سویڈش ادیب اور دانش ور Tage Lind dbom، جو پہلے سویڈن کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سرکردہ افراد میں شمار کیے جاتے تھے اور فرد و سماج کی تمام صورتوں کو مارکسی نقطۂ نظر سے دیکھنے اور سمجھنے پر اصرار کرتے تھے، بعدازاں اپنے عہد کے انسان کی سائیکی میں پڑنے والی دراڑوں کو دیکھے بغیر نہ رہ سکے۔
چناںچہ اس دور کے انسان کی روح کا احوال سمجھنے اور سمجھانے کے لیے انھوں نے The Tares and the Good Grains جیسی کتاب لکھی، جس میں اپنے وقت کے اس بحران کی اصل نوعیت کو بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو انسانی روح کی ابتلا کا باعث بنا ہوا ہے۔ اس کتاب میں عہدِحاضر کے نظریات میں پائے جانے والے داخلی تضادات، باطل تصورات اور کم زوریوں کا گہرائی میں جائزہ لیا گیا ہے، جنھوں نے انسان کی زندگی میں مادّیت کے فروغ کا راستہ کھول کر دراصل اُس بحران کی راہ ہموار کی ہے جو اس سے پہلے کے انسانی معاشروں میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بوم کا کہنا ہے کہ آج انسان اور اُس کا معاشرہ جس راستے پر گامزن ہیں، وہ انھیں طمانیت اور آسودگی کی اس منزل تک لے کر جا ہی نہیں سکتا جس کی آرزو میں وہ سفر کررہے ہیں۔ اس کے برعکس یہ راستہ انھیں مخالف سمت میں لے جارہا ہے۔ یہ کچھ وہی صورتِ حال ہے جس کے لیے غالب نے کہا تھا:
ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
منزل کی یہ دوری سمتِ سفر کی وجہ سے بڑھ رہی ہے۔ اس دور کا انسان اضطراب تو اپنی روح میں محسوس کررہا ہے، جب کہ تسکین کا سارا سامان صرف اور صرف اس کے جسم کے لیے کیا جارہا ہے۔ ایسے میں کیا نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں؟
اس حوالے سے ہمارے یہاں اقبال نے بھی Reconstruction of Religious Thought in Islam کے ایک خطبے میں بہت اہم گفتگو کی ہے۔ اقبال کہتے ہیں کہ انسان کو کائنات کے اس سناٹے میں جب اپنی پکار (دعا) کا جواب ملتا ہے تو وہ خود کو ایک بڑی اور ہمیشہ رہنے والی قوت سے مربوط پاتا ہے۔ گویا اُس کے لیے یہ احساس طاقت اور اعتماد کا سرچشمہ ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے، اور یہ کہ کوئی اُس کی طرف متوجہ ہے، اس کا نگہبان ہے۔ یہ احساس اس کے اندر اس کیفیت کو برقرار رکھتا ہے کہ اُس کی ایک اہمیت ہے۔ ہم آہنگی اور وابستگی کا دراصل یہی وہ احساس ہے جو بیک وقت وجود اور روح دونوں سطحوں پر اُسے ایک اعتبار سے ہم کنار کرتا ہے۔ یہی وہ شے جو اُسے لایعنیت کے اُس تجربے سے بچالے جاتی ہے جس نے وجودیت کے زیرِاثر مغرب کو بری طرح گھایل کیا ہے۔ وہاں انسانی نفسیات میں اس طرح دراڑیں ڈالی ہیں کہ انسان پارہ پارہ ہوکر رہ گیا ہے۔ اس کی روح میں ایک ایسا خلا پیدا ہوگیا ہے کہ جو اس کے وجود کو ذاتی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نگلنے پر مصر ہے۔
ان سب اہلِ دانش کی گفتگو سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسانی زندگی میں اور سماج میں آج جن مسائل کو دیکھا جارہا ہے، اُن کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس عہد میں وجود اور روح کا رشتہ منقطع ہوگیا ہے۔ دونوں کے باہم آمیز ہونے سے جو اکائی بنتی تھی، وہ ٹوٹ گئی ہے۔ اسی سبب سے یہ سارا بحران پیدا ہورہا ہے۔
اس امکان کو رد تو نہیں کیا جاسکتا کہ اس نوع کا کوئی مسئلہ اس سے پہلے بھی انسان پر اور اس کے سماج پر گزرا ہو، لیکن یہ بات قدرے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج یہ مسئلہ جس سطح پر اور جس شدت کے ساتھ اُسے درپیش ہے، اس سے پہلے وہ کبھی اس صورت میں اسے پیش نہیں آیا ہوگا۔ سوچنا چاہیے کہ یہ صورتِ حال آخر اس حد تک کیسے پہنچی ہے کہ بحران اس درجے تک آگیا ہے؟
اس نکتے کو ہمیں واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے کہ وہ انسان جو وجود و روح کی اکائی کی حیثیت سے زندگی گزارتا تھا، اس کے یہاں مادّی اور غیرمادّی رجحانات میں ایک توازن قائم رہتا تھا۔ دنیا کی آسائشیں اسے اپنی روح کے مطالبات سے غافل نہیں ہونے دیتی تھیں۔ وہ اپنے خارجی معاملات کے ساتھ ساتھ داخلی حقائق کا بھی شعور رکھتا تھا۔ اس کی زندگی کی ایک ماورائی جہت بھی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ مادّی اشیا اپنی ضرورتوں کے لیے اُسے ایک حد تک درکار ہیں اور وہ بے شک اس کی ضرورت تو پوری کرتی ہیں، لیکن اس کی قلبی راحت، ذہنی سکون اور روحانی خوشی کا سامان اسے ان سے حاصل نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ماخذ اور ہے جس سے یہ نعمتیں حاصل ہوتی ہیں۔ وہ اس حقیقت سے نابلد نہیں تھا کہ اطمینان بخش اور آسودہ زندگی کے لیے اسے اپنی دونوں ہی جہتوں پر توجہ رکھنی ہے۔
یہ شعور ایک بہتر اور متوازن زندگی گزارنے میں اس کے کام آتا تھا۔ عہدِجدید کے بیشتر معاشروں میں آج یہ شعور بڑی حد تک کم اور بعض میں تو بالکل ہی ناپید ہوچکا ہے۔ یہ وہ سماج ہیں کہ جہاں روح اور اُس کے تقاضوں کی طرف اب انسان کا دھیان بالکل نہیں ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آج انسانی زندگی اُن اشیا کے ساتھ اور کچھ ایسے کاموں میں بسر ہورہی ہے جو اُس کی توجہ کسی اور طرف مبذول ہونے ہی نہیں دیتے۔ ذرا غور کیا جائے تو اس مسئلے کی نوعیت کو سمجھا جاسکتا ہے۔ پہلے تو یہ دیکھیے کہ ہم آج کس قماش کی دنیا میں جی رہے ہیں۔ یہ وہ دنیا ہے جس میں آئے دن عجیب و غریب تماشے ہوتے رہتے ہیں۔ یہاں کبھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کا چرچا کیا جاتا ہے۔ ان کے لیے ہم دردی کے جذبات کا بکھان کیا جاتا ہے اور کبھی یہاں اُن چند افراد کی فہرست شائع کی جاتی ہے، جن کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے۔
ذرا دیکھیے کہ یہ دولت کتنی ہے؟ اتنی کہ اس سے ہزاروں یا لاکھوں نہیں کروڑوں افراد کی قسمت اور زندگی دونوں بدل سکتے ہیں۔ کچھ افراد ایسے ہیں کہ جن کی سالانہ آمدنی ایک پورے ملک کی جی ڈی پی سے زیادہ ہے۔ کیا یہ سب مال و دولت بے مصرف ہوسکتی ہے؟ نہیں، ایسا نہیں ہے، اس کا کچھ اور استعمال ہے۔ کیا استعمال ہے؟ یہ دنیا میں تبدیلی لانے کے لیے بنیادی کردار ادا کررہی ہے۔
کون سی تبدیلی؟ وہی جو افراد کے طرزِ احساس کو بدل رہی ہے اور جس کے نتیجے میں انسانوں کی یہ پوری دنیا بدل رہی ہے۔ یوں ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دولت اور اِس کے زیرِاثر دنیا کی یہ بدلتی ہوئی صورتِ حال بے سبب نہیں ہے۔ اس سارے کھیل کے پس منظر میں کچھ مقاصد ہیں، مثلاً ایک مقصد یہ ہے کہ پوری دنیا کے ذخائر، معدنیات، ذرائعِ پیداوار اور اعلیٰ افرادی قوت سب کچھ چند بین الاقوامی اداروں کے ہاتھ میں آجائے۔ یہ کون سے ادارے ہیں؟ وہی ہیں جو اپنے کاروبار کے فروغ کے لیے ملکوں کے انتخابات میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ حکومتوں کی سرپرستی کرتے ہیں۔
دنیا کے پس ماندہ افراد کے لیے فلاحی ادارے قائم کرتے ہیں اور کبھی براہِ راست اور کبھی حکومتی ذرائع سے مالی امداد بھیجتے ہیں۔ ان سب کاموں سے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ امریکا سے لے کر ایتھوپیا تک ان اداروں کا اپنا ایک نیٹ ورک ہے۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے انھوں نے ایک نظام وضع کیا ہے۔ آج ہم جسے گلوبل دنیا کہتے ہیں، یہ دراصل اسی نظام کا ایک مظہر ہے۔ اس دنیا میں جغرافیائی سرحدیں قوت کے ساتھ اور جارحانہ انداز سے منہدم نہیں ہورہیں اور نہ تبدیل کی جارہی ہیں۔ البتہ نظریاتی، فکری، اخلاقی اور تہذیبی سرحدیں تیزی سے مٹائی جارہی ہیں۔
مقصود یہ ہے کہ دنیا کی بیشتر آبادی کو ایک ایسی صارفیت کے شکنجے میں جکڑ لیا جائے جو انھیں مذہب، اقدار اور نظریات کے شعور سے بے نیاز کرکے محض وجودی خواہشات سے منسلک کردے۔ اس کے لیے گہری بنیادوں پر منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اس صارفیت کا بلند تر ہدف اس وقت حاصل ہوسکتا ہے جب دنیا کی ساری یا کم سے کم بیشتر آبادی ایک ہی طرح کی طرزِزندگی اور یکساں اشیا کے استعمال کی عادی ہوجائے۔
خیال رہے کہ اشیا کی فروخت کا یہ معاملہ آم کے آم گٹھلیوں کے دام والا ہے۔ اس لیے کہ پورا مقصد صارفیت نہیں ہے، بلکہ اس کے ساتھ، یعنی اس کے ذریعے دنیا کی آبادی کو ایسے مجہول ہجوم میں تبدیل کرنا ہے جو مشینی زندگی گزارتا ہو۔ اس کام کے لیے کولڈڈرنک اور برگر سے سرحدوں میں راستے پیدا کیے گئے۔ چناںچہ آج آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چین اور جاپان جیسے روایتی مزاج رکھنے اور اپنی روایات و اقدار پر فخر کرنے والے ملک بھی کولڈڈرنک اور برگر کی صارفیت میں پیچھے نہیں رہے ہیں۔
اس مہم کے فروغ میں الیکٹرونک میڈیا اہم کردار ادا کررہا تھا۔ چنانچہ آج آپ غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ تشہیری ادارے قوموں، ملکوں اور معاشروں میں نفوذ اور اثر پذیری کے لیے ان مراحل کو بھی سر کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے جن کے لیے اس سے پہلے کے زمانے میں حکومتیں ایک دوسرے سے مذاکرات کیا کرتی تھیں۔ اب سوشل میڈیا کے اس دور میں تو صورتِ حال حیرت ناک حد تک بدل چکی ہے۔
دنیا کو اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے کوشاں افراد اور اداروں کو آج سوشل میڈیا وہ اہداف بھی بہت آسانی سے اور غیرمحسوس انداز میں حاصل کرکے دے رہا ہے جن کے لیے پہلے جنگی حکمتِ عملی جیسے اقدامات کیے جاتے تھے۔ اس کے باوجود اگر کسی سماج میں مدافعت نظر آتی ہے اور ان سب ذرائع سے مطلوبہ مقاصد کی تکمیل نہیں ہوپاتی تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پھر وہاں سپرپاور اور مقتدر اقوام کی طرف سے عراق اور افغانستان جیسی جنگیں بھی مسلط کردی جاتی ہیں۔ اس کی حالیہ مثالیں مصر اور شام کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
کم و بیش دو دہائی پہلے سیموئیل پی ہن ٹنگٹن نے اپنی کتاب Clash of Civilization میں جس غیراخلاقی، بلکہ غیر انسانی تصادم کا مقدمہ پیش کیا تھا اور اُس پر جس سفاکانہ سادگی والے اندازِنظر کے ساتھ اصرار کیا تھا، آج اس کی حقیقت ہم بہ آسانی عملی مثالوں کے ساتھ سمجھ سکتے ہیں۔ اب ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ سارا نقشہ تصادم کا نہیں، بلکہ تہذیبوں کے انہدام کا ہے، اور ہدف بالخصوص وہ تہذیبیں ہیں جن کا اپنا کوئی اخلاقی اور فکری نظام ہے، جو اپنی روایات اور اقدار پر اصرار کرتی ہیں۔
اس صورتِ حال میں اگر پوچھا جائے، کیا آئندہ زمانے میں کوئی قوم اپنی تہذیبی شناخت قائم رکھ پائے گی؟ اگر ایران اور ترکی جیسی مثالوں کو سامنے رکھا جائے تو اس سوال کا جواب اثبات میں دیا جاسکتا ہے۔ تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اُس سماج میں تہذیبی شعور قومی یک جہتی کے احساس کے ساتھ زندہ رہے۔ ایسا اُسی وقت ممکن ہوتا ہے جب قوم کے افراد اپنی قدروں پر یقین رکھتے ہوں اور خود کو اپنی انفرادیت میں نہیں، بلکہ کلیت میں مستحکم محسوس کرتے ہوں۔ وہ اس حقیقت کو سمجھتے ہوں کہ اُن کی اجتماعی شناخت کا حوالہ ہی دراصل ان کی بقا کا ضامن ہے۔
صارفیت کے اس عہد میں انسان کی حیثیت بھی محض ایک شے کی سی ہوکر رہ گئی ہے۔ خاندان کا نظام پاکستان جیسے ملک میں بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ پہلے پورے پورے کنبے ایک گھر، ایک خانوادے کے طور پر رہا کرتے تھے۔ افراد ایک دوسرے کی ذمے داریوں میں بغیر کہے حصے دار ہوجاتے تھے۔ آس پاس رشتوں کی موجودگی کا احساس ہر شخص کو تقویت دیتا اور اس کے حوصلوں کو بڑھاتا تھا۔ یوں اجتماعیت کا شعور نہ صرف آسانی سے برقرار رہ سکتا تھا، بلکہ اس کی اہمیت اور ضرورت کو بتانے کے جتن بھی نہیں کرنے پڑتے تھے۔
رشتے ایک دوسرے کے لیے روشنی اور حرارت کا انتظام خاموشی سے مگر پوری ذمے داری کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ کنبے میں ہر شخص کی ایک جگہ اور ایک حیثیت ہوا کرتی تھی۔ اس حیثیت کو وہ خود کبھی شک کی نظر سے دیکھتا تھا اور نہ ہی کوئی اور۔ آج منظر اس حد تک بدل چکا ہے کہ فرد اور شے میں فرق تک مٹتا جارہا ہے۔ حد یہ ہے کہ بعض اوقات اشیا کی اہمیت افراد سے بڑھی ہوئی نظر آتی ہے۔ ایسے مناظر آپ اور ہم سب اپنے دائیں بائیں بھی اس وقت آسانی سے دیکھ سکتے ہیں جب ایک گھر کے افراد الگ الگ کمروں میں بیٹھے الگ الگ ٹی وی چینل یا کمپیوٹر پر مصروف ہوتے ہیں۔
سچ پوچھیے تو یہ منظر بھی پرانا ہوچکا ہے۔ اب immidiate family یعنی سگے خون کے رشتے رکھنے والے افراد ایک ہی چھت کے نیچے بیٹھے ہوئے اپنے اپنے آئی فون، اسمارٹ فون، ٹیبلٹ اور آئی پیڈ پر مصروف ہوتے ہیں۔ اگلے وقتوں میں کہا جاتا تھا کہ اپنا خون جوش مارتا ہے، یعنی قریب کے رشتے ایک دوسرے کی حرارت محسوس کرتے ہیں، لیکن اب یہ حرارت اس حد تک ماند پڑتی جارہی ہے کہ اس کے ہونے کا احساس بھی ختم ہورہا ہے۔
ہماری عمر کے لوگوں کو وہ دن اور گھروں کا وہ ماحول آج بھی نہ صرف اچھی طرح یاد ہے، بلکہ اس کی کشش یا کمی اب بھی محسوس ہوتی ہے کہ جب شام کو کام سے لوٹ کر آنے والے افراد کا گھر میں اشتیاق سے انتظار کیا جاتا تھا۔ جب وہ لوٹ آتے تھے تو گھر کا ماحول، اس کی فضا ہی کچھ اور ہوجاتی تھی۔ گویا گھر کی روشنی میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ ہوا میں آکسیجن کا تناسب بڑھ جاتا تھا۔
ایک دوسرے کے ہونے کا احساس آدمی کے لیے تقویت کا سامان کرتا تھا۔ کچھ لوگ تو اب یہ بات لفظوں میں کہنے لگے ہیں، لیکن جو نہیں کہتے، ان میں سے بھی بہت سے لوگ محسوس تو بہرحال کرتے ہیں کہ وہ بھی اب شام کو گھر میں اسی طرح آتے ہیں جیسے کوئی شے آتی ہے اور یہ کہ گھر میں اُن کی جگہ بھی اسی طرح مخصوص ہے، جیسے فریج، ٹی وی، ایئر کنڈیشنز یا ڈسپینسر کی ہوتی ہے۔
فرد اور شے کے مابین یہی مٹتا ہوا فرق اس حقیقت کی نشان دہی کرتا ہے کہ دنیا کس طرف جارہی ہے۔ روبوٹ بنانے والے سائنس دان اب پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ محض تیس بتیس برس بعد آدمی روبوٹ سے شادی کرنے لگے گا۔ روبوٹ انسان کی جبلی اور جسمانی ضرورتیں ہی نہیں، بلکہ ذہنی اور جذباتی ضرورتیں بھی خوبی سے پوری کرکے اسے جیتے جاگتے انسان کی خواہش سے آزاد کردے گا۔
اگر آپ سوچتے ہیں کہ یہ سب کیا ہورہا ہے؟ کیا کہا جارہا ہے؟ کیا واقعی ایسا ممکن ہے؟ تو اس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ آپ اس تبدیل ہوتی ہوئی صورتِ حال کو قبول نہیں کررہے۔ عہدِ جدید جس طرح آپ کے احساس کی صورت گری کرنا چاہتا ہے، آپ اس کے لیے تیار نہیں ہیں۔ آپ کے خارجی ماحول اور داخلی احوال میں تصادم ہے۔
ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں ڈپریشن تو پیدا ہوگا۔ یقین کیجیے، یہ ڈپریشن برا نہیں ہے، بشرطے کہ آپ اس کے آگے ہتھیار نہ ڈالیں اور یہ آپ کو زندگی کے خاتمے کی طرف نہ لے جائے۔ اگر آپ اس مرحلے پر اپنے احساسات کی اس منہ زور موج کو تھام کر اور اپنے اعصاب شل کرنے سے روک کر اسے اپنی قوتِ مدافعت کا ذریعہ بنالیں تو پھر آپ کے اندر اضمحلال پیدا نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے آپ کا اعصابی، ذہنی، جذباتی اور فکری نظام ان عوامل پر فوکس ہو پائے گا جو آپ کو حالات کے دھارے میں بہنے سے بچاسکتے ہیں اور ان کناروں کی طرف لے جاسکتے ہیں جہاں زندگی کی بقا کا سامان ممکن ہے۔ اشرف المخلوقات کی زندگی کا سامان۔
The post عہدِ جدید اور انسانی احساس کی صورت گری ( آخری قسط ) appeared first on ایکسپریس اردو.