Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all 4769 articles
Browse latest View live

ٹیکنالوجی کا جنون!

$
0
0

45سالہ امریکی سوفٹ ویئرڈیولپر کرس ڈینسی کو ٹیکنالوجی کے استعمال کا اتنا جنون ہے کہ اس نے اپنے جسم سے متعدد سینسرز اور آلات منسلک کر رکھے ہیں جن کے ذریعے وہ اپنی ہر جسمانی اور ذہنی سرگرمی اور گردوپیش کے بارے میں ریئل ٹائم ڈیٹا حاصل کرتا رہتا ہے۔

اس مقصد کے لیے سینسرز اور ڈیوائسز کے ساتھ ساتھ وہ مختلف انٹرنیٹ سروسز اور ایپس کا بھی استعمال کرتا ہے۔ مجموعی طور پر700  نظام اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں اور ڈینسی کو اس کے بارے میں  زیادہ سے زیادہ معلومات مہیا کرتے ہیں۔  اس عجیب و غریب جنون نے ڈینسی کو دنیا کا سب سے زیادہ ’کنیکٹڈ‘ انسان بنا دیا ہے۔ ڈینسی کو اپنے جسم سے یہ تمام آلات منسلک کرنے میں چار برس لگے۔

ان ڈیوائسز سے اپنے بارے میں حاصل ہونے والی معلومات سے ڈینسی نے فائدہ بھی اٹھایا ہے۔ مثلاً اپنی حرکات و سکنات اور کھانے کی عادات کو مستقل طور پر مانیٹر کرتے ہوئے اس نے اپنا وزن 100پاؤنڈز  تک گھٹالیا ہے۔ ڈینسی کا کہنا ہے،’’ اب مجھے معلوم ہے کہ کیا کھانا ہے، کیا پینا ہے، کب سونا ہے اور کب بیدار ہونا ہے۔ آپ اسے  جسم اور دماغ کی ہیکنگ کہہ سکتے ہیں۔ جیسے ہم کمپیوٹر اور کسی بھی قسم کے ڈیٹا کو ہیک کرتے ہیں، بالکل اسی طرح دماغ اور جسم کو بھی ہیک کیا جاسکتا ہے جو کہ عظیم ترین انفارمیشن سسٹم ہے۔ اس نظام کو سمجھنا ہی دراصل اسے ہیک کرنا ہے۔‘‘

ڈینسی کو اپنے جسم سے کنیکٹ رہنے کا تصوراس حقیقت کاادراک کرنے کے بعد آیا کہ وہ خود معلومات کی آن لائن دست یابی ممکن بنا رہا تھا، اور اگر ان سروسز میں سے کوئی بھی کارآمد نہیں رہتی تو متعلقہ معلومات ضایع ہوجائیں گی۔ ڈینسی کا کہنا ہے کہ اس حقیقت کوسمجھ جانے کے بعد، جو کچھ میں تخلیق کرہا تھا، اسے ڈیجیٹل طور پر جمع کرنے کا خیال آیا ۔

ڈینسی کے پاس ہمہ وقت دو اسمارٹ فون ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ متعدد آلات بھی پہنے ہوئے ہوتا ہے۔ کلائی پر بندھی ہوئی اسمارٹ واچ اسے موبائل فونز سے حاصل ہونے والی اپ ڈیٹس سے آگاہ رکھتی ہے۔ دوسری کلائی پر  Fitbit Flex پہنتا ہے۔ یہ گھڑی نما آلہ مستقل طور پر اس کی جسمانی حرکات اور سونے اور جاگنے کے انداز اور اوقات پر نظر رکھتا ہے۔ ڈینسی کے سینے پر دل کے دھڑکنے کی رفتار کو مانیٹر کرنے والا آلہ Blue HR بندھا ہوا ہے۔ اس کے بازو سے  ایک فٹنس ٹریکر اور کمر سے  ایک posture sensor لپٹا رہتا ہے۔ ان کے علاوہ وہ گوگل گلاس اور اس سے متعلق کئی آلات سے بھی کام لیتا ہے۔

ڈینسی Netatmo نامی آلے کے ذریعے آواز ، ہوا کی کیفیت اور درجۂ حرارت کو مانیٹر کرتا ہے، جب کہ Wemo نامی آلہ مختلف جذبات پر نگاہ رکھتا ہے۔ گھر کے درجۂ حرارت کو معتدل رکھنے اور کاربن مونو آکسائیڈ اور دھویں سے خبردار کرنے والے آلات  بھی ڈینسی نے نصب کر رکھے ہیں۔ Estimotes نامی ایک ایپلی کیشن اسے آس پاس موجود شے جیسے کار کی چابیوں  سے واقف رکھتی ہے تاکہ وہ  بھول نہ جائے۔ اپنے وجود اورگھر کے علاوہ ڈینس نے اپنے دو پالتو کتوں کو بھی ٹیکنالوجی سے دور نہیں رہنے دیا۔ وہ Tagg نامی جی پی ایس سسٹم کے ذریعے ان کی روزمرّہ مصروفیات پر نظر رکھتا ہے۔

ڈینسی کا کہنا ہے کہ میرا گھر اب میرے رویوں کو سمجھتا ہے۔ اگر مجھے نیند اچھی طرح نہ آئے تو بیدار ہونے پر کمرے میں مخصوص رنگ کی روشنی پھیلی نظر آتی ہے، کمرے کا درجۂ حرارت بھی تبدیل ہوتا ہے، اور مخصوص موسیقی کمرے میں گونجنے لگتی ہے۔ ڈینسی کے مطابق اس تمام سسٹم نے اس کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کردی ہیں۔ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اس کی تقلید کریں۔


موسم نے بدلا پہناوں کا رنگ

$
0
0

بدلتی رتوں نے خواتین کے پہناوں میں خاصا بدلائو پیدا کر دیا ہے۔

گرم ملبوسات کی جگہ اب بہارکی مناسبت سے عریبک لان نے لے لی ہے۔ اگر دیکھا جائے تواس وقت عریبک لان خواتین کی اولین ترجیح بن کرفیشن انڈسٹری میں نئے رجحانات کوجنم دے رہی ہے۔

کالج اور یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی لڑکیاں تو ڈیجیٹل پرنٹنگ کے ساتھ عریبک لان کی ورائٹی کی خریداری میں مصروف ہیں لیکن اس کے ساتھ تفریح گاہوں پربھی خواتین عریبک لان کے ملبوسات میں ہی دکھائی دیتی ہیں۔

ایک طرف تو یہ لباس شخصیات کو پرکشش بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور دوسری طرف موسم کی مناسبت سے ہلکے اورشوخ رنگوں میں تیار کردہ ملبوسات عوام کی پہنچ میں بھی ہیں۔ ’’ایکسپریس میگزین ‘‘کیلئے ہونے والے فوٹوشوٹ میں ماڈلز عریبک لان کی دیدہ زیب ورائٹی کوپیش کر رہی ہیں۔

ماڈل سائرہ شاہ اور زارا کا یہی کہنا ہے کہ عریبک لان میں بنے شارٹ اورلانگ کُرتے مارکیٹ میں دستیاب ہیں اوریہ آج کل خواتین کی توجہ کامرکز بنے ہوئے ہیں۔

نیکسٹ جنریشن تھری جی اور فور ٹیکنالوجی؛ امکانات کا ایک جہاں کھلنے کو ہے

$
0
0

گذشتہ تین دہائیوں کے دوران انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی میں ہونے والی ایجادات اور اختراعات نے دنیا کو یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔

تیس سال قبل اور آج کی دنیا انتہائی مختلف ہیں۔ جدید انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کی مجموعی معیشت، سماجیات اور ثقافت کو بھی تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ پاکستان میں موبائل فون ٹیکنالوجی کمیونی کیشن کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال سماجی رابطوں اور تفریح کے لیے ہورہا ہے۔ ملک میں ’’نیکسٹ جنریشن تھری جی‘‘ اور ’’فور جی‘‘ ٹیکنالوجی کی آمدآمد ہے۔ ہر طرف نئی ٹیکنالوجی کا شور مچا ہوا ہے۔ ٹیلی کام آپریٹرز اس نئی ٹیکنالوجی کو انڈسٹری کا ریونیو بڑھانے کا اہم ذریعہ قرار دے رہے ہیں۔ حکومت کو اس نئی ٹیکنالوجی کے لائسنس کی نیلامی سے بھاری زرمبادلہ حاصل ہونے کی توقع ہے۔

ٹیلی کام ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی ٹیکنالوجی پاکستان کے سماجی شعبے بالخصوص بنیادی سہولتوں صحت اور تعلیم کی فراہمی میں معاون ثابت ہوسکتی ہے، لیکن اس کے لیے قومی سطح پر منصوبہ بندی اور اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ نیکسٹ جنریشن ٹیکنالوجی کے ذریعے موبائل فون پر تیز رفتار ڈیٹا ٹرانسفر کی سہولت میسر ہوگی، جس کے ذریعے زراعت اور لائیو اسٹاک کے شعبوں کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ دنیا بھر میں انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی تفریح کے ساتھ ساتھ وسائل کے موثر استعمال کے لیے بھی استعمال ہورہی ہے۔ زراعت اور لائیواسٹاک کے بعد واٹر منیجمنٹ ایک اہم ترین شعبہ ہے، جہاں انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کی مدد سے پانی کو ضایع ہونے سے بچاتے ہوئے ذخائر کو موثر انداز میں استعمال کیا جارہا ہے۔

موبائل فون کے ذریعے موسم سے متعلق بروقت معلومات اور وارننگ نے قدرتی آفات یا موسم کی سختیوں سے مقابلہ کسی حد تک آسان کردیا ہے۔ آئی سی ٹی نے بینکاری کو جدت سے آراستہ کرکے بینکنگ کو اسمارٹ کردیا۔ اسی طرح ترقی یافتہ ملکوں کے بڑے شہروں کا پورا نظام اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے چلایا جارہا ہے۔ ان شہروں کو اسمارٹ سٹی قرار دیا جاتا ہے ، تعلیم کے شعبے میں آئی سی ٹی کی جدید سہولتوں سے استفادے کو اسمارٹ ایجوکیشن کا نام دیا گیا۔ اسی طرح پانی کو ضایع ہونے سے بچاتے ہوئے آبی وسائل بالخصوص تازہ پانی کو موثر انداز میں استعمال کرنے کے لیے جدید انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا استعمال ’’اسمارٹ واٹر منیجمنٹ‘‘ کہلاتا ہے۔

دنیا کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، زرعی اور صنعتی شعبے میں تیزرفتار ترقی، فرسودہ انفرااسٹرکچر، ادارہ جاتی خامیاں، کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کا فقدان، غربت، سرمایہ کاری میں کمی، کوالٹی آف سروس اور (ڈیٹا) معلومات کی عدم فراہمی واٹر سیکٹر کے بنیادی مسائل ہیں۔ ایک جانب یہ مسائل ہیں۔ دوسری جانب گلوبل وارمنگ اور موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پینے کے پانی کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ ایسے میں انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی ہی وہ واحد ذریعہ ہے جو آبادی میں اضافے اور پانی کے ذخائر میں کمی کے دہرے دبائو سے نمٹنے کے لیے کارآمد ثابت ہورہی ہے۔

اسمارٹ واٹر منیجمنٹ کے ذریعے پانی کے نظام کی منیجمنٹ اور ترقیاتی کاموں میں آسانی پیدا کرکے واٹر سیکٹر کے چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔ انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے سلوشنز اور سسٹمز کے انضمام سے پائیدار بنیادوں پر پانی کی دست یابی اور کفایت بخش استعمال یقینی بنایا جاسکتا ہے اور پانی سے جُڑے زیادہ سے زیادہ معاشی اور سماجی فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔ نظام کے ذریعے پانی کے نظام کی خامیوں، مسائل اور تیکنیکی رکاوٹوں کی ہر لمحہ نگرانی ممکن ہے جس کے ذریعے فوری مرمت اور نظام کی بحالی کو ممکن بنایا جاتا ہے۔ اسی طرح پانی کی دست یابی اور استعمال سے متعلق تفصیلی ڈیٹا کی بنیاد پر پانی کی تقسیم کو بھی بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

اسمارٹ واٹر میٹرنگ اور موبائل بینکنگ کو باہم منسلک کرکے پانی کے تقسیم کار ادارے اور صارف کے درمیان رابطہ استوار کیا جاسکتا ہے۔ یہ رابطہ کے بل کی ادائیگیوں، شکایات کے ازالے سمیت معلومات کی دوطرفہ منتقلی کے لیے موثر، شفاف اور قابل اعتبار میڈیم بن سکتا ہے۔ انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی بیسڈ اس طریقے کے استعمال سے ایک جانب پانی کے بلوں کی ادائیگی کی لاگت (ٹرانزیکشن کاسٹ) کم ہوگی، وہیں پانی فراہم کرنے والے ادارے کی آپریٹنگ کاسٹ میں کمی اور ریونیو میں اضافہ ہوگا۔ اس طرح جدید ٹیکنالوجی کا استعمال یوٹلیٹی کمپنی اور صارف دونوں کے لیے فائدہ مند ہوگا۔

انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کے موثر استعمال اور عوام تک اس بنیادی سہولت کی منظم انداز میں فراہمی کی ایک بہترین مثال پڑوسی ملک بھارت سے ملتی ہے، جہاں بھارتی این جی او ’’سرجوال ‘‘ نے اسمارٹ واٹر منیجمنٹ سسٹم کے تحت پانی کے اے ٹی ایم متعارف کرائے ہیں۔ بھارت کا شمار بھی پانی کی قلت اور پینے کے صاف پانی سے محروم بڑی آبادی پر مشتمل ملکوں میں ہوتا ہے۔ بھارت میں 15کروڑ سے زاید آبادی پینے کے صاف پانی سے محروم ہے اور 21 ریاستیں اپنی دیہی آبادی کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔ بھارت میں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے کم ہورہی ہے اور بہت سی ریاستوں میں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ اس صورت حال میں سرجوال نے جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ’’پانی سب کے لیے‘‘ نامی مہم چلائی ہے، جس سے سماجی تبدیلی کے ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔

دل چسپ اور حیران کن بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے باوجود پانی کی شدید قلت سے دوچار بھارت کے راجستھان جیسے صحرائی علاقے میں عوام کو پینے کا صاف پانی ایک امریکی سینٹ فی لیٹر کے انتہائی کم نرخ پر مہیا کیا جارہا ہے۔ سرجوال چھوٹے واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس، پانی کے اے ٹی ایم اور SEMSکے ذریعے پانی کو ترسے ہوئے عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا کررہا ہے۔ اس مقصد کے لیے جدید کلائوڈ کمپیوٹنگ اور موبائل ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کا استعمال کفایت بخش ہونے کے ساتھ مالی لحاظ سے بھی فائدہ مند ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے پانی کی ایک ایک بوند کا حساب رکھا جاتا ہے اور پانی کو ضایع ہونے سے بچانے کے لیے دور دراز علاقوں میں بھی جدید نظام اور حساس سینسرز کے ذریعے لمحہ لمحہ نگرانی کی جاتی ہے۔

پانی کی فراہمی کے لیے جدید فلٹر سینٹر قائم کیے گئے ہیں جو ریورس آسموسس اور الٹر فلٹریشن کے ذریعے پانی مہیا کرتے ہیں۔ یہ فلٹریشن سینٹر جدید اور حساس سینسرز، کلائوڈ بیسڈ ریموٹ مانیٹرنگ سسٹم سے لیس ہیں جن کے ذریعے رئیل ٹائم بنیادوں پر پانی کے معیار اور مقدار کی نگرانی کی جاتی ہے، جس سے نہ صرف پانی کا کفایت بخش استعمال ممکن ہوتا ہے، بل کہ فلٹریشن کی لاگت (آپریشنل کاسٹ) بھی محدود رہتی ہے۔ سرجوال کے واٹر اے ٹی ایم ایک منفرد اور کام یاب آئیڈیا ثابت ہوا ہے، جس کے ذریعے پینے کے صاف پانی سے محروم علاقوں کے افراد انتہائی ارزاں قیمت پر صاف پانی حاصل کرتے ہیں۔ یہ اے ٹی ایم ہفتے میں سات روز چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں جن کی نگرانی جدید سینسرز سے کی جاتی ہے، تمام اے ٹی ایمز مرکزی نگرانی اور کنٹرول سسٹم سے منسلک ہیں۔

اے ٹی ایم پر نصب آلات رئیل ٹائم بنیادوں پر مرکزی کمانڈ سینٹر کو موبائل نیٹ ورک کے ذریعے اے ٹی ایم میں پانی کی مقدار سے مطلع کرتے رہتے ہیں۔ پانی کے اے ٹی ایم اور فلٹریشن سینٹر کسٹمائزڈ انٹرپرائز ریسورس پلان سسٹم سے منسلک ہیں۔ یہ نظام پانی کی دست یابی، پلانٹ اور اے ٹی ایم کی مرمت اور سپلائی چین آپریشنز کو جاری و ساری رکھتا ہے۔ ساتھ ہی پانی کے معیار اور استعمال کی گئی مقدار کا حساب بھی رکھتا ہے۔ اس پورے نظام کو چلانے کے لیے ایک مربوط نیٹ ورک قائم ہے جو موبائل نیٹ ورک پر مشتمل ہے۔ پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا یہ نظام مقامی افراد فرنچائزز کے تحت چلایا جاتا ہے۔ مقامی افراد اپنی کمیونٹی کے لیے ’’رسدکار یا منتظم رسد‘‘ کا کام کرتے ہیں، جب کہ سروجال واٹر فٹر پلانٹس اور اے ٹی ایم تیار کرنے کے ساتھ مرکزی نظام کے ذریعے واٹر اے ٹی ایم اور فلٹریشن پلانٹس سے پانی کی سپلائی کی مانیٹرنگ اور کنٹرول کا فریضہ انجام دیتا ہے۔

مقامی افراد پر مشتمل رسد کار یا منتظم رسد پانی حاصل کرنے والے کسٹمرز سے ریونیو وصول کرکے اس نظام کو جاری رکھتے ہیں اب تک یہ نظام راجستھان کے دیہی علاقوں میں 127فرنچائزز تک وسیع ہوچکا ہے، جس کے ذریعے 7ہزار سے زاید کسٹمرز ماہانہ 3ڈالر خرچ کرکے مہینے بھر کے لیے پینے کے صاف پانی کی ضرورت پوری کررہے ہیں۔ اے ٹی ایم سے پانی حاصل کرنے کے لیے فرنچائزز پری پیڈ کارڈ جاری کرتے ہیں جن میں ضرورت کے مطابق بیلنس لوڈ کیا جاسکتا ہے واٹر پری پیڈ کارڈز میں بیلنس موبائل فون کے ذریعے بھی لوڈ کیا جاسکتا ہے اس کے علاوہ اے ٹی ایم میں براہ راست سکے ڈال کر بھی مطلوبہ مقدار میں پانی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

واٹر اے ٹی ایم موبائل نیٹ ورک کے ذریعے سروجال کے مرکزی نیٹ ورک سے منسلک ہیں۔ اس لیے اے ٹی ایم سے پانی کے رسائو یا اے ٹی ایم میں فنی خرابی کے سبب پانی کی فراہمی رکنے پر فوری طور پر مرکزی کمانڈ سینٹر کو بذریعہ ایس ایم ایس اطلاع موصول ہوجاتی ہے، تاکہ متاثرہ اے ٹی ایم کی فوری مرمت کی جاسکے۔ یہ اے ٹی ایم پانی کی قلت والے علاقوں میں کم لاگت سے پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا اہم اور سستا ذریعہ ثابت ہورہے ہیں۔ سروجال کے اس منصوبے سے ثابت ہوتا ہے کہ کس طرح مسائل کے حل کے لیے انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی اور کمیونٹی کے اشتراک سے کاروباری مقاصد پورے کرتے ہوئے تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔ پاکستان میں بھی اس طرز پر کے منصوبے پانی سے محروم آبادیوں کو سیراب کرتے ہوئے کاروبار کے نئے مواقع مہیا کیے جاسکتے ہیں۔

افریقہ کے اسمارٹ ہینڈ پمپس:جدید انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی افریقہ کے پسماندہ ملکوں میں بھی پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور کفایت بخش استعمال کو ممکن بنارہے ہیں۔ اگرچہ انٹرنیشنل کمیونٹی کے تعاون سے افریقہ میں پینے کے پانی کی فراہمی میں 1990سے 2010کے دوران 10فی صد تک اضافہ ہوا ہے۔ پینے کے قابل پانی کا کوریج ایریا 56 فی صد سے بڑھ کر 66 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ تاہم اب بھی آبادی کا بڑا حصہ پینے کے صاف پانی سے محروم ہے AMCOWکی 2012کی رپورٹ کے مطابق افریقہ میں 115ملین افراد اب بھی سطح زمین پر موجود غیرمحفوظ اور آلودہ پانی پر گزربسر کررہے ہیں۔ افریقہ کے دیہی علاقوں کی صورت حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے جہاں زیرزمین پانی کو ہینڈ پمپس کے ذریعے کھینچ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ ہینڈ پمپس کثرت استعمال کے سبب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوکر ناکارہ ہوجاتے ہیں، جس سے متعلقہ آبادی کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

برطانوی ڈپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ کے تعاون سے آکسفورڈ یونیورسٹی نے ایک ریسرچ فار ڈیولپمنٹ پراجیکٹ کے طور پر افریقہ کے دیہی علاقوں میں اسمارٹ ہینڈ پمپس نصب کیے ہیں ۔ کینیا Kyusoڈسٹرکٹ میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر اسمارٹ ہینڈ پمپس کی تنصیب کا تجربہ انتہائی کام یاب رہا، جس کے بعد دیگر علاقوں میں بھی اس طریقے سے پینے کے صاف پانی کی سہولت مہیا کی جارہی ہے۔ یہ طریقہ دنیا کے دیگر ترقی پذیر ملکوں خود پاکستان میں بھی انتہائی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ یہ اسمارٹ ہینڈ پمپس بھی موبائل نیٹ ورک کے ذریعے پانی کے کفایت بخش استعمال کو یقینی بناتے ہیں، جس کے نتیجے میں واٹر سیکیوریٹی کے ساتھ ان علاقوں میں غربت اور بیماریوں میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

کینیا کے جس ڈسٹرکٹ میں یہ منصوبہ شروع کیا گیا، اس علاقے کا شمار فی کس آمدن کے لحاظ سے انتہائی پست آمدن والے علاقوں میں کیا جاتا ہے، جہاں فی کس آمدنی ایک ڈالر کی خط غربت سے کافی کم ہے۔ اس علاقے میں پائلٹ پراجیکٹ کے آغاز سے قبل کیے گئے سروے میں 1/6ہینڈ پمپس ناکارہ اور ناقابل استعمال پائے گئے۔ ہینڈ پمپس کی خرابی کے سبب مقامی افراد کو پانی کے حصول میں گھنٹوں طویل قطار میں لگ کر پانی حاصل کرنا پڑتا اور کثرت استعمال کے سبب ہینڈ پمپس کی خرابی کی شکایات بھی بڑھ جاتیں۔ اس علاقے میں پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر اس ڈسٹرکٹ کے 70دیہات میں ہینڈ پمپس کے ہینڈلز میں واٹر پوائنٹ ڈیٹا ٹرانسمیٹر (WDT)نصب کردیے گئے، جو ہینڈ پمپس کی حرکت کے ساتھ پانی کی مقدار کا گھنٹہ وار ریکارڈ ایس ایم ایس کے ذریعے مرکزی سسٹم کو مہیا کرتے ہیں۔

اس سسٹم کے ذریعے ہینڈ پمپس کی کارکردگی اور پانی کی مقدار کی ریئل ٹائم بنیادوں پر نگرانی ممکن ہوگئی اور کسی خرابی کی صورت میں فوری طور پر ہینڈ پمپ کی مرمت اور درستی کا کام کیا جانے لگا۔ تمام ہینڈ پمپس کو ایک مرکزی ڈیٹا بیس سے بھی منسلک کردیا گیا ایک آسان یوزر انٹرفیس کی مدد سے انفرادی طور پر پانی کے استعمال کا ڈیٹا مرتب کرنا ممکن ہوگیا۔ اس طرح ان علاقوں میں نصب ہینڈ پمپس کی مدد سے پانی کے استعمال کے پیٹرن جمع کرکے گراف کی شکل میں تخمینے مرتب کرنے میں آسانی ہوگئی۔ یہ تخمینے مقامی آبادی کے لیے پانی کی ضرورت اور کفایت بخش استعمال کے لیے انتہائی معاون ثابت ہوئے۔

٭یوگنڈا میں موبائل فون کے ذریعے موسمیاتی معلومات حاصل کرنے کا نظام:  موبائل نیٹ ورک اور جدید کمیونی کیشن سہولیات موسم کی سختیوں سے مقابلہ کرنے اور موسمیاتی تبدیلی کی پیشگی اطلاعات کی فراہمی کے لیے بھی انتہائی معاون ثابت ہورہی ہیں۔ بالخصوص افریقہ جیسے خطے میں جہاں انسان کی بقا کا زیادہ تر انحصار فطرت پر ہوتا ہے، بارشوں کی آمد، تیز ہوائیں، طوفان اور سخت گرمی کے نتیجے میں ممکنہ خشک سالی جیسے چیلینجز سے پیشگی مطلع ہونے کی صورت میں ان چیلینجز سے نمٹنے یا نقصان کو کم سے کم رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ایسا ہی ایک نظام افریقہ کے ملک یوگنڈا میں وضع کیا گیا، جسے ورلڈ میٹرلاجیکل آرگنائزیشن، ناروے اور ورلڈ بینک کی سپورٹ حاصل تھی۔ اس منصوبے کا مقصد مقامی افراد کو موبائل فون کے ذریعے موسم اور کلائمٹ سے متعلق فوری اطلاعات فراہم کرنا تھا۔

اس منصوبے کے تحت یوگنڈا کے Kasese ڈسٹرکٹ کے کاشت کاروں اور جھیل وکٹوریہ کے ماہی گیروں کو موسم سے متعلق معلومات اور ان کے فیڈ بیک وصول کرکے کمیونٹی کو موسمیاتی تغیر سے آگاہ رکھنے کا پائلٹ پراجیکٹ متعارف کرایا گیا۔ یہ پراجیکٹ بھی اپنے نتائج کے لحاظ سے انتہائی کارگر رہا۔ وکٹوریا جھیل کا شمار دنیا کی بڑی جھیلوں میں ہوتا ہے۔ یہ جھیل کینیا، تنزانیہ اور یوگنڈا کی سرحدوں کو چھوتی ہے اور افریقہ کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ اس جھیل سے سالانہ 8لاکھ ٹن سے زاید مچھلیاں پکڑی جاتی ہیں۔ 35 لاکھ افراد کا روزگار اور گزربسر اس جھیل سے وابستہ ہے۔ اپنی وسعت کی وجہ سے اس جھیل کا اپنا ایکو سسٹم ہے، جہاں موسم کسی بھی وقت خوف ناک مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔

ورلڈ میٹرلاجیکل آرگنائزیشن کی 2012کی رپورٹ کے مطابق اس جھیل میں اٹھنے والے طوفانوں کے سبب ہر سال 5ہزار سے زاید ماہی گیر لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ ماہی گیروں کو موسم میں تبدیلی سے متعلق فوری اور پیشگی معلومات کی فراہمی سے حادثات اور شرح اموات میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے متعارف کرائے گئے اس نظام کے تحت مقامی کمیونٹی سے حاصل شدہ معلومات جدید سیٹلائٹ سے حاصل شدہ موسمیاتی پیشن گوئیاں اور موبائل ٹیکنالوجی کو یکجا کرکے موسمیاتی الرٹ انفارمیشن جاری کی جاتی ہیں۔ اس نظام کے ذریعے رنگوں کے کوڈز پر مشتمل وارننگ جاری کی جاتی ہے اور مختلف علاقوں میں تیز ہوائوں طوفان بارش اور اونچی لہروں کی نشان دہی رنگوں کے ذریعے کی جاتی ہے، جسے ناخواندہ افراد کے لیے بھی سمجھنا آسان ہے۔ یہ معلومات بلامعاوضہ فراہم کی جاتی ہیں۔

معلومات کے حصول کے لیے کوئی بھی ماہی گیر خود کو اپنے موبائل فون کے ذریعے رجسٹرڈ کراسکتا ہے۔ رجسٹرڈ ماہی گیروں کو معلومات مقامی زبان میں بذریعہ ایس ایم ایس فراہم کی جاتی ہیں اور ماہی گیر شکار پر جانے سے قبل موسم کی صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے سفر کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ یہ سروس گذشتہ تین سال سے جاری ہے اور اب تک ہزاروں ماہی گیر اس سروس سے مستفید ہونے کے لیے رجسٹرڈ ہوچکے ہیں۔

٭ترقی یافتہ ملکوں میں اسمارٹ واٹر منیجمنٹ:جدید انفارمیشن اور کمیونی کیشن ٹیکنالوجی پسماندہ خطوں کے ساتھ جدید بڑے شہروں میں پانی کے کفایت بخش اور محفوظ استعمال کو یقینی بنانے میں بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔ سنگاپور میں پانی کی فراہمی کا پورا نظام ’’واٹر وائز‘‘ جدی آئی سی ٹی ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے۔ شہر کے قدیم انفرااسٹرکچر کے ساتھ پانی کا رسائو اس شہر کے منتظمین کے لیے ایک بڑا چیلینج تھا۔ عالمی معیشت میں اہم کردار ادا کرنے والا یہ شہر پانی کی فراہمی کی کسی پائپ لائن سے بڑے اخراج پائپ لائن پھٹنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ پرانے انفرااسٹرکچر کے ذریعے اس شہر کے مکینوں کے لیے پانی کی بلا تعطل اور محفوظ طریقے سے فراہمی کے لیے 2008 میں ایک جدید نظام وائرلیس واٹر سینٹینل (WaterWiSe) بطور پائلٹ پراجیکٹ متعارف کرایا گیا۔

سنگاپور کے نیشنل ریسرچ فائونڈیشن کا یہ منصوبہ سنگاپور کا پبلک یوٹلیٹی بورڈ، سنگاپور کا سینٹر فار انوائرمنٹل سیسنگ اینڈ ماڈلنگ، سنگاپور ایم آئی ٹی الائنس فار ریسرچ اینڈ ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس سسٹم سینٹر اور اسکول آف کمپیوٹر انجینئرنگ، نان یانگ ٹیکنالوجی یونیورسٹی نے مل کر تشکیل دیا۔ کلائوڈ بیسڈ یہ نظام پانی کی تقسیم کی ریئل ٹائم بنیادوں پر نگرانی کرتا ہے۔ یہ نظام منیجمنٹ اور انالیسس کے انٹرفیس کے ذریعے خودکار طریقے سے کام کرتا ہے۔ اس نظام کو واٹر یوٹلیٹی کے پہلے سے موجود جی آئی ایس پلیٹ فارم سے منسلک کیا گیا ہے۔ یہ نظام پانی کے ڈسٹری بیوشن سسٹم میں جگہ جگہ نصب کردہ وائرلیس سینسرز کے ذریعے پانی کی تقسیم کے ساتھ پانی کے معیار کا ڈیٹا مرتب کرتا ہے۔

پانی کی تقسیم کے ساتھ بہائو کی رفتار اور پریشر اور پانی کے معیار سے متعلق پی ایچ ویلیو اور ORPکنڈکٹیویٹی کا بھی ریئل ٹائم بنیادوں پر جائزہ لیتے ہوئے مرکزی نظام کو ڈیٹا فراہم کرتا ہے۔ اس ڈیٹا منیجمنٹ اور ٹرانسمیشن کے ساتھ الیکٹرانک الرٹ سسٹم اور فیصلہ سازی کے لیے سپورٹ ٹوٹ موڈیول بھی WaterWiSe کا حصہ ہیں۔ پانی کی فراہمی رکنے، رسائو یا بھاری اخراج کے علاوہ پانی کی کمیت میں کمی بیشی کی صورت میں وارننگ سسٹم حرکت میں آتا ہے۔ اس نظام کی خاص بات یہ ہے کہ یہ نظام لاگت کے لحاظ سے کم اور کارکردگی کے لحاظ سے بہترین ہے اس نظام میں کم قیمت وائر لیس سینسرز استعمال کیے گئے، سینسرز کو موبائل نیٹ ورک سے منسلک کیا گیا۔ ریئل ٹائم بنیادوں پر پانی کے بہائو کی رفتار اور پریشر کے ساتھ پانی کے معیار کی بھی نگرانی کی گئی۔ اس طرح ایک بین الاقوامی شہر میں پانی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے انفارمیشن کمیونی کیشن ٹیکنالوجی کو انتہائی موثر انداز میں بروئے کار لایا گیا۔

٭ریاست ہائے متحدہ امریکا، انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی کا واٹر سیکیوریٹی اقدام : واٹر سیکیوریٹی کے لیے پانی کی دست یابی کے ساتھ مقدار اور معیار کو برقرار رکھنا بھی بہت ضروری ہے، پانی کی تقسیم کے نظام کی موثر نگرانی اور کنٹرول کے ذریعے پانی میں کسی قسم کی بیماری یا وبائی امراض کے وائرس، حادثے یا دہشت گردی کے حملے کی روک تھام بھی ممکن ہے۔ ان ہی مقاصد کو پورا کرنے کے لیے امریکا کی انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی سخت اصول و ضوابط پر کاربند ہے۔ امریکا کی ہوم لینڈ سیکیوریٹی صدارتی احکامات نمبر 9کے تحت بھی پانی کی تقسیم کے نظام کو محفوظ بنانے پر زور دیا گیا ہے امریکا کا واٹر سیکیوریٹی سسٹم ایک مکمل اور مربوط سسٹم ہے، جس کے تحت آن لائن واٹر کوالٹی مانیٹرنگ، صارف شکایات، نگرانی، پبلک ہیلتھ سرویلنس، معمول کی سیمپلنگ اور تجزیہ سمیت سیکیوریٹی مقاصد کے لیے نگرانی شامل ہے۔

امریکا کا واٹر سیکیوریٹی نظام تین مراحل پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلہ پانی میں مضر اجزا کی آمیزش کے لیے وارننگ سسٹم کے تصوراتی ڈیزائن سے متعلق ہے۔ اس مرحلے میں صحت عامہ اور اس سے متعلق معاشی نقصانات سے بچنے کے لیے کسی قسم کی آلودگی یا مضر اجزا کی آمیزش کی بروقت نشان دہی اور فوری رسپانس کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ دوسرا مرحلہ ٹیسٹنگ اور ویلی ڈیشن سے متعلق ہے۔ اس مرحلے میں پینے کے پانی کی سہولتوں اور میونسپلٹیز میں نصب پائلٹ سے ملنے والی وارننگ کی بنیاد پر ڈیزائن کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے، تیسرے مرحلے پر کام جاری ہے جس کے تحت قومی سطح پر پینے کے پانی کو محفوظ بنانے کے لیے رضاکارانہ وارننگ سسٹم کی تشکیل کے لیے پریکٹیکل گائڈینس ڈیولپ کی جارہی ہیں۔

تھری جی ٹیکنالوجی اور پاکستان میں پانی کی صورت حال:

پاکستان کا شمار پانی کی کمی کا شکار ملکوں میں کیا جاتا ہے، جہاں 90 فی صد دست یاب پانی زراعت کے لیے استعمال ہوتا ہے اور پینے کے لیے صرف 10فی صد پانی مہیا ہوتا ہے۔ پاکستان میں صاف پانی کو ذخیرہ کرنے کی گنجائش بھی انتہائی کم ہے۔ عمومی طور پر کسی ملک میں 120روز تک کی ضرورت کا پانی اسٹور کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ پاکستان میں پانی کی اسٹوریج کی گنجائش عالمی اوسط 40فی صد کے مقابلے میں صرف 9فی صد ہے۔ پاکستان کے دریائوں سندھ، جہلم، چناب سے پانی کا بہائو 135ملین ایکڑ فٹ ہے، جس میں سے بہت ہی قلیل مقدار ذخیرہ کی جاتی ہے۔ پاکستان میں 100روز کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے، جب کہ بھارت اپنی 120روز کی ضرورت کا پانی ذخیرہ کرسکتا ہے۔ امریکا میں یہ گنجائش 900روز، آسٹریلیا میں 600 روز اور جنوبی افریقہ میں 500 روز ہے۔

دنیا کے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک مستقبل کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پانی کی نئی ذخیرہ گاہیں تعمیر کررہے ہیں، چین میں 95 بڑے ڈیم تعمیر کیے جارہے ہیں۔ ترکی میں 51، ایران میں 48، جاپان میں 40 اور پڑوسی ملک بھارت میں 10بڑے ڈیم زیرتعمیر ہیں۔ پاکستان میں قابل استعمال پانی کی فی کس دست یابی بھی تیزی سے کم ہورہی ہے۔ پاکستان میں پانی کی دست یابی تیزی سے محدود ہورہی ہے۔ قیام پاکستان سے 2013 تک پانی کی دست یابی میں 400 فی صد تک کمی ہوچکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت 34 ملین آبادی کے لیے 5260کیوبک میٹر پانی دست یاب تھا، جو 2013 تک کم ہوکر 1038کیوبک میٹرز تک آچکا ہے۔ سطح پانی کی قلت کی حد سمجھی جاتی ہے۔ ایک ہزار کیوسک فی کس سے کم پانی کی دست یابی والے ملکوں کو پانی کی قلت کا شکار ملک قرار دیا جاتا ہے۔

پاکستان میں تیزی سے بڑھتی آبادی دوسری جانب موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے پانی کی قلت روز بہ روز بڑھ رہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ملک کی ایک تہائی آبادی محفوظ اور صاف پینے کے پانی سے محروم ہے اور آلودہ پانی کے استعمال سے یومیہ 630بچے ڈائریا کا شکار ہورہے ہیں۔ پاکستان کی آبادی میں سالانہ 3 فی صد تک اضافہ ہورہا ہے، یعنی ہر سال 40لاکھ افراد کے لیے پینے کے صاف پانی کی ضرورت بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی معیشت کا تمام تردارومدار پانی پر ہے اور حیرت انگیز طور پر پاکستان میں پانی کی دست یابی کا زیادہ انحصار پڑوسی ملکوں سے آنے والے دریائوں پر کیا جاتا ہے۔ دریائوں میں پانی کی سطح کم ہونے کے سبب سمندر تیزی سے قابل کاشت اراضی کو ہڑپ کررہا ہے سالانہ 100کلو میٹر قابل کاشت رقبہ سمندر کے پانی کی وجہ سے ناکارہ ہورہا ہے۔

پاکستان میں آبی ذخیرہ گاہیں نہ ہونے کے سبب سمندر میں گر کر ضایع ہونے والے پانی کی اکنامک ویلیو 45 سے 60 ارب ڈالر لگائی گئی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار اور ماہرین کی رائے کے مطابق پاکستان میں سمندر کی نذر ہونے والے پانی سے معیشت کو 60ارب ڈالر تک کا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پاکستان میں اوپر تلے ڈیمز اور بجلی گھر بناکر متعدد بار بجلی حاصل کی جاسکتی ہے۔ ضایع ہونے والے پانی سے زراعت اور صنعت کو فیض یاب کرکے ملک و قوم کی قسمت بدلی جاسکتی ہے۔ کوٹری بیراج سے بہہ کر سالانہ 30.35 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر میں گر رہا ہے۔ ایک ملین ایکڑ فٹ پانی کی معاشی قیمت 2ارب ڈالر ہے۔ پاکستان ایک ملین ایکڑ فٹ پانی سے ایک سے ڈیڑھ ارب ڈالر کا معاشی فائدہ اٹھاسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں 70کی دہائی کے بعد سے بڑے ڈیمز تعمیر نہ کیے جانے سے اب تک 43سال کے دوران مجموعی طور پر 1426 ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہوچکا ہے، جس کی معاشی قیمت 2140 ارب ڈالر ہے۔ یعنی 43 سال کے دوران پاکستان نے 2140 ارب ڈالر مالیت کا پانی ضایع کردیا ہے (ایک ملین ایکڑ فٹ مساوی 1.5ارب ڈالر)۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک اپنے جائزوں میں پاکستان میں پانی کی دست یابی کے مستقبل کو تشویش ناک قرار دے چکے ہیں۔

عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پانی کی کمی کے لیے موثر اقدامات نہ کیے گئے تو پانی کی کمی زراعت اور صنعت کو بری طرح متاثر کرے گی، جس سے زرعی و صنعتی پیداوار، برآمدات میں کمی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ پاکستان میں پانی کی کمی اور آبی ذخیرہ گاہیں نہ ہونے سے زراعت کو سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ زرعی معیشت ہونے کے باوجود پاکستان کو گندم، چینی، کپاس درآمد کرنا پڑیں۔ پاکستان کا شمار دریائوں کا پانی ضایع کرنے والے سرفہرست ملکوں میں کیا جاتا ہے، جہاں دریا کا 35 فی صد پانی استعمال ہوتا ہے اور 65 فی صد تک پانی ضایع ہوجاتا ہے۔ درحقیقت یہ زراعت اور صنعت کا وہ نقصان ہے جسے ویلیو ایڈیشن کے ذریعے کئی گنا فائدے میں بدلا جاسکتا ہے۔

ہم اگر تھری جی ٹیکنالوجی کے ذریعے ’’اسمارٹ واٹر مینیجمینٹ‘‘ ممکن بنائیں تو پاکستان میں پانی کاضیاع روکا جاسکتا ہے اور قدرت کی اس نعمت سے بھرپور فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔

کہیں دیر نہ ہو جائے

$
0
0

بھوک بڑی خوفناک ہوتی ہے یہ انسان کو انسانیت کی حدود  سے بھی باہر نکال دیتی ہے اور اسے ایسے گھناؤنے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے جس کے بارے میں وہ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے سوچ بھی نہیں سکتا۔

ایسے مہم جو افراد جو بے سرو سامانی کی حالت میں کسی مشکل میں پھنس گئے، جب ان میں سے چند بھوک کی اذیت سے دوچار ہو کر اپنی جان سے گزر گئے تو زندہ بچ جانے والوں نے بھوک کی اذیت ناک موت سے بچنے کے لئے اپنے ہی عزیز ساتھیوں کی لاشوں کو کاٹ کھایا، ان افراد  نے اپنی آپ بیتیوں میں اس کا اعتراف کیا ہے کہ  ان کی یہ درندگی بھوک کی وجہ سے تھی جو انھیں آہستہ آہستہ موت کے منہ میں دھکیل رہی تھی۔ اس طرح کا ایک واقعہ 1972ء میں ایک پائلٹ مارٹن ہارٹ ویل کے ساتھ پیش آیا جب اس کا جہاز شمال مغربی کینیڈا کے ایک علاقے میں گر گیا ، جہاز میں تین مسافر تھے جو جاں بحق ہو گئے، ایک مہینے کے بعد جب ریسکیو ٹیم انھیں تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچی تومارٹن زندہ تھا جو جہاز میں موجود سامان کے ختم ہونے پر مرنے والوں کا گوشت کھا کر خود کو زندہ رکھے ہوئے تھا۔ دنیا میں ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں ماں باپ نے اپنے بچوں کو بھوک سے بچانے کے لئے فروخت کردیا ۔

بھوک و افلاس کی اسی خوفناکی کی وجہ سے دنیا کے تمام مذاہب میں بھوکے کو کھانا کھلانے کا حکم دیا گیا ہے  تاکہ وہ کسی گھنائونے جرم میں مبتلا ہونے یا پھر انتہائی اقدام سے باز رہے ۔ دوسرے خلیفہ راشد حضرت عمرؓ کا فرمان ہے’’ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اے عمرؓ قیامت کے روز تجھ سے اس بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘حضرت عمرؓ کا  یہ معمول تھا کہ وہ رات کو بھیس بدل کر شہرکا گشت کیا کرتے تھے تاکہ عوام کے حال سے واقف ہو سکیں۔ دوسری طرف پاکستان کے حکمران ہیں جنھیں عوام تو ایک طرف رہے اپنے پڑوسیوں تک کے حالات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ کس حال میں ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں عوام مہنگائی ، بیروزگاری، ناانصافی اور دیگر مسائل کی وجہ سے بہت تنگ تھے اور آئے روز خود کشیوں کے واقعات پیش آتے رہتے تھے، ایک رپورٹ کے مطابق 2000ء سے 2012ء تک 32762 افراد نے خود کشی کی، مدد گار نیشنل ہیلپ لائن کے مطابق جنوری 2012 سے جون 2012 تک یعنی صرف چھ مہینے میں 751 افراد نے خود کشی کی۔

خود کشی کرنے والوں  میں سے نصف افراد نے بیروزگاری اور مہنگائی کے ہاتھوں تنگ آ کر اپنی زندگی کا خاتمہ کیا ۔ حالیہ الیکشن میں عوام نے اس توقع کے ساتھ ووٹ دئیے کہ نئی حکومت ایسے اقدامات کرے جن سے ملک کے معاشی حالات بہتر اور روزگار کے وسیع مواقع میسر ہوں، مہنگائی میں کمی ہو اور عام آدمی عزت سے دووقت کی روٹی حاصل کر سکے۔ مگر ہوا اس کے بالکل برعکس، حکومت کے تمام تر دعوے اس وقت غلط ثابت ہوگئے جب جون میں بجٹ پیش کیا گیا جس میں عوام کو ریلیف دینے کا کوئی خاص بندوبست نہیں کیا گیا تھا ، پھر ملک چلانے کے بہانے آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے قرضے حاصل کئے گئے، یوں ملک میں مہنگائی کی شرح میں بے تحاشا اضافہ  ہوا اور بیروزگاری کی صورتحال ویسی ہی رہی جس سے عام آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی حاصل کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔

اگر حکومت کے نو ماہ کا جائزہ لیا جائے تو  پتہ چلتا ہے کہ جون 2013  میں مہنگائی کی شرح 5.85فیصد تھی جو  بتدریج بڑھتی ہوئی نومبر میں 10.9فیصد ہو گئی اس کے بعد حکومت کو تھوڑا ہوش آیا اور مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوششیں کی گئیں مگر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق فروری میں شرح آٹھ فیصد سے کم نہ ہو سکی ۔کنزیومر رائٹس فورم  والوں کا کہنا ہے کہ حکومت مہنگائی کی شرح کو کم کر کے دکھا رہی ہے جبکہ مہنگائی کی شرح میں اصل اضافہ سولہ فیصد کے قریب ہے ۔

دوسری طرف مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا اور عدالتیں بھی عوام کو خاطر خواہ ریلیف فراہم نہ کرسکیں۔ اس ساری صورتحال میں مظفر گڑھ اور لالیاں میں زیادتی کی شکار خواتین کی طرف سے خودسوزی جیسے افسوسناک واقعات پیش آئے، جنھوں نے انصاف نہ ملنے پر احتجاجاً خود کو آگ لگا لی ۔ اسی طرح مہنگائی اور بیروزگاری سے تنگ لاہور کی ایک خاتون نے اپنے دوبچوں کو اپنے ہی ہاتھوں موت کے گھاٹ اتار دیا اس کا کہنا تھا کہ اس کے بچے تین دن سے بھوکے تھے جبکہ اس کا خاوند بیروزگار اور نشے کا عادی تھا اور خاندان کے دوسرے افراد نے بھی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا تھا، یوں ایک ماں بچوں کی بھوک برداشت نہ کر سکی اور انھیں ابدی نیند سلا دیا۔

اسی طرح  ایک خاتون نے انصاف نہ ملنے پر لاہور میں وزیر اعلیٰ ہاوس کے سامنے خود کو آگ لگا لی، اس کا کہنا تھا کہ اس کے دیوروں نے اسے خاندان سمیت گھر سے نکال دیا جبکہ اس کا شوہر بھی بیروزگار ہے مگر اسے کہیں سے انصاف نہیں مل سکا اور اسے وزیر اعلیٰ پنجاب سے بھی ملنے نہیں دیا جارہا تھا اس لئے وہ احتجاجاً خود سوزی پر مجبور ہو گئی۔ لاہور کے علاقے سنگھ پورہ کے رہائشی مزدور رشید نے بے روزگاری  سے تنگ آ کر زہریلی گولیاں کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیا جبکہ شمالی چھائونی میں رکشہ ڈرائیور جاوید نے غربت سے تنگ آ کر اپنی بیوی اور بچے کو قتل کر کے خود کشی کی کوشش کی۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹائون اور گلشن اقبال میں خود کشیوں کے دو واقعات پیش آئے۔ بلدیہ ٹائون میں افضل نامی شخص نے بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر بیوی سمیت خود کشی کر لی ، گلشن اقبال میں مچھلی فروش تمیز الدین نے غربت سے تنگ آ کر بیوی اور بچے کو موت کی نیند سلا کر پھانسی لے لی۔ یہ تمام سانحے مارچ کے  مہینے میں پیش آئے جنھیں میڈیا نے پیش کیا مگر ایسے بہت سے سانحات ہیں جو میڈیا تک پہنچتے ہی نہیں ، اسی لئے انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ بھوک، افلاس ، مہنگائی، بیروزگاری اور ناانصافی کی وجہ سے ہونے والی اموات اور خودکشیوں کی شرح اس سے کہیں زیادہ ہے جو پیش کی جاتی ہے ۔

مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے عام آدمی کے لئے دووقت کی روٹی حاصل کرنا کتنا مشکل ہو چکا ہے اس کا اندازہ فی سبیل اللہ چلنے والے دسترخوانوں اور لنگر خانوں سے بھی لگایا جا سکتا ہے جہاں پر رش بڑھتا ہی جا رہا ہے ، اب وہاں صرف غریب یا مزدور طبقہ ہی نہیں سفید پوش افراد بھی لائن میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ بہت سی خواتین بچوں سمیت کھانے کے لئے وہاں پہنچی ہوتی ہیں۔ اگر یہ فی سبیل اللہ دسترخوان نہ ہوں تو خود اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہزاروںافراد جو روزانہ یہاں سے کھانا حاصل کرتے ہیں کن حالات سے دوچار ہو سکتے ہیں ۔

دوسری طرف جب حکومت کی طرف سے عوام کی کھال اتارنے یعنی ٹیکسوں کے نفاذ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں چھوڑا جس پر ٹیکس نہ لگایا ہو، تاہم سرمایہ دار اپنے مخصوص ہتھکنڈوں کی وجہ سے بہت کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ انسان کے پیدا ہونے سے لے کر موت تک ہر فرد ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے کیونکہ جنرل سیلز ٹیکس، ٹال ٹیکس اور ایسے ہی دوسرے ٹیکس بظاہر سرمایہ دار ادا  کرتے  ہیں مگر ان کا اصل بوجھ عوام ہی پر پڑتا ہے، اسی طرح بجلی ، پانی اور گیس  کی قیمتوں میں آئے روز کیا جانے والا اضافہ بھی عام آدمی کے لئے سوہان روح ہے۔

کنزیومرز رائٹس فورم کے چیر مین محمد حنیف گورائیہ نے بھوک، افلاس اور ناانصافی کی وجہ سے کی جانے والی خود کشیوں اور ان کی وجوہات کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ’’یہ بڑا حساس مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں ابھی تک طبقاتی نظام موجود ہے، حکمران طبقہ صرف بارہ سے تیرہ فیصد ہے جبکہ 80فیصد عوام غربت کی لپیٹ میں آ چکے ہیں، ان میں 70فیصد ایسے ہیں جن کو فوڈ سکیورٹی کے مسئلے کا سامنا ہے، ان کی آمدن کا 80 فیصد خوراک کے حصول اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی میں خرچ ہو جاتا ہے ۔ حکومت نے جس طرح سے مہنگائی بڑھائی ہے اس میں ہر خاندان کی آمدنی کم سے کم پچیس سے تیس ہزار روپے ہونی چاہیے، اگر اس خاندان کا مکان اپنا ہو تو اس کا گزارہ ہو سکتا ہے۔ پرائیویٹ سیکٹر کی طرف نظر دورائیں تو پتہ چلتا ہے کہ اب بھی بہت سے افراد کی ماہانہ آمدن چھ سے سات ہزار روپے ہے، جو بے چارے بیروزگار ہیں ان کی تو ہم بات ہی نہیں کرتے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 58فیصد آبادی کی روزانہ آمدن ایک ڈالر فی کس ہے جبکہ 22فیصد افراد کی روزانہ آمدن دو ڈالر فی کس ہے، جہاں یہ صورتحال ہو گی وہاں جرائم کی شرح میں لازمی اضافہ ہو گا، ناانصافی ہو گی ، ڈرگ ایڈکشن بڑھے گی، لوگ نفسیاتی مریض بن جائیں گے، جو لوگ زیادہ حساس ہوتے ہیں وہ اس دبائوکو برداشت نہیں کر پاتے جس کا نتیجہ خودکشی اور اپنے پیاروں کو اپنے ہاتھوں سے قتل کر دینے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آئینی طور پر حکومت ہر شہری کو فوڈ سکیورٹی فراہم کرنے کی پابند ہے ، حکومت کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے ایسے اقدامات کرنا چاہئیں کہ ہر خاندان کی اتنی آمدن ہو کہ اس کا گزارہ ہو سکے، یا پھر غریبوں کے ریلیف کے لئے اقدامات کرنا چاہئیں، انھیں اشیاء پر سبسڈی دینا ہو گی۔ موجودہ حکومت کے دور میں مہنگائی میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے غربت اور افلاس بھی بڑھی ہے ، حکومت کو غربت میں کمی کے لئے بھرپور اقدامات کرنا ہوں گے۔ ‘‘

حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں اس ڈھول کا پول ایشیائی بینک کی ایک رپورٹ نے کھول کر رکھ دیا ہے جس کے مطابق  رواں سال جنوبی ایشیائی ممالک میں پاکستان کی شرح نمو سب سے کم یعنی 3.4فیصد متوقع ہے جو افغانستان اور نیپال سے بھی کم ہے۔ اسی طرح سال کے آخر تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں نو فیصد اضافے کا خدشہ ہے۔ ان حالات کی وجہ سے عوام میں حکومت کے خلاف غم وغصہ اور نفرت بڑھ رہی ہے ، وہ لوگ جو غربت اور ناانٖصافی سے تنگ آ کر ہمت ہار جاتے ہیں وہ خود کشی کی راہ اپناتے ہیں باقی ماندہ یا تو برداشت کرتے ہیں یا پھرجرائم کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، تاہم ابھی تک عوام کے غم و غصہ کا رخ ملک کے حکمرانوں اور اشرافیہ کی طرف نہیں ہوا ، اگر اسی نفرت نے حکومتی ایوانوں کا رخ کر لیا تو غضب ہو جائے گا ، حکمرانوں کو سب ٹھیک ہے کی رپورٹ دینے  کی بجائے عملاً سب ٹھیک کرنا ہو گا ورنہ بہت دیر ہو جائے گی۔

Nivkhs لوگ: کیا یہ ریچھ کی نسل سے ہیں؟

$
0
0

Nivkhs روس کا ایک غیرمعمولی اور قدیم قبیلہ ہے جس کے لوگ اس وقت روسی علاقے Sakhalin میں آباد ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ کسی زمانے میں bear-humans کہلاتے تھے اور پہاڑوں پر رہتے تھے۔ ان لوگوں کے بارے میں مشہور تھا کہ ریچھ ان کے جد امجد ہیں۔ انہوں نے اپنے ریچھ بچوں کو تربیت حاصل کرنے Nivkhs لوگوں کے پاس بھیجا تھا جنہوں نے دل و جان سے ان بچوں کی نگہ داشت کی جس کے نتیجے میں وہ مہذب انسان بن گئے تھے۔

ان لوگوں کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ اگر کوئی انسان کسی ریچھ کو ماردیتا ہے تو مارنے والا خود ریچھ بن جاتا ہے۔ وہ مرتا نہیں، بلکہ ریچھ بن کر پہاڑوں میں چلا جاتا ہے۔ چناں چہ اس مرنے والے کو ایک مقدس جانور کی حیثیت سے دفن کردیا جاتا تھا۔

٭پیشہ: Nivkhs لوگ شروع ہی سے سخت اور مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔ انہیں پیٹ بھرنے کے لیے دن رات جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ان کی اپنی اصل تہذیب و ثقافت اور رسومات لگ بھگ مٹ چکی ہیں۔ یہ لوگ بنیادی طور پر شکاری اور ماہی گیر ہیں اور کتے پالتے ہیں۔ یہ نیم خانہ بدوش لوگ موسم گرما میں ساحلوں کے قریب اور موسم سرما میں جھیلوں اور دریائوں کے کنارے رہتے ہیں اور سالمن مچھلی پکڑکر گزر بسر کرتے ہیں۔ کسی زمانے میں یہ لوگ آزادانہ زندگی گزارتے تھے، مگر جب دوسرے خطوں کے لوگ ان کے علاقے میں آنا شروع ہوئے تو یہ شدید متاثر ہوئے۔

ان پر پہلی یلغار  Tungusic لوگوں نے کی تھی۔ بعد میں چین کے Qingعہد میں ان بے چاروں کو خراج بھی دینا پڑا۔ اس کے بعد 1850-60اور انیسویں صدی میں روسیوں نے Nivkh کی زمینوں کو اپنی نوآبادی بنالیا جہاں آج یہ لوگ ایسی اقلیت بنے ہوئے ہیں جو ہر طرح کی سہولت سے محروم ہے۔ آج ان پر روسی رنگ غالب دکھائی دیتا ہے۔ یہ روسیوں کی طرح رہتے ہیں، انہی جیسی خوراک کھاتے ہیں اور انہی کے کلچر کو اپنائے ہوئے ہیں۔ Nivkhلوگ شامان ازم کے پیروکار ہیں، لیکن بعض عیسائیت اختیار کرچکے ہیں۔

٭آبادی:روسی جمہوریہ کی 2002کی مردم شماری کے مطابق Nivkh لوگوں کی آبادی صرف 5287افراد پر مشتمل ہے، جن میں سے اکثر روسی بولتے ہیں جب کہ لگ بھگ 10فی صد اپنی قدیم Nivkh زبان بولتے ہیں۔ Nivkh وہ بدنصیب قوم ہے جسے شروع ہی سے چیچک، طاعون اور انفلوئنزا جیسی قدرتی آفات اور بیماریوں نے گھیرے رکھا۔ یہ بیماریاں ان تک غیرملکی لوگ اور اقوام لائی تھیں۔

٭بیئر فیسٹیول یا ریچھ کا تہوار:1903کے قریب Nivkh لوگوں نے بیئر فیسٹیول منانا شروع کیا۔ اس موقع پر ان کے مذہبی پیشوا شامان نے اس تہوار کی قیادت کی۔ یہ ایک روایتی تہوار ہے جو جنوری اور فروری کے درمیان منایا جاتا ہے۔ اس کے لیے مقامی عورتیں کئی برس پہلے متعدد ریچھ پکڑکر اپنے جانوروں کے تھان پر لے گئی تھیں اور ان کی پرورش اور نگہ داشت اس طرح کی جیسے ریچھوں کے یہ بچے ان کے اپنے بچے ہوں۔ Nivkh قبیلے میں ریچھ کو مقدس حیثیت حاصل ہے۔ وہ اسے زمین پر اپنے آباو اجداد کا نمائندہ سمجھتے ہیں اور اس کی پوجا کرتے ہیں۔

بیئر فیسٹیول کے دوران ریچھ کو خصوصی طور پر تیار کیا جاتا ہے، اسے خاص لباس پہنایا جاتا ہے اور اس کی خدمت میں گل دستہ پیش کیا جاتا ہے، تاکہ جب یہ ریچھ دوسری دنیا میں جائے تو Nivkh لوگوں کی طرف سے دیوتائوں کی خدمت میں عقیدت کے پھول پیش کرسکے۔ تحفے اور گل دستے پیش کرنے کے بعد ریچھ کو ماردیا جاتا ہے اور اس کا گوشت بڑی عقیدت کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔

اکثر اس تہوار میں کتے کی بھی بھینٹ دی جاتی ہے۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ بعد میں بھینٹ چڑھائے گئے ریچھ کی روح جب زمین پر واپس آتی ہے تو دیوتائوں کی طرف سے Nivkh لوگوں کے لیے سرسبز جنگلات کا تحفہ لاتی ہے۔ سوویت دور میں بیئر فیسٹیول پر پابندی لگادی گئی تھی، مگر سوویت یونین کے زوال کے بعد یہ تہوار دوبارہ شروع ہوگیا۔ لیکن اب یہ مذہبی تہوار کے بجائے ایک ثقافتی تہوار بن گیا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ اس تہوار کو دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔

٭Nivkh لوگوں کی رہائش گاہیں:Nivkh لوگ موسم سرما میں ایسے گول گھروں میں رہتے ہیں جنہیں زمین میں گول کھدائی کرکے بنایا جاتا ہے۔ اس کے کناروں پر لکڑی کے لٹھے کھڑے کیے جاتے ہیں جنہیں مٹی اور گھاس سے ڈھک دیا جاتا ہے۔ اس میں آتش دان کی چمنی کی طرح کا درمیان میں ایک سوراخ بھی ہوتا ہے جس سے گھر کے اندر کا دھواں باہر نکلتا ہے اور باہر کی ہوا اور روشنی اندر آتی ہے۔

٭لباس، جوتے اور ہیٹ: Nivkh لوگ مچھلیوں اور جانوروں کے سمور سے تیار کردہ گرم لباس پہنتے ہیں۔ مردوں کے لباس kiy کہلاتے ہیں اور عورتوں کے hukht کہلاتے ہیں۔ یہ لمبے پیروں تک کے لبادے ہوتے ہیں جن میں درمیان میں تین بٹن ہوتے ہیں۔ عورتوں کے لبادے کئی رنگوں کے ہوتے ہیں جن پر شان دار کشیدہ کاری کی جاتی ہے اور انہیں طرح طرح کے موتیوں، قدیم سکوں، لکڑی اور دھات سے بنائی گئی آرائشی چیزوں سے سجایا جاتا ہے۔ عورتوں کے ملبوسات میں لمبی آستینیں بھی ہوتی ہیں اور کالر بھی۔ یہ لباس مردوں اور عورتوں دونوں پر خوب جچتے ہیں۔ لیکن عورتوں کے ملبوسات زیادہ سجاوٹ والے ہوتے ہیں جب کہ مردوں کے ملبوسات میں ایسی آرائشی چیزیں کم ہوتی ہیں۔

Nivkh لوگوں نے یہ فیشن منچوریا اور چین کے تاجروں سے لیا تھا اور آج یہ ان میں رائج ہے۔ جس طرح Nivkh لوگوں کے ملبوسات منفرد ہوتے ہیں، اسی طرح ان کے جوتے بھی منفرد ہوتے ہیں۔ یہ لوگ مچھلی، سیل یا پھر ہرن کی کھال سے تیار کردہ جوتے پہنتے ہیں جو ان کے پیروں میں فٹ ہوتے ہیں۔ فر کے ہیٹ موسم سرما میں استعمال کیے جاتے ہیں جن میں جانوروں کے کان بطور کرائون لگائے جاتے ہیں۔ موسم گرما کے ہیٹ درختوں کی چھال اور پتوں سے تیار کیے جاتے ہیں۔ لیکن آج کے Nivkhزیادہ تر مغربی طرز کے ملبوسات پہنتے ہیں، کیوں کہ وہ روس کے زیر اثر ہیں، البتہ خاص مواقع اور تہواروں پر قدیم اور روایتی ملبوسات استعمال کیے جاتے ہیں۔

٭خوراک: Nivkh لوگوں کی قدیم اور روایتی ڈش کا نام موس ہے لیکن عام طور سے مچھلی ان کی خوراک کا سب سے اہم اور بنیادی ذریعہ ہوتی ہے۔ Nivkh لوگوں کو کھانے میں گلابی مچھلی اور بحرالکاہل کی چم سالمن زیادہ مرغوب ہے۔ ٹرائوٹ، ریڈ آئی، بربوٹ اور پائیک نامی مچھلی ان کے مقامی دریائوں اور چشموں میں پائی جاتی ہے جسے یہ لوگ بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔ ویسے نمکین پانی کی سیفرون کوڈ، فلیٹ فش اور میرین گوبی بھی انہیں پسند ہے جو یہ سمندر سے پکڑتے ہیں۔ لیکن یہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ روسی اور جاپانی ٹرالرز نے جس طرح مذکورہ مچھلیوں کا شکار کیا ہے، اس کے بعد ان کی تعداد تشویش ناک حد تک کم ہوگئی ہے۔ اس کے علاوہ صنعتوں کے فروغ کی وجہ سے بھی مچھلیوں کی آبادیوں کو بہت نقصان پہنچا ہے۔

کسی زمانے میں Nivkh لوگ مچھلی کو خشک کرکے محفوظ کرنے کے لیے ایک خاص طریقہ استعمال کرتے تھے جو Yukola کہلاتا تھا۔ اس طریقے کے مطابق مچھلی کے گوشت کے پتلے پتلے پارچے بناکر انہیں نمک لگائے بغیر سرد ہوا میں لٹکادیا جاتا ہے۔ مگر بعد میں بیرونی اقوام کا اثر قبول کرتے ہوئے Nivkh لوگوں نے مچھلی کو اس طرح محفوظ کرنا بند کردیا جس کے بعد خشک مچھلی کے ڈھیر جمع ہوگئے جو انسانی خوراک تو نہ بن سکے البتہ کتوں کی خوراک بنائے گئے۔ Nivkh لوگ قدیم دور میں خشک مچھلی سے ایک خاص ڈش ’’موز‘‘ بناتے تھے جس میں وہ خشک مچھلی میں مچھلی کی کھال، پانی، سیل کی چربی اور بیریاں ملاکر پکاتے تھے جو ایک کھٹا سا آمیزہ بن جاتا تھا۔ یہ Nivkh لوگوں کی مرغوب ڈش ہوا کرتی تھی، مگر اب یہ شاذ و نادر ہی دکھائی دیتی ہے۔

Nivkh لوگ اپنے کھانے کے لیے سیل، بطخ، سیبل اور اودبلائو کا شکار کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مختلف جھاڑیاں، بیج، مغز اور دالیں جمع کرتے تھے، مگر جب سے یہ لوگ منچوریا، چین اور جاپان کے لوگوں کے ساتھ رابطے میں آئے تب سے انہوں نے اپنے Nivkhs کھانوں میں ان ملکوں کے ذائقے بھی متعارف کرادیے جیسے شکر، نمک، چاول، جوار، باجرہ اور چائے وغیرہ۔ انیسویں صدی کے روسی نوآبادیاتی نظام نے ان لوگوں کو آٹے، روٹی، چاول، وڈکا، تمباکو، مکھن، خشک کی گئی سبزیوں اور پھلوں کے علاوہ دیگر گوشت سے بھی متعارف کرادیا۔

پاکستان کی عدلیہ پر چھائے خوف کے سائے!

$
0
0

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں تین مارچ 2013ء کو سیکٹر ایف ایٹ کچہری میں ہونے والی دہشت گردی کے واقعے کو ایک ماہ سے زائد عرصہ بیت چلا ہے مگر عدلیہ سے وابستہ عزت مآب جج صاحبان اور وکلاء برادری کسی ’’انہونی‘‘  کے خوف سے باہر نہیں آسکے ہیں۔

پاکستان کی عدلیہ کو دہشت گردی کا نشانہ بنانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے چندماہ قبل کراچی میں جسٹس مقبول باقرسمیت ملک کے کئی دیگرشہروں میں ججوں اور وکلاء کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔ تاہم اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک ماہ قبل ہونے والی دہشت گردی کی اس گھناؤنی واردات  اور اس میں سیشن جج رفاقت اعوان سمیت ایک درجن وکلاء اور عام شہریوں کی موت ناقابل فراموش سانحہ ہے۔

ماضی میں پاکستان کی عدلیہ سے وابستہ افراد پرحملوں کو وہ عالمی پذیرائی نہیں ملی جو اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کے واقعے کو حاصل ہوئی ہے۔ اس افسوسناک واقعے کے بعد عالمی ابلاغی، سماجی اور انسانی حقوق کے حلقوں نے پاکستان کی عدلیہ اور وکلاء برادری کے ساتھ جس  فقید المثال یک جہتی کا مظاہرہ کیا اس کی نظیرکم ہی ملے گی۔ سیکٹر ایف ایٹ کچہری میں ہونے والی خونی واردات پر پاکستان کی وکلاء برادری اور جج صاحبان نے جس بلند ہمتی کا مظاہرہ کیا وہ عالمی ذرائع ابلاغ کی خاص طورپر توجہ بنا ہے۔

قطر کے مقبول عربی ٹیلی ویژن نیوز چینل’’الجزیرہ‘‘ اور سعودی عرب کے العربیہ نے اسے خاص طورپر کوریج دی۔ الجزیرہ نے اسلام آباد کچہری کے واقعے پر سلسلہ وار رپورٹس بھی نشر کیں جن میں پاکستان کی عدالتی برادری کے حوصلے اور ہمت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسی واقعے سے متعلق ایک تازہ رپورٹ میں عدلیہ کی ہمت افزائی کے ساتھ ساتھ پیش آئند خطرات پرانتباہ بھی کیا گیا۔  رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کچھ خفیہ اندرونی اور بیرونی ہاتھ ایک منظم سازش کے تحت مملکت خداد پاکستان اوراس کے عدالتی نظام کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔

اس نوعیت کی سازشوں کے تانے بانے پاکستان سے باہر ہیں، جن میں مختلف ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کا بھی ہاتھ ہو سکتا ہے۔ گوکہ اسلام آباد کے ایف ایٹ کچہری کے واقعے میں ملوث براہ راست کسی اندرونی قوت کی نشاندہی نہیں ہوسکی۔ پولیس نے جو تحقیقات کی ہیں ان سے ظاہر ہو رہا ہے کہ واقعے میں ملوث گروپوں کے ڈانڈے کہیں دور جاتے ہیں۔ اس ضمن میں بھارت  کی را اور اسرائیل کی موساد کا نام بھی لیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں خفیہ ادارے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے مربوط انداز میں کام کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کے خلاف اسرائیل کا بعض پڑوسی ملکوں کی خفیہ ایجنسیوں کے ساتھ گٹھ جوڑمقتدر حلقوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارتی روابط بڑھانے اور نئی دہلی کو ’’پسندیدہ ملک‘‘ کا اسٹیٹس دینے کے علی الرغم اسلام آباد کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ دوستی کے روپ میں دوست اپنا ہاتھ دکھا سکتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق بیرونی عناصر پاکستان میں جاری شورش سے فائدہ اٹھا کر عدلیہ کو خاص طور پر نشانہ بنا سکتے ہیںکیونکہ موجودہ حالات میں ملبہ فوری طور پر طالبان اور ان کے حامیوں پر گرانا بہت آسان ہے۔

اسی خدشے کا اظہار پاکستان بار ایسو سی ایشن کے نائب صدر محمد رمضان چودھری نے ’’الجزیرہ‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا۔ انہوںنے کہا کہ بینچ اور بار دونوں بندوق کے سائے میں اپنے پیشہ وارانہ فرائض انجام دے رہے ہیں۔ سیکٹرF/8 کچہری میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد حکومت نے عدالتوں اور وکلاء کو ’’فو ل پروف‘‘ سکیورٹی فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن حکومتی اقدامات محض چند پولیس افسروں کی معطلی اور ان کے تبادلوں سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔

نئی وکلا تحریک کی بازگشت!

بار ایسو سی ایشن کے نائب صدر رمضان چودھری کا کہنا تھا کہ ہمیں جب بھی اپنا کوئی مطالبہ منوانا ہوتا ہے تو اس کے لیے ہمیں تحریک چلانا پڑتی ہے۔ کیونکہ جب تک تحریک نہ چلائی جائے حکومت کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کا کوئی بھی قابل ذکر جج اور متحرک وکیل ایسا نہیں جسے دھمکی آمیز فون نہ آتے رہے ہوں۔ پہلے ہم ان واقعات کو انفرادی نوعیت کی دھمکیاں سمجھتے رہے ہیں لیکن کراچی میں جسٹس مقبول باقر اور اسلام آباد کچہری کے واقعے کے بعد ہمیں یقین ہوگیا ہے کہ کچھ خفیہ ہاتھ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت پوری عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس دہشت گردی سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ حکومت  پولیس فورس کو جدید تقاضوں کے تحت تربیت فراہم کرنے کے بجائے ان کی دوڑیں لگانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ کہیں بھی دہشت گردی ہوتی ہے فوری طورپر وہاں کی متعلقہ پولیس کی معطلی یا تبادلوں کے احکامات جاری کردیے جاتے ہیں۔ حالانکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ پولیس کو عصری تقاضوں کے تحت تربیت دی جائے۔ انہیں وسائل فراہم کیے جائیں اور پرانے دور کے اناڑی پولیس افسروں کی جگہ تعلیم یافتہ لوگوں کو آگے آنے کا موقع فراہم کیا جائے کیونکہ روایتی  انداز میں جنگیں لڑنے اور جیتنے کا دور لد چکا ہے۔

محمد رمضان چودھری کا کہنا تھا کہ حکومت چونکہ ججوں اور وکلاء کو تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ اس لئے بار ایسوسی ایشن ملک بھر کی بار کونسل کی مشاورت کے بعد احتجاجی ریلیوں، جلسے جلوسوں اور ہڑتالوں کی کال دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے ۔ اس ضمن میں تمام صوبائی بار ایسوسی ایشنوں اور بار کونسلوں سے مشاورت کا عمل جاری ہے، جلد ہی نئے لائحہ عمل کاا علان کیا جائے گا۔ عین ممکن ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک وکلاء برادری ایک بار پھر سڑکوں پر نکل کھڑی ہو۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد واقعے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ملک بھر کی عدالتوں کو اضافی سکیورٹی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی لیکن حکومت پرچیف جسٹس کے احکامات کا بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت کی جانب سے عدلیہ کے تحفظ کے لیے تمام ناگزیر اقدامات کئے جائیں۔ موجودہ نازک حالات میں جب عسکریت پسندی کا عفریت سرچڑھ کر بول رہا ہے، ایسے میں عدلیہ کا آزادانہ کردار مزید ناگزیر ہوگیا ہے۔

سنہ2007ء کے بعد عدلیہ نے آزادی کا جو سفرشروع کیا ہے اس کی راہ میں کسی اندرونی یا بیرونی ہاتھ کو حائل نہیں ہونا چاہیے۔ اگر ملک میں عدلیہ کمزور ہو جاتی ہے تونہ حقیقی سلطانی جمہور کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے اور نہ ہی عام آدمی کو انصاف کی فراہمی ممکن ہے۔ اس باب میں عدلیہ کے دونوں شعبوں بنچ اور بار کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ وکلاء برادری اپنی آزادی اور تحفظ کے لیے پرامن دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لیے ضرور آواز اٹھائے مگر اس تحریک کو تخریبی عناصر کے ہاتھوں یرغمال ہونے سے بھی بچایا جائے۔

عسکریت پسند گروپ اور عدلیہ

اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کی واردات کی ذمہ داری ایک گمنام عسکری گروپ’’احرارالہند‘‘ نے قبول کی تھی، لیکن اس کا طالبان کے ساتھ تعلق ثابت نہیں ہو سکا ۔ عسکری گروپوں کے امور پرگہری نگاہ رکھنے والے صحافی قمرالزمان یوسف زئی کا کہنا ہے کہ گو ’’احرار الہند‘‘ کو طالبان کی ہم شکل تنظیم قرار دیا جاسکتا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تنظیم کے ’’ٹی ٹی پی‘‘ اور مولوی فضل اللہ کے ساتھ روابط رہے ہوں لیکن اب اس تنظیم نے طالبان سے اپنے راستے جدا کر لیے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ  ایسے تمام عسکریت پسند گروپ جو شریعت کے علاوہ کسی دوسرے آئین کو نہیں مانتے ،وہ ججوں اور وکلاء برادری کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ البتہ طالبان اور ان کے زیر اثر حکومت سے  مذاکرات میں شامل عسکری گروپ یہ تاثر دے چکے ہیں کہ اگر ان کے خلاف لڑائی بند کردی جاتی ہے وہ دوبارہ اپنے قبائلی علاقوں تک محدود ہو سکتے ہیں۔ یوسف زئی کا ماننا ہے کہ پاکستان کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو طالبان کو اپنے مطالبات میں ملک میں نفاذ شریعت کا مطالبہ شامل کرنے پر زور دے رہے ہیں۔ پاکستان کے اندر سے طالبان کو نفاذ شریعت کے مطالبے کے لیے اصرار نہ کیا جائے تو حکومت اور طالبان کا ساتھ آسانی کے ساتھ’’نباہ ‘‘ ہو سکتا ہے۔

آزاد عدلیہ اور معاصرعدالتی نظام

الجزیرہ ٹیلی ویژن ہی کی ایک دوسری مفصل رپورٹ میں پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کا معاصر مسلمان ممالک بالخصوص ترکی اور مصر کی عدلیہ کے ساتھ ایک تقابل بھی کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عدالتی آزادیوں کے میدان میں بھی پاکستان نے ایک اہم سنگ میل طے کیا ہے۔ ماضی میں پاکستان  کا نظام عدل ’’طاقتور قوتوں‘‘ کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا ہے۔ آمریت نے عدلیہ کو اپنے پنجے مضبوط بنانے اور جمہوریت کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لیے بے دریغ طریقے سے استعمال کیا۔ تقابلی جائزے کے مطابق پاکستان، مصر اور ترکی میں عدلیہ نے نسبتاً ایک جیسا ماضی گزارا ہے۔ تینوں ملکوں کی عدلیہ طوعاً وکرھاً آمریت کی مضبوطی کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ مصر میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود عدالتوں کا آمرانہ مزاج ختم نہیں ہوسکا جبکہ ترکی اور پاکستان کے نظام عدل نے اپنے ماضی پر لگے داغ دھونے کا عمل شروع کردیا ہے۔ آزاد صحافت کے ہوتے ہوئے اب پاکستان میں عدلیہ کو یرغمال بنانا اتنا آسان نہیں رہا ہے۔ یہ بات خوش کن ہے کہ بہت سے شعبوں میں پسپائی کے باوجود ہم عدالتی آزادیوں کے باب میں آگے بڑھے ہیں، لیکن اصلاح احوال کا یہ عمل بھی تسلسل کا تقاضا کرتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آج اگر کسی سابق فوجی آمر کا احتساب ہو رہا ہے تو یہ عدلیہ کی کایا پلٹنے اور اس کے آزادانہ فیصلوں کی درخشندہ مثال ہے۔ پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ میں کسی سابق مرد آہن کو اس طرح عدالتوں میں نہیں گھسیٹا گیا جیسا کہ اب پرویز مشرف کے باب میں ہو ا  ہے۔

عربی نیوز ویب پورٹل ’’مفکرۃ الاسلام‘‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی جوڈیشری کی دونوں شاخوں(ججوں، وکلاء) نے تین نومبر2007ء کے بعد آزادی کا ایک فقید المثال سفرشروع کیا ہے۔ اس سفر کو تبھی کامیابی سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے جب بنچ سے زیادہ بار ذمہ داری کا مظاہرہ کرے۔ اگر سنہ 2007ء کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے ایمرجنسی قانون کے خلاف وکلاء سڑکوں پر نہ نکلتے تو شائد عدلیہ آج اس قابل فخر مقام پر نہ کھڑی ہوتی۔ اب بھی اگر وکلاء برادری پانسہ پلٹ دیتی ہے توبہتری کی امیدیں پھر سے زندہ ہو جائیں گی۔

پاکستان ہی کی طرح ترکی میں بھی عدلیہ نے کایا پلٹی اور سابق فوجی حکمرانوں کے خلاف پوری دیدہ دلیری کے ساتھ مقدمات کی سماعت شروع کی۔ ترک عدالتوں نے نہ صرف آمریت نوازوں کے خلاف دائرمقدمات کی سماعت کی بلکہ باربار منتخب حکومتوں کو چلتا کرنے والوں کو سزائیں بھی دیں۔ ترک معاصر’’زمان‘‘ نے بھی ایسی ہی ایک رپورٹ میں پاکستان اور ترکی کے عدالتی اور سیاسی نظام کا ایک تقابلی جائزہ پیش کیا ہے۔ گوکہ اس رپورٹ  کے کئی دوسرے پہلوؤں پرایک مفصل مضمون تیار کیا جاسکتا ہے مگر یہاں صرف دونوں برادرملکوں کی عدالتی آزادیوں کا حوالہ دینا ضروری ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ پاکستان اور ترکی دونوں نے آمریت کے طویل ادوار کو برداشت کرنے کے بعد اب سلطانی جمہور کے مفہوم سے آگاہی حاصل کی ہے۔ دونوں ملکوں کی عدالتی تاریخ ایک جیسی ہے اور دونوں میں عدلیہ کی کایا پلٹنے کا عرصہ بھی ایک ہی ہے۔ ترکی میں سنہ 2005ء کے بعد عدلیہ نے انگڑائی لی جب کہ پاکستان میں دو سال  بعد 2007ء میں اپنی آزادی کے سفرکا آغاز کیا ہے۔ دونوں نے سابقہ حکومتوں کے بڑے بڑے کرپشن اسکینڈل کی جرات مندانہ طریقے سے چھان بین کی اور دونوں ملکوں کی عدلیہ کو سابق فوجی حکمرانوں کے مقدمات نمٹانے پڑے ہیں۔ اسی طرح دونوں ملکوں کو یکساں دور میں آزاد میڈیا کا تعاون حاصل ہوا اور دونوں ہی نے حکومت وقت کے بعض فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر ملک و قوم کے مفاد میں فیصلے کرائے ہیں۔

جہاں تک مصرکا تعلق ہے تو وہاں سنہ 2011ء میں حسنی مبارک کے تیس سالہ آمرانہ نظام کے خاتمے کے بعد مثبت تبدیلی اور عدلیہ کی آزادی کی ایک خفیف سی کرن روشن ہوئی تھی مگر وہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک اپنی چمک نہ دکھاسکی۔ وہی عدلیہ اب محض سیاسی بنیادوں پر پانچ پانچ سو کارکنوں کو موت کی سزائیں سنا رہی ہے۔ یوں ترکی اور پاکستان میں آزاد عدلیہ مزید مستحکم ہوئی ہے جبکہ مصرمیں عدلیہ کی بجائے فوجی آمریت کو استحکام اور دوام ملا ہے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

$
0
0

وہ گڈری کے لعل ہیں، ایسے جواہر جنہیں سنبھالنے کی بجائے کچرے میں پھینک دیا گیا تھا۔ ہیرے کی قدر جوہری ہی جانتا ہے۔

اور پھر ایسا ہی ہوا۔ دردمند لوگوں کی ایک تنظیم کی اُن پر نظر پڑی اور پھر ان بچوں نے معجزہ کر دکھایا۔ وہ جنہیں کبھی گلیوں کی خاک سمجھا جا تا تھا، ان بچوں کی آنکھوں میں روشن مستقبل کے سپنے سجانے اور بے مقصد زندگی کی بجائے محنت کے ذریعے زندگی میں کام یابیاں حاصل کرنے کی طرف گام زن کرنے کا سہرا ایک غیرسرکاری تنظیم ’’آزاد فاونڈیشن‘‘ کے سر جاتا ہے۔ یہ تنظیم سڑکوں پر رہنے والے بچوں یعنی ’’اسٹریٹ چلڈرن‘‘ کی بحالی اور ان کی زندگی کو بامقصد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ اسی تنظیم نے ان بچوں کو برازیل میں ہونے والے اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ میں بھیجنے کا انتظام کیا تھا۔ اور سڑکوں کے باسی یہ آوارہ بچے اب ’’اسٹریٹ چلڈرن ورلڈ کپ 2014 ‘‘ کے ہیرو ہیں۔ پاکستانی ٹیم میں نو اسٹریٹ چلڈرن شامل تھے، جن میں سے آٹھ بچوں کا تعلق کراچی اور ایک کوئٹہ سے ہے۔

ماضی میں سڑکوں پر بھٹکنے والے بچوں کے لیے عالمی کپ کا آغاز سن 2010 میں کیا گیا تھا۔ اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ فیفا ورلڈ کپ سے تین ماہ قبل اسی شہر میں کہ جہاں ورلڈ کپ کے مقابلے منعقد ہونا ہوں، بچوں کے فٹ بال عالمی کپ کا انعقاد ہوگا۔ 2010 میں جنوبی افریقہ میں ان بچوں کا پہلا عالمی کپ منعقد ہوا، لیکن اس میں پاکستان شرکت نہیں کرسکا تھا۔ تاہم اس دوسرے عالمی کپ میں پاکستان پہلی بار شریک ہوا ہے۔

آزاد فاؤنڈیشن کے مطابق ان مقابلوں میں شرکت کرنے کے لیے ان بچوں کو دعوت دی جاتی ہے، جن کا بچپن سڑکوں پر گزرا ہو۔ اس فٹ بال ورلڈ کپ میں شرکت کا معیار یہ مقرر تھا کہ اس مقابلے میں وہ بچے شرکت کر سکتے ہیں، جو بحال ہونے کے بعد معاشرے میں شامل ہو چکے ہوں۔ اس لیے ان کے لیے ایک کیمپ کا انعقاد کیا گیا تھا، جس سے یہ بچے پورے ایک باقاعدہ طریقۂ کار سے گزرنے کے بعد منتخب ہوئے، عالمی سطح پر پاکستان کے سفیر بن کر گئے اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں صرف کراچی کی سڑکوں پر20 لاکھ سے زاید بچے آوارہ بھٹک رہے ہیں، جن میں سے اکثر جرائم پیشہ گروہوں کا شکار ہو کر یا منشیات کی لت میں پڑ کر زندگی برباد کر لیتے ہیں۔ ان بچوں کی اگر بہتر راہ نمائی کی جائے تو یہ عالمی سطح ہر پاکستان کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ پاکستانی ٹیم میں شامل بچوں کے چنائو کے حوالے سے آزاد فائونڈیشن نے بتایا: ’’ہماری کوشش یہ رہی کہ اس عالمی مقابلے کے لیے قومی سطح کی ٹیم بھیجی جا سکے۔ اس لیے ہم نے مختلف جگہوں پر اپنا کیمپ لگایا تھا۔ ان میں سے ایک بچہ کوئٹہ سے چنا گیا، اور باقی کراچی سے منتخب ہوئے۔ ایک ٹیم سات بچوں پر مشتمل تھی جب کہ دو بچے ریزرو میں تھے۔ ان بچوں کا تعلق کراچی کے مختلف علاقوں سے ہے، جن میں ابراہیم حیدری، لیاری، ماڑی پور، نیو کراچی، کورنگی اور منگھوپیر شامل ہیں۔‘‘

28 مارچ سے شروع ہونے والے بچوں کے اس عالمی فٹ بال کپ میں پاکستان کے علاوہ 19 دیگر ممالک کے 230 بچوں نے شرکت کی۔ ایسا پہلی بار ہوا کہ پاکستان کے یہ آوارہ بچے عالمی سطح پر ایک بہت بڑے معرکے میں شرکت کر نے گئے۔ خود کو منوانے کے لیے پْرجوش ان بچوں نے بہت محنت کی اور یہ جیتنے کے لیے بھی پُرعزم تھے۔ امید کی جارہی تھی کہ یہ بچے کسی بھی انٹرنیشنل ٹیم کے لیے بہت سخت ثابت ہوں گے اور ہوا بھی ایسا ہی۔

فٹ بال کے اِس عالمی کپ کا آغاز 28 مارچ کو برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں ہوا۔ روانگی سے قبل ٹیم کے ایک کھلاڑی اویس علی نے ان الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کیا: ’’اﷲ بہتر جانتا ہے، ہم نے بہت محنت کی ہے، میں بہت خوش ہوں کہ میں باہر جارہا ہوں، میں وہاں کھیلوں گا اور پاکستان کی نمایندگی کروں گا۔ ہم سب کی یہی خواہش ہے کہ ہم جیت کر آئیں۔‘‘

اویس کا تعلق کراچی کے علاقے یوپی موڑ سے ہے۔ بچپن میں ماں باپ کے ڈر سے گھر سے بھاگ کر اس بچے نے کئی برس سڑکوں پر گزارے۔ اویس کا کہنا تھا کہ اس نے کبھی عالمی کھیل کے بارے میں نہیں سوچا۔ ’’ہم تو سڑکوں اور گلیوں میں رہتے اور کھیلتے تھے۔ ہم سوچتے تھے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ مگر ہمارے کوچ نے ہم میں اعتماد پیدا کیا اور بتایا کہ ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں لاکھوں بے گھر بچے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ان میں سے نہ جانے کتنے ہی ایسے باصلاحیت بچے ہیں، جنہیں اگر راہ نمائی اور تربیت دی جائے، تو یہ ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی بچوں کی مثال یہ فٹ بال ٹیم ہے، جو کراچی کی سڑکوں سے اٹھی، برازیل پہنچی، اور خود کو منوایا۔

برازیل کے شہر ریوڈی جنیرو میں کھیلے گئے ابتدائی رائونڈ کے میچ میں پاکستانی بچوں نے دفاعی چیمپیئن، بھارت کو تگنی کا ناچ نچایا۔ اور پے درپے گول کرکے مخالف ٹیم کو اپنے شکنجے میں کس لیا۔ پاکستان نے بھارت کو ایک کے مقابلے میں 13 گول سے شکست دے کر سبز ہلالی پرچم سر بلند کیا۔

اس ٹیم نے کام رانی کا سلسلہ جاری رکھا، اور سیمی فائنل تک جاپہنچی، جہاں مقابلہ بورونڈی کی مضبوط ٹیم سے تھا۔ یہاں ان بچوں کو شکست ہوئی۔ پاکستان فائنل میں نہیں پہنچ سکا تھا، تاہم پاکستانی ٹیم کو نہ صرف وہاں موجود ٹیموں سے بے تحاشہ پزیرائی اور عزت ملی، بلکہ دنیا بھر کے فٹ بال کے پرستاروں نے بھی اس ٹیم کو سراہا ہے۔

تیسری پوزیشن کے لیے ان کا مقابلہ امریکی ٹیم سے تھا۔ کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ پینالٹی ککس پر پاکستان فاتح ٹھہرا اور تیسری پوزیشن اپنے نام کر لی۔ اِس میچ میں پاکستانی گول کیپر نے اپنی صلاحیتوں کا شان دار مظاہرہ کیا۔ نوعمر پاکستانی گول کیپر نے امریکیوں کی کوششیں ناکام بنا دیں۔ اور فتح اپنے نام کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

’’اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ 2014‘‘ کے لیے کراچی سے برازیل روانہ ہونے والے ایک بچے کھلاڑی، سلمان نے غیرملکی نشریاتی ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا؛ ہم اس کھیل سے پاکستان کا مثبت امیج دنیا کو دکھائیں گے، ہم دنیا کو بتائیں گے کہ پاکستان دہشت گرد ملک نہیں، بلکہ امن دوست ملک ہے۔‘‘ اس باہمت بچے کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم پاکستان کو دنیا میں پیش کرنے اور دیگر ممالک سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ سلمان کا تعلق کراچی کے علاقے کورنگی سے ہے۔ برازیل جانے سے قبل وہ کئی برس کراچی کی سڑکوں پر فٹ بال کھیلتا رہا ہے۔

سڑکوں پر رہنے والے اِن پاکستانی بچوں نے اس عالمی مقابلے میں اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا۔ ساتھ ہی دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ وہ صلاحیت میں کسی سے کم نہیں، ضرورت فقط مواقع کی ہے۔

واضح رہے کہ اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ورلڈ کپ عالمی ادارہ برائے اطفال اور یونیسیف کی جانب سے فیفا ورلڈ کپ سے پہلے منعقد کرایا جاتا ہے، جس کا مقصد غریب بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

اور اس برس یہ مقابلہ واقعی پاکستانی قوم کے لیے حوصلہ افزا ثابت ہوا۔ پاکستان جسے بدترین دہشت گردی کا سامنا ہے، جہاں شہریوں کو ہر وقت قتل و غارت کی خبریں سننے کو ملتی رہتی ہیں، ایسے میں ایسی شان دار خوش خبری دے کر ان باصلاحیت بچوں نے نہ صرف عوام کے دل جیتے بلکہ ان کے مایوس چہروں پر مسکراہٹیں بھی بکھیری ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اب ان باحوصلہ بچوں کی ہر سطح پر پزیرائی اور حوصلہ افزائی کرے اور انہیں سماج میں باعزت مقام دلانے کے لیے اقدامات بھی کیے جائیں، جو ان بچوں کا حق بھی ہے۔

ناراض بلوچ رہنماؤں سے فوری مذاکرات کی ضرورت

$
0
0

کوئٹۃ: بی این پی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ سردار اختر جان مینگل نے وطن واپسی اور اسلام آباد میں وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد بلوچستان کا دورہ شروع کردیا ہے۔

پہلے مرحلے میں اُنہوں نے نوشکی اور دالبندین میں عوامی جلسوں سے خطاب کیا جس میں اُن کا لہجہ انتہائی سخت دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے قبل سردار اختر جان مینگل نے وزیراعظم میاں نواز شریف سے ملاقات کے بعد اپنے انٹرویوز میں یہ کہا تھا کہ ان کی جماعت قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پر غور کر رہی ہے۔ اُنہوں نے وطن واپسی کے بعد بلوچستان کی مخلوط حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور اب عوامی جلسوں میں اُنہوں نے صوبائی حکومت کی کارکردگی پر اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبان چونکہ اپنے ہیں اس لئے اُن سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ حکومت بلوچوں کو غیر سمجھتی ہے اس لئے اُن سے مذاکرات نہیں کئے جا رہے ، معلوم نہیں بلوچوں سے بات کرنے میں کیا قباحت ہے۔سیاسی حلقوں کے مطابق سردار اختر جان مینگل کے لب و لہجہ میں جو سختی ہے گو کہ وہ پہلے بھی رہی ہے لیکن اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اُن کی جماعت نے اندرونی طور پر فیصلہ کر لیا ہے ۔ عوامی رابطہ مہم کا آغاز بھی اس بات کو تقویت دے رہی ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق آئندہ آنے والے دن بلوچستان کی سیاست میں اہم ہوں گے، خود وزیراعظم نواز شریف نے بھی سردار اختر مینگل سے ملاقات کے دوران اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ رواں سال بلوچستان میں بہت سی سیاسی تبدیلیوں کا سال ہوگا۔ سیاسی حلقوں کے مطابق صوبائی بجٹ2014-15ء کے بعد بلوچستان میں سیاسی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔

دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر اور سینئر صوبائی وزیر نواب ثناء اﷲ زہری نے کوئٹہ میں سینئر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی جماعت مری معاہدے کی پابند ہے ورنہ بلوچستان میں دو گھنٹے میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔ اپنی اسی گفتگو کے دوران اُنہوں نے پارٹی کی مرکزی قیادت کے فیصلوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت بلوچستان میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ہاتھ مضبوط کرے گی اور حکومت کے ہر اچھے اقدام کی حمایت کرے گی۔ ایک سوال پر کہ کیا مری معاہدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اڑھائی سال بلوچستان میں نیشنل پارٹی اور اگلے اڑھائی سال مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہوگی؟ تو نواب ثناء اﷲ زہری نے اس کا جواب دینے سے گریز کیا تاہم ان کے چہرے کے تاثرات سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ اس بات میں کافی دم ہے تاہم اُنہوں نے اس سے انکار بھی نہیں کیا کہ معاہدے میں ایسی کوئی بات شامل نہیں۔ نواب ثناء اﷲ زہری نے شہداء زہری کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ شہداء زہری کے حوالے سے جو ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی اس میں کوئی تبدیلی یا ترمیم کی گئی ہے، اُن کا کہنا تھا کہ یہ ایف آئی آر ابھی تک اپنی جگہ پر قائم ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ملزمان دندناتے پھر رہے ہیں انہیں گرفتار کیا جائے۔ اُنہوں نے بتایا کہ شہداء زہری کے حوالے سے صوبے میں پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کی جائے گی جس کے لئے مختلف سیاسی جماعتوں، تاجروں اور دیگر مکتبہ فکر کے لوگوں سے رابطے کئے گئے ہیں اور اُنہوں نے اس کی حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے۔

صدر مملکت ممنون حسین گزشتہ دنوں دو روزہ دورے پر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ تشریف لائے جہاں انہوں نے کمانڈ اینڈ سٹاف کالج میں خطاب کے علاوہ گورنر ہاؤس میں سیاسی جماعتوں، اراکین اسمبلی، کابینہ کے ارکان اور سینئر صحافیوں سے ملاقاتیں کیں ، صدر مملکت نے یہ دو دن مصروفیات میں گزارے۔ صدر مملکت ممنون حسین کا بھی یہ کہنا ہے کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کیلئے ناراض بلوچوں سے مذاکرات کئے جائیں اور انہیں قومی دھارے میں لایا جائے گا۔ صدر مملکت نے بلوچستان کی ترقی و خوشحالی کے حوالے سے کہا کہ وفاق صوبے کو ہر ممکن وسائل فراہم کرے گا اور صوبے کی ترقی اور امن و امان کی بحالی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے اس کے لئے وفاق صوبائی حکومت کی مکمل سپورٹ کرے گا۔


بُک شیلف

$
0
0

نظیر کی غزلیں
انتخاب و پیش لفظ: سید ایاز محمود
زیراہتمام: بیونڈ ٹائم پبلی کیشن، کراچی
صفحات:151، قیمت:250 روپے

نظیر کی نظموں کے جس مشہور و معروف لہجے سے ہم آشنا ہیں، وہ ہمیں ان کی غزلوں میں نہیں ملتا۔ ہمیں یہاں ایک الگ لہجے کے شاعر کا سامنا ہے۔ حیرت ہے کہ نظیر نے اپنے ٹکسالی طرزنگارش کو بدل کر معنویت سے بھرپور اسلوب کیسے اپنالیا اور وہ بھی بغیر دقت۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لفظ اور تراکیب تو ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں، جیسے ہاتھ باندھے نظیر کے درِسخن پر کھڑے ہوں۔ سید ایاز محمود ان کی غزلوں میں ایسی تہ داری کو دریافت کرتے ہیں جس سے اغماز نہیں برتا جاسکتا۔ لیکن تہ داری سے کہیں زیادہ جو خصوصیت ہمیں حیران کرتی ہے، وہ خیال آفرینی ہے۔ ایسے ایسے موتی پڑے ہیں جنھیں دیکھ کر اظہار حیرت کیے بنا زبان کو قرار نہیں آتا۔ کہیں کہے گی یہ تو میر ہے، کہیں کہے گی یہ تو غالب ہے۔ بلاشبہہ نظیر نے یہاں بھی ایک نظیر چھوڑی ہے۔
یہ نظیر کی ایک بہت بڑی خوبی ہے کہ وہ غزل میں نہ صرف خیال آفرینی اور سلیقہ رکھتے ہیں، بلکہ رچاؤ کی ایسی کیفیت پیدا کرنے پر قدرت رکھتے ہیں جو قاری کے داخلی ماحول میں ازبس رنگِ مسرت بھر دیتی ہے۔ نظیر کے ہاں مرصع الفاظ و تراکیب تو ہیں، لیکن تصنع نہیں۔ جیسے مالا ٹوٹ جائے اور موتی یکے بعد دیگرے فرش پر گرکر بکھرتے جائیں۔

نظیر کے اسلوب پر بات کی جائے تو نظموں کا ایک الگ جہان پوری آن بان کے ساتھ ذہن کے پردے پر نمودار ہوتا ہے۔ یہاں ان کی غزلوں کو درخور اعتنا نہیں سمجھا جاتا۔ سوال یہ ہے کہ کیا آپ نے ان کی غزلیں پڑھی ہیں؟ جواب کوئی بھی ہو، آپ سید ایاز محمود کا انتخاب پڑھیں، جس میں اُنھیں آفتاب مضطر کی مشاورت حاصل رہی۔ ’’نظیر کی غزلیں‘‘ کے عنوان سے یہ خوب صورت انتخاب بیونڈ ٹائم پبلی کیشن نے چھاپا ہے۔ کتاب کا گیٹ اپ تو ہے ہی بہت اچھا، لیکن انتخاب پڑھ کر آپ پر نظیر کی غزلوں کا نئے سرے سے انکشاف ہوگا۔

یہ اس دور کی غزلیں ہیں جب وہ ایک طرف مغل تہذیب کا زوال دیکھ رہے تھے، دوسری طرف برطانوی استعمار کے عروج کا مشاہدہ کررہے تھے، تیسری طرف اردو شاعری کو ارتقا کے مدارج طے کرتے ہوئے تماشا کررہے تھے، اور کئی بڑے ناموں کا ڈنکا بج رہا تھا؛ کیا میر، کیا سودا، کیا ناسخ و آتش، غرض دیوار سے لگایا گیا یہ بے مثال شاعر ایک ایسے عجیب دور کو بے نیازی سے دیکھ رہا تھا، جس کے تاروپود میں اس کا حصہ بھی بھرپور تھا لیکن اسے حقارت کے ساتھ منظرنامے ہی سے نکال باہر کیا گیا۔ اس کے باوجود وہ اپنی دھن میں اپنے ہی رنگ کی شاعری کی اذان دیتے رہے۔ کوئی لبیک کہنے والا ملے نہ ملے، کسے پروا۔
خاموش آئینوں کی طرح (شعری مجموعہ)

ناشر: رنگ ادب، کراچی،
شاعر: ڈاکٹر اختر ہاشمی
صفحات:192
قیمت:300 روپے

ادبی حلقوں میں ڈاکٹر اختر ہاشمی ایک جانی مانی شخصیت ہیں۔ اُن کے فن کی کئی جہتیں ہیں۔ وہ شاعر ہیں، افسانہ نگار ہیں، نقاد ہیں۔ تحقیقی میدان میں بھی سفر کیا۔ کئی کتابیں شایع ہوچکی ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب بنیادی طور پر اُن کی غزلوں کا مجموعہ ہے، البتہ اُن میں چند نظمیں بھی شامل ہیں۔مقدمہ محسن اعظم محسن ملیح آبادی کے قلم سے نکلا ہے، جنھوں نے ڈاکٹر اختر ہاشمی کی شاعری کو متحرک اور جدید اور قدیم اقدار کا حسین امتزاج قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں: ’’وہ سلیقۂ شاعرانہ رکھتے ہیں۔

یہ ہنر ان کا ایک اچھا شاعر ہونے کی شہادت ہے۔ اُن کی شاعری صرف منظوم خیالات و مشاہدات ہی نہیں، اس میں شعریت کا جمال بھی ہے۔‘‘ مزید کہتے ہیں: ’’اُن کی شاعری لمحۂ موجود کی آواز بھی ہے، اور اِس میں روایت کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔‘‘بات دُرست ہے۔ اختر ہاشمی کہنہ مشق شاعر ہیں۔ سہل ممتنع اور چھوٹی بحر میں کئی خوب صورت شعر اِس مجموعے میں ملتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق غزل ان کی جدید اور قدیم آہنگ کا ملاپ ہے۔ مافی الضمیر خوبی سے بیان کرتے ہیں۔کتاب ’’ڈسٹ کور‘‘ کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔ کاغذ اور طباعت معیاری اور قیمت مناسب ہے۔

جوگی پہلے منتر سمجھے (سرائیکی شاعری)
شاعر: محمد صابر عطاء،
ناشر: نگاہ پبلشرز اینڈ ایڈورٹائزرز، چوک اعظم
قیمت:200 روپے، صفحات:64

سیدھا سادہ سا جوان، نظریں جھکائے، دھیمے لہجے میں اپنا مدعا بیان کرنے والا اور گفت گو کرنے سے زیادہ سننے والا، خاکساری اور عاجزی میں گندھا ہوا یہ جوان جو صابر بھی ہے اور عطاء بھی۔ وہ اپنے نام کا عکس ہے۔ اس سے جب میری ملاقات ہوئی تھی، تو میں اسے نوآموز سمجھا تھا، جو مجھ جیسے عامی سے راہ نمائی کا طلب گار تھا۔ لیکن محمد صابر عطاء چھپا رستم نکلا۔ وہ ایک صحافی ہے، خلق خدا کے دکھوں میں گھلنے والا، کچھ کر گزرنے کی دھن اس پر سوار ہے اور وہ اپنی راہیں نکال رہا۔

اس نے بنے بنائے راستے پر سفر کرنے کی بجائے اپنا راستہ خود بنایا ہے۔ بیساکھیوں سے آپ چل تو سکتے ہیں لیکن دوڑ نہیں سکتے۔ وہ دوڑنا چاہتا ہے اسی لیے وہ کسی بھی طرح کی بیساکھیوں سے بے نیاز ہے۔ اس نے اظہار اور مکالمے کا ہر ذریعہ اپنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ شاعری اظہار کا موثر ذریعہ تو ہے لیکن اس وادی خار زار میں قدم رکھنا اور پھر اس پر ثابت قدمی سے آگے کا سفر کرنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں ہے۔ اس وادی میں وہی سرخ رو ہوتے ہیں جو حوصلہ رکھتے ہوں، عزم رکھتے ہوں اور پھر صلہ و ستائش سے بے پروا ہوکر پیہم سفر کریں۔ بدنصیبی سے ہمارے ہاں شاعری کے نام پر الفاظ کی الٹ پھیر ہورہی ہے، شاز و نادر ہی کوئی نیا خیال نئے آہنگ کے ساتھ طلوع ہوتا ہے۔

اس نئے آہنگ میں صابر عطاء بھی ہے۔ ’’جوگی پہلے منتر سمجھے‘‘ اس کا پہلا مجموعہ ہے جو سرائیکی زبان میں ہے۔ یوں بھی سرائیکی اتنی مٹھاس لیے ہوئے ہے کہ انسان شاد ہوئے بنا نہیں رہ سکتا لیکن اس مٹھاس میں جو دکھ، محرومیاں ہیں وہ اس زبان کو مزید دل سوز بناتی اور چاشنی بخشتی ہیں۔ صابر عطاء جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں کے جبڑوں میں پھنسی ہوئی دکھی، مقہور، مغضوب، معتوب، لاچار و بے بس خلق خدا کی آواز بننے کے مراحل طے کررہا ہے۔

وقت دے شاہو قوم دے بارے کجھ تاں سوچو
بکھ توں مر گئے لوگ وچارے کجھ تاں سوچو

ہمیں یقین ہے کہ وہ اپنا سفر جاری رکھے گا اور منزل پر پہنچ کے دم لے گا۔

یہ ذہانت کے کارخانے ، صفِ اول کے 10سُپر کمپیوٹرز

$
0
0

 بنیادی طور پر انسان کی مادی ترقی کے پیچھے سہولتوں اور آسانیوں کی تلاش کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔

ہر انسان اپنی بساط کے مطابق زندگی آسان سے آسان تر بنانے کی تگ ودو میں لگا رہتا ہے۔ اگرچہ اس دوران اسے کئی مرتبہ جاں گسل مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، مگر پھر دن اور رات کی ان تھک محنت کے بعد کام یابی کا در کھلتا ہے۔ ماضی میں ایسی تمام کام یابیوں کے پیچھے خالصتاً انسانی ذہانت، مشقت، تحقیق اور قوت فیصلہ اہم کردار ادا کرتی تھی۔

تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ان کام یابیوں میں انسان ہی کی بنائی ہوئی مشینوں اور آلات نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کردیا، لیکن جیسے جیسے ا نسان کی اپنی ہی تخلیق کردہ مشینوں اور آلات پر دسترس بڑھتی گئی اور انسان ان مشینوں اور آلات پر حاوی ہوتا گیا۔ تو دوسری طرف اس کا مشینوں اور آلات پر انحصار بھی بڑھتا چلا گیا اور آج بیشتر معاملات میں انسان ان کی مدد کے بغیر اپنے ہاتھ پیر کٹے ہوئے محسوس کرتا ہے، جس کی واضح مثال بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا عذاب ہے۔

ہماری خوش قسمتی اور محققین کی ان تھک محنت کے باعث اب حساب کتاب کے تھکا دینے والے عمل سے لے کر کائنات میں پھیلے اسرارورموز کی جاں کاری تک کے لیے بہت سے برقی آلات اور مشینیں معرض وجود میں آچکی ہیں۔ ان انسان دوست مشینوں یا آلات میں سب سے اہم مشین یا آلہ کمپیوٹر ہے، جس کا استعمال سمندر کی اتھاہ گہرائیوں کو کھنگالنے اور آسمان کی وسعتوں میں نت نئی دنیائوں کو دریافت کرنے میں اب لازم و ملزوم ہے۔ عموماً ایسی ہی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے سافٹ وئیر سے لیس عام ڈیسک ٹاپ کمپیوٹرز بنائے جاتے ہیں۔ تاہم انتہائی اہمیت کے حامل اور پیچیدہ معاملات کو حل کرنے کے لیے جو کمپیوٹر تخلیق کیے جاتے ہیں ان کو ان کی انفرادیت یا زبردست صلاحیت کے باعث ’’سپر کمپیوٹر‘‘ کی درجہ بندی میں رکھا جاتا ہے۔

یہ سپرکمپیوٹر نہ صرف رفتار میں بجلی کی سی سرعت رکھتے ہیں، بل کہ وہ حسابی اعمال جنہیں انجام دینے کے لیے انسانی دماغوں کی فوج درکار ہوتی ہے یہ سپر کمپیوٹر نہ صرف تن تنہا بل کہ غلطی کے انتہائی کم تناسب کے ساتھ انجام دیتے ہیں۔ واضح رہے کہ کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں برق رفتار تبدیلیوں اور نت نئی اختراعات کے باعث سپرکمپیوٹر کی درجہ بندی سال میں ہر چھے ماہ بعد کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ برس کی آخری ششماہی میں جن ’’دس سپر کمپیوٹرز‘‘ کا شمار دنیا بھر کے صف اول کے سپر کمپیوٹرز میں کیا گیا آج کے مضمون میں ان سپر کمپیوٹرز کا احاطہ کیا گیا ہے۔

٭ تیان ہی دوئم(Tianhe-2)
تیز ترین سُپرکمپیوٹرز کی فہرست میں اولین مقام پر چین کا ’’تیان ہی دوئم‘‘ کمپیوٹر براجمان ہے۔ چینی زبان میں تیان ہی کے معنی ’’کہکشاں‘‘ کے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کمپیوٹر کی برق رفتاری کائنات میں پھیلی کہکشائوں کی گتھیوں کو سلجھانے اور تحقیق کے میدان میں چھپے رازوں کو عیاں کرنے میں بروئے کار لائی جائے گی۔ تیان ہی دوئم کی تخلیق کا سہرا چین کی مشہور و معروف ’’قومی جامعہ برائے دفاعی فنیات ‘‘ کے ماہروں کے سر ہے، جنہوں نے طویل تحقیق اور محنت کے بعد ’’تینتیس اعشاریہ چھیاسی پی ٹا فلوپ فی سیکنڈ‘‘ کی رفتار سے کام کرنے والی یہ حیرت انگیز مشین بنائی ہے۔ دوسرے معنوں میں مشین اس رفتار سے تینتیس اعشاریہ آٹھ سو ساٹھ ٹریلین حسابی عمل فی سیکنڈ کرسکتی ہے۔

دل چسپ امر یہ ہے کہ تیان ہی دوئم سپر کمپیوٹر کی رفتار فہرست میں دوسرے نمبر پر آنے والے امریکی کمپیوٹر سے دگنی ہے، جس سے تیان ہی دوئم کی کارکردگی اور استعدادِکار کا اندازہ بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے۔ یہ محیرالعقول سسٹم اس وقت چین کے جنوب مشرقی صوبے گوانڈونگ کے شہر گوانگ ژو کے نیشنل سپر کمپیوٹر سینٹر میں متحرک ہوچکا ہے۔ کمپیوٹر کی میموری دس لاکھ چوبیس ہزار گیگا بائٹس پر مشتمل ہے۔ یادداشت کی یہ خوبی تیان ہی دوئم کو روزمرہ کے عام استعمال کے کمپیوٹرز سے تین سو اڑتیس ملین گنا فی سیکنڈ زاید رفتار کا حامل بناتی ہے۔

تیان ہی دوئم میں پروسیسرز ’’انٹیل‘‘ کمپنی کے استعمال کیے گئے ہیں۔ تاہم تیان ہی دوئم سپر کمپیوٹر کا ’’سینٹر ل پراسیسنگ یونٹ‘‘ قومی جامعہ برائے دفاعی فنیات‘‘ کے ماہرین نے ڈیزائن کیا ہے، جب کہ کمپیوٹر دوہزار ایک میں چینی زبان میں تخلیق کردہ لینکس بیسڈ ’’کے لن‘‘ آپریٹنگ سسٹم سے ہم آہنگ ہے۔ اس سپر کمپیوٹر کی تیاری پر ایک محتاط اندازے کے مطابق تین سو نوے ملین ڈالر لاگت آئی ہے۔

تیان ہی دوئم کمپیوٹر مکمل کارکردگی کے لیے سترہ اعشاریہ چھے میگا واٹ بجلی استعمال کرتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق بجلی کے استعمال کی یہ شرح اوسط درجے کے تقریباً اٹھارہ ہزار گھروں کو فراہم کی جانی والی بجلی کے برابر بنتی ہے۔ کمپیوٹر میں مجموعی طور پر اکتیس لاکھ بیس ہزار کور پروسیسر کام کررہے ہیں، جو دوسو عام سائز کے ریفریجریٹروں کے برابر الماریوں میں رکھے ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ تیان ہی دوئم سپر کمپیوٹر کو مقناطیسی مادوں، سالمیاتی حرکیات، نیوکلیائی ری ایکٹر میں نیوٹران کی تاب کاری اور موسمیاتی نظاموں میں تبدیلی کے تجزیوں کے ساتھ ساتھ ان کی پیچیدہ عکس نگاری اور تمثیل نگاری کے لیے تیرہ سو سے زاید ماہرین نے تخلیق کیا ہے۔ تیان ہی دوئم سپر کمپیوٹر کا منصوبہ چین کے آٹھ سو تریسٹھ ہائی ٹیکنالوجی پروگرام کے تعاون سے مکمل کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ منصوبہ سن دوہزار پندرہ میں مکمل ہونا تھا لیکن چینی ماہرین کی شبانہ روز محنت کے باعث اسے دو سال قبل ہی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا گیا۔

٭ ٹائی ٹین(Titan)
یونان کی اساطیری کہانیوں میں وسیع جثے اور بے انتہا طاقت کے حامل ایک دیوتا کا نام ٹائی ٹین تھا۔ اسی مناسبت سے عموماً وسیع وعریض یا دیوقامت اشیاء کے نام ٹائی ٹین ر کھے جاتے ہیں، جس کی ایک مثال عظیم الشان جسامت والے بحری جہاز ’’ٹائی ٹینک‘‘ کی ہے بالکل اسی طرح سپرکمپیوٹر کی فہرست میں دوسرے نمبر پر فائز کمپیوٹر سسٹم کا نام بھی اس کی زبردست وسعت اور کارکردگی کے باعث ٹائی ٹین رکھا گیا ہے۔ دو ہزار بارہ میں اول نمبر پر فائز یہ سپرکمپیوٹر امریکی ماہرین کی اس کاوش کا تسلسل ہے، جسے انہوں نے دوہزار نو میں شروع کیا تھا۔ اس کمپیوٹر کو کمپیوٹر کی عالمی صنعت سے وابستہ امریکی ادارے ’’کرے کارپوریشن‘‘ نے ٹینیسی ریاست میں واقع ’’ اوک رج نیشنل لیبارٹری‘‘ میں تخلیق کیا تھا اور یہ امریکا کے محکمہ توانائی کے زیر اہتمام کام کرنے والی اسی لیبارٹری میں نصب بھی ہے۔

واضح رہے کہ ٹائی ٹین ایک اور سُپرکمپیوٹر جیگوار کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ اس سپرکمپیوٹر کی رفتار سترہ اعشاریہ انسٹھ پی ٹا فلوپ فی سیکنڈ ہے جب کہ میموری کی گنجائش سات سو دس ٹیرا بائٹ سے زاید ہے۔ سپرکمپیوٹر کو مکمل طو ر پر آپریٹ ہونے کے لیے آٹھ اعشاریہ دو میگا واٹ بجلی درکار ہوتی ہے۔

ٹائی ٹین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ واحد مخلوط سپر کمپیوٹر ہے جو عام روایتی پروسیسرز کے سی پی یو کے ساتھ ساتھ ’’گرافکس پراسیسنگ یونٹ‘‘ بھی استعمال کرتے ہوئے دس پی ٹا فلوپ فی سیکنڈ کی رفتار تک پہنچا ہے۔ ٹائی ٹین کمپیوٹر چار ہزار تین سو باون مربع فٹ زمینی رقبے پر پھیلا ہوا ہے، جب کہ اس کی اونچائی ڈھائی میٹر کے لگ بھگ ہے ایک اندازے کے مطابق اس کمپیوٹر پر دنیا کی موجودہ آبادی (سات ارب) کا ہر فرد ایک سیکنڈ میں تیس لاکھ سے زاید حسابی عمل انجام دے سکتا ہے۔

جدید تحقیقی خدمات انجام دینے والے اس کمپیوٹر کی تیاری پر ستانوے ملین امریکی ڈالر یا نوارب پاکستانی روپے کے اخراجات آئے، جنہیں امریکا کے محکمۂ توانائی اور نیشنل اوشن اور ماحولیاتی ایڈمنسٹریشن کے اداروں نے برادشت کیا تھا۔ کمپیوٹر میں پانچ لاکھ ساٹھ ہزار چھے سو چالیس کور پروسیسر مصروف عمل ہیں، جو کرے کارپوریشن کے تخلیق کردہ لینکس انوائرمنٹ آپریٹنگ سسٹم پر کام کرتے ہیں۔ بنیادی طور پر ٹائی ٹین سالمیاتی طبیعیات، موسمیاتی موڈیولز اور مادے کی نینو سطح کی ساخت کے حوالے سے ماہرین کے شانہ بہ شانہ خدمات انجام دے رہا ہے۔ ٹائی ٹین کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹائی ٹین سے حاصل شدہ ڈیٹا پڑھنے یا سہ جہتی عکسی نقول دیکھنے کے لیے دس میٹر چوڑی اور تین میٹر اونچی اسکرین کی سہولت بھی موجود ہے۔ واضح رہے کہ دوسو سے زاید کیبنٹ یا الماریوں پر مشتمل ٹائی ٹین سپر کمپیوٹر ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک سیکنڈ میں بیس ہزار ٹریلین کیلکولیشن کرنے کا اہل ہے۔

٭ سیکیویا (Sequoia)
فہرست میں صرف اعشاریہ پینتالیس پی ٹا فلوپس فی سیکنڈ کے فرق سے تیسرے نمبر پر فائیز ’’سیکویا‘‘ سپرکمپیوٹر کی رفتار سترہ اعشاریہ سترہ پی ٹا فلوپس فی سیکنڈ ہے۔ یہ کمپیوٹر مشہور زمانہ کمپنی آئی بی ایم کی تخلیق ہے جو امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ’’لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری‘‘ میں موجود ہے۔ آئی بی ایم نے یہ مشین امریکا کے نیشنل نیوکلیئر سیکیوریٹی کے ادارے کے لیے تخلیق کی ہے، جہاں یہ سن دوہزار گیارہ سے سرگرم عمل ہے۔ یہ سپر کمپیوٹر امریکا کے ’’ایڈوانس سیمولیشن اینڈ کمپیوٹنگ پروگرام ‘‘ کا حصہ بھی ہے۔ آئی بی ایم کی جانب سے انیس سو نناوے میں کمپیوٹر ز سے تیز ترین کارکردگی حاصل کرنے کے لے ’’بلیو جین‘‘ پروجیکٹ شروع کیا گیا تھا۔

سیکویا سپر کمپیوٹر بلیو جین پروجیکٹ کی تیسری نسل ’’کیو‘‘ سے تعلق رکھتا ہے زمینی، کائناتی، انسانی جینوم، ماحولیاتی اور موسمیاتی عکس نگاری میں معاون یہ کمپیوٹر مجموعی طور پر تین ہزار دوسو مربع فٹ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور مجموعی طور پر سات اعشاریہ نو میگا واٹ بجلی استعمال کرتا ہے، جب کہ اس میں پندرہ لاکھ بہتر ہزار آٹھ سو چونسٹھ ملٹی کور پروسیسر باہم منسلک ہیں۔ سسٹم کی مجموعی میموری بھی پندرہ لاکھ بہتر ہزار آٹھ سو چونسٹھ گیگا بائٹ ہے۔ کمپیوٹر میں بلیو جین پروجیکٹ کا ’’کمپیوٹ نوڈکرنیل‘‘ (سی. این. کے) اور لینکس کا ’’ریڈ ہیٹ انٹرپرائز لینکس‘‘ آپریٹنگ سسٹم کام کررہا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے فرضی تجربات کے لیے بھی تخلیق کیے جانے والے اس کمپیوٹر کی مدد سے اب زیرزمین جوہری تجربات کی ضرورت نہیں رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق سیکیویا سپرکمپیوٹر ایک گھنٹے میں اتنے حسابی عمل کی تکمیل کرسکتا ہے جنہیں دنیا کی موجودہ آبادی کو عام دستی کیلکولیٹر سے انجام دینے میں ساڑھے تین سو سال لگیں گے۔

٭ کے کمپیوٹر(K computer)
جاپان کے ایک سپر کمپیوٹر جس نے اس فہرست میں مقام بنایا ہے اس کا نام ’’کے سپر کمپیوٹر ‘‘ ہے ’’کے‘‘ جاپانی زبان میں ’’کواڈریلین‘‘ ( ایسی رقم جس کے پہلے ہندسے کے بعد پندرہ صفریا ہندسے آتے ہوں) کو کہتے ہیں۔ اسے فیوجیتسو نامی جاپانی کمپنی نے تخلیق کیا ہے۔ گذشتہ تین سال سے عالمی درجہ بندی میں مختلف درجوں پر فائز اس سپر کمپیوٹر کی تیاری پر اب تک ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر لاگت آچکی ہے۔ جاپان کے چھٹے بڑے شہر کوبے کے RIKENایڈوانس انسٹی ٹیوٹ برائے کمپیوٹشنل سائنس کے کیمپس میں موجود یہ کمپیوٹر آٹھ کور کے اٹھاسی ہزار ایک سو اٹھائیس پروسیسرز پر مشتمل ہے، جو مجموعی طور پر سات لاکھ پانچ ہزار چوبیس کور پروسیسرز بنتے ہیں۔

ایک دوسرے سے باہم مربوط یہ نوڈز (سی پی یو) مجموعی طور آٹھ سو چونسٹھ کیبنٹ سے منسلک ہیں۔ کمپیوٹر کی رفتار دس اعشاریہ پانچ پی ٹافلوپس فی سیکنڈ ہے ’’کے کمپیوٹر‘‘ مکمل فعال ہونے کے لیے بارہ اعشاریہ چھے میگا واٹ توانائی استعمال کرتا ہے۔ یہ سپر کمپیوٹر لینکس کیرنل آپریٹنگ سسٹم پر کام کرتا ہے۔ جاپان ان چند ممالک میں سرفہرست ہے جہاں تواتر سے زلزلے آتے رہتے ہیں چناں ’’کے سپر کمپیوٹر‘‘ موسمیاتی نقشے اور طبی تحقیق کے علاوہ زلزلیاتی موجوں کی عکس نگاری، سونامی اور سمندری طوفانوں کی پیش گوئی اور بچائو کے حوالے سے محققین کے لیے دست راست کا کردار ادا کررہا ہے۔

٭ میرا( Mira)
فہرست میں پانچویں نمبر پر امریکا کا سپر کمپیوٹر ’’میرا‘‘ ہے، امریکا کے کمپیوٹر سائنس دانوں نے یہ نام ہماری ’’ہردل عزیز‘‘ اداکارہ میرا سے متاثر ہوکر نہیں رکھا ہے، بل کہ یہ نام لاطینی زبان میں ’’تعریف کی طلب اور معجزیاتی یا حیرت انگیز‘‘ کے لیے استعمال ہونے والے لفظ ’’میرا‘‘ پر رکھا گیا ہے۔ یہ سپرکمپیوٹر بھی آئی بی ایم نے تخلیق کیا ہے اور سپر کمپیوٹرز کے بلیو جین پروجیکٹ کی تیسری نسل ’’کیو‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ آٹھ اعشاریہ انسٹھ پی ٹا فلوپ فی سیکنڈ کی رفتار سے کام کرنے والا یہ کمپیوٹر امریکی ریاست الینوائے کے تحقیقی ادارے ’’آرگون نیشنل لیبارٹری‘‘ میں موجود ہے۔ یہ لیبارٹری امریکا کے محکمۂ توانائی کے زیرنگرانی کام کرتی ہے، جہاں اس کمپیوٹر کی مدد سے محققین مادیاتی سائنس، موسمیات، کائنات، زلزلہ اور شماریاتی کیمیاء کے پیچیدہ مسائل حل کرنے میں مصروف ہیں۔

اگرچہ آئی بی ایم نے سپر کمپیوٹر کی لاگت مخفی رکھی ہے۔ تاہم بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مشین پر پچاس ملین ڈالر کا خرچہ آیا ہے، جب کہ آرگون نیشنل لیبارٹری نے اسے آئی بی ایم سے ایک سو اسی ملین ڈالر میں خریدا ہے۔ لینکس آپریٹنگ سسٹم سے لیس سپر کمپیوٹر ’’میرا‘‘ مکمل طور پر فعال ہونے میں تین اعشاریہ نو میگا واٹ بجلی خرچ کرتا ہے۔ سسٹم میں انچاس ہزار ایک سو باون نوڈز یا مرکزی کنکشن ہیں۔ ہر نوڈز کے ساتھ سولہ کور کا ملٹی کور پروسیسر لگا ہوا ہے۔ اس طرح مجموعی طور پر پروسیسرز کی تعداد سات لاکھ چھیاسی ہزار چار سو بتیس بنتی ہے، جو اڑتالیس کمپیوٹر کیبنٹ میں سمائے ہوئے ہیں سپر کمپیوٹر کی مجموعی میموری سات سو اڑسٹھ ٹیرا بائٹ ہے۔

٭ پز ڈینٹ(Piz Daint)
سوئٹزر لینڈ کے شمال میں واقع پہاڑ ’’پز ڈینٹ‘‘ کے نام سے منسوب اس سپرکمپیوٹر کی تیز رفتار سپر کمپیوٹرز کی فہرست میں اولین آمد ہے اور یہ موجودہ فہرست میں واحد تبدیلی بھی ہے، باقی نو سپر کمپیوٹر گذشتہ فہرست میں بھی شامل تھے۔ تاہم ان کی درجہ بندی مختلف تھی پز ڈینٹ سپر کمپیوٹر کی رفتار چھے اعشاریہ ستائیس پی ٹا فلوپس فی سیکنڈ ہے۔ کمپیوٹر کی تخلیق امریکا کی کرے کارپوریشن کے ماہرین نے انجام دی ہے۔ سوئٹزرلینڈ کے انتہائی جنوب میں واقع انتظامی علاقے ’’ تیسینو‘‘ کے شہر ’’لوگانو‘‘ میں قائم ’’سوئس نیشنل سپر کمپیوٹنگ سینٹر‘‘ میں فعال یہ سپرکمپیوٹر کرے کمپنی کے لینکس بیسڈ آپریٹنگ سسٹم کے تحت چلتا ہے۔ مشین میں ایک لاکھ پندرہ ہزار نو سو چوراسی کور پروسیسرز کام کررہے ہیں جب کہ سسٹم کی مکمل میموری ایک سو انہتر ٹیرا بائٹ ہے۔

مکمل کمپیوٹر قد آدم سائز کی اٹھائیس کیبنٹ یا الماریوں میں سمایا ہوا ہے۔ کمپیوٹر مکمل فعال ہونے کی صورت میں دو اعشاریہ تین میگا واٹ توانائی خرچ کرتا ہے۔ یاد رہے کہ پز ڈینٹ اپنی پروسیسنگ کی رفتار کے باعث یورپ کا تیز ترین سپر کمپیوٹر بھی بن چکا ہے۔ اس سپر کمپیوٹر کا بنیادی مقصد مختلف تحقیقی کاموں میں پیچیدہ سہ جہتی کمپیوٹرائزڈ نقول کی فراہمی ہے جن میں موسمیاتی نظاموں میں تبدیلی اور توانائی کے ذخائر کے مستقبل کے حوالے سے پیداواری نمونے اور تجزیے بھی شامل ہیں۔

٭ اسٹمپیڈا(Stampede)
تیز رفتار سپر کمپیوٹرز کی فہرست میں شامل ’’اسٹمپیڈا‘‘ واحد سپر کمپیوٹر ہے جس کی تخلیق میں امریکا کی غیرسرکاری تنظیم نیشنل فائونڈیشن برائے سائنس نے رقم کی معاونت کی ہے۔ امریکا کی جامعہ ٹیکساس کے ٹیکساس ایڈوانس کمپیوٹنگ سینٹر میں موجود اس مشین کی انتہائی رفتار پانچ اعشاریہ سولہ پی ٹا فلوپس فی سیکنڈ ہے۔ لینکس آپریٹنگ سسٹم سے آراستہ اس مشین کو ’’ ڈیل ‘‘ کمپنی نے تخلیق کیا ہے۔ لگ بھگ ایک لاکھ بانوے ہزار ایک سو بانوے گیگا بائٹ کی میموری والے اس سپر کمپیوٹر میں چارلاکھ باسٹھ ہزار چا رسو باسٹھ کور پروسیسرز استعمال کیے گئے ہیں جو ایک سو بیاسی کیبنٹ یا الماریوں میں سمائے ہوئے ہیں۔

یہ تمام رقبہ گیارہ ہزار مربع فٹ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ تمام کیبنٹ کو باہم مربوط رکھنے کے لیے پچھتر میل طوالت پر مشتمل نیٹ ورک کیبل استعما ل کیا گیا ہے۔ اسٹمپیڈا مکمل فعالیت کی صورت میں چار اعشاریہ پانچ میگا واٹ توانائی خرچ کرتا ہے۔ کائنات میں پھیلے ہوئے مناظر کی عکس نگاری سے لے کر ارضیاتی ساخت پر تحقیق میں محققین کے شانہ بشانہ خدمات انجام دینے والے اس سپر کمپیوٹر کی مدد سے تین ہزار چارسو محققین محض ایک سال کے عرصے میں سائنس کے مختلف نوعیت کے تقریباً بائیس لاکھ پیچیدہ مسائل کرچکے ہیں۔

٭ جیوکوئن(JUQUEEN)
یہ سپرکمپیوٹر بھی آئی بی ایم نے تخلیق کیا ہے اور سپرکمپیوٹرز کے بلیو جین پروجیکٹ کی تیسری نسل ’’کیو‘‘ سے تعلق رکھتا ہے۔ جرمنی کے شہر جیولخ کے تحقیقی مرکز ’’فور شنگس زنترم‘‘ میں سرگرم عمل اس کمپیوٹر کی رفتار پانچ پی ٹی فلوپس فی سیکنڈ ہے۔

یہ سپرکمپیوٹر چار لاکھ اٹھاون ہزار سات سو باون کور پروسیسرز سے لیس ہے جس کے لیے اٹھائیس کیبنٹ بنائی گئی ہیں۔ کمپیوٹر کی میموری کی گنجائش چار سو اڑتالیس ٹیرا بائٹ ہے۔ سسٹم ریڈ ہیٹ انٹرپرائز لینکس اور آئی بی ایم کے ’’کمپیوٹ نوڈ کرنیل‘‘ آپریٹنگ سسٹم سے لیس ہے اور فعال ہونے کی صورت میں دو اعشاریہ تین میگا واٹ بجلی خرچ کرتا ہے۔ جیوکیون سپر کمپیوٹر زمین کی پرتوں کے علاوہ ماحولیاتی پیش گوئی، توانائی کے زیرزمین نئے ماخذ کی تلاش اور ارضیاتی وسماوی نقشے کی سہ جہتی مجازی نقول بنانے میں ماہرین کا ممدومددگار ثابت ہو رہا ہے۔

٭ولکان(Vulcan)
جیوکیون ہی کی مانند ولکان بھی آئی بی ایم کے بلیو جین پروجیکٹ ’’کیو‘‘ سے تعلق رکھتا ہے اور تقریباً جیوکیون کا ہم پلہ ہے۔ چار اعشاریہ دو پی ٹی فلوپس فی سیکنڈ سے چلنے والے اس کمپیوٹر میں تین لاکھ ترانوے ہزار دو سو سولہ پروسیسرز ہیں، جب کہ میموری تین سو چوراسی ٹیرا بائٹ پر مشتمل ہے۔ ایک اعشاریہ نو میگا واٹ توانائی خرچ کرنے والا یہ سسٹم امریکی ریاست کیلی فورنیا میں ’’لارنس لیورمور نیشنل لیبارٹری‘‘ میں موجود ہے۔ اس کا آپریٹنگ سسٹم بھی جیوکیون سپر کمپیوٹر کی مانند ہے۔ صنعتی مسائل کے حل کے لیے تخلیق کیا گیا یہ کمپیوٹر چوبیس کیبنٹ یا الماریوں پر مشتمل ہے۔ ولکان سپر کمپیوٹر امریکا کے محکمۂ توانائی اور نیشنل نیوکلیئر سیکیوریٹی ایڈمنسٹریشن کے مختلف اعلیٰ سطحی تحقیقی نوعیت کے پروگراموں میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔

٭سپر ایم یو سی (SuperMUC)
جرمنی کے اہم شہر میونخ کے نواح میں واقع علاقے گارشنگ کے ’’لبنز سپر کمپیوٹنگ سینٹر‘‘ میں موجود اس کمپیوٹر کی رفتار دو اعشاریہ آٹھ پی ٹا فلوپس فی سیکنڈ ہے۔ دس تیز رفتار سپر کمپیوٹرز کی فہرست میں دسویں نمبر پر فائز یہ مشین بھی آئی بی ایم کی بنائی ہوئی ہے۔ اس کے سسٹم میں آٹھ کور کے اٹھارہ ہزار چار سو بتیس ملٹی کور پروسیسرز لگے ہوئے ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر پروسیسرز کی تعداد ایک لاکھ سینتالیس ہزار چار سو چھپن بنتی ہے۔

کمپیوٹر کے لیے ماہرین نے لینکس بیسڈ SUSE لینکس انٹرپرائز سرور منتخب کیا ہے۔ مکمل فعال ہونے کی صورت میں تین اعشاریہ چار میگا واٹ بجلی استعمال کرنے والے اس سسٹم کی میموری دو سو اٹھاسی ٹیرا بائٹ ہے۔ یہ سپر کمپیوٹر جرمن بیویرین اکیڈمی کے سپر کمپیوٹنگ سینٹر میں انسٹال کیا گیا ہے جہاں اس سپر کمپیوٹر کی مدد سے یورپ بھر سے آئے ہوئے ماہرین طب، حرکیات اور فلکی طبیعیات کے پیچیدہ مسائل حل کرنے میں مصروف ہیں۔

سپر کمپیوٹر کیسے کام کرتا ہے
سپر کمپیوٹر اور روزمرہ کے ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ فرق صرف وسعت، استعداد کار اور رفتار کا ہے سپر کمپیوٹر دراصل ایک ایسے مربوط اور منظم نظام کا نام ہے، جس میں ڈیٹا پروسیسنگ کی رفتار انتہائی برق رفتار طریقے سے طے پاتی ہے، جس کے طفیل پیچیدہ مسائل لمحے بھر میں حل کیے جاسکتے ہیں۔ سپر کمپیوٹر کی تیاری میں ’’سی پی یو‘‘ وسیع جگہ پر کیبنٹ یا الماریوں کی شکل میں لگائے جاتے ہیں، جن میں موجود لاکھوں مائیکرو پروسیسرز متوازی انداز میں ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ سپر کمپیوٹر کی جانب کوئی بھی پیچیدہ مسئلہ بھیجنے سے قبل ماہرین اس مسئلے کو ہزاروں چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں یا حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں، جس کے بعد سپر کمپیوٹر کا ہر مائیکرو پروسیسر ان حصوں کو آپس میں بانٹ کرانہیں حل کرنے کی ذمہ داری سنبھال لیتا ہے۔ کام کے تقسیم ہوجانے کے باعث ڈیٹا پروسیسنگ کی رفتار کئی گنا بڑھ جاتی ہے اور پلک جھپکتے میں پیچیدہ سے پیچیدہ مسئلے کا مربوط حل سامنے آجاتا ہے۔ یاد رہے کہ اس دوران ریم، ہارڈڈسک، کیبلز اور دیگر برقی آلات کا سپر کمپیوٹر کے مجموعی معیار کے ہم پلہ ہونا ضروری ہوتا ہے ۔

سپر کمپیوٹر: خدمات
یوں تو سپر کمپیوٹر ز کا دائرہ کار بہت وسیع ہے، تاہم سپر کمپیوٹرز جن اہم شعبوں میں مصروف ہیں، ان میں نیوکلیائی ہتھیار اور تجربات، موسمیاتی نظام، اجزاء کی سالمیاتی ساخت، اجرام فلکی کی فلکیاتی نقشہ نویسی، سپر سانک شور، قدرتی وسائل سے آگاہی، اعصابی نظام پر تحقیق، زلزلیاتی موجوں کا مشاہدہ، سونامی اور سائیکلون وغیرہ کی تمثیل نگاری اور عکس نگاری، طب، کیمیاء، طبیعیات، معاشیات اور ریاضیات کے پیچیدہ مسائل، عالمی ماحولیات کے حوالے سے پیش گوئی، خلائی سائنس اور مہمات، گنجلک سائنسی پیمائشیں، آٹو موبائل، مصنوعی ذہانت، حیاتیاتی سائنس، بائیوانفارمیٹکس، راکٹ سازی اور میزائل سائنس پر تحقیق وغیرہ کے شعبے شامل ہیں۔ اس حوالے سے پانچ سو اولین سپرکمپیوٹر جن شعبوں میں کام کررہے ہیں ان میںسے چھپن سپر کمپیوٹرز مختلف نوعیت کی تحقیقی سرگرمیوں کے لیے وقف ہیں، جب کہ نو سپر کمپیوٹر موسمیات اور فضا کے شعبے میں، چھے توانائی، پانچ دفاع اور پانچ ہی بینچ مارک سافٹ ویئر کے شعبے میں، تین ماحولیات، دو ایئرو اسپیس جب کہ ایک ایک سپر کمپیوٹر بالترتیب مالیات، سیمی کنڈکٹر، سافٹ وئیر اور ویب سروس کے شعبے میں خدمات انجام دے رہے ہیں، جب کہ چارسو دس ایسے سپر کمپیوٹر ز ہیں جن کی خدمات کے حوالے سے کسی بھی شعبے کو ظاہر نہیں کیا گیا ہے۔

کور پروسیسرز کے بارے میں بنیادی معلومات
سپر کمپیوٹر سے لے کر عام کمپیوٹرز تک میں اب ’’کور پروسیسرز ‘‘ کا استعمال عام ہے۔ کمپیوٹر کی ابتدا میں سی پی یو میں صرف واحد پروسیسرز استعمال ہوتا تھا، تاہم اب اس کے ساتھ ’’کور‘‘ کا لفظ بھی لگایا جاتا ہے، جس کے عام معنی ’’پرت ‘‘ یا ’’سطح‘‘ کے ہیں۔ دراصل ایسا پروسیسر جس میں کئی پرتیں یا سطحیں ہوں اور ان میں مائیکرو پروسیسرز لگے ہوں یا وہ خود کسی بڑے پروسیسر کا حصہ ہوں ’’کور پروسیسر‘‘ کہلاتے ہیں۔ یعنی ’’ ڈیوئل کور‘‘ سے مراد دو تہوں یا دو پروسیسر والا اور ’’کواڈکور‘‘ سے مراد ایسا پروسیسر ہے جو چار سطحوں یا چار مائیکرو پروسیسرز پر مشتمل ہو۔ تاہم سپر کمپیوٹر ز میں پروسیسرز میں کورز کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ کمپیوٹرز میں پروسیسرز کی طاقت میں اضافہ کی وضاحت کے لیے ’’مور کا قانون ‘‘ رائج ہے۔ اس قانون کے مطابق کمپیوٹر میں پروسیسنگ کی رفتار ہر اٹھارہ ماہ بعد دگنی ہوجاتی ہے اور ابھی تک یہ قانون روبہ عمل ہے۔ واضح رہے کہ مور کا قانون پروسیسر بنانے کی مشہور زمانہ کمپنی انٹیل کے شریک بانی ’’گورڈون ارل مور‘‘ نے پیش کیا تھا۔

پاکستان اور سپر کمپیوٹر
بدقسمتی سے پاکستان پانچ سو سپر کمپیوٹر زکی فہرست میں جگہ بنانے سے محروم ہے۔ تاہم ایک سو بتیس ٹیرا فلوپ فی سیکنڈ کی رفتار کا حامل ’’سپر کمپیوٹنگ ریسرچ اینڈ ایجوکیشن سینٹر‘‘ کا ’’ ScRECکمپیوٹر‘‘ پاکستان کا تیز ترین کمپیوٹر ہے۔ یہ کمپیوٹر اسلام آباد میں قائم نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ریسرچ سینٹر فار ماڈلنگ اینڈ سمیولیشن میں تیار کیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر تیس ہزار نو سے بانوے کور پروسیسرز پر مشتمل یہ سپر کمپیوٹر مروجہ ملٹی کور پروسیسرز کے علاوہ امریکا میں واقع ’’این ویڈیا‘‘ کمپنی کے ’’گرافیکل پروسیسنگ یونٹ‘‘ سے بھی لیس ہے۔ ستمبر دوہزار بارہ سے فعال ہونے والے اس کمپیوٹر میں میموری اسٹوریج کی گنجائش چھبیس اعشاریہ ایک ٹیرا بائٹ تک ہے۔ یہ سپر کمپیوٹر باہم چھیاسٹھ نوڈزیا حصوں میں مربوط ہے، جو باہم مل کر ڈیٹا پروسس کرتے ہیں۔ پاکستان کا یہ سپر کمپیوٹر خلائی تحقیق، آٹوموبائل کی صنعت، دفاع، بائیو انفارمیٹکس اور دیگر تحقیقی شعبوں کے پیچیدہ مسائل کے حل کے لیے مصروف کا رہے۔ نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی سپر کمپیوٹنگ لیب میں موجود بیس ٹرمینل مرکزی سپر کمپیوٹر سے منسلک ہیں، جن کے ذریعے بیک وقت بیس محقق اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس سپرکمپیوٹر سے قبل انیس سو اسی کی دہائی میں پاکستان ایٹامک انرجی کمیشن اس حوالے سے سرگرم رہا ہے، جس کے ماہرین نے ’’ایٹم بم پروجیکٹ‘‘ میں ’’فاسٹ نیوٹران کیلکولیشن‘‘ کے لیے تیز ترین کمپیوٹر بنائے تھے۔ اس کام یابی کے بعد ’’غلام اسحق خان انسٹیٹیوٹ آف انجینئرنگ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ نے ڈائریکٹوریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی خیبر پختون خواہ کے تعاون سے سپرکمپیوٹر تخلیق کیا تھا۔ غلام اسحق خان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ میں موجود اس کمپیوٹر کو ’’ہائی پرفارمینس کمپوٹنگ کلسٹر‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس کے بعد ’’کام سیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی‘‘ نے سن دوہزار چار میں لینکس بیسڈ آپریٹنگ سسٹم پر مشتمل سپر کمپیوٹر بنایا ایک سو اٹھاون گیگا فلوپ فی سیکنڈ کی رفتار سے چلنے والا یہ کمپیوٹر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مالی تعاون سے پایۂ تکمیل کو پہنچا تھا۔ یہ منصوبہ ’’کمپیوٹشنل کلسٹر ریسرچ پروجیکٹ‘‘ کے نام سے مکمل کیا گیا تھا۔ اس کے بعد خیبر پختون خواہ ہی کی جامعہ کوہاٹ برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے چار سو سولہ گیگا فلوپ فی سیکنڈ کی رفتار سے کام کرنے والا کمپیوٹر تخلیق کیا یہ مشین ایک سو چار سی پی یو پر مشتمل ہے اور کوہاٹ یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں مصروف کار ہے۔ اسے آخری مرتبہ سن دوہزار آٹھ میں اپ ڈیٹ کیا گیا تھا۔ واضح رہے کہ مذکورہ کمپیوٹرز اگرچہ دنیا میں بنائے جانے والے سپر کمپیوٹر سے خاصے پیچھے ہیں، تاہم ان کا شمار پاکستان کے برق رفتار کمپیوٹرز میں کیا جاتاہے ۔

ٹاپ500 سپر کمپیوٹرلسٹ کے خالق
جرمنی کی ’’جامعہ مین ہائم‘‘ کی جانب سے انیس سو چھیاسی میں ’’مین ہائم سپر کمپیوٹر سیمینار‘‘ منعقد کیا گیا، جو اب ’’انٹرنیشنل سپر کمپیوٹنگ کانفرنس‘‘ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس کانفرنس میں دنیا بھر سے کمپیوٹر کے شعبے کے ماہرین شرکت کرکے ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کرتے ہیں۔ اسی سلسلے کے چوبیس جون انیس سو ترانوے کے آٹھویں سیمینار میں منتظمین کی جانب سے پہلی مرتبہ پانچ سو اعلیٰ کارکردگی کے سپر کمپیوٹر کی فہرست جاری کی گئی اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ یہ فہرست ہر سال جرمنی میں منعقد ہونے والی انٹرنیشنل سپر کمپیوٹر کمپیوٹنگ کانفرنس کے موقع پر جون کے مہینے میں جاری کی جاتی ہے، جب کہ دوسری فہرست ہر سال نومبر کے مہینے میں امریکا میںایسوسی ایشن برائے کمپیوٹنگ مشینری، انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈالیکٹرونکس انجینئر اورکمپیوٹر سوسائٹی کی جانب سے جاری کی جاتی ہے۔ مجموعی طور پر دونوں مواقع کی فہرستیں ملا کر اٹھارہ نومبر دوہزار تیرہ تک بیالیس فہرستیں جاری کی جاچکی ہیں۔ یہ فہرستیں دونوں اداروں کے باہم اتفاق سے مرتب کی جاتی ہیں۔ اس منصوبے کے خالق جامعہ مین ہائم میں شعبہ کمپیوٹر سائنس کے بانی آنجہانی پروفیسرہینز میور، امریکا کی جامعہ تینینسی میں ریاضیات اور کمپیوٹر سائنس کے ماہر امریکی پروفیسر جیک جے ڈونگرا، کیلیفورنیا میں واقع لارنس بارکلے نیشنل لیبارٹری میں فائز جرمن ڈاکٹر اریخ اسٹورمیر اور ڈاکٹر ہورسٹ سائمن ہیں۔

عالمی درجہ بندی ….. لائن پیک بینچ مارک ٹیسٹ
کسی بھی سپر کمپیوٹر کی استعداد کار کو جانچنے کے لیے مروجہ معیاری ٹیسٹ کو ’’لائن پیک بینچ مارک‘‘ ٹیسٹ کہا جاتا ہے۔ یہ ٹیسٹ امریکی پروفیسر جیک جے ڈونگرا نے انیس سو اناسی میں تخلیق کیا تھا۔ اس ٹیسٹ میں سپر کمپیوٹرز کو ایک خاص تسلسل میں مساواتوں کو حل کر نے کا ٹاسک دیا جاتا ہے، جس کے بعد ماہرین سپر کمپیوٹر کی جانب سے حل کرنے کی رفتار مدنظر رکھ کر سپر کمپیوٹرز کی عالمی درجہ بندی کرتے ہیں۔ تاہم کمپیوٹر سائنس کے شعبے میں انتہائی تیزی سے آنے والی تبدیلوں کے باعث ماہرین لائن پیک بنچ مارک معیاری ٹیسٹ پر اب شکوک و شہبات کا اظہار کرتے ہوئے مزید بہتر طریقہ کار وضع کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔

ٹاپ 500 سپرکمپیوٹر لسٹ پر ایک نظر
اس لسٹ میں اکتیس ایسی مشینیں ہیں جن کی کارکردگی پی ٹا فلوپس میں ہے، جب کہ پانچ سو سپر کمپیوٹرز میں استعمال ہونے والے پروسیسرز میں سے انٹیل پروسیسر ز کا حصہ بیاسی اعشاریہ چار فیصد بنتا ہے ٹاپ ٹین میں امریکا کے پانچ، جرمنی کے دو اور چین ، جاپان اور سوئٹزرلینڈ کے ایک ایک سپر کمپیوٹرز نے جگہ بنائی ہے، جب کہ پانچ سو سپر کمپیوٹر ز کی مکمل فہرست میں دوسو چونسٹھ سپر کمپیوٹر کے ساتھ امریکا سرفہرست ہے جب کہ چین تریسٹھ، جاپان اٹھائیس، برطانیہ تیئس، فرانس بائیس، جرمنی بیس، انڈیا بارہ اور کینیڈا کے پاس دس سپر کمپیوٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ جنوبی کوریا، سوئیڈن، آسٹریلیا، روس، اٹلی اور سوئٹزر لینڈ کے پاس پانچ پانچ، ناروے، سعودی عرب، نیدرلینڈ اور برازیل کے پاس تین تین، اسپین، آئرلینڈ، اسرائیل، فن لینڈ، ہانگ کانگ اور پولینڈ کے پاس دو دو اور بیلجیم، آسٹریا، ڈنمارک اور تائیوان کے پاس ایک ایک سپر کمپیوٹر ہے، جہاں تک پروسیسرز کے استعمال کا تعلق ہے تو اس میں انٹیل کمپنی کا کوئی بھی ہم پلہ نہیں ہے۔ مجموعی طور پر پانچ سو میں سے تین سو چھیانوے سپر کمپیوٹر انٹیل کے مختلف پروسیسرز سے لیس نظر آتے ہیں، جب کہ سپر کمپیوٹرز کی مالک کمپنیوں میں ہیولٹ پیکارڈ ایک سو چھیانوے کے ساتھ سرفہرست ہے جب کہ آئی بی ایم اور کرے کارپوریشن ایک سو چونسٹھ اور اڑتالیس سپر کمپیوٹرز کے ساتھ دوسرے اور تیسرے نمبر پر براجمان ہیں۔ جاری کردہ فہرست میں چار سو بیاسی ایسے سپر کمپیوٹرز ہیں جن پر لینکس آپریٹنگ سسٹم کی مختلف مصنوعات انسٹال ہیں جب کہ یونیکس گیارہ ، متفرقات چار، ونڈوز دو اور بارکلے سافٹ ویئر آپریٹنگ سسٹم ایک سپر کمپیوٹر پر انسٹا ل ہے۔

فلوپس کیا ہے (FLOPS)
کسی بھی کمپیوٹر کی استعداد کار بالخصوص رفتار کی پیمائش کا پیمانہ ’’فلوپس‘‘ کہلاتا ہے، جو دراصل ’’فلوٹنگ پوائنٹ۔آپریشن پر سیکنڈ‘‘ کا مخفف ہے۔ عام الفاظ میں فلوپس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ کوئی بھی کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں کتنے حسابی عمل انجام دے سکتا ہے۔ دوسرے معنوں میں ڈیٹا پروسیسنگ کی رفتار کی بنیادی اکائی ’’فلوپ‘‘ کہلاتی ہے، جب کہ کمپیوٹر کی زبان میں فلوٹنگ پوائنٹ وہ اعداد ہوتے ہیں، جو اعشاریہ سے پہلے اور بعد میں طویل اعداد پر مشتمل ہوتے ہیں اور جن کو عام کیلکولیٹر یا کمپیوٹر سے مکمل طریقے سے حل کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ تاہم سپر کمپیوٹر انہی لمبے چوڑے فلوٹنگ پوائنٹ اعداد کو جمع، تقسیم، تفریق اور ضرب کرتا ہے اور اسی حسابی عمل کے دورانئے کو ’’فلوٹنگ پوائنٹ آپریشن‘‘ کہا جاتا ہے۔ یاد رہے کہ پیچیدہ نوعیت کے مسئلے کو بالکل درست طریقے سے حل کرنے کے لیے طویل فلوٹنگ پوائنٹ اعداد کا درست مجموعہ حاصل کرنا سپر کمپیوٹر کا امتیازی وصف ہے۔

سپر کمپیوٹر اور رفتار
عام کمپیوٹر اور سپر کمپیوٹر میں بنیادی فرق ڈیٹا پروسیسنگ کی رفتار کا ہے۔ اس رفتار کی بنیاد پر سپرکمپیوٹرز کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ کمپیوٹر کی رفتار کو درجہ بہ درجہ بائنری یعنی ثنائی عددی نظام کے تحت جن اکائیوں (فی سیکنڈ حسابی عمل) کی بنیاد پر بیان کیا جاتا ہے۔ انہیں یونانی زبان پر مشتمل لفظ کلوبائٹ، میگا، گیگا، ٹیرا، پی ٹا وغیرہ میں لکھا جاتا ہے۔ سپر کمپیوٹرز کی تازہ ترین فہرست میں دس اولین کمپیوٹر سمیت اکتیسویں نمبر تک کے سپر کمپیوٹر ’’پی ٹا‘‘ اکائی کے حامل ہیں۔ واضح رہے کہ صرف ایک ’’پی ٹا‘‘ فلوپ کی رفتار رکھنے والا کمپیوٹر ایک سیکنڈ میں دس ہزار کھرب حسابی عمل انجام دے سکتا ہے۔ یعنی ایک ’’پی ٹا‘‘فلوپس رفتار کا حامل کمپیوٹر کوئی بھی ایسا حسابی عمل جس کا جواب پہلے ہندسے کے بعد مزید پندرہ صفر یا ہندسوں کی صورت میں آئے۔

صرف ایک سیکنڈ میں انجام دے سکتا ہے اور ایسی رقم کو جس میں پندرہ صفریا ہندسے ہوں کواڈریلین کہتے ہیں اور کمپیوٹر کی شماریاتی زبان میں کواڈریلین کے لیے ’’پی ٹا‘‘ کی اکائی استعمال ہوتی ہے۔ کمپیوٹرٹیکنالوجی کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ وہ عنقریب پی ٹا رفتار کی حد کو عبور کرکے اگلے سنگ میل یعنی اٹھارہ ہندسوں والے حسابی عمل ’’ ایگزا‘‘ فلوپس کی رفتار کو حاصل کرلیں گے۔ یاد رہے کہ ’’ایک ایگزا فلوپ‘‘ کے معنی ’’ایک ارب ارب آپریشنز فی سیکنڈ‘‘ ہیں۔

’’اندھا پن اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لیے تحفہ ہے‘‘

$
0
0

چند روز قبل ایک دوست کے پاس غلہ منڈی کمالیہ جانے کا اتفاق ہوا۔

دوران گفتگو اچانک ساتھ والی دکان میں بیٹھے ایک ضعیف العمر شخص پر نظر پڑی جو نہایت چابکدستی اور مہارت سے ایک چارپائی بُننے میں مصروف تھا، چارپائی کا ڈیزائن بھی نہایت عمدہ تھا لیکن ایک چیز جو میرے لئے عجب تھی وہ یہ کہ چارپائی بُننے والے کا دھیان اپنے کام پر نہ تھا جبکہ اس کے ہاتھ انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ رسیوں سے گُھل مل رہے تھے۔ توجہ دلانے پر میرے دوست نے بتایا کہ یہ حافظ جی (صرف نام کی حد تک) ہیں اور بینائی سے قطعی طور پر محروم ہیں لیکن اپنے کام میں مہارت کی وجہ سے انہیں کبھی آنکھوں کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ تجسس بڑھنے پر وہ دوست مجھے حافظ جی کے پاس لے گیا، سلام دعا کے بعد میں نے حافظ جی سے ان کی زندگی کے پنّے کھنگالنے کی درخواست کی تو تھوڑے اصرار پر وہ راضی ہوگئے۔

ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ کے رہائشی حافظ جی 1964ء میں پیدا ہوئے، حقیقی نام سردار علی ہے لیکن شناختی کارڈ پر رُلدو لکھا گیا ہے، رُلدو۔۔۔؟ تعجب کے اظہار پر حافظ جی نے بتایا کہ ’’ اُس زمانے میں سادہ سے نام ہوتے تھے، وہ بھی گھر والوں کے بجائے کوئی دوست، رشتہ دار یا محلے دار رکھ دیا کرتے تھے، اسی طرح میرا نام بھی ہمارے ہمسائے نے ب فارم پر رُلدو لکھوا دیا۔ میں نے کئی بار شناختی کارڈ بنانے والوں کو کہا کہ میرا اصل نام لکھیں، لیکن وہ کہتے ہیں اب یہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ نام تبدیل کروانے کے لئے جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں، وہ معذوری کے باعث مجھ سے نہیں ہو سکتا۔‘‘ حافظ جی کے والد محمد صدیق ہندوستان سے ہجرت کرکے آئے تھے۔ گدھا ریڑھی چلانے والے محمد صدیق کے 3 بیٹے اور اتنے ہی بیٹیاں ہیں، غربت کے سائے تلے پلنے والے ان کے تمام بچے بھی محنت مزدوری ہی کرنے پر مجبور ہیں، کوئی والد کی طرح گدھا ریڑھی چلا رہا ہے تو کوئی حافظ جی کی طرح چارپائیاں بُن کر اپنا گزارا کر رہا ہے۔

زندگی کے ابتدائی ایام اور اندھے پن کے بارے میں بتاتے ہوئے حافظ جی نے بتایا کہ’’ پیدائشی طور پر میں بالکل ٹھیک تھا، لیکن سات سال کی عمر میں اچانک مجھے سر میں درد اٹھا تو میری بینائی چلی گئی۔ غریب والدین جو کچھ کر سکتے تھے، انہوں نے کیا۔ ڈاکٹرز سے معائنے بھی کروائے لیکن انہیں مرض کی سمجھ ہی نہیں آئی۔ ڈاکٹرز کے مطابق میرے مرض کا علاج نہیں۔ میرے والد گدھا ریڑھی چلاتے تھے، گھر میں غربت اور محرومیوں نے پنجے گاڑھ رکھے تھے جس کی وجہ سے دنیاوی پڑھائی لکھائی کی طرف کسی نے کبھی دھیان ہی نہیں دیا۔ ہاں پانچ سال کی عمر میں مجھے ایک مدرسے میں حافظ بننے کے لئے داخل کروادیا گیا کیوں کہ وہاں کوئی فیس یا دیگر خرچہ نہیں تھا۔ لیکن مدرسہ میں، میں زیادہ دیر ٹھہر نہیں سکا، وہاں کے اندرونی مسلکی مسائل سے میرا دل کھٹا ہو گیا، بظاہر دین دار بننے والے افراد صرف اپنے مسلکی پرچار میں مصروف رہتے۔

میں گھر واپس آ گیا اور گھر والوں کو کہا کہ مولویوں کے باہمی گلے شکوے بہت زیادہ ہوتے ہیں اور دوسرا وہ مانگنے پر مجبور کرتے ہیں لہٰذا میں اب مدرسے میں نہیں جاؤں گا۔ مجھے آپ کسی کام پر لگا دیں، میرے والد یہ سن کر آگ بگولا ہو گئے، انہوں نے غصے میں مجھے کہا تو پھر ٹھیک ہے جس طرح میں سارا دن دھوپ اور بارش میں بھٹوں پر گدھا ریڑھی میں اینٹیں اتارتا، چڑھاتا ہوں تم بھی وہی کر لو، میں راضی ہو گیا۔ میں نے والد کو کہا کہ آپ ہمیں روٹی دے دیا کرو، ہم آپ کے ساتھ کام کریں گے، پھر ایسے ہی کام چلتا رہا لیکن میں زیادہ دیر اس میں بھی نہ چل سکا کیوں کہ بینائی نہ ہونے سے مجھے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ 10سال کی عمر میں دکھائی نہ دینے کی وجہ سے اینٹیں ہاتھ اور پاؤں پر لگ جاتیں تو بہت تکلیف ہوتی، پھر کئی کئی دن وہ زخم نہیں بھرتے تھے، پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے ہاتھ اور پاؤں پر پٹیاں باندھ کر بھی کام کرنا پڑتا لیکن یہ کام مستقل تو میں نہیں کر سکتا تھا، اس لئے میں بہت پریشان رہنے لگا، نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے آسان و حلال حصول رزق کی دعائیں کرنے لگا تو ایسے میں کسی کے مشورے پر 14سال کی عمر میں، میں نے چارپائی و کرسی بُننے کا کام سیکھنا شروع کر دیا۔

اس کام میں میرا کوئی استاد نہیں بلکہ میں نے خود ہی تھوڑی سی مشقت سے یہ کام سیکھ لیا۔ جب میں نے یہ کام شروع کیا اُس وقت چارپائی بُنائی کے لئے اجرت دینے کا رواج نہیں تھا، لوگ خود ہی میرے پاس چلے آتے کہ حافظ جی میری چارپائی بُن دیں، میری کرسی بُن دیں، یوں میں صرف دعاؤں کے عوض کام کرنے لگا تو مجھے اس کام پر عبور حاصل ہو گیا۔ پھر بعدازاں ایک چارپائی بُننے کی 10روپے اجرت لینے لگا جو آج دو سے تین سو روپے تک پہنچ چکی ہے۔ صحت اجازت دے تو ایک دن میں دو چارپائیاں بُن لیتا ہوں، جس سے گھر کا خرچہ چل جاتا ہے لیکن زیادہ تر ایک چارپائی ہی بُن پاتا ہوں‘‘۔

چارپائیاں بُننے کے کام میں کبھی دقت محسوس کی؟ کے جواب میں رُلدو کا کہنا تھا’’ اس کام میں زیادہ مشکل تو پیش نہیں آتی لیکن بعض اوقات رسیاں الجھ جاتیں ہیں تو پھر پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا۔ مجھے کبھی غصہ نہیں آتا اور میں یہ کام کرتا ہی چلا جاتا ہوں، نہ جانے کیوں مجھے محسوس ہوتا ہے کہ جب بھی کبھی میری وجہ سے رسیاں الجھ جاتی ہیں تو کوئی غیبی طاقت خود انہیں سلجھا دیتی ہے۔ کام کے دوران کبھی غلط بُنائی بھی ہو جاتی ہے، لیکن میں کبھی تنگ نہیں ہوا کیوں کہ اگر ایک بار یہ غلط ہو گیا تو دوسری بار درست بھی ہو جائے گا۔ میں مختلف ڈیزائن کی چارپائیاں بڑی آسانی سے بن لیتا ہوں، جس میں، میں سمجھتا ہوں میرا کوئی کمال نہیں۔ یہ قدرت کی عطا ہے، میں ظاہری آنکھوں سے محروم ہوں تو اللہ تعالیٰ نے مجھے باطنی بینائی عطا فرما دی ہے۔ میں جب چارپائی بُننے لگتا ہوں تو نئے نئے ڈیزائن خود بخود ہی بنتے چلے جاتے ہیں، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے رسی خود کہہ رہی ہو کہ مجھے اس بار یوں بُن دے۔

اپنی شادی کے متعلق بیان کرتے ہوئے بینائی سے محروم محنت کش نے بتایا ’’ایک جگہ چالیسواں تھا تو میں وہاں بیٹھا کام کر رہا تھا، ایسے میں وہاں ایک آدمی آیا (جو بعد میں میرا دادا سسر بنا) تو اس نے مجھے دیکھ کر کسی سے پوچھا کہ اس کی شادی ہوئی ہے؟ وہ شخص میرا رشتہ کروانا چاہتا تھا۔ میری سمجھ میں نہ آئے کہ یہ کیسے ہو گیا لیکن بعدازاں ان کی شرط معلوم ہوئی تو پھر مجھ پر حقیقت آشکار ہوئی۔ جس خاتون سے میری شادی ہوئی اس کا بھی ایک بھائی نابینا تھا اور ان کی شرط تھی کہ وٹہ سٹہ میں شادی کر لی جائے۔ میرے گھر والے راضی ہوگئے تو یوں 1994ء میں میری شادی ہوگئی۔ میرے گھروالوں نے شادی کے اخراجات سے ہاتھ کھینچ لیا تو مجھے خود ہی یہ سب کچھ کرنا پڑا، جس میں کچھ پیسے میرے پاس جمع تھے اور باقی ادھار مانگ لئے۔ آج اللہ تعالیٰ کا شکر ہے میری 5 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، سب سے بڑی بیٹی 15سال کی ہے لیکن محرومیوں نے آج بھی میرا پیچھا نہیں چھوڑا، جس کے باعث میں چاہ کر بھی اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلوا سک رہا‘‘۔

موجودہ ملکی حالات کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے حافظ جی نے کہا ’’میرے جیسے لوگوں کے لئے آج دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ حکمران اور عوام دونوں بے وفا ہیں اور اس میں زیادہ قصور عوام کا ہے، جو ان ہی حکمرانوں کو باربار منتخب کرکے اسمبلیوں میں پہنچا رہے ہیں، آج پاکستان کے عوام کی بدحالی کی وجہ وہ خود ہیں۔ حکومت نے عام شہریوں کے لئے کبھی کچھ نہیں کیا تو وہ معذوروں کے لئے کیا کرے گی؟ لیکن مجھے تو حکمرانوں سے کسی قسم کی توقع بھی نہیں کہ وہ ہم جیسے معذوروں کے لئے کچھ کرے گی۔‘‘ اندھے پن کی وجہ سے پیش آنے والی مشکلات پر کبھی اپنے رب سے کوئی شکوہ کیا؟، رُلدو گویا ہوا ’’بچپن میں ہی نابینا ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ سے کبھی شکوہ نہیں کیا کیوں کہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں ہمارے لئے بھلائی ہے۔ اور ایسا ہوا بھی ہے، اندھا پن اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے لئے تحفہ ہے۔ اس اندھے پن کی وجہ سے ایک تو میں سیدھے راستے پر ہی چلا اور دوسرا میرا جو کام ہے وہ گھروں میں جا کر کرنے والا ہے۔

آج کیا کوئی کسی غیر کو اپنے گھر داخل ہونے دیتا ہے لیکن اندھا ہونے کی وجہ سے میں لوگوں کے گھروں میں جا کر کام کرتا ہوں جہاں ان کی خواتین بھی ہوتی ہیں اور وہ مجھے سے حسن سلوک کے ساتھ پیش آتی ہیں۔ گھروں میں موجود خواتین مجھے بھائی، چچا، بابا جی کہہ کر بلاتی ہیں تو مجھے بہت خوشی ہوتی ہے۔ اگر میں اندھا نہ ہوتا تو یہ کام بھی میں نہ کر سکتا۔ میرے پاس کوئی پڑھائی لکھائی ہے نہ والد کی طرف سے کوئی کاروبار ملا ہے تو میں اور کیا کرتا؟‘‘ عمر بھر ایسی کوئی خواہش جو پوری نہ ہو سکی اور دل چاہتا ہے چلو اب ہی پوری ہو جائے؟’’ زندگی میں کبھی بڑی بڑی خواہشات پالی ہی نہیں، آج تک جو ملا اس پر اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں، لیکن اب جا کر ایک چیز اندر سے مجھے کھائے جا رہی ہے اور وہ ہے میری بچیاں، جن کے ہاتھ پیلے کرنے کے لئے میرے پاس کچھ نہیں کیوں کہ دنیا میں آج صرف مال ہی چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری بچیوں کو باعزت طریقے سے اپنے گھر کی بنا دے‘‘۔

والد اور بھائیوں نے آبائی گھر سے ملنے والا حصہ بھی چھین لیا

بھائیوں کی مجھ سے نہیں بنتی، ہم جس گھر (ریلوے روڈ) میں رہتے تھے وہ چار مرلے کا تھا، جس میں ایک مرلہ میرے حصے کا تھا لیکن میرے بھائیوں اور والد نے وہ ہتھیا لیا۔ والد پہلے میرے ساتھ رہتے تھے لیکن پھر وہ گھر کی چھوٹی موٹی لڑائیوں پر خفا ہو کر دوسرے بھائی کے پاس چلے گئے، وہاں میرے بھائیوں نے انہیں بھڑکایا تو انہوں نے گھر میں بننے والا میرا حصے دینے سے انکار کر دیا۔ راتوں رات وہ گھر بیچ دیا گیا لیکن مجھے کچھ نہیں دیا گیا۔ کچھ لوگوں نے مجھے بھی اس بات پر طیش دلانے کی کوشش کی کہ یہ تمھارا حق ہے، تم یہ عدالت کے ذریعے بھی لے سکتے ہو، لیکن میں نے صبر کر لیا اور کبھی اس طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔

میں نے اللہ تعالیٰ کے لئے ان کو معاف کر دیا تو مجھے قدرت نے یہ صلہ دیا کہ میں نے کمیٹیاں ڈال کر کمال کالونی میں دو اڑھائی مرلے زمین حاصل کر لی بعدازاں اس پر چھت بھی ڈال لی۔ لیکن اب اس میں تھوڑا مسئلہ بن رہا ہے کہ جب میں نے وہ اراضی حاصل کی تھی، میرے پاس پورے پیسے نہیں تھے، میں نے ایک بھائی سے پیسے لئے تو اس وقت مجھے وہ پیسے مل گئے لیکن آج وہ بھائی کہ رہا ہے کہ زمین مہنگی ہوگئی، اسے موجودہ قیمت کے مطابق 3لاکھ روپے چاہیئے تو میں غریب آدمی اتنی رقم کہاں سے لاؤں؟

ایسا تھا وہ

$
0
0

عجیب تھا وہ، ہاں بہت عجیب سا، ہر ایک کی مدد پر تیار، پورا محلہ اس کی وجہ سے مطمئن تھا۔ نعیم ہمارا پانی نہیں آرہا، اچھا خالہ ابھی کرتا ہوں انتظام، نعیم ہمارا سودا ختم ہو رہا ہے، اچھا پریشان نہ ہوں میں لا دیتا ہوں، نعیم بچوں کی چھٹی ہو گئی ہے، گھر پر کوئی نہیں ہے انہیں لے آؤ۔

اور نعیم پھرکی کی طرح ہر وقت گردش میں رہتا، سارے محلے کی آنکھ کا تارا، سب کا سہارا، کتنے ہی ہاتھ اس کے لیے رب کے حضور بلند رہتے۔ اس سب کے باوجود پڑھنے لکھنے میں سب سے آگے، شاید ہی کبھی اس نے پوزیشن چھوڑی ہو۔ یوسف درانی کا چہیتا بیٹا، یوسف صاحب بینکار تھے اور بیرون ملک مقیم، پھر انہوں نے اپنی فیملی کو بھی بلالیا تھا۔ وہ دن بھی کتنا عجیب تھا، جب نعیم اپنی ماں اور بہن بھائیوں کے ساتھ ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو رہا تھا۔ سارا محلہ کیا عورتیں، بچے، بوڑھے، جوان، بچیاں سب ہی تو اداس تھے۔ ان کی آنکھیں برس رہی تھیں اور نعیم سب کو بس یہی کہے جارہا تھا، ارے آپ پریشان مت ہوں میں جلد ہی تو آجاؤں گا۔ لیکن آنسو تھے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ پھر آنسوؤں کی برسات میں وہ رخصت ہوگیا اور سارا محلہ خزاں آلود۔

وہ سال بھر باہر رہتا، وہیں پڑھتا اور امتحان دینے کے لیے پاکستان آتا۔ اس کے آتے ہی پھر سے محلے میں بہار آجاتی اور ہر طرف نعیم، نعیم کے گیتوں کی جاں فزا پھوار برسنے لگتی۔ وہ جتنے دن بھی رہتا، وہ دن بہار ہوتے، اور جب چلا جاتا تو خزاں۔

اس کے آنے سے موسم بدلتا، ناراض شجر مسکرانے لگتے، ان پر نئے پتوں اور پھولوں کی بہار آجاتی اور معصوم پرندے چہچہانے لگتے اور اس کے جاتے ہی پھر پت چھڑ۔

یوسف صاحب اپنے اہل خانہ کے ساتھ جب حج کرنے گئے تب نعیم کی عمر آٹھ برس تھی۔ چھوٹا سمجھتے ہوئے وہاں کے نگران اسے بیت اﷲ کے چاروں طرف بنے ہوئے دائرے میں اتار دیتے۔ اس دائرے میں تو کوئی بھی نہیں ہوتا تھا، اور نعیم اکیلا طواف کرتا۔ اس دائرے کے باہر تو خالق کی مخلوق اسے پکارتی رہتی، ہزاروں مرد و زن چکر لگاتے، اور ہم حاضر ہیں، ہم حاضر ہیں، کی صداؤں سے فضاء معطر رہتی اور کمسن نعیم ۔۔۔۔۔۔کتنے قریب سے پکارتا، میں بھی حاضر ہوں ناں ۔۔۔ طواف سے فارغ ہوکر جب وہ سب اپنے کمرے میں آتے تو وہ کہتا، دیکھا میں دوست ہوں اﷲ کا ۔۔۔۔ ہاں وہ ایسا ہی تھا۔

اومان کے شہر مسقط کے ساحل پر وہ ہر شام سائیکل چلاتا اور پھر جیمخانہ جاکر کسرت کرتا۔ میٹرک کے امتحان میں اس نے پھر پوزیشن لی تھی اور فرسٹ ایئر میں داخلہ لے لیا تھا۔ حسب معمول وہ پاکستان آیا ہوا تھا اور پورا محلہ نعیم کی خوشبو سے معطر تھا۔

ایک رات سوتے ہوئے اس نے اپنی ماں سے کہا، ’’امی میری ایک ٹانگ موٹی ہوگئی ہے۔‘‘

ماں کو پریشان دیکھ کر نعیم ہنس پڑا، امی آپ تو ایسے ہی پریشان ہوگئیں، ہوا پتا ہے کیا تھا، میں جیم جاتا ہوں ناں، تو میں نے اس ٹانگ کی بہت ایکسرسائز کی ہوگی، شاید اس لیے موٹی ہوگئی ہے، میں اب دوسری ٹانگ کی بھی کروں گا تو دونوں ایک جیسی ہوجائیں گی۔

لیکن ماں مطمئن نہیں ہوئی، ماں تو ماں ہوتی ہے۔ اس کی ساری رات آنکھوں میں کٹ گئی۔ لیکن ہر شب کی سحر ہوتی ہے تو بس سحر ہوگئی۔ نعیم کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اسے ماں کی آواز سنائی دی۔
’’بیٹا تم آج کالج نہیں جاؤ گے۔‘‘

’’کیوں امی۔۔۔۔ مجھے آج بہت ضروری جانا ہے۔‘‘

لیکن ماں کا فیصلہ اٹل تھا،’’نہیں تم آج میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جاؤ گے۔‘‘ سعادت مند بیٹے نے سر جھکا لیا۔ تین بجے ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت طے تھا۔ ماں کے لیے وہ لمحات بہت اذیت ناک تھے۔ عجیب طرح کے خدشات سر اٹھا رہے تھے۔ یہ مائیں چاہے کہیں کی بھی ہوں، سب ایک جیسی ہوتی ہیں، اور نجانے کیوں ہوتی ہیں۔ڈاکٹر نے ٹانگ کا معائنہ کیا اور کچھ ٹیسٹ بتائے اور رپورٹس لے کر آنے کا کہا۔ ماں نے اسی وقت ٹیسٹ کرائے اور بوجھل دل سے گھر آگئی۔ تیسرے دن نعیم اپنی ماں کے ساتھ ٹیسٹ رپورٹس کے ساتھ ڈاکٹر کے روبرو تھا۔ ماہر اور سن رسیدہ ڈاکٹر نے رپورٹس کو بغور دیکھا اور پھر نعیم کو باہر جانے کا کہا۔ نعیم باہر نکل گیا تو ڈاکٹر نے ماں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا،’’دیکھیے، ہر دکھ تکلیف اﷲ کی طرف سے آتی ہے، اور اﷲ نے ایسی کوئی بیماری نہیں اتاری جس کی دوا نہ اتاری ہو، انسان کو صبر کرنا چاہیے اور علاج کرانا چاہیے کہ علاج کرانا حکم خداوندی ہے اور سنت رسول ﷺ بھی اور نتیجہ اس ذات پر چھوڑ دینا چاہیے۔‘‘

نعیم کی ماں کو جب کچھ سمجھ نہیں آیا تو انہوں نے ڈاکٹر سے کہا،’’آپ آخر کیا کہنا چاہتے ہیں، مجھ سے کچھ مت چھپائیے اور صاف صاف بتائیے۔ پھر ماں نے وہ خبر سنی جسے سننے کی ان میں تاب نہ تھی۔‘‘

نعیم کو خون کا سرطان ہوگیا تھا۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ نعیم کو کیا اور کیسے بتایا جائے۔ راستے بھر نعیم ماں کو پریشان دیکھ کر پوچھتا رہا کہ آخر کیا مسئلہ ہے، لیکن ماں گُم صُم تھی۔نعیم کا بڑا بھائی فہیم میڈیکل کالج میں زیرتعلیم تھا۔ ماں نے گھر پہنچ کر فہیم کو بتایا اور پھر سارے گھر میں اداسی چھاگئی۔ لیکن نعیم کو بتانا تو تھا، تو یہ فریضہ فہیم نے ادا کیا۔

نعیم تم سے ایک بات کرنی ہے، فہیم نے کہا،’’ہاں بھائی، ایک بات کیوں، بہت باتیں کریں۔‘‘نعیم کی شوخی برقرار تھی۔

’’دیکھو نعیم! جو ہونا تھا ہو گیا ہے۔ لیکن اب ہمت سے کام لینا۔ انشاء اﷲ تم ٹھیک ہوجاؤ گے، تمہیں کینسر ہوگیا ہے نعیم۔‘‘ فہیم یہ بتاتے ہوئے رو پڑا۔ لیکن گھر والوں کو حیرت اس وقت ہوئی، جب نعیم کا جان دار قہقہہ گونجا،’’تو مجھے کینسر ہوگیا ہے، اوہو اس لیے سب پریشان ہوگئے ہیں، آپ سب پریشان ہونا چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں، آپ دیکھیں گے کہ میرا کینسر، ڈاکٹر کے پاس جائے گا، اور رو رو کر کہے گا کہ مجھے نعیم ہوگیا ہے۔

یہ کہتے ہوئے وہ ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہوگیا۔‘‘
نعیم کے ایک ماموں جن کا نام لطیف تھا، کے بڑے بال تھے۔ انہیں دیکھ کر نعیم نے بھی بڑے بال رکھنے شروع کردیے تھے۔ وہ اکثر اپنے ماموں سے کہتا، ’’ماموں! میرا آپ سے بالوں کا مقابلہ ہے، میں آپ کو ہرا کے دم لوں گا۔‘‘ اور ماموں کہتے،’’نہیں، نعیم تم مجھے نہیں ہرا سکتے، اس لیے کہ میں نے سارا جیون آوارگی میں گزار دیا ہے، آزادی سے رہا ہوں، لیکن تم کالج میں پڑھتے ہو اور تمہارے ابا بھی نظم و نسق کے بہت پابند ہیں۔ تم ہار جاؤ گے، بیٹا۔‘‘

نعیم اور اس کے ماموں کی یہ نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ نعیم اپنے خاندان کا ہی نہیں سارے محلے کا چہیتا تھا۔ خلق خدا کی پکار پر ہمیشہ لبیک کہنے والا نعیم۔

نعیم کا علاج شروع ہوا اور وہ باقاعدگی سے ڈاکٹر کے پاس جانے لگا۔ پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ ماہر ترین ڈاکٹرز کی زیرنگرانی ایک بڑے نجی اسپتال میں اس کی کیموتھراپی شروع ہوئی، کیموتھراپی کا درد بھرا سلسلہ اور اس کے مضر اثرات نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ لیکن مجال ہے کبھی نعیم کی پیشانی پر بل پڑے ہوں، وہی ہنسی وہی زندہ دلی۔ وہ کینسر جیسے موذی مرض سے لڑنے نکلا تھا اور اس راستے کی ساری مشکلات کو جانتا تھا۔ وہ اس دوران کالج جاتا اور اپنے مشاغل میں مگن رہتا۔ ابتدا میں اس نے سب گھر والوں کو منع کردیا تھا کہ وہ محلے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اس لیے کہ پھر محلے والے اسے اپنے کسی کام کا نہیں کہیں گے، جو اسے گوارہ نہ تھا۔ لیکن حقیقت کب تک اور کہاں تک چھپ سکتی ہے۔ ہنستا کھیلتا نوجوان اپنی توانائی کھورہا تھا اور اس کے چہرے پر درد رقم ہو رہا تھا۔ پھر یہ سچ کب تک چھپایا جاسکتا ہے، جب وہ ہفتے میں چار دن اسپتال میں رہتا ہو۔ آخر ایک دن سارے محلے میں یہ خبر کسی بم دھماکے کی طرح سنی گئی کہ نعیم کینسر میں مبتلا ہے۔ اس دن پورے محلے میں کہرام برپا تھا ہر آنکھ اشک بار، گھر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، ہر ایک پوری تفصیل جاننے کا خواہش مند تھا۔ نعیم اس وقت بھی مسکرا رہا تھا اور سب کو کہے جا رہا تھا، آپ پریشان مت ہوں بس دعا کریں میں کہیں نہیں جاؤں گا، ہاں آپ کو میں کیسے چھوڑ کے جاسکتا ہوں لیکن ۔۔۔۔۔۔

دن گزرنے کے لیے ہیں، وقت کسی کے لیے بھی نہیں رکا، وقت کو کون روک سکا ہے۔ نعیم کو علاج کراتے ہوئے ایک سال سے زیادہ ہوگیا تھا اور اس دوران تین مرتبہ اس کی کیموتھراپی ہوچکی تھی۔ امتحانات کے شیڈول کا اعلان ہوچکا تھا اور ایڈمٹ کارڈ مل چکے تھے۔ نعیم اس حالت میں بھی تیاری کر رہا تھا۔ امتحانات شروع ہوئے تو لوگوں نے عجیب منظر دیکھا۔ نعیم کو ڈرپ لگی ہوئی تھی اور وہ ایمبولینس میں اپنے امتحانی سینٹر پہنچا، اس نے اپنے سارے پرچے اسی طرح دیے تھے۔ وہ اذیت جھیلتا رہا اور کینسر اسے گھن کی طرح چاٹتا رہا۔ وہ جسمانی طور پر ختم ہوتا جارہا تھا، لیکن اس کا حوصلہ دن بدن بلند ہورہا تھا، وہ مسکراتا تو محلے اور گھر والوں کی آنکھیں بھیگ جاتیں۔ وہ فیصلہ کرچکا تھا کہ جتنے دن بھی اس کے پاس رہ گئے ہیں وہ جیے گا۔ وہ سب کو کہتا آپ پریشان نہ ہوں، میں ٹھیک ہو رہا ہوں، لیکن سب نابینا تو نہیں تھے، ساری حقیقت ان کے سامنے تھی۔ اس کے والد نے اسے بیرون ملک بھیجنے کا فیصلہ کیا اور تیاری بھی ہوچکی تھی۔

ایک دن ڈاکٹر سے نعیم نے کہا،’’آپ بہت اچھے ہیں، آپ نے میری بہت خدمت کی، لیکن آج کے بعد میں آپ کو زحمت نہیں دوں گا، کیا آج آپ مجھے گھر جانے کی اجازت دے سکتے ہیں؟‘‘

ہم درد ڈاکٹر نے توجہ سے اس کی بات سنی اور پوچھا تم گھر کیوں جانا چاہتے ہو۔۔۔؟ نعیم کا جواب عجیب سا تھا،’’ڈاکٹر! آپ جانتے نہیں ہیں کہ میں نے گھر میں بہت ساری بطخیں پالی ہوئی ہیں، گھر کے لان میں بہت سارے پھولوں کے پودے لگائے ہوئے ہیں، سب لوگ تو مجھ سے ملنے اسپتال آجاتے ہیں، لیکن وہ پودے اور بطخیں تو یہاں نہیں آسکتیں، مجھے معلوم ہے وہ مجھ سے خفا ہیں اور پودے بھی، میں ان سے ملنا چاہتا ہوں، اس لیے کہ میں کسی کو بھی خفا نہیں دیکھ سکتا اور آج تو میں نے ان سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں، انہیں کچھ سمجھانا ہے، انہیں منانا ہے، پھر شاید مجھے موقعہ نہ ملے۔‘‘

گھر والے اور ڈاکٹر حیرت سے اس کی باتیں سن رہے تھے۔ ڈاکٹر نے اسے پیار سے دیکھا اور بولے دیکھو نعیم، تم صحت یاب ہوجاؤ گے میں تمہیں آج گھر جانے کی اجازت اس شرط پر دیتا ہوں کہ کل صبح تم واپس اسپتال آؤ گے۔ نعیم مسکرایا اور کہنے لگا ڈاکٹر آپ نے میری بات توجہ سے نہیں سنی، میں نے آپ سے کہا ہے کہ میں اب آپ کو زحمت نہیں دوں گا، بلکہ کسی کو بھی نہیں۔
اس نے اسپتال کے سارے عملے کا شکریہ ادا کیا، اور اسے ایمبولینس میں لٹا دیا گیا۔

سورج کہیں اور جا نکلا تھا۔ تاریکی نے روشنی کو پسپا کردیا تھا، انہی تضادات میں پوشیدہ ہے راز ہستی۔ خانہ خدا سے بس اسی واحد ذات کی کبریائی کا آوازہ بلند ہوا جو ہمیشہ بلند ہوتا رہے گا۔ مغرب کی نماز اس نے گھر ادا کی۔ خاندان اور پورا محلہ اسے دیکھنے کے لیے جمع تھا۔ آج تو ایسا لگ رہا تھا جیسے نعیم کبھی بیمار ہی نہیں ہوا، وہی جان دار قہقہے، وہی شرارت بھری باتیں، وہی تسلیاں، جو وہ ہر ایک کو دیا کرتا تھا۔ اس نے اپنے لگائے ہوئے پھولوں کے پودوں اور اپنی ساری بطخوں سے مخاطب ہوکر کہا، ’’تم سب مجھ سے خفا نہیں ہوسکتے، میں تم سے ملنے آگیا ہوں، لیکن آج کے بعد تم امی کا کہا مانو گے، اچھے بچے اپنی امی کا کہنا مانتے ہیں اور اپنی صحت کا خیال رکھتے ہیں، تم سب امی کا بہت خیال رکھنا، مجھے تو تم بہت تنگ کرتے رہے ہو، لیکن ہم تو دوست ہیں کوئی بات نہیں، لیکن امی کو نہیں تنگ کرنا اور سنو، میں کہیں نہیں جا رہا، میں یہیں رہوں گا لیکن ہوسکتا ہے ناں کہ تم مجھے دیکھ نہ سکو۔‘‘

سب حیرت سے اسے دیکھ رہے تھے۔ نعیم کی ماں نے اسے اپنے سینے سے لگا کر روتے ہوئے کہا، یہ کیا کہہ رہے ہو تم نعیم۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا، ’’امی! آپ بھی بس پریشان ہوجاتی ہیں، چلیں مجھے نوڈلز بنا کر دیں۔‘‘ وہ سب سے گپ شپ کر رہا تھا، اور رات تاریک ہوتی جارہی تھی۔ بارہ بجے اس نے سب سے کہا،’’اب آپ سب آرام کریں۔ سب رخصت ہوگئے۔‘‘ اس کی خالہ اور ماموں اس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، نعیم نے مسکراتے ہوئے اپنے ماموں سے کہا،’’لطیف ماموں! میں آپ سے ہار گیا، میرے بال ہی جھڑ گئے، چلیں کوئی بات نہیں، اب آپ بھی آرام کریں‘‘۔ اس کے اصرار پر وہ یہ کہتے ہوئے کہ جب ضرورت ہو تم آواز دے لینا اپنے کمرے میں چلے گئے۔ روشنی اور تاریکی کی جنگ میں نصف شب بیت گئی تھی۔

تین بج رہے تھے کہ نعیم نے آواز دی۔

خالہ سب کو جگائیں، سارے گھر والے جاگ گئے۔ اور پھر سب نے سنا، نعیم کہہ رہا تھا۔
’’میں نے آپ سب کو بہت تنگ کیا، میری وجہ سے آپ سب بے آرام ہوئے، راتوں کو جاگے، میری خدمت کی، میں بہت خوش ہوں، آپ سب نے یہ اس لیے کیا تھا ناں کہ میں صحت یاب ہوجاؤں اسی لیے کیا تھا تھا ناں۔۔۔۔۔‘‘

سب نے کہا،’’ہاں تم ہمیں بہت عزیز ہو، پیارے ہو، اسی لیے ہم نے یہ سب کچھ کیا، ہم تمہیں تن درست اور خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
’’تو بس پھر آپ سب خوش ہوجائیں، آپ سب کی محنت اکارت نہیں گئی، میں تن درست ہوگیا ہوں، خوش ہوں، مجھے کوئی تکلیف نہیں ہے، آپ سب مجھ سے وعدہ کریں کہ اب آپ کبھی اداس نہ ہوں گے، میری تکلیفیں راحت میں بدل گئی ہیں۔ امی! آپ ہی تو کہتی تھیں کہ ہر تکلیف کے بعد راحت ہے، تو آپ نے سچ کہا تھا۔ بھائی! آپ جلد ڈاکٹر بن جائیں گے۔ آپ کو مجھ سے بہت پیار ہے ناں تو بس آپ ہمیشہ ہر مریض کو اپنا نعیم سمجھیں گے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو مجھے بہت خوشی ہوگی اور آپ کو بھی۔ آپ سب بدر باجی اور احمد یار بھائی کا بہت خیال رکھیے گا۔ اس لیے کہ وہ بول سن نہیں سکتے۔ امی! آپ تو ہیں ہی جنتی، آپ نے ہم سب کا کتنا زیادہ خیال رکھا۔ وہ دیکھیے کتنی اچھی جگہ ہے، میں نے آج تک ایسی خوب صورت جگہ نہیں دیکھی، اتنے پیارے پھول، اتنے اچھے پھل دار درخت ہیں، بہت ہی زیادہ خوب صورت۔ وہ دیکھیے بہت خوب صورت لباس پہنے ہوئے لوگ مجھے لینے آئے ہیں۔ انہوں نے ہی مجھے جگایا تھا کہ اب تم تن درست ہوگئے ہو، ہم تمہیں لینے آئے ہیں، سب گھر والوں کو جگاؤ ان سے ملاقات کرلو، تو میں نے آپ کو جگایا۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اب ان کے ساتھ جانا ہے، میں بہت خوش رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

نعیم کو نہ جانے آج کیا ہوگیا تھا، وہ بولے جارہا تھا اور سب مبہوت اسے سن رہے تھے۔ پھر اچانک اس نے آنکھیں موند لیں اور خاموش ہو گیا۔ اس کے ابو نے بے چین ہوکر کہا، ’’نعیم بیٹا! کلمہ پڑھو۔۔۔۔‘‘ نعیم نے مسکراتے ہوئے آنکھیں کھولیں، دوسری طرف دیکھا اور کہا،’’ابو آپ پریشان مت ہوں، ابھی میرے پاس وقت ہے، ان لوگوں نے مجھ سے کہا ہے کہ ہم خود تمہیں کلمہ پڑھائیں گے اور پھر سے آنکھیں موند لیں۔‘‘

وہ لمحات بھی عجیب تھے، ایک عجیب سا سکون طاری تھا، کوئی بھی تو نہیں رو رہا تھا، بس خاموشی، مکمل سکوت، سکون اور طمانیت۔۔۔۔۔ نعیم کی امی سورہ یٰسین کی تلاوت کر رہی تھیں۔۔۔

اچانک اس نے آنکھیں وا کیں، سب کی طرف دیکھا، مسکرایا اور کہا،’’اب آپ سب مجھے مسکرا کر رخصت کردیں۔۔۔۔‘‘
نعیم نے بہ آواز بلند کلمہ طیب پڑھنا شروع کیا ۔
روشنی نے تاریکی کو دھکیل دیا تھا، خانہ خدا سے اذان فجر بلند ہو رہی تھی۔

تکبراور تعصب: لازوال انگریزی ناول کا اردو ترجمہ

$
0
0

مصنفہ نے عام‘ بے رنگ‘ ہنگاموں اور ہلچل سے خالی زندگی گزاری۔ صرف اکتالیس برس کی عمر پائی۔ جو حضرات اس غلط فہمی میں مبتلارہتے ہیں کہ اچھا ادب تخلیق کرنے کے لئے بڑی تہلکہ خیز زندگی گزارنی چاہئے‘ طرح طرح کے تجربوں سے مستفید ہوناچاہیے، وہ جین اوسٹن یا مشہور امریکی شاعرہ’ایملی ڈکنسن‘ کی زندگی پر نظر ڈال لیں تو اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جائیں۔

جین اوسٹن کی زندگی کے دوران میں انقلاب فرانس برپا ہوا‘ نپولین کی وجہ سے یورپ بھر میں بلکہ مصر تک جدال و قتال کا میدان گرم رہا۔ ان اضطراب آمیز برسوں کی جھلک بھی اس کے ناولوں میں نظر نہیں آتی۔ جین اوسٹن نے زندگی کے ان معاملات سے سروکار رکھا جو تمام روایتی معاشروں میں ہمیشہ کشمکش کی ایک زیریں رو کے طور پر‘ برانگیختہ رہتے ہیں۔ والدین کو یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ بیٹیوں کے لئے کوئی اچھا‘ کھاتا پیتا بر ہاتھ آ جائے‘ لڑکیاں خواب دیکھتی ہیں کہ انہیں اپنی پسند کا‘ چاہنے والا اور چاہے جانے کے قابل‘ شوہر نصیب ہو‘ زندگی آرام سے گزرے‘ تصادم کے بغیر اچھا فکشن وجود میں نہیں آتا۔ تصادم اوسٹن کے سب سے مشہور ناول ’’تکبر اور تعصب‘‘ میں بھی موجود ہے لیکن کبھی تشدد یا خوں ریزی کی صورت اختیار نہیں کرتا۔ صرف یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ جو بن بیاہے جوان دستیاب ہیں اور جنہیں دام میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے انہیں کوئی حریف خاندان نہ لے اڑے۔ فرق اتنا ہے کہ ناول میں جس زمانے کا ذکر ہے اس وقت انگلستان میں مردوں عورتوں کو ملنے جلنے کی تھوڑی بہت آزادی تھی۔ اس کی وجہ سے اس طرح کی جستجو اور ڈورے ڈالنے کا رنگ چوکھا ہو جاتا تھا۔ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو مردوں سے ملنے یا اپنی پسند سے شادی کرنے کی اجازت بالکل نہ تھی۔ آج بھی صورت حال کم کم بدلی ہے۔ بہر حال‘ یہ موضوع ایسا ہے جو ہمیں ’’تکبر اور تعصب‘‘ سے لطف اندوز ہونے کا موقع فراہم کرتا ہے اور کرتا رہے گا۔

کہا جاتا ہے کہ اب جین اوسٹن ادبی شہرت کے لحاظ سے شیکسپیئر سے آگے نہ سہی‘ زیادہ پیچھے بھی نہیں رہی۔ اس کے ناول‘ لڑکپن کی ناپختہ تحریریں‘ حالات زندگی‘ ان دنوں ایک ’’صنعت‘‘ کی شکل اختیار کر گئے ہیں۔ یہ سب کروڑوں اربوں پاؤنڈ کا کھیل ہے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ جب اس نے ناول لکھے تو وہ اس کے نام سے نہیں چھپے۔ ان پر لکھا ہوتا تھا ’’ایک خاتون کے قلم سے‘‘ وجہ یہ ہے کہ عورتوں کا ناول لکھنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ممکن ہے بعض قدامت پسند گھرانوں میں لڑکیوں کو ناول پڑھنے سے بھی روکا جاتا ہو۔ جہاں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت بھی کہیں بڑی مشکل سے بیسویں صدی میں ملی (یہ آزاد خیال مغرب کے صنفی تعصبات کا حال ہے!) وہاں انہیں بطور مصنف یا مصور یا شاعر کیسے گوارا کیا جا سکتا تھا۔ فلابیر کے ناول ’’ مادام بواری‘‘ کی ہیروئن کے بگڑنے کی بڑی وجہ جاننے والوں نے یہ فرض کی تھی کہ وہ عشقیہ ناول بہت پڑھتی تھی۔

’’تکبر اور تعصب‘‘کا ترجمہ شاہد حمید نے کیا ہے۔ یہ ترجمہ پہلے شائع ہو چکا ہے۔ زیر نظر اس کی دوسری اشاعت ہے۔ شاہد حمید سے زیادہ پر خلوص‘ دیانت دار اور محنتی مترجم فی زمانہ اردو دنیا میں کوئی اور نظر نہ آئے گا۔ اس سے پہلے وہ دنیا کے دو بڑے ناولوں کو بھی اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں جو عظیم ہی نہیں صحیح معنی میں ضخیم بھی ہیں۔ ایک تو تالستائی کا ’’جنگ اور امن‘‘ اور دوسرے دوستوئیفسکی کا ’’کاراما زوف برادران‘‘ دونوں تراجم میں قارئین کی سہولت کے لئے صدہا صفحات پر مشتمل حواشی ہیں جو مترجم کی ناقابل تردید لیاقت اور محنت کا ثبوت ہیں۔ میری رائے میں ’’تکبر اور تعصب‘‘ کا ترجمہ زیادہ شگفتہ اور خواندنی ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اصل متن‘ اپنی تمام باریکیوں اور لطافتوں کے ساتھ‘ ان کے سامنے تھا۔ اس طرح درپیش چیلنج تو دو چند ہو جاتا ہے مگر یہ اطمینان رہتا ہے کہ اصل متن سے انصاف کا موقع مل گیا ہے۔ تالستائی اور دوستوئیفسکی کے ضمن میں انھیںترجموں پر تکیہ کرنا پڑا۔ مصیبت یہ تھی کہ ان مختلف تراجم میں اختلاف متن بہت تھا۔ کسی جملہ کا ترجمہ ایک مترجم کس طرح کرتا تھا تو دوسرا مترجم کسی اور طرح۔ اس گڑبڑ کی وجہ سے سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اصل میں کیاکہا گیا ہو گا۔

سوال آخر میں یہ رہ جاتا ہے کہ ’’تکبر اور تعصب‘‘ کا مزاج ہے کیا؟ کسی ناول کو محض ناقدین کا زور قلم دوام نہیں بخش سکتا۔ خود ناول میں اتنی جان ہونی چاہئے کہ بدلتے زمانوں کی یلغار بھی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ اوسٹن کے ناول کوا یک سطح پر قصباتی ماحول میں رہنے سہنے اور متوسط طبقے کے افراد پر ایسا طنز ملیح سمجھا جا سکتا ہے جس میں مزاح بھی موجود ہے اور بشری کمزوریوں کے لئے ہمدردی بھی۔ یہ سمجھنا کہ روایتی انداز میں بسر کی ہوئی زندگی‘جس میں افراد ہر طرف سے سماجی‘ خاندانی اور معاشی پابندیوں میں جکڑے ہوئے ہوں‘ تشویش اور ابہام سے خالی ہو گی‘ بالکل ہی مہمل معلوم ہوتا ہے۔ اگر ایلزبتھ اور ڈارسی کے تعلقات ہی کا بغور جائزہ لیا جائے تو مصنفہ کچھ یہ کہتی معلوم ہوتی ہے کہ انسانی فطرت ناقابل فہم اور سیال ہے ا ور ان دونوں میں سے ہر کوئی نہ اپنے آپ سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے نہ دوسرے سے ۔اس ناول کو ایک سطح پر اس مصرعے کی تفسیر سمجھنا چاہئے: ’’شاد بایدزیستن ناشاد بایدزیستن‘‘ چوں کہ انسان روز اول سے اپنی اپنی زندگیوں میں قید و بند کے نئے سلسلے بننے اور انھیں سلسلوں کو از سر نو ادھیڑنے کے مشغلوں میں الجھے رہتے ہیں اس لئے اس بظاہر سادہ مگر بباطن پرکار ناول کی دل آویزی کبھی ختم نہ ہو سکے گی۔n

(ان دونوں کتابوں کو القا پبلی کیشنز لاہور نے شائع کیا ہے)

بیپسی سدھوا اردو میں

$
0
0

 یہ ناول “Crow Eaters” جب شائع ہوا تھا تو اس وقت میں نے اسے پڑھ لیا تھا اور اخبار میں اس پر تبصرہ بھی کر چکا تھا لیکن اب جب سالوں بعد اس کا ترجمہ اردو میں شائع ہوا تو میں نے اسے یہ سوچ کر پڑھا کہ ناول میرے حافظہ میں اب محفوظ نہیں ہے اور یہ بھی ٹھیک طرح یاد نہیں کہ اس کے بارے میں میں نے کیا لکھا تھا۔ بس اتنا یاد ہے کہ میں نے اس کی تعریف کی تھی۔

سب سے بڑھ کر جس بنا پر میں نے اس ناول کو سراہا تھا وہی پہلو آج بھی میرے لیے اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی اہمیت میری نظر میں اس وقت تھی۔ وہ پہلو یہ ہے کہ اس ناول کے ذریعہ ہم زندگی کے ایک ایسے اسلوب سے یا ایسے طور سے شناسائی حاصل کرتے ہیں جس سے ہم اب تک بالکل ناآشنا تھے ہر چند کہ اسے بسر کرنے والے ہمارے بیچ رہ سہ رہے تھے۔ خود اردو ادب کا معاملہ یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کی مختلف تہذیبوں کی یا مختلف گروہوں کی زندگی کے طریق زیست کی جھلکیاں نظر آئیں گی۔ مسلمانوں کی، ہندوؤں کی، سکھوں کی حتیٰ کہ اس چھوٹی سی برادری کی بھی جو انڈین کرسچین کے نام سے جانی جاتی ہے مگر پارسی برادری ہمارے فکشن سے غائب ہے۔ اردو میں پروان چڑھنے والی سماجی حقیقت نگاری نے متذکرہ بالا برادریوں کے طریق زیست کا تو بساط بھر احاطہ کر لیا۔ بس ایک پارسی برادری سے کنی کاٹ کر نکل گئی مگر کیا برصغیر کی کسی دوسری زبان کے ادب میں اس برادری کا بیان ملتا ہے۔ مثلاً ہندی میں یا بمبئی کے علاقہ کی کسی زبان میں مثلاً مراٹھی میں۔

ان زبانوں سے پوری شناسائی نہ ہونے کی وجہ سے میں قطعی انداز میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا مگر لگتا یوں ہے کہ خود اس برادری نے دانستہ اپنے آپ کو چھپا کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود کہ غیر منقسم ہندوستان کی قومی زندگی میں وہ اپنا حصہ ڈالتی نظر آتی ہے۔ یہاں کی سیاست میں، یہاں کی ادبی تہذیبی زندگی میں۔ ثانی الذکر کی مثال پارسی تھیٹر کی روایت ہے۔ اگر اس روایت سے اردو نے زیادہ فائدہ اٹھایا تو اور وجوہ کے سوا ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ پارسی قدیم ایران کی جس واقعی اور تخیلی تاریخ کے وارث چلے آرہے ہیں اس سے اردو بذریعہ فارسی شاعری بالخصوص شاہنامہ کے واسطے سے پہلے ہی سے خوب آشنا تھی۔ رستم سہراب، شیریں فرہاد، نوشیرواں عادل وغیرہ وغیرہ ان کے جانے بوجھے کردار تھے مگر قدیم ایران کے جن مذہبی عقائد اور تخیلاتی داستان و حکایات کے فیض سے ان کی تہذیب بنی تھی اسے دیارغیر میں آکر انہوں نے اتنا چھپا کر کیوں رکھا۔ یہاں مجھے فراق صاحب کا ایک بیان یاد آرہا ہے۔ انہوں نے ایک موقع پر کہا کہ ہندو اگر محکوم بھی ہو جائیں تو ان کے کلچر کا کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ اسے گھڑے میں بند کرکے زمین میں داب دیتے ہیں۔ محکومی کا زمانہ گزرنے پر جب گھڑے کو کھود کر نکالتے ہیں اور گھڑے کا ڈھکن کھولتے ہیں تو ان کا کلچر صحیح و سالم برآمد ہوتا ہے۔

خیر ہندو تو اس نسخہ کو استعمال کر نہیں سکے۔ کیسے کر سکتے تھے؟ اتنی بڑی اکثریت جس کی تہذیبی دولت وسیع و عریض ہندوستان میں بکھری پڑی تھی ایک گھڑے یا مٹکے میں کیسے سمیٹی جا سکتی تھی۔ سو اس کا ٹکراؤ اس تہذیب سے ہونا ہی تھا جو مسلمان فاتحین، تاجر اور صوفیا اپنے ساتھ لے کر آئے تھے۔ اس ٹکراؤ میں دونوں طرف کا کچھ بگڑا، کچھ بنا۔ دو طرفہ تہذیبی عمل میں یہی کچھ ہوا کرتا ہے اور پھر کوئی نئی شکل ابھر کر سامنے آتی ہے۔

تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ فراق صاحب کے بتائے ہوئے نسخہ کو ہندو تو استعمال کرنے سے قاصر رہے، پارسیوں نے اسے سلیقہ سے برتا۔ ان کے لیے یہ ممکن بھی تھا۔ چھوٹی سی اقلیت تھی۔ ایران سے نکلتے ہوئے تہذیب کے نام کتنی دولت وہیں بکھری چھوڑ آئے، یہاں دیار غیر میں باہر بکھرا ہوا کچھ نہیں ملتا۔ جو تھا بندھا ہوا ساتھ میں تھا۔ اسے خوب سنگھوا کر دشمنوں کی نظروں سے بچا کر رکھا۔ بیپسی سدھوا نے اپنا ناول اس کمال کے ساتھ لکھا کہ گھڑے کا ڈھکن کھل گیا اور جو کچھ اندر تھا اور جسے اب بساند ہی لگنی تھی، وہ باہر آگیا۔ اچھا بھی اور برا بھی۔

اس ناول کو جو امتیاز حاصل ہے وہ ناول نگار کا یہی جرأت مندانہ کارنامہ ہے کہ اس نے بلاتامل پارسی تہذیب کا خوب و ناخوب ہمارے سامنے بکھیر دیا ہے۔ کس طور بکھیرا ہے، سلیقہ سے یا بدسلیقگی سے یہاں سے ناول نگار کے فنی برتاؤ کاذکر لازم آتا ہے۔ اس کہانی کے نمائندہ کردار تین ہیں۔ ساس، داماد اور ایک مرغا جس میں جوانی پھٹی پڑ رہی ہے۔ مترجم نے اس مرغے کی اس صفت کے لیے قوی ایام کی ترکیب استعمال کی ہے۔ جانے ناول نگار نے انگریزی میں کیا لفظ استعمال کیے ہیں۔ میں نے قوی ایام کی عربی فارسی سے بچتے ہوئے بات سیدھی، سچی اردو میں کہہ دی ہے مگر یہ کمال کا کردار ہے۔ کتنا شاندار مرغا ہے اور ناول نگار نے کس خوبی سے اسے بیان کیا ہے کہ ایک جیتا جاگتا مرغا ہماری نظروں کے سامنے آجاتا ہے۔ برصغیر کی معاشرتی زندگی میں خواہ وہ مسلمانوں کی ہو یا ہندوؤں کی، ساس بہو کی لڑائی مشہور ہے۔ یہاں ساس اور داماد کے درمیان تناتنی ہے۔ بیچ میں مرغا بانگ دیتا ہوا آن کودا ہے۔ اس کردار کے بیچ میں آجانے سے ساس داماد کی آویزش میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ باقی کردار ضمنی اور ثانوی ہیں۔ ساس خرانٹ ہے۔ داماد چلتا پرزہ مگر خرانٹ ساس ہر صورت اس پر بھاری پڑتی ہے۔ مرغے پر تو وہ قابو پا لیتا ہے مگر ساس موٹی مرغی ہے، قابو میں نہیں آتی۔ داماد مرتے ہوئے اپنی ہار کا اعتراف کرتا ہے اور کہتا ہے ’’مبارک ہو، تم جیت گئیں۔ تم میرے بعد بھی زندہ رہو گی (مطلب یہ کہ دندناؤ گی)۔‘‘

پارسی زندگی اب تک اپنے شمشان گھاٹ کی طرح خاموشی کا گنبد بنی ہوئی تھی۔ اس خاموشی کو اب جا کر زبان ملی ہے۔ خوب بیان ہے پارسی جینے مرنے کا۔ اس کے لڑائی دنگے کا، چالاکیوں چالبازیوں کا، سیاسی طور طریقوں کا، انفرادی اطوار بد اطواریوں کا، رسم و رواج کا، اچھے برے شگون کا۔ ایک پوری تہذیب کا نقشہ سامنے آجاتا ہے اور پھر پورے بیان میں مزاح کی ایک دبی دبی لہر دوڑتی ہوئی جس سے بیان میں ایک شگفتگی آجاتی ہے مگر یہاں تک آکر مجھے اپنے رہوار قلم کو لگام دینی پڑتی ہے۔ تقریب کا وقت سر پر آن کھڑا ہوا ہے۔ بھاگتے دوڑتے لکھو تو یہی ہوتا ہے۔ کچھ لکھا جاتا ہے، کتنا کچھ کہنے سے رہ جاتا ہے۔ ویسے میں نے لگے ہاتھوں اس بی بی کی کہانیوں پر بھی نظر دوڑا لی تھی مگر وقت تھوڑا ہے، بات کے لمبی ہونے کا اندیشہ ہے۔ ویسے اردو کے کسی بھلے نقاد سے یہ توقع رکھنی چاہیے کہ بیپسی کے پورے کام کا جائزہ لے۔ زیر نظر ناول کے ساتھ باقی کام کا بھی اردو میں ترجمہ ہو جائے تو اس سے ہمارے فکشن کی روایت کو ایک ایسی تہذیب کا بیان میسر آجائے گا جس سے اردو ابھی تک قدیم ایران کی دیومالا اور داستانوں سے واقفیت کے باوجود ناآشنا چلی آتی ہے۔

ناول کو اردو میں ترجمہ کیا ہے محمد عمر میمن نے۔ محمد عمر میمن نامی گرامی نقاد ہونے کے ساتھ جانے مانے مترجم بھی، کتنے اردو کے لکھنے والوں کو، ان کے کام کو انگریزی میں ترجمہ کرکے بین الاقوامی سطح پر متعارف کرا چکے ہیں۔ ساتھ میں مغربی فکشن کا اردو میں ترجمہ کرنے کا فریضہ بھی ادا کرتے رہے ہیں۔ اب انہوں نے پاکستان کے اس انگریزی ناول کا اردو میں ترجمہ کیا ہے اور چونکہ وہ منجھے ہوئے مترجم ہیں اور دونوں زبانوں پر قدرت رکھتے ہیں اس لیے ترجمہ کی صحت پر اعتبار کیا جا سکتا ہے۔

شعبہ صحت خود بیمار، علاج کون کرے گا؟

$
0
0

بلاشبہ تندرستی ہزار نعمت اور انسان کی وہ دولت ہے جو لٹ جائے تو پھر زندگی موت سے بدتر ہو جاتی ہے۔

اسی لئے دنیا بھر میں شہریوں کو صحت عامہ کی مفت اور بہترین سہولیات کی فراہمی حکومتوں کے اولین فرائض میں شامل ہے، لیکن 18کروڑ پاکستانی وہ بدنصیب قوم ہے جو اپنے حکمرانوں، بیورو کریسی اور ڈاکٹرز کی غفلت کے کوڑے سہہ سہہ کر اب قریب المرگ ہو چکی ہے۔ دنیا بھر کے طعنوں سے چڑ کر حکمرانوں نے باتوں تک ہی سہی لیکن تعلیم کو تو کچھ اہمیت دینا ضرور شروع کر دی ہے مگر صحت کا شعبہ تاحال اپنے علاج کا منتظر ہے۔ پاکستانی کبھی ڈینگی، سوائن فلو اور خسرہ جیسی وباؤں سے مر رہے ہیں تو کبھی پولیو جیسی بیماری عمر بھر کی معذوری دے کر ان کی زندگی کو موت سے بھی بدتر بنا دیتی ہے۔ ملک بھر میں سرکاری علاج گاہوں پر مشتمل جال کی رسیاں اس قدر بوسیدہ ہو چکی ہیں کہ ہاتھ میں آتے ہی راکھ بن جائیں۔

ڈاکٹر، ادویات اور دیگر سہولیات سے محروم مریض سرکاری ہسپتالوں کی فرش پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر رہے ہیں لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں اور ہو بھی کیوں مرنے والا کوئی سیاستدان، بیوروکریٹ، حکمران یا کوئی بڑا آدمی تھوڑا ہی تھا۔ اپنی خواہشات کے قیدی حکمرانوں کی وجہ سے قیام پاکستان کو 6 دہائیاں گزرنے کے باوجود یہ ملک اپنی گود میں پلنے والوں کو صحت عامہ کی مفت سہولیات نہیں دے سکا۔ ہاں یہ بھی درست ہے کہ وطن عزیز میں شعبہ صحت کی بدحالی کے ذمہ دار صرف حکمران ہی نہیں، اس تباہی میں بیوروکریسی، ہسپتالوں کی انتظامیہ، ڈاکٹرز و دیگر سٹاف نے بھی کردار ادا کیا۔

ہر دور حکومت میں حکمرانوں نے شعبہ صحت کی بدحالی کا رونا روتے ہوئے اس کی بحالی کے لئے انقلابی اقدامات اٹھانے کے دعوے کئے لیکن حقائق ہمیشہ اس کے برعکس رہے۔ حکمران شعبہ صحت کی بحالی میں کس قدر سنجیدہ ہیں، اس کا ایک اندازہ ہیلتھ بجٹ سے لگایا جا سکتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد گوکہ صحت کا شعبہ براہ راست صوبوں کے ماتحت آ چکا ہے، تاہم وفاقی حکومت کے تحت صحت کے حوالے سے تاحال مختلف ہیلتھ پروگرامز چل رہے ہیں۔ اسی لئے وفاقی حکومت نے 2013-14 کے بجٹ میں امور صحت چلانے کے لئے 35.6 بلین روپے (35ارب 60 کروڑ) مختص کئے۔ یہ رقم شعبہ صحت کی 17جاری اور ایک نئی سکیم کے لئے رکھی گئی۔ پنجاب میں شعبہ صحت کے لئے ریکارڈ 82 بلین (82 ارب) مختص کئے گئے جو بجٹ کے کُل حجم (897,569.311 بلین) کا 9.41 فیصد بنتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے شعبہ صحت کی بحالی و ترقی کے لئے 22 بلین (22ارب روپے) کی رقم رکھی، جو مجموعی بجٹ کا 6.39 فیصد بنتا ہے۔

سندھ میں ملیریا، ڈینگی، ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض کے سدباب اور شعبہ صحت کے دیگر اخراجات کے لئے 17 ارب روپے رکھے گئے جو کُل بجٹ کا 2.75فیصد بنتا ہے۔ بلوچستان حکومت نے 198.39 بلین روپے کا بجٹ پیش کیا تو اس میں شعبہ صحت کو 7.67فیصد کا حصہ ملا یعنی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں صحت عامہ کے لئے 15.23ارب روپے رکھے گئے۔ یوں وفاق اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے عوام کو صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لئے مختص کی گئی مجموعی رقم 171.83 ارب روپے بنتی ہے جسے پاکستان کی کُل آبادی (18کروڑ) پر تقسیم کیا جائے تو سالانہ فی پاکستانی 95 روپے حصے میں آتے ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان آج بھی مجموعی قومی پیداوار کا صرف 2 فیصد شعبہ صحت پر خرچ کرتا ہے۔

اس صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے حکمرانوں سے یہ سوال عوام کا حق بنتا ہے کہ ہمارے ہاں شعبہ صحت اس قدر کم درجے پر کیوں ہے؟ عوام کی صحت حکمرانوں کے لئے اس قدر غیر اہم کیوں ہے؟۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ حکمرانوں کے سر میں درد بھی ہو جائے تو علاج کے لئے بیرون ممالک کا دورہ اختیار کر لیا جاتا ہے اور غریب لال پیلے شربت پی کر جان دے دیتا ہے۔ اس حوالے سے دوسری قباحت یہ ہے کہ صحت کے لئے مختص بجٹ بھی شفاف طریقے سے مکمل طور پر استعمال ہی نہیں کیا جاتا اور مالی سال ختم ہونے پر فنڈز واپس چلے جاتے ہیں۔

18کروڑ کی آبادی کے لئے چند ہزار سرکاری علاج گاہیں اور ان میں بھی ادویات، ڈاکٹر، پیرا میڈیکس سٹاف، بیڈز اور دیگر مشینری کی کمی نے مسائل کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ حالات اس قدر سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں کہ کہا جانے لگا ہے کہ اگر آپ کی طبیعت شدید خراب ہو، سانس رک رک کر آنے لگے، زندگی کی امید دم توڑنے لگے اور آپ کے پاس پرائیویٹ ہسپتال جانے کی استعداد نہ ہو تو آپ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی جا کر پاؤں رگڑ رگڑ کر ذلت کی موت مرنے کے بجائے اپنے گھر میں عزت کی موت مرنے کو ترجیح دیں۔ ہنگامی صورت حال میں کسی بھی ہسپتال کا سب سے اہم شعبہ ایمرجنسی ہوتا ہے جہاں ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف سمیت سہولیات کی مکمل فراہمی اولین ترجیح کا درجہ رکھتی ہے لیکن ہمارے صورت حال کچھ یوں ہوتی ہے کہ ایمرجنسی کے بیڈز کی چادریں جلدی تبدیل نہیں کی جاتیں اور ان پر پڑے خون کے دھبے بتا رہے ہوتے ہیں کہ زخمی نے کس طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر یہاں دم توڑا ہے۔ میں نے ازراہ تفنن سرکاری ہستپال کے ایک دوست ڈاکٹر سے پوچھا کیا ایمرجنسی میں دوائیں موجود ہوتی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا میاں ایمرجنسی میں آنے والے مریضوں کو دواؤں کی نہیں دعاؤں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ادویات اول تو سرکاری ہسپتال کو کم مالی وسائل کی وجہ سے ملتی نہیں اگر خوش بختی سے کبھی مل جائیں تو جلد یہاں رہتی نہیں بلکہ ’’خیرات‘‘ کے نام پر کچھ غریبوں میں تھوڑی سی ادویات تقسیم کرکے باقی سڑک پار میڈیکل سٹور پر پہنچا دی جاتی ہیں، ادویات کی خرید و فروخت میں ہونے والی کرپشن کے لاتعداد کیسز اس بات کے شاہد ہیں۔ ایمرجنسی کے بعد ہسپتال کا اہم ترین شعبہ آئی سی یو ہوتا ہے لیکن یہاں بھی ہماری حالت بہت پتلی ہے۔ ورلڈہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق کسی بھی ہسپتال کے جنرل وارڈ اور آئی سی یو بیڈز کی شرح 50:1ہونی چاہیے اور آئی سی یو کے ہر بیڈ پر ایک تربیت یافتہ نرس کا ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے ہاں آئی سی یو میں ایک نرس 3 بیڈز کے لئے ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں مریض اور نرس کی شرح 3626:1 ہے۔ ملک بھر کے 19ٹیچنگ ہسپتالوں میں صرف 12ہزار بیڈز ہیں۔ پاکستان میں پنجاب کو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ تصور کیا جاتا ہے لیکن یہاں کے سرکاری ہسپتالوں کی صورت حال بھی کچھ ایسی ہے کہ آئی سی یوز میں ایک بھی انتہائی نگہداشت کا سپیشلسٹ نہیں ہے بلکہ پروفیسر آف میڈیشن یا بے ہوش کرنے والا ڈاکٹر انہیں چلا رہا ہے۔

انتہائی نگہداشت یونٹس (آئی سی یوز) کو متعلقہ تربیت یافتہ نرسنگ سٹاف اور وینٹی لیٹر کی شدید کمی کا سامنا ہے حالاں کہ ایک اندازے کے مطابق ہر 10 مریضوں میں سے ایک کو انتہائی نگہداشت یونٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔ پنجاب کے 12بڑے ہسپتالوں میں آئی سی یو بیڈز کی کُل تعداد صرف 250 کے لگ بھگ ہے۔ صوبائی دارالحکومت میں واقع 1250بیڈز پر مشتمل جناح ہسپتال کے آئی سی یو میں صرف 34 بیڈز اور 54 وینٹی لیٹر ہیں۔ 22 سو بیڈز والے میو ہسپتال لاہور جہاں او پی ڈی میں روزانہ 4 ہزار مریض آتے ہیں وہاں کے شعبہ ایمرجنسی میں صرف 48 وینٹی لیٹرز ہیں۔ 12سو بیڈز والے سروسز ہسپتال لاہور میں صرف 43وینٹی لیٹرز ہیں۔ صوبائی دارالحکومت سے دور بہاول وکٹوریہ ہسپتال بہاولپور میں 1450بیڈز میں سے صرف 6 بیڈ آئی سی یو کے لئے ہیں۔ پرائیویٹ ہسپتالوں کے حوالے سے آئی سی یو کو آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ تصور کیا جاتا ہے۔ اور ایک سروے کے مطابق سستے ترین پرائیویٹ ہسپتال کے آئی سی یو کا خرچہ 40 ہزار روپے (24گھنٹے کے لئے) سے شروع ہوتا ہے، جس میں ادویات اور لیبارٹری ٹیسٹ شامل نہیں۔ ان حالات میں غریب کہاں جائیں؟۔

حکمرانوں، بیورو کریسی اور ہسپتال انتظامیہ کے بعد ڈاکٹرز کی مادیت پرستی نے سرکاری اداروں کے حسن کو گہنا دیا ہے۔ سرکاری علاج گاہوں میں بیٹھے ڈاکٹرز (استثنیٰ کے ساتھ) کے رویوں کی شکایات زبان زد عام ہیں لیکن مقتدر حلقے اس کا نوٹس نہیں لیتے۔ سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز و دیگر سٹاف کی کمی درست لیکن جو موجود ہیں انہیں تو مریض سے خوش اخلاقی سے پیش آنا چاہیے۔ ڈاکٹر و پیرا میڈیکل سٹاف مریضوں کی کراہتی آوازیں سننے کے باوجود موبائل ہاتھ میں لے کر ایس ایم ایس میں مصروف یا ٹولیوں کی صورت میں سموسے و برگر کھانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر کا رویہ اچھا ہو تو مریض کو سرکاری ہسپتال سے دوائی نہ بھی ملے تو وہ گلہ نہیں کرتا لیکن ڈاکٹر کی بے اعتنائی جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کرتا ہے۔ رویے کے بعد ہمارے ڈاکٹرز کی قابلیت اور اپنے پیشے سے انصاف کے بارے میں حال ہی میں پاکستان کے معروف طبی جریدے پاکستان جرنل آف میڈیکل سائنس نے ایک تحقیق شائع کی ہے۔ اس تحقیق کے مطابق پاکستان میں ڈاکٹروں کا لکھا ہوا کوئی ایک نسخہ بھی بین الاقوامی طبی معیار کے تقاضے پورے نہیں کرتا، ڈاکٹر ضرورت سے زیادہ ادویات تجویز کرتے ہیں اور مریضوں کو زیادہ تر برانڈڈ ادویات لکھ کر دیتے ہیں۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ طبی قواعد کے برعکس جنرل پریکٹیشنر (جی پی) ڈاکٹر 89 فیصد نسخوں پر اپنا نام نہیں لکھتے، 78 فیصد نسخوں پر مرض کی کوئی تشخیص نہیں لکھی ہوتی جب کہ 58 فیصد نسخے اتنے بدخط ہوتے ہیں کہ انھیں پڑھنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ اور تو اور، تحقیق کے دوران دریافت ہوا کہ 63 فیصد نسخوں پر دوا کی مقدار، جب کہ 55 فیصد پر دوا لینے کا دورانیہ درج نہیں کیا جاتا۔ تحقیق کے مرکزی مصنف اور پشاور میڈیکل کالج کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عثمان احمد رضا کے مطابق اگرچہ مختلف نسخوں میں مختلف چیزیں مختلف شرح کے ساتھ موجود تھیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی ایک نسخے میں بھی یہ ساری چیزیں اکٹھی موجود نہیں تھیں۔ مصنف کے مطابق اس مسئلے کا ذمہ دار کسی ایک ادارے، شخص یا پروفیشن کو ٹھہرانا ٹھیک نہیں ہو گا، کیوں کہ یہ بہت سے اداروں کا کردار اور پورے نظام کا مسئلہ ہے، جس میں میڈیکل طلبہ کی تربیت، ڈاکٹروں کی بار بار ازسرِ نو تربیت، انضباطی اداروں کا کردار اور دوسری چیزیں شامل ہیں۔ یہ بات سمجھنا مشکل نہیں کہ جلدی اور لاپروائی سے لکھے جانے والا نامکمل نسخہ مریض کے لیے کس قدر تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔

اس پر مستزاد یہ ہے کہ ملک میں ایسے میڈیکل سٹوروں کو انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے جہاں کوالیفائیڈ فارماسسٹ موجود ہوتا ہے، جو ڈاکٹر کی غلطی پکڑ سکے۔ جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں مزید بتایا گیا ہے کہ پاکستانی ڈاکٹر فی نسخہ 3.32 ادویات لکھ کر دیتے ہیں، حالانکہ عالمی ادارہ صحت کی سفارشات کے مطابق فی نسخہ ادویات کی زیادہ سے زیادہ مثالی اوسط تعداد دو ہونی چاہیے۔ اگر اس شرح کا تقابل بنگلہ دیش اور یمن جیسے ترقی پذیر ممالک سے کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وہاں فی نسخہ پاکستان سے نصف سے کم ادویات تجویز کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں پائی جانے والی غربت کے باوجود جی پی ڈاکٹروں کی تجویز کردہ ادویات میں سے 90 فیصد مہنگی برانڈڈ ادویات تھیں، حالانکہ ان میں سے اکثر ادویات کے سستی متبادل مارکیٹ میں آسانی سے دستیاب ہوتے ہیں۔

اب یہاں دلچسپ صورت حال کچھ یوں ہے کہ ایک دوائی 40 روپے میں ملتی ہے تو کسی دوسری کمپنی کی طرف سے بنائی گئی وہی دوائی 160روپے میں ملتی ہے جبکہ ڈاکٹر 160روپے والی دوائی کو ترجیح دیتا ہے، تو اس کی کیا وجہ ہے؟ تو بھائی یہ کمال ہے اس کمپنی اور اس کے میڈیکل ریپ کا جو ڈاکٹر اس خدمت کے عوض کبھی گاڑی دیتا ہے تو کبھی چھٹیوں میں دبئی کی سیر کرواتا ہے۔ بہرحال ڈاکٹر عثمان کے مطابق اس کے مقابلے پر امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں میں برانڈ نام کے ساتھ ادویات لکھی ہی نہیں جاتیں، بلکہ صرف دوائی کا کیمیائی نام لکھا جاتا ہے۔ تحقیق میں جن نسخوں کا جائزہ لیا گیا ان میں سب سے زیادہ دردکش ادویات تجویز کی گئیں، جب کہ دوسرے نمبر پر جراثیم کش ادویات اور تیسرے نمبر پر ملٹی وٹامن دیے گئے۔ امریکی سرکاری ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ہر سال تقریباً سات ہزار افراد غلط ادویات کے استعمال کی وجہ سے ہلاک ہو جاتے ہیں، جب کہ کئی لاکھ شدید ضمنی اثرات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ وطن عزیز میں اس قسم کا کوئی ڈیٹا دستیاب نہیں ہے لیکن مندرجہ بالا تحقیق کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں نامکمل نسخوں کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد اور بیماریوں کی تعداد کہیں زیادہ ہو گی۔

آج ہر سطح پر تواتر سے حکومتی رٹ کی بات کی جا رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت ہسپتالوں میں اپنی رٹ قائم کیوں نہیں کرتی؟۔ ادویات، تعمیرات اور مشینری کی مد میں رکھے جانے والے فنڈز میں کروڑوں نہیں ملک بھر میں مجموعی طور پر اربوں روپے کی کرپشن کی تحقیقات آج تک کبھی کسی منطقی انجام تک نہیں پہنچی۔ ڈاکٹرز کا جب دل چاہے احتجاج شروع کرکے ہسپتالوں کو تالے لگا دیں، جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں چپکے سے اضافہ کر دیا جائے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔ غریب مریض علاج کے لئے سرکاری ہسپتال کی سیڑھیوں میں جان دے دیتا ہے لیکن ڈاکٹر کو ہر صورت اپنی تنخواہ میں اضافہ اور دیگر مراعات چاہئیں اور حکومت پہلے پانچ سات روز پوچھتی نہیں پھر جب میڈیا کا دباؤ پڑتا ہے تو مذاکرات کا کھیل کھیلنا شروع کر دیا جاتا ہے، پھر کسی لالی پاپ پر حالات معمول پر آتے ہیں تو چند روز بعد پھر کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا ہو جاتا ہے جس کا لازمی نتیجہ پھر سے احتجاج کی صورت میں نکلتا ہے۔

پاکستان میں کتنی سرکاری علاج گاہیں اور ڈاکٹرز ہیں؟
وطن عزیز کے 27 ڈویژنز،111 اضلاع اور 768تحصیلوں میں چھوٹی بڑی سرکاری علاج گاہوں کی تعداد 14ہزار کے قریب ہے، جن میں 989 بڑے ہسپتال، 5345 بی ایچ یوز،722 رورل ہیلتھ سنٹر(آر ایچ سیز)،2 سوٹی بی کلینک، 5 ہزار ڈسپنسریاں اور ایک ہزار میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سنٹرز شامل ہیں۔ پنجاب میں ساڑھے 5ہزار، سندھ سوا 4ہزار، خیبرپختونخوا 2ہزار، بلوچستان ڈیڑھ ہزار اور وفاق میں تقریباً 2سو مراکز صحت ہیں۔ ان تمام چھوٹے بڑے مراکز صحت میں بیڈز کی تعداد ایک لاکھ 5ہزار سے 10ہزار کے درمیان ہے، جن کی تقسیم کچھ یوں ہے، ہسپتالوں میں تقریباً 85 ہزار، بی ایچ یوز 7ہزار، آرایچ سیز 10ہزار، ڈسپنسریاں 3 ہزار اور میٹرنٹی اینڈ چائلڈ ویلفیئر سنٹرز میں بیڈز کی تعداد تقریباً 3سو ہے۔ 31مارچ 2014ء تک پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل میں رجسٹرڈ ہونے والے ڈاکٹرز کی تعداد ایک لاکھ 53ہزار447ہے(آزاد کشمیر بھی شامل ہے)۔ وفاق/پنجاب میں 62ہزار129، سندھ 61 ہزار 468، خیبرپختونخوا 18 ہزار 651 اور بلوچستان 4 ہزار 377 ڈاکٹرز ہیں۔ اس کے علاوہ سپیشلسٹ ڈاکٹرز کی تعداد 32157ہے۔

یہاں قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈاکٹرز کی یہ تعداد پی ایم ڈی سی میں رجسٹرڈ ضرور ہے لیکن یہ تمام سرکاری ہسپتالوں میں نہیں بیٹھتے۔ ایک غیر سرکاری رپورٹ کے مطابق سرکاری و نجی ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی شرح 40،60ہے یعنی سو میں سے 40ڈاکٹر سرکاری جبکہ 60پرائیویٹ ہسپتال میں بیٹھتے ہیں، اس کے علاوہ ڈاکٹرز کی ایک اچھی خاصی تعداد پاکستان چھوڑ کر بیرون ملک بھی جا چکی ہے۔ یوں اگر پاکستان میں ڈیڑھ لاکھ ڈاکٹرز ہیں تو ان میں زیادہ سے زیادہ 60 ہزار ڈاکٹر ہی سرکاری ہسپتال میں بیٹھ کر مریض پر احسان کرتے ہیں۔ بدنصیبی ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی سسٹم ہی نہیں بنایا جاتا جہاں سے آپ کو باآسانی تمام معلومات مل سکیں لیکن ڈاکٹرز کے حوالے سے اوپر بیان کئے گئے اعداد و شمار کو اس سے تقویت ملتی ہے کہ بی ایچ یو میں ایک ڈاکٹر، آرایچ سی میں پانچ، ٹی ایچ کیو میں 20سے25اورڈی ایچ کیو میں 40 سے 45 ڈاکٹرز تعینات ہوتے ہیں جبکہ ایک شہر میں درجنوں بڑے بڑے پرائیویٹ ہسپتال اور کلینکس ہوتے ہیں، جہاں سینکڑوں ڈاکٹرز ’’بزنس‘‘ کر رہے ہیں۔ نرسز کی تعداد کے حوالے سے بھی حقائق حوصلہ افزاء نہیں، پاکستان نرسنگ کونسل نرس مریض کی عمومی شرح 1:10 تجویز کرتی ہے لیکن سرکاری ہسپتالوں کو تاحال 60 ہزار نرسز کی کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اس وقت ہسپتالوں میں 9ہزار414 نرسز ہیں حالاں کہ پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق یہ تعداد 26ہزار 202ہونی چاہیے۔

سرکاری ہسپتالوں کی تباہی میں حکومتوں ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹرز سمیت سب نے کرداراداکیا: صوبائی وزیرصحت شہرام ترکئی
صوبائی وزیر صحت خیبرپختونخوا شہرام خان ترکئی نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صحت کے شعبہ کی تباہی و بربادی کا ذمہ دار کسی ایک کو نہیں ٹھہرایا جا سکتا، اس میں حکومتوں، ہسپتال انتظامیہ، ڈاکٹرز اور دیگر ورکرز نے بھی اپنا منفی کردار ادا کیا۔ پورے ملک میں ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ اپنی افادیت کھوتا چلا جا رہا ہے۔ میرٹ سے ہٹ کر منظور نظر لوگوں کو ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کا کرتا دھرتا بنایا گیا تو پھر انہوں نے کھل کر لوٹ مار کی۔ علاج معالجہ کے حوالے سے خیبرپختونخوا میں اب شکایات سیل بنائے جا رہے ہیں جہاں ہر سائل کو فوری ریلیف پہنچانے کے لئے ہنگامی اقدامات کئے جائیں گے۔ ہیلتھ بجٹ، سرکاری علاج گاہوں اور ڈاکٹرز کی کمی کے سوال پر صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ بلاشبہ ہمارے پاس پیسے، ہسپتال اور ڈاکٹرز کی کمی ہے لیکن ان سب سے زیادہ ہمیں شفافیت کی ضرورت ہے۔ بجٹ کم ہے لیکن اگر اس پیسہ کا غلط استعمال روک دیا جائے تو کافی حد تک ریلیف مل سکتا ہے۔

علاج گاہیں کم ہیں لیکن زیادہ ضروری یہ ہے کہ پہلے سے موجود ہسپتالوں میں بہتر سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ ڈاکٹرز، پیرامیڈیکل و دیگر سٹاف کم ہے لیکن موجودہ افرادی قوت کی جدید تقاضوں کے مطابق ٹریننگ اور مراعات میں اضافہ سے بڑی حد تک مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ کے پی کے میں 22 ارب روپے کا ہیلتھ بجٹ اڑھائی کروڑ شہریوں کے لئے کم ہے لیکن صحت کے علاوہ بھی 36شعبے ہیں جو پیسے کے بغیر تو نہیں چل سکتے، ہم نے اپنے وسائل کے مطابق ہی شعبوں کو فنڈز تقسیم کرنے ہیں۔ مسائل کے حل کے بارے میں بتاتے ہوئے شہرام خان ترکئی نے کہا کہ کے پی کے میں ڈسٹرکٹ اور ڈویژن سطح پر ہسپتالوں کا نظام بہتر بنانے پر کام شروع کر دیا گیا ہے تاکہ مقامی سطح پر ہی لوگوں کے مسائل حل ہوں اور انہیں انتہائی ضرورت کے بغیر پشاور نہ آنا پڑے۔ ڈاکٹرز کے حوالے سے بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر صحت نے کہا کہ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹرز کے رویے کی شکایات ہیں، جن میں کمی کے لئے باقاعدہ ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ پیسہ ضروری ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ اپنا ملک چھوڑ کر چلے جائیں کیوں کہ اس ملک کی خدمت ہم سب پر فرض ہے۔

سرکاری علاج گاہوں کی بدحالی کی ذمہ دار بیوروکریسی اور ڈاکٹرز خود ہیں: ڈاکٹر شاہد اقبال گِل
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنما و معروف معالج ڈاکٹر شاہد اقبال گِل نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو کے دوران پاکستان میں شعبہ صحت خصوصاً سرکاری علاج گاہوں کی بدحالی کا ذمہ دار بیورو کریسی اورڈاکٹرز کو قرار دیا۔انہوں نے بتایا کہ اول تو ہمارے ہاں صحت کے لئے مختص بجٹ بہت کم ہے، دوسرا وہ بھی مکمل طور پر عوام کے علاج و معالجے پر خرچ نہیں ہو رہا۔ ایک ہسپتال کے لئے اگر گرانٹ آئی ہے تو اس میں سب سے پہلے ڈی ایچ او اور ایم ایس اپنا حصہ کاٹے گا پھر وہ کمیشنوں میں بٹتی ہوئی عوام تک پہنچے گی۔ کرپشن اور ڈاکٹرز کی کمی نے سرکاری ہسپتالوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کر کے رکھ دی ہے۔ مریضوں سے ڈاکٹرز کا ناروا سلوک اور غفلت کے واقعات پر بات کرتے ہوئے رہنما پی ایم اے نے کہا کہ وہ مانتے ہیں کہ ایسا ہو جاتا ہے، لیکن اس کی تین وجوہات ہیں۔ کام کا زیادہ دباؤ، عملہ کی کمی اور تیسرا سب سے اہم نکتہ سیاسی مداخلت ہے۔ کسی بااثر سیاستدان کا بندہ اگر پہلے چیک نہ ہوا یا اس کا کوئی کام جلد نہ ہوا تو ڈاکٹر کو اس کا خمیازہ بھگتنے کا ڈر بھی ذہنی طور پر دباؤ کا باعث بنا رہتا ہے۔

میرے علاقے کے ٹی ایچ کیو میں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر تھی، مقامی بااثر سیاسی شخصیت سے اختلافات پر اس کو سزا کے طور پر وہاں سے ٹرانسفر کر دیا گیا تو اس کا نقصان لیڈی ڈاکٹر کے ساتھ پوری تحصیل کو بھگتنا پڑا کیوں کہ پھر ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے 6 ماہ تک اس ہسپتال میں گائنی کا ایک بھی آپریشن نہیں ہو سکا۔ ڈاکٹرز کی طرف سے غفلت کے معاملہ پر میں کہنا چاہوں گا کہ ڈاکٹر بھی انسان ہے اور انسان سے غلطی ہو جاتی ہے۔ کوئی ڈاکٹر جان بوجھ کر کسی کی زندگی سے نہیں کھیلتا۔ سرکاری ہسپتال کے بجائے پرائیویٹ کلینک کو ترجیح اور زیادہ وقت دینے کے سوال پر ڈاکٹر شاہد کا کہنا تھا کہ اس کا سبب مادیت پرستی ہے جو ہماری کمزوری ہے اور ہم اس کا اقرار کرتے ہیں۔ لیکن دیکھیں یہاں بھی بیورو کریسی کے رویے کی وجہ سے ڈاکٹر پرائیویٹ ہسپتال بنانے یا باہر جانے کو ترجیح دیتا ہے۔ میں نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا تو سیکرٹری ہیلتھ نے تعیناتی سینکڑوں میل دور کر دی، میں نے اپنے علاقہ میں تعیناتی کی درخواست کی کیوں کہ وہاں زیادہ ضرورت تھی لیکن وہ نہ مانے تو پھر مجبوراً مجھے وہیں استعفیٰ دینا پڑا۔ پھر یہاں سرکاری ڈاکٹر کو 50 ہزار روپے تنخواہ دی جاتی ہے جبکہ باہر اڑھائی لاکھ روپے سے شروعات ہوتی ہے۔ بھارت میں ڈاکٹر کی تنخواہ سوا لاکھ پاکستانی روپے سے شروع ہوتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں کی حالت زار کیسے بہتر بنائی جا سکتی ہے کے سوال پر ڈاکٹر شاہد اقبال نے کہا کہ سب سے پہلے بیورو کریسی کی مداخلت ختم کرکے ہسپتال کا مکمل کنٹرول ڈاکٹر کو دیا جائے، ڈاکٹر کو اچھی تنخواہ دی جائے تاکہ وہ دیگر چکروں میں نہ پڑے اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کرکے کرپشن کا راستہ روکا جائے۔

ترقی یافتہ ممالک میں شعبہ صحت کے لئے مختص بجٹ
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے شعبہ جات کی فہرست میں صحت پہلے نہیں تو دوسرے نمبر پر ضرور موجود ہے۔ امریکا کے بجٹ (2014ء) میں (پنشن کے بعد) سب سے زیادہ حصہ شعبہ صحت کو دیا گیا ہے۔ یہاں بجٹ کے کُل حجم کا 27فیصد (969.8 بلین ڈالر) اپنے شہریوں کی صحت پر خرچ کیا جائے گا۔ امریکہ میں 62فیصد ہسپتال منافع کے بغیر شہریوں کی خدمت میں مصروف ہیں اور صرف 18فیصد منافع کے لئے چلائے جا رہے ہیں جبکہ 20 فیصد ہسپتال براہ راست حکومت کی سرپرستی میں چل رہے ہیں۔ برطانوی حکومت اپنے 6کروڑ40لاکھ شہریوںکی صحت پر 129.5بلین ڈالر خرچ کرتی ہے، جو اس کے بجٹ کی کسی بھی شعبہ کے لئے مختص دوسری بڑی رقم ہے۔ چینی حکومت نے شعبہ صحت کے لئے اپنے رواں مرکزی بجٹ میں 260.253 بلین ین کی رقم مختص کی، جو کل بجٹ کا 27.1 فیصد بنتا ہے۔ چائنا مجموعی قومی پیداوار کا 5.7 صحت پر خرچ کرتا ہے۔ مختلف سرکاری رپورٹس کے مطابق 2020ء تک چائنا میں صحت بجٹ ایک ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔ روس اپنے شہریوں کی صحت پر 554.7 بلین روبل سالانہ خرچ کرتا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 6.2 بنتا ہے۔

ہسپتال، مریض اور ڈاکٹرکو درپیش مسائل
سرکاری ہسپتالوں کی قابل رحم حالت زار، مریضوں اور ڈاکٹرز کی مشکلات کی وجوہات جاننے کے لئے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ایک سروے کا اہتمام کیا گیا، جسے جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن(JPMA) نے شائع کیا۔ سروے میں مختلف شعبہ جات کے 50 ڈاکٹرز نے بھی حصہ لیا، جس میں 19مرد اور31خواتین ڈاکٹرز شامل تھیں۔ اس تحقیق کی روشنی میں حاصل ہونے والے نتائج کے مطابق مسائل کی وجہ ہسپتال انتظامیہ، ڈاکٹرز کا نامناسب رویہ، مریضوں کی لاعلمی اور غربت ہے۔ سروے کے نتائج میں ہسپتال، ڈاکٹر اور مریض کی وجہ سے پیدا ہونے والے مسائل کو تین اقسام (سچ، کبھی کبھار، جھوٹ) میں تقسیم کیا گیا، جو درج ذیل ہے۔

عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کے بار بار اعلانات کرنے والے حکمران اگر درج بالا مسائل کی روشنی میں ہیلتھ پالیسی مرتب کریں، تو کوئی وجہ نہیں کہ طبی سہولیات ہر فرد کو میسر نہ آئیں اور کروڑوں کی آبادی پر مشتمل ملک کا کوئی ایک بھی باسی بغیر علاج کے مر جائے۔


عوام کو پانچ فی صد طبقۂ اشرافیہ کے خلاف اٹھنا ہوگا ، سراج الحق

$
0
0

 صاحب سیف وقلم خوش حال خان خٹک کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ ’’جوانسان اخلاص کے ساتھ کوشش کرتا ہو، میں اس بات کی ضمانت دیتا ہوں کہ وہ اپنے مقصد میں ضرور کام یاب ہوگا۔‘‘

خوش حال خان خٹک کے اس قول زرین کا عملی نمونہ اگر نومنتخب امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کو قرار دیا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا، جنہوں نے اپنی محنت، قابلیت، صلاحیت اور اپنے نظریات کے ساتھ مکمل کمٹمنٹ کی بدولت وہ منزل پالی ہے جس کی خواہش تو لاکھوں لوگ رکھتے ہیں لیکن منزل تک رسائی صرف انہیں ملتی ہے جن کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئے۔

سراج الحق زمانہ طالب علمی میں گروپ بنا کر کھدائی اور اس جیسے دوسرے کام کرکے یومیہ40 روپے کماتے اور اپنے تعلیمی اخراجات پورے کیا کرتے تھے۔ ہاسٹل میں کمرے کی سہولت کے باوجود رات کو فلم دیکھنے کے بہانے باہر نکل کر فٹ پاتھوں پر رات بس کرنے والے بے گھر مزدوروں اور گداگروں کے ساتھ سویا کرتے۔ اسی طرح یہ نومبر 2002 ء کی بات ہے جب یہ مرد درویش زندگی میں پہلی بار گورنر ہائوس دیکھنے جارہا تھا، جو اس کے بحیثیت سینئر صوبائی وزیر حلف اٹھانے کا دن تھا۔ ہر وزیر مشیر اپنی دھاک بٹھانے کے لیے اپنے ساتھ وی آئی پی یار دوستوں کو لایا تھا، جب کہ سراج الحق اپنی جماعت کے دو دیرینہ کارکنوں کو، جو اس وقت مالی اور چوکیدار تھے، ہاتھ پکڑ کر لائے اور حلف برداری کے لیے منعقدہ پروقار تقریب میں اگلی نشستوں پر بٹھا دیا۔ انہوں نے سب کو حیران کردیا کہ جس سراج الحق کو وہ زمانہ طالب علمی سے جانتے تھے، وزارت کا جھنڈا ان کی گردن میں سریا نہ ڈال سکا۔ حالیہ دنوں ان کو امیرجماعت اسلامی پاکستان کی امارت کی ذمہ داری انتخاب کے ذریعے سونپی گئی ہے۔ اس نئی ذمہ داری اور ملک کی مجموعی صورت حال کے بارے میں ان سے گذشتہ روز ایکسپریس نے ایک خصوصی نشست کی جس کی تفصیل نذرقارئین ہے:

ایکسپریس: کیا وجوہات ہیں کہ ایک بڑی جماعت ہونے اور منظم جدوجہد کے باوجود انتخابات میں جماعت اسلامی کو وہ عوامی حمایت نہیں ملتی جس کی توقع کی جاتی ہے؟
سراج الحق: سب سے پہلے تو میں ایکسپریس کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے ہمیشہ ہمارے ساتھ تعاون کیا ہے اور ہماری آواز اور منشور عوام تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بعد آپ کے سوال کا جواب اس طرح دینا چاہوں گا کہ یہ تو بظاہر ایک جزوی حقیقت ہے، لیکن اس حقیقت کے باطن میں اور بہت سی حقیقتیں پنہاں ہیں، دیکھیں! جماعت اسلامی ایک اصول پسند جماعت ہے، جو قرآن کریم اور فرمان رسول ﷺ کی روشنی میںاس ملک میں سیاست کررہی ہے، تاکہ یہاں ایک ایسا اسلامی جمہوری نظام نافذ ہوجائے جس میں ہر قسم کی اونچ نیچ کا خاتمہ ہوسکے، عدل وانصاف کا بول بالا ہو اور غریب ومستحق کو اس کا حق مل سکے۔ یہ نہ ہوکہ ایک بھوک سے مرے اور دوسرا پیٹ بھر کر کھانا کھائے، ہمارا دین ہمیں اس قسم کے نظام زندگی کی قطعاً اجازت نہیں دیتا، ہمارے سامنے صحابہ کرام (رض)ٖ کی مثالیں موجود ہیں، جن سے ہم سبق اور راہ نمائی لے کر سیاست کررہے ہیں۔

تاہم ہمارے ہاں جو سیاسی اور انتخابی کلچر رائج ہے، جس میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اور ساتھ ہی دیگر کئی قسم کے ہتھکنڈے بھی استعمال کیے جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کیے جاتے ہیں، لیکن دوسری جانب ہماری جماعت میں عام مڈل کلاس کے لوگ انتخابات میں حصہ لیتے ہیں اور ان کا مقابلہ بڑے بڑے سرمایہ داروں، جاگیرداروں، نوابوں اور خوانین سے ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی پشت پر میڈیا کے کردار کو بھی صرف نظر نہیں کیا جاسکتا، جب کہ بدقسمتی سے عوام بھی وقتی اور کھوکھلے نعروں کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں، جس کے باعث ہمارے مڈل کلاس طبقے کے امیدواروں کو وہ پذیرائی نہیں ملتی جو ملنی چاہیے، مگر اب ہم بھرپور تیاری کریں گے اور پوری تیاری کے ساتھ انتخابات میں حصہ لیں گے۔ ہمارا مقصد ایک ایسے منصفانہ نظام کا قیام ہے جو قرآن وسنت کا حقیقی ترجمان اور راہ نما ہو، دوسری بات یہ ہے کہ عوام بھی اب جان چکے ہیں کہ ان کو اپنے جائز حقوق دلانے والی اصل ترجمان اور راہ نما جماعت اسلامی ہی ہے، جو ہر قسم کرپشن، ناانصافی، عریانی وفحاشی، مغربی کلچر اور بدعنوانی کے خلاف سینہ سپر ہے۔

ایکسپریس : حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں اور جماعت اسلامی اس بارے میں کیا نقطۂ نظر رکھتی ہے؟
سراج الحق: ہمیں یہ دھرتی بہت پیاری ہے۔ یہ ہماری جان ہے اور اس کے بہتر مستقبل، تعمیروترقی کے لیے سب سے پہلے امن کی ضرورت ہے جب کہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ امن کبھی بھی جنگ وجدل سے قائم نہیں ہوا ہے، بل کہ امن کے قیام کے لیے مذاکرات اور جرگہ سسٹم بہترین اور دیرپا حل ثابت ہوئے ہیں، چوں کہ جماعت اسلامی بھی ایک امن پسند جماعت ہے، جوہر قسم کے تشدد، چاہے اس کی شکل جیسی بھی ہو، کے خلاف ہے۔ مذاکرات کے لیے جو کمیٹی بنی ہے اس میں ہماری جماعت کا نمائندہ شامل ہے، جو جماعت ہی کے نظریات اور منشور کی روشنی میں امن کے قیام میں اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ کمیٹی تو اپنی ذمہ داری نبھارہی ہے۔ اب یہ مرکزی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ اس میں کس حد تک سنجیدہ ہے اور کس حد تک کام یاب ہوتی ہے، لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ امن کا قیام ہرصورت ہونا چاہیے اور یہ ہم سب کی اولین ذمے داری بنتی ہے کہ امن کے قیام میں اپنا اپنا کردارادا کریں۔ جتنی بھی سیاسی جماعتیں ہیں ان سب کو اسی ایک نکتے پر متفق ہونا پڑے گا۔ اسی میں ہماری بھلائی ہے۔ اسی میں ہمارا بہتر مستقبل ہے۔ سیاسی نظریات اپنی جگہ مگر کون ایسا ہوگا جو امن نہیں چاہے گا۔ امن تو زندگی کی رگوں میں دوڑتا ہوا خون ہے، جسے روکنا موت کو دعوت دینا ہے۔

ایکسپریس: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر مذاکرات کام یاب ہوجاتے ہیں اور اس ضمن میں کوئی امن معاہدہ طے پاتا ہے تو موجودہ حکومت کے بعد آئندہ آنے والی حکومت اور طالبان ان امن معاہدوں کی پاس داری کرپائیں گے؟
سراج الحق: دیکھیں اس وقت ہم سب کی ترجیحات میں سرفہرست امن کا قیام ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک بار امن قائم ہوجائے تو اس کے بعد کا سلسلہ بھی انشاء اﷲ امن ہی کے راستے آگے بڑھتا رہے گا اور یہ حقیقت دنیا مانتی ہے کہ جنگ اور تشدد جنگ اور تشدد ہی کو جنم دیتا ہے۔ اس لیے مذاکرات اور جرگہ قیام امن کا واحد راستہ ہے۔ انہیں اپنائے بغیر ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ اس سلسلے میں ہمیں عوام کو اس خوف اور دہشت سے نکالنا ہوگا اور ایک ایسا ماحول قائم کرنا ہوگا، جس میں وہ بلاخوف وخطر سکھ کا سانس لے سکیں۔ ہماری پہلی ترجیح جنگ سے متاثرہ پچاس ہزار لوگوں کو بسانا، ان کی بحالی اور ان کے زخموں پر مرہم پٹی رکھنا ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ امن معاہدوں کی پاس داری آئندہ دور میں فریقین اور اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کے حق میں نہ صرف مفید ہوگی ، بل کہ اس سے استعماری اور مخالف بیرونی قوتوں کا راستہ بھی روکا جاسکے گا۔

ایکسپریس: برادر اسلامی ملک افغانستان میں صدارتی انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے۔ آپ کی جماعت کی ہم درددیاں کس کے ساتھ ہیں؟
سراج الحق: جناب ہماری ہم درددیاں کسی فردواحد کے ساتھ نہیں، بل کہ افغانستان کے عوام کے ساتھ ہیں وہاں کے عوام گذشتہ تیس، پینتیس سال سے جنگ سے متاثر چلے آرہے ہیں۔ وہاں بہت تباہی ہوچکی ہے، پوری ایک نسل جنگ کے شعلوں میں پیدا ہوئی، پلی بڑھی، اس لیے ان کے پاس مکمل امن کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا، اس لیے پُرامن اور اسلامی افغانستان کے بہتر مستقبل کے لیے وہاں کے تمام طبقات کا موقف ایک ہونا چاہیے، تاکہ ایک مضبوط اسلامی افغانستان کا قیام ممکن ہو سکے۔ افغانوں کو اپنے عقیدے کے مطابق فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار اور آزادی ہونی چاہیے۔ افغانستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے، وہاں کے عوام اپنے معروضی حالات کے مطابق جو فیصلہ بھی کرتے ہیں اسے تسلیم کرنا چاہیے اور کسی بھی ملک کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہاں مداخلت کرے۔ اس ضمن میں پاکستان کو افغانستان اور افغانستان کو پاکستان میں قیام امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا، کیوں کہ دونوں برادر ملک ایک دوسرے کے ساتھ مذہب اور ثقافت سمیت دیگر اقدار میں بہت سی مشترک قدروں کے امین ہیں۔

ایکسپریس: سابق صدر پرویزمشرف پر چلنے والے مقدمات کے حوالے سے سیاسی ماحول کافی گرم ہے۔ اگر مشرف کو سزا ملتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس معاملے میں ’’کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں‘‘ جماعت اسلامی کا اس حوالے سے کیا موقف ہے؟
سراج الحق : دیکھیں جی، اس وقت تو صرف مقدمہ پرویزمشرف پر چل رہا ہے اس لیے ہم ان کے علاوہ کسی اور کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ ملک میں قانون، آئین اور ادارے موجود ہیں۔ یہ ان کا کام ہے جہاں تک پرویزمشرف کی بات ہے تو انہوں نے اپنے دوراقتدار میں بہت سی غلطیاں کی ہیں۔ ملک کی معیشت کو تباہ کرڈالا، بدامنی کو ہوا دی، ڈرون حملوں کی اجازت دی، ان کے دامن پر پچاس ہزار بے گناہ لوگوں کے خون کے دھبے ہیں۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کی طالبات کو خون میں نہلادیا، بلوچوں اور سردار اکبربگٹی کو مارڈالا، پاکستان کا آئین توڑا، اس لیے اب یہ عدالت کا کام ہے کہ وہ اس حوالے سے کیا فیصلہ کرتی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ عدالت ان کے ساتھ آئین اور قانون کے دائرے میں کیا سلوک کرتی ہے؟

ایکسپریس : کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حوالے سے جماعت اسلامی کا موقف کیا ہے؟
سراج الحق: کشمیریوں نے حق خودارادیت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ ضرور رنگ لائیں گی۔ جماعت اسلامی کشمیریوں کی تحریک میں ان کے ساتھ ہے، تنازعہ کشمیر کو ہر فورم پر اٹھائیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے اقدامات کرے، بھارت سے بات چیت میں مسئلہ کشمیر پر دو ٹوک بات کی جائے۔

ایکسپریس: الیکشن مہم کے دوران جو وعدے وعید کیے گئے تھے اس پر کتنا عمل درآمد ہو پایا ہے؟
سراج الحق: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی مخلوط حکومت کا حصہ ہے، اس لیے سارے کام باہمی مشاورت اور ایک دوسرے کو اعتماد میں لے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ جو وعدے ہم نے کیے تھے ان پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ مثلاً ہم نے اپنے منشور میں پورے ملک کو فلاحی اسلامی ریاست بنانے، اسلامی نظام خلافت اور جدید جمہوریت کا اچھا نمونہ پیش کرنے کا عہد کیا ہے اور 60 سال یا اس سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے نیشنل کارڈز بناکر ریلوے اور پی آئی اے میں نصف ٹکٹ، غریب ونادار لڑکوں اور لڑکیوں کی سرکاری فنڈ سے شادیاں، مفت صحت عامہ وتعلیم کی سہولت کے علاوہ خیبرپختون خوا کے دارالحکومت پشاور کی عظمت رفتہ کی بحالی، اسے خوب صورتی اور سرسبزوشاداب بنانے کے لیے بھرپور مہم شروع کررکھی ہے، جس کے ثمرات سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس ضمن میں بلاامتیاز کارروائی کرکے تجاوزات کا خاتمہ کردیا ہے، جس کے باعث ٹریفک مسائل میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ ساتھ ہی بجلی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اس کی پیداوار بڑھانے کے لیے ہوم ورک مکمل کیا ہے، جس کے تحت چترال، دیر، سوات اور دیگر دریائوں پر چھوٹے چھوٹے ڈیمز بناکر 48 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ ہے، چوں کہ ہمارا صوبہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے، اس لیے معدنیات اور گیس کے وسیع ذخائر کی تلاش کے لیے فزیبیلٹی پر کام جاری ہے، جس سے معاشی انقلاب برپا ہوگا اور روزگار کے وسیع مواقع میسر آئیں گے۔

ایکسپریس: کیا آپ مذاکراتی عمل سے مطمئن ہیں؟
سراج الحق: ایک کمانڈو نے ملک کا بیڑا غرق کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے، جس نے یہ کہا کہ اگر عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن شروع کیا گیا تو یہ مسئلہ ایک ہفتے میں حل ہوجائے گا۔ تاہم یہ مسئلہ ایسا گمبھیر ہوا کہ آج پورا ملک اس آگ میں جل رہا ہے، لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ مذاکرات کے ذریعے امن کی بحالی کے امکانات روشن ہونے لگے ہیں۔ اس لیے ہم مذاکراتی عمل سے مطمئن ہیں اور اب وقت آگیا ہے کہ وفاقی حکومت طالبان کے ساتھ مذاکرات اسلام آباد میں کرے اور اگر مرکزی حکومت اسلام آباد میں طالبان کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتی تو خیبر پختون خوا کی حکومت پشاور میں بات چیت کا اہتمام کر سکتی ہے۔ گذشتہ ادوار کی غلط پالیسیوں کے نتیجے میں بہت سا خون بہا اور ہم لاشیں اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، اب یہ سلسلہ تھم جانا چاہیے۔

ایکسپریس: صوبائی خودمختاری اور صوبوں کے حقوق کے حوالے سے حکومتی اتحادی ہونے کے ناتے کیا حکمت عملی اپنائی گئی ہے؟
سراج الحق: ایم ایم اے کے دور میں بھی جب میں وزیرخزانہ تھا تو اس مسئلہ کو اٹھایا تھا اور اس کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے تھے، اب بھی ہم اس حوالے سے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے تمام جماعتوں کو نہ صرف اعتماد میں لیا ہے، بل کہ سابق وزرائے خزانہ سے بھی مشاورت کی گئی ہے۔ اس حوالے سے ایک ایڈوائزری کونسل بھی قائم کی تھی، لہٰذا آئندہ این ایف سی ایوارڈ سے قبل مردم شماری ہونی چاہیے تاکہ صحیح اعداد و شمار کی روشنی میں آئندہ مالیاتی ایوارڈ میں وسائل کی منصفانہ تقسیم ہوسکے۔ بجلی کا خالص منافع صوبے کا حق ہے، جو 1991ء کے بعد تاحال نہیں ملا اور چھے ارب روپے پر منجمد ہے۔ وفاق کو چاہیے کہ وہ اس منافع کو این ایف سی ایوارڈ سے شروع کرے، بجلی کے خالص منافع کی مد میں وفاق ہمارا 375 ارب روپے کا مقروض ہے اور اگر یہ حق صوبے کو مل جائے تو ہمارا صوبہ قرضہ دینے والا صوبہ بن سکتا ہے۔ مرکز کی غلط پالیسیوں کے باعث صوبے کے عوام مشکلات سے دوچار ہیں، دوسری جانب دہشت گردی کی لہر سے صوبہ بری طرح متاثر ہے۔ اس بنا پر وفاق کو چاہیے کہ جس طرح بلوچستان کو ترقیاتی پیکیج دیا گیا اس طرح خیبر پختون خوا کی بحالی کے لیے بھی پیکیج دیا جائے کیوں کہ دہشت گردی کے باعث یہاں صرف تابوتوں اور کفن سینے والوں کا کاروبار بڑھا ہے اور باقی تمام طبقات بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔

ایکسپریس: کیا آپ نہیں سمجھتے کہ وسائل کی منصفانہ تقسیم سے صوبائی عصبیت کا خاتمہ ممکن ہے؟
سراج الحق: میں سمجھتا ہوں کہ جن معاشروں میں عدل نہ ہو، میرٹ کی پامالی کی جاتی ہو، اقربا پروری کی روایت پروان چڑھ رہی ہو، طبقاتی نظام ہو، جہاں ادارے ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کرتے ہوں اور وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم ہو، وہاں تباہی نہیں آئے گی تو کیا پھول کھلیں گے؟ یہ کتنی افسوس کی بات ہے، یہ کتنی بے حسی ہے کہ ایک طرف صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں عوام بھوک اور پیاس سے بلک بلک کر مر رہے ہوں، دوسری طرف حکم ران چند میل کے فاصلے پر سندھ کلچرل شو کے نام پر قومی دولت لٹا رہے ہوں۔ کیا یہ انصاف ہے، کیا یہ انسانیت ہے، کیا یہ وسائل کی منصفانہ تقسیم ہے؟ ایسے میں کس طرح آپ ان سے اچھائی کی توقع رکھ سکتے ہیں، مگر حکم راں یادرکھیں کہ خدا کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ دیکھیے جناب! ہمیں انفرادیت اور ذات پسندی کے نظریے کو چھوڑنا پڑے گا۔ اسی میں دنیا واخرت کی کام یابی ہے، مسلمانوں کا مسئلہ پیسہ نہیں ہونا چاہیے بل کہ وژن ہونا چاہیے۔ امریکا سے گلہ نہ کریں۔ دشمن تو نعمت ہوتا ہے۔ یہ کون سا قانون ہے کہ دشمن سے گلہ کیا جائے وہ تو ہوتا ہی آپ کو زیر کرنے کے لیے اور جس قوم کا دشمن نہ ہو تو وہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔

ایکسپریس: کراچی کی صورت حال کا حل آپ کی نظر میں کیا ہے؟
سراج الحق: کراچی ملک کا سب سے بڑا شہر اور معاشی حب بھی ہے۔ ملکی معیشت کے استحکام میں اس کی حیثیت کو ہر گز رد نہیں کیا جا سکتا جب کہ دوسری طرف یہ کثیرالقومی اور ملٹی کلچرل شہر بھی ہے۔ یہاں کی جو صورت حال ہے اس پر نہ صرف میں بل کہ ہر محب وطن شہری خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ پرامن کراچی ہم سب کے مفاد میں ہے اور کراچی میں قیام امن کی خاطر ہمیں بہت سوچ سمجھ کر اور سخت فیصلے کرنا ہوں گے۔ سب سے پہلے اس ضمن میں تمام قومیتوں کو برابری کی سطح پر تحفظ اور حقوق دینے ہوں گے، جب کہ دوسرے نمبر پر تمام سیاسی پارٹیوں کے عسکری ونگز کا خاتمہ کرنا ہو گا، اسلحہ جمع کرنا ہو گا اور جرائم پیشہ عناصر کی بیخ کنی کی خاطر کسی مصلحت کو آڑے نہ آنے دینا ہوگا۔ یہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ ابھی تک کراچی میں 25 ہزار افراد کا خون بہایا جا چکا ہے۔ اب یہ خون خرابہ بند ہوجانا چاہے، عدالتوں کو آزاد کرنا ہو گا، جب کہ اداروں کو ہر قسم کی سیاسی اثر و رسوخ سے نجات دلانا ہو گی۔ ساتھ ہی تھانوں کو سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرا کے مکمل بااختیار بنا کر ہی کراچی امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔

ایکسپریس: ہزارہ صوبے کی تحریک کے بارے میں جماعت اسلامی کا کیا مؤقف ہے؟
امیر جماعت اسلامی: صوبہ ہزارہ یہاں کے عوام کا آئینی و جمہوری حق ہے لیکن جو صورت حال اس حوالے سے آج سامنے ہے اگر پچھلی حکومت میں صوبے کے نام کی تبدیلی کے وقت اس کو ’’ہزارہ خیبر پختون خوا‘‘ کا نام دے دیا جاتا تو نہ یہ خوں ریزی ہوتی اور نہ ہی آج یہ ایشو بنتا۔ بہرحال آج نہیں تو کل جب ملک میں انتظامی تبدیلی ہوگی اور ملک کے دیگر حصے الگ صوبائی حیثیت کے لیے جدوجہد کریں گے تو ہزارہ صوبے کا مقدمہ اس فہرست میں سرفہرست ہو گا۔ تاہم اس کے لیے ملک کے آئین وقانون کے مطابق لائحہ عمل طے کرنے اور جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ تب ہی اس قسم کے تمام مسائل افہام وتفہیم سے حل ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس: کارکنوں کے جائز مطالبات اور جماعت اسلامی کو فعال بنانے کے لیے آپ کیا ارادے رکھتے ہیں؟
سراج الحق: دیکھیں جی! عمل ہی زندگی کا پہلا اور بامقصد اصول ہونا چاہیے جب آپ خود اسلامی طرززندگی کو اپناکر شعائر اسلام خود پر لاگو کریں گے تو آپ دوسروں کے لیے رول ماڈل بن جاتے ہیں۔ میری بھی یہی کوشش ہو گی کہ میں خادم بن کر نہ صرف کارکنوں کے جائز حقوق و مطالبات کے لیے جدوجہد کروں بل کہ ایک عام پاکستانی کے لیے بھی وہی سوچ اختیار کروں جو اپنے لیے رکھتا ہوں۔ تب تو کوئی مسئلہ ہی باقی نہیں رہتا، تمام معاملات نظام مصطفیٰ ؐ کے عین مطابق اور مشاورت سے اگر آگے بڑھتے رہیں گے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک فلاحی اسلامی ریاست کے قیام میں جلد کام یاب ہوجائیں گے، جس کے تحت ہر پاکستانی شہری کو خواہ وہ جماعت سے وابستہ ہو یا دیگر مذہبی وسیاسی جماعتوں، کسی بھی رنگ ونسل، عقیدے اور زبان سے تعلق رکھتا ہو سب کو عدل وانصاف اور بنیادی حقوق مل کے رہیں گے۔

ایکسپریس: ملک میں اسلامی نظام حیات کے لیے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے آپ اپنی جدوجہد کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
سراج الحق: جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین، مقصد و منشا اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصد عملاً اقامت دین یعنی اسلامی نظام زندگی کا قیام اور حقیقتاً رضائے الٰہی کا حصول اور فلاح اُخروی ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے ہم مملکت خدا داد پاکستان کے آئین وقانون کے مطابق جمہوری انداز میں جدوجہد جاری رکھیں گے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے۔ تشدد کا راستہ غلط ہے۔ پُرامن جدوجہد کے ذریعے اسلامی انقلاب لانا چاہتے ہیں، عوام کا اصل مقابلہ صرف 5 فی صد اشرافیہ سے ہے۔ ان کے خلاف اٹھنا ہو گا، استحصالی طبقے نے جمہوریت اور جمہوری اداروں کو تباہ کردیا ہے۔ یہاں وسائل اور ذخائر کی کمی نہیں، انتخابی نظام میں بہت سی خرابیاں ہیں، جنہیں دور کرنا ہو گا۔ اس کے علاوہ ارکان جماعت نے جو عظیم ذمہ داریاں میرے کندھوں پر ڈال دی ہیں۔ اسے امانت سمجھ کر نبھانے کی کوشش کروں گا اور بحیثیت امیر جماعت اسلامی پارٹی منشور کو آگے بڑھاؤں گا۔

مختصرتعارف
امیرجماعت اسلامی پاکستان سراج الحق ضلع دیر کے گاؤں جندول میں 5 نومبر 1962ء کو پیدا ہوئے، تین بھائیوں اور دو بہنوں میں سب سے بڑے ہیں اور سب ان کو ’’خان لالہ‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ بچپن انتہائی مفلسی میں گزارا، اسکول جانے کے لیے پانچ کلو میٹر کا طویل راستہ پیدل طے کیا کرتے تھے۔ آٹھویں جماعت میں تھے کہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوگئے 1980ء میں گورنمنٹ اسکول لال قلعہ سے میٹرک کیا، جس کے بعد گورنمنٹ کالج تیمرگرہ میں داخلہ لیا۔1981ء میں اسلامی جمعیت طلبہ کے رکن بنا دیے گئے۔ اپنی تنظیمی ذمے داریوں پر ساری توجہ مرکوز رکھی، جس کی وجہ سے ان کی حاضریاں کم پڑگئیں اور یوں ان کو ایف اے کا امتحان دینے کی اجازت نہ ملی، دوستوں کے مشورے پر اسلامی یونی ورسٹی اسلام آباد میں داخلہ لیا،1985ء میں اسلامی جمعیت طلباء کی صوبائی نظامت کی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اکتوبر 1988ء میں ناظم اعلیٰ پاکستان بنادیے گئے جس کی وجہ سے لاہور میں آبسے، قیام لاہور کے دوران پنجاب یونی ورسٹی سے ایم ایڈ کی ڈگری حاصل کی۔

1991ء میں یہ ذمہ داریاں اگلے امانت دار کے سپرد کردیں اور عملی زندگی کا آغاز کرکے تیمرگرہ میں کھاد کا ذاتی کاروبار شروع کردیا لیکن توجہ نہ دے سکنے کے باعث بند کردیا۔ پھر اپنے ضلع کی تحصیل ثمر باغ میں ایک پبلک اسکول کام یابی سے چلایا۔ اسی دوران جماعت کی طرف سے ان کو تحصیل کی امارت سونپی گئی۔ 1992ء میں رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ ان کے پانچ بچے معراج الحق، اعجاز الحق، ضیاء الحق، قدسیہ اور عائشہ ہیں۔ ایک عرصے تک جماعت اسلامی کے جنرل سیکریٹری رہے، دوران وزارت ان کو جماعت اسلامی کی صوبائی امارت کی بھاری ذمے داریاں بھی حوالے کی گئیں مگر اب ان کے کندھوں پر نئی ذمہ داری ڈال دی گئی، والد ’سراج الحق‘ جب کہ اماں جان ان کو ’’لالی‘‘ کہتی ہیں۔ انہوں نے حالیہ دنوں جماعت اسلامی پاکستان کے پانچویں امیر کے طور پر منصورہ (لاہور) میں اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس سے قبل وہ صوبائی امیر، جنرل سیکریٹری اور مرکزی نائب امیر کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔

امیر جماعت اسلامی کو درپیش چیلنجز
نظر انداز کارکنوں اور جماعت اسلامی کو چھوڑکر جانے والوں کو واپس لانا، جماعتی تحریک، جماعتی اداروں کی اصلاح، برادر تنظیمات کی فعالیت، تنظیم سازی اور دعوتی پروگرامات، بڑے بڑے چیلنجز ہیں۔

حلف امارت کا متن
میں فلاں ابن فلاں جسے جماعت اسلامی پاکستان کا امیر مقرر / منتخب کیا گیا ہے، اﷲ رب العاللمین کو گواہ کر کے اقرار کرتا ہوں کہ میں :
(1) اﷲ اور اس کے رسول ؐ کی اطاعت و وفاداری کو ہر چیز پر مقدم رکھوں گا۔
(2) جماعت اسلامی کے نصب العین کی دل و جان سے خدمت کو اپنا اولین فرض سمجھوں گا۔
(3) اپنی ذات اور ذاتی فائدوں پر جماعت کے مفاد اور اس کے کام کی ذمہ داریوں کو ترجیح دوں گا۔
(4) ارکان جماعت کے درمیان ہمیشہ عدل اور دیانت سے فیصلہ کروں گا۔
(5) جماعت کی جو امانتیں میرے سپرد کی جائیں گی ان کی اور نظام جماعت کی پوری پوری حفاظت کروں گا۔
(6) جماعت کے دستور کا پابند اور وفادار رہوں گا۔
اللہ تعالیٰ مجھے اس عہد کو ایفا کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

سنیما جا کر فلم دیکھنے کا شوق
لڑکپن میں سراج الحق کے دوست جب سنیما سے واپس آکر فلم کی کہانی سناتے تو ان کا بھی دل چاہتا کہ کاش وہ بھی کسی دن سینما جا کر فلم دیکھیں تاہم شوق کے باوجود ان کو اپنی اس خواہش کی تکمیل کا موقع نہ مل سکا، فلمی ستاروں میں ان کو صرف محمد علی کا نام آتا ہے، ان کے دوست محمد علی کی اداکاری کی بہت تعریف کیا کرتے تھے۔ ان سے موسیقی کے حوالے سے استفسار کیا جائے تو نفی میں سر ہلاتے ہوئے اچانک اثبات پر آجاتے ہیں اور پشتو کے مشہور فوک سنگر فضل ربی کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہاں ایک آواز نے بہت متاثر کیا ہے، جو انہوں نے غیرارادی طور پر متعدد مرتبہ سنی اور ہر بار ان کی آواز میں ایک عجیب سوز محسوس کیا، وہ نظریاتی لوگوں کو عشق مجازی جیسی بیماری سے مبرا سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کسی نظریے سے وابستہ شخص کے خیالات اتنے آفاقی ہو جاتے ہیں کہ عشق جیسی سطحی چیز کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہوتا۔ ان کو عشقیہ اشعار اور ٹپے یاد نہیں، صرف انقلابی شاعری پسند کرتے ہیں۔ علامہ اقبال، فیض احمد فیض، رحمت شاہ سائل، اجمل خٹک ان کے پسندیدہ انقلابی شاعر ہیں جب کہ کلاسیکل شعراء میں رحمان بابا اور خوشحال خان خٹک کا تصوف پر مبنی کلام انہماک سے پڑھتے اور سنتے ہیں۔

انتہا پسندوں کے ہاتھوں یرغمال مشرق وسطیٰ امن مذاکرات

$
0
0

مسئلہ فلسطین’’فلیش پوائنٹ‘‘ کی حیثیت سے پچھلے چھ عشروں سے عالمی سیاسی اور ابلاغی توجہ کا مرکز رہا ہے، لیکن مرکزیت حاصل کرنے کے علی الرغم فلسطینی آج بھی آزادی جیسے بنیادی انسانی حق سے محروم ہیں۔

مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے آج تک ہونے والی مذاکراتی مساعی کا مؤرخ فلسطین اور اسرائیل کو اولین حیثیت دے گا تو لازماً اسے امریکا کو تیسری اہم حیثیت ضرور دینا ہوگی۔ فلسطین، اسرائیل امن مذاکرات کی تاریخ کو قریباً 20 برس ہو چلے ہیں۔ سنہ 1994ء میں ناروے کے شہر اوسلو میں فریقین کے مابین پہلا امن معاہدہ کرنے پر یاسرعرفات (مرحوم) اور اسرائیلی وزیراعظم’’ازحاق رابین‘‘ کو امریکا نے تیار کیا۔ مذاکرات کی بیس سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا جس میں فریقین نے لچک کا مظاہرہ کیا۔

اسرائیلی وجود سے قطعی انکاری یاسرعرفات نے عمرکے آخری ایام میں صیہونی ریاست تسلیم کرلی، اس کے بدلے میں تل ابیب نے فلسطینیوں کو کیا دیا؟ وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ امریکا نے فلسطینیوں کو آزادی کے سبزباغ دکھائے اورانہیں عارضی طور پر مقبوضہ غرب اُردن اور غزہ کی پٹی کا کنٹرول سونپ کران پر احسان عظیم کیا۔ 1998ء میں امریکی صدر بل کلنٹن کے ایماء پرفلسطین، اسرائیل امن مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا جو وقفے وقفے سے دو سال تک جاری رہنے کے بعد بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوگیا۔ تب اسرائیل کی باگ ڈور ’’ارئیل شیرون‘‘ کے ہاتھ میں تھی۔ شیرون نے مفاہمتی پالیسی کے بجائے فلسطینی لیڈر یاسرعرفات کے ساتھ مخاصمانہ اور معاندانہ روش اختیار کی۔

2008ء میں خود کو لبرل اور روشن خیال سمجھنے والے ایہود اولمرٹ نے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی معاونت سے امن کا عمل دوبارہ شرو ع کیا۔ کنڈو لیزا رائس نے رام اللہ اور تل ابیب کے چکر لگائے اور یہ دعویٰ کرنے لگیں کہ ان کے اقدامات سے مشرق وسطیٰ کی تاریخ اور تقدیر بدل رہی ہے۔ تقدیر خیرکیا بدلی البتہ یہ واضح ہوگیا کہ اب کی باربھی امریکا اسرائیل کے ساتھ مل کرفلسطینیوں کے ساتھ ہاتھ کرگیا۔ خلاف وعدہ اسرائیل نے یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھی۔2008ء کے بعد 2014ء کے وسط تک کا عرصہ زیادہ تر جنگ وجدل میں گزرا۔ گوکہ امریکا اوربعض عرب ممالک نے مصالحتی اور مفاہمتی کوششوں کے نام پرفریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی۔ فلسطینی اتھارٹی نے اسرائیل کے ساتھ ہرقسم کا فوجی اور اقتصادی تعاون قبول کر لیا۔ صرف بات چیت کا عمل تعطل کا شکار رہا، باقی معاملات جوں کے تو برقرار رہے۔ حتیٰ کہ مغربی کنارے میں صدر محمود عباس کے سکیورٹی اداروں نے اسرائیلیوں کے لیے در دِ سر بننے والے مزاحمت کاروں کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے صیہونی فوج کو ’’ریلیف‘‘ بھی فراہم کیا۔

ستمبر2011ء میں سابق امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن نے محمود عباس اور اسرائیل کے مابین دوستی کے لیے طبع آزمائی کی۔ نصف سال تک جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد مسز ہیلری یہ کہہ کر وطن واپس لوٹ گئیں کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے جس جذبے، جرات اور صبر کی ضرورت ہے اس سے محمود عباس اور نیتن یاھو دونوں محروم ہیں۔

2011ء کے مذاکرات سے مایوسی کے بعد باراک حسین اوباما نے جولائی 2013ء کو جان کیری کو مشرق وسطیٰ میں ’’آمدن، نشستند، خوردند اور برخواستند‘‘ کے لیے اپنے اوزار تیز کرنے کا حکم دیا۔ جان کیری نے اپنی جان لڑا کر ابو مازن اور نیتن یاھو کو بات چیت کے لیے تیار کیا۔ اسرائیل نے شرط رکھی کہ فلسطینی اتھارٹی آزاد ریاست کے لیے عالمی اداروں سے رجوع کرے گی اور نہ ہی کسی عالمی معاہدے یا کنونشن کا حصہ بنے گی۔ اس گارنٹی کے جواب میں فلسطینیوں نے اسرائیل سے شرط رکھی کہ وہ مقبوضہ عرب علاقوں میں یہودی کالونیوں کی توسیع کا کام بند کرے گا اور امن کے بدلے میں سنہ 1994ء سے قبل حراست میں لیے گئے فلسطینیوں کو رہا کرے گا۔ اسرائیل نے امریکا اور محمود عباس کی شرائط کو زبانی طور پر مان لیا اور جذبہ خیر سگالی کے تحت چار مراحل میں 104 فلسطینیوں کو رہا کرنے پر رضامند ہوگیا۔ حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے مذاکرات کے لیے نو ماہ یعنی 29 اپریل تک کی تاریخ مقرر کی۔ مذاکرات کے تازہ سلسلے میں نو ماہ کے دوران دونوں فریق ہر پندرہ روز بعد مذاکرات کرتے رہے۔

پس چلمن کیا ہوتا رہا اس کا احوال شائد پھر کسی وقت سامنے آئے لیکن میڈیا پرآنے والی خبریں افواہوں اور قیاس آرائیوں کے سوا کچھ نہ تھیں ۔ تاہم بعض اسرائیلی اخبارات اور دیگر ذرائع سے اندر سے لیک ہونے والی خبروں میں یہ بات مشترک رہی کہ اسرائیل کے انتہا پسند لیڈر فلسطینیوں کے مطالبات نہیں مان رہے۔ فلسطینیوں نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں قبضے میں لیے گئے تمام علاقے خالی کرے اور جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلاجائے اور بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت بنانے کی اجازت دے۔ البتہ اس بار فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے 70 لاکھ فلسطینی پناہ گزینوں کی واپسی کا مطالبہ زیادہ شدت کے ساتھ نہیں اٹھایا گیا بلکہ صدر محمود عباس اور الفتح کے رہ نماؤں کے بیانات سے لگ رہا ہے کہ انہوں نے اس اہم مطالبے سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔

چونکہ بات چیت میں اسرائیل نے یہودی کالونیوں کی تعمیر روکنے اور ایک سو چار فلسطینیوں کی رہائی کا وعدہ کیا تھا، لیکن مذاکراتی عمل کے دوران حسب معمول اسرائیل اپنے عہد و پیمان کو ایفا نہیں کرسکا۔ مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مذاکراتی عمل کے نو ماہ کے دوران اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اور وادی اردن میں 6000 ہزار نئے مکانات تعمیر کرنے کی منظوری دی، ریاستی دہشت گردی میں 60 فلسطینیوں کو شہید ،300 کو زخمی اور 100 بچوں اور 20 خواتین سمیت 500 سے زائد فلسطینیوں کو حراست میں لے کر جیلوں میں ڈالا گیا۔ وعدے کے تحت اسرائیل ایک سو چار فلسطینیوں کی جیلوں سے رہائی کا پابند تھا لیکن تین مراحل میں 78 قیدیوں کو رہا کیا جبکہ باقی 26 کی رہائی سے انکار کردیا۔ یوں امریکی ثالثی میں فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ مذاکرات کے نام پر خوب مذاق کیا گیا۔اسرائیلی ہٹ دھرمی کے رد عمل میں فلسطینی اتھارٹی نے مذاکرات کی ڈیڈ لائن میں توسیع سے انکا ر کرتے ہوئے 15 عالمی اداروں، معاہدوں اور کنونشز میں شمولیت کا اعلان کردیا۔

اسرائیل کے غیرلچک دار رویے کے باعث ثالثی کا کردار ادا کرنے والے امریکا کو بھی سخت مایوسی ہوئی اور جان کیری کو وہی بات کہنا پڑی جو چھ سال قبل ان کی پیشرو کنڈو لیزا رائس کہہ گئی تھی کہ ’’فریقین میں بات چیت آگے بڑھانے کا حوصلہ نہیں ہے‘‘۔

دبئی سے نشریات پیش کرنے والے عرب ٹی وی’’العربیہ‘‘ نے اپنے ذرائع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ فریقین میں امن بات چیت کی ڈیڈ لائن میں توسیع کا فیصلہ ہوگیا ہے تاہم فی الوقت یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ یہ توسیع کتنی مدت کے لیے ہے۔ ان سطور کی اشاعت تک اس کی تفصیلات سامنے آجائیں گی ۔ تازہ پیش رفت کے مطابق اسرائیل نے ایک بار پھر مقبوضہ عرب شہروں میں یہودی بستیوں کی تعمیر کا عمل منجمد کرنے اور غیرمعمولی تعداد میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا ہے، جبکہ فلسطینی اتھارٹی اس کے جواب میں پندرہ عالمی اداروں میں شمولیت کا فیصلہ واپس لے لے گی۔

اسرائیل کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھنے کے بعد کسی مثبت پیش رفت کی امید موہوم ہی ہوسکتی ہے۔ فلسطین کے ساتھ امن مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی کا مقدمہ لکھتے ہوئے ہمیں اسرائیل کی مقتدر قوتوں کے مزاج کو نہیں بھولنا چاہیے۔ سنہ 2008ء میں لیبر پارٹی کے ایہود اولمرٹ نے براہ راست مذاکرات شروع کیے جن میں دونوں فریق بہت سے معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ مثلا اسرائیل نے مشرقی بیت المقدس اور مغربی کنارے سے دستبرداری کا اشارہ دے دیا تھا۔ اس کے باوجود مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکے اور معطل ہوگئے تھے۔ اب چونکہ اسرائیل میں حکومت لیکوڈ کے بنجمن نیتن یاھو اور ’’جیوش ہوم‘‘ کے آوی گیڈور لایٔبرمین جیسے انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہے، جو فلسطینیوں کو الگ ریاست کے لیے ایک انچ زمین دینے کے لیے رضامند نہیں ہیں۔ اس لیے یہ امید رکھنا کہ موجودہ مذاکرات فلسطینیوں کو ان کی امنگوں کے مطابق آزادی اور دیگر تمام حقوق مل پائیں گے محض خام خیال ہی ہوسکتا ہے۔

امریکی اخبار’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ نے اپنے ایک تازہ اداریے میں لکھا ہے کہ اسرائیل کی موجودہ حکومت انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں ہے، جنہوں نے امن مذاکرات کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اس لیے ایک بار نہیں بلکہ موجودہ حکومت کے دور میں باربار بھی مذاکراتی عمل کی تاریخ میں توسیع کی جائے گی تو بیل منڈھے چڑھنے والی نہیں۔

اخبار’’گلف نیوز‘‘ کے مطابق ماضی میں عرب ممالک کی جانب سے بھی مشرق وسطیٰ امن مذاکرات کی پرجوش حمایت کی جاتی رہی ہے لیکن پچھلے نو مہینوں میں جو کچھ ہوا اس میں عرب ممالک کی طرف سے صرف تماشائی کا کردار ہی دیکھنے کو ملا ہے۔ شائد اس کی وجہ وہی ماضی کے ناکام تجربات ہیں کیونکہ تنازعہ کے حل کے لیے جب بھی کوئی سنجیدہ کوشش ہوئی تو اسرائیل نے اس کا جواب ہمیشہ منفی انداز میں دیا ہے۔ اس لیے لمحہ موجود میں عرب ممالک کی خاموشی دراصل مایوسی کا نتیجہ ہے۔ اس بار تو ایسے لگ رہا ہے کہ فلسطین، اسرائیل تنازعہ عربوں اور مسلمانوں کا نہیں بلکہ امریکیوں کا معاملہ ہے۔

فلسطینی امریکیوں کی سوچ پراثر انداز
چونکہ فلسطین کے معاملے میں اسرائیل کی طرح امریکا بھی برابر کا بدنام رہا ہے، لیکن امریکی حکومتوں کو اپنے عوام کی جانب سے سخت تنقید کا بھی سامنا رہا ہے۔ مثلًا اسرائیل کے لیے امریکا کی فوجی اور غیر فوجی امداد بہت سے امریکی حلقوں کے لیے باعث تشویش رہی ہے۔ اس کے باوجود اب تک امریکا نے اپنی اسرائیل نوازی پر مبنی حکمت عملی نہیں بدلی۔ سوشل میڈیا کے مضبوط ہونے کے بعد اب امریکا میں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں بھی اسرائیل کی امن مخالف سرگرمیوں کو جس شد ومد کے ساتھ تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ اس امر کی غمازی کر رہا ہے کہ امریکا میں اسرائیل کے حوالے سے اب گراس روٹ لیول کی سطح پر غیرمعمولی تغیر پیدا ہو رہا ہے۔ اس تغیر اور تبدیلی کے کئی اسباب و محرکات ہیں۔

سب سے بڑا محرک امریکا اور یورپ میں موجود فلسطینی باشندے ہیں، جنہوں نے وہاں پر چھوٹی چھوٹی انجمنیں بنا رکھی ہیں، جو فلسطینیوں کے حقیقی مسائل سے وہاں کے عوام کو آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں فلسطین آنے کی دعوت دیتے اور زمینی حقیقت سے آگاہی کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام میں اسرائیل کے لیے ہمدردی کے بجائے نفرت اور فلسطینیوں کے لیے ہمدردی کے جذبات بڑھ رہے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق امریکا میں تین لاکھ فلسطینی اور تیس لاکھ کے قریب وہ عرب باشندے کسی نہ کسی شکل میں موجود ہیں جو اسرائیل کے بارے میں امریکیوں کی سوچ پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔ اس حقیقت کو اب اسرائیلی ذرائع ابلاغ بھی تسلیم کرنے لگے ہیں کہ فلسطینی صر ف امریکا ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا بالخصوص یورپین باشندوں کی سوچ بھی تبدیل کر رہے ہیں۔ یہ فلسطینیوں کی اسی محنت کا نتیجہ ہے کہ رواں سال جنوری میں یورپی یونین نے متنازعہ فلسطینی شہروں میں لگائے گئے اسرائیلی کارخانوں کی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ متنازعہ مصنوعات اگر یورپی منڈیوں تک پہنچ جاتی ہیں تو ان پر’’خریدو فروخت ممنوع‘‘کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے۔ اگر یہ پابندی ایک سال تک برار رہتی ہے تو اسرائیل کو آٹھ ارب ڈالر کا نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بالوں کے ڈھنگ روپ دیں نئے رنگ

$
0
0

 بالوں کو خواتین کی شخصیت کا اہم جزو کہا جاتا ہے۔

کچھ لوگ اسے شخصیت کا پچاس فی صد بھی کہتے ہیں۔ چناںچہ خوب صورتی کے لیے خواتین جلد کے بعد سب سے زیادہ توجہ بالوں پر دیتی ہیں۔ انہیں بنانے کے نت نئے طریقے اور ڈھنگ اس ضمن میں خاصا اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اس کا انحصار بھی بعض اوقات موسموں پر ہوتا ہے، موسم کی بدلتی رُتوں کے ساتھ انہیں سنوارنے کا انداز بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔

ساتھ ہی اب انہیں مختلف رنگ دینے کا رواج بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ پہنے گئے ملبوسات اور موسم کو مدنظر رکھتے ہوئے بالوں کو طرح طرح کے رنگ دیے جاتے ہیں۔

بدلتے وقت کے ساتھ اب بالوں کا رنگ ڈھنگ بھی فیشن کی تبدیلی کی خبر دیتا ہے۔ گیسو سنوارے کا طریقہ ہمارے نین نقش سے میل کھاتا ہوا ہو تو یہ اور بھی زیادہ بہار دکھاتا ہے۔ بیوٹیشنز زیادہ بہتر طریقے سے یہ بتا سکتے ہیں کہ ہمارے چہرے کی ساخت کے اعتبار سے کون سا ہیئر اسٹائل زیادہ بہتر ہے اور ہمیں کس قسم کے بال بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔

جس طرح ملبوسات کے رنگ ڈھنگ اور تراش خراش کے لیے باقاعدہ مشاورت ضروری سمجھی جاتی ہے، بالکل اسی طرح زلفیں سنوارنے کا ڈھنگ بھی حسن کو چار چاند لگا دیتا ہے۔

سوائن فلو پھر لَوٹ آیا

$
0
0

سوائن فلو ایک بار پھر پاکستان میں عود آیا ہے۔ گزشتہ دنوںملتان میںتین نئے کیس سامنے آنے کے بعد سوائن فلو کے مریضوں کی تعداد سولہ ہو گئی ہے جبکہ اب تک دو خواتین اور ایک مرد اس جان لیوا مرض کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ آخر یہ سوائن فلو ہے کیا اور اس سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ سوائن فلو یعنی سور سے ہونے والے زکام کی وبا کا آغاز میکسیکو سے ہوا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے دوسو سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ تا دم تحریرعالمی ادارہ صحت کی جانب سے سوائن فلو سے دنیا بھر میںتقریباً بارہ ہزارافراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کردی گئی ہے جبکہ پاکستان میں آج تک تقریباً 12افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ 208ممالک کے افراد اس وائرس کا شکار ہو چکے ہیں اور لیبارٹری سےH1N1وائرس کی تصدیق بھی کی جا چکی ہے۔ یہ وائرس اب ایشیا کی طرف منتقل ہورہا ہے۔

سوائن فلو وائرس سے امریکا میں 6670 ،یورپ میں2045، مغربی بحرالکاہل کے ممالک میں1039، جنوب مغربی ایشیا میں990 ،مشرق وسطی میں663اور افریقہ میں109افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت نے وارننگ جاری کی ہے کہ سوائن فلو وائرس دنیا میں اتنی تیزی سے پھیل رہا ہے کہ اب اسے روکنا ناممکن ہو چکا ہے۔ اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق’’ اس مرحلے پر مرض پر قابو پانا ممکن نہیں رہا، دنیا بھر میں کوئی جگہ اس وائرس سے محفوظ نہیں۔ مزید یہ کہ ادارے نے ہنگامی صورتحال میں مزید اقدامات کا اضافہ کردیا ہے۔‘‘

سوائن فلو ہے کیا؟

سوائن فلو کی موجودہ وباء خنزیروں میں موجود ایک وائرس influenza A virus sub type  H1N1 کی وجہ سے دنیا کی تباہی کا دوبارہ پیغام لے کر آئی ہے۔ یہ سب ٹائپ فلو،جانورں اور انسانی فلو وائرس کے مختلف اجزا کا مرکب ہے۔ اس کی ابتدا کیسے ہوئی، اس کا اب تک پتہ نہیں چلایا جا سکا لیکن سوائن وائرس کا سب سے پہلے انکشاف 1918ء میںہواجسے اس وقت سپینش فلو کا نام دیا گیا ۔ اس فلو سے امریکہ میں پچاس ہزار سے زائد جبکہ دنیا بھر میں بیس ملین ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ 1957ء تک ہسپانوی آبادی میں موجود رہا ۔

اس کے علاوہ 1930ء میں اس کا انکشاف سانس کی خطرناک بیماری میں مبتلا سوروں میں ہوا۔ سوائن فلو زکام سے مشابہہ متعددی مرض ہے مگر اس کا طریقہ کار مخفی ہے۔ ابھی تک یہی خیال کیا جا رہا ہے کہ کھانسنے ، چھینکنے اور متاثرہ شخص کو چھونے سے یہ مرض ایک انسان سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے اورخصوصاً انسانی تنفس سے دوسرے انسان کو متاثر کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت WHO کے مطابق میکسیکو میں ہلاکتوں کا سبب بننے والا وائرس A/H1N1 وائرس ہے۔ یہ وائرس انسان سے انسان کو منتقل ہوتا ہے اور انسانوں، سوروں اور پرندوں کے فلو وائرس کے اجتماع سے سامنے آتا ہے۔

علامات:

طبی ماہرین کے مطابق سوائن فلو میں مبتلا ہونے کی اہم علامات میں اچانک 104درجے کا بخار، شدیدزکام، کھانسی ،سردرد ،جوڑوں کا درداور بھوک کا ختم ہو جانا شامل ہیں۔اگر بروقت علاج نہ ہوسکے اور مدافعتی نظام ناکارہ ہوجائے تو مریض نمونیا کا شکار ہو کر دم توڑ جاتا ہے۔ چونکہ سوائن فلو کی بیماری واضح علامات ظاہر نہیں کرتی اور عام معمولی فلو کے مریض کی طرح کی ہی علامات سامنے آتی ہیںجس کی وجہ سے اس بیماری میں مبتلا انسانوں کی درست تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ وائرس بیمار سوروں کے قریب رہنے والے انسانوں میں آسانی کے ساتھ منتقل ہو جاتا ہے اور پھر یہ انسانوں میں تیزی سے پھیل کر وبائی صورت اختیار کر سکتا ہے۔

اس وائرس کے انسانوں کیلئے انتہائی خطرناک ہونے کا اندازہ عالمی ادارہ صحت کی اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ برڈ فلو کے ایچ 5ایف آئی وائرس سے 2003 ء سے اب تک دنیا بھرمیں 250انسانوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ اس کے برعکس سوائن فلو وائرس صرف اپریل2009 ء سے تادم تحریر ساڑھے گیارہ ہزار سے زائدافراد کو نگل چکا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق یہ انفلوائنزا وائرس کی ایک نئی اورکمپا ؤنڈ قسم ہے جس پر دنیا بھر کی حکومتیں اورطبی ماہرین ریسرچ کر رہے ہیں۔ جن لوگوں کا خنزیروں سے دور کابھی واسطہ نہیں وہ بھی پہلے سے متاثرہ کسی فرد سے یا وائرس سے متاثرہ شے سے سوائن فلو کا شکار ہو سکتے ہیں۔اس بیماری کے ایک شخص سے دوسرے میں انتقال کی رفتار ، اور دوسرے عوامل جو اس بیماری کی نوعیت متعین کرتے ہیں، واضح نہیں ہیں۔

علاج:

ایلوپیتھک طریقہ علاج کے ماہرین اور جدید تحقیقات کے مطابق عام فلو کا باعث دو سو سے زائد اقسام کے وائرس بنتے ہیں’ ان میں رائینووائرس ‘کوکس ساکی وائرس اورکرونا وائرس خاص طور پرقابل ذکر ہیں۔ یہ وائرس یا کوئی اور وائرس (جس سے زکام شروع ہو)کسی بھی دوائی سے مرتے نہیں یعنی عام زکام کیلئے آج تک کوئی بھی(ایلوپیتھک) دوائی ایجاد نہیں ہو سکی۔ اس لئے ان وائرسوںکے خاتمے کیلئے انٹی بایوٹیک ادویات کا استعمال بے معنی ہے۔ ماہرین کے مطابق فلو کی اکثر اقسام لاعلاج ہیںاوربیشتر کی ویکسین بھی موجود نہیں اور تحقیقی مراحل میں ہیں۔

فلووائرسزمیں جینیاتی تبدیلی آتی رہتی ہے۔ بعض دفعہ اچانک تبدیلیاں جنم لیتی ہیں جنہیں جین مخالف تبدیلی یا Shift Antigenic کہتے ہیں۔ اس طرح کی تبدیلیوں کے نتیجے میںپوری کی پوری آبادیاں فلو میں مبتلا ہو جاتی ہیں اور عالمگیر وبا پھوٹ پڑتی ہے۔ جب ان میں ٹائپ اے فلو وائرسز ملوث ہوں تو یہ انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہیں۔ ان امراض کا اپنا دورانیہ ہوتا ہے اور مکمل علاج دستیاب ہونے تک جس میں بعض دفعہ سالوں لگ سکتے ہیں،صرف اور صرف علامتی علاج ہی کیا جا سکتا ہے۔ سنگین پیچیدگیوں کے زبردست خطرے میںزیاد سے زیادہ چند اینٹی وائرل ادویات استعمال کروائی جا تی ہیں۔ چونکہ سوائن فلو ایک وائرل مرض ہے اور اس میں وہی دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جن سے جسم میں قوت مدافعت کو بڑھایا جاسکے۔

٭ ہرقسم کے فلو کے مریض کو شراب،تمباکونوشی،محفوظ کیا ہوا گوشت، ڈبہ بند غذائیں، چاول ،آلو،اچار وغیرہ اور تمام ٹھوس غذائوں سے حتی الامکان پرہیز لازم ہے۔ پھلوں کے جوسز، سبزیوںکے سوپ اور دیگر سیال غذائیں وغیرہ زیادہ مفید ہیں۔

٭ ورزش اور لمبی واک سے ہمارا مدافعتی نظام خود کو منظم کرکے نئی قوت حاصل کرتا ہے اور کسی بھی مرض میں زیادہ موثر مزاحمت کرتا ہے۔

احتیاطی تدابیر:

احتیاط علاج سے بہتر ہے لہٰذا درج ذیل احتیاطی تدابیر کو بروئے کار لا کر اس مرض سے محفوظ رہا جا سکتا ہے۔

٭ کسی بھی قسم کی انفیکشن خصوصاً وائرل انفیکشن کے تدارک اور داخلی مزاحمت و مدافعت بڑھانے کیلئے کسی بھی قسم کی گوبھی، لہسن، پیاز، ترش پھل، لیموں،مالٹا،سنگترہ وغیرہ، ٹماٹر، ادرک ،کالی مرچ،زنک والی غذائیںمثلاًگندم ،مچھلی اور گوشت وغیرہ کو اپنی روز مرہ خوراک میں شامل کریں۔

٭ اپنے ہاتھوں کو باقاعدہ کسی صابن سے دھوئیں۔ لیکویڈ سوپ کا استعمال وائرس کو پھیلنے سے بچانے کا اچھا طریقہ ہے۔ اگر آپ ایسے علاقے میں ہیں جہاں اس وباء کے پھیلنے کے امکانات ہیں، یا ایسے لوگ جو حال ہی میں بیرون ملک کا سفر کر کے لوٹے ہیں تو پھر ان کیلئے احتیاطی تدابیرپر عمل کرنا مزید ضروری ہے۔جہاں وباء پھیلی ہو وہاں پرڈسپوزایبل ماسک کا استعمال بھی فائدہ مند ہے۔

٭ چھینکتے یا کھانستے وقت کسی رومال یا ٹشو پیپر کو استعمال کریں۔استعمال کے فورا بعد اسے ضائع کر دیںاور ہاتھوں کو فورا ً لیکویڈصابن سے دھو لیں۔

٭ اگر آپ گھر سے باہر ہیں اور صابن سے ہاتھ نہیں دھو سکتے تو اس دوران خصوصا ً اور ویسے بھی اپنے منہ، آنکھوں اور ناک کو ہاتھ یا انگلیاں لگانے سے پرہیز کریں کیونکہ ان جگہوں سے وائرس کے جسم میں داخلے کا امکان زیادہ ہے۔

٭ زیادہ تر غیرملکی سفر میں رہنے اور اکثرپبلک ٹیلیفون استعمال کرنے والے افرادکو وائرل انفیکشن کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں شدید ضرورت ہو تواپنے پاس wipes ضرور رکھنا چاہئیں اور وائپز سے رسیور صاف کر کے استعمال کرنا چاہئے۔

٭ اگر اس پر قابو پا لیا جائے تو اس خطرناک وائرس کو دوبارہ پاکستان پہنچنے سے روکنے کیلئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس مقصد کیلئے وائرس سے متاثرہ ممالک سے پاکستان آنے والے مسافروں کی ہوائی اڈوں پر خصوصی سکریننگ کی جانی چاہئے اور وائرس سے متاثرہ مسافروں کو ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے یا انتہائی نگہداشت اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ فوری طور پراس سلسلے میں مخصوص ہسپتال کے آئیسولیٹڈ وارڈ میں داخل کرا دینا چاہئے۔ صرف اسی اقدام سے ہی پاکستان کو اس تباہ کن وائرس سے بچایا جا سکتا ہے۔

٭ مغربی ممالک میں سور کے گوشت کے کاروبار کوسنبھالا دینے کیلئے کہا جا رہا ہے کہ سوائن فلوکا وائرس سور کے گوشت یا اس سے بنی مصنوعات کے کھانے سے پیدا نہیں ہوتا اور یہ وائرس 70درجے پر سور کے گوشت کو پکانے سے ہلاک ہو جاتا ہے لیکن روس اور چین سمیت بعض ممالک نے اس ہدایت کی سنی ان سنی کرتے ہوئے امریکا سے سور کے گوشت کی درآمد پر پابندی لگادی ہے۔

پاکستان اورسوائن فلو وائرس:

سوائن وائرس اب دنیا بھرکے ساتھ ساتھ ایشین ریجن اور پاکستان میں بھی پہنچ چکا ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے وارننگ جاری کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ سوائن فلو کی وبا لاکھوں افراد کی ہلاکت کا سبب بن سکتی ہے لہٰذا دنیا بھر کے ممالک کو اس سے بچا ؤکیلئے حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ وطن عزیزمیںتازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ ملک میں اب تک سوائن فلو کے کئی کیسز سامنے آچکے ہیں جن حالیہ دنوں میں تین افراد جاں بحق ہوئے ۔پاکستان کو سوائن وائرس سے اتنا ہی خطرہ ہے جتنا کسی بھی دوسرے ملک کو۔ یہ بات باعث تشویش ہے کہ پاکستان کی تمام حکومتوں کے دعووں کے برعکس صحت کے شعبے میں کوئی قابل ذکر ترقی نہیں ہوئی۔نصف صدی سے زائد گزرنے کے باوجود ہمارا صحت کا شعبہ ابھی بھی ترقی پذیربلکہ انحطاط پذیر ہے۔

مبہم صحت پالیسیاں بنانے کا کیا فائدہ جب ان پر عمل درآمد کے لئے کوئی طریق کار ہی وضع نہ کیا گیا ہو۔ رپورٹس کے مطابق بیشتر ہوائی اڈوں پر سکریننگ کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ ملک کی کسی بندرگاہ میں ابھی تک تھرمل سکینرز کی تنصیب ممکن نہیں ہو سکی اور یہ باتیں صرف بیانات تک ہی محدود ہیں لہذا یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سوائن کے وائرس کو بھی ایڈز کے وائرس کی تخریبی کاروائی کی طرح کراچی پورٹ یا پاکستان کی دیگر ڈرائی پورٹس پرکینٹینرزکے ذریعے تجارتی اشیائے خورد و نوش یا دیگر اشیاء کے ذریعے بھی بھیجا جا سکتا ہے۔ حکومت وقت کواس سلسلے میں فوری اقدامات کرنے چاہئیں۔ اس معاشرے میں جہاں بخار کی دوا بھی حاصل کرنا دشوار ہو جاتا ہے وہا ں پر اس آفت کا مقابلہ کیسے ممکن ہوگا۔

اس کیلئے دوست ممالک چین اورجاپان سے فورا ًمشاورت اور امداد حاصل کر کے سوائن فلوکی تباہی کو پاکستان میں نا ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کو درپیش اس خطرے کو حکومت تساہل کے سبب نظرانداز کرے گی تو خدا نخواستہ بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کا نقصان ہو سکتا ہے۔ خدانخواستہ اگر کراچی، سیالکوٹ ،لاہور ،فیصل آباد ،اسلام آباد جیسے شہروں میں یہ آفت پھیل گئی تو چشم تصور سے دیکھیںکہ دشمن دور بیٹھے کس طرح ہمیں موجودہ صورتحال میں مزاحمت سے محروم کر سکتا ہے۔ ان دیکھے دشمن کے خلاف شہری ہر گز مزاحم نہیں ہو سکیں گے۔ اس کا مقابلہ اسلحہ فوج یا طاقت سے نہیں فقط بروقت حفاظتی اقدامات سے ہی ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں جدید وبائی امراض سے نپٹنے کیلئے کوئی موثرسسٹم موجود نہیں اور اس سلسلے میں خالی بیانات داغے جا رہے ہیںجوانتہائی تشویش کا باعث ہے۔اس حوالے سے صحت سے متعلقہ وفاقی اداروں کو ہنگامی بنیادوں پرفوری وعملی اقدامات کرنے چاہئیں۔

میکسیکو ،امریکہ، کینیڈا،یورپ ، بھارت اور دنیا کے بعض دیگر ممالک میں سوائن وائرس کے انسانی صحت پر اثرات اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کے پیش نظر اب پاکستان میں اس وبا کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے چاہئیں۔ سوائن فلو کے علاج کیلئے ویکسین عالمی ادارہ صحت کے تعاون سے منگوائی جا ئے اور جن علاقوں میں سوائن فلو کے کیسز منظر عام پر آئے ہیں وہاں ویکسین کی فراہمی ترجیحی بنیادوں پر کی جائے۔ ملکی آبادی کو اس بیماری سے محفوظ رکھنے کے لیے تما م بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر خصوصی انتْظامات کئے جا ئیں۔ تمام ہوائی اڈوں پر باہر سے آنے والے افراد کو فارم دے کر ان کی سفری معلومات حاصل کی جائیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی متاثرہ شخص متاثرہ ملک سے وائرس لے کر پاکستان میں داخل نہ ہو۔ نیز ایئر لائینز کے عملے کو پابند کیا جائے کہ وہ آنے والے مسافروں پر نظر رکھیں اور اگر کسی بھی مسافر میں مشتبہ فلو کی علامات ظاہر ہوں تو فوراً ایئر پورٹ ہیلتھ اتھارٹی کو مطلع دیں۔

جن کا بچپن چھن گیا

$
0
0

چہروں سے ٹپکتی وحشت ان کے من کی ویرانی کا پتا دیتی ہے۔۔۔ حالات کی بے رحمی نے ان سے ان کا بچپن چھین لیا ہے۔۔۔ سُتے ہوئے چہرے، ویران آنکھیں، تن پر میلے کپڑے جو نہ جانے کب سے نہیں دھلے ۔۔۔ پاؤں میں گھسی ہوئی ٹوٹی چپل۔۔۔ بال دھول اور مٹی میں اٹے ہوئے۔۔۔ جو دن کھلونوں سے کھیلنے کے تھے، سیٹھ کی جھاڑ سنتے گزرتے ہیں۔

وہ ہاتھ جنہیں کاغذ قلم پکڑنا تھا، اب وہ لوگوں کے سامنے دست سوال ہوتے ہیں۔۔۔ یہ المیہ ہے ان بچوں کا جو کسی سائباں کے بغیر اپنا جیون بِتا رہے ہیں۔سڑک پر صبح سے شام اور شام سے صبح کرنے والا رمضو بھی عروس البلاد کراچی کا ایک ایسا بچہ ہے۔ اصل نام تو جانے کیا رہا ہوگا، لیکن اب سڑکوں پر رہنے والے اس کے دیگر ساتھی اسے رمضو کہہ کر پکارتے ہیں۔ رمضو غربت سے تنگ آکر گھر سے بھاگا تھا۔ گھر میں اچھا کھانا نہیں پکتا تھا۔۔۔ ایک دن اس نے اپنے دوست کی دیکھا دیکھی ایک فلاحی ادارے کے دسترخوان پر کھانا کھایا اور یہ کھانا ایسا منہ کو لگا کہ وہ روز یہیں کھانے لگا، آہستہ آہستہ جو رات کو سونے گھر پر جاتا تھا، وہ بھی کم ہوگیا اور پھر ایک دن اس نے مکمل طور پر گھر کو خیرباد کہ دیا کیوں کہ رات دیر سے گھر آنے پر باپ مارپیٹ کرتا تھا۔ اب یہ بھیک مانگ کر گزارہ کرتا ہے اور رات میں سڑک پر ہی سو جاتا ہے۔

ایک اور لڑکا شیرو بھی والدین کے جھگڑوں سے تنگ آکر سڑکوں کا باسی بنا۔۔۔ نشے میں دھت باپ، جب اس کی ماں کو مارتا، تو یہ سہم کر ایک کونے میں دبک جاتا اور بھیگتی پلکوں سے اپنی ماں کو پٹتے دیکھتا، لیکن وہ اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو اس نے گھر سے باہر پناہ لی، کیوں کہ وہ اس خوف اور دہشت کے ماحول سے تنگ آچکا تھا۔ اب یہ کراچی کی سڑکوں پر پھول بیچتا ہے اور یہی سڑک اب اس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اگرچہ یہ بچھونا اس پھول سے بچے کے لیے کانٹوں بھرا ہے پر اس کے سوا اس کے پاس کوئی حل نہیں۔ہمارے معاشرے میں ہمیں ایسے بے شمار پھول نظر آئیں گے جو وقت کی تند وتیز ہوا میں گویا کچلے گئے ہیں اور اس میں غربت اور ناخواندگی کے ساتھ ساتھ کافی بڑا ہاتھ ان کے ماں باپ کا بھی ہوتا ہے، جو شیرو اور رمضو جیسے بچوں کو اپنی بدسلوکی اور تشدد کے باعث گھروں سے بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور پھر سڑکوں کی دھول اور زمانے بھر کی تلخیاں ہی ان کا مقدر ٹھہرتی ہیں۔

پاکستان سمیت دنیا بھر میں 12 اپریل کو ’’بے گھر بچوں کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے، اس کا آغاز پہلی بار 2011ء میں کنسورشیم فار اسٹریٹ چلڈرن نامی تنظیم نے لندن میں کیا اور اب یہ تنظیم اس کوشش میں مصروف عمل ہے کہ یہ دن اقوام متحدہ کے تحت منایا جانے لگے، تاکہ اقوام متحدہ اپنے تمام ممبر ممالک کو یہ دن منانے اور اسٹریٹ چلڈرن کے تحفظ اور بحالی کے لیے دباؤ ڈال سکے اور اس طرح دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر بے گھر بچوں کے حقوق کے حوالے سے شعور اور آگاہی پیدا ہو سکے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں 100 ملین سے زاید بچے سڑکوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت 1.5 ملین بے گھر بچے موجود ہیں، جب کہ کراچی شہر میں ان بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ 2012

ء میں پاکستان نے بے گھر بچوں کی تعداد کو کم کرنے میں کوئی کام یابی حاصل نہیں کی اور نہ ہی ان کے تحفظ کے لیے کوئی پالیسی متعارف کرائی۔ سی سی او کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کی تباہ کاریوں کے بعد لاکھوں بچے بے گھر اور یتیم ہوچکے ہیں۔ ماں باپ کی جانب سے برتی جانے والی بے پرواہی، غربت، والدین اور اساتذہ کی جانب سے بے جا مارپیٹ، ناخواندگی یہ وہ تمام وجوہات ہیں جو ان معصوموں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کردیتی ہے۔ جہاں انہیں وہ سب کچھ سہنا پڑتا ہے جس کا سوچ کر ہی روح کانپ اٹھتی ہے، اس دنیا میں آنے کے ابتدائی چند سالوں میں ہی وہ بھیانک اور تلخ تجربوں سے گزرجاتے ہیں جو انہیں سماج کے خلاف جانے پر مجبور کردیتے ہیں۔

وہ اس آگ میں اس حد تک جھلس چکے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی بے بسی اور بے کسی کا انتقام لینے کے لیے دوسروں کو بھی اس آگ میں جلا کر بھسم کر دینا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو سونے کانوالہ کھلانے والے ، ان کے لیے مخملی کمبل اور نرم بستر جیسی آسائشوں کے مزے اڑانے والے کیسے ان بے گھر بچوں کی دلی کیفیت کا اندازہ کرسکتے ہیں جہاں انہیں ایک روٹی اور تھوڑے سے سالن کے لیے کئی کئی گھنٹوں تک ہوٹلوں کے سامنے لائن میں لگنا پڑتا ہے، جہاں انہیں انسان نما بھیڑیوں کی ہوس کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ کیا ان کا یہ جرم اتنا بڑا ہے کہ وہ ایسے گھر میں پیدا ہوئے، جہاں بھوک افلاس کا ڈیرا تھا، جہاں غربت کنڈلی مارے بیٹھی تھی۔ کچھ قصور اس میں ان کے اپنے ماں باپ کا بھی ہے جہاں معاشی بدحالی ان کی عقلوں پر پردہ ڈال دیتی ہے اور انہیں دو وقت کی روٹی سے آگے کچھ سوجھتا ہی نہیں اور وہ اس دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے اپنے معصوم بچوں کو بھیک مانگنے پر مجبور کر دیتے ہیں، بچپن ہی سے ان کی خودداری اور عزت نفس کو کچل کر انہیں ہاتھ پھیلانا سکھا دیا جاتا ہے۔

بے گھر بچوں کی ایک بڑی تعداد تقریباً دس ہزار کے لگ بھگ کراچی شہر میں موجود ہے۔ پاکستان میں کام کرنے والی این جی اوز کے مطابق 90% بے گھر بچے سڑک پر گزارنے والی پہلی ہی رات جنسی زیادتی کانشانہ بن جاتے ہیں، جس میں 60% پولیس والے ملوث ہوتے ہیں۔ 2010 میں 2,252 بچوں کو ملک بھر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ 67% کیسز دیہی علاقوں میں جب کہ 33% شہری علاقوں میں رپورٹ ہوئے۔

درجہ بندی کے لحاظ سے اسٹریٹ چلڈرن بھی دو حصوں میں تقسیم کیے جاسکتے ہیں، ایک وہ جو سڑکوں پر کام کرتے ہیں اور شام ہوتے ہی اپنے خاندانوں کے پاس لوٹ جاتے ہیں، جب کہ دوسری قسم ان بچوں کی ہے جو کہ سڑکوں پر ہی کمانے اور زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سوسائٹی فار دی پروٹیکشن آف دی رائٹ آف دی چائلڈ (sparc) کے مطابق تقریباً 1.2 ملین بچے پاکستان کے بڑے شہروں کی سڑکوں پر رہ رہے ہیں۔ اس میں وہ تمام بچے شامل ہیں جو سڑکوں پر رہتے ہیں یا جو دن میں سڑکوں پر کام کرکے دن کے اختتام پر اپنے گھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔

یو این آفس آن ڈرگ اینڈ کرائم کے سروے کے مطابق 72% کام کرنے والے بچے اپنے خاندانوں سے رابطے میں نہیں ہوتے ، جب کہ 10% کو اپنے خاندانوں کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ اسپارک کے سروے کے مطابق سڑکوں پر رہنے والے 70% بچوں کی عمریں 9-16 کے درمیان ہیں، جب کہ زیادہ تر 11-16 کے ایج گروپ میں آتے ہیں۔ اسلام آباد، حیدرآباد اور پشاور میں ایسے بچے 11-12 کے درمیان ہیں۔ تاہم ملتان، پشاور اور کوئٹہ میں 5-6 سال کی عمر کے بچے بھی سڑکوں پر کام کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ ملتان اور پشاور میں 6 سال کی عمر کے بچوں کی بڑی تعداد سڑکوں پر رہ رہی ہے۔

کراچی میں بے گھر بچوں سے متعلق قائم غیرسرکاری تنظیم انیشیٹر ہیومن ڈولپمینٹ فاؤنڈیشن کے صدر رانا آصف کا کہنا ہے کہ بے گھر بچوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ بے گھر بچوں کے حوالے سے حکومتِ پنجاب کی کارکردگی دیگر صوبوں کی بہ نسبت بہتر نظر آتی ہے۔ پنجاب حکومت نے 2004 ء میں Destitue and negld children act 2004 بنایا، اس کے علاوہ پنجاب کے شالیمار باغ میں ایشیا کا سب سے بڑا شیلٹر ہوم بھی موجود ہے، جہاں بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے حوالے سے ہمارے پاس sindh children act 1955 اور employment of children act 1991 بھی موجود ہے۔ 1989ء میں حکومت پاکستان نے ایک عالمی معاہدہ برائے حقوق اطفال پر دستخط کیے، جس کے تحت تمام ایکٹس میں موجود بچوں کی عمر یک ساں کرنی ہے یعنی 18 سال۔ اب تک حکومت اس میں ناکام رہی ہے، کیوں کہ قوانین میں ’’بچے‘‘ کی عمر کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔ early marriage act میں 16 سال ہے، جب کہ employment of children act میں 14 سال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں تقریباً 80 لاکھ بچے بھٹوں میں کام کرتے ہیں۔ ڈھائی کروڑ کے قریب بچے پاکستان میں اسکول نہیں جاتے۔  30سے 40 لاکھ بچے ایسے ہیں جو بھیک بھی مانگتے ہیں اور ساتھ ہی کوئی چھوٹا موٹا کام مثلاً پراندے، پھول اور پانی بیچتے اورکچرا چنتے ہیں۔ بعض اوقات والدین بھی اپنے بچوں کے استحصال میں ملوث ہوتے ہیں، وہ بچوں سے زبردستی بھیک منگواتے ہیں۔ سندھ چلڈرن ایکٹ 1955ء میں واضح لکھا ہے کہ جو بھی بچوں سے بھیک منگوائے، اس کو فوراً گرفتار کیا جا سکتا ہے، لیکن ہمارے ہاں اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سائبان (شیلٹر) کا قانون موجود ہے، جب کہ اس کے برعکس بلوچستان اور سندھ کی حکومتیں سائبان اور بچوں کی کسٹڈی کا قانون بنانے میں ناکام رہی ہیں۔ لہٰذا اگر یہاں کوئی ادارہ کسی بے گھر بچے کو تحفظ فراہم کرتا ہے، تو اس بچے کے والدین یا رشتہ دار اس ادارے کے خلاف حبس بے جا کا مقدمہ دائر کر سکتے ہیں، ایسی صورت میں شیلٹر ہوم کو مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے، اس لیے قانون سازی تک یہاں بے گھر بچوں کے رہنے کا انتظام ممکن نہیں۔

IHDF کے مطابق کراچی میں سڑکوں پر رہنے والے 28 فی صد بچے برمی اور بنگالی ہیں۔ جون، جولائی میں جب ماہی گیری کا کام نہیں ہوتا تو یہی بچے گداگری میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ ان بے گھر بچوں میں سے 45 فی صد گداگری کرتے ہیں۔ مافیا ان کو زندگی بھر کے لیے معذور کر دیتی ہے، تاکہ لوگ ترس کھا کر انہیں زیادہ بھیک دیں۔ دو فی صد بچے مختلف ہوٹلوں میں دیہاڑی پر ہیں، آٹھ فی صد بچے کچرا چنتے ہیں (یہ اعداد وشمار صرف بے گھر بچوں کے ہیں، اس میں افغانی بچے شامل نہیں)، 10 فی صد بچے منشیات فروشی میں ملوث ہیں، پانچ فی صد گاڑیوں کی صفائی کا کام کرتے ہیں، 30 فی صد بچے جیب کتری اور دکانوں سے چوری میں ملوث ہیں، 30 فی صد بچے جنسی استحصال کا شکار ہیں، 74 فی صد صمد بونڈ کا نشہ کرتے ہیں، 10 فی صد ہیروئن کی طرف مائل ہیں۔

60 فی صد چرس کا استعمال بھی کرتے ہیں، 20 فی صد بچے الکحل لیتے ہیں،81 فی صد نیند کی گولیاں استعمال کرتے ہیں، جنسی بے راہ روی میں 57 فی صد بچے اپنی رضامندی سے ملوث، جب کہ جنسی تشدد میں 34 فی صد بچے شامل ہیں، جس کے باعث بے گھر بچوں میں ایڈز کا خطرہ بھی سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ کراچی میں 150 سے 1200 ایسے بھٹیار خانے (ہوٹلز) موجود ہیں جہاں پر مخیر حضرات کی کرم نوازی سے ان بے گھر بچوں کو لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر پیٹ بھرنے کو کھانا تو مل جاتا ہے، لیکن وہ کھانا اور اس پر مستزاد آلودہ ماحول حفظان صحت کے اصولوں پر پورا نہیں اترتے جس کی وجہ سے وہ بچے ایک صحت مند زندگی گزارنے س قاصر ہوتے ہیں۔

اقوام متحدہ کنونشن میں بچوں کے حقوق سے متعلق ایک آرٹیکل 20میں اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ جن بچوں کے گھر نہیں ہوتے وہ ریاست کی ذمہ داری ہوتے ہیں، لیکن یہاں ہر ایک اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے جان چھڑاتا اور توضیح پیش کرتا نظر آتا ہے۔ پاکستان بیت المال میں اگر ان بے گھر بچوں کی سرپرستی کی بات کی جائے تو جواب آتا ہے کہ ہم یتیموں کی سرپرستی کرتے ہیں۔ والدین کے انتقال ہو جانے کی صورت میں ہمارے پاس کوئی ایسا سیکیوریٹی پلان بھی نہیں، جو ان بچوں کو تحفظ دے سکے اور اگر ہے بھی تو غیر رسمی جو انتہائی کم تناسب میں ہے۔

پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 25 A کے مطابق ریاست 5 سے 16 سال کے ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرے گی۔ کیا بے گھر بچے اس آئین سے مستثنیٰ ہیں؟ اگر نہیں تو سوال یہ اٹھتا ہے کہ پرائیویٹ اسکول تو دور کی بات اگر سرکاری اسکول تک بے گھر ہونے کی پاداش میں انہیں داخلہ دینے سے انکاری ہوں تو کیا کیا جائے؟ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ یہ بے گھر بچے اس ریاست کا حصہ نہیں؟ اگر سرکاری اسکولوں کی انتظامیہ محض اپنے اسکولوں کا ماحول خراب ہونے کے ڈر سے ان بے گھر بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں اسی طرح ہچکچاہٹ کا شکار رہی تو پھر ان معصوم بچوں کو بدمعاش اور جرائم پیشہ عناصر کے ہتھے چڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ بچوں پر مشتمل ہے جن میں بے گھر بچے بھی شامل ہیں اگر آپ کو اپنا کل سنوارنا ہے، تو اپنا آج درست کرنا ہوگا اور اس افرادی قوت سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔ لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ ملک میں بے گھر بچوں کی بڑھتی ہوئی تعداد پر قابو پانے اور ان کے تحفظ اور بحالی کے لیے موثر قانون سازی کرے۔ نیز اٹھارویں ترمیم کے تحت چوںکہ تمام اختیارات صوبوں کو منتقل ہو چکے ہیں لہٰذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ضروری وسائل اور سہولیات سے آراستہ کرکے provincial commision of child welfare and development کے شعبے کو فعال کیا جائے۔

Viewing all 4769 articles
Browse latest View live


<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>