اس بار یوم آزادی پر ہر طرف جھنڈوں کے ساتھ ساتھ پودے لگانے کا بھی رحجان نظر آیا جو کہ بہت خوش آئند ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جنگلات کا رقبہ بہت کم ہے اور موسمیاتی تغیر کا دیو منہ کھولے سب کچھ ہڑپ کرنے سر پر چلا آرہا ہو ایسے میں درخت لگانے کا شعور اور آگہی مثبت سمت کی جانب راہ نمائی ہے۔ پودوں کے ساتھ ساتھ اگر ہم اپنے گھروں کی چھتوں کو بھی سرسبز کرلیں تو جانے کتنے اور مسئلے بھی حل ہوجائیں۔
گرمی کے جھلستے ہوئے دن اور سلگتی ہوئی راتوں میں ہری بھری سرسبز چھتوں کا صرف تذکرہ ہی دل و دماغ کو ایک فرحت کا احساس دلاتا ہے، اور کہیں اگر ہمارے اردگرد واقعی یہ ہریالی پھیل جائے تو سمجھ لیجیے کہ ہم نے اپنے آدھے مسائل حل کرلیے۔ دنیا بھر میں ان سرسبز چھتوں کی تعمیر کا رحجان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ یورپی ممالک اور امریکا تجربات کے بعد پچھلے چھے سالوں سے ان کی تعمیر پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسی کسی بھی مثبت پیش قدمی کے لیے ہمارے ملک میں جتنا وقت لگتا ہے اس حساب سے تو ان چھتوں کی ہریالی ہمارے لیے ’’ہنوز دلی دور است‘‘ کے برابر ہے لیکن امید تو کی جاسکتی ہے ناں!
ماحول کی بڑھتی ہوئی تباہی اور گھٹتے ہوئے ذخائر نے دنیا کو توانائی کے قدرتی ذرائع کی طرف متوجہ کردیا ہے۔ بدلتے موسم ایک عذاب بن کر کرۂ ارض کو اور دہکا رہے ہیں۔ چند سال سے تو گرمی آتے ہی لگتا ہے کہ جیسے سورج سوا نیزے پر آگیا ہے۔ ہوا، سورج اور پانی کی لہروں سے توانائی کا حصول یہ وہ خواب ہے جو ہر آنکھ میں سجا ہوا ہے۔ سب سے سستی ہوا اور سورج سے حاصل ہونے والی توانائی ہے۔ توانائی کے حصول کے ساتھ ساتھ توانائی کی بچت بھی بہت ضروری ہے، بس اسی خیال نے سرسبز چھتوں کے تصور نے جنم لیا۔
یہ کوئی نیا یا انوکھا طریقہ نہیں ہے بلکہ پرانی روایتی چھتوں ہی کی جدید شکل ہے۔ وہ چھتیں خشک گھاس پھونس سے بنائی جاتی تھیں اور ان نئی چھتوں سرسبز گھاس اور پودے لگانے کا تصور پیش کیا گیا ہے۔ یہ سرسبز چھتیں گرمی کا توڑ کرتی ہیں، گرمی کی شدت کو کم کرتی ہیں جس سے بجلی کے آلات کا استعمال کم ہوجاتا ہے اور ان چھتوں کے ذریعے بارش کے پانی کا بہائو کم کرکے اس کا بھی بہ آسانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ ان چھتوں کی تیاری بہت آسان ہے۔ چھت کو واٹر پروف ممبرین سے ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ پھر اس پر مٹی ڈال کر گھاس اور پودے اگائے جاتے ہیں۔ ایسی چھتیں ہماری ذہنی اختراع یا خیالی پلائو نہیں ہیں، اب ان پر دنیا بھر میں کام ہورہا ہے اور اب یہ بہت سے ممالک کے مختلف شہروں میں اپنی بہار دکھا رہی ہیں۔
ایک جائزے کے مطابق ایک عام سیمنٹ والی چھت کی عمارت کے مقابلے میں ان سرسبز چھتوں کا درجۂ حرارت 31 فی صد کم ہوتا ہے۔ یعنی یہ اکتّیس فی صد زیادہ ٹھنڈی ہوتی ہیں۔ ان چھتوں کا فروغ ہمارے شہروں میں بھی ایئر کنڈیشنرز کا استعمال اور گھٹا دے گا۔
بڑی عمارتوں کی چھتیں پانی کو محفوظ کرنے کے بھی کام آتی ہیں۔ ان کی سطح کی تعمیر ڈھلوانی انداز میں کی جاتی ہے او ران چھتوں کے نیچے ٹنکیاں نصب کی جاتی ہیں۔ سبزہ، گھاس اور پودوں کی وجہ سے بارش کا پانی تیزی سے بہنے کے بجائے دھیرے دھیرے نیچے آتا ہے اور نیچے کی جانب بنی ٹنکیوں میں جمع ہوجاتا ہے۔ یہ برسات کا پانی سال بھر ان ہی چھتوں کی آب پاشی کے کام آتا ہے۔
شکاگو کے سابق میئر رچرڈ ڈیلے اونیئر نے 1999 میں یورپ کا دورہ کیا تھا۔ دورے کی واپسی پر اس نے شکاگو کی ایک اہم عمارت سٹی ہال کی چھت کو سبز چھت کی شکل دی۔ اس کے بعد رچرڈ نے حکومت سے مشاورت کے بعد باقاعدہ سرکاری عمارتوں کی سبز چھتوں کے لیے فنڈ مختص کروایا اور اس طرح سٹی ہال سمیت شکاگو میں آج تین سو اہم عمارات پر سبز چھتیں مہک رہی ہیں۔ ان تین سو چھتوں کا احاطہ تیس لاکھ مربع میٹر پر محیط ہے۔
ٹوم لپٹن شکاگو میں ایک ماہرماحولیات ہونے کے ساتھ ساتھ سٹی بیورو آف انوائنرمنٹل سروسز کے ایک اہم عہدے دار بھی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بیس سال قبل حکومت نے ایک قانون فلور ایریا ریشو(FAR) نافذ کیا تھا، جس کے تحت کوئی بھی بلڈر حکومت کی اجازت سے اپنے پلاٹ سے کچھ زیادہ جگہ اپنے استعمال میں لاسکتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ یہ اضافی تعمیر صرف مقررہ پلاٹ کی چھت پر تعمیر کرسکتا ہے۔ اس رعایت کے تحت ٹوم لپٹن نے اپنے گیراج کی چھت پر سبز چھت تعمیر کی۔ شکاگو میں بلڈرز کو سبز چھت بنانے کے عوض بہت سی مراعات دی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شکاگو کا شمار سب سے زیادہ گنجان سبز چھتوں والے شہروں میں ہوتا ہے۔
حکومت کی طرف سے مراعات کے بعد بہت سے بلڈرز اور غیرتجارتی بنیادوں پر کام کرنے والے گروپوں نے حکومت کے ساتھ مل کر سبز چھتیں بنانے میں دل چسپی ظاہر کی ہے۔ نیویارک میں قائم ایک تنظیم ارتھ ولیج نے برونیکس، بروکلین اور ہارلیم میں سات چھتوں کو سرسبز کیا۔ لیزا ہوف، جو اس تنظیم کی ڈائریکٹر ہیں، بتاتی ہیں کہ رہائشی عمارات پر سبز چھتوں کی تعمیر کے حوالے سے بہت لوگ دل چسپی لیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سبز چھتوں کے ہمارے نصف سے زیادہ منصوبے رہائشی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال فروری میں ہمیں اور گرین روفس فار ہیلدی سٹیزن نامی ایک این جی او کو حکومت کی جانب سے تین لاکھ ڈالر کی گرانٹ ملی ہے تاکہ ہم لوگوں میں سبز چھتوں کا شعور اجاگر کریں اور انہیں یہ سکھائیں کہ سبز چھتوں کے لیے کیا ٹیکنالوجی استعمال کرنی ہے، کس طرح سبز چھتوں پر لگے سبزے کی آب پاشی کی جاتی ہے اور بارش کا پانی کس طرح سبز چھتوں کے کام آتا ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ جرمنی جیسے ترقی یافتہ ملک میں کیا ہورہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں صرف پاکستان ہی کا نہیں دنیا بھر کا مسئلہ ہے۔ ماہرین کا انتباہ ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جرمنی میں گرمی کی شدت اور بارشوں میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ماہرین نے گرمی اور ممکنہ سیلابوں کا توڑ سرسبز چھتوں اور گیلی زمین کی صورت میں نکالا ہے۔ برلن کو ’اسفنج سٹی‘ میں تبدیل کیا جائے گا۔ پیدل چلنے والے راستوں پر زیادہ سے زیادہ سایہ دار درخت ہوں گے۔ گھروں کی چھتیں گھاس اور کائی وغیرہ سے ڈھکی ہوں گی۔ عمارتوں کے بیرونی رنگ ہلکے رکھے جائیں گے تاکہ یہ عمارتیں گرمی کو جذب کرنے کی بجائے اسے منعکس کریں۔ سڑکیں گرمی کے خلاف مزاحمت کرنے والے ایسے تارکول سے بنائی جائیں گی جو شدید گرمی میں بھی نہ پگھلے۔ شہروں میں مزید تالاب اور جھیلیں بنائی جائیں گی تاکہ تیز بارش کے پانی کو محفوظ کیا جا سکے۔
گرمی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پیش کی جانے والی یہ صرف چند تجاویز ہیں، جب کہ ماہرین کی طرف سے پیش کی جانے والی رپورٹ میں ایسی درجنوں تجاویز کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ اقدامات برلن کو آئندہ برسوں اور عشروں میں اس قابل بنا دیں گے کہ یہ شہر موسمیاتی تبدیلیوں اور گرمی کا مقابلہ کر سکے۔ برلن کی انتظامیہ سن دو ہزار سات سے موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی گرمی کے خلاف منصوبے جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اب انتظامیہ طویل المدتی منصوبوں کا آغاز کرنے جا رہی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں جرمنی کے علاوہ کئی دیگر ملکوں کو اس سے بھی زیادہ شدت سے متاثر کریں گی لیکن ان کے اثرات شمالی یورپ پر بھی پڑ رہے ہیں اور ان سے نمٹنے کی تیاریاں بھی عروج پر ہیں۔
سن دو ہزار تین کے دوران جرمنی میں گرمی کی شدید لہر کی وجہ سے کئی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔ اس کے بعد سے جرمنی کے کئی شہر سیلابوں اور غیرمعمولی تیز بارشوں سے متاثر ہو چکے ہیں۔ جرمنی میں بیسویں صدی کے دوران اس طرح کے موسمیاتی واقعات نہ ہونے کے برابر تھے۔ شہر کی زمین اسفنج بنے گی برلن میں اس پروگرام کے انچارج اور میونسپل افسر ہائیکے اسٹوک کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں سب سے اہم اور مرکزی کردار پانی کا ہے،’’ہم نے ایک نیا لفظ اسفنج سٹی متعارف کروایا ہے۔ مقصد یہ بھی ہے کہ زیادہ سے زیادہ سطح زمین کو کنکریٹ اور تارکول یا سیمنٹ وغیرہ سے بچایا جائے۔ مثال کے طور پر سڑکوں، پارکنگ ایریاز اور گلیوں کی تعمیر میں ایسے طریقے اختیار کیے جائیں، جن سے پانی زمین کے اندر جذب ہوسکے۔
ان کے مطابق مکانوں اور بڑی عمارتوں کی چھتوں پر گھاس یا کائی لازمی اگائی جائے گی تاکہ پانی جذب ہو سکے اور سخت گرمی میں یہ پانی خود بخود بخارات میں تبدیل ہو جایا کرے۔ اس طریقے سے ماحول میں بالکل اسی طریقے سے ٹھنڈک پیدا ہو گی، جیسے پسینہ جسم کو زیادہ گرم ہونے سے بچاتا ہے۔ ہائیکے اسٹوک کہتے ہیں،’’ہم تالابوں اور جھیلوں کے ساتھ ساتھ پارکوں اور سرسبز جگہوں میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان میں گھروں میں لان اور سڑکوں کے ارد گرد درختوں میں اضافہ بھی شامل ہے۔ ہمارا مقصد بارش کے پانی کو محفوظ بنانا ہے اور اسے آہستہ آہستہ استعمال میں لانا ہے نہ کہ وہ ایک دم دریائوں تک بہہ جائے۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح دارالحکومت میں پانی کے معیار میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
پاکستان اور خصوصاً کراچی جیسے بڑے شہروں میں عمارات کی چھتوں کو سرسبز کرنے سے ایئر کنڈیشنرز کا استعمال کم سے کم کیا جاسکتا ہے اور لوڈشیٹنگ کے عذاب کا سبز چھتوں سے بہ آسانی مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
یہ وہ چھوٹا سا قدم ہے جو حکومت کا انتظار کیے بغیر تمام شہری خود بھی اٹھاسکتے ہیں، تو پھر بسم اللہ کیجیے اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام کیا جاسکتا ہے ناں!
The post فطرت کی جانب لوٹ آئیے! appeared first on ایکسپریس اردو.