رات کافی بیت چکی تھی۔ نصف شب گزرنے کے بعد اب اندھیرا تیزی سے سپیدیٔ سحری کی جانب بڑھ رہا تھا۔ جیل میں ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ قیدی اپنی اپنی کوٹھڑیوں میں سورہے تھے، جب کہ چوکنّا محافظ اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ ایسے میں جیل کے ایک حصے میں کافی سرگرمی دکھائی دے رہی تھی۔
آج ایک مجرم کو اس کے کیے کی سزا ملنے والی تھی۔ تختۂ دار کے اردگرد پولیس اہل کار، ڈاکٹر موجود تھے، قیدی کو تختہ دار پر پہنچادیا گیا، بے رحمی سے دوسرے لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا آج خود پھانسی گھاٹ پر آیا تو تھر تھر کانپ رہا تھا۔ جلاد نے اُس کے چہرے پر غلاف چڑھایا۔ پھانسی کا پھندا اس کی گردن میں ڈالا۔ پولیس اہل کاروں کی جانب دیکھا اور اشارہ ملتے ہی تختہ دار کا لیور کھینچ دیا۔ اس آواز کے ساتھ ہی مجرم کے پیروں تلے موجود تختے ہٹ گئے اور وہ لٹکادیا گیا۔ ایک مجرم کو کیے کی سزا مل گئی۔کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے بھی قاتل کے ملک عدم سدھارنے کی تصدیق کردی۔
یہ وہ منظر ہے جو عام طور پر ہمارے ملک میں سزائے موت پانے والے افراد کے آخری لمحات میں نظر آتا ہے گوکہ پاکستان میں طویل عرصے سے پھانسیوں پر عمل درآمد نہیں ہوا، لیکن جیلوں میں ماضی میں جب بھی کسی کی سزائے موت پر عمل درآمد ہوا تو کم و بیش ایسے ہی مناظر وقوع پذیر ہوئے۔
مملکت خداداد پاکستان میں آئین کی دفعہ 302 کے تحت قاتلوں کے خلاف مقدمہ چلتا ہے اور انھیں سزائے موت دی جاتی ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر تاحال ملک بھر کی عدالتوں نے ہزاروں افراد کو سزائے موت سنائی، لیکن ان سزاؤں پر عمل درآمد کی شرح بہت کم ہے۔ پھر2008 میں سزائے موت پر عمل درآمد روک دیا گیا گیا۔
اب دسمبر 2014 میں سانحہ پشاور کے بعد حکومت میں شامل خواص سے لے کر ایک عام آدمی تک جب پشاور کے معصوم شہدا کے لیے فرط غم سے چیخ اٹھا تو ارباب اقتدار نے دشمنان پاکستان کو ان کے کیے کی سزا دینے کا سلسلہ شروع کردیا۔ 19 دسمبر کو سب سے پہلے 2 دہشت گردوں کو فیصل آباد سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی، جب کہ فیصل آباد ہی میں 21 دسمبر کو 4 مزید دہشت گرد اپنے انجام کو پہنچے۔ یہ سلسلہ اب رکنا نہیں چاہیے۔
اعدادوشمار کے مطابق 2005ء میں پاکستان میں تقریباً 241 مجرموں کو پھانسی کی سزا دی گئی، ان میں دہشت گردی کی سنگین وارداتوں میں ملوث افراد بھی شامل تھے اور وہ بھی جنھوں نے دولت اور جائیداد کی لالچ میں دوسروں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ان 241 میں سے صرف 31 ہی کو تختۂ دار پر لٹکایا جاسکا۔ 2005 میں یہ تعداد دنیا بھر میں سزائے موت پانے پر عمل درآمد کے حوالے سے 5 ویں نمبر پر تھی۔ پاکستان کے علاوہ، چین، ایران، سعودی عرب اور امریکا بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔
2005 کے بعد اور اس سے قبل بھی پھانسی کی سزائیں دی جاتی رہیں اور کچھ سزاؤں پر عمل درآمد بھی ہوا، تاہم عدالتی نظام، گواہوں کے خوف، مجرموں کے بااثر ہونے، عدالتوں میں کیسوں کی بہتات اور دیگر وجوہ نے بہت سارے قاتلوں اور مجرموں کو تاحال پھانسی کے پھندے سے بچایا ہوا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں 1999 ء میں 13 مجرموں کو پھانسی دی گئی۔ سزائے موت کے حوالے سے ایک اور معاملہ 18 سال سے کم عمر مجرموں کو پھانسی دینے کا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ پاکستان دنیا کے اُن 8 ممالک میں شامل تھا، جہاں 18 سال یا اس سے کم عمر افراد کو ان کے سنگین جرائم کی پاداش میں سزائے موت دی گئی اور اُن پر عمل بھی ہوا۔ دیگر ملکوں میں چین، کانگو، ایران، نائجیریا، سعودی عرب، امریکا اور یمن شامل تھے۔
بعدازاں قانون میں تبدیلی کے بعد 18 سال سے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے پر پابندی لگادی گئی۔ عالمی قانون کے تحت اب دنیا بھر میں 18 سال سے کم عمر افراد کو سزائے موت دینے پر پابندی ہے۔ تاہم ایران، سعودی عرب اور سوڈان ایسے ملک ہیں جو جرم کی پاداش میں عمر کی رعایت کیے بغیر مجرموں کو سزائے موت دے دیتے ہیں۔
زیادہ تر ملکوں میں سزائے موت ان افراد کو دی جاتی ہے جو ملک دشمنی، دہشت گردی، جاسوسی، بغاوت جیسے سنگین جرائم کے مرتکب ہوں۔ لیکن کچھ ملک ایسے بھی ہیں جہاں، زیادتی، منشیات کی خرید و فروخت، اسمگلنگ، جیسے جرائم پر بھی سزائے موت دے دی جاتی ہے۔ سعودی عرب میں منشیات کے اسمگلروں کے سرقلم کرنا معمول کی بات ہے۔ چین میں منشیات کی اسمگلنگ کے ساتھ انسانی اسمگلنگ اور کرپشن کے بہت بڑے کیس پر بھی سزائے موت سنادی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کی افواج کی جانب سے کورٹ مارشل کے موقع پر بھی سنگین جرم کرنے والوں کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ دنیا کے مختلف قبائل بھی اپنے اختلافات، دشمنیوں اور دیگر تنازعات کے موقع پر ذمے داروں کو سزائے موت سناتے ہیں۔
٭پھانسی دینے کے مراحل اور طریقہ کار
اگر سزائے موت پر عمل درآمد کے طریقہ کار کی بات کی جائے تو ہمارے ملک میں کسی کو سزائے موت دینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ مجرم کو تختہ دار پر لٹکادیا جائے یعنی اُسے پھانسی دے دی جائے۔ رحم کی اپیلیں مسترد ہوجانے کے بعد مجرم کو آگاہ کردیا جاتا ہے کہ اُسے پھانسی دی جارہی ہے۔
پھانسی دینے کے وقت سے تقریباً48 گھنٹے قبل مجرم کی اُس کے اہل خانہ سے ملاقات کرائی جاتی ہے، اس ملاقات میں وقت کی کوئی قید نہیں ہوتی۔ باقاعدگی سے اُس کا طبی معائنہ ہوتا ہے اور اگر کوئی قیدی بیمار ہوتو اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کچھ وقت کے لیے موخر کردیا جاتا ہے۔ اُسے (اگر وہ مسلمان ہے تو) عبادت کرنے کے لیے جائے نماز، تسبیح ، قرآن شریف بھی فراہم کردیا جاتا ہے، اسی طرح سزا پانے والے مجرم کا جو بھی مذہب ہے اس کے مطابق مجرم کو عبادت کے لوازمات فراہم کیے جاتے ہیں، تا کہ وہ اپنے آخری وقت تک عبادت الٰہی میں مصروف رہے۔ پھانسی سے قبل قیدی کی آخری خواہش بھی پوچھی جاتی ہے اور جیل حکام کوشش کرتے ہیں کہ پھانسی پر لٹکانے سے قبل قیدی کی اُس آخری خواہش کو کسی نہ کسی صورت پورا کیا جائے۔
پھانسی کے وقت پھانسی گھاٹ پر جیل حکام، ڈاکٹر کے علاوہ پھانسی دیکھنے اس مقتول کے لواحقین بھی جاسکتے ہیں، جن کے پیارے کو قتل کرکے وہ قیدی پھانسی چڑھنے والا ہوتا ہے۔ مقتول کے ورثا موجود ہوں تو ایک بار پھر سزا پانے والا اُن سے معافی طلب کرتا ہے، اگر وہ انکار کردیں تو پھر قیدی کے چہرے پر غلاف لگادیا جاتا ہے۔ رسی پر مکھن یا کوئی تیل وغیرہ بھی لگایا جاتا ہے، تاکہ رسی نرم رہے۔ جلاد کی جانب سے لیور کھینچنے کے بعد ڈاکٹر قیدی کی نبض چیک کرتا ہے، دَم نکلنے تک اسے لٹکارہنے دیا جاتا ہے۔
جب ڈاکٹر اس کی موت کی تصدیق کرتا ہے تو اسے پھانسی گھاٹ سے نیچے اتارا جاتا ہے اور اس کی میت کو رشتے داروں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ اگر سزائے موت پانے والے قیدی نے اپنے اعضا یا کوئی عضو عطیہ کرنے کا کہا ہو تو اس کی لاش کو پہلے اسپتال بھیجا جاتا ہے، ڈاکٹر اس کے عطیہ کردہ اعضا کو نکال لیتے ہیں اور پھر میت لواحقین کو دی جاتی ہے۔
پاکستان میں سزائے موت پر عمل درآمد کی پابندی سے قبل 20 فروری 2008 کو جو آخری پھانسی دی گئی وہ مجرم جاوید ملک کو ملی۔ پھانسی کے بعد اس کی دونوں آنکھیں ضرورت مندوں کو لگادی گئیں کیوں کہ پھانسی پر چڑھنے سے قبل مجرم جاوید ملک نے اس کی وصیت کی تھی۔
2008 ء میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت بنی تو صدر آصف زرداری نے سزائے موت پر عمل درآمد غیرمعینہ مدت کے لیے روک دیا تھا۔ اس دوران بہت سے مجرموں کو مختلف عدالتوں کی جانب سے سزائے موت دی گئی، لیکن پابندی کی وجہ سے ان سزاؤں پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔ اس صورت حال کی وجہ سے بھی دہشت گردوں، تخریب کاروں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کے حوصلے بہت بلند ہوگئے اور انھوں نے کُھل کر اپنی مذموم کارروائیوں کا سلسلہ جاری رکھا اور پاک سرزمین پر معصوم پاکستانیوں کا لہو بہاتے رہے۔
دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے ذہنوں میں یہ بات موجود ہے کہ ہم کتنے بھی بڑے جرم کرلیں، پکڑے جانے کی صورت میں اگر ہمیں سزائے موت بھی ملی تو اُس پر عمل نہیں ہوگا، زیادہ سے زیادہ جیل ہی جانا پڑے گا۔ اس سوچ کو اس لیے بھی تقویت ملتی ہے کہ جیلوں میں موجود کچھ راشی پولیس افسروں کے تعاون کی وجہ سے دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد جیل کو اپنا دوسرا گھر سمجھتے ہیں۔
وہ بدعنوان اہل کاروں کی مدد سے جیل کے اند ہی ایسا نظام بنالیتے ہیں کہ انھیں کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ اچھا کھانا پینا، آرام، بہتر رہائش حتیٰ کہ بیرونی رابطے کرنا بھی اُن کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ پھر ہمارے ملک کی اکثر جیلوں میں سیکیورٹی کا یہ عالم ہے کہ ماضی قریب قریب میں کئی بار ایسے واقعات رونما ہوئے جب دہشت گردوں کے ساتھیوں نے جیلوں پر یلغار کی اور اپنے ساتھیوں کو بہ آسانی چھڑاکر لے گئے۔ سزائے موت پر عمل درآمد کی پابندی کے دوران 14 نومبر 2012 کو سابق فوجی محمد حسین کو سینٹرل جیل میانوالی میں پھانسی دی گئی۔
٭سزائے موت
موت کی سزا بیشتر ممالک میں سنگین جرائم کرنے والوں کے لیے سب سے بڑی سزا ہے جس کا اختتام سزا پر عمل درآمد کی صورت میں ہوتا ہے۔ سزائے موت کو (Capital Punishment) بھی کہا جاتا ہے۔ یہ اصطلاح لاطینی زبان کے لفظ capitalis سے نکلی ہے، جس کا مفہوم ’’سر قلم کرنا ‘‘ ہے۔
سزائے موت کے تناظر میں اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو زمانہ قدیم سے لے کر تاحال مختلف معاشروں میں ، مختلف ادوار حکومت میں ، حکم رانوں نے سزائے موت کے قانون کو رائج رکھا ہے۔ صاحبان اقتدار دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ملک دشمنوں، سیاسی مخالفین اور جرائم پیشہ عناصر کو موت کے گھاٹ اتارتے رہے ہیں۔ مختلف ممالک میں سزائے موت کا طریقہ مختلف بھی ہوتا ہے یعنی پھانسی کے علاوہ بھی مجرموں کو دوسری دنیا میں پہنچانے کے طریقے اختیار کیے جاتے ہیں۔ بہت سارے ملکوں میں تو مجرموں کو سر قلم کرکے موت کی نیند سلانے کا انتظام کیا جاتا ہے۔
اِس وقت دنیا کے 58 ملکوں میں سزائے موت کے قانون پر عمل درآمد ہورہا ہے۔98 ملکوں نے مجرموں کو سزائے موت نہ دینے کی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے اور وہاں سنگین جرائم میں ملوث افراد کو دیگر سخت ترین سزائیں دی جاتی ہیں۔ ان کے علاوہ کچھ ممالک ایسے ہیں جہاں سزائے موت صرف انتہائی سنگین جرم کے ارتکاب پر ہی دی جاتی ہے۔ دنیا کے 35 ملک ایسے ہیں جنھوں نے سزائے موت پر عمل درآمد10 سال یا اس سے زاید عرصے کے لیے روک دیا ہے۔
دنیا کے مختلف ممالک میں سزائے موت دینے اور اس پر عمل درآمد کے حوالے سے قوانین اور پالیسیاں مختلف ہیں۔ یورپی یونین کے رکن ممالک میں یونین کے بنیادی انسانی حقوق کے چارٹر کے تحت سزائے موت دینے پر پابندی ہے۔47 رکن ممالک پر مشتمل کونسل آف یورپ نے بھی اپنے ارکان ممالک میں سزائے موت دینے پر پابندی عاید کی ہوئی ہے۔ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور کینیڈا میں بھی سزائے موت پر پابندی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی 2007 ، 2008 اور 2010 میں اپنی قراردادوں کے ذریعے سزائے موت کی مخالفت کی اور اس پر پابندی لگائی۔ عالمی سطح پر سزائے موت کی مخالفت کے باوجود دنیا کی بہت بڑی آبادی ایسے ممالک میں رہتی ہے جہاں اب بھی سزائے موت پر عمل درآمد تسلسل سے جاری ہے۔ ان ملکوں میں چین، انڈیا، امریکا اور انڈونیشیا سرفہرست ہیں، ان چاروں ملکوں نے اس حوالے سے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی بھی مخالفت کی ہے۔
٭دنیا میں سزائے موت دینے کے طریقے
بادشاہوں کے دور سے لے کر اس جدید دنیا کے مختلف ادوار تک دیکھیں تو سزائے موت کے مختلف طریقے دکھائی دیں گے۔ پھانسی کی سزا تو ہمارے ملک میں بھی دی جاتی ہے جس کی تفصیلات سے قارئین کو آگاہ کیا جاچکا ہے، اس کے علاوہ بھی ایسے طریقے ہیں جنھیں اختیار کرکے مجرموں، دشمنوں اور باغیوں کو سزائے موت دی جاتی رہی ہے۔ مجرموں کو سزائے موت دینے کے کچھ طریقوں کے حوالے سے معلومات نذر قارئین ہیں:
٭گولی مارنا
مجرموں کو سزائے موت دینے کے لیے گولی مارنے کا طریقہ بھی رائج ہے، اگر مجرم ایک سے زاید ہوں تو انھیں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا جاتا ہے۔ پھر اشارہ ملتے ہی گولیاں برسنا شروع ہوجاتی ہیں۔
٭ کھال اتارنا۔۔۔Flaying
اس طریقے سے مجرم کو موت تو ملتی ہے لیکن سے اس سے قبل بے پناہ اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جلاد یا سرکاری اہل کار، بادشاہ، حکم راں یا مسند اقتدار پر بیٹھے شخص کے حکم سے سزا یافتہ شخص کے جسم کی کھال تیز دھار چھری یا چاقو سے اتارتے تھے۔ یہ اذیت ناک مرحلہ مجرم کو موت سے پہلے کئی بار مارتا تھا اور آخرکار اس کی موت واقع ہوجاتی تھی۔ اس کیفیت میں اس خوف ناک سزا کے مراحل سے گزرنے والا فوری موت کی التجائیں کرتا تھا، لیکن اسے موت سے پہلے اس اذیت ناک مرحلے سے گزرنا پڑتا تھا۔
٭اعضا کو کاٹنا
Disembowelment
مجرم کے جسم کے کچھ اعضا کو کاٹ لیا جاتا تھا، جس سے رفتہ رفتہ وہ ہلاک ہوجاتا تھا۔ عام طور پر اس طریقۂ کار کو اختیار کرتے وقت مجرم کے معدے کے قریب زخم لگائے جاتے تھے۔ یہ طریقہ صرف تشدد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا اور اس کے نتیجے میں قیدیوں کی اموات بھی ہوئیں۔
٭سنگساری۔۔۔۔۔stonning
سزائے موت کا یہ انداز تو آج بھی مختلف ملکوں میں جاری ہے۔ کہانیوں اور قصوں میں پڑھا اور کچھ ممالک کی تاریخ کے حوالے سے تمثیلی دستاویزی پروگراموں میں دیکھا ہے کہ مجرم کو ایک میدان میں آدھے جسم تک گاڑدیا جاتا تھا۔ اس کے بعد چاروں طرف کھڑے لوگ اس پر سنگ باری کرتے تھے۔ چند پتھر لگنے کے بعد مجرم کی موت واقع ہوجاتی تھی۔ اگر زمین میں گاڑا نہ جائے تو ملزم کو کھلے میدان میں بٹھادیا جاتا تھا اور پھر اس پر پتھر برسائے جاتے تھے۔
٭گرم پانی میں پھینکنا۔۔۔
boiling to death
گرم کھولتے ہوئے پانی میں کسی کو بھی پھینکنے کا مطلب یہ ہے کہ سیکنڈوں میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ مختلف ادوار میں حاکم وقت اپنے دشمنوں، مجرموں اور مخالفین کو مارنے کے لیے یہی طریقہ استعمال کرتے تھے۔ اس کے لیے پانی کو ایک بڑے برتن میں کھولایا جاتا تھا اور مجرم کو اس میں ڈال دیا جاتا تھا۔
٭بھاری پہیے کے ذریعے موت۔۔۔۔
breaking wheel
قدیم یونان میں یہ طریقہ رائج تھا، جس نے آہستہ آہستہ جرمنی، فرانس، روس، برطانیہ اور سوئیڈن میں بھی مقبولیت حاصل کی۔ اس طریقے میں قیدی کو ایک بڑے پہیے سے باندھ دیا جاتا تھا۔ جب پہیا چلتا تھا تو آہستہ آہستہ اس شخص کی ہڈیاں ٹوٹنا شروع ہوجاتی تھیں اور پھر وہ مرجاتا تھا۔ اس کے علاوہ کبھی کبھی ملزم کو سرپر چوٹ لگاکر نیم بے ہوشی کی حالت میں پہیے سے باندھ کر کہیں لٹکادیا جاتا تھا۔ اس طرح پرندے بالخصوص چیل، کوے اور گدھ زندہ انسان کی بوٹیاں نوچنا شروع کردیتے تھے جس سے اس کی موت واقع ہوجاتی تھی۔
٭ زندہ جلادینا
مجرموں کو زندہ جلانا بھی سزائے موت کا ایک انداز رہا ہے۔ جن حاکموں نے یہ طریقہ اختیار کیا ، اُن کی منطق یہ تھی کہ اس طرح دوسرے لوگوں پر بھی خوف طاری ہوگا اور وہ عبرت حاصل کریں گے۔
٭نیک لیسنگ ۔۔۔Necklacing
اس طریقے میں ملزم یا مجرم کی گردن اور بازوؤں پر ایک ربڑ کا ٹائر چڑھادیا جاتا تھا، جو گیس سے بھرا ہوا ہوتا تھا۔ پھر اسے آگ لگادی جاتی تھی۔ یہ طریقہ جنوبی افریقہ میں 1980تا1990 کے دوران کافی استعمال کیا گیا۔ ڈاکوؤں، چوروں یا جرائم پیشہ عناصر کو عام شہریوں نے بھی اپنی عوامی عدالتوں کے ذریعے متعدد بار Necklacing کے ذریعے سزائے موت دی۔
٭کیڑوں کے ذریعے موت۔۔۔
scaphism
اس خوف ناک طریقے کو بھی سزائے موت دینے کے لیے حکمرانوں نے استعمال کیا۔ مجرم کو برہنہ کرکے چھوٹی کشتی یا درخت کے تنے میں باندھ دیا جاتا تھا۔ پھر اسے زبردستی شہد اور دودھ پلایا جاتا تھا، اس کے بعد کھانے پینے کی اشیا بھی اس کے بدن پر ڈالی جاتی تھیں، تاکہ کیڑے ان کی بو سے آئیں۔ پھر اسے باندھ کر کسی حوض یا ندی کے کنارے لٹکادیا جاتا تھا۔ تاریخ میں موجود ہے کہ اس طریقے کو اختیار کرنے والے اپنے مجرم کی آنکھوں، کانوں، منہ اور دیگر اعضا کو خاص توجہ کا نشانہ بناتے تھے۔ کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد حشرات الارض دودھ، شہد اور کھانے پینے کی دیگر اشیا کے ساتھ انسانی جسم بھی چٹ کرجاتے تھے۔
٭ آری کے ذریعے جسم چیر دینا۔۔۔
sawing
اس دہشت ناک طریقے کے ذریعے تیز دھار آری سے مجرم کے جسم کو دو حصوں میں کاٹ دیا جاتا تھا۔ یہ طریقہ رومن دور میں کافی رائج تھا۔ اسپین میں بھی اس کے شواہد ملتے ہیں، جب کہ ایشیا کے بھی کچھ حصوں میں اس کے ذریعے سزائیں دی جاتی رہی ہیں۔ اس طریقے میں انسانی جسم کو افقی یا عمودی کاٹا جاتا تھا ، دیکھنے والے تو دہشت زدہ ہوتے ہی تھے، لیکن یہ دردناک موت سہنے والا موت سے پہلے ہی مرجاتا تھا۔
٭ہاتھی کے پیروں تلے روندنا
ہاتھی کے پیروں تلے روند کر مجرموں کو سزائے موت دینا بھی بادشاہوں کا شوق رہا ہے، مجرموں کو میدان میں باندھ کر لٹادیا جاتا تھا اور پھر ہاتھی اپنا بھاری بھرکم پیر جیسے ہی اس کے اوپر رکھتا تھا توسزا پانے والا منٹوں میں ہلاک ہوجا تا تھا۔ اس کے علاوہ سزایافتہ افراد کو بھوکے شیروں کے سامنے ڈال دینا بھی ایک ایسا عمل ہے جسے حکم رانوں نے تفریح طبع کے لیے بھی استعمال کیا اور اس سے اپنے مخالفین کو سزائیں بھی دیں۔ بھوکے جانوروں کے پنجرے میں جانے والوں میں سے قسمت والے ہی زندہ سلامت بچنے میں کام یاب ہوتے تھے، لیکن ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔
٭زہریلا انجکشن اور کرنٹ
قیدیوں کوزہریلا انجکشن لگاکر یا کرنٹ دے کر بھی مجرموں کو سزائے موت دی جاتی ہے۔کچھ ممالک میں بجلی کی کرسیاں استعمال کی جاتی ہیں، جن پر مجرموں کو بٹھایا جاتا ہے اور کرنٹ چھوڑدیا جاتا ہے۔
سزائے موت کے درج بالا طریقوں کے علاوہ بھی حکومتوں نے مجرموں کے موت کے گھاٹ اتارنے کے بہت سے طریقے اختیار کیے ہیں۔ صدیوں پہلے استعمال کیے گئے طریقے اب اگر متروک ہوچکے ہیں تو ان سے زیادہ خوف ناک، دہشت ناک اور اذیت ناک طریقے متعارف کرائے جاچکے ہیں۔
ہر دور اپنے ساتھ جہاں زندگی کی ہر نئی چیز لے کر آتا ہے تو وہاں سزائے موت کے قوانین اور طریقہ کار بھی نئے سے نیا انداز اختیار کرکے سامنے آتے ہیں۔ پرانے زمانے کے مقابلے میں دیکھا جائے تو جدید دور میں سزائے موت کے طریقے ایسے ہیں جن میں سزا پانے والے کو کم سے کم اذیت ہوتی ہے اور وہ کم وقت میں ہلاک ہوجاتا ہے، جب کہ کچھ صدیوں قبل کے طریقوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ مارے جانے والے کو موت سے بے پناہ اذیت دی جاتی تھی۔
بہرحال سزائے موت ایک ایسا ہتھیار ہے جس کو اگر صحیح انداز میں استعمال کیا جائے اور سیاسی مخالفین کو کچلنے کا ذریعہ نہ سمجھا جائے تو اس سے معاشرے میں کافی سدھار آسکتا ہے۔ قوانین کا ہونا اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے لیکن اس سے بھی زیادہ اہمیت کی حامل بات ان قوانین پر عمل درآمد ہے۔ دہشت گردوں اور مجرموں کو سزائے موت دے کر نشان عبرت بنانا انصاف کا تقاضا، مظلوم کی تسلی اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کے لیے سبق ہے۔
اگر لوگوں میں سزا کا خوف ہوگا تو وہ جرائم کی طرف بڑھتے ہوئے کئی بار سوچیں گے، لیکن اگر پہلے ہی پتا ہو کہ سنگین سے سنگین ترین جرم کرنے کے باوجود انھیں بڑی سزائیں نہیں ملیں گی تو ہر کوئی کھل کر جرم کرے گا اور عام شہری کے لیے جینا محال ہوجائے گا۔ یہ بات ہر شعور رکھنے والا انسان کہتا ہے کہ جرم کرنے والے کو اس کے کیے کی سزا ضرور دینی چاہیے تاکہ اسے یا اس کے لواحقین و اہلخانہ کو احساس ہو کہ تکلیف کیا ہوتی ہے۔ انسان کسی دوسرے کی تکلیف کا صحیح معنوں میں احساس اسی وقت کرسکتا ہے جب وہ خود اسی تکلیف سے گزرا ہو۔ دوسروں کو مارنے والے جب خود تختہ دار تک پہنچتے ہیں تو انھیں اندازہ ہوتا ہے کہ موت کیا ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں بھی ضرورت اس بات کی ہے کہ حقیقی مجرموں کو ان کے کیے کی سزا ضرور دی جائے، چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی ومذہبی جماعت سے ہو یا وہ معاشرے کے کسی بھی طبقے کی نمائندگی کرتا ہو۔ سزائے موت دینے کا طریقہ کار کوئی بھی اختیار کیا جائے، کسی بھی ملک میں امن و امان کی صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے سزائے موت کے قانون پر جامع اور موثر انداز میں عمل درآمد بہت ضروری ہے، تبھی امن پروان چڑھ سکتا ہے۔