Quantcast
Channel: Pakistani Magazine -- Urdu Magazine - میگزین - ایکسپریس اردو
Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

الیکشن 2013 کے نسوانی چہرے

$
0
0

خواتین پاکستان کی آبادی کا نصف سے زائد ہیں۔اس طرح اگر تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو پاکستان میں الیکشن لڑنے والوں میں غالب نہیں تو ایک بڑا حصہ خواتین کاہونا چاہیے۔

لیکن ایسا نہیں ہے اور الیکشن کی دوڑ میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کاغلبہ قائم ہے۔ تعداد اور شہرت کے اعتبار سے بڑے نام مردوں کے ہی ہیں لیکن ایسا نہیں ہے کہ بطور امیدوار خواتین بالکل بھی الیکشن میں حصہ نہیں لے رہیں۔اب خواتین بھی اس میدان میں آگے آرہی ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں خواتین الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔اس طرح اگر ملک میں جمہوریت کا تسلسل قائم رہا تو آنے والے وقت میں الیکشن لڑنے والی خواتین کی تعداد بھی آج کے مقابلے میں زیادہ ہوگی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعدادوشمار کے مطابق صرف قومی اسمبلی کی 272 نشستوں پر بطور امیدوار الیکشن میں حصہ لینے والیوں کی تعداد سو سے زائد ہے جن میں 36 خواتین ایسی ہیں جو کسی نہ کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہی ہیں۔ صرف خیبر پختون خوا میں حلقہ این اے1سے حلقہ این اے 35 تک بارہ خواتین الیکشن لڑرہی ہیں ۔ان میں سات خواتین امیدوار آزاد اور دیگر پانچ مختلف پارٹیوں کے ٹکٹ پر الیکشن میں بطور امیدوار شریک ہیں۔ اس وقت جو قابل ذکر خواتین الیکشن کی دوڑ میں شریک ہیں ان میں بادام زری، آسیہ بی بی، نائلہ جوزف ڈیال، خورشید بیگم (کوہاٹ اے این پی) ارم فاطمہ ( ہری پور اے این پی)،ڈاکٹر فریال تالپور، عذرا پیچوہو، بشریٰ اعتزاز، ثمینہ گھرکی، شفیقہ رائو، فردوس عاشق اعوان ، سمیراملک غلام بی بی بھروانہ، صائمہ اختر بھروانہ ،سائرہ افضل تارڑ ، تہمینہ دولتانہ ،ماروی میمن،راحیلہ مگسی ، حنا منظور ، وجیہہ اکرم ، ڈاکٹر یاسمین راشد ،مریم بتول ،ناز بلوچ ، خوش بخت شجاعت اور غنویٰ بھٹو شامل ہیں۔

آئندہ انتخابات میں جو معروف خواتین حصہ لے رہی ہیں، آئیے ان میں سے کچھ کا تذکرہ کرتے ہیں:

فریال تالپور :

صدر آصف علی زرداری کی دوبہنیں قومی اسمبلی کی نشستوں کے لیے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ جن میں ڈاکٹر فریال تالپور اور ڈاکٹر عذرا پیچوہو شامل ہیں اور ان دونوں کا تعلق سندھ سے ہے۔فریال تالپور نے 2007 میں پیپلزپارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن میں حصہ لیا اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔اس سے قبل وہ نوابشاہ کی ضلع ناظم تھیں۔اس وقت وہ نوابشاہ سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔

عذرا فضل پیچوہو:

ان کا نام زیادہ معروف نہیں لیکن حاکم علی زرداری کی بیٹی اور صدر زرداری کی ہمشیرہ ہونے کے ناطے وہ اہمیت کی حامل ہیں۔عذرا پیچوہو لاڑکانہ سے الیکشن لڑرہی ہیں۔وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد انہیں شہید ذولفقار علی بھٹو انسٹی ٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کا چانسلر بنایا گیا تھا۔فضل پیچوہو ان کے شوہر ہیں۔

بشریٰ اعتزاز :

ایک اور معروف خاتون امیدوار بشریٰ اعتزاز ہیں جو پاکستان کے سینئر سیاست دان اور کئی بار وزیر رہ چکے اعتزاز احسن کی اہلیہ ہیں۔بشریٰ اعتزاز لاہور سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔اپنی اہلیہ کو ٹکٹ ملنے پر ان کے شوہر اعتزاز احسن نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ان کے حلقے کے لوگ انہیں ووٹ دیں گے اور الیکشن میں کامیاب بنائیں گے۔

فردوس عاشق اعوان:

سابق وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان بھی پاکستان میں خاصی جانی جاتی ہیں۔ ان کا خاندان سیالکوٹ کی سیاست میں معروف ہے۔وہ پیپلزپارٹی کی جانب سے سیالکوٹ کے دو حلقوں این اے 110 اور این اے 111 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ وہ پہلی بار 2002 میں قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئیں۔ 2008 میں انہوں نے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور دوبارہ ایم این اے بن گئیں۔

شفیقہ رائو:

پیپلزپارٹی نے اوکاڑہ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 144 سے شفیقہ رائو کو ٹکٹ دیا ہے جو کہ معروف سیاست دان اور سابق وفاقی وزیر رائو سکندر حیات کی بیوہ ہیں۔

ثمینہ خالد گھرکی:

ایک اور معروف خاتون ثمینہ خالد گھرکی ہیں جو لاہور کے سب سے بڑے حلقہ این اے 130سے پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ وہ پہلی بار اس حلقے سے 2002 میں قومی اسمبلی کی رکن منتخب ہوئی تھیں۔2008 ء میں وہ دوبارہ منتخب ہوئیں۔ انہوں نے اپنے مدمقابل مسلم لیگ ن کی سعدیہ شبیر اور قاف لیگ کے عاشق ڈیال کو شکست دی تھی اور کل پینتالیس ہزار ووٹ حاصل کیے تھے۔

فہمیدہ مرزا :

فہمیدہ مرزا پیپلزپارٹی کی گذشتہ پانچ سالہ دورِ حکومت کے دوران قومی اسمبلی کی سپیکر رہ چکی ہیں۔انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پاکستان کی پہلی خاتون سپیکر تھیں۔ وہ سندھ سے تعلق رکھنے والے معروف سیاست دان ذولفقار مرزا کی اہلیہ ہیں۔ وہ اپنے آبائی حلقے بدین سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ انہوں نے 1982 میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی سے گریجویشن کی۔وہ پیشے کے ا عتبار سے ڈاکٹر ہیں۔ سیاست میں شمولیت سے پہلے وہ ایک کامیاب کاروباری خاتون کے طورپر معروف تھیں۔انہوں نے 1997 میں پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی۔

سمیرا ملک:

مسلم لیگ ن کی جانب سے قاف لیگ کی سابق ا یم این اے سمیرا ملک کو خوشاب کے حلقے این اے 69 سے الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیا گیا ہے۔ وہ ملک اللہ یار خان کی بیٹی اور نواب کالاباغ امیرمحمد خان کی پوتی ہیں۔سابق صدر فاروق لغاری سمیرا ملک کے ماموں ہیں۔ وہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی کابینہ میں وزارت بہبود خواتین و امور نوجواناں بھی رہ چکی ہیں۔

 تہمینہ دولتانہ:

وہاڑی سے تعلق ر کھنے والی تہمینہ دولتانہ بھی پاکستانی سیاست کا معروف نام ہیں۔وہ وہاڑی سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 169 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔اس کے علاوہ مسلم لیگ ن کی جانب سے چنیوٹ کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 88 سے غلام بی بی بھروانہ اور جھنگ کے حلقے این اے 90سے صائمہ اختر بھروانہ کو ٹکٹ دیا گیا ہے۔ بھروانہ خاندان بھی اس علاقے کی سیاست میں خاصا معروف ہے۔

ماروی میمن :

ماروی میمن بھی پاکستانی سیاست میں خاصی سرگرم ہیں۔انہوں نے مشرف کے گیارہ سالہ دور حکومت کے دوران بطور سیاست دان خاصا نام کمایا ۔ اس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کرلی ۔وہ ٹھٹھہ کے قومی اسمبلی کے حلقے سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔سندھ سے ہی مسلم لیگ ن نے ٹنڈوالہٰ یار کے قومی اسمبلی کے حلقے سے راحیلہ مگسی کو اپنا امیدوار بنایا ہے ۔

سائرہ افضل تارڑ:

سابق ایم این اے سائرہ افضل تارڑ ایک بار پھر حافظ آباد کے حلقے این اے 102 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ وہ مسلم لیگ ن کی امیدوار ہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد :

پاکستان تحریک انصاف نے پانچ خواتین کو قومی اسمبلی کے حلقوں کے لیے ٹکٹ دیا ہے جن میں ڈاکٹر یاسمین راشد بھی شامل ہیں۔ڈاکٹر یاسمین راشد لاہور سے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120 سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔ تحریک انصاف کی دیگر خواتین امیدواروں میں حنا منظور ، وجیہہ اکرم ، مریم بتول اور ناز بلوج شامل ہیں جو روالپنڈی ، نارووال ، رحیم یار خان اور کراچی سے الیکشن لڑ رہی ہیں۔

غنویٰ بھٹو:

شامی نژاد غنویٰ بھٹو ذولفقار علی بھٹو کے بیٹے مرتضیٰ بھٹو کی اہلیہ ہیں۔ مرتضیٰ کو 90ء کی دہائی میں کراچی میں قتل کردیا گیا تھا۔وہ سندھ میں قومی اسمبلی کے حلقے سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ان کے بھٹو خاندان سے اختلافات رہے لیکن اس کے باوجود جب دسمبر 2007 میں بے نظیر بھٹو قتل ہوئیں تو انہوں نے تمام اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنی بیٹی فاطمہ بھٹو کے ساتھ ان کی تدفین میں شرکت کی۔

خوش بخت شجاعت :

خوش بخت شجاعت ٹی وی کی معروف میزبان اور اداکارہ رہ چکی ہیں۔وہ متحدہ کی اہم خاتون رہنما سمجھی جاتی ہیں۔انہیں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے ٹکٹ دیا گیا ہے۔

سسی پلیجو:

سندھ کے مشہور سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی سسی پلیجو ایک نوجوان لبرل سیاست دان ہیں جو اخبارات میں کالم بھی لکھتی رہی ہیں۔وہ ٹھٹھہ کے حلقے پی ایس    85سے صوبائی اسمبلی کی رکن رہ چکی ہیں۔ان کاتعلق پیپلزپارٹی سے ہے۔وہ سندھ کی واحد رکن اسمبلی ہیں جو براہ راست منتخب ہوکر اس ایوان میں پہنچنے میں کامیاب ہوئیں۔وہ اس سے قبل قائم علی شاہ کی صوبائی حکومت میں سندھ کی وزیرثقافت رہ چکی ہیں۔

سسی پلیجو جنوری 1979ء  میں جنگ شاہی ٹھٹھہ میں پیدا ہوئیں۔وہ دوہری گریجویٹ ہیں۔انہوں نے بی اے یونیورسٹی آف سندھ اور انڈرگریجویٹ ان لاء لندن سے کیا۔وہ سیاست کے علاوہ انسانی حقوق اور صنفی انصاف کے لیے سرگرم کارکن رہی ہیں۔جنرل ریٹائرڈ مشرف کے مارشل لاء کے دوران فوجی حکومت کے خلاف احتجاج کی پاداش میں وہ اسلام آباد ، ٹھٹھہ ، کراچی ،تھر اور لاہور کی جیلوں میں رہیں۔

سسی پلیجو کے والد غلام قادر پلیجو دو مرتبہ سندھ اسمبلی کے رکن رہے اور تاحال سیاست میں ہیں۔ان کی والدہ اختر بلوچ پاکستان کی پہلی خاتون سیاسی کارکن تھیں جنہیں جنرل ایوب خان کے مارشل لاء کے دوران گرفتار کیاگیا ۔ انٹی ون یونٹ تحریک میں وہ صرف انیس سال کی تھیں جب انہیں فوجی حکومت کے خلاف بھوک ہڑتال کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ ان کی دادی مرحومہ زرینہ بلوچ مشہور ادیبہ ، لوک گلوکاراور سیاسی کارکن تھیں۔

اس طرح ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر زیب النسا ء این اے 125 لاہور سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔اس کے علاوہ دیگر خواتین میں سابق رکن اسمبلی نذیر جٹ کی بیٹیاں عائشہ نذیر اور عافیہ نذیر وہاڑی سے امیدوار ہیں۔نذیر جٹ کی دوبیویاں بھی میدان میں ہیں۔اس طرح ڈاکٹر فریال تالپور کا مقابلہ غنویٰ بھٹو سے ہے۔ شہباز شریف کے بیٹے حمزہ کو عائشہ احد ملک کا سامنا ہے جن کا دعویٰ ہے کہ وہ حمزہ شہباز کی بیوی ہیں۔اس طرح نوازشریف کی بیٹی مریم نواز اپنے والد کی انتخابی مہم بھرپور حصہ لے رہی ہیں۔ ادھر فلم سٹار مسرت شاہین مولانا فضل الرحمان کے مقابل ہیں۔عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی بھی الیکشن لڑ رہی ہیں۔

بادام زری:

قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والی بادام زری بھی عام الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ان کے الیکشن میںحصہ لینے پر لوگ حیران ہیں۔ وہ علاقہ جہاں خواتین اپنے گھروں سے بھی شاذونادر باہر نکلتی ہیں ، وہاں کسی عورت کا الیکشن میں حصہ لینا لوگوں کو حیران نہیں کرے گا تو اور کیاکرے گا۔38 سالہ بادام زری کے کاغذات نامزدگی باجوڑ ایجنسی سے منظور ہوئے اور وہ قبائلی علاقے سے حصہ لینے والے پہلی خاتون بھی بن چکی ہیں۔وہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 44 سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔

یاد رہے کہ صوبہ سرحد کا قبائلی علاقہ وہ خطہ ہے جہاں صدیوں پرانی روایات رائج ہیں جن کے تحت خواتین بہت سے حقوق سے محروم ہیں۔ان کی حقوق سے یہ محرومی بھی روایات کا حصہ کہلاتی ہے۔چنانچہ اس علاقے کی ایک خاتون کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے کے عمل کو معاشرے کے روشن خیال حلقے کی جانب سے ترقی کی جانب ایک بڑا قدم قرار دیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے بادام زری کا کہنا تھا کہ وہ آزاد حیثیت سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ علاقے کی خواتین کے لیے کچھ کریں۔ان کا کہنا تھاکہ وہ چاہتی ہیں کہ خواتین ہر شعبے میں ترقی کریں اور مردوں کے شانہ بشانہ کام کریں۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ علاقے کی خواتین کے مسائل سے اچھی طرح واقف ہیں اوران کے بارے میں مزید جاننے کی کوشش کررہی ہیں۔ انہوں نے باجوڑ ایجنسی کے عوام کے بارے میں کہا کہ وہ بہت اچھے ہیں اور خواتین کی بہت عزت کرتے ہیں۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ علاقے کے لوگ ان کی حمایت کریں گے۔

جھارا پہلوان کی بیوہ نوازشریف کے مدمقابل

پاکستان کے سابق صدر پرویزمشرف نے لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 120 سے ایک خاتون امیدوار کو نوازشریف کے مقابلے میں کھڑا کردیا تھا۔آخری اطلاعات کے مطابق تاہم مشرف کی مسلم لیگ کی جانب سے الیکشن کے بائیکاٹ کے بعد اب شاید وہ میدان میں نہ ہوں۔

یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کے نامور پہلوان جھارا کی بیوہ بیگم سائرہ بانو ہیں۔ وہ نہ صرف جھارا پہلوان کی بیوہ بلکہ باقاعدہ پہلوانوں کے خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔برصغیر کے عظیم پہلوان بھولو ان کے والد اور گاما پہلوان ان کے نانا تھے۔دلچسپ امر یہ ہے کہ سائرہ بانو نہ صرف جھارا پہلوان کی بیوہ ہیں بلکہ پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز (جو خود بھی گاما پہلوان کی نواسی ہیں) کی کزن بھی ہیں۔

یاد رہے کہ پہلوانوں کا یہ خاندان اس زمانے میں بھرپور عروج کو انجوائے کررہا تھا جب پاکستان میں کشتی کا زمانہ بھی بام عروج پر تھا ۔اس زمانے میں کشتی ایک مقبول عوامی کھیل کی حیثیت رکھتی تھی۔اوپر جن تین پہلوانوں کا ذکر کیا گیا ، انہوں نے پہلوانی کے کھیل میں بہت خوشگوار یادیں عوام کے ذہنوں پرمنقش کی ہیں۔


Viewing all articles
Browse latest Browse all 4420

Trending Articles