ہماری قومی آزادی کی عمر ستر برس ہوگئی۔
بلاشبہ یہ شکر کے اظہار اور افتخار کے احساس کا مقام ہے۔ آزادی بہت بڑی نعمت ہے۔ اتنی بڑی نعمت کہ فرد کی زندگی میں ہو تو اُسے صحیح معنوں میں اشرف المخلوقات بناتی ہے اور قوم کی زندگی میں ہو تو اُسے سر اٹھا کر وقار سے جینا سکھاتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی کا دوسرا نام ہی آزادی ہے۔
آزادی کی قدروقیمت کا اندازہ درست طور پر وہی لوگ کرسکتے ہیں جنھوں نے غلامی کی ہزیمت اٹھائی ہو یا پھر حصولِ آزادی کی قیمت چکائی ہو۔ آج اگر اپنی آزادی کا معنی و مفہوم جاننا اور اس کی قدروقیمت سمجھنا مقصود ہو تو ہمیں نگاہ اٹھا کر ایک بار اپنے کشمیری اور فلسطینی بھائیوں کو دیکھ لینا چاہیے۔ اُن کی زندگی کے روزمرہ کرب و الم کے تجربات آزادی کی حقیقت و اہمیت کو پوری شدت کے ساتھ اُجاگر کرتے ہیں۔
آزادی کے ان ستر برسوں میں ہمارے یہاں کم سے کم تین نسلیں پروان چڑھی ہیں۔ آج یہ تو بے شک نظر آتا ہے کہ بعد کی نسلیں بھی بڑوں کے ساتھ مل کر آزادی کا جشن مناتی اور نغمے گاتی ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی چھپائے نہیں چھپتی کہ یہ نئے لوگ آزادی کے مفہوم سے اُس طرح واقف نہیں ہیں، جیسے اُن سے پہلے کے لوگ تھے۔ دیکھا جائے تو اس میں اُن کا کچھ ایسا قصور نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم نے انھیں یہ سب کچھ بتانے اور سمجھانے کی اُس طرح کوشش بھی نہیں کی ہے، جس طرح اگلوں نے ہمیں بتایا سمجھایا تھا۔
ہم ایسا کیوں نہیں کرپائے؟ اس سوال کا جواب تو بہت تفصیل طلب ہے، لیکن بس مختصر یہ کہ اسے محض غفلت نہیں کہا جاسکتا تھا۔ اس لیے کہ اس کے بہت سے اسباب تھے، اور یہ دنیا دراصل اسباب و علل کی دنیا ہے۔ یہاں کوئی ایک سبب انسان کی پوری زندگی کا سانچا بدلنے کا ذریعہ بن جاتا ہے، کوئی ایک بات اس کے حالات کو اس طرح تبدیل کرسکتی ہے کہ جس کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری آزاد قومی زندگی کے ابتدائی چند برسوں کے بعد ہی جو سیاسی سماجی نقشہ متشکل ہوا، اُس نے ہمیں اس طرح زندگی جھوجھنے میں لگا دیا کہ اور کسی طرف دھیان دینے کی مہلت ہی نہ رہی۔ سیاسی پینترے بازیوں نے قومی جذبے کو وہ زک پہنچائی کہ اس کا پنپنا تو بہت دور کی بات ہے، صرف باقی رکھنا بھی کمال ٹھہرا— یہ اور ایسے ہی دوسری کتنی باتیں ہیں کہ جو ہماری ابتلا کا حال بیان کرسکتی ہیں۔
خیر، اس مسئلے پر ذرا کچھ ٹھہر کر بات کریں گے۔ سرِدست اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے اپنے بچوں کو، اپنی نسلِ نو کو اپنی تاریخ، تہذیب اور ثقافت کے فروزاں نشانات اور گراں قدر امکانات سے اس طرح روشناس نہیں کیا، جس طرح کیا جانا چاہیے تو چلیے اب ہم سب مسائل اور ساری مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی اس ذمے داری کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنی تاریخ کے روشن ابواب کا اعادہ کرنا، اپنی تہذیب کے اُجلے چہرے کو دیکھنا اور اپنی ثقافت کی اعلیٰ انسانی قدروں سے رجوع کرنا خود ہماری لیے بھی تقویت کا باعث ہوگا کہ یوں ایمان تازہ ہوگا اور روح سرشاری محسوس کرے گی۔
ہمیں اپنے نژادِ نو کو خوشی اور تفاخر کے ساتھ بتانا چاہیے کہ ہم نے آزادی کا عملی سفر محض سات برس کی قلیل مدت میں طے کرلیا تھا۔ قوموں کی تاریخ میں جدوجہد سے لے کر حصولِ آزادی تک کی یہ مدت خود اپنا ایک اختصاص رکھتی ہے۔ اس سے ہمارے جذبۂ آزادی کی قوت، قومی جوش اور سماجی ولولے کا اندازہ بہ آسانی کیا جاسکتا ہے۔ اصل میں ہمارے قومی شعور کی تشکیلِ نو کا عمل اُسی وقت شروع ہوگیا تھا، جب 1857ء کی جنگِ آزادی میں شکست کے بعد سرسیّد احمد خاں نے یہ محسوس کیا تھا کہ تاریخ کے اس اِدبار سے قوم کو نکالنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اس کے نوجوانوں کو علم اور خصوصاً سائنسی علم کی طرف مائل کیا جائے اور انھوں نے اینگلو محمڈن اسکول کی بنیاد علی گڑھ میں رکھی تھی۔ 1940ء کی قراردادِ پاکستان کو اس فکر و عمل کا تسلسل اور سنگِ میل سمجھا جانا چاہیے۔
نئی نسل کے لوگوں کے لیے ممکن ہے کہ یہ بات حیرت کا باعث ہو کہ الگ وطن اور اپنی قومی آزادی کی اِس قرارداد سے پہلے ہندوستان کے مسلمان سیاسی راہ نما انگریز حکم رانوں سے آزادی تو ضرور حاصل کرنا چاہتے تھے، لیکن اُن کا مطالبہ یہ نہیں تھا کہ انھیں ایک الگ خطۂ زمین، الگ وطن درکار ہے۔ نہیں، ایسا نہیں تھا۔ اس لیے کہ وہ سمجھتے تھے، انگریزوں سے چھٹکارا حاصل کرکے وہ ہندو آبادی کے ساتھ اطمینان سے رہ سکتے ہیں، لیکن اُن کا یہ خیال اُس وقت سراسر غلط ثابت ہوا جب متحدہ ہندوستان میں ہونے والے انتخابات میں ہندوؤں کی نمائندہ سیاسی جماعت نے اکثریت کی حیثیت سے کامیابی حاصل کرکے انگریزوں کی زیرِنگرانی اقتدار سنبھالا۔ تب برِصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا کہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد کانگریس دراصل ہندو اکثریت کی طرف دار ثابت ہوئی۔
قائدِاعظم، سر سلیم اللہ، نواب زادہ لیاقت علی خان، حسین شہید سہروردی اور سر شاہنواز جیسے مسلمان سیاسی راہ نماؤں نے اُس وقت یہ بات واضح طور پر سمجھ لی کہ ہندوستان میں رہنے والے ہندو اور مسلمان دراصل دو الگ قومیں ہیں۔ صرف عقائد و نظریات ہی نہیں، بلکہ اُن کا ماضی، تاریخ، رسم و رواج، سوچنے کا انداز اور طرزِحیات سب کچھ ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہے۔ ان کے مذہبی راہ نما ہی نہیں، بلکہ تاریخی کردار اور قومی ہیرو بھی ایک دوسرے سے اس درجہ الگ ہیں کہ ایک قوم جنھیں اپنی شناخت کا حوالہ اور اپنا ہیرو گردانتی ہے دوسری قوم انھیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
حقیقت کا یہی وہ شعور تھا جو آگے چل کر برِصغیر کی سیاست میں دو قومی نظریے کی بنیاد بنا اور جس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسلمانوں نے اپنی آزادی کی تحریک کو نئے خطوط پر استوار کیا۔ اس کے بعد آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کی راہیں ہندوؤں سے الگ ہوگئیں۔ اسی دو قومی نظریے کی بنیاد پر مسلمانوں نے اپنے لیے ایک الگ آزاد وطن کا مطالبہ کیا، جہاں وہ سیاسی، اخلاقی اور مذہبی آزادی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔ یہ قرارداد 23؍ مارچ 1940ء میں مسلمانوں کی طرف سے پیش کی گئی۔ اس کے بعد مسلمانوں نے وطن کی جدوجہد کا آغاز کیا اور صرف سات برس میں سرخ رو ہوگئے اور پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک آزاد مملکت کے طور پر طلوع ہوا۔ یہ پہلی مسلمان ریاست ہے جو نظریاتی بنیادوں پر سیاسی قوت کے ساتھ قائم اور اقوامِ عالم کی صف میں شامل ہوئی۔
آج اس حقیقت کا اعتراف اُن انگریزوں کی کتابوں میں بھی ملتا ہے جو اُس وقت ہندوستان کے حکمران تھے کہ انگریزوں نے برِصغیر کی آزادی کے موقعے پر ہندوؤں کی حمایت کی تھی۔ پاکستان کے ساتھ انصاف اور مساوات کا معاملہ نہیں کیا گیا۔ دونوں ملکوں کی جغرافیائی حدود کے تعین اور اثاثوں کی تقسیم سے لے کر ہجرت کے مسئلے تک انگریزوں نے ہر معاملے میں ہندوؤں کا ساتھ دیا اور جہاں جہاں جس قدر ممکن تھا، مسلمانوں کو اُن کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ کہ مسلمانوں اور اُن کی نوزائیدہ ریاست پاکستان کے لیے بہت سی مشکلات پیدا ہوئیں۔
ان مسائل کو دیکھتے ہوئے یہ قیاس کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان بن تو گیا ہے، لیکن بہت دن تک قائم نہیں رہے گا۔ مایوسی اور تخریب کے حالات کے لیے مخالفین کی طرف سے ہر ممکن اور باضابطہ منصوبہ بندی کی گئی تاکہ مطلوبہ اہداف حاصل کیے جاسکیں اور پاکستان ایک ناکام ریاست قرار پائے اور واپس ہندوستان کی عمل داری میں آجائے۔ خدا کے فضل و کرم سے ایسا نہیں ہوا۔ ساری سازشوں کے باوجود یہ ملک آج بھی قائم ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ رہے گا۔
14؍ اگست 1947ء کی رات آزادی کا اعلان مسلمان کے لیے ہزار خوشیاں لے کر آیا تھا۔ یہ حصولِ منزل کی جاں فزا نوید تھی۔ آزادی کی جدوجہد کے کام گار ہونے کا اعلامیہ تھا۔ یقینا ایسا ہی تھا، لیکن ہندوستان کے مسلمانوں کو جو آزاد وطن، آزاد سرزمین تک پہنچنا چاہتے تھے، اب ہجرت کا مرحلہ درپیش تھا۔ دنیا کی تاریخ میں جن بڑی ہجرتوں کا ذکر ملتا ہے، ہندوستان پاکستان کے مابین ہونے والی ہجرت اُن میں عددی لحاظ سے برتری رکھتی ہے۔ برِصغیر کی تقسیم کے بعد جتنے لوگوں نے اس خطے میں ہجرت کی، وہ اپنی مثال آپ ہے، خاص طور پر مسلمانوں کی ہجرت۔ اس لیے کہ ان کی بہت بڑی اکثریت کو آگ اور خون کے دریا سے گزر کر منزلِ مقصود تک پہنچنا نصیب ہوا ہے۔
ہمارے بچے، ٹیکنالوجی کی پیدا کردہ سہولتوں کے اس دور میں آنکھ کھولنے والے لوگ نہیں جانتے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب سفر کی ایسی بہت سی سہولتیں نہ تھیں، جیسی آج عام آدمی کو میسر ہیں، اور جو تھیں، وہ بھی اُس وقت مسلمانوں کے لیے سہولت نہیں صعوبت بن گئی تھیں۔
مؤرّخین نے جو کتابیں ان واقعات کے حوالے سے لکھی ہیں، وہی نہیں، عام لکھنے والوں نے بھی اپنی جو یادداشتیں قلم بند کی ہیں، ان کو اٹھا کر پڑھا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ کس کرب و بلا کے مرحلے سے گزر کر مسلمانوں کو وطن کی زمین میسر آئی تھی۔ لوگ قافلہ در قافلہ پیدل سفر کرتے تھے۔ اُن میں کم سن بچے ہی نہیں، نومولود بھی شامل تھے اور کتنے ہی تو ان میں مسافرت کے دوران میں ہی اس دنیا میں آئے تھے۔ ان کے ساتھ بوڑھے، بیمار، اور ناتواں لوگ بھی تھے، نوجوان بچیاں، نوبیاہتا جوڑے اور اہل و عیال والے بھی۔ سب کے دلوں میں آزادی کی شمعیں جھلملاتی تھیں اور آزاد مٹی کو چومنے کا جذبہ انھیں لیے چلا جاتا تھا، لیکن یہ سفر آسان تھوڑی تھا۔
اس لیے کہ پیدل، ٹھیلوں اور بیل گاڑیوں پر نکلے ہوئے آزادی کی راہ پر گامزن قافلے دن دہاڑے قدم قدم پر لوٹے جاتے تھے، ان پر شب خون مارا جاتا تھا۔ صرف سامان نہیں لٹتا تھا، عزت و عصمت پر ہاتھ ڈالا جاتا تھا۔ دو چار، دس بیس، پچاس سو نہیں، ہزاروں واقعات چشم دید لکھے گئے ہیں کہ جواں سال بچیوں اور عورتوں نے کنویں میں چھلانگ لگاکر جان گنوائی اور عزت بچائی۔
پورے پورے قافلے کا محاصرہ کرکے مردوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، بچوں کو ماؤں سے چھین کر نیزوں پر اچھال دیا گیا اور عورتوں کو ہوس ناک بربریت کے لیے قبضے میں لے لیا گیا۔ ہماری عمر کے لوگوں نے ہجرت کے عذاب سے گزرنے اور آگ اور خون کے دریا پار کرکے آنے والوں کو دیکھا ہے۔ ان کے دکھ سنے ہیں۔ اُن کی آنکھوں سے آنسوؤں کی فصلیں کاشت ہوتے دیکھی ہیں اور اُن کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے والے داغوں کے نشان دیکھے ہیں۔ ان میں کتنے ہی لوگ ایسے تھے جنھوں نے آزاد وطن کی سمت سفر کا آغاز تو پورے کنبے کے ساتھ کیا تھا، لیکن انھیں تنہا اس زمین تک پہنچنا نصیب ہوا تھا۔ اس لیے کہ بچے اور بوڑھے پاپیادہ بھوک پیاس اور سفر کی اذیتوں کی بھینٹ چڑھ گئے، عورتوں نے موت کو گلے لگا لیا اور ساتھی اپنوں کو بچانے کی جنگ میں خاک و خون میں نہلا دیے گئے۔
ہم نے انھیں بھی دیکھا ہے جن کے خاندان ترک کیے گئے ملک میں نوابوں کی سی ٹھاٹھ دار زندگی گزارا کرتے تھے۔ یہ لوگ وہاں پر جدی پشتی عیش و عشرت کا سامان رکھتے تھے، لیکن جب ان کے دل میں آزادی کی امنگ جاگی تو پھر بھری پُری حویلیاں چھوڑ کر آزاد وطن کے لیے عازمِ سفر ہوئے۔ بہت سے تھے کہ جنھیں کچھ بھی ساتھ لے جانے کی مہلت نہ ملی، لیکن کچھ ایسے بھی تھے کہ جنھوں نے نقد و زیورات سے بھرا ہوا صندوق ساتھ رکھ لیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن پہنچے تو مسافروں کے لیے اعلان ہوا کہ پہلے سب جاکر اپنا سامان گاڑی میں رکھ دیں اور بھاری بھرکم اشیا بک کروا دی جائیں، بعد میں مسافروں کو سیٹیں الاٹ کی جائیں گی۔ اعلان پر عمل کیا گیا۔
سامان گاڑی میں رکھ کر مسافر ہلکے ہوگئے۔ پھر اعلان ہوا کہ سامان والی گاڑی الگ جائے گی۔ مسافروں کو دوسری گاڑی میں بھیجا جارہا ہے۔ سامان وہ منزلِ مقصود پر پہنچ کر وصول کریں گے۔ مسافر ٹرین چل دی، لیکن سامان والی گاڑی کو چلنا تھا اور نہ ہی وہ چلی۔ لٹے پٹے مسافر ٹرین میں تھے جو جنگل کے اندھیرے اور سائیں سائیں کرتے سناٹے میں رکتی تھی اور بلوائیوں کے حملے کا شکار ہوجاتی تھی۔ ایسی ٹرین بھی لاہور کے اسٹیشن پر پہنچی ہے کہ جس میں ایک گود کے بچے کے سوا کوئی ذی نفس زندہ نہ تھا۔ خدا کی شان ہے کہ یہ بچہ زندہ رہا ورنہ اس ٹرین پر راستے کے حملوں میں ایک ایک کرکے سارے مسافر مار دیے گئے تھے۔ کوئی بس، کوئی ٹرین، کوئی ایک قافلہ ایسا نہ تھا جسے راستے کے شدائد کا سامنا نہ کرنا پڑا ہو، جانوں کا نذرانہ نہ دینا پڑا ہو۔
تاریخ کا یہ مرحلہ انسانی کردار کی بربریت، ہوش رُبا اور ذلت خیز واقعات سے بھرا ہوا ہے۔ یادیں، سوانح عمریاں اور تاریخ کی کتابوں کے اوراق اٹھا کر پڑھ لیجیے، آج بھی خوں آلود محسوس ہوں گے۔ خاندان کے خاندان کٹے ہوئے ملیں گے، جلی ہوئی لاشیں نظر آئیں گی، بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں اور مرد بے تفریق انسانی وجود کی پامالی اور بے حرمتی کی روداد سنائیں گے۔ آگ اور خون کے سمندر ٹھاٹھیں مارتے دکھائی دیں گے اور ان میں ہوس کے اژدھے پھنکارتے اور بربریت کے مگرمچھ ڈکراتے سنائی دیں گے۔
سفاکی کا وہ منظر سامنے آئے گا کہ الاماں۔ ہول ناکی کی وہ صورتیں ابھریں گی کہ الحفیظ۔ یہ سب ہے، بلاشبہ یہ سب ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک جذبے کی چکاچوند بھی ملے گی، ایک امنگ کا لشکارا بھی نظر پڑے گا، ایک آرزو بھی ضوفشاں ہوگی، ایک تمنا بھی ہمہ بیدار دکھائی دے گی— اور اُس کا نام ہے آزادی۔
جی ہاں، آزادی کہ جس کے لیے لاکھوں قربانیاں دی گئیں، جانوں کا نذرانہ پیش کیا گیا، عزتیں بھینٹ چڑھائی گئیں، عصمتیں واری گئیں، لیکن آزادی حاصل کی گئی۔ آزادی کا یہ سودا خالص ہے، سو فی صد کھرا ہے، اس میں رتی بھر ملال کا کھوٹ نہیں، ذرّہ بھر افسوس کا میل نہیں، اس پر پچھتاوے کی ذرا سی بھی گرد نہیں ہے۔ اس لیے کہ قربانیاں دینے والے جانتے تھے، وہ یہ سودا اپنی آئندہ نسلوں کے لیے کررہے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کے لیے آزادی حاصل کررہے ہیں۔ وہ اپنے مستقبل کی تاب ناکی کے لیے آگ اور خون کے سمندروں سے گزر رہے ہیں۔
اے نژادِ نو!
اے میرے بچو!
تمھارے بڑوں نے، تمھارے اگلوں نے، تمھارے بزرگوں نے تمھیں آزادی کے دن، آزادی کی زندگی، آزادی کے زمین و آسماں دینے کے لیے یہ سب مراحل سر کیے تھے۔ انھیں تمھاری خوشیاں، تمھارا وقار، تمھاری راحت اور تمھاری شان اپنی عزت، آبرو اور جان سے بڑھ کر عزیز تھی۔
اے عزیزو!
تمھارے بزرگ انسانی زندگی کی بڑی ان مول نعمت تمھیں ہدیہ کرکے، تحفہ دے کر گئے ہیں۔ n
(جاری ہے)
The post اے نژادِ نو! آزاد رہو آباد رہو appeared first on ایکسپریس اردو.