ادھوری عورت (ناول)
ناول نگار: منزہ سلیم، ناشر: علم و عرفان پبلشرز، لاہور
صفحات: 396، قیمت: 450 روپے
اصنافِ ادب تو اور بھی ہیں، پر ناول سے کسی کا کیا مقابلہ۔ ناول، جس میں ورجینا وولف کے بہ قول؛ سب کچھ سمویا جاسکتا ہے۔ ’’ادھوری عورت‘‘ بھی ایک ناول ہے، پر یہ ادھورا نہیں، مکمل قصّہ ہے۔ 2010 میں پہلی بار شایع ہوا۔ ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ تعلیمی بورڈ کی جانب سے اول انعام کا حق دار ٹھہرا۔
ڈرامائی تشکیل کے مرحلے سے گزرا۔ اور اِس وقت ہمارے سامنے تیسرا ایڈیشن ہے۔منزہ سلیم تدریس سے متعلق ہیں۔ پختہ قلم کار۔ اِس ناول کے علاوہ اُن کی دو کتابیں ’’پھول لاکھوں برس نہیں رہتے‘‘ اور ’’میرا قبلہ تے کعبہ‘‘ شایع ہوچکی ہیں۔ بیانیہ تکنیک میں لکھا یہ ناول مختلف ابواب میں منقسم ہے۔ یہ کہانی مرکزی کردار، شیما کے بچپن سے شروع ہوتی ہے۔ قاری کردار کے ساتھ ساتھ چلتا ہے، اپنے بچپن سے گزرتا ہے، اُس کے ساتھ بڑا ہوتا ہے، (یہ ناول کا سب سے مضبوط حصہ ہے) اسکول جاتا ہے، جہاں ایک نئی دنیا ہے۔ جہاں بڑی کلاس کی لڑکیاں بوا اور چھوٹی کلاس کی لڑکیاں پیاری کہلاتی ہیں۔ تعلیمی سفر طے کرنے کے بعد شیما اپنے والد کا پیشہ، یعنی تدریس اختیار کرتی ہے۔
یہاں نئے کردار کہانی میں شامل ہوتے ہیں، جن میں سے چند ادبی زبان میں گفت گو کرتے ہیں (اور بھلے لگتے ہیں)۔ اور چند ایسے، جن کا شعر و ادب سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ یہیں شیما محبت کے تجربے سے گزرتی ہے، جو سانحات ساتھ لاتا ہے۔
فرانسیسی ناول نگار، اسٹنڈ ہال کا یہ قول کتاب کے ابتدائی صفحات میں شامل ہے:’’ناول ایک آئینہ ہے، جو شاہ راہ پر چلتے ہوئے کبھی آسمان کی نیلاہٹ منعکس کرتا ہے، تو کبھی پاؤں کے نیچے آنے والا کیچڑ!‘‘ یہ ناول اِس قول پر پورا اترتا ہے۔ زبان شستہ اور رواں۔ دل چسپی آپ کو ناول سے جوڑے رکھے گی۔ کتاب کا سرورق بامعنی اور خوب صورت ہے۔ طباعت اور اشاعت کے معیارات کا خاص خیال رکھا گیا ہے۔
اظہار کے زاویے (مضامین کا مجموعہ)
مصنف: احمد زین الدین، ناشر: زین پبلی کیشنز، کراچی
صفحات: 302، قیمت: 500 روپے
احمد زین الدین قلم کار قبیلے کی ایک قابل احترام شخصیت ہیں۔ جتنے پختہ افسانہ نگار، اتنے اچھے نقاد۔ پھر ’’روشنائی‘‘ جیسے ادبی جریدے کے مدیر، جو کتاب سے دُوری کے اِس زمانے میں بھی تواتر سے شایع ہورہا ہے۔ پندرہ برس پورے کرچکا ہے۔ جہاں تک ’’اظہار کے زاویے‘‘ کا تعلق ہے، یہ کتاب اُن کے مضامین، فکاہیہ کالموں اور دیگر تحریروں پر مشتمل ہے۔ فلیپ پر ڈاکٹر انورسدید کی رائے درج۔ اپنے مضمون میں مصنف نے اِس کتاب کی اشاعت کے اسباب پر روشنی ڈالی ہے۔
یہ کتاب وقت کا اچھا مصرف ہے۔ اِس میں آپ کو ڈاکٹر جمیل جالبی، جمیل الدین عالی، انتظار حسین اور ادا جعفری سمیت کئی قدآور شخصیات سے متعلق مضامین ملیں گے، جن کی اہمیت یوں دو چند ہوجاتی ہے کہ یہ ایک سنیئر تخلیق کار کے قلم سے نکلے ہیں۔ فکاہیہ مضامین میں ہمارے زرخیز ماضی کی جھلک نظر آئے گی۔ چار انٹرویوز کتاب میں شامل ہیں۔ زبان رواں اور ادبی ذائقے کی حامل۔ پڑھنا شروع کریں، تو پڑھتے چلیں جائیں۔ کتاب ڈسٹ کور کے ساتھ شایع کی گئی ہے۔
سخن کے پانچ رنگ (نظموں کا مجموعہ)
شاعر: فضا اعظمی، ناشر: رنگ ادب، کراچی
صفحات: 816، قیمت: 1000 روپے
فضا اعظمی کا شمار سنیئر شعرا میں ہوتا ہے۔ مثنوی کے ساتھ ساتھ نظمیں بھی تواتر سے کہیں۔ زیرتبصرہ کتاب اُن کی پانچ طویل نظموں ’’مرثیۂ مرگ ضمیر‘‘، ’’غذاب ہمسائیگی‘‘، ’’آواز شکستگی‘‘، ’’خاک میں صورتیں‘‘ اور ’’زوال آدم‘‘ پر مشتمل ہے۔’’مرثیۂ مرگ ضمیر‘‘، جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، انسان کے ضمیر کی موت کا مرثیہ ہے۔ ’’عذاب ہمسائیگی‘‘ پاکستان اور بھارت کے کشیدہ تعلقات کا نوحہ۔ ’’آواز شکستگی‘‘ تہذیبوں کے مدفن کی صدا۔ ’’خاک میں صورتیں‘‘ کا موضوع عورت ہے، جب کہ ’’زوال آدم‘‘ انسان کی داستان عبرت ہے۔کتاب میں عرض ناشر کے زیرعنوان شاعر علی شاعر کا مضمون شامل ہے۔
وہ لکھتے ہیں: ’’فضا اعظمی ہمیشہ بہتر دنیا کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، اسی بہتر دنیا میں خوشی کی تلاش میں انھوں نے ڈھیر سارا مقصدی ادب تخلیق کیا۔‘‘ وہ کتاب کو منفرد، قابل غور اور اہم ٹھہراتے ہیں۔کتاب میں ڈاکٹر وزیرآغا، ڈاکٹر منظوراحمد اور ڈاکٹر انورسدید سمیت کئی مبصرین کی آرا شامل ہیں، جنھوں نے ان نظموں کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے شاعر کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ہے۔اسے اچھے ڈھب پر شایع کیا گیا ہے۔ تمام لوازمات کا خیال رکھا گیا ہے۔ نظموں کے قارئین کے لیے یہ ایک اچھی کتاب ہے۔
تاریخ ادب عربی
مصنف و محقق: پروفیسر ڈاکٹر وقار احمد رضوی
ناشر: قدیمی کتب خانہ، کراچی صفحات: 517، قیمت: درج نہیں
تحقیق جان جوکھوں کا کام۔ البتہ ڈاکٹر وقار احمد رضوی اس قبیلے میں شامل ہیں، جس نے خود کو اِس کام کے لیے تج دیا ہے۔ زیرتبصرہ کتاب ان کی اُس طویل تحقیق کا نچوڑ ہے، جو اُنھوں نے کئی عشروں قبل، علی گڑھ یونیورسٹی کے زمانے میں شروع کی تھی۔ اُن دنوں وہ عربی میں ایم اے کا مرحلہ طے کر رہے تھے۔ یونیورسٹی کے زمانے میں اِس زبان کے ادب کا وسیع ذخیرہ کھنگالا۔ بہ قول ان کے، اْن دنوں اردو زبان میں تاریخِ عربی ادب سے متعلق کوئی باقاعدہ کتاب دست یاب نہیں تھی۔
خواہش ہوئی کہ اِس ضمن میں شبلی کی شعرالعجم کی طرز پر ایک کتاب لکھیں۔ سو مواد اکٹھا کرنے لگے۔ 2013 میں یہ تحقیق ’’تاریخِ ادب عربی‘‘ کے زیرعنوان منصۂ شہود پر آئی۔ اپنے پیش لفظ میں اُنھوں نے اس کتاب کو اپنی عمر بھر کی کمائی قرار دیا ہے۔یہ کتاب تین ہزار سال کا احاطہ کرتی ہے۔ انھوں نے دور جاہلیت سے دور حاضر تک کے عربی ادب پر اجمالی نظر ڈالی ہے۔ کتاب موضوعات کے اعتبار سے سات حصوں میں تقسیم ہے۔ پیش لفظ ناظم ندوۃ العلما، لکھنؤ، محمد رابع حسنی ندوی نے لکھا ہے۔ عربی ادب کے طلبا کے لیے یہ کتاب اہم ہے۔
رضا علی عابدی (قلم سے آواز تک)
مصنف: خرم سہیل، ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور
صفحات: 366 ، قیمت:1200
رضا علی عابدی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ براڈ کاسٹنگ کی دنیا میں سنگ میل تصور کیے جاتے ہیں۔ قلم کار بھی کمال کے۔ لکھا، اور جم کر لکھا، مگر اپنی سوانح عمری قلم بند نہیں کی۔ یہ بیڑا خرم سہیل نے اٹھایا۔ نتیجہ اِس کتاب کی صورت سامنے آیا۔ خرم سہیل کی اس سے قبل تین کتابیں ’’باتوں کی پیالی میں ٹھنڈی چائے‘‘، ’’سُرمایا‘‘ اور ’’سرخ پھولوں کی سبز خوش بو‘‘ منظر عام پر آچکی ہیں۔ ابتدائی دو کتابیں انٹرویوز پر مشتمل ہیں۔ کالم نگاری بھی ان کی شناخت کا ایک حوالہ ہے۔
تازہ کتاب کا مزاج تحقیقی ہے، مگر خالصتاً تحقیقی نہیں۔ عام قارئین کی دل چسپی اور تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔ زبان سلیس ہے۔کتاب میں عابدی صاحب کی بھرپور زندگی کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پانچواں دور سب سے اہم اور طویل۔ کلیدی پہلو یہ ہے کہ اس میں عابدی صاحب کا پہلا سفر نامہ، جو 69ء میں اخبارات کی تو زینت بنا، مگر کبھی کتابی شکل میں شایع نہیں ہوسکا، شامل کیا گیا ہے، جسے مصنف نے بہ مشکل تلاش کیا۔ یہ پیرس، جرمنی اور سوئزرلینڈ میں بیتے دنوں کی بازیافت ہے۔ اسی حصے میں ان کی دیگر سفرناموں اور بچوں اور بڑوں کے لیے لکھی کتابوں کا تذکرہ، یادداشتیں، کالم اور انٹرویوز شامل کیے گئے ہیں۔
الغرض عابدی صاحب سے متعلق یہ ایک بھرپور کتاب ہے، جس میں فن اور شخصیت؛ دونوں پہلوؤں کا اچھے انداز میں احاطہ کیا گیا ہے۔کتاب دیباچہ انتظار حسین کے قلم سے نکالا ہے۔ پیش لفظ میں خرم نے رضا علی آپ کے فن اور شخصیت پر قلم اٹھانے اور اسباب اور اس دوران طے کردہ مراحل پر روشنی ڈالی ہے۔ ٹائٹل خوب صورت ہے۔ کاغذ اور طباعت معیاری۔ البتہ کتاب میں شامل تصاویر میں بہتری کا امکان ہے۔ امید ہے اگلے ایڈیشن میں اس کا خیال رکھا جائے گا۔
سفر نامہ امریکا
سفر نگار : علیم شاہد،صفحات: 136،قیمت: 300 روپے
ناشر: فکشن ہاؤس، بک اسٹریٹ،68 مزنگ روڈ، لاہور
اگر کولمبس امریکا دریافت نہ کرتا، تو دنیا جہاں کئی بڑی آفات سے محفوظ اور سائنسی انکشافات سے محروم رہتی، وہیں ہماری سیاسی جماعتوں کو الزام تراشی کے لیے امریکی اشاروں،کا کندھا نہ ملتا۔ اور رہا اردو ادب، تو اس کا دامن بے شمار امریکی سفر ناموں سے خالی رہتا۔ اب اس میں علیم شاہد کا سفر نامہ امریکا بھی شامل ہوچکا۔ مصنف کی یہ پہلی کتاب ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا یورپ سے نقل مکانی کرنے والوں کی پہلی منزل ٹھہرا۔ ستر کی دہائی سے خوش حال پاکستانیوں کی بھی امریکا تک رسائی۔ ایک عرصے تک تک خود صاحب بہادر ویزا لاٹری کے ذریعے کئی ممالک کے شہریوں کو سفر کی سہولیات فراہم کرتا رہا۔ بس ذرا بیچ میں نائن الیون آپڑا، اس سے دیار یار کی گلیوں میں ہمارے قدم پڑنے کی رفتار کچھ ست ضرور ہوئی، مگر تھمی نہیں۔ علیم شاہد بھی انھیں میں سے ہیں جو نائن الیون کے بعد کئی بار امریکا گئے۔
ان کی تاکا جھانکی کا محور خاص ریاست کیلی فورنیا اور اس کے متعدد قصبے اور شہر ہیں۔امریکا کی شہرت متنوع ہے، اس سفر نامے میں مصنف نے بھی اس تنوع کا اپنے انداز سے دیکھنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے جن جن علاقوں کی سیر کی، وہاں کی تفصیلات کو جزئیات سمیت بیان کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ اگرچہ ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اس سفر نامے سے امریکی زندگی کے تمام تر پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے، البتہ علیم شاہد نے کمال خوبی سے دیگ کا ڈھکن کھول کر ایک دانہ نکالا۔ اب اس نمائندہ چاول کے دانے سے جو اندازہ قائم ہوا، انھوں نے قلم کے حوالے کردیا۔ بقول سفر نگار ’’اس مرتبہ امریکا جاتے ہوئے ارادہ کیا کہ جیسا بھی لکھ سکا، لکھوں گا۔‘‘ انداز بیاں سہل، اسلوب میں سادگی نمایاں اور طرز نگارش کا بہاؤ قاری کو کسی جگہ رکنے اور تھکنے نہیں دیتا۔
بالقرض مُحال
ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی،صفحات:304،قیمت:400 روپے
ناشر: قریشی انٹرپرائز، خیابان سحر، ڈیفنس فیزVII، کراچی
ایس ایم معین قریشی جیسے معروف مزاح نگار کی کتاب کا عنوان بتارہا ہے کہ وہ کس مہارت سے زبان کو برتتے ہیں۔ اُن کی تحریر میں صرف طنز کے نشتر، مزاح کی شگفتگی نہیں، فکری محرک بھی نمایاں ہے۔ وہ محض مزاح تخلیق نہیں کر رہے، بلکہ صحافت کے چوتھے ستون کی ذمہ داری نبھانے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ موضوع کی مناسبت سے بین الاقوامی شخصیات اور کتب کے حوالے اور ذاتی تجربات تحریر کی اہمیت دوچند کر دیتے ہیں۔ موقع محل کے حساب سے اشعار حسن دوبالا کر دیتے ہیں۔ان کی تحریر کے یہ محاسن ان کی تازہ کتاب میں بھی بہ حسن و خوبی موجود ہیں۔ یہ ان کی 23 ویں تصنیف ہے۔
گذشتہ کتب میں شگفتہ مضامین کے مجموعوں کے علاوہ انگریزی اور اردو سفرنامے نمایاں ۔’’بالقرض محال‘‘ ان کے مختلف اظہاریوں اور مضامین کا مجموعہ۔ کتاب کا آغاز سید ضمیر جعفری (مرحوم) کے مضمون سے ہوتا ہے، جو مرحوم نے مصنف کی کتاب ’’ہر شاخ پہ‘‘ کے لیے تحریر کیا ۔ پیش لفظ ادب دوست استاد پروفیسر انوار احمد زئی نے رقم کیا، بقول اُن کے ’’یہ کتاب دراصل برے وقتوں کی اچھی ساتھی اور اچھے وقتوں کی ایسی ’داشتہ‘ ہے جو منکوحہ کے غیرضروری تلطف سے محفوظ رکھنے کا ہر سامان رکھتی ہے۔ آزمائش شرط ہے!‘‘بیک فلیپ پر مصنف کے بارے میں شفیق الرحمن، مشفق خواجہ، مشتاق احمد یوسفی، ڈاکٹر فرمان فتح پوری اور ڈاکٹر اسلم فرخی سمیت 17 مختلف مشاہیر کی آرا درج ۔ 60 مضامین پر مشتمل کتاب کو تین علیحدہ زمروں میں بانٹا گیا ہے۔
حصہ اول 44 مختلف مضامین پر محیط، حصہ دوم میں مختلف تقاریب میں پڑھے گئے نو مضامین، جب کہ آخری حصے میں قومی زبان اردو کے حوالے سے سات مضامین ہیں، جن میں مروج غلط العام الفاظ، تراکیب اور ناموں کی نشان دہی کی گئی ہے۔ بقول پروفیسر انوار احمد زئی کے کہ مصنف اس حصے میں ایک معلم کے روپ میں اپنا فریضہ ادا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ کتاب کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے مصنف رقم طراز ہیں کہ ’آج ہر طرف قرض کے جلوے نظر آتے ہیں، عالَم یہ ہے کہ پچھلا قرض ادا کرنے کے لیے ایک نیا قرض لے لیا جاتا ہے۔‘ کتاب مجلد، سرورق حسب روایت منصف کے دل چسپ تصویری خاکے سے آراستہ، بڑھیا کاغذ اور عمدہ کتابت سے مزین ہے۔
تھوڑی سی فضا اور سہی (مجموعۂ مضامین)
مصنف: اشفاق حسین،صفحات: 240 ،قیمت: 400 روپے
ناشر: پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی
جن صاحب کی یہ کتاب ہے، وہ عمدہ اور پختہ شاعر، سنجیدہ نثرنگار، فیض پر اتھارٹی، کینیڈا میں اردو کی ترویج کے لیے سرگرم۔ جی ہاں، یہ ذکر ہے محترم اشفاق حسین کا۔
’’تھوڑی سی فضا اور سہی‘‘ مضامین کا مجموعہ، ان شخصیات سے متعلق، جن سے انُ کا رابطہ اور ذہنی قربت رہی۔
یہ مضامین مختلف ادوار میں لکھے گئے، مگر اشفاق صاحب کی ترقی پسندانہ فکر ہر تحریر سے جھلکتی ہے۔ کتاب 21 مضامین پر مشتمل۔ احمد ندیم قاسمی اور علی سردار جعفری سے مکالمہ بھی اس میں شامل۔ ڈاکٹر ڈیوڈ میتھوز اور صادقین کی کاوشوں کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔ ’’اردو تہذیب کی قدریں‘‘ کے زیرعنوان لکھا مضمون اہم ہے۔ زبان رواں اور شستہ۔ تحقیقی مزاج اور تجزیاتی انداز کے باوجود بوجھل پن کا احساس نہیں ہوتا۔
فلیپ پر پروفیسر سحر انصاری کی رائے درج، جنھوں نے اِس مجموعے کو اشفاق صاحب کے تنقیدی شعور اور تجزیاتی ذہن کا خوب صورت مرقع ٹھہرایا ہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے اپنے مضمون میں اشفاق حسین کو پاکستان اسٹڈی سینٹر کا دیرینہ رفیق قرار دیا ہے۔ اُن کے ادبی رویے، وسیع مطالعے اور واضح تصورات کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ یہ کتاب قارئین میں سند قبولیت حاصل کرے گی۔
اشفاق حسین اپنے مختصر پیش لفظ میں لکھتے ہیں،’’ان مضامین کی اشاعت کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ اُس ادبی فضا کی طرف لوگوں کو متوجہ کیا جائے، جو کسی نہ کسی
شکل میں دو تین دہائیوں سے یہاں (کینیڈا) کے علمی و ادبی منظر ناموں میں رنگ بھر رہی ہیں۔‘‘
کتاب پڑھ کر کہا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے مقصد میں کام یاب رہے۔ ڈس کور کے ساتھ شایع کی گئی اس کتاب کا سرورق متاثر کن ہے۔
“The Ocean Searches For Me”
(منتخب غزلوں اور نظموں کا ترجمہ)
شاعر: اشفاق حسین،مترجم: بیدار بخت، صفحات:281، قیمت: 700 روپے
ناشر: پاکستان اسٹڈی سینٹر، جامعہ کراچی
یہ کتاب معروف شاعر، اشفاق حسین کی منتخب شاعری کے تراجم پر مشتمل ہے، جسے انگریزی میں ڈھالنے کا فریضہ کینیڈا میں مقیم بیدار بخت نے نبھایا ہے، جو ماضی میں بھی جدید اردو شاعری کے تراجم کرتے رہے ہیں۔ کتاب کا پیش لفظ ممتاز نقاد، گوپی چند نارنگ نے لکھا ہے، جس میں انھوں نے اشفاق حسین کی شاعری کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے کینیڈا میں فروغ اردو کے لیے اُن کی خدمات کو سراہا ہے۔
کتاب اشفاق صاحب کے شعری مجموعوں اعتبار، ہم اجنبی ہیں، آشیاں گم کردہ اور 2009 کے بعد کی شاعری کی مناسبت سے چار ابواب میں منقسم ہے۔ ایک صفحے پر اردو شاعری، دوسرے پر ترجمہ۔ پڑھنے میں سہولت رہتی ہے۔ لفظی ترجمہ نہیں، مترجم نے کو عمدگی کے ساتھ اردو مصرعوں کو انگریزی میں نظم کیا ہے۔ دو نمونے پیش خدمت ہیں:
وہ دشمنوں کی صفوں میں ہے اور نہاں بھی نہیں
یقین کیا، مجھے اس بات کا گماں بھی نہیں
He is in the ranks of my foes,
and not hiding at all:
Belief is someting else,
I don’t even doubt it.
اور
میں اب وہ شعر کیا لکھوں
جو میری زندگی کے
تجربوں کی دسترس ہی میں
نہ آیا ہو
Why should I write poetry
That has not even touched
My own experiences?
کتاب کے آخر میں مترجم کا مضمون ہے، جس میں اُنھوں نے اشفاق حسین کی شاعری اور اس کے ترجمے کے انتخاب اور مراحل پر روشنی ڈالی ہے۔ فاضل مترجم کی یہ کاوش قابل تعریف ہے کہ اردو ادب کو بیرونی دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے تراجم ہی اکلوتا وسیلہ ہیں۔ کتاب اشاعت و طباعت کے معیارات پر پوری اترتی ہے۔