رمضان المبارک وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بنی نوع انسان کی رہنمائی کا ذریعہ قرآن پاک نازل فرمایا۔
مسلمانوں کو اس مہینے رب تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کی تلقین کی گئی ہے اسی بات کے پیش نظر ذیل میں ہم معروف روحانی شخصیت سرفراز احمد شاہ صاحب سے رمضان المبارک کے حوالے سے کی گئی گفتگو پیش کررہے ہیں۔
روزہ کیسی ذہنی کیفیت کا متقاضی ہے، کس تصور کے تحت روزہ رکھا جائے؟
اس میں ہمارے دو تین رویئے ہیں، موجودہ وقت میں۔ ایک تو وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے اور روزے کو خالصتاً عبادت کے طور پر لے لیتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو روزے کو پورے آداب کے ساتھ‘ اس کے پورے Protocol کے ساتھ اسے اختیار کرتے ہیں۔ جیسے رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ تم اپنے آپ کو ممنوعات سے روک لو ان کے قریب نہ جاؤ اور روزے کو پورے اہتمام کے ساتھ رکھتے ہیں۔ دوسرے کچھ لوگ وہ ہیں جو میری طرح کے لوگ ہیں جو روزے کو اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھ کر رکھ لیتے ہیں لیکن روزے کے جو آداب ہیں ان کے بارے میں زیادہ محتاط رویہ اختیار نہیں کر پاتے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم غصے میں بھی آتے ہیں۔ ہمارے منہ سے وہ باتیں بھی نکل جاتی ہیں جو حقیقت کے قریب نہیں ہوتیں۔ ہم عادتاً لوگوں کی غیر موجودگی میں ان کے بارے میں ایسی گفتگو بھی کر لیتے ہیں کہ جس آدمی کے بارے میں بات ہو رہی ہے اس کے لئے وہ پسندیدہ نہ ہو۔ یہ ہم سے کوتاہیاں ہو جاتی ہیں۔
اب تیسری قسم وہ ہے جو روزے کو میڈیکل نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں کہ اس کے طبی فوائد ہیں‘ تو یوں جسمانی فوائد بھی حاصل ہو جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے حکم تعمیل بھی ہو جائے گی۔ جہاں تک میری اپنی ذاتی رائے ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ چونکہ رب تعالیٰ نے فرما دیا کہ روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر میں ہی دوں گا‘ تو روزے کو اللہ تعالیٰ کے لئے رکھ لیا جائے اور جب ہم روزے کو اس کے لئے رکھیں گے کہ رب تعالیٰ کے لئے ہے تو پھر اس کی تمام Pre-Conditions کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ تمام ممنوعات ایسی تمام باتیں جو اسلام میں منع ہیں ان سے ہم رک جائیں گے۔
روزوں کے لئے ایک مہینہ کا عرصہ ہی کیوں مقرر کیا گیا؟
یہی سوال برطانیہ میں ایک ٹی وی چینل پر انٹرویو کے دوران بھی پوچھا گیا تھا۔ تو میری گزارش یہ ہے کہ رمضان میں وہ تمام چیزیں جو اسلام میں منع ہیں اور دوران روزہ کئی حلال کاموں سے بھی ہم رک جاتے ہیں۔ تیس دن ہم مسلسل اسی عمل سے گزرتے ہیں۔ تو انسانی فطرت ہے کہ جو عمل آپ تیس دن تک مسلسل کر لیں اور شعوری کوشش کے ساتھ کریں‘ وہ عادت بن جاتی ہے۔ یہ ٹریننگ ہے ایک مسلمان کی‘ ہر سال Refresher course آتا ہے ۔ انسانی زندگی میں ٹریننگ ہمیشہ محدود وقت کے لئے ہوتی ہے‘ یہ مسلسل جاری نہیں رہتی۔اس Refresher course سے ہر چیز نئے سرے سے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔
مسلم ریاست میں احترام رمضان اور اوقاتِ کار میں کمی کی حقیقت؟
اس سوال کے دو حصے ہیں۔ ایک یہ کہ اوقات کار میں کمی کی کوئی روایت موجود ہے تو میرے مطالعے میں اب تک ایسی کوئی بات نہیں آئی‘ نہ ہی اس طرف دھیان گیا کہ اس معاملے پر کوئی تحقیق کروں‘ اس کا جواب دینے سے تو میں معذرت چاہوں گا‘ جہاں تک رمضان کے احترام کی بات ہے اس کو لاگو کیا جاتا رہا ہے لیکن سختی یوں نہیں کرنی پڑتی تھی وہاںکہ وہ سب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا زمانہ تھا جن کی ٹریننگ آپ ﷺ کے ہاتھوں ہوئی تھی‘ وہاں پر کسی قسم کی کوتاہی ہونے کا سوال ہی نہیں تھا۔ تو یوں اس زمانے میں حکومت کو کوئی سختی کرنی ہی نہیں پڑی۔ اُس زمانے میں سبھی تقویٰ اور پاکیزگی کے انتہائی مقام پر فائز تھے۔ تو اس لئے موازانہ کرتے وقت یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا دور تھا۔ تو اس وجہ سے ایسی کوئی نظیر ہم نہیں لا پائیں گے۔ بات تو یہ ہے کہ جب طبع تابعین کے بعد کا زمانہ آیا ہے تو پھر کیا ہوا۔ بعد کے زمانے میں ریاست کی طرف سے احترام تو نافذ ہوتا رہاہے ۔
غیر مسلموں کے بارے میں مسلم ریاست کا رویہ:
جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے تو انہیں تو پوری آزادی ہے۔ اسلامی مملکت کا حسن یہی ہے کہ اقلیتیں بہت محفوظ ہیں‘ شاید ان ممالک سے بھی زیادہ محفوظ جہاں ان کے اپنے ہم مذہبوں کی حکومت ہے۔ مسلمان کی خوبی یہ ہے کہ مسلمان کے ہاتھوں دشمن بھی اتنا ہی محفوظ ہے جتنا کہ دوست۔ دشمن کے لئے مسلمان خطرہ صرف میدان جنگ میں ہے اور میدان جنگ میں بھی صرف اس وقت تک جب تک دشمن نے ہتھیار اٹھایا ہوا ہے۔ مسلمان کی تو خوبی یہی ہے کہ وہ اپنے دشمن کے لئے بھی بہترین دوست ہے۔اقلیتوںکی سماجی آزادی ، مذہبی آزادی‘ ان کی خاندانی آزادی سب کا تحفظ ہو گا وہ ہر طرح آزاد ہے‘ اسے صرف جزیہ دینا ہے۔
کیا یہ آئیڈیل صورتحال کا نقشہ نہیں ہے؟
نہیں یہاں میں آپ سے اختلاف کروں گا۔ یہ آئیڈیل صورتحال نہیں بلکہ وہ کم سے کم معیار ہے جو اللہ تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے کہ ہم بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ میں ہمیشہ انصاف سے کام لیتا ہوں۔ اس میں فخر کی کوئی بات ہی نہیں اگر میں انصاف سے کام لیتا ہوں اس لئے کہ یہ تو کم سے کم معیار ہے جو رب تعالیٰ مجھ سے چاہتا ہے‘ ہاں اگر میں ایثار یا قربانی سے کام لوں تو پھر میرے لئے اس طرح کی کوئی بات قابل تحسین ہو سکتی ہے۔ تو اس طرح اسلامی مملکت جو علانیہ اسلامی مملکت ہے اس کے اندر غیر مسلم اقلیتوں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو خود مسلمانوں کو حاصل ہیں۔ ماسوائے ایک چیز کے کہ وہ اپنے مذہب کی تبلیغ نہیں کر سکتے۔اسلامی مملکت کی حکومت اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ غیر مسلم اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی نہ صرف حفاظت کی جائے بلکہ ان کا احترام بھی کیا جائے۔ ان کے عقائد کا احترام کیا جا ئے۔ ان کو اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے کی ہر سہولت بہم پہنچائی جائے۔
رمضان اور کھانے پینے کی اشیاء کی دستیابی:
مکمل طور پر کھانے پینے کے مراکز تو بند نہیں ہوتے۔ مثال کے طور پر اسلام نے جن معاملات میں چھوٹ دی ہے جیسے کہ سفر ہے تو ریلوے اسٹیشن پر کھانے پینے کے تمام مراکز کھلے ہوئے ہیں۔ جتنے بھی آپ کے فائیواسٹار ہوٹلز میں جتنے بھی ان کے ریسٹورانٹ ہیں، وہ سب کھلے ہیں اور کوئی آپ کو منع نہیں کرتا جانے سے۔ صرف یہ ہے کہ اس کا احترام ضرور ہونا چاہئے۔ اگر کسی آدمی نے کسی وجہ سے روزہ نہیں رکھا اس کو رخصت حاصل ہے، اسلام میں بیماری یا کسی مجبوری میں روزے کی چھوٹ ہے تو آپ کھا پی سکتے ہیں، لیکن سرعام نہیں۔ اگر ریاست اسلامی ہے تو اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ رمضان کے احترام کو یقینی بنائے۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے اسلام میں شراب کی ممانعت ہے لیکن اسلامی ممالک میں بھی غیر مسلموں کو شراب پینے کی اجازت ہے، گھر کے اندر یا چار دیواری میں۔ غیر مسلموں کے اپنے کلب ہوتے ہیں اس کے اندر اگر وہ شراب نوشی کرتے ہیں تو حکومت انہیں منع نہیں کرتی۔ میری اتنی عمر ہو گئی، میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی گھر پر چھاپہ مار کر کسی کو کھانے پینے پر گرفتار کیا گیا ہو۔ یا کسی ریستوران میں چھاپہ مار کے لوگوں کو پکڑا ہو۔
جدید سہولیات آنے کے بعد سفر میں روزے کی چھوٹ کا تصور کیا ہو گا؟
شاید اس واقعہ سے بات واضح ہو جائے کہ ایک صحابی رسول تھے ان کا نام اس وقت ذہن میں نہیں‘ تو سفر کے دوران ان کی حالت خراب ہو گئی تو آپؐ نے دوسرے صحابہ سے پوچھا کہ کیا ہوا ہے۔ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہؐ انہوں نے روزہ رکھا ہوا ہے اور بھوک، پیاس کی شدت کی وجہ سے ان کی طبیعت خراب ہے۔ آپؐ نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اگر تم برادشت نہیں کر سکتے تو روزہ کیوں رکھتے ہو۔ یہ معیار ہے کہ اگر انسان سفر میں ہے اور آسانی سے برداشت کر سکتا ہے اس کے اندر اتنی سکت ہے تو ضرور رکھے روزہ‘ اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ اسے تکلیف ہو گی تو رخصت ہے اس کو بعد میں روزہ رکھ لے۔
روزہ نہ رکھنے پر تضحیک کا نشانہ بنانا‘ مذاق اڑانا:
یہ پسندیدہ رویہ نہیں ہے مسلمان یہ کام کبھی نہیں کرتا یہ صرف روزے کا معاملہ نہیں ہے کسی بھی چیز میں مسلمان یہ کام کبھی نہیں کرے گا کہ وہ کسی کو شرمندہ کرے‘ ذلیل و خوار کرے کیونکہ یہ سنت نہیں ہے۔
لیلتہ القدر کی حقیقت
لیلتہ القدر بہت برکتوں اور رحمتوں والی رات ہے۔ اس شب اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی بہت زوروں پر ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رات پہلے آسمان پر اترآتا ہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی دوسرے فرشتوں کے جلو میں ایک سبز پرچم لے کر زمین پراترتے ہیں اور وہ پرچم خانہ کعبہ کی چھت پر گاڑتے ہیں پھر فرشتوں کو حکم دیتے ہیں کہ زمین پر پھیل جائو ۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے کل چھ سو (600)پر ہیں جو محو عبادت لوگوں پر چھا جاتے ہیں۔ جب لوگ اس رات دعا کرتے ہیں تو فرشتے آمین کہتے ہیں۔
ایک سوال جواکثر ذہنوں میں ابھرتا ہے کہ ایک طرف تو کہا جاتا ہے کہ قرآن پاک پورے کا پورا شب قدر میں نازل کیا گیا اور دوسری طرف قرآن پاک آپﷺکی نبوت کے 23سالوں میں چھوٹے چھوٹے حصوں میں وحی کے ذریعے آپﷺ پر نازل ہوتا رہا۔ درحقیقت یہ دونوں باتیں ہی بالکل ٹھیک ہیں۔ سورۂ قدر میں ارشاد ہوتا ہے:’’انا انزلنٰہ فی لیلۃ القدر ‘‘۔
اس سے دومعنی مراد ہیں۔ ایک تو یہ کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے قبل ہی قرآن پاک کو لوح محفوظ میں محفوظ کردیا گیا تھا۔ شب قدر میں یہ قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا (بیت العزت) پرپورے کا پورا نازل کردیا گیا۔ پھر اس آسمان سے حسب حکم حضرت جبرائیل علیہ السلام قرآن کو چھوٹے چھوٹے حصوں میں آیات کی صورت میں وحی کی شکل میں آپﷺ تک پہنچاتے رہے اور یہ عمل 23سال میں مکمل ہوا۔
اس ضمن میں ایک اور بات بھی بے حداہم ہے کہ ایک شب قدر سے دوسری شب قدر کے دوران جتنا بھی قرآن پاک آپ ﷺ پر نازل ہوتا، اس رات حضرت جبرائیل علیہ السلام اس تمام وحی کو اکٹھا کرکے آپﷺ کو سنادیا کرتے تھے۔ قرآن پاک کے نزول کے علاوہ دیگر صحیفے اور الہامی کتابیں بھی ماہ رمضان ہی میں نازل ہوئیں۔
شب قدر، ماہ رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔ اس حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں ۔ حضرت امام شافعی رحمتہ اللہ علیہ کے مطابق ’’شب قدر 21رمضان المبارک کو ہوتی ہے۔‘‘ حضرت عمر فاروقؓ کو یہ گمان تھا کہ ’’تیسویں شب رمضان قدرہوتی ہے۔‘‘ آپ ؐسے ایک حدیث روایت کی جاتی ہے جس کے مطابق ستائیسویں رات شب قدرہوتی ہے۔ حضرت عائشہؓ کے مطابق 23ویں رات کو شب قدر ہوتی ہے اور کچھ روایات کے مطابق شب قدر 29ویں رات ہوتی ہے۔
یہ سب روایات اپنی جگہ بے حداہم ہیں لیکن بہتر یہی ہے کہ کسی ایک مخصوص رات کی بجائے آخری عشرے کی تمام طاق راتوں میں شب بیداری کا اہتمام کرلیا جائے تاکہ شب قدر کے فیوض وبرکات کو بھرپور طریقے سے سمیٹا جاسکے۔
شب قدر میں ہم رب تعالیٰ سے دوچیزیں مانگیں۔ یااللہ! تو مجھ پر رحم فرما دے۔ یا اللہ پاک ! تو ہم پر اپنی رحمت نازل فرما۔
کہنے کو تو ’’رحم‘‘ ایک لفظ ہے لیکن اس میں بہت سے معانی پوشیدہ ہیں۔ جب کوئی شخص اللہ سے اس کا رحم مانگتا ہے تو گویا وہ اپنے عاجز اور بے بس ولاچار ہونے کا اقرار کررہا ہوتا ہے۔ اللہ کے حضور اپنی خواہشات ، ارادے اور مرضی سے دست بردار ہونے کا اقرار کررہا ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کررہا ہوتا ہے۔ رب تعالیٰ سے رحم کی بھیک طلب کرنا گویا اپنے گناہوں اور کوتاہیوں کا اقرار بھی ہے اور اظہار ندامت بھی۔ یہ دراصل ایک عاجز اور لاچار بندے کا اقرار ہے کہ ’’اے اللہ! تیرے حکم سے سرتابی نہیں ہونی چاہیے تھی پھر بھی مجھ سے غلطی سرزد ہوگئی۔ ‘‘ جب ہم مکمل طورپر ہتھیار ڈال کر اللہ سے اس کا رحم اور پھر رحمت طلب کرتے ہیں تو اس کی رحمت جوش میں آتی ہے۔ وہ اپنے بندوں کو خواہ وہ کتنے ہی فاسق وفاجر کیوں نہ ہوں، معاف فرما دیتا ہے۔
اس ہزار مہینوں سے بہتر رات میں عبادت مندرجہ ذیل طریقے سے کی جاسکتی ہے:
1۔نماز عشاء سے لے کر شب ایک بجے تک نوافل ادا کیے جائیں۔ 2۔ ایک بجے سے تین بجے تک تلاوت کلام پاک کی جائے۔ 3۔ تین بجے کے بعد مزید نوافل اور نماز تہجد ادا کرلیں۔ 4۔ نماز فجر ادا کریں اور اس کے بعد دوبارہ تلاوت قرآن مجید کرلیں۔
امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے صدقے ہمیں بخش دے گا اور ہمارے گناہوں سے صرف نظر فرمائے گا۔
جہاں تک شب قدر کی علامت کا تعلق ہے اس رات میں نہ سردی ہوتی ہے نہ گرمی۔ روایت ہے کہ اس میں کتے کی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔ اس رات کی صبح کو جب آفتاب طلوع ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے گویا اس میں ذرا سیاہی نہ ہو وہ طشت دکھائی دیتا ہے۔ اس رات کی عجیب باتیں اور اسار اہل دل، اہل اطاعت، اہل ولایت اور ان لوگوں پر منکشف ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ یہ سب دکھانا چاہتا ہے اور ہر شخص کو اس کے مقام، مرتبے، حال اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ قرب کے مطابق اس رات کا مشاہدہ ہوتا ہے۔
صبر اور برداشت
انسان جب بھوکا پیاسا ہوتا ہے تو اس کی قوت برداشت ویسے ہی کم ہو گئی ہوتی ہے۔ tolerance (برداشت) تو پہلے ہی رفتہ رفتہ ہم سے دور ہو رہی ہے۔ ہمارے ہاں ایک عجیب تبدیلی آئی جو اُصولی طور پر نہیں آنی چاہئے تھی۔ ہمارے ہاں tolerance بالکل ہی ختم ہو گئی اور دوسری جانب لامحدود برداشت کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔ یہ دونوں چیزیں بیک وقت ہو گئی ہیں۔ ہم قومی معاملات میں، قانون کے احترام کے معاملے میں بے پناہ Tolerant ہو گئے (ہم ان معاملات میں بڑی سے بڑی بات ہضم کر جاتے ہیں) اور ذاتی معاملات میں ہماری tolerance (برداشت) صفر ہو گئی۔ جبکہ اسلام میں اس کے بالکل برعکس ہوتا ہے۔ ذاتی معاملات میں اسلام آپ سے کہتا ہے کہ آپ انتہا درجے کی برداشت کا مظاہرہ کیجئے لیکن قومی اور قانونی معاملات میں برداشت بالکل نہیں ہونی چاہئے۔
کوئی چار برس پہلے کا واقعہ ہو گا کہ میں UK (برطانیہ) گیا ہوا تھا۔ میرے ایک جاننے والے ہیں وہاں، ان کی بیٹی کے لئے ایک رشتہ آیا تھا۔ تو اُن صاحب اور اُن کی اہلیہ نے مجھ سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلئے۔ میری ہی کار میں بیٹھ کر لندن سے تقریباً دو سو میل (تین سو بیس کلو میٹر) دور ایک چھوٹے شہر میں گئے۔ اب میرے لئے بھی وہ شہر بالکل نیا تھا۔ میں گاڑی کے نیوی گیشن سسٹم سے مدد لے کر وہاں پہنچ تو گیا ۔ اب ایک جگہ سے یوٹرن لے کر مجھے اس گھر تک پہنچنا تھا۔ ٹریفک چل رہی تھی۔ وہاں ایک ٹریفک سگنل تھا اور وہاں ’’یو ٹرن منع ہے‘‘ کا سائن بھی نہیں تھا۔ میں نے یہ سوچا کہ یہاں یوٹرن سے منع نہیں کیا گیا تو میں یہیں سے یوٹرن لے لوں گا۔ تو میں نے بڑے اطمینان سے جب ایرو کا نشان سبز ہوا تو وہاں سے یوٹرن لینے کی کوشش کی۔ اپنی دانست میں، میں کلیر تھا‘ نہ کسی گاڑی کا راستہ روکا تھا نہ کوئی میری وجہ سے مسئلہ پیدا ہو رہا تھا۔
اچانک پہلے میرے پیچھے سے ہارن کی آواز آئی پھر دائیں ہاتھ سے پھر سامنے سے بیک وقت چھ سات ہارن بولے‘ تو میں حیران ہو کر چاروں طرف دیکھنے لگا کہ میں نے غلطی کیا کی جو میرے لئے ہارن بجایا جا رہا ہے۔ ایک ادھیڑ عمر صاحب تھے‘ کم و بیش میری ہی عمر کے ہوں گے انہوں نے مجھے اُنگلی سے اشارہ کیا کہ جو تم یہ یوٹرن لے رہے ہو یہ غلط کر رہے ہو۔ مجھے روکنے والے عام شہری تھے‘ پولیس والے نہیں تھے۔ انہوں نے اپنے ٹریفک کے قانون کی خلاف ورزی برداشت نہیں کی ۔ ہمارے لحاظ سے تو یہ بہت چھوٹی بات ہوتی۔ آپ کو معلوم ہے کہ برطانیہ میں اگر آپ کسی کو ہارن بجائیں تو ایک طرح سے اسے گالی تصور کیا جاتا ہے۔ تو چھ سات اُس دن ہارن مجھے بجا دیئے گئے۔ یہ tolerance level ہے قانون کے بارے میں ان لوگوں کا۔ ملک کے قانون کو توڑنے کو وہ لوگ بہت بُرا سمجھتے ہیں۔ ہم یہاں کبھی بھی کسی کو قانون توڑتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اسے روکتے نہیں۔
اس معاملے میں tolerance بہت ہے لیکن اپنی ذات کے لئے tolerance بالکل ختم ہو گئی۔ تو روزے کی حالت میں تو ویسے ہی بھوک پیاس کی وجہ سے انسان کی قوت برداشت کم ہو گئی ہوتی ہے تو ہم لوگ برداشت کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ اس وجہ سے ٹریفک میں شام کے وقت زیادہ لڑائیاں ہوتی د کھائی دیتی ہیں۔ جہاں تک بات ہے ہر سطح پر رعایت مانگنے کی۔ یہ درست ہے کہ آپ ﷺ نے تلقین فرمائی ہے کہ روزے دار کو کام کے معاملے میں چھوٹ دو لیکن روزے دار کے لئے یہ تلقین نہیں کہ وہ چھوٹ کا تقاضہ کرے۔ ہم مسلمانوں پر تو یہ ہے کہ روزہ رکھنے کے باوجود ہمارے معمولات زندگی میں کوئی فرق نہیں آنا چاہئے۔ زندگی بالکل معمول کے مطابق چلنی چاہئے جیسی عام حالات میں زندگی چلتی ہے اور ہمارے چہرے سے، ہمارے مزاج سے، ہماری حرکتوں سے اظہار نہیں ہونا چاہئے کہ ہم روزے سے ہیں۔