کبھی کبھی جی چاہتا ہے کِسی تمہید، کِسی لگی لپٹی، کِسی Coating کے بِنا ہی بات کی جائے۔ یہ کیا کہ ہر بار علمِ نفسیات کا خاص Tool استعمال کیا جائے اور لاشعور میں بات بِٹھانے کے لیے اور دس باتوں کا سہارا لیا جائے اور گھمن گھیری کے بعد اصل بات کو Drill کرکے لا شعور کی تہہ میں ڈالا جائے۔
براہِ راست بات کا اثر یا تو بہت کم ہوتا ہے یا وقتی ہوتا ہے۔ اچھی بات کا ذِکر فوری طور پر تو بہت اچھا لگتا ہے اور اُس پر عمل کرنے کو دِل بھی کرتا ہے لیکن، چوںکہ وہ بات یا تو ہماری اوّلین تعلیم و تربیت کے حصّے میں نہیں ہوتی اور یا وہ فوری طور پر ہمارے شعور کی تہوں کو Penetrateکرکے لاشعور میں داخل نہیں ہو پاتی۔ اِس لیے کچھ گھنٹوں یا چند دِنوں یا ہفتوں کے اندر اندر ہماری یادداشت سے محو ہوجاتی ہے اور ہم ایک دو بار تو اس پر عمل کر پاتے ہیں مگر وہ مستقل ہماری عادت کا جُز نہیں بن پاتی۔ اِسی لیے ہر اچھی بات کو بار بار دُہرانے کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ وہ ایک خودکار روّیے کی شکل میں ہمارے ساتھ ساتھ چلتی رہے۔ جو بات دُہرائی نہیں جاتی، جِس بات کی تمہید نہیں باندھی جاتی وہ پہلے تو ہمارے عمل سے نِکل جاتی ہے۔ پھر آہستہ آہستہ ہماری سوچ کے دائرے سے بھی خارج ہوجاتی ہے۔
آزادی، آزادی کے معنی و مفہوم، آزادی کی اہمیت کا شمار بھی اُن بے شمار باتوں میں ہوتا ہے جو پہلے ہمارے عمل کے ہاتھوں سے باہر نکلیں اور آج ستّر سال بعد بھی ہماری سوچ کے Circle سے بھی باہر نکل چکی ہیں۔
جغرافیائی آزادی کو بظاہر ستر برس گزرچکے ہیں، لیکن ہر گزرتا سال ہمیں درحقیقت اور زیادہ قید کرتا چلا جارہا ہے اور زیادہ غلام بناتا چلا جارہا ہے۔ ستر سال پہلے ہمارا مطمع نظر ایک تھا۔ نظریہ ایک تھا۔ مقصد ایک تھا۔ Object ایک تھا۔ ایک مِشن تھا۔ ایک ویژن تھا، جو 1857 ء سے 1947ء تک 90 برسوں میں کِسی نہ کِسی شکل کِسی نہ کِسی حوالے سے Revise ہوتا رہا، Repeat ہوتا رہا، Revive ہوتا رہا۔ یہ ویژن، یہ مِشن ہمارے آباؤ اجداد کے دِلوں میں بھی رہا، ذہنوں میں بھی رہا اور مختلف اوقات میں مختلف شکلوں میں عمل میں بھی ڈھلتا رہا اور نسل در نسل، سینہ بہ سینہ منتقل بھی ہوتا رہا۔
آزادی کا خواب، آزادی کی آرزو کے ساتھ ساتھ کم از کم پانچ نسلوں تک زندہ رہا۔ ابتدائی مراحل میں آزادی کا تصّور، تاج برطانیہ سے علیحدگی کی حد تک تھا، مگر جوں جوں ادراک وفہم بڑھتا گیا، اندازہ ہوتا گیا کہ محض انگریزوں سے آزادی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک الگ قوم کو ایک علیحدہ مُلک، ایک علیحدہ زمین کی ضرورت ہے۔ اور پھر آزادی کا نیا مفہوم ایک نئی جدوجہد، ایک نئی تحریک کی صورت نمودار ہوا۔ 1906ء اور 1940ء کے تاریخ ساز سالوں کے ساتھ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم نے آزادی کے اِس نئے مفہوم، جدوجُہد اور تحریک میں بھرپور توانائی بھردی اور برّصغیر ہندوستان کی پوری مسلمان قوم، زبان و مسلک و نسل کے تمام فرق مِٹاکر یکجا و یکجان ہوگئی۔ جذبوں کے اِس یک رُخی سیلاب کو روکنا ناممکن ہوگیا۔ سوچ اور جذبوں میں کوئی کھوٹ کوئی مِلاوٹ نہیں تھی۔ آزادی کی تحریک میں کِسی بھی فرد کی ذاتی غرض شامل نہیں تھی۔ ایمان، یقین اور قربانی کی خوشبو سے بچّے بچّے کا دِل مہک رہا تھا۔ سوچ میں سچ ہو اور جذبے میں ایمان و یقین تو اللہ کا کرم ہر کام ہر جدوجُہد میں شامل ہوجا تا ہے۔ جب آدمی اپنے لیے کچھ نہیں چاہتا اور اُس کا مطمع نگاہ اور Object نظریاتی اور آفاقی ہو تو آسمانی مدد صدیوں کے مقفل دروازے بھی کھول دیتی ہے۔
14 اگست 1947 وہ دن تھا جب قدرت نے برّصغیر کے مسلمانوں کے لیے اپنی رحمت و برکت کا وہ دروازہ کھول دیا، جِس کی مثال نہ گذشتہ ہزاروں سالو ں میں کہیں موجود ہے اور نہ ہی بظاہر اِس بات کا کوئی امکا ن ہے کہ اِس طرح پھر کبھی دوبارہ ہوگا۔
دنیا میں اِنسانوں نے قبیلوں، مُلکوں، علاقوں کے حوالے سے لاکھوں کروڑوں جنگیں لڑیں۔ ہزاروں مُلک بنے اور ختم ہوئے۔ دنیا کے ہر خطّے میں کبھی نہ کبھی آزادی کے نام پر جنگ و جدل کا بازار گرم ہوا۔ لاکھوں کروڑوں لوگوں کا خُون بہا، لیکن ایسی انوکھی آزادی کسی قوم، قبیلے یا مُلک کے حصّے میں نہیں آئی، جِس کا قرعہ برّصغیر کے مسلمانوں کے نام نکلا۔
آزادی کے انمول تُحفے خاص خاص لوگوں، خاص خاص قوموں کو عطا کیے جاتے ہیں۔ جو لوگ جو قومیں دِل کے ساتھ دماغ بھی رکھتی ہیں وہ آزادی کے انعام کی دِل سے قدر کرتی ہیں اور دماغ سے اُس کو محفوظ رکھتی ہیں۔ جِس فرد، جِس قوم میں دل یا دماغ میں سے ایک عنصر بھی عنقا ہوا، وہ آزادی پانے، آزادی مِلنے کے باوجود آزاد نہیں رہ پاتا۔ ایسے لوگوں، ایسی قوموں کی رگوں میں غلامی کے جوہر دوڑ رہے ہوتے ہیں۔
ہمارا شُمار بھی بدقسمتی سے ایسے ہی لوگوں، ایسی ہی قوموں میں ہے۔ ہم آزادی جیسے قیمتی تُحفے کی قدر نہیں کرپائے۔ انگریزوں اور ہندوؤں سے آزادی کے بعد ہم آہستہ آہستہ دس ہزار ایسی باتوں، ایسے نظریوں، ایسی سوچوں، ایسے جذبوں کے پابند اور غُلام ہوتے چلے گئے، جِن کے چُنگل سے نکلنا مشکل ہے۔
1857ء کی جنگ آزادی کے وقت دُنیا کا منظر یا Seenario کچھ اور تھا۔ لوگوں کا عِلم اور معلومات کا دائرہ نہایت محدود تھا۔
1947ء کی تحریکِ آزادی کے وقت انفرادی، قومی اور آفاقی سوچ کے زاویے کچھ اور تھے۔ آزادی کے تقاضے کچھ اور تھے۔
1857ء تا 2017ء تک کے 160 سالوں میں دنیا اور اِنسان نے زندگی کے ہر معاملے میں اتنی ترقی، اتنی Advancement ، اتنی Progress کرلی ہے کہ اگر جارج واشنگٹن، ابراہیم لنکن، بنجمن ڈسرائیلی، نیپولین بوناپارٹ بھی چند مِنٹ کے لیے آج کی دُنیا میں آنکھیں کھول لیں تو اُن کی دوبارہ وجہ وفات حیرت ہوگی۔
آج کی دُنیا میں آزادی محض جغرافیائی و زمینی سرحدوں کی حفاظت کا نام نہیں رہا۔ آج کی دُنیا سائنسی و تحقیقی ہے۔ آج کی دنیا میں ہر مُلک، ہر خطّے، ہر قوم کے لوگ محض جذباتی سوچ کی بجائے ذہنی و منطقی فِکر سے مالامال ہیں۔ آج کی دنیا میں صحیح معنوں میں آزادی محض زمین کے ٹکڑے پر آزادانہ دندناتے پھرنا نہیں ہے۔
آج کی دنیا میں قلبی، فکری اور نظریاتی آزادی کی اہمیت زیادہ ہے۔ کِسی فرد، کِسی قوم، کِسی مُلک پر قبضہ کرنے کے لیے زمینی سرحدوں پر حملہ کرکے، گولہ وبارود استعمال کرکے اُسے اپنا غلام بنانا ضروری نہیں رہا۔
آج کی دنیا نفسیاتی و معاشی و قلبی و نظریاتی آزادی اور غُلامی کی دنیا ہے۔ اِن چاروں جُہتوں میں جو فرد، جو قبیلہ، جو قوم جو مُلک اپنے پیروں پر کھڑا ہے، وہی حقیقی معنوں میں آزاد ہے۔ کوئی ایک جُز ایک Component بھی اگر نہیں ہے، Missing ہے تو غلامی کِسی نہ کِسی شکل میں موجود ہے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم آج So Called دُنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہیں، لیکن آج نہ ہماری زمینی سرحدیں محفوظ ہیں۔ نہ ہمارے وطن میں امن ہے اور ہم معاشی، معاشی، نفسیاتی، قلبی اور نظریاتی چاروں جہتوں میں غلام در غلام ہیں۔ بظاہر ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ درحقیقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں۔
نہ ہم سچّے ہیں۔ نہ ہم کھرے رہے۔ نہ ہم خود خالص رہے۔ نہ ہماری کوئی بات کوئی چیز خالص ہے۔ آج ہم صِرف نام کے آزاد ہیں اور وہ بھی کب تک۔ ہمیں عقل نہ آئی۔ گذشتہ 46 برس سے ہماری جذباتیت میں جتنا اضافہ ہوا ہے، اُتنا ہی ہم نے اپنی Logic اپنے فہم اور اپنے جذبے کو Loose کیا ہے۔ جذباتیت اور شے ہے۔ جذبہ اور چیز، ہم میں تو اب اتنا فہم بھی نہیں بچا کہ ہم جذباتیت اور جذبے کے درمیان فرق کو جان سکیں اور اپنی جذباتیت کو ختم کرکے اپنے جذبے کو پروان چڑھاسکیں۔
اگر ہم اِسی نہج پر چلتے رہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنی اِس نام نہاد آزادی کو بھی کھو بیٹھیں گے۔ قدرت اپنے قانون کِسی فرد کِسی قوم کے لیے نہیں بدلتی۔ ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں۔
70 سالوں سے ہم اپنے آپ کو، اپنی سوچوں کو، اپنے جذبوں کو اپنے نظریوں کو گرِوی رکھوائے چلے جارہے ہیں۔ آج کچھ بھی ہمارا اپنا نہیں۔ نہ ہمارے بچّے۔ نہ ہمارے لیڈر۔ نہ ہمارے افسر۔ ہمارے کپڑوں، جوتوں سے لے کر گھروں میں استعمال کی تمام چیزوں تک سبھی کچھ تو Branded ہے۔ ہر ہفتے ہم Google Map پر نیا برانڈڈ ریسٹورنٹ ڈھونڈتے ہیں، باہر کھانے کے لیے۔ ہمارے پیسے کا کثیر حصّہ تو Royality کی مد میں باہر چلا جاتا ہے۔ صِرف کولڈڈرنکس کی مد میں کروڑوں ڈالر ہم اپنے آقاؤں کو بھیج رہے ہوتے ہیں ہر ماہ۔ یہ مبالغہ نہیں۔ کوئی بھی بہ آسانی figures چیک کرسکتا ہے۔
ہم کہاں آزاد ہیں؟ ہم کیسے آزاد ہیں؟ معاشی سطح پر ہم کھربوں ڈالر کے مقروض ہیں۔ معاشرتی سطح پر ہماری اپنی کوئی ثقافت نہیں۔ کوئی تہذیب نہیں۔ خالص پاکستانی کلچر نہیں۔ جو بھی کچھ ہے وہ علاقائی، نسلی، لسانی یا سطحی سطح پر ہے۔
سائنسی طبّی، تحقیقی سطحوں پر ہم باقی ماندہ دنیا سے کم ازکم دو سو سال پیچھے ہیں۔ کہیں کِسی جگہ کوئی باضابطہ و باقاعدہ علمی فکری تحقیقی سائنسی کام نہیں ہورہا۔
نفسیاتی سطح پر ہم چمکتے رنگوں اور دمکتی روشنیوں سے بھرپور دوسری قوموں کی سوچوں سے مغلوب ہیں۔ ہماری اپنی سوچ ہی نہیں۔ ہمارے اپنے کوئی خواب ہی نہیں۔ ہماری اپنی کوئی Theory، کوئی دلاوری، کوئی Pattern of Life ہی نہیں۔ ہر طرح کی تعلیم اور ڈگری اور تربیت کے معیار بیرونی ہیں۔
مذہبی و نظریاتی سطح پر یا تو ہم جہالت اور شدّت پسندی کا شکار ہیں یا ضد میں آکر Atheist ہوگئے ہیں۔ اعتدال، توازن اور صراطِ مستقیم والا اسلام محض نمازوں، روزوں اور منہگے قربانی کے جانوروں تک ہی رہ گیا ہے۔
ذاتی و قلبی سطح پر ہم اپنی انا اپنی لالچ اپنی غرض کے غلام بن چکے ہیں۔ ہماری ہر سوچ، ہمارا ہر عمل ’’میں‘‘ سے شروع ہوکر ’’میرا ہے ‘‘ تک ختم ہوتا ہے۔
آزادی کا سفر ہمیشہ اپنی ذات سے شروع ہوتا ہے۔ اگر ہم اپنے آپ، اپنی ذات، اپنی سوچ، اپنی شخصیت کو ہر طرح کی کرپشن Corruption اور بُرائی Evil سے باہر نکال لیں گے تو صحیح معنوں میں ہم خود کو آزاد فرد کہہ سکیں گے۔
آزاد افراد کا مجموعہ ہی ایک آزاد قوم کو جنم دیتا ہے۔ آئیے آج 70ویں یومِ آزادی وطن پر ہم سب اپنے آپ سے عہد کریں کہ آج سے ہم خود کو اپنی ’’میں‘‘ اور ’’انا‘‘ کی غلام گردشوں سے آزادی دلوانے کی تحریک شروع کریں گے اور اپنی اِس مثبت سوچ کو اپنے دیگر ہم وطنوں کو منتقل کریں گے۔ آزادی کے چراغ اِسی طرح جلتے ہیں اور چراغ سے چراغ جلاتے رہنے کا نام ہی حقیقی آزادی ہے۔
The post یوں جلیں گے آزادی کے چراغ appeared first on ایکسپریس اردو.