Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4424

ناکامی بھی اہم ہوتی ہے؛ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ناکامی کے بغیرہم کہیں کے نہیں

$
0
0

’ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے‘ اس معروف کہاوت کے الفاظ کا اصل مفہوم سمجھنے کی کوشش کم ہی لوگ کرتے ہیں۔ جو لوگ کامیابی کی اس سیڑھی کی اہمیت کو پالیتے ہیں، کامیابی آگے بڑھ کر انہی کے قدم چومتی ہے، جو لوگ اس راز کو نہیں جان پاتے کامیابی ان کے لیے کبھی نہ حاصل ہونے والی منزل بن کر رہ جاتی ہے۔

بھارت کے شیوا کھرا اپنی مثبت سوچ کو تحریروں کا روپ دے کر دنیا میں ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بدل رہے ہیں۔ وہ اپنی مدد آپ کے نظریے کی حامل کتب کے ایک معروف مصنف ہیں۔ انٹرنیٹ پر تقریباً ایک ملین سے زائد لوگ ان کی خودنوشت پڑھ چکے ہیں۔ ہم شیوا کے ماضی پر نظر ڈالیںتو معلوم ہو تاہے کہ شیوا ہمیشہ سے کامیاب شخصیت نہیں تھے۔ کامیابی کے اس سفر کے دوران انہوں نے بیسیوں ناکامیاں اور مایوسیاں دیکھیں۔ زمانہ طالب علمی میں ہو نہار طالب علم نہ تھے بلکہ وہ دسویں جماعت میں فیل ہوگئے تھے۔

کیریئر کے ابتدائی دور میں شیوا نے ایسی بے شمار مشکلات کا سامنا کیا۔ کینیڈا میں کاروں کی دھلائی سے انہوں نے اپنا کیرئیر شروع کیا۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے ایک انشورنس کمپنی میں انشورنس ایجنٹ کے طور پر قسمت آزمائی کی جس میں وہ بری طرح ناکام ہو گئے۔ان کی زندگی مشکلات کے اور ناکامیوں کے قصوں سے بھری پڑی ہے۔۔کبھی انہوں نے فرنچائز آپریٹر کے طور پر کام کیا اور کبھی سیلز مین کے طور پر ویکیوم کلینر بیچنے کا دھندا اپنایا۔ لیکن آج ان کا شمار دنیا کے بہترین موٹیویشنل اسپیکرز میں ہوتا ہے۔

لاکھوں لوگ ان کے سیمیناروں میں شرکت کر کے اپنی زندگیوں کے لیے محرک حاصل کرتے ہیں۔ اب تک شیوا کی سولہ کتابیں دنیا بھر میں چھپ چکی ہیں ان کی پہلی کتاب ‘ ’یو کین ون‘ (You Can Win) 1998ء میں چھپی جس نے زیادہ فروخت ہونے والی کتابوں کے بہت سے ریکارڈ توڑ دیے۔اب تک اس کی 6.76 ملین کاپیاں فروخت ہوچکی ہیں۔ مصنف اس کتاب کی بدولت بہت سے ایوارڈز بھی حاصل کر چکے ہیں۔ ان کا ایک قول ہے:’ کامیاب لوگ مختلف کام نہیں کرتے بلکہ وہ کام کو مختلف طریقے سے کرتے ہیں۔‘

تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے، جن سے ہمیں اپنے مقاصد کی راہ میں آنے والی مشکلات اور بعض اوقات مایوس کردینے والی ناکامیوں کا دلیری سے سامنا کرنے کا سبق ملتا ہے۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ ناکامیاں آدمی کو ہرانے نہیں آتیں بلکہ سکھانے آتی ہیں کہ ہمیں کیسے جیتنا ہے۔ بہت سے بڑے سائنس دانوں اور کوہ پیماؤں نے ناکامیوں سے بہترین اسباق حاصل کئے اورکامیابیوں کے جھنڈے گاڑے اور دوسروں کے لئے امیدوں کے چراغ روشن کیے۔

انیسویں صدی کے اواخر میں درمیانی عمر کے ایک سویڈش انجینئر جو ٹیکنالوجی کے سحر میں مبتلاتھا، کے ذہن میں ایک انوکھے خیال نے جنم لیا کہ زمین کے شمالی قطب کو دریافت کرنے کیلیے کیوں نا ہائیڈروجن کے غبارے میں اڑان بھری جائے جو مریخ کی طرح پراسرار اور نامعلوم سی جگہ ہے۔ برسوں تک متعدد سیاحوں نے اس قطب تک پہنچنے کی سعی کی تاہم بہت سے لوگ اس کوشش کے دوران ہلاک ہو گئے۔

پھر جولائی1897ء کے ایک دن جب تیز ہوا چل رہی تھی، الفریڈ نوبل اور سویڈن کے بادشاہ سیلمن اوگسٹ اینڈری کی مدد سے دو نوجوان ساتھی سوالبارد ( یورپ کے شمال میں بحر منجمد شمالی میں واقع ایک مجموعہ جزائر ،جو ناروے اور قطب شمالی کے وسط میں واقع ہے) میں واقع ڈین کے جزیرے پر67 فٹ قطر پر محیط کے ایک ٹوکرے میں سوار ہوئے۔ اس ٹیم نے لکڑی کی برف گاڑیاں، کئی مہینوں کا کھانا اور پیغام پہنچانے والے کبوتر ساتھ رکھ لئے۔ حتیٰ کہ ایک ڈنرسوٹ بھی کہ اینڈری سفر کے اختتام پراسے پہنے گا۔

وہ ایک ایسی جگہ کی طرف پروازکرگئے جہاں کسی انسان نے آج تک قدم نہیں رکھاتھا، اخبار نویس اور خیرخواہان انہیں ہاتھ ہلا کر الوداع کہہ رہے تھے اور خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے۔ جیسے جیسے وہ بلندی کی طرف پرواز کرتے گئے، تیز ہوا کے تھپیڑوں سے غبارہ تباہ ہونے لگا، اس پر جمنے والی دھند اسے نیچے کی طرف دھکیلنے لگی۔

ساڑھے پینسٹھ گھنٹوں تک ایگل (غبارے کا نام) بحر اوقیانوس کے کنارے چھینٹے اڑاتا اور غوطے کھاتا رہا۔ اس کے بعد یہ غبارہ مسافروں سمیت برف میں دب گیا۔ تنتیس سال بعد چند ملاح اینڈری اور اس کے مہم جو ساتھیوں کی برف میں جمی ہوئی لاشوں سے جا ٹکرائے، ساتھ ان کے کیمرے اور ڈائریاں بھی پڑی ہوئی تھیں جن سے پتہ چلاکہ یہ لوگ شمالی قطب سے298 میل دور اترنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ بعدازاں تینوں آدمی تین ماہ تک شمال کی طرف حد درجہ تھکا دینے والے سفر کے دوران فنا کے گھاٹ اترگئے تھے۔ان دیکھی دنیا کو تسخیر کرنے کی کوشش ناکام ہو چکی تھی، کوشش کرنے والے موت کے گھاٹ اتر چکے تھے۔کیا ایسی کوشش کرنا حماقت نہیں تھی؟؟

اس دنیا میں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ ناکامی سے دوچار ہوکیونکہ یہ خوفناک ہوتی ہے تاہم اسے نظر اندازکرنابھی ممکن نہیں۔ سیاحت کرنے والوں کے سر پر یہ کسی بھوت کی طرح منڈلاتی رہتی ہے۔ اس کے باوجود یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ناکامی کا ڈنگ کھائے بغیر ترقی کرناممکن نہیں، یہ ڈنگ ہمیں دوبارہ سوچنے اور اندازہ لگانے پر آمادہ کرتا ہے۔ ایک دانانے کہاتھاکہ دوبارہ کوشش کرو، دوبارہ ناکام ہو جاؤ مگرپہلے سے بہترطریقے سے ناکام ہونا۔ موجودہ دور میں یہ شعور بڑھ رہاہے کہ ناکامی کس قدراہم ہوتی ہے۔

اساتذہ غور و فکر کررہے ہیں کہ بچوں کو ناکامی سے کس انداز سے روشناس کرایا جائے کہ وہ اس سے گھبرانے کے بجائے پرسکون رہیں اور تن دہی اس کا سامنا کریں۔ کاروبار کی تعلیم دینے والے اداروں میں اس سے متعلق باقاعدہ اسباق پڑھائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ماہرینِ نفسیات تحقیق کررہے ہیں کہ ہم کامیابی کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ناکامی کو اپنے ساتھ کیسے رکھ سکتے ہیں۔ لفظ ’کامیابی‘ کا انگریزی ترجمہ success ہے اور یہ لاطینی لفظ succedere سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں ’بعد میں آنے والا‘، یہ کس کے بعد آتی ہے؟ جی ہاں! یہ ناکامی کے بعد ہی آتی ہے۔

ناکامی اور کامیابی دونوں لازم وملزوم ہیں۔ ایک کا دوسرے کے بغیر تصور بھی ممکن نہیں۔ ٹائی ٹینک کو دریافت کرنے والے اوشینوگرافر رابرٹ بیلرڈ جو زیرِ سمندر 130مہمات کا تجربہ رکھتا ہے اسے کامیابی اور ناکامی کا انٹر پلے قراردیتے ہیں۔ جب ہم مکمل طور پر مفلوک الحال ہوجاتے ہیں، تب بھی ناکامیاں اگلی مرتبہ مختلف انداز میں جدوجہد کرنے میں مدد دیتی ہیں۔

ماہر کوہ پیما پیٹ ایتھنز جسے دنیا کی سب سے بلند چوٹی سات مرتبہ سر کرنے کا اعزاز حاصل ہے،کہتے ہیں:’’میں نے ماؤنٹ ایورسٹ کی کوہ پیمائی کی ابتدائی چار کوششوں کے دوران سیکھا کہ کیسے نہیں چڑھنا چاہیے۔ ناکامی آپ کو اپنی جدوجہد بہتر کرنے کا موقع دیتی ہے۔ آپ بتدریج نکھرتی ہوئی ذہانت کے ساتھ خطرات مول لیتے جاتے ہیں‘‘۔ پیٹ ایتھنز نے اس بات کی روشنی میں اپنی ٹیم کو مزید سبک رفتار بنایا اور1990ء میں ایسے کم آزمائشی راستے کا انتخاب کیا جس کے نتیجے میں اس نے پہلی کامیاب چڑھائی کی۔

ناکامی ہمیں یہ بھی یاد دلاتی ہے کہ کسی بھی قسم کی جدوجہد میں خوش بختی کا کردارنمایاں ہوتا ہے۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیوں کو سر کرنے والے کوہ پیماؤں کے چھوٹے کلب کے ایک رکن ایلن ہنکس کو بد قسمتی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا بازو ٹوٹ گیا، قرونِ وسطیٰ میں استعمال ہونے والے نیزے جیسی (درخت کی) ایک شاخ اس کی ٹانگ میں دھنس گئی۔ پاکستان میں واقع26660 فٹ بلند نانگا پربت کی چوٹی کے قریب وہ اتنی زور سے چھینکا کہ اس کی ایک ڈسک پھسل گئی، وہ زخمی ہوا، یوں اسے واپس آناپڑا۔ وہ کہتا ہے :’’میں تقریباّ مرنے کے قریب تھا‘تاہم میں ناکام نہیں ہوا تھا بلکہ میں کامیاب ہوتے ہوتے رہ گیا تھا‘‘۔

رابرٹ فیلکن سکاٹ جو1912ء میں شمالی قطب میں پہنچنے کے بعد اپنی ٹیم کے ساتھ موت کی وادی میں چلا گیا، کو برطانیہ میں ہیرو مانا جاتا ہے۔ آسٹریلین باشندوں نے انیسویں صدی میں جنوب سے شمال کی جانب کی جانے والی تباہ کن مہم جوئی کے نتیجے میں نقل مکانی کی جس کا انجام ٹیم کے رہنماؤں کی موت کی صورت میں ہوا تھا۔

یہ کہانیاں اب تک ناکامیوں کے عنوان سے ہماری زندگیوں کا حصہ بنی ہوئی ہیں۔ ہم تجزیہ کرنے کی غرض سے اپنی ناکامیوں کی یاد میں مصروف رہتے ہیں جبکہ اسی اثنا میں کامیابی تیزی سے ہمارے پاس سے گزر جاتی ہے۔

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بہت زیادہ کامیابیاں حد سے زیادہ خود اعتماد ی کا سبب بن جاتی ہیں، جس کا نتیجہ ناکامی کی صورت میں بھی برآمد ہوتا ہے۔1996ء میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرتے ہوئے12کوہ پیما ہلاک ہو گئے تھے،دراصل یہ کوہ پیما’غلط‘ اندازہ لگا بیٹھے تھے کہ انہوں نے پہاڑ پر تاریں لگا کر چڑھائی کا بہتر ’حل‘ تلاش کر لیا ہے۔ اینتھنز جس نے ریسکیو آپریشن کی سربراہی کی، کا کہنا ہے ’’آپ ناکامی سے بچنے کے لیے جو فارمولا استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں، وہ آپ کو مصیبت میں مبتلا کرتا ہے جبکہ ناکامی آپ کو تباہی سے دور رکھتی ہے‘‘۔

سائنسی محققین علانیہ طور پر اپنی ناکامیوں کا اعتراف کرنے سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ شہرت اور ملنے والے فنڈز کا انحصار کامیابی پر ہوتا ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں کم ازکم نصف درجن سائنسی مقالوں( جن میں سے زیادہ تر ادویات اور صحت کی حفاظت سے متعلق تھے) کی صورت میں ناکام تجربات،تحقیقات اور کلینیکل ٹرائلز کی رپورٹس شائع کی گئی ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ ’منفی‘ نتائج آخر کار مثبت انجام کا ذریعہ بنتے ہیں۔ کاروبار کی دنیا خاص طور پرہائی ٹیکنالوجی کے شعبہ نے منفی نتائج کی اہمیت کو سمجھاہے۔

اس شعبہ کاآغاز غیرمعمولی تیزی سے ہواتھا، اسے عروج بھی ملا اور پھر جلد ہی یہ ابھرنے والا شعبہ تھکن سے دوچارہوا۔ منفی نتائج تب ہی اہم ہوتے ہیں اگر وہ سستے ہوں اور تباہ کن نہ ہوں۔ انٹرپرینیورشپ کی حوصلہ افزائی کرنے والی ہالینڈ کی ایک کمپنی اے۔بی۔این امرو بنک نے ’انسٹی ٹیوٹ آف بریلیئنٹ فیلئیرز‘کے نام سے ایک ادارے کا آغاز کیا ہے۔

ایلی للی اینڈ کمپنی نامی ایک دیو ہیکل فارماسوٹیکل کاروباری ادارے نے دو عشرے قبل اثر نہ دکھانے والی ادویات پر کیے جانے والے ٹرائلز سے قابلِ قدر ڈیٹا کشید کرنے کے لیے ان کے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کے شعبہ نے ناکام پارٹیاں  parties) (Failureمنعقد کرنا شروع کر دیں، نتائج کے مطابق اس قسم کے 90 فیصد ٹرائلز ناکام ہو جاتے ہیں۔ کچھ اداروں نے اب کامیابی کی رپورٹس کے ساتھ ساتھ ناکامیوں کی رپوٹس بھی مانگناشروع کردی ہیں۔

کاروباری رہنما ناکامیوں سے بنیادی اسباق حاصل کرتے ہیں لیکن وہ بڑی تصویر میں موجود حقائق سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہاورڈ بزنس سکول کی ایک پروفیسر صدی پرانی اس علامتی سیاحتی ناکامی کی کہانی سے اتنی مرعوب ہوئیں کہ انھوں نے اپنی ایم بی اے کی کلاس کو لیڈرشپ سکھانے کے لیے اس(کہانی) پر ایک سٹڈی کیس لکھ مارا۔ مورخ نینسی کوہن کے مطابق اس پروفیسر نے آئرش کے باسی اور قطبی سیاح ارنسٹ شیکلیٹن کی کہانی کم از کم ایک سو مرتبہ پڑھائی۔ 1914-16ء میں انٹارکٹکا کو پار کرنے کی شیکلیٹن کی مہم اس وقت برباد ہوگئی جب اس کا بحری جہاز ’دی اینڈیورینس‘ برف میں پھنس گیا تھا۔ بہرحال شیکلیٹن اپنے ساتھیوں سمیت بحفاظت واپس گھر پہنچ گئے۔

کیاایک سیاح کے نقطہ نظر سے یہ ایک بڑی ناکامی نہیں ہے؟؟ کوہن کا کہنا ہے ’’اس کے باوجود یہ کہانی متاثر کن ضرور ہے کیونکہ یہ ایک ناکامی ہے۔ دراصل ہم کارپوریٹس کی غلط کاریوں کے عہد میں جی رہے ہیں جہاں کمپنیوں کو جوابدہی کیلئے بلایا جاتا ہے اور وہ اپنے آپ کو اس غلطی سے بری الذمہ قراردینے کی کوشش کرتی ہیں۔ تاہم شیکلیٹن کا طریقہ کار کچھ مختلف تھا۔اس نے کہا:’’بخدا میں اس کا ازالہ کرنے جا رہا ہوں۔‘‘، اس نے اس بربادی کی پوری ذمہ داری اٹھائی۔ شیکلیٹن اپنی ٹیم کے27 آدمیوں کو بحفاظت گھر واپس لے کر آیا، وہ ایک عظیم مردِ بحران تھا۔ شیکلیٹن کی کہانی کے ذریعے اس خاتون پروفیسر نے مستقل مزاجی ، لچک اور چھوٹے چھوٹے آداب اپنے طلباء وطالبات کوسکھائے۔

مستقل مزاجی ، لچک، حالات کے مطابق خود کو ڈھالنا اور کرائسز مینجمنٹ، یہ سارے نظریات سیاحت میں اور ساتھ ہی عام زندگی میں بھی اہم کردار اداکرتے ہیں۔ ہر مرحلے پر ان چیزوں کومدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ برطانوی شاعرکپلنگ اپنی ایک نظم میں نصیحت کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ان دونوں دغا بازوں (کامیابی وناکامی) سے ایک جیسا سلوک روا رکھنا چاہیے‘‘۔ غاروں کی سیاحت کرنے و الے کینی براڈ کے بہت سے ساتھی غاروں کی بھول بھلیوں کی تاریکیوں میں گہری سکوبا ڈائیوز کے دوران ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس کا کہنا ہے’’آپ ایک آدھ غوطے کے دوران خوش قسمت ہو سکتے ہیں۔ چند بار خوش قسمتی آپ کا ساتھ دیتی ہے تو آپ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ آپ ماہر تیراک ہیں۔ جدید ترین سیاحت میںکامیابی اور ناکامی کے درمیان فرق بہت ہی معمولی ہے۔‘‘

سیلمن اوگسٹ اینڈری کی (غبارے کی) مہم اس وقت کی جدید ترین مہم تھی لیکن ناکام ہوگئی۔ تین عشرے بعد قطب شمالی میں ترقی یافتہ ٹیکنالوجی کی مدد سے پہلی کامیاب فلائٹ اڑائی گئی۔آرکیٹک میں ہوا بازی کے مسائل پر قابو پالیا گیا، جس نے بہت سے دوسرے بے شمار دروازے کھول دیے ہیں۔ سیٹلائٹ اپ لنکس، ریلائی ایبل کمیونیکیشن، میڑیورولوجی میں جدت سمیت روبوٹک اسسٹینس چند ایک ایجادات ہیں جنہوں نے سیاحت کی حدوں کو مٹادیاہے۔ تاہم بیلرڈ جس کی زیادہ تر دریافتیں روبوٹس کی مرہونِ منت ہیں، لکھتا ہے’’ ٹیکنالوجی ہر چیز کو ممکن نہیں بنا سکتی۔‘‘ ایتھنز کہتا ہے:’’گرفت کو مضبوط سے مضبوط کرنے کی خواہش انسانی فطرت میں شامل ہے‘‘۔

اور

’’ وہاں پہنچنے میںکوئی مزہ نہیں جس کے بارے میں ہم پہلے ہی جانتے ہوں کہ ہم وہاں پہنچ سکتے ہیں۔‘‘


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4424

Trending Articles



<script src="https://jsc.adskeeper.com/r/s/rssing.com.1596347.js" async> </script>