بھارتی زیرتسلط مقبوضہ جموں وکشمیرمیں الیکشن ڈرامہ اپنے روایتی دھونس، دھاندلی، فراڈ اور طاقت کے استعمال جیسے ہتھکنڈوں کے ساتھ جاری ہے۔ پانچ دسمبر کو دوسرے مرحلے کی پولنگ ہوئی جس میں پولنگ کے لیے بھرپور ریاستی مشینری کا استعمال کیا گیا۔
دوسرے مرحلے میں مجموعی طورپرمقبوضہ ریاست کی 18نشستوں کیلئے ووٹ ڈالے گئے ہیں ، جس میں جموں کی 9 اور کشمیر کی 9 نشستیں شامل ہیں۔ ان18 نشستوں میں سے فی الحال نیشنل کانفرنس 6 نشستوں پر، 3 پر کانگریس ،4 پر پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی ،2 پر جموں کشمیر نیشنل پینتھرس پارٹی، ایک پر بھارتیہ جنتا پارٹی، ایک پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) سی پی آئی( ایم) اور ایک پر آزاد رکن کا قبضہ ہے۔
دوسرے مرحلے میں جن اہم لیڈران کی سیاسی قسمت کا فیصلہ ہو گا، ان میں سجادغنی لون اور چار ریاستی وزرا شامل ہیں۔ دوسرے مرحلے میں اہم ترین حلقوں میں جموں سے تین اضلاع راجوری، ادھم پور اور ریاسی میں تین تین نشستیں، کپواڑہ کی 5 اور کولگام ضلع کی 4 نشستیں شامل ہیں ۔ ان حلقوں میں مجموعی طور 15لاکھ 35 ہزار87 رجسٹرڈ ووٹر ہیں جہاں سے مجموعی طور پر 175امیدواروں کے درمیان مقابلہ تھا۔
بھارتی میڈیا نے حسب روایت جموں وکشمیر میں ریکارڈ پولنگ کا ڈرامہ رچایا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں کے علاقے جہاں ہندوؤں اور دیگر غیرمسلموں کی اکثریت ہے وہاں پر نہ صرف لوگ گھروں سے نکلتے اور پولنگ میں حصہ لیتے ہیں مگر وادی کشمیرکے بارے میں بھارتی سرکاری اور ابلاغی اداروں کے دعوے حقیقت سے دور دور کا تعلق بھی نہیں رکھتے ہیں ۔ دوسرے مرحلے کی پولنگ میں بھی وادی کشمیر کے حلقوں میں بھارتی فوج، پولیس بارڈر فورسز سمیت درجنوں سرکاری اور نجی سکیورٹی اداروں کی مدد سے شہریوں کو بندوق کی نوک پرگھروں سے نکال کر انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے پولنگ مراکز لایا جاتا رہا۔
کپواڑا سمیت کئی شہروں میں نہ صرف شہریوں نے انتخابی ڈرامے کا بھرپور بائیکاٹ کیا بلکہ دن بھر قابض فوج کے خلاف مظاہرے، جلوس اور پتھراؤ کا سلسلہ جاری رکھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ بھارتی فوجیوں نے جگہ جگہ ناکے لگا کرشہریوں کے ہاتھوں کی چیکنگ شروع کہ آیا ان کی انگلیوں پر ووٹ ڈالنے کے لیے استعمال ہونے والی سیاہی موجود ہے یا نہیں ۔
کپوڑا کے ایک مقامی شہری نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے پرایک اخباری نمائندے کو بتایا کہ ہمیں اندازہ تھا کہ بھارتی فوج شہریوں کو گھروں سے پولنگ اسٹیشنوں تک لانے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گی، یہی وجہ ہے کہ لوگ خود ہی گھروں سے نکل پڑے لیکن وہ پولنگ مراکز میں جانے کے بجائے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے چلے گئے۔ انہوں نے گھروں سے نکلتے ہی اپنی انگیوں پر سیاہی کے نشان لگا لیے تھے تاکہ کسی بھی چوکی یا ناکے پر وہ اپنی جان بچانے کے لیے یہ ظاہر کرسکیں کہ انہوں نے بھی ووٹ ڈالا ہے۔ بھارتی میڈیا اور سرکاری ادارے سڑکوں پراحتجاج کرنے والوں کو بھی ووٹ ڈالنے والوں میں شامل کرتے رہے ہیں۔
انتخابی ڈرامے میں وادی کے شہریوں کو طاقت کے ذریعے گھروں سے نکالنے کے لیے طرح طرح کے مکروہ ہتھکنڈے استعمال کیے گئے۔ پولنگ سے ایک روز قبل فوجیوں کی جانب سے مخصوص علاقوں میں درجنوں افراد کو گھروں سے اٹھا کر حراستی مراکز لے جایا گیا تاکہ وہ احتجاجی جلوس منظم نہ کرسکیں ۔ خواتین کو ڈرایا دھمکایا گیا کہ اگروہ ووٹ ڈالنے گھروں سے باہرنہ آئیں تو ان کے جواں سال بیٹوں کو اٹھا کر وہاں پہنچا دیا جائے گا جہاں زندگی بھر ان سے ملاقات نہیں ہو سکے گی ۔
بی جے پی، این ڈی پی اور نیشنل کانگریس کے بدمعاش قسم کے امیدواروں کی جانب سے ووٹروں کو الگ سے دھمکیاں ملتی رہیں ۔ انہوں نے ہرعلاقے میں اپنے ایجنٹ بھیج رکھے تھے جہاں وہ شہریوں کو لالچ اور خوف کے ذریعے اپنے من پسند امیدواروں کے لیے ووٹ ڈالنے پرقائل کرتے رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مودی حکومت نے بھارت کے مختلف شہروں سے دو سے زائد مسلمان ایجنٹ وادی میں بھیج رکھے ہیں جو کشمیریوں کو نہ صرف بی جے پی کی حمایت میں ووٹ ڈالنے پر اثرانداز ہو رہے ہیں بلکہ وہ پس پردہ تحریک آزادی کو دبانے کے لیے بھی آلہ کار کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
مقبوضہ وادی کی انتخابی صورت حال پر نظر رکھنے والے مبصرین جہاں موجودہ انتخابی ڈرامے کو مسترد کرتے ہیں وہیں وہ اسے آنے والے وقت کے لیے ایک سیاسی طوفان سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جنت ارضی کشمیر میں ایک نئے خطرے کی آہٹ سنی جا رہی ہے۔ قدرتی طوفان اور سیلاب سے نجات پانے کے فوراً بعد اہل کشمیر کے سر پر ایک اور طوفان منڈلارہا ہے۔ مرکز میں برسر اقتدار پارٹی بی جے پی عام انتخاب کے ساتھ مہاراشٹر اور ہریانہ میں تاریخ ساز کامیابی سے ہم کنار ہونے کے بعد اب کشمیر میں بھی ایک نئی تاریخ رقم کرنے کے لئے تگ و دو میں مصروف ہے۔
ہریانہ اور مہاراشٹر ان دونوں ریاستوں میں بی جے پی پہلی مرتبہ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی ہے اور اب ایسی ہی کاوشیں کشمیر میں بھی نظر آر ہی ہیں۔ یہ ایک پراسرار راز ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی او ل دن سے کشمیریوں کو زبانی کلامی لبھانے میں لگے ہیں ۔
وزیر اعظم بننے کے بعد وہ وادی کے کئی دورے کر چکے ہیں ۔ چھ دسمبر کے دورے کے موقع پر کشمیر مجاھدین نے مودی کو 11 فوجیوں کی لاشوں کی شکل میں تحفہ دیا۔ یہ انتخابی ڈرامے کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک واضح مثال ہے۔ بھارتی سورماؤں کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے وادی سے تحریک مزاحمت مکمل طور پر کچل کر رکھ دی ہے اور انتخابات کے دوران کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آئے گا۔
مودی اب انتخابی تشہیر کے دوران کشمیریوں کو اپنے ان دوروں کی یاد دلارہے ہیں کہ ہم نے کشمیر کی محبت میں یہاں کے سب سے زیادہ دورے کئے ہیں، لہٰذا اس کشمیر پر حکومت سازی کا حق بھی ہمارا ہے۔ عام انتخاب کے دوران بی جے پی کے انتخابی منشور کا ایک اہم حصہ کشمیر سے دفعہ 370 کو ہٹانا تھا لیکن اب یہی پارٹی ریاستی الیکشن کے دوران اس دفعہ کے بارے میں خاموشی اختیار کر چکی ہے۔ کشمیر کے لئے جاری کئے گئے اپنے انتخابی منشور میں اس شق کو شامل نہیں کیا گیا۔ پارٹی کے صدرامت شاہ ، سابق صدر اور موجود ہ وزیر داخلہ رج ناتھ سنگھ اور دیگر بڑے بڑے لیڈران اس مو ضوع پر گو مگو کا شکا ر ہیں ۔
نریندر مودی جو عام انتخاب کے دوران دفعہ 370 کو ہٹانے کا ببانگ دہل دعوی کر رہے تھے ، وہ ریاستی الیکشن کے دوران اس موضوع پر تادم تحریر بالکل ہی خاموش ہیں۔ چند روز قبل یہ خبرسامنے آئی تھی کہ کشمیر میں مبینہ طور پرغیر کشمیری دو سو مسلمان مبلغین پر مشتمل ایک ٹیم بی جے پی کی حمایت کے لئے تشہیری عمل میں مصروف ہے۔ ایک وقت تھا جب بی جے پی کو کشمیر میں اپنا کوئی نمائندہ نہیں ملتا تھا لیکن اس مرتبہ جموں وکشمیر کی 87 اسمبلی سیٹوں میں سے بی جے پی 70سیٹوں پرانتخاب لڑ رہی ہے۔ وادی سے اس نے 25 مسلمانوں کو، جموں سے چھ اور لداخ سے ایک مسلمان کو امیدوار بنایا ہے۔کئی نامور مسلم سیاست داں بھی بی جے پی کا دامن تھام چکے ہیں اور وہ بی جے پی کے ٹکٹ پر چناؤ بھی لڑ رہے ہیں ، جن میں سرفہرست حنا بٹ ہیں جو عمر عبداللہ کی پارٹی نیشنل کانفرنس کے ایک سابق پارلیمنٹ ممبر محمد شفیع بٹ کی صاحبزادی ہیں۔
اسلامی تشخص خطرے میں
ریاست جموں وکشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: جموں، وادی کشمیر، لیہہ اور لداخ ۔ گزشتہ الیکشن میں بی جے پی نے جموں میں اچھی کامیابی حاصل کی تھی۔ حالانکہ جموں کبھی کانگریس کا گڑھ تھا۔ اس بار وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی حکمت عملی لداخ کی سمت موڑ رکھی ہے، وہاں بھی غیر مسلموں کی اکثریت ہے، بڑی تعداد بدھ مت سے تعلق رکھنے والے افراد کی ہے۔ لداخ میں ترقی کے نام پر مودی نے عوامی سطح پر جو پروگرام پیش کیا ہے۔
اس سے مقامی آبادی کا متاثر ہونا یقینی ہے۔ اس لئے لگ یہی رہا ہے کہ لداخ میں بھی بی جے پی کو جموں ہی جیسی کامیابی مل سکتی ہے۔ اِن دو علاقوں میں مجموعی طور پر 41 اسمبلی سیٹیں ہیں اور ریاستی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے 44 سیٹوں کی ضرورت ہے۔ شاید اسی لیے بی جے پی نے جموں وکشمیر الیکشن کو ’’مشن 44 پلس‘‘ کا نام دیا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بعید از قیاس نہیں ہوگا کہ بی جے پی کچھ چھوٹی پارٹیوں کے سہارے پہلی بار جموں وکشمیر میں اقتدار پر قابض ہونے کا جوا کھیلنے جا رہی ہے۔
وادی میں 46 اسمبلی سیٹیں ہیں، یہ کسی دور میں نیشنل کانفرنس کا گڑھ تھا لیکن کشمیر کے سیلاب کے دوران اور بعد میں بطور وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے جس بے حسی او رلاپروائی کا مظاہرہ کیا، اس نے وادی میں نیشنل کانفرنس کو غیر مقبول بنادیا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کشمیری عوام عمر عبد اللہ کی حکومت سے بہت ناراض ہو چکی ہے۔
حالیہ دنوں میں آئے تباہ کن سیلاب اور افضل گوروکی پھانسی نیشنل کانگریس کی جیت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے، جب کہ مفتی محمد سعید اور ان کی پی ڈی پی نیشنل کانفرنس سے زیادہ مقبول ہے اور اسے اچھی خاصی سیٹیں مل سکتی ہیں ۔ اتنا طے ہے کہ بی جے پی نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی دونوں کے لئے مشکلیں کھڑی کر چکی ہے۔ یہ پہلامو قع ہے جب وہاں سہ رخی جنگ چھڑ گئی ہے۔
اگرسیاست نے کوئی انہونی کروٹ لی اور بی جے پی اگر اپنے مشن میں کامیاب ہوگئی تو پھر جس طرح مرکز میں اس کے آنے کے بعد وہ تمام اندیشے سچ ثابت ہوتے نظر آرہے ہیں جن کا پہلے اظہار کیا جا رہا تھا، اب وہ سب کشمیر میں حکومت آنے بعد بھی ہوگا اوراولین فرصت میں بی جے پی دفعہ 370 کو منسوخ کر واکے کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ مکمل انضمام کرنے کی کوشش کرے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ چناؤ مہم میں فی ا لحال جو موضوعات چھیڑے جا رہے ہیں ان میں بی جے پی نے دفعہ370کا کہیں تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ وہ یہ کوشش کر رہی ہے کہ ریاستی چناؤ میں ’’ہندو تو‘ ‘کا ایجنڈا موضوع بحث ہی نہ بنے۔ صرف تعلیمی، اقتصادی ترقی ، امن وسلامتی اور روزگار فراہم کرنے کے دلکش وعدوں کے سہارے ہی وہاں فتح کا علم لہرایا جائے۔
کشمیر انتخاب کی تاریخ کا ایک دوسرا کڑوا سچ یہ ہے کہ وہاں کا ہر انتخاب مرکز کے دباؤ میں ہوتا ہے۔ اب تک ہونے والے کسی بھی انتخاب کو منصفانہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔ نہ ہی انہیں صحیح انتخاب کہا جا سکتا ہے۔ کشمیریوںکو ابتداء ہی سے یہ شکایت رہی ہے کہ چناؤ میں فوج اہم کردار ادا کرتی ہے۔ کچھ مخصوص علاقوں کو چھوڑ کر ووٹنگ فوج کے اشاروں پر ہوتی ہے اور وقت کی مرکزی حکومت جسے چاہتی ہے بحیثیت کنگ میکر اسے ایوان اقتدارتک پہنچا دیتی ہے۔
اب تک کشمیر میں حکمت عملی یہ رہی ہے کہ بڑی سیاسی پارٹیا ں خود تواقتدار سے دور رہیں مگر اقتدار کی لگام ان کے ہی ہاتھوں میں رہی، اسی لیے ریاست جموں وکشمیر میں حکومت چاہے جس پارٹی کی رہی ہو مرکز کا ہمیشہ مرکزی کردار رہا ہے۔ ملک کی ایک چھوٹی ریاست ہونے کے باوجود کشمیر پر مرکزی حکومت کا سب سے زیادہ سرمایہ صرف ہوتا ہے لیکن یہ سرمایہ عوامی فلاح وبہبود کے منصوبوں کی بجائے سیاست دانوں کی تجوریوں، حفاظتی تیاریوں اورفوج کی نذر ہو جاتا ہے۔
رواں اسمبلی الیکشن میں کشمیر آزمائش کے ایک اور نئے موڑ پر کھڑا ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے متبادل کے طور پر جو پارٹی ان کے سامنے ہے وہ ان کی رہی سہی خصوصیت بھی ختم کردے گی ۔ شاید وزرات اعلیٰ کی کرسی اگر کسی مسلمان کو دی بھی جائے مگر وہ ہر حال میں بھاجپا کی کٹھ پتلی اورغیر موثر ہوگا۔ کشمیر ہندوستان کی واحد ریاست ہے جس کی باگ ڈور مسلم وزرائے اعلیٰ کے ہی ہاتھوں میں شروع سے رہی ہے لیکن اب یہ منصب بھی خطرے میں ہے۔
میرے خیال میں کشمیر انتخاب کی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے جب دیگر مسائل کے ساتھ وہاں کے وزیر اعلیٰ کے بارے میں بھی ہر کسی کو یہ تشویش ہو رہی ہے کہ اس مرتبہ وزیر اعلیٰ کے منصب پر کوئی مسلمان ہی براجمان ہوگا یا پھر تاریخ ایک نئی کروٹ لے گی ؟ ہندوستان کی واحد ریاست سے بھی مسلم وزیر اعلیٰ کا وجود ختم ہو جائے گا۔ یہ ایک گھناؤنی سازش ہے جس کا مقصد وادی کشمیر کے مسلم تشخص کو ختم کرنا ہے۔