کارل کراوس آسٹریا کا مشہور دانش ور گذرا ہے۔
اس کا چشم کشا قول ہے:’’ کرپشن جسم فروشی سے بھی بدترین ہے۔ جسم فروشی سے ایک انسان کی اخلاقیات بگڑتی ہے‘ مگر کرپشن پوری قوم کا اخلاق تباہ کر ڈالتی ہے۔‘‘ یہ قول بالکل درست ہے۔ اب وطن عزیز کی صورتحال ہی دیکھ لیجیے۔قدرت نے پاکستان کو بے پناہ وسائل سے نوازا ہے۔ بدقسمتی سے قیام پاکستان کے وقت ہی کرپشن عوام و خواص سے چمٹ گئی ۔ اس کا آغاز زمینوں اور گھروں کی الاٹمنٹ سے ہوا۔ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اپنے ایک انگریزی مضمون میں لکھا ہے:’’ وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کو اس لیے بھی قتل کیا گیا کہ کرپٹ وزرا اور سرکاری افسر اُن کی موجودگی میں کرپشن نہیں کر سکتے تھے۔‘‘ یاد رہے ‘ جب لیاقت علی خان شہید ہوئے‘ تو ان کا بینک بیلنس تقریباً صفر تھا۔ ان کی سادگی و قناعت کی داستانیں زبان زد عام ہیں۔
چونکہ کرپشن کا زہر روز اول ہی سے پاکستانی معاشرے میں سرایت کرنے لگا‘ لہٰذا اس نے رفتہ رفتہ جڑیں پکڑ لیں۔ آج یہ عالم ہے کہ سیاست دانوں سے لے کر سرکاری افسروں تک کئی افراد سرعام کہتے ہیں کہ رشوت لینا ان کا حق ہے۔گویا کرپٹ لوگوں کے ضمیر اس حد تک مردہ ہو چکے کہ وہ اچھائی اور برائی کے مابین تمیز کھو بیٹھے ہیں۔روایتی رشوت لینا تو کرپشن کی محض ایک قسم ہے ،پاکستانیوں نے کرپشن کی کئی اقسام ایجاد کر لیں۔ مثلاً دولت چھپانے کے لیے ٹیکس چوری کرنا‘ جعلی کمپنیاں بنا کر رقم بیرون ممالک بجھوانا‘ سرکاری منصوبوں سے مال کھانا وغیرہ ۔
ان اقسام میں ٹیکس چوری کا جرم اسی لیے اہم ہے کہ وہ معاشی طور پر ملک کو کمزور کرنے کا مرتکب بنتا ہے۔اعداد و شمار کی رو سے پاکستان میں کم از کم 40لاکھ پاکستانیوں کو ٹیکس دینا چاہے۔ مگر صرف پانچ لاکھ پاکستانی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان پانچ لاکھ پاکستانیوں میں سے بھی کئی لوگ ایمان د اری سے پورا ٹیکس نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا دعوی ہے کہ پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے سب سے بڑے ادارے، ایف بی آر کے افسر اور کارندے کرپٹ ہیں۔ اس لیے وہ پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے کہ بیشتر رقم افسروں کی تجوریوں ہی میں جائے گی۔
بعض ماہرین کی رو سے ایف بی آر اور بزنس کمیونٹی ’’افہام و تفہیم ‘‘ کے ماحول میں کام کر رہے ہیں۔ بڑے کاروباری افراد ہر بار دو چیک لکھتے ہیں… ایک چیک تو سرکاری خزانے میں جمع ہوتا ہے اور اس کی رقم عموماً کم ہوتی ہے۔دوسرا چیک ایف بی آر کے افسر کے نام لکھا جاتا ہے ۔اس کی رقم تگڑی ہوتی ہے ۔یہ طریقہ واردات ا سی لیے اپنایا گیا تاکہ بزنس مین ٹیکس ا فسر کی مدد سے اپنی اصل دولت چھپا سکے۔ چناںچہ مستقبل میں جب کسی قسم کی پوچھ گچھ ہو اور قانون چھان بین کرے ‘ تو بزنس مین یہ نہیں بتا پاتے کہ بہت سی دولت کہاں سے آئی۔ وہ تو انہوں نے حکومت سے پوشیدہ رکھی ہوتی ہے۔
سونے پہ سہاگہ یہ کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام سرے سے ہی غیر منصفانہ بلکہ ظالمانہ ہے۔ اس کے باعث غریب ترین پاکستانیوں کو بھی ٹیکس دینا پڑتا ہے جبکہ امیر ترین پاکستانی دولت چھپا کر آرام و آسائش کی زندگی گذارتے ہیں۔ یہی نہیں‘ سرکاری ٹیکس نظام میں الٹا انہیں مراعات دی گئی ہیں۔ اس نظام کے باعث حکومت پاکستان کو کل ٹیکسوں کی ’’80فیصد‘‘ رقم متوسط اور غریب طبقوں سے ملتی ہے۔ جبکہ اس کل رقم میں امراء کے ٹیکسوں کی رقم کا حصّہ صرف ’’5 فیصد ‘‘ ہے۔ اسی غیر انسانی اور غیر اخلاقی نظام ٹیکس کے باعث پاکستان میں دولت کی تقسیم بھی انتہائی غیر منصفانہ ہے۔پاکستانی ٹیکس نظام کی سب سے بڑی خامی ان ڈائرکٹ یا بالواسطہ ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ یہ ٹیکس آمدن یا منافع نہیں خدمات (سروسز) اور اشیا کی خرید و فروخت پر عائد کیے جاتے ہیں۔ چناںچہ دس ہزار روپے ماہوار کمانے والے غریب پاکستانی کو بھی بجلی‘ گیس‘ پٹرول ‘ موبائل فون وغیرہ پر عائد ٹیکس ادا کرنے پڑتے ہیں اور حکومت پاکستان کو اسی قسم کے ٹیکسوں سے ’’80 فیصد‘‘ آمدن ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر پاکستان میں کروڑوں لوگ موبائل یا سمارٹ فون استعمال کرتے ہیں۔ ان میں غریب ترین طبقہ بھی شامل ہے جو عموماً روزانہ محنت مزدوری کر کے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھتا ہے۔ ان سے کسی قسم کا ٹیکس لینا ظلم کرنے کے مترادف ہے۔ لیکن یہ بھی موبائل استعمال کرتے ہوئے حکومت کو ٹیکس ادا کرتے ہیں۔اسی واسطے حکومت پاکستان نے پچھلے سال موبائل و سمارٹ فون استعمال کرنے والوں سے 4.6 ارب ڈالر (چار کھرب ساٹھ ارب روپے) کی خطیر رقم حاصل کی تھی۔
پاکستان کا ٹیکس نظام غریب اور امیر میں کوئی فرق واضح نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے‘ اس ظالمانہ ٹیکس نظام میں غریب ترین پاکستانی بھی مختلف ان ڈائرکٹ ٹیکس ادا کرنے پر مجبور ہے۔ صد افسوس کہ حکمران جانتے بوجھتے بھی اس غیر انسانی ٹیکس نظام کو برقرار رکھے ہیںکیونکہ یہ ان کے مفاد میں ہے۔
وطن عزیز میں جو حکومت آئے‘ وہ غریبوں کی قسمت بدلنے کے بلند و بالا دعوے کرتی ہے لیکن حقیقت میں شروع سے غریبوں کے استحصال کا جو غیر انسانی نظام جاری ہے‘ اسے بالکل نہیں چھیڑا جاتا۔ جو نیا حکمران آئے وہ غربا پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لاد دیتا ہے‘ حالانکہ غریبوں میں مزید رقم ادا کرنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ غریب دشمن اور انتہائی ظالمانہ ٹیکس نظام نجانے کب بدلے گا۔حکومت پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اُسے ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے 60فیصد آمدن ہوتی ہے۔
ایسے ٹیکسوں میں سیلز ٹیکس‘ سروس ٹیکس‘ ویلیو ایڈڈ ٹیکس‘ ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی شامل ہیں۔ جبکہ ڈائریکٹ ٹیکسوں میں انکم ٹیکس ‘ کارپویشن ٹیکس‘ پراپرٹی ٹیکس‘ وراثتی ٹیکس‘ گفٹ ٹیکس اور ویلتھ ٹیکس شمار ہوتے ہیں۔لیکن غیر سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان کو ڈائریکٹ ٹیکسوں سے صرف ’’11.2 فیصد‘‘ آمدن ہوتی ہے۔ اسے 88.8 فیصد آمدن ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں ملتی ہے۔اگر فرض کرلیا جائے کہ پاکستانی حکومت کو ’’25 فیصد‘‘ آمدن ڈائریکٹ ٹیکسوں سے ہوتی ہے، تب بھی جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک کے مقابلے میں یہ عدد بہت کم ہے۔ مثال کے طور پر بنگلہ دیش میں یہ عدد ’’46-30 فیصد‘‘ ہے۔ گویا بنگلہ دیشی حکومت ٹیکسوں کی مد میں اپنی تقریباً آدھی آمدن ڈائریکٹ ٹیکسوں سے کماتی ہے۔ بھارت میں یہ عدد ’’33.45‘‘ ہے۔
اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ بنگلہ یش اور بھارت میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی شرح کم ہے۔ گویا ان ملکوں میں ٹیکس دینے کا بوجھ امرا پر زیادہ ہے اور ایسا ہی ہونا چاہیے۔ مثلاً بنگلہ دیش میں امیر ترین ’’10 فیصد‘‘ لوگ ٹیکسوں کی کل آمدن میں سے ’’35 فیصد‘‘ رقم ادا کرتے ہیں۔ گویا بنگلہ دیش میں غربت اور متوسط طبقوں پر پاکستان کی طرح ٹیکسوں کا بوجھ نہیں ڈالا گیا۔ یہ بہتر انتظام (گورنس) کی نشانی ہے جس کے لیے بنگلہ دیشی حکمران کی تعریف کی جانی چاہیے۔
کچھ عرصہ پہلے پاکستان کے مشہور ادارے، انسٹی ٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹس نے ایک پری بجٹ سیمینار کرایا تھا۔ اس میں ماہرین معاشیات نے افشا کیا کہ پاکستان میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ غریب و متوسط طبقے نہایت تنگ ہیں۔ یہاں مہنگائی ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی ان ڈائریکٹ ٹیکس بھی ہیں جو ’’80 فیصد‘‘ پاکستانیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ دوسری طرف امرا کی اکثریت ٹیکس دینے سے کتراتی اور جھوٹے اعدادو شمار پیش کرتی ہے۔ ان لوگوں میں نامی گرامی سیاست داں، زمین دار، سرکاری افسر، صنعت کار وغیرہ شامل ہیں۔
ٹیکس چوری کے افسوس نا ک عالم میں ایف بی آر کی کارکردگی بھی نہایت مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔ اس ادارے کا سالانہ بجٹ اربوں روپے ہے۔ لیکن وہ امرا کو ٹیکس نظام میں لانے میں ناکام رہا ہے۔ اس ناکامی کی اہم وجہ یہی ہے کہ ایف بی آر میں بھی کرپشن در آئی ہے۔ حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر 15 فیصد ود ہولڈنگ ٹیکس لگا رکھے ہیں۔ ایف بی آر کو 80 فیصد رقم انہی ٹیکسوں سے ملتی ہے۔ گویا اس نے سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال رکھا ہے جبکہ امرا چین کی بانسری بجانے میں مصروف ہیں۔
پاکستان کی موجودہ حکومت نے ٹیکسوں کے نظام میں اصلاحات متعارف کرانے کی خاطر 2015ء میں ٹیکس ریفارمز کمیشن تشکیل دیا تھا۔ اس کی مرتب کردہ رپورٹ پچھلے سال فروری 2016ء میں شائع ہوئی۔ اس رپورٹ نے بھی واضح کیا کہ وطن عزیز میں ٹیکسوں کا نظام غیر فطری طور پر امراء کے حق میں جھکا ہوا ہے جبکہ غریب اور متوسط طبقے ٹیکسوں کے بوجھ تلے سسک رہے ہیں۔ رپورٹ میں حکومت سے سفارش کی گئی کہ ٹیکسوں کا نظام نئے سرے سے بنایا جائے تاکہ اس میں موجود ساری خامیاں دور ہوسکیں۔اسی رپورٹ نے افشا کیا کہ ایف بی آر کے ریجنل ٹیکس دفاتر ٹیکسوں کی مجموعی رقم، تقریباً 31 ارب ڈالر میں صرف 68 ملین ڈالر اکٹھی کرتے ہیں ۔جبکہ ایف بی آر ان دفاتر کو چلانے کے لیے 78 ملین ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ گویا اگر یہ دفاتر ختم کردیئے جائیں، تو حکومت کو 10 ملین ڈالر کی بچت ہوگی۔ فی الوقت تو ان دفاتر کے باعث سرکاری خزانے کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
پروفیسر عبید پاشا امریکا کی یونیورسٹی آف میسا چوسٹس امرسٹ سے وابستہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان میں ’’44 فیصد‘‘ دولت امیروں کے ہاتھ میں ہے۔ مگر ٹیکسوں کی آمدن میں ان کا حصہ صرف ’’5 فیصد‘‘ ہے۔ یہ خرابی عیاں کرتی ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام انتہائی خراب ہوچکا۔
ان کا کہنا ہے ہر ملک میں مقامی ضروریات کے مطابق ٹیکس نظام موجود ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں سبھی امرا ٹیکس ادا کرتے ہیں مگر ملٹی نیشنل کارپوریشنوں اور صارفین (کنزیومرز) پر ٹیکسوں کی شرح زیادہ ہے۔ مگر برطانیہ، فرانس اور بیشتر یورپی ممالک میں امرا ہی سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ مغربی ممالک میں آبادی کا ’’60 فیصد‘‘ حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ پروفیسر عبید پاشا کہتے ہیں ’’پاکستان میں معاملہ الٹ ہے۔ پاکستان میں متوسط اور غریب طبقے زیادہ ٹیکس دیتے ہیں جبکہ امراء بہت کم یا بالکل ٹیکس ادا نہیں کرتے۔‘‘
برطانیہ ہی کی مثال لیجیے۔ وہاں سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے ’’10 فیصد‘‘ مردوزن سال میں 51,000 پونڈ سے زیادہ کماتے ہیں۔ انہی 10 فیصد افراد سے حکومت برطانیہ کو ٹیکسوں کی کل آمدن میں سے ’’59 فیصد‘‘ رقم حاصل ہوتی ہے۔ گویا برطانیہ میں امیر ترین طبقہ سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے اور یہی بات قانونی، اخلاقی اور انسانی لحاظ سے درست ہے۔
اب یہ وقت کی ضرورت ہے کہ پاکستان میں ٹیکسوں کا نظام نئے طریقے سے وضع کیا جائے تاکہ وہ منصفانہ اور عوام دوست بن سکے۔ اس نظام کو متعارف کرانے سے پاکستان میں غربت اور جہالت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔ نیز زمین داروں اور جاگیرداروں سمیت پاکستان کا طاقتور ایلیٹ و امیر طبقہ مجبور ہوجائے گا کہ وہ اپنے حصے کا ٹیکس ادا کرے۔ ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی انصاف پسند ٹیکس نظام کی بنیاد ڈالنے میں بھی مضمر ہے۔ یاد رکھیے، ٹیکس ادا کرنا کوئی سزا نہیں بلکہ بہ حیثیت شہری یہ آپ کی ذمے داری ہے۔
The post ٹیکسوں کا گورکھ دھندا appeared first on ایکسپریس اردو.