کراچی: کراچی ادبی میلہ امن وآسودگی کی بہار پھیلا کراختتام پذیر ہوا،میلے کے3دنوں میں 85سیشن منعقد ہوئے ا ور 30کتابوں کی تقریب رونمائی ہوئی۔
منتظمین کے مطابق سوالا کھ سے زائد شہریوں نے ادبی میلے میں شرکت کی جبکہ پاکستان، بھا رت، امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، بنگلہ دیش اور روس سمیت دیگر ممالک کے200کے قریب شعرااورادیب بھی میلے میں شریک ہوئے۔ اختتامی تقریب میں امینہ سید، آصف فرخی اور ضیا محی الدین نے خطاب کیا۔ اختتامی تقریب میں ضیا محی الدین نے مشتاق احمد یوسفی کی کہانیاں حویلی،فنون لطیفہ کو اس شگفتہ اورسحر انگیزانداز میں پڑھاکہ شرکا داد دیے بغیرنہ رہ سکے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اس لیے یوسفی صاحب کی مزاح انگیز کہانیوں کا چنائوکیا ہے کیونکہ انشاکہہ گئے تھے کہ ہم عہد یوسفی میں ہیں ، اوراس ادبی تقریب کا اختتام ان کے ذکر کے بغیر ناممکن ہے۔
اختتامی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کراچی ادبی میلے کی شریک بانی اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی منیجنگ ڈائریکٹر چیئرمین امینہ سید کاکہنا تھا کراچی ادبی میلہ شہر میں امن وآشتی کے فروغ میں اہم کردارادا کررہا ہے ۔ آزاد مصنف ہرمعاشرے کے ضمیر کی عکاسی کرتے ہیں ۔اس سلسلے میں مل کر لائبریری کلچر کو ملک گیر سطح پر فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے اور ساتھ ہی معتبر لکھنے والوں کی ایوارڈ کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے ۔آصف فرخی نے تعلیم کی اہمت پر زور دیتے ہوئے نین تارا سہگل اور زہرہ نگاہ کی کتابوں کا حوالہ دیا اورکہا کہ یہ ہماری خوش نصیبی ہے کہ ہم تعلیم یافتہ ہیں۔میلے کے آخری دن بھی 43سیشنزمنعقد کیے گئے۔
معروف بھارتی مصنفہ نین تارا سہگل کی کتاب سے ’ سیاسی تخیل‘ کی تقریب رونمائی منعقد ہوئی اس موقع پر مصنفہ نین تارا سہگل نے ترقی پذیر ممالک سے لکھنے والے کردار کی اہمیت پرگفتگو کی اور کتاب کے مختلف پہلوں کواُجاگر کیا۔مصنفہ کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کے ادیبوں کواپنے ملک کے لیے لکھنا چاہیے۔ سندھ ساگر اور قیام پاکستان کے عنوان سے حمیدہ کھوڑو اور اعتزاز حسن کے ساتھ سیشن کا انعقاد کیا گیا۔حمیدہ کھوڑو کا کہنا تھا کہ قیام پاکستان میں سندھ کا بنیادی اور کلیدی کردار تھا۔ اعتزازحسن کا کہنا ہے کہ پاکستانی کے طور پر ہمیں اپنا تشخص تلاش کرنا چاہیے۔
پی ٹی وی اور آج کے ڈرامے کے عنوان سے سے بھی ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں معروف ڈرامہ نگار حسینہ معین ، سمیرا، امینہ شیخ سمیرا افضل، نیلو فر عباسی اور دیگر شریک ہوئے جبکہ میزبانی کے فرائض راجو جمیل نے انجام دیے۔دریں اثنامعروف ادیب مستنصر حسین تا رڑ کے سفرنامہ لاہور سے تاشقند تک کے حوالے سے سیشن کا انعقاد کیا گیا، اصغر ندیم سید نے تاثرات بیان کیے ۔ منٹو کی ڈرامہ نگاری اور فلم بطور پاور فل میڈیا کے حوالے سے بھی سیشنز کا انعقا د کیا گیا ۔منٹو اور انتظار حسین کی کہانیوں کو فریال گوہر نے ڈرامائی انداز میں پڑھا اور حاضر محفل سے خوب داد وصول کی۔
میرا نے بھی فلم کے حوالے سے ایک سیشن میں شرکت کی،انھوں نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ مجھے اس قابل سمجھا گیا اور اس طرح کی محفل میں پہلی بار شرکت کرکے مجھے بہت خوشی ہوئی۔کراچی ادبی میلے میں تعلیم کے حوالے سے بھی سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں ممتازماہر تعلیم زبید ہ جلال، عارفہ سید زہرہ،عشرت حسین سبرینہ داود اورامینہ سید نے شرکت کی جبکہ میزبانی کے فرائض بیلہ رضا جمیل نے انجام دیے ۔مقررین نے پاکستان میں تعلیم کی موجودہ حالت پر توجہ دلائی۔
کراچی ادبی میلے میں معروف ادارکار بشریٰ انصاری کے ساتھ سیشن میں لوگوں کی دلچسپی قابل دید تھی، بشرہ انصاری نے اپنے مخصوص انداز گفتگو سے حاضرین کوبے ساختہ قہقہے لگانے پر مجبور کردیا ۔ بشریٰ انصاری نے مختلف سیاسی لیڈروں سے کیے گئے انٹرویوز کے حوالے سے جوباتیں حاضرین سے شیئر کیں تو حاضرین مسکرا ئے بغیر نہ رہ سکے ۔بشریٰ انصاری کاکہنا تھاکہ اب انھیں عمران خان کا انٹرویو کرنے کا موقع ملا تو پہلا سوال یہ کرینگی کہ ہ دھرنے کے دوران ڈیٹ پر کس وقت جاتے تھے ؟۔حاضرین سے سوال وجواب کے سیشن میں بشریٰ انصاری کے بے ساختہ جوابات نے ہرطرف قہقہے بکھیر دیے۔
کراچی ادبی میلے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی،نہ صرف کراچی سے بلکہ پنجاب اوربلوچستان سے بھی لوگ اس میلے میں شرکت کے لیے آئے ہوئے تھے،لوگوں کا کہنا تھاکہ اس طرح کے ایونٹ مزید ہونے چاہیے،حکومت کوچاہیے کہ وہ آگے آئے اوراس طرح کے پروگرام کروائے تاکہ ہم عوام اس طرح کی محفلوں سے مستفید ہوسکیں۔نہ صرف عوام بلکہ ہر مکتبہ فکرسے تعلق رکھنے والے افراد سیاسی وسماجی شخصیات،انسانی حقوق کے ترجمان،این جی اوز، شوبز ستارے،ادیب وموسیقار نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اہل کتاب کاکہنا تھاکہ یہ میلہ کراچی کی نمایاں ترین ادبی وثقافتی سرگرمی بن چکا ہے،اور زند گی کا حسن،اس کی نزاکت اورلطافت ادب ہی کے ذریعے ملتی ہے۔
کراچی ادبی میلے میں احتجاج بھی دیکھنے کوملا،نایاب پرندوں کے شکار کے حوالے سے جانوروں وپرندوں کے تحفظ کی تنظیم نے خاموش احتجاج ریکارڈ کرایا،انکا کہنا تھا کہ تلور پرندہ نایاب ہے اور ہمیں چاہیے کہ ہم اس کو تحفظ فراہم کریں۔