Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

کلاس، معصوم سی اُلجھن کا بھولابھالا سُلجھاؤ

$
0
0

سفیدی اور نیلاہٹ میں رنگی عمارت کی ساخت اور حدود سے لگتا ہے کہ یہ ایک رہائش گاہ ہے، لیکن سیاہ چھوٹے سے گیٹ سے ذرا ہٹ کر دیوار پر لگا ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ کے الفاظ لیے کناروں پر زنگ کھاتا بورڈ غلط فہمی دور کرکے بتادیتا ہے کہ یہ اسکول ہے۔

ابھی کچھ دیر پہلے تک عمارت میں اندھیرا سناٹے سے لپٹا سورہا تھا، مگر اب اِدھراُدھر سے راستے بناکر آتی دھوپ اور کسمساکر جلتی ٹیوب لائٹوں کی روشنی میں کمروں میں ترتیب سے لگی بینچوں اور دیواروں پر پین پینسلوں سے بنی لکیریں، بھدی لکھائی کے یک لفظی نمونے، لکیریں اور آڑھی ترچھی تصویریں چمک اٹھی ہیں۔ جھاڑو کی کُھرکُھراہٹ سے شروع ہونے والا آوازوں کا سلسلہ شور بنتا جارہا ہے۔ کتھئی قمیصوں اور بادامی سے رنگ کی پتلونوں اور شلواروں میں ملبوس بچے اور بچیاں، چھوٹی کلاسوں میں کہیں تواتر سے روتی ننھی منی آواز اور اسے ’’اچھا بس، چووووپ‘‘ کہہ کر خاموش کرانے کی کوششیں، جو استانیاں پیشہ ورانہ ممتا کے ساتھ کرتی ہیں۔

بڑی کلاسیں جو دوسری، تیسری، چوتھی اور پانچویں ہیں، باتوں اور سرگوشیوں سے بھرتی جارہی ہیں۔ عمارت کے دروازے کے قریب لگی پانچویں کلاس کی دہلیز پر سینڈل کی کھٹ کھٹ ابھرتی ہے اور ہاتھ میں اسکیل تھامے پختہ عمر استانی اندر داخل ہوتی ہے۔ اس کے آتے ہی ’’گڈ مارننگ مس‘‘ کی مشترکہ آواز کے ساتھ شور کی اونچی نیچی لہریں تھم جاتی ہیں۔

یہ ایک چھوٹے شہر، جس کی زندگی میں دیہی رنگ گھلا ہوا ہے، کا بڑا نجی اسکول ہے۔ شہر کی مضافاتی بستی گلشن ٹاؤن میں واقع، جہاں چھوٹے چھوٹے گھروں کی قطاروں سے آگے بنگلوں اور کوٹھیوں کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، جن میں مضافات میں بڑے بڑے باغات اور دور تک پھیلے کھیتوں کے مالک زمیں دار، شوگر ملوں کے مالکان، وکلاء، ڈاکٹر اور بڑے بڑے تاجر آسودہ زندگیاں گزار رہے ہیں۔ شہر کے بڑے نجی اسکول بھی اسی علاقے میں قائم ہیں، ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ بھی ان میں سے ایک ہے، شہر کی متمول اور بااثر شخصیات کی تنظیم ’’سٹی ویلفیئر ایسوسی ایشن‘‘ کا قائم کردہ یہ اسکول مناسب فیس کی وجہ سے اعلیٰ طبقے کے ساتھ ملازمت پیشہ افراد کی دسترس میں بھی ہے۔

اس وقت پورے اسکول کے کمروں اور راہ داری میں استانیوں کی نسوانیت کی نرمی کھوکر کرخت ہوتی آوازیں اور سیاہ تختوں پر چاک کی ’’کھرچ کھرچ‘‘ گونج اور ایک دوسرے سے ٹکرا رہی ہیں۔ صحن کے کونے میں ٹنگی زنگ بھری گھنٹی کی ’’ٹَن ٹَن‘‘ کے ساتھ ہی استانیوں اور ان کی نیل پالش لگی انگلیوں میں پکڑی چاک کی چیختی آوازیں رک گئیں۔ اِدھر مس فرزانہ پانچویں کلاس سے اپنا پرس کندھے پر جھلاتی نکلیں اور اُدھر ہیڈمس درشت چہرہ لیے وارد ہوئیں۔

’’مس انیس آج نہیں آئیں گی۔ آپ سب اپنی بُکس نکال کر پڑھیں۔ آواز بالکل نہیں آنی چاہیے۔‘‘ ہیڈمس نے وہ ہدایت کی جس کے روبہ عمل آنے پر انھیں ذرا بھی یقین نہ تھا، اور کلاس روم سے نکل گئیں۔

’’پھر کیا ہوا؟‘‘ گول مٹول شہزاد وہ قصہ سننے کے لیے بے تاب تھا جو صائم نے مس کے آنے کی وجہ سے ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ شاذ، سلیم اور خالد بھی متوجہ تھے۔

’’پھر ہمارا ہاری سائیکل پر شہر گیا۔ تین چار گھنٹے بعد مکینک کو لے کر آیا۔ اس نے گاڑی ٹھیک کی، رات نو بجے ہم لوگ گھر پہنچے۔ بابا سائیں نے کہا ہے کہ اگلے مہینے نئی گاڑی لوں گا، یہ کھراب ہوگئی ہے۔‘‘ زمیں دار دائم علی شاہ کے بیٹے کی آنکھوں میں نئی گاڑی کی چمک صاف دیکھی جاسکتی تھی۔

’’میرے ڈیڈی نے تو نئی گاڑی لے بھی لی۔‘‘ سلیم کے لہجے میں معصوم سا فخر چہک رہا تھا۔ ’’اتنی ی ی ی ی لمبی، کالے رنگ کی، لش پش‘‘ وہ ہاتھ جس قدر پھیلاسکتا تھا، پھیلا لیے، اس کوشش میں اسے اپنے ساتھ بیٹھے شہزاد اور صائم کو پیچھے دھکیلنا پڑا۔

’’میرے پاپا کہہ رہے تھے اگلے ہفتے تمھیں زمینوں پر لے جاؤں گا، اُدھر شکار کریں گے تیتر کا۔‘‘

اپنے گورے رنگ میں باپ کی زمیں داری اور وکالت سے کمائی دولت کی دمک لیے خالد اپنے پورے وجود کی سستی کے ساتھ بولا۔

’’ہم تو کٹائی کے ٹائم پر جاتے ہیں اپنے کھیتوں پر بس! مجھے تو پاپا دبئی لے کر جائیں گے، کچھ دن بعد۔‘‘ کھیت اور گاؤں سے شہزاد کی عدم دل چسپی اس کے چہرے سے عیاں تھی۔

’’تمھاری زمینیں کہاں ہیں؟‘‘ صائم نے کاپی کے صفحے پر آڑی ٹیڑھی لکیریں کھینچتے ہوئے شہزاد سے پوچھا۔

’’وہ جو بڑی والی روڈ ہے ناں، وہ شہر سے باہر ایسے ے ے ے ے مڑتی ہے، اس سے آگے جاکر ہیں ہماری زمینیں!‘‘

’’اور تمھاری؟‘‘ شہزاد نے سلیم کو دیکھا، جو ڈیسک پر پینسل سے لکیریں کھینچ کر شاید مکان بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔

’’اُدھر!‘‘ سلیم نے ہاتھ سے اسکول کی دائیں دیوار کی طرف یوں اشارہ کیا جیسے دیوار کے پار اس کے کھیتوں کی فصلیں لہلہا رہی ہوں۔

سوال کو جواب سے کوئی غرض نہیں تھا، کوئی مقصد نہیں تھا، باتوں کے سوا۔

’’ہماری زمینیں بہت دور تک ہیں، ڈیڈی ہم لوگوں کو صبح لے کر جاتے ہیں تو چلتے چلتے شام ہوجاتی ہے۔‘‘

’’تم اپنے کھیتوں پر پیدل کیوں جاتے ہو؟‘‘ شاذ حیران تھا۔

’’او بھائی! پیدل ویدل نئیں، گاڑی پر جاتے ہیں۔‘‘ سلیم نے شاذ کی طرف ہاتھ بڑھا کر گویا احتجاج کیا۔ اس کے لمبوترے گندمی چہرے پر ہلکی سی جھنجھلاہٹ تھی۔

’’خود ہی تو کہہ رہا تھا چلتے چلتے شام ہوجاتی ہے۔‘‘ خالد نے سلیم کی نقل اتاری۔

’’ابے بھائی وہ تو کھیتوں میں۔۔۔‘‘ سلیم اپنی بات کے غلط معنی لیے جانے پر جزبز تھا۔

’’تو کھیتوں میں گاڑی پر کیوں نہیں جاتے، ہم تو جاتے ہیں۔‘‘ صائم کے لہجے میں دوست کے لیے ہم دردانہ مشورہ گھلا تھا۔

’’بھئی کھیتوں میں بھی گاڑی پر جاتے ہیں، گاڑی پر چلتے چلتے تو صبح سے شام ہوجاتی ہے۔‘‘ سلیم نے پوری وضاحت کے ساتھ سمجھایا۔

’’ہماری زمینوں کے اُدھر اتے بڑے بڑے کُتے ہیں۔ بندے کو کھا جاتے ہیں۔‘‘ خالد نے شاید بے زار ہوکر موضوع کچھ بدلا۔ اس نے ڈیسک سے کوئی ایک فٹ اوپر ہاتھ لے جاکر کتوں کی اونچائی بتائی۔

’’ایک دفعہ ایک کتے نے ہمارے ہاری کے بچے کو کاٹ لیا تھا۔ مرگیا۔ بابا سائیں نے اس کے گھر جاکر پیسے دیے تھے۔ میں بھی گیا تھا۔‘‘ خالد کی زبان پر جاری ٹوٹا پھوٹا واقعہ بتارہا تھا کہ اب قصوں کہانیوں کا دور شروع ہورہا ہے۔

’’ہمارے کھیتوں میں تو اتے ے ے ے بڑے بڑے بھیڑیے آتے ہیں۔‘‘ سلیم کا ہاتھ خالد کی بتائی ہوئی اونچائی سے چند انچ مزید بلند تھا، وہ اس وقت تک فضا میں معلق رہا جب تک سارے دوستوں نے اپنے آنکھوں سے حیرت کا اظہار اور بھیڑیوں کی اونچائی پر کوئی سوال نہ اٹھا کر سلیم کی بات پر یقین نہ کرلیا۔

’’تمھیں ڈر نہیں لگتا۔‘‘ شہزاد نے ’’نہیں‘‘ کہتے ہوئے اپنی گردن دونوں سمت ہلائی۔

’’ڈر کیوں لگے گا۔ ہم لوگ تو جیپ میں ہوتے ہیں ناں جب کھیتوں پر جاتے ہیں۔‘‘ سلیم کا اطمینان دوستوں کو مزید حیران کرگیا۔

’’ایک دن پتا ہے کیا ہوا۔‘‘ سلیم نے اپنے مخصوص جملے سے قصے کا آغاز کیا، جس کے ساتھ ہی وہ اپنی ننھی منی ٹولی کی توجہ کا مرکز بن گیا۔

وہ سب ہی ایک دوسرے کو قصے سناتے تھے، لیکن سلیم کا چونکانے والا انداز، مربوط طرزِ بیاں اور حیرت انگیز واقعات انھیں اپنا اسیر کرلیتے تھے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ اس کا سنایا قصہ انھیں کیوں جکڑ لیتا تھا، کیوں اچھا لگتا تھا، یہ سوالوں میں الجھنے کی عمر تھی ہی نہیں، یہ تو بس ہر حیرت ہر مسرت میں بے سوچے سمجھے کھوجانے کا دور تھا۔ سو سلیم کے بڑے بھائی کے ساتھ گاڑی چلاتے ہوئے چڑیل ملنے کا ماجرا ہو، ڈیڈی کے کہیں راستے میں کسی کار سے ریس لگاکر فتح یاب ہونے کی کہانی یا ممی کا کوئی کھوجانے والا زیور گھر کے نوکروں میں سے کسی سے برآمد ہونے کی جاسوسی بھری کتھا۔۔۔۔اس کا ہر قصہ دل چسپ روداد کے ساتھ بیان ہوتا۔ اس نوعیت کی کہانیاں وہ سب سناتے تھے، ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے ساتھ، بغیراتارچڑھاؤ کے، ابھی شروع ابھی ختم، لیکن سلیم کا قصہ واقعات کے نشیب وفراز میں اترتا چڑھتا لمحہ لمحہ بڑھتا پھیلتا جاتا۔ مس کے نہ آنے پر میسر ہونے والا خالی پیریڈ ایسے کسی قصے سے بھرجاتا تھا، جیسے سادہ صفحے پر رنگین پینسلوں کے رنگ!

’’ہماری کوٹھی ہے ناں اس کے دس کمرے ہیں۔‘‘ سلیم نے قصے کو آگے بڑھایا:’’ایک دن ہم لوگ رات کو آئے گاڑی پر، گاڑی گیراج میں کھڑی کی اور اندر گئے، تو اندر سے ناں کسی کے بھاگنے کی آواز آئی۔‘‘ اس نے مٹھیاں بھینچ اور پاؤں زمین پر مار کر بھاگنے کا عمل اسٹیج کیا۔

قصے کا یہ سنسنی خیز موڑ دل چسپی اور تجسس کچھ اور بڑھاگیا۔ شہزاد نے گردن موڑ کر کلاس روم کے دروازے کی طرف دیکھا کہ کہیں کوئی مس آکر اس قصے کی ڈور نہ توڑ جائیں، اور پھر دونوں ہتھیلیاں ٹھوڑی کے نیچے رکھ کر سلیم کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ شاذ نے حسب عادت ڈیسک کو پینسل سے بجانا ترک کیا اور پینسل جیومیٹری باکس میں رکھ دی۔ خالد اور صائم ساکت ہوکر بیٹھ گئے۔

’’ڈیڈی نے زور سے پوچھا، کون ہے؟ کوئی بولا ہی نہیں۔ ڈیڈی نے بولا چور! تم سامنے آؤ۔ پھر ناں ڈیڈی نے گن نکالی چوکی دار اور دوسرے نوکروں کو آواز دے کر بلایا اور پوری کوٹھی میں چور کو ڈھونڈنے لگے۔ پھر سب باہر لان میں چور کو ڈھونڈنے گئے۔ ہماری کوٹھی کا اتناااا بڑا لان ہے۔‘‘ سلیم کے ہاتھوں کے پھیلاؤ سے گھبرا کر سب پیچھے ہٹ گئے۔

’’پھر ناں ڈیڈی کو ایک درخت کے پیچھے اس کی شرٹ نظر آئی۔ ڈیڈی تیزی سے گئے اور اسے پکڑ لیا۔ بہت مارا اسے، پھر پولیس کو دے دیا۔‘‘

عین اسی وقت ٹن ٹن ٹن نے نئے پیریڈ کا اعلان کیا اور کچھ ہی دیر بعد مس شمسہ کلاس روم میں داخل ہوئیں۔

چھٹی کی خوش خبری سناتی گھنٹی کی ٹن ٹن ٹن کے ساتھ ہی، شور بلند ہوا اور بچے اپنے اپنے بیگ سنبھالتے اسکول سے نکلنے لگے۔ شہزاد، خالد، صائم اور سلیم کے سارے کلاس فیلو اچھلتے کودتے روانہ ہوئے۔ بس شاذ، سلیم کے ساتھ بیٹھا رہا۔

’’اِس کی کوٹھی تو اسکول کے قریب ہی ہے، پھر یہ میری طرح گھر جانے کے لیے کس کا انتظار کررہا ہے، جاتا کیوں نہیں؟‘‘ سلیم نے شاذ کو دیکھتے ہوئے سوچا۔ وہ کچھ دنوں پہلے ہی تو ہاف ٹائم میں شاذ کے گھر گیا تھا۔

’’تم کیوں نہیں جارہے؟‘‘ آخر اس نے پوچھ ہی لیا۔

’’میں آج صوفیہ آنٹی کے گھر جاؤں گا۔ تمھارے ساتھ تانگے پر، ٹخ ٹخ ٹخ‘‘ اس نے ہاتھوں میں خیالی لگام پکڑ کر گھوڑے کو عازم سفر کرنے کے لیے تانگے والوں کی مخصوص آواز نکالی۔ سلیم کو یاد آیا۔ ٹھیک اسی انداز میں اس نے اپنے دوستوں کو جواب دیا تھا:’’تانگے میں بہت مزہ آتا ہے، ٹخ ٹخ ٹخ، ٹپاٹپ ٹپاٹپ ٹپاٹپ۔‘‘ اس نے دونوں مٹھیوں میں تصوراتی لگام تھام کر اپنے جوتے فرش پر مار کر گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز نکالنے کی کوشش کی تھی۔

یہ جواب اس سوال کا تھا جو شاذ نے پوچھا تھا کہ ’’تم گاڑی میں اسکول کیوں نہیں آتے، تانگے پر کیوں آتے ہو؟‘‘

صوفیہ آنٹی شاذ کی خالہ تھیں، ’’ایجوکیشن سٹی‘‘ کے قریب ہی واقع ایک اور نجی اسکول کی پرنسپل، ٹیچنگ کا شوق تھا، ورنہ ڈاکٹر شوہر کے ہوتے ہوئے انھیں ملازمت کرنے کی کیا ضرورت؟ ان کا بنگلہ سلیم کے گھر کے قریب ہی تھا۔

شاذ تانگے کا انتظار کرنے اسکول کے دروازے کی طرف چلا گیا اور سلیم اپنا بیگ اٹھائے ہیڈ مس کے کمرے میں آگیا، جہاں اپنے اپنے تانگے یا لینے آنے والوں کا انتظار کرتے بچے بیٹھے تھے۔ ’’جا بیٹا تانگا آگیا!‘‘ کالے سفید بالوں اور مضبوط کاٹھی والی ماسی نے اس کے بالوں میں شفقت سے ہاتھ پھیر کر اطلاع دی۔ سلیم نے آہستگی سے بیگ اٹھایا اور تھکے تھکے قدموں سے دروازے کی طرف چل دیا۔

شاذ پہلے ہی تانگے میں بیٹھ چکا تھا۔ سلیم اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ پچھلی نشست پر شاذ کی صوفیہ آنٹی دو استانیوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک روز صبح اور بھری دوپہر سفر کرتے اس تانگے کی یہ مخصوص سواریاں تھیں۔ ان میں بس شاذ نیا تھا۔

سلیم مسلسل کسی سوچ میں گُم تھا۔ تانگا شہر کی سڑکوں پر اپنی ٹپاٹپ کی متوازن تال کے ساتھ چلتا ریلوے کالونی میں داخل ہوا اور کھردری سڑک پر چلتا ہوا ایک زرد رنگ کے چھوٹے سے کوارٹر کے دروازے پر رک گیا۔ دو چوکور کمروں کا کوارٹر، جس کے چھوٹے سے ٹوٹے پھوٹے صحن میں پوری دوپہر کی دھوپ بھری ہوئی تھی۔ سلیم کود کر تانگے سے اترا، لکڑی کے دروازے پر پہنچا اور بے تابی سے لوہے کی کنڈی کو دروازے پر پٹخا۔ دروازہ کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ کھلا۔

’’السلام علیکم امی!‘‘ اس نے دروازے پر کھڑی عورت کو سلام کیا۔

کپڑے بدلنے اور کھانا کھانے کے بعد وہ لیٹا ایک ہی بات سوچ رہا تھا۔

’’شاذ کہے گا کہ تمھارا تو چھوٹا سا گھر ہے، وہ سب کو بتادے گا۔‘‘

’’کل پتا ہے کیا ہوا۔ ہماری کوٹھی کے سامنے جو گلی ہے ناں وہاں اتنااااا بڑا گڑھا ہوگیا۔ پوری گلی بند تو تانگا گلی میں جا ہی نہیں سکتا تھا، تانگے والے نے جس گھر کے سامنے اتارا، وہ ہمارے جاننے والوں کا ہے، میں ان کے گھر گیا اور ان کے پچھلے دروازے سے نکل کر اپنے گھر چلاگیا۔ پوچھ لو شاذ سے، یہ کل میرے ساتھ گیا تھا۔‘‘

قصہ تیار تھا۔ وہ مسکرایا اور کروٹ لے کر سکون سے سوگیا۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>