پورے بھارت میں دلہنوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دولہا کے ساتھ اچھی زندگی گزارناچاہتی ہیں تو بھاری بھرکم جہیز لے کرآئیں ورنہ انھیں ہولناک مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تاہم اس ملک کی جنوبی ریاست آندھرا پردیش کے ایک چھوٹے سے دور افتادہ گاؤں ’منگل تھانڈا‘(ضلع وارنگل) کا قصہ عجب ہے۔ یہاں بیاہ کر آنے والی دلہنوں سے بھی بھاری بھرکم جہیز کا مطالبہ تو کیاجاتاہے لیکن یہاں جہیزمیں ایک عجب چیز شامل ہوتی ہے، وہ ہے ٹرک کے ٹائر کی پرانی ٹیوب۔دلہن امیر ہویا غریب، ٹیوب لانا لازم ہے۔ سبب یہ ہے کہ گاؤں کا راستہ ایک ندی نے روک رکھا ہے۔ لوگوں کو کہیں باہرجاناپڑے تو انھیں اس بڑی ندی کو ٹیوب پر سوار ہوکر عبورکرناپڑتاہے۔گاؤں کی طرف جانے والا زمینی راستہ اس قدر خراب ہے کہ وہاں گاڑی چل ہی نہیںسکتی۔ پیدل جانے کے لئے پانچ کلومیڑ کا فاصلہ طے کرناپڑتاہے۔ یادرہے کہ منگل تھانڈا لمباڈا قبائل کا ایک ایسا گاؤں ہے جو اپنے راشن، سکول، ہسپتال، بینک اور دوسری تمام بنیادی ضروریات کے لیے دریا کے اس پار واقع سرپلی گاؤں جاتے ہیں اور وہاں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ ٹیوب ہے۔
گویا ان کی پوری زندگی کا دارومدار اسی ٹیوب پرہے۔اب ہرماں باپ بیٹی کے جہیزمیں دوٹیوبیں ضرورشامل کرتے ہیں، ایک بیٹی اور دوسری داماد کے لئے۔ ہرگھر کے باہر ایک ٹیوب ایسے رکھی ہوتی ہے جیسے کوئی گاڑی ہو یا سواری کا جانور بندھا ہو۔ لوگ کہتے ہیں کہ ٹیوب کے بغیر شادی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ مزید دلچسپ بات یہ ہے کہ جب دولہا دلہن کو بیاہ کر اپنے گھرلے جاتاہے تو سسرال میں سب مہمان سب سے پہلے جہیز میں لائی ہوئی ٹیوب کا جائزہ لے رہے ہوتے ہیں۔
گاؤں کی انوکھی روایت کچھ لمحوں کے لئے چہرے پر مسکراہٹ بکھیرتی ہے لیکن پھر یہ سوال درپے ہوجاتاہے کہ آخر انتظامیہ اس ندی پر پل تعمیر کرکے یا راستہ بہتر بناکے گاؤں والوں کی زندگی آسان کیوں نہیں کرتی؟ گاؤں کی خواتین کہتی ہیں کہ ان کے مردوں کی وجہ سے ایسا نہیں ہوتا، انہیں سڑک اور پل کی پرواہ ہی نہیں ہے۔ جب بھی انتخابات کا موسم آتاہے، ہر امیدوار سڑک اور پل کا وعدہ کرتا ہے لیکن انتخابات کے بعد اسے کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔گاؤں کے مرد شراب کی ایک بوتل پر بک جاتے ہیں، امیدوار اسی ایک بوتل پر ان کا قیمتی ووٹ لے جاتے ہیں۔راستہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی افسر یہاں نہیں آتا اور نہ ہی کسی فلاحی سکیم کا فائدہ یہاں کے لوگوں کو مل پاتاہے۔
فطری بات ہے کہ سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا عورتوں کو کرنا پڑتا ہے وہ بھی حاملہ خواتین کو۔بچے کی پیدائش کے لیے اگر عورت کو ہسپتال جانا پڑے تو کوئی گاڑی گاؤں تک نہیں آ سکتی۔ اگر عورت کو نرسم پیٹ ہسپتال جانا پڑے تو اسے پہلے سرپلی گاؤں جانا ہوگا جبکہ دوسرے راستے پر دستیاب ہسپتال 12 کلومیٹر دور ہے۔
خواتین کی طرح طلبہ کو بھی بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، گاؤں کے سکول میں صرف دو کلاسیں ہیں، آگے پڑھنے کے لیے بچوں کو دریا پار ’سرپلی‘ کے سکول جانا پڑتا ہے۔ دریا پار کرتے ہوئے بچوں کے کپڑے گیلے یا کیچڑ میں خراب ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً سکول میں انھیں استاد کی پٹائی کانشانہ بننا پڑتاہے کہ اس گندی حالت میں سکول کیوں آئے۔
ہرگھرانے کو ہر سال ایک نئی ٹیوب لینی پڑتی ہے کیونکہ پرانی خراب ہو جاتی ہے۔ بعض اوقات ٹیوب کے ساتھ یہ لگاؤ جان لیوا بھی ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ بعض اوقات پانی کا بہاؤ اتنا تیز ہو جاتا ہے کہ لوگ ٹیوب سمیت پانی میں غرق ہوجاتے ہیں، اب تک ہلاک ہونے والوں میں زیادہ ترخواتین تھیں۔
٭٭٭
ہوسکتاہے کہ آپ کو یقین نہ آئے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بھارت کی مغربی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں’’ جاٹوں کا کھیڑا‘‘میں گزشتہ45برسوں سے آبادی میں اضافہ نہیں ہوا۔1971ء میں اس کی آبادی292 افراد پر مشتمل تھی، آج 296 ہے۔ اگرچہ اس دوران آبادی میں اتارچڑھاؤ بھی آیا لیکن وہ معمولی ہی تھامثلاً1981ء میں 274 لوگ تھے،1991ء میں 269 اور2001ء سے اب تک 296 لوگ ہیں۔
آبادی میں یہ حیرت انگیز روک تھام ایک شعوری فیصلہ ہے جو اس گاؤں والوں نے کیاتھا۔ کیوں فیصلہ کیا؟گاؤں کے سابق سرپنچ رامیشور جاٹ کے بقول :’’جب گاؤں والوں کو خاندانی منصوبہ بندی کی اہمیت کا اندازہ ہوا، تب ہی سے لوگوں نے اس پر سختی سے عمل کرنے کا فیصلہ کیا، اب گاؤں میں کسی کے پاس دو سے زیادہ بچے نہیں ہیں چاہے لڑکا ہو یا لڑکی‘۔ یادرہے کہ بھارت میں ’ ہم دو ہمارے دو‘ کے نعرہ کی بنیاد پرآبادی کی روک تھام کے لئے مہم چلائی گئی تھی ۔ رامیشور جاٹ کا کہنا ہے: ’’میراصرف ایک بیٹا ہے اور ہمارے یہاں لڑکا لڑکی کا کوئی امتیازنہیں ہے۔‘‘
فیملی پلاننگ کے لئے جو حیرت انگیز خدمت اس گاؤں والوں نے سرانجام دی، اس پرحکومت نے نہ صرف حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ انھیں نظراندازکیا۔دوسرے لفظوں میں انھیں سزادی گئی کہ انھوں نے حکومتی پالیسی کو اپنے ہاں اس قدر جاندار طریقہ سے کامیاب کیوں کیا۔ انتظامیہ کی طرف سے جو بھی ترقیاتی منصوبہ بندی ہوتی ہے وہ آبادی کے پیش نظر کی جاتی ہے۔ چونکہ اس گاؤں کی آبادی کم ہے اس لیے انتظامیہ سڑکوںکی تعمیر اور دوسرے ترقیاتی منصوبوں میں اس گاؤں کا نام فہرست میں شامل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔گاؤں میں موجود سرکاری سکول محض ایک کمرے کا ہے،حالانکہ گاؤں والے اس سے بہتر سکول کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔
٭٭٭
کسی بھی ملک میں حکومت کی منظوری کے بغیر ریڈیوسٹیشن قائم کرنا غیرقانونی ہوتا ہے، بھارتی ریاست بہارکے ایک گاؤں میں قائم ایف ایم ریڈیوسٹیشن بھی غیرقانونی تھا تاہم یہ 20کلومیٹر کے علاقے میں اپنی نشریات جاری کرتا رہا۔ خیال ہے کہ یہ برصغیر پاک و ہند میںکسی گاؤں کا پہلا ایف ایم ریڈیوسٹیشن تھا۔ راگھاؤ مہاٹو نامی ایک نوجوان اس ریڈیوسٹیشن کا سب کچھ تھا جبکہ بچپن کا دوست سمبھو بھی اس کا ساتھ دیتارہا۔ جب اس نے یہ ایف ایم سٹیشن قائم کیا تو اس کے لئے خریدے گئے نشریاتی سامان کی کل قیمت پچاس روپے تھی۔ اس اعتبار سے یہ دنیا کا سب سے سستا ریڈیو سٹیشن ہوا۔
بہار کے ضلع ویشالی میں منصورپور گاؤں میں صبح سویرے راگھاؤ مہاٹواور اس کا ساتھی اپنی دکان میں ایف ایم سٹیشن کی نشریات کی تیاری کر لیتے، دوسری طرف علاقے بھر کے لوگ اپنے ریڈیوسیٹ آن کرلیتے ۔ پہلی آواز بلند ہوتی :
’’ صبح بخیر! راگھاؤ ایف ایم منصورپور ون کی طرف سے خوش آمدید!
اب اپنے پسندیدہ گانے سنیے۔‘‘
اس کے بعد اگلے بارہ گھنٹے تک اس ریڈیوسٹیشن سے فلمی گانے نشر ہوتے اور مفادعامہ کے پیغامات بھی سنائے جاتے۔مثلاً بتایاجاتاکہ علاقے میں فلاں جگہ پر فلاں چیز دستیاب ہے۔ قیمت بھی ساتھ بتادی جاتی۔ بچوں کی گمشدگی کے اعلانات بھی نشر ہوتے تھے۔
ایف ایم ریڈیوسٹیشن جس دکان سے چلایا جاتا، وہاں بنیادی طورپر بجلی کے سامان کی مرمت ہوتی تھی، اس کی چھت چھپر کی ہے۔ راگھاؤ پڑھالکھا نہیں لیکن اس کے ریڈیوسٹیشن نے اسے خوب مقبولیت بخشی ۔ اس نے1997ء میں بطورالیکٹریشن دکان کھولی۔ 2003ء تک اس نے ریڈیو کے نظام کے متعلق خوب معلومات اور مہارت حاصل کر لی، پھر اس نے ایف ایم سٹیشن شروع کرنے کا سوچا۔ یہ خیال بہارجیسے کم ترقی یافتہ علاقے میں زبردست تھا جہاں بہت سے علاقوں میں بجلی نہیں تھی، اس کے ذریعے ایک سستے سے ٹرانسسٹر پر تفریح کا خوب سامان مل گیا۔
ویسے راگھاؤ کو یہ کام سوچنے اور اس کا سازوسامان اکٹھا کرنے میںکافی وقت لگا۔ پھراس نے ٹرانسمیٹر کِٹ کو ایک انٹینا پر لگا کر اسے ایک بانس کے ذریعے ایک قریبی ہسپتال کی تین منزلہ عمارت پر نصب کردیا۔ راگھاؤ کے پاس سینکڑوں ٹیپیں ہیں جن میں مقامی زبان میں گائے گئے گانے بھی ہیں اور بالی ووڈ کے بھی۔ کچھ گانے اس کی اپنی آوازمیں بھی تھے۔ مزے کی بات ہے کہ راگھاؤ نے اس ریڈیوکو آمدنی کا ذریعہ نہیں بنایا ورنہ وہ نشر ہونے والے اعلانات کے عوض روپیہ بٹورسکتاتھا۔
اسے شایدمزید آمدن کا لالچ ہی نہیں ۔ ایک مزے کی بات یہ بھی ہے کہ جھونپڑی میں رہنے والے اس نوجوان کو یہ معلوم نہیں تھاکہ ریڈیو سٹیشن چلانے کے لئے حکومت سے اجازت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک روز اسے یہ بات معلوم ہوئی، اس نے فوراً ریڈیوسٹیشن بند کردیا لیکن ایف ایم کے رسیا لوگوں نے اس کی جھونپڑی کا محاصرہ کرلیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ ریڈیوغیرقانونی ہی سہی لیکن وہ اسے بند نہیں ہونے دیں گے تاہم ان کی بدقسمتی کہ کچھ عرصہ بعد حکومت نے عدالت سے فیصلہ لے کرریڈیو سٹیشن بند کردیا۔
راگھاؤ کے ریڈیو کومردوں سے زیادہ عورتیں سنتی تھیں۔ جب اس دکان پر فون نہیں تھا تو لوگ گانوں کے لئے اپنی فرمائش ایک کاغذ پر لکھ کر بھیجتے تھے یا قریب واقع ایک پبلک کال آفس پر فون کرتے تھے۔ راگھاؤ کے اس ایف ایم ریڈیو کی شہرت پوری ریاست میں پھیل گئی۔ متعدد لوگوں نے اسے خط لکھے کہ وہ بھی اپنے دیہاتوں میں ایسا ہی ریڈیوسٹیشن کھولناچاہتے ہیں، اس کے لئے رہنمائی درکارہے۔ تاہم راگھاؤ نے اس معاملے پر کسی سے تعاون نہ کیا۔ وہ اپنا راز کسی کو بتانے کو تیارنہیں تھا، اسے اندیشہ تھا کہ کوئی اس کا غلط استعمال کرسکتاہے۔
٭٭٭
بھارت کے شمال میں ایک گاؤں واقع ہے، ’سیماہی کاری رات‘۔ یہاں کے باسی عجیب ہیں، وہ اپنے گھروں کے دروازوں میں کواڑ نہیں لگاتے ، صرف دہلیزیں ہوتی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وہ اپنی زندگی اور جائیداد کو بالکل محفوظ سمجھتے ہیں۔ سبب یہ ہے کہ انھیں یقین ہے، قدیم زمانے کے ایک ہندوبزرگ شیو بابا کی روح ان کی حفاظت کررہی ہے۔ گاؤں والے کہتے ہیں کہ بابا نے کہا تھا کہ اپنے گھروںکے دروازے نہ رکھیں کیونکہ دروازوں سے گھر والوں پر مصیبتیں نازل ہوتی ہیں۔
یہ گاؤں اتر پردیش کے شہر ایودھیا کے قریب واقع ہے، یہاںقریباً 75گھرہوں گے لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی گھر کا دروازہ نہیں۔ گاؤں والے کہتے ہیںکہ جب بھی کسی نے گھر کی بیرونی دیوار میں دروازہ نصب کیا، وہ کسی نہ کسی آفت کا شکار ہوگیا۔ اس طرح گاؤں والوں کو پختہ یقین ہوگیا کہ شیوبابا واقعتاً دروازے پسند نہیں کرتے۔ شیوبابا کون تھا؟ گاؤں والوں کے بقول:’’ سینکڑوں سال پہلے وہ یہاں رہتے تھے، انہوں نے بڑی کٹھن تپسیا کی تھی۔ بابا کئی کئی دن تپسیا کی سختیاں جھیلا کرتے تھے۔ اسی حالت میں ان کی موت ہوگئی، برگد کا ایک پیڑ عین اس جگہ اْگ آیا جہاں بابا نے آخری سانس لیاتھا‘‘۔ یوں گاؤں والوں نے عقیدہ بنالیاکہ بابا کی روح اس درخت میں ہے۔
کہتے ہیں کہ شیو بابا نے یہ بھی حکم دیا تھا کہ گاؤں میں جب بھی کسی گھر کی تعمیر شروع ہو، وہ پہلے کچھ اینٹیں ان کے مندر کو دان کرے ۔ گاؤں کے ایک شخص کرشن آچاریہ ترپاٹھی نے گھر کی تعمیر شروع کی تو بار بار دیواریں گر جاتی تھیں۔ جب بار ہا ایسا ہوا تو کچھ لوگوں نے اسے مشورہ دیا کہ گھر کی تھوڑی سی اینٹیں لے جاکے برگدکے درخت کو دان کردو۔ اس نے مشورہ مانا تب مکان کی تعمیر ممکن ہوئی۔
اگر دیواریں گرنے جیسے واقعات پیش نہ آتے تو شاید وہ گھر کے مرکزی دروازے کی دہلیز پر کواڑ بھی لگاتا لیکن اب اس نے بابا کا حکم مان لیا۔ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ جب سے لوگوں نے دروازوں کو کواڑلگاناچھوڑے ہیں اور برگد کے درخت کو اینٹیں دان کرناشروع کی ہیں، اس گاؤں میںکبھی چوری چکاری نہیں ہوئی۔ یادرہے کہ اتر پردیش ایک ایسی ریاست ہے جو جرائم کے واقعات کے حوالے سے بہت بدنام ہے۔ مقامی تھانہ والے اخبارنویسوں کو تھانے کا ریکارڈ دکھاتے ہوئے کہتے ہیں:’’یہ کتابیں دیکھ لیجئے آج تک سیما کاری رات میں ایک بھی چوری کی واردات ریکارڈ نہیں ہوئی۔‘‘
ایک دوسرا گاؤں بھی اسی قسم کی روایت کا حامل ہے۔ یہ ریاست مہاراشٹر کاگاؤں’’ داول مالک ‘‘ ہے، یہاں ایک مسلمان بزرگ کا مزار ہے، انہی کے نام پر گاؤں آباد ہوا۔ یہاں بھی گھروں کے دروازے نہیں رکھے جاتے۔ اس گاؤں کے باسی بھی سمجھتے ہیں کہ مزار والے بزرگ ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی بیان کردہ کہانیوں کے مطابق کچھ چوروں نے اس گاؤں میں گھس کر چوری کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں عجیب وغریب بیماریوں نے قابو کرلیا۔
اس کے بعد کسی چور کو اس گاؤں میں گھسنے کی ہمت ہی نہیں ہوئی۔ ان دیہاتوں میں لوگ اپنے مرکزی دروازوں پر کپڑے کے پردے ضرور لٹکاتے ہیں۔ایسا عورتوں کے اصرار پر کیا گیا۔ دروازہ نہ ہونے کی وجہ سے کوئی فرد اندرگھر میں آنے سے پہلے محض اونچی آوازمیں پکارتا اور ساتھ ہی اندر گھس آتاتھا۔ اس پر عورتیں معترض ہوئیں۔
ریاست مہاراشٹر ہی کے ضلع احمد نگر میں گاؤںشانی شنگن پورکے لوگ بھی کواڑوں کے بغیر دروازے رکھتے ہیں۔ بعض لوگ اسے قصبہ کہتے ہیں جبکہ پہلی نظر میں یہ گاؤں ہی نظرآتاہے۔
سائیکلوں پر سوار لوگ ادھر ادھر آجارہے ہیں ،گھاس کے میدانوں میں گائیںگھوم پھر رہی ہیں۔ گاؤں کے300گھروں میں سے کسی کے دروازے میں کواڑ نہیں ہیں۔ کوئی ہوٹل ایسا نہیں ہے جس کا دروازہ ہو۔ اس عجیب وغریب گاؤں کا نظارہ کرنے کے لئے ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ آچکے ہیں۔
یہ علاقہ جن پولیس افسران کے دائرہ کارمیں آتاہے، وہ یقیناً بہت خوش ہوتے ہیں کہ انھیں مفت میں ایک پرامن گاؤں میسر ہے جس کی طرف سے وہ آنکھ بندکرسکتے ہیں۔گاؤں میںامن برسوں نہیں، صدیوں کی بات ہے، جی ہاں! پورے 600 سال پرانی۔ قریباً 15برس قبل یہاں پولیس سٹیشن قائم ہوا، تاحال گاؤں کے لوگوں کی طرف سے چوری کی صرف پانچ وارداتوں کی رپورٹ لکھوائی گئی۔ تاہم تین برس پہلے جب یہاں ایک بنک کی شاخ کھولی گئی تو عجب پیچیدگی پیدا ہوئی۔
گاؤں والوں کی روایت کے مطابق بنک کو بھی دروازہ نہ لگانے کو کہاگیا اور نہ ہی اندرکسی چیز کو تالہ لگانے کی اجازت دی گئی۔ اس پر پولیس والے خاصے پریشان ہوئے کہ بھاری بھرکم رقوم کیسے کھلی چھوڑی جاسکتی تھیں۔ یہ تو کھلی دعوت تھی چوروں کے لئے۔ بنک انتظامیہ کو بھی سمجھ نہیںآرہی تھی کہ وہ گاؤں والوں کی بات مانے یا پولیس والوں کی۔ بالآخر درمیان کا راستہ نکالاگیا، مکمل دروازے لگائے جائیں گے لیکن انھیں تالہ نہیں لگے گا۔ بنک والوں نے ازراہ احتیاط اوقات کار کے اختتام پر کیش دوسرے گاؤں میں بنک کی شاخ میں رکھوانا اور اگلی صبح واپس منگوانا شروع کردیا۔
گاؤں والوں کے مطابق انھوں نے اپنے بڑوں سے سنا تھاکہ ایک دفعہ علاقے میں شدیدبارشیں ہوئیں، سیلابی ریلے کے ساتھ جو کوڑا کرکٹ آیا، اس کے ساتھ ایک سیاہ رنگ کی سلیب بھی کہیں سے آگئی۔ جب بارشیں تھمیں تو دیہاتیوں نے اس سلیب کو ایک بڑے درخت کی جڑوں میں پایا۔ انھوں نے اسے نکالنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اگلے روز گاؤں کے سرپنچ نے ایک خواب دیکھا، جس میں اسے ایک آواز سنائی دی کہ جہاں سلیب پڑی ہوئی ہے، وہاں ایک مندر تعمیر کرو لیکن اس کے دروازے ہونے چاہئیں نہ ہی چھت۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی کی گئی کہ گاؤں کے گھروں میں بھی دروازے نہ ہوں۔
سرپنچ نے اپنا خواب گاؤں والوں کو سنایا، ہندوؤں کے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کہ وہ دنیا کی سب سے زیادہ ضعیف الاعتقاد قوم ہے۔ انھوں نے خواب سنتے ہی اپنے دروازوں سے کواڑ نکال دئیے ۔ گاؤں والے کہتے ہیں کہ بعض اوقات چوریاں بھی ہوئیں لیکن پھر کچھ ہی دیربعد کسی نے آکراعتراف جرم کرلیا اور ساتھ ہی چوری کا مال بھی پورے کا پورا پیش کردیا۔ ایسابھی ہوتاہے کہ چوری کرنے والے کے ساتھ کچھ برا ہوجاتاہے۔ بعض کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی، جبکہ بعض کا دماغی توازن ہی خراب ہوگیا۔ لوگ اپنے گھروں کو بنکوں سے زیادہ محفوظ سمجھتے ہیں، اس لئے وہ بلاخوف وخطر وہاں اپنی رقوم رکھتے ہیں۔
اگرچہ اس گاؤں کے لوگ بھی سمجھتے ہیں کہ کسی بزرگ کی روح دیہاتیوں کی حفاظت کرتی ہے اور برے کام کرنے والوں کو سزادیتی ہے۔تاہم یہاں ہرکوئی اس عقیدے سے متفق نہیں۔ ڈاکٹر نریندر ڈبھولکر ایسے بے بنیاد عقائد اور غیرمنطقی روایات کے خلاف ہیں۔ ان کاکہناہے کہ اس عقیدے کے پیچھے جو کہانی ہے وہ محض ایک سوانگ ہے۔ لوگ اپنے گاؤں کو ’’منفرد‘‘ بنا کر یہاں کے سیاحوں کو اپنی طرف راغب کررہے ہیں اور سیاحوں کی وجہ سے دیہاتی مالا مال ہورہے ہیں۔
کچھ مقامی لوگوں کی باتیں ایک نیا پہلو بھی ظاہرکرتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اب چوری چکاری ہوتی ہے لیکن سیاحتی انڈسٹری کو نقصان نہ پہنچ جائے، اس ڈر سے کوئی تھانے نہیں جاتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ گھروں کو دروازے اس لئے نہیں لگائے جاتے کہ لوگ اس قدر مالی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔
اگراس پہلو کی بنیاد پر صورت حال کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ڈاکٹر نریندر کی بات وزنی محسوس ہوتی ہے۔ پندرہ برس قبل اس گاؤں کے لوگ محض گناکاشت کرکے اپنی ضروریات زندگی پوری کررہے تھے۔ تاہم جب سے یہ مذکورہ بالا کہانی مشہور ہوئی ، لوگوں نے گھروں ، دکانوں سمیت ہرجگہ سے دروازوں میں سے کواڑ نکالے، گاؤں والوں کی معاشی حالت کئی گنا بہتر ہوگئی۔
روزانہ پورے ملک سے ہزاروں افراد اس گاؤں اور وہاں پر موجود سلیب کا نظارہ کرنے آتے ہیں۔ ان سیاحوں میں صرف عام لوگ ہی نہیں، بالی ووڈ کے ستارے اور نمایاں سیاست دان بھی شامل ہوتے ہیں، مثلاً شلپاسیٹھی شوہرسمیت آئیں اور ریاست بہار کے سابق وزیراعلیٰ لالوپرشاد یادیو بھی۔ ایک اندازے کے مطابق روزانہ چالیس ہزار سیاح یہاں آتے ہیں۔ سال کے دوران میں بعض ایام ایسے بھی آتے ہیں جب سیاحوںکی تعداد تین لاکھ تک پہنچ جاتی ہے۔بعض سیاح کہتے ہیں کہ اگروہ یہ گاؤں دیکھ نہ لیتے تو انھیں یقین ہی نہ آتا کہ دنیا میں ایسا کوئی گاؤں بھی ہے۔
چندبرسوں ہی میں بڑھتی ہوئی سیاحت کی وجہ سے یہاں ہوٹل بھی کھمبیوں کی طرح اگ آئے تاہم وہ زیادہ کامیاب نہیں ہوئے۔ ناکامی کا سبب دروازوں کا نہ ہوناہے،دراصل سیاح دروازوں کے بغیر گھروں کا کلچر دیکھنا پسند کرتے ہیں لیکن اس کا حصہ بننا پسند نہیں کرتے۔ وہ اس انوکھے کلچر کو دیکھ کر شام ڈھلتے ہی قریبی شہر اورنگ آباد کی طرف روانہ ہوجاتے ہیں۔ البتہ یہاں ٹیکسیوں اور آٹو رکشاؤں کی تعداد میں اضافہ ضرور ہواہے۔
اگرمان لیاجائے کہ اس گاؤں کی بابت کہانی محض سوانگ ہے، تب بھی یہاں کے سرپنچ کی چالاکی کو داد دیناپڑے گی کہ کیسے اس نے اپنے گاؤں کو ایک سیاحتی مقام بنایا اور اس کی معیشت کو مضبوط رکھنے کا انتظام کیا۔اس اعتبار سے بھی یہ گاؤں منفرد ہی ہوا۔
معذروں کا گاؤں
یہ ریاست بہار کے ضلع نوادہ کے گاؤں کچہریاڈیہ کی کہانی ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے یہاں پیداہونے والا ہربچہ پیدائشی طورپر معذور ہوتاہے یا پھر اگلے ایک دوبرسوں میں اس کے اعضا درخت کی شاخوں کی طرح مڑ جاتے ہیں۔بعض خاندان پورے کے پورے معذور ہوچکے ہیں۔ جھاڑکھنڈ کی سرحد پر واقع اس گاؤں میں لوگوں کے مویشیوں کی ہڈیاں بھی اس پراسراربیماری کا شکارہوجاتی ہیں۔ اس وقت اس گاؤں میں معذوروں کی ایک پوری نسل موجود ہے جو اب ادھیڑ عمر ہورہی ہے۔
یہ اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی، گھٹنوں کے بل چلتی ہے۔ صرف بڑے بوڑھے ہی کسی نہ کسی طورپر چل پھر رہے ہیں لیکن ان کی کمریں بھی جھک گئی ہیں، ہاتھ اور پیر اینٹھے ہوئے ہیں، دانت پیلے پڑ رہے ہیں اور مسوڑھے گل رہے ہیں۔ اس گاؤں میں جو لڑکیاں بیاہ کر لائی جاتی ہیں، وہ بھی کچھ عرصہ بعد لنگڑانا شروع کردیتی ہیں۔ گاؤں کا صرف یہی ایک مسئلہ نہیں ہے، بلکہ اسقاط حمل کا مرض بھی عام ہے۔ اگرحمل محفوظ رہے تو جنم لینے والے بچے ہڈیوں کی اس بیماری کا شکارہوجاتے ہیں۔
گاؤں والوں کے ساتھ ایسا کیوں ہورہاہے؟دراصل یہاں کے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار کافی زیادہ ہے اور اسی وجہ سے گاؤں والے فلوروسس نامی بیماری کا شکار ہیں۔ ماہرین کے مطابق پانی میں فلورائیڈ کی مقدار ڈیڑھ ملی گرام فی لیٹر ہونی چاہیے جبکہ اس گاؤں میں آٹھ ملی گرام فی لیٹر ہے۔ مرض تب شروع ہوا جب نزدیک میں ایک ڈیم بنا۔ حیران کن امریہ ہے کہ اس گاؤں کے نزدیکی علاقوں میں ایسا کوئی مسئلہ درپیش نہیں۔ فلوروسس کی بیماری ویسے تو بھارت کے کئی علاقوں میں موجود ہے لیکن ایسی کوئی مثال نہیں کہ پورے کا پورا گاؤں اس بیماری کا شکارہوچکاہو۔اس بیماری نے کچہریاڈیہ گاؤں کو کیا سے کیابنادیا۔
ہرقسم کی سہولتوں سے محروم لوگوں کا ایک ڈھیر۔ گاؤں کے لوگ ایک نچلی ذات سے تعلق رکھتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قریبی دیہاتوں میں ان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں۔ حکام آتے ہیں، ڈر اور خوف کے ساتھ گاؤں میں داخل ہوتے ہیں، فوٹوسیشن کراتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہ پلٹنے کے لئے چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ گویا ایک قیدخانے میں ہیں، جہاں انہیں سسک کرجیناہے، ان کے پاس اس قدر روپیہ نہیں کہ یہ ڈاکٹروں کے پاس جا سکیں، ڈاکٹر ویسے بھی جواب دے چکے ہیں۔