کچھ عرصہ قبل ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بتایا کہ اگر وہ نئے الیکشن جیت کر برسراقتدار آئے تو صدارتی نظام حکومت کو اپنانا پسند کریں گے۔
ہمیں سمجھ نہیں آیا کہ خان صاحب ایسا کیوں چاہتے ہیں؟ جب اس بارے میں گفتگو ہوئی تو بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ عمران پارلیمانی نظام سے تنگ آئے بیٹھے ہیں۔کیوں کہ اس کی وجہ سے انہیں اپنی پارٹی میں ان جاگیرداروں‘ وڈیروں اور کرپٹ طاقتور خاندانوں کی اولادوں کو بھی شامل کرنا پڑتا ہے جنہیں پاکستانی روز اول سے میدان ِ سیاست میں گھوڑے دوڑاتے دیکھ رہے ہیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ’’آئین 1962کے ذریعے ایوب خان نے پاکستان میں صدارتی نظام نافذ کر د یا تھا‘ گو وہ اصل روح کے مطابق نہیں تھا۔ اس میں عوام نہیں بنیادی جمہوریتوں کے اسّی ہزار ارکان صدر کا انتخاب کرتے تھے۔ اس ادھورے صدارتی نظام میں بھی ایوب خان اچھے خاصے کام کر گیا۔ جب ایوب رخصت ہوا‘ تو اس کے صدارتی نظام کو بھی لپیٹ دیا گیا۔‘‘
ماہرین سیاسیات نے صدارتی اور پارلیمانی نظام ہائے حکومت کی خوبیوں اور خامیوں پر طویل بحثیں کر رکھی ہیں۔ اعداد و شمار کی رو سے دنیا کے ’’75 فیصد‘‘ جمہوری ممالک میں صدارتی طرز حکومت رائج ہے۔ یہ امر واضح کرتا ہے کہ بیشتر ملکوں میں صدارتی نظام کو فوقیت حاصل ہے۔ اس نظام میں صدر حکومت اور مملکت ‘ دونوں کا سربراہ ہوتا ہے۔
پارلیمانی نظام نے برطانیہ میں نشوونما پائی۔ یہی وجہ ہے‘ برطانیہ کی اکثر نو آبادیاں جب آزاد ہوئیں‘ تو انہوںنے اپنے سابق انگریز آقاؤں کے پارلیمانی نظام حکومت کو اپنانا آسان سمجھا اور اس کی خامیوں پر زیادہ غور و فکر نہیں کیا۔ اس نظام حکومت کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ خاص طور پر پاکستان میں آزادی کے فورا بعد انگریز آقاؤں کے طفیلی بہت سے جاگیردار ‘ امرا اور بااثر لوگ حکومت کے ایوانوں میں پہنچ گئے۔ وجہ یہ کہ اپنے اپنے انتخابی حلقوں میں انھیں ہی قوت و اختیار حاصل تھا۔چناں چہ وہ افسر شاہی کے ساتھ مل کر سیاہ وسفید کے مالک بن بیٹھے۔جب فوج نے سیاست سے گند صاف کرنے کی کوشش کی تو وہ بھی حکومتی ایوانوں میں آ پہنچی اور اسے اقتدار کا چسکہ لگ گیا۔
پارلیمانی نظام حکومت اسمبلیوں اور سینٹ کے ارکان کے ذریعے کام کرتا ہے۔ وزیراعظم‘ وزرا اور مشیر انہی ارکان اسمبلی میں سے چنے جاتے اور پھر حکومت چلاتے ہیں۔پاکستان اور جن ترقی پذیر ممالک میں پارلیمانی نظام حکومت رائج ہے،آج بھی وہاں یہ حال ہے کہ ایک انتخابی حلقے میں جو شخص زیادہ پیسے والا اور اثر و رسوخ کا مالک ہو‘ عموماً وہی ہر قسم کاالیکشن جیتا ہے۔ اس جیت کی خاطر وہ اپنا مال پانی کی طرح بہانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتا۔ بعض امیدوار برادری کے ووٹوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ایسے امیدوار جب اسمبلیوں میں پہنچیں‘ تو وہ ذاتی مفادات مقدم رکھتے ہیں، انہیں قانون سازی کرنے اور حکومت چلانے سے زیادہ غرض نہیں ہوتی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی منصوبے انجام دینے کے لیے فنڈز ملنے لگے۔ یوں مال کمانے کا نیا در کھل گیا۔
اب تو ایک ناخواندہ پاکستانی بھی جان چکا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام حکومت کی بنیاد کمزور ہے۔ اس نظام میں عام طور پر طاقتور اور دولت مند لوگ ہی اسمبلیوں سے لے کر کونسلوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ چناںچہ جمہوریت کے مشہور مقولے… عوام کی حکومت ‘ عوام کی طرف سے، عوام کے لیے … کا تو جنازہ نکل چکا۔ حقیقت یہ ہے کہ روز اول سے مخصوص طاقتور ٹولہ پاکستانی عوام پر حکومت کر رہا ہے۔ وہ پچھلے ستر برس میں محیر العقول طور پر بارسوخ اور امیر ہو چکا۔ جبکہ عوام کی اکثریت غربت و جہالت کے گدھوں کے پنجوں میں پھنسی بلبلا رہی ہے۔
برطانیہ‘ آسٹریلیا ‘ کینیڈا ‘ ملائیشیا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں پارلیمانی نظام حکومت اس لیے کامیاب ہوا کہ وہاں تقریباً 100فیصد آبادی تعلیم یافتہ ہے۔ ایک تعلیم یافتہ اور باشعور ووٹر جانتا ہے کہ اس کی ذات ،محلے اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے کون سا امیدوار موزوں رہے گا۔ وہ عموماً کسی لالچ‘ ترغیب اور خوف کے بغیر آزادی سے اپنا ووٹ استعمال کرتا ہے۔ مگر جن ممالک میں خواندگی کم ہے‘ وہاں پارلیمانی نظام حکومت کا ناگفتہ حال دیکھ لیجیے…اس نظام کے باعث مجرم تک حکمران بن بیٹھتے ہیں۔
اپنے پڑوسی‘ بھارت کی مثال ہی لیں۔ بھارت کی کئی سماجی تنظیموں کے مرتب کردہ اعداد و شمار انکشاف کرتے ہیں کہ بھارتی اسمبلیوں میں ایک سے ایک چھٹا ہوا مجرم بیٹھا ہے۔ کئی ارکان اسمبلی پر قتل‘ فراڈ‘ زنا اور چوری ڈاکے جیسے سنگین جرائم کے مقدمے چل رہے ہیں۔ جو بظاہر تعلیم یافتہ اور باشعور ہیں،قوم پسندی کے جراثیم نے انہیں بھی اقلیتوں کا مخالف بنا رکھا ہے۔ حکومت مٹھی بھر بااثر و امیر خاندانوں کے ہاتھوں میں ہے۔ جبکہ کروڑوں بھارتی غربت کے بوجھ تلے سسک سسک کر زندگی گزار دیتے ہیں۔
بھارت اور پاکستان‘ دونوں ممالک میں خصوصاً دیہی بااثر طبقہ تعلیم کا سخت مخالف ہے۔ وہ اپنے علاقوں میں اسکول کھلنے نہیں دیتا۔ اگر خوش قسمتی سے اسکول کھل بھی جائے تو جلد یا بدیر باڑے ‘ گودام،اصطبل یا نشیؤں کی آماج گاہ میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ علاقے کے بااثر لوگ اسکول کو چلنے ہی نہیں دیتے۔ دراصل انہیں علم ہے کہ پڑھ لکھ کر کمی کمین بھی اپنے حقوق سے واقف ہو جائیں گے۔ وہ پھر ان کی برابری کرنے لگیں گے اور دیہی معاشرے کے حاکم ایسا ہرگز نہیں چاہتے۔ بہر حال اب پرنٹ‘ الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کے پھیلاؤ سے حالات رفتہ رفتہ بدل رہے ہیں اور ایک ان پڑھ دیہاتی اور شہری مزدور بھی اپنے حقوق و فرائض کی بابت جان رہا ہے۔
انگلستان و امریکا کی تہذیب و تمدن کا پرچارک بھارتی و پاکستانی حکمران طبقہ بھی عوام کو تعلیم دینے سے دلچسپی نہیں رکھتا۔ اقوام متحدہ کے ادارے‘ یونیسکونے یہ قرار دار منظور کر رکھی ہے کہ ہر ملک اپنے جی ڈی پی کا کم از کم 4فیصد حصہ شعبہ تعلیم پر خرچ کرے۔ لیکن بھارتی حکومت بمشکل 3.5فیصد اور پاکستانی حکومت 2.3 فیصد رقم شعبہ تعلیم پر خرچ کرتی ہے۔ اس بجٹ کا بیشتر حصہ بھی تنخواہوں اور غیر تدریسی اخراجات پر لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے‘ آج بھی بھارت اور پاکستان میں کروڑوں ان پڑھ جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔
تعلیم یقینا ایک انسان کو باشعور اور ذمے دار شہری بناتی ہے۔گو زندگی کے تجربات بھی ایک انسان کو باشعور بنا سکتے ہیں‘مگر سیاست کے دائرہ کار میں تعلیم کی خوبی یہ ہے کہ وہ ایک عام شخص کو حقوق و فرائض سے آشنا کراتی ہے۔ پڑھ لکھ کر عام آدمی جانتا ہے کہ اس کے ووٹ کا اصل حق دار ایسا دیانتدار‘ باصلاحیت اور اہل امیدوار ہے جو ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتا ہو۔ ایسا امیدوار ووٹ کا اہل نہیں جو جائز و ناجائز طریقوں سے دولت کمانے اور طاقتور بننے کی خاطر اسمبلیوں میں پہنچنا چاہیے۔ انہی امیدواروں نے سیاست کو منفعت بخش کاروبار بنا لیا ہے۔
اگر پاکستانی معاشرے میں تعلیم و شعور عام ہو جائے‘ تو پارلیمانی نظام حکومت کی خوبیاں ظاہر ہو سکتی ہیں ۔تبھی غریب عوام غربت سے نجات پاکر ترقی کرسکتے ہیں۔ آسائشیں پا کر ان کی زندگی سہل ہو جائے گی۔ مگر فی الوقت مٹھی بھر طبقے نے پارلیمانی نظام حکومت پر قبضہ کر رکھا ہے اور صرف وہی اس کی برکات سے مستفید ہو رہاہے۔
عمران خان ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگا کر میدان سیاست میں داخل ہوئے۔ اس تبدیلی سے ان کی مراد نظام حکومت کو تبدیل کرنا ہے اور ان کے نزدیک صدارتی نظام حکومت موجودہ پارلیمانی طرز حکومت سے بہتر ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ صدر بن کر انھیں اتنی طاقت مل جائے گی کہ وہ فرسودہ نظام تبدیل کرنے والی پالیسیوں کو نافذ کر سکیں۔
پاکستان کے مخصوص حالات مدنظر رکھے جائیں، تو حقیقتاً صدارتی نظام حکومت زیادہ سود مند دکھائی دیتا ہے۔ اس نظام میں ارکان اسمبلی صرف قانون سازی کرنے تک محدود ہوجاتے ہیں۔ حکومت کرنے میں عموماً ان کا زیادہ حصہ نہیں ہوتا۔ وجہ یہ کہ صدر پارلیمنٹ سے باہر بیٹھے کسی بھی دانشور، عالم فاضل یا تجربے کار و اہل شخص کو وزیر بناسکتا ہے۔ گویا پاکستان میں صدارتی نظام رائج ہوا، تو ارکان اسمبلی کی قوت کم ہوجائے گی جبکہ عوام کے منتخب کردہ صدر کی طاقت بڑھے گی۔
صدارتی نظام کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس میں عوام کو دو بار ووٹ ڈالنے کا موقع ملتا ہے۔ یوں حکومت سازی میں ان کا کردار بڑھ جاتا ہے۔ عوام الناس پہلے اپنے ووٹوں سے ارکان اسمبلی منتخب کرتے ہیں۔ پھر دوسری بار وہ صدر کا براہ راست انتخاب کرتے ہیں ۔جو امیدوار صدر بن جائے، وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے من پسند شخصیات چُن کر وزیر مشیر بناسکتا ہے۔ یوں باصلاحیت اور اہل افراد پر مشتمل کابینہ وجود میں آتی ہے جو بہتر طور پر ملک چلانے کی صلاحیتیں رکھتی ہے۔ وطن عزیز میں تو یہ تماشا بھی ہوچکا کہ میٹرک فیل ارکان اسمبلی اہم عہدوں پر تعینات کردیئے گئے۔ یہ کرشمہ صرف پارلیمانی نظام میں جنم لینا ہی ممکن تھا۔
صدارتی نظام میں صدر بھی اہمیت اختیار کرجاتا ہے۔ پارلیمنٹ کو مرکزی حیثیت حاصل نہیں رہتی لہٰذا سیاست کاروبار نہیں بن پاتی۔ جبکہ پارلیمانی نظام میں سیاست نسل در نسل چلتی اور اور گنے چنے خاندانوں کا انتہائی منافع بخش بزنس بن جاتی ہے۔ پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے جہاں اب مخصوص کوٹے پر کئی گھرانوں کی خواتین بھی اسمبلیوں میں پہنچ رہی ہیں۔محسوس ہوتا ہے، انہیں قانون سازی نہیں حکومت کرنے اور فیشن سے زیادہ دلچسپی ہے۔
غنڈہ گردی اور مافیاؤں کی تشکیل بھی صدارتی نظام میں کم ہوجاتی ہے۔ جبکہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں تو خصوصاً دیہی معاشرے میں سیاست اور غنڈہ گردی لازم و ملزوم بن چکی۔ جو علاقے کا سب سے بڑا غنڈہ ہو، وہ یا اس کے ساتھی سیاسی عہدوں پر بیٹھے نظر آئیں گے۔ وہ اپنے علاقے میں راجے مہاراجے کی حیثیت رکھتے ہیں۔
صدارتی نظام حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس میں بیشتر طاقتیں صدر کی ذات میں مرتکز ہوجاتی ہیں۔ چناں چہ بعض اوقات وہ آمر بن بیٹھتا ہے۔ مگر پارلیمانی نظام حکومت میں بھی تو وزیراعظم آمر بن جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ صدارتی نظام حکومت میں صدر پر چیک اینڈ بیلنس ہوتے ہیں اور وہ تمام معاملات میں خود مختار نہیں ہوتا۔
برادر اسلامی ملک ترکی میں حال ہی میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے صدارتی نظام حکومت اپنالیا گیا ہے۔ پاکستان میں بھی اسی نوعیت کا ریفرنڈم کرایا جاسکتا ہے۔ ترکی میں فوج، افسر شاہی اور عدلیہ میں موجود عناصر حکومت کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہے تھے۔ انہیں ختم کرنے کی خاطر ہی ترک حکمران، طیب اردوان نے صدارتی نظام حکومت اپنانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ زیادہ طاقتور ہوکر دشمنوں کا خاتمہ کرسکیں۔
پاکستان میں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں ایک مخصوص ٹولہ طویل عرصے سے قومی وسائل کے بڑے حصہ سے فائدہ اٹھا رہا ہے جبکہ عوام کے حصے میں بیش بہا وسائل کا چھوٹا سا حصہ ہی آپاتا ہے۔ جس نے بھی پاکستانی عوام کو اس کا جائز حق دیا، چاہے وہ عمران خان ہو یا نواز شریف، بلاول زرداری ہو یا مریم صفدر، وہی عوام کا اصل ہیرو بن جائے گا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کا طاقتور مخصوص حکمران ٹولہ یہاں صدارتی نظام حکومت رائج ہونے دے گا؟ وہ تو اس کی سر توڑ مخالفت کرے گا۔ اسے علم ہے کہ عوام سے ووٹوں سے کوئی باصلاحیت عوامی رہنما صدر بن گیا، تو وہ سب سے پہلے ٹولے کے مفادات پر ضرب لگائے گا۔ مثلاً عوام دشمن ٹیکس نظام کا خاتمہ! تمام ترقی یافتہ ممالک میں امرا اپنی ’’60 فیصد‘‘ تک آمدن ٹیکسوں کی صورت حکومت کو دے ڈالتے ہیں۔ اسی آمدن سے ملکی نظام چلتا ہے۔ پاکستان میں الٹا حساب ہے۔ بہت سے امرا ٹیکس بچانے کی نت نئی ترکیبیں ایجاد کرتے اور اسے اپنا کارنامہ سمجھتے ہیں۔ اِدھر حکومت قرض لے اور ٹیکس بڑھا کر عوام پر مہنگائی کا بوجھ بڑھاتی جارہی ہے۔
The post پاکستان میں صدارتی نظام حکومت appeared first on ایکسپریس اردو.