ملائیشیا ان ممالک میں شامل ہے جنہوں نے مختصر مدت میں عدیم المثال ترقی کی۔ آج ملائیشیا کو دنیا کی تیز رفتار ی سے بڑھتی ہوئی معاشی طاقت تصور کیا جارہا ہے۔ ملائیشیا ایشیاء میں بہترین اقتصادی ریکارڈ رکھتا ہے جس کی جی ڈی پی کی شرح اوسطاً 6.5 فیصد سالانہ ہے اور یہ شرح گزشتہ پچاس برسوں سے قائم ہے۔
اس کی اقتصاد یات کی بنیاد قدرتی وسائل پر ہے، لیکن اب یہ سائنس، سیاحت ، تجارت اور میڈیکل ٹورازم کے شعبوں میں بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ آج ملائیشیا جنوبی ایشیا کی تیسری اور دنیا کی 29ویں پوزیشن کے ساتھ ایک بڑی انڈسٹریل مارکیٹ اکانومی کے طورپر دنیا کے منظر نامے پر ظاہر ہوا ہے۔ ملائیشیا دنیا کے اُن 19 ممالک میں بھی شامل ہے جنہیں پُرامن تصور کیا جاتا ہے۔
ملائیشیا کی معاشی ترقی اور مضبوط و مستحکم نظام کے پیچھے ایک بڑی وجہ معیار تعلیم اور بہتر شرح خواندگی ہے۔ملائیشیا کی قیادت نے اس حقیقت کا ادراک ایک عشرہ پہلے کرلیا تھا کہ دنیا میں معاشی ترقی کے لیے سب سے بنیادی چیز تعلیم ہے۔ تعلیم کے فروغ کے بغیر ترقی و خوشحالی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس نے ملائیشیا میں تعلیمی اداروں کو اپنے ایجنڈے اور معیشت کا اہم عنصر بنایا اور ملک میں تعلیم کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرلیا ۔تعلیم کا معیار بین الاقوامی تعلیمی معیار کے برابر لانے کے لیے انقلابی اقدامات کئے اور آج ملائیشیا کی یونیورسٹیاں دنیا کی معیاری جامعات میں سے ہیں۔
ملائیشیا کی 28 ملین آبادی کے لئے 110 پبلک اور پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں۔ یونیسکو کی حالیہ رپورٹ کے مطابق ملائیشیا تعلیم کیلئے ترجیحی فہرست میں 11ویں نمبر پر ہے۔ ملائیشیا ایجوکیشن ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں چھٹے نمبر پر آنا چاہتا ہے۔ اس وقت ملائیشیا میں زیر تعلیم فارن سٹوڈنٹس میں ایران سرفہرست ہے۔ملائیشیا کی سرکاری اور غیر سرکاری یونیورسٹیوں میں 14 ہزار ایرانی سٹوڈنٹس ہیں جن میں سے 8 ہزار پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ملائیشیا کی اس بے مثال ترقی اور اقتصادی خوشحالی نے دنیا بھر کی حکومتوں کو حیرت زدہ کردیا۔ ہمیں بھی اشتیاق تھا کہ ملائیشیا کی تعلیمی کامیابی کا بچشم خود جائزہ لیا جائے۔
اس کی جامعات کا دورہ کیا جائے، وہاں کی فیکلٹی سے ملاقات کی جائے اور وہاں کے نصاب اور تعلیمی ماحول کو دیکھا جائے ۔ ہماری خوش قسمتی کہ ہمیں ’’ایجوکیشن ملائشیا‘‘ کی طرف سے ملائیشیا کے تعلیمی نظام کو دیکھنے کا دعوت نامہ موصول ہوا۔ سو موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سفر کی تیاریاں شروع کردیں۔ ہمارا وفد پانچ افراد پر مشتمل تھا جن میں راقم الحروف کے علاوہ دوبئی ملائشین قونصلیٹ جنرل میں ایجوکیشن ملائشیا کے مارکیٹنگ مینجر اویس محمد اسلم قاضی، دبئی کے ایک معروف ایجوکیشن کنسلٹنٹ ڈاکٹر محمد یوسف قادری ، ڈپٹی ایڈیٹر گلف نیوز دوبئی اشفاق احمد اور پاکستان کے ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر فصیح الرحمن شامل تھے۔
پانچ دنوں پر محیط اس دورہ کے دوران ہمیں ملائیشیا کی جامعات کے شعبہ جات کو دیکھنے ، فیکلٹی ارکان سے ملنے اور ان طلبہ سے بھی ملاقات کرنے کے مواقع میسر آئے جویہاں پر حصول علم کے لیے آئے ہوئے تھے۔ جنوبی ایشیاء کے تین لاکھ انتیس ہزار آٹھ سو سنتالیس مربع کلومیٹر کے وسیع رقبے پر پھیلے ملائیشیا میں یونیورسٹیوں کی بڑی تعداد ہے جو ملائشیا کے مقامی اور بیرون ملک سے آئے طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے میں مصروف ہیں۔
ان یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی ٹیکنالوجی ملائشیا، مینجمنٹ اینڈ سائنس یونیورسٹی ملائیشیا، انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا، یونیورسٹی کوالالمپور، موناش یونیورسٹی ملائیشیا اور یونیورسٹی آف نوٹنگھم ملائیشیا کیمپس وہ جامعات تھیں جہاں ہمیں لے جایا گیا۔ یہاں پہنچ کر ہمیں یہ جان کو خوشی بھی ہوئی اور حیرت بھی کہ ملائیشیا کی سرکاری ، پرائیویٹ یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں زیر تعلیم فارن سٹوڈنٹس کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چُکی ہے اور ملائیشین حکومت نے 2020 ء تک فارن سٹوڈنٹس دو لاکھ تک بڑھانے کا منصوبہ بنا لیا ہے ۔ اس سے تعلیم کا شعبہ ملائیشیا میں معیشت کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ ہمیں بتایا گیا کہ 2002ء میں ملائیشین یونیورسٹیوں میں صرف 27872 فارن سٹوڈنٹس تھے، 2009ء میں یہ تعداد بڑھ کر 80750 ہوگئی اور اب ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے ۔
1990ء تک عراق جنگ سے پہلے عراق غیر ملکی طلباء میں سر فہرست تھا۔ ملائیشیا سے تعلیم حاصل کرنے والے زیادہ فارن سٹوڈنٹس واپس چلے جاتے ہیں اور عموماً آگے کوریا، امریکا، یورپ، آسٹریلیا یا دیگر ممالک میں چلے جاتے ہیں۔ملائیشیا کو بین الاقوامی تعلیم فراہم کرنے کا تین دہائیوں سے زیادہ کا تجربہ ہے اور دنیا بھر میں بین الاقوامی طلبہ کی برادری میں 2 فیصد طالب علم ملائیشیا سے تعلیم حاصل کرنے والے ہوتے ہیں، یہ ملائیشین حکومت کے اس عزم کی آئینہ دار ہے کہ دنیا بھر کے طلبہ کو اعلیٰ درجہ کی تعلیم فراہم کرنے والی منزل کا درجہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
وہ غیر ملکی طلبہ جو بیرون ملک ایسی تعلیم کے خواہاں ہیں جو معیاری بھی ہو اور کم خرچ بھی، ایک ایسی ڈگری چاہتے ہوں ’جو پوری دنیا میں تسلیم کی جاتی ہو‘ ان کے لئے ملائیشیا بہترین ہے۔ بہت سے غیر ملکی طلبہ انگریزی زبان کے ڈگری اور ڈپلومہ پروگراموں سے منسلک ہیں، یہاں پوسٹ گریجوایٹ تعلیم بھی دی جاتی ہے اور اعلیٰ تعلیم کیلئے نجی تعلیمی ادارے بھی قائم ہیں ان میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کے برانچ کیمپسس اور پبلک یونیورسٹیاں بھی ہیں۔بین الاقوامی طلبہ کی طرف سے ملائیشیا کے نظام تعلیم پر اس قدر اعتماد ہے جس کو دیکھتے ہوئے ملائیشیا کی اعلیٰ تعلیم کی وزارت بھی تمام تعلیمی اداروں کی کڑی نگرانی کرتی ہے تاکہ تعلیم کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جاسکے۔
اسی حوالے سے ملائیشیا نے ایجوکیشن ملائیشیا گلوبل سروس (EMGS ) شروع کی ہے جس کا بنیادی مقصد ملائیشیا کو عالمگیر تعلیم کے مرکز کے طور پر پیش کرنا ہے۔ EMGS ملائیشیا میں حصول تعلیم کے لئے درخواست دینے کا سرکاری گیٹ وے ہے اور تمام طلبہ کو اس ذریعے سے آنا ہوگا۔ منتخب فارن سٹوڈنٹس کو 14ورکنگ دنوں میں ویزہ جاری کردیا جاتا۔ امریکا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، برطانیہ اور دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں نے ملائیشیا میں اپنے برانچ کیمپسس بھی قائم کئے ہیں اور مقامی اداروں کے ساتھ ملک میں اپنی برانچ بھی کھولی ہیں۔ ملائیشیا چین، جاپان، ہانگ کانگ اور سنگا پور کے مقابلے میں بھی سستی تعلیم فراہم کررہا ہے۔
ملائیشیا میں سٹوڈنٹس پڑھائی کے دوران کام بھی کرسکتے ہیں۔ ملائیشیا کا امیگریشن پراسیس آسان ہے۔ فارن سٹوڈنٹس کیلئے سٹڈی آپشنز بہت زیادہ ہیں۔ پری یونیورسٹی پروگرامز، ڈگری کورسز، پوسٹ گریجوایٹ پروگرامز میں فارن سٹوڈنٹس کیلئے متعدد سکالر شپس بھی ہیں۔انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی، یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ملائیشیا، یونیورسٹی ملائیشیا اور یونیورسٹی پترا ملائیا کا شمار دنیا کی اہم ترین یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ برطانیہ ، اسٹریلیا اور دیگر ممالک کی کئی اہم یورنیورسٹیوں نے ملائیشیا میں اپنے برانچ کیمپسس بھی قائم کئے ہیں۔ ان میں یونیورسٹی آف نوٹنگھم، موناش یورنیورسٹی اور دیگر شامل ہیں۔
ایجوکیشن کنسلٹنٹ ڈاکٹر محمد یوسف قادری نے ہمیں بتایا کہ ملائیشیا میں ایجوکیشن کی کوالٹی بھی اچھی اور اخراجات بھی معقول ہیں۔ یو کے اور آسٹریلیا کی یونیورسٹیوں نے ملائیشیا میں اپنی برانچ یا کیمپس کھول رکھے ہیں جیسے نوٹنگھم یونیورسٹی کا کیمپس بھی ملائیشیا میں قائم ہے وہاں ایجوکیشن کی کوالٹی وہی ہے لیکن برطانیہ سے آدھی قیمت پر مل رہی ہے۔ ملائیشیا مسلم ملک ہے اس لیے وہاں کلچر کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ رہائش کے اخراجات بھی برطانیہ اور آسٹریلیا اور دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان، ایران، مڈل ایسٹ اور وسط ایشیا اور دیگر ایشیائی ممالک کے سٹوڈنٹس ملائیشیا جارہے ہیں۔
مارکیٹنگ منیجر ایجوکیشن ملائیشیا قونصلیٹ جنرل آف ملائیشیا دوبئی اویس محمد اسلم قاضی کا کہنا ہے ’’میں خود ملائیشیا میں سٹوڈنٹ رہا ہوں، میں وہاں ہیلپ یونیورسٹی میں پڑھتا تھا۔ میرے پاس بہت آپشن تھیں مگر میں نے ملائیشیا کو ترجیح دی۔ یہ تعلیم کے اخراجات کے لحاظ سے بھی بہتر ہے، ماحول بھی اسلامی ہے۔ کھانے پینے کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے اور ایجوکیشن کے معیار کو بھی قائم رکھا ہوا ہے۔ اس سے بچوں کو ملائیشیا گھر جیسا ماحول بھی دیتا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ملائیشیا مسلم دنیا کی سب سے بڑی یونیورسٹی ہے۔اس کا 1ارب ڈالر کا بجٹ ہے۔ اس یونیورسٹی کے 31کیمپس ہیں، ہر ریاست میں اس یونیورسٹی کا کیمپس ہے۔ یونیورسٹی کے 17770ملازمین ہیں ، 500 سے زائد اکیڈمک پروگرام ہیں اور ایک لاکھ 75ہزار سٹوڈنٹس ہیں۔یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی کے تحت 24 کالجز، سیٹلائٹ، سٹیٹ اور سٹی ٹاؤن کیمپس ہیں۔ یونیورسٹی کے 12سٹیٹ کیمپسس ہیں، 11سٹیٹ سیٹلائٹ کیمپس ہیں اور 6نئے برانچ کیمپس کھولے گئے ہیں۔ 21الحاق شدہ کالجز ہیں۔
یونیورسٹی ٹیکنالوجی ملائیشیا کے پاکستان میں یونیورسٹی آف کراچی، نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی(NUST) ، اسلامک یونیورسٹی آف بہاولپور، نیوزی لینڈ، فرانس اور مقامی یونیورسٹیوں کے ساتھ بھی Colloborationہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمٰن انسٹی ٹیوٹ آف نیچرل پراڈکٹس ریکوری یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی 2013ء سے قائم ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ کا ہیڈ ملائیشین ہے جس کے سٹاف میں 6پاکستانی پی ایچ ڈی بھی ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کے تحت 3افرد پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔ اس یونیورسٹی میں سول انجنیئر کی سٹوڈنٹ ثوبیہ انوار قاضی کا کہنا تھا ’’میرے شوہر نے سی اے کیا ہے میں ان کے ساتھ واپس کراچی نہیں آسٹریلیا جانا چاہتی ہوں۔ اکثر پاکستانی سٹوڈنٹس یہاں سے آگے آسٹریلیا چلے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور ڈین بڑے فرینڈلی ہیں۔وہ ہماری دعوت پر ہمارے گھروں میں بھی آتے ہیں۔
وہ زیادہ تر بیرون ممالک سے پڑھے لکھے ہیں اور ان میں بڑی عاجزی ہے۔ یہی ان کی ترقی کا راز ہے۔ پاکستانی انجنیئرز واپس جانے کی بجائے دیگر ممالک میں جارہے ہیں‘‘۔ ملائیشیا کی ترقی میں ڈاکٹر مہاتیر محمد کے ویژن نے اہم کردار ادا کیا۔ ملائیشیا کی یونیورسٹیز میں سٹوڈنٹس کی ایسوسی ایشنز ہیں لیکن کوئی سیاست نہیں ہوتی اور ہڑتالوں کا کلچر نہیں ہے۔ وائس چانسلر یونیورسٹی ٹیکنالوجی پروفیسر ڈاکٹر ساحل حامد ابو بکر سے بھی ہماری ملاقات ہوئی ان کا کہناتھا کہ ہماری یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ، جاپان، کوریا، جرمنی اور دیگر ممالک سے بھی سٹوڈنٹس آتے ہیں۔
کنگ یونیورسٹی کا چانسلر ہوتا ہے اور یونیورسٹی گورنمنٹ گرانٹس سے چلتی ہے۔ سٹوڈنٹس سے بہت کم فیس لیتے ہیں۔ہر شعبے میں میں فارن فیکلٹیزہیں۔ 106بیرون ممالک سے یونیورسٹیوں کے پروفیسرز ہر چھ ماہ بعد آتے ہیںاور کوالٹی کو چیک کرتے ہیں۔ عرب ممالک سے خواتین، سٹوڈنٹس زیادہ آتی ہیں۔ ملائیشیااسلامک فنانسنگ میں رول ماڈل ہے اور تمام اہم یونیورسٹیوں میں اسلامی فنانسنگ بھی پڑھایا جاتا ہے۔ مڈل ایسٹ اور دیگرممالک سے سٹوڈنٹس اس شعبے میں داخلہ لیتے ہیں۔
ہم یونیورسٹی کوالالمپور بھی گئے ۔یونیورسٹی کوالالمپور میں بزنس سکول کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر سلیما ن ساجیلان نے کانفرنس ہال میں یونیورسٹی کے بارے میں بریفنگ دی اس دوران سوال وجواب ہوئے۔ مختلف شعبہ جات کا دورہ بھی کرایا گیا ۔ یونیورسٹی کوالالمپورملائیشیا کی لیڈنگ ٹیکنیکل یونیورسٹی ہے ۔ یونیورسٹی کوالالمپور کے 12 کیمپس ہیں ہم نے صرف سٹی کیمپس کا دورہ کیا ، دیگر گیارہ کیمپس شہر کے باہر ہیں ، تمام فارن سٹوڈنٹس کو یونیورسٹی کی طرف سے اچھی رہائش اور ٹرانسپورٹ فراہم کی جاتی ہے ۔کوالالمپور یونیورسٹی میں اسلامک فنانسنگ بھی پڑھایا جاتا ہے ۔ مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک سے زیادہ سٹوڈنٹس اس شعبے میں داخلہ لیتے ہیں۔ یونیورسٹی کوالالمپور 2002ء میں قائم ہوئی اور یہ دراصل بعض تعلیمی اداروں کا Merger ہے ۔ ایوی ایشن انڈسٹری کی ترقی کیلئے انسٹی ٹیوٹ آف ایوی ایشن ٹیکنالوجی بنایا گیا ہے ۔کوالالمپور یونیورسٹی ملائیشیا کی بڑی یونیورسٹیاں میں شمار کی جاتی ہے ۔
ملائیشین ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں یونیورسٹیوں کی (1-6) تک ریٹنگ ہے جن میں اس یونیورسٹی کی ریٹنگ 5 ہے۔ کسی ملائیشین یونیورسٹی کے پاس ریٹنگ 6 نہیں ہے۔ اس یونیورسٹی سے سندھ اور پشاور کے سٹوڈنٹس نے بھی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ۔اس وقت بھی یونیورسٹی کوالالمپور کے بزنس سکول میں 1 انڈر گریجوایٹ ، 2 ایم بی اے پروگرام اور 7 پی ایچ ڈی پروگرام میں پاکستانی سٹوڈنٹس ہیں۔ کوالالمپور یونیورسٹی میں زیر تعلیم ایک پاکستانی سٹوڈنٹ سکندر نے بتایا کہ اس کے والدین سعودی عرب میں ہیں ، اس کا کہنا تھا کہ اس کا ایک دوست اس یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے جس کی ایڈوائس پر میں نے یونیورسٹی کوالالمپور میں داخلہ لیا ہے۔ ملائیشیا اسلامی ملک ہے اور ہر شعبے میں ترقی کررہا ہے۔ اس یونیورسٹی کافیس سٹرکچر بھی ملائیشیا کی دیگر یونیورسٹیز کے مقابلے میں بہتر ہے۔
مڈل ایسٹ اور دیگر ممالک سے سٹوڈنٹس اس شعبے میں داخلہ لیتے ہیں۔ موناش یونیورسٹی ملائیشیاء 1998ء میں ملائیشین حکومت کی اجازت سے بندارسن وے میں قائم کی گئی ۔موناش یونیورسٹی ملائشیا کا شمار دنیا کی پہلی 150 بہترین یونیورسٹیز میں ہوتا ہے۔ آسٹریلیا میں اس کا شمار ملک کی پہلی بہترین 5 یونیورسٹیز میں ہوتا ہے۔ موناش یونیورسٹی کے آسٹریلیا، ملائیشیا، ساؤتھ افریقہ، چائینا، انڈیا اور اٹلی میں برانچ کیمپسس قائم ہیں۔ اس یونیورسٹی میں آسٹریلوی معیار کی تعلیم دی جاتی ہے جسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ موناش یونیورسٹی ملائیشیا کی طرف سے دی جانے والی ڈگریز کو آسٹریلین اور ملائشین کوالٹی ایشورنس ایجنسیز مانیٹر کرتی ہیں۔ ان کوالٹی ایشورنس کے اداروں میں آسٹریلین یونیورسٹی کوالٹی ایجنسی، ملائیشین کوالیفیکیشن ایجنسی اور دیگر شامل ہیں ۔
یونیورسٹی میں 6000 سٹوڈنٹس ہیں ان میں 70 فیصد ملائیشین اور 30 فیصد فارن سٹوڈنٹس ہیں۔ مجموعی طور پر 69 ممالک کے سٹوڈنٹس ہیں۔ کل 1500 فارن سٹوڈنٹس ہیں ۔ بزنس اینڈ انجینئرنگ سب سے مقبول ڈیپارٹمنٹ ہے ۔ یہاں پاکستان کے 50 سٹوڈنٹس ہیں۔ ایکسچینج پروگرام کیلئے 65 سے 70 فیصد تک رزلٹ دینا ہوتا ہے ۔ سارے لیکچرز ریکارڈ ہوتے ہیں۔ انجینئرنگ اور دیگر شعبہ جات کی فیکلٹیز میں بھی پاکستان اور افغانستان سے سٹوڈنٹس ہیں۔یونیورسٹی آف نوٹنگھم کا شمار دنیا کی ٹاپ ٹین معیاری یونیورسٹیز میں ہوتا ہے اور یہ دنیا بھر کی ایک فیصد اعلیٰ معیاری یونیورسٹیوں کی فہرست میں شامل ہے۔نوٹنگھم یونیورسٹی کا ملائیشیا میں کیمپس 2000ء میں قائم کیا گیا اور یہ بیرون ملک نوٹنگھم یونیورسٹی کا پہلا فارن برانچ کیمپس ہے۔اس وقت ملائیشا کے وزیر تعلیم اور موجودہ وزیراعظم نجیب الرزاق نے اس یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا۔ 1998ء میں وزیراعظم نجیب الرزاق کی دعوت پر یونیورسٹی آف نوٹنگھم ملائیشین کیمپس قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔
نجیب رزاق اس وقت ملائیشیا کے ڈپٹی وزیراعظم اور وزیرتعلیم تھے۔ یہ کسی برطانوی یونیورسٹی کا کسی دوسرے ملک میں پہلا برانچ کیمپس ہے۔ یونیورسٹی آف نوٹنگھم 15 فروری کو 15سالہ قیام کی تقریب منا رہی ہے۔ اس موقع پر کئی پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں۔ 2002ء سے اب تک یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے ملائیشین کیمپس سے دنیا کے 50ممالک کے 4000سٹوڈنٹس گریجوایشن کرچکے ہیں۔ یونیورسٹی آف نوٹنگھم کی طرف سے فراہم کئے گئے اعدادو شمار کے مطابق 2013 ء میں 4774 سٹوڈنٹس تھے جن میں 30فیصد 1437 فارن سٹوڈنٹس تھے ۔اس یونیورسٹی میں پاکستان سے سب سے زیادہ سٹوڈنٹس آتے ہیں ۔برطانیہ میں ٹیوشن فیس کے مقابلے میں ملائیشیا میں آدھی فیس پر اس یونیورسٹی میں داخلہ ہوجاتا ہے۔ یہاں سٹوڈنٹس میں Tolerence Level بھی بہت زیادہ ہے۔
اس یونیورسٹی میں انجینئرنگ پہلے ، سائنس دوسرے اور سوشل سائنسز تیسرے نمبر پر ہیں ۔ 580سٹاف ممبران ہیں جن میں 30 ممالک سے 250 افراد بھی شامل ہیں۔ یونیورسٹی کی فری شٹل بس سروس بھی ہے۔ یہ سروس یونیورسٹی سے ریلوے اسٹیشن، سپر مارکیٹ، نماز جمعہ کی ادائیگی کیلئے جامع مسجد اور سٹوڈنٹس کے رہائشی ایریا تک چلائی جاتی ہے۔ طلباء موبلٹی پروگرام کے تحت یوکے اور دیگر ممالک میں بھی جاسکتے ہیں۔ یونیورسٹی کے ساتھ سپورٹس کمپلیکس بھی ہے۔ سوئمنگ پول، ٹینس کورٹس، باسکٹ بال کورٹس، ملٹی پل ہال، جم، ہاکی، فٹ بال اور دیگر گراؤنڈز ہیں۔ کیمپس میں دو ریسرچ سنٹرز بھی ہیں۔ یونیورسٹی میں سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن بھی ہے جس میں تمام سٹوڈنٹس کی نمائندگی ہوتی ہے۔یونیورسٹی آف نوٹنگھم کوالالمپور انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے قریب واقع ہے۔
نوٹنگھم یونیورسٹی بزنس سکول نے انٹرنیشنل لیول پر بزنس ایڈمنسٹریشن پروگرام میں اپنی رینکنگ کو بہتر بنایا اور اکا نومسٹ 2014ء کی فل ٹائم ایم بی اے لسٹ میں سو بہترین بزنس سکول میں شامل ہوا ہے۔ بزنس سکول انٹر نیشنل رینکنگ میں 70ویں جبکہ یوکے میں ٹاپ ٹٰین میں شامل ہے۔ یوکے کے صرف 15بزنس سکول ا کانومسٹ کی لسٹ میں شامل ہیں اور نوٹنگھم بزنس سکول ان چار میں شامل ہے جنہوں نے اپنی گزشتہ سال رینکنگ کو بہتر کیا ہے۔
ہم نے مینجمنٹ اینڈ سائنس یونیورسٹی ملائیشیا کا بھی دورہ کیا۔ یونیورسٹی کے وائس پریذیڈنٹ واتو یوسف نے بریفنگ دی اور مختلف شعبہ جات دکھائے۔ اس یونیورسٹی میں میڈیسن ہیلتھ اینڈ لائف سائنسز، بزنس مینجمنٹ ، پروفیشنل سٹڈیز، انفارمیشن سائنس اور انجینئرنگ کے شعبے پڑھائے جاتے ہیں۔ یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ سائنس کے آسیان، جاپان، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکا، برطانیہ، انڈیا، ایسٹرن یورپ، ساؤتھ افریقہ اور انڈونیشیا کی 40یونیورسٹیز کے ساتھ سٹوڈنٹس ایکسچینج پروگرام بھی چل رہے ہیں۔ مینجمنٹ اینڈ سائنس یونیورسٹی کے مختلف شہروں میں 10کالجز بھی ہیں ۔ 37ممالک سے 400 سٹوڈنٹس ہیں جن کی تعداد بڑھ رہی ہے۔
طالب علم پڑھائی کے دوران کمیونٹی پروگرام میںبھی حصہ لیتے ہیں ، اپنا ہسپتال بھی بنا رہے ہیں جو 2016ء میں مکمل ہوجائے گا۔ یونیورسٹی ریٹنگ ایم کیو اے ایجنسی کے تحت Excellent میں آتی ہے ۔ انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی ملائیشیا بورڈ آف گورنرز کے تحت کام کرتی ہے اور یہاں گورنمنٹ کے نمائندے شامل ہیں۔ بنگلہ دیش، مصر، لیبیا، مالدیپ، پاکستان،سعودی عرب اور ترکی کے سفیر بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں شریک ہوتے ہیں۔ 1982ء میں ڈاکٹر مہاتیر محمد نے یہ آئیڈیا OIC کے اجلاس میں دیا تھا۔23مئی 1983ء کو یہ باقاعدہ قائم ہوئی۔ CEMPAKA SCHOOLS MALAYSIA کے سربراہ داتو فریدہ کی دعوت پر ان کے ادارے میں گئے۔
یہاں بچیوں کو معیاری تعلیم دی جاتی ہے۔ یہ بورڈنگ اسکول ہے اور اس ادارے میں پرائمری سے سیکنڈری تک پڑھایا جاتا ہے۔یہاں ہمارے وفد کے اعزاز میں خصوصی تقریب اور ظہرانے کا اہتمام بھی کیا گیا اس دوران سکول کی بچیوں نے ملائیشیا کا قومی ترانہ اور نغمے بھی پیش کئے ۔وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد ڈاکٹر اقرار احمد خان کا کہنا ہے کہ ’’ملائیشیا میں تعلیمی انقلاب آیاہے۔یونیورسٹی آف پتراملایا کے فاونڈر وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے فارغ التحصیل ہیں اور اس وقت بھی یونیورسٹی آف پتراملایا کے تین شعبہ جات کے ڈین زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے سابقہ طالب علم ہیں۔
یونیورسٹی میں فوڈ انجینئرنگ کا ڈگری پروگرام زرعی یونیورسٹی فیصل آباد اور یونیورسٹی پترا ملایا کا مشترکہ ڈگری پروگرام ہے ‘‘۔مختصر یہ کہ آج ملائیشیا اگر دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتوں میں سے ایک ہے اور جس کی ترقی و خوشحالی دوسرے ’’ہم عصر‘‘ ممالک میں ایک مثالی درجہ حاصل کرچکی ہے تو یقینی طورپر کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس کے بہترین تعلیمی نظام ہی کی مرہون منت ہے ۔ جدید ملائیشیا کے معمار ڈاکٹر مہاتیر محمد سے لے کر موجودہ وزیر اعظم نجیب رزاق تک اس کی قیادت نے اپنی پالیسیوں اور اپنے عملی اقدامات سے یہ ثابت کردیاہے کہ اگر نیت صاف ،ارادے نیک اور عزم پختہ ہوتو آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے میں کوئی چیز بھی حائل نہیں ہوسکتی ۔