کہتے ہیں غم بانٹنے سے گھٹتا ہے اور خوشی بانٹنے سے بڑھتی ہے۔ یوں تو ناقدین سال نو پر خوشیاں منانے پر تنقید کرتے ہیں۔ اس سے قطع نظر ہم یہ تو جائزہ لے سکتے ہیں کہ کہ گزرتے وقت میں ہم نے کیا کام نہیں کیا، کیا کام یابیاں سمیٹیں اور کیا غلطیاں کیں۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ جائزہ لیا جائے، تو ایسا کچھ غلط بھی نہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ ہمیں کسی بھی موقع پر اپنی روایات اور مذہبی اقدار سے انحراف نہیں کرنا چاہیے۔
سب سے پہلے توہمیں یہ چاہیے کہ خود پر توجہ دیں۔ سوچیے کہ گزرے ہوئے برس آپ اپنے لیے کیا ایسا کرنا چاہتی تھیں، جو نہیں کر سکیں، اس کی کیا وجوہات رہیں اور اب آنے والے سمے اس کے لیے کتنے امکانات ہیں۔ خود کو مثبت سمت میں لانے کے لیے آپ من پسند ملبوسات زیب تن کیجیے، اور تیار ہوئیے۔ اس سے آپ کوخوشی محسوس ہوگی اور آپ کو مستقبل کی سوچ بچار کے لیے اعتماد محسوس ہوگا۔
گزرے برس کسی مصروفیت کی بنا پر اگر آپ کے اپنے کسی وجہ سے نظر انداز ہوئے ہیں، تو فوراً اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کیجیے۔ زندگی بہت مختصر سی ہے۔ اس میں دوریوں کو جگہ دینا نہایت غیر مناسب امر ہے۔ اس لیے اب وقت نکالیے اور اپنوں کے لیے کوئی میل ملاقات کا سوچیے۔ چاہیں تو خود ان کے گھر چلی جائیں، یا پھر کسی دن سب کو اپنے ہاں مدعو کرلیں۔
یہ دعوت ون ڈش ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اپنی کھانے کی ٹیبل یا دسترخوان کی ترتیب پر خصوصی توجہ دیں۔ ایک خوب صورت سادہ میز پوش بچھا کر اسے بے رنگ، شفاف شیٹ سے ڈھک دیں، تاکہ وہ کھانے کی اشیا کے داغ دھبوں سے محفوظ رہ سکے۔ ایک شیشے کے بڑے پیالے کو آدھا پانی سے بھر کر اس میں رنگین تیرنے والی موم بتیاں اور پھولوں کی پتیاں ڈال کر درمیان میں رکھ دیں۔ آپ چاہیں تو پورے دسترخوان پر بھی گلاب کی پتیاں بکھیر سکتی ہیں۔
مشروبات کا چناؤ آپ سرد موسم کی مناسبت سے کریں گی، لیکن اگر کچھ منفرد راہ اختیار کرنی ہے تو آپ کشمیری چائے یا کافی کے بہ جائے ونیلا ٹی کا انتخاب کرسکتی ہیں۔ اس موقع پر بیتے سال کے حوالے سے گفتگو کو عملی رخ دیں کہ ہم اپنے ارد گرد بہتر ماحول اور اچھے معاشرے کے لیے کیا کردار ادا کرسکتے ہیں۔
اگر کچھ رشتے داروں کے درمیان کچھ دوریاں یا تلخیاں تھیں، تو اسے ختم کرانے میں اپنا کردار ادا کیجیے۔ ساتھ ہی خود سے کسی بری عادت کے چھوڑے جانے کا وعدہ کر سکتی ہیں، آنے والے دنوں کے لیے کوئی نیک مقصد متعین کیا جاسکتا ہے کہ آنے والے بارہ ماہ میں ہم نے یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے۔
بچوں کے حوالے سے بطور خاص بات کرنا ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ آپ انہیں بھی گزرتے وقت کی اہمیت سے آشنا کرائیے، انہیں بتائیے کہ آنے والے دنوں میں انہیں کس مقام پر فائز ہونا ہے۔ ان سے پوچھیے کہ گزر جانے والے سال میں انہوں نے کیا کیا اچھے کام کیے اور ان سے کیا غلطیاں سرزد ہوئیں؟ اور اب آنے والے سال کے اختتام تک وہ کیا کرنا چاہیں گے۔ اس طرح ان کے اندر بھی گزرتے ہوئے وقت کی اہمیت کا احساس جاگے گا۔ اس طرح ہم جانے والے وقت کو اچھی طرح وداع اور آنے والے وقت کا اچھی طرح استقبال کر سکیں گے۔