لاہور / کراچی: جیت کی تمنا، ہار کا خوف، الزامات کی صلیب۔۔۔۔۔یہ ہوتے ہیں امیدوار کے لیے انتخابات کے شب وروز۔ سو یہ لمحات کسی بھی امیدوار کے لیے یادگار بن جاتے ہیں۔
خاص طور پر بہ طور امیدوار پہلا الیکشن لڑنے کا تجربہ یادوں میں ہمیشہ محفوظ رہتا ہے۔ مختلف عام انتخابات میں حصہ لینے والے بعض امیدوار کچھ ایسے ہی واقعات سناتے ہیں:
پہلا الیکشن ایک بھی بینر چھپوائے بغیر لڑا، صرف چوراہوں پر تقاریر کرتا تھا، شیخ رشید
موروثی سیاست کی چھتری کے بغیر انتخابی میدان میں اترنے والے شیخ رشید کا کہنا ہے،’’سیاسی سوچ اور جنون مجھے سیاست میں لایا۔ پہلا قومی الیکشن لڑنے سے پہلے ایک کام یاب اسٹوڈنٹ لیڈر ہونے کے علاوہ میں 2 بار کونسلر بھی رہ چکا تھا۔ ضیاء الحق کے حمایت یافتہ بڑے لوگوں کے خلاف الیکشن لڑنے پر مجھے مختلف حیلوں بہانوں سے سبق بھی سکھانے کی کوشش کی گئی۔ مثال کے طور پر اپنی سیاسی سرگرمیوں کے لیے میں نے جو دفتر کرایہ پر حاصل کر رکھا تھا، وہاں سے مجھے نکال دیا گیا۔ پھر میری ساری الیکشن کمپین دفتر کے بغیر ہی جاری رہی۔ پورے الیکشن میں میرا ایک بھی بینر چھپا تھا نہ مجھے شہر کے معتبرین کی حمایت حاصل تھی۔ میں صرف چوکوں چوراہوں پر تقاریر کرتا تھا، جن میں میرے چاہنے والوں کی کثیر تعداد موجود ہوتی تھی۔ چوں کہ شہری بڑے لوگوں کی ذاتی مفادات کی سیاست سے تنگ آچکے تھے اس لیے مجھے اپنے پہلے ہی الیکشن میں ریکارڈ کام یابی حاصل ہوئی۔‘‘
کم عمری کی وجہ سے لوگ میری بات سننے ہی کو تیار نہیں تھے، لیاقت بلوچ
جنوبی پنجاب کے شہر مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے لیاقت بلوچ نے 1985ء میں 32 سال کی عمر میں اپنا پہلا الیکشن این اے 97 (موجودہ این اے 126) لاہور سے لڑا۔ اُس وقت کے غیرجماعتی الیکشن میں بھی انہیں جماعت اسلامی نے ہی نام زد کیا تھا۔ حلقے میں37 فیصد ٹرن آئوٹ ہونے کے باوجود موجودہ سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی نے 34ہزار ووٹ حاصل کر کے اُس دور کے معروف ٹی وی سیریل ’’اندھیرا جالا‘‘ کے ہیرو قوی خان کو ہرایا۔ خاندانی سیاسی پس منظر نہ رکھنے والے لیاقت بلوچ خاندان کے پہلے سیاست داں تھے جو آگے چل کر ڈپٹی اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی بھی بنے۔ لیاقت بلوچ نے بتایا،’’میں نے جب پہلا الیکشن لڑا تو مجھے دو قسم کی مشکلات کا سامنا تھا۔ ایک تو میں نے ان لوگوں کے خلاف طبل جنگ بجایا تھا جو کہ پرانے سیاست داں اور علاقہ جاگیردار تھے، دوسرے کم عمری کی وجہ سے لوگ میری بات سننے ہی کو تیار نہیں تھے۔ لوگ کہتے تھے یہ کل کا بچہ کیا کر لے گا، مگر میری جماعت اور میں نے ہمت نہیں ہاری اور الیکشن کمپین کرتے رہے۔ اس دوران ایک ایسا کام ہوا جس نے لوگوں کی سوچ ہی بدل کر رکھ دی۔ ہوا کچھ یوں کہ جب ہماری انتخابی مہم جاری تھی تو اس وقت ٹھوکر نیاز بیگ پر ہائی وے حکام اور عملہ دکانیں گرا رہا تھا۔ لوگوں کی مشکلات کے پیش نظر ہم نے اس غلط اقدام کے خلاف بھرپور مزاحمت کی، جس میں ہم کام یاب ہوئے۔ بس یہی میرے لیے ٹرننگ پوائنٹ تھا۔ لوگ ہمیں باہمت اور جرأت مند کے نام سے پکارنے لگے اور پھر انہوں نے مجھے سڑک سے اٹھا کر اسمبلی میں پہنچا دیا۔‘‘
جب اہلیہ میری حوصلہ افزائی کے لیے پہنچ گئیں،یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی اپنی خود نوشت ’’چاہ یوسف سے صدا‘‘ میں اپنے پہلے الیکشن کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات کا اعلان ہو گیا۔ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کی وجہ سے میں نے عام انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ انتخابات کے لیے درخواستیں جمع کروانے کی آخری تاریخ سے ایک روز قبل چچا نے مجھے بے حد مجبور کیا کہ میں اپنی درخواست قومی اسمبلی کی نشست لودھراں کے لیے جمع کروائوں۔ میں نے ان سے معذرت چاہی مگر وہ نہ مانے۔ ان دنوں درخواست دیتے وقت حلقۂ انتخاب سے تقریباً پچاس افراد بطور تجویز و تائید کنندہ درکار ہوتے تھے۔ میں نے ان سے کہا کہ میں اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو کہاں سے ڈھونڈوں گا مگر ان کے اصرار پر میں نے لودھراں سے انتخاب میں حصہ لینے کی ہامی بھر لی۔ میرے لیے یہ حلقہ بالکل نیا تھا اور بطور چیئرمین ضلع کونسل اس حلقے سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑنا خاصا خطرناک بھی تھا اور ہارنے کی صورت میں شرمندگی کا باعث بھی۔ بہرحال میں نے درخواست جمع کروا دی۔
میرے پاس لودھراں میں انتخابی مہم چلانے کے لیے کسی مناسب رہائش کا بندوبست نہ تھا، اس لیے میں نے ایک ماہ کی ایڈوانس رقم جمع کروا کے لودھراں میں ضلع کونسل کے ریسٹ ہائوس میں ایک کمرہ بک کروایا مگر اسسٹنٹ کمشنر لودھراں جنید اقبال کے مشورے پر میں نے کمرے کی بکنگ منسوخ کروا دی، تاکہ کہیں آئندہ مجھ پر سرکاری وسائل کے استعمال کا ریفرنس نہ بن جائے۔ اس مقصد کے لیے میں نے کچھ عرصہ ڈاکٹر محمد امیر کے اندرون شہر واقع پرانے گھر میں رہائش رکھی اور بعدازاں منڈھالی موڑ پر میاں مجید جھنڈیر کے ڈیرے کو انتخابی کیمپ کے طور پر استعمال کیا۔ میرے لیے سب سے مشکل مرحلہ صوبائی اسمبلی کے امیدواروں کا چنائو تھا۔ میں نے جندوڈے خان بلوچ اور مجید جھنڈیر کو صوبائی اسمبلی کے لیے اپنا امیدوار نامزد کر دیا جو دونوں میرے اراکین ضلع کونسل تھے۔ ان انتخابات میں میرے مقابلے میں سید نصر الدین شاہ اور نواب ظفر اللہ خان (جو پاکستان قومی اتحاد کے ٹکٹ پر 1977ء کے انتخاب میں حصہ لے چکے تھے) میدان میں تھے۔
میرے مخالفین نے انتخاب سے قبل میرے خلاف پروپیگنڈا مہم تیز کردی۔ گیلانی خاندان پر تنقید کی کہ انہوں نے لودھراں کو اپنی انتخابی کالونی سمجھ رکھا ہے۔ میں نے انتخابی مہم میں لوگوں کو بہت منظم طریقے سے متحرک کیا جس سے وہ میرے قریب آتے گئے۔ میں انتخابی مہم کی آخری رات تقریباً تین بجے اپنے انتخابی کمیپ منڈھالی موڑ، لودھراں پہنچا تو وہاں میری اہلیہ موجود تھیں۔ میں پریشان ہو گیا کہ وہ لاہور سے یہاں خیریت سے آئی ہوں۔ معلوم ہوا کہ وہ میری حوصلہ افزائی کے لیے آئی ہیں، کیوںکہ ان کے خالہ زاد بھائی پرویز اصغر جیلانی گورنر ہائوس میں تعینات تھے اور ان کی رپورٹ کے مطابق میں انتخاب ہار رہا تھا۔ میں نے اپنی اہلیہ کو تازہ ترین صورت حال سے آگاہ کیا اور کہا کہ اﷲ خیر کرے گا، آپ ملتان جاکر جشن کا اہتمام کریں۔ انتخاب کا نتیجہ آیا تو رب العزت کے فضل و کرم سے میں اور جندوڈے خان بلوچ بھاری اکثریت سے کام یاب ہو گئے مگر افسوس کہ میاں مجید جھنڈیر انتخاب ہار گئے۔‘‘
میرے مقابلے میں سب اکٹھے ہوگئے، اور میں چند سو ووٹوں سے ہارگیا،پروفیسر این ڈی خان
پاکستان پیپلز پارٹی کے راہ نما پروفیسر این ڈی خان کا سیاسی سفر کئی سال پر محیط ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے انہیں اہم قومی امور اور پارٹی کے سیاسی فیصلوں میں شریک رکھا اور آج بھی وہ سینیر سیاست داں کی حیثیت سے پی پی پی کی فکر اور نظریے کے زبردست حامی ہیں۔ 70 کے انتخابی معرکے میں انہیں اُس وقت کی کم عمر سیاسی جماعت پیپلز پارٹی نے اپنے میدان میں اتارا۔ پروفیسر این ڈی خان اس وقت پچیس سال کے تھے۔ اپنے پہلے انتخابی معرکے سے متعلق انہوں نے بتایا۔
’’مجھے کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر پارٹی نے ٹکٹ دیا۔ اس زمانے میں کراچی پر جے یو پی کا غلبہ تھا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات میں بنیاد پرستوں اور ترقی پسندوں کے درمیان مقابلہ تھا۔ میرا حلقۂ انتخاب لانڈھی کورنگی پر مشتمل تھا۔ اس میں وہاں کا صنعتی علاقہ بھی شامل تھا۔ اسی حلقے سے حقانی صاحب جے یو پی کے امیدوار تھے۔ اس وقت میں لانڈھی ہی میں 80 گز کے چھوٹے سے مکان میں رہتا تھا اور اپنے علاقے کے لوگوں اور ان کے مسائل سے اچھی طرح واقف تھا۔ دراصل عام آدمی کے ساتھ میرا تعلق براہ راست تھا اور میں ہر وقت ان کے لیے دست یاب تھا۔ میں ایک اچھا مقرر تھا، اندازِ بیاں، الفاظ کا چناؤ گویا میرا ہتھیار تھے، جس کے ذریعے اپنی انتخابی مہم چلا رہا تھا۔ میرے ایک جلسے کے شرکاء کی تعداد تقریباً پچاس ہزار تھی۔ ہر طرف میری تقریروں کا چرچا تھا۔ اپنے حلقے میں میری کارکردگی اور شہرت نے مقامی مذہبی اور سیاسی جماعتوں کو مشکل میں ڈال دیا۔ جماعت اسلامی، مسلم لیگ اور دیگر اکٹھے ہو گئے اور حقانی صاحب کو سنگل امیدوار کے طور پر آگے کر دیا۔ انتخابات ہوئے اور نتائج کے مطابق میں ناکام قرار پایا۔ مجھے 29800 ووٹ ملے تھے۔ اس مقابلے نے مجھے حوصلہ دیا، کیوں کہ دائیں بازو کی سیاسی قوتوں نے ہر طرح میرا راستہ روکنے کی کوشش کی، لیکن چند ہی ووٹوں سے کام یاب ہوسکے۔ میں صرف چند سو ووٹوں سے ہارا تھا۔‘‘
انتخابی مہم کے دوران مجھے خاکروبوں کی بستی میں جانے کا موقع بھی ملا،قیصر خان نظامانی
2002 کے عام انتخابات میں ٹیلی ویژن کے مقبول اور سینیر اداکار قیصر خان نظامانی سیاسی اکھاڑے میں نظر آئے۔ انہوں نے اُس وقت کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے انتخابی ٹکٹ پر حصّہ لیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے انہیں کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقۂ انتخاب 251 پر اپنی فتح کے لیے کوشش کرنے کے لیے آگے بڑھا دیا۔ وہ اپنے پہلے انتخابی معرکے بارے میں بتاتے ہیں۔
’’بھٹو صاحب سے ہمارے بڑوں کا تعلق نہایت مضبوط تھا، جس پر وقت نے ایسی ضرب لگائی کہ سب تتربتر ہو گیا۔ اب یہی خاندان، برسوں کے شناسا ایک دوسرے کو مرنے مارنے پر تُلے ہوئے تھے۔ ہمارے خاندان کے بڑوں کو اپنی ملازمتیں چھوڑنا پڑیں۔ جاگ کر راتیں گزاریں اور اپنی جان بچانے کے لیے جتن کرتے رہے۔ وہ نہایت سخت اور کڑا وقت تھا۔ پھر بھٹو صاحب رہے اور نہ ہی ہمارے بڑے، تو میں نے ماضی کو فراموش کر کے مراسم کی ٹوٹی ہوئی ڈور میں جوڑ لگایا۔ مجھے یہ بہت اچھا لگا۔ بی بی (بے نظیر بھٹو) سے بات چیت ہوئی اور پھر میرا سیاسی سفر شروع ہوا۔ عام انتخابات میں مجھے کراچی میں این اے 251 سے پیپلز پارٹی نے اپنا امیدوار بنایا۔‘‘
قیصر خان نظامانی الیکشن جیت کر عوام کے ساتھ ساتھ فنون لطیفہ سے وابستہ افراد کی خدمت کرنے کا عزم لے کر میدان میں اترے تھے۔ ان کے مطابق،’’جو عزت اور پذیرائی مجھے لوگوں سے ملی تھی، اس کے بدلے میں ان کے مسائل حل کرنے اور مشکلات کم کرنے کی شدید خواہش رکھتا تھا۔ میں بے پناہ عزت اور بے شمار محبت دینے والے عام لوگوں اور فن کاروں کو کچھ لوٹانا چاہتا تھا۔‘‘
اپنے پہلے انتخاب اور انتخابی مہم کے تجربے کی بابت انہوں نے بتایا۔
’’میرے حلقۂ انتخاب میں لائنز ایریا، کشمیر کالونی، محمود آباد، جونیجو ٹاؤن و دیگر علاقوں کے ساتھ پی ای سی ایچ ایس کا تھوڑا حصّہ بھی شامل تھا۔ ان میں کئی قومیتوں، مذاہب کے ماننے والے اور مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے آباد تھے۔ میں اپنے حلقے میں انتخابی مہم کے دوران ان سے ملا، انہیں اپنے مقصد، خیالات اور فکر سے آگاہ کیا۔ یہ ایک نیا اور منفرد تجربہ تھا۔ اس دوران عوام کے مسائل اور مشکلات کا علم ہوا۔ میں اپنے حلقے کا واحد امیدوار تھا، جو لائنز ایریا میں بھی گیا اور وہاں لوگوں سے بات چیت کی، جب کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران مجھے خاکروبوں کی بستی میں جانے کا موقع بھی ملا۔ سب نے میری حوصلہ افزائی کی اور لوگوں نے بہت مان اور پیار بھی دیا، جو آج بھی میری خوش گوار یادوں کا حصّہ ہے۔ لیکن میں وہ الیکشن ہار گیا۔ میرا نتیجہ روک لیا گیا تھا اور اس کا اعلان بھی عام انتخابات کے پانچویں روز کیا گیا۔‘‘
میری الیکشن مہم پر ایک لاکھ سے بھی کم اخراجات ہوئے، فاروق اعوان (ن لیگ)
فاروق اعوان کی نظر میں سیاست عوام کی خدمت کرنے کا نام ہے اور اسمبلی ایک مقدس جگہ ہے، لیکن پہلے عام انتخابات میں کام یابی حاصل کرنے کے بعد ان پر کُھلا کہ ایسا نہیں ہے۔ انہوں نے اپنا پہلا عام انتخاب ن لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے جیتا تھا، جس کی تفصیل ان کی زبانی جانیے۔
’’ میں لیاری کا مکین ہوں۔ گزر بسر کے لیے رکشا چلاتا تھا۔ اسی دوران کراچی ٹرانسپورٹ فیڈریشن کا سیکریٹری اطلاعات بنا اور 1994 میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس زمانے میں کراچی میں وارڈ سسٹم ہوا کرتا تھا۔ پارٹی نے مجھے وارڈ تھری کے لیے ن لیگ کا صدر بنا دیا۔ سب سے پہلے میں نے لیاری میں ن لیگ کا دفتر بنایا، جس کا دورہ غوث علی شاہ نے بھی کیا۔ میری کوششوں سے لیاری میں ن لیگ کا جلسہ بھی منعقد ہوا۔ اس وقت پی پی پی کے قادر پٹیل صوبائی نشست 86 سے صوبائی اسمبلی کے رکن تھے۔ مقامی عوام ان کی کارکردگی سے سخت مایوس تھے۔ وہ پینے کے پانی اور بنیادی ضروریات کے لیے ترس رہے تھے۔ انہیں کوئی سہولت میسر نہ تھی جب کہ میں عوام کی خدمت کا جذبہ لے کر سیاست میں آیا تھا۔ میں نے ن لیگ کو یہاں منظم کیا اور اس کے فعال ورکر کی حیثیت سے سامنے آیا۔ پھر میری ملاقات پارٹی قائد میاں نواز شریف سے ہوئی۔ ‘‘
ن لیگ کو لیاری میں مضبوط اور متحرک کرنے والے فاروق اعوان نے 1997 کے عام الیکشن میں صوبائی امیدوار کے لیے پارٹی ٹکٹ کی درخواست دے دی، جو منظور کر لی گئی۔ وہ بتاتے ہیں،’’میرے حلقۂ انتخاب میں اُس وقت نو وارڈ شامل تھے۔ میں سوچتا تھا کہ الیکشن جیت کر اسمبلی میں جاؤں گا تو اپنے علاقے کا نقشہ بدل کر رکھ دوں گا، لوگوں کی محرومیوں کا خاتمہ کروں گا۔ میں نے اپنی انتخابی مہم کے لیے دن رات ایک کردیا۔ لوگوں سے ملا، بڑے چھوٹے جلسے کیے، کارنر میٹنگز کا انعقاد کیا، جس کا مقصد لوگوں کو ووٹ دینے پر تیار کرنا تھا۔ میں اپنی کمائی کا بڑا حصّہ اپنے علاقے میں اپنی جماعت کے تحت سیاسی سرگرمیوں پر لگا دیتا تھا جب کہ میری الیکشن مہم پر ایک لاکھ سے بھی کم اخراجات ہوئے۔
پی پی پی کی طرف سے عبدالکریم جت اس حلقے سے میرے مخالف امیدوار تھے۔ ماضی کے تلخ تجربوں نے عوام کو پی پی پی سے بددل کر دیا تھا، جس کا نتیجہ میری کام یابی کی صورت میں نکلا۔ اسمبلی میں پہنچ کر ایسا محسوس ہوا کہ سب اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے آئے ہیں۔ کسی کی عزت نفس کا خیال نہ رکھنا عام بات تھی۔ خیر، میں نے نیک ارادوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی کوشش شروع کردی اور علاقے کے لوگ گواہ ہیں کہ میں نے یہاں کام بھی کیا۔ تجاوزات کا خاتمہ، گھروں تک پینے کے پانی کی لائن پہنچانا، سیوریج کا نظام بہتر بنانا، اسکول، ڈسپنسری، انڈسٹریل ہوم قائم کرنے کے علاوہ سڑکوں کو کشادہ بنایا، لیکن میرا منتخب ہوکر اسمبلی میں پہنچنا ایک طرح سے تلخ تجربہ ضرور تھا۔ بہرحال، میں کرپشن سے دور رہا، ناجائز طریقے سے پیسہ نہیں بنایا۔ آج بھی میں ایک چھوٹے سے کیبن پر بچوں کی چیزیں اور سگریٹ وغیرہ فروخت کر کے اپنا گھر چلارہا ہوں، لیکن میرا ضمیر مطمئن ہے۔‘‘