Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

فقیرا بھگت؛ صدیوں کے کرب میں ڈوبی چولستانی آواز

$
0
0

فقیرا بھگت صحرائے چولستان کا ایک خود رو پھول تھا، یہ پھول جب جوبن پہ آیا تو اس نے اپنے رنگوں اور خوشبو سے ماحول کو حسن زار بنا دیا۔ اس نے لگ بھگ چالیس برس کی عمر پائی اور اپنی خوبصورت یادیں چھوڑ کر عین جوانی میں راہی ملک عدم ہوا۔ اس کی گائیکی آج بھی لاجواب اور سننے والوں کے قلب و روح کو گرماتی اور کانوں میں رس گھولتی ہے۔

فقیرا نے ساری عمر عارفانہ کلام اور اس میں بھی زیادہ تر خواجہ غلام فرید سائیں کی کافیاں گائیں، عارفانہ کلام کے ساتھ ساتھ اس کی گائی ہوئی لوریاں جنہیں سرائیکی زبان میں لولیاں کہتے ہیں اور سہرے بھی بہت مشہور ہوئے۔ اصغر بہاولپوری نے فقیرا کے اعزاز میں منعقد ہونے والی ایک بہت بڑی تقریب پذیرائی میں یہ بتایا کہ ان کی گائی ہوئی ایک لوری جسے شیریں پاشا نے اپنے ایک ڈرامہ ” ایک ہی راستہ “میں شامل کیا، جسے بعدازاں ہالی وڈ میں مقابلے میں بھیجا گیا، جہاں فقیرا کی گائی ہوئی لوری ہی کی وجہ سے اس ڈرامہ کو انعام ملا۔ فقیرا بھگت کی خاص بات اس کی سادگی تھی، اچھی گلوکاری کے لئے رسیلی، سریلی اور درد کی آنچ والی آواز درکار ہوتی ہے، جب کہ ایک اچھا فنکار ہونے کے لئے حلیمی، درویشی اور خاکساری درکار ہے اور اس فقیر منش گلوکار میں یہ سبھی اوصاف موجود تھے۔

چونکہ دور دراز کے فنکاروں پر کبھی کچھ لکھا نہیں جاتا، اس لئے ان کے بارے میں خاندانی روایت اور سینہ گزٹ پر ہی انحصار اور یقین کرنا پڑتا ہے۔ فقیرا بھگت کے والد کے پردادا کا نام جانی رام تھا اور ان کی عقیدت اور دوستی خواجہ غلام فرید سائیں کے ساتھ تھی، عمر میں وہ خواجہ سائیں سے کافی بڑے تھے، اس بنا پر خواجہ سائیں ان کی عزت اور قدر بھی کرتے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خواجہ صاحب جانی رام کے ہاں مہمان بھی بنتے اور جانی رام بھی کئی کئی روز خواجہ سائیں کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ روہی چولستان کی اندر کی زندگی کے بارے میںعمیق معلومات کے لئے بھی خواجہ صاحب جانی رام سے ہی استفادہ کرتے تھے۔

ایک بار جانی رام، خواجہ صاحب کے پاس مہمان تھے کہ خواجہ صاحب کے مرید خاص نواب صاحب آف بہاولپور نے اپنا بندہ یہ پوچھنے کے لئے خواجہ صاحب کے پاس بھیجا کہ وہ ان کے ہاں کب تشریف لائیں گے؟ خواجہ صاحب نے جواباً کہا کہ ابھی میرے پاس جانی رام آئے ہوئے ہیں،کچھ معلوم نہیں کب آسکوںگا۔ والیٔ ریاست نے دوبارہ آدمی کو روانہ کیا اس استدعاکے ساتھ کہ جانی رام سے پوچھ کر بتا دیں کہ وہ کب تک قیام پذیر ہیں۔ اس کے جواب میں آپ نے کہا کہ وہ میرے ہاں مہمان ہیں، میں جانی رام سے کیسے پوچھ سکتا ہوں کہ ان کا قیام کب تک رہے گا۔ ایک بار خواجہ صاحب نے جانی رام سے کہا کہ بتاؤ تمہیں کیا چاہیے؟

جانی رام نے عرض کی کہ سرکار دعا فرمائیں کہ میری سات نسلوں کو رنگ لگ جائیں اور میری اولاد میں سے کوئی ایک ایسا ہو جو آپ کا کلام گائے اور اس کی چرچا کرے۔ فقیرا بھگت کے گھروالوں کا یہ ماننا ہے کہ فقیرا بھگت خواجہ سائیں کی دعا ہی کا نتیجہ تھا۔

ضلع رحیم یار خان کی تحصیل لیاقت پور کے معروف قصبہ فیروزہ سے ذرا ہٹ کر روہی کے اندر نواں کوٹ کے نام کا ایک موضع ہے، جو ٹوبھہ تلا کے قریب ہے‘ فقیرا بھگت اسی گاؤں میں 1959ء میں پیدا ہوا، انہی دنوں وہاں ایک فقیر آیا جس نے کہا کہ اس بچے کا نام فقیرا رکھو چناں چہ یہی نام رکھا گیا، گانے والے کو ہندو روایات کے مطابق بھگت کہتے ہیں، یوں وہ فقیرا بھگت کہلایا۔ یہیں پروہ پلا بڑھا، استادآڈو بھگت رام سینئر سے سنگیت کی تعلیم لی اور اپنی گائیکی سے پورے وسیب میں دھوم مچا دی، پھر لاہور کارخ کیا تو وہاں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور جب باہر کے ملکوں میں جا کر پرفارم کرنے کا موقع ملا تو وہاں بھی یہ ثابت کر دیا کہ اگر لحن میں سوز و گداز ہو، گائیکی میں سُر اور لے ہو تو بیان کرنے کے لئے الفاظ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہ جاتی۔

جب ولایت جا کر گایا تو گوروں کو خوابیدہ اور گوریوں کو آبدیدہ کر دیا۔ فقیرا کے والد سدو رام تھے، دادا ساجا رام اور آگے ان کے باپ کانام موہن رام تھا، موہن رام، جانی رام کے بیٹے تھے۔ سنگیت کی دنیا کا یہ روشن ستارہ 11 مئی 1999ء کو ہم سے بچھڑ گیا اور سورگ باشی ہوا۔ وہ ہیپاٹائٹس کے موذی مرض کا شکار ہوگیا تھا اور اپنے بہت ہی عزیز دوست ڈاکٹر اشو لال کی پوری توجہ اور بھاگ دوڑ کے باوجود وہ بچ نہ سکا۔

فقیرا چولستان کا ایک ہیرا تھا، جب یہ ہیرا عالمی منظر میں پہنچا تو وہاں بھی تہلکہ مچ گیا‘ گورے اور گوریاں جو بے شک سرائیکی زبان نہیں جانتے تھے، مگر وہ موسیقی کی عالمی زبان سے تو خوب واقف تھے، لہٰذا گانے والے کے دل سے نکلنے والی وہ پُرسوز آواز جو صدیوں کے دکھ اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھی، سیدھی دلوں میں اترتی گئی اور کسی غیرملکی مرد و زن کو یہ ضرورت پیش نہیں آئی کہ وہ فقیرا بھگت سے آ کر یہ پوچھے کہ ابھی ابھی آپ جو گا رہے تھے وہ کیا تھا اور اس کا مطلب کیا تھا؟ جو فقیرا بھگت کی گائیکی سے مدہوش ہو گیا،کچھ دیر کے لئے کسی اور کیفیت اور عالم میں چلاگیا۔

جس کی آنکھیں نم آلود ہو گئیں اور جس کے منہ سے بے اختیارچیخیں نکل گئیں بھلا وہ مطلب کیوں پوچھے گا۔ چولستانی کان کا یہ نایاب ہیرا جو اپنے ظاہر و باطن سے فقیر منش اور سرتاپا بھگتی رنگ میں ڈوبا ہوا تھا، فقیرا ایسا بھگت تھا جو چولستان کی ایک چھوٹی سی بستی کی کٹیا سے نکلا اور اپنی خوبصورت آواز کے سحر سے محلات میں رہنے والوں کو مست اور مبہوت کر دیا۔ آہ ! وہ فقیر وہ بھگت وہ سادہ لوح انسان، وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے وا لا سانول، وہ ساون کا بادل عین جوانی اور فن کے عروج کی پرواہ کئے بغیر بھرا میلہ چھوڑ کر چلا گیا۔ فقیرا بھگت کی بہت سی گائیکی انٹر نیٹ پردستیاب ہے اور یہ امر خود ایک نعمت غیر مترقبہ سے کسی طرح کم نہیں ہے کہ فقیرا بھگت نے زیادہ تر تو خواجہ غلام فریدسائیں کا عارفانہ کلام گایا ہے‘ اس کے علاوہ انہوں نے سرائیکی فوک، چولستانی گیت اور لولیاں یعنی لوریاں اور سہرے گائے ہیں۔

فقیرا بھگت کی درویش طبیعت کا ایک قصہ بہت مشہور ہوا اور وہ یہ کہ جب وہ پہلی بار ریڈیو سٹیشن بہاولپور آیا تو اس نے اپنے جوتے گیٹ پر ہی اتار دیئے کہ یہ فن پیش کرنے اور روزی حاصل کرنے کی جگہ ہے اور پھر ہمیشہ ایسا ہی کرتا رہا۔ اس بظاہر معمولی مگر در حقیقت بہت غیرمعمولی عمل کے پیچھے کارفرما اس کے صاف ذہن و فکر اور معصوم قلب و روح کو دیکھا جا سکتا ہے، یہ تھا ہمارا فقیرا بھگت۔ اسے اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کے مواقع پاکستان کے مختلف شہروں میں تو ملتے ہی رہے‘ ملک سے باہر جانا بھی اسے نصیب ہوا اور انگلینڈ‘ جرمنی میں جا کر اس نے اپنے ملک کا نام ایسا روشن کیا کہ وہاں موجود گورے‘ گوریاں اس کی گائیکی کے عاشق ہو گئے۔ فقیرا بھگت کی طبیعت میں حلیمی، ٹھہراؤ، محبت، حسن سلوک اور فقیری تھی، جو سب کے لئے تھی۔

آنجہانی فقیرا بھگت کے بڑے بیٹے موہن بھگت اس وقت اپنے عنفوان شباب میں ہیں جب وہ سٹیج پرآتے ہیں اور اکتارا پکڑ کرسریلی آواز اُٹھاتے ہیں تو ہو بہو اپنے والد آنجہانی فقیرا بھگت کی تصویر لگتے ہیں۔ آڈو بھگت (جونیئر) فقیرا بھگت کے چھوٹے بھائی ہیں اور عمر میں موہن بھگت کے ہم عمر یا ان سے چند سال بڑے ہوں گے، قدرت کی طرف سے انہیں ایسی خوبصورت آواز ودیعت ہوئی ہے کہ سننے والوں کا جگر چیر کے رکھ دیتی ہے۔

ایسا لگتا ہے چولستان کی تمام محرومیوں کا کرب آڈو بھگت کی آواز میں ڈھل گیا ہو، ان کی آواز کبھی زخمی ہرن کی چیخ معلوم پڑتی ہے تو کبھی اس پر بہت دور سے سنائی دینے والی کسی دکھیاری کی درد بھری سسکیوں کا گمان ہوتا ہے، یہ لفاظی نہیں بلکہ حقیقت ہے کیوں کہ الفاظ میں آڈو بھگت کی پُرسوز آواز کا نقشہ کھینچنا راقم کے لئے تو ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ اپنے بچپن میں اپنے بھائی فقیرا بھگت کی سنگت بھی کرتے رہے اور ان کے ساتھ جرمنی بھی گئے اور وہاں بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ ابھی کچھ عرصہ قبل وہ لوک ورثہ اسلام آباد کی جانب سے منعقد کئے جانے والے ایک مہینے پر مشتمل میلے میں شریک ہوئے۔

جہاں ہر رات انہیں سنا گیا اور آڈو بھگت نے لوگوں کو ’’پاگل‘‘ کر دیا۔ اس خاندان کے اور بھی کئی نوجوان ہیں جو موسیقی کے ساتھ وابستہ ہیں‘ کوئی ڈھولک بجانے کا ماہر ہے‘ کوئی مجیرے کا‘ کوئی ہارمونیم کا اور کوئی شیشے بجانے کا مگر ایک بات سب میں سانجھی ہے اور وہ یہ کہ گو ان لوگوں کی اپنی مادری زبان مارواڑی ہے مگر ایک تو وہ گاتے سرائیکی ہیں دوسرا زیادہ تر سائیں خواجہ غلام فرید سرکار کا صوفیانہ کلام گاتے ہیں۔

بہاولپور سے شائع ہونے والے سہ ماہی رسالے ’’الزبیر‘‘ کے شمارہ 2013ء میں معروف ناول نگار ،بیوروکریٹ طارق محمود کی خودنوشت کی پہلی قسط شائع ہوئی تھی، جو بہاولپور میں ان کے بطور کمشنر تعنیاتی کے دور سے متعلق ہے۔ اس مضمون میں انہوں نے فقیرا بھگت کا ذکر نہایت محبت کے جذبات کے ساتھ قلمبند کیا ہے، ملاحظہ ہو:۔

(کمشنر صاحب کے پاس ان کی رہائش گاہ پر ان دنوں معروف اہل قلم عائشہ صدیقہ اور صدیقہ بیگم بطور مہمان موجود تھے، یہاں سے بات آگے چلتی ہے۔ طارق محمود بیان کرتے ہیں )۔۔۔۔ ’’ہمیں وہاں بیٹھے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ پتہ چلا کہ فقیرا بھگت آیا ہوا ہے‘ ملنے کا متمنی ہے۔ فقیرا چولستان کا ایک لوک فنکار تھاجس کی اب لاہور کے موسیقی کے حلقوں میں پذیرائی بڑھتی جا رہی تھی۔

اس کی آواز میں بلا کاحسن تھا‘ صحرائی کھردرے پن نے اس کی آواز کو بڑا مستند بنا دیا تھا۔ مہمانوں سے پوچھا تو انہوں نے خوش دلی سے فقیرے بھگت کو وہیں بلانے کا کہہ دیا۔ کچھ ہی دیر میں فقیرا ہمارے درمیان تھا‘ اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر سلام کیا۔ فقیرے نے سر پر چنری کی پگڑی پہن رکھی تھی‘ ہلکے نیلے رنگ کے کرتے اور چیک دار تہبند، کڑھائی والے کھسے میں وہ خوب پھب رہا تھا۔ میں نے اسے قریب ایک خالی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ فقیرے نے کھسہ اتار کرایک طرف رکھا اور گراسی پلاٹ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔

فقیرے سے میرا رابطہ پاکستان میوزک کانفرنس کے روح رواں مرحوم حیات احمد خان کے حوالے سے ہوا تھا۔ میں جب لاہور سے آ رہا تھا تو حیات صاحب نے اس صحرائی گائیک کے بارے میںبہت کچھ بتایا تھا، ان کی خواہش تھی کہ بہاولپور آرٹس کونسل کے تعاون سے میں فقیرے کو لاہور بھجواؤں‘ وہ اسے موسیقی کے حلقوں میں متعارف کرانا چاہتے تھے۔ بہاولپور آتے ہی یہ فریضہ میں نے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر اقبال خالد کے ذمے لگا دیا۔

فقیرے سے ملاقات بھی ہوئی اور صحرائی لوریاں بھی سنیں‘ اسے لاہور بھجوانے کا بندوبست بھی کیا۔ فقیرے سے کچھ سننے کی فرمائش کی۔ فقیرے نے مجھے ایک اکتارا دے رکھا تھا‘ بشیر نے کمرے سے اکتارا لاکر فقیرے بھگت کے ہاتھ میں تھما دیا۔ فقیرے کی انگلی اکتارے پر تھرکنے لگی۔ اس کے گلے سے اُبھرتی آواز اور ہونٹوں کی مخصوص جنبش فضا میں ارتعاش پیدا کرنے لگی، اس کی آواز کے کھردرے پن میں گداز تھا۔ فقیرے نے چند لوریاں سنائیں، پھر اکتارے کو سرسبز پلاٹ پر رکھ کر اپنے دونوںہاتھ باندھ کر سلام کیا اور واپسی کی اجازت مانگی۔

ان دنوں بہاولپور میں ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا، ایک روز اطلاع ملی چندگورے پروفیسرآئے ہوئے ہیں‘ مجھے ملنے کے متمنی تھے، میں نے انہیں بلا بھیجا، وہ حضرات سکول آف اورینٹیل افریقن سٹڈیز (SOAS) لندن میں اساتذہ تھے، ان دنوں پاکستان آئے ہوئے تھے‘ امن و امان کا زمانہ تھا‘ غیرملکی بلاکسی خوف کے ملک بھر میں گھوم پھرلیتے، کہیں چترال اور ہنزہ کے دورافتادہ مقام پر پائے جاتے اور کبھی سندھ اور بلوچستان کے اندرونی علاقوں کی تلاش میں رہتے۔

ان پروفیسر صاحبان سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ بہاولپور میں معلوماتی دورے پر آئے ہوئے ہیں اور انہیں میرے پاس ہمارے ایک سول سرونٹ مرحوم خالد مسعود بسرا نے بھیجا تھا۔ خالد بسرا معروف ستار نواز اور موسیقی سے شغف رکھنے والا انسان تھا، میں اس کی کئی سولو پرفارمنسز سے لطف اندوز ہوچکا تھا۔ خالد جواں سال تھا کہ اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے انتقال کر گیا۔ چائے کے دوران انگریز پروفیسروں نے فقیرا بھگت سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ ان میں سے ایک صاحب کا شعبہ تدریس اور دلچسپی مشرقی موسیقی اور گائیکی بھی تھی۔ میں نے ان کی خواہش کے احترام میں فقیرا بھگت کو بہاولپور بلانے کی حامی بھرلی لیکن وہ تو اسے صحرائی فضا میں سننا چاہتے تھے۔

ان مہمانوں کی خواہش کے پیش نظرمیں نے ٹرانسپورٹ اور ایک رابطہ افسر کا انتظام کیا۔ لیاقت پور سب ڈویژن میں ان کی آمد کی اطلاع کی گئی، فیروزہ کے نواح میں واقع فقیرا کی رہائشگاہ پر بھی پیغام بھجوا دیا‘ پتہ چلا کہ وہ اپنی جھوک ہی میں ہے۔ وہ صاحبان اگلی صبح فقیرے بھگت سے ملنے فیروزہ روانہ ہوگئے۔ خبر یہی تھی کہ ان کی فقیرے سے ملاقات خوب رہی۔ وہاں سے لوٹے تو وہ لوگ اپنے پروگرام کے مطابق لاہور روانہ ہوگئے۔ ہفتے عشرے کے بعد فقیرا بھگت ریڈیو پاکستان بہاولپور میں کسی ریکارڈنگ کیلئے آیا تو مجھے ملنے آ گیا۔ بہت خوش تھا، کہنے لگا ان گوروں نے ریت کے ٹبے پر بیٹھ کر اک تارہ پر اس کے گیت اور لوریاں سنیں۔ جاتے ہوئے ولایت بلانے کی خوشخبری بھی دے گئے۔

فقیرا رخصت ہونے لگا تو اس نے اپنے کھیسے کی جیب سے مڑا ہوا نوٹ نکالا اور میری طرف بڑھا دیا‘ یہ سو ڈالر کا نوٹ تھا۔ یہ نوٹ آپ لے لیں، وہ لوگ وہاں سے رخصتی کے وقت مجھے دے گئے تھے میرے کس کام کا‘ اس نے ایک ہی سانس میں اپنی بات مکمل کی۔ نہیں نہیں یہ تمہارا انعام ہے تم خود رکھو، میں نے اس کا شانہ تھپکا اور لمحے بھرکے لئے اس کی سادگی سے محظوظ ہوتا رہا۔ میں نے اسے یاد کرایا کہ کبھی امریکہ یا ولایت گیا تو یہ نوٹ اس کے کام آئے گا اور اگر روپوں کی ضرورت ہوئی تو اگلی بار جب شہر آئے گا تو یہیں سے تبادلہ کرا دوں گا۔ فقیرا میری بات سن کر مسکرانے لگا۔

لاہور میں جناب حیات احمد خاں اور خالد بسرا نے فقیرے کی بڑی دلجوئی کی‘ اس کی رہنمائی کرتے، اسے گائیکی کے حلقوں میں متعارف کرایا۔ اسی دوران فقیرے کو کئی یورپی ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کابھی موقع ملا، بقول خالد بسرا فقیرے کی بڑی مستند آواز تھی۔ فقیرا اس دنیا میں نہیں ہے اس کا اکتارا آج بھی میرے پاس ہے، چپڑی پر لوریاں، جنہیں وہ لولیاں کہتا، مجھے یاد آتی ہیں۔ عمر نے اس سے وفا نہ کی، اسے جگر کا موذی مرض کھا گیا۔ وہ بیماری کی حالت میں بھی فیروزہ سے مجھے فون کر لیاکرتا تھا۔ فقیرے کی گائیکی کو اب اس کا بیٹا موہن بھگت نبھا رہا ہے‘‘۔

فقیرا بھگت کی برسی ہر سال تو 11 مئی کو ہوتی ہے مگر دوستوں کی آسانی کے لئے دو‘ چار دن آگے پیچھے کر کے اسے ہفتے والے دن رکھا جاتا ہے جیسے امسال بھی یہ 13 مئی کو منعقد ہوئی۔ یہ اجتماع مذہب و فرقہ پرستی سے ہٹ کر چولستانی آرٹ سے محبت کرنے والوں کا ایک اجتماع ہوتا ہے کیوں کہ اس میں ہندو، مسلمان، سکھ ، عیسائی سبھی شریک ہوتے ہیں اور پوری رات یہ جشن جاری رہتا ہے۔

The post فقیرا بھگت؛ صدیوں کے کرب میں ڈوبی چولستانی آواز appeared first on ایکسپریس اردو.


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles