کیا دنیا میں کسی بھی وقت ایٹمی جنگ چھڑنے والی ہے؟ کیا دنیا ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑی ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کے جواب ایم آئی ٹی کے پروفیسر اور امریکی دانشور نوم چومسکی کی نئی کتاب Nuclear War and Environmental Catastrophe میں دینے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ کتاب اصل میں ان کے ایک صحافی لارے پولک کو دیے گئے انٹرویوز کے ایک سلسلے پر مشتمل ہے۔اس کتاب میں پاکستان اور بھارت کی ممکنہ ایٹمی جنگ کے حوالے سے بھی کئی باتیں ہیں۔ مختلف ملکوں کے درمیان جاری کشیدگی، توانائی کا بحران ، سمندروں پر حکمرانی کی جنگ اور دنیا کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی و سماجی حالات کے تناظر میں اب یہ سوالات زیادہ شدت کے ساتھ اٹھائے جارہے ہیں کہ گذشتہ ستر سال کے دوران کوئی نصف درجن سے زائد ملکوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے جو پہاڑ کھڑے کررکھے ہیں ، کیا ان کے استعمال کاوقت آنے والا ہے۔مشہور دانشور نوم چومسکی کے خیالات اور آراء پر مبنی مذکورہ کتاب اس حوالے سے پوری دنیا میں دلچسپی کے ساتھ پڑھی جارہی ہے۔یاد رہے کہ نوم چومسکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسے دانشور ہیں جن سے امریکی اسٹیبلشمنٹ کبھی خوش نہیں رہی۔
خودکار ایٹمی نظام
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ 1945ء سے لے کر اب تک دنیا میں کئی بار ایٹمی جنگ ہوتے ہوتے بچی ہے۔ عملی طور پر ایسا درجنوں مرتبہ ہوچکا ہے جب ایٹمی جنگ کاخطرہ پیدا ہوگیا تھا۔ایک بار 1962 میں ایسا وقت آیا تھا جب ایٹمی جنگ کاخطرہ تھا۔ بھارت اور پاکستان کئی مرتبہ ایٹمی جنگ کے قریب آچکے ہیں اوران کے درمیان یہ خطرہ تاحال موجود ہے۔بھارت اور پاکستان ایسے ملک ہیں جو امریکہ کی مدد سے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کے ذخائر میں تیزی سے اضافہ کررہے ہیں۔ایران کے حوالے سے خطرات موجود ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے بلکہ یہ ہے کہ اس شبے کی وجہ سے ایران پر حملہ کیا جاسکتا ہے اور یوں معاملات غلط سمت میں جا سکتے ہیں۔ یہ بہت کشیدگی والا معاملہ ہے اور ہمیشہ رہا ہے۔ امریکہ اور روس کے د رمیان متعدد بار ایسا ہوچکا ہے کہ ان کے خود کار نظام نے دوسرے ملک کی جانب سے ایٹمی حملے کے خطرے کا اشارہ کیا اوراس کے نتیجے میں کبھی بھی ایسا ہوسکتا ہے کہ قبل اس کے کہ انسانی ہاتھ اصل حقیقت کا پتہ چلائے، ملک کا خود کار ایٹمی نظام خود بخود ہی جوابی کارروائی کردے اور ایسا منٹوں میں ہوسکتا ہے۔اس وقت دنیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے جو انبار اکٹھے ہوچکے ہیں، وہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ کہنے کو تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ ابھی ایٹمی جنگ کمتر امکان والی بات ہے تاہم آئندہ سالوں کے دوران یہ کمتر امکان والی بات نہیں رہے گی۔
نیویارک پر ڈرٹی بم کا حملہ
Nuclear War and Environmental Catastrophe میں نوم چومسکی مزید کہتے ہیں کہ ایٹمی جنگ سے ہٹ کر ایک اورجو خطرہ ہے وہ ایٹمی دہشت گردی کا ہے۔مثال کے طورپر نیویار ک میں ڈرٹی بم کا حملہ کیا جاسکتا ہے۔ نیویارک میں اس قسم کا حملہ کرنے کے لیے کوئی زیادہ پاپڑ نہیں بیلنا پڑیں گے۔وہ کہتے ہیں کہ وہ امریکی انٹیلی جنس کے بارے میں جانتے ہیں اور گراہم ایلیسن جیسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو ہارورڈ یونیورسٹی میں اس معاملے پر کام کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ آنے والے سالوں میں ایٹمی دہشت گردی کا بہت قوی امکان ہوسکتا ہے اور ایسا ہوا تو نجانے اس کا ردعمل کیا ہوگا۔
لہذا ان کے خیال میں بے شمار امکانات (ایٹمی جنگ یا ایٹمی دہشت گرد ی کے) موجود ہیں اور یہ امکانات شدید سے شدید ہورہے ہیں۔بالکل اسی طرح جیسے ایٹمی ہتھیاروں کا پھیلائو بد سے بدتر ہورہا ہے۔مثال کے طور پر چند واقعات کو لیں۔ستمبر 2009ء میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک قرارداد S/RES/1887 منظور کی جس کے بارے میں کہا گیا کہ یہ اصل میں ایران کے خلاف قرار داد ہے۔جزوی طور پر ایسا ہی تھا ، لیکن اس میں دنیا کے دیگر ممالک کو بھی ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو کے معاہدے این پی ٹی میں شمولیت کے لیے کہا گیا تھا۔ان میں پاکستان ، بھارت اور اسرائیل سرفہرست تھے۔بعدازاں اوبامہ انتظامیہ نے فوری طورپر بھارت کو مطلع کیا کہ یہ قرار داد ان پر لاگو نہیں ہوتی۔ اسرائیل کو بھی مطلع کیاگیا کہ یہ قرارداد اس پر لاگو نہیں ہوتی۔
پاکستانی ایٹم بم اور امریکہ کی بالواسطہ اعانت
اگر بھارت اپنی ایٹمی صلاحیت میں اضافہ کرتا ہے تو پاکستان کو بھی ایسا کرنا ہوگا کیونکہ روایتی جنگ میں پاکستان بھارت کامقابلہ نہیں کرسکتا۔اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں کہ پاکستان نے امریکہ کی بالواسطہ مدد کے ذریعے اپنے ایٹمی پروگرام کو مکمل کیا اور ایٹمی ہتھیار تیار کیے۔امریکہ کی ریگن انتظامیہ نے یوں ظاہرکیا کہ جیسے اسے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بارے میں کچھ پتہ نہیں حالانکہ اسے سب پتہ تھا۔
بھارت نے اقوام متحدہ کی قرار داد 1887 کے ردعمل میں اعلان کیا کہ اس کی ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار سپرپاورز کے برابر ہے۔ایک سال قبل امریکہ نے بھارت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے جسے گذشتہ حکومت نے شروع کیا تھا اور جس کے تحت امریکی حکومت اس قابل ہوگئی کہ بھارت کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کرسکے حالانکہ بھارت نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے تھے۔
یہ امریکی کانگرس کی اس قانون سازی کے خلاف تھا جو اس وقت کی گئی تھی جب بھارت نے1974 میں پہلا ایٹمی دھماکہ کیا تھا۔ امریکہ کے اس اقدام کے نتیجے میں نیوکلیئر سپلائر گروپ کو بھی آزادی مل گئی اور بھارت کے لیے کئی دروازے کھل گئے۔چین نے اس کے جواب میں پاکستان کو ایٹمی ٹیکنالوجی فراہم کی۔ اگرچہ امریکہ کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ بھارت کے لیے ایٹمی ٹیکنالوجی پرامن استعمال کے لیے ہے لیکن حقیقت میں اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اگر بھارت اس ٹیکنالوجی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال کرتا ہے تو کیا ہوگا۔
اور پھر 2009 میں کیے جانے والے اس اعلان کی طرف آتے ہیں کہ عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) بھرپور کوشش کررہی ہے کہ اسرائیل اپنی ایٹمی تنصیبات کو معائنے کے لیے کھولے۔لیکن امریکہ اور یورپ اس کی ان کوششوں کو ناکام بنانے میں لگے رہے ہیں۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی ادارے مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے لیکن اس سے تمام مسائل حل نہیں ہوں گے۔اس کے بعد ایران سے کس قسم کا خطرہ ہوسکتا ہے ، یہ بھی ایک نہایت دلچسپ سوال ہے۔ لیکن ایک لمحے کے لیے فرض کریں کہ اس کا کوئی خطرہ ہے تو بھی نیوکلیئر فری زون کے قیام سے یقینی طورپر اس میں کمی ہوگی اور ہوسکتا ہے،یہ (خطرہ) بالکل ختم ہوجائے۔ تاہم امریکہ اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔
اسرائیل کی ’’ابہام کی پالیسی‘‘
جب نوم چومسکی سے پوچھا گیا کہ اب جبکہ ایران کے شہر میں واقع ایٹمی پلانٹ کام کرنے لگا ہے تو یہ خطرہ لاحق ہوگیا ہے کہ وہ سائیکل شدہ فیول سے پیدا ہونے والے پلوٹونیم کو استعمال کرکے ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے۔ اس سے ایران کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھی وہی سوال پیدا ہوتے ہیں جو اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ہیں۔ اس سوال کے جواب میں امریکی دانشور نے کہا کہ 1960ء کی دہائی سے ایسا ہورہا ہے۔
حقیقت میں نکسن انتظامیہ نے اسرائیل کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ کیا تھا جس میں کہا گیا تھاکہ اسرائیل کو اس کی’’ابہام کی پالیسی‘‘ (یعنی نہ تو اس بات کا انکار کرنا کہ اسرائیل کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں اور نہ ہی اس کا اقرار کرنا) کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کی جانب سے قطعاً مجبور نہیں کیا جائے گا۔ لیکن اب یہ مسئلہ مکمل طورپر زندہ ہوچکا ہے کیونکہ اب ہر پانچ سال بعد ایک کانفرنس ہوتی ہے جسے ’’عدم پھیلائو نظرثانی کانفرنس‘‘ Non-Proliferation Review Conference کہتے ہیں۔1995 میں عرب ملکوں خاص طور پر مصر کی جانب سے سخت دبائو کے بعد ایک معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک کیا جانا مقصود تھا اور کلنٹن انتظامیہ نے اس پر دستخط کیے تھے۔2000 میں اس عزم کو دوبارہ دہرایا گیا۔ 2005 میں بش انتظامیہ نے اس تمام سلسلے کو سبوتاژ کیا۔ ان کا کہنا تھا: ’’ایسا کیوں کیا جائے؟‘‘
مئی 2000 میں یہ سوال پھر اٹھایا گیا۔مصراب غیروابستہ ممالک کی تحریک ، جو 118 ممالک پر مشتمل تحریک ہے، کے ارکان کو کہہ رہا ہے کہ اس سمت یعنی مشرق وسطیٰ کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی جانب قدم اٹھائیں۔اس سلسلے میں دبائو اس قدرشدید تھا کہ امریکہ کو بھی گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اس نے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اس سے جڑے رہنے کا عزم ظاہر کیا لیکن پھر ہلیری کلنٹن نے بیان داغ دیا کہ اس قسم کا خطہ بنانے کے لیے ابھی موزوں وقت نہیں ہے۔
امریکہ انتظامیہ نے ایک بار پھر اسرائیل کی حمایت کردی اور کہا کہ ایسا صرف خطے میں جامع امن معاہدے کے بعد ہی ہوسکتا ہے اور یہ ایک ایسا معاہدہ ہے جسے اسرائیل اور امریکہ غیرمعینہ مدت تک موخرکر سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اصل میں وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’یہ ٹھیک ہے ، لیکن یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘ خبروں میں یہ باتیں نہیں آئیں ، اس لیے کسی کو اس کے بارے میں معلوم نہیں۔بالکل اسی طرح جس طرح اوبامہ نے بھارت اور اسرائیل کو مطلع کیا تھا کہ قرار داد 1887ء ان پر لاگو نہیں ہوتی۔ان تمام چیزوں سے ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
ایران کیخلاف خصوصی ’’ایٹم بم‘‘
نوم چومسکی کے بقول حقیقت میں یہ (ایٹمی جنگ کا خطرہ) اچھا خاصا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ایران کو درپیش خطرات غیرمعمولی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ یہ چیز اسے ایٹمی ہتھیار تیار یا حاصل کرنے کی شہ دے رہی ہے۔ اوبامہ نے خاص طورپر امریکہ کی جارحیت کی صلاحیت میں زبردست اضافہ کردیا ہے جو اسے ڈیگوگارسیا کے جزیرے کے ذریعے حاصل ہے جہاں پر امریکہ کا امریکی اڈہ ہے جسے وہ مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا پر بمباری کے لیے استعمال کرتا ہے۔دسمبر 2009 میں بحریہ نے ڈیگو گارسیا میں ایٹمی آبدوزوں کے لیے ٹنڈر ارسال کیا ۔
قیاس ہے کہ یہ آبدوزیں پہلے سے موجود تھیں لیکن اس عمل سے اس کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور یقینی طور پر امریکہ کو یہ صلاحیت حاصل ہے کہ وہ وہاں سے ایران پر ایٹمی حملہ کرسکے۔ اس طرح وہ گہرائی میں جاکر مار کرنے والے بم بنانے کا عمل بھی تیز کرچکا ہے جوایک ایسا پروگرام تھا جو بش انتظامیہ کے دور میں کمزور پڑچکا تھا۔اوبامہ جیسے ہی آئے انہوں نے اسے تیز کردیا اور اس کا خاموشی کے ساتھ اعلان بھی کیا گیا اور میرے خیال میں اس کو امریکہ میں رپورٹ بھی نہیں کیا گیا کہ سینکڑوں کی تعداد میں یہ بم ڈیگوگارسیا میں پہنچا دیے گئے ہیں۔ یہ سب ایران کے خلاف ہے۔یہ تمام سنگین نوعیت کے خطرات ہیں۔
نوم چومسکی مزید کہتے ہیں کہ درحقیقت ایرانی خطرے کا سوال بہت دلچسپ ہے۔ اس مسئلے پر اس طرح بحث کی جاتی ہے جیسے یہ اس دور کا سب سے بڑا ایشو ہے۔ نہ صرف امریکہ بلکہ برطانیہ میں بھی۔’’یہ ایران کا سال ہے۔‘‘ ایران ایک بڑا خطرہ ہے ، بڑا پالیسی ایشو ہے۔اس سے سوال اٹھتا ہے :ایرانی خطرہ آخر ہے کیا؟ اس پر سنجیدگی سے بات نہیں کی جاتی۔ لیکن اس کا ایک آمرانہ قسم کا جواب دیا جاتا ہے جس کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔یہ جواب اپریل 2010 میں پنٹاگون اور انٹلی جنس کی جانب سے سامنے آیا تھا۔
انہوں نے عالمی سلامتی کے نظام کے حوالے سے کچھ چیزیں کانگرس میں پیش کی تھیں اور یقیناً ایران پر بات کی تھی۔انہوں نے واضح کیا تھا کہ خطرہ فوجی نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر خطے کے معیار کے اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو ایران کے فوجی اخراجات بہت کم ہیں۔ایران کا تزویراتی یا سٹرٹیجک نظریہ مکمل طور پر دفاعی ہے۔اس کا مقصد یہ ہے کہ جارحیت کو اتنی دیر تک روکا جائے کہ سفارت کاری اور مذاکرات کے ذریعے کوئی پرامن حل نکل آئے۔ایران کے پاس بیرون ملک فوج تعینات کرنے کی صلاحیت بہت کم ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر ایران ایٹمی صلاحیت حاصل کربھی رہا ہے تو یہ مکمل طورپر ہتھیاروں کے حوالے سے نہیں ہے۔یہ اس کی ڈیٹرنٹ سٹرٹیجی کا حصہ ہے اور یہ ایک حکمت عملی ہے جسے زیادہ تر سٹرٹیجک تجزیہ کار چنداں اہمیت نہیں دیتے۔لہذا کوئی فوجی خطرہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے باوجود امریکی کہتے ہیں کہ ایران دنیا کے لیے بڑا خطرہ ہے۔یہ خطرہ کیا ہے؟ بڑی دلچسپ بات ہے۔ اصل میں ایران اپنے اثرورسوخ کو ہمسایہ ممالک میں بڑھا رہا ہے اور اس کے بارے میں امریکہ کہتا ہے کہ اس سے ’’عدم استحکام‘‘ پیدا ہوتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم اس کے ہمسایوں پر حملہ کرتے ہیں اور وہاں پر قبضہ کرتے ہیں تو یہ ’’استحکام‘‘ لاتا ہے۔یہ ایک معیاری مفروضہ بن چکا ہے۔اصل میں اس کامطلب ہے کہ ’’دیکھو، ہم دنیا کے مالک ہیں۔اور اگر کوئی ہمارا حکم نہیں مانتا تو وہ بدمعاش ہے۔‘‘
چین، امریکہ ٹکرائو
نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ حقیقت میں چین کے ساتھ ایسا ہی رویہ اپنایا جارہا ہے۔ یہ ایک قسم کا فساد ہے اوراس پر بھی امریکہ میں کوئی خاص بات نہیں کی جاتی۔ لیکن چین میں اس پر بڑی لے دے ہوتی ہے جیسے چین کی حدود میں واقع سمندروں پر کنٹرول کی بات ہے۔چین کی بحریہ وسعت اختیار کررہی ہے اوراس پر امریکہ میں بات کی جاتی ہے اور اس کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔وہ جو کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ چین کے آس پاس واقع سمندروں پر کنٹرول کیا جائے ۔ مثال کے طورپر سائوتھ چائنہ سی ، ییلو سی وغیرہ وغیرہ، اوراس کو یہاں جارحانہ طرز عمل کے طورپر دیکھا جاتا ہے۔پنٹاگون نے حال میں چین کے حوالے سے خطرات کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ان کا فوجی بجٹ بڑھ رہا ہے ۔
یہ اس وقت اس بجٹ کا پانچواں حصہ ہے جو امریکہ عراق اور افغانستان میں خر چ کرتا ہے اور یقیناً یہ امریکی فوجی بجٹ کا ایک معمولی حصہ ہے۔زیادہ عرصہ کی بات نہیں ہے جب امریکہ چین کے قریب سمندر میں بحری مشقیں کررہا تھا۔ چین نے اس موقع پر احتجاج کیا تھا اور خاص طورپر ایٹمی طاقت سے چلنے والے طیارہ بردار بحری بیڑے ’’یوایس ایس جارج واشنگٹن‘‘ کو مشقوں میں لانے پر اس نے شدید احتجاج کیا تھا کیونکہ چین کا کہنا تھا کہ اس بیڑے کے ذریعے امریکہ بیجنگ پر ایٹمی حملہ کرسکتا ہے۔اس پر امریکہ کا موقف تھا کہ چین جارحانہ طرز عمل اختیار کررہا ہے کیونکہ وہ سمندروں کے حوالے سے آزادی میں مداخلت کررہا ہے۔اب اگر اس حوالے سے دفاعی اور فوجی تجزیوں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں اس کو سلامتی کا ایک کلاسیک المیہ کہا جاتا ہے جس میں دونوں فریق ٹکرائو کا شکار ہیں۔
ہر فریق سمجھتا ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے وہ اس کی سلامتی کے لیے ضروری ہے جبکہ دوسرا جو کچھ کررہا ہے وہ اس کی سلامتی کے لیے خطرہ ہے ، اور ہم خطرے کو ہمیشہ سنجیدگی سے لیتے ہیں۔لہٰذا اگر چین اپنے پانیوں پر کنٹرول کی کوشش کررہا ہے تو وہ جارحیت ہے اور ہماری سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔یہ سلامتی کا ایک کلاسیک المیہ ہے۔تصور کریں کہ اگر چین کیریبئین جو کہ وسط بحرالکاہل میں آتا ہے، میں بحری مشقیں کررہا ہو تو کیا امریکہ اس کو برداشت کرے گا ۔ کبھی نہیں۔ ایران کے ساتھ بھی بالکل ایسا ہے۔ بنیادی طورپر فرض کرلیا گیا ہے کہ ’’ہم دنیا کے مالک ہیں۔‘‘ اور ہمارے غلبے کی حدود میں خودمختاری کی کوئی کوشش ’’بدمعاشی‘‘ ہے۔
یہ غلبے کا مسئلہ ہے
کیا ایٹمی ہتھیاروں کی اس دوڑ میں نسل پرستی کا بھی کوئی مسئلہ ہے؟ اس سوال کے جواب میں نوم چومسکی کہتے ہیں کہ ایٹمی ہتھیار نہ ہوں ، یہ مسئلہ تب بھی ہوگا۔’’میرا مطلب ہے کہ یہ طویل المیعاد منصوبہ بندی کے حوالے سے مفروضے اور تصورات ہیں اور میرا نہیں خیال کہ اس کا نسل پرستی سے کوئی تعلق ہے۔‘‘ اس سلسلے میں ایک ٹھوس مثال پیش کرتے ہیں۔ہمارے پاس اب کافی پرانی دستاویزات آچکی ہیں۔ ان میں سے کچھ نکسن دور کی بھی ہیں۔نکسن اور کسنجر جس وقت 1973 میں چلی کی حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش کررہے تھے تو ان کا موقف تھا کہ چلی کی حکومت ناقابل برداشت ہوچکی ہے۔ یہ خود مختاری کا مظاہرہ کررہی ہے، یہ ہمارے لیے خطرہ ہے، لہٰذا اس کو جانا ہوگا۔کسنجر نے اس موقع پر ’’وائرس‘‘ کے الفاظ استعمال کیے اور کہا کہ یہ وائرس کہیں بھی پھیل سکتا ہے جیسے جنوبی یورپ میں ۔
اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ چلی جنوبی یورپ پر حملہ کردے گا بلکہ یہ تھا کہ چلی میں ایک کامیاب سماجی جمہوری پارلیمانی نظام سے سپین اور اٹلی کو غلط پیغام ملے گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ بھی ایسا نظام لانا چاہتے ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ وائرس پھیل جائے گا اور نظام دوحصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔اس وقت کی امریکی حکومت یہ سمجھتی تھی کہ بلکہ اس نے بیان بھی دیا تھا کہ اگر ہم لاطینی امریکہ کو کنٹرول نہیں کرسکتے تو باقی دنیا کو کیسے کریں گے؟ وہ کہتے تھے کہ انہیں لاطینی امریکہ کو کنٹرول کرنا ہوگا۔اس حوالے سے کچھ تحفظات تھے جو زیادہ تر بے معنی تھے لیکن بہرحال کچھ خدشات تھے۔
مثال کے طورپر سوویت یونین لاطینی امریکہ میں گھس آئے گا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر یورپ کو لاطینی امریکہ میں زیادہ ملوث کیا جاتا ہے تو اس سے سوویت یونین کو گھس بیٹھنے سے روکا جاسکتا ہے۔لیکن پھر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ امریکہ اس بات کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ اس سے خطے پر امریکی غلبہ متاثر ہوگا۔لہٰذا یہ نسل پرستی کامسئلہ نہیں۔ یہ غلبے کا مسئلہ ہے۔
امریکہ کا ’’گرینڈ ایریا‘‘
حقیقت میں نیٹو کے حوالے سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد نیٹو کو ختم کیوں نہیں کیا گیا؟اگر کوئی پروپیگنڈا کو پڑھتا ہے تو و ہ کہے گا ’’اچھا ، نیٹو کو ختم کردینا چاہیے تھا۔ یہ تو یورپ کو سوویت یونین سے بچانے کے لیے تھی۔ اب سوویت یونین نہیں رہا تونیٹوکو بھی ختم کرنا چاہیے۔‘‘ گوربا چوف سے کیے گئے زبانی وعدوں کے باوجود اس کو توسیع دی گئی۔اس میں توسیع اس لیے بھی کی گئی تاکہ یورپ پر کنٹرول برقرار رکھا جائے۔نیٹو کا ایک مقصد تو پہلے ہی یہ تھا کہ یورپ کو آزاد راستے یعنی ایک قسم کے ’’گال ازم‘‘(Gaullism) کے راستہ پر چلنے سے روکا جائے ۔ نیٹو کو اس لیے بھی آگے بڑھانا تھا تاکہ یورپ کی حیثیت ایک’’مزارع‘‘ سے زیادہ نہ ہوسکے۔ اگر آپ دوسری جنگ عظیم کے پلاننگ کے حوالے سے ریکارڈ کاجائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ یہ بہت معلوماتی ہے۔
اگرچہ اس پر بات نہیں کی جاتی لیکن 1939 -1945 کے درمیان امریکی صدر روزویلٹ کی قیادت میں اعلیٰ سطحی اجلاس ہورہے تھے جس میں جنگ کے بعد کی صورت حال کا جائزہ لیا جارہا تھا۔امریکی جانتے تھے کہ جنگ کے خاتمے کے بعد امریکہ ہی فائدے میں ہوگا اور ہوسکتا ہے کہ وہ مکمل طورپر فاتح ہوں۔وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کس قدر فاتح ہوں گے۔اس سلسلے میں جو اصول وضع کیے گئے وہ بہت دلچسپ اور انوکھے تھے اور بعد میں انہیں نافذ بھی کیا گیا۔انہوں نے ’’گرینڈ ایریا‘‘ کے نام سے ایک تصور وضع کیا۔ ’’گرینڈ ایریا‘‘ یعنی وہ علاقہ جہاں امریکہ کا غلبہ ہوگا۔اس گرینڈ ایریا میں کسی کو بھی اس قسم کی خودمختاری کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی جس سے امریکی منصوبے متاثر ہوتے ہوں۔یہ ’’گرینڈ ایریا‘‘ کون سا تھا۔
جی ہاں ، اس میں کم سے کم تمام مغربی نصف کرہ ، تمام مشرقی بعید اور برطانوی سلطنت کا تمام علاقہ جو اب سابقہ ہوچکی ہے جس میں ظاہر ہے کہ مشرقی وسطیٰ کے توانائی کے ذخائر سے مالا مال علاقے بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ایک اہم امریکی مشیر کا کہنا تھا کہ اگر ہم توانائی کے ذخائر سے مالا مال مشرق وسطیٰ کوکنٹرول کرلیں تو پوری دنیا کو کنٹرول کرسکتے ہیں۔ یہ ’’گرینڈ ایریا‘‘ تھا۔جب سٹالن گراڈ کے بعد روسی فوج نے جرمنوں کو کچلنا شروع کیا تو امریکیوں کو اندازہ ہوچکا تھا کہ جرمنی کمزور ہوچکا ہے حالانکہ پہلے ان کا خیال تھا کہ جنگ کے نتیجے میں جرمنی بڑی طاقت بن کر ابھرے گا۔چنانچہ گرینڈ ایریا میں مزید اضافہ کرتے ہوئے یوریشیا کے زیادہ سے زیادہ علاقے بالخصوص مغربی یورپ کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا جو کہ خطے کا ایک بڑا صنعتی و تجارتی مرکز تھا۔یہ گرینڈ ایریا تھا اوراس گرینڈ ایریا میں کسی کو خودمختاری کا مظاہرہ کرنے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن ظاہر ہے کہ امریکہ کے لیے اس پر عمل کرنا ممکن نہ تھا۔
مثال کے طورپر چین بہت بڑا ملک تھا اوراس کو پیچھے ہٹانا مشکل تھا اور چین خود مختاری کا مظاہرہ کررہا ہے۔ایران کوشش کررہا ہے۔امریکی سمجھتے ہیں کہ ایران ایک چھوٹا ملک ہے اوراسے دبایا جاسکتا ہے۔حتیٰ کہ لاطینی امریکہ اب کنٹرول سے باہر ہورہا ہے۔برازیل احکامات نہیں مان رہا بلکہ حقیقت میں زیادہ تر جنوبی امریکہ ایسا ہی کررہا ہے اور یہ تمام چیزیں واشنگٹن کے لیے بڑی بے چینی کاسبب ہیں۔اگر آپ سرکاری بیانات دیکھیں تو یہ بے چینی اورمایوسی صاف دکھائی دے گی۔ ایران کے خلاف امریکی پابندیوں کو چین کوئی اہمیت نہیں دے رہا۔ایران کے خلاف امریکی پابندیاں یقینی طورپر کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتیں۔بات صرف اتنی ہے کہ لوگ امریکہ سے خوفزدہ ہیںاور ان میں یورپ بھی شامل ہے لیکن چین نہیں ڈرتا۔
وہ امریکیوں کی عزت نہیں کرتے۔وہ امریکہ کی ان پابندیوں کی پاسداری کرتے ہیں جو قانونی لیکن بے ضرر ہیں۔ ایران کے خلاف اقوام متحدہ کے ذریعے پابندیوں کا ایک مقصد مغربی کمپنیوں کو ایران سے دور رکھنا ہے تاکہ امریکی اپنی من مرضی کرسکیں۔امریکہ اس حوالے سے پریشان ہے۔امریکی محکمہ خارجہ اس حوالے سے دلچسپ قسم کے بیان جاری کرتا رہا ہے۔دلچسپ اس لیے کہ ان بیانات کی زبان بڑی مایوس کن ہوتی ہے۔وہ چین کو خبردار کرتا ہے اور اس کے بیان کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ’’اگر چین بین الاقوامی برادری میں رہنا چاہتا ہے تو اسے اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہوگا اور بین الاقوامی ذمہ داری یہ ہے کہ امریکہ کے احکامات مانے جائیں۔‘‘ ان بیانات کی زبان سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ امریکی پالیسی ساز کس قسم کی مایوسی اور پریشانی سے دوچار ہیں۔آپ تصور کریں کہ چین کا ایسے بیانات پر کیا ردعمل ہوتا ہوگا۔وہ ہنستے ہوں گے۔ بھلا وہ کیوں امریکی احکامات مانیں؟ ان کا جو دل چاہے گا، وہ کریں گے۔
ایران کیخلاف تدبیریں الٹی ہوگئیں
نوم چومسکی چین کے با رے میں کہتے ہیں کہ وہ ایک بڑی عالمی طاقت کے طورپر اپنا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔چینیوں کے بقول ’’ گذشتہ ایک صدی کی ذلت‘‘ سے پہلے چین ہمیشہ ایک بڑی عالمی طاقت رہا ہے۔وہ اب اپنی تین ہزار سال پرانی اس روایت کی طرف لوٹ رہے ہیں جب وہ دنیا کا مرکز تھے اور وحشیوں کو شکست دے چکے تھے۔چین اس قسم کی کوششیں کررہا ہے اور امریکہ کو اس سے زبردست پریشانی ہے۔انہیں جھنجھلاہٹ ہے کہ چین ایران کے خلاف اقوام متحدہ کی پاپندبوں کی پاسداری نہیں کررہا۔
اس وقت یہ صورت حال ہے کہ ایران کے خلاف پابندیوں سے ایران اور چین تو عالمی تنہائی کے شکار نہیں ہوئے بلکہ الٹا امریکہ ہوگیا ہے۔ غیروابستہ تحریک کے 118ممالک جو کہ دنیا کی اکثریت ہے، ہمیشہ سے ایران کے یورینیم کو افزودہ کرنے کے حق کے حامی تھے اور ہیں۔ترکی نے حال ہی میں ایران تک تیل پائپ لائن بنائی ہے اور پاکستان بھی بنا رہا ہے۔ترکی کی ایران کے ساتھ تجارت کا حجم بڑھ رہا ہے اور وہ اسے اگلے چند سالوں میں تین گنا کرنا چاہتے ہیں۔عرب دنیا میں رائے عامہ کی اکثریت امریکہ کے اس قدر خلاف ہوچکی ہے کہ وہ نہ صرف اب اس بات کی حمایت کرتے ہیں کہ ایران کو نہ صرف پرامن مقاصد کے لیے ایٹمی پروگرام چلانا چاہیے بلکہ ایٹمی ہتھیار بھی بنانے چاہئیں۔لیکن امریکہ عرب رائے عامہ کو اہمیت نہیں دیتا کیونکہ وہ وہاں کے ڈکٹیٹروں سے جو کام لینا چاہتا ہے ، لے رہا ہے۔
لیکن جہاں تک ترکی اور چین کی بات ہے ، ان کے حوالے سے امریکہ پریشان ہے۔ان کا ایران کے معاملے میں ملوث ہونا امریکہ کے لیے خطرہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے اس قسم کے مایوسی بھرے بیانات سامنے آتے ہیں۔یورپ کے چند ممالک کے علاوہ کوئی بھی اس معاملے میں امریکہ کے احکامات ماننے کو تیار نہیں۔جنوبی امریکہ میں برازیل سب سے اہم ملک ہے۔زیادہ عرصے کی بات نہیں جب برازیل اور ترکی نے ایران کے ساتھ یورینیم افزودہ کرنے کا ایک معاہدہ کیا تھا۔
امریکہ نے فوری طورپر اس سودے کو ناکام بنادیا۔امریکہ ایسا نہیں چاہتا لیکن دنیا دن بدن اس کے قابو سے باہر ہورہی ہے۔گرینڈ ایریا کا تصور دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد طویل عرصہ تک قابل عمل تھا لیکن اب دنیا بہت بدل چکی ہے بالخصوص گذشتہ ایک عشرے کے دوران تو بہت تبدیلی آئی ہے۔نوم چومسکی کے بقول اس کاتعلق ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلائو سے ہے۔امریکہ بھارت اور اسرائیل کی بھرپور مدد کررہا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے بھارت کو اپنا قریبی اتحادی بنالیا ہے جبکہ اسرائیل تو ہمیشہ سے تھا۔تاہم بھارت امریکہ کے ساتھ تعلقات کو سمجھداری سے استعمال کررہا ہے۔ وہ چین کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بہتر بنارہا ہے۔
سمندری آزادی ۔۔۔۔
لیکن صرف اپنے لیے
نوم چومسکی سے جب پوچھا گیا کہ صدر اوبامہ نے حال ہی میں آسٹریلیا میں اڈے قائم کرنے کے حقوق حاصل کیے ہیں اور ایک فری ٹریڈ معاہدہ ’’ٹرانس پیسیفک پارٹنرشپ‘‘بھی تشکیل دیا ہے جس میں چین شامل نہیں۔کیا یہ اقدام بحیرہ جنوبی چین (سائوتھ چائنہ سی) سے متعلق تو نہیں؟
امریکی دانشور نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کا تعلق بھی ’’سلامتی کے کلاسیکی المیے‘‘ سے ہے ، جس کا زکر پہلے بھی کیا گیا۔چین کی جانب سے پانیوں پرکنٹرول کی کوششیں امریکہ کے اس تصور سے متصادم ہیں جس کو وہ ’’سمندروں کی آزادی‘‘(یعنی اپنے لیے) قرار دیتا ہے جس کے تحت امریکہ کو آزادی حاصل ہے کہ دنیا کے کسی بھی سمندر میں بحری مشقیں کرے یا اپنے فوجی اڈے بنائے لیکن اگر چین کیریبئین یا دنیا کے دیگر سمندروں میں بحری مشقیں کرنا چاہے تو یہ ’’آزادی‘‘ ختم ہوجاتی ہے۔
بعض وجوہات کے باعث چین کے ہمسایہ ممالک بالخصوص ویت نام اور فلپائن چین کی پانیوں پر کنٹرول کی کوششوں سے خوش نہیں لیکن امریکہ جیسے ملک بھی اس سے خوش نہیں۔امریکہ کی پالیسی کا فوکس اب دھیرے دھیرے مشرق وسطیٰ سے (اگرچہ مشرق وسطیٰ پر بھی ہے)بحرالکاہل کی طرف جارہا ہے اور اس کا صاف صاف اعلان بھی کیا جاچکا ہے۔ اس کے منصوبے میں آسٹریلیا سے لے کر جنوبی کوریا تک نئے اڈوں کا قیام اور اقتصادی معاہدے بنام ’’فری ٹریڈ ایگریمنٹ‘‘ ہیں تاہم یہ محض پروپیگنڈا ہیں کیونکہ امریکہ کا اصل مقصد صرف چین کو روکنا ہے۔
کیا سمندروں کے نیچے موجود تیل اور گیس کے ذخائر کی وجہ سے یہ سب کچھ ہورہا ہے؟ اس کے جواب میں نوم چومسکی کہتے ہیں کہ جزوی طورپر ایسا ہے اور سمندروں کے نیچے موجود دولت تنازعے کی وجہ ہوسکتی ہے لیکن معاملہ کچھ اور بھی ہے۔جنوبی کوریا کے جیجو جزیرے میں نئے امریکی اڈے کا قیام تیل اور گیس کے لیے نہیں اور جزیرے کے لوگ بھی اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔ چین کے مرکزی تجارتی راستے خلیج ملاکا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے ، وہاں پر تیل اور گیس موجود ہے لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ معاملات ہیں۔ پس منظر میں امریکہ میں اس حوالے سے بھی عمومی تشویش ہے کہ دنیا اس کے کنٹرول اور اثر سے نکل رہی ہے جو کہ اس کی ’’گرینڈ ایریا پالیسی‘‘ کی موجودہ شکل ہے۔