پاکستان اور بھارت کی ہاکی ٹیمیں ایشیا کپ 1989ء کے فائنل میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، نئی دہلی کا شیوا جی اسٹیڈیم تماشائیوں سے کچھا کھچ بھرا ہوا ہے، شوروغل اس قدر زیادہ ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی، پاکستان، بھارتی ٹیم کے خلاف پہلا گول کرتا ہے تو شائقین کو سانپ سونگھ جاتا ہے۔
برتری کو دوگنا کرنے کے لئے شاہین اپنے حملوں میں تیزی لاتے ہیں تو اسٹیڈیم میں موجود لوگ بھپرجاتے ہیں اور پاکستانی کھلاڑیوں پر بوتلوں اور پتھروں سے حملہ آور ہوتے ہیں، اس اچانک حملے کی وجہ سے رانا مجاہد علی اور طاہر زمان سمیت متعدد کھلاڑی زخمی ہو جاتے ہیں، کپتان قاضی محب تماشائیوں کی غنڈہ گردی کی شکایت فیلڈ جیوری سے کرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ معاملہ میری پہنچ سے باہر ہے، زخموں سے چور لیکن فتح سے سرشار پاکستانی کھلاڑی دوبارہ میچ جاری رکھتے ہیں اور بھارتیوں کے گول پوسٹ پر ٹوٹ پڑتے ہیں، تماشائیوں کے غصے میں شدت آتی ہے اور ایک بار پھر مہمان میزبانوں کے عتاب کا نشانہ بنتے ہیں، قصہ مختصر میچ کے اختتام تک ریفری کو سات بار میچ روکنا پڑتا ہے۔
پاکستان نہ صرف مقابلہ 2-0سے اپنے نام کرتا ہے بلکہ ایشیا کپ میں ٹائٹل کی ہیٹ ٹرک بھی مکمل کرتا ہے، بھارت میں بھارتی ٹیم کا غرور خاک میں ملانے کے بعد فاتح پاکستانی کھلاڑی چینجنگ روم جاتے ہیں تو اس کے باہر بھی لوگوں کا غم جفیر جمع ہو جاتا ہے اور وہ کھلاڑیوں کی تکا بوٹی کرنے کے در پے نظر آتے ہیں، اس صورت حال کے بعد انتظامیہ کی جانب سے پاکستانی ٹیم کو بس میں بٹھا کر ہوٹل لانے کے انتظامات کئے جاتے ہیں، بس ابھی راستے میں ہی ہوتی ہے کہ بس میں بیٹھی پاکستانی ٹیم پر ایک بار پھر پتھراؤ شروع ہوجاتا ہے، سر پر پتھر لگنے کی وجہ سے چیف کوچ و منیجر اصلاح الدین صدیقی شدید زخمی ہو جاتے ہیں، پاکستان کھلاڑیوں کی جان کو خطرہ محسوس کرتے ہوئے ٹیم کو ہوٹل کی بجائے ایئرپورٹ لایاجاتا ہے جہاں سے قومی کھلاڑی بڑی مشکل سے پاکستان پہنچنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
اس ناخوشگوار واقعہ کو گزرے25 سال کا عرصہ گزر چکا ہے، قوموں کی زندگی میں یہ مدت کم نہیں ہوتی، مہذب قومیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھتی اور آئندہ ایسی غلطیاں نہ دہرانے کے عزم کے ساتھ تابناک مستقبل پر نظر رکھتی ہیں، لیکن افسوس صد افسوس ، بھارتی سرزمین پر ایک بار پھر تاریخ نے خود کو دہرایا، 13دسمبر2014ء کی رات چیمپئنز ٹرافی کے سیمی فائنل میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک دوسرے کے خلاف میدان میں اترتی ہیں، پوری قوم ٹی وی اسکرینوں کے سامنے بیٹھ کر پاکستانی ٹیم کی کامیابی کے لئے دعا کرتی ہے، یہ ان دعاؤں کا اثر اور کھلاڑیوں کی انتھک محنت کا ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ گرین شرٹس نہ صرف روایتی حریف کوشکست سے دو چار کرتی ہے بلکہ 16سال کے طویل عرصہ کے بعد میگا ایونٹ کے فائنل میں بھی جگہ بناتی ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اسپورٹس مین شپ کا مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستانی ٹیم کی پرفارمنس کو سراہا جاتا ،پلیئرز کی آؤ بگھت کی جاتی، انھیں سر آنکھوں پر بٹھایا اور پلکوں پر سجایا جاتا۔ الٹا دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویداروں نے مہمانوں کی زندگی ہی اجیرن بنا دی۔ ایک سینئر کھلاڑی نے راقم کو بتایا کہ سیمی فائنل کے بعد سے لے کر فائنل تک کے 24 گھنٹے کے دوران ہمیں جس اذیت اور کرب سے گزرنا پڑا وہ بیان سے باہر ہے، ہمیں بتایا جاتا رہا کہ شدت پسند تنظیم کی جانب سے حملے کا اندیشہ ہے، ظلم، جبر اور خوف کے اس سائے میں ہم رات کو ایک پل بھی نہ سو پائے، بات یہیں پر ختم نہیں ہوئی بلکہ جرمنی کے خلاف فائنل میچ کے دوران بھی ہمیں تنگ کرنے کے لئے طرح طرح کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، ہمارے خلاف نازیبا الفا ظ استعمال کئے گئے، دہلی میں ہمیں بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا اور اپنی جانیں بچانے کے لئے ہمیں دہلی سے واہگہ بارڈر کا12گھنٹے کا سفر آفیشل کٹ کی بجائے عام کپڑوں میں کرنا پڑا۔
یہ واقعہ اگر پاکستان میں ہوا ہوتا تو بھارتی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا اور دنیا بھر میں پاکستان کو رسواء کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا لیکن کمزور ملکوں کے کمزور عوام کو ظالموں کا ظلم بھی سہنا پڑتا ہے اور نہ کردہ گناہ کی سزا بھی بھگتنا پڑتی ہے، اس کی مثال کچھ ایسے ہی ہے جس طرح انسان کا اندرونی سسٹم کمزور پڑ جائے تو اس پر طرح طرح کی بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ یہی کچھ ہماری قومی ٹیم کے ساتھ بھی ہوا، پلیئرز کو تماشائیوں کی گالیاں بھی سننا پڑیں اور ایف آئی ایچ کی طرف سے پابندیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا، یہاں تک کہ ماضی کے عظیم کھلاڑی اور ٹیم کے ہیڈ کوچ شہناز شیخ کو بھی معافی مانگنا پڑی۔ اتنا کچھ کروانے کے باوجود انڈیا ہاکی کی انتقام کی آگ ابھی ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے اور پاکستان ہاکی فیڈریشن سے بھی معافی مانگنے کا تقاضا کیا جا رہا ہے، اتنا کچھ ہونے کے باوجود ہمارے بھولے بھالے فیڈریشن عہدیدار ابھی بھی ہمسایہ ملک سے ہوم اینڈ اوے کی بنیاد پر سیریز ہونے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔
چانکیہ نے کہا تھا کہ جو ڈر جائے اسے ہمیشہ کے لئے ڈرائے رکھو اور جو نہ ڈرے اس سے ہمیشہ ڈرے رہو، چانکیہ کا یہ قول بھارت کی نفسیات بھی ہے اور دفاعی پالیسی بھی۔ ہم جب تک بھارت سے نہیں ڈرتے تھے اس وقت تک بھارت ہم سے ڈر کر رہتا تھا لیکن جب سے ہم نے اس کے چھوٹے موٹے مطالبات ماننا شروع کر دیئے ہیں، اس نے ہم پر ڈرائے رکھنے کی پالیسی استعمال کرنا شروع کر دی ہے۔
یہ سچ ہے کہ موجودہ دور میں کھیلوں کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، کھلاڑی ملکوں میں پیار محبت بانٹتے اور امن کا پرچار کرتے ہیں، یہ بات دوسری دنیا کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن اس فارمولا، اس نظریہ، آس آئیڈیا اور اس تھیوری کو پاکستان بھارت پر اپلائی نہیں کیا جا سکتا۔ بھارت پاکستان کو قریب آنے کا موقع اس وقت ہی دیتا ہے جب اس کا اپنا مفاد ہوتا ہے۔ وہ اسپورٹس ڈپلومیسی کی باتیں کرتا ہے، ویزہ میں نرمی لانے کے فریب دیتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ راستے کھولو، تجارت شروع کرو، ثقافتی اور تجارتی وفود کا تبادلہ کرو، ساتھ مل کے ناچو، ساتھ مل کے گاؤ، پھر کیا ہوتا ہے کہ سرحدیں کھول دی جاتی ہیں، بھارتی وی آئی پی شخصیات اور شہری بڑی تعداد میں پاکستان کا رخ کرتے ہیں، پیار محبت، دوستی اور امن کا پرچار کرتے ہیں، چھوٹے بڑے بھائی کے راگ الاپے جاتے ہیں لیکن پیار ومحبت کی پینگوں کے پیچھے بھارت کی نیک نیتی نہیں بلکہ دوستی کی آڑ میں پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپنا مقصود ہوتا ہے۔اور ہم بھولے بادشاہ چالاک اور عیار دشمن کی چالوں میں آکر اس کی ہر بات اور ہر وعدے کا یقین کر لیتے ہیں۔ہمارے مذہب میں ہے کہ مومن کبھی ایک سوراخ سے2 بار نہیں ڈسا جاتا۔اب ہم نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر کمزور پن کا مظاہرہ کرنا ہے یا پھر جرات و بہادری کا ثبوت دیتے ہوئے نئے جہاں تلاش کرنے ہیں۔