ذیابیطس کا شمارموجودہ دور کے خطرناک اور تکلیف دہ امراض میں ہوتا ہے۔ لوگ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے چکر میں کڑوی اشیا کا بڑی وافر مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔
عوام الناس شاید یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ تلخی اور کڑواہٹ مٹھاس کی ضد ہے یوں کڑوی چیزیں کھانے سے ذیابیطس کا خاتمہ ہو جائے گا۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ طبی ماہرین کی ایک جماعت کے مطابق ذیابیطس کسی ایک علامت یا بیماری کا نام نہیں بلکہ یہ کئی ایک علامات اور عوارض کے مجموعے کا نام ہے، جو غذائی ردِ عمل کے طور پر سامنے آتا ہے۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ اگر ذیابیطس کے مریض اپنے معمولات ِ زندگی اور روز مرہ غذاؤں میں ردو بدل کر لیں تو وہ کافی حد تک اس کے مضر اثرات اور مہلک کیفیات سے محفوظ رہنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ نیچرو پیتھی کی رو سے عام طور پر ذیابیطس کی پانچ اقسام ہیں۔
معوی ذیابیطس:۔ انتڑیوں کی کارکردگی میں خرابی واقع ہوجانے سے بھی ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ اگر ابتدائی طور پر اس خرابی کو دور کر دیا جائے تو ذیابیطس کی علامات بھی خود بخود ختم ہو جایا کرتی ہیں۔ انتڑیوں کی خرابی میں دائمی قبض، انتڑیوں کی سوزش، انتڑیوں کی حرکاتِ دودیہ میں نقص واقع ہونا، انتڑیوں میں زہریلی گیسوں کا ٹھہر جانا اور خشکی کی تہہ بن جانا وغیرہ شامل ہیں۔
انتڑیوں میں فاضل مادوں کے زیادہ دیر تک رکے رہنے کی وجہ سے تعفن پیدا ہو جاتا ہے۔ اجابت کھل کر نہیں ہوتی۔ مریض پیٹ میں بھاری پن اور بوجھ سا محسوس کرتا ہے۔ دن میں کئی بار رفع حاجت کی خواہش تو ہوتی ہے مگر فراغت نہیں ہو پاتی۔ اکثر اوقات امراضِ امعا میں مبتلا افراد کو چھوٹا پیشاب بار بار آنے لگتا ہے اور ہر بار پاخانہ بھی قلیل مقدار میں خارج ہوتا رہتا ہے۔ انتڑیوں کی خرابی کی سب سے بڑی وجہ ثقیل، نفاخ اور دیر ہضم غذاؤں کا بے دریغ اور تواتر سے استعمال ہے۔ انتڑیوں کی خرابی سے پیدا ہونے والی ذیابیطس کو معوی شوگر کا نام دیا جاتا ہے۔
معدی ذیابیطس:۔ بعض اوقات معدے کی خرابی کے باعث ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں، جسے معدی ذیابیطس کہا جاتا ہے۔ ذیابیطس کے مریضوں میں سے اکثریت کو کھانے کی طلب بار بار ہوتی ہے اور یوں مریض اور معالج یہ سمجھ لیتے ہیں کہ معدہ اپنا فعل درست طریقے سے سر انجام دے رہا ہے حالانکہ یہ نظریہ درست نہیں ہے بلکہ علمِ طب کی رو سے بار بار کھانے کی طلب اور وقت بے وقت بھوک کی شدت کا احساس ہونا الگ سے ایک بیماری ہے، جسے جوع ابقر کا نام دیا جاتا ہے اگر ہم مرض کی نوعیت کے مطابق دوا دیں اور مریض کے معدے کی اصلاح کریں توانشاء اللہ معدی ذیابیطس کی علامات کا خاتمہ ہوجائے گا۔
کبدی ذیابیطس:۔ کبد جگر کا دوسرا نام ہے لہٰذا ایسے افراد جو کافی عرصے تک جگری امراض میں مبتلا رہتے ہیں بعض اوقات ذیابیطس کی علامات انہیں بھی تنگ کرنے لگتی ہیں۔اگر امراضِ جگر کے علاج پر توجہ دی جائے تو مریض ذیابیطس کے چنگل سے چھٹکارا پانے میں بھی کامیاب ہوجاتا ہے۔عام طور پر امراضِ جگر میں غلبئہ صفرا اور سودا،جگر کے سدے، جگر کی سوز ش وغیرہ شامل ہیں۔
دماغی ذیابیطس:۔ ایسے افراد جو ذہنی دباؤ کے ماحول میں کام کرتے ہیں یا کسی بھی ذہنی تناؤ کا شکار ہوتے ہیں ان میں ذیابیطس کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں۔ایسی ذیابیطس کو دماغی کہا جاتا ہے۔علاوہ ازیں ذہنی امراض کے نتیجے میں حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بھی برین شوگر کہا جاتا ہے۔ دماغی ذیابیطس کا رجحان ایسے افراد میں زیادہ پایا جاتا ہے جو بات بے بات ٹینشن،ڈپریشن اور ذہنی اضطراب میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
جنرل ذیابیطس:۔ عام حملہ آور ہونے والی ذیابیطس لبلبہ کے فعل میں خرابی پیدا ہونے سے واقع ہوتی ہے۔ لبلبہ ایک ایسا غدودہے جو جسم میں انسولین کی مطلوبہ ضرورت کو پوری کرتا ہے۔ چکنائیوں کے بے دریغ استعمال سے اس کے فعل میں خرابی پیدا ہوجاتی ہے چونکہ بدنِ انسانی میں شوگر لیول کو قابو میں رکھنا انسولین کا کام ہے، لہٰذا انسولین کی کمی یا زیادتی سے شوگر لیول متاثر ہو جا تا ہے۔ یاد رہے بانقراس کے فعل میں خرابی غیر معیاری خوراک،سہل پسندی اور دیگر ماحولیاتی عناصر سے پید اہوتی ہے۔لبلبے کی خرابی سے حملہ آور ہونے والی ذیابیطس کو بانقراسی یا جنرل ذیابیطس کہا جاتا ہے۔
The post ذیابیطس کی اقسام appeared first on ایکسپریس اردو.