بلاشبہ درخت انسان کے قدیم دوست اور زمین کا زیور ہیں۔ تاریخِ معلوم میں درخت کی اہمیت وافادیت مذہب و سماج سے لے کر معاشرے وتہذیب تک ہر دور میں رہی ہے۔
درخت خاص طور پر پھل داردرخت مذہبی صحائف، آسمانی کتابوں اور عبادات میں اپنی بے پناہ افادیت اور اہمیت کے حامل ہونے کی وجہ سے جگہ پاچکے ہیں اور ان سے منسلک رنگ دار، خوشبودار اور مزے دار پھل، پھول اور دیگر اجزاء اپنی حیثیت کو قائم و دائم رکھے ہوئے ہیں۔ قدیم تہذیبوں کے ادوار کا مطالعہ کیا جائے تو دیکھا گیا ہے کہ قوموں کے مابین ثقافت کی باہم تبدیلی کا اہم عنصر درخت بھی تھے اور پھل دار درخت بوجہ اپنی مسلّم حیثیت کے زیادہ قدروقیمت کے حامل تھے۔
بیشتر فاتح اقوام اپنے پسندیدہ پھل دار درخت بطور ایک اہم ثقافتی و سماجی قدر کے مفتوح اقوام پر اپنے ثقافتی تفاخر کے اظہار کے لیے کاشت کروانے پر زور دیتی تھیں۔ درخت جیسے کھجور، انار، چیری، سیب، بیر وغیرہ دور دراز کے علاقوں حتیٰ کہ براعظموں تک کا سفر طے کر چکے ہیں، جب کہ ان کے اصل اوطان اور ہیں۔
قرآن حکیم میں نعمتوں کے ذکر میں پھل دار درختوں کے اوصاف اور ان کی افادی حیثیت کو دوام دینے کے لیے بارہا کیا گیا ہے، حتیٰ کہ جنت میں ان کی اہمیت و جمالیاتی تسکین کے حوالے سے حوالہ جات ہیں۔ اسلامی تعلیمات اور قوانین کے مطابق حالتِ جنگ میں بھی کھڑی فصلیں اور پھل دار درختوں کو کاٹنے یا تلف کرنے سے سختی سے منع فرمایا گیا ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے پھل دار درختوں کو کاشت کرنے کی ترغیب دیتے ہوئے خود اپنے دستِ مبارک سے پھل دار درختوں مثلاً کھجور کی شجرکاری کی۔ پھل دار درخت لگانا سنتِ نبویؐ ہے جو کہ یقیناً بے پناہ برکات کا حامل عمل ہے۔
پاکستان میں جنگلات کا تناسب چار فی صد ہے، مگر پھل دار درختوں کے حوالے سے ہمارے ہاں اس قسم کی شمار بندی بہت کم میسر ہے۔ لے دے کے آم، سیب، کھجور یا کیلے کے پودے کے حوالے سے مستند اعدادوشمار بھی ناقابل اعتبار اور تقریباً غیرمستند ہیں۔ ہمارے ہاں شجر کاری مہم بھی عموماً ظاہری نمائشی اور بناوٹی ہوتی ہے، جیسے ملک کے دیگر شعبہ جات میں نام نہاد ترقیاتی اسکیمیں اپنی سست روی اور بے زار کن حد تک بے پرواہی کی بھینٹ چڑھی ہوتی ہیں۔
ہر سال شجر کاری کی مہم میں کروڑوں روپے محض اس ضمن میں خرچ کردیے جاتے ہیں کہ نئے درخت آئندہ نسلوں کے لیے اثاثہ ثابت ہوں گے مگر افسوس متعلقہ محکموں کے نابغے اپنی دانش اور ذمے داریوں کو جس طریقے سے نمائش کے لیے پیش کرتے ہیں وہ روز روشن کی طرح سب پر عیا ں ہے۔ آئے دن پُرفضا مقامات پر نمائشی پودے لگانا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے حکام ـ ’’سبز مستقبل‘‘ کے بارے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔
عام سایہ دار نمائشی درخت کی جگہ اگر پھل دار درخت لگانے کی حوصلہ افزائی کی جائے تو نہ صرف ہم خوراک کے معاملے میں کسی حد تک خود کفیل ہو سکتے ہیں بلکہ برآمدی لحاظ سے بھی دیگر ممالک پر اپنی برتری ثابت کر سکتے ہیں۔ خوراک کے معاملے میں خود کفالت دراصل پھل دار درخت سے جڑے دیگر روزگار کا حوالہ ہے، عموماً مشاہدے میں آیا ہے کہ محض سایہ دار درخت پھل دار درخت کے معاملے میں انسانی توجہ کے کم حامل ہوتے ہیں اور فطری بات ہے کہ سایہ دار درخت صرف سایہ اور ایندھن یا لکڑی کے دیگر آرائشی استعمال مثلاً فرنیچر وغیرہ ہی کے کام آ سکتا ہے جب کہ پھل دار درخت اپنے پھل کی وجہ سے یہ تینوں اوصاف لیے ہوئے پہلے ہی سے موجود ہے اور پھل ہونے کی وجہ سے اس کی قیمت اور افادیت بہت بڑھ کر ہے۔
عام درخت کے لیے لگایا گیا پودا بھی تقریباً پھل دار پودے کی مساوی قیمت کا حامل ہوتا ہے۔ کم و بیش ایسا ہی ہے (سرکاری اعدادوشمار سے معذرت کے ساتھ) یہ بھی حقیقت ہے کہ پھل دار درخت لگانے سے انسان کو جو روحانی مسرت ہوتی ہے وہ محض سایہ دار درخت کے پودے لگانے سے نہیں ہوتی۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں اور بے پناہ وسائل سے نوازا ہے، جن میں مختلف النوع زمینی حالتیں اور متنوع و متفرق موسم ہیں، جو کہ تقریباً ہر موسم کے پھل جو کہ دنیا بھر میں پائے جاتے ہیں کی شجرکاری کے لیے انتہائی سازگار ہیں۔
سیب، انار، لیموں، خشک میوہ جات، انگور، کیلا، بیر جیسے لذیذ اور دنیا بھر میں پاکستانی برانڈ کے طور پر اپنی حیثیت منوانے والے پھل ان زرخیز زمینوں اور موسمی تغیرات کی وجہ سے قابل کاشت ہیں۔ پاکستان بھر میں پھیلی ہوئی ہزاروں کلومیٹر لمبی مین روڈ اور لنک روڈز پر لاکھوں درخت ایستادہ ہیں جو کہ بہت سال قبل یا شاید انگریز دور میں لگائے گئے تھے۔ ان کا شمار اب ایندھن یا فرنیچر کے لیے کام آنے والے درختوں میں کیا جاتا ہے۔ باغات کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو نجی ملکیت کے حامل باغات میں ہزاروں ایکڑ پر ایسے پھل دار درخت آج بھی اپنی پھل کی پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر ان باغات کے مالکان کی آنکھوں کا تارا بنے ہوئے ہیں وگرنہ سایہ دار درخت کوئی اپنی زمینوں پر بوجھ کیوں بنائے رکھے؟
جنگلات کے متعلقہ محکمہ جات نے کبھی باغات کو جنگلات پر ترجیح نہ دی۔ نہ جانے کیوں پھل دار درختوں کی شجرکاری کے حوالے سے کوئی واضح روڈ میپ بھی موجود نہ تھا، مگر 80یا 90 کی دہائی ہی میں اس بات کو اگر آنے والے وقت کی شدید ضرورت سمجھ لیا جاتا تو آج پاکستان میں پھل دار درختوں سے حاصل شدہ آمدنی کا فیکٹر زر مبادلہ کے ذخائر میں ایک واضح اور مسلمہ حقیقت کے طور پر موجود ہوتا۔
ان سڑکوں پر ہی اگر نجی ٹھیکا جات کی صورت میں پھل دار درختوں کی شجر کاری کی جاتی تو آج ٹیکسوں اور محصول کی مد میں اندرونی طور پر ایک مستحکم نظام موجود ہوتا۔ آج کا حال کل کا ماضی ہو گا، اسی نظریے کو آج نافذالعمل کر دیا جائے کہ جو بھی درخت لگایا جائے وہ پھل دار ہو تو یقین کیجیے پاکستان میں ’’پھل دار انقلاب‘‘ آ سکتا ہے۔ کسی 5کلو میٹر کی حدود میں موسم اور زمین کی مطابقت کو مدنظر رکھتے ہوئے تیزی سے بڑھنے اور پھل دینے والے درختوں کی شجر کاری کی جائے اور متعلقہ یونین کونسل کی سطح پر اس کی حفاظت کا انتظام کیا جائے۔
بعدازاں چند سال بعد جب یہ پیداواری حالت میں آجائیں انہیں ٹھیکے کی صورت میں بولی لگا کر سالانہ لیز پر دیا جائے۔ یونین کونسل کو حاصل شدہ آمدن اتنے ہی سال استعمال میں لانے کی اجازت دی جائے جتنا عرصہ اس یونین کونسل نے اس درخت کی آبیاری اور نگہداشت کی۔ محکمۂ زراعت اور محکمۂ جنگلات کو مزید اختیارات دیے جائیں۔ باغات خصوصاً آم کے باغات کے حوالے سے پنجاب میں بہت کام ہو رہا ہے، مگر شاید یہ آم کے باغات تک محدود ہے اور ایک خاص سطح پر آکر منجمد ہوجاتا ہے۔ محکمۂ زراعت اس سلسلے میں لیموں کی کاشت کی حوصلہ افزائی کرے۔
ایسی اقسام کاشت کروائی جائیں جو کم وقت میں پیداواری صلاحیت کا ریکارڈ رکھتی ہوں۔ پاکستانی لیموں دنیا بھر میں اپنے ذائقے اور معیار کے حوالے سے بہترین ریٹنگ کا حامل ہے۔ لیموں، کھجور، بیر، کِنّو اور دیگر سخت جان پھل دار درختوں کی کاشت سے حاصل کردہ پھل اور دیگر قیمتی اجزاء جو کہ مختلف ادویات اور کاسمیٹکس کا جزو لاینفک ہیں، کی برآمد ایک مکمل اور مربوط سسٹم سے یقینی طور پر ممکن ہے، لیکن صرف مکمل اور مربوط سسٹم کے انتظار میں موجود ڈھیلا ڈھالا سسٹم بھی اختیار نہ کرنا حماقت ہوگی۔ اگر اسی نظامِِ شجرکاری صرف بیج کی تبدیلی یا پودے کی تبدیلی اور نگہداشت کا معاملہ یونین کونسل کی سطح پر ہی قابل عمل کیا جائے، تو پھل داردرختوں کے حوالے سے شجر کاری مہم ہر سال معاشی جذبہ لیے مزید بہتری کی جانب گام زن ہو گی۔
جنگلات کی اہمیت و افادیت اپنی جگہ ہے، مگر یہ بھی دھیان میں رہے کہ محض آرائش اور ایندھن کی فراہمی ہی درختوں کا خاصہ نہیں بلکہ خوراک کی کمی اور معاشرتی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بھی پھل دار درختوں کا وجود نعمت غیرمترقبہ ہے۔ سڑکوں اور نہر کناروں پر لگے سایہ دار درخت بے توجہی اور دانستہ بے پرواہی کی وجہ سے مختلف خطرناک بیماریوں مثلاً سوکڑہ، جلد مرجھاکر خشک ہو جانا، جڑی بوٹیوں مثلاً آکاس بیل وغیرہ کی بہتات پانی کی کم یابی اور دیگر مسائل کی وجہ سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ چوں کہ اب ان کا استعمال صرف ایندھن یا آرائشی ضرورت کے لیے رہ گیا ہے، اس لیے حریص لوگ اور متعلقہ محکموں کے خائن ملازم باہمی گٹھ جوڑ سے ان اثاثوں کو برباد کیے جا رہے ہیں۔
ان کو اونے پونے داموں بیچ کر بھی اتنے پیسے مل جاتے ہیں جن سے ان کے شاہانہ خرچ جاری رکھے جا سکتے ہیں۔ مگر ایک درخت کے کم ہونے سے موسمی تغیر یا ماحول پر جو اثر پڑتا ہے وہ ان ناسمجھ لوگوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہے۔ اگر یہ بھی پھل دار درخت ہوتے تو کم از کم ان کے کاٹنے پر کہیں نہ کہیں سے آوازِ مزاحمت ضرور بلند ہوتی۔ شاید ان سایہ دار درختوں کے کاٹنے پر بھی بلند ہوتی ہو مگر اس میں وہ توانائی اور شدت نہیں ہوتی جو کسی پھل دار درخت کے کاٹنے پر ہوتی ہے۔
موجودہ دور میں دنیا چوںکہ ایک گلوبل ولیج کی حیثیت اختیار کرچکی ہے اور ظاہر ہے ولیج میں فطری مظاہر کی موجودگی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے، لہٰذا پھل دار درختوں کی اہمیت ہر لحاظ سے، چاہے وہ سائنسی ہوں یا معاشی یا تیکنیکی، بہت زیادہ ہے۔ دنیا بھر میں معیشت پر اپنے پنجے گاڑے ہوئے ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک ملک اپنی پراڈکٹس کی تشہیر میں اس بات کا خصوصی خیال رکھتی ہیں کہ وہ اپنی مصنوعات کو حقیقت سے قریب ترین پیش کر کے دکھائیں، لیکن خود حقیقی اشیاء کی اہمیت و افادیت پر ان کی توجہ بہت کم ہے اور وجہ وہی ہے، یعنی دولت کا ارتکاز اور کم از کم لاگت میں زیادہ سے زیادہ سرمائے کا حصول، جس کی وجہ سے مصنوعی طریقے سے حاصل کردہ اشیاء پس ماندہ ممالک سے کم قیمت پر حاصل کردہ خام مال اور قدرتی اشیاء کے قریب ترین دعوؤں کا شوروغوغا مل کر ایک ایسی مارکیٹ کے لیے راہ ہموار کرتا ہے جہاں ان کی مکمل عملداری ہو۔
مضمون کی طوالت کے پیش نظر اور متعلقہ شعبہ جات کی تفصیل وطوالت کے خوف کی وجہ سے یہاں پیسٹی سائیڈز، سیڈز اور دیگر متعلقہ عالمی کمپنیوں اور ان سے وابستہ شعبوں کی تفصیلات درج نہیں کی جارہیں۔ دنیا کی آبادی میں جس طرح جس تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے خوراک کے وسائل میں اس رفتار سے اضافے کی اشد ضرورت ہے، مگر ترقی پذیر یا پس ماندہ ممالک میں برسراقتدار حکومتوں کی پالیسیاں ماحول دوست یا انسان دوست کی بجائے محض اپنی حکومت کی مضبوطی کے لیے سیاسی مفادات کو ترجیح دینے پر مبنی ہیں، جب کہ معاشرتی، مذہبی، نسلی تعصبات، انتہا پسندی ، جنگ و جدل اور موجودہ وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے کی صلاحیت میں کمی جیسے عوامل بھی اس کارِخیر اور انسانی فلاح کے منصوبے میں حد درجہ رکاوٹ ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جنگلات کا بے دریغ کٹائو اور قدرتی آفات کے نقصانات کا تدارک نہ ہونا بھی خوراک کی کم یابی اور غذائی قلت کا باعث بن رہا ہے۔
کیا پاکستان گرین پاکستان سے فروٹی پاکستان کی جانب اپنے وسائل کا رخ موڑ سکے گا؟ ایسا ممکن ہے، کیوںکہ بہرحال پاکستان جیسے قدرتی وسائل اور افرادی قوت سے مالامال ملک میں صرف بہتر پالیسی اور اس پر عمل درآمد کی صورت میں پھل دار درختوں کی کاشت سرکاری سرپرستی میں ممکن ہے، جس سے نہ صرف قدرتی طور پر ماحول کی بہتری ہوگی، بل کہ خوراک کی کمی جیسے سنگین مسائل کا خاتمہ اور زرِمبادلہ میں اضافہ بھی ممکن ہوسکے گا۔