تجربہ ہونا چاہیے ۔ یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ کس کوچنگ کے شعبہ ومقام پر توجہ مرکوز کرنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ اپنے کاروبار کی منصوبہ بندی کرتے وقت اپنی کوچنگ کی مناسب جگہ تلاش کرنا بنیادی اور سب سے اہم اقدامات میں سے ایک ہے۔ ایک پرفارمنس کوچ یونیورسٹی نے ایک خاکہ شیئر کیا  ہے جس میں وہ تمام پہلو دکھائے گئے جن پر آپ کو اپنی مناسب جگہ اور شعبہ تلاش کرنے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے چار حصے درجہ ذیل ہیں:

1:    جس کام سے آپ محبت کرتے ہیں۔

2:    جس کام کی قیمت لوگ ادا کریں گے۔

3:    جس کام میں آپ اچھے اور ماہر ہیں۔

4:    وہ مسائل جو آپ لوگوں کو حل کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔

کوچنگ آپ کے ذاتی تجربات کی بنیاد پر دوسروں کی مدد کے لیے ان کا استعمال کرنے کے بارے میں ہے۔ یہاں ایک مثال ہے۔ فرض کریں کہ مجھے ایک بڑی کمپنی میں مینیجر کے طور پر کام کرنے کا تجربہ ہے اور مجھے میرے ایگزیکٹیوز کی طرف سے خاطر خواہ تعاون حاصل نہیں ہے۔ اس صورت میں میں اپنی تعلیم کو دوسرے مینیجرز کی کوچنگ کے لیے استعمال کر سکتا ہوں جو اسی طرح کے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ آپ اکثر ایسے لوگوں کو دیکھتے ہیں جو وزن میں کمی جیسے تجربات سے گزر چکے ہیں اور دوسرے افراد کو تربیت دینا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ تجربہ کار اور باخبر ہوتے ہیں اور ممکنہ کلائنٹ اس کا احترام کرتے ہیں۔ حال ہی میں میں نے اپنا کئی کلو وزن کم کیا تو میرے کئی دوستوں اور وقف کاروں نے مجھ سے وزن کم کرنے کیلئے ٹپس اور ٹریننگ کی درخواست کی۔

آپ دوسروں میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں

کئی لوگ مجھے سے آن لائن اور پرسنل کوچنگ سیشنز کے لیے رابطہ کرتے ہیں۔ کچھ لکھنے کی خوبی کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ کچھ اپنا احساس کم تری سے چھٹکارا چاہتے ہیں اور خوداعتمادی بڑھانا چاہتے ہیں۔ یہ اکثر اس لیے ہوتا ہے کیوںکہ انہوں نے کسی ایسی چیز کا تجربہ کیا ہے جس نے کام، گھر یا کسی خاص کمیونٹی میں ان کے اعتماد کی سطح کو کم کر دیا ہے۔

بحیثیت کوچ، آپ اپنا کافی وقت اپنے کلائنٹس میں طویل مدت کے لیے اس اعتماد کو بڑھانے کی کوشش میں صرف کریں گے۔ لیکن اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ آپ اپنے آپ پر اعتماد بھی پیدا کریں گے جتنے زیادہ کلائنٹس ہوں گے آپ کے اعتماد اور وقار میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔

ایک بار جب آپ کے پہلے چند کلائنٹس ہوتے ہیں، تو وہ آپ کے ساتھ اپنے مثبت تجربے کے بارے میں بات کو دوسرے لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں، اور آپ اس عمل سے زیادہ کلائنٹس حاصل کر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے، زیادہ لوگ آپ کو مثبت روشنی میں دیکھتے ہیں۔ یہ آپ کے اعتماد  کو بڑھا سکتا ہے اور اس سے پہلے کہ آپ اسے جانتے ہوں، آپ ایک کوچ کے طور پر کانفرنسوں اور تقریبات میں بات کررہے ہوں گے۔ لوگ آپ کے بارے میں جانتے ہوں گے۔

آپ تعلقات استوار کرتے ہیں

Words of mouth اب بھی دُنیا کی سب سے مضبوط مارکیٹنگ کی حکمت عملیوں میں سے ایک ہے۔ میں نے ابھی اس بارے میں بات کی ہے کہ یہ آپ کو مزید  کلائنٹس کو راغب کرنے میں کس طرح مدد کر سکتا ہے۔ لیکن یہ اس سے بڑھ کر ہے۔ کوچنگ کلائنٹس کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور قیمتی تعلقات بنانے پر توجہ دیتی ہے۔

کچھ کوچز ہفتے میں ایک بار اپنے کلائنٹس سے ملتے ہیں۔ ہر سیشن آپ کی ترجیح کے لحاظ سے 45-90 منٹ تک کا ہوسکتا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ قدرتی طور پر اپنے کلائنٹس کے ساتھ تعلقات استوار کریں گے اور ایک مضبوط تعلق قائم کریں گے۔

آپ ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگیوں کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں اور کوچ اور کلائنٹ کے درمیان بہت زیادہ اعتماد ہوتا ہے۔ کوچنگ آپ کو نئے لوگوں سے ملنے، انہیں گہرے طور پر سمجھنے اور ان کے تعاون کا ستون بننے کی اجازت دیتی ہے جب کہ وہ آپ کی کوچنگ کی حکمت عملیوں کو اپنی زندگی میں عملی جامہ پہناتے ہیں۔ وقت، صبر، عزم اور مدد کرنا یہ وہ مہارتیں ہیں جو کلائنٹس آپ سے چاہتے ہیں۔ یہ ایک عظیم رشتے کے تمام اہم پہلو ہیں۔

آپ اپنے شعبے کے ماہر بن جاتے ہیں

سماجی سوچ اور کسی شعبے کے ماہرین کی تعریف مستند مواد کی فراہمی کے طور پر کی جاتی ہے جو دوسروں کو تعلیم دینے کے مقصد کے ساتھ مصنف یا کوچ کی بصیرت اور تجربے سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ دُنیا انہیں Thought Leaders کہتی ہے۔

SEMrush  نے ایک دلچسپ رپورٹ شیئر کی جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ لوگ سوچی سمجھی قیادت کو ’’تبدیلیوں کا باعث بننے والے الہامی مواد‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں جس کے بعد ’’تعلیمی مواد‘‘ اور پھر ’’صنعت کے رجحانات کو تلاش کرنے والا مواد‘‘ آتا ہے۔ یہ ہمیں دکھاتا ہے کہ لوگ کاروباری ماہرین سے متاثرکُن مواد دیکھنا چاہتے ہیں اور کوچنگ کمپنی شروع کرنے سے یہ حاصل ہو سکتا ہے۔

ایک بار جب آپ کے پاس چند سال کا تجربہ ہوجائے اور آپ اپنے شوق اور مہارت کے بارے میں لکھنا شروع کردیں، تو آپ جلد ہی لوگوں کو اپنے ساتھ مشغول ہوتے اور کوچنگ کے مشورے کے لیے مائل ہوتا دیکھیں گے۔ مزید کلائنٹس آپ کے بارے میں جانیں گے اور آپ کو دوستوں، خاندانوں اور ساتھیوں کے پاس بھیجیں گے۔ اس مرحلے پر، آپ ایک ماہر بن گئے ہیں جسے لوگ دیکھنا، پڑھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ناقابل یقین احساس ہے کیوںکہ آپ لوگوں کے ساتھ فعال طور پر مشغول رہتے ہیں اور وہ کام کر رہے ہیں جو آپ بہترین کرتے ہیں ۔ ہر روز دوسروں کی مدد کرتے ہیں۔

اپنے شعبے کے ماہر بننے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ مزید مواد تیار کرنا شروع کریں، زیادہ لائیو سیشنز کی میزبانی کریں اور مزید ورکشاپس اور کانفرنسوں میں بات کریں۔ دُنیا میں مشہور کوچز، ٹونی رابنز، جان مسکوئیل، برائن ٹریسی اور سائمن سینکس جیسے عظیم لوگوں کے بارے میں سوچیں۔ یہ اس قسم کے لوگ ہیں۔

جن کی افراد اور کمپنیاں تلاش میں رہتی ہیں، اور کوچنگ آپ کو اس حد تک تعریف اور آزادی تک پہنچا سکتی ہے جتنا آپ سوچ سکتے ہیں۔ چاہے آپ کوچنگ کو زندگی میں کچھ نیا شروع کرنے کی نظر سے دیکھ رہے ہوں یا نئے لوگوں سے ملنے کے نظر سے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجموعی طور پر، کوچنگ میں داخل ہونے کے لیے ایک بااختیار کام ہے۔ لوگوں کو ان کے اہداف حاصل کرنے اور ان کے مسائل کو دور کرنے میں مدد کرنا ایک خوش کن چیز ہے، اور ہر ایک کو اپنی مہارت کے سیٹ کے مطابق اس پر عمل کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔

مناسب منصوبہ بندی اور عمل درآمد کے ساتھ، آپ کا کوچنگ کا کام لوگوں کے لیے ایک متاثر کن کام بن سکتا ہے جب انہیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہو اور سب سے بڑھ کر یہ آپ کی ذاتی ترقی کو بھی بہت زیادہ بڑھا سکتا ہے۔ زندگی میں اس زیادہ خوش گوار احساس کوئی اور نہیں ہوسکتا کہ کسی انسان کی کام یابی میں آپ کا کردار شامل ہو جو آپ کی ذاتی کا بھی سبب بنے۔ اس احساس کی اہمیت وہ لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں جو اجتماعی ترقی اور بھلائی پر یقین رکھتے ہیں۔

The post دوسروں کی راہ نمائی آپ کی پذیرائی appeared first on ایکسپریس اردو.

عظیم راہ بر چوہدری رحمت علی

$
0
0

 لاہور: ’’قیام پاکستان رحمت علی کے تخیل اور دور اندیشی کا اتنا ہی مرہون منت ہے جتنا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی جدو جہد کا۔‘‘

(پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر خورشیدکمال عزیز)

حقیقت یہ ہے کہ بعض بڑے مسلمان راہ نماؤں کے علاوہ آل انڈیامسلم لیگ کی قیادت بھی چودھری رحمت کی منفرد فکر سے متأثر ہوئی اور اس نے بھی بالآخر چودھری رحمت علی ہی کے تجویز کردہ خاکے کے مطابق، مطالبہ پاکستان اختیار کر لیا تھا۔

یہ اور بات ہے کہ مسلم لیگ نے چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم ، اُن کی فکری مساعی کا اعتراف کیے بغیر مستعار لی۔ مسلم لیگ نے جب تک چودھری رحمت علی کی پاکستان اسکیم سے استفادہ نہیں کیا۔

اس وقت تک اسے عوامی حمایت نہیں ملی تھی، جس کا ثبوت یہ ہے کہ 1937ء میں، صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ 485 مسلم نشستوں میں سے صرف 108 نشستیں جیت سکی، کیوںکہ اُس وقت تک اس نے پاکستان کے مطالبے کو اپنا نصب العین نہیں بنایا تھا لیکن جب 1940ء میں مسلم لیگ نے پاکستان کو اپنی منزل بنالیا تو1946ء کے انتخابات میں اسے بے مثال کام یابی ملی۔

یہ حقیقت بھی جدید تحقیق کی رُو سے ثابت ہو چکی ہے کہ سر ڈاکٹرعلامہ شیخ محمد اقبال کے1930 ء کے خطبہ الہٰ آباد میں پیش کی گئی مسلم ریاست کی تجویز ایک، الگ، آزادوخودمختار ملک کے قیام کی تجویز نہیں تھی۔

بقول خود علامہ اقبال:

ا)۔’’میں نے برطانوی سلطنت سے باہر ایک مسلم ریاست کا مطالبہ پیش نہیں کیا ۔‘‘ (ایڈورڈ ٹامسن کے مضمون کا جواب ۔ اخبار ٹائمز۔ لندن۔12اکتوبر1931ئ)

ـب)۔’’میری اسکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا ایک حصہ ہوگا۔‘‘ (خط بنام ایڈورڈ ٹامسن۔4 مارچ 1934ئ)

ج)۔’’میں نے انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلم صوبہ بنانے کی تجویز پیش کی تھی‘‘ (خط بنام راغب احسن۔ 6 مارچ 1934ئ)

ا س لحاظ سے ایک آزاد مسلم ملک کا تصور1930ء کے خطبہ الہٰ آباد میں نہیں بلکہ1933ء میں لکھے گئے، چودھری رحمت علی کے پمفلٹ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ [Now or Never] میں پیش کیا گیا تھا۔

اگرچہ علامہ اقبال نے بھی بالآخر1937ء میں ایک آزاد مسلم ملک کا مطالبہ بطور سیاسی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے اسی سال، قائداعظم کو اس بارے میں خطوط لکھے۔

لیکن افسوس کا مقام ہے کہ ہمارے تقریباً تمام مصنفین اپنی ہر تحریر میں یہی لکھتے ہیں کہ ’’ایک آزاد مسلم مملکت کا تصور علامہ محمد اقبال نے 1930ء کے خطبہ الٰہ آباد میں پیش کیا تھا‘‘۔ بلکہ اب یہ من گھڑت دعویٰ ایک مسلمہ تاریخی حقیقت بنا کر تاریخ کی ہر کتاب میں لکھ دیا گیا ہے، جس کی واضح تردید خود علامہ محمد اقبال کر چکے ہیں۔

بلندپایہ مورخ ڈاکٹر صفدر محمود کے مطابق:’’علامہ محمد اقبال مرحوم یہ خطبہ دینے کے بعد تقریباً آٹھ برس تک زندہ رہے۔

انھوں نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ الٰہ آباد کے خطبے میں آزاد مسلمان مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جب خود علامہ اقبال خطبہ الٰہ آباد اور اپنے تصور کی بار بار وضاحت کرتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے انڈین فیڈریشن کے اندر ایک مسلمان اکثریتی صوبے کی تجویز پیش کی ہے نہ کہ ایک آزاد مسلم ریاست کا تصور، تو پھر کیا ہمارے لیے یہ مناسب اور جائز ہے کہ ہم ان سے کئی قدم آگے جاکر خطبہ الٰہ آباد سے ایک آزاد مسلمان مملکت کا تصور تلاش کریں؟‘‘ (’’اقبال،جناح اور پاکستان‘‘ صفحہ،60-56)

’’چودھری رحمت علی کو اپنے ہم عصروں پر یہ فوقیت بھی حاصل ہے کہ انھوں نے 1933ء میں پنجاب، سرحد، سندھ اور بلوچستان پر مشتمل ایک آزاد مسلم ریاست کا واضح تصور پیش کیا۔‘‘ (ڈاکٹر صفدر محمود، ایضاً، صفحہ144)۔ چودھری رحمت علی نے ان صوبوں میں کشمیر کو بھی شامل کیا تھا۔

یہ درست ہے کہ چودھری رحمت علی کی کچھ اسکیمیں (ہندو اکثریتی علاقوں میں مسلم ریاستیں) قابل عمل نہ تھیں لیکن پہلی بات یہ ہے کہ رحمت علی نے خود ان مسلم ریاستوں کی وضاحت اپنی کتاب’’پاکستان ۔ پاک قوم کا آبائی وطن‘‘ کے صفحہ نمبر271 پر کی ہے، جس کے مطابق ان مسلم ریاستوں کے مطالبے کا مقصد یہ تھا کہ کم از کم ان مسلمانوں کا مطالبہ آزادی تاریخ میں ریکارڈ ہوجائے اور یہ مطالبہ پاکستان، بانگستان اور عثمانستان (حیدر آباد، دکن) کے مطالبہ آزادی کو تقویت دے سکے۔

دوسرے لفظوں میں ان سات مضبوط مراکز (مسلم ریاستوں) کے مطالبے کا مقصد ہندوؤں پر پاکستان، بانگستان اور عثمانستان کے حصول کے لیے، سیاسی دباؤ بڑھانا تھا اور یہ دباؤ واقعتاً بڑھا بھی تھا۔ اسی دباؤ کے تحت، ہندوستان کے وزیرداخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے 25 دسمبر1948ء کو بنارس ہندو یونیورسٹی میں خطاب کے دوران کہا:

’’ میں نے محسوس کیا کہ اگر ہم نے تقسیم قبول نہ کی تو ہندوستان بہت سے حصوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ بالکل تباہ و برباد ہو جائے گا…….. اس طرح صرف ایک پاکستان نہیں بنے گا بلکہ کئی پاکستان بن جائیں گے۔‘‘

نومبر1949ء میں سردار پٹیل نے دستورساز اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا:

’’میں نے تقسیم کو آخری حربے کے طور پر قبول کیا، کیوںکہ ہم ایک ایسے مرحلے میں داخل ہوچکے تھے کہ ہم اپنا سب کچھ گنوا سکتے تھے۔‘‘

یہ کئی پاکستان کا مطالبہ کس کا تھا؟ ظاہر ہے چودھری رحمت علی کا، یعنی ان کئی پاکستان سے مراد وہی سات مسلم ریاستیں (صدیقستان، فاروقستان، معینستان وغیرہ) ہی تھیں۔

چودھری رحمت علی چاہتے تھے کہ پاکستان میں بھی ہندوؤں اور سکھوں کے لیے کچھ علاقے مخصوص کردیے جائیں اور پھر ان کے ساتھ ویسا ہی مساوی سلوک کیا جائے جیسا مسلمانوں کے ساتھ ہندو اکثریتی علاقوں میں ہو۔ اس برابری کے سلوک سے دونوں طرف کی اقلیتیں محفوظ رہتیں۔

لیکن ہندوستان کی غلط تقسیم سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ ان مسلمان ریاستوں کے مطالبے سے چودھری رحمت علی کے ان ہندوستانی مسلمانوں کے بقاء و تحفظ کی فکر کا اظہار ہوتا ہے ، جن کے لیے وہ اقوام متحدہ تک گئے اور اس ضمن میں ان کے بعد کسی نے کچھ نہ کیا۔ ان مسلم ریاستوں کے مطالبے اور چودھری رحمت علی کے وسیع پلان کے بارے میں ڈاکٹر راجندر پرشاد بھی خوف کا شکار نظر آتے ہیں، جب وہ لکھتے ہیں:

’’رحمت علی کا دعویٰ ہے کہ مسلم لیگ کسی حد تک ان کے خیالات سے متفق ہو گئی ہے ۔ کسی کو کیا معلوم کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس اسکیم کے دوسرے حصوں سے بھی وہ متفق ہو جائے جو شائع ہو چکے ہیں ۔یا۔ ابھی شائع نہیں ہوئے۔

اور اس لحاظ سے ہندوؤں کو مستقبل کے اس دن کی طرف دیکھنا چاہیے جب انڈیا کا نام مٹ جائے گا اور ہر جگہ ملت (یعنی ملت اسلامیہ) کا دور دورہ ہو گا اور پھر براعظم کا نام بھی دِینیا ہو جائے گا۔‘‘ (India  Divided, P.187)

چودھری رحمت علی کے انتقال پر ان کے عمانویل کالج کیمبرج کے میگزین (مطبوعہ1951ئ) میں انھیں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا گیا:

’’کسی بات چیت کے دوران وہ ایسے مؤثر انداز میں مدعا پیش کرتے کہ ہر لفظ سے ان کا خلوص نظر آتا تھا۔ وہ اپنے موضوع پر اتنی فصاحت و بلاغت سے بات کرتے، جیسے ان پر الہام (نازل) ہورہا ہو۔

ان کا مدعا ہمیشہ ہندو قومیت کے مقابلے میں اسلام کی حفاظت ہوتا تھا۔ عمانویل کالج کا یہ گمنام طالب علم اس دنیا کے حالات پر اس قدر اثرانداز ہوا، اور مستقبل میں اس سے بھی زیادہ اثر انداز ہوگا، ایسا کسی ایک انسان کی قسمت میں نہیں ہوتا….. یہ کالج پاکستان کے بانی کا کالج تھا۔‘‘

کیمبرج کے اخبار’’Daily News‘‘ نے لکھا:

’’ پوری دنیا میں ان کے احترام کی بنیادی وجہ ان کی عظمت و اعلیٰ ظرفی، اپنے مقصد پر یکسوئی اور مستقل مزاجی ہے….. یہ بہت فخر کی بات ہے کہ کیمبرج، چودھری رحمت علی کو 1933ء میں پاکستان کا تصور پیش کرنے والا کہہ کر یاد رکھے گا….. دنیا ایک ایسے عظیم شخص سے محروم ہو گئی جو ایک تخلیقی نظریہ ساز تھا۔‘‘

چودھری رحمت علی نے مطالبہ پاکستان کی تخلیق ، ترویج و تشہیر اور برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کر دی۔ شادی تک نہیں کی ۔ گھر بار نہیں بنایا۔ اس مقصد کے لیے اپنی تعلیم، پیشہ، مستقبل، زندگی، غرضیکہ سب کچھ قربان کر دیا۔

انہوں نے 1950ء میں اپنی زندگی کا آخری پمفلٹ لکھا جس میں پاکستان کو درپیش مسائل و خطرات کی نشان دہی کر تے ہوئے ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے تجاویز بھی پیش کیں۔ انھوں نے جتنا کام تن تنہا کیا۔ اتنا کوئی پوری جماعت مل کر نہیں کر سکتی تھی۔

یہ سب کام ان کی لگن، محنت اور خلوص ظاہر کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ ان کی عمر بھر کی پرخلوص جدوجہد اور اپنے مشن سے بے انتہا وفادار ی اور جاں نثاری مثالی تھی۔ لیکن وہ جن حالات سے گزرے اور جس بے اعتنائی، احسان فراموشی، نظرانداز ی اور الزام تراشی کا سلوک ان کے ساتھ کیا گیا، جس کسمپرسی اور مقروض حالت میں دیارغیر (کیمبرج) میں ان کا انتقال ہوا، یہ کسی بھی باعزت قوم کے لیے انتہائی شرم ناک اور افسوس ناک ہے۔

چودھری رحمت علی کے اولین سوانح نگار، پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر خورشیدکمال (کے ۔ کے) عزیز کے بیان کے مطابق:

’’کسی انسان کو اس سے بڑی کام یابی نہیں مل سکتی تھی۔ کوئی پارٹی اس سے زیادہ احسان فراموشی نہیں کر سکتی تھی۔ یہ لفظ (پاکستان) اور یہ تصور چرایا گیا۔ ان کے خالق کو پہلے نظرانداز کیا گیا، پھر مسترد کیا گیا اور آخر میں اسے (اپنے ہی لوگوں کی نظر میں) ایک دشمن بنا دیا گیا‘‘ (سوانح حیات: رحمت علی، صفحہ242)

قیام پاکستان کے لیے سب سے زیادہ کام تو یقیناً قائد اعظم محمد علی جناح نے کیا تھا۔ ان کے بغیر قیام پاکستان ممکن ہی نہیں تھا۔ دیگر قومی راہ نماؤں بشمول علامہ اقبال نے بھی بے مثال کام کیا۔

راقم کا نقطہ نظریہ ہے کہ ہمارے تمام راہ نماؤں کا کام اپنی اپنی جگہ ’’اہم‘‘ تھا۔ اس لیے سب راہ نماؤں کے کام کا اعتراف کیا جائے۔ سب کو خراج تحسین پیش کیا جائے ۔ سب کا احسان مانا جائے۔ کسی کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے، کسی کی بھی حق تلفی نہ کی جائے۔ کسی کو بھی تاریخ پاکستان سے زبردستی خارج نہ کیا جائے۔

راقم کے والد نے 1948ء میں لاہور میں چودھری رحمت علی سے ملاقات کی تھی جس میں چودھری رحمت علی نے ان سے فرمایا تھا کہ:

’’عمر الدین! مجھے کوئی اچھا سا نوکر ڈھونڈ کر لادو۔ میں اب پاکستان میں مستقل قیام کروںگا۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے پاکستان میں رہنے کی اپنی اسی خواہش کا اظہار اپنے 1950ء کے آخری پمفلٹ میں بھی کیا ہے۔ لیکن افسوس، اس سے پہلے کہ والدصاحب ان کی اس سلسلے میں کوئی مدد کرتے۔ انھیں حکومت کی طر ف سے پاکستان سے چلے جانے یا بصورت دیگر گرفتاری کا پیغام پہنچا دیا گیا۔

چوںکہ انہوں نے اخبارPakistan Timesکو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کشمیر کی آزادی، تکمیل پاکستان اور ہندوستان میں رہ جانے والے5 کروڑ مسلمانوں کے تحفظ کے لیے ایک تحریک شروع کرنے کا اعلان کر دیا تھا، جس کے باعث ان کی نگرانی شروع کر دی گئی حالانکہ انہوں نے اسی انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ حکومت سے کوئی ٹکراؤ نہیں کریں گے۔

بالآخر وہ یکم اکتوبر1948ء کو اپنے پیارے ’’پاکستان‘‘ سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے کیوںکہ پھر 3 فروری 1951کو ان کا کیمبرج (انگلستان) ہی میں انتقال ہوگیا۔

وہ اپنے عمر بھر کے خواب ’’پاکستان‘‘ میں صرف چھے ماہ رہ سکے لیکن ان کی روح تو یقیناً ان کی آخری خواہش کے مطابق پاکستان کی مٹی کے لیے تڑپ رہی ہوگی۔ صد افسوس کہ ہم آج تک ان کی یہ آخری خواہش بھی پوری نہ کر سکے۔ ان کی پر خلوص قومی خدمات کا اعتراف کرنا ہم سب کی قومی ذمے داری ہے، اگرچہ اپنے محسنوں کی قدر دانی اور احسان مندی کے لحاظ سے پاکستانی قوم کا ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔

چودھری رحمت علی تحریک پاکستان کے بانی تھے۔ اُنہوں نے یہ تحریک 1933ء سے شروع کردی تھی۔ جب انہوں نے اپنے مشہور زمانہ پمفلٹ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ میں پاکستان کا مطالبہ کیا تھا۔ اور اپنی جماعت ’’پاکستان قومی تحریک‘‘ [Pakistan National Movement] کی بنیاد رکھی۔ وہ نہایت دوراندیش راہ نما تھے۔

وہ اپنی بصیرت سے مستقبل کو بہت دور تک دیکھ سکتے تھے۔ چودھری رحمت علی نے اپنے پمفلٹوں پر پاکستان کا جو جھنڈا شائع کیا اس میں سبز پس منظر پر ہلالی چاند اور پانچ ستارے دکھائے گئے تھے۔

پانچ ستاروں سے اُن کا مطلب پاکستان کے کشمیر سمیت پانچ صوبے تھے۔ پاکستان کی قومی زبان اردو کو انہوں نے ’’پاک‘‘ زبان کا نام دے دیا تھا۔ انھوں نے پاکستان کے پانچ صوبوں کو مسلمانوں کے ’’انڈین ہوم لینڈز‘‘ اور ایران، افغانستان، تخارستان (وہ قدیم علاقہ جو اب افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کا حصہ ہے) کو ’’ایشین ہوم لینڈز‘‘ کہا تھا، جس سے اُن کا مقصد پڑوسی ممالک کے ساتھ قریبی برادرانہ تعلقات کو مضبوط کرنا اور اتحاد پیدا کرنا تھا۔

اُن کی یہ فراست اور دوراَندیشی بعد میں آر۔سی۔ڈی(Regional Cooperation for Development ) کی شکل میں سامنے آئی، جس میں پاکستان، ایران اور ترکی شامل تھے (اور بعداَزآں اسے ECOکا نام دیا گیا)۔

چودھری رحمت علی کی دیگر پیش گوئیاں یہ تھیں۔ (1)’’ہم ایک آزاد مسلم ملک بنائیں گے‘‘۔ (1915؁ٗئ: بزم شبلی) (2)۔ پاکستان کا مطالبہ (28جنوری 1933ئ) جو بالآخر عملی شکل میں سامنے آگیا۔ (3)’’ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں پر ظلم وستم ہو گا‘‘، جو آج جاری ہے۔

اسی لیے انھوں نے ان مسلمانوں کو ہندوستان میں اقلیتی حیثیت میں رکھنے کی بجائے ان کی آٹھ آزاد خود مختار مسلم ریاستیں (فاروقستان، صدیقستان وغیرہ) بنانے کا پلان پیش کیا۔ (4)’’جموں و کشمیر کو پاکستان میں شامل نہ کرنے کی صورت میں کشمیر ہندوسرزمین بن جائے گا اور کشمیر کے بغیر پاکستان ریگستان بن جائے گا‘‘۔5  اگست2019ء کو ہندوستان نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے وہاں ہندوؤں کی آبادی بڑھانے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں تاکہ یہ ہندوسرزمین بن جائے۔ نیز کشمیر سے آنے والے دریاؤں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو پانی سے محروم کر دیا ہے۔

(5) ’’مشرقی بنگال کا پاکستان میں انضمام غلط ہے‘‘۔ جو آخرکار1971ء کی شکست کے بعد بنگلادیش کی صورت میں الگ ہوگیا۔ چودھری رحمت علی اس کو شروع ہی سے ایک علیٰحدہ آزاد مسلم ریاست ’’بانگستان‘‘ بنانا چاہتے تھے۔ (6) ’’صوبہ سرحد کا نا م وہاں کے باشندوں کے نام پر رکھنا ہو گا‘‘۔ آخر کار اسے خیبر پختونخواہ کا نام دے دیا گیا۔ (7)’’پاکستان دینیا، یورپ اور ایشیا کے درمیان زمینی اور فضائی راستوں کے سب سے زیادہ ڈائریکٹ روٹ کا جنکشن ہو گا۔‘‘ یہ بات اب سی پیک کی شکل میں پوری ہو رہی ہے۔

اُنھیں اپنی آزادی کی اسکیموں (پاک پلان) کے کام یاب ہونے کا بہت پختہ یقین تھا۔ سب سے پہلے انھوں نے اپنے اس پختہ یقین کا اظہار 1915ء میں اپنے طالب علمی کے دور میں، اپنی ہی تشکیل دی ہوئی بزم شبلی کے تاسیسی اجلاس میں کیا:’’انڈیا کا شمالی علاقہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔

ہم اسے مسلم علاقہ ہی رکھیں گے نہ صرف یہ بلکہ ہم اسے ایک مسلم ملک بنائیں گے۔‘‘ آخر کار اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے اُن کے نعرہ انقلاب کو باریاب کردیا اور پاکستان قائم ہو گیا۔ اسی طرح اپنے سب سے پہلے اور مشہور زمانہ پمفلٹ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’جتنی بھی بے اعتنائی (میرے کام سے) برتی جاتی یا (میری) مخالفت کی جاتی، وہ میرے اس یقین کو متزلزل نہیں کر سکتی تھی کہ یہ پمفلٹ ایشیا اور انڈیا کی قدیم تاریخ کا دھارا موڑ دے گا۔

مسلمان سیاست داں جنھوں نے اس اعلان کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی تھی، انھیں جلدہی اس کی حمایت کرنی پڑے گی اور میری طرح اپنی نجا ت اسی میں تلاش کرنی پڑے گی۔ انگریز اور ہندوجنھوں نے اسے نامنظور کیا ہے، انھیں جلد ہی اس پمفلٹ میں کیے گئے مطالبات کو ماننا پڑے گا۔ یہ یقین اتنا ہی غیرمتزلزل تھا جتنا کہ آج مجھے اپنے دوسرے پمفلٹس کے بارے میں ہے‘‘۔ (’’پاکستان۔پاک قوم کا آبائی وطن‘‘:صفحہ نمبر280)۔ چودھری رحمت علی نے اپنی کتاب کے پیش لفظ میں لکھا ہے:

’’تاریخ کا آخری فیصلہ جو بھی ہو، ایک بات پہلے سے واضح ہے، وہ یہ کہ پاکستان کے مشن کی آخری فتح یقینی ہے۔‘‘

چودھری رحمت علی نے برصغیر میں ہندوستانیت (Indianism) کے عفریت کو ختم کرنے پر بہت زور دیا ہے جو اُن کے بقول کئی پرانے مذاہب کو ہڑپ کر چکا ہے۔ ہندوستانیت سے اُن کی مراد تمام دیگر اقوام (مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی وغیرہ) کا اپنی انفرادی قو میت کو ختم کرکے ہندوستانی بن جانا تھا۔ انہوں نے اپنی کتاب ’’پاکستان‘‘۔ پاک قوم کا آبائی وطن‘‘ میں کئی جگہوں پر، اس ہندوستانیت کی شدید مخالفت ومذمت کی ہے:

ا)۔’’ہم یا تو اسلام کے جھنڈے تلے اپنے عالی شان قومی مقام کا آخری انتخاب کرلیں اور یا پھر ہندوستانیت کے تحت اپنے لیے انتہائی گھٹیا اقلیتی مقام کو قبول کرلیں۔‘‘

ب)۔’’اگر انڈیا کی علاقائی وحدت (متحدہ ہندوستان) کو قائم رکھا گیا تو ’ہندوستانیت‘ ہی مرکزی حکومت بنائے گی۔ سول انتظامیہ پر اسی کا کنٹرول ہوگا اور فوجی طاقت پر بھی اسی کا قبضہ ہو گا تاکہ ہمیں مکمل طور پر غلامی میں رکھا جاسکے۔‘‘

انھوں نے بار بار ہندوستانیت کے نظریے پر کاری ضربیں لگائی ہیں اور اسے مسلمانوں کی ناکامیوں اور محرومیوں کی وجہ قرار دیا ہے۔ اور اس کے فریب میں آنے سے روکا ہے انھوں نے اپنی کتاب کا ایک پورا باب ہندوستانیت کے خلاف لکھا ہے جس کا نام ’’ملت اسلام اور ہندوستانیت کا بھیانک خطرہ‘‘ ہے۔

انھوں نے اسی نام سے 15اگست1941ء کو ایک پمفلٹ بھی شائع کیا تھا۔ انھوں نے اپنی کتاب میں شامل اپنے ایک پمفلٹ ’’انڈیا، براعظم دینیا ۔یا۔تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک‘‘ میں ناقابل تردید ٹھوس دلائل سے یہ بات ثابت کی ہے کہ ہندوستان صرف ہندوؤں کا ملک نہیں ہے بلکہ یہ بہت سے مذاہب کا مجموعہ یعنی براعظم دینیا ہے۔

چودھری رحمت علی اپنے مشن (پاک پلان) کی آخری منزل کو یوں بیان کرتے ہیں:’’ہمارا مشن صرف اصلی یا قدیم پاکستان ہی کو دوبارہ قائم کرنا نہیں۔ نہ ہی یہ فقط بانگستان، عثمانستان، فاروقستان، حیدرستان، معینستان، ماپلستان، صفیستان اور نصارستان بنانے تک محدود ہے;حتیٰ کہ یہ مشن ان تمام ممالک کو ’’پاک دولت مشترکہ‘‘  [Pak Commonwealth of Nations]   میں منسلک کرنا بھی نہیں ہے، یہ اس سے بھی بڑا، عالی شان اور عظیم ہے۔ یہ انڈیا کے ملک اور اس کے جزائر کو براعظم دینیا اور اس کے ماتحت علاقوں میں تبدیل کرنے اور انھیں پاک ایشیا کے ثقافتی حلقے میں منظم کرنا ہے‘‘۔

یعنی اُن کی آخری منزل پاک ایشیا تھی۔ چودھری رحمت علی میں اپنی مخالفت، بے اعتنائی اور بے قدری برداشت کرنے کو حوصلہ بہت زیادہ تھا۔ ان کی یہ مخالفت اُن کے کالج کے زمانہ طالب علمی سے ہی شروع ہو گئی تھی، جب انھوں نے 1915ء میں بزم شبلی کے اجلاس میں آزاد مسلم ملک کا تصور پیش کیا تھا۔

اسی طرح 1933ء میں ان کے مطالبۂ پاکستان کی بھی بہت مخالفت کی گئی۔ یہ مخالفت انگریزوں اور ہندوؤں کے ساتھ ساتھ چند مسلمان راہ نماؤں کی طرف سے بھی ہوئی (اگرچہ عام مسلمان تو ان کے مطالبہ پاکستان کے زبردست حامی تھے)۔

ان کے اس مطالبہ پاکستان کو گول میز کانفرنس کے مسلم مندوبین نے ناقابل عمل اور طالب علم کا خواب کہا، ان کی ذات پر حملے کیے گئے، انھیں انگریزوں کا ایجنٹ، مذہبی متعصب (Fanatic)، خیالی اسکیمیں بنانے والا کہا گیا، اُن کا تخلیق کردہ نام اور مطالبہ پاکستان اختیار کرلینے کے باوجود کبھی ان کا نام نہیں لیا گیا، ان کی قومی خدمات کا اعتراف نہیں کیا گیا، انہیں 1940ء میں پاکستان آنے سے روکا گیا اور پنجاب میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی، حالانکہ اس وقت پیش کی گئی قراردادلاہور میں اُنھی کا پروگرام، بغیر پاکستان کا نام لیے منظور کیا گیا، مجبوراً وہ کراچی میں تین ماہ قیام کے بعد واپس برطانیہ چلے گئے۔

وہ ہوشیارپور (مشرقی پنجاب) میں واقع اپنے گاؤں بھی نہ جا سکے۔ 1948ء میں ان کے پیچھے سی آئی ڈی لگا دی گئی اور بالآخر انھیں ملک سے چلے جانے کا پیغام پہنچا دیا گیا۔ (سوانح حیات، کے ۔کے عزیز: صفحہ 353) وہ اپنے عمر بھر کے خواب، اپنے پیارے پاکستان میں صرف چھے ماہ رہ سکے۔

اخباری مضامین میں اُن کی تضحیک کی گئی۔ بے بنیاد، گمراہ کن اور من گھڑت الزامات لگائے گئے۔ انھیں بہت زیادہ نظانداز کیا گیا۔ احسان فراموشی کی انتہاکردی گئی لیکن ان سب ناانصافیوں کے باوجود وہ کبھی مایوس نہیں ہوئے (اگرچہ ان کا دل تو یقیناً ٹوٹ گیا ہوگا اور ان کی دل جوئی کرنے کے لیے اُن کی بیوی تھی نہ بچے)۔ اس تمام ناروا سلوک کے باوجود انھوں نے برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی و خودمختاری کی اپنی بے لوث، پرخلوص اور بے مثال جدوجہد کبھی ترک نہیں کی۔

وہ مسلمانوں کی آزادی کے مزید پروگرام اور منصوبے بناتے رہے۔ انھوں نے اپنے1933ء کے مطالبہ پاکستان کو نظرانداز کیے جانے کے باوجود 1933ء ہی میں ایک اور پمفلٹ بعنوان ’’پاکستان نیشنل موومنٹ کے اغراض و مقاصد‘‘ شائع کیا، 1935ء میں برطانوی پارلیمنٹ کے اراکین کو خط اور 1935ء ہی میں پمفلٹ بعنوان ’’اسلامی آبائی وطن اور انڈین فیڈریشن، پاکستان کے لیے جدوجہد جاری رہے گی‘‘ شائع کیا۔

1937ء میں ترک مصنفہ خالدہ ادیب کی کتاب Inside India میں ایک پورا باب پاکستان کے حصول کے لیے لکھا اور1938ء میں لندن کے اخبارٹائمز میں پاکستان کے لیے ایک مراسلہ لکھا۔ انھوں نے 1940ء کے تلخ تجربے اور بدسلوکی کے باوجود 1941ء میں ’’ہندوستانیت‘‘ کے خلاف پمفلٹ شائع کیا۔ 1942ء میں پمفلٹ ’’ملت اور اس کا مشن‘‘، 1943ء میں ’’ملت اور اس کی اقلیتیں‘‘ (سات مسلم ریاستوں کے لیے سات الگ الگ پمفلٹ) 1944ء میں پمفلٹ ’’ملت اور اس کی دس اقوام ‘‘، 1945ء میں پمفلٹ ’’انڈیا براعظم دینیا یا تباہی کے دہانے پر کھڑا ملک‘‘، 1946ء میں پمفلٹ ’’پاکستان نیشنل موومنٹ اور انڈیا کے بارے میں برطانوی فیصلہ (کیبنٹ مشن پلان)، 1946ء ہی میں پاک ایشیا، دینیا، پاکستان اور عثمانستان کے لیے الگ الگ پمفلٹ شائع کیے۔ 1947ء میں مکمل پنجاب اور کشمیر کے بغیر نامکمل پاکستان ملنے پر شدید غم اور دکھ کے زیراثر ایک بہت سخت عنوان سے پمفلٹ ’’عظیم غداری‘‘ [The Great Betrayal] شائع کیا۔1947ء ہی میں اپنی کتاب ’’پاکستان۔ پاک قوم کا آبائی وطن‘‘ شائع کی۔

1948ء میں اپنے خواب کی تعبیر، پاکستان سے نکالے جانے کے باوجود ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے تحفظ کے لیے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو خط لکھا اور ان مسلمانوں کے لیے اقوام متحدہ کو اپیل کا پمفلٹ ’’ہندوستان کی مسلم اقلیت اور اقوام متحدہ کی ذمہ داری‘‘ شائع کیا۔ 1949ء میں پھر اِن مسلمانوں کے لیے پمفلٹ ’’ہندوستان کی مسلم اقلیت اور اقوام متحدہ کو دینیا کا مشن‘‘ شائع کیا، 1950ء میں پمفلٹ ’’پاکستان یا پاستان: منزلِ مقصودیا ناکامی‘‘ شائع کیا، جس میں پاکستان کو درپیش مسائل کی نشان دہی کی اور ان کا حل بھی پیش کیا، جواُن کا آخری پمفلٹ ثابت ہوا اور وہ 3 فروری 1951ء کو اس بے قدر دنیا سے ہمیشہ کے لیے چلے گئے۔ اس سے زیادہ مخالفت، احسان فراموشی بلکہ دشمنی نہیں ہو سکتی۔

اس سے زیادہ برداشت، حوصلہ، بے لوث اور انتھک محنت اور خلوص، اپنے مشن (برصغیر کے تمام مسلمانوں کی آزادی) سے انتہائی لگن، والہانہ وفاداری اور جاں نثاری نہیں ہو سکتی۔

بقول خود اُن کے:’’جو کچھ میرے پاس تھا میں نے اس عظیم مقصد کے لیے1933ء میں وقف کردیا تھا۔ صرف یہی نہیں اس عظیم مقصد کو میری زندگی کی بھی ضرورت تھی۔ وہ بھی اس وقت سے اسی کے ہاتھ میں ہے اور میری آخری سانس تک اسی کے ہاتھ میں رہے گی‘‘ (پاکستان صفحہ 284)

چودھری رحمت علی نے تن تنہا جتنا کام کیا اتنا کام پوری ایک جماعت بھی نہیں کر سکتی تھی۔کے کے عزیز کے مطابق:

’’وہ جو کچھ کرسکتے تھے، انھوں نے کیا اس سے زیادہ کوئی بھی شخص نہیں کر سکتا تھا۔ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے انڈیا میں مسلمانوں کی اقتدارعلیٰ کی حامل حیثیت (Sovereignty)کے بارے میں سوچا، اس کے بارے میں ایک باقاعدہ منصوبہ پیش کیا، اس مقصد کے لیے ایک تحریک (پاکستان قومی تحریک) کو منظم کیا اور لوگوں کو قائل کرنے کے لیے باقاعدہ مہم شروع کی ۔ انھوں نے یہ سب کچھ تن تنہا کیا جو اُن کی لگن، حوصلہ، محنت اور جانثاری کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘ (سوانح حیات،صفحہ549)

چودھری رحمت علی نے اپنی کتاب میں اپنے اور اپنی جماعت پاکستان نیشنل موومنٹ پر لگائے جانے والے جھوٹے الزامات کا بھی مدلل جواب دیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ یہ تمام الزامات غلط ہیں۔ چودھری رحمت علی نے اس کتاب میں اپنے مطالبہ پاکستان ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ کو علامہ اقبال کے خطبہ الٰہ آباد سے بالکل مختلف قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق:

’’علامہ اقبال نے اپنے اس خطبہ میں ایک ایسی انڈین فیڈریشن کی حمایت کی ہے جس میں مسلمانوں کے صوبے بھی شامل ہوتے۔ اور لفظ اسٹیٹ سے ان کا مطلب ایک علیحدہ اقتدار اعلٰی کی حامل اسٹیٹ (ایک آزاد ملک) نہیں تھا بلکہ ان کا مطلب مجوزہ انڈین فیڈریشن کے اندر اور اس کے ایک حصے کے طور پر ایک بڑا صوبہ تھا‘‘۔

یہی فرق چودھری رحمت علی نے اپنے رسالہ ’’اب یا کبھی نہیں‘‘ میں بھی بیان کیا ہے:’’یہ مطالبہ ڈاکٹر اقبال کی اس تجویز سے بنیادی طور پر مختلف ہے جو انھوں نے 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اپنے صدارتی خطاب میں پیش کی تھی۔ انھوں نے ان صوبوں کو ملا کر ایک ایسی ریاست بنا دینے کی تجویز دی تھی جو آل انڈیا فیڈریشن کا ہی ایک یونٹ ہو جب کہ ہماری تجویز یہ ہے کہ ان صوبوں کی اپنی ایک علیحدہ فیڈریشن ہو۔‘‘

The post عظیم راہ بر چوہدری رحمت علی appeared first on ایکسپریس اردو.

بُک شیلف

$
0
0

کوہ نوردی اور مہم جوئی پر تین شاندار کتابیں

ایک چینی کہاوت ہے ’’جب کوئی سیاحت سے لوٹتا ہے تو ویسا نہیں رہتا جیسا سیاحت پر روانہ ہوتے وقت تھا‘‘۔ کہاوتیں، انسان کی مشترکہ دانش کا نچوڑ ہوتی ہیں، یہ نسل در نسل انسانی تجربے سے حاصل ہونے والے اسباق کا احاطہ کرتی ہیں۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جو عملی تجربہ انسان کو سیر وسیاحت سے حاصل ہوتا ہے وہ روایتی درس گاہوں سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ علم کی ہر صورت انسان کو فائدہ دیتی ہے لیکن مختلف ثقافتوں، زبانوں اور معاشرتی نظاموں کے ساتھ عملی آگاہی انسان کو حصول علم کی ایک بالکل نئی جہت سے روشناس کراتی ہے۔

اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ مختلف زمینی ساختوں، جغرافیائی حقیقتوں اور غیر معمولی مناظر کا مشاہدہ انسان کو غیر معمولی وسعت نظر اور تخلیقی وفود سے بہرہ مند کرتی ہے۔

سیاحت نے انسانیت کی ایک اور خدمت یہ انجام دی ہے کہ ان دیکھی دنیائوں کی دریافت بھی اسی انسانی سرگرمی کی مرہون منت ہے۔ یہ سیا ح تھے جنہوں نے تجسس کے اسی جنون کے بل بوتے پر ایسے علاقوں کا بھی رخ کیا جو انسانی زندگی کی بقاء کے لئے ناموافق تھے اور اسی لئے لوگوں نے ان خطرات کے پیش نظر کبھی ان علاقوں کا رُخ نہیں کیا تھا۔

سیاحوں نے مستقل جمے ہوئے سمندروں، ویران جزیروں، بے آب و گیاہ صحرائوں، برف پوش چوٹیوں سمیت ہر اُس خطرناک جغرافیائی چیلنج کو قبول کیا جسے ناقابل عبور تصور کیا جاتا تھا حالانکہ ان کوششوں میں بہت سے عشاقان سیاحت کو اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔

سیاحت کے حوالے سے ایک اور اہم بات سیاح کی اپنی قوت مشاہدہ اور اپنے تجربات کو بیان کرنے کی صلاحیت ہے جس کے بارے میں شیخ سعدی شیرازی کہتے ہیں ’’قوت مشاہدہ سے عاری سیاح اسی طرح ہے جیسے پروں کے بغیرہ پرندہ‘‘ لہٰذا سیاحتی تجربہ اُسی صورت میں مفید بن سکتا ہے جب سیاح کی قوت مشاہدہ ذرخیز ہو اور یہ قوت مشاہدہ ہی ہے جو ہمیں اپنے تجربات کو بہتر انداز میں بیان کرنے کی صلاحیت عطا کرتی ہے۔

تاریخ عالم میں سیاحت اور پھر سفرناموں کی شکل میں سیاحتی تجربات کے اظہار کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ بڑی سلطنتوں کی عالمی سیاسی آویزشوں میں بھی سیاحوں کی شکل میں ملک ملک گھومنے والے حکومتی اہلکاروں نے بڑے کارنامے انجام دیئے۔ سیاحوں نے انسانی علم کے خزانے میں ایسی معلومات کا اضافہ کیا جس کا حصول اپنی جان کو خطرے میں ڈالے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔

دنیا میں سیاحت پر بہت کچھ لکھا جاتا رہا ہے اور مسلسل لکھا جارہا ہے۔ جیسے کہ ہمیں توقع ہوتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں ایسی اشاعتوں یا دستاویزی فلموں کا معیار غیر معمولی ہوتا ہے اور ہم ہمیشہ اس احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں کہ ہمارے ہاں اس معیار کا کام ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔

مزے کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے بھی معیاری کام غیر ملکیوں نے ہی کیا ہے لیکن گزشتہ دنوں سیاحت کے موضوع پر تین ایسی کتابوں سے تعارف حاصل ہوا جنہیں بجا طور پر اُردو زبان میں سیاحت پر بہترین کام قرار دیا جاسکتا ہے۔

ان کتابوں کی اشاعت کا اہتمام پاکستان کے چند ایک مہم جوئوں اور سیاحوں میں سے ایک ’محمد عبدہ‘ نے کیا۔ ان میں دو کتابیں تو سیاحت کے حوالے سے عالمی سطح پر شہرت پانے والے تحریری مواد کے اُردو ترجمے پر مبنی ہیں جسے انہوں نے خود انگریزی سے اُردو میں منتقل کیا ہے جبکہ تیسری کتاب ’’پہاڑ اور کووہ پیمائی کی تاریخ‘‘ محمد عبدُہ کی اپنی تصنیف ہے جو بجا طور پر پاکستان کی پہاڑی چوٹیوں اور اُن پر ہونے والی مہمات کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔

تراجم میں پہلی کتاب ’’خلا کے اُس پار سفر‘‘ دراصل ایرک شپٹن (Erick Shiption) کی شہرہ آفاق تصنیف ‘Blank on the Map’ کا اُردو ترجمہ ہے‘ جس میں 26 اپریل 1937 کو بالتورو گلیشیئر اور کے ٹو پہاڑی کی دوسری سمت واقع گم نام علاقوں کی کھوج کا احوال بیان کیا گیا ہے۔

اس مہم میں انہیں ممتاز ماہر ارضیات، جہاز راں اور مصنف ایچ ڈبلیو ٹلمین (H.W Tilman) کی مدد حاصل تھی جبکہ ان کی ٹیم میں نقشہ نویسی کا ایک ماہر اور ایک سروئیر بھی شامل تھا جبکہ مقامی قلی اور گائیڈ بھی ساتھ تھے۔ اس مہم کی خاص بات یہ تھی کہ مہم جو ٹیم نے دریائے شکسگام کی گزرگاہ تلاش کرنا تھی، دوسرے نمبر پر کے ٹو کے شمال اور شمال مغرب میں گلیشیائی نظام کے نقشے بنانے تھے اور تیسرے یہ کہ وادی آغیل کے مغربی حصے میں بہنے والے جعلی دریائے شکسگام کا منبع دریافت کرنا اور درہ آغیل کے جغرافیائی مقام کا تعین بھی اس مہم کا حصہ تھا۔ مہم جوئی سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب کسی تحفے سے کم نہیں۔

دوسری کتاب کی ’قراقرم کی دریافت‘ (ابتدائی مہمات 1945-1887) بنیادی طور پر اُن مضامین کے تراجم پر مشتمل ہے جو چین اور روس کی جانب سے برصغیر کی طرف پیش قدمی کے اندیشے کے پیش نظر انگریز سرکار کی طرف سے سرحدی پہاڑی سلسلوں کی طرف روانہ کی گئی مہارت کے احوال کے بارے میں لکھے گئے جبکہ کتاب کے آخر میں ترجمہ نگار کے اپنے 6 مضامین بھی شامل ہیں۔

اس کتاب میں فرانسس ینگ ہسبنیڈ، گوڈون آسٹن، مارٹن کانوے، سرکینتھ میسن، کیٹن فیدرسٹون اور کرنل شومبرگ جیسے نامی مہم جوئوں کے اپنی مہمات کے بارے میں مضامین کو شامل کیا گیا ہے جو مہم جوئی کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔

محمد عبدُہ کی تیسری کتاب پاکستان کے پہاڑوں، پہاڑی سلسلوں اور پہاڑی مہمات کے حوالے سے جامع تفصیلات پر مشتمل ہے۔ کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ پہلا حصہ ’تعارف‘ دوسرا ’پہاڑ‘ یعنی پاکستان کے تمام پہاڑی چوٹیوں کی تفصیل، تیسرا حصہ ’کوہ نوردی اور گلیشئر‘ جبکہ چوتھے حصے کا عنوان ’الپائن کلب آف پاکستان‘ ہے، غرض اس کتاب میں کوہ پیمائی، کوہ نوردی، گلیشیرز اور اس حوالے سے دیگر معلومات کا مکمل احاطہ کیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو کسی قسم کی تشنگی نہیں رہتی۔

اس سے پہلے ان کی چھ کتابیں شائع ہوچکی ہیں جن میں ’فلپائن جزیروں کی سرزمین، کوریا کی دلچسپ معلومات، پاکستان کے سوزنگ، خوردپن یاس، (پر خطر راستوں کا سفر) ’پاکستان کا تاریخی و جائزہ اور کوریا ماضی سے ترقی کا سفر‘ شامل ہیں۔

زیر نظر کتابوں کی پیشکش کا معیار شاندار ہے جنیں گرین ہارٹ پبلشرز فیصل آباد نے گوہر پبلکی کیشنز: الحمد مارکیٹ اُردو بازار لاہور (0345-4327063) سے شائع کرایا ہے۔ ’پہاڑ اور کوہ پیمائی کی تاریخ‘ کی قیمت 800 روپے، ’خلاء اُس پار سفر‘ کی قیمت 900 روپے اور قراقرم کی دریافت کی قیمت 600 روپے ہے۔ ان کتابوں کا مطالعہ ایک شاندار تجربے سے کم نہیں۔

۔۔۔

ہیر وارث شاہ وچ ملاوٹی شعراں دا ویروا

سید وارث شاہ وہ عظیم صوفی شاعر ہیں جن کی تخلیقات نے پنجابی زبان کو نئی رفعتوں سے روشناس کرایا۔ ان کی فنی عظمت کا احاطہ کرنے کے لئے ماہرین ادب اور نقادوں نے انہیں پنجابی زبان کا شیکسپئر قرار دیا، لیکن درحقیقت وارث شاہ کی فکری اور فنی عظمت اپنے آپ میں بذات خود اپنا حوالہ آپ ہے۔

ان کی تخلیق ہیر وارث شاہ دراصل محض ایک عشقیہ داستان کا منظوم بیان نہیں بلکہ پنجاب کے ثقافتی ورثے ‘ تاریخ ‘ تمدن اقدار اور پورے معاشرتی منظر نامے کی جیتی جاگنتی تصویر ہے۔

جس طرح ایک بڑا ناؤل اپنے کرداروں کے ذریعے صرف کسی ایک دور یا عہد کے کینوس پر کچھ کرداروں کے گرد گھومتی کہانی بیان نہیں کر رہا ہوتا بلکہ اس کے ذریعے کسی عہدمیں اُس معاشرے کی تمام تفصیلات پڑھنے والے تک پہنچا رہا ہوتا ہے۔

اسی طرح وارث شاہ کے بیان کردہ ہیر کے قصے میں کہانی تو صرف ایک کینوس فراہم کر رہی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے وارث شاہ نے ا نسانی نفسیات اور رویوں کے ایسے ایسے اسرار کھولے ہیں کہ یہ داستان ہمارے لئے رہنمائی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

اسی بات کو وارث شاہ کے اُستاد محترم غلام مرتضیٰ نے انتہائی اختصار کے ساتھ بیان کیا تھا۔ کیونکہ علماء کی نشانی ہی یہ ہے کہ وہ بہت بڑی بات بہت کم الفاظ میں کہہ دیتے ہیں۔

اس کا تذکرہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ بابا بلھے شاہ اور وارث شاہ ہم مکتب ہیں‘ ایک ہی وقت میں ایک ہی استاد سے دونوں نے تعلیم پائی۔ دنیاوی علوم سے فیض یاب ہونے کے بعد بابا بلھے شاہ نے باطنی رہنمائی کے لئے شاہ عنایت قادریؒ کے ہاتھ پر بیعت کی، جبکہ وارث شاہ بابا فرید گنج شکرؒ کے خاندان میں بعیت ہوئے ۔

جب انہوں نے ہیر کا قصہ لکھا تو ان کے استاد غلام مرتضی ناراض ہوئے۔ وہ بابا بلھے شاہ سے اس لئے ناراض تھے کہ انہوں نے موسیقی سے ناطہ جوڑ لیا تھا جبکہ وارث شاہ کے عشقیہ قصہ لکھنے پر وہ ا ور بھی زیادہ ناراض ہوئے۔

انہوں نے اپنے مریدوں سے کہہ کر پر بطور سزا انہیں ایک حجرے میں قید کروا دیا تھا لیکن دوسرے روز انہیں بلا کر حکم دیا کہ جو لکھا ہے سناؤ‘ جب وارث شاہ نے کلام سنانا شروع کیا تو استاد کی رو رو کر حالت غیر ہو گئی۔ انہوں نے وارث شاہ کے کلام پہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا’’وارث! تم نے سُچے موتیوں کو مونج کی رسی میں پرو دیا ہے‘‘۔ مونج ایک ایسا پودا ہوتا ہے جس سے چار پائی کا بان تیار کیا جاتا ہے۔ اس کی بٹی ہوئی رسی انتہائی کھردری ہوتی ہے۔

غیر معمولی فنی تخلیقات کو اپنی اصلیت اور خالص پن برقرار رکھنے کے حوالے سے خطرات درپیش رہتے ہیں۔ بالخصوص ماضی کے ادوار میں جب تحریروں کو محفوظ کرنے کی وہ جدید ٹیکنالوجی میسر نہ تھی جو آج ہے یہ بہت مشکل تھا کہ اسے زمانے کی دست برد سے محفوظ رکھا جا سکے۔

بالکل یہی کچھ ہیر وارث شاہ کے ساتھ بھی ہوا۔ یہ بات اس لئے بھی زیادہ آسان رہی ہو گی کہ وارث شاہ سے قبل بھی ہیر کا قصہ ایک سے زیادہ مرتبہ منظوم صورت میں لکھا جا چکا تھا۔

زیر نظر کتاب ’’ہیر وارث شاہ وچ ملاوٹی شعراں دا ویروا‘‘ ’یعنی ہیر وارث شاہ میں ملاوٹ کئے گئے اشعار کی چھان پھٹک‘ اس حوالے سے ایک غیر معمولی کام ہے جسے زاہد اقبال نے انجام دیا ہے۔

انہوں نے گذشتہ دو صدیوں سے زائد عرصہ کے دوران کلام کی صحت کی تصدیق کئے بغیر چھپنے والے نسخوں میں بعد میں شامل کئے گئے اشعار کی نشاندہی کے لئے قدیم قلمی نسخوں تک رسائی حاصل کی اور انتہائی عرق ریزی کے ساتھ ان اشعار کو الگ کر دیا جو وارث شاہ کی اصل تخلیق کا حصہ نہیں۔

زاہد اقبال مرحوم کے اس معرکتہ الاآرا کارنامے کی حقیقی اہمیت کا درست اندازہ پنجابی زبان و ادب سے تعلقات رکھنے والی بڑی شخصیات ہی کر سکتی ہیں اور اسی لئے ہم زاہد اقبال کی اس تصنیف پر ا نہی علما ء کی رائے کا سہارا لے رہے ہیں۔ کیونکہ یہ تبصرہ اردو میں ہے لہٰذا ہم ان کی آراء کو اردو میں بیان کر رہے ہیں۔

جالندھر سے پنجابی ستھ کے سیکرٹری ڈاکٹر نرمل سنگھ کا کہنا ہے ’’زاہد اقبال کی محنت‘ ہمت لگن اور اس معاملے کی چھان پھٹک میں انہماک انتہائی متاثر کن ہے۔ اس لئے ہم نے اس معاملے میں ایک دوسرے سے تعاون کا عہد کیا۔ یہ پہاڑ جیسا کام کسی اکیلے شخص کے بس کی بات نہ تھا۔

میں بیرون ملک آباد ان بھائیوں کا شکر گزار ہوں جنہوں نے صرف ہماری ہمت ہی نہیں بندھائی بلکہ دل کھول کر مالی مدد بھی کی۔ ہمارے سیاستدانوں کی تنگ نظری کے باعث کسی یونیورسٹی ‘ بورڈ یا ادارے نے اس کام کے بارے میں سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔

چندی گڑھ سے ڈاکٹر کرنیل سنگھ تھڈ کا کہنا ہے ۔ ’’زاہد اقبال کا وارث شاہ کے کلام سے ملاوٹی شعروں کو الگ کرنے کاکارنامہ پانی سے دودھ کو الگ کرنے کے مترداف ہے، جو پنجابی زبان کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہو گا۔

جالندھر سے ڈاکٹر جگتار نے کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا‘ ’’اس کتاب کے ذریعے جو کام زاہد اقبال نے کیا وہ گزشتہ دو صدیوں میں کسی نے نہیں کیا۔ ہیروارث شاہ میں ملاوٹ کرنے والوںنے جہاں وارث شاہ کی روح کو اذیت میں مبتلا کیا وہیں زاہد اقبال نے ان کی روح کو تسکین پہنچائی ہے۔

سید سبط الحسن ضیغم کا کہنا ہے کہ عام منصنفین کی تو بات ہی نہ کریں اچھے خاصے دانشوروں سے ان ملاوٹی اشعار کے حوالے سے بڑی غلطیاں سرزد ہوئیں ہیں۔ زاہد اقبال نے ہیر وارث شاہ میں ملاوٹ کی نشاندہی کر کے غیر معمولی کام کیا ہے۔ جبکہ پنجابی ستھ نے یہ کتاب چھاپ کر پنجابی ادب کا سرفخر سے بلند کر دیا ہے۔

پروفیسر عبداللہ شاہ ہاشمی لکھتے ہیں کہ زاہد اقبال نے ہیر وارث شاہ سے ملاوٹی شعروں کو الگ کرنے کا چیلنج پورا کر کے تحقیق و تنقید کا حق ادا کر دیا ہے۔ یہ کتاب ہیر وارث شاہ میں ملاوٹی اشعار کا انسائیکلو پیڈیا ہے۔

شفقت تنویر مرزا کہتے ہیں کہ زاہد اقبال نے اصل اور نقل کو کچھ اس انداز میں جدا کیا ہے کہ ہمارے بڑے محقق اور ناقدوں کی آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ گئیں۔

پنجابی کے ان بڑے عالموں کی آراء سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ زاہد اقبال نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ اس تحقیق و جستجو میں صرف کر کے پنجابی زبان و ادب کی عظیم خدمت انجام دی ہے۔

اس کتاب کی اشاعت کو یورپی پنجابی ستھ یو ۔کے (برطانیہ ) نے ممکن بنایا ہے اور اسے پاکستان ‘ بھارت اور برطانیہ سے بیک وقت شائع کیا گیا ہے۔ کتاب کی پیش کش کا انداز شاندار ہے۔ بڑے سائز کے 949صفحات پر پھیلے ہوئے اس تحقیقی کام پر مشتمل کتاب کی قیمت صرف 1000 روپے ہے جو انتہائی مناسب ہے۔ اسے بجا طور پر حوالہ جاتی کتاب قرار دیا جا سکتا ہے۔ پنجابی زبان و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے یہ کتاب کسی سوغات سے کم نہیں۔

ہمارے جسم تمہاری مرضی ؟

مصنفہ۔نوشی بٹ ، پبلشرز۔عکس پبلشرز ،لاہور

صفحات۔350، قیمت۔1200، براے رابطہ/آرڈر 0300 4827500

نوشی بٹ کی زیرِ تبصرہ کتاب ان کی ان تحاریر پر مشتمل ہے جو وہ مختلف سماجی پلیٹ فورموں پر لکھتی رہی ہیں۔انہوں نے نہ صرف آج کے زندہ سوالوں کو سمجھا ہے بلکہ تکلیف دہ واقعات کی صورت خود پر بیتتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ان کا زندہ جواب تلاش کیا ہے۔ یہ محض کوئی دیوانگی نہیں تھی بلکہ ایک سراسر شعوری کوشش تھی۔

اس کتاب میں ہمیں ہر اس سوال کا جواب ملے گا جسے ہم انتہائی پرسنل یا پرائیویٹ سمجھ کر کسی سے بھی پوچھتے ہوئے ڈرتے ہیں۔مصنفہ نے سماج کی عریاں حقیقتوں پر اپنے قلم سے کاری ضرب لگائی ہے اور بے باک انداز میں پدر سری معاشرے میں عورتوں پر ہونے والے جسمانی، جنسی، معاشرتی، سماجی مظالم کو بڑے پر اثر انداز میں تحریر کیا ہے۔

یہ کتاب ایک کیتھارسز بھی ہے، چیخ جیسا احتجاج بھی اور تبدیلی کے راستے کا نشان بھی۔ اس کتاب کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ یہ بہت سے ایسے بے چین افراد کو لکھاری بنا سکتی ہے جنھیں ہمارے ٹیکنیکل اور ٹیکٹیکل ادیبوں نے اس مایوسی سے دوچار کردیا ہے کہ لکھنا کوئی آسان کام ہرگز نہیں۔کتاب کی زبان آسان الفاظ پر مشتمل ہے اور مصنفہ نے اس میں عام فہم محاوروں کے ذریعے ہر قاری کیلئے اس کو آسان بنایا ہے۔

The post بُک شیلف appeared first on ایکسپریس اردو.

گرین شرٹس کا ناقابل یقین سفر

$
0
0

ٹی 20 ورلڈکپ میں پاکستان پر قسمت خوب مہربان ہوئی، ابتدائی 2 ناکامیوں کی وجہ سے جس ٹیم کو کوئی خاطر میں لانے کو تیار نہیں تھا وہی ٹیم آج فائنل کھیل رہی ہے۔

گرین شرٹس نے اپنی مہم کا آغاز میلبورن کرکٹ گراؤنڈ میں بھارت کیخلاف کیا، اس مقابلے کو دیکھنے کیلئے 90 ہزار سے زائد تماشائی اسٹیڈیم میں موجود تھے، کرکٹ کا پارہ انتہائی چڑھا ہوا تھا، ٹاس ہارنے کے بعد پہلے بیٹنگ کیلئے مجبور ہونے والی پاکستان ٹیم نے 8 وکٹ پر 159 رنز بنائے، اوپنرز بابراعظم صفر اور محمد رضوان 4 رنز بناکر میدان چھوڑ گئے، اس موقع پر شان مسعود اور افتخار احمد نے ففٹیز بناکر اپنی ٹیم کو قدرے مناسب ٹوٹل تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔

جواب میں گرین شرٹس نے نپی تلی بولنگ سے ابتدا میں بھارتی ٹیم کو باندھ کر رکھا، جس کی 4 وکٹیں 31 رنز کے دوران گر گئیں، تاہم اس موقع پر ویراٹ کوہلی اور ہردیک پانڈیا وکٹ پر یکجا ہوئے اور میچ کو پاکستان سے چھین لے گئے، آخری اوور میں بھی پاکستان کی فتح کا امکان موجود تھا تاہم متنازع نو بال پر کوہلی کو ملنے والی فری ہٹ نے کیس بگاڑ دیا اور اس تقریباً جیتے ہوئے میچ میں گرین شرٹس کو 4 رنز سے شکست کا کڑوا گھونٹ بھرنا پڑا۔

اگلا میچ زمبابوے سے تھا اگر مگر کے پیچیدہ کھیل سے بچنے کیلئے گرین شرٹس کو اچھے مارجن سے فتح درکار تھی، سین ولیمز کے 31 رنز کی بدولت پہلے بیٹنگ کرنے والی زمبابوین ٹیم نے 8 وکٹ پر 130 رنز بنائے، جواب پاکستانی اوپننگ جوڑی پھر ناکام ہوئی، بابر 4 اور رضوان 14 رنز بنا کر رخصت ہوگئے، شان مسعود نے اس بار 44 رنز بنائے آخری اوور میں فتح کیلئے 11 رنز درکار تھے، پاکستان ٹیم ایک رن سے ہارگئی، اس کے ساتھ ہی اگر مگر کا پیچیدہ کھیل شروع ہوگیا۔

پاکستان کو نہ صرف اپنے باقی تینوں میچز بڑے مارجن سے جیتنا تھے بلکہ اس کو دوسری ٹیموں کے میچز میں اپنے حق میں نتائج بھی درکار تھے، اگلے مقابلے میں پاکستان نے نیدر لینڈز کو 6 وکٹ سے مات دی جبکہ جنوبی افریقہ نے بھارت کو 4 وکٹوں سے ہرا دیا۔

اس موقع پر سیمی فائنلز کا دروازہ پاکستان پر بند ہوتا ہوا دکھائی دیا لیکن اگر مگر کا کھیل بدستور جاری تھا، نیدرلینڈز نے زمبابوے اور بھارت نے بنگلہ دیش کو شکست دے کرگرین شرٹس کیلئے کچھ زمین ہموار کی، اپنے اگلے میچ میں پاکستان نے جنوبی افریقہ کو ڈک ورتھ لوئس قانون کے تحت 33 رنز سے شکست دے کر امید کے دیے کی لو اور بھڑکا دی مگر دوڑ سے باہر ہونے تلوار بدستور گرین شرٹس کے سر پر لٹک رہی تھی۔

اتوار 6 نومبر پاکستان کیلئے انتہائی حیران کن دن ثابت ہوا مگر حیرت کاشدید جھٹکا جنوبی افریقہ کو لگا جوکہ نیدرلینڈز سے 13 رنز سے ہارگیا جبکہ اسی روز پاکستان نے بنگلہ دیش کو 5 وکٹ سے شکست دے کر سیمی فائنل کی ٹکٹ کٹوا دی، اس کے بعد نیوزی لینڈ کا فائنل 4 میں جو حشر ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

انگلینڈ سے فائنل کا نتیجہ کیا ہوگا یہ تو خدا بہتر جانتا ہے لیکن آج کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ اگر مگر کے پیچیدہ کھیل میں قسمت پاکستان پر مہربان رہی۔

The post گرین شرٹس کا ناقابل یقین سفر appeared first on ایکسپریس اردو.


زباں فہمی نمبر 163؛ اردو، اراکانی اور چاٹگامی(حصہ اوّل)

$
0
0

 کراچی: دنیا کی سب سے منفر د زبان، اردو کی پرداخت کے ساتھ ساتھ، اس کے فروغ میں بھی خطہ جنوبی ایشیا کا حصہ سب سے زیادہ ہے اور اس ضمن میں ہم اراکان اور برما کوبھی نظر اَنداز نہیں کرسکتے۔

اسلامی جمہوریت (جمہوریہ) اراکان کی سرکاری، قومی وعوامی زبان بھی اردو ہی تھی اور یہ سلسلہ 1945ء تک برما کا ناجائز قبضہ مکمل ہونے تک چلتارہا، پھر برما کے متعصب حکمراں طبقے نے1948ء میں اس کی جگہ برمی زبان کودے دی۔ہر زبان کی ترقی وترویج کے فطری حق کو غصب کرنے کے خلاف تحریک چلانے والا وہی ادیب ومعلم تھا جس نے اس موضوع پر اولین کتاب”زبان ِ مشرقی بنگال واَراکان۔یعنی بنگالی وچاٹگامی واَراکانی ادب پر بَسےِط تبصرہ“ لکھنے کا شرف حاصل کیا یعنی اسلامی جمہوریہ اَراکان کے سربراہ محترم ظہیرالدین احمد(صدرمدرس، تنگبازاراسکول، شمالی اراکان)،جنھیں مجبوراً ہجرت کرنی پڑی، مگر افسوس! آج وہ کتاب بہ آسانی دستیاب نہیں۔(ہمارے ’حقیقی‘ ناشرین کو چاہیے کہ ایسی کتب کا سراغ لگا کر کسی صاحبِ علم سے ترتیب وتدوین کے بعد،انھیں اَزسرِ نَو شایع کریں تاکہ سب کا بھلا ہو)۔

Zuban Fehmi 2

آگے بڑھنے سے پہلے، خاکساراپنے کالم زباں فہمی نمبر 88’اردو کی بہن بنگلہ‘(دوسرا اور آخری حصہ) کا یہ اقتباس پیش کرنا چاہتاہوں جو www.express.pk پر دستیاب ہے:

یہاں یہ کہنا لازم ہے کہ عظیم خطہ بنگال میں اردو کے فروغ کی مبسوط داستان رقم کرنے کے لیے بہار، آسام، اُڑیسہ، اراکان اور برمامیں اردو کی ترویج کا جائزہ بالتحقیق لینا ضروری ہے کہ تاریخ کے سفر میں یہ تمام صوبے /ریاستیں باہم مربوط و منسلک رہ چکی ہیں۔ اس کے لیے ’بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء: 1857ء تک‘ از ڈاکٹر اختر اورینوی، ’بہار اور اردو شاعری‘ از پروفیسر معین الدین دَردائی، ’تاریخ شعرائے بہار‘ از سید عزیز الدین بلخی اور”ارض بہار اور مسلمان“ از عبدالرقیب حقانی(مطبوعہ 2004ء)،’اُڑیسہ میں اردو‘از ڈاکٹرحفیظ اللہ نیول پوری اور’اُڑیسہ میں اردو‘ ازمحمود بالیسری سمیت متعددکتب کا یکجا مطالعہ مفید ہوگا۔

اس بیان کے ایک حصے سے ہماری ابتداء ہوتی ہے یعنی اراکان اور اراکانی۔(براہ کرم ناواقف قارئین کرام محولہ بالا کالم نمبر 87اور 88، آن لائن ملاحظہ فرمائیں تاکہ پس منظر سمجھنے میں آسانی ہو)۔

Zuban Fehmi 1

پہلے اراکان کی بات ہوجائے۔

اراکان(موجودہ نام راکھائن) کا مختصر تعارف یہ ہے کہ یہ علاقہ خلیج بنگال کے ساحل پر واقع برما کی ایک ریاست (صوبہ) ہے جس کا رقبہ 21000مربع کلومیٹر اور آبادی (مشکوک اعدادوشمار کے مطابق) چالیس لاکھ نفوس پر مشتمل تھی یا ہے۔اس کا صدر مقام، سیٹوے [Sittwe;pronounced sait-tway in the Rakhine language] اپنے سابق نام”اکیاب“ سے بہت مشہور ہے۔اس کے شمال مغرب میں بنگلہ دیش،شمال میں بھارت اور مشرق میں اس کی بلند وبالا پہاڑیاں، برما کے باقی علاقے سے جداکرتے ہوئے گویا اسے جداگانہ علاقائی وحدت یا الگ ملک ثابت کرتی ہیں۔نشیبی ودلدلی زمین پر مشتمل یہ صوبہ چاول، گنّے اور پٹ سن کی پیداوار کے لیے ممتاز ہے۔اراکان میں اسلام کب آیا، اس کے بارے میں متضاد روایات ملتی ہیں۔ایک مشہور بیان یہ ہے کہ وہاں عہد صحابہ کرام میں ساتویں صدی کے اواخر میں پہنچنے والے مسلمان تاجروں کی بدولت، اسلام آیا

1430ء میں سلیمان شاہ نے مسلم اقتدار کی بنیاد رکھی اور پھر انھوں نے کوئی ساڑھے تین سو سال تک وہاں حکومت کی۔

اراکان کے ہندو راجہ سندہ تھوداما 1652 to 1674نے اپنے زیرنگیں چاٹگام کا علاقہ، مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر اور اُس کے صوبے دار شائستہ خان کے ہاتھوں گنوایا۔راجہ کے دربارمیں بنگلہ زبان کے ممتاز شاعر سید علاءُول بھی ملازم تھے۔(غالباً علاؤ الدین کا علا۔اُل بنادیا گیا)۔چاٹگام مغل عہد میں بھی ایک اہم بندرگا ہ کا درجہ رکھتا تھا۔

Zuban Fehmi 3

1784ء میں پڑوسی ملک برما کے بُدھ راجہ راجہ بودپیہ نے اس ریاست پر بزور قبضہ کیا۔اراکان میں نوے فیصد مسلمانوں کے ساتھ ساتھ دس فیصد بُدھ بھی آباد ہیں جنھوں نے مسلمانوں سے بدترین ظلم وجبر رَوا رکھا۔ایک اقلّیت کا اتنا طاقتور ہونا، حکومت وقت کی مکمل سرپرستی اور سامراجی طاقتوں کی پُشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔1824ء میں یہاں برطانیہ نے قبضہ جمایا۔1938ء میں انگریز کے چلے جانے کے بعد، بُدھ برمیوں نے مسلمانوں کو ہر طرح سے غیر ملکی اور ”دھرتی کا بوجھ“ قرار دیتے ہوئے اُ ن کا جینا دوبھر کردیا۔اُن کی کثیر تعدا د نے مکہ مکرمہ ہجرت کی۔

اراکان میں جون 2012ء میں شروع ہونے والے مسلم کُش فسادات کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید، بے شمار جِلاوطن اور پوری پوری مسلم آبادی نذرِآتش ہوئی، قریب ترین مسلم ملک اور تاریخی لحاظ سے آبائی وطن کا حصہ، بنگلہ دیش بھی اس ظلم کے عمل میں پوری طرح شریک ہوا۔ہم اس لیے کچھ کر۔یا۔کہہ نہیں سکتے کہ ہمیں اُن کی حمایت کے طفیل کہیں سے کچھ ملنے کی توقع نہیں، ورنہ ابھی تک جہاد کے نعرے لگ رہے ہوتے۔

ایک پاکستانی مصنف جناب طفیل ہاشمی کے بقول،”روہنجیا (روہنگیا:Rohingya) مسلمانوں اور میاں مار کی اکثریتی بدھ مت کے پیروکاروں کے درمیان نفرت اور غلط فہمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں روہنجیا نے تحریک چلائی تھی کہ اراکان صوبے کو مجوّزہ پاکستان کے مشرقی بازو (مشرقی پاکستان، اب بنگلا دیش) کا حصّہ بنایا جائے۔ اُس تحریک نے مختلف موقعوں پر تشدّد کا رنگ بھی اختیار کیا تھا۔“معروف صحافی حامدمیر صاحب نے بھی اپنے ایک کالم میں یہ انکشاف کیا تھا کہ اراکان مسلم لیگ نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا اور اراکانی مسلمانوں نے قائداعظم سے ملاقات میں، نئے اسلامی ملک پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کی تھی کیونکہ اراکان اور چٹاگانگ (چاٹگام)کی تہذیب وثقافت میں بظاہر کوئی خاص فرق نہ تھا، مگر ”قائد اعظم نے اُن سے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا“۔ (روہنگیا کون ہیں؟: حامد میر، مؤرخہ 14 ستمبر، 2017)۔مجھے فی الحال فرصت نہیں کہ اس بیان کی تصدیق یا تردید کرسکوں، مگر جلد دیکھوں گا۔

Zuban Fehmi 4

اب اراکانی کی بات کرتے ہیں۔لسانی اعتبار سے اراکان(قدیم نام روہنگ) کے مسلمانوں (روہنگیا) کی زبان ’اراکانی‘[Arakanese] کا شمار ”تبتی۔برمی“ زبانوں کے خاندان [Tibeto-Burman group]میں ہوتا ہے۔اسے جدید برما یعنی میاں مار (یہ میان مار۔ یا م۔ئین مار۔ یا۔ میان مرنہیں ہے)کے سرکاری حکام ’راکھین‘ یا تلفظ کے فرق سے رکھائن/[Rakhine] راکھائن کہتے ہیں۔یہ بحث ماہرین سے زیادہ عوام الناس میں عام ہے کہ آیا اراکانی کوئی جدا زبان ہے یا محض برمی زبان کی بولی۔انسائیکلوپیڈیا بری ٹانیکا[Britannica]کے بیان کی رُوسے بھی اراکانی، برمی کی ایک غیرمعمولی بولی ہی ہے۔رسم الخط کی یکسانیت کے باوجود، متعدد مختلف خصوصیات کی بناء پر اراکانی مسلمان اسے جدا زبان قراردیتے ہیں۔تاریخی اعتبار سے خود برمی بھی تبتی نسل کا حصہ قراردیے گئے ہیں جبکہ ایک طرف اُن کے ذخیرہ الفاظ میں پالی جیسی قدیم اور بُدھ مت کی مذہبی،(نیز آریہ)زبان ودیگرہندوستانی زبانوں کا بڑا حصہ ہے تو دوسری طرف اسے دراوڑی سے قریب سمجھا جاتاہے۔ایک ماہر ِلسان کے نزدیک یہ زبان، اپنی خصوصیات کے لحاظ سے، بڑی پُراَسرار ہے۔ہندوستانی زبانو ں سے مستعار الفاظ کے ذخیرے کی بناء پر اس زبان کا اردو سے ارتباط بھی عین فطرت تھا۔ویسے جہاں تک بہ یک وقت آریہ اور دراوڑ زبانوں سے تعلق کا معاملہ ہے تو ہماری پیاری اردو بھی تو ایسی ہی ہے۔اراکانی کے تین مختلف لہجے یا بولیاں ہیں ; سیٹوے۔مارماMarma] [Sittwe-رامری [Ramree]،اور ٹھنڈوے[Thandwe]۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہ زبان مسلم اراکانی، بُدھ مارما(قدیم نام مَگ یا موگMoghs or Maghs)اور کَمِین [Kamein]قوم کی زبان ہے۔مگ قوم وہی ہے جسے مگدھ سے نسبت ہے اور جس کی ہندوستانی زبان مگدھی یا مگھئی [Magadhi/Magahi] کہلاتی ہے، اور یہی زبان ترقی کرکے بُدھ مَت کی مذہبی زبان ’پالی‘ بنی،مگردریائے میگھناعبورکرکے، یہاں چاٹگام میں داخلے کے بعد، انھوں نے مقامی قدیم منگول آبادی کے اختلاط کے ساتھ قدم جماتے ہوئے انھیں بھی بُدھ مَت میں شامل کیا۔مقامی قدیم زبان چاٹگامی نے بہ یک وقت مَگ اور اراکانی دونوں کو متأثر کیا اور یوں آج چاٹگامی، اراکانی سے انتہائی قربت کے باوجود، اپنا جداگانہ وجود برقراررکھنے میں کامیاب ہیں۔یہ دونوں ہی زبانیں، اپنی ہم رشتہ بنگلہ کی طرح، الفاظ کے اشتراک کے لحاظ سے اردوکی بہنیں ہیں۔

لفظ کمین، فارسی لفظ کمان کی متبدل شکل ہے اور اِن کی اکثریت بھی مسلمان ہے۔محض لسانی بنیاد پر دیکھا جائے تو اَراکانی زبان بولنے والے برما،بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان، سعودی عرب سمیت اُن ممالک میں موجودہیں جہاں مخدوش حالات نے اُنھیں جانے پر مجبورکیا۔

خطہ بنگال کے قدیم باشندے منگول، کاکیشئین[Caucasian] اور دراوڑ کے آپس میں میل جول سے، قدیم قفقاز یا کوہ ِ قاف (کے مختلف ممالک) کے سفید فام، زردفام منگول اور سیاہ فام دراوڑ نسل کے اختلاط نے بنگالی قوم کی بنیاد رکھی۔ہندوستان بھر میں برہمن اقتدار مستحکم ہوا تو آٹھویں صدی کے برہمن راجہ اَدی شنکر(788-820 Adi Shankara:)نے مظالم ڈھاکر بُدھ مت کو خطے سے بڑی حدتک اُکھاڑ پھینکا۔اُس کے ساتھیوں مادھو اور رامنوج[Madhva and Ramanuja]نے برہمن مَت (عرف ہندومت)کیہندوستان میں بحالی کے ضمن میں بہت اہم کرداراداکیا اور یوں موجودہ ہندومَت پروان چڑھا۔بُدھ مت ماننے والے کشمیر، لدّاخ، تبت، بنگال، اراکان اور برما میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے، بلکہ محدودہوگئے۔

ماقبل اس خاکسار کے کالم میں اردو کے بنگلہ سے دیرینہ تعلق کا جائزہ لینے کی سعی کی گئی تھی۔چاٹگامی اور اراکانی بھی بنگلہ سے کہیں نہ کہیں میل کھاتی ہیں،البتہ انھیں بطور زبان ہرگز مماثل یا ایک دوسرے کے لیے قریب الفہم قرارنہیں دیا جاتا۔چاٹگامی کے نام اور اس کے وطن چاٹگام کے نام، لہجے کے فر ق سے کئی ایک ہیں، جیسے چَٹ گےّا، چٹاگونگیا،چٹاگونگ۔عربی کے اثر سے اسی زبان میں ’چ‘ کی جگہ ’س‘ رائج ہوا تو کہیں ’سیٹاگانگ‘ اور سیٹاگامی بھی سننے کو ملیں گے۔مختلف دائرہ ہائے معارف یعنی Encyclopaeidasکے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہند آریائی زبانوں کے خاندان کی رُکن، چاٹگامی،اپنی لسانی خصوصیات کی بِناء پر روہنگیاسے زیادہ اور کسی حد تک نواکھلی کی زبان نواکھیلا [Noakhailla]سے بھی قریب ہے۔

اب زیر ِ نظر کتاب میں درج، اردو دشمنی اور اس کے مشرقی بنگال یعنی مشرقی پاکستان سے ہندو پرچا رکے نتیجے میں اخراج کی تحریک کے متعلق چند سطور ملاحظہ فرمائیں جن سے حقیقتِ حال کا بخوبی اندازہ ہوتاہے:

”اردو کی مخالفت میں عام طور پر تین دلائل پیش کیے جاتے ہیں:

ا)۔اردو باہر کی زبان ہے اور مشرقی بنگال پر، استعماریت کے اصول پر، مسلط کی جارہی ہے۔

ب)۔ اردوکی تعلیم کے لیے بہ یک وقت،اس قدر بڑی تعدادمیں اساتذہ کا مہیا ہونا محال ہے۔

اور ج)۔مغربی پاکستان کے طلبہ کو بنگالی نہیں پڑھائی جاتی، اس لیے مشرقی پاکستان کے طلبہ کو اردو نہ پڑھائی جائے۔

مشرقی بنگال (مشرقی پاکستان) والوں نے اپنی زبان کی بِناء، اصلیت اوروقتی تبدیلیوں پر غورکیے بغیر ہی وہ بات کہہ ڈالی جو اَکثرہندوکہہ دیا کرتے تھے۔میں یہاں چاٹگامی زبان کا نمونہ پیش کرتا ہوں جو بہت کم تبدیلیوں سے دوچارہوا ہے۔بنگالی مسلمانوں کی گھریلو زبان کا نمونہ حصہ دوم وحصہ چہارم میں پیش ہوچکا ہے“۔ اس کے بعد مصنف موصوف نے چاٹگامی زبان کا نمونہ پیش فرمایا:

تمھار خطا شن لے شریر بدّاخانفِر ڈے

(تمھاری کتھا یعنی بات سن کر تو بھیا! بدن کانپتا ہے ڈرکے مارے)

ختو مانش مری زارگوئی منگڈور تافر گاڑے

(کتنے ہی آدمی مرے جارہے ہیں، منگڈو تاف گھاٹ میں)

٭ یہ چاٹگامی شاعر بیلا فقیرا کا کلام ہے جو اُس نے مشرقی اکیاب میں قتل عام سے بچ کر منگڈو(پرانا نام منگڈو تاف) گھاٹ پہنچ کر، زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جاں بحق ہونے والے مسلمانوں کے نوحے کے طور پر نظم کیا۔آگے چل کر مَگ قوم کے خلاف،منگڈو کے مسلمانوں کی جدوجہد کی بابت کہتا ہے:

دکھن اے رومانش دیکھو سایہ گوراگورا

(دکھن یعنی جنوب کے آدمیوں کو دیکھو،سایہ چھوٹا چھوٹا ہے)۔

ٹھیلا بندوق خاندھت لیے ہمت فورافورا

(دیسی بندوق کندھے پر لیے ہیں، ہمت پوری پوری یعنی مضبوط ہے)

یہ اشارہ ہے منگڈو کی جنوبی بستی کے مسلمانوں کے اولین مسلح جوابی حملے کی طرف اور سایہ چھوٹا ہونے سے مراد اُن کا پستہ قامت ہونا ہے۔جنگ عظیم دوم میں انگریزوں اور جاپانیوں کی لڑائی کے متعلق یہی شاعر کہتا ہے:

خالا فھاڑ رتلات مازے زافان اش شے تارا

(’کالا پہاڑ‘ کے نیچے، جاپانی آئے ہوئے ہیں)

وائرلیس اے دیے،خبر آئیو خاراخارا

(وائرلیس کے ذریعے اطلاع دی گئی کہ کھڑے کھڑے آؤ یعنی فوراً چلے آؤ)

رازہ رازہ لاڑائی گریرفرزاکیلّا دھار

(راجہ راجہ یعنی حکمراں لڑائی کرتے ہیں، پَرجا یعنی رعایا کیوں بھاگتی ہے؟)

افرت تون بُماماریر،بُمارڈرے دھار

(اُوپر سے بم مارتے ہیں، بم کے ڈر سے بھاگتی ہے)

اسی بیلا فقیرا کی ایک غزل کا شعر بھی پیش خدمت ہے:

ہاتھے دیے سوری، خاروناکے دیے بالی

(ہاتھ میں ڈال کر چوڑی اور کنگن، ناک میں ڈال کر بالی)

فانی آئن تو زارگوئی بہنے خمر لاری لاری

(پانی لانے کے لیے جارہی ہے بہن، کمر لہرا لہرا کے)

٭شاعر نے مَگ زبان کی تقلید میں محبوبہ کو ’بہن‘ کہا ہے۔ع ناطقہ سر بہ گریباں ہے اسے کیا کہیے

ہمارے فلمی ادب میں رنگون کی نسبت سے ایک گانا بہت مقبول ہوا تھا، ”میرے پیا گئے رنگون، وہاں سے کیا ہے ٹیلی فون، تمھاری یاد آتی ہے“ اور چاٹگامی زبان میں ایک مشہور گیت یوں ہے:

”آما ربندھو، رنگون گیلو+شہ ماشر خرارخرلو

(میرا دوست رنگون گیا+چھَے ماہ کا قول وقرارکرلیا)

آگے چل کر اس گیت میں ایک ٹیپ کا مصرع ”رنگون رنگیلا رے“ یعنی رنگون رنگیلا یا رنگ دار ہے بھی شامل ہے۔کس قدر صاف اردو ہے۔

چاٹگامی اور اردو کے مشترک الفاظ پر ایک نظر

آئیو: آؤ (اردو میں آئیو، تبدیل ہوکر آؤ اور آئیے بن گیا، مگر وہاں نہیں بدلا)، باس: سونگھنا (بمعنی بُو اور بوُ سونگھنا اب اردو میں متروک، مگر چاٹگامی میں موجودہے)، بَلی: طاقتور(قدیم اردومیں رائج تھا، فلم میں بھی مَہا بَلی اُسی دورکی یادگار ہے)، بَند: دوست (اردو میں بھائی بند)، بھِیتر: اندر (قدیم اردو)، بوز: بُوجھ جیسے سمجھ بوجھ،تلے: نیچے (قدیم اردو)، ٹُک:ٹُک یعنی ذرا(قدیم اردو)، جائیو(قدیم اردو، اب جاؤ اور جائیے)،چھاڑ: چھوڑ چھاڑیعنی چھوڑنا،دَھر: دھرپکڑ، دھر لینا،ساکی یعنی چاکی جو اردومیں تبدیل ہوکر چکّی بن چکا ہے، مگر امیر خسرو کے عہد میں اول الذکر تلفظ ہی تھااور یہ عربی کے اثر سے چاٹگامی میں ساکی ہوا،راکھیں: راکھیں (قدیم اردو)یعنی رکھیں، صاف صُوف: صاف صُوف یعنی صاف صفائی (قدیم اردونیز موجودہ بِہاری بولی، امیر خسروسے منسوب ایک شعرمیں بھی استعمال ہوا)، کرچ: کرچ یعنی تلوار (قدیم اردو)۔

اظہار تشکر: میں شعبہ معلومات عامہ[Quiz]میں اپنے خوردمعاصر، شاہد اقبال صدیقی کا شکر گزار ہوں (کہ اُس نے اس موضوع پر خامہ فرسائی کے لیے مجھے کچھ حضرات کے نام اور رابطہ نمبر دیے)، نیزجناب امین ندوی اراکانی، نعیم اللہ عبدالسلام، مولانا نورالبشراورنورحسین اراکانی کا ممنون ہوں کہ مواد کی فراہمی میں مدد فرمائی۔

 

The post زباں فہمی نمبر 163؛ اردو، اراکانی اور چاٹگامی(حصہ اوّل) appeared first on ایکسپریس اردو.

اسموگ سے بچاؤ کیسے ممکن ؟؟ 2023ء کو ماحولیاتی ایمرجنسی کا سال قرار دیکر ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے!!

$
0
0

پاکستان کو درپیش مختلف چیلنجز میں سے ایک بڑا مسئلہ ’’اسموگ‘‘ ہے جس کا سامنا ہر سال ہمیں موسم سرما میں کرنا پڑتا ہے۔ اس موسم میں چونکہ نمی ہوتی ہے، دھند ہوتی ہے لہٰذا جب فضا میں موجود دھواں، زہریلی گیسیں اور گرد وغبار اس نمی کے ساتھ مل جاتے ہیں تو سموگ بن جاتی ہے۔ یہ زہریلی ہوتی ہے اورانسانی صحت کے لیے نقصاندہ بھی۔

اسموگ کے بننے میں موسمیاتی تبدیلیاں ایک وجہ ہیں مگر بڑی وجہ زمین پر انسانوں کی ماحول دشمن سرگرمیاں ہیں جن میں فیکٹریوں سے خارج ہونے والی زہریلی گیسیں، کھیتوں میں لگائی جانے والی آگ، دھواں چھوڑتی گاڑیاں ، اینٹوں کے بھٹوں سے پھیلنے والی آلودگی اور تعمیراتی کاموں میں ماحول کو مد نظر نہ رکھنا شامل ہیں۔

اسموگ کی روک تھام کے لیے حکومت پنجاب کی جانب سے ایمرجنسی لگا دی گئی ہے۔ دھواں پھیلانے والے کارخانوں اور بھٹوں کو حکومت کی جانب سے کسی بھی صورت کام کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی البتہ جن کارخانوں اور فیکٹریوں میں دھواں کنٹرول والے آلات نصب ہیں صرف انہیں کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

اسی طرح جن بھٹوں کو زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کیا جا چکا ہے ان کے لیے بھی کوئی پابندی نہیں ہے۔ سموگ کی ایک بڑی وجہ ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بے شمار اینٹوں کے بھٹے، آلودگی پھیلانے والے کارخانے اور فصلوں کی باقیات کو جلانے جیسے عوامل ہیں۔

گزشتہ برسوں میں بھی بھارت سے آنے والے دھوئیں کے باعث پاکستان میں سموگ میں اضافہ ہوا اور بے شمار شہری بیماریوں کا شکار ہوئے اور اس سال بھی اس کے واضح امکانات موجود  ہیں۔

رواں برس سموگ کی صورتحال اور حکومتی اقدامات جاننے کیلئے مذکورہ بالا تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں متعلقہ محکموں کے نمائندوں اور ماہرین کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر ساجد رشید
(ڈین فیکلٹی آف جیو سائنسز جامعہ پنجاب)

اکتوبر اور نومبر میں بنیادی طور پر ہوا کی رفتار کم ہوتی ہے، درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے آلودہ ذرات حرکت نہیں کرتے، ہوا میں معلق رہتے ہیں۔

ان مہینوں میں ہوا کا رخ بھی تبدیل ہوتا ہے۔ ہوائیں بھارت سے پاکستان میں داخل ہوتی ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی اور سموگ میں بھارت کا ایک بڑا حصہ ہے ،وہاں فصلوں کی باقیات جلانے سے آلودگی پیدا ہوتی ہے جو ہوا کہ ذریعے پاکستان خصوصاََ لاہور میں آتی ہے یہی وجہ ہے کہ لاہور دنیا کا آلودہ ترین شہر بن جاتا ہے۔

بھارت کے ساتھ ساتھ ہمارے اپنے بھی مسائل ہیں جن کی وجہ سے آلودگی پیدا ہوتی ہے، یہاں ایمرجنسی نافذ ہونے کے باوجود فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں ، ’فوسل فیول‘ گیس، تیل، کورا کرکٹ، پلاسٹ وغیرہ جلانے سے ماحول آلودہ ہوتا ہے، زہریلے مادے ہوا میں رہ جاتے ہیں جو سموگ کی شکل اختیار کرکے مختلف بیماریوں کا باعث بنتے ہیں۔

سموگ صرف انسانوں ہی نہیں بلکہ دیگر جانداروں پربھی اثر انداز ہوتی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے دیگر شعبوں کے ساتھ مل کر جانوروں اور پرندوں پر بھی تحقیق کا آغاز کیا ہے تاکہ ان پر سموگ کے اثرات کا جائزہ لیا جا سکے۔

سموگ میں ٹرانسپورٹ کا حصہ 30فیصد سے زائد ہے۔ گاڑیوں کا فٹنس سرٹفکیٹ موجود ہے مگر وہ ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں۔ یہ نہیں دیکھا جا رہا کہ تمام گاڑیوں کا دھواں ہماری فضا اور ماحول کیلئے کتنا نقصاندہ ہے۔ دنیا میں الیکٹرک بسیں چل رہی ہیں مگر ہم نے سولر اور الیکٹرک اشیاء پر ٹیکس لگا دیا ہے جو حیران کن ہے۔

ایک طرف ہم دنیا سے کہہ رہے ہیں کہ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے ساتھ دے، دوسری طرف ایسے اقدامات کر رہے ہیں۔ میرے نزدیک ہمارے ہاں ہر سیکٹر میں مافیاز ہیں جو ایسے اقدامات سے روک رہے ہیں۔ حکومت کو اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے اور جو اقدامات ملک کے لیے بہتر ہیں وہ کرنے چاہیے۔

ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کیلئے ہمیں ماحول دوست گاڑیوں اور اشیاء کو فروغ دینا ہوگا اور ان پر ٹیکس کم کرنا ہوگا۔ سموگ میں صنعت کا ایک بڑا کردار ہے۔

لاکھوں، کروڑوں روپے کے یونٹ لگائے جاتے ہیں مگر ان میں ماحولیاتی سیفٹی کی ٹیکنالوجی کا استعمال نہیں کیا جاتا، یہ فیکٹریاں ماحول کو آلودہ کر رہی ہیں۔

ان میں سے اکثر رات کو چلتی ہیں، متعلقہ محکمے ان کے خلاف کارروائی کریں،ا نہیں فوری بند نہ کیا جائے بلکہ ماحول دوست ٹیکنالوجی پر منتقل ہونے کا خاطر خواہ وقت دیا جائے اور ا سکے ساتھ ساتھ انہیں شہر سے باہر صنعتی زونز میں منتقل کیا  جائے۔

شیخوپورہ سے آگے انڈسٹریل زون بن رہا ہے مگر وہاں بڑے صنعتکاروں نے جگہ لے لی ہے، سوال یہ ہے چھوٹے صنعتکار کہاں جائیں گے؟ میرے نزدیک مختلف علاقوں میں صنعتوں کو مخصوص کر دیا جائے، ایک انڈسٹریل زون میں ایک ہی قسم کی انڈسٹری لگائی جائے۔ ہم نے بھٹوں کے حوالے سے محکمہ ماحولیات کے ساتھ مل کر کام کیا ہے۔

ہم نے 25 لاکھ روپے کا آلہ خریدا ہے جو چمنی کے اوپر سے ہی چیک کرکے گیسوں و زہریلے مادوں کی شرح بتا دیتا ہے۔ لاہور میں تقریباََ تمام بھٹے ’زگ زیگ‘ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوچکے ہیں جو ماحول دوست ہیں۔ سموگ کے حوالے سے وسیع پیمانے پر آگاہی دینے کی ضرورت ہے۔

آگاہی سے مراد یہ نہیں کہ سموگ کا مطلب بتایا جائے، اب سب کو سموگ کے بارے میں معلوم ہے،ا ٓگاہی یہ دی جائے کہ وہ کس طرح اپنے ارد گرد موجود محرکات کو ختم کرسکتے ہیں۔ سموگ کے خاتمے کیلئے ہمیں من حیث القوم کام کرنا ہوگا۔ آلودگی کم کرنے اور ماحول کو صاف رکھنے میں سب اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

آپس میں گاڑیوں کو ’پول‘ کریں، ماحول دوست رویے اپنائیں، اپنا طرز زندگی تبدیل کریں۔ سموگ کے خاتمے میں سب سے اہم یہ ہے کہ سرکاری محکموں میں موثر کوارڈینیشن کا میکنزم ہونا چاہیے، سب اپنا اپنا الگ کام کر رہے ہیں،ا گر سب مل جائیں تو محنت بھی کم لگے گی اور فائدہ بھی زیادہ ہوگا۔

فصلوں کی باقیات جلانے سے آلودگی پیدا ہوتی ہے، ہم نے اپنی لیب میں ان سے گتہ اور کاغذ بنایا ہے، انڈسٹری کے تعاون سے اس کا یونٹ لگایا جائے گا، ہم لوگوں کو مفت تربیت دیں گے تاکہ وہ مقامی سطح پر یونٹس لگا کر نہ صرف روزگار کمائیں بلکہ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے میں بھی اپنا کردار ادا کریں۔

2023ء کو سموگ اور ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف ایمرجنسی کا سال قرار دے کر کام کیا جائے، سموگ سمیت ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کیلئے ٹیکنیکل افراد پر مشتمل سپروائزری کونسل بنائی جائے جس میں انڈسٹری، اکیڈیمیا سمیت مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے ٹیکنیکل افراد اور ماہرین شامل ہوں ، اس سے بہتری آئے گی۔

نسیم الرحمن شاہ
( ڈائریکٹر محکمہ ماحولیات )

پہلے دھند 21دسمبر سے 10 جنوری تک ہوا کرتی تھی اور سب کو معلوم تھا کہ اس دوران موسم کیسا ہوگا اور لوگ سفر وغیرہ میں احتیاط کرتے تھے۔

2016میں پہلی مرتبہ دھند کا دورانیہ بڑھا اور اس کا آغاز دسمبر کے پہلے ہفتے سے ہوا۔ 2017ء میں یہ دورانیہ مزید بڑھا اور اس مرتبہ دھند کا آغاز نومبر کے آخری ہفتے سے ہوا۔ 6 نومبر 2017ء کو پہلی مرتبہ دھند سے آنکھوں میں چبھن ہوئی اور ایسا محسوس ہوا کہ ہوا میں کچھ زہریلا پن موجود ہے۔

2018ء میں 2 نومبر کو سموگ ہوئی۔ 6نومبر 2019ء کو سب سمجھے کہ دھند ہے، پھر سمجھے کہ سموگ ہے لیکن اس روز فضا میں نہ سموگ تھی نہ ہی دھند بلکہ ہر طرف دھواں ہی دھوں تھا جو بارڈر کے اس پار فصلوں کی باقیات کو جلانے سے یہاں پہنچا تھا۔

2020ء میں کرونا آگیا، جس میں سموگ کم ہوئی البتہ 2021ء سموگ کے حوالے سے بدترین سال تھا، جس میں 15اکتوبر سے فروری، مارچ تک سموگ اور دھند کا دورانیہ رہا۔اکتوبر اور نومبر، یہ دو ماہ اہم ہوتے ہیں جن میں موسم بھی تبدیل ہورہا ہوتا ہے۔

دھان کی کٹائی ہوتی ہے اور پھر ساتھ ہی گندم کی بوائی کرنی ہوتی ہے، لہٰذا پاکستان اور بھارت دونوں ممالک میں ہی فصلوں کی باقیات جلائی جاتی ہیں، یہ دھواں ہوا میں معلق ہوجاتا ہے، جس سے سموگ پیدا ہوتی ہے۔اس حوالے سے بھارت اور ہماری پالیسی میں فرق ہے۔ ہمارے ہاں 95 فیصد کسان ایسے ہیں جن کے پاس 2 سے 3 ایکڑ زمین ہے۔

اگر انہیں کٹائی کیلئے جدید مشین کا کہا جاتا ہے تو اس کی قیمت یا کرایہ ان کی پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔ اب ہم کوشش کر رہے ہیں کہ یونین کونسل کی سطح پر میکنزم بنایا جائے اور انہیں سبسڈائزڈ ریٹ پر یہ سہولت فراہم کی جائے۔

سموگ ایکشن پلان کے ذریعے ہم نے مئی سے ہی اقدامات کا آغاز کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال سموگ زیادہ نہیں ہوئی بلکہ آئندہ دس روز میں سموگ مزید کم ہوگی اور آنے والے برسوں میں اس میں بتدریج کمی آئے گی۔ہم نے شمالی لاہور، شیخوپورہ، گوجرانولہ و دیگر شہروں میں ‘سموگ سکواڈ‘ تشکیل دیے جو با اختیار ہیں۔

اس حوالے سے بزنس چیمبرز و دیگر سٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت کی گئی تھی، یہ سکواڈ فیکٹریوں ، کارخانوں وغیرہ کا جائزہ لیتے ہیں، جہاں دھواں کنٹرول کرنے کا نظام نصب نہیں ہے اسے نہ صرف سیل کرتے ہیں بلکہ بھاری جرمانہ بھی کرتے ہیں۔

حکومت پنجاب نے ماحولیاتی آلودگی کو روکنے کیلئے خصوصی طور پر فیکٹریوں وغیرہ کیلئے 2 ارب روپے کے فنڈز رکھے ہیں، جو فیکٹری مالکان’امیشن کنٹرول سسٹم‘ نسب نہیں کرسکتے وہ 1 کروڑ20 لاکھ تک آسان قرض لے سکتے ہیں۔

اس سسٹم کے بغیر کسی بھی فیکٹری کو کام کی اجازت نہیں ہوگی، ہماری سکواڈ اسے سیل کر دے گی اور یہی سکواڈ فیکٹری مالک کی جانب سے سسٹم لگانے سے اسے بحال کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔

26 اگست سے اب تک 583 فیکٹریوں، کارخانوں سمیت مختلف یونٹس کے خلاف ایکشن لیا گیا اور 34 ملین سے زائد کے جرمانے کیے گئے۔95فیصد بھٹے ’زگ زیگ‘ ٹیکنالوجی پر منتقل ہوچکے ہیں، باقی بھی ہورہے ہیں، آلودگی پھیلانے والے بھٹوں، فیکٹریوں، کارخانوں و دیگر یونٹس کے خلاف زیرو ٹالرنس کی پالیسی ہے۔

چودھری محمد اسلم
( ڈائریکٹر محکمہ موسمیات لاہور)

رواں سال دورانیہ زیادہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ برسوں کی نسبت ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہے۔ مون سون 30 ستمبر تک چلا گیا جس سے موسم میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔

اب اگر آلودگی زیادہ ہوئی تو سموگ بھی زیادہ ہوگی۔ رواں ماہ بارشوں کا کوئی بڑا سسٹم موجود نہیں ہے جس کا مطلب ہے کہ بارشیں معمول سے کم ہوں گی اور آلودگی ہوا میں معلق رہے گی جس کے باعث سموگ کے بڑھنے کے واضح امکانات موجود ہیں، ہمیں اس کیلئے تیار رہنا ہوگا۔

سموگ کے خاتمے کیلئے ہوا کی رفتار کم اور موسم کا مستقل ہونا ضروری ہے مگر اب چونکہ موسم تبدیل ہورہا ہے، نمی آرہی ہے، ہواؤں میں تبدیلی آرہی ہے لہٰذا یہ وقت سموگ کیلئے ماحول سازگار ہے۔ ہر سال اکتوبر اور نومبر میں بھارت میں آلودگی زیادہ ہوتی ہے۔اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ گرمی سے موسم سردی میں بدل رہا ہوتا ہے اور ا س کے ساتھ ساتھ ہوائیں بھی اپنا رخ موڑتی ہیں،ان مہینوں میں ہوا بھارت سے پاکستان آتی ہے۔

وہاں آبادی زیادہ ہے، آلودگی بھی ہے اور فصلوں کی باقیات بھی جلائی جاتی ہیں۔ آلودگی میں نئی دہلی کا شمار پہلے دو،تین آلودہ شہروں میں ہوتا ہے لہٰذا جب ہوائیں بھارت سے اپنے ساتھ آلودگی لے کر پاکستان آتی ہیں تو نہ صرف ماحول آلودہ کرتی ہیں بلکہ سموگ بنا کر اسے زہریلا کر دیتی ہیں۔

بھارتی پنجاب میں آلودگی زیادہ ہے اور ان ہواؤں کی وجہ سے لاہور بھی آلودہ ہوجاتا ہے۔ اس ایک فیکٹر کی وجہ سے سموگ کا زیاہ مسئلہ ہمارے ہاں صرف پنجاب میں ہی ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ساری آلودگی بھارت سے ہی آتی ہے، ہمارے ہاں بھی فصلوں کی باقیات کو جلایا جاتا ہے لہٰذا دونوں ممالک میں فصلوں کی باقیات کو جلانا ماحولیاتی آلودگی اور سموگ کی ایک بڑی وجہ ہے۔ اس حوالے سے سنجیدگی کے ساتھ بڑے پیمانے پر اقدامات کی ضرورت ہے۔

The post اسموگ سے بچاؤ کیسے ممکن ؟؟ 2023ء کو ماحولیاتی ایمرجنسی کا سال قرار دیکر ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے!! appeared first on ایکسپریس اردو.

بچے کیوں نہیں سوتے؟

$
0
0

بچوں کونیند کیوں نہیں آتی؟ اس کے کئی ممکنہ اسباب ہوسکتے ہیں۔

سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عام طور پر بچوں کوعلیحدہ بستر اورعلیحدہ کمرے میں سلایا جاتا ہے۔ ایسے میں بچے والدین سے الگ ہوکر ، خود کوتنہا اور بے سہارا سمجھ کر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔ چنانچہ رات کااندھیرا ، خاموشی اورتنہائی مل کر ان میں خوف کاجذبہ پیداکردیتے ہیں۔ ایسے ماحول میں بچے کیلئے سونا مشکل ہوجاتا ہے۔

ماہرین نفسیات کے مطابق بچے سارا دن والدین کے پیار ومحبت سے بھرپور ماحول میں رہتے ہیں، اس کے عادی ہوتے ہیں لیکن سوتے وقت اس سے محرومی کاشکار ہوجاتے ہیں ، چنانچہ یہی احساس محرومی ان میں خوف اور تنہائی کااحساس پیدا کردیتی ہے۔ یقیناً جب بچے کے بڑے ہونے کاعمل جاری ہو تو اسے الگ سونے کی عادت بھی ڈالنی چاہیے۔

ماہرین کے مطابق بچوں کی نیند کامسئلہ حل کرنے کی ایک آسان اورعملی تدبیر یہ ہے کہ ان کے سونے کے معمول میں باقاعدگی لائی جائے ۔ ان کے سونے کا وقت طے کرکے ، انہیں اسی وقت پر سونے کا پابند کیاجائے۔کمرے کی روشنیاں( لائیٹس) بند کرنے سے آدھا گھنٹہ پہلے کسی کھیل کود وغیرہ میں نہ لگنے دیں۔ اس سے بچے کی نیند اڑ سکتی ہے۔

اس کی بجائے بچے کوکسی ہلکے پھلکے کام میں لگائیں تاکہ دن بھر کی پھرتی میں کمی آجائے۔ رات کے کپڑے بدلوانا ، دانت صاف کرانا وغیرہ جیسے ہلکے پھلکے کام بچے کو ذہنی طور پر تیار کریں گے کہ اب سونے کا وقت آگیا ہے۔

سوتے وقت کے معمولات بچوں کے مزاج اورعادات میں اختلاف کی وجہ سے مختلف ہوسکتے ہیں۔ مثال کے طورپر بعض بچے اپنے والدین سے کہانی سننا پسند کرتے ہیں، بعض بچے اپنے سکول اور دن بھر کی مصروفیات اپنے والدین کوبتانا پسند کرتے ہیں، بعض بچے اپنے پسندیدہ کھلونے اپنے ساتھ لے کر سوتے ہیں۔ اوربعض بچے لوری سنتے ہوئے سونے کے عادی ہوتے ہیں۔

گھریلومعاملات مثلاً طلاق ، لڑائی جھگڑا ،کسی کی ملازمت چھوٹ جانا بھی کچھ ایسے اسباب ہیں جو بچے کی نیند پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ان معاملات پر زور و شور سے بحث و مباحثہ ہوتا ہے۔ گھر میں شور شرابا نہ ہو ، تب بھی افراد خانہ کا خون کھول رہا ہوتا ہے ، تحمل اور برداشت میں کمی ہوتی ہے ، ذرا سی بات پر غصہ اور اشتعال پیدا ہو جاتا ہے۔

جب بچوں کو سلانے کا وقت آجائے تو والدین ایسا کوئی کام نہ کریں جس سے بچہ جاگتا رہے۔کمرے کی روشنیاں بند کرنا ، ضروری نائٹ بلب جلانا ان کی نیند میں معاون ثابت ہوتا ہے۔ اگر گھر میں بڑے ہیں تو وہ شور نہ کریں۔ بعض اوقات پنکھے کی آواز بھی سونے میں مدد دیتی ہے، ایسا شور بھی بچوں کے سونے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

عام طور پر شیر خوار اورنومولود بچوں کوگود میں یا جھولے میں سلایا جاتا ہے۔ جب بچہ سوجائے تو اسے بستر پر سلادیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ مناسب نہیں ہے۔ اگر آپ اپنے بچے کو اپنی گود میں سلائیں گی ، اس کے سونے کے بعد اسے بستر پرلٹائیں گی تو اس سے یہ ہوگا کہ رات کے کسی پہر جب اس کی آنکھ کھلے گی تو وہ خود کو آپ کی گود میں نہ پاکر گھبرائے گا۔ وہ سوچے گا کہ وہ سویا تو کہیں اور تھا لیکن اس وقت یہاں کیسے پہنچ گیا؟ یہ سوال اس میں خوف پیدا کردے گا۔

ہوسکتا ہے کہ بچہ رونا شروع کردے اور اس کی نیند اڑ جائے۔ اس لئے ضروری ہے کہ جب بچے پرتھکن طاری ہونے لگے تب اسے بستر پر لٹا کر تھپکائیے۔ شیر خوار بچوں کی ماؤں کے لئے ایک اہم بات ، بعض مائیں سوتے وقت بچے کو دودھ پلاتی ہیں یہ طریقہ مضر صحت ہے۔

آپ غور کریں بچے کے سونے کامعمول کیا ہے؟ بعض بچے سوتے وقت بہت تنگ کرتے ہیں، چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔کبھی ایک اورکہانی سننے کی فرمائش کرتے ہیں تو کبھی آدھی رات کو کہیں اور جانے فرمائش کرتے ہیں۔ اس کی ایک خواہش پوری ہو تو دوسری فرمائش کا اظہار ہوجاتا ہے۔ اسے جتنا سمجھایا دھمکایا جائے، وہ سونے کیلئے تیار نہیں ہوتا۔

ماہرین کے مطابق یہ بچے بڑھوتری کاعمل ہوتا ہے اس سے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔ ہاں ! مسلسل ایک مہینہ یا اس سے زیادہ عرصہ تک بچہ سوتے وقت پریشان کرے تو اسے سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ بعض بچے سونے سے پہلے اس لئے ضد کرتے ہیں کہ وہ ماں باپ کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔کبھی اداسی( ڈپریشن) اسے گھیر لیتا ہے۔ایسے وقت میں بچہ بعض اوقات والدین پر دباؤ ڈالنا چاہتاہے اور اپنی باتیں منواتا ہے۔

اگر آپ کے ساتھ ایسی صورتحال پیدا ہوجائے تو اپنے لہجے کودھیما اوراپنے مزاج کو ٹھنڈا رکھیں ، بچے سے پیار سے بات کیجئے۔ اگر آپ جان لیں کہ بچہ آپ کی توجہ چاہتا ہے تو اسے پیار سے اطمینان دلائیں، تسلی دیں اوراسے باور کرائیں کہ اب تم نے دودھ پی لیا ہے، اب سونے کا وقت ہے ، سوجاؤ! ۔ عین اس لمحہ اس کے بستر سے ہٹ کر اپنے بستر پر آجائیں۔

جیسا کہ سطور بالا میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ بچوں کے نہ سونے کی ایک بڑی وجہ بچوں میں خوف بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنے ذہن میں بھوت، جن ، چڑیل وغیرہ کا تصور بھی بٹھا لیتے ہیں۔

رات کے اندھیرے میں انہیں پردوں کے سائے، دروازوں کی اوٹ میں یہی سب کچھ محسوس ہوتا ہے۔ بعض اوقات تشویش ، فکر (Anxiety) بچے کے ذہن پر بھوت پریت کا خیال مسلط کردیتی ہے جس سے بچہ سونہیں پاتا ، ایسی صورت میں بھوت پریت کے جھوٹے تصور کو اس کے ذہن سے محو کرنے کی ضرورت ہوتی ہے چونکہ بچہ اکیلے میں ڈرتا ہے۔

اس کا خوف دور کرنے کی ایک صورت ہوسکتی ہے کہ کھیل کھیل میں بچے کے ساتھ مل کر بھوت پریت کو ڈھونڈا جائے اورپھربتائیں کہ یہاں کوئی بھوت پریت نہیں ہے، تم خواہ مخواہ ڈر رہے ہو۔ بچہ ڈر جائے توا س کے پاس بیٹھ کر اس سے ہلکی پھلکی باتیں کی جائیں، تاکہ اس کے ذہن سے خوف نکل جائے۔

بچوں کی نفسیات کے ماہرین کاکہنا ہے کہ یہ بات سمجھ جائیں کہ بچہ خود کو آپ کی حفاظت میں رکھنا چاہتا ہے۔آپ کا مقابلہ اپنے بچے سے نہیں ہے، اس لئے بچے کے ساتھ زبردستی نہ کیجئے، اسے مارنا ، پیٹنا بالکل مناسب نہیں ہے۔ اگر بچے نہ سوئیں تو زبردستی سلانے ا ور زدوکوب کرنے کی کوشش مت کریں۔

ایک بار بچہ سوجائے تو اسے سوتے رہنا چاہیے۔ امریکی ماہر ڈاکٹر لنڈا کے مطابق’’ بچے کو تمام رات سونا ایسے ہی سکھانے کی ضرورت ہے جیسے وہ چلنا اوربولنا سیکھتا ہے‘‘۔ سات ،آٹھ سال کی عمر میں لڑکا باپ اورلڑکی ماں کے ساتھ سوئے۔ اوربڑے ہونے کی صورت میں بچوں کے بستر الگ کردیئے جائیں۔ یہ شرعی حکم بھی ہے اورمعاشرتی اخلاقی ذمہ داری بھی۔ اگر آپ نے سونے جاگنے کا معمول بنا رکھا ہے اور بچہ اس پر عمل نہیں کرپا رہا تو غور کریں کیا والدین ہونے کی حیثیت سے آپ بچے پر سختی تو نہیں کر رہے ہیں ؟ یہ اہم سوال ہے ، اس پر بہت توجہ اوراحتیاط کی ضرورت ہے۔

ہفتے کے اختتام ( ویک اینڈ) پر بچہ رات کو دیر سے سوئے گا تو دیر سے اٹھتا ہے تو اس کی پرواہ مت کریں لیکن بہت زیادہ دیر تک نہ سوتا رہے۔ اگر بچہ رات کودیر سے سوئے گا اوردیر سے اٹھے گا اس کا لازمی نتیجہ ہوگا کہ اگلی رات اپنے معمول کے وقت پر اسے نیند نہیں آئے گی۔ نتیجتاً کام والے دن ( ورکنگ ڈے ) میں اسے اٹھانے میں بھی مشکل ہوگی چنانچہ بچے کے شیڈول میں اتنی ہی رعایت دی جائے جتنی مناسب ہو۔

بچے کی نیند کامعاملہ انتہائی نازک اوراہم ہوتا ہے لہذا خوب سوچ سمجھ کر اس پر عمل کریں کیونکہ بچے کی نیند کا معمول درست ہو اور اچھی نیند اچھی صحت کی ضمانت ہے۔

 

The post بچے کیوں نہیں سوتے؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

ناخن آپ کی صحت کے متعلق کیسے خبردار کرتے ہیں؟

$
0
0

اپنے ناخنوں کا خیال رکھنا بیوٹی یا نیل سیلون جانے سے کہیں بڑھ کر ہے۔ جسم کا یہ حصہ، جسے تکنیکی اصطلاح میں نیل پلیٹ بھی کہا جاتا ہے، آپ کی صحت کے مختلف مسائل کی نشاندہی کر سکتا ہے۔

اپنے ناخنوں کے رنگ میں تبدیلی، ناخنوں پر دھبوں کا ظاہر ہونا اور دیگر علامات پر توجہ دینا ضروری ہے جو بہت سی بیماریوں کے لیے انتباہ کا کام کرتے ہیں۔ جب بھی آپ کے ناخنوں پر ایسا کچھ ہو تو بہتر ہے کہ آپ ماہر امراض جلد کو معائنہ کروائیں اور اگر ضروری ہو تو اپنے خون کے ٹیسٹ یا جو ٹیسٹ ڈاکٹر تجویز کریں انھیں فوراً کروائیں۔ اور اگر آپ کے ٹیسٹ کی رپورٹ میں کچھ مسائل کی نشان دہی ہو تو ڈاکٹر آپ کو بائیوپسی کروانے کی تجویز بھی کر سکتے ہیں۔

چند ایسی بیماریاں بھی ہیں جو جسم کے ایک سے زیادہ حصے کو متاثر کر سکتی ہیں اور ان کی علامات ہاتھوں اور پیروں دونوں کے ناخنوں میں ہو سکتی ہیں۔ ایسے میں صحت کے سب سے عام مسائل گردے، جلد ، جگر، اینڈوکرائن، غذائیت اور خود کار قوت مدافعت کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ناخنوں میں کچھ تبدیلیاں ہمیشہ کسی سنگین مسئلے کی نشاندہی نہیں کرتیں بلکہ یہ اکثر معمول کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں۔

ماہر امراض جلد اور پونٹیفکل یونیورسٹی میڈیسن کی پروفیسر ویلریا زنیلا فرانزن کہتی ہیں کہ ’ اکثر پاؤں کے ناخنوں کی کم دیکھ بھال کی جاتی ہے اور بعض اوقات ان میں زیادہ مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، پیر کے انگوٹھے کے ناخن پیلے اور موٹے ہو سکتے ہیں۔‘ تاہم درجہ ذیل کچھ ایسی علامات یا اشارے بیان کیے جا رہے ہیں جو صحت کے مسائل کی نشاندہی کر سکتے ہیں اور ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ناخنوں کا سفید ہو جانا

اگر کسی بھی شخص کے ناخنوں کی ساخت یا رنگت میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوتی ہیں تو اسے توجہ دینی چاہیے۔ ناخنوں کی رنگت میں تبدیلی کئی مسائل کی نشاندہی کرتی ہے جیسا کہ اگر آپ کے ناخن سفید ہو گئے ہیں یا ان پر ہلکا سفید رنگ آ گیا ہے تو یہ مائیکوسس (جسم میں انفکیشن)، سوریاسس (جسم میں خشکی)، نمونیا اور یہاں تک کے ہارٹ فیل ہونے کے متعلق نشاندہی کر سکتا ہے۔ ایسے میں کچھ غذائی اجزاء کی کمی، غذائیت کی کمی اور پروٹین والی غذاؤں کی کم خوراک بھی اس کا سبب بنتی ہے۔

ماہر امراض جلد اور برازیلین سوسائٹی آف ڈرمیٹولوجی اور امریکن سوسائٹی فار لیزر میڈیسن اینڈ سرجری کی رکن جولیانا پیکیٹ اس بارے میں کہتی ہیں کہ ’ ناخنوں کی رنگت ہلکی زرد ہونا جسم میں خون کی کمی کی نشاندہی کر سکتا ہے۔ یہ آئرن کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے اور ناخن کو چمچ کی شکل کا بنا سکتا ہے۔‘

کبھی کبھی ناخنوں پر نام نہاد لیکونچیا یعنی ناخنوں پر سفید دھبے یا لکیریں پڑنا شروع ہو جاتی ہیں لیکن یہ نقصان دہ نہیں ہوتا اور اس سے جسم کا کوئی حصہ متاثر نہیں ہوتا۔ ان علامات کا علاج کرنے کے لیے، ڈاکٹر عام طور پر مریض سے مسئلے کی وجہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ آپ صحت کو لے کر متعدد طبی ٹیسٹ کروائیں اور ماہر امراض یا جلد دیگر متعلقہ ماہرین جیسے امراض قلب، غذائیت کے ماہرین اور دیگر کو معائنہ کروایا جائے۔

پیلے ناخن

ناخن کی پیلی رنگت جینیاتی وراثت یا ناخن کی عمر بڑھنے کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے، جس سے یہ پیلا اور سخت ہو سکتا ہے۔ ناخن کی رنگت میں یہ تبدیلی جسم میں کسی انفیکشن خصوصاً فنگس کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے۔ زیادہ سنگین صورت میں یہ جسم میں خشکی، ایچ آئی وی اور گردے کے امراض کی علامات کی جانب بھی اشارہ کرتا ہے۔ سگریٹ نوشوں کے ناخن بھی زرد ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ براہ راست سگریٹ اور نکوٹین کے ساتھ رابطے میں آتے ہیں۔ اس صورت میں عمومی طور پر یہ انگوٹھے اور شہادت کی انگلی کے ناخن میں ہوتا ہے۔

سفید دھبوں کے ساتھ ناخن

’ پٹنگ ‘ کہلائے جانے والے یہ چھوٹے دھبے ناخن کی سطح پر اکیلے یا کچھ کچھ وقفے کے ساتھ ظاہر ہو سکتے ہیں۔ اس کی وجہ جسم میں خشکی یا خارش کا ہونا، اور دیگر جلد اور بالوں کے امراض ہو سکتے ہیں۔ ساؤ پاؤلو وفاقی یونیورسٹی سے ماہر امراض جلد کی ڈگری حاصل کرنے والی جیولیانا توما کہتی ہیں کہ ’ اس کا تعلق بالوں کی ایک بیماری الوپیشیا اریٹا سے بھی ہو سکتا ہے جس کا علاج کرنا ضروری ہوتا ہے۔‘ بہت ہی کم کیسز میں یہ جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماری آتشک کی جانب بھی اشارہ ہوتا ہے۔

نیلی رنگت کے ناخن

اگرچہ یہ بہت ہی کم ہوتا ہے لیکن ناخنوں کی یہ رنگت کسی دوائی کے استعمال سے ہوتی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ عام چہرے کے دانوں، کیل مہاسوں کے علاج اور ملیریا کے علاج کے لیے استعمال کرنے والی ادویات ہیں۔ ماہر امراض جلد ولریا زنیلا کہتی ہیں کہ ’ جب ناخنوں کی ایسی رنگت ہو جائے تو ڈاکٹر کو لازمی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کیا کسی مخصوص دوا کے استعمال کو ختم کر دینا چاہیے اور اس کی بجائے کوئی اور دوا تجویز کی جائے۔‘

ناخنوں میں بار بار پس آنا

ناخنوں میں بار بار پس آنا فنگس کی وجہ سے ہوتا ہے اور جب اس کا علاج بند کر دیا جاتا ہے تو یہ دوبارہ بن جاتی ہے۔ اور اگر اس کی دیکھ بھال درست طریقے سے نہ کی جائے تو ایسا بار بار ہو سکتا ہے۔ زیادہ تر یہ مسئلہ پاؤں کی انگلیوں میں ہوتا ہے اور اس کا کم از کم چھ ماہ تک علاج کیا جانا چاہیے۔ ہاتھ کی انگلیوں پر اس کے لیے تین سے چار ماہ کے علاج کو تجویز کیا گیا ہے۔ ویسے تو ہر شخص کو مناسب وقت تک دوا استعمال کرنی چاہیے اور اس وقت تک دیکھ بھال کرنی چاہیے جب تک کہ ڈاکٹر دوا بند کرنے کا مشورہ نہیں دے دیتا۔ اس کے ساتھ ساتھ ناخنوں میں بار بار فنگس انفکیشن سے بچنے کے لیے سوئمنگ پولز، سوانا، تنگ اور گرم جوتے پہننے سے بھی گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ فنگس کی دوبارہ افزائش کا سبب بن سکتے ہیں۔

ناخنوں پر لکیریں

بیویس لائنز کے نام سے جانے جانی والی یہ لکیریں افقی لکیروں سے ملتی جلتی ہیں اور تیز بخار یا کیموتھراپی کے علاج کے بعد ناخنوں پر ظاہر ہو سکتی ہیں۔ جب ناخن کے اس حصے پر کوئی ضرب پہنچتی ہے تو اس جگہ پر لکیروں کا بننا معمول کی بات ہے، جس سے ناخن پر زیادہ جھریاں پڑ جاتی ہے۔ مگر جب یہ لکیریں زیادہ گہری اور صرف ایک انگلی پر ظاہر ہو تو یہ میلانوما کی علامات ہو سکتی ہیں جو کہ جلد کا کینسر ہے۔

کھردرے ناخن

ماہرین کے مطابق ناخنوں کے کھردرے ہونے کی سب سے زیادہ وجہ ایسے کیمیکلز کا ہاتھ کو لگنا ہے جس سے ناخن اور انگلیاں خشک ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ہم ہمیشہ جسم کے اس حصے پر کریم لگائیں اور جلد کو اچھی طرح سے ہائیڈریٹ رہنے دیں یعنی پانی کی کمی نہ ہونے دیں۔ اس کی ایک اور بہت عام وجہ غدا میں پروٹین، بائیوٹن یعنی بی سیون اور دیگر بی ویٹامنز کی کمی ہو سکتی ہے۔ سبزی خور مریضوں کی صورت میں، ناخنوں کو بار بار ٹوٹنے سے روکنے کے لیے بی 12 اور دیگر غذائی اجزاء کو پورا کرنا بہترین ہے۔

ناخنوں کی سرخی مائل رنگت

ناخنوں میں سرخی مائل رنگت، خاص طور پر ہلال کی شکل میں، گٹھیا سے متعلق امراض جیسے لیوپس اور رمیٹی آرتھرس کی موجودگی کی نشاندہی کر سکتی ہے۔ جبکہ ناخن کے ارد گرد سرخی فنگس اور بیکٹیریا کی وجہ سے ہو سکتی ہے، جو اس وقت ناخنوں پر حملہ آور ہوتے ہیں جب ہم ان کے کیوٹیکل کو ہٹا دیتے ہیں۔ ماہر امراض جلد پیقٹ کہتی ہیں کہ ’ کیوٹکل ایک طرح کا تحفظ ہے، عام طور پر ہم اسے ہٹا دیتے ہیں لیکن ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اور یہ تجویز کیا جاتا ہے کہ اس کو نمی میں رکھا جائے۔‘

آڑے ترچھے ناخن

اس کی بنیادی وجہ ہفتہ وار کیوٹکل صاف کرنے کی وجہ سے ہو سکتا ہے، اس پر بل بننے کی وجہ ناخنوں کی گلیزنگ کے دوران سپیچولا یا دیگر کسی چیز کا زور سے استعمال کرنا ہے۔ ماہرین جیل کے ذریعے مصنوعی ناخن لگانا بھی منع کرتے ہیں اور اس کی مخالفت کرتے ہیں۔ کیونکہ ان ناخنوں کو ہٹانے کا عمل جارحانہ ہے اور ناخن کی تہہ کو بہت کمزور اور چوٹ پہنچا سکتا ہے۔

مشکل سے ٹھیک ہونے والے ناخن

جب جسم کے اس حصے میں مشکل سے ٹھیک ہونے کے مسائل ہوں تو یہ ذیابیطس کا اشارہ ہو سکتا ہے۔ یہ خون کی گردش کے عمل کی وجہ سے ہے، جسے بیماری اور یہاں تک کہ خون بہنے کے ساتھ منسلک کیا جا سکتا ہے۔ پیقٹ کہتے ہیں کہ ’ ذیابیطس کے زیادہ مرض میں خون کی گردش کم ہو جاتی ہے، ناخن بھدے، موٹے اور ان پر نشان بن جاتے ہیں، ان پر کالے کیل مہاسے بھی بن سکتے ہیں جنھیں سلپنٹر ہیومرج کہا جاتا ہے۔‘

The post ناخن آپ کی صحت کے متعلق کیسے خبردار کرتے ہیں؟ appeared first on ایکسپریس اردو.

آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا سی ایم ایچ کا الوداعی دورہ

$
0
0

 راولپنڈی: چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سی ایم ایچ سمیت آرمی میڈیکل کور کے مختلف سیٹ اپ کا الوداعی دورہ کیا۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر) کے مطابق پاکستان آرمی کی سرجن جنرل لیفٹیننٹ جنرل نگار جوہر بھی دورے کے دوران آرمی چیف کے ہمراہ تھیں۔

آرمی چیف نے کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) راولپنڈی کا دورہ کیا،میجر جنرل محمد محسن قریشی کمانڈنٹ سی ایم ایچ نے انہیں جدید ترین طبی سہولیات کے بارے میں بریفنگ دی۔

آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف کو طبی دیکھ بھال کے طریقوں کے حوالے سے بریفنگ دی گئی اور بتایا گیا کہ مریضوں کی دیکھ بھال ہسپتال انتظامیہ کی توجہ کا مرکز ہے،سویلین/غیر مستحق مریضوں کی سہولت کے لیے خصوصی کاؤنٹر بھی قائم کیے گئے ہیں۔

مریضوں کو دوستانہ ماحول فراہم کرنے اور مریضوں کے اٹینڈنٹ کے لیے متعلقہ سہولیات فراہم کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اس موقع پر آرمی چیف کو اکیڈمک سنٹر میں لائیو سرجری کے عمل کے ذریعے ڈاکٹروں کو تربیت فراہم کرنے کے لیے نیا قائم کیا گیا کنٹرول روم بھی دکھایا گیا،آرمی چیف نے آرمی میڈیکل کور کی کوششوں کو سراہا۔

آئی ایس پی آر کے مطابق  میڈیکل کورمسلح افواج ، ان کے اہل خانہ اور سویلین مریضوں کو معیاری صحت کی دیکھ بھال اور جدید ترین بحالی کی خدمات فراہم کر رہی ہے،دیگر سہولیات کے علاوہ، شہدا فیملیز اینڈ ویٹرنز کو طبی سہولت بغیر کسی رکاوٹ کے بنیادی صحت کی سہولیات فراہم کرتا ہے.

سہولیات میں خون کے نمونے لینے، ادویات اور شہداء کے خاندانوں اور 75 سال کی عمر تک کے سینئر سابق فوجیوں کے چیک اپ شامل ہیں۔

اس موقع پر آرمی چیف نے مسلح افواج کے پوسٹ گریجویٹ انسٹی ٹیوٹ کے نئے ٹریننگ بلاک کا سنگ بنیاد بھی رکھا،بعد ازاں آرمی چیف نے نئے تعمیر شدہ فوجیوں کے گیسٹ رومز، نئے قائم کردہ آرمی ہیلپ سینٹر اور آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی اپ گریڈ شدہ سہولیات کا بھی دورہ کیا۔

آرمی چیف نے اے ایم سی کے ڈاکٹروں اور صحت کی دیکھ بھال کرنے والے پیشہ ور افراد کی ڈیوٹی اورکام کے لیے بے لوث لگن کی تعریف کی، آرمی چیف نے صحت کی دیکھ بھال کے بنیادی ڈھانچے میں شامل کی جانے والی بہتری کو سراہا۔

آرمی چیف کاکہنا تھا کہ فوجیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے معیاری صحت کی دیکھ بھال فوج کے فلاحی نظام کی بنیادی خصوصیت ہے اور فوجیوں کے مورال کے لیے اہم ہے۔

قبل ازیں سی ایم ایچ پہنچنے پر کور کمانڈر راولپنڈی لیفٹیننٹ جنرل ساحر شمشاد مرزا نے آرمی چیف کا استقبال کیا۔

The post آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ کا سی ایم ایچ کا الوداعی دورہ appeared first on ایکسپریس اردو.

روحانی دوست

$
0
0

صائم المصطفے صائم
واٹس اپ (0333-8818706)
فیس بک (Saim Almustafa Saim)

علمِ الاعداد سے نمبر معلوم کرنے کا طریقہ:
دو طریقے ہیں اور دونوں طریقوں کے نمبر اہم ہیں۔
اول تاریخ پیدائش دوم نام سے!
اول طریقہ تاریخ پیدائش:
مثلاً احسن کی تاریخ پیدائش 12۔7۔1990 ہے۔
ان تمام اعداد کو مفرد کیجیے، یعنی باہم جمع کیجیے:
1+2+7+1+9+9=29
29 کو بھی باہم جمع کریں (2+9) تو جواب 11 آئے گا۔
11 کو مزید باہم جمع کریں (1+1)
تو جواب 2 آیا یعنی اس وقت تک اعداد کو باہم جمع کرنا ہے جب تک حاصل شدہ عدد مفرد نہ نکل آئے۔ پس یعنی آپ کا لائف پاتھ عدد/نمبر ہے۔
گویا تاریخ پیدائش سے احسن کا نمبر 2 نکلا۔
اور طریقہ دوم میں:
سائل، سائل کی والدہ، اور سائل کے والد ان کے ناموں کے اعداد کو مفرد کیجیے
مثلاً نام ”احسن ” والدہ کا نام ” شمسہ” والد کا نام ” راشد۔”
حروفِ ابجد کے نمبرز کی ترتیب یوں ہے:
1 کے حروف (ا،ء ،ی،ق،غ) ، 2 کے حروف (ب،ک،ر) ، 3 کے حروف (ج،ل،ش) ، 4 کے حروف (د،م،ت) ، 5 کے حروف(ہ،ن،ث) ، 6 کے حروف (و،س،خ) ، 7 کے حروف (ز،ع،ذ) ، 8 کے حروف (ح،ف،ض) ، 9 کے حروف (ط،ص،ظ) ، احسن کے نمبر (1،8،6،5)
تمام نمبروں کو مفرد کردیں:
(1+8+6+5=20=2+0= 2 )
گویا احسن کا نمبر2 ہے۔
ایسے ہی احسن کی والدہ ”شمسہ” کا نمبر9 اور والد راشد کا نمبر1 بنتا ہے۔
اب ان تینوں نمبروں کا مفرد کرنے پر ہمیں احسن کا ایکٹیو یا لائف پاتھ نمبر مل جائے گا:
(2+9+1=12=1+2=3)
گویا علم جفر کے حساب سے احسن کے نام کا نمبر 3 نکلا!

علم الاعداد کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ
21 تا 27 نومبر 2022
پیر 21 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد4 ہے ، 2 کے اعداد سے جنم لینے والا 4 کوئی جذباتی تبدیلی لاسکتا ہے۔ ممکن ہے ایک روانی سے چلتا ہوا تعلق کسی بات پر خراب ہوجائے۔

آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,2,3,6,7اور8 خصوصاً 2 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر یا نام کا پہلا حرف ب، ک یا ر ہے تو آج کا دن آپ کے لیے بہتر دن ہوسکتا ہے۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4,5 اور9 خصوصاً 4کا عدد یا پیدائش کا دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ت، د اور م ہے تو آپ کے لیے اہم اور کچھ مشکل بھی ہوسکتا ہے۔

صدقہ: 20 یا 200 روپے، سفید رنگ کی چیزیں، کپڑا، دودھ، دہی، چینی یا سوجی کسی بیوہ یا غریب خاتون کو بطورِصدقہ دینا ایک بہتر عمل ہوگا۔اسمِ اعظم ”یارحیم، یارحمٰن، یااللہ” 11 بار یا 200 بار اول وآخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

منگل 22 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد 3 ہے۔ ایک گرم جوش دن کی امید کی جاسکتی ہے۔ کوئی نیا راستہ کھل سکتا ہے۔ بند گلی میں دیوار سے راستہ بن سکتا ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,3,4,7,8 اور9 خصوصاً 3کا عدد ہے یا آپ کی پیدائش کا دن جمعرات ہے یا نام کا پہلا حرف ج،ل یا ش ہے تو آپ کے لیے آج کا دن کافی حد تک بہتری لائے گا۔ لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,5اور6 خصوصاً 1 یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ا، ی یا غ ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 90 یا 900 روپے، سرخ رنگ کی چیزیں ٹماٹر، کپڑا، گوشت یا سبزی کسی معذورسیکیوریٹی سے منسلک فرد یا اس کے خاندان کو دینا بہتر عمل ہوگا۔

وظیفۂ خاص”یاغفار، یاستار، استغفراللہ العظیم” 9 یا 90 بار اول وآخر11 بار درودشریف پڑھنا بہتر ہوگا۔

بدھ 23 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد 9 ہے۔ پُرتشدد رویہ یا واقعہ پیش آسکتا ہے۔ دہشت گردی ہوسکتی ہے یا تلخ اور کڑواہٹ سے معمور لہجہ سننے کو مل سکتا ہے۔

1,2,3,5,6اور7 خصوصاً 6 کا عدد یا پیدائش کا دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و، خ یا س ہے تو آپ کے لیے آج دن کافی بہتر ہوسکتا ہے لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4,8 اور9 خصوصاً 8 یا پیدائش کا دن ہفتہ ہے یا نام کا پہلا حرف ح، ف یا ض ہے تو آپ کو کچھ معاملات میں رکاوٹ اور پریشانی کا اندیشہ ہے۔

صدقہ: زرد رنگ کی چیزیں یا 50 یا 500 روپے کسی مستحق طالب علم یا تیسری جنس کو دینا بہتر ہے، تایا، چاچا، پھوپھی کی خدمت بھی صدقہ ہے۔وظیفۂ خاص”یاخبیرُ، یاوکیلُ، یااللہ” 41 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

جمعرات 24 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد 8 ہے۔ کام میں سست روی ہوسکتی یا وقفہ آسکتا ہے۔ اگر آپ نے اپنی رفتار سست نہ کی یعنی صبر سے کام نہ لیا تو نقصان کا اندیشہ موجود ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,3,4,6,7 اور8 خصوصاً 7 کا عدد یا پیدائش کا دن پیر ہے یا نام کا پہلا حرف ز یا ع ہے تو آپ کے لیے بہتر دن ہے لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں1,5اور9 خصوصاً 5 کا عدد یا پیدائش کا دن بدھ ہے یا نام کا پہلا حرف ہ یا ن ہے تو اندیشہ ہے کہ کچھ امور میں آپ کو مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: میٹھی چیز، 30 یا 300 روپے کسی مستحق نیک شخص کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے، مسجد کے پیش امام کی خدمت بھی احسن صدقہ ہے۔وظیفۂ خاص”سورۂ فاتحہ 7 بار یا یاقدوس، یاوھابُ، یااللہ” 21 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا بہتر عمل ہوگا۔

جمعہ 25 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد 3 ہے۔ ایک بہتر دن کی امید کی جاسکتی ہے۔ بزنس کی ترقی و ترویج کے لیے نئے مشورے اور راہیں مل سکتی ہیں۔ اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں2,3,4,7,8 اور9 خصوصاً 3 کا عدد یا پیدائش کا دن جمعرات ہے یا نام کا پہلا حرف ج،ل یا ش ہے تو آپ کے لیے بہتری کی امید ہیلیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش 1,5اور6 خصوصاً 1کا عدد یا پیدائشی دن اتوار یا جن کے نام کا پہلا حرف ا، ی یا غ ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔ صدقہ: 60 یا 600 روپے یا 600 گرام یا 6 کلو چینی۔ سوجی یا کوئی جنس کسی بیوہ کو دینا بہترین عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص”سورۂ کہف یا یاودود، یامعید، یااللہ” 11 بار ورد کرنا بہتر ہوگا۔

ہفتہ 26 نومبر 2022
آج کا حاکم عدد 6 ہے۔ کچھ جذباتی سست روی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ اگر آپ ہمت سے میدان میں رہے تو آسانی ہوجائے گی۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں1,4,5,6,8اور 9 خصوصاً 9 یا پیدائشی دن منگل یا نام کا پہلا حرف ص یا ط ہے تو آپ کے لیے ایک اچھا دن ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 2,3 اور7 خصوصاً 3 کا عدد یا پیدائشی دن جمعرات یا نام کا پہلا حرف ج، ل یا ش ہے تو آپ کو محتاط رہنے کا مشورہ ہے۔

صدقہ: 80 یا800 روپے یاکالے رنگ کی چیزیں کالے چنے، کالے رنگ کے کپڑے سرسوں کے تیل کے پراٹھے کسی معذور یا عمررسیدہ مستحق فرد کو دینا بہتر عمل ہوسکتا ہے۔

وظیفۂ خاص”یافتاح، یاوھابُ، یارزاق، یااللہ” 80 بار اول و آخر 11 بار درودشریف کا ورد بہتر عمل ہوگا۔

اتوار 27 نومبر 2022
آج کا حاکم نمبر9 ہے۔ حکومتی سطح پر کام کرنے والے افراد کو کچھ گرمی اور تلخی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ نرم رہنے کی کوشش کیجیے تو بہتر ہے۔

اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 1,2,3,5,6اور7 خصوصاً 6 کا عدد یا جن کا پیدائشی دن جمعہ ہے یا نام کا پہلا حرف و یا س ہے تو آپ کے لیے ایک اچھے دن کی امید ہے۔

لیکن اگر آپ کی تاریخ پیدائش میں 4,8 اور9 خصوصاً 4 کاعدد یا جن کا پیدائشی دن اتوار ہے یا نام کا پہلا حرف ت، د اور م ہے تو آپ کے لیے کچھ مشکل ہوسکتی ہے۔

صدقہ: 13 یا 100 روپے یا سنہری رنگ کی چیزیں گندم، پھل،کپڑے، کتابیں یا کسی باپ کی عمر کے فرد کی خدمت کرنا بہتر ہوگا۔وظیفۂ خاص”یاحی، یاقیوم، یااللہ” 13 یا 100 بار اول و آخر 11 بار درودشریف پڑھنا مناسب عمل ہوگا۔

The post روحانی دوست appeared first on ایکسپریس اردو.

علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ

$
0
0

برج حمل
سیارہ مریخ ، 21 مارچ تا 20 اپریل

ابتدائی ایام ممکن ہے مکان، والدہ یا آپ کی اپنی صحت کے لیے ناسازگار ہوں، لیکن 24 اور 25 تاریخوں میں کسی نیک شخصیت کی مداخلت، مدد یا مہربانی سے آپ اپنی مشکلات پر قابو پالیں گے۔ یہ وقت بیرون ملک، بزرگوں اور سنیئرز کے تعاون سے آپ کے مقدر کا چراغ روشن کرسکتا ہے۔ دوبارہ سوچنے کی ضرورت یا عادت بڑھ جائے گی کسی قریبی شخص کا رویہ اس سے دوری کی وجہ بن سکتا ہے۔

برج ثور
سیارہ زہرہ ، 21اپریل تا 20 مئی

پیر سے بدھ تک ازدواجی اور شراکتی افراد میں کچھ تلخ جذباتی گفتگو کا تبادلہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ پُرسکون رہنے کی کوشش کریں۔ ایسے وقت میں گلا خراب ہوسکتا ہے، گلے پر زخم لگ سکتا ہے محتاط رہیں۔

جمعرات سے جمعہ آپ کے وراثتی امور میں مثبت ہلچل ہوتی نظر آرہی ہے۔ کوئی چھپر پھاڑ قسم کا مالی فائدہ ہوسکتا ہے اور یہ فائدہ دہرا ہوسکتا ہے، یعنی ایک سے زیادہ!

برج جوزا
سیارہ عطارد ، 21مئی تا 21 جون

آپ کے ساتویں خانے میں چار سیارگان کا ایک ہی وقت میں آجانا بتاتا ہے کہ کوئی اہم واقعہ رونما ہوسکتا ہے۔ اس کا تعلق آپ کی شادی/منگنی جیسے امر سے بھی ہوسکتا ہے۔
کسی اہم شادی یا تقریب میں شرکت کا بھی امکان موجود ہے۔ آپ کی عوامی زندگی میں بڑے خوب صورت لمحات آسکتے ہیں۔ آپ کا رویہ کچھ جارحانہ ہوسکتا ہے، اسے قابو میں رکھنے کی کوشش کریں۔

برج سرطان
سیارہ قمر ، 22جون تا 23 جولائی

چاند پانچویں یعنی اولاد کے خانے میں کیتو اور عقرب سے متاثر ہوگا۔ ایسا وقت حاملہ خواتین کو الرٹ کرتا ہے تاکہ اپنی صحت اور چیک اپ کا خصوصی خیال رکھیں۔ بچوں سے متعلق کوئی بات جذباتی اور مایوسی کی طرف لے جاسکتی ہے۔ بدھ اور جمعرات بزنس اور کام کاج میں نئی روح پڑ سکتی ہے۔ گرم جوشی سے حالات میں بہتری آسکتی ہے۔ ایک بہتر اور معاون وقت ہوسکتا ہے۔

برج اسد
سیارہ شمس ، 24جولائی تا 23 اگست

پیر اور منگل کو نیند متاثر ہوسکتی ہے۔ بیرون ملک سے کوئی پریشان کرنے والی خبر ملنے کا اندیشہ ہے گھر کی کوئی الجھن ہوسکتی ہے۔ معدہ متاثر ہوسکتا ہے۔ جمعرات اور جمعہ نیا چاند طلوع یعنی سورج اور چاند کا اولاد اور محبت کے خانے میں ہم کلام ہونا بتاتا ہے کہ کوئی اچھی خبر آپ کے دروازے پر دستک دے سکتی ہے۔ کوئی مالی فائدہ بھی ہوسکتا ہے۔ من پسند جگہ رشتہ طے ہوسکتا ہے۔

برج سنبلہ
سیارہ عطارد ، 24 اگست تا 23 ستمبر

کسی قریبی رشتے دار/پڑوسی یا دوست سے اختلافِ رائے کو شدید نہ ہونے دیں اور عارضی طور پر خاموش ہوجائیں تاکہ دوری پیدا نہ ہوسکے۔

بدھ سے جمعرات مکان کی تزئین و آرائش کا امکان پیدا ہوسکتا ہے۔ نئی گاڑی مل سکتی ہے نیا سیل یا لیپ ٹاپ مل سکتا ہے۔ نیا کیریئر بھی شروع ہوسکتا ہے۔ نیا چاند ایک نیا دروازہ کھول سکتا ہے۔

برج میزان
سیارہ زہرہ ، 24 ستمبر تا 23اکتوبر

صحت میں مسلسل جاری بگاڑ اب سنبھلنے کی طرف جاسکتا ہے۔ کسی اچھے معالج سے رابطہ ہوسکتا ہے۔ جب سعد وقت آتا ہے تو راکھ کی پڑیا بھی کشتۂ خاص کا کام کرجاتی ہے۔ نیا چاند تیسرے خانے میں طلوع ہونے جارہا ہے۔ سفر لازم ہوگا۔ آن لائن کام کا ضرور موقع ملے گا۔ قریبی عزیز سے میل ملاقات کا موقع ملے گا۔ آپ کی شخصیت میں ایک خوب صورت نکھار آتا دکھائی دیتا ہے۔

برج عقرب
سیارہ پلوٹو ، 24 اکتوبر تا 22 نومبر

آپ کے زائچے میں چاند مقدر کے خانے کا مالک یعنی نمائندہ ہے۔ مقدر بزرگوں کی دعا ہی سے منسوب ہوتا ہے زیارات/حج یا مرشد کی دعا سے مقدر کا ستارہ چمک جاتا ہے۔ ابتدائی دو ایام ممکن ہے کچھ جذباتی اور مایوس کن وقت ہو ایسے وقت میں کسی بھی قسم کے منفی قدم /سوچ سے گریز کریں اور ذرا سا صبر کرلیں، کیوںکہ بدھ سے جمعے تک ان ایام میں آپ کی جیب میں ستاروں کی چکاچوند روشنی سے جگمگ ہونے والا منظر ہوسکتا ہے۔ بڑا مالی فائدہ ہوسکتا ہے۔

برج قوس
سیارہ مشتری ، 23 نومبرتا 22 دسمبر

مریخ تعلقات اور رشتوں کے خانے میں الٹا چل رہا ہے۔ ازدواجی ساتھی کے بارے میں کسی قسم کے شکوک وشبہات کے شکار ہونے سے بچیں، چوتھے خانے میں مشتری حالتِ استقامت میں ہے گھر سے متعلق جاری الجھنیں سلجھاؤ کی سمت چل نکلیں گی۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ زحل تیسرے خانے میں سیدھا ہوچکا ہے۔ پراپرٹی اور سفر سے فائدے ہونے لگیں گے۔ نیا چاند آپ کے طالع میں طلوع ہورہا ہے۔ ایک شان دار توانائی جو آپ کو حالات کو سنبھالنے میں مدد دے گی میسر آجائے گی۔ ایک نیا باب شروع ہورہا ہے۔

برج جدی
سیارہ زحل ، 23 دسمبر تا 20 جنوری

کام میں نئی ترتیب کی ضرورت پڑے گی۔ کوشش کریں کہ تیزمزاج شخص کو کام پر نہ رکھیں۔ ورنہ مسئلہ ہوسکتا ہے۔ بجلی سے استعمال ہونے والی اشیاء کو محتاط ہوکے استعمال کریں۔ نقصان یا چوری کا اندیشہ موجود ہے۔ بیرون ملک/جیل/اسپتال اور روحانی کام کرنے والوں کے لیے ایک سازگار وقت ہونے کی امید ہے۔ کوئی نیا کام مل سکتا ہے یا جاری کام میں ایک زبردست قسم کی تبدیلی کا امکان ہے۔

برج دلو
سیارہ یورنیس ، 21 جنوری تا 19 فروری

زحل رجعت سے نکل چکا ہے۔ آپ کی دانش مندی اور دوراندیشی کا قبلہ درست سمت ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ اب آپ پر طاری جمود ایک گرم جوشی میں تبدیل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ آپ کی امیدوں /بڑے بہن بھائی اور پرانے دوستوں سے منسلک امیدیں بر آتی نظر آتی ہیں۔ بچوں کے بارے ممکن ہے کوئی الجھن آپ کو پریشان کرے، اس بارے میں محتاط رہیں۔

برج حوت
سیارہ نیپچون ، 20 فروری تا 20 مارچ

نیپچون اور مشتری دونوں طالع میں ہیں۔ مشتری جو کہ عزت ووقار اور آپ کے کیریئر کا مالک ہے دسویں گھر میں نیا چاند طلوع ہورہا ہے اور اس کے ساتھ زہرہ و عطارد بھی موجود ہیں۔ ایک نیا کیریئر یا ترقی یا ایک نئی کرسی بھی مل سکتی ہے۔ اضافی کام بھی مل سکتا ہے۔ یہ کام آپ کی مالی بہتری میں اہم کردار ادا کرے گا۔

پیر اور منگل کو اپنے بزرگوں اور سنیئرز سے اختلافِ رائے کو شدید نہ ہونے دیں اور اپنا نقطۂ نظر ان کے سامنے پیش کردیں نہ کہ تھوپنے کی کوشش کریں۔

The post علم ِفلکیات کی روشنی میں آپ کا یہ ہفتہ appeared first on ایکسپریس اردو.


سارے رنگ

$
0
0

’’کراچی کہیں بھی نہیں۔۔۔؟‘‘

’ادارہ بین الاقوامی امور پاکستان‘ یا ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل افیئرز‘ (پی آئی آئی اے) شہرِقائد کے قلب میں واقع ایک ایسا ’گوشہ نشیں‘ ادارہ ہے، کہ جو گاہے گاہے مختلف اہم موضوعات پر مختلف دانش وَروں، سابق سفیروں اور بین الاقوامی امور کے ماہرین سے سجی ہوئی ایسی اہم بیٹھکیں سجاتا رہتا ہے۔

جنھیں بدقسمتی سے اس طرح خبروں میں جگہ نہیں دی جاتی، جس طرح دی جانی چاہیے۔ ستم تو یہ ہے کہ شہر کراچی میں ایوان صدر روڈ اور دین محمد وفائی روڈ کے عین سنگم پر واقع ہونے کے باوجود طلبہ اور لکھنے پڑھنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد اس ادارے اور اس کے وسیع وعریض کتب خانے سے قطعی طور پر بے خبر ہے۔ اور کسی کو کیا کہیں صاحب، ہم خود بھی ایک عرصے تک انھی ’بے خبروں‘ میں شامل رہے ہیں۔

خیر، گذشتہ دنوں ’پی آئی آئی اے‘ کی روح و رواں ڈاکٹر معصومہ حسن کی یادداشتوں کی ایک بھرپور تقریب رونمائی منعقد ہوئی، جس میں صاحبِ کتاب ڈاکٹر معصومہ حسن کے ساتھ ساتھ سینٹیر میاں رضا ربانی، معروف صحافی زبیدہ مصطفیٰ اور سندھ بار کونسل کے سابق صدر شہاب سرکی نے بھی اظہار خیال کیا۔

کسی ہال یا آڈیٹوریم کے بہ جائے کتابوں کے درمیان سجنے والی محفل یوں بھی منفرد تھی کہ یہاں کتابیں کسی بھی قسم کی بندشوں یا قفل سے یک سر آزاد تھیں، اب یہ کتب خانے کی فراخ دلی اور اپنے قارئین پر اعتماد کا عالم تھا یا اس بات کی خبر کہ اس سماج میں اب کم از کم کتاب کو ’اُٹھ جانے‘ کا کوئی خطرہ نہیں۔۔۔! دوسری والی بات اگر ایک قاری کی نظر سے دیکھیے تو بڑے المیے میں گنی جائے!

حسب توقع مسند گاہیں پُر ہوگئیں اور تقریب شروع ہونے سے پہلے ہی یہ ’کتب خانہ‘ تنگیٔ دامن کا شکوہ کرنے لگا۔۔۔ ڈاکٹر معصومہ حسن کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’پاکستان اِن این ایج آف ٹریبلونس‘ (Pakistan in an age of turbulence)  کے حوالے سے تمام مقررین نے اظہارخیال کیا۔

بالخصوص پیپلزپارٹی کے سنیئر راہ نما اور سینٹیر میاں رضا ربانی نے بھی یہ اعتراف کیا کہ کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے وہ خود اُن مناظر کو محسوس کرتے چلے گئے۔ مصنفہ کی جانب سے ’پانی پت‘ کے حوالے سے لکھے گئے، مندرجات کو دیگر مہمانان کے ساتھ رضا ربانی نے بھی خوب سراہا، ساتھ ہی ملک کی موجودہ صورت حال پر اظہارخیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج ملک کی تمام ہی سیاسی جماعتیں طاقت حاصل کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھ رہی ہیں!‘‘ ساتھ ہی انھوں نے تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر ملک کو جمہوری طریقے سے نہ چلایا گیا تو وفاق کو خطرات ہو سکتے ہیں۔

پھر حسب سابق اس ذیل میں انھوں نے بلوچستان کی شورش کا تذکرہ کیا اور کچھ ایسے ہی خیبرپختونخواہ کے مسائل مذکور کیے۔۔۔ لیکن عجیب بات یہ رہی کہ جس شہر میں وہ موجود تھے، اس شہر میں برسوں سے جاری سیاسی جبر پر اشاروں کنایوں میں بھی ایک لفظ تک کہنا گوارا نہیں کیا۔

جنرل ایوب اور جنرل ضیا کے آمرانہ دور کے بدترین جبر کی ضرور بات ہوئی، اور اس جبر کے بھینٹ چڑھنے والے مختلف سیاسی کارکنان کے نام بھی پکارے گئے، لیکن شومئی قسمت شہرِقائد میں حالیہ سیاسی جبر کے دوران ملنے والے لاپتا سیاسی کارکنان کی لاشوں پر کوئی صدا سننے کو ہماری سماعت ترستی ہی رہ گئی۔

یہ بہت عجیب بات ہے کہ ہمارے ملک کے بہت سے دانش وَر کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے جبر کے حوالے سے تو بلندآہنگ ہوکر آواز بلند کرتے تھے، لیکن اس جبر کے بعد ایک دوسری طرح سے یہ جبر آج بھی موجود ہے، لیکن چوں کہ اس جبر کی سمت الٹ چکی ہے، تو سارے ملک میں اس حوالے سے مکمل سناٹا ہے۔ یعنی کیا اس کا یہ مطلب نکالا جائے کہ کسی کو بھی جبر سے کوئی مسئلہ نہیں، بس جابر ہمارے موافق ہونا چاہیے؟

اس تقریب میں بھی معزز سینٹیر رضا ربانی صاحب نے ماضی میں لاہور کے ساتھ کراچی کے ’کافی ہاؤس‘ میں آزادی کے ساتھ پروان چڑھنے والے سیاسی اور جمہوری بیانیے کا ذکر کرنے کے باوجود آج اس شہر پر طاری سیاسی گھٹن پر لب سیے رکھے، کہ جیسے کوئی بات ہی نہیں۔۔۔! یہ ایک رضا ربانی صاحب کا معاملہ نہیں ہے۔

ہم نے گذشتہ کچھ عرصے میں آرٹس کونسل کراچی میں ’عالمی اردو کانفرنس‘ میں بھی یہی منظر دیکھا تھا کہ جب معروف صحافی حامد میر، عاصمہ شیرازی، وسعت اللہ خان، مظہر عباس، عامر ضیا اور اویس توحید جیسے نمایاں صحافیوں کی موجودگی میں ملک بھر کے مظلوموں کے لیے صدائیں بلند ہوتی رہیں، یہاں تک کہ ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ کے اراکین قومی اسمبلی پر ’پابندیوں‘ پر ہمارے معزز مقررین نے تشویش ظاہر کی، لیکن اگر بات نہیں ہوئی تو صرف اس شہر کی سیاسی آزادی کی، جہاں یہ پروگرام ہو رہا تھا۔

ایسی کیا وجہ ہے کہ ملک بھر کے دانش ور، صحافی، تجزیہ کار اور بڑے بڑے مقررین اس شہر والوں کے مساوی بنیادی حقوق کے لیے کچھ کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔۔۔؟ کیا ’انسانی حقوق‘ اور ’مساوات‘ کے لیے بھی مزید کسی درجے تک پہنچنے کی ضرورت پڑتی ہے، جس کے لیے یہ شہر اہلیت نہیں رکھتا۔۔۔؟ کیا اس شہر کے باسی انسان اور اس ملک کے مکمل اور برابر کے شہری نہیں ہیں۔۔۔؟ آخر کیوں ملک بھر کی طرح اس شہر اور اس شہر والوں کی برابری کے لیے آواز بلند نہیں ہوتی۔۔۔؟ کیا جبر اور ظلم کے بھی کئی رنگ ہوتے ہیں، اور وہ کسی پر جائز اور کسی پر ناجائز قرار پاتا ہے۔۔۔؟

ہم ’خانہ پری‘ کو اکثر ہلکے پھلکے موضوعات میں آباد رکھنا چاہتے ہیں، لیکن جب مسلسل ایسے ماحول سے گزرتے ہیں تو قلم برداشتہ رقم کر جاتے ہیں۔ ’خانہ پری‘ ملک بھر میں شایع ہوتا ہے، ممکن ہے دیگر شہروں کے قارئین اِسے اپنا مسئلہ نہ سمجھیں، یا یہ ان کے لیے اتنی اہمیت نہ رکھتا ہو، لیکن یہ بات بطور اس ریاست کے شہری آپ کے گوش گزار کرانا بھی ضروری ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور معاشی دارالحکومت کے ساتھ کیا گزر رہی ہے اور وہ اپنے کلیجے پر کیسے کیسے گھاؤ سہہ رہا ہے کہ جس کی اگر ایک آہ بھی سرزد ہو جائے تو جانے اَن جانے آسیب منڈلانے لگتے ہیں۔

۔۔۔

اپنا وطن

کرن صدیقی، کراچی
چوہدری صاحب کے بچے بڑے ہوئے تو انھوں نے امریکا کی خوش حال زندگی چھوڑ کے ہمیشہ کے لِیے پاکستان جانے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے بچوں جمی اور ٹینا نے پاکستان جانے سے انکار کر دیا۔

’’آپ کو پاکستان جانا ہے جائیں، ہم دونوں نہیں جا ئیں گے۔‘‘ جِمّی نے کہا۔

’’لیکن وہ اپنا ملک اپنے لوگ ہیں ہم وہیں خُوش رہ سکتے ہیں۔‘‘

’’ہوگا وہ آپ کا ملک، لیکن ہمارا ملک یہ ہے، جہاں ہم شروع سے رہے اور پلے بڑھے ہیں۔ ہم اپنا ملک چھوڑ کے کہیں نہیں جائیں گے۔‘‘

’’ لیکن۔۔۔‘‘

چوہدری صاحب کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ بچّوں کو کیسے قائل کریں۔
’’ لیکن ویکن کچھ نہیں ڈیڈی۔ آپ کو جانا ہے جائیں۔ ہم نہیں جائیں گے۔‘‘

’’کیسے نہیں جائو گے تم لوگ؟ میں زبردستی لے جائوں گا۔‘‘
چوہدری صاحب کو غصہ آگیا۔

’’ڈیڈی آپ بھول گئے ہماری ایک کال پر آپ ’اریسٹ‘ ہوجائیں گے۔‘‘
چوہدری صاحب اپنی نوعمر بیٹی کی زبان سے یہ سن کر ہکا بکا رہ گ اور بے چارگی سے بیوی کی طرف دیکھا۔
وہ طنزیہ مسکرا دی جیسے کہہ رہی ہو، اسی دن کے لی کہتی تھی، بچوں کے بڑے ہونے سے پہلے پاکستان لوٹ چلو۔

۔۔۔

مُخنَث، ٹرانسجینڈر اور سِس جینڈر

ا مجد محمود چشتی
صنفی اعتبار سے انسان مرد ہوتا ہے یا اور عورت۔ تاہم معاشرے میں ایک تیسری صنف ’مخنث‘ کا وجود بھی ہے، جنھیں خواجہ سرا کہا جاتا ہے۔ حقیقت میں یہ الگ سے کوئی جنس نہیں ہے، بلکہ پیدائشی طبی خامیوں یا پیدائش کے بعد جنیاتی بیماریوں کے باعث بچہ کی جنس کا تعین نہیں ہوپاتا ۔ یہ ایسی ہی بیماری ہے جیسے کسی خامی یا کمی کی وجہ سے کوئی انسان اندھے پن، بہرے پن یا لنگڑے پن کا شکار ہو سکتا ہے۔

یہ اصل میں اک جنیاتی بیماری klinefelter syndrom کے موجب ہوتا ہے۔ تاہم علامات کے لحاظ سے کسی ایک جنس کی طرف مطابقت ضرور ہوتی ہے۔ مغل دور میں انھیں حرم میں موجود عورتوں کی نگرانی اور خدمت کے لیے مامور کیا جاتا تھا اور مناسب مقام دینے کی خاطر ان کو خواجہ سرا کا نام دیا گیا۔ پیدائشی خواجہ سرائوں کی بھی تین اقسام ہیں۔

ایک وہ جن کے جسمانی اعضا مردوں سے ملتے جلتے ہوتے ہیں۔ دوسرے کے اعضا عورتوں کے مشابہ ہوتے ہیں، جب کہ تیسری قسم کی شناخت کافی مشکل ہوتی ہے، کیوں کہ ان میں مرد وعورت دونوں کی علامات نہیں پائی جاتیں یا پھر دونوں اصناف کے اعضا موجود ہوتے ہیں۔ اسی لیے انھیں خنثیٰ مشکل کہا جاتا ہے۔

معاشرے میں عدم قبولیت اور روزگار کا تحفظ نہ ہونے کے باعث ناچ گانے کا دھندہ اپناتے ہیں۔ ان میں کچھ شادیاں بھی کرتے ہیں اور ان کے بچے بھی ہوتے ہیں، مگر یہ عورتوں کے روپ میں رہنا پسند کرتے ہیں۔

علما بتاتے ہیں کہ مرد خواجہ سرا کو مردوں کے برابر اور عورت خواجہ سرا کو عورت کے وراثتی اصول پہ حصہ ملے گا۔ خنثیٰ مشکل کی صورت میں جو صنف غالب ہوگی، اسی کا اطلاق ہوگا۔ ہمارے معاشرے میں ان کے جنازہ پڑھنے اور قبرستان میں تدفین سے گریز دیکھا جاتا ہے، حالاں کہ ان کے جنازے میں شریک ہونا چاہیے اور عام قبرستان میں دفن بھی کروانا چاہیے۔

کچھ مجتہدین انھیں امامت کروانے کا اہل بھی سمجھتے ہیں۔ بھارت میں انھیں باقاعدہ تیسری صنف تسلیم کیا گیا ہے۔ اب پاکستانی سپریم کورٹ نے بھی ان کو الگ شناخت دی ہے اور ان کے شناختی کارڈ پر خواجہ سرا لکھا جاتا ہے۔

’ٹرانسجینڈر‘ بنیادی طور پر خواجہ سرا یا مخنث نہیں ہوتے، بلکہ مکمل مرد یا عورت کے روپ میں پیدا ہوتے ہیں مگر بعد میں ہامونز کی کمی بیشی، نفسیاتی عوارض یا ذاتی خواہشات کے باعث مخالف صنف میں شامل ہوجاتے ہیں۔ یہ بالغ ہونے پر اپنی جنس سے ناخوش ہوتے ہیں جسے gender dysphoria کہتے ہیں۔

’ٹرانسجینڈر‘ کا مطلب ہی یہی ہے، جو اپنی جنس کو آپریشن یا ہارمونز تھراپی کروا کر ٹرانسفر کرلے۔ حالیہ ٹرانسجینڈر ایکٹ کافی تنقید کا شکار رہا، جس کے دونوں پہلو ہیں۔ اگر کوئی واقعی اپنی جنس میں بدلائو محسوس کرتا ہے تو اس کو اپنی مرضی سے جنس کے اندراج کا حق ہونا چاہیے، تاکہ وہ عام لوگوں کی طرح زندگی گزار سکے، مگر محض اپنی ذاتی خواہش پر ایسا کرنا غیرقانونی اور حرام ہے۔

اس کے لیے کسی کے ذاتی بیان کی بہ جائے اعلیٰ سطح کے میڈیکل بورڈ پر انحصار کرنا درست ہوگا۔ دنیا کے بہت سے ممالک میں ان کی اپنی مرضی سے صنف تسلیم کی جاتی ہے۔

’سِس جینڈر‘ ٹرانسجینڈر کے متضادمستعمل ہے ۔ لاطینی میں cis کے سابقے کا معنی یک طرفہ اور واضح صنف کے ہیں۔ یہ افراد پیدائشی طور پر مکمل مرد یا عورت ہوتے ہیں اور اپنی صنفی شناخت پر راضی ہوتے ہیں اور اور عام لوگوں کی طرح زندگی مذکر یا مونث کے لحاظ سے بسر کرتے ہیں۔ یہ اصطلاح 1994میں متعارف کروائی گئی۔

۔۔۔

بیربل ہی سے کیوں؟

مرسلہ: سہیل اختر
کسی مصاحب نے دریافت کیا آخر اکبرمعظم بیربل سے ہی کیوں اس قدر انس کا اظہار کیا کرتے ہیں؟ جب کہ نو رتن میں کوئی کسی سے کم تو نہیں ہے۔ یہ بات اکبراعظم کے کانوں تک بھی جا پہنچی، اکبر نے مصاحبوں سے کہا، کسی روز اس کا انکشاف کردیا جائے گا۔ غرض بات آئی گئی ہوگئی۔
ایک روز حکم بادشاہ دریا کی سیر کا پروگرام بنا، بادشاہ سلامت مع رفقا ومصاحب دریا کی سیر کو نکلے، راستے میں اچانک اکبر نے پوچھا:
’’ارے بیربل امبیا کھاتے ہو؟‘‘
’’جی حضور!‘‘ بیربل نے جواب دیا۔
یہاں بات پھر آئی گئی ہوگئی۔ ایک سال بعد پھر دریا کی سیر کا قصد ہوا پھر رفقا و مصاحب کشتی میں جا سوار ہوئے پھر وہی مقام سیر کے دوران آ پہنچا۔ اب کے اکبر نے بیربل کو زور سے مخاطب کر کے پوچھا،
بیربل! کاہے کے ساتھ بیربل؟
بیربل نے ہاتھ جوڑ کر جواب دیا:
نمک کے ساتھ حضور!!

۔۔۔

بس خبر بن گئی

کمال الدین احمد
چوہدری محمد علی وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے کوئٹہ تشریف لائے۔ وہ بیمار تھے اور زیارت میں مقیم تھے۔ یہاں کے دو صحافیوں نے ان سے ملنے اور انٹرویو لینے کی کوشش کی، مگر انھیں ملنے نہیں دیا گیا۔ ایک خبری ایجنسی کے نمائندے کو ایجنسی کی طرف سے تار پر تار وصول ہو رہے تھے کہ انٹرویو لو۔ مگر ان سے ملنے کی اجازت ہی نہیں تھی۔ اتفاق کی بات ہے کہ حمیدالحق چودھری جو ان دنوں وزیرخارجہ تھے۔ وہ چوہدری محمد علی سے زیارت میں مل کر آئے۔ وہ سرکٹ ہائوس میں ٹھیرے ہوئے تھے۔

دو صحافیوں کے پاس پہنچے۔ حمیدالحق چودھری نے انہیں دیکھتے ہی کہا کہ ’’میں ابھی ابھی ان سے مل کر آیا ہوں، مگر ان کا مستعفی ہونے کا کوئی ارادہ نہیں اور ان کی صحت ٹھیک ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی صحافیوں نے کہا ’’بس خبر بن گئی‘‘ اور انھوں نے یہ خبر اپنی نیوز ایجنسی اور اخبار کو بھیج دی۔
(کتاب ’’صحافت وادی بولان میں‘‘ سے اقتباس)

The post سارے رنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

کوچۂ سخن

$
0
0

غزل
اک آبشارِ حسن کا جلوہ ہو صرف تم
راہِ طلب میں دل کا سہارا ہو صرف تم
باقی تو سب سراب ہے، صحرائے دل کہے
اس تشنگی کے باب میں دریا ہو صرف تم
محفل میں روشنی کی طلب ہر کسی کو ہے
لاریب شمعِ بزمِ تمنا ہو صرف تم
صحرانورد ہم ہی نہیں بے شمار ہیں
بے پایاں ریگزار میں سایہ ہو صرف تم
بند ِ قبا کھلا تو ہوا راز آشکار
سب جنتوں کے باغ کا رستہ ہو صرف تم
در آتے تو ہیں دوسرے مضمون شعر میں
لیکن مری غزل کا قرینہ ہو صرف تم
(اکرم جاذب۔ منڈی بہاء الدّین)

۔۔۔
غزل
تیرے کاسے میں نہ ڈالوں گی کہیں چل دوں گی
اپنے دکھ درد سنبھالوں گی کہیں چل دوں گی
کیا ضروری ہے کہ کچھ زحمت ِ تدبیر کروں
سکہ اک میں بھی اچھالوں گی کہیں چل دوں گی
ایک ہجرت سے ہے اک دوسری ہجرت مشروط
آپ کو دل سے نکالوں گی کہیں چل دوں گی
ایسی بے سمت مسافت سے میں عاجز آئی
جب کوئی راہ نکالوں گی کہیں چل دوں گی
اک رمق ہی سہی باقی ہے ابھی عزم ِ حیات
ٹوٹنے سے جو بچالوں گی کہیں چل دوں گی
اوب جاؤں گی جو یکسانی ِ روز و شب سے
وقت کا پہیہ گھما لوں گی کہیں چل دوں گی
عنبرین اب جو نہ دل بارِ گراں سہہ پایا
اسے کاندھے پہ اٹھا لوں گی کہیں چل دوں گی
(عنبرین خان ۔ لاہور)

۔۔۔
غزل
ہر پھول یہاں اپنے پہ اِترایا ہوا تھا
اس باغ میں کون ان کے لیے آیا ہوا تھا
تھا زرد مرا رنگ توجہ کی طلب میں
یہ پھول بڑی دیر سے کملایا ہوا تھا
دنیا بڑی زرخیز تھی گل ریز تھی جس دن
ان آنکھوں پہ سپنوں کا گھنا سایہ ہوا تھا
سمجھی ہی نہیں تھی میں ترے نامے کا مضموں
دیمک نے کئی لفظوں کو گہنایا ہوا تھا
وہ خواب اچانک مری ان آنکھوں میں ٹوٹا
چاہت نے تھپک کر جسے دہکایا ہوا تھا
(حنا عنبرین۔ لیہ)

۔۔۔
غزل
آنکھ مل جائے، بصارت تو نہیں مل سکتی
اب تجھے اور محبت تو نہیں مل سکتی
آتشِ ہجر میں جلتے ہوئے لوگو تم کو!
جسم ملنے ہیں، رفاقت تو نہیں مل سکتی
ہم ہیں آشفتہ مزاجوں کے قبیلے والے!
شہر والوں سے طبیعت تو نہیں مل سکتی
ایسے نیلام ہوئے سارے سخنور لوگو
اب کسی لفظ کو حرمت تو نہیں مل سکتی
اس پہ ثابت ہے محبت میں ملاوٹ ایماںؔ
اب اسے دل پہ حکومت تو نہیں مل سکتی
(ایمان قیصرانی۔ ڈی جی خان)

۔۔۔
غزل
کتنے لوگوں کے لیے جینے کا سامان بنے
جو مناظر تری تخلیق کے دوران بنے
خوش اگر رہتے تو کس طرح توجہ پاتے
جان کر ہم تری محفل میں پریشان بنے
ایک ٹہنی سے بنی ہے مری بندوق کہ میں
مارنا چاہوں کسی کو تو گلستان بنے
ہم نے سوچا تھا تجھے دل میں کہیں قید کریں
ہم نے چاہا تھا ترے واسطے زندان بنے
اُس کے چہرے پہ تھی مسکان بچھڑتے لمحے
کس طرح اُس کے پلٹ آنے کا امکان بنے
آج نفرت سے جسے دیکھ رہے ہو مہدیؔ
عین ممکن ہے وہی شخص دل و جان بنے
(شہزاد مہدی۔اسکردو، گلگت بلتستان)

۔۔۔
غزل
داستاں سن کے ناشناسی کی
آنکھ کھلنے لگی اداسی کی
پتھروں نے اگل دیے چشمے
آنکھ جادو بھری تھی پیاسی کی
بڑھ رہی ہے فلک سے آئے دن
اجنبیت زمیں کے باسی کی
اس کو دیکھا تو ہوش میں آئے
یہ بھی صورت ہے بد حواسی کی
چل دیے ارتقا کے رستے پر
لے کے تہذیب بے لباسی کی
مفلسی نے شباب چھین لیا
عمر لگنے لگی پچاسی کی
رازِ دل کیا بتائیں اس کو امرؔ
جس نے ہر بات ہی سیاسی کی
(امرروحانی۔ملتان )

۔۔۔
غزل
شاخیں اجڑ گئیں نخلِ گماں نہیں رہا
کھلتا تھا جس میں لامکاں اب وہ مکاں نہیں رہا
اک تو عدو بنا لیا ہم نے تمام شہر کو
اس پہ ستم وہ اسم بھی وردِزباں نہیں رہا
میرا کلامِ عشق بھی رنگِ خرد میں ڈھل گیا
تیرے لبوں پہ بھی وہ اب حسنِ بیاں نہیں رہا
محفلِ ذات لٹ گئی نبضِ حیات رک گئی
رسمِ جفا کو اب تری کچھ بھی یہاں نہیں رہا
اب بھی ہیں اشک اشک کیوں آنکھیں تری بتا ذرا
اب تو سرفصیلِ جاں میرا دھواں نہیں رہا
آئے نہ روبرو جو ہم یہ تو ہے داستاں الگ
کہنے کو ورنہ میں کہاں اور تو کہاں نہیں رہا
(دائم بٹ ۔گکھڑ منڈی، ضلع گوجرانوالہ)

۔۔۔
غزل
دشت لے جائے مکاں لے جائے
تیری آواز جہاں لے جائے
خواب بازار میں بکتے ہی نہیں
آدمی دل کو کہاں لے جائے
ایک آواز کہ آتی ہی نہیں
ایک تصویر کہ جاں لے جائے
دم ذرا دیدہ و دل عشق حضور
آگ لے جائے دھواں لے جائے
حق پہ لڑنا کوئی آسان نہیں
سر سرِ نوکِ سناں لے جائے
زندگی مجھ سے گزر ہوگی نہیں
کوئی یہ بارِ گراں لے جائے
میں گماں زاد کوئی دن جی لوں
ہے یقیں کارِ زیاں لے جائے
(عزیز جان۔ چنیوٹ)

۔۔۔
غزل
فلک سے رابطہ ٹوٹا زمیں پہ آن پڑے
جہاں سے اڑ کے چلے تھے وہیں پہ آن پڑے
یہ جب سے ہم پہ ہماری ہی خاک کھلنے لگی
یہ خواہشات کے پربت زمیں پہ آن پڑے
مری طلب در ساقی پہ محوِ رقص ہوئی
شکن زمانے کی یہ کیوں جبیں پہ آن پڑے
نگاہِ عفو ہو مرشد کہ تیرے خانہ بدوش
مکاں کو چھوڑ کے اب تو مکیں پہ آن پڑے
(ثمر خانہ بدوشؔ۔ سہارنپور،انڈیا)

۔۔۔
غزل
احساسِ مروت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
یا تُو مری چاہت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
میں تجھ کو سمجھتا ہوں محبت کی غرض سے
تُو میری ضرورت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
وہ حسنِ بصارت بھی ہے بے معنی و بیکار
جو حسنِ بصیرت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
میں اُس کی محبت میں گرفتار ہوا ہوں
جو میری محبت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
یعنی میں تجھے اب تری اوقات دکھا دوں؟
یعنی تُو شرافت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
وہ آدمی کہلانے کے لائق بھی نہیں جو
انسان کی عظمت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
غالب شکَنی پر وہ اتر آتا ہے صادقؔ
جو شعر کی جدت کو سمجھتا ہی نہیں ہے
(محمد امین صادق۔اوگی، مانسہرہ)

۔۔۔
غزل
دل کے دشمن کبھی سانول نہیں ہونے والے
مسئلے بات سے یہ حل نہیں ہونے والے
سالہا سال گزرتے چلے جائیں گے مگر
آپ کے وعدے مکمل نہیں ہونے والے
جان اپنی بھی گنوائیں ترے دکھ سہہ سہہ کر
ہم مگر اتنے بھی پاگل نہیں ہونے والے
چشمِ غمناک سے پانی تو نکل آیا ہے
اِس سے جذبات معطل نہیں ہونے والے
یاں نظر ہوتی ہے پودوں کی تباہی پہ جمی
یہ علاقے کبھی جنگل نہیں ہونے والے
ایک در سے تو ملے گا ہمیں آب و دانہ
باب سارے تو مقفل نہیں ہونے والے
میرے رب آپ سے ملحق ہیں امیدیں ساری
ہم تمنا لئے بوجھل نہیں ہونے والے
فیصلہ کر کے نکل جا سرِ منزل حمزہ
پھر یہ صدمات مسلسل نہیں ہونے والے
( امیر حمزہ سلفی۔ اسلام آباد )

۔۔۔
غزل
کارِ دشوار کو آسان بنایا جائے
کیوں نہ انسان کو انسان بنایا جائے
میری ویرانیِ دل فرطِ مُسرّت ہو تجھے
دل اسی شرط پہ ویران بنایا جائے
شاخِ بوسیدہ گلِ تازہ کھِلا سکتی ہے
خاکِ تاریخ کو ڈھلوان بنایا جائے
شعلۂ حسن کہیں بجھ ہی نہ جائے میرا
منزلِ وصل کو آسان بنایا جائے
پھر جو عجلت میں کسی چیز کی تخلیق ہو تو
لازمی ہے اُسے حیران بنایا جائے
تاکہ اب ترکِ تعلّق کا کہیں ذکر نہ ہو
ایسی بکواس پہ تاوان بنایا جائے
(توحید زیب ۔رحیم یار خان)

سنڈے میگزین کے شاعری کے صفحے پر اشاعت کے لیے آپ اپنا کلام، اپنے شہر کے نام اورتصویر کے ساتھ ہمیں درج ذیل پتے پر ارسال کرسکتے ہیں۔ موزوں اور معیاری تخلیقات اس صفحے کی زینت بنیں گی۔
انچارج صفحہ ’’کوچہ سخن ‘‘
روزنامہ ایکسپریس، 5 ایکسپریس وے، کورنگی روڈ ، کراچی

The post کوچۂ سخن appeared first on ایکسپریس اردو.

مار خور اور ٹرافی ہنٹنگ

$
0
0

واہ کینٹ: پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں سرکاری اجازت کے بغیر چند نایاب جانوروں کا شکار ممنوع ہے جن میں مارخور سر فہرست ہے۔ سر اٹھائے کھڑے اس پہاڑی جانور کی شان ہی الگ ہے۔

بکرے سے مشابہت رکھنے والا مگر حجم میں اس سے قدرے بڑا گھاس پھوس چرنے والا ایک جنگلی چوپایہ ہے۔ مار خور کو پاکستان کا قومی جانور ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہ ان 72 جانوروں میں شامل ہے جن کی تصاویر 1976میں عالمی تنظیم برائے جنگلی حیات کے جاری کردہ خصوصی سکہ جات کے مجموعے میں شامل ہے۔

’مار خور‘ فارسی زبان سے ماخوذ الفاظ ـ ’مار‘ اور ’خور‘ کا مرکب ہے۔ ’مار‘ کے معانی سانپ اور ’’خور‘‘ کا مطلب کھانے والا ہے۔ اس سے مراد دشمن کو کھا جانے والا ہے۔ یہی دو الفاظ پشتو زبان میں بھی مستعمل ہیں۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ اس جانور کا سانپوں کو مارنا ہے۔

لیکن ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ اس کے مارخور کہلانے کی وجہ اس کے سانپ سے مشابہت رکھنے والے سینگ ہیں۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق مارخور سانپ کو مار کر چبا جاتا ہے اور اس جگالی کے نتیجے میں اس کے منہ سے جھاگ نکلتا ہے جو نیچے گر کر خشک اور سخت ہوجاتا ہے۔ حکیم حضرات یہ خشک جھاگ ڈھونڈتے اور اس کو سانپ کے کاٹے میں بطور تریاق استعمال کرتے ہیں۔

مار خور زمین سے 65 تا 115سینٹی میٹر اونچا ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 132تا 186سینٹی میٹر اور وزن 32تا 110کلو گرام تک ہوتا ہے۔

سیاہی مائل بھورے اس جانور کی ٹانگوں کے نچلے حصے پر سفید اور سیاہ بال ہوتے ہیں۔ نر مارخور کی ٹھوڑی، گردن، سینے اور نچلی ٹانگوں پر مادہ کے مقابلے میں زیادہ لمبے بال ہوتے ہیں۔

مادہ کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے۔ اس کے جسم اور ٹھوڑی پر چھوٹے چھوٹے بال ہوتے ہیں لیکن گردن پر بالکل بال نہیں ہوتے۔ نر اور مادہ دونوں کے سینگ بل دار ہوتے ہیں جو سر کے قریب بالکل ساتھ ساتھ اوپر کی طرف بڑھتے ہوئے ایک ہو جاتے ہیں۔

نر کے سینگ 160سینٹی میٹر اور مادہ کے سینگ 25 سینٹی میٹر تک ہو سکتے ہیں۔ مارخور کے جسم کی بو عام گھریلو بکرے کے مقابلے میں تیز ہوتی ہے۔ یہ

600 سے 3600 میٹر تک کی بلندی پر پایا جا سکتا ہے۔

عام طور پر یہ شاہ بلوط، صنوبر اور زعفران کے جھاڑ زدہ جنگلوں میں بسیرا کرتے ہیں۔ مارخور جنگلی بکرے کی قسم کا دن بھر چرنے پھرنے والا ایک چرندہ ہے جو زیادہ تر صبح سویرے یا سہہ پہر کے وقت نظر آتا ہے۔

ان کی خوراک موسم کے ساتھ تبدیل ہوتی رہتی ہے۔ موسم گرما اور بہار میں ان کی خوراک گھاس پھوس ہوتی ہے جب کہ سردیوں میں یہ درختوں کے پتے کھاتے ہیں۔ جوڑے بنانے کا عمل سردیوں میں ہوتا ہے۔ نر ایک دوسرے کے سینگوں میں سینگ پھنسا کے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔

یہ اوسطاً 9 کی تعداد میں ایک ریوڑ کی شکل میں رہتے ہیں جس میں بالغ مادایں اور ان کے بچے شامل ہوتے ہیں۔ بالغ نر عموماً اکیلے رہنا پسند کرتے ہیں۔ ان کی آوازیں بکرے سے ملتی جلتی ہیں۔ موسم سرما کے اوائل میں نر اور مادہ ایک ساتھ کھلے گھاس کے میدانوں میں پائے جاتے ہیں جب کہ گرمیوں میں نر جنگلوں ہی میں رہتا ہے اور مادہ پتھریلی چٹانوں پر چڑھ جاتی ہیں۔

تحفظ جنگلی حیات کے اہل کار ان جگہوں پر جاکر ان کی تعداد کا جائزہ لیتے ہیں جہاں وہ یقینی طور پر پائے جاتے ہیں۔ یہ سروے سال میں ایک مرتبہ سردی اور دوسرا بہار کے موسم میں کیا جاتا ہے۔ مارخور ہمیشہ جھنڈ کی صورت میں مسلسل سفر کرتے رہتے ہیں۔ چوںکہ یہ عام طور پر اکیلے نہیں گھومتے اس لیے ان کی تعداد کا اندازہ لگانا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔

جنگلی بکرے کی خصوصیات کا حامل یہ جانور گلگت بلتستان کی ٹھنڈی فضاؤں کے علاوہ چترال اور کالاش کی حسین ترین وادیوں، وادیٔ ہنزہ اور کشمیر کی وادی نیلم کے بالائی علاقوں میں پایا جاتا ہے۔

پاکستان کے علاوہ بھارت، افغانستان، ازبکستان اور تاجکستان کے کچھ علاقے بھی اس قیمتی اور کم یاب جانور کے مسکن ہیں۔ 2011 میں مارخور کی تعداد 2500 رہ گئی تھی لیکن اس وقت دنیا میں ایک اندازے کے مطابق بالغ مارخور کی تعداد 2500 یعنی ڈھائی ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔ پاکستان کی سرحد کے قریب بھارت میں اب بھی ان کا شکار کیا جاتا ہے۔

تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں مارخور کے شکار کا مقصد محض اس کے لذیذ اور نایاب گوشت سے لطف اندوز ہونا ہی نہیں بلکہ ان کے سینگ حاصل کرنے کے لیے بھی کیا جاتا ہے۔

اس کے سینگ مختلف دیسی ادویات بنانے میں استعمال کیے جاتے ہیں۔ عالمی تنظیم ’’بین الاقوامی اتحاد برائے تحفظ قدرت‘‘ کے مطابق اس نوع کا شمار ان جانوروں میں کیا جاتا ہے جن کا وجود خطرے میں ہے۔ خیبر پختون خواہ کے دو اضلاع چترال اور کوہستان میں پائے جانے والا مارخور ٹھنڈے خشک اور سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں رہتا ہے اور انہی جگہوں میں رہنا پسند کرتا ہے۔

اس کی رعب دار جسامت اور قدوقامت کے علاوہ اس کے غیرمعمولی اور نمایاں اس کے مضبوط اور مُڑے ہوئے سینگ ہیں۔ اس کے سینگوں کی لمبائی 143سینٹی میٹر تک ہو تی ہے ۔ عمودی پہاڑی (90ڈگری) پر بھی بہ آسانی اور تیز دوڑنے والا یہ جانور نہایت سخت جان ہوتا ہے۔

اس کی مشہور تین اقسام میں استور مارخور، بخارائی مارخور اور کابلی مارخور ہیں ۔ چترال میں موجود کشمیری مارخور پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں اور کہیں نہیں پایا جاتا جس کے سینگوں کی لمبائی 70 انچ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی ختم ہوتی نسل کے تناظر میں اسے اقوام متحدہ کی خطرے کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ مارخور پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی ISI کا نشان بھی ہے۔

مارخور کے شکار کو دنیا بھر میں قانون کے تحت بطور ٹرافی ہنٹنگ 80 اور 90 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا جب کہ پاکستان میں اکیسویں صدی کے آغاز میں اس کی ابتدا کی گئی۔ یہاں ہر سال کئی غیرملکی شکاری محکمہ وائلڈ لائف (محکمہ تحفظ جنگلی حیات) کی مدد سے ٹرافی ہنٹنگ کی اجازت کے حصول کے لیے بھاری فیس ادا کرتے ہیں۔

مارخور کا شکار کرنے کے لیے شکاری ہر سال امریکا، برطانیہ، اسپین ، روس، ترکی اور دیگر یورپین ممالک سے بڑی تعداد میں لاکھوں روپے خرچ کر کے پاکستان آتے ہیں۔

غیرملکی شکاری کے لیے کسی بھی نایاب جانور کا شکار کرنا ایک بڑا کھیل سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھر میں مارخور اپنے منفرد سینگوں کی وجہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے جنہیں شکاری بطور ٹرافی اپنے گھر میں آویزاں کر کے ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیتے ہیں اور اسے اپنے لیے باعث اعزاز سمجھتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مارخور کے مرنے کے بعد اس کے سینگ گوشت کی طرح مٹی میں تحلیل نہیں ہوتے ۔ ان سینگوں کی قیمت پاکستانی چار سے پانچ لاکھ روپے تک ہوتی ہے۔

ما رخور کے ٹرافی ہنٹنگ سے ملنے والی رقم کا 80 فی صد حصہ مقامی آبادی میں تقسیم کر دیا جاتا ہے جب کہ 20 فی صد اس قومی جانور کے تحفظ پر صرف کی جاتی ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق بیشتر رقم علاقے میں بنیادی ڈھانچا بہتر بنانے پر خرچ کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کل اس جانور کے تحفظ میں مقامی افراد ہی سب سے زیادہ پیش پیش ہوتے ہیں۔

ملک کے دیگر علاقوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی مارخور کی غیرقانونی شکار کی وجہ سے اس کی نسل ختم ہوتی جا رہی تھی مگر حکومتی اور عالمی اداروں کی مارخور کے تحفظ کے لیے شروع کی گئی ٹرافی ہنٹنگ کی حکمت عملی سے اس شکار کو محدود کر کے اس جانور کو کافی حد تک محفوظ کیا جا چکا ہے۔

مزید یہ کہ گلگت بلتستان کے علاقوں اسکردو، ٹونجی، گلگت خاص، جوٹیاں نالے، کرغہ نالے، سکندر آباد اور ہنزہ کے مقامات پر اب مارخور بڑی تعداد میں پائے جانے لگے ہیں اور ان مقامات پر کام یاب شکار بھی ہوتے رہتے ہیں۔

مقامی آبادی کو بیشتر رقم ملنے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو مارخور کا اصل محافظ سمجھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اب اس کے غیرقانونی شکار میں کمی واقع ہوئی ہے۔

ملکی اور غیرملکی اداروں نے مارخور کو بدستور معدوم ہونے کے امکان سے دوچار ہونے والے جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔

اس خطرے کے پیش نظر اس کی حفاظت کے لیے پاکستان میں ہر سال مارخور کے شکار کے ایک تعین شدہ محدود یعنی 12اجازت نامے جاری کیے جاتے ہیں۔ ان میں چار خیبر پختون خواہ اور چار چار بلوچستان اور گلگت بلتستان کے لیے جاری کیے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ مارخور اور آئی بیکس میں فرق ہے۔ آئی بیکس کے شکار کے لیے ایک سے پانچ لاکھ روپے تک کا اجازت نامہ حاصل کیا جا سکتا ہے جب کہ مارخور کے شکار کا اجازت نامہ پاکستانی ایک کروڑ روپے سے زائد تک کا بھی ہو سکتا ہے۔

ضلع خیبر پختون خواہ کے محکمہ جنگلی حیات (وائلڈ لائف) کے تحت مارخور کے شکار کے پرمٹ کی نیلامی کی جاتی ہے جس سے اسے کثیر آمدنی حاصل ہوتی ہے۔

اب تک پاکستان کے قومی جانور مارخور کے شکار کا ایک اجازت نامہ 2کروڑ 70لاکھ (27000000 ) روپے میں بھی فروخت ہوا ہے۔ ایک اجازت نامے سے صرف ایک ہی شکار کیا جا سکتا ہے۔ شکار پر پابندی سے مارخور کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا جس کے نتیجے میں اسے معدومی کے خطرے سے نکال کر ENDANGORED کے درجے میں شامل کر دیا گیا۔ ٹرافی ہنٹنگ کا بہتر وقت نومبر سے اپریل تک ہوتا ہے۔

غیرملکی اور مقامی شکاری اپنے شکار کے لیے ہتھیار اور عملہ ساتھ لاتے ہیں اور اپنا اجازت نامہ لے کر متعلقہ علاقے میں جاتے ہیں جہاں وائلڈلائف کا عملہ ان کو لے کر پہاڑوں میں جاتا ہے۔

شکار کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے محکمہ تحفظ جنگلی حیات شکار کیے جانے والے علاقے کا شکار سے قبل معائنہ کر کے شکاری کو باخبر کر دیتا ہے۔ شکاری کم عمر اور مادہ مارخور کا شکار نہیں کرسکتا۔ شکاری 6 سال سے زائد عمر کے مارخور کا ہی شکار کر سکتا ہے۔ 6سال سے زائد عمر کے مارخور کے سینگ بڑے ہوتے ہیں جب کہ اس کی افزائش نسل کی استعداد بھی کم ہوجاتی ہے۔

محکمہ جنگلی حیات کے اہل کاروں کو بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ کون سا مارخور علاقے کے کس حصے میں بسیرا کرتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک مارخور چترال سے کوہستان چلا جائے بلکہ وہ اپنی حدود میں ہی رہتا ہے۔ عام طور پر مارخور صبح سویرے اور شام کے وقت حرکت کرتا ہے۔ مارخور کا شکار صبح سویرے ہی ممکن ہوتا ہے۔

یہ ایک دل چسپ امر ہے کہ مارخور جس جگہ رہتا ہے اپنے آپ کو اس طرح اس ماحول میں ڈھال لیتا ہے کہ اسی کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ اسے قریب سے بغور دیکھے بغیر پتھروں سے میمز کرنا دشوار ہوتا ہے ۔ شکار کے وقت شکاری کو بہت احتیاط سے نشانہ بنانا ہوتا ہے کیوںکہ نشانہ خطا ہونے کی صورت میں مارخور بھاگ جاتا ہے اور پھر انسان کی دسترس میں نہیں آسکتا۔

تاہم اس صورت میں شکاری کے پاس دوسری بار نشانہ بنانے کا موقع ہوتا ہے۔ غیرملکی شکاری عموماً شکار کے بعد مارخور کے سینگ، کھال اور سر اپنے ساتھ لے کر جاتے ہیں لیکن اسے کھانے میں دل چسپی نہیں رکھتے۔ مقامی شکاری اس کے لذیذ گوشت سے لطف اندوز ہونے میں تامّل نہیں کرتے۔

ٹرافی ہنٹنگ کی مخالفت میں جانوروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والوں کا کہنا ہے کہ خطرے کا شکار جانوروں کا شکار کرکے کس طرح ان کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے؟ مارخور اس لیے خطرے کا شکار ہوا تھا کہ اس کو طبعی عمر پوری نہیں کرنے دی جا رہی تھی۔ اور اب یہی کام حکومتی نگرانی میں کیا جا رہا ہے۔

اس سے شاید کچھ وقتی فائدے حاصل ہو جائیں مگر یہ کیسے ممکن ہے کہ جانور اپنی طبعی عمر پوری نہ کر ے اور اس کی افزائش بھی ہو۔ جنگلی حیات کی بقا دراصل قدرتی نظام کے تحت ہی ہو سکتی ہے کہ کبھی جانور خود کسی دوسری جنگلی حیات کا شکار بنتے ہیں اور کبھی کسی کو اپنا شکار بناتے ہیں۔ اس نظام میں جب انسان مداخلت کرتے ہوئے ان کا شکار کریں گے تو یہ قدرتی نظام تباہ ہوجائے گا۔

اس سے صرف ایک مارخور یا کسی ایک جنگلی حیات پر فرق نہیں پڑتا بلکہ پورا جنگلی حیات کا نظام متاثر ہوتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس ظالمانہ ٹرافی ہنٹنگ کو ممنوع قرار دے کر مارخور سمیت تمام جانوروں کو اپنی طبعی عمر پوری کرنے دے۔

جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ جانوروں کی افزائش نسل کا سب سے بہتر اور مانا ہوا طریقۂ کار ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی رقم مقامی کمیونٹی میں تقسیم ہوتی ہے جس سے ان کے اندر احساس ذمے داری پیدا ہوتا ہے اور وہ جانوروں کے تحفظ کے لیے آگے بڑھتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ 2008میں مارخور صرف 2575اور اب ان کی تعداد 4500تک پہنچ چکی ہے۔ یہی نہیں بلکہ مارخور کی مجموعی تعداد پوری دنیا میں تقریباً 6000 ہوسکتی ہے۔

جس کا سب سے بڑا حصہ اب بھی ہمارے پاس ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ کی بدولت مقامی کمیونیٹز نے آگے بڑھ کر خطرے کا شکار جانوروں کا تحفظ کیا جس کے بڑے اچھے نتائج اب سب کے سامنے ہیں۔

ٹرافی ہنٹنگ کے دوران کبھی بھی کسی جوان جانور کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ ہمیشہ ایسے جانوروں کو نشانہ بنایا گیا جو بوڑھے ہوں۔ اس لیے ماحولیاتی نظام تباہ ہونے کی بات بھی درست نہیں ہے۔ پاکستان میں جنگلی حیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی جانور مارخور کی معدوم ہوتی ہوئی نسل کو بچانے کے لیے حکومت کی طرف سے شروع کی گئی ٹرافی ہنٹنگ کی اسکیم کافی حد تک کام یاب رہی جس سے اس جانور کی تعداد ہر سال بڑھتی جا رہی ہے۔

اس کے باوجود اس نایاب جانور کو بدستور خطرے میں شمار کیا جاتا ہے۔ خیبر پختونخوا میں محکمہ جنگلی حیات کے ماہرین کے مطابق 80کی دہائی میں ملک بھر میں مارخور کے غیرقانونی شکار کے باعث اس کی نسل ختم ہونے کے شدید خطرات لاحق ہوگئے تھے۔

حکومت اور جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم عالمی اداروں کی شرکت سے ٹرافی ہنٹنگ کی اسکیم شروع کی گئی۔ اس کا بنیادی مقصد مارخور کے شکار کو قابو میں لانا تھا اور اس کے علاوہ مقامی آبادی کو بھی اس پورے عمل میں شریک کرنا تھا تاکہ نایاب نسل کو بچایا جا سکے۔

خیبر پختون خوا میں چترال واحد ضلع ہے جہاں مارخور بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ابتدا میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں ٹرافی ہنٹنگ کے لیے ہزاروں ڈالر کی بولی لگتی تھی لیکن آج کل پاکستان بھر میں سب سے زیادہ بڑی بولی چترال میں لگتی ہے جہاں گذشتہ سال ایک لاکھ ڈالر میں ٹرافی ہنٹنگ کا اجازت نامہ فروخت ہوا جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔

ٹرافی ہنٹنگ کا پروگرام 80کی دہائی میں شروع کیا گیا تھا جو جنگلی حیات کی نایاب نسل کی بین الاقوامی کنوینشن کے تحت ہوتا ہے اور گلگت بلتستان کے صرف مخصوص علاقوں میں ہی اس کی اجازت ہے۔

کوئی بھی شخص اگر غیر قانونی شکار میں ملوث پایا جائے تو اسے پکڑ کر سزا دی جاتی ہے۔ ایک مارخور کی قیمت تین سے چار کروڑ ہوتی ہے۔ مارخور کے سینگ جتنے بڑے ہوتے ہیں اس لحاظ سے اس کی قیمت بھی زیادہ ہوتی ہے۔

محکمہ وائلڈ لائف سروے رپورٹ کے مطابق 2019 میں مارخوروں کی تعداد 2868تھی جب کہ گذشتہ برس مارخوروں کی تعداد کم ہو کر 2000رہ گئی۔ لمحہ فکر یہ یہ ہے کہ اس نایاب نسل کے غیرقانونی شکار پر پابندی کے باوجود یہ تعداد کیسے کم ہوتی جا رہی ہے۔

خاص طور پر چترال کے وہ علاقے جہاں شکار ممنوع ہے وہاں کیسے مارخور کی تعداد گھٹ رہی ہے؟ ملکی شکاریوں کے لیے مارخور کا شکار ممنوع ہے مگر باعث تشویش بات یہ ہے پاکستان کی مقتدر اور بااثر شخصیات اس کا غیرقانونی شکار کر کے اس کے لذیذ گوشت سے لطف اندوز ہوتے رہتے ہیں۔

ٹرافی ہنٹنگ کے حق میں یہ مضبوط دلیل دی جاتی ہے کہ مارخور کے شکار پر پابندی سے اس کا تحفظ کرنے والے اپنے معاش کو مستحکم کرتے ہیں، جب کہ ایک خاص عمر کے بعد ویسے بھی مارخور کو طبعی موت مر ہی جانا ہوتا ہے۔ ٹرافی ہنٹنگ سے مقامی افراد کے فلاح و بہبود کے لیے بہت کچھ کیا جاتا ہے۔

The post مار خور اور ٹرافی ہنٹنگ appeared first on ایکسپریس اردو.

لبنان کی حیران کن خاتون

$
0
0

 یہ چودہ ستمبر کا دن تھا جب لبنان کے دارالحکومت بیروت میں واقع ’بلوم بینک‘ کی ایک برانچ میں ایک خاتون مسلح ہوکر داخل ہوئی،اس نے بینک ملازمین کو یرغمال بنایا اور بینک میں اپنے ہی اکاؤنٹ سے رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے لگی۔

یہ رقم تقریباً 13ہزار ڈالر امریکی بنتی تھی۔ خاتون کے ساتھ مزید چند لوگ بھی تھے۔ انھوں نے بینک برانچ کو ایک گھنٹے تک بند کیے رکھا ۔ جب اسے مطلوبہ رقم مل گئی۔

وہ ویسے ہی بینک سے باہر نکل گئی جیسے بینک میں داخل ہوئی تھی ۔ یہ واقعہ رونما ہونے کے فوراً بعد خبریں نشر ہوئیں کہ خاتون کوگرفتار کر لیا گیا تاہم حقیقت یہ تھی کہ خاتون پلاسٹک بیگ میں نقدی سمیت موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئی۔

سالی حافظ نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا ؟

’’ بینک ڈکیتی ‘‘ کے بعد سوشل میڈیا پر اس 28 سالہ خاتون نے اپنا نام ’’ سالی حافظ ‘‘ بتایا ۔ وہ بنیادی طور پر ایک انٹیریر ڈیزائنر ہے۔

ان دنوں ’ وادی البقاع ‘ میں کہیں روپوش ہے۔ یہ مشرقی لبنان کی ایک خوبصورت اور زرخیز وادی ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ کوئی جرائم پیشہ نہیں ہے، پھر اس نے ساری کہانی سنائی کہ اس نے یہ سب کچھ کیوں کیا ؟ اور کیسے کیا ؟:

’’ آپ جانتے ہیں کہ ہم مافیاز کے ملک میں رہتے ہیں، اگر آپ بھیڑیے نہیں ہیں تو باقی بھیڑیے آپ کو چیرپھاڑ کر ہڑپ کر جائیں گے ۔ معاشی بحران سے پہلے ہم دیگر متوسط طبقہ کے لوگوں کی طرح اچھی بھلی زندگی گزار رہے تھے ۔

جب یہ بحران شروع ہوا تو ہم آہستہ آہستہ اپنی ہی بچت کے طور پر رکھوائی ہوئی جمع پونجی نکلوا کر اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے پر مجبور ہوئے۔ پھر ہمارے گھریلو حالات مشکلات کا شکار ہوئے جب میری 22 سالہ بہن برین کینسر کی شکار ہوئی ۔

ہم اپنے گھر کا بہت سا سامان فروخت کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ بینک ہمیں مطلوبہ رقم دینے کو تیار نہیں تھا ، بہرحال مجھے اپنی بہن کے مزید علاج کے لیے مزید رقم کی ضرورت تھی۔ بینک میں میرے 20 ہزار ڈالر پھنسے ہوئے تھے ۔

اب اپنی بہن کے علاج کے لیے اپنا گردہ فروخت کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہی تھیں۔ کئی بار رقم نکلوانے کے لیے بینک گئی لیکن مجھے بتایا جاتا تھا کہ آپ ایک ماہ میں صرف 200 ڈالر کے برابر لبنانی پاؤنڈز نکلوا سکتی ہیں ۔ میں نے اپنی رقم حاصل کرنے کے لیے برانچ مینیجر کے سامنے التجا کی، انہیں بتایا کہ میری بہن مر رہی ہے ، میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔

پھر میں اس نتیجے پر پہنچی کہ گن پوائنٹ پر رقم حاصل کرنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں، چنانچہ میں نے اپنے بھانجے کی کھلونا گن پکڑی اور بینک پہنچ گئی۔

جیسے ہی میں بینک میں داخل ہوئی، دروازے بند تھے، میں نے بینک والوں سے کہا کہ میرا نام ’سالی حافظ‘ ہے، میں بینک میں اپنی بہن کے لئے اپنی ہی رقم نکلوانے آئی ہوں جو اس وقت ہسپتال میں مر رہی ہے۔

میں کوئی جرائم پیشہ نہیں ہوں، یہاں لڑنے یا غل غپاڑہ کرنے نہیں آئی۔ میں صرف اپناحق واپس چاہتی ہوں۔ مجھے خبر ہے کہ بینک والے ہماری ہی رقم چوری کر رہے ہیں۔ بہرحال میں نے اپنی مطلوبہ رقم نکلوائی، باقاعدہ بینک رسید کے ساتھ۔‘‘

اس واقعہ کے فوراً بعد پولیس نے ’سالی حافظ‘ کے گھر کا محاصرہ کر لیا لیکن جب سالی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ وہ اس وقت بیروت ائیرپورٹ پر ہے اور جہاز استنبول (جہاں اس کی بہن زیرعلاج تھی) کی طرف اڑ رہا ہے، تب پولیس نے اس کے گھر کا محاصرہ ختم کردیا۔ ’سالی حافظ‘ نے ایک حاملہ خاتون کا روپ دھارا اور لبنان سے نکل گئی۔

 عینی شاہد نے کیا دیکھا؟

بینک میں موجود ایک صارف ’ندین نخل‘ بھی موجود تھا، بعدازاں اس نے صحافیوں کو بتایا کہ خاتون اور اس کے ساتھیوں نے اندر گیسولین پھیلائی اور آگ لگانے کی دھمکی دیتے ہوئے لائٹر نکال لیا۔ مسلح خاتون نے رقم نہ ملنے پر مینیجر کو گولی مارنے کی دھمکی بھی دی تھی۔

اس خاتون کے ساتھ آنے والے افراد ’ڈیپوزٹرز آؤٹ کرائی‘ نامی گروپ سے تعلق رکھتے تھے۔ بینک کے باہر سکیورٹی اہلکاروں نے کئی افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں سے کئی مردوں نے ہینڈ گنز اٹھا رکھی تھیں۔

ابراہیم عبداللہ ان لوگوں میں شامل تھا جو ’سالی حافظ‘ کو ’’بینک ڈکیتی‘‘ کرتے دیکھ رہا تھا، وہ یہ سب کچھ دیکھ کر بہت خوش ہو رہا تھا۔ وہ کہتا ہے: ’’سالی حافظ نے جو کچھ کیا، یہ ڈکیتی نہیں تھی بلکہ بینکوں سے اپنی رقم واپس لینے کا عمل تھا۔

یہ بینک ہی ہیں جو ہماری رقم پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔‘‘ ابراہیم عبداللہ نے بتایا کہ بینکوں نے اسے لاکھوں ڈالرز سے محروم کر رکھا ہے۔ یہ وہ رقم ہے جو اس کے 17سالہ کیرئیر کی جمع پونجی ہے۔ وہ دوبئی کی بڑی کمپنیوں میں ملازمتیں کرتا رہا ہے۔

’سالی حافظ‘ اپنی ہی رقم حاصل کرنے کے لئے’’بینک ڈکیتی‘‘ کرنے پر مجبور کیوں ہوئی؟دراصل لبنان میں بینکوں میں نقد رقوم کی کمی کے باعث سنہ 2019ء سے غیر ملکی کرنسی نکلوانے پر پابندی عائد ہے، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی رقوم بینکوں میں پھنسی ہوئی ہیں۔ اگر کوئی اپنے فارن کرنسی اکاؤنٹس سے رقم نکوالنے کی کوشش کرے گا تو اسے مارکیٹ ریٹ سے کہیں کم شرح پر دی جائے گی۔

اس کے نتیجے میں اکاؤنٹ ہولڈر جب فارن کرنسی نکوالتا ہے تو بینک اس سے اچھی خاصی رقم بٹور لیتے ہیں۔ لوگ اس پر سخت اضطراب کا شکار ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ لبنان میں حالیہ دنوں میں ایسے ہی متعدد واقعات پیش آ چکے ہیں۔

مزید ’’بینک ڈکیتیاں‘‘

بیروت میں’ سالی حافظ‘ کے کھلونا پستول سے بینک کے عملے کو یرغمال بنا کر اپنی رقم نکلوانے کے بعد سے کئی صارفین نے یہی طریقہ اختیار کیا۔ عالیہ شہر میں ایسا ہی ایک دوسرا واقعہ پیش آیا جب ایک نوجوان نے ایک بینک برانچ پر دھاوا بول کر اپنی رقم کا مطالبہ کیا تاکہ وہ اپنی بیمار عزیزہ کا علاج کروا سکے۔

اسی طرح لبنان کے شہر سیڈون میں تین سال سے منجمد اپنے اکاؤنٹ میں رقم نہ نکالنے والے ڈیپازٹر نے بینک پر دھاوا بول کر بینک کے اندر موجود افراد کو یرغمال بنا لیا۔ صیدا شہر میں بھی ایک شہری اپنی رقم نکالنے کے لیے نجی بینک کی برانچ میں داخل ہوا، اس نے بینک کے دروازے کو تالا لگا دیا۔

وہ کسی کو اندر آنے یا باہر جانے نہیں دے رہا تھا۔ اس نے اعلان کیا کہ جب تک اسے اپنی رقم واپس نہیں ملتی، وہ کہیں نہیں جائے گا۔ اسی دوران میں سکیورٹی فورس کے افسران نے اس شخص کو راضی کرنے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔

لبنان کے جنوب میں واقعہ ایک قصبہ ’غازیہ‘ میں بھی ایک شخص پستول اور ایندھن سے بھرے جیری کین کے ساتھ بینک میں گھس گیا۔ اس نے ایندھن سے بھرا جیری کین فرش پر ڈھیر کر دیا اور پھر اپنے ہی اکاؤنٹ میں موجود رقم مانگنے لگا۔ بینک والوں نے اسے19ہزار ڈالرز تھما دیے، جیسے ہی وہ بینک سے باہر نکلا، پولیس نے اسے حراست میں لے لیا تاہم عین اسی وقت اس ’ ڈکیت‘ کی حمایت میں ایک بڑا ہجوم سڑک پر جمع ہوگیا۔

پھر بیروت شہر ہی میں باسم شیخ نامی ایک ڈرائیور نے بھی بینک عملہ کے دس افراد کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنا لیا۔ سکیورٹی اور بینک حکام کے ساتھ سات گھنٹوں تک چلنے والی بات چیت کے بعد باسم شیخ اپنی رقم میں سے 35000 ڈالر لینے اور خود کو پولیس کے حوالے کرنے پر رضامند ہو گیا۔ اس واقعے کے بعد لوگوں نے اسے بھی ’’ہیرو‘‘ قرار دیدیا۔

بینک برانچز پر کھاتہ داروں کے دھاووں کے اضافے کے نتیجے میں بینکوں کی ایسوسی ایشن نے تین دن کے لیے کام بند کر دیا۔ بینکوں پر کھاتہ داروں کے دھاوا بولنے کے واقعات میں اضافے کو دیکھتے ہوئے وزیر داخلہ بسام مالاوی نے ہنگامی اجلاس طلب کیا۔

اجلاس کے بعد وزیر داخلہ کا کہنا تھا : ’اپنا حق اس طریقے سے واپس لینے سے ملکی نظام ٹوٹ پھوٹ سکتا ہے جس کے نتیجے میں دیگر کھاتہ دار اپنا حق کھو دیں گے۔‘

بینک ’ ڈکیتیوں‘ کا طویل پس منظر

لبنان میں ان بینک ’ڈکیتیوں‘ کا ایک طویل پس منظر ہے اور وہ ہے لبنان میں معاشی بحران ۔ 1975ء سے پہلے لبنان مشرق وسطیٰ کا پیرس سمجھا جاتا تھا، پھر 1975ء میں لبنان میں عیسائیوں اور مسلمانوں ( جو نسبتاً غریب تھے) کے درمیان خانہ جنگی پھوٹ پڑی ۔ خانہ جنگی تقریباً پندرہ سال جاری رہی۔

اس میں تقریباً دو لاکھ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے۔ 1975ء سے لے کر 1990ء تک جاری جنگ کی وجہ سے ملک میں وارلاڈز اور ملیشیاز کا راج رہا اور لاقانونیت نے ملک کو تباہ کر دیا ۔ خانہ جنگی نے مشرق وسطی کے پیرس کو سیاسی اور معاشی طور پر تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا۔

جنگ سے نکلنے کے بعد اس کی از سرِنو تعمیر نے اسے ایک بار پھر مشرق وسطی کا ایک پھلتا پھولتا ملک بنا دیا۔ یہاں سرمایہ کاری بھی ہونے لگی مگر لبنان ابھی پوری طرح آب و تاب نہ حاصل کر پایا تھا کہ اسرائیل نے دو فوجی رہا کروانے کا بہانہ کر کے2006 ء میں لبنان پر حملہ کر دیا۔

اس بیرونی جارحیت کے نتیجے میں روبہ صحت معیشت پھر شدید طور پر بدحال ہو گئی، اور پھر اس کی حالت مسلسل خراب ہوتی چلی گئی۔ اس معاشی خرابی کی وجوہات کچھ دیگر بھی تھیں۔ مثلاً متنوع آبادی، اس کے نتیجے میں لبنان میں مختلف دھڑوں اورگروہوں میں جاری سیاسی کشمکش اور پھر کورونا وائرس کی وبائ۔ اس وقت لبنان کی معاشی حالت جس قدر خراب ہے، اس کی وجہ سے شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

 لبنان کی تباہ حال معیشت

عالمی بنک کے مطابق سن1800ء کے بعد، لبنان میں آنے والا یہ سخت ترین معاشی بحران ہے۔ 2019 ء سے لبنانی پونڈ کی قدر90 فیصد کم ہوئی۔ 2020 ء میں ملکی معیشت 20 فیصد اور2021 ء میں مزید15 فیصد تک سکڑ گئی ۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی میں550 فیصد اضافہ کی وجہ سے ملک کے تین چوتھائی لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ضروری اشیاء کی سپلائی محدود ہو چکی ہے۔

پچھلے سال تک پارلیمان کا اجلاس بھی اندھیرے میں کرنا پڑا کیونکہ بجلی کے پیداواری اداروںکے پاس ایندھن تھا نہ ایندھن خریدنے کی رقم ۔ اب لبنان میںکھانے کی دکانوں کے باہر لوگوں کی لمبی قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں ایسے لوگ بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جوکچرے کے ڈھیر سے کھانا ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح اسپتالوں میں ادویات کی شدید قلت ہے۔

سیاسی نظام کی ناکامی، بے قابو کرپشن اور مختلف مذہبی فرقوں کی نمائندگی کرتی سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات نے ملکی حالات کو مزید مایوس کن بنا دیا ہے۔ ایک عرصہ سے لبنان کے دیوالیہ ہونے کے امکانات ظاہر کیے جا رہے تھے مگر اس سے بچنے کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے۔

اب حال یہ ہے کہ لبنان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے مطالبات کو پورا کرنے کی پوزیشن میں ہے نہ 2022 ء کا سالانہ بجٹ منظور کرانے میں کامیاب ہو سکا۔ اس وقت لبنان کا قرض تقریباً 90 ارب ڈالر یا ملک کی جی ڈی پی کا 17 فیصد ہے جب کہ غیر ملکی مالی امداد کے لیے ملک میں مالی اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔

سیاسی رسہ کشی، منصوبہ بندی کے فقدان اور اقرباء پروری نے مشرق وسطی کے پیرس کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اور مقامی کرنسی کی قدر بہتر کرنے کے لیے بینکوں نے پیسے نکالنے پر سخت پابندی لگا دی لیکن اس کے نتیجے میں اکاؤنٹ ہولڈرز نے’’ بینک ڈکیتیاں ‘‘ شروع کر دیں کیونکہ وہ بھی مجبور ہیں بلکہ سخت مجبور ۔ اکاؤنٹ ہولڈرز سمجھتے ہیں کہ انہی کی رقوم استعمال کرکے یہاں کا ایک مخصوص طبقہ امیر سے امیر تر ہو رہا ہے لیکن عام لوگوں پر پابندیاں ہیں کہ وہ اپنے ہی جمع کرائے ہوئے پیسے ایک مخصوص رقم سے زیادہ نہیں نکلوا سکتے۔

ان واقعات کے بعد لبنان بینک ایمپلائز یونین کا کہنا تھا :’’ ہمیں کوئی ٹھوس حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ لوگ بینکوں میں جمع اپنی رقم واپس چاہتے ہیں لیکن پیسے نہ ملنے پر ان کا غصہ بینک ملازمین پر نکلتا ہے کیوں کہ وہ اعلیٰ عہدیداروں تک نہیں پہنچ پاتے۔‘‘

The post لبنان کی حیران کن خاتون appeared first on ایکسپریس اردو.

’’اپنی بیتی کس سے کہوں۔۔۔‘‘ چند خط پریم چند کے

$
0
0

پریم چند جبر، استحصال اور غلامی کے خلاف اردو نثر کی توانا ترین آواز ہیں۔

ان کی تخلیقات کی ایک طویل قطار ہے جس میں مغلیہ دور کے بعد اور تقسیم سے قبل کے ہندوستان کے لینڈ اسکیپ ایک کے بعد ہمارے سامنے آجاتے ہیں۔ لیکن میں نے جس کتاب کو اپنا موضوع بنایا ہے وہ ان کی تخلیق ہے نہ وہ اس کے مصنف ومولف، مگر اپنی تخلیقات کے برعکس اس کتاب کے ہر صفحے پر خود پریم چند موجود ہیں، وہ بھی اس حقیقت سے بے خبر کہ کوئی انھیں پڑھ رہا ہے۔

دراصل یہ کتاب پریم چند کے خطوط کا مجموعہ ہے، جسے مدن گوپال نے بڑی کاوشوں سے مرتب کیا ہے۔ ان خطوط کے حصول کے لیے انھیں لاہور، بنارس، لکھنؤ، کان پور، گورکھ پور، الہ آباد، دہلی، مدراس اور بمبئی  کا باربار سفر کرنا پڑا۔ یہاں ہمارے لوگوں کے عجیب رویے بھی ہمارے سامنے آتے ہیں۔ مولف کے مطابق پریم چند کے ساتھ ادبی معاون کے ساتھ کام کرنے والے دلارے لال بھارگو نے خط یا ان کی نقل دینے سے صاف انکار کردیا۔ ایک اور صاحب ’’ونودشنکر ویاس نے بھی خطوط کی نقلیں نہ دیں، بعد میں انھیں انھوں نے ان کو اخباروں میں شایع کردیا۔‘‘

شری کے ایم منشی نے خط دینا تو دور کی بات انھیں دکھایا بھی نہیں۔ مولف کے نزدیک اس کی وجہ یہ تھی کہ ان مراسلوں میں ہندی، اردو اور ہندوستانی سے متعلق تلخ بحثیں ہیں۔ المیہ تو یہ ہے کہ اس عظیم مصنف کے بیٹوں نے بھی اس کے خط محفوظ نہ رکھے۔ پیش لفظ میں خطوں کے زیاں سے متعلق ایک افسوس ناک واقعہ بھی پڑھنے کو ملتا ہے:

’’کچھ خط شو پوجن سہائے کے پاس پٹنہ میں تھے۔ بدقسمتی سے مکان میں چور گُھس آئے۔ لوہے کے جس بکس میں وہ خط تھے اُسے لے گئے۔ جب کھولا تو نکلے کاغذ۔ چوروں نے کاغذات کو کوئیں میں پھینک دیا اور لوہے کے بکس پر صبر کیا۔ اگلے دن یہ خط کوئیں میں تیر رہے تھے۔‘‘

مولف کو خطوط کے حصول کے بعد انھیں ترتیب دینے میں کہیں زیادہ دقتوں کا سامنا کرنا پڑا، جس کا سبب ان کی خستہ حالت، بعض عجلت میں لکھے گئے ناموں کے پڑھنے میں دشواری اور تاریخوں کا نہ ہونا جیسے مسائل تھے۔ مدن گوپال نے ان تمام مشکلات سے گزر کر اردو کے اس حقیقت پسند نثرنگار کے دو سو ساٹھ خطوں کا مجموعہ مرتب کر ہی ڈالا، جو اردو اور پریم چند کے ہر پرستار پر ان کا احسان ہے۔

ان خطوط میں ہمیں پریم چند کی ذاتی زندگی کی بہت سے جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، اپنے دور کے اس مقبول ترین لکھاری کے روزوشب کی تلخیوں سے ہمارا واسطہ پڑتا ہے اور ان کے خیالات اور افکار سے آشنائی ہوتی ہے۔

مجموعے میں شامل پہلے خط ہی میں ان کے گھر کی کھڑکی چوپٹ کھلتی ہے اور ہمیں براہ راست ان کی گھریلو الجھنوں کی خبر ملتی ہے۔ دیانرائن نگم کو لکھتے ہیں:

’’برادرم! اپنی بیتی کس سے کہوں۔ ضبط کیے کوفت ہورہی ہے، جوں توں کرکے ایک عشرہ کاٹا تھا کہ خانگی ترددات کا تانتا بندھا۔ عورتوں نے ایک دوسرے کو جلی کٹی سنائی۔ ہماری مخدومہ نے جل بُھن کر گلے میں پھانسی لگائی۔ ماں نے آدھی رات کو بھانپا۔ دوڑیں اس کو رہا کیا۔ صبح ہوئی۔

میں نے خبر پائی۔ جِھلّایا، بگڑا، لعنت ملامت کی۔ بیوی صاحبہ نے اب ضد پکڑی کہ یہاں نہ رہوں گی، میکے جاؤں گی۔ میرے پاس روپیہ نہ تھا۔ ناچار کھیت کا منافع وصول کیا۔ ان کی رخصتی کی تیاری کی۔ وہ رودھو کر چلی گئیں۔ میں نے پہنچانا پسند نہ کیا۔ آج ان کو گئے آٹھ روز ہوگئے۔ نہ خط ہے نہ پتر۔ میں اُن سے پہلے ہی خوش نہ تھا، اب تو صورت سے بے زار ہوں۔ غالباً اب کی جُدائی دائمی ثابت ہو۔ خدا کرے ایسا ہی ہو۔‘‘

پریم چند کی دعا قبول ہوئی۔ ان کی بیگم گئیں تو پھر لوٹ کر نہ آئیں، نہ انھوں نے لانے کی کوشش کی، برسوں ان کا خرچا بھیجتے رہے۔ پھر یہ تعلق انجام کو پہنچا اور پریم چند نے ہندو دھرم کی ’’ودوا‘‘ کا بیاہ نہ ہونے کی روایت سے بغاوت کرتے ہوئے ایک ایسی لڑکی سے شادی کی جو گیارہ سال کی عمر میں بیوہ ہوگئی تھی۔

اگست 1912میں لکھے گئے ایک خط سے پتا چلتا ہے کہ پریم چند اس وقت ہندوستانی قوم پرستی تج کر ہندوتوا کے راستے پر چل پڑے تھے جب ہندوستان میں متحدہ قومیت کا شوروغوغا تھا اور اس خط سے آٹھ سال پہلے ہی علامہ اقبال نے نظم ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ لکھی تھی۔ پریم چند، نرائن نگم سے مخاطب ہیں، جو ایک اخبار نکالنے کا ارادہ باندھ رہے ہیں۔ پریم چند اس اخبار کا نام ’’ہندو‘‘ تجویز کرتے ہیں اور لکھتے ہیں:

’’اخبار کا نمونہ کامریڈ ہی ہو، پالیسی ہندو، اب میرا ہندوستانی قوم پر اعتقاد نہیں رہا۔ اور اس کی کشش فضول ہے۔‘‘

پریم چند ایسے دور میں ذہنوں کو حریت کی سوچ سے منور کرنے کے لیے کوشاں تھے جب برصغیر پر انگریز کا تسلط تھا اور وہ خود سرکاری ملازم اور محکمۂ تعلیم سے وابستہ تھے۔

ان دنوں کا کے افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِوطن‘‘ شایع ہوا، جس کے بعد سی آئی ڈی ان کے پیچھے پڑی گئی۔ انھیں انگریز کلکٹر نے طلب کرلیا۔ اس مجموعے کی جتنی کاپیاں پریم چند کے پاس تھیں وہ سرکار نے ضبط کرلیں اور انھیں پابند کر دیا گیا کہ آئندہ وہ کلکٹر صاحب بہادر کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں لکھ سکتے۔ اب جس ذہنی کوفت سے گزرنا پڑا اسے یوں بیان کرتے ہیں:

’’میرے لیے کلکٹر کو ہر ایک مضمون دکھانے کی ایسی بُری پخ لگی ہے کہ ایک مضمون مہینوں میں لوٹ کر آتا ہے اور چھٹویں مہینے چھپتا ہے۔‘‘

ہمیں ان خطوط سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ اس زمانے میں جب ہندی کو پروان چڑھا کر اردو کے مقابل لایا جارہا تھا، ہندی کے فروغ کے لیے کیا کیا جتن ہورہے تھے۔ وہ ایک  ناول کی اشاعت کے حوالے سے امتیازعلی تاج کو لکھتے ہیں:’’ہندی والوں نے مجھے چار سو روپے دیے ہیں، اردو سے مجھے اتنی امید نہیں مگر اکیس سطری صفحے کے بارہ حساب سے بھی قبول کرلینے میں بھی مجھے تامل نہ ہوگا۔‘‘

جب ایک قلم کار کو ہندی میں لکھنے کا وہ معاوضہ مل رہا ہوگا جس کے اردو میں تخلیق یا تحریر پر ملنے کی امید بھی نہیں، تو کیسے کیسے ادیبوں اور شاعروں نے اردو سے ہندی کی طرف منہ موڑ لیا ہوگا!

ہمارے بہت سے دانش ور آج کا غصہ ماضی پر اتارتے ہوئے گذشتہ صدیوں کے مسلمانوں کو علم سے بے زاری اور کتاب کی بے قدری کے طعنے دے کر بُری طرح ’’ڈانٹتے‘‘ ہیں، لیکن پریم چند کی اپنے دور کے مسلمانوں کے بارے میں رائے بڑی مختلف ہے۔ امتیازعلی تاج کو بھیجے گئے ایک نامے میں کہتے ہیں:

’’اردو میں رسالے اور اخبارات بہت نکلتے ہیں۔ شاید ضرورت سے زیادہ۔ اس لیے کہ مسلمان ایک لٹریری قوم ہے اور ہر تعلیم یافتہ شخص اپنے تئیں مصنف ہونے کے قابل سمجھتا ہے۔‘‘

اس دور میں اردو ہندو مسلمان سب کی مشترکہ زبان تھی، جس پر بعد میں مذہب کا ٹھپا لگاکر تعصب کا نشانہ بنایا جانے لگا۔ اس زمانے کے عام ہندوؤں اور ہندو زعما کی طرح پریم چند بھی عموماً خط وکتابت کے لیے اردو ہی کو وسیلہ بناتے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں کے ساتھ وہ اقرباء کو بھی اسی زبان میں اپنی بات پہنچاتے تھے۔

چناں چہ اپنے سوتیلے بھائی مہتاب رائے، اپنے دوست دیا نرائن نگم اور دیگر ہندو احباب کو خالص اردو میں خط لکھے جو ’’برادرِعزیزِمن سلمہ‘‘ جیسے القاب سے شروع ہوکر ’’دعاگو‘‘ اور ’’والسلام‘‘ پر ختم ہوتے ہیں۔

وہ اردو کی دل کشی اور اس کی ہندی پر برتری کے بھی دل سے قائل تھے۔

کیشو رام سبھروال سے کہتے ہیں:

’’اردو زبان چوںکہ زیادہ لوچ دار اور نکھری ہوئی ہے۔ اس لیے مختصر افسانوں کے لیے میں نے اردو ہی استعمال کی ہے۔ آپ ان افسانوں کا اردو میں زیادہ لطف اٹھاسکتے ہیں۔‘‘

ہم اپنے ہاں کتاب سے عدم دل چسپی پر نوحہ کُناں ہے، اور اس صورت حال کا ذمے دار اسمارٹ فون، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کو قرار دیتے ہیں، لیکن دیکھیے جس دور میں یہ سب نہیں تھا اس وقت کا مقبول ترین ادیب بھی یہی رونا رو رہا ہے:

’’میری کسی تصنیف کا شاید ہی تیسرا ایڈیشن چھپا ہو کچھ کتابوں کے تو پہلے ایڈیشن ہی ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ ہمارے کسان غریب اور اَن پڑھ ہیں۔ پڑھا لکھا اور روشن خیال طبقہ یورپی ادب پر جان دیتا ہے۔ گھٹیا کتابیں، ہاتھوں ہاتھ بک جاتی ہیں۔ لیکن میری کتابوں کا حال یہ ہے کہ اُن کی تعریف تو کی جاتی ہے، لیکن ان کے لیے خریدار مشکل ہی سے ملتا ہے۔ ‘‘

پریم کا ادبی نظریہ حقیقت پسندی تھا۔ انھوں نے زندگی کی تلخ حقیقتوں پر ہی اپنے ناولوں اور افسانوں کی بنیاد رکھی۔ وہ بہ طور قاری وناقد بھی تخلیقات کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھتے تھے، آتش کے شعر

قاصدوں کے پاؤں توڑے بدگمانی نے مِری

خط دیا لیکن نہ بتلایا نشانِ کوئے دوست

پر ان کا تبصرہ ملاحظہ کیجیے:

’’کیوں نہیں بتلایا؟ تھی آپ کی حماقت یا نہیں؟ آپ کو خوف ہوا کہیں معشوق قاصد کا دم نہ بھرنے لگے۔ واہ رے معشوق اور واہ رے عاشق دونوں زندہ درگور۔‘‘

ایک خط میں وہ اپنا فلسفۂ ادب بڑے اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں:

’’میں جو چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کہانیوں کے پلاٹ جیون سے لیے جائیں اور جیون کی سَمسّیاؤں کو حل کریں۔ کہانی سے کویتا کا کام مجھے نہیں جچتا۔‘‘

ان خطوط کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ اپنی رحلت سے کوئی دو سال قبل وہ اپنے دیرینہ مذہبی عقیدے سے دست بردار ہوکر ایک سے ماورائی ہستی کے قائل ہوتے نظر آتے ہیں جس کا انسان سے کچھ لینا دینا نہیں۔ لکھتے ہیں:

’’اس سے پہلے میں ایک خدائے برتر کی ہستی پر یقین رکھتا تھا، یہ اعتقاد غوروفکر کا نتیجہ نہ تھا، بلکہ محض روایتی تھا۔ اب یہ اعتقاد چکناچور ہورہا ہے۔ بے شک اس تمام عالم کے پیچھے کوئی ہاتھ ہے، مگر میرے خیال میں انسانی معاملات سے اس کا کوئی تعلق نہیں، جیسا کہ اسے مکھیوں، مچھروں اور چیونٹیوں کے معاملات سے کوئی سروکار نہیں۔ ہم نے خود کو جو اہمیت دی ہے اس کی کوئی وجہ جواز نہیں۔‘‘

آخری وقت میں پریم چند کا رجحان پوری طرح ہندی کا طرف ہوچکا تھا، اور لگتا ہے وہ اسے ہی اپنی زبان سمجھنے لگے تھے۔ ایک خط میں ہندی اخبارات کی حالت پر افسوس کرتے ہوئے اردو صحافت کی ستائش یوں کرتے ہیں:

’’اردو کے اخبار بازی لیے جارہے ہیں۔ پچاس سے بھی زیادہ بلند پایہ اردو ماہ نامے نکلتے ہیں۔ اور اُن میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو دو روپیہ یا ڈھائی روپے سے قیمت کا پانچ سو صفحوں کا سال نامہ نہ نکالتا ہو۔ یقیناً ان کا ادبی ذوق بہتر ہے۔‘‘

پھر ہندی اور اردو شاعری کا موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہندی شاعری ابھی تک انفرادی اور جذباتی ہے۔ ہماری شاعری اس جدوجہد کی آئینہ دار ہے جو ہمیں زندگی میں درپیش ہے نہ اس میں کوئی تڑپ ہے نہ ہی یہ زندگی بخش ہے۔ یہ آپ کو مایوس بناسکتی ہے اور کچھ نہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تمام شاعروں پر یاس کا فلسفہ کیوں طاری رہتا ہے۔ اردو کے شاعروں کا رویہ فلسفیانہ، حقیقت پسندانہ اور رجائیت پر مبنی ہے۔ ان کے نصف درجن شاعر مسلم قوم کو اخوت، مساوات اور جمہوریت کے لیے اصولوں کے سانچے میں ڈھال رہے ہیں۔ مسلمان شاعر کمیونسٹ ہے۔‘‘

پریم چند کے یہ خطوط ان کی ذات ہی کا عکس نہیں، یہ ان کے عہد کے زبان وادب کی صورت حال، سماج اور سیاست کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔

The post ’’اپنی بیتی کس سے کہوں۔۔۔‘‘ چند خط پریم چند کے appeared first on ایکسپریس اردو.

Viewing all 4834 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>