پاکستان کا شمار دنیا کے اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں شہری آبادی کی نسبت دیہی آبادی زیادہ ہے۔ اور ایسی ہی صورتحال خواتین کے حوالے سے بھی ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز اسلام آباد کے اعدادو شمار کے تجزیہ کے مطابق2014 ء میں پاکستان کی 60 فیصد خواتین دیہی علاقوںمیں مقیم ہیں۔ ملک میں سب سے زیادہ دیہی خواتین کی آبادی کا تناسب فاٹا میں موجود ہے۔ جہاں96 فیصد خواتین دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں۔ 77 فیصد دیہی خواتین کی آبادی کے ساتھ خیبر پختونخوا دوسرے جبکہ 65 فیصد تناسب کے ساتھ بلوچستان تیسرے نمبر پر ہے۔
پنجاب کی 61 فیصد اور سندھ کی 43 فیصد خواتین دیہات میں رہتی ہیں ۔ بلوچستان جہاں باضا بطہ شہری آبادی صرف کوئٹہ شہر کی حد تک ہی محدود ہے اور باقی دیگر شہری آبادی کی تعریف میں آنے والی زندگی کسی طرح بھی سہولیات کے حوالے سے شہری آبادی کہلانے کی حق دار نہیں۔ بلوچستان کی بہت سی محرومیوںمیں سے ایک بڑی واضح محرومی کا شکار خواتین کی تولیدی صحت کا شعبہ ہے اور یہ صورتحال توجہ طلب ہے۔
مغلیہ بادشاہ شاہجہان نے اپنی چہیتی ملکہ ممتاز محل کی وفات پر اس کی یاد اور محبت میں تاج محل بنوایا جو اس کے 14ویں بچے کی ولادت کے دوران فوت ہوئی جب کہ ان ہی ایام میں ایسا ہی کچھ سوئٹرز لینڈ میں ہوا جہاں کے بادشاہ کی ملکہ بچے کی ولادت کے دوران فوت ہوئی تو بادشاہ نے تمام مشیروں کو طلب کیا اور ان سے مشورہ لیا کہ زچگی کے دوران خواتین کی اموات کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ مشیروں نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ دائیوں کو تربیت دی جائے اس مشورے کی روشنی میں بادشاہ نے ملک بھر میں دائیوں کی تربیت کا اہتمام کروایا۔
طرز عمل (اپروچ) کا یہ فرق ماضی کی طرح آج بھی موجود ہے جس کی وجہ سے اب سوئٹزر لینڈ میں ماؤں کے لئے زچگی کا عمل ان کی زندگی کی ڈور کو توڑنے کا باعث نہیں بنتا جب کہ ہمارے ہاں صورتحال میں اتنی بہتری نہیں آئی کہ ہم اس پر نازاں ہوں جس طرح سوئٹزر لینڈ کے باسی اپنے ہاں زچگی کے دوران ہونے والی اموات پر قابو پا کر ہیں چونکہ زمینی حقائق کے برعکس بننے والی پالیسیاں اور اقدامات ہمارے ہاں ماں بچے کی صحت کے شعبے میں فیصلہ سازوں کی غیر سنجیدہ دلچسپی کے وہ تاج محل ہیں جو نجانے کتنے ہی گھرانوں کی اپنے آنگن میں جسمانی اور ذہنی طور پر صحت مند بچوں کی چہکار اور ان کی ماؤں کی شگفتہ مسکراہٹ کی جلترنگ سننے کی آرزؤں کے مدفن پر تعمیر ہوتے ہیں ۔
کیونکہ اگر ہمارے کرتا دھرتا خواتین کی تولیدی صحت کے شعبے میں سنجیدہ دلچسپی لیتے اور اسے اولین فوقیت دیتے تو پھر پاکستان کے دیہی علاقوں میں زچگی کے فی لاکھ کیسز کے دوران 319 خواتین ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی نہ ہارتیں ۔ اور شہری علاقوں کی 175 خواتین زچگی کے فی لاکھ کیسز کے دوران اس دنیا سے اپنا ناطہ نہ توڑتیں ۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں زچہ کی تولیدی صحت کی جس تصویر کو ہمارے سامنے لارہے ہیں اس کی دیہی اور شہری تفریق اس امر کی وضاحت کر رہی ہے کہ ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات شہری علاقوں کی نسبت تقریباً دگنا سے زائد ہے۔
جو یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ ہمارے دیہی علاقوںمیں زچگی کا عمل کتنا محفوظ ہے؟ اس کے جواب کے پس منظر میں موجود بہت سی تلخیوں میں سے ایک ہمارے انفرادی رویئے بھی ہیں کیونکہ ہم بحیثیت شوہر ، ساس ، سسر، باپ اور بھائی دوران حمل اور بعد از حمل ماؤں کو تربیت یافتہ طبی عملے سے چیک اپ کروانے، زچگی کے وقت تربیت یافتہ طبی ماہر کی خدمات اور دیگر سہولیات کی فراہمی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں میں کوتاہی برتتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ملک میں معیاری اور سستی تولیدی صحت کی سہولیات کی بآسانی دستیابی اور لوگوں کی اُن تک رسائی نہ ہونے کے نتیجے میں یہ لاپرواہی اور محرومی ہمیں خوشیوں کی بجائے پچھتاوے کا روگ دے جاتی ہے اور ایسا خصوصاً بلوچستان کے ہزاروں گھرانوں کے ساتھ ہو بھی رہا ہے۔
جہاں زچگی کے دوران خواتین کی اموات کی تعداد 785 فی لاکھ کیسز ہے جو باقی صوبوں کے مقابلے میں 2.5 گنا سے زائدہے سندھ میں یہ تعداد 314 ، سرحد میں 275 اور پنجاب میں 227 اموات فی لاکھ زچگی کیسز ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے جون 2008 ء میں جاری کردہ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2006-07 ء کے یہ اعداد و شمار ہمیں شرمسار کر رہے ہیں کہ ان اموات کو باآسانی روکا جا سکتا ہے لیکن ہم پھر بھی بے حسی کا شکار ہیں ۔
بلوچستان جو پاکستان کے کل رقبے کا 43.6 فیصد ہے جہاں اس وقت ملک کی 5.17 فیصد آبادی رہائش پذیر ہے اس حوالے سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ صوبے میں ملکی سطح کے علاوہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں بھی شادی شدہ خواتین (جن کی عمریں 15 سے 49 سال کے درمیان ہیں) کا سب سے زیادہ تناسب موجود ہے جو پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میئرمنٹ سروے 2011-12 ء کے مطابق صوبے میںخواتین کی کل تعداد کے 70 فیصد پر مشتمل ہے۔ اور دیہی سطح پر یہ تناسب 73 فیصد حصہ پر مبنی ہے۔
صوبے میں سال رواں کے دوران خواتین کی آبادی نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈی کے مطابق 44 لاکھ 89 ہزار ہے جو صوبے کی مجموعی آبادی کا 47.5 فیصد ہے اور 15 سے 49 سال کی عمر (عمر کا یہ گروپ ماں بننے کے حوالے سے متحرک خیال کیا جاتا ہے) کی خواتین کا تناسب صوبے کی خواتین کی مجموعی تعداد کا 53.46 فیصد ہے یعنی صوبے میں اس وقت 15 سے 49 سال کی عمر کی خواتین کی تعداد 24 لاکھ ہے ۔ جب کہ پاکستان کی 5.27 اور 15 سے49 سال کی عمر کی 4.87 فیصد خواتین کا مسکن یہ صوبہ ہے۔
اس کے علاوہ صوبے کو ایک اور خصوصی اہمیت بھی حاصل ہے کہ یہاں 15سے24 سال کی عمر (ماں بننے کا سب سے زیادہ متحرک عمر کا گروپ ) کی خواتین کا تناسب بھی ملکی سطح کے ساتھ ساتھ باقی صوبوںکی نسبت زیادہ ہے۔ اگر ہم اس تناسب کا جائزہ صوبے کی تمام خواتین کی تعداد سے لیں تو یہ 2014 کے دوران 20.73 فیصد اور 15 سے 49 سال کی عمر کی خواتین کی آبادی کے 38.79 فیصد پر مشتمل ہے ۔ جبکہ دسمبر 2013 میں جاری ہونے والے پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-213 کے مطابق بلوچستان کی 15 سے 49 سال کی عمر کی 10 فیصد خواتین حمل سے ہیں اور یہ تناسب بھی ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
صوبے میں خواتین کی آبادی کے ان خاص پہلوؤں کی موجودگی جہاں خواتین کی تولیدی صحت کے متعلقین کی زیادہ توجہ کی متقاضی ہے وہیں صوبے کی بعض قبائلی وا نفرادی روایات اور توہمات پرستی ان خواتین کے لئے جن مشکلات کا پیش خیمہ بن رہی ہے ان کا آغاز کم عمر ی میں لڑکیوں کی شادی اور ماں بننے کے رجحان سے ہوتا ہے۔ کیونکہ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میئرمنٹ سروے 2011-12 کے مطابق بلوچستان کی 15 سے 19 سال کی مجموعی طورپر 13 اور دیہی علاقوں کی 16فیصد لڑکیاں شادی کے بندھن میں بندھ چکی ہیں اور یہ تناسب بھی ملکی سطح کے ساتھ ساتھ دیگر چاروں صوبوں کے تناسب سے زائد ہے۔
اسی طرح پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے مطابق بلوچستان کی 15 سے19 سال کی عمر کی 5.3 فیصد لڑکیاں ماں بن چکی ہیں اور 1.5 فیصد اپنے پہلے حمل سے ہیں جب کہ عالمی ادارہ اطفال کے مطابق 15 سے19 سال تک کی عمر کی ماں کا زچگی کے دوران مرنے کا امکان 20 سال کی عمر میں ماں بننے والی لڑکی کی نسبت دگنا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کم عمر ماؤں کے ہاں اکثر پری میچور پیدائش (وقت سے پہلے) کے زیادہ کیسز ہونے کا امکان ہوتا ہے جو کہ نوزائیدہ بچوں کی اموات کی ایک بڑی وجہ ہے کم عمری میں ماں بننے والی لڑکیوں اور ان کے نوزائیدہ بچوں کی اموات کا قریبی تعلق ماں کی صحت کے ساتھ بھی وابستہ ہے کیونکہ ابھی لڑکی کی اپنی نشوونما کا عمل جاری ہوتا ہے کہ وہ ماں بن جاتی ہے جس سے زچہ و بچہ دونوں کی صحت متاثر ہوتی ہے اور پیدا ہونے والے بچے کم وزن ، کمزور اور مائیں خون کی کمی کا شکار ہو جاتی ہیں۔
نیشنل نیوٹریشن سروے 2011ء کے مطابق بلوچستان کی31.1 فیصد حاملہ خواتین فولاد کی کمی کی وجہ سے خون کی کمی کا شکار ہیں خون کی کمی کی ایک بڑی وجہ حاملہ خواتین کی خوراک بھی ہے ۔ قومی ادارہ صحت کے مطابق ملک میں حاملہ خواتین اوسطاً2165 کیلوریز روزانہ لیتی ہیں جبکہ انہیں 2500 کیلوریز یومیہ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح دودھ پلانے والی خواتین اوسطً 2298 کیلوریز روزانہ لیتی ہیں جب کہ انہیں 3000 کیلوریز یومیہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔
جس کے باعث زچہ و بچہ کمزور صحت کے حامل ہوتے ہیں ان ہی کمزور بچوں میں ایک بڑی تعداد بچیوں کی بھی ہے جنہوں نے مستقبل میں ماں بننا ہوتا ہے اور اگر وہ بچپن ہی سے کمزور اور کم خوراکی کا شکار ہوں گی تو ان کے یہاں پیدا ہونے والے بچے کس طرح صحت مند ہو سکتے ہیں؟ بلوچستان کے اضلاع میں یونیسیف کی معاونت سے وفاقی ادارہ شماریات اور محکمہ منصوبہ بندی اور ترقیات حکومت بلوچستان کی جانب سے کیے جانے والے ملٹی پل انڈیکیٹر کلسٹر سروے 2004 کے مطابق بلوچستان کی 40 فیصد پانچ سال سے کم عمر بچیاں کم وزنی کا شکار تھیں جبکہ قومی
غذائیت سروے 2011 کے مطابق بلوچستان کے 39.6 فیصد بچے کم وزنی کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ ماں اور بچے کی صحت کو لاحق خطرات کا ایک اہم سبب بچوں کی پیدائش میں مناسب وقفہ کی عدم موجودگی ہے ۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2013-13 کے مطابق بلوچستان میں بچوں کی پیدائش کے کیسز میں اوسطاً 26 ماہ کا وقفہ ہوتا ہے جو پاکستان بھر میں سب سے کم وقفہ ہے۔ جان ہاپسکن سکول آف پبلک ہیلتھ امریکہ کی پاپولیشن رپورٹ کے مطابق تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ 3 سے 5 سال کے وقفہ سے پیدا ہونے والا بچہ 2 سال کے وقفے کے بعد پیدا ہونے والے بچے کی نسبت صحت مند ہوتا ہے اور اس کے پانچ سال تک کی عمر کے پہنچنے کا امکان 2.5 گنا زیادہ ہوتا ہے۔
بہ نسبت ایسے بچوں کے جو دو سال کے وقفے کے بعد پیدا ہوئے ہوں جب کہ ایسی زچہ (خواتین) جنہوں نے اپنے بچوں کی پیدائش میں 9 سے14 ماہ کا وقفہ رکھا ہو ان کی نسبت ایسی مائیں جنہوں نے اپنے اگلے بچے کی پیدائش میں 27 مہینے کا وقفہ رکھا ہو ان میں خون کی کمی کا امکان پہلے گروپ کی نسبت 1.3 گنا کم ہو جاتا ہے لہٰذا ماں اور بچے کی صحت کا براہ راست انحصار اولاد میں مناسب وقفے پر منحصر ہے جس کے لئے اس کا خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں پر عمل کرنا ضروری ہے۔
بلوچستان جیسے صوبے میں خاندانی منصوبہ بندی کو بے شمار سماجی رکاوٹوں کا سامنا ہے جس کی وجہ سے صوبے میں ان طریقوں کے استعمال کی شرح اتنی حوصلہ افزا نہیں ۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز کے پی ڈی ایچ سروے 2012-13 کے مطابق بلوچستان میں صرف 19.5 فیصد شادی شدہ خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کا استعمال کرتی ہیں جو پورے ملک میں سب سے کم تر شرح ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح مزید کم ہوکر 18.2 فیصد رہ جاتی ہے۔ صوبے میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کے استعمال کی کم تر شرح کی وجہ سے بلوچستان میں فی شادی شدہ خواتین بچوں کی پیدائش کی اوسطاً تعداد 4.2 فیصد ہے۔
بچوں کی پیدائش کی یہ اوسط تعداد جو ملک بھر میںسب سے زیادہ ہے خواتین کو بار بار زچگی کے مراحل سے گزارتی ہے جس کے باعث بلوچستان میں دوران زچگی فی لاکھ کیسز خواتین کی اموات کی تعداد ملکی سطح کی اوسط تعداد 276 سے تقریباً تین گنا سے بھی زائد ہے اور بلوچستان میں 12 سے 49 سال کی عمر کی خواتین کی مجموعی اموات کا 35.2 فیصد حمل ، زچگی اور اس کے بعد پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کی وجہ سے رونما ہوتا ہے۔
جو ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان میں خواتین اور نوزائیدہ بچوں کی اموات کی ایک اور نمایاں وجہ زچگی کے کیسز کی اکثریت کا غیر تربیت یافتہ طبی عملے کے ہاتھوں ہونا ہے کیونکہ بلوچستان میں صرف 15.8 فیصد زچگی کے کیسز مختلف نوعیت کے طبی مراکز / ہسپتالوں میں ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں تو یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ جہاں صرف 12.6 فیصد زچگی کے کیسزطبی مراکز/ ہسپتالوں میں ہوتے ہیں ۔ جبکہ آج بھی بلوچستان کے 83 فیصد زچگی کے کیسز گھروں پر ہی ہوتے ہیں اوردیہی علاقوں میں یہ شرح 86 فیصد تک ہے۔
بلوچستان میں ہونے والے زچگی کے کیسز کا صرف 17.8 فیصد تربیت یافتہ طبی عملے اور 70.4 فیصد روایتی دائیوں کے ہاتھوں انجام پاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں 72.5 فیصد زچگی کے کیسز کی اٹینڈنٹ روائتی دائیاں ہوتی ہیں ۔ زچگی کے مقام اور معاونت کے حوالے سے صوبے کی یہ صورتحال بھی پورے پاکستان میں سب سے زیادہ دلخراش اعدادوشمار کی حامل ہے۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2006-07 کے مطابق بلوچستان کی 39.8 فیصد ماؤں کے خیال میں کسی بھی نوعیت کے طبی مرکز میں زچگی کے اخراجات بہت زیادہ ہوتے ہیں ۔ اس غلط فہمی کا بروقت ازالہ کئی جانوں کو بچاسکتا ہے۔ جب کہ دوسرے نمبر پر جس وجہ کی نشاندہی ہوئی وہ ان سہولیات کا بند ہونا ہے کیونکہ صوبے کی 22.6 فیصد ماؤں نے اس بات کی نشاندہی کی ہے ۔
جس پر فوراً توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ 16.9 فیصد بلوچستانی ماؤں نے ایسی کسی طبی سہولت کے بہت دور ہونے کا شکوہ کیا جو ایک اور قابل توجہ امر ہے اسی طرح 2012-13 کے پی ڈی ایچ ایس کے مطابق صوبے میں صرف 20.9 فیصد خواتین نے اپنے گزشتہ حمل کے دوران 2 یا دو سے زائد تشنج کے ٹیکے لگوائے جب کہ دیہات میں تشنج کے کم از کم دو یا اس سے زائد ٹیکہ لگوانے والی حاملہ خواتین کی شرح 14.6 فیصد ہے اور یہ شرح بھی ملک بھر میں سب سے کم ہے۔
اوپر بیان کردہ صوبے کا تولیدی صحت کا منظر نامہ جہاں انفرادی رویوں کے باعث ہوسکتا ہے وہیں اس کی بڑی وجہ صوبے میں سرکاری سطح پر موجود صحت کی نا کافی سہولیات بھی ہیں۔کیونکہ بلوچستان وطن عزیز کا پسماندہ صوبہ ہونے کے باعث بنیادی انفراسٹر کچر کی سہولیات سے باقی ملک کی نسبت قدرے محروم ہے جس کی وجہ سے یہاں پسماندگی کی جھلک زندگی کے ہر شعبے میں نظر آتی ہے اورخاص کر صحت کے شعبے کی ناکافی سہولیات کے باعث خواتین کی تولیدی صحت اور زندگی کو لاحق خطرات کی سنگینی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔
حکومت ِ بلوچستان کے جاری کردہ تازہ دستیاب ڈویلپمنٹ اسٹیٹیسٹکس آف بلوچستان کے مطابق 2011-12 کے دوران صوبے میں سرکاری سطح پر ہسپتالوں کی تعداد47 ، ڈسپنسریز 567 ،بنیادی مراکز صحت 553 ، زچہ و بچہ کی صحت کے مراکز 99 اور دیہی مراکز صحت کی تعداد صرف 93 ہے۔ یعنی صوبے میں سرکاری شعبے کے تمام طرح کے طبی مراکز کی مجموعی تعدادصرف 1359 ہے جو صحت جیسے حساس شعبے میں متعلقین کی عدم دلچسپی کا واضح ثبوت ہے۔
اسی طرح اگر ہم بلوچستان میں طبی عملے کی دستیابی پر نظر ڈالیں تو ایک اور تلخ حقیقت عیاں ہوتی ہے۔ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے مطابق 30 جون 2014 ء تک بلوچستان میں رجسٹرڈ میڈیکل پریکٹیشنرز (ایم بی بی ایس اور اسپشلسٹ) کی تعداد 5096 ہے جب کہ بلوچستان میں نرسوں کی تعداد 2011-12 تک 707 ، مڈ وائفز اور دائیوں کی تعداد 1580 اور لیڈی ہیلتھ وزیٹر کی تعداد 646تھی ۔ یوں بلوچستان میں ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملے کی مجموعی تعداد 8029 بنتی ہے۔ جنہوں نے بلوچستان کی 15 سے49 سال تک کی عمر کی24 لاکھ سے زائد خواتین کی تولیدی صحت کی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔
اگر ہم صوبے میں صحت کی دستیاب سہولیات کا 15 سے49 سال تک کی عمر کی خواتین کی تعداد سے موازانہ کریں تو ایک اور تلخ صورتحال سامنے آتی ہے کہ بلوچستان میں 471 خواتین کے لئے ایک ڈاکٹر، 3395 کے لئے ایک نرس, 1519 کے لئے ایک مڈوائف / دائی اور 3715 خواتین کے لئے ایک لیڈی ہیلتھ وزیٹر موجود ہے ۔ اسی طرح بلوچستان میں ایک ہسپتال اوسطً 51064 خواتین جن کی عمر 15 سے 49 سال کے درمیان ہے کو خدمات مہیا کرتا ہے۔
ایک ڈسپنسری 4233 ، ایک بنیادی مرکز صحت 4340 ، ایک زچہ و بچہ کی صحت کا مرکز 24242 اور ایک دیہی مرکز صحت 25806 خواتین جن کی عمر 15 سے 49 سال کے درمیان ہے کو طبی سہولیات دینے کے لئے موجود ہے اور تمام طرح کی طبی سہولیات کا ایک بستر صوبے کی 15 سے 49 سال کی 304 خواتین کے لئے دستیاب ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور پہلو بھی توجہ طلب ہے، بلوچستان کے مخصوص قبائلی ماحول میں خواتین کے علاج اور خاص کر زچگی کے کیسز میں اکثر مرد حضرات خواتین کو کسی مرد ڈاکٹر کے پاس لے جانے سے ہر صورت میں گریز کرتے ہیں یہ طرز عمل صوبے میں لیڈی ڈاکٹر ز کی زیادہ تعداد کی صحت کے اس خاص شعبے میں موجودگی کو بڑھا دیتا ہے لیکن حقیقت ضرورت کے برعکس ہے پی ایم ڈی سی کے مطابق 30 جون2014 ء تک بلوچستان میں رجسٹرڈ خواتین میڈیکل پریکیشنرز (ایم بی بی ایس اور اسپشلسٹ) کی تعداد صرف ایک ہزار 7 سو 96 ہے، یوں صوبے میں 15 سے 49 سال کی 1336 خواتین کے لئے صرف ایک لیڈی ڈاکٹر ہے۔
بلوچستان میں صحت کے شعبے کی یہ کسمپرسی اپنی جگہ لیکن خواتین کا ان دستیاب طبی سہولیات سے استفادہ کا رجحان بھی صورتحال کی سنگینی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے کیونکہ حمل کے دوران اور بعد از چگی خواتین کا میڈیکل چیک اپ بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ ماہرین کے مطابق ایسا کرنے سے خواتین کو حمل کے دوران ، زچگی کے وقت اور اس کے بعد کی پیچیدگیوں اور خطرات کی علامات سے آگاہ ہونے، حفاظتی ٹیکوں، خوراک ، احتیاطی تدابیر ، بچے کی دیکھ بھال اس کی خوراک اور صحت کے بارے میں مفید معلومات ملتی ہیں۔ اس کے علاوہ زچہ و بچہ میں کسی قسم کی پیچیدگی کاناصرف بروقت پتہ چل جاتا ہے بلکہ اس کے علاج اور احتیاط کے ساتھ ساتھ بچے کی نگہداشت کے بارے میں ضروری ہدایات بھی مل جاتی ہیں۔
اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کسی بھی خاتون کو نارمل صورتحال میں Parenatal Care کے حوالے سے 4 بار چیک اپ کا مشورہ دیتا ہے لیکن ہمارے مخصوص حالات میں ماہرین کم از کم ایک بار ہی چیک اپ کروا لینے پر زور دیتے ہیں۔ اسی تناظر میں اگر ہم دیکھیں تو پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میئرمنٹ سروے 2012-13 جاری شدہ اپریل 2014کے مطابق بلوچستان میں 50 فیصد مائیں دوران حمل طبی (ڈاکٹر، نرس ، لیڈی ہیلتھ وزیٹر ، لیڈی ہیلتھ ورکر اور روائتی دائی) سہولیات سے استفادہ کرتی ہیں۔ دیہی علاقوں میں یہ شرح 45 فیصد ہے۔ جب کہ زچگی کے بعد بلوچستان کی صرف 23 فیصد مائیں جدید اور روائتی طبی سہولیات سے چیک اپ کرواتی ہیں اوردیہات میں21 فیصد مائیں زچگی کے بعد اپنا معائنہ کرواتی ہیں ۔
دورانِ حمل اور زچگی کے بعد طبی سہولیات سے استفادہ کرنے کے حوالے سے صوبہ بلوچستان پورے ملک میں سب سے پیچھے ہے۔ پی ڈی ایچ سروے 2006-07 ء کے مطابق بلوچستان میں حمل کے دوران چیک اپ نہ کرانے والی خواتین کے 59.7 فیصد کے نزدیک یہ ضروری ہی نہیں کہ وہ چیک اپ کروائیں جو صوبے میں ماں بچے کی صحت کے حوالے سے موجود شعور کی سطح کی واضح عکاسی کرتا ہے، اس کے علاوہ 30.3 فیصد کے نزدیک اس عمل پر اخراجات کافی آتے ہیں جو کہ وہ برداشت نہیں کر سکتے۔
کیونکہ بلوچستان میں آبادی کی ایک بڑی تعداد غربت کا شکار ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ کے Oxford poverty and human development initiative index کے مطابق بلوچستان کی 45 فیصد آبادی کثیر الجہت غربتMultidimensional Poverty کا شکار ہے۔ جو پاکستان بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ جبکہ صوبے کی مزید12.7 فیصدآبادی کثیر الجہت غربت کے حوالے سے Vulnerable ہے۔
ڈاکٹر کوکب لطیف، ڈپٹی ڈائریکٹر ٹیکنیکل، محکمہ بہبود آبادی بلوچستان صوبے میں ماؤں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کی وجوہات پربات کرتے ہوئے اپنا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں۔’’ ہر عورت کا Reproductive Right ہے کہ اسے تمام عمر خصوصاً دوران حمل ، زچگی کے وقت اور اس کے بعد کے ایام میں صحت کی بہتر اور معیاری سہولیات فراہم کی جائیں لیکن ہوتا اس کے برعکس ہے کیونکہ کمیونٹی کی سطح پر ہمارے ہاں تربیت یافتہ Birth Attendants نہیں ہیں جس کی وجہ سے لوگ گھریلو دائیوں سے رجوع کرتے ہیں اور اگر کہیں کوئی تربیت یافتہ Birth Attendant ہے بھی تو لوگ اس کی صلاحیت پر اعتبار نہیں کرتے اس وجہ سے صوبے میں زچگی کے دوران خواتین کی زیادہ اموات واقع ہوتی ہیں ۔
ڈاکٹر کوکب لطیف کے مطابق ہمارے ہاں Political Commitment اور Will نہ ہونے کی وجہ سے صحت کے اس شعبے پر اتنی توجہ نہیں دی جاتی جتنی کی ضرورت ہے اسی وجہ سے ایک تو وسائل کی کمی کا سامنا رہتا ہے دوسرا بجٹ بھی اتنا کم مختص ہوتا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں اور دیگر طبی مراکز میں محفوظ زچگی کے لئے بنیادی سہولیات اور ادویات کی قلت رہتی ہے جس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس کے علاوہ پلاننگ کا فقدان ، طبی مراکز کی کمی ، تربیت یافتہ عملے کی کمی، ضرورت کی جگہ پر عملے کی تعیناتی اور موجودگی کے نہ ہونے کے باعث کیسز کو ہینڈ ل کرنے اور ایمرجنسی کی صورت میں ریفر کرنے میں دیر ہو جاتی ہے‘‘۔
ڈاکٹر فوزیہ بلوچ جو اس وقت بلوچستان کے دورافتادہ علاقہ تربت میں بطور گائناکالوجسٹ اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔ انھوں نے صوبے کے پسماندہ اور دیہی علاقوںمیں محفوظ زچگی کی راہ میں حائل چار بڑی رکاوٹوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا ’’ایک گھر والوں کی جانب سے بروقت فیصلہ نہ کرنا کہ ڈلیوری کہاں اور کس سے کروانی ہے اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں کیا کرنا ہے اور زچہ کو کہاں لیکر جانا ہے ۔دوسرا دائیوں کا کسی پیچیدگی کی صورت میں زچہ کو جلد از جلد ریفر نہ کرنا اور اپنے طور پر کوششیں جاری رکھنا ۔
تیسرا ایمرجنسی کے وقت زچہ کو کسی طبی سہولت تک لیکر جانے کے لئے ٹرانسپورٹ اور روپے کا بندوبست نہ ہونا اس کے علاوہ اگر کسی طبی سہولت تک پہنچ بھی جایا جائے تو وہاں سہولیات کا فقدان یعنی عمارت ہے تو سامان نہیں، سامان ہے تو ڈاکٹر نہیں، ڈاکٹر ہے تو پیرا میڈیکل اسٹاف نہیں، وہ ہے تو ادویات نہیں، دوائیں ہیں تو بجلی نہیں، پانی نہیں، جرنیٹر ہے تو پیٹرول نہیں، ایمبولینس ہے تو ڈیزل نہیں۔ یہ سب عوامل مل کر اس صورتحال کے پیش خیمہ کا باعث بنتے ہیں جس کا آج ہم شکار ہیں اور اس میں بہتری اسی صورت ممکن ہے جب ان محرکات کو سنجیدگی سے دور کیا جائے ” ۔
صوبے کی اس پسماندگی اور محرومی کی جڑ بلوچستان میں تعلیم کی کمی ہے اور خصوصاً خواتین میں یہ شرح تو پورے ملک میں سب سے کم تر ہے جس کی وجہ سے یہاں ماں کی صحت اور زندگی بری طرح متاثر ہو رہی ہے کیونکہ تحقیق سے یہ باتیں سامنے آئیں کہ خواتین کا تعلیم یافتہ ہونا ان کی صحت ، زچگی کے دوران اموات ، بچوں کی پیدائش میں وقفہ ، بچوں کی کم تعداد ، صحت کی سہولیات سے استفادہ کی شرح ، خوراک اور بچوں کی صحت ، اموات اور تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ خود خواتین میں غربت کی کمی کے حوالے سے گہرے مثبت اثرات مرتب کرتی ہے بین الاقوامی تحقیق کے مطابق کسی بچی کا چوتھی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے کے ہر سال کے نتیجے میں خاندان کے سائز میں 20 فیصد کمی، بچوں کی اموات کی شرح میں 10 فیصد کمی اور آمدن میں 20 فیصد اضافہ ہوتا ہے ۔ اکنامک سروے آف پاکستان 2013-14 ء کے مطابق بلوچستان میں 10 سال اور اس سے زائد عمر کی خواتین میں خواندگی کی شرح 44 فیصد اور دیہات میں صرف 23 فیصد ہے۔
صوبے میں ماؤں کی تولیدی صحت جہاں ان کی جسمانی صحت کو متاثر کرتی ہے وہیں یہ ان کی ذہنی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور یہ وہ شعبہ ہے جسے ماں اور بچہ کی صحت کے موضوع میں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام رسو ل سربراہ شعبہ ذہنی صحت بولان میڈیکل کالج کوئٹہ نے اس حوالے سے روشنی ڈالتے ہوئے بتایا ” ماں کی خراب تولیدی صحت ان کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے اور تولیدی صحت کے مسائل کی وجہ سے مائیں ذہنی جنونیت ، ڈپریشن ، انگزائٹی ، خوف ، چڑ چڑاپن ، مرگی ، بچوں کو ضائع کرنے اور خودکشی کی خواہش جیسے ذہنی مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ بچوں کی زیادہ تعداد بھی ماؤں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کرتی ہے، جدید تحقیق کے مطابق کسی ماں کے اگر تین بچے ہوں۔
جس میں سے ایک سکول جانے والا ایک دودھ پینے والا اور ایک درمیان میں ہو تو ایسی ماں میں ایک بچے کی ماں کی نسبت ڈپریشن کے 30 فیصد زیادہ چانسز ہوتے ہیں جب کہ چار بچوں کے خاندان میں 25 فیصد چانسز ایک بچہ کے ذہنی مریض ہونے کے ہوتے ہیں اور ماں اور باپ میں سے کوئی ایک ذہنی صحت کے مسئلے سے دو چار ہو تو یہ چانسز 50 فیصد اور اگر دونوں ہوں تو یہ 80 فیصد ہو جاتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ذہنی مریض بچہ کی ماں میں ڈپریشن کے 50 فیصد زائد چانسز ہوتے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ زچگی کے 100 کیسز میں سے 4 کے دوران مائیں جنونیت کا شکار ہوتی ہیں جب کہ 15 سے 30 فیصد مائیں ڈپریشن اور 30 سے 40 فیصد انگزائٹی کے شکنجے میں جکڑی جاتی ہیں ۔ پروفیسر ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں نرینہ اولاد پیدا نہ کر سکنے کے نام نہاد الزامات ماں کی ذہنی صحت کو شدید طور پر متاثر کرتے ہیں جس سے ماؤں کی شخصیت میں کمی کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ وہ محفل میں شرمندہ اور اپنے آپ کو کم تر محسوس کرنے لگتی ہیں اور ان میں یہ احساس جڑ پکڑنا شروع کر دیتا ہے کہ ان میں کوئی نقص ہے جب کہ جدید تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ اولاد نرینہ کا ہونا یا نا ہونا صرف اور صرف مرد پر منحصر ہے ۔‘‘
بلوچستان میں ماؤں کی صحت کا یہ منظر نامہ ہماری بہت سی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی تو کرہی رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمارے سماجی رویئے بھی زچہ کی صحت اور زندگی کو لاحق خطرات کو دو چند کر دیتے ہیں۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر ہم نے اپنے صوبے کو پسماندگی سے نکال کر ترقی یافتہ علاقوں کی صف میں لانا ہے تو ہمیں اپنی ماؤں کو تعلیم یافتہ بنانا ہوگا۔ ان کو اچھی خوراک ، صحت کی بہتر اور معیاری سہولیات مہیا کرنا اور ان سے استفادہ حاصل کرنے اور فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی شرکت کے لئے اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی۔ تب ہی ہم بحیثیت صحت مند بلوچستانی ترقی کی منازل طے کر سکیں گے۔