’’انسان کی فطرت شر ہے،وہ ارادتاً اور قصداً نیکی کرتا ہے۔‘‘(چینی کنفیوشسی فلسفی،شونزی)
٭٭
راقم ایک زمانے میں بہ سلسلہ تعلیم سڈنی‘ آسٹریلیا تقریباً دو سال مقیم رہا ۔ چونکہ محض اپنے پیروں پر کھڑا تھا‘ سو تعلیمی و روزمرہ اخراجات پورے کرنے کی خاطر مختلف جزوقتی ملازمتیں بھی کرتا رہا۔ اس دوران گورے آسٹریلویوں کی نفسیات جاننے کا بھرپور موقع ملا۔
تجربات نے راقم کو بتایا کہ بیشتر تعلیم یافتہ آسٹریلوی مذہبی و نسلی تعصب سے پاک ہوتے اور اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ مگر نیم تعلیم یافتہ طبقے میں شامل اکثرمغربی مثلا ڈرائیور‘ دکان دار‘ قصائی‘ مالی‘ ترکھان ‘ مزدور‘ فیکٹری ورکر وغیرہ مسلمانوں سے خاصا بغض رکھتے۔ ان کے دل و دماغ میں یہ نظریہ راسخ ہو چکا تھا کہ مسلمان اُجڈ‘ وحشی‘ جاہل اور فراڈیئے ہیں۔ چنانچہ وہ عموماً مسلمانوں کے ساتھ ترش روئی سے پیش آتے ۔ حتیٰ کہ انہیں کسی قسم کا نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہ کرتے۔
راقم 1991-90ء کی بات کر رہا ہے جب مغرب اور القاعدہ کا باقاعدہ تصادم شروع نہیں ہوا تھا۔ پھر بھی مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں سے ناپسندیدگی و نفرت کے ملے جلے جذبات پائے جاتے تھے۔ گو مغربیوں کی اکثریت کمیونسٹوں پر برستی جو تب سوویت یونین کی زیر قیادت مغرب سے نبرد آزما تھے۔ جلد سوویت یونین منہدم ہوا اورمشرقی یورپ پر چھائے کمیونسٹ بادل چھٹ گئے۔ ساتھ ہی یہ نیا عجوبہ نمودار ہوا کہ القاعدہ مغربی استعمار سے ٹکرا گئی۔ یہ ٹکراؤ پھر بڑھتا چلا گیا اور اس کا نقطہ عروج واقعہ 9/11 کی صورت سامنے آیا۔
یہ یاد رہے کہ مسلمانوں اور مغربیوں کا ٹکراؤ نیا سلسلہ نہیں‘ اس کی بنیاد چودہ سو برس قبل رکھی گئی تھی۔ ہوا یہ کہ 8 ہجری (629ء) میں نبی کریم ﷺ نے ایک صحابی‘ حضرت حارثؓ بن عمیر کے ہاتھ شام کے والی کو ایک خط بھجوایا جس میں اسے دعوتِ اسلام دی گئی تھی۔
راستے میں انہیں اردن کے عیسائی غسانی حکمران، شراجیل بن عمرو نے شہید کر دیا۔ اس زمانے میں بھی ایلچی کو قتل کرنا نہایت قبیح اور ظالمانہ اقدام سمجھا جاتا تھا۔یہ صرف اس لیے انجام پایا کہ شراجیل پر طاقت و برتری کا بھوت سوار تھا۔ اسے یہ زعم تھا کہ تب کی سپر پاور‘ بازنطینی سلطنت کا بادشاہ اس کا سرپرست ہے۔
نبی کریمﷺ نے گھمنڈی غسانی بادشاہ کو سبق سکھانے کے لیے حضرت زیدؓ بن حارثہ کی قیادت میں اسلامی لشکر روانہ فرمایا۔ یوں اگست 629ء میں ’’سریہ موتہ‘‘ انجام پایا۔ مورخین لکھتے ہیں کہ اس جنگ میں بازنطینی بادشاہ ہرقل کا چھوٹا بھائی‘ تھیوڈور بھی اپنی فوج کے ساتھ شریک تھا۔ اس طرح اسلام اور مغرب کے تصادم کا آغاز ہوا جو بڑھتا چلا گیا۔صلیبی جنگیں بھی اسی تصادم کا حصہ ہیں۔
دور جدید میں مغرب اور اسلام کے ٹکراؤ نے کئی وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔ پہلی وجہ یورپی حکمرانوں کی شدت پسندی اور منتقم مزاجی ہے۔سولہویں صدی کے بعد عسکری و معاشی طور پہ طاقتور ہو کر ہسپانوی‘ ولندیزی‘ برطانوی‘ فرانسیسی‘ اطالوی‘ پرتگالی‘ روسی اور حال ہی میں امریکی حکمران طبقے نے مختلف اسلامی ممالک پر قبضہ کر کے وہاں مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے اور جس طرح ان ملکوں کے قومی وسائل کو لوٹا‘ وہ انسانی تاریخ کا اہم سیاہ باب ہے۔یورپی استعمار کے خلاف ہندوستان سمیت کئی اسلامی ممالک میں خصوصاً علمائے کرام نے جہاد کیا اور مسلم تہذیب وتمدن کو محفوظ رکھا۔
بیسویں صدی میں بوجوہ مغربی طاقتوں کو اسلامی ممالک سے نکلنا پڑا‘ لیکن پیچھے وہ اپنے کٹھ پتلی حکمران طبقے چھوڑ گئے۔ اسی لیے آج بھی سابقہ نو آبادیاتی آقا کئی اسلامی ممالک میں بہت اثر و نفوذ رکھتے ہیں۔ نوآزاد مسلم ملکوں میں کٹھ پتلی حکمران بیشتر وسائل پر قابض ہو گئے اور آزادی کے ثمرات سے عوام کو خاص فائدہ نہیں پہنچا۔ چنانچہ عام لوگ تعلیم و تربیت پا کر اچھے مستقبل کی چاہ میں مغرب کا رخ کرنے لگے جہاں مختلف کام کرنے کی خاطر افرادی قوت درکار تھی۔
اسی لیے بیسویں صدی میں لاکھوں مسلمان فرانس‘ برطانیہ‘ امریکا‘ جرمنی‘ اٹلی‘ ہالینڈ‘ اسپین‘ آسٹریلیا‘ سوئٹزر لینڈ‘ سویڈن‘ آسٹریا‘ ڈنمارک اور ناروے پہنچے اور وہاں مقیم ہو گئے۔مغرب میں مقیم ہونے والے جن مسلمانوں نے روزمرہ زندگی میں اسلامی روایات کو برقرار رکھا‘ انہیں جاہل و متعصب مغربیوں کے طنزو تشنیع کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم بیشتر مغربی معاشروں میں نفرت و شر سے بھرے ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔
اسی واسطے مسلمان مغربی ممالک میں خوب پھلے پھولے لیکن بعض مغربی ممالک مثلاً برطانیہ‘ جرمنی اور فرانس میںجب مسلمانوں کی تعداد اچھی خاصی بڑھ گئی‘ تو مسلم مخالفت کی نئی شکل سامنے آئی۔ وہ یہ کہ کئی مغربی رہنما کہنے لگے‘ مسلمان (اور دیگر غیر مسلم مہاجر) ہمارے نوجوانوں سے ملازمتیں چھین کر انہیں بے روز گاری کی دلدل میں دھکیل رہے ہیں۔ لہذا مسلمانوں وغیرہ کی آمد پر پابندی لگائی جائے۔
بعض مغربی رہنماؤں کو اپنے ممالک میں مقیم مسلمانوں پر ایک اور اعتراض بھی تھا۔ وہ یہ کہ بیشتر مسلمان اسلامی روایات و اقدار ترک نہیں کرتے۔ وہ مغربی روایات و اقدار اپنانے کے بجائے اپنی مذہبی و ملکی رسوم و رواج پر کاربند رہتے ہیں۔ ایسے مسلمانوں کو متعصب مغربی رہنما ’’غیر ملکی‘ ‘ کہنے لگے۔مغرب میں ان مسلمانوں کو شک واستہزا کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
درج بالا وہ بڑی وجوہ تھیں جن کی بنا پر 2000 ء سے قبل مغربی ممالک میں مسلمانوں کو تعصب کا نشانہ بننا پڑا۔ واقعہ 9/11 کے بعد اس مخالفت میں خوف و دہشت کا عنصر بھی شامل ہو گیا۔ گویا اب مسلمانوں اور اسلام کو مغربی تہذیب و تمدن کے لیے خطرہ سمجھا جانے لگا۔ پچھلے چودہ برس کے دوران بوجوہ یہ نظریہ ماند نہیں پڑا بلکہ جڑ پکڑ چکا۔ وجہ یہ کہ جب بھی اسلام اور مغرب کے مابین مفاہمت کا ماحول جنم لے،کوئی نہ کوئی سنگین واقعہ پھر فضا مکّدر کر دیتا ہے۔ بعض حلقوں کا دعوی ہے،مغربی حکومتیں اپنے مفادات کی خاطر خود دہشت گردی کے جعلی واقعات کراتی ہیں تاکہ عام لوگ بدستور مسلمانوں سے خوف کھائیں اور ان سے نفرت کرتے رہیں۔
حقیقتاً دور ِجدید میں اس تصادم کی بنیاد مغربی حکمرانوں کی سازشوں‘ مظالم اور ناانصافیوں نے رکھی۔ 1900ء میں جب فلپائنی مسلمان جدوجہد آزادی میں محو تھے‘ تو امریکی فوج ان پر ٹوٹ پڑی۔ آج بھی فلپائنی مسلمان کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
1918ء میں وسطی ایشیا کی اسلامی ریاستوں نے آزاد ہونا چاہا‘ تو روسیوں نے وہاں مظالم ڈھائے اور بہ جبر دوبارہ قبضہ کر لیا۔ بعدازاں برطانوی سرپرستی میں یہود جوق در جوق فلسطین پہنچے اور ناجائز ہتھکنڈے اپنا کر اس کے حاکم بن بیٹھے۔ آج اسرائیلی عالمی طاقتوں کی حمایت پا کر کھلے عام فلسطینیوں پر بھیانک ظلم ڈھاتے ہیں اور کوئی انہیں روکنے کی جرأت نہیں کر پاتا۔
1947ء میں انگریزوں ہی کی سازشوں کے باعث بھارت نے ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا‘ حالانکہ وہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان تھی۔ اب پچھلے کئی برس سے کشمیری مسلمان نیم غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اور بھارت عالمی طاقتوں کی شہہ پا کر کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔
بیسویں صدی کے اواخر میں چیچنیا‘ بوسنیا و ہرگزووینیا‘ پٹانی (تھائی لینڈ)‘ اراکان (برما) اور داغستان میں آزادی کی تحریکیں چلیں‘ مگر انھیں بزور ختم کر دیا گیا۔ غرض پچھلے ایک سو برس میں غاصبوں سے لڑتے ہوئے لاکھوں مسلمان شہید ہو گئے‘ مگر انہیں آزادی کی نعمت نصیب نہ ہو سکی۔
دوسری طرف عالمی طاقتوں کے دباؤ پہ انڈونیشیا ’’مشرقی تیمور‘‘ کو آزاد کرنے پر مجبور ہو گیا۔ اسی طرح عالمی طاقتوں نے زبردستی اسلامی ملک، سوڈان کے دو ٹکڑے کر دیئے۔ مگر کشمیر، فلسطین، اراکان، فلپائن اور بوسنیا کے لاکھوں مسلمان بدستور ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اسی ظلم و ستم و ناانصافی کا مسلح مقابلہ کرنے کے لیے القاعدہ اور نوجوان اسلامیوں کی دیگر جہادی تنظیمیں وجود میں آئیں۔ جب مغربی طاقتوں کی ایما پر بعض اسلامی حکومتوں نے ان پر کریک ڈاؤن کیا‘ تو تنظیمیں ان کی بھی مخالف بن گئیں اور انھیں مغرب کی پٹھو قرار دیا۔ اسی باعث کچھ مسلم ممالک بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں آئے ہوئے ہیں۔
بیسویں صدی میں مغرب کی عسکری یلغار کے علاوہ مغربی تہذیب و تمدن اور اس کے بغل بچوں مثلاً مادہ پرستی‘ لادینیت‘ مادر پدر آزادی‘ بالی وڈ فلمیں‘ گن کلچر وغیرہ نے بھی عالم اسلام پر دھاوا بول دیا۔ فی الوقت ان مغربی حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے عالم اسلام میں دو بنیادی رجحان جنم لے چکے۔
اول یہ کہ پُرامن جدوجہد ‘ عفو درگزر اور محبت و نرمی سے مغرب کا مقابلہ کیا جائے۔ دوسرا رجحان یہ ہے کہ مغرب کو منہ توڑ اور شدت سے جواب ملنا چاہیے ۔ مغرب آخر الذکر رجحان کے حامل مسلمانوں کو انتہا پسند،شدت پسند،دہشت گرد وغیرہ کہتا ہے۔ یہ دونوں رجحان اپنانے والے راہنما‘ گروہ‘ تنظیمیں اور افراد اپنے اپنے نقطہ نظر کی حمایت میں مختلف دلائل پیش کرتے ہیں۔ مثلاً مسلح جدوجہد حامی مسلمانوں کا کہنا ہے کہ کشمیر و فلسطین صرف جنگ ہی سے آزاد ہوں گے۔ جبکہ ان کے مخالف ووٹ کی طاقت سے منزلِ مراد تک پہنچنا چاہتے ہیں۔
اسلام سے خوفزدہ مغربی رہنما
ایک اہم سوال یہ ہے کہ آج مغرب میں اسلاموفوبیا (اسلام سے خوف) کا شکار مغربی رہنما ہمارے مذہب اور مسلمانوں کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔ ان کی نظریات اور ذہنیت نمایاں ہونا ضروری ہے تاکہ ہم جان سکیں‘ مغربی معاشروں میں کس قسم کی اسلام مخالف کھچڑی پک رہی ہے۔
یورپ میں فرانس وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ مسلمان ( 60 لاکھ) آباد ہیں۔ مارین لوپن وہاں مسلم مخالف قدامت پسند جماعت’’نیشنل فرنٹ‘‘ کی سربراہ ہے۔ اس نے 2010ء میں بیان دیا تھا :’’جب مسلمان گلیوں اور سڑکوں پر عبادت کریں‘ تو مجھے لگتا ہے‘ نازی جرمن دوبارہ فرانس پر قبضہ کر چکے۔‘‘ مارین لوپن اکثر اسلام اور مسلمانوں پر حملے کرتی ہے۔ اس کا ایک دیرینہ مطالبہ یہ رہا کہ برقع پر پابندی لگا دی جائے ۔نیز وہ چاہتی ہے کہ مسلمان مہاجروں کی آمد پر بھی پابندی لگ جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے، مارین کی اشتعال انگیز تقاریر سے فرانس میں اسلاموفوبیا بڑھا اور مذہبی و لسانی فسادات ہونے لگے۔
جرمنی میں بھی مسلمانوں کی اچھی خاصی آبادی ہے۔ اور وہاں قدامت پسند تنظیمیںوقتاً فوقتاًمسلمانوں اور اسلام کے خلاف مظاہرے کرتی رہتی ہیں۔ ان میں نیا اضافہ ’’پیگیدا‘‘ (Pegida) نامی تنظیم ہے۔اسی کے زیراہتمام حال ہی میں مختلف جرمن شہروں میں اسلام مخالف مظاہرے ہوئے۔ اس کا سربراہ ،لٹنرباخمان سابقہ چور‘ شرابی اور نشئی ہے۔یہ تنظیم جرمنی میں پھلتے پھولتے اسلام سے خائف ہے۔ چنانچہ چاہتی ہے کہ جرمنی حکومت اسلامی سرگرمیوں پر پابندیاں عائد کرے اور مسلمانوں کو جرمنی آنے سے روکے۔
جرمن ماہرین سیاسیات کی رو سے پیگیدا کا جنم ایک عجوبہ ہے۔ وجہ یہ کہ جرمنی معاشی بحران کا شکار نہیں اور تنظیم جس شہر (ڈریسڈن) میں سامنے آئی‘ وہاں مسلمانوں کی بہت تھوڑی تعداد بستی ہے۔ جرمن ماہرین عمرانیات کے مطابق یورپ میں اسلام دشمنی کی حالیہ لہر درج ذیل وجہ سے بھی پیدا ہوئی:
’’اب انٹرنیٹ اور ٹی وی کی وجہ سے ہر خبر بہ سرعت پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے ۔ مشرق وسطی میں خصوصاً داعش نے اپنے ہم مذہبوں اور غیر مسلموں کے ساتھ جو لرزہ خیز اور خوفناک سلوک کیا‘ اس کی تصاویر سبھی یورپیوں نے دیکھیں۔ انہوں نے ایسے یورپیوں کو بھی خوفزدہ کر دیا جن کے علاقوں میں تھوڑے بہت مسلمان آباد ہیں۔ یہ یورپی سمجھتے ہیں کہ متشدد مسلمان ان پر حملہ آور ہو چکے۔‘‘
ایک جرمن ماہر عمرانیات‘ ہربرٹ شلر کہتا ہے:’’یہ خوف دراصل اجنبیت کی پیداوار ہے۔ جب انسان ایک دوسرے سے لاتعلق رہیں‘ آپس میں میل ملاپ نہ رکھیں‘ توان میں قدرتاً غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔ مثال کے طور پر سوئٹزر لینڈ میں مساجد کے مینار (بنانے یا نہ بنانے پہ) ریفرنڈم ہوا۔ خصوصاً دیہات میں رہنے والے ہزارہا سوئس ان میناروں کی غرض و غایت اور اہمیت سے ناواقف تھے۔ چنانچہ انہوں نے مینار بنانے کی مخالفت کر دی۔‘‘
اسلام مخالف یورپی رہنماؤں میں ہالینڈ کا خیرت ویلدرس (Geert Wilders) بہت نمایاں ہے۔ یہ ولندیزی پارلیمنٹ میں چوتھی بڑی سیاسی جماعت’’پارٹی فارفریڈم‘‘ کا بانی و سربراہ ہے۔یہ اٹھتے بیٹھتے اسلام کے خلاف زہر اگلتا اور مغربی باشندوں کو اس مذہب سے خوفزدہ کرتا ہے۔ موصوف ہماری مذہبی کتاب کو (نعوذباللہ) ہٹلر کی آپ بیتی (مین کیمف) سے تشبیہ دیتا اور چاہتا ہے کہ یورپ میں اس پر پابندی لگ جائے۔ اسلامی ممالک سے مسلمانوں کی آمد اور مساجد کی تعمیر بھی روکنا چاہتا ہے۔ جب پیرس کے اخبار پر حالیہ حملہ ہوا، تو خیرت ویلدرس نے بیان دیا:
’’میرا کہا سچ ثابت ہوا کہ اسلام مغرب پر حملہ آور ہے۔ چناں چہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ یورپی معاشروں کو اسلام اور مسلمانوں سے پاک کردیا جائے۔ ہمیں چاہیے کہ مسلمانوں پر اپنی سرحدیں بند کردیں۔ انتہا پسند مسلمانوں کو اپنے ملکوں سے نکال باہر کریں۔‘‘
اب ذرا سویڈن کی قدامت پسند پارٹی، سویڈن ڈیموکریٹس کے سربراہ، جیمی ایکسن کی باتیں سنیں۔ یہ پارٹی بھی مہاجروں خصوصاً مسلمانوں اور اسلام کی مخالفت میں پیش پیش ہے۔ جیمی ایکسن نے اگست 2014ء میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’موجودہ دور میں اسلام نازی مت اور کمیونزم کی حیثیت اختیار کرچکا۔ میری حکومت سے اپیل ہے کہ ہر اسلامی تنظیم کی امداد بند کی جائے اور جو سویڈش مسلمان شام اور عراق جاکر داعش سے مل گئے ہیں ،وہ واپس نہ آئیں۔ یہ ملک عیسائی اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔‘‘
یورپی ممالک میں اسلامو فوبیا کسی نہ کسی شکل میں موجود تھا، اب وہ آسٹریلیا بھی جاپہنچا ۔ اس کی باقاعدہ شکل دسمبر 2014ء کے بعد سامنے آئی جب ایک شدت پسند مسلمان نے سڈنی کیفے میں کئی مردوزن کو یرغمال بنالیا۔ بعدازاں مقابلے میں شدت پسند سمیت تین افراد مارے گئے۔ اس موقع پر آسٹریلوی پارلیمنٹ کی رکن، سینیٹر جیکوئی لیمبی (Jacqui Lambie) نے اسلام اوردہشت گردی کو ہم مترادف قرار دیا۔ لیمبی نے دعویٰ کیا کہ مسلمان مرد خواتین کو اپنا محکوم بنانا چاہتے ہیں۔ اسی لیے خواتین کو برقع میں قید رکھا جاتا ہے۔
درج بالا حقائق سے عیاں ہے کہ دنیائے مغرب میں مقیم تقریباً پانچ کروڑ مسلمانوں میں سے جو اسلامی روایات و اقدار پر عمل کرتے ہیں، انہیں آسٹریلیا سے لے کر امریکا اور ارجنٹائن تک کئی مسائل کا سامنا ہے۔ انہیں راہ چلتے طنز کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔روزہ مرہ کاموں کے دوران ان سے حقارت آمیز سلوک ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ انتہا پسند مغربی محض اس لیے ان پر حملہ کردیتے ہیں کہ وہ اسلامی لباس میں ملبوس ہیں۔
تشویش و پریشانی کی بات یہ ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر مغربی ممالک میں اسلامو فوبیا بڑھ رہا ہے۔ اس بڑھوتری سے مغربی ممالک میں ان قدامت پسند اور انتہا پسند سیاسی و مذہبی جماعتوں کی مقبولیت بڑھے گی جو اپنے معاشروں میں اسلام اور مسلمانوں کا پھیلاؤ محدود یا ختم کرنا چاہتی ہیں۔ لیکن اسلام مخالف اقدامات سے ان مغربی ممالک میں مسلمانوں اور مغربیوں کے مابین تصادم جنم لے گا جہاں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں جیسے امریکا، برطانیہ، جرمنی، فرانس، اسپین، یونان، کینیڈا، آسٹریا، سویڈن وغیرہ۔ یہ صورت حال ان ممالک میں مزید بے چینی و ابتری پیدا کرسکتی ہے۔
مغربی ممالک میں مصروف کار انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں اپنی حکومتوں پر زور دے رہی ہیں کہ وہ مذہبی و سیاسی انتہا پسندی کی روک تھام کریں۔ اگر نفرت اور تعصب کو روکنے کے اقدامات نہ کیے گئے، تو انتہا پسند صورت حال سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ وہ تو مختلف مذاہب اور اقوام کے مابین جنگ و جدل ہی سے پھلتے پھولتے ہیں۔
عالم اسلام میں مفکرین، دانش وروں اور علمائے کرام کو یہ دیکھنا ہوگا کہ جو اسلامی تنظیمیں بندوق کے ذریعے مغربی استعمار کا مقابلہ کرنا چاہتی ہیں، انہوں نے اسلام اور اُمت کو فائدہ پہنچایا یا وہ نقصان زیادہ پہنچا رہی ہیں؟ اگر جواب اثبات میں نکلتا ہے تو یقیناً مغربی استعمار سے مقابلے کی حکمت عملی تبدیل کرنا ہوگی۔ پُر امن جدوجہد اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق عفو و درگزرکی پالیسی زیادہ جلد برگ و بار لا سکتی ہے۔
بیٹ نے دہشت گرد بنا دیا
اہل مغرب مسلمانوں سے اتنے زیادہ خوفزدہ ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی کھو بیٹھے۔حتیٰ کہ اب وہ بے گناہ مسلمانوں کو ’’دہشت گرد‘‘بنانے لگے ہیں۔ایک ایسا ہی واقعہ نومبر 2014ء میں بیلجیم میں ایک پاکستانی خاندان کے ساتھ پیش آیا۔
محمد طفیل عباسی برسلز میں واقع پاکستانی سفارت خانے کے ملازم ہیں۔ان کے بیٹے کرکٹ کھیلنے کے شوقین تھے۔ ایک دن 22 سالہ بیٹا عاصم عباسی بلّا لیے گھر سے نکلا،تو بارش جاری تھی۔اس نے پانی سے بچانے کی خاطر بلاّ قمیص میں چھپا لیا۔نوجوان کی بدقسمتی کہ ایک اسرائیلی سفارت کار کی نظر اس پہ پڑ گئی۔
وہ درحقیقت موساد کا ایجنٹ تھا۔دور سے یہی لگتا کہ ڈاڑھی والا مسلمان رائفل چھپائے لے جا رہا ہے۔ اس نے خفیہ کیمرے سے عاصم کی تصویر اتار لی۔بعد ازاں وہ بیلجیم کے مشہور اخبار،La Dernière Heure میں شائع ہوئی۔خبر کا عنوان تھا:’’شہر میں کُھلا پھرتا ایک یہود دشمن!‘‘
خبر نے انکشاف کیا کہ برسلز پولیس ایک مسلح مسلمان کو سرگرمی سے تلاش کر رہی ہے جو یہودی اسکول یا عبادت خانے پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔اُدھر عاصم عباسی اخبار میں چھپی اپنی تصویر دیکھ کر حیران پریشان ہو گیا۔اس نے پولیس سے رابطہ کر کے بتایا کہ وہ اسلحہ نہیں بیٹ لیے جا رہا تھا۔ مگر اسی دوران پاکستان کو بدنام کرنے کے ’’جرم ‘‘میں پاکستانی حکومت نے محمد طفیل عباسی کو خاندان سمیت واپس بلوانے کا حکم دے دیا۔یوں ایک عجب غلط فہمی نے ان کی دنیا ہی الٹ پلٹ کر ڈالی۔
بے حسی کی حد ہے کہ بیلجیمی اخبار اور حکومت بیلجیم،دونوں نے اس غلط فہمی پہ عاصم او ر عباسی خاندان سے معذرت نہیں کی جنھیں بیٹھے بٹھائے محض اسرائیلی سفارت خانے کے شک پہ دہشت گرد بنا دیا گیا۔
استسشراق کے بھیس میں سازش
انتقامی، معاشی اور مذہبی وجوہ کے علاوہ دنیائے مغرب میں اسلام کی مخالفت کا ایک بہت بڑا سبب یہ ہے کہ عوام و خواص کی اکثریت اس مذہب سے واقف نہیں۔ وہ اسے جارح، اپنے نظریات انسان پر تھوپنے والا اور دقیانوسی قوانین کا مرکب مذہب سمجھتے ہیں۔ ان میں نبی کریم ﷺ کے متعلق (نعوذ باللہ) بہت سی غلط باتیں بھی مشہور ہیں۔
اسلام ،حضور اکرمؐﷺ اور مسلمانوں سے متعلق غلط فہمیوں کا منبع مختلف مغربی مصنفین کی لکھی کتب ہیں۔ یہ کتب لکھنے کا سلسلہ آخری صلیبی جنگ (1291ء) کے بعد شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ یہ کتب اس باقاعدہ منصوبے کے تحت لکھی گئیں کہ اسلام اور نبی کریمؐ پر زیادہ سے زیادہ تہمتیں لگائی جائیں۔ 1800ء کے بعد تو دنیائے مغرب میں اسلام کے مطالعے نے ایک فن کی صورت اختیار کرلی جو شرق شناسی (Orientalism) یا استسشراق کہلاتا ہے ۔ اس فن کے ماہرین ’’مستشرق‘‘ کہلاتے ہیں۔
ایڈورڈ سعید دنیائے مغرب کا ممتاز مستشرق گزرا ہے۔ اس نے 1978ء میں ’’اورینٹل ازم‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس میں وہ لکھتا ہے کہ 1800ء سے 1978ء تک دنیائے مغرب میں مغربی مصنفین نے اسلام اور حضور اکرمﷺؐ سے متعلق ’’ساٹھ ہزار‘‘ کتب تحریر کیں ۔ 1300ء تا 1800ء میں لکھی جانے والی کتابوں کو بھی شمار کیا جائے تو ان کی تعداد تقریباً ایک لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔‘‘
ان ایک لاکھ کتب میں چند کو چھوڑ کر سبھی میں اسلام کے خلاف اشتعال انگیز مواد، بے سروپا واقعات اور غلط فہمیاں پیدا کرنے والی باتیں موجود ہیں۔ انہی کتب کی وجہ سے مغربی معاشروں میں ہمارے مذہب، پیغمبرﷺ اور مسلمانوں کے خلاف نفرت و عناد نے جنم لیا اور کئی مغالطے سامنے آئے۔ ان مغالطوں میں اہم یہ ہیں: مسلمان جنگجو اور فسادی ہیں، عورتوں کو قید کرکے رکھتے ہیں، غیر مسلموں کو مار ڈالتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی نہیں مانتے، بذریعہ جبر وتشدد اپنا مذہب پھیلانا چاہتے ہیں۔
ہم اور آپ جانتے ہیں کہ درج بالا سبھی الزام بے حقیقت اور غلط ہیں، مگر عام مغربی کو یہ بات کون سمجھائے؟ دوسری طرف مغربی میڈیا مسلسل اسلام اور دہشت گردی کو ہم مترادف قرار دیتا ہے۔ چارلی ابدو جیسا کوئی بھی واقعہ جنم لے، مغربی میڈیا سبھی مسلمانوں کو انتہا پسند اور فسادی قرار دیتا اور اسلام پر لعن طعن شروع کردیتا ہے۔ دور جدید میں دنیائے مغرب اور مسلمانوں کے مابین اختلافات و مغالطے پھیلانے میں مغربی میڈیا پیش پیش بلکہ فساد کی جڑ ہے۔
یہ امر فرانسیسی رسالے، چارلی ابدو کی مثال سے عیاں ہے۔ اس نے حملوں سے سبق سیکھنے کے بجائے مسلمانوں کی دل آزاری کرنا اپنا شعار بنالیا اور اسے آزادی رائے قرار دیا۔دوسری طرف مغربی میڈیا مغرب میں سرگرم عمل انتہا پسند عیسائی تنظیموں کے متعلق بہت کم مواد دیتا ہے جو مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔
دلچسپ بات یہ کہ دنیائے مغرب میں متنازع بن جانے کے باوجوداسلام وہاں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا مذہب ہے۔ 2011ء میں امریکی تنظیم، پیو ریسرچ سینٹر نے تحقیق کے بعد انکشاف کیا تھا کہ 2030ء تک کئی مغربی ممالک میں مسلم آبادی دگنی ہوجائے گی۔ اسلام کی روزافزوں مقبولیت اور مسلمانوں کی بڑھتی تعداد بھی قدامت پسند مغربی رہنماؤں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔یہ یورپ کا دوسرا بڑا مذہب تو بن ہی چکا۔
مغربی قدامت پسند جماعتیں مسلمانوں پر یہ الزام بھی لگاتی ہیں کہ وہ اس لیے اسلامی اقدار و روایات ترک نہیں کرتے تاکہ غیر مسلموں پر اپنا مذہب تھوپ سکیں۔ اسی پروپیگنڈے کے باعث مغربی ممالک میں اس مسلمان کو تضحیک سے دیکھا جاتا ہے جو کوٹ پتلون نہیں اپنا مذہبی یا قومی لباس پہنے۔ مغربی طور طریقے اختیار نہ کرے، بلکہ اسلامی رسم و رواج اپنائے رکھے۔ اس قسم کا ثقافتی و تمدنی ٹکراؤ بھی مسلمانوں اور مغربیوں کے مابین تناؤ پیدا کرچکا۔
اب جو مسلمان خاندان کسی مغربی یا یورپی ملک میں مقیم ہوں، وہ جلد معاشرتی دباؤ کی وجہ سے مجبور ہوجاتے ہیں کہ وہیں کے طور طریقے اپنالیں۔ بہت کم مسلمان اتنی جرأت و استقامت رکھتے ہیں کہ کسی مغربی ملک میں اپنی مذہبی یا قومی رسوم و رواج کو علی الاعلان اختیار کریں۔
واقعہ 9/11 کے بعد خصوصاً انگریزی بولنے والے مغربی ممالک میں اسلام اور مسلمانوں سے متعلق آگاہی بھی بڑھی ہے۔ اب امریکا میں بعض صحافی و ادیب اپنی تحریروں میں اسلام کی خوبیاں واضح کرتے ہیں تاکہ امریکی معاشرے میں پھیلی غلط فہمیاں اور ہوسکیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیائے مغرب میں وسیع پیمانے پر حقیقی اسلامی تعلیمات پھیلائی جائیں۔ یوں عام مغربی کو احساس ہوگا کہ اصل اسلام وہ نہیں جو شدت پسند مسلمان اپنے مفادات کی خاطر توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں ۔
جو انسان اسلام کا لبادہ اوڑھ کر دہشت گردی کرے، اسے ’’مسلمان‘‘ نہیں ’’دہشت گرد‘‘ کہنا چاہیے۔ مغربی عوام و خواص کو جب یہ نکتہ سمجھ میں آیا، مسلمانوں سے ان کی نفرت خود بخود کم ہوجائے گی۔ تب وہ ان مسائل کا بھی ادراک کرسکیں گے جن سے خصوصاً غریب اسلامی ممالک دوچار ہیں۔
یہود کے چنگل میں پھنسا مغربی میڈیا
شاید قارئین کو یاد ہو، واقعہ 9/11 کے فوراً بعد مغربی میڈیا میں بڑے منظم طریقے سے اسلام مخالف مہم چل پڑی تھی۔ ٹی وی نیٹ ورکس سے لے کر اخبارات تک مبصرین اور مصنفین کی زبانی یہی بات سامنے آنے لگی کہ اسلام جنگ جوئی اور تشدد کا حامی ہے۔ امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، جرمنی اور فرانس میں یہ پروپیگنڈا اتنی شدت سے کیا گیا کہ جن مسلم اکثریتی علاقوں مثلاً کشمیر، فلسطین، چیچنیا، فلپائن وغیرہ میں جو مسلمان غاصبوں کے خلاف آزادی کی تحریکیں چلارہے تھے۔
انہیں دہشت گرد بنا دیا گیا۔یہ کرشمہ اسی لیے رونما ہوا کہ درج بالا پانچ بڑے مغربی ممالک میں بیشتر ٹی وی نیٹ ورک، اخبارات اور رسائل یہود کی ملکیت تھے اور آج بھی صورت حال زیادہ نہیں بدلی۔مثلاً امریکا میں پانچ بڑے ٹی وی نیٹ ورک: سی این این، اے بی سی، این بی سی،فوکس اور سی بی ایس کے مالکان یہودی ہیں۔ یا پھر ان کا انتظام و انصرام یہود دوست منتظمین کے ہاتھوں میں ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں بی بی سی، چینل فور، سکائی چینل وغیرہ یہود چلارہے ہیں۔
یہودی سرمایہ کاروں نے جس طرح فلسطین میں مسلمانوں سے زمین ہتھیائی تھی،وہ اسی طریق واردات کے ذریعے ایک میڈیا کمپنی میں اپنا اثرو رسوخ بڑھاتے ہیں۔یوں کہ خاموشی سے میڈیا کمپنی کے حصص خریدنے لگے۔ رفتہ رفتہ حصص کی اکثریت خرید کر وہ کمپنی کے مالک بن بیٹھتے ہیں۔ چناں چہ کئی مغربی ممالک کی میڈیا کمپنیوں میں یہودی سرمایہ داروں نے بھاری رقم لگا رکھی ہے۔ کمپنیاں مجبور ہیں کہ یہود نواز نظریات کی ترویج و اشاعت کریں جبکہ یہودی اور اسرائیل کے مخالفین کو نشانہ بنائیں۔اسی لیے مغربی میڈیا مسلمان شدت پسندوں کی سرگرمیاں بہت بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔
مثال کے طور پر جب سڈنی کے ایک کیفے میں ایک انتہا پسند اور ذہنی طور پر مجہول مسلمان نے کچھ لوگ یرغمال بنائے، تو یہ واقعہ پوری دنیا میں میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔یہ امر خوب نمایاں کیا گیا کہ حملہ آور اسلامی جھنڈا لہرا رہا ہے اور مسلمان ہے۔اس واقعے میں دو آسٹریلوی مارے گئے۔ مگر اسی دن امریکی پولیس نے تین سیاہ فام امریکی قتل کر ڈالے۔ مقتولوں میں کھلونا پستول سے کھیلتا ایک لڑکا بھی شامل تھا۔ لیکن سیاہ فام امریکیوں کے خلاف پولیس کی اس غنڈہ گردی کو خود امریکی میڈیا نے نمایاں نہیں کیا۔ یہ ہے مغربی میڈیا کی کھلی منافقت جس کے باعث اسلام اور مغرب میں عداوت بڑھ رہی ہیے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپ میں اسلام مخالف جذبات ابھارنے میں بھی یہود کا میڈیا پیش پیش ہے۔ مثلاً جرمنی میں نئی مسلم مخالف تنظیم، پیگیدا نے 20 اکتوبر 2014ء کو ڈریسڈن میں پہلا جلسہ منعقد کیا۔ اس میں صرف 350 جرمن شریک تھے۔ مگر یہود کے کنٹرول کردہ ٹی وی نیٹ ورکس اور اخبارات نے اس جلسے کی بڑے نمایاں انداز میں تشہیر کی اور اسے بڑا اہم واقعہ قرار دیا۔ اس زبردست تشہیر کے باعث دیگر جرمنوں کو بھی پیگیدا کا علم ہوا اور وہ بھی اس کے جلسوں میں شریک ہونے لگے۔
27 اکتوبر کے جلسے میں 500 جرمن شریک تھے، تو 3 نومبر کو یہ تعداد 1000 جاپہنچی۔ جبکہ 12 جنوری 2015ء کے جلسے میں ’’40 ہزار‘‘ جرمنی شریک ہوئے۔ اس تمام عرصے میں یہود کا میڈیا شور مچاتا رہا کہ جرمنی میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جذبات پھیل رہے ہیں۔ یوں اس نے ایک غنڈے کی قائم کردہ تنظیم کو جرمنی میں ہوّا بنا دیا۔ یہ ہے یہود نواز میڈیا کی طاقت کا عملی مظاہرہ!