انور شعور اس عہد میں اردو کے معروف اور مقبول شعرا میں شامل ہیں۔ ان کے کئی شعری مجموعے شایع ہوچکے ہیں۔ ان کے کلام کو پسند کرنے والوں کا حلقہ خاصا وسیع ہے۔ انور شعورؔ نے فن شاعری پر عمر عزیز کا بیشتر حصہ صرف کیا ہے اور ان کی ایک خوبی یہ رہی ہے کہ ان کے ابتدائی اشعار بھی ہر عام و خاص کی زبان پر سنائی دیتے ہیں۔ پورا نام انوار حسین خاں ہے۔
یوسف زئی پٹھان ہیں۔ اجداد نے برسوں قبل شمال مغربی سرحدی علاقے سے ہجرت کرکے فرخ آباد، قائم گنج، یوپی کو اپنا مسکن بنایا۔ اُن کی پیدایش11 اپریل 1943 کو مدھیہ پردیش کے ایک گائوں، سیونی میں ہوئی۔ والد اشفاق حسین خاںانتہائی مذہبی اور اصول پسند آدمی تھے۔ بعدازاں ان کا خاندان ممبئی میں جابسا۔ تقسیم کے بعد اُن کا خاندان ممبئی سے ہجرت کرکے کراچی آیا۔ انجمن ترقی اردو پاکستان، اخبارجہاں اور سب رنگ کراچی سے منسلک رہے۔ آج کل ایک اُردو روزنامے میں ایک قطعہ روز لکھتے ہیں۔
انور شعور کا کلام پاکستان اور سرحد پار کے ادبی پرچوں کے صفحات کی زینت بنتا رہتا ہے۔ ان کا شمار جدید غزل کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے۔ غزل کے رومان پرور شاعر ہونے کے علاوہ قطعہ نگاری بھی ان کی شہرت کا ایک بنیادی حوالہ ہے۔ رومانویت اور جمالیات ان کی شاعری کا خاصہ ہے۔ انور شعور اپنے قطعات میں زندگی کے روزمرہ کے موضوعات کو ایک قطعہ میں سمو دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ انور شعور کے اشعار میں مضمون آفرینی سے زیادہ زندگی کے تجربوں کی سچائی ملتی ہے۔ چھوٹی بحروں میں اشعار کہنے والے دھیمے لہجے کے مالک انور شعور سے کیے گئے ایک مکالمے کا احوال نذر قارئین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
٭ادبی سفر کا باقاعدہ آغاز کب کیا؟
انور شعور: گھر کا ماحول کافی حد تک مذہبی تھا۔ والد کے ساتھ باقاعدگی سے مسجد جایا کرتا تھا۔ کئی مرتبہ اذان بھی دی، جس سے نعت خوانی کا شوق پیدا ہوا، اور اسی شوق نے آگے جا کر شعر کہنے کی تحریک دی۔ سات سال کی عمر میں، میں نے نعت گوئی شروع کردی تھی۔ اردو اور فارسی کی نعتیں یاد کرنی شروع کیں، جس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ طبیعت خودبخود موزوں ہوگئی۔
بے بحر شعر منہ سے نکلنے کی بجائے حلق میں اٹک جاتا تھا۔ والدہ مطالعے کی بہت شوقین تھیں۔ گھر میں ’’عصمت‘‘ اور ’’بنات‘‘ جیسے رسائل کے علاوہ اخبارات اور بچوں کے پرچے پابندی سے آیا کرتے تھے، جن سے مطالعے کا شوق گھٹی میں پڑ گیا۔ اس کے علاوہ میں ’آنہ لائبریری‘ سے بھی کتابیں کرائے پر لایا کرتا تھا۔ ابتدا میں ہی صابری مسجد، رنچھوڑ لائن میں بچوں کو قرآن پاک پڑھانے والے مولانا افسر صابری کی صحبت میسر آئی جو خود بھی ایک کہنہ مشق شاعر تھے۔ افسر صابری نے میرے شوق کو دیکھتے ہوئے شاعری کے محاسن و معائب، رموز و قواعد گویا گھول کر پلادیے۔ انہوں نے ایک نعت لکھ کر دی جسے میں نے ایک مشاعرے میں پڑھا اور بعد میں وہ انور افسری کے نام سے ایک رسالے میں شایع بھی ہوئی۔
اس حوصلہ افزائی نے مزید لکھنے کا شوق پیدا کیا اور رفتہ رفتہ میرے مضامین بچوں کے رسائل اور اخبارات میں شایع ہونے لگے۔ استاد مولانا افسر صابری کے انتقال کے بعد کچھ عرصے تابش دہلوی اور سراج الدین ظفر سے اصلاح لی۔ لیکن مجھے آج بھی ایک استاد کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ تقسیم کے بعد شاعری میں استادی شاگردی کا رواج ختم ہوگیا، جس کی وجہ سے آج بے استاد شعرا، سخت محنت اور لگن کے باوجود، اچھا شعر نہیں کہہ پاتے۔ سخن شناسی ختم ہوگئی ہے۔ بیش تر شاعری فضول ہورہی ہے۔ دراصل دوسرے فنون کی طرح شاعری بھی ایک با قاعدہ فن ہے جو سیکھنے ہی سے آتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں بے باپ کا ہونا معیوب سمجھا جاتا ہے لیکن بے استاد ہونا اس سے بھی برا ہے، اس لیے کہ بے باپ ہونے میں اپنا قصور نہیں ہوتا مگر بے استاد ہونے میں قصور اپنا ہوتا ہے۔
کرو خدمتِ صاحبانِ ہُنر کی
ہُنر سیکھنے سے ہُنر آئے گا
٭ابتدائی تعلیم کب اور کہاں حاصل کی؟
انور شعور: مطالعے کے شوق کے باوجود نصابی کتب میں کبھی دل نہیں لگا۔ این جے وی، کاسموپولیٹن اور حسینی اسکول کا حصہ رہنے کے باوجود میں نے پڑھ کر نہیں دیا۔ گھر سے نکلتا اسکول کے لیے تھا لیکن باہر گھوم پھر کر رات گئے گھر لوٹتا تھا۔ اُس زمانے میں گلیوں میں کرکٹ، کنچے اور گلی ڈنڈے کی مشق توجہ کا مرکز تھی۔ ایک دن والد صاحب نے اسکول سے بھاگنے پر خوب دُرگت بنائی گئی۔ بس، اس دن کے بعد نہ کبھی لوٹ کر اسکول گیا اور نہ گھر، بعد میں والد صاحب سے رابطہ رہا، لیکن اپنی آوارگی اور سرکشی سے والد کو پہنچنے والے دُکھ کا افسوس آج تک ہے۔ گھر چھوڑنے کے بعد، بے سروسامانی کے ساتھ ریل میں سوار ہوکر حیدرآباد کا رُخ کیا۔
لیکن سیلانی فطرت کے باعث وہاں سے کوئٹہ بعد ازاں کراچی کا رُخ کیا اور پھر یہی کا ہوکر رہ گیا۔ یہاں ایک معروف تاجر، سیٹھ علی اکبر سے ایک مذہبی تقریب میں ملاقات ہوئی۔ اس تقریب میں، میں نے ایک منقبت پیش کی تھی۔ تعلقات بڑھنے پر علی اکبر صاحب نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔ یہ ٹھکانا میرے لیے ایک تربیت گاہ ثابت ہوا۔ سیٹھ صاحب میرانیس کے مداح تھے۔ اِسی عرصے میں کراچی کے شاعروں اور ادیبوں سے ملاقات کے سلسلے نے زور پکڑا۔ ریڈیو آنا جانا رہا، کافی ہائوس میں اٹھنے بیٹھنے لگا، جس نے میری ادبی صلاحیتوں کو مزید جلا بخشی۔
٭کہا جاتا ہے کہ ادب کو مکمل طور پر ذریعہ معاش نہیں بنایا جاسکتا، لیکن اگر آپ کے حالات زندگی پر نظر ڈالی جائے تو صورت حال اس کے برعکس نظر آتی ہے، آپ نے منقبت اور نعت گوئی سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا اور تاحال ادب ہی آپ کا ذریعہ معاش ہے۔ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
انور شعور: نعت گوئی میں نے بچپن سے ہی شروع کردی تھی، اس وجہ سے فارسی اور اُردو کی نعتیں بھی یاد کرتا تھا، دوسرے میں ادب پڑھتا بھی بہت تھا۔ تو بس اسے اتفاق کہیں یا کچھ اور، لیکن بچپن سے اب تک یہی ذریعہ معاش رہا۔ اخبارات کے لیے لکھا، ریڈیو کے لیے لکھا۔ پہلے تو پیسے بھی کم تھے اور اخراجات بھی، تو گزارا ہوجاتا تھا۔ اس لیے کسی اور شعبے کی طرف جانے کا سوچا بھی نہیں، پھر وقت کے ساتھ ساتھ نام بنتا گیا، لوگ عزت دینے لگے تو پھر ایک مستقل آمدن کا ذریعہ بھی پیدا ہوگیا۔ اب ادیبوں کو دیا جانے والا معاوضہ بھی بڑھ گیا ہے۔
جون ایلیا کے جریدے ’’انشا‘‘ سے بھی تعلق رہا، جو بعد میں ’’عالمی ڈائجسٹ‘‘ ہوگیا۔ اُس پرچے میں ’’یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘‘ کے عنوان سے سماجی و ادبی تقریبات کا حال لکھتا رہا۔ کُلی طور پر غزل کی جانب آنے کے بعد نثر نگاری ترک کر دی۔ جمیل الدین عالی کے توسط سے 64ء میں ’’انجمن ترقی اردو‘‘ میں دو سو روپے ماہ وار پر ملازمت ملی، سستا زمانہ تھا، تن خواہ کافی معلوم ہوتی تھی۔ مشفق خواجہ نے انجمن میں کام تفویض کرنے سے قبل کڑے امتحان سے گزارا۔ مخطوطات نقل کرنے کی ذمے داری مجھے سونپ دی گئی۔
ماہ نامہ ’’اردو زبان‘‘ بھی ایڈٹ کیا۔ 66ء میں ایک مشہور ہفت روزہ جاری ہوا۔ اس سے تقریباً ایک سال تک وابستگی رہی۔ پھر دوبارہ انجمن ترقی اردو آگیا۔ کچھ عرصے بعد ایک نئے ڈائجسٹ ’’سب رنگ‘‘ میں ملازمت اختیار کرلی اور وہاں تیس سال گزارے۔ اب ایک ممتاز روزنامے میں قطعہ نویسی ہی ذریعہ معاش ہے۔ مشق سخن کل کی طرح آج بھی جاری ہے۔ زندگی خوش گوار ہی گزری، ہمیشہ خوش رہنے کی کوشش کی۔ ادب ہی میرا اوڑھنا بچھونا رہا اور اسی سے میں نے بچوں کو تعلیم دلوائی، ان کی شادیاں کیں۔
٭آپ نے کالم، نثر نگاری اور مذہبی شاعری کا تجربہ بھی کیا، لیکن اس کے بعد خود کو غزل اور قطعہ گوئی تک محدود کرنے کی کوئی خاص وجہ؟
انور شعور: طبیعت میں کاہلی ہے، ایک ساتھ کئی کام کرنے کا شوق نہیں ہے ، چناں چہ خود کو غزل گوئی تک محدود رکھا۔ چار پانچ جگہ ایک ساتھ ہاتھ پائوں مارنے سے اچھا ہے کہ کسی ایک کام کو ہی مکمل ذمے داری اور بہترین طریقے سے سر انجام دیا جائے۔ اسی لیے میں نے خود کو غزل گوئی اور قطعہ گوئی تک محدود کیا ہے۔ ایسا نہیں کہ میں نے ادب کی دوسری صنف پر کام نہیں کیا۔ کالم نگاری، افسانہ نگاری اور مذہبی شاعری کا بھی تجربہ کیا، ’’حروف‘‘ کے نام سے ایک ادبی جریدہ بھی نکالا۔ قطعات کو کتابی شکل دینے کا ارادہ ہے، لیکن کاہلی آڑے آجاتی ہے۔ ویسے پڑھتا سب کچھ ہوں۔ فکشن، فکریات اور تاریخ سے بھی خصوصی دل چسپی ہے۔
٭ نثری نظم کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
نثری نظم کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور میری خواہش ہے کہ نوجوان اِس صنف کی جانب سنجیدگی سے توجہ دیں۔ نثری نظم کے میدان میں ذیشان ساحل، سارا شگفتہ اور اوپندرناتھ اشک کا کام بہت اچھا ہے۔
٭ آپ کا شمار جدید غزل کے نمائندہ شعرا میں ہوتا ہے، غزل کی صنف عہد حاضر کے تقاضے پوری کر رہی ہے؟
انور شعور: غزل کی قوت اور وسعت بہت زیادہ ہے، یہ صنف دقیق سے دقیق نکتے کا وزن سہہ سکتی ہے، جس کی سب سے بڑی مثال غالب اور اقبال کے ہاں ملتی ہے، جہاں سائنسی مسائل بھی موضوع بنے۔ اگر غزل اچھی ہے تو یقیناً وہ عہدحاضر کے تقاضے پوری کر رہی ہے۔ غزل نظم سے زیادہ لکھی جارہی ہے۔
٭ ادبی حلقوں میں آپ کا نام ستر کی دہائی تک کافی معروف ہوچکا تھا، لیکن پہلا مجموعہ کلام پچیس سال بعد شایع ہوا، طویل تاخیر کا سبب؟
انور شعور: شعر کہنے میں سستی آڑے نہیں آتی، لیکن اشاعت کے معاملات میں آتی ہے۔ تاخیر کا سبب صرف میری سستی تھی، حقیقت تو یہ ہے کہ میں نے آج تک اپنی کتاب اپنے پیسوں سے شایع نہیں کروائی، بس یہ میری کاہلی تھی، دوسرے یہ سوچ تھی کہ آج کل کتابیں پڑھتا کون ہے، جو کہ کسی حد تک درست بھی ہے، ایک بار کتاب چھپنے کے بعد دوسرے ایڈیشن کی نوبت ہی نہیں آتی، لیکن یہ میری خوش قسمتی رہی کہ میری ہر کتاب کے تین تین ایڈیشن شایع ہوئے۔ 95 میں پہلا مجموعہ ’’اندوختہ‘‘ شایع ہوا، جو ہاتھوں ہاتھ بک گیا۔ دوسرا ایڈیشن فوراً لانا پڑا۔ 2007 میں آرٹس کونسل آف پاکستان نے ’’اندوختہ‘‘ کا تیسرا ایڈیشن شایع کیا۔ ’’مشق سخن‘‘ دوسرا مجموعہ تھا، جو 99ء میں چھپا۔ 2006 میں ’’می رقصم‘‘ کی اشاعت ہوئی، جسے اکیڈمی ادبیات کی جانب سے علامہ اقبال ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2015 میں رنگ و ادب پبلی کیشنز نے ’’کلیاتِ انور شعور‘‘ شایع کی جسے ادبی حلقوں میں بے حد پسند کیا گیا۔ ایک مجموعہ ابھی اشاعت کے مراحل میں ہے، تاہم کوئی حتمی تاریخ دینے سے قاصر ہوں۔
٭ پاکستان میں اُردو کو رومن رسم الخط میں لکھنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ، آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
انور شعور: میں اردو کو رومن اسکرپٹ میں لکھنے کا حامی نہیں ہوں۔ رسم الخط اپنا ہی رہنا چاہیے، کیوں کہ رسم الخط کسی زبان کا لباس نہیں، بلکہ اُس کی کھال ہے۔ رسم الخط ختم ہونے سے اس زبان کو شدید نقصان پہنچتا ہے اور ایسا ہی معاملہ اردو کا بھی ہے۔
٭ بھارت اور پاکستان میں ہونے والی شاعری میں فنی اور فکری حوالے سے آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں؟
انور شعور: بقول فیض احمد فیض برصغیر میں اردو شاعری میں شروع سے دو لہریں ساتھ ساتھ چل رہی ہیں۔ ایک لہر میرتقی میر کی اور دوسری مرزا سودا کی۔ جوش ملیح آبادی کی لہر کا تعلق سودا سے اور فراق کی لہر کا تعلق میر کی لہر سے تھا۔ پاکستان اور بھارت میں ہونے والی اُردو شاعری میں فنی اور فکری حوالے سے یہی فرق ہے۔ پاکستانی شاعری میں میر تقی میر اور بھارت میں ہونے والی شاعری میں مرزا سودا کا رنگ جھلکتا ہے۔
٭ آپ کے مطابق اُردو پر پنجاب کے بہت احسانات ہیں اور پاکستان میں اُردو پنجاب کی بدولت زندہ ہے، اس رائے کا پس منظر کیا ہے؟
انور شعور: یہ بات حقیقت ہے کہ پاکستان میں اگر اُردو زندہ ہے تو اس میں اہل زبان سے زیادہ غیر اہل زبان کا اہم کردار ہے۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ اردو ادب میں قابل ذکر لکھنے والوں میں سب غیر اہل زبان ہیں، فیض احمد فیض، سعادت منٹو کو دیکھ لیں، اقبال کو دیکھ لیں ، نئے لوگوں میں عبداللہ حسین، بلونت سنگھ وغیرہ یہ سب غیر اہل زبان ہیں لیکن آپ ان کی اردو زبان پر گرفت دیکھیں، خشونت سنگھ نے اگر انگریزی کے بعد اگر کسی دوسری زبان میں لکھا ہے تو وہ اُردو ہے۔ انہوں نے ایک بڑا اچھا جملہ لکھا ہے کہ ’عبادت کام نہیں ہے، کام عبادت ہے‘ آپ اس جملے کی وسعت دیکھیں۔ اگر جائزہ لیا جائے، تو تقسیم ہند کے بعد اہل زبان کی تخلیقات میں ہمیں روایتی رنگ نظر آتا ہے، جب کہ پنجاب میں نئے تجربات ہوئے، شاعری اور فکشن، دونوں ہی اصناف میں معیاری کام ہوا۔ پنجاب کے اردو پر بہت احسانات ہیں۔ پاکستان میں اردو پنجاب ہی کی وجہ سے زندہ ہے۔ اردو کے تین اسکول ہیں، دکنی، لکھنوی اور دہلوی اسکول، اِس فہرست میں پنجاب کو بھی ہونا چاہیے، وہ ایک مدت سے اردو کا سب سے بڑا اشاعتی مرکز ہے۔
٭ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں زبان کی صورت حال پر آپ کیا کہیں گے؟ اس صورت حال پر شاعر اور ادیب آواز کیوں نہیں اُٹھا رہے؟
انور شعور: اس صورت حال پر بہت توجہ دینی کی ضرورت ہے، شاعر و ادیب اس پر آواز کیسے اٹھائیں، جب کوئی سیکھنے پر، سمجھنے پر راضی نہیں ہے، اس پر میرا ایک شعر ہے کہ؛
زبان ازسرنو سیکھنی پڑے گی ہمیں
کہ ہورہی ہے جہاں میں نئی لغت پیدا
اب اس ایک شعر میں آ پ کے پورے سوال کا جواب موجود ہے۔ اس میں طنز بھی ہے اور تبصرہ بھی۔
٭کوئی خواہش جس کے پورا نہ ہونے کا ملال اب تک ہو؟
انورشعور: ایسی خواہشات کی تو ایک طویل فہرست ہے، لیکن جب ایک چیز آپ کے نصیب میں ہی نہیں تھی تو پھر اس پر ملال کیسا؟ اسی لیے میں ماضی کی خواہشات کو چھوڑ کر حال کی خواہشات کی تکمیل میں رہتا ہوں۔
٭ہم عصر شعرا میں کس سے زیادہ متاثر ہیں؟
انور شعور: یوں تو سب ہی قابل تعریف ہیں، لیکن اُن کے کلام کی قدروقیمت کا حتمی فیصلہ وقت کرے گا۔
٭کیا اہل ادب کو سماجی تبدیلی کے لیے عملی جدوجہد کرنی چاہیے؟
انور شعور: ادیب، شاعر، صحافی سماجی تبدیلی کے لیے بہت جدوجہد کرتے ہیں۔ کارل مارکس سے ایک بار اس کی بیٹی نے پوچھا کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو اس نے کہا کہ ’جدو جہد‘ تو اہل ادب کی جدوجہد کی تو ایک طویل تاریخ ہے۔
٭ملک میں سیاست کے معاملات ہوں یا معاشرتی، معاشی مسائل اور ظلم واستحصال، ہمارے شاعر اور ادیب اس پر تخلیقی اظہار تو کرتے ہیں لیکن عملاً باہر نکلنے یا آواز اٹھانے سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں، جب کہ پڑوسی ملک میں ایسا نہیں، اس پر آپ کیا کہیں گے؟
انور شعور: ہر شخص کا اپنا اپنا دائرہ کار ہوتا ہے، اور وہ اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کوشش کرتا ہے۔ ادیب اور شاعر تو ویسے ہی بہت حساس ہوتے ہیں، ان کے دیکھنے کی نظر ہی الگ ہوتی ہے۔ ادیب اپنے قلم کو ہتھیار بنا کر معاشرے میں ہونے والے استحصال کے سد باب کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے ہیں۔
٭آپ سماجی اور سیاسی معاملات پر قطعات لکھتے ہیں، اس حوالے سے کبھی دباؤ یا دھمکیوں کا سامنا تو نہیں کرنا پڑا؟
انور شعور: اپنے قطعات کے حوالے سے مجھے کبھی بھی کسی دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بات یہ ہے کہ ہم لوگوں کو ناراض کرنے کے لیے تو لکھ نہیں رہے، اگر مجھے کسی سیاسی بات پر تنقید کرنی ہو تو میں کوشش کرتا ہوں کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو۔ ہاں ایک آدھ بار ایسا ہوا کہ کسی سانحے کی وجہ سے پورا ملک سوگوار تھا لیکن میرا مزاح پر مبنی قطعہ شایع ہوگیا۔ اس بات پر کسی نے مجھے دھمکیاں تو نہیں دی، لیکن کچھ لوگوں نے ناپسندیدگی کا اظہار ضرور کیا۔
٭روز قطعہ لکھنے کے باعث آپ کو معیار پر سمجھوتا تو نہیں کرنا پڑتا؟
انور شعور: روز ایک نئے موضوع پر قطعہ لکھنے پر کبھی کبھی معیار پر بھی سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔ اس بارے میں رئیس امروہوی صاحب کا کہنا تھا،’ادب میں آپ موڈ سے لکھتے ہیں اگر آپ کا دل نہیں چاہ رہا تو بعد میں لکھ سکتے ہیں، لیکن صحافت میں وقت کی اہمیت ہے اور آپ کا موڈ ہو یا نہ ہو آپ کو اسے وقت پر دینا ہے۔‘‘ میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ اچھے سے اچھا لکھوں، کیوں کہ آپ کا کام ہی آپ کی شناخت ہوتا ہے۔ تو بس اپنے طور پر تو ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ اچھے سے اچھے لکھوں لیکن پھر بھی کبھی نہ کبھی کوئی کوتاہی ہو ہی جاتی ہے ۔
٭پاکستان میں ادبی رسائل کی صورت حال پر کیا کہیں گے؟
انور شعور: پاکستان میں ادبی رسالہ نکالنا ایک ایثار ہے جو لوگ یہ ایثار کررہے ہیں وہ قابل رشک اور قابل قدر ہیں۔ ’’اﷲ کرے زورِعمل اور زیادہ‘‘ کتاب اچھی نہ ہو تو اس کی کوئی ادبی حیثیت نہیں ہوتی۔ کوئی چیز چھپنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ اچھی چیز چھپنے سے کچھ ہوتا ہے۔ ادب کی خرابیاں خودبخود ختم ہوجاتی ہیں۔ لہٰذا خراب کتابوں کی فکر نہ کیجیے وہ باقی نہیں رہیں گی۔
٭پسندیدہ شاعر، ادیب؟
انور شعور: فکشن میں مجھے کرشن چندر، منٹو اور بیدی سمیت کئی ادیبوں نے متاثر کیا۔ ناول میں ’’اداس نسلیں‘‘ اور ’’آنگن‘‘ خصوصیت سے اچھے لگے۔ من پسند شعرا کی فہرست طویل ہے۔ آغاز سراج دکنی سے ہوتا ہے، پھر ولی، میر، غالب، انیس، اقبال، حسرت، حالی اور داغ کا ذکر آتا ہے، آگے بڑھتے ہیں، تو مجاز، فیض، ناصر کاظمی، احمد مشتاق، منیرنیازی، ساحر لدھیانوی اور سیف الدین سیف کے نام آتے ہیں۔ ان شعرا سے مجھے بڑی محبت ہے۔
٭پسندیدہ گلوکار، گلوکارہ؟ اداکار اداکارہ؟
انور شعور: گائیکی میں لتا، نورجہاں اور مہدی حسن کا بہت مداح ہوں۔ بچپن میں خاصی فلمیں دیکھیں۔ دلیپ کمار اور نرگس کی اداکارانہ صلاحیتوں کا میں بہت معترف ہوں۔
٭کھانے میں کیا پسند ہے؟
انور شعور: ویسے تو سب ہی کھا لیتا ہوں لیکن کباب میرا من بھاتا کھاجا ہے۔
The post اردو ادب کے قابل ذکر لکھنے والوں میں سب غیراہلِ زبان ہیں appeared first on ایکسپریس اردو.