گھر کے اخراجات ہوں یا کاروبار کے لیے سرمایہ کاری، کوئی چھوٹا موٹا ادارہ ہو یا امورمملکت چلانے کے لیے درکار وسائل، پیسے کے بغیر کام نہیں چل سکتا۔
اسی طرح انتخابات بھی سرمائے کا کھیل بن کر رہ گئے ہیں۔ کوئی امیدوار ہو یا سیاسی جماعت، اس کے لیے بڑے پیمانے پر دولت خرچ کیے بغیر جیتنا تو کجا ڈھنگ سے انتخابی مہم چلانا بھی ممکن نہیں۔
پوری دنیا کے جمہوری ممالک کا جائزہ لینے کے بعد یہ امر واضع ہوتا ہے کہ انتخابات کے موقع پر مختلف ممالک میں دولت کا بے دریغ استعمال ہوتا آیا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ یقیناً ہر جمہوری ملک میں اس کا الیکشن کمیشن ان اخراجات کے لیے حدود کا تعین کرتا ہے اور اُن ممالک کی سیاسی جماعتیں ان حدود پر کاربند بھی رہتی ہیں۔ کیا پاکستان میں 2013کے انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی جانب سے متعین کیے جانے والے حدود پر ہماری سیاسی جماعتیں عمل پیرا ہوں گی؟ یہ آنے والے چند دنوں میں واضع ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں ہم پہلے ریاست متحدہ امریکا کی سیاسی جماعتوں کے اخراجات کا جائزہ پیش کرتے ہیں۔ اس مضمون میں دنیا کی چند بڑی جمہوریتوں کے انتخابات میں چلائی جانے والی مہمات پر خرچ کی جانے والی دولت کی بابت اعدادوشمار کا پیش کیے جارہے ہیں:
ریاست متحدہ امریکا کی سیاسی جماعتوں کے اخراجات
2012 میں بارک حسین اوباما دوسری مدت کے لیے دنیا کی واحد سپرپاور امریکا کے صدر بنے۔ اوباما سے پہلے یہ کارنامہ جونیئر بش بھی سرانجام دے چکے ہیں، جنہوں نے اپنے 8سالہ دور صدارت میں دنیا کو جنگ اور تباہی کے ’’تحفے‘‘ دیے۔ اوباما نے بھی وہی راہ اختیار کی جس بش جونیئر گام زن تھے۔ 2012میں امریکی صدارتی انتخابات امریکا کی تاریخ کے سب سے منہگے انتخابات تھے۔ ایک طرف امریکا دنیا میں مختلف جنگی محاذوں میں اُلجھ کر معاشی بدحالی کا شکار رہا تو دوسری طرف صدارتی انتخابی مہم پر بہ کثرت ڈالر نچھاور کیے گئے۔ دولت کا یہ استعمال انتخابات میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کے علاوہ دوسرے گروپوں اور تنظیموں نے بھی کیا۔ ان انتخابات میں پہلے پہل 500ملین ڈالر کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا تھا لیکن جلد ہی یہ ہندسہ تبدیل ہوگیا، جس کی بنیادی وجہ مختلف تنظیموں اور گروپوں کا اپنے مفادات اور تجارتی تحفظ کی خاطر اپنے اپنے اُمیدوار کو کام یاب کرانے کے لیے بے تحاشہ اپنی دولت خرچ کرنا تھا۔
ان آزاد گروپوں اور تنظیموں کی جانب سے خرچ کی گئی رقم کا تخمینہ کچھ یوں لگایا گیا کہ یہ سرمایہ ستمبر کے مہینے میں ہفتہ وار بنیادوں پر 19ملین ڈالر سے شروع ہوکر 33ملین ڈالر تک پہنچا اور اکتوبر تک یہ رقم 70ملین ڈالر فی ہفتہ کے حساب سے خرچ کی گئی، جب کہ صدارتی انتخابات کے اپنے اخراجات 2.6بلین ڈالر تھے، جو 2008 میں اس مد میں خرچ کی گئی رقم سے کم تصور کیے جاتے ہیں۔ 2008میں یہ رقم 2.8بلین ڈالر تھی۔ اس کے علاوہ پارٹیوں کے کنونشن وغیرہ پر 142ملین ڈالر الگ خرچ ہوئے۔ صدارتی انتخابات کے بعد کانگریس اور سینیٹ کے انتخابات میں بھی بیرونی سرمایہ چلتا رہا۔ یعنی بعض تنظیموں اور گروپوں نے 41ملین ڈالر خرچ کیے، جب کہ مجموعی طور پر انتخابات میں 1.82بلین ڈالر خرچ ہوئے۔
2012کے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی نے 2ارب 78کروڑ 65 لاکھ 55ہزار 4سو 30ڈالر خرچ کیے، جب کہ ری پبلکن پارٹی نے 3ارب 24کروڑ 58 لاکھ 47 ہزار 5 سو 96 ڈالر خرچ کیے۔ اسی طرح دونوں جماعتوں نے 2008کے صدارتی انتخابات میں جو رقم خرچ کی وہ کچھ یوں رہی تھی: ڈیموکریٹس نے 3ارب 60 لاکھ88 ہزار 4سو28ڈالر، جب کہ ری پبلکنز نے 2ارب23کروڑ 94لاکھ 12ہزار 5سو 70ڈالر خرچ کیے۔ رقم کے اس بے تحاشہ استعمال سے یہ امر واضع ہوجاتا ہے کہ امریکا جیسی سپرپاور اور جمہوریت پسند (صرف اپنے لیے) ملک میں بھی سیاسی عمل میں دولت کا عمل دخل بڑھتا جارہا ہے۔ وہ تنظیمیں، گروپس اور شخصیات جب اتنی خطیر رقم لگاتے ہیں تو اپنے مفادات کی خاطر ہی لگاتے ہیں اور یہ سلسلہ تقریباً پوری دنیا میں چلتا آرہا ہے۔
بھارت کی سیاسی جماعتوں کے اخراجات
بھارت جسے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے، اس جمہوریت کو پانے اور برقرار رکھنے کے لیے بھارتی کتنی دولت خرچ کرتے ہیں؟ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے: لوک سبھا کے گذشتہ انتخابات میں کل 1600اُمیدوار تھے، جن میں سے دست بردار ہونے والوں نے 14سے 25لاکھ انڈین روپے خرچ کیے جب کہ ڈٹے رہنے والوں نے کم سے کم 3کروڑ اور زیادہ سے زیادہ 5کروڑ کی اوسط سے روپیہ خرچ کیا۔ لوک سبھا کے انتخابات میں اُمیدواروں نے انتخابی مہم پر 358کروڑ انڈین روپے خرچ کیے۔
ایک رپورٹ کے مطابق زیادہ سے زیادہ خرچ کرنے والوں نے 8000کروڑ بھارتی روپے خرچ کرڈالے۔ اسی طرح اسمبلی کے انتخابات میں 12000اُمیدوار تھے، جن کا کم سے کم خرچہ 1کروڑ اور زیادہ سے زیادہ 3کروڑ اوسطاً رہا۔ اسمبلیوں تک پہنچنے میں ان 12000اُمیدواروں نے 2950کروڑ خرچ کیے۔ اگر بھارتی سیاسی جماعتوں کے اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سوائے کانگریس کے دوسری کسی بھی جماعت نے اپنے اخراجات پیش نہیں کیے ہیں۔ اُن جماعتوں میں بی جے پی، شیو سینا اور دوسری بڑی جماعتیں شامل ہیں۔ کانگریس واحد جماعت ہے جس کے اخراجات کی تفصیل سامنے آچکی ہے اور کانگریس کو بھارت کی امیر ترین جماعت کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ کانگریس نے 2009 میں اپنی انتخابی مہم پر 380کروڑ خرچ کیے جو 2004میں کانگریس کی جانب سے خرچ کئی گئی رقم سے کئی گنا بڑی رقم ہے۔
برطانیہ کی سیاسی جماعتوں کے اخراجات
بادشاہت کے بہ طور یادگار سنبھال رکھنے والی جمہوریت کی سرزمین اور ہر بین الاقوامی معاملے میں امریکا کا قابل اعتماد اتحادی برطانیہ، جس کے ہاں نافذ جمہوریت کے سبھی دل دادہ ہیں، بھی انتخابی اخراجات کے معاملے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ برطانیہ میں 2005 کے عام انتخابات میں مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے خرچ کی گئی رقوم کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ لیبر پارٹی نے اُس وقت کی برطانوی پارلیمان کی 627نشستوں میں سے 365نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور ان انتخابات میں لیبر پارٹی نے 1کروڑ 97لاکھ 39 ہزار6 سو17پائونڈ خرچ کیے۔ کنزرویٹیو پارٹی نے 627نشستوں میں سے 198نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور اپنی انتخابی مہم پر 1کروڑ 78لاکھ 52 ہزار2سو 40 پائونڈ خرچ کیے، جب کہ لب ڈم(Lib Dim)جماعت نے 627 نشستوں میں سے 62نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور 43لاکھ 24ہزار5سو74پائونڈ خرچ کیے۔
اسی طرح 2010 کے عام انتخابات میں کنزرویٹیو پارٹی نے 631 نشستوں میں سے 306 نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور 1کروڑ 66لاکھ 82 ہزار 8سو 74پائونڈ خرچ کیے۔ لیبر پارٹی نے 258نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور 80 لاکھ 9 ہزار 4 سو 83 پائونڈ خرچ کیے، جب کہ لب ڈم پارٹی نے 57 نشستوں پر کام یابی حاصل کی اور 47 لاکھ 87 ہزار 5 سو95 پائونڈ خرچ کیے۔
روس کی سیاسی جماعتوں کے اخراجات
سابق سپرپاور اور کمیونسٹ نظریے کا مرکز رہنے والے روس میں سیاسی جماعتوں نے انتخابی مہموں پر خطیر رقم خرچ کی۔ 2011کے انتخابات میں روس کی سیاسی جماعتوں نے 78.09ملین ڈالر (روسی کرنسی ربلز میں 2ارب41کروڑ9لاکھ)خرچ کیے۔ اخراجات کا یہ طوفان ’’ڈوما‘‘ اور صدارتی انتخابات میں سامنے آیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق جسے روسی الیکشن کمیشن نے جاری کیا لبرل یبلو کو (Libral Yabloko)جماعت نے سے سب سے زیادہ اخراجات کیے تقریباً 10ملین ربلز 366,000) ملین ڈالر)، دوسرے نمبر پر لیفٹ سینٹر فیئر رشیا پارٹی نے 9 ملین ربلز 330,000)ملین ڈالر( خرچ کیے۔ لیبرل ڈیموکریٹک پارٹی تیسرے نمبر پر رہی، جب کہ کمیونسٹ پارٹی کے اخراجات 303,000 ربلز 11,000)ملین ڈالر(رہے۔ ان سیاسی جماعتوں کی آمدنی کچھ یو ں رہی: یونائیٹڈ رشیا پارٹی اس معاملے میں پہلے نمبر پر رہی اس نے 70ملین ڈالر خرچ کیے، جب کہ کمیونسٹ پارٹی 7.8ملین ڈالر، فیئر رشیا پارٹی5 ملین ڈالر اور لبرل ڈیموکریٹس نے4.1ملین ڈالر خرچ کیے۔
پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے اخراجات
سال 2013کے انتخابات پاکستان میں کسی ان ہونی سے کم نہیں، پہلی بار جمہوری طریقے سے نگراں سیٹ اپ کی موجودگی میں انتخابات منعقد ہورہے ہیں۔ ایک غیرجانب دار اور مضبوط الیکشن کمیشن کی زیرنگرانی 2013کے انتخابات کا انعقاد ممکن ہونے جارہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم چلانے کے لیے اپنا ضابطہ اخلاق جاری کیا ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیاسی جماعتیں اور ان سے وابستہ شخصیات الیکشن کمیشن کے اس ضابطہ اخلاق پر عمل درآمد کریں گی یا پھر اپنے من چاہے فیصلے کریں گی۔ سیاسی جماعتوں کے انتخابی اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم 2008کے انتخابات کے دوران محض اشتہارات کی مد میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے خرچ کی گئی رقوم کا حوالہ دیں گے۔ 2008کے انتخابات میں سیاسی جماعتوں نے نہ صرف پوسٹرز، بینرز، جلسے جلوسوں اور اخبارات کے ذریعے ووٹرز کو اپنی طرف مائل کرنے کا طریقہ اپنایا، بل کہ نجی ٹی وی چینلز کا بھی سہارا لیا۔ صرف اشتہارات کی مد میں ساڑھے چوبیس کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ قاف لیگ نے 17کروڑ کے اشتہارات چلائے، ن لیگ نے اڑھائی کروڑ کے، پی پی پی نے ڈیڑھ کروڑ کے، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ فنکشنل اور دیگر چھوٹی جماعتوں کے مجموعی اخراجات بھی کروڑوں میں تھے۔
2013کے عام انتخابات کے سلسلے میں بھی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے اشتہاری مہم کا سلسلہ شروع کررکھا ہے خصوصاً نجی ٹی وی چینلز پر آج کل سیاسی جماعتوں کے اشتہارات کی بھر مار ہے۔ ہر جماعت اپنے سیاسی نغمے کے ساتھ اپنے اشتہارات چلارہی ہے۔ دیکھتے ہیں کہ یہ اشتہاری اخراجات کن حدوں تک پہنچتے ہیں۔ آیا الیکشن کمیشن کی حدود پار کی جاتی ہے یا پھر اس حد میں رہتے ہوئے یہ سلسلہ رک جاتا ہے۔