چند ہفتے قبل کی بات ہے، آسٹریلوی ریاست، تسمانیہ میں مقیم بیالیس سالہ جان وارڈ اپنے تیرہ سالہ بیٹے، سٹیفن کے ساتھ جزیرے پر واقع جنگل کی سیر کرنے نکلا۔ وہ پہلی بار تسمانیہ کے وسط میں واقع وسیع و عریض جنگل کی سیر کرنے آئے تھے۔ بدقسمتی سے دوپہر کو وہ راستہ بھول کر بھٹک گئے۔
ان کے پاس جنگل کا نقشہ تو تھا، مگر موسمیاتی تبدیلیوں نے نئے راستے پیدا کردیئے تھے۔جان وارڈ نے تسمانوی صدر مقام ہوبرٹ میں مقیم اپنی بیگم کو کہہ رکھا تھا کہ وہ دوسرے دن رات کو واپس آجائیں گے۔ جب تیسرے دن کی شام تک بھی اپنے پیاروںکی کوئی اطلاع نہ آئی، تو بیگم وارڈ پریشان ہوگئی۔ اس نے فوراً پولیس کو خبر کی۔ اب پولیس دو ہیلی کاپٹروں کی مدد سے گمشدہ باپ بیٹے کو تلاش کرنے لگی۔ آخر چوتھے دن سہ پہر کے وقت ہیلی کاپٹر میں بیٹھے دو سپاہیوںکو ایک خشک دریا کے کنارے بنی پناہ گاہ نظر آئی۔ جب ہیلی کاپٹر اس کے قریب پہنچے تو اندر سے ایک لڑکا نکلا اور ان کی سمت دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگا۔
پولیس کو جان وارڈ تشویشناک حالت میں ملا۔ شدید سردی نے اس کے انجر پنجر ڈھیلے کردیئے تھے۔ شکر ہے کہ پولیس بروقت اس تک پہنچ گئی ورنہ کھلے علاقے میں شدید ٹھنڈ والی اگلی رات اسے آنجہانی بنا دیتی۔ کانسٹیبل مائیکل پریشا کو حیرت تھی کہ دونوں جنگل میں چار دن تک زندہ کیسے رہے؟ اس کو یقین تھا کہ اذیت ناک سردی انہیں موت کے منہ میں پہنچا چکی ہوگی۔
جب مائیکل پریشا نے پناہ گاہ کا معائنہ کیا تو اسے وجہ سمجھ آگئی۔ یہ پناہ درخت کی شاخوں سے تعمیر کی گئی تھی۔ اسے گھاس پھوس اور پودوں وغیرہ سے اچھی طرح ڈھانپا گیا تھا۔ وہ بس اتنی بڑی تھی کہ اندر دو انسان سما سکیں۔ پناہ گاہ کی گرمائش ہی نے باپ بیٹے کو زندہ رکھا۔ ان کے پاس خشک چاکلیٹوں کا ذخیرہ تھا۔ وہ ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھ جاتے، بھوک لگنے پر چاکلیٹ کھاتے اور مدد پہنچنے کا انتظار کرنے لگتے۔
تیرہ سالہ سٹیفن ہوش و حواس میں تھا۔ جب سپاہیوں نے اس سے گفتگو کی، تو انکشاف ہوا کہ وہ مشہور مہم جو، بیئرگرلز(Bear Grylls) کے ٹی وی پروگرام شوق سے دیکھتا ہے۔ ان پروگراموں میں گرلز ناظرین کو عملی مثالیں دکھا کر بتاتا اور سمجھاتا ہے کہ جب بھی کوئی بد قسمت انسان ویرانے یا جنگل میں پھنس جائے، تو وہ کیونکر خوراک اور پانی ڈھونڈے اور ماحول میں دستیاب عام اشیا سے کیسے پناہ گاہ تعمیر کرے۔اس طرح بد نصیب انسان مدد آنے تک زندہ رہ سکتا ہے۔
جان وارڈ اور اسٹیفن دونوں گرلز کے پرستار تھے۔ درحقیقت اس کے پروگرام دیکھ کر ہی انہیں شوق چرایا تھا کہ جنگل میں سیروسیاحت کرتے ہوئے دو دن بسر کیے جائیں اور جب وہ بھٹک گئے، تو انہوں نے اپنے ہیرو کی بتائی ہدایات کے مطابق ایک عمدہ پناہ گاہ تیار کرلی۔ یہی پناہ گاہ انہیں زندہ رکھنے میں ممدو معاون ثابت ہوئی۔ اس طرح گرلز کے مفید پروگراموں نے دو قیمتی انسانی جانیں بچالیں۔
٭٭
اپنے تجربے، ذہانت اور دلیری کی بدولت دنیا بھر کے کروڑوں مردوزن کو کارآمد اور بامقصد مشورے دینے والے بیئرگرلزکا اصل نام ایڈورڈ مائیکل گرلز ہے۔7 جون 1974ء کو شمالی آئرلینڈ کے قصبے، ڈونگاڈی میں پیدا ہوا۔ تعلق کھاتے پیتے خاندان سے تھا۔ ماں باپ، دونوں سیاست داں تھے۔ ایڈورڈ چھ سات دن کا تھا کہ بڑی بہن اسے ’’بیئر‘‘ (Bear )کہہ کر بلانے لگی۔
بس یہی عرف اس سے چپک کر رہ گیا۔بیئرگرلز بچپن ہی میں باپ کے ساتھ کوہ پیمائی کرنے لگا۔ پھر کشتی رانی سیکھی۔ ساتھ ساتھ کراٹے بھی سیکھے اور بلیک بیلٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہا۔ گریجویشن کرنے کے بعد 1994ء میں برطانوی فضائیہ کے خصوصی دستے، سپیشل ایئر سروس کا حصہ بن گیا۔ 1996ء میں پیرا شوٹنگ کرتے ہوئے زخمی ہوا اور اگلے سال فوج کو خیرباد کہہ دیا۔مئی 1998ء میں گرلزنے دنیا کی بلند ترین چوٹی، ماؤنٹ ایورسٹ سر کی۔ تب اس کی عمر صرف 23 سال تھی۔ آنے والے برسوں میں بھی وہ جان جوکھم میں ڈال کر مہم جوئی کے دنگ کردینے والے کارنامے انجام دیتا رہا۔ 2005ء میں گرلز نے مہم جوئی کا اپنا پہلا ٹیلی ویژن پروگرام ’’ایس کیپ دی لیجین‘‘(Escape to the Legion) پیش کیا۔ اس میں دکھایا گیا کہ فوجی صحرا (صحارا) میں کیونکر عسکری تربیت حاصل کرتے ہیں۔ یہ پروگرام چار حصوں پر مشتمل تھا۔
نومبر 2006ء سے وہ ڈسکوری چینل پر اپنا پروگرام ’’مین ورسز وائلڈ (Man vs. Wild) پیش کرنے لگا جو ’’بورن سرواوئر: بیئرگرلز ‘‘بھی کہلاتا ہے۔ اس انوکھے پروگرام کو دنیا بھر میں مقبولیت ملی۔ یہ پروگرام نومبر 2011ء میں ختم ہوگیا۔ مگر آج بھی کروڑوں لوگ اس پروگرام کے 78 شو ذوق و شوق سے دیکھتے ہیں۔مین ورسز وائلڈ کا فارمیٹ یہ تھا کہ بیئرگرلز کو کبھی لق ودق صحرا، کبھی برف پوش چوٹیوں، کبھی خطرناک جنگل اور کبھی الگ تھلگ واقع سمندری جزیرے میں فلم کریو کے ساتھ تنہا چھوڑ دیا جاتا۔ وہ پھر ماحول میں دستیاب قدرتی اشیاء کی مدد سے خود کو زندہ رکھنے کی تدابیر اختیار کرتا۔ اس کی سعی ہوتی کہ کسی قریبی انسانی بستی تک پہنچا جائے۔
بیئرگرلز کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر بات بڑی تفصیل سے بتاتا تاکہ جزئیات بھی ناظرین و سامعین کو اچھی طرح ذہن نشین ہوجائیں۔ وہ موقع محل کی مناسبت سے مفید معلومات بھی پیش کرتا جاتا۔ ناظرین اس وقت تعجب سے انگلیاں منہ میں داب لیتے جب وہ پیٹ بھرنے کی خاطر کچی مچھلی، کیڑے مکوڑے یا سانپ تک کھا جاتا۔ اسی طرح وہ پودوں اور پتوں سے نمی کشید کرنے کا گُر بھی بتاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیئرگرلز کے پروگراموں سے کروڑوں لوگوں کو یہ آگاہی ملی کہ نامساعد حالات کا مقابلہ کیونکر ذہانت، محنت اور بہادری سے کیا جاتا ہے۔
1998ء میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرتے ہوئے اس کی ملاقات ایک حسین دوشیزہ، سارا نائٹ سے ہوئی۔ جلد دونوں تیر ِعشق کا نشانہ بن گئے۔ 2000ء میںگرلز نے اپنی منفرد افتادِ طبع کے مطلق سارا کوڈرامائی طریقے سے شادی کی پیش کش کی۔ دونوں سمندر میں نہا رہے تھے کہ اس نے اپنے گال میں چھپائی انگوٹھی نکالی اور سارا کو دکھاتے ہوئے بولا ’’مجھ سے شادی کروگی؟‘‘ سارا ہکّا بکّا اسے گھورتی رہی پھر شرما کر ہاں میں سر ہلا دیا۔ جلد ان کا بیاہ ہوگیا۔
آج وہ تین بیٹوں کے خوش و خرم والدین ہیں۔بیئرگرلز اپنے رب کا شکر گزار ہے کہ اس نے زندگی میں جو چاہا، رحیم و کریم اوپر والے نے اسے بخش دیا۔ وہ دولت شہرت پانے کا متمنی نہیں تھا، بس اس کی نرالی خواہش یہ تھی کہ وہ بندر کی طرح درختوں پر چڑھے، شرارتی بچے کے مانندکیچڑ میں لوٹ پوٹ ہو اور جو جی میں آئے، کھائے۔ چناںچہ اپنے ٹی وی پروگرام کرتے ہوئے من موجی گرلز ایسی اشیا بھی چٹ کرچکا جنہیں عام لوگ کھاتے ہوئے کراہت محسوس کرتے ہیں۔ ان اشیا میں اونٹ کی آنتیں، ہاتھی کا گوبر، بچھو، یاک کے پپوٹے اور ریچھ کا پاخانہ شامل ہے۔
ہر انسان کی طرح گرلز بھی خوبیوں اور خامیوں کا مرکب ہے۔ دوران زندگی اس سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں جن پر وہ نادم ہے۔ تاہم وہ آخری دم تک فطرت کی آغوش میں مہم جوئی کرتے ہوئے اپنا وقت بیتانا چاہتا ہے… وہ فطرت جس کے متعلق ممتاز سائنس داں، آئن سٹائن نے کہہ رکھا ہے:’’فطرت کی گہرائی میں جھانک کر دیکھیے، پھر آپ کائنات کی ہر شے کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔‘‘
مہم جو نے کہا
٭… کبھی خوش قسمتی پر تکیہ مت کیجیے۔ یقیناً یہ خدا کا انعام ہے، مگر اپنا بیک اپ پلان بھی تیار رکھیے۔
٭… مذہب میری زندگی کا اہم جزو ہے۔ کئی برس کے تجربات نے مجھے سکھایا ہے کہ صرف فخر مند آدمی ہی کہہ سکتا ہے ’’مجھے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘ زندگی کے تکلیف دہ اور مشکل لمحات میں مذہب میرا سہارا بلکہ ریڑھ کی ہڈی کے مانند رہا ہے۔
٭… بقا کا راز صرف چار حروف میں مضمر ہے… کبھی ہارمت مانیے۔
٭… انسان کا غرور اس کی سب سے بڑی خامی ہے۔ ہر انسان کو دوسروں سے مدد و رہنمائی پانے کا گر سیکھنا چاہیے۔
٭… میں بے خوف انسان نہیں، اکثر اوقات مجھے ڈر لگتا ہے۔ مگر میں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ خوف کو بروئے کار لاتے ہوئے خود کو ہوشیار و چوکنا کیسے رکھنا ہے۔
٭… شدید سردی میں آگ کا خیال بھی آپ کوکچھ حدت بخش سکتا ہے۔ مجھے تو اس کا عملی تجربہ ہے۔ میں اگلو میں موم بتی جلا کر تپش پاچکا۔
٭… سکائوٹ کی حیثیت سے مجھے اعتمادملا اور دوست بنانے کا ہنر بھی!
کالج نے مجھے مقابلہ کرنا نہیں سکھایا
دبئی کی ایک نجی تنظیم، گلوبل ایجوکیشن اینڈ سکلز فورم ہر سال تعلیم و ہنر پر عالمی کانفرنس منعقد کرتی ہے۔ اس کانفرنس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مردوزن جمع ہوکر تعلیم و تربیت پر فکر انگیز گفتگو کرتے ہیں۔ مارچ 2017ء کی کانفرنس میںبیئرگرلز بھی مدعو تھا۔ اس نے دوران تقریر اپنے ایٹن کالج کی انتظامیہ و نظام تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یاد رہے، ایٹن کالج برطانیہ کا ایلیٹ تعلیمی ادارہ ہے۔ انیس برطانوی وزرائے اعظم وہاں تعلیم حاصل کرچکے۔ نیز یورپ کے شاہی خاندانوں کی اولادیں عموماً اسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لیتی ہیں۔
بیئرگرلز نے بتایا ’’ ایٹن کالج میں تعلیم پاتے ہوئے میں احساس کمتری کا شکار رہا۔ وجہ یہ کہ کالج میں صرف خوش شکل اور تعلیم یا کھیل کے میدان میں اچھے لڑکوں کو اہمیت دی جاتی۔ یہی وجہ ہے، میں دوران تعلیم خود اعتمادی پانے کی جستجو میں رہا۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ کالج میں ہم نوجوانوں کو وہ عملی ہنر نہیں سکھائے گئے جو زندگی میں بہت کام آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے، ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ جو لڑکے لڑکیاں دوران تعلیم تو اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کریں، وہ عملی زندگی میں قدم دھرتے ہی ٹھس ہوجاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ دوران تعلیم انہیں لڑنا اور مقابلہ کرنا نہیں سکھایا جاتا جبکہ عملی زندگی میں کامیابی پانے کے لیے ان صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے۔ آپ تاریخ اٹھا کردیکھ لیجیے، تمام عظیم لوگ عموماً اسکول یا کالج میں متاثرین کارکردگی نہیں دکھا پائے کیونکہ تعلیمی اداروں میں سیکھنے کا عمل صرف جماعت تک محدود ہوتا ہے۔‘‘
گرلز نے تمنا کی ’’کاش میرے اساتذہ مجھے صحت مند رہنے کا گر بھی بتاتے، یہ سکھاتے کہ غدائیت بخش غدائیں کیونکر کھائی جاتی ہیں۔ یہ سمجھاتے ہیں کہ ٹیم کی قیادت کیسے کی جاتی ہے اور لوگوں سے کیونکر گفتگو کرنی ہے۔ وہ قانون، تجارت، صنعت کی بنیادی باتیں بھی ہمیں بتاتے۔ مگر ان کی ساری توجہ لکھائی پڑھائی اور درسی کتب تک محدود تھی۔ مجھے تمام غیر درسی اسباق کئی سال زندگی گزارنے اور سیکڑوں غلطیاں کرنے کے بعد تجربات سے حاصل ہوئے۔‘‘
بیئرگرلز نے دوران تقریر یہ ایک بڑی خرابی بھی اجاگر کی کہ دنیا بھر میں نئی نسل موبائل فون، ٹیبلٹ وغیرہ کی دیوانی ہوچکی بعض لڑکے لڑکیاں تو گھنٹوں ان ننھی مشینوں کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ گرلز نے والدین اور اساتذہ پر زور دیا کہ وہ بچوں کو زبردستی باہر گھومنے پھرنے بھیجیں۔ وہ کہتا ہے ’’فطرت ایک وسیع و عریض کھیل کا میدان ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارے لیے تحفہ ہے۔ یہ ذہنی و جسمانی طور پر انسان کے لیے کسی بھی آلے سے زیادہ مفید ہے۔ کسی کے پاس پیسہ نہیں، تو وہ بھی اس آسمانی نعمت سے بھرپور لطف اٹھاسکتا ہے۔ لہٰذا فطرت کا قرب پانے کی خاطر وقت ضرور نکالیے۔‘‘
دنیا کے مشہور مہم جو نے یہ نکتہ بھی واضح کیا کہ آج کل لوگ اپنی جسمانی صحت کے سلسلے میں حد سے زیادہ محتاط ہوگئے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اب وہ کسی بھی قسم کا خطرہ مول لینے سے گھبراتے ہیں۔یہ کیفیت نوجوانوں کا جوش و جذبہ ختم کرسکتی ہے۔ لہٰذا جس کام کو آپ برحق سمجھتے ہیں، تو اسے انجام دیتے ہوئے خطرات مول لینے سے نہ گھبرائیے۔ یہی انمول جذبہ مہم جوئی کی روح اور بنیاد ہے۔
The post جان جوکھم میں ڈالنے والا خطروں کا کھلاڑی appeared first on ایکسپریس اردو.