بالتا سار جراشیان (1601ء۔1658ء) اسپین کا مشہور فلسفی گزرا ہے۔ نطشے اور شوپنہار جیسے عالمی شہرت یافتہ فلسفیوں نے اس کے افکار سے استفادہ کیا۔
بالتاسار کا قول ہے: ’’محض ایک جھوٹ انسان کی ساری شخصیت و کردار تباہ کر ڈالتا ہے۔‘‘ یہ بات جھوٹ کی خوفناکی بخوبی اجاگر کرتی ہے جسے تمام برائیوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ وجہ یہی کہ جھوٹ کے بطن ہی سے شر وفساد کے سارے سلسلے جنم لیتے ہیں۔
پچھلے دنوں امریکی حکمران طبقے کا ایک جھوٹ نمایاں ہوا، تو اس کے منہ پر مزید کالک مل گیا۔ افسوس کہ جس ملک کی بنیادیں انسانی حقوق، جمہوریت اور آزادی کے اعلیٰ تر اصولوں پر رکھی گئی ہیں، وہاں کے حکمران طبقے نے اپنے مفادات کی خاطر دنیا بھر میں اُسے ذلیل و خوار کرادیا۔ حتی کہ آج لالچ و ہوس اور امریکی باشندے لازم و ملزوم بن چکے۔
جھوٹ یہ نمایاں ہوا کہ 9 جون 2006ء کی رات بدنام زمانہ گوانتانامو جیل میں تین مسلمان قیدیوں نے خودکشی نہیں کی تھی جیسا کہ امریکی حکومت نے چرچا کیا… بلکہ خفیہ ایجنسی، سی آئی اے کے افسروں نے ان پر اتنا زیادہ تشدد کیا کہ بیچارے مسلمان قیدی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ یہ انکشاف گھر کے بھیدی، سابق امریکی سارجنٹ، جوزف ہکمین نے اپنی چشم کشا کتاب ’’Murder at Camp Delta‘‘ میں کیا ہے۔
امریکا میں انسانی حقوق کی مشہور رہنما، ایمی گڈمین نے بہ سلسلہ کتاب جوزف ہکمین سے ایک انٹرویو لیا۔ اس موقع پر پروفیسر مارک ڈینبیوکس(Mark Denbeaux) بھی موجود تھے۔ آپ امریکی سیٹن ہال یونیورسٹی آف لاء میں قانون پڑھاتے ہیں۔ گوانتانامو جیل میں مسلمان قیدیوں کے ساتھ کیے گئے غیر انسانی سلوک کے شدید ناقدین میں شامل ہیں۔ انٹرویو کے چیدہ سوال جواب پیش خدمت ہیں۔
سوال: سارجنٹ جوزف، یہ بتائیے کہ 9 جون 2006ء کی رات کیا واقعہ پیش آیا؟
جواب: میں اس رات ڈیلٹا کیمپ (گوانتانامو جیل کے بنیادی حصے) کے کیمپ نمبر 1 میں تعینات تھا۔ میری ذمے داری اس کے داخلی دروازے پہ موجود فوجی گارڈوں کی قیادت کرنا تھی۔ کیمپ نمبر 1 کے دروازے پر ہی ٹاور1 واقع ہے۔ شام سات بجے کے قریب ڈیلٹا کیمپ میں ایک ویگن داخل ہوئی جس میں کوئی کھڑکی نہ تھی۔ اس نے الفا بلاک سے ایک قیدی سوار کرایا اور چلی گئی۔ بیس منٹ بعد پھر آئی، دوسرا قیدی لیا اور پھر روانہ ہوئی۔ کچھ عرصے بعد دوبارہ آئی، تیسرا قیدی لیا اور پھر چل پڑی۔
ویگن کی آمدورفت نے مجھے متجسّس کردیا۔ میں یہ دیکھنے کے لیے ٹاور 1 کے اوپر پہنچا کہ آخر ویگن قیدیوں کوکہاں لے جارہی ہے؟ میں نے دیکھا کہ وہ افسروں کے لیے مخصوص ساحل سمندر کی طرف رواں دواں ہے۔ تب مجھے احساس ہوا کہ ’’کیمپ نو‘‘ (Camp No) اس کا مسکن ہے۔ یہ سی آئی اے کا خفیہ تفتیشی مرکز تھا۔ چونکہ سرکاری کتب میں اس کا نام و نشان نہ تھا، اس لیے ہم اسے ’’کیمپ نو‘‘ (یعنی کوئی کیمپ نہیں) کہتے تھے۔
سوال: آپ اس خفیہ مرکز سے واقف تھے؟
جواب: سرکاری طور پر ہمیں اس خفیہ مرکز کے متعلق کچھ نہیں بتایا گیا۔ البتہ ایک دوپہر میں اپنے ساتھی کے ہمراہ گشت کررہا تھا۔ ہم ہموی (گاڑی) پر سوار تھے۔ گرمی بہت تھی، سو ہم سستانے کی خاطر ایک جگہ رک گئے۔ وہیں کچھ دور ہمیں تاریں لگی نظر آئیں۔
ہم تجسّس میں مبتلا ہوکر تاروں کے قریب گئے تو ہمیں کیمپ نو کی عمارتیں نظر آئیں۔ وہ علاقہ پہاڑی ہے۔ لہٰذا پہاڑیوں نے انہیں چھپا رکھا تھا۔ جب انسان پہاڑی پر پہنچے، تبھی وہ نظر آتی تھیں۔ انہیں دیکھتے ہی ہمیں پتا چل گیا کہ یہ بھی قیدی رکھنے کا کوئی مرکز ہے۔
مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے کیونکہ کیمپ نو کو دیکھتے ہوئے میرے ساتھی نے مجھ سے کہا ’’تمہیں پتا ہے، ہم نے کیا چیز ڈھونڈ نکالی ہے؟‘‘
میں نے حیران ہوکر پوچھا ’’کیا چیز؟‘‘
وہ بولا ’’ہم نے اپنا آشوٹز (Auschwitz) دریافت کرلیا ہے۔‘‘ (آشوٹز جرمن نازی حکومت کا بدنام زمانہ نظر بندی کیمپ ہے جہاں نازیوں نے دس لاکھ قیدی ظلم و تشدد کرکے مار ڈالے تھے)۔
میں وہ دن کبھی نہیں بھول سکتا اور نہ ہی اپنے ساتھی کا جملہ مجھے فراموش ہوگا۔
سوال: ساتھی نے اسے آشوٹز کیوں کہا؟
جواب: اسی لیے کہ دنیا والے تو ایک طرف، خود امریکی عوام اس مرکز سے بے خبر تھے۔ لہٰذا صرف اعلیٰ حکام ہی جانتے تھے کہ وہاں قیدیوں سے کس قسم کا سلوک ہوتا ہے۔
سوال: ان قیدیوں کے متعلق مزید بتائیے؟
جواب: میں نے دیکھا کہ انہیں معمول کے مطابق پلاسٹک نہیں فولادی ہتھکڑیاں پہنائی گئی تھیں۔ جب قیدی چلے گئے تو خاموشی چھاگئی۔ رات کو وہی ویگن پھر آئی۔ مگر الفا بلاک کی سمت جانے کے بجائے وہ میڈیکل سینٹر کی طرف مڑگئی جو ٹاور 1 کے سامنے واقع ہے۔وہاں ویگن کے پچھلے حصے سے کچھ اتار کر سینٹر کے اندر لے جایا گیا۔
پندرہ بیس منٹ بعد کیمپ ایک کی ساری بتیاں روشن ہوگئیں اور سائرن بجنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ان آوازوں نے پوری گوانتانامو جیل میں ہلچل پیدا کردی۔ فوجی اِدھر اُدھر بھاگنے لگے۔ مجھے سمجھ نہیں آئی کہ بیٹھے بٹھائے کیا مصیبت آن پڑی۔
اچانک مجھے میڈیکل سینٹر کے باہر ایک نرس کھڑی نظر آئی۔ وہ مجھے جانتی تھی۔ میں اس کے پاس گیا اور پوچھا کہ کیا آفت آگئی؟ وہ بولی ’’تین قیدیوں نے خودکشی کرلی ہے۔ انہوں نے اپنے حلق میں چیتھڑے بھر رکھے تھے۔‘‘
تھوڑی دیر بعد جیل میں تعینات سبھی گارڈوں کا انچارج، کرنل مائیکل بمگارنر (Michael Bumgarner)وہاں آن پہنچا۔ وہ مجھے کہنے لگا ’’صبح سات بجے ایک اہم میٹنگ ہے۔ اس علاقے میں جتنے بھی گارڈ تعینات ہیں، ان کو لے کر میرے دفتر پہنچ جانا۔ میٹنگ میں ہر گارڈ کی حاضری ضروری ہے۔‘‘
سوال: میٹنگ میں کیا واقعات پیش آئے؟
جواب: ہم سبھی گارڈ میٹنگ میں شریک ہوئے۔ کرنل بمگارنر ہمیں مخاطب کرتے ہوئے بولا ’’رات کو تین قیدیوں نے خودکشی کرلی۔ انہوں نے چیتھڑے اپنے حلقوم میں گھسیڑ لیے، یوں ان کا دم گھٹ گیا۔ لیکن تم لوگوں کو میڈیا مختلف کہانیاں سنائے گا۔ ان پر اعتبار نہ کرنا۔ دوسرے اس واقعے کے متعلق کسی کو کچھ نہیں بتانا، گھر والوں کو بھی نہیں۔ یاد رکھو، این ایس اے (امریکہ کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی) تم پر نظر رکھے ہوئے ہے۔‘‘ یوں ہمیں خودکشیوں سے متعلق ایک لفظ بھی کہنے سے جبراً روک دیا گیا۔
سوال: اس وقت گوانتانامو میں چار (امریکی) صحافی بھی موجود تھے؟
جواب: جی ہاں، وہ ایک کیس کی تفتیش کرنے آئے ہوئے تھے۔ انہیں حکم دیا گیا کہ وہ فوراً واپس امریکا چلے جائیں۔
سوال: خودکشیوں کا معاملہ شروع ہی سے آپ کو مشکوک لگا؟
جواب: جی ہاں، جب میں نے کرنل بمگارنر کی باتیں سنیں تو مجھے لگا کہ کچھ چھپایا جارہا ہے۔ جیسے دال میں کچھ کالا ہے۔ پھر اگلے دن میں نے سی این این پر ایڈمرل ہیرس (گوانتانامو میں امریکی افواج کے سپریم کمانڈر) کی پریس کانفرنس سنی۔ اس میں انہوں نے خودکشیوں کو امریکا کے خلاف ’’ناموزوں جنگ‘‘ قرار دیا۔ایڈمرل ہیری ہیرس نے بھی یہی بیان دیا کہ تینوں قیدیوں نے خودکشی کرلی۔ حالانکہ وہ ہمارے سامنے الفا بلاک سے صحیح سالم گئے تھے لیکن کیمپ نو سے ان کی لاشیں واپس آئیں۔ میں اور میرے ساتھی جانتے تھے کہ یہ خودکشیوں کا کیس نہیں۔
سوال: تو پھر آپ نے کیا قدم اٹھایا؟
جواب: میں خاموش رہا۔ دراصل مجھے علم تھا کہ این سی آئی ایس (نیول کرمنل انویسٹیگیٹو سروس یعنی امریکی بحریہ کی پولیس) کیس کی چھان بین کررہی ہے۔ میں نے سوچا، جب بھی این سی آئی ایس کے حکام میرا انٹرویو کرنے آئے، تو میں انہیں حقائق سے آگاہ کروں گا۔لیکن کوئی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔ حتیٰ کہ این سی آئی ایس نے کسی گارڈ سے انٹرویو نہیں کیا۔ بس بالا بالا ہی ساری کارروائی مکمل کرلی گئی۔
سوال: اب ہم پروفیسر مارک ڈینبیوکس سے گفتگو کرتے ہیں۔ آپ اپنی یونیورسٹی میں سینٹر فار پالیسی اینڈ ریسرچ کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ یہ تحقیقی مرکز گوانتانامو جیل کے متعلق رپورٹیں شائع کرتا رہتا ہے۔ حال ہی میں اس نے نئی رپورٹ ’’گوانتانامو، امریکا کی جنگی لیبارٹری‘‘ (Guantanamo: America’s Battle Lab) شائع کی ہے۔ پروفیسر مارک، آپ 9 جون 2006ء کی رات پیش آنے والے پُراسرار واقعے کی بابت اپنی تحقیق سے ہمیں آگاہ کیجیے۔
جواب: ضمیر کے کچوکوں سے تنگ آکر جوزف ہکمین نے جنوری 2009ء میں مجھے بتایا کہ تینوں قیدیوں نے اجتماعی خودکشیاں نہیں کی تھیں، بلکہ انہیں بذریعہ تشدد قتل کیا گیا۔ شروع میں مجھے اس دعویٰ پر اعتبار نہ تھا مگر جب ہماری تحقیق شروع ہوئی تو شک رفتہ رفتہ یقین میں بدلنے لگا۔
ہماری تحقیق سے سب سے پہلے تو یہ انکشاف ہوا کہ این سی آئی ایس نے چھان بین مناسب طریقے سے نہیں کی، بس رسمی کارروائی ہوئی اور خودکشیوں کا کیس فائلوں کے نیچے پہنچ گیا۔ اب یہ سوال پیدا ہوا کہ بحریہ کی پولیس اس کیس کو کیوں دبانا چاہتی تھی اور کیوں؟
میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس کیوں کا جواب تلاش کرنے کی سعی کرنے لگا۔ آخر ہماری محنت اور تفتیش رنگ لائی اور ہمیں اس کیوں کا جواب مل گیا… اور وہ یہ کہ امریکی حکومت نے گوانتانامو جیل کو تشدد کے نت نئے طریقے دریافت کرنے کی خاطر ’’تجربہ گاہ‘‘ بنالیا تھا۔
جب جنوری 2002ء میں گوانتانامو جیل کی بنیاد پڑی، تو اس کا کمانڈر ،بریگیڈیئر رک باخس مقرر ہوا۔ اس کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف نے مقرر کیا تھا۔ بریگیڈیئر باخس ایک فرض شناس اور اصول پسند فوجی افسر تھا۔ اس نے قیدیوں کے ساتھ جنیوا کنونشنوں کے قوانین کی روشنی میں سلوک کیا۔ انہیں پڑھنے کو قرآن پاک دیئے، رمضان میں نئے اوقاتِ طعام مقرر کیے۔ نیز ہر کمرے میں تیر کے ذریعے اشارہ کیا کہ خانہ کعبہ کس طرف ہے۔
لیکن حکومت قیدیوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کرنا چاہتی تھی۔ اس لیے صدر بش کے براہ راست حکم پر بریگیڈیئر رک باخس کو صرف سات ماہ بعد ہٹا دیا گیا۔ اس پر یہ الزام لگا ’’وہ مسلمان قیدیوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کررہا ہے۔‘‘ بعدازاں بیچارے رک باخس کو فوج ہی سے نکال دیا گیا۔
اس کے بعد بش، ڈک چینی اور رمز فیلڈ نے امریکی جرنیلوں پر دباؤ ڈالا کہ واقعہ 9/11 کے بعد دنیا بدل چکی لہٰذا انہیں ان کے احکامات ماننے ہوں گے۔ چناں چہ صورت حال سے فائدہ اٹھا کر امریکی محکمہ دفاع (پینٹاگون) نے ایسے قوانین تخلیق کیے جو بین الاقوامی اصولوںاور انسانی اقدار سے متصادم تھے۔گوانتانامو جیل میں یہ ظالمانہ قوانین متعارف کرانے کے لیے سخت مزاج فوجی افسر مثلاً میجر جنرل مائیکل ڈنلیوے اور میجر جنرل جیفرے ملّر تعینات کیے گئے۔ انہوں نے مسلمان قیدیوں پر ٹارچر کی نت نئی تکنیکیں آزمائیں اور انہیں ’’گنی پگ‘‘ بنالیا۔
سوال: تجربہ گاہ سے آپ کی کیا مراد ہے؟
جواب: یہی کہ گوانتانامو جیل میں امریکی فوج اور سی آئی اے نے مل کر مختلف طریقوں سے قیدیوں پر تشدد کیا تاکہ وہ زبان کھولیں اور القاعدہ کے راز اگل سکیں۔ لہٰذا ہم نے اسی جیل کو ’’امریکہ کی جنگی لیبارٹری‘‘ کا نام دیا۔مثال کے طور پر ہماری تفتیش سے انکشاف ہوا کہ جوں ہی وہاں کوئی قیدی آئے، اسے ایسی ادویہ دی جاتیں جو اس کی خود اعتمادی توڑ پھوڑ کر اسے نفسیاتی مریض بنا دیتیں۔ نیز اس پر دیگر نفسیاتی و جسمانی حربے بھی اپنائے جاتے تاکہ قیدی کی مزاحمت مکمل طور پر دم توڑ دے۔
سوال: اور یہ نفسیاتی و جسمانی ٹارچر امریکا نے پہلے کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔
جواب: جی بالکل۔ اور انسانوں پہ نت نیا ٹارچر کرنے کی خاطر تب کی امریکی حکومت مختلف بہانے تراشتی رہی۔ مثلاً ایک مسکن دوا یہ کہہ کرانھیں دی گئی کہ اس سے ملیریا کا علاج ہوگا۔ حالانکہ گوانتانامو اور کیوبا میں ملیریا پایا ہی نہیں جاتا۔
سوال: آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جیل میں انسانوں پر سائنسی تجربات کیے گئے؟
جواب: جی ہاں۔ یہ بات تو جنرل ڈنلیوے اور جنرل جیفرے ملر نے بھی کہی ہے کہ گوانتانامو امریکا کی جنگی لیبارٹری بن چکا۔ اس سے یہی مراد ہے کہ وہاں ایسی ادویہ کے تجربے کیے گئے جو انسان کی قوت مزاحمت بالکل ختم کردے اور وہ دوسروں کے رحم و کرم پر آجائے۔
سوال: اب ہم واپس 9 جون 2006ء کی رات والے واقعے پر آتے ہیں۔ آپ کو اس کے متعلق کیسے معلومات ملیں؟
جواب: صدر اوباما نے حلف اٹھایا، تو اس کے تین دن بعد سارجنٹ جوزف ہکمین ہمیں ملنے آئے۔ انھوں نے تینوں قیدیوں کی خودکشیوں کو قتل قراردیا۔ واقعے کی جانچ پرکھ کرنے کے واسطے ہم نے این سی آئی ایس کی رپورٹ منگوالی۔ وہ 1700 صفحات پر مشتمل بھاری بھرکم رپورٹ تھی اور اس کا مطالعہ کرنے میں تین ماہ لگ گئے۔
رپورٹ سے واقعی ایسے نکات ملے جنہوں نے ہمیں شک میں مبتلا کردیا۔ اول یہ نکتہ کہ ڈاکٹروں نے بیان کیا، جب تینوں قیدی میڈیکل سینٹر لائے گئے، تو ان میں ’’جمود نعشی‘‘ (Rigor mortis) کے آثار واضح تھے۔(جمود نعشی موت کے واضح نشانات میں سے ہے۔ جب انسان کو مرے تین چار گھنٹے ہوجائیں، توجسمانی کیمیائی تبدیلیوں کے باعث لاش کی انگلیاں سخت ہوجاتی ہیں اور انہیں ہلانا جلانا ممکن نہیں رہتا۔ یہی کیفیت جمود نعشی کہلاتی ہے)
قیدی جس جگہ (الفا بلاک) میں مقیم تھے، وہاں 25 قیدیوں پر 5 گارڈ تعینات تھے۔ ان گارڈوں کی ذمے داری تھی کہ وہ ہر 3 منٹ بعد ہر قیدی کی بیرک کا معائنہ کریں اور دیکھیں کہ کوئی غلط کام تو نہیں کررہا۔خودکشی کرنے والے تینوں قیدی مختلف بیرکوں میں قید تھے۔ یہ بڑی عجیب بات ہے کہ انہوں نے ایک ساتھ، تین منٹ کے اندر اندر خودکشی کرلی… اور یہی نہیں، ان میں جمود نعشی کے آثار بھی پیدا ہوگئے۔ حالانکہ توقع تو یہی ہے کہ جب گارڈوں نے انہیں بیرکوں میں چھت سے جھولتے دیکھا، تو ان کو اتارنے اور جان بچانے کے لیے دوڑ پڑے ہوں گے۔
اسی نکتے نے ہمارے کان کھڑے کردیئے۔ رپورٹ میں بعض گارڈوں کا یہ بیان موجود تھا کہ انہوں نے قیدیوں کو چھت سے لٹکتے پایا۔ مگر مزید مطالعے سے پتا چلا کہ ہر گواہی دینے کو پہلے ’’مرنڈہ تنبیہہ‘‘(Miranda warning) دی گئی تھی۔(امریکا میں یہ تنبیہہ بیان لینے سے قبل ہر گواہ کو دی جاتی ہے۔ اس کی رو سے گواہ کو خاموش رہنے کا حق حاصل ہے۔ ورنہ بیان اس کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔)
ہم نے پھر رپورٹ میں گارڈوں کے بیان تلاش کیے، مگر وہ موجود نہ تھے۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ وہ جھوٹے بیان تھے، اسی لیے انہیں رپورٹ کے ساتھ نتھی نہیں کیا گیا۔ ان عوامل کی بنیاد پر ہم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 9 جون 2006ء کی رات تینوں قیدیوں نے خودکشی نہیں کی۔ مگر یہ امر بھی واضح نہیں تھا کہ کیا وہ تشدد سے ہلاک ہوئے؟ ہم نے پھر اپنی تحقیق کے نتائج سکاٹ ہارٹن کو دکھائے۔ (سکاٹ ہارٹن بنیادی طور پر وکیل ہے مگر قانونی موضوعات پر مضامین بھی لکھتا ہے)۔
سوال: سکاٹ ہارٹن نے پھر تینوں قیدیوں کی خودکشیوں پر مضمون لکھا جو (مشہور امریکی رسالے) ہارپرز میگزین کے شمارہ جنوری 2010ء میں شائع ہوا۔ اس میں خودکشیوں کو مشکوک قرار دیا گیا۔ مضمون کے جواب میں این سی آئی ایس نے یہ بیان دیا ’’جس رات قیدیوں کی موت واقع ہوئی، سارجنٹ ہکمین کیمپ کے بیرونی علاقے میں تعینات تھا۔ وہاں سے الفا بلاک نظر نہیں آتا جہاں قیدیوں نے خودکشی کی تھی۔ ہم نے دوران تفتیش 100 انٹرویو کیے اور کسی ایک نے یہ بیان نہیں دیا کہ قیدیوں کو کہیں اور لے جایا گیا ۔ وہ قیدی ساری رات الفا بلاک ہی میں مقیم رہے تھے۔‘‘سارجنٹ ہکمین، آپ نے این سی آئی ایس کا بیان سنا۔ آپ اپنے دفاع میں کچھ کہیں گے؟
جواب: جی بالکل۔ بحریہ کی پولیس نے اپنے بیان میں مجھے ایسا معمولی گارڈ دکھانا چاہا ہے جو ڈیلٹا کیمپ سے باہر تعینات تھا۔ یہ صاف جھوٹ ہے۔ دراصل میں اس علاقے میں موجود سات گارڈوں کا انچارج تھا۔ تین گارڈ باہر کھڑے ہوتے تھے اور چار اندر۔ اسی لیے میں اپنے اوقات کار کا 50 فیصد حصہ کیمپ کے اندر گزارتا تھا۔
9 جون کی رات جب ویگن کی آمدورفت ہوئی تو میں کیمپ کے اندر ہی موجود تھا اور ہمارے علاقے سے میڈیکل سینٹر تیس چالیس فٹ دور تھا۔ میرے تین گارڈ سینٹر سے 25 فٹ دور کھڑے تھے جبکہ ایک ٹاور پر استادہ تھا۔ مجھ سمیت ساتوں گارڈوں نے اسی رات وقوع پانے والے تمام واقعات دیکھے… لیکن این سی آئی ایس نے ہم ساتوں سے کوئی پوچھ گچھ نہیں کی۔
سوال: کسی بھی گارڈ سے انٹرویو نہیں کیا گیا؟ یہ تو بہت حیرانی کی بات ہے۔
جواب: جی ہاں اور اسی بات نے ہمارے کان کھڑے کردیئے۔ آپ بقیہ گارڈوں سے بھی پوچھ لیجیے، تینوں قیدی وین کے ذریعے میڈیکل سینٹر لے جائے گئے۔ وہ الفا بلاک میں موجود نہیں تھے۔
سوال: آپ اب گوانتاناموجیل کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: جب میں پہلی مرتبہ جیل پہنچا، تو وہاں کے حالات دیکھ کر مجھے ’’کلچرل شاک‘‘ لگا۔ جیل میں سبھی قیدی بہت کٹھن اور تکلیف دہ زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے ساتھ تقریباً جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا تھا۔ ہر قیدی صرف چھ فٹ چوڑے اور آٹھ فٹ لمبی کوٹھری میں کئی سال سے قید تھا۔ انہیں روزانہ تفریح کا صرف ایک گھنٹا ملتا۔ غرض وہاں وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی ہورہی تھی۔
ہر امریکی فوجی آغاز میں یہ حلف اٹھاتا ہے کہ وہ (امریکی) آئین کی حمایت و پاس داری کرے گا۔ لیکن گوانتانامو جیل پہنچ کر زندگی میں پہلی بار مجھے احساس ہوا کہ کیا میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کررہا؟
سوال: پروفیسر مارک ڈینبیوکس، آپ اپنی تحقیق و تجربے سے کام لے کر بتائیے، تین قیدیوں کو کیا دانستہ قتل کیا گیا یا وہ کسی تجربے میں اپنے بھیانک انجام سے دوچار ہوئے؟
جواب: درست بات یہ ہے کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ اگر اس واقعے کی دیانتداری سے چھان بین ہو، تبھی سچائی سامنے آسکتی ہے۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ بش حکومت نے قتل کو خودکشیوں کا روپ اسی لیے دیا کہ وہ گوانتانامو جیل میں جاری سرگرمیاں امریکی عوام سے پوشیدہ رکھنا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہاں جو کچھ ہورہا ہے، دنیا والوں کے سامنے نہ آئے۔
سوال: سارجنٹ جوزف! آپ کو علم تھا کہ ’’کیمپ نو‘‘ میں قیدی کیوں لے جائے جاتے ہیں؟
جواب: جی نہیں، بعد میں پتا چلا کہ وہاں قیدیوں کو ڈبل ایجنٹ بنانے کی سعی ہوتی ہے۔
سوال: آپ کے خیال میں گوانتانامو جیل کو بند ہوجانا چاہیے؟
جواب: ہم امریکی انسانی حقوق کا چیمپئن ہونے پر فخر کرتے ہیں لیکن گوانتاناموجیل ہمارے دامن پر دھبہ بن چکا۔ ہمارے لیے یہ بڑی توہین آمیز اور ذلت والی بات ہے کہ امریکی حکومت ایسی جیل چلا رہی ہے جہاں بڑے پیمانے پر انسانی حقوق پامال کیے جاتے ہیں جو لوگ دہشت گردی کریں، ان پر اصول و قوانین کے تحت مقدمے چلنے چاہئیں۔
سوال: کیا آپ گوانتانامو جیل کو امریکی قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں؟
جواب: جی ہاں، کیونکہ وہ دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے۔ جو لوگ وہاں قید ہوں، وہ اور ان کے عزیز و اقارب امریکا کے دشمن بن جاتے ہیں۔
سوال: 9 جون 2006ء کی رات ہی گوانتانامو میں ایک اور قیدی،شاکر عامر پر بھی تشدد ہوا تھا۔ بعدازاں شاکر نے انکشاف کیا: ’’مجھے ڈھائی گھنٹے تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کرسی سے باندھ کر مجھے اتنا مارا گیا کہ میں مرجاؤں گا۔‘‘ آپ نے شاکر عامر کا بیان پڑھا ہے؟
جواب: جی ہاں، شاکر اور مرجانے والے قیدیوں پر ایک جیسا ٹارچر ہوا۔ بس وہ تینوں اس کی تاب نہ لاکر چل بسے۔
سوال: آپ اپنی کتاب کے سلسلے میں کچھ کہنا چاہیں گے؟
جواب: میں نے اپنی کتاب یہی سوچ کر لکھی کہ تینوں قیدیوں کی موت سے متعلق سچ سامنے آجائے۔ یہ کتاب میں نے ایک مقتول کے والد، طلال الزہرانی کے نام معنون کی ہے۔طلال مسلسل کہتے آرہے ہیں کہ امریکی حکومت نے ان کے بیٹے کو قتل کیا ہے۔ اب اس اعترافِ جرم سے شاید انہیں کچھ سکون مل جائے۔
بدنام زمانہ جیل
جنوری 2002ء میں کھولا گیا گوانتانامو جیل خانہ آج ظلم و تشدد کا استعارہ بن چکا۔ بش حکومت کا دعویٰ تھا کہ اس میں ’’خطرناک‘‘ قیدیوں کو رکھا جائے گا۔ مگر اب یہ سچائی سامنے آچکی کہ اس جیل خانے میں بیشتر ایسے مسلمان رکھے گئے جو اپنے دین سے خصوصی شغف رکھتے تھے۔ ورنہ ان میں کوئی طالب علم تھا، کوئی دکان دار اور کوئی معمولی ملازمتیں کرنے والا نوجوان، مگر اسلام سے گہری محبت ان کا جرم بن گئی۔
امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ جنوری 2002ء تا حال گوانتانامو میں 779 قیدی لائے گئے۔ وسط 2004ء میں تقریباً 200 رہا کردیئے گئے۔ یہ وہ غیر ملکی قیدی تھے جنہیں لالچی و ظالم افغانوں اور پاکستانیوں نے کسی نہ کسی طرح پکڑا، القاعدہ کا رکن قرار دے کر امریکیوں کے ہاتھ فروخت کیا اور ان سے بھاری معاوضہ پایا۔
سبھی قیدیوں کو مقدمہ چلائے بغیر گوانتانامو میں رکھا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ان پر ایسا انوکھا جسمانی و نفسیاتی ٹارچر ہوا جو جسم پر نشان نہیں چھوڑتا، مگر بندے کی خودی توڑ پھوڑ دیتا ہے۔ آج بھی 122 قیدی ارضی جہنم میں قید امریکیوں کا ظلم و ستم سہ رہے ہیں اور مستقبل قریب میں یہ کوئی اُمید نظر نہیں آتی کہ امریکی حکمران طبقہ اسے بند کرڈالے۔
تین مسلم قیدی کون تھے؟
امریکی اہل کاروں نے تشدد کرکے 9 جون 2006ء کی رات جو مسلمان قیدی شہید کیے ان کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
25 سالہ مانی شامان العتیبی سعودی باشندے تھے۔ تبلیغی جماعت کے رکن بن کر پاکستان آئے۔ 17 جنوری 2002ء کو پاکستانی پولیس نے انہیں بنّوں سے پکڑا اور القاعدہ کا رکن قرار دیا۔ مشرف حکومت نے انہیں پھر امریکیوں کے حوالے کیا جو انہیں گوانتانامو لے گئے۔ امریکیوں کے مطابق وہ ضدی اور جارح مزاج تھے… مگر ان سے القاعدہ کے متعلق کچھ نہیں جانا جاسکا۔
21 سالہ یاسر طلال الزہرانی سعودیہ کے ایک اہم سرکاری افسر کے صاحب زادے تھے۔ 2001ء میں پاکستان کے راستے افغانستان پہنچے تاکہ شمالی اتحاد کے خلاف جہاد میں حصہ لے سکیں۔ اسی دوران امریکا نے افغانستان پر حملہ کردیا۔ جنگ قندوز کے دوران شمالی اتحاد نے یاسر کو گرفتار کیا۔ 29 دسمبر 2001ء کو انہیں امریکیوں کے حوالے کردیا گیا جو یاسر کو گوانتانامو لے گئے۔ یاسر سے معمولی نوعیت کی انٹیلی جنس معلومات حاصل ہوئیں۔
36 سالہ علی عبداللہ یمنی باشندے تھے۔ صنعا میں پھیری لگا کر کپڑے فروخت کرتے۔ 2001ء سے قبل پاکستان آئے اور ایک مدرسے میں دینی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ مارچ 2002ء میں امریکی و پاکستانی فورسز نے انہیں القاعدہ رکن کی حیثیت سے فیصل آباد سے گرفتار کرلیا۔ 19 جون کو وہ گوانتانامو پہنچے۔ان سے بھی کچھ معلومات حاصل نہ ہوئیں۔
باضمیر امریکی فوجی
جوزف ہکمین امریکی شہر بالٹی مور میں پیدا ہوئے۔ 18 سال کی عمر میں امریکی بحریہ کا حصّہ بنے۔ مارچ 2006ء میں گوانتانامو جیل میں ان کا تقرر ہواجب وہ سارجنٹ بن چکے تھے۔ وہ ڈیلٹا کیمپ میں تعینات گارڈوں کے سربراہ تھے۔
9 جون 2006ء کی رات سی آئی اے کے اہل کاروں کی بے احتیاطی اور شدید ٹارچر سے تین قیدی چل بسے۔ یہ جرم چھپانے کی خاطر قتل کو خودکشی کا رنگ و رپ دے دیا گیا۔ مگر جوزف ہکمین سچ اور انصاف کا خون ہوتے نہیں دیکھ سکے۔ ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے انہوں نے واقعے کے متعلق ایک کتاب لکھی اور سچائی سامنے لائے۔ یوں ثابت ہوگیا کہ ہر قوم میں اچھے اور برے، دونوں قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔
مطالعہ تاریخ بتاتا ہے کہ ہر دور کی سپرپاور اپنے گناہ اور جرم چھپانے کی بھر پور کوشش کرتی ہے۔ لیکن حکمران طبقے ہی کا حصہ جوزف جیسے بہادر اور باضمیر لوگ آخر حکمرانوں کے جرائم عیاں کردیتے ہیں۔ یوں شر کا بول بالا نہیں ہوپاتا اور آخری فتح سچ و خیر ہی کی ہوتی ہے۔
پُراسرار کیمپ NO
2002ء کے وسط میں امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے نے گوانتانامو کے سنسان علاقے میں ’’پینی لین‘‘ نامی ایک نظر بندی کیمپ قائم کیا۔ مقامی امریکی فوجیوں میں یہ مقام ’’کیمپ نو‘‘ کے عرف سے مشہور ہوا۔ سی آئی اے اس کیمپ میں مخصوص مسلمان قیدیوں کو ’’ڈبل ایجنٹ‘‘ بناتی تھی۔ان قیدیوں کو امریکی حکومت کے لیے کام کرنے پر لاکھوں ڈالر بطور معاوضہ دیا جاتا۔ نیز انہیں یہ ضمانت دی جاتی کہ ان کے خاندان محفوظ رہیںگے۔یہ نظر بندی کیمپ اواخر 2006ء تک کام کرتا رہا۔
پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ عبداللہ محسود بھی ’’25 ماہ‘‘ تک گوانتانامو جیل میں قید رہا۔ پھر پُراسرار طور پر اسے رہا کردیا گیا۔ وہ پھر پاکستان پہنچا اور قبائلی علاقہ جات میں پاکستانی فورسز کے خلاف کارروائیاں کرنے لگا۔ اسی نے 2007ء میں ’’تحریک پاکستان طالبان‘‘ کی بنیاد رکھی۔
یہ تنظیم پچھلے آٹھ برس سے پاکستانی فورسز اور ملک و قوم کے خلاف دہشت گردی کرنے میں مصروف ہے۔ گویا ممکن ہے کہ عبداللہ محسود بھی ’’پینی لین‘‘ پہنچ کر ڈبل ایجنٹ بن گیا۔ پھر ڈالروں کے بل پر اپنے گرد دہشت گرد اکٹھے کرنے میں کامیاب رہا اور پاکستانی فورسز کو نشانہ بنانے لگا۔ اس زمانے میں امریکی اکثر پاکستان پر الزام لگاتے تھے کہ وہ افغان طالبان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے۔